تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62785
ڈاؤنلوڈ: 5377

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62785 / ڈاؤنلوڈ: 5377
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

سورہ مائدہ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَِحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

مقدمہ:

سورہ مائدہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت سے ایک دو ماہ پہلے نازل ہوئی اور اس کی کوئی ایک آیت بھی منسوخ نہیں ہوئی ہے۔

اس کو سورہ "مائدہ" کہنے کی وجہ یہ ہے اس کی ایک سو چودھویں آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا کی وجہ سے آسمانی مائدہ کے نازل ہونے کا تذکرہ ہے اس لئے اسے سورہ مائدہ کہتے ہیں۔ اس کی ایک سو بیس آیات ہیں اور "یاایھا الذین امنوا" کے ساتھ خطاب اس صورت میں سب سے زیادہ آیا ہے مثلاً سورہ بقرہ میں یہ خطاب گیارہ مرتبہ آیا ہے جبکہ اس سورت میں سولہ مرتبہ بیان ہوا ہے۔

اس سورت میں ولایت اور رہبری، عقیدہ تثلیث کی تردید، ایفائے عہد کی اہمیت، عدل و انصاف پر مبنی گواہی، کسی کو قتل کرنے کی حرمت، کھانے کی چیزوں کے احکام، وضو، اور تمیم اور عدالت اجتماعی وغیرہ کا تذکرہ ہے۔

چونکہ یہ نازل ہونے والی آخری سورت ہے لہٰذا سورت کے آغاز ہی میں "اوفوا بالعقود" کے جملہ کے ساتھ ہر قسم کے عہد و پیمان کو پورا کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

( بِسْمِ اللّٰهِ الرَِحْمٰنِ الرَّحِیْمِ )

آیت ۱

( یٰٓاَیُّهاَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓ ا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِط اُحِلَّتْ لَکُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ غَیْرَ مُُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ ط ِانَّ اللّٰهَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ )

ترجمہ۔ اے وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہو اپنے (ان) عہد اور پیمانوں کو پورا کرو (جو تم نے خدا یا لوگوں کے ساتھ باندھا ہے) حلال چوپایوں (کے گوشت کھانے) کو تمہارے لئے حلال کیا گیا ہے، مگر جن کی (حرمت) کو تمہارے لئے پڑھا (اور بیان کیا) جائے گا، جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار کو حلال نہ جانو، یقیناً اللہ تعالیٰ جو کچھ کہنا چاہتا ہے حکم کرتا ہے۔

پیام و نکات:

۱ ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ جس شخص یا گروہ کے ساتھ جس قسم کا معاہدہ کریں اس کی پابندی اختیار کریں۔ چاہے وہ معاہدہ زبانی ہو یا تحریری اور عملی، چاہے سیاسی معاہدہ ہو یا اقتصادی، اجتماعی اور عائلی، خواہ طاقتور کے ساتھ ہو یا کمزور کے ساتھ، دوست کے ساتھ ہو یا دشمن کے ساتھ۔ ۱ چاہے خدا کے ساتھ ہو (جیسے نذر اور عہد وغیرہ) خواہ لوگوں کے ساتھ، فرد کے ساتھ ہو یا معاشرہ کے ساتھ، چھوٹے کے ساتھ ہو یا بڑے کے ساتھ، علاقائی حکومتوں کے ساتھ ہو یا بین الاقوامی سطح پر، کیونکہ "( اوفوا بالعقود ) " میں موجود "الف لام" ہر قسم کے معاہدوں کو شامل ہے۔

۲ ۔ جس طرح عہدشکنی اور ظلم بہت سی چیزوں سے محروم ہو جانے کا موجب ہوتے ہیں ۲ اسی طرح عہد و پیمان کی پابندی بہت سی چیزوں سے استفادہ کا موجب ہوتی ہے "اوفوا بالعقود احلت لکم" اچھے طریقے سے لوگوں کے ساتھ پیش آنا، اچھی روزی کی علامت ہے مثل مشہور ہے "اچھے طریقہ سے لین دین کرنے والا، لوگوں کے مال میں شریک ہوتا ہے"

۳ ۔ آسمانی کتابیں بھی خدا کا "عہد" ہیں۔ ان کی پابندی بھی ضروری ہے، عہد قدیم (تورات) عہد جدید (انجیل) اور عہد اخیر (قرآن مجید) ہیں۔ حدیث میں ہے کہ "القرآن عھد اللہ" ۳ یعنی قرآن اللہ کا عہد ہے۔

۴ ۔ ایمان، عہد و پیمان کے وفا کی بنیاد ہے، ارشاد نبوی ہے "لا دین لمن لا عھدلہ" یعنی جو عہد و پیمان کی پابندی نہیں کرتا ہے وہ بے دین ہے۔

اگر عہد و پیمان پر عمل درآمد نہ ہو تو معاشرتی بنیادیں ہل کر رہ جائیں، عمومی اعتماد ایک دوسرے سے ختم ہو جائے اور معاشرہ تباہ و برباد وہ جائے۔

۵ ۔ مکہ کے امن و امان کو محفوظ رکھنے کے لئے بعض چیزوں سے محروم ہونے کو برداشت کیا جائے اور شکار سے چشم پوشی کی جائے۔ (غیر، محلی الصید)

آیت ۲

( یٰٓاَیُّهُاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْ اشَعَآئِرَ اللّٰهِ وَلَاالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْیَ وَلَا الْقَلَآئِدَ وَلَآ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًا ط وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ط وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوْا اللّٰهَ ط اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ )

ترجمہ۔ اے وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہو! شعائر خداوندی، حرمت والے مہینے، بغیر نشانی والی قربانی اور گلے میں پڑی ہوئی نشانیوں والی قربانی اور بیت اللہ کے قصد سے آنے والوں جو کہ اپنے رب کے فضل اور خوشنودی کے طلبگار ہوتے ہیں (کی حرمت) کو حلال نہ سمجھو۔ اور جب تم (اعمال عمرہ بجا لا کر حالت احرام سے نکل جاؤ تو پھر شکار کر سکتے ہو۔ اور ایسے لوگوں کے ساتھ دشمنی، جنہوں نے (اپنے اقتدار کے دوران) تمہیں مسجد الحرام (مکہ) میں داخل ہونے سے روکا تھا، تمہیں بے عدالتی اور بے اعتدالی پر آمادہ نہ کرے۔ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور ستم کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو، اور خدا سے ڈرتے رہو، اس لئے کہ یقیناً (مجرمین کے لئے) خدا کا عذاب بہت سخت ہے۔

نکتہ:

"ھدی" بغیر نشانی کے وہ جانور ہوتے ہیں حج کے موقع پر ہدیہ (قربان) کئے جاتے ہیں۔ اور "قلائد" نشانیوں والے جانور ہوتے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ شعائر اللہ کے تقدس اور ان کی عظمت کو پامال نہ کرو( لاتحلوا شعائرالله )

۲ ۔ تمام زمانے ایک جیسے نہیں ہوتے، بعض دن اور "ایام اللہ" کا خصوصی احترام ہوتا ہے۔ یعنی وہ خاص طور پر محترم ہوتے ہیں۔( ولاالشهر الحرام )

۳ ۔ جو جانور الٰہی مقاصد کی تکمیل کے لئے کام میں لائے جاتے ہیں وہ بھی قابل احترام ہوتے ہیں۔( والهدی ولاالقلائد )

۴ ۔ بیت اللہ کے مسافروں کا احترام کیا جانا چاہئے( ولا آمین البیت الحرام )

۵ ۔ حج، دنیوی اور اخروی مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے( یبتغون فضلا من ربهم و رضوانا )

۶ ۔ حج میں سفر کا اصل ہدف تو خانہ خدا ہی ہے باقی سرگرمیاں ضمنی ہیں۔( آمین البیت الحرام )

۷ ۔ مکہ میں انجام دی جانے والی ہر قسم کی اقتصادی سرگرمیاں اور اسلامی ممالک کے لئے تجارت اور درآمدات و برآمدات آزاد ہیں( یبتغون فضلا )

۸ ۔ اگر کسی زمانے میں لوگوں نے ہمارے ساتھ دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرے دور میں ہم ان پر ظلم و تجاوز کو جائز سمجھنے لگ جائیں۔( ولا یجرمنکم ) ۔۔۔ ) ۴

۹ ۔ خدا کے حرم کے تقدس و احترام کے لئے ہمارے باہمی تعاون کی ضرورت ہے( لاتحلوا شعائر اللّٰه---وتعاونوا )

۱۰ ۔ دوسروں کی غلطیوں سے چشم پوشی، انہیں اپنی طرف مائل کرنے اور نیکی کے کاموں میں تعاون کا ایک راستہ ہے( لایجر منکم---تعاونوا )

۱۱ ۔ اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرہ بین الاقوامی تلخ و شیریں حوادثات اور ظالم و مظلوم کے مدمقابل آنے میں اپنا فعال کردار ادا کریں جہاں ضرورت ہو حمایت کریں اور جہاں ضروری سمجھیں مذمت کریں۔( تعاونوا علی البر ) ۔۔)

۱۲ ۔ تمام پہلوؤں کے لحاظ سے فضلیتوں کو پروان چڑھانے کی راہیں ہموار کرنی چاہئیں اور اس مقصد کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے( تعاون علی البر ) ۔۔۔ ) ۵

۱۳ ۔ کسی خاص قبیلے، علاقے، قوم، زبان اور اتحادی ملکوں وغیرہ کی بے جا حمایت کی بجائے "حق" کی حمایت کرنی چاہئے اور "نیکی" میں مدد بہم پہنچانی چاہئے۔( تعاونوا علی البر )

۱۴ ۔ اسلامی معاشرہ میں نیک شخص اپنے آپ کو اکیلا نہ سمجھے، جبکہ ظالم کا کوئی یارومدگار نہیں ہوتا۔( تعاونوا علی البر--- ولاتعاونوا--- )

۱۵ ۔ ظالموں اور گناہ کا ارتکاب کرنے والوں پر ہر قسم کے دروازے بند کر دینے چاہئیں، تاکہ فساد اور بدکاری کا قلع قمع کیا جا سکے۔( ولاتعاونوا ) ۶

۱۶ ۔ جو لوگ شعائراللہ کے تقدس کو پامال کرتے ہیں اور گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں انہیں خدا کے عذاب کے لئے خود کو تیار کر لینا چاہئے۔( واتقواالله ان الله شدید العقاب ) ۷

آیت ۳

( حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُّ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِه وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمَتَرَدِّیَةُ وَالنَّطِیْحَةُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ط ذٰلِکُمْ فِسْقٌ ط اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ط اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط فَمَنِّ اضْطُرَّ فِی مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِ ثْمٍ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ )

ترجمہ۔ تمہارے اوپر حرام کیا گیا ہے مردار کا گوشت خون، سور کا گوشت (کا کھانا) اور وہ جانور جو غیرخدا کے نام سے ذبح کیا جائے، اور حلال گوشت جانور جو گلا گھٹنے یا مار کھانے یا بلندی سے گرنے یا کسی دوسرے جانور کے سینگ لگنے کی وجہ سے مر جائیں یا کسی درندہ کا باقی ماندہ جانور (بھی حرام ہیں) مگر جس جانور کو (درندہ کے شکار کی وجہ سے مرنے سے پہلے تم اس کے پاس پہنچ جاؤ اور اسے شرعی طریقہ سے) ذبح کرو اور (اسی طرح وہ جانور بھی حرام ہیں) جو بتوں کے آگے ذبح کئے جائیں۔ یا جنہیں تم "ازلام" کے ذریعہ تقسیم کرتے ہو ۸ یہ سب خدا کی نافرمانی کی چیزیں ہیں۔

آج کے دن کفار تمہارے دین سے مایوس ہو گئے ہیں۔ لہٰذا ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ آج کے دن میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا، اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو "دین" کے طور پر پسند کرلیا۔

لیکن جو شخص بھوک کی وجہ سے مجبور ہو جائے اور گناہ کی طرف مائل بھی نہ ہو (تو وہ مذکورہ حرام شدہ غذا سے کھا سکتا ہے) کیونکہ خدا بخشنے والا مہربان ہے۔

نکتہ:

اسی سورت کے اول میں چوپایوں کے گوشت سے بہرہ مندی کا تذکرہ تھا کہ یہ گوشت تمہارے لئے حلال ہے مگر جس قسم کے گوشت کی حرمت بعد میں بیان ہو گی وہ حلال نہیں ہے۔ چنانچہ اس آیت میں دوسری قسم کے گوشت کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

"مخنقہ" وہ جانور ہوتا ہے جس کا گلا گھٹ جائے خواہ کسی انسان کے ہاتھوں سے گھٹے یا کسی جوان سے یا خودبخود۔

"موقوذہ" وہ جانور ہوتا ہے جو مارنے، یا تشدد کرنے یا بیماری کی وجہ سے مر جائے۔ چنانچہ عربوں کی رسم یہ تھی۔ بتوں کے احترام کی خاطر بعض جانوروں کو اس قدر تشدد کا نشانہ بنائے کہ وہ اس کی وجہ سے مر جاتا تھا۔ اور وہ اسے اپنے لئے ایک قسم کی عبادت سمجھتے تھے۔ (ملاحظہ ہو تفسیر قرطبی)

"متردیہ" وہ جانور ہوتا ہے جو کسی بلندی سے گرنے کی وجہ سے مر جائے۔

"نطیحہ" وہ جانو رہوتا ہے جو کسی دورسے جانور کے سینگ لگنے کی وجہ سے مر جائے۔

اس آیت میں جس قسم کی غذا کی حرمت بیان کی گئی ہے قرآن مجید میں کئی بار ذکر کی گئی ہے۔ سورہ انعام اور سورہ نحل مکی سورتیں ہیں ان میں بھی اور سورہ بقرہ جو مدنی سورت ہے اس میں بھی۔ لیکن اس آیت میں مردار کی مختلف نوعیتیں بیان کی گئی ہیں کہ جن کا مصرف حرام ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس مقام پر دو آیتیں ایک ہی آیت میں بیان کی گئی ہیں، ایک میں تو اضطراری اور مجبوری کے علاوہ حرام گوشت کے استعمال کو بیان کیا گیا ہے اور دوسری "الیوم" سے لے کر "دنیا" تک ایک مستقل آیت ہے۔ اوراس کی چند دلیلیں ہیں۔

