تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62783
ڈاؤنلوڈ: 5375

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62783 / ڈاؤنلوڈ: 5375
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۱۹۴

( اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنَ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ فَادْعُوْهُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ )

ترجمہ۔ یقینا جن لوگوں کو تم پکارتے (اور جن کی تم عبادت کرتے )ہو وہ تمہارے ہی جیسے بندے ہیں۔ (جو زبان و مکان وغیرہ میں محدود ہیں)پس تم انہیں پکارو، اگر تم سچے ہو تو وہ تمہیں جواب دیں۔

ایک نکتہ

"عباد" سے مراد ممکن ہے ، وہ انسان ہوں جنہیں یہ لوگ خدا سمجھتے ہیں جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، یا فرشتے مراد ہوں، یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ بت مراد ہوں جنہیں بت پرست"الہٰ"سمجھتے ہیں۔

پیام

۱ ۔ پرستش اور پوجا پاٹ کیلئے دلیل اور کسی خاص امتیاز کی ضرورت ہوتی اور مخلوق یا اپنے جیسے انسانوں کی بندگی کے لئے نہ تو کوئی دلیل ہے اور نہ ہی انہیں کسی قسم کا امتیاز حاصل ہے( عباد ) ۶۵

۲ ۔ "معبودوں"کی خاموشی ان کے عاجزا اور بے وقعت ہونے کی دلیل ہے( فلیستجیبوا )

۳ ۔ "معبود"کاکام ہوتا ہے کہ اپنے"عبد" کی ذہنی نشوونما کرے اور اسے پروان چڑھائے تا کہ اسے ساکت وجامذ اور موقوف کر دے۔( فلیستجیبوا )

آیت ۱۹۵

( اَلَهُمْ اَرْجُلٌ یَمْشُوْنَ بِهَا اَمْ لَهُمْ اَیْدٍ یَّبْطِشُوْنَ بِهَا اَمْ لَهُمْ اَعْیُنٍ یُّبْصِرُوْنَ بِهَا اَمْ لَهُمْ اَذَانٌ یَسْمَعُوْنَ بِهَاط قُلْ اَدْعُوْا شُرَکَآءَ کُمْ ثُمَّ کِیْدُوْنَ فَلَا تَنْظُرُوْنَ )

ترجمہ۔ آیا ان (معبودُوں) کے لئے پاؤں ہیں جن کے ساتھ وہ چل سکیں، یا ہاتھ ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنا زور دکھا سکیں، یا آنکھیں ہیں جن کے ذریعہ وہ دیکھ سکیں، یا کان ہیں جن کے ذریعہ وہ سن سکیں؟(تو اے پیغمبر!) کہہ دو کہ تم اپنے شریکوں کو بلاؤ پھر میرے خلاف نقشے بناؤ اور مجھے کوئی مہلت بھی نہ دو!

دو نکات

"( یبطشون ) "کا لفظ "بطش"سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کو پوری قوت اور زور سے پکڑنا۔

اس آیت میں ان مشرکین کو جھنجھوڑا گیا ہے جو خدا کیلئے ایسے شریک ٹھہراتے ہیں جو ان سے بھی زیادہ عاجز اور لا چار ہیں، کیونکہ یہ مشرکین تو اپنے پاؤں سے چل بھی سکتے ہیں، ہاتھوں سے پکڑا سکتے ہیں آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں، کانوں سے سن سکتے ہیں جب کہ وہ بے روح مجسمے ایسی تمام باتوں سے محروم ہیں۔ اگر ان سے درخواست کی جائے کہ فلاں کام کر دیں تو وہ ایسا کرنے سے عاجز ہیں، تو پھر ان کی یہ بت پرستش اور عبادت کیسی؟

پیام

۱ ۔ خدائی رہبر میں اس قدر جرات اور قدرت ہونی چاہئے کہ پورے اطمینان کے ساتھ مخالف طاقتوں کے للکار سکے اور اس میں چیلنج کی وہ طاقت ہونی چاہئے کہ باطل اور طاغوتی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر کہہ سکے "تمہارے جو بھی خطرناک"ناپاک اور گھناوے منصوبے ہیں انہیں بے شک عملی پا جامہ پہناؤ، میرا کچھ نہیں بگاڑ سکو گے، تا کہ اس طرح سے ان کا عجز اور ناتوانی ثابت ہو جائے( قل ادعوا--- )

۲ ۔ جن کے ہاتھ اور پاؤں ہیں وہ تو مشرکین کی امداد نہیں کر سکتے اب بے چاری بے دست و پا چیزوں کی کیا مجال کہ ان کی کوئی مدد کر سکیں!

۳ ۔ مشرکین کی عقلیں بھی عجیب ہیں، کسی پیغمبر کی بات کو اس لئے ماننے کے لئے تیار نہیں کہ کہتے ہیں"یہ تو ہمارے جیسے بشر ہیں!"لیکن بتوں کے آگے سر جھکائے ہوئے ہیں اُن جیسے تو کیا ان سے بھی کم ترین ہیں۔

۴ ۔ تبلیغ و مناظرے کا یہ شیوہ بہترین ہے کہ سوال بھی ہو، تنفید بھی ہو، دباؤ بھی ہو پھر ساتھ ہی للکار اور چیلنج بھی! (اس آیت کے اور اس سے پہلی آیات کے پیش نظر)

آیت ۱۹۶

( اِنَّ وَلِیَّ اللّٰهِ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ ---- وَ هُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ )

ترجمہ۔ٍ میرا ولی اور سر پرست یقینا وہ اللہ ہے جس نے(اس آسمانی) کتاب کو نازل کیا ہے اور وہ تمام صالح لوگوں کی ولایت ، سر پرستی (اور مخصوص ہدایت) کرتا ہے۔

ایک نکتہ

اس سے پہلی آیات میں باطل معبودوں کی ناتوانی اور عاجزی کا تذکرہ تھا اور اس آیت معبود برحق کا تعارف کرایا جا رہا ہے۔

پیام

۱ ۔ اللہ اور مومن انسان کا باہمی رابطہ بہت ہی قریبی ہے( ولیّ )

۲ ۔ آسمانی کتاب کا نزول ، ولایت الہٰی کا ایک پر تو ہے( ولی- نزل )

۳ ۔ معبود حقیقی تو وہ ہوتا ہے جو منصوبے اور پروگرام بھی بھیجتا ہے (نزل الکتاب)اور ان کے اجراء اور نفاذ ہیں اس راہ پر چلنے والوں کی سر پرستی بھی کرتا ہے( یتولی الصالحین ) ۔ یعنی جہاں سے قانون بن کر آتا ہے ا سے نفاذ کے لئے قانون کا اجرا کرانے والوں کی حمایت اور سر پرستی بھی ہونی چاہئے( نزل- یتولی )

۴ ۔ تنہائی سے نہیں گھبرانا چاہئے، اس لئے کہ خداوندعالم صالحین کا ولی وسرپرست ہے۔ اور امداد کا وعدہ کیا ہوا ہے (یتولی الصالحین۔ ولیی)

۵ ۔ متقی اور صالح افراد کو کبھی اور کسی مقام پررکاوٹ پیش نہیں آتی( یتولی الصالحین ) ۶۶

۶ ۔ خدا کی ولایت اپنے اولیاء کے ساتھ دائمی ہوتی ہے( یتولی )

