تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62448
ڈاؤنلوڈ: 5210

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62448 / ڈاؤنلوڈ: 5210
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۲۸

( فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیْهِ کَیْفَ یُوَارِیْ سَوْئَةَ اَخِیْهِ ط قَالَ یٰوَیْلَتٰٓی اَعَجَزْتُ اِنْ اَکُوْنَ مِثْلَ هٰذَا اْلغُرَابِ فَاُوَارَیَ سَوْئَةَ اَخِیْ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ ه ْ اَخَافَ اللّٰهُ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ )

ترجمہ۔ (ہابیل نے اپنے بھائی قابیل سے )کہا! اگر تو نے میرے قتل کے لئے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایاتو میں تیرے قتل کے لئے اپنا ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ کیونکہ میں تو تمام جہانو ں کے پروردگار سے ڈرتاہوں ،

پیام

۱ ۔ حاسدین کے ساتھ نرمی سے بات کرنی چاہیئے ، اور حسد کی آگ کو آرام و سکون کی گفتگوسے بجھایا جائے( لئِن بسطت )

۲ ۔ نہی عن المنکر کا نیک راستہ یہ بھی ہے کہ آپ گناہگار کو اس بات کا اطمینان دلائیں کہ اس سے تجاوزاور زیادتی نہیں کی جائے گی( ماانابباسط یدی---- )

۳ ۔ ہابیل کا قابیل کو قتل کرنے کا ارادہ ہی نہیں تھا ، ناکہ وہ اپنا دفاع کر رہے تھے۔

(کیونکہ قاتل کے آگے سر جھکا دینا ، تقوی سے میل نہیں کھاتا)

۴ ۔ جو چیز قابل قدر ہے وہ یہ کہ کسی کو خوف خدا کی بنیا دپر قتل نہ کیاجائے ناکہ عجز و ناتوانی کی وجہ سے کسی کو قتل نہ کیا جائے۔( انی اخاف الله )

۵ ۔ خوف خدا اور تقوی ، حساس ترین حالات میں گناہ اور سر کسی سے بازو رکھنے کا بہت بڑا عامل ہوتاہے ۔( انی اخاف الله )

آیت ۲۹ ، ۳۰

( اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْآَ بِاِثْمِیْ وَ اِثْمِکَ فَتَکُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَ فَطَوَّعَتْ لَه نَفْسُه قَتْلَ اَخِیْهِ فَقَتَلَه فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ )

ترجمہ۔ میں تو یقینا یہی چاہتا ہوں کہ تو میرے گناہ اور اپنے گناہ کے (بوجھ کے ) ساتھ (خدا کی طرف) پلٹ جائے ۔ اور توجہنمیوں میں سے ہوجائے گا ، اور ظالموں کی یہی سزاہے ،

پس (حسد کی وجہ سے پیدا ہونے والے وسوسوں کی وجہ سے ) اس (قابیل) کے نفس نے بھائی کے قتل کو اس کے لئے آسان اور رام کردیا اور اس نے اسے قتل کر ڈالا ۔ جس کی وجہ سے وہ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گیا۔

نکتہ

ہابیل نہیں چاہتے تھے کہ دوسرے کے گناہ کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائیں ۔ اسی لئے انہوں نے بر ادرکشی اور خونریزی کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا ۔ بلکہ اپنے گناہو ں کابوجھ بھی دوسرے کے کندھوں پر ڈال دیا۔ ایک حدیث میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: من قتل مو منا متعمدا اثبت اللہ علی قاتلہ جمیع الذنوب وبرء المقتول منھا، ذالک قولہ :"انی اریدان تبوا۔۔۔یعنی جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اللہ تعالی مقتول کے تمام گناہ پھر (قاتل ) کے کھاتے میں لکھ دیتا ہے او رمقتول کو گناہوں سے پاک کر دیتاہے (ازتفسیرنورالتقین)

البتہ آیت کا یہ معنی ہر گز نہیں کہ ظالم کے آگے سکوت اختیار کر لیا جائے اس امید کے ساتھ کہ وہ ہمارے گناہ اپنے کندھوں پر اٹھا رہا ہے ۔

پیام :

۱ ۔ مقتول کے گناہ قاتل کو منتقل ہو جاتے ہیں( تبوء باثمی )

۲ ۔ معاد (قیامت) پر ایمان ، روئے زمین کے سب سے پہلے انسانوں کے عقائد کا حصہ رہ ہے ۔( اصحٰب النار )

۳ ۔ نہی المنکر کرنے کی سزا کے علاوہ مظلوم کے گنا ہوں کا بوجھ بھی اٹھانا ہو گا کہ جس کی سزا اورعذاب بہت زیادہ ہے۔

۴ ۔ انسان کا نفس اگر یکبارگی اس پر تسلط حاصل نہ کر سکے تو پھر آہستہ آہستہ اور مختلف ذرائع مثلاً وسوسوں ، مختلف انداز میں آرائش اور دل میں مختلف باتوں کورائج کر نے کے ذریعہ انسان کو رام اور خام کر کے یہی گناہ کا ارتکاب کر ا دیتاہے( فطوعت له نفسه )

۵ ۔ انسان کی پاک "انسانی فطرت " آدم کُشی سے بیزار ہوتی ہے لیکن اس کا نفس اس کام کو اس کے سامنے مزین کر کے پیش کر تا ہے اور اسے انسان کے قتل پر آمادہ کر دیتاہے( فطوعت )

۶ ۔ روئے زمین پر سب سے پہلی موت کا آغاز " شہادت " سے ہوا( فقتله )

۷ ۔ قاتل ‘ خود کو بھی خسارے میں ڈالتا ہے اور مقتول کو بھی خسارہ پہنچاتا ہے ، مقتول کے خاندان کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور معاشرے کو بھی زیاں سے دو چار کرتا ہے۔

۷ ۔ قاتل اندرونی طور پر بھی "ضمیر کے عذاب " میں مبتلا رہتا ہے اور بیرونی طور پر معاشرے کی خدمت میں گرفتار ہوتا ہے ۔ اور قصاص اور عدل کے آ ہنی ہاتھوں میں جکڑا جاتاہے ۔ غرض جس مقصد کے لئے اس نے قتل کیا ہوتا ہے اسے وہ مقصد حاصل نہیں ہوپاتا۔( فاصبح من الٰخسرین )

۷ ۔ حق اور باطل کے درمیان محاذ آرائی اتنا ہی پرانی ہے جتنا انسانی تاریخ۔

آیت ۳۱

( فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیْهِ کَیْفَ یُوَارِیْ سَوْئَةَ اَخِیْهِ ط قَالَ یٰوَیْلَتٰٓی اَعَجَزْتُ اِنْ اَکُوْنَ مِثْلَ هٰذَا اْلغُرَابِ فَاُوَارَیَ سَوْئَةَ اَخِیْ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ ه ْ اَخَافَ اللّٰهُ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ )

ترجمہ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین کھودتا تھا، تاکہ امر (قاتل) کو دکھا سکے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کو کس طرح چھپائے (اور دفن کرے) ۔ اس (قاتل) نے کہا کہ وائے ہو مجھ پر کہ آیا میں اس بات سے بھی عاجز ہوں کہ اس کوے کی طرح ہو سکوں؟ اور اپنے بھائی کے لاشے کو دفن کر سکوں! آخر کار وہ پشیمانوں میں سے ہو گیا۔

نکتہ

قابیل جب اپنے بھائی کے قتل کے گناہ کا مرتکب ہو چکا تو دیکھا کہ درندے اس کی لاش کو کھانے کے لئے اس کی طرف آ رہے ہیں تو اس نے اسے وہاں سے اٹھا لیا اور اٹھائے پھرتا رہا، لیکن جب اسے اس میں بھی کوئی فائدہ نظر نہ آیا اور اسی حالت پر سرگردوں رہا، تو خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے کوے سے سبق حاصل کیا کہ وہ دوسرے مردہ کوے کے جسم کو زمین میں دفن کر رہا ہے تو اس نے اپنے بھائی کی لاش کو زمین میں دفن کر دیا۔

پیام

۱ ۔ بعض اوقات جانوروں کو بھی خدا کی طرف سے ڈیوٹی سونپی جاتی ہے اور پرندوں کی حرکت بھی اس کے فرمان کے مطابق ہوتی ہے جس راستے پر وہ انہیں چلانا چاہتاہے( فبعث الله غرابا )

۲ ۔ ہر قسم کی حرکت سے سبق حاصل کیاجا سکتا ہے بہت سی انسانی معلومات ، حیوانات کی حرکات و سکنات کی مرہون منت ہیں۔

۳ ۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ، مغرور اور سرکش لوگوں کو چھوٹے چھوٹے جانوروں کے ذریعہ ذلیل کروا دیتا ہے تاکہ انہیں یہ باور کروائے کہ ہد ہد اور کوا بھی انسان کو سکھانے کا ذریعہ ہو سکتے ہیں۔ بس غرور کو اپنے دماغ سے نکال دو۔

۴ ۔ انسان کو ہمیشہ سیکھتے رہنا چاہئے خواہ اسے جانوروں ہی سے سیکھنا پڑے! پس اصل چیز "سیکھنا اور نہ یاد کرنا" ہے خواہ کسی سے ہو اور کہیں پر ہو۔

۵ ۔ مردوں کو زمین ہی میں دفنانا چاہئے (ا نہیں شیشے میں رکھنا یا مومیائی کرنا یا جلادینا وغیرہ صحیح نہیں ہے)

۶ ۔ تاریخی طور پر انسان کی زیادہ تر تعلیم، تجربوں کے ساتھ ہوئی ہے۔ تاریخ انسانیت میں تجرباتی تعلیم کی ایک لمبی تاریخ ہے۔

۷۔ پشیمانی، انسانی فطرت کی حق طلبی کی دلیل ہے۔( اصبح من النادمین )

آیت ۳۲

( مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ کَتَبْنَا عَلَی بَنِیْ اِسْرٰاِئیْلَ اَنَّه مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بَغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَمَنْ اَحْیَاهَا فَکَاَنَّماَ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَلَقَدْ جَائَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ ثُمَّ اِنَّ کَثِیْرًا مِنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ ) ہ

ترجمہ۔ اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا (واجب قرار دے دیا) کہ جو شخص کسی انسان کو قتل کرے بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین پر تباہی پھیلائی ہو تو ایسے ہے جیسے اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا۔ اور جو کسی ایک انسان کو زندہ کرے (اسے مرنے سے بچالے) گویا اس نے تمام لوگوں کو زندہ کر دیا۔ البتہ ہمارے رسول روشن دلیلوں کے ساتھ ان کے پاس آئے، پھر ان میں سے بہت سے لوگ (انبیاء کے) اس (پیغام) کے بعد زمین پر اسراف کرنے والے ہوگئے۔

پیام:

۱۔ تاریخ حوادث بعض اوقات فرامین الٰہی کے صدور کا موجب بن جاتے ہیں۔( من اجل ذالک )

۲۔ تاریخی طور پر انسانوں اور ان کی سر نوشت کا چولی دامن کا ساتھ چلا آرہا ہے۔( من اجل ذالک کتبناعلی بنی اسرائیل )

۳ ۔ چاہے انسان کسی قوم ، نسل اور علاقہ سے تعلق رکھتے ہوں سب کی جان محترم ہے( نفسا )

۴ ۔ کسی انسان کو دو صورتوں میں قتل کرنا جائزہے ۔ الف! قاتل سے قصا ص کے طور پر ب۔ مفسد کاخاتمہ کرنے کے عنوان سے ۔

۵ ۔ تمام انسان ، ایک مشرکہ حقیقت اور ایک ہی قسم کی رو ح کے حاصل ہوتے ہیں ۔ اور ایک جسم کے مختلف اعضاء کی مانند لہذا ایک انسان کو قتل کرنا گویا تمام انسانیت کا ایک طرح قتل کرنا ہے( فکا نماقتل الناس جمیعا )

۶۔ روایات کے مطابق لوگوں کو راہ حق کی ہدایات بھی انسانیت کے احیاء (زندہ کرنے ) کی ایک قسم ہے ۔۲۶ اور لوگوں کو گمراہ کرنا انسانیت کا ایک طرح کا قتل ہے۔

۷ ۔ اعمال کی قدرو قیمت کا دارومدا ر ان اعمال کے مقاصد پر ہوتا ہے ۔ ظلم وجود کی بناء پر ایک انسان کا قتل ، پورے انسانی معاشرے کی موت ہے۔ جبکہ کسی کو قصاص کے عنوان کے قتل کرنا پورے معاشرے کی زندگی ہے۔

۸ ۔ کسی ایک انسان کی زندگی یا موت بعض اوقات پورے انسانی معاشر ے کی زندگی یا موت کے لئے موثرہوتی ہے ۔ اور بعض اوقات انفرادی قتل ، اجتماع قتل و غارت کا موجب بن جاتے ہیں ۔

۹ ۔ جس قدر روئے زمین کے لوگوں کا قتل مشکل بات ہے اسی طرح ایک انسان کا قتل بھی خطرناک ہے۔

۱۰ ۔ ہر انسان میں ایک عظیم معاشرے اور جدید نسل کی پیدائش کی صلاحیت ہوتی ہے اسی لئے کسی ایک شخص کی نابودبعض اوقات ایک پوری نسل کی تباہی ہوتی ہے۔

۱۱ ۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی کو بے گناہ قتل کرتا ہے اس کا عذاب اس شخص کی مانند ہے جو تمام لوگوں کو شہید کر ڈالے، اور ایک نفس کی جان بچانے کا اجر پوری انسانیت کو بچانے کے برابر ہے۔(از تفسیر نور الثقلین)

۱۲ ۔ ایک زندہ معاشرے کی شناخت یہ ہے کہ وہ مصیبت میں گھرے لوگوں کو امداد بہم پہنچاتا اور انسانی جانوں کو مرنے سے بچاتا ہے۔( من احیاها فکانما احی الناس جمیعا )

۱۳ ۔ خودکشی اور اسقاط حمل بھی "قتل النفس" میں شمار ہوتے ہیں، اور حرام ہیں۔

۱۴ ۔ ایک فرد کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا پورے انسانی معاشرہ کے امن و امان کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔( وکانما قتل الناس جمیعا )

۱۵ ۔ جو شخص کسی دوسرے انسان کی جان کی قدر و قیمت کو کچھ نہیں سمجھتا یا ذہن میں فساد پھیلاتا ہے تو اس کا اپنا خون بھی بے ارزش ہے ۔ اس کی بھی کوئی قدروقیمت نہیں ہے ۔( بغیر نفس او فساد )