۱ ۔ اگر مذکورہ آیت سے "الیوم" سے "دنیا" تک کو حذف کر دیا جائے تو آیت کے معنی میں کسی قسم کی کمی اور نقص واقع نہیں ہوتا۔

۲ ۔ کفار کو دین سے اس لئے مایوسی نہیں ہوتی کہ وہ کسی قسم کے گوشت کو کھائیں یا کسی قسم کے گوشت کو نہ کھائیں۔

۳ ۔ شیعہ اور سنی روایات کی رو سے جو اس آیت کے شان نزول کے بارے میں بیان ہوئی ہیں۔ "( الیوم یئس الذین کفروا ) " کا تعلق "( الیوم الکملت لکم دینکم ) ۔۔۔ " سے تاکہ اس سے پہلے یا اس کے بعد کے جملوں سے۔

چونکہ آیت کا یہ حصہ نہایت ہی حساس تھا اور حاسدوں اور مخالفوں کے دل میں بہت کھٹکتا تھا۔ لہٰذا حضرت رسول خدا کے حکم ہی سے اسے گوشت کی حرمت کے حکم کے درمیان قرار دیا گیا ہے تاکہ مخالفین کی دستبرد سے محفوظ رہ جائے۔ ویسے ہی جیسے طلا اور جواہرات کو دوسری عام قسم کی چیزوں کے درمیان میں چھپایا جاتا ہے تاکہ چوروں اور لٹیروں کی لوٹ مار سے محفوظ رہ سکیں۔

شیعہ اور سنی روایات بتاتی ہیں کہ آیت کا یہ حصہ "( الیوم یئس الذین ) ۔۔۔ تا۔۔۔( لکم الاسلام دینا ) " حضرت علی علیہ السلام کے مقام عذیرخم میں منصب امامت پر فائز ہونے کے بعد نازل ہوا۔ نقلی دلائل سے قطع نظر عقلی دلائل بھی اسی بات کی راہنمائی کرتے ہیں۔ کیونکہ اس دن "الیوم" کے لئے چار اہم خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ ۱ ۔ تمام کفار کی مایوسی کا دن ۲ ۔ دین کے کامل ہونے کا دن ۳ ۔ لوگوں پر نعمت خداوندی کے تمام ہونے کا دن ۴ ۔ ایک دن کہ جس میں اسلام لوگوں کے لئے ایک کامل دین اور مکمل مذہب کے طور پر خدا کا پسندیدہ قرار دیا گیا۔

اگر ہم تاریخ اسلام کے تمام ایام پر اچھی طرح غور و حوض سے کام لیں تو تاریخی نوعیت کا کوئی بھی دن خواہ وہ روز بعثت پیغمبر ہو یا روز ہجرت، یا یوم ولادت حضرت فاطمہ زہرا ہو یا کسی بھی جنگ میں لشکر اسلام کی کامیابی کا دن، حجة الوداع ہو یا کوئی اور تاریخی اہمیت کا حامل دن، اس دن کی عظمت، سربلندی، اعزاز اور افتخار کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ حجة الوداع کا دن بھی اس کی برابری نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ حج خواہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو پھر بھی ہے تو دین کا ایک جزو۔ پس مذکورہ چار صفات کا حامل صرف روز عزیزخم ہی ہے جس میں علی بن ابی طالب علیہ السلام کو پیغمبر کے جانشین کے طور پر منصوب کیا گیا اور حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امامت کی رہبری کے لئے منتخب کیا گیا۔

پیام:

قرآن میں رہبر کا مقام

۱ ۔ دین و مذہب اور مکتب فکر صحیح معنوں میں اس کے قائد کے دم قدم ہی سے قائم رہ سکتا ہے اور تمام کفار کو اسی قائد کی موجودگی سے ہی مایوسی ہوئی ہے کسی اور چیز سے نہیں،

۲ ۔ اگر اسلامی معاشرہ میں عذیر و ولایت جیسا رہبر موجود ہو تو مسلمانوں کو کسی سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ (ف( لاتخشوهم )

۳ ۔ کفار کی امیدوں کا اہم ترین مرکز اسلامی رہبر و قائد کی موت ہے اور امیرالمومنین علی کے رہبر و قائد کی حیثیت سے انتخاب نے ان کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔( الیوم یئس--- )

۴ ۔ اگر خارجی دشمن سے محفوظ رہ بھی جاؤ پھر بھی داخلی دشمن اور گناہ کا اندرونی امکان موجود ہے جس کا مقابلہ صرف خوف خدا ہی کے ذریعہ کیا جا سکتا ہے۔( لاتخشوهم و اخشون )

۵ ۔ رہبر و قائد کے بغیر دین نامکمل ہے( اکملت لکم دینکم )

۶ ۔ اگر رہبر و قائد کی طرف سے خدائی نعمتوں کی طرف راہنمائی نہ ہو تو تمام نعمتیں نامکمل اور ناقص ہوتی ہیں( اتممت علیکم نعمتی )

۷ ۔ بغیر رہبر اور قائد کے دین رضائے الٰہی کی سند حاصل نہیں کر سکتا۔ (۔۔۔( رضیت لکم الاسلام دینا )

۸ ۔ اگر اکمال دین، اتمام نعمت، رضائے الٰہی اور کفار کی مایوسی میں سے کوئی ایک صورت بھی کسی دن انجام پا جائے تو اس دن کے لئے کافی ہے کہ اس کا شمار "ایام اللہ" میں ہونے لگے چہ جائیکہ غدیر جیسا دن کہ جس میں تمام خصوصیات یکجا انجام پا گئیں۔ اسی لئے تو اہلِ کتاب کہتے ہیں کہ اگر "ہماری کتاب میں اس قسم کا دن ہوتا تو ہم اسے "عید کا دن" قرار دیتے۔ چنانچہ روایات اہلبیت میں "عید غدیر" کو اسلام کی عظیم ترین عید قرار دیا گیا ہے۔

۹ ۔ کفار، ایک کامل اور اکمل دین سے ڈرتے ہیں اور مسلمانوں سے مایوس ہو چکے ہیں تاکہ ایسے دین سے کہ جس کا رہبر ان کے سامنے ہتھیار ڈال دے، جس میں جہاد کا حکم معطل ہو جائے، جس کے مصادر اور منابع تہس نہس ہو چکے ہوں اور جس کے ماننے والے پراگندہ ہو چکے ہوں( الیوم یئس-- الیوم اکملت لکم دینکم )

۱۰ ۔ اگر اس کے باوجود بھی کفار تم سے امیدیں لگائے ہوئے ہیں اور مایوس نہیں ہوئے تو تم جان لو کہ تمہاری دینداری میں کچھ کمی ہے۔( الیوم یئس--- الیوم اکملت لکم--- )

۱۱ ۔ کفار کی اس وقت تک امیدیں وابستہ تھیں جب تک "غدیر کے دن کا رہبر" منصوب اور متعین نہیں ہوا تھا۔ اور جب رہبر متعین ہو گیا تو ان کی تمام امیدیں خاک میں مل گئیں، تو معلوم ہوا کہ تمام کفار ایک طرف اور اکیلے علی بن ابی طالب ایک طرف۔

۱۲ ۔ خدائی رہبر کے بغیر تمام نعمتیں نامکمل ہیں( الیوم--- اتممت علیکم نعمتی )

۱۳ ۔ جب دیکھو کہ کفار اسلام اور مسلمانوں کی گھات میں لگے ہوئے ہیں تو فوراً اسلامی معاشرہ کی رہبری کی اصلاح کی فکر کرو۔( الیوم یئس الذین کفروا )

۱۴ ۔ دین کامل ہے لیکن لوگ نہ! لہٰذا اپنا خاص خیال رکھو اور خدا سے ہمیشہ ڈرتے رہو۔( اکملت لکم دینکم-- واخشون )

۱۵ ۔ مسلمانوں کو کفار کی مایوسی کے دن کا انتظار تھا اور یوم غدیر اس انتظار کی تکمیل کا دن ہے۔

۱۶ ۔ خدا کا علی بن ابی طالب کو امامت کے عہدے پر فائز کرنا، نعمتوں کے تمام ہونے کا موجب ہے اورعلی کی ولایت کا انکار، کفران نعمت ہے اور کفران نعمت کا انجام بہت خطرناک ہے۔ "یعرفون نعمت اللہ ثم ینکرونھا" یعنی لوگ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہوئے اس کا انکار کر دیتے ہیں۔

۱۷ ۔ اگر مسلمان، غدیر کے دن کے رہبر کا انکار نہ کرتے تو انہیں کفار کی طرف سے تاریخ میں کبھی بھی کوئی خطرہ لاحق نہ ہوتا۔( لاتخشوهم )

۱۸ ۔ قرآن میں مسلمانوں کو جس خطرے سے زیادہ خبردار کیا گیا ہے وہ ہے رہبر سے انحراف اور منہ موڑنے کا خطرہ۔ (واخشون) او رسورہ آل عمران/ ۲۸ میں ارشاد ہوتا ہے "( ویحذرکم الله نفسه ) " یعنی خدا تمہیں اپنی نافرمانی سے ڈراتا ہے۔

۱۹ ۔ اشیاء کے آثار بعض اوقات ان کے مجموعی اجزا پر مترتب ہوتے ہیں۔ مثلاً روزہ ہے کہ اگر اذان مغرب سے ذرا بھی پہلے اسے افطار کیا جائے تو باطل ہو جاتا ہے اسی لئے روزہ کے بارے میں لفظ "تمام" کا استعمال ہوا ہے کہ "( ثم اتموا الصیام الی اللیل ) "

اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی چیز کی ہر جزو کا اپنا علیحدہ اثر ہوتا ہے۔ مثلاً قرآنی آیات کی تلاوت ہے کہ تلاوت کا کمال یہ ہے کہ پورے قرآن کی آیات کو تلاوت کیا جائے، لیکن اگر صرف چند ایک آیت کو پڑھا جائے تو بھی ثواب مل جاتا ہے۔

بعض اوقات کسی چیز کے بعض اجزاء ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اس میں نہ ہوں تو وہ چیز کلی طور پر ناقص ہوتی ہے۔ ہر چند کہ دوسرے تمام اجزا موجود ہی ہوں جیسے ہوائی جہاز کا پائلٹ یا گاڑی کا ڈرائیور اگر نہ ہوں تو جہاز یا گاڑی بے ثمر اور بے مقصد ہوتی ہے۔

برحق رہبر کی قیادت اور ولایت بھی بعینہ اسی طرح ہے کیونکہ یہی چیز تو انسان کو خدا سے جا ملاتی ہے۔ اور اگر یہ نہ ہوتی تو تمام کائنات اور اس کی نعمتیں، عذاب میں بدل جاتی ہیں اس لئے کہ یہ چیزیں بذات خود انسان کو خدا تک نہیں پہنچاتیں۔

یہ تو تھی ولایت اور قیادت و رہبری کے بارے میں تھوڑی سی بحث، اب ہم آیت کے پہلے حصہ کے بارے میں گفتگو کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور غذاؤں اور گوشت کے بارے چند ایک مطالب کا ذکر کرتے ہیں۔

پیام:

غذا کا زندگی کے ساتھ تعلق

۱ ۔ روح اور جسم کی سلامتی کے لئے غذا اس حد تک ضروری ہے کہ قرآن مجید میں بارہا اس کی تاکید کی گئی ہے۔

۲ ۔ اسلام ایک ایسا جامع دین ہے کہ جو انسان کی تمام طبعی اور روحانی ضروریات کو مدنظر رکھ کر ان کے بارے میں اپنا واضح اور صریح نظریہ پیش کرتا ہے (حرمت)

۳ ۔ ایسا قانون صحیح معنوں میں مکمل اور کامل کہلا سکتا ہے جو تمام انسانوں کے حالات اور ضروریات پر توجہ قائم کئے رکھے کہ عام حالات میں انہیں کیا کرنا چاہئے؟ مجبوری اور بھوک وغیرہ کی صورت میں کیا کریں؟

۴ ۔ اسلامی احکام کہیں پر بھی مشکل یا ناتوانی سے دوچار نہیں ہوتے (ف( من اضطر )

۵ ۔ مجبوری کے خاص حالات، گناہ اور مطلق آزادی کے موجب نہیں بننے چاہئیں، بلکہ صرف اس حد تک اکتفا کرنا چاہئے جس سے صرف مجبوری دور ہو سکے۔( غیرمتوانف لاثم )

۶ ۔ نظام توحید میں جانوروں کا ذبح کرنا بھی رنگ الٰہی میں رنگا ہوا ہونا چاہئے، ورنہ جانور حرام ہو جائیں گے( وما اهل لغیرالله )

۷ ۔ شرک کے تمام مظاہر سے نبردآزمائی کرنی چاہئے خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو (وما( ذبح علی النصب ) ۱۱

۸ ۔ اسلام، دین عدل ہے، نہ تو یورپی ملکوں کی مانند گوشت کے کثرت استعمال کا حکم دیتا ہے اور نہ بدھ بھکشوؤں کی مانند اسے حرام جانتا ہے۔ اور نہ ہی چینیوں کی طرح ہر قسم کے جانور کا ہر صورت میں استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام میں گوشت کے استعمال کے لئے کچھ شرائط اور حدود مقرر کئے گئے ہیں۔ منجملہ ان کے چند ایک شرائط یہ بھی ہیں۔

الف۔ گوشت خور جانوروں کے گوشت کو نہیں کھانا چاہئے، اور اس کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ اس قسم کے جانور عام طور پر مردار کا گوشت کھاتے ہیں۔

ب۔ درندوں کا گوشت نہیں کھانا چاہئے، کیونکہ اس سے انسان میں شقاوت اور درندگی کی روح پیدا ہوتی ہے۔

ج۔ ان جانوروں کا گوشت نہیں کھانا چاہئے جو عام طور پر نفرت کا موجب ہوتے ہیں۔

د۔ جس جانور پر ذبح کے وقت خدا کا مبارک نام نہ لیا جائے اس کا گوشت نہیں کھانا چاہئے۔ ۱۲

۹ ۔ تمام حرام گوشت جانوروں میں سے صرف "سور" کا نام ذکر کیا گیا ہے کیونکہ اس کے استعمال کا عام رواج ہے۔