۷ ۔ انسانوں کی مشکل یہ ہے کہ تو ان کے پاس کوئی ٹھوس پروگرام نہیں ہوتا یا پھر اس کے ساتھ انہیں دلچسپی نہیں ہوتی ، جبکہ مومن کے لئے مذکورہ دونوں مشکلات میں سے کوئی بھی مشکل نہیں ہوتی( نزل الکتاب- یتولی الصالحین )

۸ ۔ فاسق لوگ اللہ تعالیٰ کی حمایت اور امداد کے مدار سے باہر ہیں( صالحین )

آیت ۱۹۷ ۔ ۱۹۸

( وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِه لَاْ یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصَرَ کُمْ وَلَا اَنْفُسَهُمْ یَنْصُرُوْنَ وَ اِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلٰی الْهُدٰی لَا یَسْمَعُوْاط وَ تَرٰهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَهُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ )

ترجمہ۔ اور تم لوگ خد اکے علاوہ دوسرے جن لوگوں کو پکارتے اور ان کی عبادت کرتے ہو نہ وہ تمہاری امداد کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی کوئی مدد کر سکتے ہیں۔

اور اگر تم ان(بت پرستوں یا بتوں) کو ہدایت کی طرف بلاؤ تو وہ نہیں سن پاتے اور اگر تم انہیں دیکھو تو(معلوم ہو گا کہ)وہ تمہاری طرف نگاہ کر رہے ہیں حالانکہ وہ نہیں دیکھ رہے ہوتے(اس لئے کہ ان میں بصیرت نہیں ہوتی)۔

(بتوں اور بت پرستوں کی نگاہیں،مصنوعی آنکھوں سے ہوتی ہیں گویا وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ ان کی نگاہیں ہر طرح کے غور اور شعور سے خالی ہوتی ہیں)۔

پیام

۱ ۔ شعور، ارادے اور قدرت سے عاری معبود، کبھی لائق عبادت نہیں ہوا کرتے۔( لا یستطیعون- لایسمعوا،لا یبصرون ) گذشتہ تمام آیات سے مجموعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معبود ،مدبراور رب کو:

الف: خالق اور مالک ہونا چاہئے:"( ایشرکون مالا یخلق وهم یخلقون ) "

ب: تاجر اورمددگار ہونا چاہئے:( لا یستطیعون نصرکم )

ج: حاجات اور دعاؤں کو سننااور قبول کرنا چاہئے:"( سواء علیکم ادعوتموهم ) "

د: قادر اور توانا ہونا چاہئے:( ام لهم ایدیبطشون بها--- ) ،

ھ: سمیع اور بصیر(سننے اور دیکھنے وال) ہونا چاہئے:( ام لهم اذان یسمعون بها ام لهم المین یبصرون بها ) ،،

و: دشمنوں کی چالوں کو ناکام بنانے والا ہونا چاہئے:( ادعوا شرکائکم ثم کیدون ) ،،

ز: کتاب اور قانون دینے والا ہونا چاہئے:"( نزل الکتٰب ) ،،

ح: نیک اور صالح افراد کو اپنی مخصوص ولایت عطا کرنے والا ہونا چاہئے:"( یتولی صالحین ) "

آیت ۱۹۹

( خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ )

ترجمہ۔ (لوگوں کے ساتھ) عفو و درگزر سے کام لو (ان کے ساتھ آسانی برتو اور میانہ روی کا سلوک کرو) نیک کاموں کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔

چند نکات

"عفو" کے معنی ہیں متوسط اور درمیانی حد، خطاکار کے عذر کو قبول کرکے اسے معاف کر دینا، کاموں میں سختی سے کام نہ لینا، اور اضافی مقدار وغیرہ۔ لیکن اس آیت میں بظاہر پہلا معنی مراد ہے۔

یہ آیت اختصار اور سادگی کے باوجود تمام اخلاقی کی جامع ہے۔ مثلاً ا : انفرادی جیسے "عفو" ب: اجتماعی جیسے "امر" ج: دوستوں کے ساتھ جیسے "عفو" د: دشمنوں کے ساتھ جیسے : "جاھلین" ھ: زبانی جیسے: "امر" و: عملی جیسے: "اعرض" ز: مثبت جیسے: "خذ" ح: منفی جیسے: "اعرض" ط: رہبر کے لئے بھی ی: امت کے واسطے بھی۔ ک: گزشتہ زمانے کے لئے بھی۔ ل: موجودہ اور آئندہ دور کے لئے بھی۔۶۷

جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرائیل سے اس کی وضاحت طلب کی تو جبرائیل بار دیگر یہ پیغام لے کر آئے: "تعفوا عمن ظلمک، تعطلی من حرمک و تصل من قطعک" جس نے تم پر ظلم کیا ہے اسے معاف کر دو، جس نے تمہیں محروم کر دیا ہے اسے عطا کرو اور جو تم سے تعلقات توڑ چکا ہے اس سے اپنے ناتے بحال کرو۔

پیام

۱ ۔ ہمیشہ اور ہر ایک کے ساتھ عفو و درگزر کے ساتھ کام لینا اور خاطر و مدارات سے کام لینا چاہئے (خذ) اس کا معنی ہے ہمیشہ اور ہر وقت عمل کرنا۔

۲ ۔ طاقت کے مطابق ہی فریضہ کی ادائیگی کا حکم ہونا چاہئے( خذا العفو )

۳ ۔ دین کی بنیاد آٰسانی اور نرمی پر ہے تنگی اور سختی پر نہیں( خذ العفو )

۴ ۔ ذاتی اور نجی معاملات میں بھی عفو و درگز سے کام لینا چاہئے( خذالعفو )

۵ ۔ صرف خود کو اچھا بنانا یا خود اچھا بننا کافی نہیں معاشرے میں بھی نیکیوں کو فروغ دینا اور ان کا حکم دینا بھی ضروری ہے( وامر بالمعروف )

۶ ۔ آیت کے مخاطب صرف سرکار سرور دو عالم ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان، ہر مبلغ اور ہر مصلح کو معاشرے میں ضدی مزاج اور ہٹ دھرم، جاہل اور یاوہ گو لوگوں کے ساتھ روگردانی والی حکمت عملی اپنانی چاہئے، اگر وہ توہین کریں یا تہمتیں لگائیں تو چشم پوشی اور صبر سے کام لینا چاہئے، ان سے الجھنا اور لڑنا جھگڑنا نہیں چاہئے( اعرض--- )

۷ ۔ جہاں نیکیوں کا حکم دینا چاہئے وہاں پر یہ حکم بھی اچھے اور معروف انداز میں دینا چاہئے( وامر بالعرف )

۸ ۔ جاہلوں سے مراد بے عقل لوگ ہیں نا کہ ان پڑھ افراد (جہل، عقل کے مقابلے میں ہے نا کہ علم کے مقابلے میں)۶۸

۹ ۔ جاہلوں سے میل ملاقات یا عفو و درگزر کے موقع پر ان کی مرضی یا خواہشات کے مطابق عمل نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی ان کی طرف توجہ کرنی چاہئے کیونکہ یہ قرین مصلحت نہیں ہے، بلکہ ان سے روگردانی کر لینی چاہئے( اعرض عن الجاهلین )