۱۶ ۔ جن لوگوں کاکام انسانی جان کوبچانا ہے ، انہیں اپنی قدروقیمت کو جاننا نہیں چاہیئے۔ مثلاً، ڈاکٹر ،اطباء، نرسیں ، آگ بجھانے والے افراد ، ان کے معاون ، دو کزانے والے افراد وغیرہ( فکانمااحی الناس جمیعا )

۱۷ ۔ انسان خود مختار ہے انبیاء کے تشریف لے آنے کے بعد بھی ان کے بر خلاف رستوں پر چل سکتاہے( بعد ذالک )

۱۸ ۔ لوگوں کے ایمان نہ لانے سے پریشان نہ ہونا ، کیونکہ قدیم الایام سے یہی سلسلہ چلاآرہا ہے۔

( کثیر امنهم بعد ذالک فی الارض لمترفون )

آیت ۳۳

( اِنَّماَ جَزَئُو الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَه وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اِنْ یُّقتَّلُوْا وَ یُصَلَّبُوْا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلَهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ط ذٰلِکَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الَّدُنْیَا وَلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ )

ترجمہ۔ جو خدا اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور (اسلحہ ،دہشت اور لوٹ مار کا ذریعہ) زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، ان کی سزا بس یہی ہے کہ یا تو انہیں قتل کردیا جائے یا سولی پہ لٹکایا جائے یا ان کے مخالف طریقہ سے ہاتھ اور پاؤں کاٹے جائیں ۔ ہاتھ اور پاؤں کاٹنے کی مقدار وہی ہے جو چور کے کاٹنے کی ہے (یعنی ہاتھ کی انگلیاں) اور "مخالف طریقہ" سے مراد جو کہ آیت میں مذکور ہے یہ ہے کہ بالترتیب دائیں ہاتھ کی انگلیاں اور بایاں پاؤں یا بائیں ہاتھ کی انگلیاں اور دایاں پاؤں۔ یا پھر (اپنی) سرزمین سے نکال دئیے جائیں۔ یہ ان کے لئے دنیا میں رسوا کن سزا ہے اور آخرت میں ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔

نکتہ:

آیت کے شان ِ نزول کے بارے میں ہے کہ کچھ مشرکین مدینہ آئے اور مسلمان ہو گئے چونکہ وہ مریض تھے لہٰذا حضور پیغمبرِ خدا کے حکم کے مطابق شہر کے اچھی آب و ہوا کے بیرونی علاقہ میں چلے گئے اور انہیں اس بات کی اجازت تھی کہ وہاں پر زکواة کی اونٹنیوں کے دودھ کو استعمال کر یں، جب وہ وہاں پر ٹھیک ہو گئے تو اور جانوروں کو اپنے ساتھ بھگا لے گئے۔ اور اسلام سے بھی دستبردار ہو گئے۔

اس پر حضرت رسالتمآب نے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دیاجب گرفتار ہو گئے تو آنجناب نے ان کے ساتھ وہی سلوک کرنے کا حکم دیا جو انہوں نے چرواہے سے کیا تھا۔ مذکورہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی۔

آیت میں مذکور سزائیں "حقوق اللہ" میں شمار ہوتی ہیں لہٰذا نہ تو معاف ہو سکتی ہیں اور نہ ہی تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ (تفسیر اطیب البیان) ۲۸

پیام

۱ ۔ معاشرے کی اصلاح کے لئے موعظہ اور تبلیغ بھی لازم ہے اور تلوار اور دو ٹوک اور انقلابی رفتار بھی ضروری ہے۔

(سابقہ آیت میں قاتل کو علمی اور منطقی طور پر خبردار کیا گیا تھا اور یہاں پر ہر ڈاکو اور مفسد کی سزا کو بیان کیا گیا ہے)

۲ ۔ خلق خدا کے ساتھ جنگ، خود خدا کے ساتھ جنگ ہوتی ہے اور جو لوگ مخلوق خدا کے مقابل آتے ہیں گویا خود خدا کے مقابلہ میں آتے ہیں۔

۳ ۔ جو لوگ معاشرے کے امن و سکون کو تہ و بالا کرتے ہیں ان کے لئے کئی قسم کی سزائیں مقرر کی گئی ہیں، موت ، جلا وطنی، ہاتھ اور پاؤں کا کاٹنا اور سولی پر لٹکانا۔

۴ ۔ سزائیں، عدالت کے مطابق ہیں، چونکہ فسادات اور مفسدین کی خصوصیات مختلف ہوتی ہیں لہٰذا سزائیں بھی ایک جیسی نہیں ہیں۔ اگر فساد میں دردناک پہلو ہوتا ہے تو اس کی سزا قتل ہے۔ اگر عام قسم کا ہوتا ہے تو سزا جلا وطنی ہے۔ اور یہ بات روایت سے معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ قتل کی سزا موت ہے۔ ڈرانے دھمکانے اور دہشت پھیلانے کی سزا جلاوطنی ہے چوری کی سزا ہاتھ پاؤں کاٹنا ہے

قتل اور مسلحانہ ڈکیتی کی سزا ہاتھ اور پاؤں کاٹنا اور پھانسی ہے۔ (تفسیر صافی)

۵ ۔ سخت قسم کی سزائیں، ستم پیشہ لوگوں کے لئے ہیں تاکہ ان لوگوں کے لئے جو اچانک اس معاملہ میں آ پھنسے ہیں۔( یحاربون- یسعون )

۶ ۔ حدود و احکام الٰہی کا اجرا اسلام نظام ِ حکومت کے سائے میں ہی ہو سکتا ہے یہیں سے پتہ چلتا ہے کہ دین سیاست سے جدا نہیں ہے۔

۷ ۔ حکومت اور نظامِ حکومت کا فرض ہے کہ شہروں ، دیہاتوں اور رستوں کے امن و امان کو یقینی بنائے۔

۸ ۔ رسول ِ خدا کی ولایت کے مخالفین کہ جو نبوی حکومت کو ختم کرنا چاہتے ہیں یا نظام کے ساتھ برسر پیکار ہیں ان کا قلع قمع کر دینا چاہئے۔

۹ ۔ جو لوگ امام المسلمین یا صحیح اسلامی حکومت پر خروج کرتے ہیں وہ "یحاربون اللہ" (خدا سے لڑنے والوں ) کے زمرے میں آتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو تفسیر فی ظلال القرآن)

۱۰ ۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں اور فسادی کی جلا وطنی کا عرصہ ایک سال ہے اور لوگوں میں اس کی جلا وطنی کا اعلان کرنا چاہئے تاکہ جلا وطن شخص سے لوگوں کا کسی قسم کا رابطہ نہ ہو سکے۔ (تفسیر نور الثقلین)

۱۱ ۔ قرآنی آیت کی رو سے "سود خور" بھی "خدا کے ساتھ جنگ کرنے والا" ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی معاشرہ کے اقتصادی امن و امان کو تباہ کرتا ہے۔ روایت کے مطابق کسی مسلمان کی توہین بھی خدا کے ساتھ جنگ میں شمار ہوتی ہے۔ حدیث کی رو سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "من اھانی لی ولیا فقد بار زنی ابالمحاربة" یعنی جس نے میرے کسی دوست کی توہین کی اس نے مجھے جنگ کے لئے للکارا۔

آیت ۳۴

( اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلُ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْهِمْ فَاعْلَمُوْا ) ( اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌه )

ترجمہ۔ مگر جو لوگ ان پر تمہارے قابو پانے سے پہلے تو بہ کرلیں، تو جانے رہو کہ خدا وند عالم بخشنے والامہربان ہے۔

نکتہ

خدا اور رسول کے ساتھ لڑنے والے ڈاکو اور مفسد کی توبہ سے صرف اسے ڈرانے دھمکانے کی سزا اٹھ سکتی ہے لیکن قتل اور چوری کی سزا اسے ضرور ملے گی۔ یعنی توبہ صرف "حقو ق اللہ " میں موثر ہوتی ہے "حقوق الناس" میں نہیں۔ کیونکہ حقوق الناس کا تعلق حقداروں کی رضا مندی سے ہوتا ہے۔ "محارب" کا اپنا علیحدہ عنوان ہوتا ہے اور چور اور قاتل کا اپنا علیحدہ حساب۔ (ملاحظہ ہو تفسیر نمونہ)

پیام

۱ ۔ توبہ کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھلا ہوا ہے۔

۲ ۔ ایسی توبہ قابلِ قدر ہوتی ہے جو مجرم کی گرفتاری اور عدالت میں پیش ہونے سے پہلے ہو۔ اور پھر یہ کہ پوری سوجھ بوجھ ، سوچ سمجھ بغیر کسی جبر و اکراہ اور مکمل آزادی کے ساتھ کی جائے۔ (دوسرے گناہوں میں توبہ مرنے سے پہلے تک مفید ہے۔ ملاحظہ ہو سورہ نساء / ۱۸)

ضمنی طور پر یہ بات بھی جاننی ضروری ہے کہ سزا ختم کرنے کے لئے حقیقی توبہ کا معلوم ہونا ضروری ہے ( کہ مجرم کے اخلاق ، رفتار اور کردار سے عیاں ہو یا پھر دو عادل آدمی گواہی دیں)

۳ ۔ خدا کی مقرر کردہ سزائیں، فرد اور معاشرے کی اصلاح اور تربیت کی حامل ہوتی ہیں، ان میں جذبہ انتقام کار فرما نہیں ہوتا ۔ لہٰذا گنہگار کی توبہ موثر ہوتی ہے۔

آیت ۳۵

( یَاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِه لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) ہ

ترجمہ۔ اے ایماندارو! خدا سے ڈرتے رہو اور (اس کے تقرب کے لئے) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کروہو سکتا ہے تم فلاح پا جاؤ۔

نکتہ

حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۱۰ میں فرماتے ہیں ۔ "بہترین وسیلہ کہ جس کے ذریعہ خدا کا تقرب حاصل ہو سکتا ہے ، خدا کی ذات اور اس کے پیغمبر پر ایمان ، اس کی راہ میں جہاد، کلمہ اخلاص ، نماز کا قائم کرنا، زکوٰة کا ادا کرنا ماہ رمضان کو روزوں کا رکھنا، حج اور عمرہ کا بجا لانا، صلہ رحمی کرنا، خدا کی راہ میں چھپا کر اور ظاہر کرکے خرچ کرنا اور نیکی کا کام کرنا۔"

پیام

۱ ۔ سعادت اور فلاح و کامیابی کا راستہ، ایمان ، تقویٰ ، شفاعت اور جہاد ہے۔( لعلکم تفلحون )

۲ ۔ فلاح اور رستگاری تک پہنچنے کے لئے گناہوں کو بھی ترک کرنا چاہئے اور خدا اور رسول کی اطاعت بھی کرنی چاہئے۔( اتقوالله- وابتغوا-- )

۳ ۔ نیکی کے تمام کام ، سعادت و نیک بختی کے وسیلہ اور ذریعہ میں بشرطیکہ ہم خود گناہوں کا ارتکاب کرکے ان وسیلوں کو ختم نہ کردیں۔( لعلکم )

۴ ۔ اہلِ بیت اطہار علیہم السلام خدا تک پہنچنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا وسیلہ اور اس کی مضبوط رسی ہیں۔

آیت ۳۶ ، ۳۷

( اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَ مِثْلُه مَعْه لِیْفَتَدُوْابِه مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُم وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ )

( یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَمَا هُمْ بِخَارِجِیْنَ مِنْهَا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِیْمٌ )

ترجمہ: یقیناً جو لوگ کافر ہوگئے ہیں، اگر روئے زمین پر جو کچھ ان کے پاس ہے اور اس کے برابر کے بھی (زمین پر موجود دوگنا کے) مالک بن جائیں اور وہ قیامت کے دن سزا سے بچنے کے لئے سب کچھ فدیہ کے طور پر یکجا دے دیں تو بھی ان سے قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

اور وہ جب بھی جہنم سے باہر آنا چاہیں گے تو اس سے نہیں نکل سکیں گے اور ان کے لئے پائیدار عذاب ہے۔ ۳۰

پیام:

۱ ۔ مال ، صرف دنیا میں ہی کارآمد ہوتا ہے اور آخرت میں یہ دولت بیکار ہے( ماتقبل--- )

۲ ۔ عدل الٰہی کے نظام میں دوزخ سے نجات حاصل کرنے کے لئے فدیہ قبول نہیں (م( اتقبل )

۳ ۔ کافر، ہر حالت میں جہنمی ہے اور کسی بھی قیمت اس کی بخشش نہیں ہے۔

۴ ۔ سعادت اور نیک بختی کا عامل انسان کے اندر موجود ہے (یعنی ایمان، تقویٰ اور جہاد) نا کہ اس کے باہر میں (مال اور ثروت وغیرہ)

۵ ۔ کافروں کو ملنے والا دائمی عذاب نہ تو فدیہ سے ٹل سکتا ہے اور نہ ہی زمانے کے گزرنے سے ختم ہو سکتا ہے۔( وماهم بخارجین )

۶ ۔ نجات کی تمام راہیں کافروں پر بند ہو چکی ہیں۔ نہ تو وہ خدا کی رحمت سے بہرہ مند ہو سکیں گے کیونکہ وہ تو پرہیزگاروں کے ساتھ خاص ہے "( رحمتی وسعت کل شیٴ فساکتبها للذین یتقون ) " یعنی میری رحمت نے ہر چیز کو اپنی وسعت میں لیا ہوا ہے جس کو میں ان لوگوں کے لئے لکھوں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔۔۔ (اعراف/ ۱۵۶) اور نہ ہی شفاعت سے بہرہ ور ہو سکیں گے کیونکہ شفاعت ان لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے جن سے خدا راضی ہو گا ارشاد ہوتا ہے "( یومئذٍ لاتنفع الشفاعة الامن اذن له الرحمن رضی له قولا ) " یعنی قیامت کے دن کسی شخص کی شفاعت فائدہ نہیں دے گی سوائے اس شخص کے کہ جسے خدائے رحمان نے اجازت دی ہو گی اور وہ اس کی گفتگو سے راضی ہو گا۔ (طہ/ ۱۰۹) اور نہ ہی وہاں پر موت آئے گی۔ وہ ہمیشہ جہنم میں زندہ رہیں گے اور ان کی موت کی درخواست قبول نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ ارشاد باری ہے "( ونا دوا، یٰمٰلک لیقض علینا ربک- قال انکم مکئون ) " یعنی وہ پکاریں گے کہ اے مالک (داروغہ جہنم!) ہماری آرزو ہے کہ تیرا پروردگار ہمیں موت دیدے، وہ جواب دے گا کہ تمہیں اسی حال میں رہنا ہو گا (زخرف/ ۷۷)