۱۰ ۔ خون کا خوراک کی صورت میں استعمال چونکہ (سنگدلی) دل کی قساوت اور بیماریوں کے منتقل کرنے کا موجب ہوتا ہے لہٰذا حرام ہے۔ البتہ دوا کے طور پر اور انجکشن کی صورت میں استعمال میں کوئی حرج نہیں۔

آیت میں مذکور گوشت خوری اور غذا کے حصول پر ایک نظر

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام مردار کے گوشت کے بارے میں فرماتے ہیں "جو شخص بھی اس (مردار کے گوشت) کے قریب گیا، کمزوری، لاغری، سستی، قطع نسل، سکتہ اور ناگہانی موت نے اسے اپنا شکار بنا لیا۔‘

خون کا پینا زمانہ جاہلیت کی رسم تھی اور یہ کام سنگدلی اور رحمدلی کے فقدان کا اس حد تک موجب ہوتی ہے کہ انسان اپنی اولاد اور ماں باپ تک کو قتل کرنے سے نہیں چوکتا، خونخوار انسان اپنے رفیق اور دوست تک کو نہیں پہچانتا۔ اسی طرح سور کے گوشت کے بارے میں بھی بہت سی روایات موجود ہیں۔ (تفسیر المیزان)

کچھ گوشت خوری کے بارے میں

بدھ مت کے پیروکار گوشت کھانے کے مخالف ہیں، جبکہ بعض دوسرے افراد ہر قسم کے جانور کا ہر قسم کا گوشت کھاتے ہیں، خواہ وہ کتا ہو یا خنزیر، مینڈک ہو یا کیکڑا وغیرہ۔

البتہ یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ " آیا گوشت کے حصول کے لئے کسی جانور کی جان لینا اور اسے ذبح کرنا رحمدلی کے ساتھ سازگار ہے؟

جواب:

۱ ۔ نظام تخلیق کائنات تغیر اور تبدل پر مبنی ہے۔ مٹی، نباتات بنتی ہے، نباتات حیوانات میں تبدیل ہو جاتی ہے اور حیوانات کا گوشت انسان میں بدل جاتا ہے۔ یہی ایک ارتقاء ہے اور ان تبدیلیوں کا نتیجہ انسانی ارتقا اورنشو و نما ہے۔

۲ ۔ نظام ہضم کی کیفیت اور دانتوں کی نوعیت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ انسان کی غذا کیا کیا چیزیں ہیں؟

۳ ۔ عدل ہر جگہ بہتر ہے لیکن رحمدلی ہر مقام پر بہتر نہیں ہے ورنہ جنگ اور قصاص کا حکم نہ ہوتا۔

۴ ۔ جانورں کے ذبح کے بارے میں جن جن باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے وہ سنگدلی اور بے رحمی کے برعکس ہے۔ مثلاً جانور کو تیزدھار آلے سے ذبح کیا جائے، اسے تکلیف نہ دی جائے، ذبح کرنے سے پہلے اسے پانی پلا یا جائے اور مکمل طور پر جان نکل جانے سے پہلے اس کے اعضا نہیں کاٹنے چاہئیں۔ وغیرہ۔

آیت ۴

( یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَآ اُحِلَّ لَهُمْ ط قُلْ اُحِلَّ لَکُمْ الطَّیِّبٰتُ وَمَاعَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلَّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَهَنَّ مِمَّا عَلَمَّکُمُ اللّٰهُ فَکُلُوْا مِمَّآ اَمْ سَکْنَاعَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوْ ا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَاتَّقُوْااللّٰهَ ط اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ )

ترجمہ: (اے رسول) لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کیا چیزیں حلال کی گئی ہیں؟ تو آپ کہہ دیں کہ تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال ہیں اور ان جانوروں کا شکار (بھی حلال ہے) جنہیں تم نے وہ کچھ سکھایا جس کی خدا نے تمہیں تعلیم دی تھی۔ جبکہ تم شکاری کتوں کو سکھاتے ہو، پس جو کچھ کہ شکار کے لئے سدھائے ہوئے کتے تمہارے لئے شکار کرتے ہیں اور روک رکھتے ہیں وہ کھا لو او ر(جب جانور کو شکار کے لئے چھوڑو تو) اس پر خدا کا نام لیا کرو، اور اللہ سے ڈرو کیونکہ اللہ حساب لینے والا ہے۔

نکتہ

لفظ "مکلبین" کے پیش نظر شیعہ عقیدہ کے مطابق صرف سدھائے ہوئے شکاری کتے کا شکار حلال ہے (نا کہ کسی اور جانور کا شکار کہ جو شکار کو جائے اور کوئی چیز شکار کرکے لے آئے) اور پھر سدھائے ہوئے کتے کا بھی وہ شکار کہ کتا جس کے پیچھے چھوڑا جائے اور وہ اسے پکڑ کر لے آئے یا اسے بچائے رکھے۔ نا کہ کتا خود شکار کے پیچھے جائے اسے پکڑے چیرپھاڑ کرے خود کھائے اور جو بچ جائے وہ تمہارے لئے لے آئے۔ کیونکہ ایسا شکار حرام ہے۔

"جوارح" جمع ہے "جارحہ" کی اور لفظ "جرح" سے ماخود ہے جس کا معنی ہے "کمانا" اور "کسی چیز کا حاصل کرنا" اور "زخم" کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اور شکاری جانوروں کو "جارحہ" کہتے ہیں اس لئے کہ وہ اسے زخمی کرتے ہیں۔ یا اس لئے کہ اپنے مالک کے لئے شکار حاصل کرتے ہیں۔ اعضائے بدن کو بھی "جوارح" کہتے ہیں کیونکہ یہ تلاش و کوشش اور حصول اشیاء کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

پیام

۱ ۔ انبیائے عظام معاشرہ کے ہر قسم کے طبعی سوالوں اور ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جواب گو ہوتے ہیں( یسئلونک )

۲ ۔ ہم جو کچھ نہیں جانتے وہ انبیاء یا ان کے وارثوں سے پوچھنا چاہئے( یسئلونک )

۳ ۔ اصول اور قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ تمام پاکیزہ اور من پسند چیزیں حلال ہوں کہ جن سے انسان کو نفرت نہ ہو۔( احل لکم الطیٰبت )

۴ ۔ جو غذا یا عمل حرام ہوا ہے اس کی وجہ یا تو اس کا فاسد اور خراب ہونا ہے یا پھر اس کا "خبیث" ہونا ہے( احل لکم الطیٰبت )

۵ ۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے لہٰذا جو چیزیں قابل نفرت نہیں اور نہ ہی ان میں کسی قسم کے فاسد ہونے کا پہلو ہے وہ حلال ہیں( احل لکم الطیٰبت )

۶ ۔ تعلیم دینا اور سدھانا صرف انسان ہی کے لئے نہیں ہے حیوان بھی سدھائے اور سکھائے جا سکتے ہیں اور انسان کے لئے مسخر ہیں( تعلمونهن )

۷ ۔ دانش کی اہمیت اس قدر ہے کہ اگر کتا بھی اسے حاصل کر لے تو وہ قدر و قیمت کا حامل ہوجاتا ہے اور اس کی اہمیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

۸ ۔ کتا اپنی تھوڑی سی سکھلائی اور تعلیم سے اپنی ساری زندگی کا شکار اپنے معلم کو ہدیہ کرتا رہتا ہے۔( امسکن علیکم ) لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو خدا سے سب کچھ، تعلیم پاتے ہیں( علیکم الله ) مگر خدا کو کیا ہدیہ دیتے ہیں؟ معلوم نہیں!

۹ ۔ حصول غذا کا مسئلہ اہم ہے (شکار بھی حصول غذا یا حصول رزق کے لئے کیا جائے) اور اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہئے لہٰذا حرام شکار، اسراف کے شکار اور نفسانی خواہشات کے تحت شکار سے پرہیز کرنا چاہئے( اتقوا الله )

آیت ۵

( اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمَُ الطَّیِّبٰتِ ط وَ طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوْ ا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الِْکتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْ هُنَّ اُْجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِینَْ وَلَا مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ ط وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیمَْانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُه وَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ) ۰

ترجمہ۔ آج تمام پاکیزہ اور دلپسند چیزیں تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں اور (نیز) اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے۔ اور (نیز) پاکدامن مومنہ عورتیں اور اہل کتاب کی پاکدامن عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں، بشرطیکہ ان کا حق مہر ادا کرو اور پاکدامن رہو (ناکہ زنا کرو) اور (نامشروع) پوشیدہ طریقہ سے دوستی نہ لگاؤ۔ اور جو شخص ایمان لانے سے انکار کرے گا یقینا اس کا عمل تباہ ہو جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔

نکتہ:

تنہا لفظ "طعام" اگرچہ ہر قسم کی کی غذا پر بولا جاتا ہے لیکن سابقہ آیت کی وجہ سے بھی کہ حیوانوں کے گوشت کے لئے ان کے ذبح کے وقت خدا کا نام لینا شرط قرار دیا گیا تھا، نیز روایات اہل بیت کی رو سے بھی اس سے مراد گندم، جو اور دیگر غلہ ہے۔ اور ابن کثیر اور خلیل جیسے ماہرین لغات کہتے ہیں کہ "حجاز کی لغت میں "گندم" کو بھی "طعام" کہا جاتا ہے" (تفسیرالمیزان)

چونکہ اس آیت کی رو سے دینی اقلیتوں (یہود و نصاریٰ) کے ساتھ آمد و رفت، غذا کھانے اور ان کی عورتوں سے نکاح کی راہیں کھل جاتی ہیں اور ممکن ہے کہ مسلمان یہود و نصاریٰ کی لڑکیوں کو حاصل کرنے کے لئے اپنی روزانہ کی آمد و رفت میں اضافہ کر دیں اور آہستہ آہستہ ان کے افکار و آداب کو اپنانے لگ جائیں اور اسلام کا راستہ چھوڑ کر کافر ہو جائیں لہٰذا آیت کا آخری حصہ اس قسم کے خطرات کے پیش نظر مسلمانوں کو متنبہ کر رہا ہے۔

"اخدان"، "خدن" کی جمع ہے جس کا معنی ہے "دو دوست" لیکن عام طور پر مخفی اور غیرشرعی دوستوں کے لئے بولا جاتاہے۔

اس آیت میں مسلمانوں کے لئے سابقہ محدودیت کو لازم قرار نہیں دیا گیا، بلکہ اہل کتاب کے ساتھ ارتباط اور معاشرے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس لئے کہ مسلمان طاقتور ہو چکے ہیں اور کفار مسلمانوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔

آیت مذکورہ میں فریقین (مسلمانوں اور اہلِ کتاب) کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے طعام سے استفادہ کریں، لیکن ازدواج کے بارے میں اسلام نے مسلمانوں کو اہلِ کتاب سے رشتہ لینے کی اجازت دی ہے لیکن رشتہ دینے کی اجازت نہیں دی، اس لئے کہ عورتیں عموماً اپنے لطیف اور ہمدردانہ جذبات کے تحت مرد کے زیراثر آ جاتی ہیں۔ چنانچہ اگر کتابیہ عورتیں اسلام کو اپنا لیں گی تو یہ اسلام کی ترقی کی ایک صورت ہو گی جبکہ مسلمان عورتیں اگر اہلِ کتاب کے مذہب کو اپنا لیں گی تو یہ اسلام کی تنزلی کی ایک صورت ہو گی۔ اسی لئے مسلمانوں کا اہلِ کتاب کو رشتہ دینا جائز نہیں ہے۔

زنانِ اہل کتاب سے ازدواج سے مراد نکاح موقت (متعہ ہے) اور اس کی چند دلیلیں ہیں۔

۱ ۔ اس بارے میں متعدد روایات موجود ہیں۔ ۲ ۔ لفظ "اجورھن" کا استعمال، کہ جو زیادہ تر متعہ کے مہر کے لئے استعمال ہوا ہے۔ ۳ ۔ چونکہ عدم زنا اور دوستانہ مراسم کی شرط ازدواج موقت (متعہ) سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے جبکہ دائمی عقد (نکاح) کے سلسلہ میں زنا یا دوستانہ مراسم کی بات نہیں ہوتی۔

البتہ شیعہ اور سنی علماء میں سے کچھ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ کتابیہ عورت سے ہر قسم کا عقد (دائمی یا موقت) جائز ہے اور اس میں کوئی جرم نہیں ہے۔

پیام

۱ ۔ احکام اور قوانین میں "زمانہ" کے عنصر سے غافل نہیں ہونا چاہئے( الیوم )

۲ ۔ کسی نعمت کی حرمت یا حلیت ممکن ہے کہ تدریجی طور پر ہو، جبکہ شراب یا سور کی حرمت تدریجی طور پر ہوئی۔ اور یہ تدریج بھی حکمت اور مصلحت کے تحت تھی۔

اسی طرح بنی اسرائیل پر بعض حلال چیزیں ان کے ظلم کی وجہ سے ان پر حرام قرار دے دی گئیں۔ (سورہ بقرہ/ ۱۰۹) یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بعض ممنوع چیزوں کے استعمال کو حلال قرار دے دیا۔ لیکن زیربحث آیت نے کلی طور پر تمام پاک و پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دے رہی ہے۔

۳ ۔ ازدواجی روابط میں اقتصادی اور لین دین کے روابط سے افکار میں رسوخ و نفوذ کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے لہٰذا خبردار رہنا اور اہل کتاب کو اپنا رشتہ نہ دینا۔

۴ ۔ پاکدامنی خواہ کسی بھی مذہب و ملت میں قابلِ ستائش ہے( والمحصنات من الموٴمنات والمحصنات من الذین اوتواالکتاب )

۵ ۔ پاکدامنی، مردوں اور عورتوں دونوں قسم کے افراد کے لئے لازمی شرط ہے( محصنین، محصنات )

۶ ۔ عورت کو حق مالکیت حاصل ہے خواہ وہ مسلمان ہے یا غیرمسلم( اجورهن )

۷ ۔ دھوکہ، فریب اور جعل سازی خواہ غیرمسلم ہی سے کیوں نہ ہو ہر حالت میں ممنوع ہے( آتیتموهن اجورهن )