۱۰ ۔ یہ ساری کی ساری سورت مختلف تعبیرات کے ساتھ اعتدال پسندی کی دعوت دے رہی ہے، مثلاً حقوق میں اعتدال کی: جیسے آیت ۲۹ ۔ خرچ اخراجات میں اعتدال کی جیسے: آیت ۳۱ ۔ زینت میں اعتدال کی جیسے: آیت ۳۲ ۔ عبارت میں اعتدال کی جیسے: آیت ۵۶ ۔ مکان بنانے میں اعتدال کی جیسے آیت ۷۳ ۔ اقتاصد میں اعتدال کی جیسے: آیت ۸۵ ۔ حضرت موسیٰ کی امت کو حق و عدل کا حکم ملا اسی طرح حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو حق و عدل اپنانے کا حکم ہوا۔ جیسے آیت ۱۵۷ ۔ امت موسیٰ کے بارے میں اور آیت ۱۸۱ امت پیغمبر اسلام کے بارے میں ("( یهدون بالحق و به یعدلون )

آیت ۲۰۰

( وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِط اِنَّه سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ )

ترجمہ۔ اور اگر تمہیں شیطان (اور شیطان صفت لوگوں) سے کوئی وسوسہ دامن گیر ہو تو تم خدا کی پناہ طلب کرو، کیونکہ وہ یقینی طور پر سننے اور جاننے والا ہے۔

دو نکات

"نزع" کا معنی ہے کسی کام میں فساد پیدا کرنے اور گڑبڑ پھیلانے کی غرض سے شامل ہونا۔ (تفسیر المیزان۔ تفسیر نمونہ)

اسی سورت کی آیت ۱۶ سے ۲۷ تک شیطانی کے آدم کو وسوسے ڈالنے کا تذکرہ ہے۔ اور سورت کے آخر میں بھی شیطانی وسوسوں سے خبردار رہنے کے لئے کہا گیا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں جاہل لوگوں سے روگردانی اختیار کر لینے کی دعوت دی گئی تھی، جس پر رسول خدا نے جبرائیل سے دریافت کیا: "غصے کے عالم میں اس پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟ تو اس کے جواب میں یہی آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر نمونہ۔ و۔ تفسیر المنار)

پیام

۱ ۔ اگرچہ انبیاء کرام علیہم اسلام معصوم ہیں، لیکن شیطان ان کے لئے بھی وسوسے ڈالنے سے نہیں چوکتے۔۶۹ (اور انبیاء علیہم اسلام کی عظمت بھی اسی میں ہے کہ بشری ضروریات، شیطانی اور وسوسوں کے باوجود پاک و پاکیزہ، معصوم، متقی اور ہر طرح کے گناہ سے دور ہیں۔( ینزعنک )

۲ ۔ تمام انبیاء معصوم ہیں، اور ان کی عصمت کا ایک راستہ یہی خدا سے امداد طلب کرنا، اس کی طرف متوجہ رہنا اور اسی سے پناہ مانگنا ہے( فاستعذ )

۳ ۔ گناہ یا وسوسے کا فرض کر لینا اس کے واقع ہونے پر دلالت نہیں کرتا، صرف متوجہ اور خبردار کرنا مقصود ہوتا ہے۔ "اما" کا لفظ شرط کے سانچے میں ہے ثبوت اور وقوع کی صورت میں نہیں۔۷۰

۴ ۔ خداوند عالم سے مددخواہی اور پناہ طلبی شیطانی وسوسوں کا بہترین علاج ہے، (فاستعذ)۷۱

۵ ۔ انبیاء کو بھی خدا کی امداد اور پناہ کی ضرورت ہوتی ہے( فاستعذ )

۶ ۔ اولیاء اللہ کے لئے شیطانی وسوسہ جزوی صورت میں ہوتا ہے( نزغ )

۷ ۔ شیطانی وسوسہ حتمی ہوتا ہے( ینز غنک ) نون تاکید ثقیلہ کے ساتھ۔

۸ ۔ شیطانی وسوسے دائمی اور ہمیشہ کے لئے ہوتے ہیں( ینز غنک ) فعل مضارع کی صورت میں،

۹ ۔ خطرے کے وقت خصوصی ہوشیاری اور زیر کی درکار ہوتی ہے(( فاستعذ )

۱۰ ۔ چونکہ شیطانی وسوسے مختلف انداز اور مختلف صورتوں میں ہوتے ہیں لہٰذا پناہ بھی "اللہ" ہی سے طلب کرنا چاہئے جو کمال کی تمام صفات کا جامع ہے (باللہ) فرمایا ہے "بالغنی" یا "بالعلیم" یا کسی اور صفت کو بیان نہیں فرمایا۔

۱۱ ۔ اس خدا سے پناہ طلب کرنا چاہئے جو سننا بھی ہے اور جاننا بھی اور ہر ظاہری اور باطنی مسئلے سے آگاہ ہے لہٰذا بتوں یا کسی اور خرافات کی پناہ بے سود ہے( سمیع علیم )

آیت ۲۰۱ ۔ ۲۰۲

( اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقُوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا هُمْ مُبْصِرُوْنَ وَ اِخْوَانُهُمْ یَمَدُّوْنَهُمْ فِیْ الْغَیِّ ثُمَّ لَایَقْصُرُوْنَ )

ترجمہ۔ یقیناً جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے، جب شیطان کی طرف سے کوئی چکر لگانے والا انہیں مل جاتا ہے تو وہ فوراً (خدا اور اس کی سزا و جزا کی طرف)متوجہ ہو جاتے ہیں اور بینا ہو جاتے ہیں (اور انہیں بصیرت مل جاتی ہے)

اور ان کے (شیطان صفت گمراہ کن) بھائی انہیں گمراہی کی طرف کھینچ کر لے جانے میں مصروف رہتے ہیں اور پھر وہ اس بارے کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔

پیام

۱ ۔ شیطان، مومن اور متقی افراد کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں( اتقوا )

۲ ۔ شیاطین ہمیشہ اپنی مشقوں میں لگے رہتے ہیں اور مسلسل چکر لگاتے رہتے ہیں اور ان کے لئے تختہ مشق اور چکروں کا محور ہمیشہ انسان ہی ہوا کرتے ہیں۔( طائف )

۳ ۔ شیطانی اور نفسانی وسوسے جراثیموں کی مانند ہر جگہ گھومتے رہتے ہیں۔ اور کمزور جسم و جان اور ضعیف الاعتقاد و الایمان لوگوں کے تو پیچھے ہوتے ہیں( طائف من الشیطان )

۴ ۔ شیطانی وسوسے کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ کبھی تو دور سے ہوتے ہیں جیسے "( وسوس الیه ) " (طٰہ ۱۲۰) کبھی جان و دل میں نفوذ پیدا کرکے جیسے "( فی صدور الناس ) " (والناس/ ۵) کبھی ہم نشینی کی صورت میں جیسے "فھو لہ قرین" (زخرف/ ۳۶) اور کبھی چکر لگنے اور گھومنے کی صور تمیں جیسے "( مسهم ) " (یہی آیت)

۵ ۔ علماء، مصلحین اور تربیت کنندگان کو خاص طور پر ہوشیار اور خبردار رہنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مشکوک اور مجہول الحال لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم کرکے دشمن کی چالوں اور ان کے جالوں میں نہ پھنس جائیں۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو خاص طور پر خدا کی پناہ طلب کرنا چاہئے( اذا منهم…تذکروا )

۶ ۔ خدا کی یاد انسان کو بصیرت عطا کرتی ہے اور وسوسوں سے محفوظ رکھتی ہے۔( تذکروا…مبصرون )

۷ ۔ شیطان کے شکنجوں میں جکڑا ہوا انسان دل کا اندھا ہوتا ہے اور ابلیس کے دام سے محفوظ لوگ بابصیرت ہوتے ہیں (مبصرون)