۷ ۔ جو شخص دنیا میں اس قدر واضح اور روشن براہین و ارشادات کے باوجود شرک و جہالت کی تاریکیوں سے باہر نہیں نکلتا وہ آخرت میں بھی جہنم سے باہر نہیں نکلے گا۔( لهم عذاب مقیم )

آیت ۳۸

( وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیْهُمَا جَزٰآء ً بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰهِ ط وَاللّٰهُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ )

ترجمہ: چور مرد اور عورت کا ہاتھ ان کے انجام دیئے گئے عمل کی سزا میں کاٹ دو۔ یہ سزا خدا کی طرف سے ہے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔

نکتہ:

اس مقام پر پہلے چور مرد کا نام لیا گیا ہے پھر چور عورت کا( السارق- والسارقة ) لیکن سورہ نور کی دوسری آیت میں کہ جہاں پر زناکاری کی سزاکے بارے میں بتایا گیا ہے پہلے زناکار عورت کا نام لیا گیا ہے پھر زانی مرد کا۔ "الزانیة۔ والزانی" تو شاید اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ چوری میں مرد کا نقش زیادہ ہے اور زناکاری میں عورت کا۔

مرحوم سید مرتضی علم الہدیٰ سے (تقریباً آج سے ایک ہزار سال پہلے) سوال کیا گیا تھا کہ: جس ہاتھ کی دیت پانچ سو دینار ہے وہ ایک چوتھائی دینار چوری کرنے کے بدلے میں کیوں کاٹا جاتا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: امانت کی عزت نے اس ہاتھ کو گراں قیمت بنا دیا تھا، لیکن خیانت کی ذلت نے اس کی قیمت گرا دی۔

روایات کے مطابق ہاتھ کے کاٹنے کی مقدار صرف اس کی چار انگلیاں ہیں۔ لہٰذا انگوٹھا اور ہتھیلی کو نہیں کاٹا جائے گا۔

چوری کے مال کی مقدار کم از کم ایک چوتھائی دینار ہو کہ جس چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اور وہ مال بھی کسی مکان کے اندر محفوظ ہو۔ لہٰذا مسافرخانوں، حماموں، مسجدوں اور اس قسم کے عوامی مقامات میں نہ ہو۔

جب چور پر حد جاری ہو جائے تو مسروقہ مال اس کے مالک کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔ اور چور کو اس سزا کا علم بھی ہو یعنی اسے یہ بھی معلوم ہو کہ چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے، ورنہ اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اسی طرح اگر چور اپنے شریک کے مالک و چرائے یا قحط سالی کے دوران مجبور ہو کر اشیائے خوردنی کی چوری کرے تو بھی اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

اسی طرح باپ کا اپنے بیٹے کے مال کو چرانا، غلام کا اپنے آقا کے مال کو چوری کرنا، نابالغ یا دیوانے یا ایسے شخص کا چوری کرنا جو یہ سمجھتا ہے وہ مال لینے کا حق رکھتا ہے۔ ان کے چوری کرنے سے، ان کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ البتہ مذکورہ موارد میں صرف ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، دوسری سزا دی جا سکتی ہے۔

حدیث میں ہے کہ حضرت رسول خدا نے چوری کی بدترین قسم نماز میں چوری کو قرار دیا ہے جس میں رکوع اور سجود کو ناقص طریقہ سے بجا لایا جائے۔ (تفسیر قرطبی)

بعض بزرگان دین کی تصریحات میں آیا ہے کہ: مسلمانوں کا ایک گروہ سورہ حمد کی تلاوت میں "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" کی چوری کیوں کرتے ہیں؟"

چوری میں ہاتھ کاٹنے کا پہلا مرحلہ ہے۔ جب دوسری دفعہ چوری کرے گا تو بایاں پاؤں ابھری ہوئی جگہ کے نیچے سے کاٹا جائے گا۔ تیسری مرتبہ عمر قید کی سزا کاٹے گا اور چوتھی مرتبہ میں اسے سزائے موت دی جائے گی

(تفسیر صافی اور تفسیر مجمع البیان)

پیام و نکات:

۱ ۔ صرف سنگین جرمانہ اور سخت سزا سے ہی چوری کا سدباب کیا جا سکتا ہے( فاقطعوا ایدیهما )

۲ ۔ اسلام کے قانون سزا میں جسمانی نقصان کے علاوہ حیثیت عرفی اور عزت و آبرو کا نقصان بھی ہے۔ تاکہ جرائم کا زیادہ سے زیادہ سدباب ہو سکے۔ (مجمع عام میں کوڑوں کی سزا یا ہاتھ کا کاٹنا وغیرہ)

۳ ۔ اسلام کے قانون سزا میں جہاں مجرم کو تنبیہ کا پہلو مدنظر رکھا گیا ہے وہاں دوسروں کی عبرت کا سامان بھی فراہم کیا گیا ہے۔ (حدود کے اجرا میں لوگوں کا موجود ہونا) اس کے علاوہ جب بھی لوگ ہتھ کٹے شخص کو دیکھیں گے فوراً متوجہ ہو جائیں گے کہ چوری کی سزا سخت ہے۔

۴ ۔ حدود الٰہی کے اجراء (سز ادینے) کے لئے رحمدلی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔

۵ ۔ چونکہ چوری کی سزا کے لئے دنیا کا قانون سزا صرف قید اور جرمانے پر مبنی ہے لہٰذا چوری کا سدباب کرنے سے عاجز ہے اور قید یا جرمانے سے اس کے اعداد و شمار میں کمی نہیں آئی ہے۔

۶ ۔ ہاتھ کاٹنے کی سزا خود مجرم کے لئے بھی ہمیشہ کے لئے خبردار کرنے اور دائمی طور پر متنبہ رہنے کا موجب ہے کہ دوبارہ اس قسم کی غلطی نہ کرے۔

۷ ۔ چونکہ سرقہ (چوری) ہاتھ اور پاؤں سے انجام پاتی ہے لہٰذا پہلے مرحلہ میں ہاتھ کاٹا جائے گا اور دوسرے مرحلہ میں پاؤں تاکہ پھر ایسا جرم سرزد نہ ہونے پائے۔

۸ ۔ جہاں پر چوری کے لئے ہاتھ کاٹنے کی تمام شرائط موجود نہ ہوں تو پھر تعذیر اور تنبیہ کے طور پر دوسری سزا دی جائے گی۔

۹ ۔ سرقہ کا موجب یا تو مال اکٹھا کرنا اور دولت جمع کرنا ہوتا ہے یا پھر مستقبل بہتر صورت میں گزرنے کی توقع ہوتی ہے، جبکہ ہاتھ کا کاٹنا ان تمام عوامل کو کمزور کر دیتا ہے۔ اور یہ ایک ایسی سزا ہے جس کا مقابلہ قید یا کوڑے نہیں کر سکتے۔

۱۰ ۔ سارق (چوری) کا صرف ہاتھ ہی نہیں کاٹا جاتا مال مسروقہ کا ضامن بھی ہوتا ہے۔

۱۱ ۔ کسی کی ذاتی ملکیت اور عمومی امن وامان اس قدر اہم ہے کہ اس کے لئے مسلمان کا ہاتھ تک کاٹنا پڑتا ہے۔

۱۲ ۔ ان احکام کے اجراء کے لئے حکومت، اقتدار، نظام خاص اور سسٹم کی ضرورت ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ "اسلام، حکومت اور سیاست کا دین ہے۔"

۱۳ ۔ غربت، سرقت کا موجب اور اس کے جواز کا سبب نہیں بن سکتی۔ (کیونکہ اسلام نے ہاتھ کاٹنے سے پہلے عوام کے لئے روزگار کی اہمیت پر زور دیا ہے اور غریبوں کو بیت المال سے وظیفہ یا ان کے عزیزوں رشتہ داروں کو ان کا حق دینے پر زور دیا ہے اور قرض حسنہ اور امداد اور تعاون کے دوسرے راستوں سے ان کی زندگی بسر کرنے کے سامان فراہم کرنے کی تاکید کی ہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر (فی ظلال القرآن)۔

۱۴ ۔ خداوند عالم کی مقررکردہ سزائیں انتقام کے طور پر نہیں ہیں بلکہ جرائم کے سدباب کے لئے ہیں (کیونکہ "نکال" کا معنی ہے "مہار" جو جانور کو روکنے کا ایک ذریعہ ہوتی ہے)۔

۱۵ ۔ روایات کی رو سے چور کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا تاکہ بایاں ہاتھ بیت الخلاء کی طہارت کے لئے محفوظ رہے اور ایسا حفظان صورت کی اہمیت کے پیش نظر کیا جاتا ہے (ملاحظہ ہو تفسیر صافی اور تفسیر مجمع البیان)

۱۶ ۔ قدرت اور طاقت کا استعمال بھی جچے تلے انداز میں ہونا چاہئے۔( عزیز حکیم )

آیت ۳۹

( فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِه وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰهِ یَتُوْبَ عَلَیْهِ ط اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ )

ترجمہ۔ پس جو شخص اپنے ظلم کے بعد توبہ کرے اور (اپنے برے کاموں کی) اصلاح کرے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔

نکتہ:

اسلام میں سزائیں، تبلیغ، ارشاد اور ہدایت کے ساتھ ساتھ ہیں، اس سے پہلی آیت میں چور کی سزا بیان ہوئی ہے اور یہاں پر خداوند غفور کی بارگاہ میں توبہ کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ اور اپنی برائیوں کی اصلاح کی طرف رہنمائی کی گئی ہے کہ جو اس بات کا موجب ہوتی ہے کہ خداوند کریم بھی اپنا لطف و کرم بندے کی طرف پھیر دے۔

پیام:

۱ ۔ خطارکار انسان کے لئے بازگشت اور اصلاح کا راستہ ہمیشہ کھلا ہے( فمن تاب )

۲ ۔ توبہ صرف باطنی طور پر ندامت ہی کا نام نہیں بلکہ گزشتہ برائیوں کی تلافی بھی ضروری ہوتی ہے( واصلح )

۳ ۔ اگر انسان توبہ کرے اور اپنی حقیقت کی طرف لوٹ آئے تو خداوند عالم بھی اپنے قطع شدہ لطف و کرم کو اسکی طرف پلٹا دیتا ہے۔( یتوب علیه )

۴ ۔ اگر چور (گرفتار ہو جانے اور عدالت میں پیش ہونے سے پہلے) توبہ کر لے اور مال مسروقہ اس کے اصل مالک کو واپس کر دے تو دنیا میں بھی اسے معاف کر دیا جائے گا اور آخرت میں بھی، لیکن اگر گرفتار ہونے کے بعد توبہ کرے تو اس پر سرقہ کی حد جاری کی جائے گی رہا توبہ کا معاملہ، تو یہ قیامت سے متعلق ہوجائے گا۔

۵ ۔ سرقہ کوئی معمولی جرم نہیں بلکہ خود پر اور معاشرہ پر ظلم کے علاوہ اپنی روح اور معاشرہ کے امن وامان پر زیادتی ہوتی ہے۔

۶ ۔ مجرمین کو ہر طرح سے راہ خدا کی دعوت دینی چاہئے اور انہیں امید دلانی چاہئے۔( یتوب، غفور، رحیم ) ۳۱

آیت ۴۰

( اَلَمْ تَعْلَمْ اِنَّ اللّٰهَ لَه مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط یُعَذِّبَ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰهُ عَلَی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ )

ترجمہ۔ آیا تم نہیں جانتے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت خدا ہی کے لئے ہے (اپنی حکمت اور عدالت کے مطابق) جسے چاہتا ہے عذاب میں ڈالتا ہے اور جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔ اور اللہ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے۔ چاہے تو مفسد اور چور کو ذلت اور عذاب دیتا ہے اور پشیمان ہونے والے، توبہ کرنے والے اور اپنی اصلاح کرنے والوں کو بخش دیتا ہے)

پیام:

۱ ۔ اللہ تعالیٰ کو بندوں کی توبہ کی احتیاج نہیں ہے کیونکہ تمام عالم ہستی پر اسی کی حکومت ہے( له ملک السماوات والارض )

۲ ۔ چوروں، لٹیروں، غنڈوں اور بدمعاشوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے لئے کوئی بھی راہ فرار نہیں ہے لہٰذا انہیں خدا کی ہی کی طرف لوٹ آنا چاہئے۔( له ملک السموت والارض )

۳ ۔ انسان کو ہمیشہ خوف اور امید کی حالتوں میں رہنا چاہئے( یعذب من یشأ ویغفر من یشا )

آیت ۴۱

( یَاَیُّهَاالرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیَْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تَؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اَخِرِیْنَ لَمْ یَاتُْوْکَ ط یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِه یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَ اِنْ لَمْ تُؤْتُْوْهُ فَاحْذَرُوْا ط وَمَنْ یَّرِدِ اللّٰهُ فَتْنَتَه فَلَنْ تَمْلِکَ لَه مِنَ اللّٰهِ شَیْئًا ط اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَمْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یُّطَهِّرَ قُلُوْبَهُمْ ط لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌه )

ترجمہ۔ اے رسول! جو لوگ کفر میں جلدی کرتے ہیں وہ آپ کو غمگین نہ کر دیں، ان میں سے کچھ لوگ (منافقانہ طور پر) زبان سے کہتے ہیں کہ ہم لے آئے، لیکن ان کے دل ایمان نہیں لائے، اور (نیز) یہودیوں سے بھی غم نہ کھاؤ! جو کہ جھوٹ گھڑنے اور تحریف کرنے کے لئے بڑے غور سے آپ کی باتوں کو سنتے ہیں، وہ ان لوگوں کی جاسوسی کے لئے آپ کی باتوں کو غور سے سنتے ہیں جو آپ کے پاس نہیں آئے ہیں، وہ آسمانی قوانین کی تحریف کرتے ہیں اور (ایک دوسرے سے) کہتے ہیں: اگر یہ مطلب (جو ہماری منشا کے مطابق ہے) تمہیں دے دیا جائے تو تم لے لو اور قبول کر لو، اور اگر (جو ہماری منشا کے مطابق ہے) تمہیں نہ دیا جائے تو اس سے دوری اختیار کر لو۔ اور جس شخص کو خدا عذاب دینا چاہے اور رسوا کرنا چاہے تو تم قہر خداوندی کے سامنے اس کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی قلبی طہارت کو خدا نہیں چاہتا۔ (یہ دل کے مریض، متعصب اور ہٹ دھرم لوگ ہیں جنہوں نے اپنے لئے ہدایت کی راہیں بند کر لی ہیں) ان کے لئے دنیا میں ذلت و خواری ہے اور آخرت میں ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔

پیام:

۱ ۔ گمراہ لوگوں کے بارے میں بھی انبیاء دل سوزی سے کام لیتے ہیں( لایحزنک )

۲ ۔ دوسرے لوگوں کا کفر کی طرف میلان، پیغمبر کی حالت اور ان کے فیصلہ کے بارے میں کسی قسم کا ردوبدل کا سبب نہیں بننا چاہئے۔( ولایحزنک )

۳ ۔ ایمان، دل سے قبولیت کا نام ہے، زبانی اظہار کا نہیں۔( باخواهم--- قلوبهم )

۴ ۔ منافقین اور یہودی ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ایک مقصد کو پیش نظر رکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔( ومن الذین هاروا )

۵ ۔ کان لگا کر سننا اتنا زیادہ اہم نہیں ہے جتنا اس کے مقاصد کی تکمیل اہم ہے( سماعون للکذب )

۶ ۔ کفار نے اپنے ایجنٹ اور جاسوس مسلمانوں کے درمیان چھوڑے ہوئے ہیں۔ مبلغین دین کو ہوشیار رہنا چاہئے اور اپنے تمام سامعین کو نیک نیت نہیں سمجھنا چاہئے( سماعون لقوم آخرین )

۷ ۔ تحریف، یہود کی ایک علمی خیانت ہے( یحرفون الکلم )

۸ ۔ ہمیں خدا کے اوامر اور حقائق کو تسلیم کرنا چاہئے، صرف اپنی مرضی کے دینی احکام ہی کو قبول نہیں کرنا چاہئے۔( خذوه--- فاحذوه ) ۳۲

۹ ۔ انسان کا گناہ، اس کی ہدایت کے لائق ہونے کو ختم کر دیتا ہے۔( مردالله فتنة )

۱۰ ۔ ہٹ دھرم متعصبین اور ہوس کے پجاریوں کے لئے تو اللہ کا رسول بھی کچھ نہیں کر سکتا۔( فلن تملک )

۱۱ ۔ سخت اور ہٹ دھرم قسم کا دل خداوند عالم کے لطف و کرم کے حصول سے محروم ہوتا ہے۔

۱۲ ۔ دشمن تو کفر اور نفاق میں جلدبازی سے کام لیتے ہیں، لیکن مسلمان راہ حق میں سستی سے کام لیں، یہ عجیب نہیں ہے؟( یسارعون فی الکفر )

۱۳ ۔ جاسوسانہ انداز میں بیان ہونے والا جھوٹ سننا، کفر میں جلدی کرنے کی علامت ہے۔

۱۴ ۔ تقویٰ سے ہٹ کر مرتب کی جانے والی رپورٹیں، بہت ہی خطرناک کھیل ہوتی ہیں۔( سماعون للکذب--- یحرفون--- )

۱۵ ۔ منافقین، دنیاوی بدبختی کے بھی حامل ہوتے ہیں (جھوٹ سنتے ہیں، جاسوسی کرتے ہیں، تحریف کرتے ہیں اور اپنے مقصد و منشا کا دین چاہتے ہیں) اور قیامت کے دن آخرت کا عظیم عذاب بھی ان کا منتظر ہے( لهم فی الاخرة عذاب عظیم )

آیت ۴۲

( سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَکَّلُوْنَ لِلسُّحْتِ ط فَاِنْ جَآءُ وْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْکَ شَیْئًا ط وَ اِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ ط اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِِطِیْنَ )

ترجمہ: (وہ لوگ) جھوٹ کو بڑے غور سے سنتے ہیں اور حرام کا مال بڑی فراوانی سے کھاتے ہیں۔ پس اگر وہ (فیصلہ کے لئے) آپ کے پاس آئیں تو آپ یہ تو ان کے درمیان فیصلہ کر دیں یا پھر ان سے منہ پھیر لیں۔ اور اگر آپ ان سے منہ پھیر لیں تو وہ ہرگز آپ کو کسی قسم کی گزند نہیں پہنچا سکتے۔ اور اگر ان کے درمیان فیصلہ کریں تو قسط و عدل کے مطابق فیصلہ دیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

نکتہ:

کچھ یہودی جو کہ "زنائے محصنہ" (شوہردار عورت سے زنا) کے مرتکب ہو چکے تھے، سنگساری کی سزا سے بچنے کے لئے۔۔۔ جو یہودیوں کے دین میں ہے۔۔۔ پیغمبر اسلام کی خدمت میں فیصلہ کرانے کے لئے حاضر ہوئے۔ لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ ایسے لوگوں کے بارے میں اسلام کا حکم بھی یہی (سنگساری) ہے۔ چنانچہ جب انہوں نے دیکھا کہ اس بارے میں اسلام کا بھی یہی حکم ہے تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔

"سحت" کا معنی روایات کے مطابق رشوت یا ایسا تحفہ ہے جو کسی کام کی بجاآوری کے لئے دیا جاتا ہے۔ جبکہ اس کا لغوی معنی "ہلاکت" یا ایسی چیز ہے جو ہلاکت کا موجب ہوتی ہے۔

پیام:

۱ ۔ علمائے یہود راشی تھے( اکالون للسحت ) اور یہودی جھوٹ سننے کو پسند کرتے تھے۔ (سماعون للکذب) اور لفظ "سماعون" کا تکرار شاید اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ خصلت آہستہ آہستہ ان کی عادت ثانوی بن چکی تھی۔

۲ ۔ کفار اہل کتاب کے ساتھ مسلمانوں کا باہمی میل جول اس حد تک تھا کہ وہ اپنے فیصلے پیغمبر اسلام کے پاس لے آتے تھے۔

۳ ۔ انبیاء کو بعض مسائل میں یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق عمل کریں اور وحی کا انتظار نہ کریں،( فاحکم--- اواعرض )

۴ ۔ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ ہمیشہ اور ہر قوم کے لئے قابل قدر چیز ہے( فاحکم بینهم بالقسط )

۵ ۔ اگر کوئی اسلامی حاکم یا اسلامی حکومت، غیرمسلم حکومتوں کے لئے "جج" مقرر ہو جائے تو اسے چاہئے کہ عدالت، جرأت اور صراحت کے ساتھ مگر دو ٹوک فیصلہ کرے۔( فاحکم بینهم )

۶ ۔ فیصلہ کرنے کے لئے نسلی اور علاقائی مسائل اور جماعتی تعصب اور ذاتی میلان یا کسی کی طرف سے کسی قسم کی دھمکی کو اثرانداز نہیں ہونا چاہئے۔( بالقسط )

۷ ۔ اگر مناسب سمجھو کہ کسی مقدمہ میں فیصلہ دینا خلاف مصلحت ہے تو اس سے دستکشی کر لو اور نہ ڈرو۔

آیت ۴۳

( وَکَیْفَ یُحَکِّمُوْنَکَ وَ عِنْدَ هُمْ التَّوْرٰٰٰٰةُ فِیْهَا حُکْمُ اللّٰهِ ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ ط وَمَآ اُوْلٰٓئِکَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ )

ترجمہ۔ اور وہ (یہودی) آپ کو کس طرح اپنا فیصلہ کرنے والے کی حیثیت سے قبول کر سکتے ہیں؟ جبکہ توریت ان کے پاس ہے۔ اور اس میں خدا کا حکم (بیان کیا گیا) ہے۔ پھر آپ کے فیصلہ کے بعد وہ منہ موڑ لیتے ہیں اور وہ مومن نہیں ہیں۔

پیام:

۱ ۔ تمام توریت، تحریف شدہ نہیں ہے( فیها حکم الله )

۲ ۔ یہودیوں کے لئے جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ ان کی آسائش طبی اور سزا میں تخفیف ہے نا کہ قانون اور ادائیگی فرائض پر ایمان! (اسی لئے تو توریت میں قانون موجود ہونے کے باوجود اپنی سہولت کی خاطر آپ کے پاس آئے ہیں)

۳ ۔ کاش کہ اہل کتاب: اپنی کتاب میں موجود احکام ہی کے پابند ہوتے!!( وعذرهم التوراة )

۴ ۔ ایمان کی علامت یہ ہے کہ قوانین الٰہی کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا جائے( وما اولئک الموٴمنین )

آیت ۴۴

( اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰةَ فِیْهَا هُدٰی وَ نُوْرٌ یَحْکُمُ بِهَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الرَّبَّانِیُّوْنَ وَالْاَ حْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰهِ وَ کَانُوْا عَلَیْهِ شُهَدَآءَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ وَلاَتَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا ط وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُوْلٰٓئِکَ هُمُ الْکٰفِرُوْنَ )

ترجمہ۔ ہم نے تورات کو نازل کیا جس میں ہدایت اور نور ہے۔ انبیاء اللہ جو حکم خدا کے سامنے تسلیم تھے (اور توریت کے نازل ہونے کے بعد اپنے فرائض انجام دینے لگے، سارے کے سارے) اسی کے مطابق یہودیوں کے لئے فیصلے کیا کرتے تھے اور (اسی طرح) یہودیوں کے بڑے علماء اور پاک دل اور نیک دانشور بھی اسی آسمانی کتاب کے مطابق (فیصلے کرتے تھے) جو ان کے سپرد کر دی گئی تھی اور وہ اسی پر گواہ تھے۔ پس (اے علماء!) تم لوگوں سے نہ ڈرو (اور خدائی احکام کو بیان کرو) اور مجھ سے (یعنی میری مخالفت سے) ڈرو اور میری آیات کو معمولی قیمت نہ بیچو اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے پس وہ کافر ہیں۔

نکتہ:

"ربانی" کا لفظ "رباّن" (بروزن عطشان) سے نکلا ہے جس کا معنی ہے "تربیت کرنے والا" اور بعض علماء کے بقول "ربانی" وہ شخص ہوتا ہے جس کا تعلق رب العالمین سے ہو اور اس کے علاوہ کسی اور کے ساتھ اسے کسی کروٹ چین نہ آئے۔ اور اپنے علم وعمل کے لحاظ سے خدائی رنگ میں رنگ چکا ہو اور لوگوں کی تربیت کرے۔

"جر" کا معنی ہے "نیک اثر" چونکہ معاشرہ میں علماء کرام نیک اثر کا موجب ہوتے ہیں لہٰذا انہیں "جر" اور "احبار" کہتے ہیں۔ ۳۳

پیام:

۱ ۔ تحریف کا اعتراف کرنے کے باوجود اصل آسمانی کتاب کا احترام کرنا چاہئے۔

۲ ۔ اگرچہ توریت حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی، لیکن ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء اور علماء مامور تھے کہ اسی کے مطابق فیصلے کریں۔

۳ ۔ اگر حکم الٰہی کے سامنے انبیاء تسلیم ہو چکے ہیں تو پھر ہم کیوں نہ ہوں؟( اسلموا ) انبیاء اپنی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں کرتے بلکہ حکم خداوندی کے آگے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔

۴ ۔ اسلام، تمام لوگوں کا دین ہے، انبیاء بنی اسرائیل کی بھی "اسلموا" کے جملہ سے توصیف و تعریف کی گئی ہے، نصرانیت اور یہودیت سے نہیں!

۵ ۔ ہر امت کے علماء لوگوں کے درمیان احکام الٰہی کے اجرا کے ذمہ دار ہیں اور "ولایت فقیہ" تمام ادیان کے رگ و ریشہ میں موجود ہے( یحکم بها النبیون )

۶ ۔ سلسلہ مراتب کی رعایت ضروری ہے، پہلے انبیاء پھر ربانیوں (ائمہ) پھر احبار اور علماء و صاحبان دانش و بصیرت۔

۷ ۔ انبیاء تمام توریت کے عالم ہیں۔ لیکن اخبار و علماء صرف اس حصہ کے کہ جو انہیں سونپا گیا ہے( بما استخفظوا )

۸ ۔ مبلغ اور قاضی کو مسائل دین سے آگاہ ہونا چاہئے، اور جس قدر کسی کا مبلغ علمی ہے اسی قدر اس بارے میں مداخلت کرے( کانواعلیه شهداء- بما استحفظوامن کتاب الله )

۹ ۔ علماء کو چاہئے کہ فیصلوں کے اجرا پر مکمل نگرانی رکھیں اور مذہب کے محافظ بنے رہیں( کانواعلیه شهداء )

۱۰ ۔ اللہ تعالیٰ نے علما اور قاضیوں سے دو طرح کا عہد و پیمان لیا ہے: الف: لوگوں کے خوف سے حکم خدا کو تبدیل نہ کریں۔ ب۔ معمولی مال کے لالچ میں حق بات کو چھپانے کے مرتکب نہ ہوں اور کسی مقام پر لغزش سے دوچار نہ ہوں۔

۱۱ ۔ فیصلہ کرتے وقت انحراف کا شکار ہو جانا کفر ہے۔ ۳۴

۱۲ ۔ فیصلہ کرتے وقت، صراحت، جرأت، ہمت اور شہامت ضروری ہے اور دھمکیوں اور غلط پروپیگنڈوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے( لاتخشواالناس )

۱۳ ۔ جو شخص اپنا معاملہ خدا کے ساتھ صاف رکھتا ہے وہ مخلوق خدا سے نہیں ڈرتا( لاتخشواالناس واخشون )

۱۴ ۔ تحریف، سکوت، حق پوشی اور فرمانِ الٰہی سے ہٹ کر فیصلے کرنا اگرچہ پوری دنیا کی قیمت حاصل کر لینے کے بدلے ہی میں کیوں نہ ہوں پھر بھی خساہ ہی خسارہ ہے، اس لئے کہ ساری دنیا "متاع قلیل" ہے (ثمنا قلیلا)

۱۵ ۔ آسمانی قوانین کے ہوتے ہوئے مشرق و مغرب کے (انگریزی اور دوسرے کافرانہ) نظام اور قوانین کو اپنانا کفر ہے( ومن لم یحکم بما انزل الله--- )