۸ اہل کتاب سے مراسم، ان کے محلوں میں رہائش، ان کے ملکوں میں سفر، لغزش کے مواقع فراہم کرتے ہیں، اس لئے اس آیت میں جہاں پر ان سے مراسم قائم کرنے کی اجازت دی گئی ہے وہاں پر اس بات سے بھی خبردار کیا گیا ہے کہ اپنے ایمان کو بچائے رکھنا۔

۹ ۔ مخفی اور غیرشرعی دوستی خواہ غیرمسلمان سے ہی کیوں نہ ہو ناجائز اور ممنوع ہے( ولا متخذی اخذان )

۱۰ ۔ خبردار! اقتصادی اور خاندانی رابطے تمہارے عقیدوں کو تبدیل نہ کر دیں اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اپنے ایمان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھو۔( ومن یکفر بالایمان )

آیت ۶

( یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا قُمْتُُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ فَاَغْسِلُوْا وُجُوْهَکُمْ وَ اَیْدِیَکُمْ اِلَی اْلمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُ وْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِط وَ اِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْاط وَ اِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلَی سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ مِّنْهُط مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَه عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ )

ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لیا کرو، اور اپنے سروں اور پاؤں کے کچھ حصے کا ٹخنوں (پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ) تک کا مسح کر لیا کرو۔ اور اگر تم حالت جنب میں ہو تو خود کو پاک (غسل) کر لیا کرو۔ اور اگر تم بیمار یا مسافر ہو یا تم میں سے کوئی شخص نشیبی جگہ (قضائے حاجت سے) لوٹا ہے یا عورتوں کو (جنسی آمیزش کے لئے) ہاتھ لگایا ہے تو اگر (غسل یا وضو کے لئے) پانی تک تمہاری رسائی نہیں ہے تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ پس چہرے اور ہاتھوں (کے کچھ حصے) پر اس مٹی سے (جو تمہارے ہاتھوں پر رہ گئی ہے) مسح کر لیا کرو۔ اللہ نہیں چاہتا کہ تمہارے لئے مشکل اور تنگی پیدا کرے، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پرتمام کرے شاید کہ تم اس کے شکرگزار (بندے) بن جاؤ۔

سورہ نساء کی ۴۳ ویں آ یت میں غسل اور تیمم کے مسئلہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہاں پر مذکورہ دو مسائل کے علاوہ وضو کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

"قیام" کا لفظ جب "الیٰ" کے ساتھ استعمال ہو تو اس کا معنی "ارادہ کرنا" ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے "( قمتم الی الصلٰوة ) " کا معنی ہو گا اور جب تم نے نماز پڑھنے کا ارادہ کر لیا"۔

"جنب" کے لفظ کا مرد، عورت، مفرد اور جمع سب کے لئے یکساں اطلاق ہوتا ہے۔ اور اس آیت میں شاید جنب سے مراد "احتلام" ہو، اور "عورتوں کو ہاتھ لگانے" سے مراد جنسی آمیزش ہے۔

"( فاطهروا ) " کا لفظ "غسل کرنے" کا معنی دے رہا ہے۔ اور سورہ نساء کی ۴۳ ویں آیت میں "فاطھروا" کی بجائے "تغتبلوا" ہے۔

"( الی المرافق ) " کا جملہ ہاتھوں کی دھونے کی مقدار کو بیان کر رہا ہے نا کہ دھونے کی کیفیت کو۔ (یعنی دھونے کی مقدار کہنیوں سے انگلیوں کے سرے تک ہے نا کہ انگلیوں کے سرے سے لے کر کہنیوں تک)

تیمم میں بھی عبادت کی روح موجود ہے۔ کیونکہ ہاتھوں کا خاک پر مارنا اور پھر اس کا عضائے بدن میں سے بالاترین عضو (چہرے) پر ملنا ایک قسم کی تواضح اور خاکساری ہے جس کا اظہار جلیل القدر خدا کے سامنے کیا جاتا ہے۔

جس طرح پانی آلودگیوں کو دور کرتا ہے اسی طرح پاک مٹی بھی جراثیم کشی کی صلاحیت رکھتی ہے کیونکہ اس پر سورج کی شعاعیں پڑ چکی ہوتی ہیں۔

"صعید" کا لفظ "صعود" سے نکلا ہے۔ جس کا معنی ہے بلند، اور یہ بلند زمین کی طرف اشارہ ہے۔ اس لئے کہ برجستہ اور بلند زمین کی مٹی آلودگی اور نجاست سے بچی رہتی ہے۔ یا پھر اس سے مراد وہ مٹی ہے جو زمین کی بلند جگہوں پر ہوتی ہے۔

پیام

۱ ۔ طہارت، نماز کے لے شرط ہے( فاغلوا )

۲ ۔ جس طرح قرآن کو پاکیزہ لوگ مس کر سکتے ہیں اسی طرح خدا سے بھی رابطہ کرنے کے لئے طہارت ضروری ہے۔

۳ ۔ نجاست سے آلودگی اور کثافت، قرب خداوندی سے مانع ہے۔ ۱۴

۴ ۔ نماز کے لئے غسل جنابت واجب ہے( اذاقمتم الی الصلٰوة-- وان کنتم جنبا فاطهروا )

۵ ۔ نماز کے شرائط اور مقدمات میں تخفیف تو ہو سکتی ہے لیکن انہیں بطور کلی ختم نہیں کیا جا سکتا۔

۶ ۔ ناپاک مقدمات کے ذریعہ خداوند پاک و منزہ کی بارگاہ میں حاضری نہیں دینی چاہئے۔( صعید اطیبا )

۷ ۔ جس طرح خوراک پاک اور طیب ہونی چاہئے اسی طرح پاک اور طیب مٹی سے تیمم کے ساتھ خدا کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔

۸ ۔ کلام کا کلی اصول یہ ہے کہ اس کے دوران آداب کو پیش نظر رکھا جائے( لامستم النساء ) صرف ان مسائل میں بے حجاب گفتگو کی جاتی ہے جن کا تعلق حقوق سے ہوتا ہے، تاکہ کسی کا حق ضائع نہ ہو۔ جیسے عورتوں کے حق مہر کے بارے میں ہے کہ "دخلتم بھن" یا حضرت مریم سلام اللہ علیہا سے تہمت کو دور کرنے کے لئے فرمایا کہ "( احصنت فرجها )

۹ ۔ بعض اوقات صرف ایک کلمہ ہی سے نہیں بلکہ ایک حرف سے بھی کلام کا مطلب الٹ ہو جاتا ہے۔ جیسے (وامسحوابرو سکم) ہے کہ اگر اس میں "روو سکم" ہوتا تو اس سے سارے سر کا مسح مراد ہوتا نہ کہ کچھ حصے کا۔

۱۰ ۔ دین میں دشواری اور مشکل نہیں ہے( من خرج )

۱۱ ۔ غسل، وضو اورتیمم کا مقصد معنوی اور اندرونی طہارت کا حصول اور خداوند متعال سے رابطہ قائم کرنا ہوتا ہے( لیطهرکم ) ۱۵

۱۲ ۔ خدا کی طرف سے عائد فرائض انسان کے لئے نعمت ہیں (( لتم نعمة علیکم )

۱۳ ۔ فرائض کی ادائیگی، خدا کا شکر ہے( لعلکم تشکرون )

آیت ۷

( وَاذْکُرُوْ ا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ وَمِیْثَاقَهُ الَّذِیْ وَ اثَقَکُمْ بِهٓ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَاتَّقُوْا اللّٰهَ ط اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ م بِذَاتِ الصُّدُوْرِ )

ترجمہ: اپنے اوپر خدا کی نعمت کو یاد کرو نیز اس عہد و پیمان کو بھی، جو اس نے تم سے لیا ہے جبکہ تم نے کہا تھا کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔ اور اللہ سے ڈرو کیونکہ اللہ سینوں کے اندر چھپے ہوئے حالات سے آگاہ ہے۔

نکتہ:

آیت میں اگرچہ ایک کلی اور عمومی تنبیہ ہے لیکن ممکن ہے کہ چند دلائل کے پیش نظر اسلامی امہ کی قیادت اور رہبری کا مسئلہ اور قیادت کی اطاعت مراد ہو۔ اور وہ دلائل یہ ہیں۔

۱ ۔ خدا کی طرف سے عطا کردہ قیادت اور رہبری خدا کا میثاق ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی داستان میں ان کا اپنی ذریت میں امامت کے لئے درخواست کرنا اور خدا کا جواب دینا کہ "ظالم افراد میرے عہد (امامت) کو نہیں پہنچیں گے۔"

۲ ۔ جب حضرت علی علیہ السلام کو مقام غدیرخم میں منصب امامت پر فائز کر دیا گیا تو آیت نازل ہوئی کہ "میں نے اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں"

۳ ۔ غدیرخم کے مقام پر لوگوں نے علی علیہ السلام کی بیعت کی اور "سمعاً و طاعةً " (یعنی ہم نے سن لیا اور اطاعت کریں گے) کہا۔ شاید اس آیت میں لوگوں کوایک بار پھر قائد اور رہبر کے ساتھ کئے ہوئے اس عہد و پیمان کو پورا کرنے کے لئے بلایا گیا ہو جو انہوں نے غدیرخم کے مقام پر کیا تھا۔

پہلی آیت میں ایفائے عہد کو لازمی قرار دیا، تیسری آیت میں رہبر اور قائد کی تعین کرکے دین کو کامل کر دینے کا مژدہ سنایا اور اس آیت کے آخر میں اس خدا کا تقویٰ اختیار کرنے کو کہا جو جان کی گہرائیوں اور دلوں کے راز سے بخوبی واقف ہے۔

"( سمعنا و اطعنا ) " کہہ کر سننے اور اطاعت کرنے کا پیمان ہوتا ہے جو ہر قسم کے عہد و پیمان کو شامل ہے جو انسان فطری، طبعی، قولی یا عملی طور پر انبیاء سے باندھتا ہے۔ جیسے ان کی بیعت ہے اور توحید و نبوت کی گواہی ہے۔

پیام:

۱ ۔ نعمت کو یاد کرنا بھی، نعمت کا شکر ادا کرنا ہے۔

۲ ۔ عظیم ترین اور کامل ترین نعمت قیادت اور رہبری کی نعمت ہے۔ (جو کہ اس سے پہلے والی آیت میں ذکر ہو چکی ہے) اور اس نعمت کی یادآوری مسلمین کے ولی امر کی اطاعت ہے۔

۳ ۔ اس آیت کی نعمت، میثاق، سمع و طاعت اور ذات الصدور جیسے مفاہیم پر تاکید اور وہ بھی غدیرخم کے واقعہ کے بعد اور آیت ۳ میں بیان ہونے والے مضمون کی فراموشی اور اس کی خلاف ورزی پر تنبیہ اور اشارہ ہو سکتا ہے کہ خبردار! غدیرخم میں پیش کئے گئے خطوط سے منحرف نہ ہو جانا۔ (جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے، ملاحظہ ہو تفسیر نورالثقلین)

آیت ۸

( یَاَیُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِ مَنَّکمُْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُْوا ط اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوْا اللّٰهَ ط اِنّ َاللّٰهَ خَبِیْرٌ بِّمَا تَعْمَلُوْنَ )

ترجمہ۔ اے وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہو! ہمیشہ اللہ کے لئے قیام کرو۔ اور عدالت کی گواہی دو اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں عدالت کے ترک کرنے کی طرف نہ لے جائے، عدل کرو کہ وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے۔ اور خدا سے ڈرو کیونکہ جو کچھ تم کرتے ہو یقیناً اللہ تعالیٰ اس سے آگاہ ہے۔

نکتہ:

اسی آیت سے ملتی جلتی مگر قدرے تفاوت کے ساتھ سورہ نساء کی ۱۳۵ ویں آیت ہے کہ "( یایهاالذین امنواکونوا قوامین بالقسط شهدآ ء لله ولو علی انفسکم اوالوالدین والاقربین ) ۔۔۔ " یعنی اے ایماندارو! مکمل طور پر عدالت کے ساتھ قیام کرو، خدا کے لئے گواہی دو خواہ یہ تمہارے اپنے یا تمہارے والدین اور عزیز و اقارب کے لئے ہی نقصان دہ کیوں نہ ہو۔

یعنی کسی قسم کا کینہ تمہیں عدالت کی راہ سے نہ ہٹا دے۔۔۔

چونکہ لوگوں سے کینے کا جدا ہونا مشکل ہوتا ہے لہٰذا اس آیت میں چند فرمان اور چند ترغیبیں پیش کی گئی ہیں۔

پیام:

۱ ۔ عدالت اجتماعی صرف اور صرف خدا اور معاد (قیامت) پر ایمان ہی کے سایہ میں برقرار ہو سکتی ہے (ی( ٰا یها الذین امنوا--- --- اعدلوا--- ) ورنہ جس نظام میں نہ مبدا کا تصور ہو اور نہ معاد کا، نہ تو جبر کا کوئی ولی و وارث ہو اور نہ ہی کسی قسم کا حساب کتاب تو اس کا کیا فائدہ؟ انسان ہوں اور عدالت کااجرا کریں اور غصے پر قابو پائیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

۲ ۔ اگر انسان کا مقصد کینہ پروری قرار پا جائے تو خلوص و اخلاص رخصت ہو جاتا ہے لیکن اگر اس کا مقصد رضائے الٰہی ہو تو ہر قسم کے کینے کافور ہو جاتے ہیں۔

۳ ۔ ہمیشہ کی عدالت اور وہ بھی عادت اور ملکہ کی صورت میں ہو تو قابل قدر ہوتی ہے وقتی اور عارضی عدالت کا کوئی فائدہ نہیں۔( قوامین )

۴ ۔ عدالت صرف ایک اخلاقی صفت ہی نہیں خدا کا حتمی فرمان بھی ہے۔( کونوا )

۵ ۔ انتقام اور کینہ توزی، عدالت سے انحراف کے اسباب میں سے ایک عامل ہے۔( شنان قوم )

۶ ۔ داخلی اور خارجی سیاست حتیٰ کہ دشمنوں کے ساتھ بھی عدالت کے ساتھ رفتار کرنی چاہئے۔( شنان قوم )

۷ ۔ مومنین کا خدا کے ساتھ بھی رابطہ ہوتا ہے (ہمیشہ خدا ہی کے لئے قیام کرتے ہیں) اور لوگوں کے ساتھ بھی ان کا رابطہ ہوتا ہے کہ عدل کے ساتھ گواہی دیتے ہیں( شهدآء بالقسط )