۸ ۔ اگر معاشرہ اخلاقی، سیاسی، اقتصادی اور عسکری اعتبار سے پاک اور متقی ہو تو شیطان صفت لوگوں کی اس معاشرے میں آمد و رفت اور میل جول معاشرہ کے افراد پر کوئی اثر نہیں کر سکتی( تذکروا- مبصرون )

۹ ۔ متقی لوگ، شیطان شناس اور آگاہ و باخبر ہوتے ہیں۔( اتقوا- تذکروا )

۱۰ ۔ اگر تقویٰ اور یاد خدا نہ ہو تو شیطان انسانوں کے بھائی بند بن جائیں اور انسانوں پر ان کی گرفت آسان اور موثر ہو جائے( اخوانهم )

۱۱ ۔ انحراف اور گمراہی کی راہیں بے انتہا اور لامحدد ہیں( یمدونهم فی الغی )

۱۲ ۔ اللہ تعالیٰ صالح اور متقی افراد کو اپنی ولایت کے سایہ میں لے لیتا ہے لیکن غیر متقی اور بے ایمان لوگ شیطانی اخوت کے جال میں پھنس جاتے ہیں( اخوانهم )

۱۳ ۔ گمراہ کرنے میں شیطان، کسی پر رحم نہیں کرتا۔( لایقصرون )

آیت ۲۰۳

( وَ اِذَا لَمْ تَاْتِهِمْ بِاٰیٰةٍ قَالُوْا لَوْ لَا اجْتَبَیْتَهَاط قُلْ اِنَّمَا اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰی اِلٰی مِنْ رَبِّیْ هٰذَا بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ وَ هُدیً وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّوْمِنُوْنَ )

ترجمہ۔ اور (اے پیغمبر!) جب تم ان کے پاس کوئی آیت نہیں لاتے (اور وحی کی تاخیر کی وجہ سے، چند روز کے لئے تلاوت کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے) تو وہ کہتے ہیں: کسی آیت کو کیوں منتخب نہیں کیا؟

(تلاوت یا آیت کی کوئی بات نہیں ہوئی) تو تم کہہ دو کہ میں تو صرف اس چیز کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے مجھ پر وحی ہوتی ہے۔ یہ (قرآن) بصیرتوں کا مجموعہ ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔

ایک نکتہ

"اجتباء" کا لفظ "جبایت" سے لیا گیا ہے جس کا اصل معنی ہے "حوض میں پانی کا جمع کرنا" اور حوض کو "جابیہ" کہا جاتا ہے۔ خراج اور مالیات کی جمع آوری کو بھی جبایت کہتے ہیں۔ پھر اس کا استعمال ہر طرح کی برگزیدہ چیزوں پر ہونے لگا، اور اس کے "اجتباء" کا انتخاب نہیں کہ اسے پڑھے؟ "اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آیت کا معنی یوں ہو کہ: "جس معجزے کا ہم نے تم سے مطالبہ کیا تھا اس کا انتخاب نہیں کیا اور دوسرا معجزہ لے آؤ ہو اور ہمارے سلیقے کے مطابق عمل کیوں نہیں کیا؟"

پیام

۱ ۔ کفار، بہانے جو لوگ ہوتے ہیں۔

۲ ۔ کفار، قرآنی آیات کو پیغمبر خدا کے برگزیدہ مطالب سمجھتے تھے وحی الٰہی کے طور پر نہیں مانتے تھے( لولا اجبیتها )

۳ ۔ الٰہی رہبر کا فرض بنتا ہے کہ لوگوں کے حیلوں بہانوں اور ان کے ناجائز مطالبات کے آگے سر تسلیم خم نہ کر دے بلکہ اپنے موقف کو ڈٹ کر اور صاف صاف واضح کر دے( قل انما اتبع )

۴ ۔ ضروری نہیں ہے کہ مبلغ ہر روز ہی تبلیغی کام سرانجام دے، شاید بعض اوقات سکوت بھی تبلیغی کام کی ایک صورت شمار ہوتی ہو۔( لم تاتهم بایه )

۵ ۔ پیغمبر گرامی صرف اور صرف وحی کے سرچشمہ سے ہی اپنی راہیں متعین کرتے اور احکام لیتے ہیں۔( انما اتبع ما یوحیٰ الی )

۶ ۔ وحی، پیغمبر اور امت دونوں کے لئے تربیت کا ذریعہ ہوتی ہے( ربي- ربکم )

۷ ۔ ارشاد اور ہدایت و رہنمائی بصیرت کی بنیادوں پر ہونی چاہئے۔( بصأر- هدی )

۸ ۔ قرآن مجید ایک طرف تو فکری بصیرت اور معرفت کی کتاب ہے دوسری طرف ہدایت اور عملی حرکت کے لئے رہنما بھی ہے۔ اور اس کی اتباع و پیروی کا نتیجہ بھی دونوں جہانوں میں رحمت اور برکت ہی ہوتا ہے۔

۹ ۔ قرآن اگرچہ عمومی طور پر اور ہر ایک کے لئے کتاب ہدایت ہے، لیکن اس سے فائدہ صرف صاحبانِ ایمان ہی اٹھاتے ہیں۔ اور دل کے اندھے بصیرت سے بھی محروم ہوتے ہیں اور ہدایت الٰہی سے بھی دور ہوتے ہیں۔ اورنتیجہ اس کی رحمت سے بھی محروم ہوتے ہیں،( هدی، رحمة ، قوم یوٴمنون )

سورہ اعراف آیت ۲۰۴

( وَ اِذَا قُرِیَ الْقُرْآنَ فَاسْتَمَعُوْا لَه وَا نْصُتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ )

ترجمہ۔ اور جب بھی قرآن پڑھا جائے تو تم اسے غور سے سنو اور خاموش ہو جاؤ تاکہ اسے سن سکو، شاید کہ خدا کی رحمت تمہارے شامل حال ہو جائے۔

چند نکات

فقہاء کرام سکوت کو مطلقاً واجب نہیں سمجھتے صرف نماز میں واجب جانتے ہیں، یہ آیت اس بات کی تاکید کر رہی ہے کہ جب قرآن پڑھا جا رہا ہو تو ادب کے طور پر خاموش ہو جاؤ اور اسے سنو۔

حضرت علی علیہ السلام نماز پڑھ رہے تھے تو ساتھ ہی ایک منافق بارہا قرآن کو بلند آواز سے پڑھنے لگا۔ حضرت خاموش ہو گئے، جب وہ پڑھ چکا تو آپ نے باقی سورت کو مکمل کیا۔ (از تفسیر نمونہ)

"الضات" کا معنی ہے " کان لگا کر سننے کے لئے خاموش ہونا"

پیام

۱ ۔ قرآن جو کہ بصیرت اور رحمت کا وسیلہ ہے اسے مودبانہ طور پر اور کان لگا کر سننا چاہئے( وانصتو )

۲ ۔ قرآن کو کانوں کے راستے سے گزر کر دل تک جا پہنچنا چاہئے اور دلنشین ہو جانا چاہئے تاکہ اس طرح سے تم پر رحم کیا جائے۔( لعلکم ترحمون )

(اگر سکوت اور خاموش رہنے کا حکم نہ بھی ہوتا، پھر بھی عقل اور ادب اس بات کے متقاضی تھے کہ کلام الٰہی کو خاموش ہو کر سنا جائے)

آیت ۲۰۵

( وَ اذْکُرْ رَبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعاً وَّ خُفْیَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصٰالِ وَ لَا تَکُنْ مِنَ الْغٰفِلِیْنَ )