۱۶ ۔ احکام الٰہی کا قلبی انکار، عملی تکبر کا اظہار اور جان بوجھ کر ان میں تبدیلی پیدا کرنا کفر ہے۔

۱۷ ۔ طاغوتوں کے سامنے خاموشی اختیار کرنا اور حق کو چھپانا، سرمایہ داروں کے آگے دین فروشی اور عوام کو دھوکہ اور فریب ایسے خطرات ہیں جو علماء کو ہر وقت درپیش رہتے ہیں( لاتشتروا ولاتخشواالناس--- )

آیت ۴۵

( وَ کَتَبْنَا عَلَیْهِمْ فِیْهَا اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالُْاذُنِ وَالسِّنِ بِالسِّن ِوَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ ط فَمَنْ تَصَدَّقَ بِه فَهُوَ کَفَّارَةٌ لَّه ط وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُوْلٰٓئِکَ هُمُ الظّٰلِمُُوْنَه )

ترجمہ: اور ہم نے اس (توریت) میں ان (یہودیوں) کے لئے لکھ دیا کہ (قصاص میں) جان کے بدلے میں جان، آنکھ کے بدلے میں آنکھ، ناک کے بدلے میں ناک، کان کے بدلے میں کان اور دانت کے بدلے میں دانت ہے اور ہر زخم کے لئے قصاص ہے۔ پس جو شخص معاف کرتے ہوئے (قصاص سے) درگزر کرے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ شمار ہو گا۔ اور جو شخص خدا کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔

نکتہ:

جسم کو اور اس کے دوسرے حصوں مثلاً آنکھ، کان، دانت اور ناک وغیرہ کو نقصان پہنچانے کا قصاص ہے اور "اس جیسے عضو" کو ہی قصاص کی صورت میں کاٹا جائے گا۔ آیت میں مذکور اعضاء کا نام صرف نمونہ کے طور پر ہے ورنہ ہر ایک عضو کا قصاص ہے (تفسیر اطیب البیان)

پیام:

۱ ۔ تمام انسان خواہ وہ کسی قوم اور قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں، امیر ہوں یا غریب قانون کے سامنے برابر ہیں اور کسی ایک کا خون دوسرے کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ ۳۵

۲ ۔ قصاص کا حکم سابقہ ادیان میں بھی تھا ۳۶ اور اسلام اور دوسرے ادیان ایک جیسے عادلانہ قوانین کے حامل ہیں۔

۳ ۔ صدقہ صرف، مال کو خرچ کرنے ہی کا نام نہیں، مجرم سے عفو و درگزر بھی ایک قسم کا صدقہ ہے۔ (فمن تصدق)

۴ ۔ تمہارا دوسروں کو معاف کر دینا، خدا کا تمہیں معاف کر دینے کا موجب بن جاتا ہے۔ (فھو کفارة لہ) اور شاید اس سے یہ بھی مراد ہو کہ تمہارا مجرم کو معاف کر دینا، اس کے جرم کا بھی کفارہ ہو گا اور وہ قیامت میں تمہارے معاف کر دینے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا نہیں ہو گا۔ (تفسیرالمیزان)

۵ ۔ سزا کے مسائل کے ساتھ ساتھ اخلاقی مسائل کو بھی بیان کیا گیا ہے( قصاص ) ۔ اور۔( عفو )

۶ ۔ توریت میں "دیت" نہیں ہے یا "قصاص" اور یا "عفو" لیکن اسلا م میں "دیت" کا ایک تیسرا راستہ بھی موجود ہے۔ (تفسیر قرطبی)

۷ ۔ فقط مالی جرمانہ یا قید، جرائم کی روک تھام کے لئے کافی نہیں ہیں۔

۸ ۔ اگر حکم خداوندی کا اجراء نہ ہو تو انسانیت مظلومیت کا شکار ہے۔( ومن لم یحکم بما انزل الله فاولئک هم الظالمون )

۹ ۔ آنکھ اور کان وغیرہ کا نام بطور نمونہ ہے ورنہ ہر عضو کو نقصان پہنچانے کا قصاص ہے (تفسیر الطیف البیان)

آیت ۴۶

( وَ قَفَّیْنَا عَلَی اَثَارِهِمْ بِعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرٰةِ وَ اٰتَیْنَهُ الْاِنْجِیْلَ فِیْهِ هُدًی وَّ نُوْرٌ وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرٰةِ وَ هُدًی وَّ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ ) ہ

ترجمہ: اور ہم ان (گزشتہ انبیاء) کے بعد عیسیٰ بن مریم کو لے آئے جبکہ وہ تورات کی تصدیق کرتے تھے جو عیسیٰ سے پہلے موجود تھی۔ اور خود عیسیٰ کو انجیل عطا کی کہ جس میں ہدایت اور نور ہے۔ اور (خود عیسیٰ کی مانند) توریت کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے تھی۔ اور پرہیزگاروں کے لئے ہدایت اور موعظہ ہے۔

نکتہ:

قرآن بھی پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے (سورہ بقرہ/ ۱) اور انجیل بھی تیقن کے لئے ہدایت اور موعظہ ہے۔

ممکن ہے کہ اس آیت کا معنی اس طرح ہو کہ: ہم نے انبیاء بنی اسرائیل کے بعد عیسیٰ کو بھیجا کہ جن کی ذاتی خصوصیات ان نشانیوں سے مطابقت رکھتی ہیں جو توریت میں ان کے بارے میں بتائی گئی ہیں۔ پس خود حضرت عیسیٰ اور نشانیاں ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہیں۔

پیام:

۱ ۔ انبیاء عظام اور ان کی کتابیں، تمام کا سرچشمہ ایک ہے اور ہدف بھی ایک ہے اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔( مصدق ) ا) ۳۷

۲ ۔ توریت، انجیل اور قرآن تینوں "( نور ) " ہیں۔ ۳۸

۳ ۔ لوگوں کے عقائد حقہ کا احترام کیا کرو( مصد قالمابین یدیه ) ۳۹

۴ ۔ اگرچہ انبیاء عظام اور آسمانی کتابیں تمام لوگوں کے لئے ہدایت ہیں، لیکن اس نور سے صرف صاحبان تقویٰ ہی ہدایت حاصل کرتے ہیں۔

آیت ۴۷

( وَلْیَحْکُمْ اَهْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فِیْهِ ط وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُوْلٰٓئِکَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ )

ترجمہ: انجیل والوں کو چاہئے کہ وہ اس حکم کے مطابق حکم (فیصلہ) کریں جو اللہ نے انجیل میں نازل کیا ہے، اور جو لوگ خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں۔

نکتہ:

اس آیت میں پیغمبر اسلام کی تشریف آوری سے پہلے حضرت عیسیٰ کے دین کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، ورنہ دین اسلام کے آجانے کے بعد تمام لوگوں کا شرعی فریضہ دین اسلام پر عمل کرنا ہوتا ہے۔

جو لوگ قوانین الٰہی کے مطابق حکم اور فیصلہ نہیں کرتے ان کی پے درپے چند آیات میں مذمت کی گئی ہے اور انہیں "ظالموں"، "فاسقوں" اور "کافروں" کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور اسی سے مسئلہ کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ اس لئے کہ ایسے لوگ قوانین الٰہی کو زیرپا قرار دیتے ہیں لہٰذا "کافر" ہیں۔ چونکہ وہ اپنی ذمہ داری کی حدود سے نکل جاتے ہیں لہٰذا "فاسق" ہیں اور چونکہ فیصلہ کرنے میں ایک فریق کے حق کو پامال کرتے ہیں لہٰذا "ظالم" ہیں۔

اسی سورت کی ۴۴ ویں اور ۴۵ ویں آیت میں یہودیوں سے خطاب ہے اور انہیں "ظالم" اور "کافر" قرا دیا گیا ہے، اس لئے کہ وہ قانون میں تحریف اور ردوبدل کرتے ہیں، دین کو معمولی قیمت کے بدلے بیچ ڈالتے ہیں اور خدا سے ڈرنے کی بجائے خلق خدا سے ڈرتے ہیں اسی لئے "اولئک ھم الکافرون" اور افراد معاشرہ کے حقوق پر ظلم کرتے ہیں اسی لئے "( اولئک هم الظٰلمون ) " ہیں۔

اور اس ۴۷ ویں آیت میں نصاریٰ کے بارے میں صرف یہ ہے کہ وہ انجیل کے مطابق حکم اور فیصلہ نہیں کرتے (نہ تو قصاص میں سکوت اختیار کرتے ہیں اور نہ ہی دین کومعمولی قیمت کے بدلے بیچتے ہیں) اور صرف حق کی حدود سے نکل جاتے ہیں لہٰذا( اولئک هم الفٰسقون ) ہیں۔

آیت ۴۸

( وَ اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُهَیْمِنًا عَلَیْهِ فَاحْکُمْ بَیْنَهُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعَ اَهْوَآءَ هُُمْ عَمَّا جَآئَکَ مِنَ الْحَقِّ ط لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَا جاً ط وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِی مَآ اٰتٰکُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ط اِلَی اللّٰهِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیْهِ ) ( تَخْتَلِفُوْنَه )

ترجمہ: اور (اے پیغمبر!) ہم نے کتاب (قرآن) کو آپ پر برحق نازل کیا، جبکہ یہ کتاب گزشتہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتی اور ان کی محافظ اور نگہبان ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کے درمیان خدا کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکم کریں اور اس (حق سے دور ہو کر) جو آپ کے لئے آیا ہے، ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے آئین اور واضح طریقہ مقرر کر دیا ہے۔ اور اگر خدا چاہتا تم سب کو ایک امت قرار دیتا (اور سب کے لئے ایک ہی قسم کا آئین اور قانون ہوتا) لیکن (خدا چاہتا ہے کہ) تمہیں ان چیزوں کے بارے میں آزمائے جو اس نے تمہیں عطا کی ہیں۔ لہٰذا تم نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو، تم سب کی بازگشت خدا کی طرف ہے پس وہ تمہیں اس چیز سے آگاہ کرے گا جس میں تم اختلاف کرتے ہو۔

نکتہ:

"شرعة" اس رستے کو کہتے ہیں جو پانی پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ اور "منہاج" روشن اور واضح راستے کو کہتے ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ: "شرعہ" وہ احکام ہیں جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں اور "منہاج" وہ ہیں جو سنت نبوی میں بیان ہوئے ہیں (مفردات راغب)

پیام:

۱ ۔ قرآن مجید، آسمانی کتابوں کے اصول کا شاہد اور محافظ ہے اور ان کا تکمیل کنندہ ہے۔( مهیمن ) یعنی قرآن مجید تمام آسمانی کتابوں پر نظر رکھے ہوئے ہے، جس طرح یونیورسٹی کی کتابیں پرائمری سے ہائی سٹینڈرڈ کی کتابوں پر نظر رکھے ہوئے ہوتی ہیں)

۲ ۔ اہل کتاب کے درمیان، قرآن مجید کے مطابق فیصلہ دیا جا سکتا ہے( فاحکم بینهم بما انزل الله )

۳ ۔ دینی رہنماؤں کے لئے جس بات کا زیادہ خطرہ لاحق رہتا ہے وہ ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی اور حق کو نظرانداز کر دینا،( ولاتتبع اهوائهم )

۴ ۔ توریت اور انجیل جیسی کتابوں کی یہ تصدیق کہ آسمانی ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں ہمیشہ کے لئے برقرار رکھا جائے گا۔

۵ ۔ دین صرف ایک ہے لیکن "شریعتیں" متعدد ہیں، جیسے ایک دریا ہوتا ہے کہ جس تک پہنچنے کے لئے متعدد راستے ہوتے ہیں۔

۶ ۔ لوگوں کی آزمائش کا ایک ذریعہ، ادیان کا مختلف ہونا ہے۔ تاکہ معلوم ہو سکے کہ کون شخص ایمان لے آتا ہے اور کون کفر اور تعصب کا شکار ہو جاتا ہے۔

۷ ۔ منفی لڑائی جھگڑوں میں الجھنے کی بجائے خیر اور نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ (فاستب( قوا )

۸ ۔ آگے بڑھنے کا میدان اور راستہ امور خیریہ اور معنویہ ہونا چاہئے( فاستبقوا الخیرات )

۹ ۔ قیامت کے دن رسوا ہونے سے پہلے ہی اپنے اختلافات حل کر لو( فینبئکم، بما کنتم فیه تختلفون )

۱۰ ۔ قبل اس کے کہ موقع ہاتھ سے نکل جائے، نیکی کے کاموں میں سبقت لے جاؤ۔

۱۱ ۔ معاد (قیامت) پر ایمان تمام اختلافات کے رفع کرنے کا موجب ہے( فینبئکم بما کنتم فیه تختلفون )

آیت ۴۹

( وَ اَنِ احْکُمْ بَیْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَ لَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعَ اَهْوَآءَ هُمْ وَ احْذَرْهُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْمبَعْضٍ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْکَ ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اِنَّماَ یُرِیْدُ اللّٰهَ اَنْ یُّصِیْبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْ ط وَ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَسِقُوْنَ )

ترجمہ۔ اور (اے پیغمبر!) ان (اہلِ کتاب) کے درمیان وہی فیصلہ کرو جو خدا نے نازل کیا ہے۔ اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، اور ان سے ان باتوں سے بچو کہ وہ تمہیں ان بعض چیزوں سے منحرف کر دیں جو خدا نے تم پر نازل کی ہیں۔ پس اگر وہ تمہارے حکم اور فیصلہ سے روگردانی کریں تو پھر تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انہیں ان کے کچھ گناہوں کے بدلے سزا دے۔ اور یقیناً بہت سے لوگ فاسق (نافرمان) ہیں۔

نکتہ:

مفسرین نے اس آیت کے شان نزول کے بارے میں کہا ہے کہ: کچھ یہودی علماء حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ "اگر آپ فلاں مسئلہ کے بارے میں جو ہمارے اور دوسروں کے درمیان اختلافی مسئلہ ہے (ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور ہمارے ساتھ تمام یہودی بھی ایمان لے آئیں گے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

قرطبی کہتے ہیں کہ اس آیت میں "یقتنوک" کا کلمہ آیا ہے جس میں فتنہ سے مراد "خدا کی راہ کو بند کرنا ہے"

پیام:

۱ ۔ نہایت ہی اہم اور حیات بخش مسائل میں پیغامات کا تکرار کہ "صرف حکم خداوندی کے مطابق فیصلہ کرو اور لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو" اس آیت میں اور اس سے پہلی آیت میں)

۲ ۔ "مقصد ذرائع کو جائز قرار نہیں دیتا" (یعنی کچھ لوگوں کے مسلمان ہونے کے لئے ناجائز فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔

۳ ۔ انبیاء عظام کو خدا کی تنبیہ ان کی عصمت کا عامل ہوتی ہے( فاحذرهم )

۴ ۔ جب حضرت رسول خدا کو کفار کی ثقافتی یلغار کا خطرہ درپیش ہے تو عام لوگوں کا حال تو واضح ہے۔

۵ ۔ دشمن کی ثقافتی یلغار کے نفوذ سے ہوشیار رہو!( واحذرهم ان یفتنوک )

۶ ۔ اس قدر سخت قسم کی تنبیہات( لاتتبع، احذرهم، یفتنوک--- ) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور صراحت کی دلیل ہیں کہ یہ آیات خدا کی طرف سے نازل کردہ ہیں، کیونکہ کوئی شخص خود کو ایسے سخت لہجے میں خطاب نہیں کرتا۔

۷ ۔ گناہ انسان کی پستی کا عامل اور عذاب الٰہی کا موجب ہوتے ہیں۔( لیعصیبهم ببعض ذنوبهم )

۸ ۔ مخالفین بھی بعض الٰہی احکام کو پسند کرتے ہیں، تحریف کا خطرہ بعض قسم کے احکام میں ہوتا ہے۔( عن بعض ما انزل الله )

۹ ۔ دشمن کی روگردانی کا سبب اس کا اپنا فسق ہے ورنہ اے پیغمبر! نہ آپ میں کسی قسم کا نقص ہے اور نہ ہی آپ کے دین میں کسی قسم کی کوئی کمی ہے، گھبرانے کی ضرورت نہیں۔( فان تولوافاعلم )

۱۰ ۔ تمام لوگوں کے ہدایت پا جانے کی توقع نہیں رکھنی چاہئے( کثیرا منهم لفاسقون )

آیت ۵۰

( اَفَحُکْمَ الجَّاهِلِیْةِ یَبْغُوْنَ ط وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُکْمًا لِّقُوْمٍ یُّوْقِنُوْنَه )

ترجمہ۔ آیا وہ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں؟ صاحبان ایمان و یقین کے لئے خدا سے بڑھ کر اور کون بہتر فیصلہ کر سکتا ہے؟

نکتہ:

بہترین قانون وہ ہوتا ہے جس کا مقنن (قانون ساز) مندرجہ ذیل شرائط کا حامل ہو،

۔ جو تمام کائنات اور انسانوں کے حال اور مستقبل سے اچھی طرح واقف ہو۔

۔ اس کا اپنا کوئی ذاتی فائدہ پیش نظر نہ ہو۔

۔ کسی قسم کی عمداً اور سہواً غلطی کا ارتکاب نہ کرے۔

۔ کسی بھی طاقت سے نہ ڈرے۔

۔ سب کا خیرخواہ ہو۔

اور یہ تمام شرائط ذات پروردگار میں بدرجہ اتم موجود ہیں لہٰذا (ومن احسن من اللہ حکما) یعنی خدا سے بڑھ کر اور کون بہتر فیصلہ کر سکتا ہے؟

پیام:

۔ روابط و مراسم اور خارجہ سیاست میں کفار کا مسلمانوں پر تسلط اور ان کی سرپرستی قطعاً ناجائز ہے۔( لاتخذوا ) ۴۰ تسلط خواہ کسی بھی قسم کا ہو خواہ ماہر کے عنوان سے ہو یا سپیشلسٹ اور سیاح کے عنوان سے۔

۲ ۔ دشمن سے تبرا (اظہار برائت) ایمان کی شرط ہے (ی( ٰا یهاالذین امنوا لاتخذوا--- )

۳ ۔ جو مسلمان حکومتیں کفار کے تسلط اور ان کی آقائیت کو قبول کریں گی، کافر سمجھی جائیں گی( فانه منهم ) ہر انسان اور گروہ کے ساتھ دوستی انسان کو اس کا جز بنا دیتی ہے۔

۴ ۔ کفار، مسلمانوں کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں( بعضهم اولیاء بعض )

۵ ۔ کفار کی ولایت اور آقائیت کو ہرگز قبول نہ کرنا کیونکہ صرف اپنی ذات کے فائدہ کے لئے سوچتے ہیں۔( بعضهم اولیاء بعض ) ۴۱

۔ نہ تو کفار کو اپنا "ولی" اور مقتدر اعلیٰ سمجھو اور نہ ہی ان افراد اور حکومتوں سے اپنے کسی قسم کے دوستانہ مراسم کو جو کفار کی "ولایت" کو قبول کئے ہوئے ہیں۔( فانه منهم )

۷ ۔ کفار سے ولایت کے رابطے کا مطلب ہے خدا سے رابطہ ولایت کا انقطاع۔( لایهدی القوم الظٰلمین )

۸ ۔ کفار پر بھروسہ اسلامی امہ اور نظام اسلام پر ظلم ہے( القوم الظٰلمین )

آیت ۵۲ ، ۵۳

( فَتَرَی الَّذِیَْنَ فِی قُلُوْبِهِمْ مَرَضٌ یُسَارِعُوْنَ فِیْهِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَائِرَةٌ ط فَعَسَی اللّٰهُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِه فَیُصْبِحُوْا عَلٰی مَآ اَسَرُّوْا فِیْ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِیْنَ ه وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هٰؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَاِنِهمِ اَنَّهُمْ لَمَعَکُمْط حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ ) ہ

ترجمہ: (اے پیغمبر! کفار کی سرپرستی قبول نہ کرنے کی اس قدر تاکید کے باوجود) تم ایسے لوگوں کو بھی دیکھو گے کہ جن کے دل میں بیماری ہے وہ کفار کے ساتھ دوستی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں (اور اپنے اس اقدام کی توجیہ میں) کہتے ہیں کہ ہمیں ڈر اس بات کا ہے کہ ہمیں کوئی حادثہ درپیش آ جائے (اور ہمیں ان کی مدد کی ضرورت پڑ جائے) پس امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے (مسلمانوں کے فائدہ کے لئے) کوئی فتح یا کوئی اور واقعہ ان کے درپیش کر دے اور اس وقت (منافقین) جو کچھ کہ اپنے دل میں چھپاتے ہیں اس پر پشیمان ہو جائیں۔

اور (مسلمانوں کی فتح و کامرانی اور منافقین کی رسوائی کے موقع پر) مومنین (بڑے تعجب سے) کہتے ہیں، آیا یہ وہی لوگ ہیں جو بڑی تاکید کے ساتھ خدا کی قسمیں کھایا کرتے تھے کہ (اور کہتے تھے کہ) ہم تو تمہارے ساتھ ہیں؟ (اب ان کی یہ کیفیت کیوں ہو چکی ہے؟) ان کے اعمال اکارت گئے اور وہ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گئے۔

پیام:

۱ ۔ کمزور ایمان کے بیمار دل لوگوں کو کافر دشمنوں کے ساتھ دوستی کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی جلدی ہوتی ہے۔( فی قلوبهم مرض یسارعون )

۲ ۔ بیمار دل، ضعیف الایمان افراد اور منافقین انہی کفار کا ایک حصہ ہیں (یسارعون فیھم) ہے "یسارعون الیھم" نہیں ہے۔ (غور کیجئے گا)

۳ ۔ سپر طاقتوں کے ساتھ رسواکن تعلقات قائم کرنے کا موجب ایمان کی کمزوری اور غیرخدا سے خوف اور وحشت ہے (یقولون نحشی)

۴ ۔ مسلمانوں کو اپنی فتح و کامرانی، اسلام کی وسعت اور منافقین کے راز فاش ہونے کی امید رکھنی چاہئے( عسی الله ان یاتی بالفتح )

۵ ۔ سیاسی عزت، اقتصادی قدرت اور فوجی کامیابی سب خدا کی طرف سے اور خدا کے ہاتھ میں ہے (بالفتح اور امرض عندہ)

۶ ۔ اقتدار اور حکومت آنے جانے والی چیزیں ہوتی ہیں( دائرة )

۷ ۔ مستقبل کا خوف، دل کی بیماری اور خدا پر ایمان و توکل کی کمزوری ہے۔

۸ ۔ خوف اور ڈر کا بہانہ بنانا ایک توجیہ ہے حقیقت نہیں ہے( یقولون نخشی )

۹ ۔ کفار کے ساتھ "ولایت" پر مبنی تعلقات قائم نہ کرو تاکہ تمہاری طرف غیبی امدادیں امڈ آئیں( امر من عنده )

۱۰ ۔ نفاق کا انجام، اعمال اکارت جانا، رسوائی اور شرمندگی ہے( نادمین )

۱۱ ۔ منافقین کی قسموں کے فریب میں نہ آؤ۔( اقسموابالله )

آیت ۵۴

( یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِه فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَ یُحِبَّوْنَه اَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجَاهِدُوْنَ فِی سَبِیْلِ اللّٰهِ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ ط ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ ط وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ )

ترجمہ۔ اے ایماندارو! تم میں سے جو شخص بھی اپنے دین سے پھر جائے گا (وہ خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا) کیونکہ عنقریب اللہ تعالیٰ ایک ایسی قوم کو لے آئے گا جسے خدا دوست رکھتا ہو گا اور وہ خدا کو دوست رکھتی ہوگی۔ وہ ایسے لوگ ہوں گے جو مومنین کے سامنے متواضع اور کفار کے مقابلہ میں طاقتور ہوں گے۔ خدا کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ یہ سب خدا کا فضل و کرم ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا اور جاننے والا ہے۔

نکتہ:

روایات میں ہے کہ جب یہ نازل ہوئی تو حضرت رسول اکرم نے اپنا دست مبارک حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر مار کر فرمایا: "تمہارے ہم وطن میں اس آیت کے مصداق ہیں‘ذ (تفسیر نورالثقلین)

سابقہ آیت میں کفار اور منافقین کے تسلط کے خطرہ کی بات ہو رہی تھی اور اس آیت میں ارتداد کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے۔ جو شاید اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کفار نفاق اور کفار کے ساتھ دوستانہ مراسم کا انجام ارتداد (دین سے پھر جانا ہوتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ خردمند اور روشن ضمیر رہبر اور قائد وہ ہوتا ہے جو اپنے پیروکاروں کے بارے میں ارتداد اور اصل اہداف سے پھر جانے کا احتمال بھی دے۔( من یرتد منکم )

۲ ۔ ہر مومن کو اپنے انجام بخیر کی فکر میں رہنا چاہئے( امنوا--- یرتکد منکم--- )

۳ ۔ مضبوط قیادت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ کسی لگی لپٹی بغیر کہہ دے کہ: "اگر کوئی پیروکار پھر بھی جائے تو ہمارے مقصد کو نقصان نہیں پہنچائے گا"۔

۴ ۔ ارتداد، نتیجہ ہے معرفت، دین اور خدا سے محبت کے فقدان کا۔( یاتی الله بقوم یحبهم ویحبونه )

۵ ۔ خدا اپنے دوستوں اور حامیوں کو لے آئے گا، اس تمہاری کوئی ضرورت نہیں لہٰذا اس پر احسان نہ جتاؤ۔( فسوف یاتی الله )

۶ ۔ ایمان کی راہ میں اور جاہلانہ عادات و رسوم کے توڑنے میں دشمن کے سرزنش شوروشرابے اور مسموم پروپیگنڈے سے گھبرانا نہیں چاہئے ۔ اور نہ ہی ماحول، عوام اور اکثریت کے آگے ہتھیار ڈالنے چاہئیں۔ (لایخافون لومة لائم)

۷ ۔ مسلمان کا لائحہ عمل یہ ہونا چاہئے کہ اپنے دینی بھائی کے سامنے تواضع اور انکساری کا مظاہرہ کرے اور دشمن کے آگے خم ٹھونک کر آ جائے۔ اور تواضع ہو یا طاقت کا مظاہرہ ان میں سے کوئی ایک بھی اصل مطلق نہیں ہے( اذلة- اعزة )

۸ ۔ فضل خداوندی صرف مال اور جاہ و مقام کے ملنے کا نام نہیں، خدا کی محبت، اس کی راہ میں جہاد اور دین میں پختگی کا مظاہرہ بھی پروردگار عالم کے فضل و کرم کا مظہر ہوتے ہیں۔

۹ ۔ خدا اور بندہ کے درمیان برابر کی دوستی انسانی کمالات میں سے ایک ہے( یحبهم و یحبونه ) ۴۲

آیت ۵۵

( اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُه وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَهُمْ رَاکِعُوْنَ ) ہ

ترجمہ: تمہارا ولی اور سرپرست تو بس اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لے آئے، نمازکو قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت زکوةٰ دیتے ہیں۔

نکتہ:

اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ: ایک سائل مسجد نبوی میں داخل ہوا اور لوگوں سے راہ خدا میں اپنی امداد کی درخواست کی، کسی نے بھی اسے کچھ نہ دیا، حضرت علی علیہ السلام اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، اور حالت میں اسے انگلی سے اشارہ کیا اور اسی حالت میں اسے اپنی انگوٹھی عطا فرمائی، اس بخشش اور عطیہ کی عزت و تکریم کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔

اس ماجرا کو دس اصحاب پیغمبر نے نقل کیا ہے جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس، عمار بن یاسر، جابر بن عبداللہ، ابوذر غفاری، انس بن مالک اور بلال وغیرہ۔ اور اس کے شان نزول ہر شیعہ اور سنی کا اتفاق ہے اور حضرت عمار یاسر کہتے ہیں کہ جب مولا نے حالت رکوع میں انگشتری دے دی اور اس پر آیت ولایت بھی نازل ہوگئی تو حضرت رسول خدا نے فرمایا "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" یعنی جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کے مولا ہیں۔ (ملاحظہ ہو تفسیر المیزان)

پیغمبر اکرم نے غدیرخم کے مقام پر علی بن ابی طالب کی اوصاف اور ان کا مقام و منزلت بیان کرتے ہوئے اس آیت کو تلاوت فرمایا، (تفسیر صافی) خود حضرت علی علیہ السلام بھی اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے بارہا اس آیت کو پڑھا کئے۔ (تفسیرالمیزان) اور حضرت ابوذر غفاری جو خود اس واقعہ کے شاہد تھے مسجدالحرام میں اس واقعہ کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے رہے (تفسیر مجمع البیان)