۸ ۔ فریضہ جس قدر سنگین اور مشکل ہو گا اس کے بارے میں تاکید اور تشویق بھی اسی قدر زیادہ ہو گی کیونکہ لوگوں کی دشمنی کو نظرانداز کرنا سخت مشکل بات ہوتی ہے لہٰذا اس آیت میں "کونوا" "اعدلوا" اور "اتقوا" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

۹ ۔ "قسط" اور "عدل" کا ایک ہی مفہوم ہے کیونکہ آیت میں "قسط" کی تفسیر "عدل" سے کی گئی ہے۔( شهداء بالقسط--- اعدلوا )

۱۰ ۔ کینہ ور اور منتقم مزاج لوگ عادل نہیں ہو سکتے۔

۱۱ ۔ عادل اور منصف لوگ تقویٰ سے زیادہ نزدیک ہیں اور قرآن ان کے لئے موجب ہدایت ہے۔

آیت ۹ , ۱۰

( وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصَّلِحٰتِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ- وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا اُوْلٰئِٓکَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ )

ترجمہ۔ جو لوگ ایمان لے آئے اور شائستہ اعمال بجا لاتے رہے اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کے لئے بخشش اور بہت بڑا اجر ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا، وہ سب دوزخی ہیں۔

نکتہ:

قرآن مجید میں چند مختلف اقسام کے اجر کا ذکر ہے۔ "اجر کریم"، "اجر کبیر" اور "اجر عظیم"۔

خدا کا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہوتا "( ان الله لا یخلف المیعاد ) " یعنی اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ۔ (آل عمران۔۔۔ ۹)

"حجیم" کا لفظ "حجم" سے ہے جس کا معنی ہے " آگ کا شدت سے بھڑکنا" چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی داستان میں ہے کہ انہیں نمرود نے "حجیم" یعنی شعلہ ور آگ میں ڈالا تھا۔ اور "( اصحاب الحجیم ) " کا معنی ہے جو لوگ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔

پیام:

۱ ۔ ایمان اور عمل صالح دو ایسے عناصر ہیں جو گزشتہ گناہوں کی تلافی کرتے ہیں اور آئندہ کے لئے گناہوں سے بچنے کا موجب ہوتے ہیں۔( مغفرة- اجر )

۲ ۔ گزشتہ اعمال کی یادآوری اور عاقبت، کی طرف توجہ، انسان کے ارادوں کے لئے زبردست اہمیت کے حامل ہیں۔

۳ ۔ مغفرت، اجر کے عطا کرنے کا مقدمہ ہوتی ہے( مغفرة و اجر )

۴ ۔ کافروں اور آیات الٰہی کی تکذیب کرنے والوں کی سزا ابدی جہنم ہے۔

آیت ۱۱

( یَاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ اِذْهَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْا اِلَیْکُمْ اَیْدِیْهِمْ فَکَفَّ اَیْدِیْهِمْ عَنْکُمْ وَ اتَّقُوْااللّٰهَ ط وَ عَلٰی اللّٰهِ فَلْیَتَوَکّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ) ہ

ترجمہ۔ اے ایمان والو! خدا کی وہ نعمت یاد کرو جو اس نے تمہیں عطا کی ہے جب (دشمنوں کی) ایک جماعت نے ارادہ کر لیا تھا کہ تمہاری طرف دست ستم دراز کرے (اور تمہیں ختم کر دے) لیکن خدا نے ان کے دست تجاوز کو تم سے کوتاہ کر دیا اور خدا سے ڈرتے رہو اور مومنین کو چاہئے کہ صرف خدا پر ہی توکل کریں۔

نکتہ:

اگرچہ اس بارے میں اختلاف ہے کہ یہ آیت کس سلسلہ میں نازل ہوئی ہے، لیکن اسے تمام ان واقعات کے بارے میں سمجھنا چاہئے جہاں پر مسلمانوں نے دشمنوں کے غلط ارادوں اور جارحیت کے ارتکاب کے موقع پر خدا پر توکل کرکے کامیابی حاصل کی اور نجات پائی۔

پیام:

۱ ۔ خدائی نعمتوں کی یادآوری ایک طرح کا شکر ہوتا ہے اور انسان کو غرور و غفلت سے دور کرکے اس کے خدا کے ساتھ عشق کو دوبالا کرتی ہے۔

۲ ۔ دشمن کے خطرات کو دور کرنا خدا کی اہم ترین نعمت ہے۔

۳ ۔ خدا سے تقویٰ، اس پر توکل اور ایمان رکھ کر لطف پروردگار کو حاصل کرو، اور دشمن کے خطرات کو خود سے دور ہٹاؤ۔ (جس طرح کہ گناہ کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انسان پر اس کے دشمن کو مسلط کر دیتا ہے، اسی طرح خدا کی طرف توجہ دشمنوں کو دور بھگانے کا موجب ہوتی ہے)

آیت ۱۲

( وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْ اِْسرَآ ءِ ْیلَ وَ َبعَثْنَا مِنْهُمْ اِثْنَی عَشَرَ نَقِیْبًا ط وَ قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مَعْکُمْ ط لَئِنْ اَقَمْتُمْ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّکَٰوةَ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَ عَزَّرْ تُمُوْهُمْ وَ اَقْرَضْتُمُ اللّٰهُ قَرَضًا حَسَنًالَّا ُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّاٰ تِکُمْ وَلَا ُدِخِلَنَّکُمْ جَنّٰتٍ تَّجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الّاَنْهَرُ فَمَنْ کَفَرَ بَعْدَذٰلِکَ مِنْکُمْ فَقْدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ ) ہ

ترجمہ: یقینا اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور ہم نے ان میں سے بارہ سرپرست اور رہبر (بارہ گروہوں کے لئے) معبوث کئے۔ اور اللہ نے (ان سے) فرمایا: میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم کرو، زکوةٰ ادا کرو اور میرے رسولوں پر ایمان لے آؤ اور ان کی مدد کرو اور اللہ کو قرض حسنہ دو تو میں (بھی) یقیناً تمہارے گناہوں کو چھپاؤں گا اور تمہیں بہشت کے ایسے باغات بھیجوں گا جن کے (درختوں کے) نیچے نہریں بہتی ہیں۔ تو اس کے بعد تم میں سے جو شخص بھی کافر ہو جائے تو وہ راہِ راست سے بھٹک جائے گا۔

نکتہ:

بنی اسرائیل کے نقیب بارہ افراد تھے، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وزیر اور بنی اسرائیل کے بارہ ٹولوں (گروہوں) کے سرپرست اور رہبر تھے۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : "میرے بعد میرے بارہ خلیفے ہوں گے بنی اسرائیل کے نقیبوں کی تعداد کے برابر: ۱۶

مسلک اہلبیت علیہم اسلام کے مخالفین اس تعداد کو خلفائے راشدین، خلفائے بنی امیہ اور خلفائے بنی عباس سے پورا کرنے کی فضول کوشش کرتے چلے آئے ہیں لیکن کبھی بھی یہ تعداد ان سے پوری نہیں ہو سکی۔ جبکہ ا س کے برعکس پیغمبر اکرم کی زبانی بیسیوں ایسی احادیث منقول ہیں جن میں ان بارہ نائبین کا نام بنام تذکرہ ہے اور حضرت علی سے لے کر حضرت امام مہدی علیہم السلام تک بارہ اماموں کا کہیں تفصیلی اور کہیں اجمالی تذکرہ ہے۔

"عذرتموھم" کا کلمہ لفظ "عذر" سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے کسی کی اس انداز میں امداد کرنا کہ احترام بھی اس کے ساتھ ہو۔ اسی طرح "تعزیر" کالفظ ہے جس سے مجرم کو ترک جرم میں مدد ملتی ہے۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی سزائیں تربیتی پہلو کی حامل ہوتی ہیں نا کہ انتقامی پہلو کی۔

"( سواء السبیل ) " کا معنی ہے راستے کا درمیانی حصہ کہ جس سے انحراف، سقوط اور گمراہی کا موجب ہوتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ خدا ہمارے ساتھ چند شرائط کی وجہ سے ہوتا ہے اور وہ ہیں نماز، زکوٰة، ایمان، انبیاء کی نصرت، راہ خدا میں خرچ کرنا وغیرہ اور ان کے بغیر لطف پروردگار ختم ہوجاتا ہے۔

۲ ۔ نماز، زکوٰة اور انفاق ازراہ خدا میں خرچ کرنا، تمام آسمانی ادیان میں شامل ہے۔

۳ ۔ انبیاء عظام پر صرف ایمان ہی کافی نہیں، ان کی نصرت بھی ضروری ہے (وعذرتموھم)

۴ ۔ صرف واجبات کی بجاآوری ہی کافی نہیں ہوتی، واجبات اور مستحبات مل کر ہی کارساز اور کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ (نماز، زکوٰة اور انفاق)

۵ ۔ مخلوق خدا کی امداد ہی خدا کی امداد ہوتی ہے( اقرضتم الله )

۶ ۔ دین کے راہنما کو خدا ہی کی طرف سے معبوث ہونا چاہئے (بعثنا) اور انبیاء کے برگزیدہ افراد بھی خدا کے فرمان کے مطابق ہونے چاہئیں۔

۷ ۔ نماز، زکوٰة اور انفاق بھی صحیح معنوں میں اس وقت حقیقت کا روپ حاصل کرتے ہیں جب خدائی رہبر اور قائد کی رہنمائی میں انجام دیئے جائیں۔ اور وہ بھی تمام انبیاء کی ولایت کو تسلیم کرنے کے ساتھ نا کہ بعض کی۔

۸ ۔ رہبر اور قائد اگر خود انہی لوگوں میں سے ہو تو اپنے مقاصد میں کامیاب رہتا ہے۔( بعثنا منهم )

۹ ۔ بہشت "قیمت" دے کر حاصل کی جاتی ہے حیلوں بہانوں سے نہیں۔ اگر نماز، زکوٰة، انبیاء پر ایمان، ان کی امداد، راہ خدا میں انفاق ہو گا تو بہشت بھی ملے گی ورنہ نہیں!

۱۰ ۔ بہشت پلید لوگوں کی جگہ نہیں ہے، پہلے پاک ہونا چاہئے پھر بہشت میں داخلہ ممکن ہوگا۔( لاکفرون--- لارخلنکم )

۱۱ ۔ خدا کی بخشش تک دسترسی، ایمان اور عمل صالح ہی سے ہو سکتی ہے( لاکفرن )

۱۲ ۔ میثاق، اتمام حجت اور لطف پروردگار کے حصول کی شرائط کے بیان کے بعد اب کسی کے لئے کوئی عذر اور بہانہ باقی نہیں رہ گیا۔

آیت ۱۳

( فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبِهِمْ قٰسِیَةً یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِه وَ نُسَوْا حَظًّا مِمَّا ذُکِّرُوْا بِه وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَآئِنَةٍ مِّنْهُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ط اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ )

ترجمہ: پس ان کی پیمان شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا وہ کلمات (الٰہی) کی اپنی جگہ سے تحریف کرتے ہیں۔ اور جو چیز کے ان کے گوشزد کی گئی تھی اس کے کچھ حصے کو فراموش کر دیا۔ اور تم ہمیشہ ان کی (نئی) خیانت سے آگاہ ہوتے رہتے ہو (روزانہ ان کی نئی سازش اور نئی خیانت ہوتی ہے) مگر ان میں سے بہت کم لوگ (جو سنگدل، تحریف کرنے والے اور خائن نہیں ہیں) پس تم ان سے درگزر سے کام لو اور ان کی لغزشوں کو معاف کر دو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

نکتہ:

۱ ۔ اس سورت کی سب سے پہلی آیت میں ایفائے عہد کی بات ہوئی ہے، بارہویں آیت میں بنی اسرائیل کے خدا کے ساتھ عہد و پیمان باندھنے اور پھر اس سے روگردانی کا تذکرہ ہے اور زیرنظر آیت عہدشکنی کے نتائج کا پتہ دے رہی ہے۔ اسی لئے اس سورت (مائدہ) کو "سورہ عہد" بھی کہتے ہیں، اگر تمام آیات کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ پیمان شکنی کے بارے میں زبردست تنبیہ کی گئی ہے۔

پیام:

۱ ۔ عہدشکنی لطف الٰہی سے محرومی اور سنگدلی کی پیدائش کا موجب ہوتی ہے( لعنا هم جعلنا قلوبهم قاسیة ) ۱۷

۲ ۔ عہدشکنی، سنگدلی کا اور سنگدلی دین میں تحریف اور تصرف کرنے کا موجب ہوتی ہے۔( وقلوبهم قاسیة یحفون )

۳ ۔ بنی اسرائیل ہمیشہ سے خیانت کرتے چلے آ رہے ہیں۔( لاتزال )

۴ ۔ بنی اسرائیل کی عہدشکنی اور اس عہدشکنی کے نتائج سے تم بھی عبرت حاصل کرو( فبمانقضهم--- )

۵ ۔ جو لوگ دین میں تحریف کرتے ہیں وہ اپنے ایک بہت بڑے حصے کو فراموش کر دیتے ہیں۔( یحرفون، نسواخط )

۶ ۔ عفو درگزر نیکی کی ایک بہترین قسم ہے( فاعف--- محسنین )

آیت ۱۴

( وَمِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّا نَصٰرٰی اَخَذْنَا مِیْثَاقَهُمْ فَنُسُّوْا حَظًّا مِمَّا ذُکِّرُوْا ِبه فَاَغْرَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَوَاةَ وَ الْبََغْضَآءُ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَ سَوْفَ یُنَبِّئُهُمُ اللّٰهُ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ )

ترجمہ: اور جن لوگوں نے کہا کہ ہم "نصاریٰ" ہیں ہم نے ان سے (بھی) عہد لیا، تو انہوں نے (بھی بنی اسرائیل کی طرح) اس کے ایک حصے کو فراموش کر دیا جو انہیں بتایا گیا تھا۔ پس ہم نے ان کے درمیان دشمنی اور کینے کو قیامت کے دن تک ڈال دیا۔ اور اللہ تعالیٰ بہت جلد انہیں ان کے کئے سے آگاہ کردے گا۔

نکتہ:

۱ ۔ سابقہ آیت میں بنی اسرائیل کی عہد شکنی کی بات ہو رہی تھی اور اس آیت میں نصاریٰ کی پیمان شکنی کا تذکرہ ہے، اس آیت میں تمام بنی اسرائیل کو عہدشکن بتایا گیا (سوائے چند لوگوں کے "( الاقلیلا منهم ) اور اس آیت میں پہلے سے ہی نصاریٰ کے صرف ایک گروہ کو پیمان شکن کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے (من الذین) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کے گمراہ لوگوں کی تعداد نصرانیوں کے گمراہوں سے زیادہ ہے (از تفسیر نمونہ)

۲ ۔ "نصاریٰ" جمع ہے "نصرانی" کی، چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوستوں کا یہ نعرہ تھا کہ "نخن انصار اللہ" یعنی ہم خدا کے یارو مددگار ہیں۔ اس لئے عیسائیوں کو "نصاریٰ" کہتے ہیں۔

۳ ۔ "بغضاء" باطنی دشمنی اور بغض و کینہ کو کہتے ہیں جبکہ "عداوت" ظاہری دشمنی کو کہا جاتا ہے۔

۴ ۔ نصرانیوں کو بتائی ہوئی باتوں میں سے بعض کو فراموش کر دینا یہ ہے کہ وہ "توحید" کی حدود سے بڑھ کر "تثلیث" کی حدوں تک جا پہنچے اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت تبلیغ کو قبول کرنے کی بجائے ان کے بارے میں بتائی ہوئی خدا کی نشانیوں کو چھپا دیا۔

پیام

۱ ۔ دعوے تو زیادہ ہوتے ہیں لیکن عمل اور حقیقت بہت کم ہوتی ہے۔( قالوا انا نصاریٰ )

۲ ۔ تفرقہ بازی اور فرقہ بندی کی جڑ، خدا کو فراموش کر دینا ہے، جبکہ توحید پرستی وحدت و اتحاد کا موجب ہوتی ہے۔( فتسوا--- فاغرینا ) ۔

۳ ۔ خدا کی طرف سے کرائی گئی یاددہانی کو فراموش کر دینے حقائق اور عہدین (قدیم و جدید عہدوں) کو چھپانے کا نتیجہ تفرقہ اور دشمنی ہوتا ہے۔

۴ ۔ دوسروں کی عہدشکنی کے تلخ نتائج سے عبرت حاصل کرو (ہم نے نصاریٰ سے عہد و پیمان لیا اور انہوں نے اسے فراموش کر دیا لہٰذا بدبختی او رشقاوت سے دوچار ہو گئے، خبردار تم ایسا نہ کرنا)

۵ ۔ یہود اور نصاریٰ تا قیامت باقی ہیں اور منقرض نہیں ہوں گے( الی یوم القیمة )

۶ ۔ تفرقہ اور دشمنی، خدائی عذاب کا ایک حصہ ہیں( نسوا--- فاغرینا )

۷ ۔ تمہارے سارے کام خدا کی نظروں میں ہیں لہٰذا خدا تمہیں تمہارے اعمال کی سزا اور جزا دے گا۔( ینبئهم الله بما کانوایصنعون )

آیت ۱۵

( یَاَ ْهلَ الْکِتٰبِ قَدْجَآئَکُمْ رُسُولِنَا یُبَیِّنَ لَکُمْ کَثِیْرًا مِمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ ط قَدْ جَآءَ کُمْ مِنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَ کِتٰبٌ مُبِیْنٌ )

ترجمہ: اے اہل کتاب! یقیناً تمہارے پاس ہمارا رسول آ چکا ہے جو (آسمانی) کتاب کے ان بہت سے حقائق کو تمہارے لئے بیان کرتا ہے جو تم چھپاتے ہو۔ اور بہت سے حقائق سے (کہ جنہیں تم چھپاتے ہو اور سر دست ان کی ضرورت نہیں) چشم پوشی کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کی خدا کی طرف سے تمہارے پاس نور اور واضح کتاب پہنچ چکی ہے۔

پیام:

۱ ۔ اسلام ایک عالمی دین ہے اور سب ادیان کو حق اور اپنی طرف دعوت دیتا ہے( یٰاهل الکتاب )

۲ ۔ لوگوں کو راہ راست کی دعوت دینے سے مایوس نہ ہو جاؤ حتیٰ کہ عہدشکن اہل کتاب کو بھی دعوت دینے سے گریز نہ کرو( یااهل الکتاب )

۳ ۔ انبیاء علیہ السلام کے فرائض میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ ایسی چیزوں کو بیان کریں جو چھپائی گئی ہیں( یبین-- )

۴ ۔ چھپائے گئے مطالب کو بیان کرنا پیغمبر کی غیب دانی کی دلیل اور ان کی معرفت کا ایک راستہ ہے۔ (تفسیر المیزان)

۵ ۔ توریت ہو یا انجیل دونوں میں تحریف کی گئی ہے( کثیر ابما تخفون )

۶ ۔ اسلام سب سے آسان اور نہایت ہی سادہ دین ہے (( یعفوا عن کثیر )

۷ ۔ تبلیغ و ارشاد کا ایک شیوہ یہ بھی ہے کہ مطالب کو بقدر ضرورت بیان کیا جائے ناکہ کسی کو رسوا کیا جائے یا اسے نقصان پہنچایا جائے( ویعفوا عن کثیر )

۸ ۔ یہ کائنات اور عالم انسانیت قرآن کے بغیر تاریک( قدجاء کم من الله نور )

آیت ۱۶

( یَهْدِیْ بِهٓ اللّٰهُ مِنُ اتَّبْعِ رِضْوَانَه سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُم ْمِنَ الظُّلُمتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِه وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ) ہ

ترجمہ: اللہ تعالیٰ اسی (نور) کے ذریعہ ان لوگوں کو سلامتی کے رستوں کی ہدایت کرتا ہے جو رضائے الٰہی کی پیروی کرتے ہیں۔ اور انہیں اپنے (لطف وکرم اور) حکم سے تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے اور سیدھے رستے کی ہدایت کرتا ہے۔

نکتہ

"سلام" اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے "( السلام الموٴمن المهیمن--- ) " اور بہشت کو "دارلسلام" کہا جاتا ہے، گویا "سلام" کی راہوں کی ہدایت کا مقصد اللہ اور بہشت کی راہوں کی ہدایت ہے۔ اور اگر ان دونوں "سلام" تک پہنچنا مقصود ہو تو "سبل اسلام" کو اختیار کرنا چاہئے جو پیروان حق سے مخصوص ہے۔

"سلام" فرد و معاشرہ، خاندان و نسل اور فکر و روح و ناموس غرض ہر قسم کی سلامتی کو شامل ہے۔

پیام

۱ ۔ صرف وہی لوگ قابل ہدایت ہیں جو رضائے حق کے حصول کی کوشش کرتے ہیں، نا کہ جاہ و مقام، مال و منال، ہوائے نفسانی اور انتقام کے طلبگار ہوتے ہیں۔

۲ ۔ رضائے الٰہی کے پیروکاروں کے واضح مصداق "غدیرخم" کے بتائے ہوئے رستوں پر گامزن افراد ہیں۔ کیونکہ " رضیت لکم الاسلام دینا" کی سورت اسی دن نازل ہوئی تھی۔ (ملاحظہ ہو تفسیر اطیب البیان)

۳ ۔ سلامتی اور سعادت کی تمام راہیں رضائے الٰہی کے حصول سے ہی ملتی ہیں۔ اور جو شخص "غیراللہ" کو راضی کرے گا وہ گمراہی کی راہوں پر گامزن ہو گا۔

۴ ۔ "نور" صرف ایک ہی ہے اور "ظلمات" (تاریکیاں) بہت زیادہ ہیں( ظلمات، نور )

۵ ۔ حصول حق کے لئے متعدد فروعی رستے، انجام کار حق کے اصل راستے تک لے جاتے ہیں۔ "( سبل اسلام ) " (سلامتی کی راہیں) صراط مستقیم تک جا پہنچاتی ہیں۔ اور یہ سب راستے جو مختلف حالات میں گوناگوں فرائض کی بجاآوری اور رضائے الٰہی کے حصول کے ساتھ ایک ہی راستے تک پہنچ جاتے ہیں۔

۶ ۔ صرف نور اور کتاب ہی کافی نہیں خدا کا لطف و کرم اور ارادہ بھی ضروری ہے( باذنه )

۷ ۔ منزل مقصود ایک ہی ہے لیکن اس تک پہنچنے کی راہیں متعدد ہیں (یعنی "سبل السلام"، رضوان اللہ تک پہنچا دیتے ہیں)

۸ ۔ قرآن مجید اور مکتب وحی فرد اور معاشرے، روح اور جسم، افطار اور نظام کی ہر گونہ سلامتی کی ضمانت دیتے ہیں۔( سبل السلام )

۹ ۔ عالم انسانیت قرآن مجید کے زیرسایہ بقائے باہمی اور صدق و صفا کے زریں اصولوں کے تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔( سبل السلام )

۱۰ ۔ قرآن مجید تمام ظلمانی بیماریوں کی شافی علاج ہے چاہے وہ شکوک و شبہات کی ظلمانی بیماری ہو یا خواہشات، خرافات، جرائم اور کوئی دوسری ظلمانی بیماری۔۔۔

آیت ۱۷

( لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ ط قُلْ فَمَنْ یَّمْلِکُ مِنَ اللّٰهِ شَیْئًا اِنْ اَرَادَا اَنْ یُّهْلِکَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَ اُمَّه وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا َولِلّٰهِ مُلْکَ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَاط یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ ط وَاللّٰهُ عَلَی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ )

ترجمہ: جن لوگوں نے یہ کہا کہ (حضرت عیسیٰ) مسیح بن مریم ہی اللہ ہے تو یقیناً وہ کافر ہو گئے (اے پیغمبر! ان سے) کہہ دو کہ اگر خدا ارادہ کرے کہ مسیح بن مریم اور اس کی ماں کو اور روئے زمین پر موجود تمام لوگوں کو ہلاک کر دے تو کون شخص ان سب کو خدا کے اس ارادے سے بچا سکتا ہے؟ اور زمین اور آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کی حکومت اللہ ہی کے لئے ہے۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

نکتہ:

خدا کے بارے میں عیسائیوں کے چند بے بنیاد دعوے ہیں قرآن مجید جن کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ:

۱ ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ خدا تین ہیں: اور قرآن یکتا ہے "( لاتقو لوائلئة ) " یعنی یہ نہ کہو کہ خدا تین ہیں۔ (نسأ/ ۱۷۱)

۲ ۔ وہ کہتے ہیں خداوند خالق کائنات ان تین خداؤں میں سے ایک ہے جو کہ "باپ خدا" ہے قرآن مجید اس عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے "( قالوا ان الله ثالث ئلٰئة ) " یعنی وہ کہتے ہیں کہ اللہ تین میں سے تیسرا خدا ہے (مائدہ/ ۷۳)

۳ ۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا، حضرت عیسیٰ اور روح القدس سب ایک ہیں، اور یہ آیت اسی عقیدہ کی رو میں ہے۔ قرآن کہتا ہے "( مخلق ما یشاء ) " یعنی خدا جو چاہے پیدا کرے، اور یہ حضرت عیسیٰ کی بغیر باپ کے اور حضرت آدم کی بغیر ماں اور باپ کے پیدائش کی طرف اشارہ ہے۔

پیام

۱ ۔ اسلام، کفر، شرک اور خرافات کے مخالفت ہے خواہ وہ کسی مذہب و ملت میں ہو (غلو بھی ایک قسم کا کفر ہے)

۲ ۔ اگر حضرت عیسیٰ مسیح خدا ہیں تو پھر (تمہارے اپنے عقیدے کے مطابق) کیونکر قتل ہو گئے؟ اور "صلیب" کس لئے ان کی مظلومیت کی علامت قرار پائی؟ خدا کو تو قتل نہیں کیا جا سکتا۔

۳ ۔ خدا تو ماں کے شکم میں نہیں ٹھہرتا اور تم کہتے ہو "مسیح بن مریم"۔

۴ ۔ "واجب الوجود" (خدا) ہونے کے ساتھ فنا اور نیستی کا احتمال قطعاً ہی سازگار نہیں

۵ ۔ انسان ہونے کے ناتے حضرت عیسیٰ، ان کی والدہ اور روئے زمین کے لوگ سب یکساں ہیں۔( المسیح بن مریم و امه و من فی الارض جمیعا )

۶ ۔ قدرت خداوندی کسی خاص نظام میں محدود نہیں ہے، وہ چاہے تو بغیر باپ کے بیٹا پیدا کر سکتی ہے۔( علیٰ کل شیٴ قدیر )

آیت ۱۸

( وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهَ وَ اَحِبَّائُوه ط قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوْبِکُمْ ط بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِمَّنْ خَلَقَ ط یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَعَذِّبُ مَّنْ یَّشَآءُ ط وَاللّٰهُ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا وَ اِلَیْه ِالْمَصِیْرُ )

ترجمہ۔ یہود اور نصاریٰ کہتے آ رہے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے (خاص) دوست ہیں۔ تو (اے پیغمبر! ان سے) کہہ دو کہ پھر تمہیں وہ تمہارے گناہوں کی سزا کیوں دیتا ہے؟ (ایسی بات نہیں ہے) بلکہ تم بھی اس کی مخلوقات میں سے (باقی انسانوں کی طرح) انسان ہو (اور تمہیں کوئی خاص امتیاز حاصل نہیں ہے) خدا جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے سزا اور عذاب دے، اور آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب خدا ہی کے لئے ہے اور (سب کی) بازگشت اسی کی طرف ہے۔

نکتہ

جب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا "ہم تو خدا کے بیٹے اور اس کے دوست ہیں" ۱۹ (ملاحظہ ہو تفسیر نمونہ منقول از تفسیر فخر رازی)

یہود اور نصاریٰ خود کو خدا کا حقیقی فرزند نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایک قسم کے تکلف کے طور پر خدا کا منہ بولا بیٹا سمجھتے تھے۔ "ابناء اللہ" ان کی کسی دلیل کے بغیر بلند پروازی کی توقع سے ایک کنایہ ہے۔