ترجمہ۔ اور اپنے پروردگار کو اپنے دل میں گڑگڑاتے ہوئے، ڈر کر آہستہ اور آرام کے ساتھ صبح و شام یاد کرو اور غفلت کرنے والوں میں سے نہ ہو جاؤ۔

چند نکات

سابقہ آیت میں تلاوت قرآن کے آداب کو بیان کیا گی تھا اس آیت میں ذکر اور دعا کے آداب کے بیان کو کیا جا رہا ہے۔

" آصال" جمع ہے "اصیل" کی جس کے معنی ہیں غروب کے نزدیک شام کا وقت۔

بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں مذکور "ذکر" تمام شبانہ روزی نمازوں کے لئے ہے۔

پیام

۱ ۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ہمیشہ کے لئے اور دائمی ہے لہٰذا اس کی یاد بھی ہمیشہ کے لئے ہونی چاہئے( ربک )

۲ ۔ قرآن مجید، زبان کے ساتھ ذکر الٰہی کو سراہنے کے ساتھ ساتھ قلبی اور اندرونی یاد کو بھی ستائش کرتا ہے۔( فی نفسک )

۳ ۔ وہ ذکر یاد الٰہی انسان کو محفوظ رکھتی ہے جو عاشقانہ اور سوزناک ہو اور ہر صبح و شام کی جائے۔( تضرعا )

۴ ۔ انبیاء علیہم اسلام کو بھی ہمیشہ خدا کی یاد میں مگن رہنا چاہئے۔ دوسروں کا حال تو واضح ہے۔

۵ ۔ صبح و شام خدا کو یاد کرنا چاہئے، یعنی جب کام کا آغاز کیا جائے اور دن کے پروگرام مرتب کئے جائیں تو پہلے خدا کو یاد کرنا چاہئے، اور جب سارے دن کے کاموں کے نتیجے کو سمیٹا جائے اور کام کی جمع بندی کی جائے تو بھی اسے یاد کیا جائے۔( بالعذو و الاصال )

۶ ۔ یاد خدا اس وقت غفلت کو دور کرتی ہے جب کسی قسم کے ریأ ، دکھاوے اور شور شرابے سے پاک صاف ہو، ورنہ بذات خود ایک طرح سرگرمی اور غفلت ہو جائے گی۔( تضرعا و خیفة و دون الجهر )

۷ ۔ جو لوگ صبح و شام خدا کو یاد نہیں کرتے ان کا غافلوں میں شمار ہوتا ہے۔

سورہ اعراف آیت ۲۰۶

( اِنَِّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ لَاْ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِه وَ یَسْبَحُوْنَه وَلَه یَسْجُدُوْنَ ) ع

ترجمہ۔ یقیناً جو لوگ تیرے پروردگار کی بارگاہ کے مقرب ہیں وہ اس کی عبادت اور پرستش سے سرکشی اور تکبر نہیں کرتے، اس کی تسبیح بیان کرتے اور اس کے لئے سجدہ کرتے ہیں۔

ایک نکتہ

"الذین عند ربک" کا جملہ احتمالاً فرشتوں کو بھی شامل ہے اور مقربان بارگاہ رب العزت بندوں کو بھی کہ جن کا رابطہ ذات الہٰی کے ساتھ ہے اور خود کو خدا کے حضور میں سمجھتے ہیں،

پیام

۱ ۔ اپنی عبادت پر کبھی ناز نہ کرنا اس لئے کہ خدا کے ایسے فرشتے ہی جو ہمیشہ عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔

۲ ۔ عبادت کے ساتھ خود کو فرشوتں کے ہم رنگ اور ہم آہنگ کر دو۔

۳ ۔ استکبار اور اظہار تکبر کی بدترین قسم، خدا کے آگے تکبر کا اظہار اور سرپیچی اورا س کی عبادت کو ترک کر دینا ہے۔

۴ ۔ سب سے پہلے استکباری کیفیت کو خیرباد کہا جائے، پھر اس کی تسبیح بیان کی جائے اور اس کے بعد سجدہ کیا جائے۔

۵ ۔ مستکبرین کبھی بھی خداوند عالم کے مقام قرب تک نہیں پہنچ سکتے،( عند ربک لایستکبرون )

۶ ۔ خدا کے سامنے تضرع اور زاری کی جائے۔ تواضع اختیار کی جائے۔ اس کی پاکیزگی کی طرف توجہ کی جائے اور سجدہ صرف اسی کی ذات کے لئے خاص سمجھا جائے۔( لایستکبرون- یسجونه، له یسجدون )

حوالا جات ۔ فٹ نوٹس

۱۔ ابروبادومہ وخورشید و فلک درکارند۔ تاتونانی بہ کف آری و بہ غفلت نخواری ہم از بہر تو سرگستہ وفرمانبردار۔ شرط انصاف بنا شد کرتوفرمانبری بادل، ہوا، چاند، سورج اور فلک سب اس کام میں لگے ہوئے ہیں کہ تو روٹی حاصل کرے مگر غافل ہو کر نہ کھائے۔ چیزیں ہی لئے سرگرداں ار تیرے ہی فرمانبردار ہیں۔ لیکن یہ انصاف سے بعید ہوگا کہ جس کی اطاعت کے لئے تو پیدا ہوا ہے اس کی اطاعت نہ کرے۔

۲مکتب تشیع اس قدر غنی اور بے نیاز ہے کہ اسے "قیاس" سے کام لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے حضرت ابوحنفیہ کے قیاس سے کام لینے کی سخت مذمت کی ہے۔ عامة المسلمین کی کتب تفسیر مثلاً المنار اور طبرسی میں بھی قیاس سے روکا گیا ہے۔

۳ سورہ کہف /۵۰میں ہے "ففسق عن امرربه " (اس نے اپنے رب کے امر کی خلاف ورزی کی )

۴حضرت علی علیہ السلام خطبہ "قاصعہ" میں فرماتے ہیں، ابلیس سے عبرت حاصل کرو اس نے اپنی طولانی عمر کو ایک لمحے میں تکبر کے ساتھ کیونکر برباد کر دیا۔ روایات میں ہے کہ کفر کی بنیاد تین چیزوں پر ہے۔ ۱۔حرص ۲۔حسد ۳۔تکبر (کام) جلد ۲ باب ۶ ف خوافی ۔ شیعہ سنی روایات میں ہے کہ قیامت کے دن متکبرین گواہی کی حالت میں گواہ ہوں گے۔ اور اہل محشر کے پاؤں تلے روندے جائیں گے۔

۵سورہ ص / ۸۳ میں ہے کہ ہم پڑھتے ہیں کہ شیطان نے کہا: "فبعزتک لاغوینهم " (تیری عزت کی قسم! میں ان (تیرے بندوں) کو ضرور گمراہ کروں گا۔

۶برادرانِ یوسف نے بھی یوسف کو باپ سے جدا کرنے کے لئے کیا تھا "بابا اناله لناصحون " ہم تویوسف کے خیرخواہ ہیں۔ (سورہ یوسف)

۷شیطان کی انسان کے ساتھ دشمنی کی طرف اور حق بات پر بھی اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے ایک سورہ طہٰ کی ۱۱۰۔ ۱۱۶ویں آیات میں ہیں کہ جب آدم علیہ السلام شیطانی وسوسوں کا مقابلہ نہ کرسکے "فنسی ولم بخدله غرما " اور بہشت سے نکال دئیے جانے کی سزا پائی اور "فقلنا یٰادم --- فتشعی ٰ" آنے کیا اے آدم ! یہ تمہارا اور تمہاری زوجہ کا دشمن ہے کہیں تمہیں بہشت سے نہ نکلوا دے کہ بدبخت ہو جاؤ گے۔"