اس آیت میں "ولی" کا لفظ "دوست" اور "مددگار" کے معنی میں نہیں ہے کیونکہ دوستی اور امداد رسانی کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے۔ صرف ان سے نہیں جو حالت رکوع میں راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔ اور روایات کی رو سے اس سے مراد ذات علی بن ابی طالب ہے اور ایک شخص کے لئے جمع کے الفاظ کا اطلاق (امنوا۔۔۔ ) اس کی اہمیت کو بیان کرنے کے لئے ہے جس طرح آیہ مباہلہ میں "انفسنا و انفسکم" آیا ہے۔

پیام:

۱ ۔ اسلام تولا اور تبرا کا دین ہے۔ اس میں جذب کرنے کی کشش بھی پائی جاتی ہے اور دور کرنے کی طاقت بھی، گزشتہ آیت میں یہود و نصاری کو ولی و سرپرست بنانے کے لئے روکا ہے۔

۲ ۔ خدا، رسول اور علی کی "روح ولایت" ایک ہے اسی لئے (ولیکم) فرمایا ہے ورنہ "اولیائکم کہا جاتا۔

۳ ۔ قرآن مجید میں عام طور پر نماز اور زکوٰة ساتھ ساتھ بیان ہوئی ہیں، لیکن اس آیت میں دونوں ایک دوسرے میں ملکی ہوئی ہیں۔ (رکوع کی حالت میں زکوٰة کی ادائیگی)

۴ ۔ جن لوگوں کا نماز و زکوة سے کوئی سروکار نہیں ہوتا انہیں لوگوں کی ولایت اور رہبری کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ معاشرہ کے محروم طبقہ کی فریادرسی کے لئے نماز جیسی عبادت کو بھی مانع نہ سمجھو اور مسلمانوں کے مجمع سے سائل کو خالی ہاتھ نہیں پلٹنا چاہئے۔

۶ ۔ رضائے الٰہی کے حصول کے لئے مخلوق خدا کی طرف توجہ، اخلاص کے لئے مضر نہیں ہوتی (حالت رکوع میں زکوٰة) اسی طرح خدا کو چھوڑ کر خلق خدا کے لئے کام کرنا "مارکسزم" ہے، خلق خدا سے بے پرواہ ہو کر خدا کے لئے کام کرنا "رہبانیت" (سادھو ازم) اور رضائے الٰہی کی خاطر خلق خدا کے لئے کام کرنا "اسلام" کی روش ہے)۔

۷ ۔ جسے غریبوں کی آہ کا کوئی خیال نہیں ہوتا وہ تمہارا رہبر اور ولی نہیں ہو سکتا۔

۸ ۔ (راہ خدا میں رضائے خدا کے لئے خرچ کرنے جیسے) جزوی کام نماز کو باطل نہیں کرتے۔

۹ ۔ قرآن نے مستحبی صدقہ اور انگوٹھی کو بھی زکوٰة کہا ہے( یوٴتون الزکوٰة )

۱۰ ۔ مسلمانوں پر ولایت کا حق پہلے مرحلہ میں خدا کو حاصل ہے اس کے بعد اس رسول خدا کو پھر امام کو اور اس کے بعد "ولی فقیہ" کو۔

۱۱ ۔ رسول اسلام کے بعد علی بن ابی طالب علیہ السلام ہی مسلمانانِ عالم کے اکلوتے رہنما ہیں۔

۱۲ ۔ تعارف کی بہترین نوعیت یہ ہے کہ کسی کا نام لئے بغیر اس کے اوصاف اور خصوصیات کو بیان کیا جائے، مخاطب خود ہی اس کا مصداق پیدا کرے۔ (جیسا کہ آیت میں علی علیہ السلام کا نام لئے بغیر ان کے اوصاف و افعال کو بیان کیا گیا ہے)

آیت ۵۶

( وَمَنْ یَّتَوَلَ اللّٰهَ وََ رَسُوْلَه وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ ) ہ

ترجمہ۔ جو شخص خدا، رسول اور مومنین سے ولایت کا تعلق رکھتا ہے تو (اسے معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کامیاب ہے، کیونکہ) خدا کا گروہ یقینی طور پر کامیاب ہے۔

نکتہ:

"( امنوا ) " کا مصداق سابقہ آیت میں بیان ہو چکا ہے۔

"( حزب الله ) " (خدا کا گروہ) کے اوصاف سورہ مجادلہ/ ۲۲ میں مذکورہ ہیں۔

یہ آیت کہ جس میں خدا، رسول اور مومنین کی ولایت کے قبول کرنے کا ذکر ہے، یہ بات سمجھا رہی ہے کہ سابق آیت میں "ولیکم" سے مراد سرپرست اور حاکم ہے نا کہ دوست اور مددگار۔ کیونکہ "حزب اللہ" اور ا س کے غالب آنے کی تعبیر ایک مقتدر نظام اور حکومت کی طرف اشارہ ہے۔ ۴۳

"حزب" کا معنی ہے طاقتور اور مضبوط گروہ (کتاب معجم الوسیط)

پیام:

۱ ۔ "حزب اللہ" صرف وہی لوگ ہیں جنہوں نے خدا، پیغمبر اور اہلبیت کی ولایت اور حکومت کو تسلیم کیا ہے۔

۲ ۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب "اسلام" تمام دنیا پر حکم فرما ہو گا "لیظہرہ علی الدین کلہ" اور اسی دور میں تشیع ہی کا مکمل غلبہ ہو گا( ومن یتول--- هم الغالبون )

۳ ۔ ہر طرح کی کامیابی حق پر مبنی قیادت اور رہبری میں ہے( ومن یتول--- هم الغالبون )

۴ ۔ چونکہ نظم و ضبط، مدیریت، قدرت، طاقت، وحدت اور جرأت کے بغیر کامیابی کا حصول ناممکن ہے لہٰذا حکومت اور غلبہ و کامرانی کے لئے "حزب اللہ" کو ان اوصاف کا حامل ہونا ضروری ہے۔

۶ ۔ اسلامی غلبہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فلاح، عزت، وقار اور منطق کارفرما ہوتی ہے صرف اور صرف طاقت یا حکومت کا تختہ الٹنا نہیں ہوتا۔( حزب الله هم الغالبون ) اور ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے "حزب اللہ ہم المفلحون"

۷ ۔ چونکہ خداوند عالم غالب ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے "واللہ غالب علی امرہ" لہٰذا اس سے تعلق رکھنے والے افراد بھی غالب ہیں( حزب الله هم الغالبون )

آیت ۵۷

( یَاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ الْکُفَّارَ اَوْلِیَآءَ وَاتَّقُوْا اللّٰهَ اِنْ کُنْتَمْ مُؤْمِنِیْنَ )

ترجمہ۔ اے ایماندارو! ان (یہودی اور نصرانی) لوگوں کہ جنہیں تم سے پہلے آسمانی کتاب دی گئی ہے اپنا سرپرست نہ بناؤ جو تمہارے دین کا مذاق اڑائے اور اسے کھیل تماشہ سمجھتے ہیں۔ اور نہ میں (دوسرے) کفار کو اور اگر تم مومن ہوتو خدا سے ڈرتے رہو۔

پیام:

۱ ۔ دین خدا اور مذہبی مقدسات کی توہین اور مسخرہ بازی کی دنیا میں سزا یہ ہے کہ ایسا کرنے والوں سے تعلقات ختم کر دیئے جائیں( لاتتخذوا--- )

۲ ۔ دین کا مذاق اڑانا، کافروں کا کام ہے۔

۳ ۔ دینی حمیت رکھنا اور نااہل افراد سے تبرا کرنا، ایمان کی شرط ہے۔

۴ ۔ اگر تم ایماندار ہو اور خدا سے بھی ڈرتے ہو تو پھر دین کا مذاق اڑانے والے کفار سے تعلقات منقطع کرنے سے ہرگز نہ گھبراؤ۔

آیت ۵۸

( وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَّ لَعِبًا ط ذٰلِکَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا یَعْقِلُوْنَ ) ہ

ترجمہ۔ اور جب تم (اذان کے ذریعہ لوگوں کو) نماز کیلئے بلاتے ہو تو وہ تمہارے بلاوے کامذاق اڑاتے ہیں اور اسے کھیل تماشہ سمجھتے ہیں یہ اس لئے کہ وہ لوگ عقل نہیں رکھتے۔

پیام:

۱ ۔ ان لوگوں سے دوستانہ مراسم نہ رکھو جو اذان کا مذاق اڑاتے ہیں۔

۲ ۔ نماز، دین کا چہرہ اور نمونہ ہے، (گزشتہ آیت میں دین کے مذاق اڑانے کی بات ہو رہی تھی اور اس آیت میں نماز کو مذاق سمجھنے کی بات ہو رہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز دین کی ایک نمایاں تصویر ہے۔

۳ ۔ نماز کیلئے بلند آواز سے بلانا چاہئے تاکہ سب لوگ اکٹھے ہوں اور نماز اعلانیہ طور پر ہونی چاہئے( نادیتم )

۴ ۔ اسلامی معاشرہ میں نماز کیلئے بلند آواز سے بلانا چاہئے اور اس کی زیادہ سے زیادہ تبلیغ کرنی چاہئے اور انداز ایسا ہو کہ کسی کے مزاحم بھی نہ ہو۔

۵ ۔ عقلمندوں کا طریقہ کار تو منطقی گفتگو ہے لیکن بے عقل لوگوں کا کام مذاق اڑانا ہوتا ہے( ذالک بانهم قوم لایعقلون )

آیت ۵۹

( قُلْ یَاَهْلَ الْکِتٰبِ هَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّا اِلَّا اَنْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَآ اَنْزَلَ اِلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَ اَنَّ اَکْثَرَ کُمْ فٰسِقُوْنَ ) ہ

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) آپ کہہ دیں کہ اے اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) یہ جو تم ہم پر اعتراض کرتے ہو آیا ہم نے اس کے علاوہ کوئی کام کیا ہے کہ خدا پر ایمان لائے، جو چیز ہم پر نازل ہوئی ہے اس پر اور جو کچھ (قرآن سے) پہلے نازل ہوا (گزشتہ انبیاء پر) ایمان لائے، یقیناً تم میں سے بہت سے لوگ حق کی حدود سے نکل گئے ہیں (اور فاسق ہو چکے ہیں)

پیام:

۱ ۔ مخالفین کے ساتھ بھی اچھے انداز سے جھگڑنا چاہئے، یعنی ایسے استدلال پیش کرنے چاہئیں جن میں دل کو نرم کر دینے والے سوالات موجود ہوں( هل تنقمون ) ؟)

۲ ۔ ہمارے ساتھ مخالفین کی دشمنی صرف ہمارے ایمان کی وجہ سے ہے( الا ان امنا بالله )

۳ ۔ تاریخی اعتبار سے اہلِ کتاب نے ہم پر ظلم کرنے کی کیا کسر باقی چھوڑی ہے؟( هل تنقمون منا )

۴ ۔ دشمن کی سختی کے باوجود تم عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو۔ اور سب کو ایک جیسا اور فاسق نہ سمجھو( اکثرکم )

۵ ۔ حق کا انکار اور حق کے پیروکاروں کی ایذارسانی، فسق ہے( فاسقون )

آیت ۶۰

( قُلْ هَلْ اُنَبِّئُکُمْ بِشَرِّ مِّنْ ذٰلِکَ مَثُوْبَةً عِنْدِ اللّٰهِ ط مَنْ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَ غَضِبَ عَلَیْهِ وَ جَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِ یْرَوَعَبْدَ الطَّاغُوْتِ ط اُوْلٰٓئٰکَ بِشَرٍّمَّکَانًا وَّ اَضَلُّ عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ )

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) کہہ دو کہ آیا میں تمہیں یہ خبر نہ دوں کہ خدا کے نزدیک کن لوگوں کی بدترین جزا ہے؟ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور ان پر غضب ڈھایا ہے، اور ان میں سے کچھ لوگوں کو بندروں اور سوروں کی شکل میں تبدیل کر دیا ہے اور جنہوں نے طاغوت کی پرستش کی ہے۔ اللہ کے نزدیک ایسے لوگوں کا بدترین ٹھکانہ ہے اور راہ راست سے بھٹکے ہوئے گمراہ ترین لوگ ہیں۔

نکتہ:

جو لوگ مسلمانوں کے دین اور نماز کا مذاق اڑاتے ہیں، اور انہیں ایمان رکھنے کی وجہ سے اذیتیں دیتے ہیں وہ اپنے تاریک اور بے شرمانہ ماضی پر نگاہ کیوں نہیں کرتے؟ کہ خدا کے قہر و غضب میں گرفتار ہو کر مسخ اور رسوا ہوئے۔ اگرچہ زمانہ پیغمبر اسلام کے یہودی بندروں اور خنزیروں کی صورت میں تبدیل نہیں ہوئے لیکن چونکہ بنی اسرائیل خود کو ایک قوم اور اجتماعی اوصاف کا حامل سمجھتے تھے اور اپنے اسلاف کے کارناموں پر فخر کرتے تھے اور انہیں اپنی طرف نسبت دیتے تھے لہٰذا ان کے اسلاف کی رسوائیاں، ان کے غرور کو توڑ رہی ہیں۔

پیام:

۱ ۔ دشمن کے مسموم پروپیگنڈے اور ان کی نیش زنی سے خوف مت کھاؤ کہ ان کی اپنی ایک رسوا کن تاریخ ہے۔

۲ ۔ جو دوسروں کا احترام نہیں کرتا، اس کا بھی احترام نہیں کیا جاتا۔

۳ ۔ اگر اہل کتاب نے تہیہ کر لیا ہے کہ تمہارا مذاق اڑائیں اور تمہیں دکھ پہنچائیں تو ہم بھی ان کا تاریخی ریکارڈ پیش کئے دیتے ہیں (ان کا بندر اور خنزیر بن جانا اور طاغوت کی پرستش کرنا)

۴ ۔ دشمن کے مسخرہ بازی کے سوتوں (غرور اور تفوق طلبی) کو ان کے رسواکن ریکارڈ کے ذریعہ خشک کر دینا چاہئے۔