پیام

۱ ۔ نسل پرستی، امتیازطلبی، خود کو یا اپنے گروہ اور اپنی جماعت کو برحق جاننا اور دوسروں کو ناحق سمجھنا، ضوابط کو چھوڑ کر روابط کو اپنانا، قطعاً ممنوع اور ناجائز ہے( بل انتم بشرممن خلق )

۲ ۔ کوئی بھی فرد، قوم، نسل اور امت خدا کی بخشش سے سو فیصد مطمئن نہ ہو جائے اور نہ ہی اس کی رحمت سے قطعاً مایوس ہو جائے( یغفر لمن یشاء ویعذب من یشاء )

۳ ۔ گستاخ یہودی، خدا کی اس قدر آیات کو دیکھ لینے کے باوجود اس قدر جرائم کے مرتکب ہوتے ہوئے بھی خود کو خدا کا خاص دوست سمجھتے تھے، اس سے بڑھ کر اور کیا ڈھٹائی اور بے شرمی ہو سکتی ہے؟ ۲۰

آیت ۱۹

( یَاَهْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآئُکُمْ رُسَولِنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلیَ فِتْرَةِ مَنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَ نَا مِنْ بَشِیْرٍ وَلاَ نَذِیْر فقد جائکم بشیر و نذیر ط والله علی کل شئی قدیر )

ترجمہ: اے اہل کتاب! ہمارا رسول اس دوران میں تمہارے پاس آیا ہے جس میں رسول نہیں آئے۔ تاکہ (کہنے کی باتوں کو) تمہارے لئے بیان کرے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ تم (قیامت کے دن) یہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا۔ اب یقیناً بشارت دینے والا اور ڈرانے والا (پیغمبر) تمہارے پاس آ گیا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

نکتہ

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا درمیانی فاصلہ اور "فترت" کا عرصہ تقریباً چھ سو سال ہے۔

جس دوران میں کوئی پیغمبر مبعوث نہیں ہوتا، زمین پھر بھی محبت خدا سے خالی نہیں ہوئی اس لئے کہ اس دوران میں انبیاء علیہم السلام کے اوصیاء موجود ہوتے ہیں۔ بقول حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام "زمین ہرگز حجت خدا سے خالی نہیں ہوتی چاہے وہ طاقتور ہوں یا کمزور تاکہ خدا کا راستہ، طے کرنے والوں کے لئے مخفی نہ رہے" ۲۱ تو معلوم ہوا کہ فترت کا عرصہ ایسا نہیں ہے کہ بندوں کو کسی ہادی اور راہنما کے چھوڑ دیا جائے۔

پیام

۱ ۔ انبیاء علیہم اسلام کا کام ان حقائق کو بیان کرنا ہے جو چھپائے جا چکے ہوتے ہیں یا جن میں تحریف کی جا چکی ہوتی ہے یا جنہیں فراموش کر دیا گیا ہوتا ہے( یبین لکم )

۲ ۔ فترت کا عرصہ یا لمبی یا طویل مدت کا فاصلہ خدا کے تربیتی نظام میں مفید پروگراموں کا ایک حصہ ہے۔ ۲۲

۳ ۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت، لوگوں کے لئے اتمام حجت ہوتی ہے اور ان کے واسطے عذر اور بہانے کی راہیں بند کر دیتی ہے۔( ما جاء نا من بشیر ) ۔۔۔ )

۴ ۔ انبیاء کی تبلیغ کا انداز بشارت اور انذار (ڈرانا) ہوتا ہے۔

۵ ۔ حضرت محمد مصطفی صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے بارے میں شک نہ کرنا (کہ دنیا میں کسی سے سبق نہ پڑھنے والا انسان کیونکہ چھپائے جانے والے حقائق اور دینی تحریفات کو بیان کر سکتا ہے؟) کیونکہ خداوند عالم ہر کام پر قدرت رکھتا ہے۔

۶ ۔ انبیاء کا کام صرف بشارت (خوشخبری دینا) اور انذار (ڈرانا) ہے، اب یہ انسان کا اپنا کام ہے کہ کس راہ کا انتخاب کرتا ہے، کیونکہ اس بارے میں انسان آزاد ہے۔

آیت ۲۰

( وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِه یٰقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمْةَ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآءَ وَ جَعَلَکُمْ مَلُوْکًا وَ اٰتَکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ اَحَدَ مِنَ الْعٰلِمِیْنَ )

ترجمہ: اور (اس وقت کو یاد کرو کہ) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! خدا کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تمہیں دی ہے کہ اس نے تمہارے درمیان انبیاء مقرر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا (اور تم، لوگوں کے جان و مال، عزت و ناموس اور ملک و حکومت کے لئے صاحب اختیار قرار پائے) اور تمہیں وہ چیزیں عطا کیں جو تمام جہانوں میں سے کسی ایک کو نہیں دیں۔

پیام

۱ ۔ خدائی نعمتوں کی یادآوری خدا کے ساتھ عشق، اس کے شکر اور اس کی عبادت کرنے کا موجب ہوتی ہے۔

۲ ۔ نبوت، حکومت، اقتدار اور آزادی جیسی نعمتیں ہوتی ہیں۔

۳ ۔ لوگوں کو دعوت دینے کے لئے ان کے جذبات اور احساسات کے عناصر کو پیش نظر رکھنا چاہئے( یٰقوم )

۴ ۔ کسی کے کام کے لئے اور اپنے ساتھ چلنے کے لئے لوگوں کو دعوت دینے کے واسطے پہلے انہیں خدا کے لئے لطف و کرم کی یاد دلائی جائے پھر انہیں اپنے ساتھ ملا یا جائے۔ (اس آیت میں خدا کی نعمتوں کا ذکر ہے اور بعد کی آیت میں ایک اہم فرمان صادر ہو رہا ہے)

۵ ۔ نعمتوں میں سے خصوصی نعمات کو یاد کیا جانا چاہئے( آ تا کم مالم یوٴت احدا ) ۔۔۔ ) ۲۳

۶ ۔ لوگوں کے لئے خدا کی نعمتوں کی یاددہانی انبیاء کے فرائض میں شامل ہے( اذکرو نعمة الله ) ۔

۷ ۔ تاریخ سے عبرت حاصل کرو، کیونکہ موسیٰ کی قوم خدا کی خصوصی نعمتوں سے بہرہ مند ہونے اور حکومت حاصل کرنے کے بعد، ذلت اور خواری کا شکار ہو گئی۔( لم یوٴت احدا من العالمین )

آیت ۲۱

( یَقَوْمِ ادْخُلُوْا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰهُ لَکُم وَلَا تَرْتَدُوْ ا عَلَی اَدْباَرِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ )

ترجمہ: (موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا) اے میری قوم! مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جسے خدا نے تمہارے لئے مقرر کر دیا ہے اور اپنے پچھلے پاؤں واپس نہ لوٹو (پیچھے نہ ہٹو) ورنہ خسارہ اٹھا کر واپس لوٹو گے۔

نکتہ:

"ارض مقدس" یا تو شامات کے تمام علاقے (شام، اردن اور فلسطین وغیرہ) مراد ہیں یا پھر صرف "بیت المقدس" مراد ہے۔

"( لاترتدوا ) " کے تحت پیچھے کی طرف نہ لوٹنے سے مراد یا تو اس راستے سے واپس نہ پلٹنا ہے جو اختیار کئے ہوئے ہیں یا پھر احکام و فرامین الٰہی کو پشت نہ کرنا مراد ہے۔

پیام

۱ ۔ عوام اور رہبر کا ایک دوسرے سے رابطہ اور تعلق گہرا اور پیار و محبت پر مبنی ہونا چاہئے( یٰقوم )

۲ ۔ تمام زمینیں ایک جیسی نہیں ہوتیں بعض مقامات کو زیادہ تقدس حاصل ہوتا ہے( الارض المقدسة )

۳ ۔ بنی اسرائیل میں سرکشی کاعنصر پایا جاتا تھا جس کی بنا پر انہیں پیچھے لوٹنے سے روکا گیا ہے( لاترتدوا )

۴ ۔ خدا کا بندوں پر لطف وکرم مشروط ہوتا ہے (اس آیت میں مقدس سرزمین کا مقدر ہونا ان لوگوں کے لئے بیان کیا گیا ہے کہ( کتب الله لکم ) جبکہ ایک اور آیت میں وہی سرزمین ان پر چالیس سال تک حرام قرار دی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ: "( فانها محرمته علیهم بعین سنته ) "

۵ ۔ دین سے فرار اور مرتد ہونے کا انجام "خسارت" ہے۔

۶ ۔ مقدس سرزمینوں کو نااہل افراد کے چنگل سے نکالنا چاہئے( ادخلوا الارض المقدسة )

سورہ مائدہ آیت ۲۲

( قَالُوْا یٰمُوْسٰی اِنَّ فِیْهَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ وَ اِنَّا لَنْ نَّدْ خُلْهَا حَتّٰی یَخْرُجُوْا مِنْهاَ فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا فَاِنَّا دْاخُلُوْنَ )

ترجمہ: (بنی اسرائیل نے جواب میں) کہا اے موسیٰ! اس (زمین) میں ظالم اور جابر لوگ (رہتے) ہیں اور ہم ہرگز اس میں داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ لوگ اس سے باہر نہیں چلے جائیں گے۔ پس اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم یقیناً اس میں داخل ہو جائیں گے۔

نکتہ

" جبار " کا حکمہ "جبر" سے لیا گیا ہے، جس کا معنی ہے زور اور غلبہ کے ساتھ کسی چیز کی اصلاح کرنا، پھر ان دونوں میں سے ہر ایک معنی جداگانہ طور پر استعمال ہونے لگا۔

۱ ۔ تلافی کرنا ۲ ۔ قہر اور غلبہ اور خداوند عالم کے بارے میں اس کلمہ کے دونوں معنی استعمال ہوتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو تفسیر نمونہ)

"قوم جبار" سے مراد "شام" کی نسل سے "عمالقہ" تھے جو جزیرہ نمائے عرب کے شمال اور صحرائے سینا میں رہتے تھے۔ اور مصر پر حملہ کرکے وہاں پر پانچ سو سال تک حکومت کرتے رہے۔ (ملاحظہ ہو کتاب "دائرة المعارف" از فرید وجدی)

پیام

۱ ۔ کسی مقام پر نااہل افراد کا ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اہل اور شائستہ افراد موجود ہی نہیں ہیں۔ لہٰذا چاہئے کہ دشمن کو نکال باہر کیا جائے اور اس بات کا انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ وہ خودبخود باہر نکل جائے گا۔

۲ ۔ آرام طلبی صحیح نہیں ہے لہٰذا آگے بڑھنا چاہئے اور امدا دکی اپیل کرنی چاہئے تاکہ دشمن کو نکال باہر کیا جا سکے۔

۳ ۔ جنگ میں سستی اور شکست کا موجب احساس کمتری اور خوف ہے( لن ند خلها ) ۲۴

سورہ مائدہ آیت ۲۳

( قَالَ رُجُلٰنِ مِنَ الَّذِْینَ یُخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوْا عَلَیْهِمُ الْبَابَ فَاِذَا دَخَلَْتُمُوْهُ فَاِنَّکُمْ غٰلِبُوْنَ وَ عَلَی اللّٰهِ فَتَوَکَّلُوْا ِانّ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ )

ترجمہ: (ڈرپوک لوگوں کے مقابلے میں) دو خدا ترس افراد نے کہ اللہ نے جنہیں (عقل، ایمان اور جرأت کی) نعمت سے نوازا تھا، کہنے لگے (شہر کے) دروازہ سے ہی ان (دشمنوں) کے پاس داخل ہو جاؤ (اور کسی قسم کا خوف نہ کرو) پس، جونہی تم ان کے پاس پہنچ جاؤ گے تو تم یقینی طور پر کامیاب ہو گے اور خدا پر بھروسہ کرو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔

نکتہ

تفسیروں میں مذکور ہے کہ جن دو افراد کا آیت میں ذکر ہے وہ بنی اسرائیل کے بارہ نقیبوں میں سے تھے جن کا نام ۱ ۔ یوشع بن نون اور ۲ ۔ کالب بن یوفنا تھا، توریت سفر تشنیہ میں یہی نام مذکور ہیں۔ (ملاحظہ ہو تفسیر نمونہ)

تفسیر المیزان میں ہے کہ اگرچہ "نعمت" کا حکم قرآن مجید میں کلی طور پر بیان ہوا ہے لیکن یہاں پر اس سے مراد ولایت اور نبوت کی نعمت مراد ہے۔

پیام

۱ ۔ خدا ترسی (خوف خدا) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور لطف و کرم کے فراہم کرنے کا موجب ہوتی ہے۔ (یخافون انعم اللہ علیہما)

۲ ۔ جو خدا سے ڈرتا ہے وہ دنیا کی کسی اور طاقت سے نہیں ڈرتا۔( یخافون--- ادخلوا )

۔ حرکت میں برکت ہے۔ اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے۔ پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے( ادخلوا علیهم- غالبون )

۔ حملہ کرنے کے موقع پر مجاہدین کے حوصلے بڑھانے چاہئیں( ادخلوا--- فانکم غالبون )

۔ توکل صرف خدا کی ذات پر اور وہ بھی خلوص کی بنیادوں پر ہونا چاہئے( علی الله فتو کلوا )

۔ جرأت اور جسارت بھی ضروری ہے اور تقویٰ اور عہد کی پاسداری بھی لازم ہے( یخافون--- ادخلوا )

۔ دلیرانہ انداز میں دشمن پر تمہارا حملہ اس کی شکست اور کمزوری سبب ہوتا ہے( ادخلوا--- غالبین )

۸ ۔ کامیابی کے دو بنیادی اصول ہیں ۱ ۔ خدا پر ایمان اور توکل اور ۲ ۔ عزم صمیم اور جرأت۔ صرف مادی ذرائع اور ہتھیار کافی نہیں ہیں۔

۹ ۔ خدا پر توکل، سعی اور کوشش کے ساتھ ہونا چاہئے( ادخلوا--- توکلوا )

۰ ۔ اگر دشمن پر خالصانہ انداز میں یلغار کر دو اور ساتھ ہی خدا پر توکل بھی ہو تو یہ تمہاری کمیابی کا ضامن ہو گا۔