۸"ان من شیء ٍ الاعندنا خزائنه ومان ننزله الاقدر معلوم " کوئی بھی چیز نہیں ہے مگر اس کے خزانے تمہارے پاس ہیں اور ہم معلوم اندازے کے علاوہ نہیں بھیجتے (حجر/ ۲۱) اور بھیجتے کیا ہیں؟ "انزلنا الحدید " "انزل لکم من الانعام " ۔۔۔۔ "انزل علیکم لباسا "

۹ہو سکتا ہے کہ جنگی لباس مثلاً زرہ ڈھال، خود وغیرہ بھی "لباس تقوی" کے مصداق میں شامل ہوں، کیونکہ حضرت علی علیہ السلام نے جہاد کو بھی لباس تقوی قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں "الجهاد لباس التقویٰ" نہج البلاغہ خطبہ ۲۷۔

۱۰۔ ابلیس کا لشکر ہے۔ "وخبودابلیس" (شعراء / ۹۵)

۱۱ بحارالانوار جلد ۱۱ ص۳۱۸

۱۲ اس سے ملتی جلتی سورہ نحل / ۱۰۰ ہے۔

۱۳اور آیات میں بھی ہے۔ "لوشأالله مااشرکنا " (انعام/ ۱۴۸) یعنی اگر خدا چاہتا تو ہم مشرک نہ بنتے۔ "ولوشاء الله ما عبدنا من دونه من شی ء ٍ " (نحل/ ۳۵) یعنی اگر خدا چاہتا تو ہم اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرتے۔

۱۴حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن لوگ ننگے بدن اور ننگے پاؤں محشور ہوں گے جیسا کہ پہلے دن اس دنیا میں قدم رکھا تھا۔ (تفسیر نورالثقلین)

۱۵توبہ اور یادِ الٰہی شیطانی وسوسوں کو ختم کرتی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے "اذامسهم طائف من الشیطان تذکروا " (اعراف/۲۰۱)

۱۶سورہ کہف کی آیت ۱۰۴ میں ایسے لوگوں کی نشاندہی کی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے "قل انبئکم بالاخیرمن اعمالا الذین ضل سیعهم فی الحیٰوة الدنیا وهم یحسبون انهم یحسنون صنعا " کہہ دو کہ آیا میں تمہیں ان لوگوں کے بارے میں بتاؤں جو اعمال کے لحاظ سے خسارے میں رہے، وہی تو ہیں جن کی تگ و دو اس دنیاوی زندگی میں اکارت گئی اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اچھا کام کر رہے ہیں۔

۱۷حدیث شریف میں ہے کہ "المعدة بیت الداء" معدہ بیماریوں کا گھر ہے، چنانچہ ایک مسیحی ڈاکٹر کہتا ہے کہ : "سارا علم طب اسی صرف اسی آیت میں پوشیدہ ہے۔" حدث میں ہے کہ جو لوگ دنیا میں اکثر اوقات پیٹ بھرے رہتے ہیں قیامت کے دن بھوکے پیاسے ہوں گے۔ (تفسیر فرقان)

۱۸امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :"جس کے پاس ایک دن کی غذا موجود ہو اور پھر بھی لوگوں سے مانگنے یا گداگری کرے تو اس کا شمار بھی مشرقین میں ہوتا ہے۔ (تفسیر فرقان)

۱۹سورہ کہف / ۵۹ میں فرماتا ہے "جعلنا لمهلکهم موعدا " ہم نے ان کی ہلاکت کے لئے وقت مقرر کر رکھا ہے۔

۲۰ایک اور آیت میں ہے "کلانمرهٰوٴلاء وهولاء "

۲۱سورہ عنکبوت/۲۰ میں ارشاد ہوتا ہے"یکفر بعضکم بیعض ویلعن بعضکم بعضا " تم ایک دوسرے کو کافر بتاؤ گے۔

۲۲ارشاد باری ہے: "ولوان اهل القریٰ امنو اواتقوالفتحنا علیهم برکات من السماء و الارض " اگر ان بستیوں والے ایمان لے آئیں اور تقویٰ اختیار کریں تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیں

۲۳دوسری آیت میں بھی اسی طرح ہے: "لمیحطة بالکافرین " یعنی کافروں کو گھرے ہوئے ہیں (عنکبوت /۵۵)

"لھم من فوقہ ظلل من النار و من تحتھم ظلل" یعنی انکے اوپر بھی آگ کے سائبان ہیں اور نیچے بھی ایسے ہی (زمر/۱۶) اور "یغشنهم العذاب من فوقهم و من تحت ارجلهم " یعنی عذاب انہیں اوپر سے بھی ان کے پاؤں کے نیچے سے بھی ڈھانپ لے گا۔ (عنکبوت/۵۵)

۲۴"ماجعل علیکم فی الدین من حرج" خدانے دین میں تمہارے لئے کوئی تنگی قرار نہیں دی (حج /۴۷) "یرید الله بکم الیسر و لا یرید بکم العسر " خدا تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور مشکل نہیں چاہتا

۲۵ایک اور آیت میں فرماتا ہے کہ مومن کہتے ہیں "لا تجعل فی قلوبنا غلا " ہمارے دلوں میں کینہ نہ رکھ (حشر/۱۰) جو کہ اہل ایمان کی دعا ہے۔

۲۶انسان بھی اس حقیقت کا اعتراف کرے گا اور کہے گا"اغنی عنی ما لیہ" میرے مال نے مجھے کوئی فائدہ نہ پہنچایا

۲۷قرآن کہتا ہے: "انما الحٰیوة الادنیا لعب ولهو " دنیا تو بس کھیل تماشا ہے جبکہ وہ دین کو تماشا سمجھتے ہیں۔

۲۸خدا فرماتا ہے: "فاذ کرونی اذکرکم " تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا تو انسان کی یاد، خدا کی یاد کا سبب ہوتی ہے اور اسکی خدا سے غفلت، انسان کی فراموشی کا موجب ہوتی ہے۔

۲۹چونکہ اس سے پہلے آیت "کتاب" سے تعلق رکھتی ہے لہٰذا "نسوہ" کا جملہ کتاب کے فراموش کرنے کے بارے میں ہے۔ تو کیا آج مسلمان کتاب اور قرآن کو فراموش نہیں کر چکے؟ قرآن کا فراموش کرنا خدا کو بھلا دینا اور خدا کو بھلا دینے والے شیطان کے جماعتی ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے "انساهم ذکر الله اوئیک حزب الشیطان " (مجادلہ /۱۹۳

۳۰قرآن کہتا ہے کہ اگر کفار دنیا میں واپس آ بھی جائیں تو بھی وہی کام کریں گے "ولوی دو انعاد والمانهوا عنه " (انعام /۱ ۲)