۵ ۔ طاغوت کی اطاعت کرنے والے، مسخ ہو جانے والوں کے زمرہ میں شامل ہیں۔

۶ ۔ تنقید یا مذمت تو وہ کرے جس کے پاس منطقی استدلال ہو اور دل پاک ہو۔ (گزشتہ آیت میں بتایا گیا ہے کہ ان کے پاس کوئی منطقی دلیل نہیں ہے اور اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ ان کے دل پاک نہیں تھے)

سورہ مائدہ آیت ۶۱

( وَ اِذَا جَآءُ وْ کُمْ قَالُوْا اٰمَنَّا وَ قَدْ دَّخَلُوْا بِالْکُفْرِ وَ هُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِه ط وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا کَانُوْا یَکْتُمُوْنَ )

ترجمہ۔ اور جب بھی وہ (منافقین) تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ "ہم ایمان لے آئے" حالانکہ وہ یقینی طور پر کفر میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں اور یقین کے ساتھ کفر کی حالت میں باہر جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ بہتر طور پر آگاہ ہے کہ جو کچھ وہ چھپاتے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ لوگوں کا اظہار ایمان تمہیں دھوکہ میں نہ ڈال دے۔

۲ ۔ کفر کی حالت میں آنا اور کافر ہو کر واپس جانا دل کی قساوت کی دلیل ہے۔

۳ ۔ ماحول اور معاشرہ انسان کو کسی چیز کے قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔

۴ ۔ اللہ تعالیٰ دشمن کی باطنی کیفیت سے آگاہ ہے۔

۵ ۔ اللہ تعالیٰ، انسان کے ضمیر اور باطن سے اس کی اپنی نسبت زیادہ آگاہ ہے( اعلم )

۶ ۔ بعض اوقات اسلامی معاشرہ کے مذہبی اجلاسوں میں بعض افراد کی شرکت ضروری نہیں ہے کہ ان کے خلوص کی وجہ سے اور ہدایت پانے کے لئے ہو۔

سورہ مائدہ آیت ۶۲

( وَ تَرٰی کَثِیْرًا مِّنْهُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَ اَکْلِهُمُ السُّحْتَ ط لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ )

ترجمہ۔ اور (اے پیغمبر! تم) ان (ایمان کے دعویداروں) میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھو گے کہ گناہ اور ظلم اور حرام کا کھانے میں جلدی کرتے ہیں۔ اور کیا ہی برا کام ہے جو وہ کرتے ہیں۔

نکتہ:

گزشتہ آیت میں ان لوگوں کی کافرانہ کیفیت کی بات ہو رہی تھی اور اس آیت میں ان کی اخلاقی، اجتماعی اور اقتصادی خرابیوں کی گفتگو ہو رہی ہے۔

پیام:

۱ ۔ منحرف اور گمراہ لوگوں پر تنقید اور ان کی مذمت کرنے میں بھی انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔( کثیرامنهم )

۲ ۔ اسلامی معاشرے کی تصویر یہ ہے کہ اس میں صدقات و خیرات اور نیکی کی طرف سبقت ہوتی ہے اور کافرانہ اور منافقانہ معاشروں میں فساد و خرابی کی طرف دوڑ ہوتی ہے۔ پہلے معاشرہ کے لئے ہے "یسارعون فی الخیرات" اور دوسرے کے لئے ہے( یسارعون فی الاثم والعدوان )

۳ ۔ منافقین کا اصل مقصد "شہوت" اور "ثروت" اور "قدرت" ہوتا ہے۔ ("اثم"، "سحت"، "عدوان

۴ ۔ گناہ سے برتر، اس کا علانیہ انجام دینا ہے( تری )

۵ ۔ اخلاقی برائیوں( اثم ) اجتماعی برائیوں (عدوان) اور اداری و دفتری برائیوں (سخت و رشوت) سے برتر برائیوں کی عادت بنا لیا ہے۔( یسارعون ) استمرار پر دلالت کر رہا ہے)

۶ ۔ گناہ کی آلودگی سے بدتر گناہ میں غرق ہونا ہے( فی الاثم )

آیت ۶۳

( لَوْلَایَنْهٰهُمُ الرَّبَّانِیُوْنَ وَالْاَحْبَارِ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَ اَکْلِهِمُ السُّحْتَ ط لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ )

ترجمہ۔ اللہ والے اور تربیت کرنے والے علماء (جن کا معاشرے میں مقام ہے اور کردار موثر ہے) ان لوگوں کو گناہ آلود گفتار اور کردار سے اور ناجائز طریقے سے مال کھانے سے کیوں نہیں روکتے؟ کس قدر برا کام کرتے ہیں!

نکتہ:

حضرت علی علیہ اسلام خطبہ قاصعہ (نہج البلاغہ کے ۱۹۲ ویں خطبہ) میں ارشاد فرماتے ہیں: "اللہ تعالیٰ نے گزشتہ اقوام پر اس لئے قہر و غضب نازل کیا ہے کہ انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ترک کر دیا تھا، خدا لعنت کرے گناہ کا ارتکاب کرنے والے عوام اورچپ رہنے والے علماء پر"۔

پیام:

۱ ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی سب سے پہلے علماء پر عائد ہوتی ہے اور ان کا کام صرف دین سکھانا اور تقریر کرنا نہیں ہے۔

۲ ۔ علماء کی خاموشی اور معاشرے سے ان کی لاتعلقی برائیوں کی ترویج کا سبب ہوتی ہے۔

۳ ۔ علماء کے پاس اقتدار ہونا چاہئے تاکہ وہ وعظ و تبلیغ کے علاوہ اس کے ذریعہ برائیوں کا سدباب کر سکیں (ی( نهاهم )

۴ اگر نہی عن المنکر، گناہ کو نہیں روک سکتی، کم از کم اس کی سرعت اور تیزی کو تو روک سکتی ہے۔ (ی( سارعون ) ۔۔۔( لولاینها هم )

۵ ۔ علماء اہل کتاب نے تو اپنے کم از کم فریضہ کو بھی ادا نہیں کیا (ا س سے پہلی آیت اثم، عدوان اور حرام خواری کو ان کے گناہ شمار کیا گیا ہے لیکن اس آیت میں "عدوان" کا لفظ نہیں آیا۔ جو شاید یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر علماء اہل کتاب عدوان کو نہیں روک سکتے تھے، "سحت" کو تو روک سکتے تھے اور کیوں نہیں روکا؟)

۶ ۔ علم زینت یہ ہے کہ اس کا اظہار کیا جائے اور اس کی برائی اس بات میں ہے کہ خاموشی اختیار کرکے حق بات کو چھپایا جائے۔

۷ ۔ برائیوں کے سامنے خاموشی اختیار کر لینے والا عالم، مجرم اور جرائم پیشہ لوگوں سے زیادہ بدتر ہے کیونکہ یہ سمجھ رکھتا ہے اور بیان کی قدرت بھی، لیکن کوئی کام نہیں کرتا۔ ۴۴

آیت ۶۴

( وَ قَالَتِ الیَّهُوْدَ یَدُ اللّٰهِ مَغْلُوْلَةٌ ط غُلَّتْ اَیْدِیْهِمْ وَلُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا بَلْ یَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِ یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآئُط وَ لَیَزِ یْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْهُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّکُفْرًا ط وَ اَلْقَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَآءَ اِلَی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ ط کُلَّمَآ اَوْ قَدُوْ ا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَهَا اللّٰهُ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًاط وَاللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ )

ترجمہ۔ اور یہودیوں نے کہا کہ "خدا کا ہاتھ بندھا ہوا ہے" ان کے اپنے ہاتھ بندھتے رہیں، وہ اس طرح کی بات کرنے سے خدا کے لطف و کرم سے دور ہو گئے۔ بلکہ خدا کے تو دونوں دست (قدرت) ہمیشہ کھلے ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے بخشش کرتا ہے۔ (دشمن اس قدر ہٹ دھرم اور ضدی ہیں کہ) جب بھی کوئی چیز (اے رسول!) آپ پر نازل ہوتی ہے (اسے قبول کرنے اور اس پر ایمان لانے کے لئے بجائے) ان میں سے بہت لوگوں کے کفر اور سرکشی میں اضافہ کر دیتی ہے۔ اور ہم نے (ان کے بغض و عناد کی وجہ سے) قیامت کے دن تک ان کے درمیان دشمنی اور کینہ ڈال دیا ہے۔ وہ جب بھی جنگ کے لئے آگ بھڑکاتے ہیں خداوند عالم (اسلام کے فائدہ اور ان کے نقصان میں) اسے بجھا دیتا ہے۔ وہ ہمیشہ زمین میں فتنہ و فساد اور تباہی و بربادی کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ فساد کرنیوالوں کو دوست نہیں رکھتا۔

نکتہ:

گزشتہ آیت میں یہودیوں کی مخالفانہ اور غیرمربوط باتوں کا ذکر اور علماء کا ایسی باتوں سے نہ روکنے کا تذکرہ تھا۔ اور اس آیت میں ایسی باتوں کا ایک نمونہ بیان کیا گیا ہے کہ یہودی کہتے ہیں۔ "خدا کا ہاتھ بندھا ہوا اب وہ ہمیں اقتدار و قدرت اور شان وشوکت نہیں دے سکتا جیسا کہ ہم سابق میں قدرت مند تھے۔"

شیعی روایات کے مطابق یہ آیت بتا رہی ہے کہ یہودیوں کا قضا و قدر کے بارے میں کیا عقیدہ ہے؟ کیونکہ یہودیوں کے عقیدہ کے مطابق ابتدائے آفرینش میں تو خدا کے ہاتھ کھلے تھے جو چاہتا تھا پیدا کر دیتا تھا۔ اور جب سب کچھ خلق کر لیا اب اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔

آیت میں "ید" (ہاتھ) کا لفظ "قدرت" کے معنی میں ہے۔ عربی میں "ید" فارسی میں "دست‘ (اور اردو میں "ہاتھ کنایہ کے طور پر قدرت اور اثر و رسوخ کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً ہم روزمرہ کی باتوں میں کہتے ہیں کہ فلاں شخص کا فلاں علاقہ یا فلاں ادارے میں ہاتھ ہے۔ یا فلاں شخص کے بڑے لمبے ہاتھ ہیں۔ یا فلاں کے ہاتھ کٹ گئے۔ یا فلاں شخص تک ہمارا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا۔ یعنی ہمارے بس سے باہر ہے وغیرہ۔

روایات میں یہ آیا ہے کہ "اولیاء اللہ خدا کے ہاتھ ہیں" یعنی لوگوں کے لئے خدا کی رحمت اور لطف و کرم کا واسطہ اور وسیلہ ہیں۔

پیام:

۔ اپنی عدم لیاقت اور نااہلی کا الزام دوسروں پر نہ لگاؤ۔ (شیطان نے اپنے تکبر کا الزام خدا پر لگایا اور اس کی طرف گمراہ کرنے کی نسبت دی اور کہا: "( رب بما اغوتینی ) اور یہودیوں نے بھی اپنی بے لیاقتی اور نااہلی کا الزام خدا پر لگایا اور اس کی توجیہ یوں کی کہ خدا بخیل ہے( یدالله مغلوله )

۲ ۔ دین میں کج فہمی کی اجازت نہیں ہے۔ (علامہ طبا طبائی مرحوم فرماتے ہیں کہ جب فقر و فاقوں کی نوبت آ جاتی یا خدا کو قرض دینے کی آیت نازل ہوئی تو یہودی کہتے کہ: یہ قحط کی صورت اور قرض الحسنہ کی یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں)

۳ ۔ جیسا کردار ویسی ہی کیفر۔ انہوں نے کہا:( یدالله مغلوله ) اللہ نے فرمایا،( غلت ایدیهم )

۴ ۔ دوسروں کے گناہ پر راضی ہونا خود گناہ میں شریک ہونا ہوتا ہے (خدا کی طرف ہاتھ بندھنے کی نسبت بعض یہودی دیتے تھے۔ لیکن چونکہ دوسرے تمام یہودی اس پر راضی تھے لہٰذا اس غلط اور گمراہ کن نظریہ کی نسبت سب کی طرف دی گئی۔( قالت الیهود )

۵ ۔ جواب، اعتراض سے زیادہ طاقتور ہونا چاہئے۔ (انہوں نے کہا: خدا کا ہاتھ بندھا ہوا ہے، آیت کہہ رہی ہے خدا کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں۔ یعنی خدا صرف قدرت ہی نہیں رکھتا قدرت کاملہ بھی رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا "یداللہ" آیت نے کہا: "یداہ

۶ ۔ قرآن مجید میں جس جگہ کوئی ایسا نقطہ نظر آئے جس کا بظاہر عقل کے ساتھ سازگار نہیں ہوتا تو اس کی صحیح تفسیر تلاش کرنی چاہئے۔ (خدا کی طرف "ہاتھ" کی نسبت کہ "یداہ مبسوطتان) جبکہ خدا کا جسم ہی نہیں کہ اس کے دو ہاتھ ہوں۔ تو یہاں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ "ہاتھ" خدا کی قدرت اور طاقت سے کنایہ کے طور پر استعمال ہوئے ہیں)

۷ ۔ جس طرح قرآن مجید، پرہیزگاروں کے لئے نور اور ہدایت ہے، اسی طرح ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں کے لئے کفر اور سرکشی کا موجب بن جاتا ہے (ویزیدن۔۔۔ )

۹ ۔ یہودی ہمیشہ سے فتنہ کی آگ بھڑکاتے آ رہے ہیں لیکن خود ہی اس میں جل جاتے ہیں۔( کلما اوقدوا ) ۔۔ )

۱۰ ۔ یہودی بظاہر قیامت تک رہیں گے( الی یوم القیمٰة )

۱۱ ۔ جب تک مسلمان، حضرت رسول پاک کی اتباع کرتے رہے اس وقت تک خدا بھی یہودیوں کے فتنہ و فساد اور جنگ کی آگ کو بجھاتا رہا اور جب سے وہ اس رستے سے ہٹ گئے اور نصرت الٰہی کا سہارا چھوڑ دیا اس وقت سے یہودیوں کے فتنوں کی آگ میں جل رہے ہیں۔

۱۲ ۔ سزا کے طور پر ان یہودیوں میں کینہ اور دشمنی کا ڈالنا بھی خدا کی طرف سے ہے اور آتش جنگ کا بجھانا بھی اسی کی طرف سے ہے۔( القینا--- اطفا )