۱۱ ۔ خدا کا خوف اور تقویٰ و پرہیزگاری کے ذریعہ انسان میں بصیرت پیدا ہوتی ہے۔ جس سے انسان مسائل کا صحیح طریقے سے تجزیہ و تکمیل کرسکتا ہے۔( یخافون--- انکم غالبون )

۱۲ ۔ توکل لفظوں کا نہیں بلکہ ایمان کی ایک روحانی کیفیت کا نام ہے۔( فتوکلوا ان کنتم موٴمنین )

سورہ مائدہ آیت ۲۴

( قَالُوْا یٰمَوْسٰی اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهاَ اَبَدًا مَا دَامُوْا فِیْهَا فاَذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکُ فَقَاتَلَااِناَّ هُهُنَا قَاعِدُوْنَ )

ترجمہ۔ ان لوگوں (اور بنی اسرائیل) نے کہا: اے موسیٰ ! جب تک کہ وہ (ظالم اور جابر لوگ) اس (شہر) میں ہیں ہم ہرگز اس میں داخل نہیں ہوں گے۔ لہٰذا تم خود اور تمہارے پروردگار جاؤ اور جا کر (ان سے) لڑو۔ ہم تو یہیں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔

نکتہ:

مکہ معظمہ اور بیت المقدس دونوں ہی مقدس سرزمینیں ہیں۔ لیکن حضرت موسیٰ نے جب اپنی قوم سے کہا کہ : "اس سرزمین میں داخل ہو جاؤ اور دشمن سے جنگ کرو!" تو وہ بہانے بنانے لگے اور موسیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی۔ لیکن ۶ ئھجری میں جب مسلمان آنحضرت صلی اللہ علی آلہ وسلم کی ہمرای میں عمرہ کی بجا آوری کی غرض سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے لیکن مکہ پہنچنے سے پہلے ہی روک دئیے گئے۔ اگر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمانوں کو نہ روکتے تو وہ یقینا شہر پر حملہ آور ہوجاتے۔ اور اسی سفر کے دوران ہی "صلح حدیبیہ" عمل میں آئی۔

گویا دونوں قومیں (موسیٰ کی قوم بھی اور پیغمبرِ اسلام کی قوم بھی) دو مقدس شہروں کے دروازے تک پہنچ گئیں لیکن ایک (موسیٰ کی) قوم اس قدر بزدل اور دوسری (محمدِ مصطفےٰ کی) قوم اس حد تک نڈر!

پیام:

۱۔ بنی اسرائیل بے ادبی، بہانہ جوئی، کمزوری اور رفاہ طلبی کا مجسم نمونہ تھے۔ انہوں نے "انا" کا لفظ کہہ کر اپنی برتری اور فوقیت ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ اور یہ بہت بڑی بے ادبی ہے۔( هم )

انہوں نے خدا کے فرمان "ادخلوا" (داخل ہو جاؤ) کے مقابلہ میں "لن ندخلھا" (ہرگز نہیں جائیں گے) کہہ کر جسارت اور گستاخی کی انتہا کر دی۔

"ابدا" (ہمیشہ کے لئے) کا کلمہ ان کی گستاخی اور جسارت پر اصرار کی دلیل ہے۔

"اذھب" (تو خود جا) کے کلمہ سے حضرت موسیٰ کی توہین واضح ہوتی ہے۔

"ربک" (تیرا رب) کے کلمہ سے ذاتِ پروردگار کی توہین ظاہر ہوتی ہے۔

"قاعدون" (ہم بیٹھے ہیں) کے جملہ سے ان کی رفاہ طلبی واضح ہوتی ہے نا کہ عزت خواہی۔

۲۔ بجائے اس کے کہ وہ بذاتِ خود معاشرہ کی اصلاح کے لئے قدم بڑھاتے خدا اور دینی رہبر سے اس کی توقع قائم کرلی۔( قاتلا انا هٰبهنا قاعدون )

۳۔ وہ لوگ تو کامیابی کے حصول کے لئے اپنی جگہ سے ہلنے کے بھی روادار نہیں تھے۔ (ھ( ٰبهُنا )

۴۔ دشمن سے جنگ کے لئے بنی اسرائیل کی سستی اس حد تک شہرت حاصل کرگئی کہ مسلمانوں نے ( ۲ ئھ میں) جنگ بدر شروع ہونے سے پہلے اور ( ۶ ئھ میں) مکہ میں داخل ہونے کے وقت کہ جب کفار نے انہیں مکہ جانے سے روک دیا تھا۔ ا ور "صلح حدیبیہ" کا واقعہ پیش آگیا۔ حضرت رسول خدا کی خدمت میں عرض کیا کہ "ہم بنی اسرائیل کی مانند نہیں ہیں کہ آپ سے کہیں "انا ھٰبہنا قاعدون" (ہم یہیں پر بیٹھے ہیں) ہم ہر حالت میں آپ کے ہم رکاب لڑنے کیلئے تیار ہیں۔"

سورہ مائدہ آیت ۲۵

( قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَا اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِْی وَ اَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ )

ترجمہ۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا پروردگار! میرا بس تو صرف اپنے اور اپنے بھائی پر چلتا ہے پس تو ہمارے اور فاسق و بدکار قوم کے درمیان جدائی ڈال دے۔

نکتہ:

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ دُعا، بنی اسرائیل سے مایوس ہوجانے کے بعد ہوئی۔ جدائی ڈالنے کی درخواست اس لئے کی تھی کہ خدا کے قہر و غضب کی آگ موسیٰ علیہ السلام کے یاران و مددگاران کو نہ جلا ڈالے۔ اور دشمن اپنے کئے کی سزا پائیں۔ یا پھر وہ یہ دُعا مانگ رہے تھے کہ موت دے کر ان کے اور دشمنوں کے درمیان جدائی ڈال دے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس جملہ میں صرف اپنا اور اپنے بھائی کا ذکر کیا ہے۔ اور ان دو حضرات کا ذکر نہیں کیا جو خدا کا خوف رکھنے والے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہم نوا تھے۔ اور لوگوں کو شہر میں داخل ہونے کی رغبت دِلائی تھی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے چنانچہ

تفسیر مراغی میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان دونوں کی ثابت قدمی کا بھی یقین نہیں تھا۔

تفسیر المیزان میں ہے کہ چونکہ حضرت موسیٰ نے خدا سے ان لوگوں کی شکایت کی تھی اور اپنی ذات کے لئے مدد کے طلبگار ہوئے لہٰذا اپنے کم سے کم ساتھیوں کا ذکر کیا۔

تفسیر اطیب البیان میں ہے کہ چونکہ مذکورہ دونوں حضرات کو اس ضدی اور ہٹ دھرم قوم کی طرف سے سنگسار کرنے کی دھمکی مل چکی تھی لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے زبان حال سے بارگاہِ رب العزت میں عرض کیا۔ "پروردگار! اب میرا کوئی بس نہیں چل سکتا، حتیٰ کہ وہ دو حضرات کی جان بھی خطرے میں ہے۔"

پیام:

۱۔ تبلیغ میں انبیاء علیہم السلام کا طریقہ کار "زور اور زبردستی" سے ماورا ہوتا ہے۔( لااملک الانفسی )

۲۔ بددُعا یا خُدا کی بارگاہ میں شکایت اس وقت کی جانی چاہیے جب لوگوں کی اطاعت سے مایوسی حاصل ہوجائے۔

۳۔ انبیاء علیہم السلام کی اطاعت سے روگردانی "فسق" ہے۔

سورہ مائدہ آیت ۲۶

( قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً یَنْهَوْنَ فِی الْاَرْضِ ط فَلَا تاَسَ عَلَی الْقَوْمِ الْٰفسِقِیْنَ ) ہ

ترجمہ۔ (اللہ نے موسیٰ سے) فرمایا! یقینا وہ (مقدس سرزمین) چالیس برس تک ان پر حرام کردی گئی ہے۔ (پس وہ اس سستی اور خلاف ورزی کی وجہ سے) چالیس سال تک زمین میں سرگرداں رہیں گے۔ (اور اس مقدس سرزمین کی مادی اور معنوی نعمتوں سے محروم رہیں گے۔) پس فاسق اور بدکار لوگوں پر افسوس نہ کرو۔

نکتہ:

"یتیہون" کا کلمہ "تیہ " کے لفظ سے لایا گیا ہے جس کا معنی ہے "سرگردانی" لیکن وقت گذارنے کے ساتھ ساتھ "تیہ" "صحرائے سینا" کو کہا جانے لگا جس میں بنی اسرائیل سرگرداں مارے مارے پھرتے رہے۔ اور وہاں پر چالیس برس تک مادی اور معنوی نعمتوں سے محروم رہے۔ اور مقدس سرزمین کی برکات سے کوئی فائدہ نہ اُٹھاسکے۔

بنی اسرائیل کی خلاف ورزی، ان پر خدا کے قہر و غضب اور وادی تیہ میں ان کی سرگردانی کی داستان توریت سفر اعداد فصل چہارم میں بھی موجود ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں! وہ لوگ چالیس سال کی سرگردانی، آوارہ وطنی اور موسیٰ و ہارون سے محروم ہو جانے کے بعد بھی فوجی حملہ کئے بغیر شہر میں داخل نہ ہو سکے۔ اور ان کی رفاہ طلبی نے انہیں تاخیر اور سرگردانی کے سوا کوئی فائدہ نہیں دیا۔"

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ہی فرماتے ہیں کہ: بنی اسرائیل سے ملتی جلتی داستان مسلمانوں کو بھی درپیش آئے گی۔

پیام:

۱۔ کمزوری اور سستی دِکھانے، رہبر کے فرمان سے منہ موڑنے اور جنگ سے فرار کی سزا، خدا کی نعمتوں سے محرومی اور آوارہ وطنی ہوتی ہے۔( فانها محرمة علیهم )

۲۔ سرگردانی، فاسقوں کے لئے عذاب کی ایک قسم ہے۔ اور "نور" و "فرقان" کا حامل ہونا "متقین" کے لئے ایک قسم کا ہدیہ ہے۔

۳۔ میدان جنگ سے فرار کرنے والوں اور تن آسان لوگوں کی سزا یہ ہونی چاہیئے کہ انہیں وسائل اور امکانات اور بعض خصوصیات سے محروم کردیا جائے۔( فانها محرمة علیهم )

۴۔ "اربعین" (چالیس) کے عدد میں ایک خاص رمز ہے جو خدا کے لطف و کرم یا قہر و غضب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

۵۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے نسل قدیم کے منقرض ہوجانے کے بعد ہی نسل جدید کی اصلاح ہوتی ہے۔( اربعین سنة ) ۲۵

۶۔ انبیاء کرام علیھم السلام اور ان لوگوں کے لیے دردمند دل رکھتے ہیں( لا تائس )

۷ ۔ فاسقوں کے لئے کسی قسم کی ہمدردی اور دلسوزی نہیں کرنی چاہئیے۔ مجرم کو سزا، کڑوی دوا کے مانند ہے جو فرد اور معاشرہ کے مفادمیں ہے۔( فلاتائس )

سورہ مائدہ آیت ۲۷

( وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلََ مِنْ اَحَدِهِمَا وَلَمْ یَتَقَبَّلُ مِنَ الْاٰخَرِ ط قَالَ لَاَ قْتُلَنَّکَ ط قاَلَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ )

ترجمہ۔ (اے پیغمبر ! ) ان کے سامنے آدم کے دو بیٹوں کی بر حق داستان پڑھو! جبکہ ا ن میں سے ہر ایک نے (اپنی اپنی) قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی تو قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی ۔ (ہابیل کی قربانی قبو ل ہوئی اورقابیل کی قبول نہیں ہوئی قابیل نے کہا) میں تجھے یقیناقتل کر دو ں گا۔ (ہابیل نے) کہا: خداتو صرف ہر پیز گاروں سے قبول کرتاہے۔

نکتہ

"برحق " داستان کی تلاوت سے مراد شاید یہ ہو کہ یہ داستان تو ریت میں یاتو تحریف کی گئی ہے یا پھر اس کے ساتھ خرافات کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ لیکن جو کچھ قرآن میں ہے وہ حق ہے۔

اسلامی روایات اور توریت (سفر تکوین باب چہارم ) میں مذکورہے کہ ہابیل گلہ بانی کرتے تھے اور انہوں نے اپنی بہترین گوسفند قربانی کے لئے پیش کی اورقابیل کسان تھا اور کھیتی باڑی کا کام کرتاتھا ، اور اپنی زراعت میں سے بد ترین چیز قربانی کے لئے پیش کی ۔ اور قرآن بھی کہتاہے کہ: " لن تنالو اابرحتی تنفقو امماتحبون" یعنی تم نیکی تک ہر گزنہیں پہنچ سکو گے جب تک تم اپنی اس چیز سے خرچ نہیں کر و گے جسے تم دوست رکھتے ہو ،

پیام

۔ تاریخ کا مطالعہ عزت حاصل کرنے کے لیے ہونا چاہئیے( واتل علیهم )

۔ تاریخ کے اہم ترین واقعات بیان کئے جانے چاہئیں( نبا )

۔ تاریخ حقائق کو عام قصے کہانیوں سے جدا رکھنا چاہیئے (ب( الحق )

۔ اصل حقیقت ،،قرب خداوندی ،، ہے ناکہ قربانی تو کسی بھی قسم کی ہو سکتی ہے( قربان )

۔ اعمال کی قبولیت یا عدم قبولیت کے لئے دلی جذبات، روحانی کیفیات اور خصائل کو بڑی حد تک عمل دخل ہوتاہے۔

۔ حسد اور کینہ اس حد تک بڑھ سکتاہے کہ بھائی کو بھائی قتل کر ڈالے(ل( اقتلنک )

۔ اعمال کو قبولیت کا دارو مدار تقویٰ پر ہے ناکہ میں اور آپ !( انمایتقبل الله من المتقین )

۔ قتل اور خونریزی کی تاریخ !تاریخ انسانیت ہی سے شروع ہو جاتی ہے( نباء النبی آدم )

۔ قبولیت یا عدم قبولیت حکمت کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔ کسی کو کسی پر ترجیح دینے کی وجہ سے نہیں ۔( من المتقین )

۔ قاتل کو بھی منطقی جواب دینا چاہیئے( انماتیقبل الله )

۔ خود سازی اور تقوی کا حصول ہر قسم کے دوسرے کام پر مقدم ہے۔( انماتیقبل الله من المتقین )