۳۱ :مکر شیطان است تعجیل و شتاب

خوی رحمان است صبر واحتساب

یاتانی گشت موجود از خدا

تابہ شش روز این زمین و چرخ ہا

ورہ قادر بود کز کن فیکون

صد زمین و چرخ آوردی برون

آدمی را اندک اندک آن ہمام

تاچہل سائش کند مردی تمام

این تانی ازیی تعلیم توست

صبر کن در کار در آئی درست

ترجمہ: شیطان کا کام اور مکاری جلد بازی میں ہے۔ جبکہ رحمان کا کام صبر و حوصلے کے ساتھ کام کرنا ہے۔ خداوند عالم آرام اور حوصلے کے ساتھ تخلیق کا عمل انجام دیتا ہے اور یہ زمین و آسمان چھ دن میں پیدا کئے وہ اس بات پر بھی قادر تھا کہ "کن" کہہ کر اس طرح کے سینکڑوں آسمان و زمین پیدا کرتا وہ خالق و مالک انسان کو بھی چالیس سال کی عمر میں پختہ کرتا ہے۔ یہ سب کچھ تمہارے سمجھانے کیلئے ہے لہٰذا صبر سے کام لو تاکہ دیر آید درست آید کے مصداق تمہارے کام صحیح طریقے سے انجام پائیں۔

۳۲زمین شوہ سنبل نیارد دراو تخم و عمل ضایع مگر دان

شورہ زار: زمین میں سنبل کا درخت نہیں اگ سکتا لہٰذا اس میں نہ تو بیج کو ضائع کرو اور نہ ہی اپنی کاوشوں کو۔

گوہر پاک بیاید کہ شود قابل فیض ورنہ ہر سنگ و گلی ٹو ٹو و مرجان نشود

ذرہ راتا نبود ہمت عالی حافظ طالب چشمہ خورشید درخشاں نشود

ایک پاک جوہر ہونا چاہئے جو فیض کے قابل بھی ہو ۔ ورنہ ہر پتھر اور مٹی لولو و مرجان نہیں ہو سکتے۔

اے حافظ) جب تک ذرہ میں عالمی ہمتی نہ ہو تو اس وقت تک وہ نیردرخشاں کے چشمہ فیض کا طالب نہیں ہو سکتا۔

افتادگی آموز اگر طالب فیضی ہرگز نخورد آب زمینی کہ بلند است

اگر فیض کی ضرورت ہے تو پھر انکساری سیکھو۔ کیونکہ بلند زمین کبھی پانی سے سیراب نہیں ہو سکتی۔

۳۳از حضرت امام جعفر صادق علیہم السلام (تفسیر نور الثقلین)

۳۴اس آیت کے واضح ترین مصداقوں میں سے ایک حضرت امام زمان عجل الله فرجہ کا زمانہ ظہور ہے جس میں بقول روایات آسمان اور زمین سے برکتیں نازل ہوں گی (تفسیر نور الثقلین جلد نمبر ۰۲)

۳۵وفاداروں کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے "مومنون" (سورہ منون/۱۔۲) متقین (آل عمران/۷۶)

"الوالالباب" (رعد/۲۰) "ابرار" (الدھر/۷) جبکہ بے وفاؤں اورعہد شکنوں کی ان الفاظ میں مذمت کی ہے " فاسقین " (زیر نظرآیت ) "کافرین" (نسا/۱۰۰) اور "مشرکین" " ظالمین" "شرالاواب‘و (بدترین جانور)

۳۶سورہ طہ/۷۱ میں ہم پڑھتے ہیں"انہ لکبیرکم الذی علمکم السحر" تم سب جادو موسیٰ کے شاگرد ہو۔

۳۷سورہ طہ/۷۰ میں ہم پڑھتے ہیں کہ جادوگروں نے فرعون سے کہا "فاقض ما انت قاض انما تقضی ھذہ الحیٰوة الدنیا" جو چاہو کرو تمہارا تسلط صرف اور صرف اسی دنیوی زندگی کے ساتھ محدود ہے۔

۳۸جسے قرآن کہتا ہے "ان الانسان لیطفی ان راہ استغفی" جب انسان خود کو تونگر سمجھنے لگتا ہے توسرکشی پر اتر آتا ہے۔

۳۹آن گزشت لذنیل بایاران چو برق موسیٰ اپنے ساتھیوں سمیت دریائے نیل سے ایسے گزر گئے جیسے بجلی گزرتی ہے۔

وین بہ خواری گشت درود ابہ غرق لیکن فرعون بڑی ذلت اور خواری کے ساتھ دریائے نیل کے پانی میں غرق ہو گیا۔

ناظران بینند با چشم سئود دیکھنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ موسیٰ کہاں پر جا پہنچے اور کان کجا رقت، این کجا مانند از حجود فرعون، نافرمانی کا ارتکاب کر کے کہاں پر رہ گیا۔

۴۰ایک دن کسی یہودی نے مسلمانوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: "تم مسلمانوں نے ابھی اپنے پیغمبر کا جنازہ دفن نہیں کیا تھا کہ اختلاف شروع کر دیا اس پر حضرت علی نے فرمایا: ہمارا اختلاف تو حضرت پیغمبر خدا کی باتوں کے سلسلے میں تھا نہ تو خود پیغمبر کے بارے میں اور نہ ہی خدا کے بارے میں تھا۔ جبکہ تمہارے پاؤں ابھی دریا کے پانی سے خشک نہیں ہوئے تھے کہ تم نے موسیٰ سے بتوں کا تقاضا شروع کر دیا (نہج البلاغہ حکمت ۳۱۷) ۲قرآن جید کی بعض آیات میں جہالت عمقل کے مقابلے میں ہے تاکہ علم کے مقابلے میں یعنی جہالت بے عقلی کا نام ہے۔

۴۱سفینة البحار جلد اول ص ۰.۰ و ص ۴.۰ نیز سید رضا نقوی کی کتاب "اربعین در فرہنگ اسلامی" کا بھی مطالعہ کیا جائے

۴۲حدیث منزلت یعنی پیغمبر اسلام کا حضرت علی سے فرمانا "انت منی بمنزلة ہارون من موسیٰ" یعنی اے علی تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ کیلئے ہارون تھے اہل سنت کی کتابوں میں بھی موجود ہے ملاحظہ ہو صحیح بخاری جلد ۶ ص ۳ صحیح مسلم جلد ۴ ص ۱۸۷ سنن ابن ماجہ جلد ۱ ص ۴۲ مسند احمد بن حنبل جلد ۱ ص ۱۷۳ ص ۱۷۰، ۱۷۷ ۔۱۷۹۔۱۸۲

۴۳"لا تدرکة الابصار " اسے ظاہری آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں البتہ خدا کو دل کی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔"رائة القلوب بحقائق الایمان " (از تفسیر صافی) بقول شاعر چشم دل باز کن کہ جان بینی آنچہ نادیدنی است، آن بینی

۴۴امام جعفر صادق فرمتے ہیں "الله تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے فرمایا،جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کس لئے برگزیدہ کیا ہے؟" اس لئے کہ تمہارا خضوع و خشوع میری بارگاہ میں بے نظیر تھا، جب بھی نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہو تو الٹے اپنے رخسار زمین پر رکھے (اصول کافی)

۴۵مثلاً جہاں ہر "قصاص" اور "معافی‘ کا مسئلہ پیدا ہو جائے تو "معافی کو اپنائیں

۴۶یعنی یہ نکتہ سورہ عنکبوت ۴۸ میں بھی بیان ہو چکا ہے "وما کنت تتلوا من قبله من کتاب "

۴۷جو آیات آنحضرت کی عالمی اور آفاقی رسالت پر دلالت کرتی ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔ سورہ عبس/۲۸ "کافة للناس " انعام/۱۹ "لا نذرکم و من بلغ " فرقان/۱ "للعالمین نذیرا"

۴۸حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنے داماد (حضرت موسیٰ علیہ السلام) کو دیکھا کہ ان سے ملاقات کیلئے انتظارکرنے کیلئے بہت بڑی قطار کھڑی ہوئی ہے تو شعیب نے موسیٰ کو اس بات کی پیشکش کی کہ ان لوگوں کو چند گروہوں میں تقسیم کر دیں اور ہر ایک گروہ کا ایک مسئول مقرر فرمائیں تاکہ مسئول قسم کی مشکلات کو وہ حل کریں اور اہم ترین سائل موسیٰ کیخدمت میں پیش کئے جائیں (از تفسیر کاشف)

۴۹ہم دعائیں پڑھتے ہیں "یا من یقبل الیسیرو و یعفوا عن الکثیر " یعنی اے وہ الله جو تھوڑے سے عمل کو بھی قبول کر لیا ہے اور زیادہ سے زیادہ گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔

۵۰حضرت علی علیہ السلام نے گناہوں کی توجہ اور شراب کو نیند کے نام سے رشوت کو تحفے کے نام سے اور سود کو منافع کے نام سے موسوم کرنے کی بڑی سخت مذمت کی ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۱۰۶)

۵۱اسی طرح کے ایک اور امتحان کا تذکرہ سورہ مائدہ/۹۴ میں ہے کہ "یبلوکم الله بشیئی من الصید تناله ایدیکم ورماحکم " اس آیت میں حالت احترام کی حرمت کا تذکرہ ہے کہ جب شکاریاتو انسان کی دسترس میں ہوتا ہے یا تیر کی زد میں اور ایسی ہیجانی کیفت میں شکار سے روکنا خدا کی طرف سے ایک امتحان ہے۔

۵۲حضرت علی علیہ السلام نے بارہا اپنے زمانہ کے بیوفا لوگوں کی شکایت کی ہے اور فرمایا ہے کہ الله مجھے تمہارے درمیان سے اٹھا لے اور دوسروں کو تم پر مسلط فرمائے"

۵۳بنی اسرائیل اس قدر حیلہ سازی، دنیا طلبی، حرص و بہر اور قانون شکنی کے باوجود ہمیشہ ذلیل و خوار ہی رہے ہیں ہٹلر نے لاکھوں یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔

۵۴دوسری آیات میں ہے کہ کہیں پر تو کہتے تھے "نحن ابناء الله و احبائه " ہم الله کے بیٹے اور اسکے دوست ہیں (مائدہ/۱۸) یا کہتے تھے "لن تمسناالنار " ہمیں تو آگ چھوئے گی بھی نہیں مگر چند گنتی کے دن (بقرہ/۸۰ آل عمران/۲۴)

۵۵اسی سے ملتا جلتا حضرت علی علیہ السلام کا یہ جملہ ہے کہ "لدواللموت وابنو اللخراب" پیدائش کا انجام موت ہے اور تعمیر کا انجام خانہ خرابی ہے۔

۵۶شاعر کا قول ہے

آدمی زادہ طرفہ معجونی است وز فرشتہ سرشتہ و زگل

گررود سوے این شود بہ ازاین ور رود سوی آن شودیس ازان

اسکا مفہوم وہی ہے جو اوپر بیان ہو چکا ہے۔

۵۷حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث کا مفہوم (تفسیر مونہ منقول از تفسیر نور الثقلین)

۵۸ایضاً (تفسیر نمونہ منقول از تفسیر برہان)

۵۹حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی حدیث کا مفہوم (تفسیر نمونہ منقول از نور الثقلین)

۶۰مسفطہ ہو سورہ ذاریات /۵۲ ۔ "کذالک ما اتی الذین من قبلهم من رسول الاقالوا ساحر اومجنون "

۶۱دوسری آیات جو اس حقیقت کو بیان کر رہی ہیں بہت زیادہ ہیں منجملہ انکے یہ ہیں کہ "ومایضل به الاالفاسقین " (بقرہ/۲۶) یا "بل ران علی قلوبهم ماکانو ایکسنون " (مطففین/۱۴)

۶۲حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے حضرت قائم آل محمد کے ظہور کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا"مثله مثل الساعة " یعنی انکا ظہور بھی قیام قیامت کی مانند اچانک ہو گا پھر آپ نے آیت تلاوت فرمائی "لا بحلیها توقنا……الانقبة " (از حضرت امام رضا علیہ السلام تفسیر نور الثقلین)

۶۳قرآن مجید بار ہا مختلف انداز میں مثلاً "لا یستطیعون لهم نصرا " (اعراف/۱۹۲) "لایملکون لا نفسهم نفعا " (رعد/۱۶) کہہ کر ہمیں شرک سے منع کر دیا ہے۔

۶۴یقین جانیے طاغوتی طاقتوں کا یہی کام ہے کہ اپنی حکومت کو مستحکم بنائیں اور تمہارا استعمال کریں اگر یقین نہ آئے آزما کر دیکھ لیں اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ انہیں چند اصلاحی اور تعمیری باتوں کی پیشکش کریں تو وہ یقینا قبول نہیں کریں گے انکے نزدیک آپ لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے خواہ آپ نالہ و فریاد کریں یا خاموشی اختیار کئے رکھیں آپ کیلئے ایک جیسی بات ہے۔ حتیٰ کہ اگر آپ انہیں کرنا چاہیں تو بھی آپکی بات کو نہیں سنیں گی۔ اس لئے تو قرآن کہتا ہے "وان تدعوھم……… "

۶۵علامہ اقبال فرماتے ہیں۔

آدم از بے بصری بندگی آدم کرد

یعنی انسان نے اپنی بے بصیرتی کی وجہ سے دوسرے انسان کی بندگی اختیار کی

گوہری داشت ولی نذر قبادو جم کرد

اس نے انسانیت جیسے عظیم گوہر کی بے قدری کرتے ہوئے اسے قباد اور جمید جیسے بادشاہوں کے قدموں میں ڈال دیا

یعنی از خوے غلامی زسگان پست تراست

من ندیدم کہ سگی پیش سگی سر خم کرد

ایسے انسان خصلت کے لحاظ سے تو کتوں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ میں نے کبھی کسی کتے کو دوسرے کتے کے آگے سر جھکائے ہوئے نہیں دیکھا

۶۶ایک اور مقام پر فرماتا ہے "الله ولی الذین امنو یخرجهم من الظلمات الی النور " (بقرہ/۲۵۷)

۶۷حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے قرآن مجید میں مکارم اخلاق کے سلسلے میں اس سے بڑھ کر کوئی اور آیت جامع نہیں ہے (تفسیر فرقان از درمنشور)

۶۸۔ قرآن اور حدیث کی لغات میں کبھی "جہل" "عقل" کے مقابلے میں بھی آتا ہے اور روایات میں "کتاب العقل والجہل"

۔۶۹ جیسا کہ یہ آیت ہے "وکذالک جعلنا لکل بنی عدو الشیاطین الانس والجن " (انعام/۱۱۲) جو اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ انبیاء کے دشمن جنوں میں سے بھی ہیں اور انسانوں میں سے بھی۔

۷۰۔ جیسے یہ آیت ہے "لئن اشرکت لیحبطن عملک " اگر شرک کرو گے تو تمہارے سارے اعمال تباہ ہو جائیں گے۔ (زمر/۶۰) یہاں پر شرط ، واقع ہونے پر دلیل نہیں بن رہی۔

۷۱صرف "اعوذبالله" کہہ دینے سے پناہ نہیں مل جاتی۔بلکہ خدا کے ساتھ ایک خصوصی روحانی تعلق، اسکے ساتھ ربط، اس پر توکل اور خود کو مکمل طور پر اسکے سپرد کر دینے سے ہی پناہ طلب کی جا سکتی ہے۔