تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 66204
ڈاؤنلوڈ: 7099

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 66204 / ڈاؤنلوڈ: 7099
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۲۱

( وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰهِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِهط اِنَّه لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور اس شخص سے بڑھ کر اور کون ظالم ہوتا ہے جو خدا پر جھوٹ باندھتا ہے یا آیات خداوندی کو جھٹلاتا ہے، یقیناً ظالم لوگ فلاح نہیں پاتے۔

دو نکات:

تقریباً پندرہ مرتبہ قرآن مجید میں "ومن اظلم" کا جملہ استعمال ہوا ہے۔ جو یا تو خدا پر بہتان باندھنے یا لوگوں کو مسجد سے روکنے اور یا پھر گواہی اور حق کو چھپانے کے سلسلہ میں ذکر ہوا ہے۔ جس سے یہ بات بخوبی سمجھی جا سکتی ہے کہ ثقافتی اور تعلیمی ظلم اور لوگوں کی معلومات کو پروان چڑھنے اور علم و فہم کے ترقی کرنے سے روکنا معاشرہ اور اجتماع پر بہت بڑا ظلم ہے۔

پتھر اور لکڑی کو خدا کے ہم پلہ قرار دینا، خدا پر ظلم ہوتا ہے اور مذکورہ اشیاء کی پرستش انسانیت پر ظلم ہوتا ہے۔

پیام:

۱۔ مظلوم جس قدر زیادہ قابلِ عزت اور زیادہ مقدس ہوگا ظلم کا خطرہ اسی قدر زیادہ ہوگا۔ اسی لئے خدا پر ظلم، خانہ خدا پر ظلم، ذات اقدس الٰہی پر افترا پر دازی بدترین ظلم کے زمرے میں آتے ہیں۔( ومن اظلم )

۲۔ انسانیت کے افکار و اذہان اور تعلیم و ثقافت پر ظلم، بدترین ظلم ہوتا ہے۔ شرک، خدا کی ذات پر افتراپردازی، نبوت کا جھوٹا دعویٰ، بدعت، تفسیر بالرائے اور حق کی پردہ پوشی ان سب کا شمار ظلم میں ہوتا ہے۔

آیت ۲۲

( وَیَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْآ اَیْنَ شُرَکَآوُٴ کُمُ الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ) ۔

ترجمہ: اور جس دِن ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے، پھر مشرکین سے کہیں گے کہ کہاں ہیں تمہارے وہ شریک جن کے بارے میں تمہیں خدائی کا گمان تھا؟

چند نکات:

گذشتہ آیت میں بیان ہو چکا ہے کہ جو ظالم لوگ افترا پردازی، تکذیب اور حق پوشی سے کام لیتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ کامیاب وہ شخص ہوگا جس کے پاس قیامت کے لئے جواب ہوگا۔ جبکہ قیامت کے دِن تمام مشرکانہ خیالات مٹ جائیں گے۔

"( جمیعاً ) " کے کلمہ سے مراد یا تو تمام لوگ ہیں یا مشرکین اور بت ہیں، کیونکہ ایک اور آیت میں ارشاد ہو رہا ہے "( احشرواالذین ظلموا و ازواجهم وما کانو یعبدون ) " اس آیت میں لوگوں کے زندہ ہونے، ان کے زن و مرد کے جوڑوں اور ان کے معبودوں کے زندہ ہونے اور محشور ہونے کے بارے میں خطاب ہے۔

آیت میں اگرچہ شرک کو بیان کیا گیا ہے، لیکن جو لوگ حقیقی اولیاء اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا رہبر و رہنما تسلیم کرتے ہیں یا اولیاء اللہ سے مخالفت کرتے ہیں وہ بھی ایک طرح کے مشرک ہیں۔ جب کہ "زیارت جامعہ" کے الفاظ ہیں "ومن خالفکم مشرک " اور ایک حدیث میں ہے کہ "الرادعلینا کالراد علی الله والراد علی الله فی حد الشرک " یعنی جو شخص ہمارے کلام اور ہمارے طریقہ کار کا انکار کرے گا وہ ایسے ہے جیسے کلامِ خدا کا انکار کرے اور ایسا شخص مشرک کی مانند ہے۔

پیام:

۱۔ خدا کے علم اور اس کی قدرت کی کوئی حد و انتہا نہیں ہے۔ کوئی ایک بھی فراموش نہیں ہوگا سب کے سب بارگاہِ الٰہی میں پیش ہوں گے۔( جمیعاً )

۲۔ قیامت کے دن کی عدالت کھلی عدالت ہوگی۔( نحشرهم جمیعا ثم نقول )

۳۔ شرک تو بس ایک خیالِ محض ہے۔( تزعمون )

۴ ۔ ہر قسم کے عقیدہ، عشق و عبادت سے پہلے قیامت کے دِن کی جواب دہی کے لئے تیاری کرنی چاہیے۔(( این شرکاؤکم )

آیت ۲۳ ۔ ۲۴

( ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ- اُنْظُرْ کَیْفَ کَذَبُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ) ۔

ترجمہ: پس (بتوں کے فریفتہ مشرکین کے لئے) کوئی عذر اور بہانہ باقی نہیں رہا سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا ہمیں اپنے رب، خدا کی قسم ہم مشرکین نہیں تھے۔

دیکھو تو سہی کہ مشرکین اپنے نقصان کے لئے کیونکر جھوٹ بولتے (اور اپنے شرک کا انکار کرتے) ہیں اور جو وہ خدا پر جھوٹ باندھتے تھے ان کے ہاتھ سے جاتا رہا۔

دو نکات:

اس آیت میں "فتنہ" کا معنی بتوں اور شرک سے فریفتگی ہے یا "معذرت" کے معنی میں ہے۔

دروغ گو اپنی ہی عادت کے مطابق قیامت کے دِن بھی جھوٹ بولیں گے ۔ جیسا کہ ایک اور جگہ پر ارشاد ہوتا ہے۔ "( یوم یبعثهم الله جمیعا فیحلفون له کما یحلفون لکم ویحسبون انهم علی شییٴً ) " یعنی جس دِن اللہ تعالیٰ ان سب کو دوبارہ اُٹھائے گا اور وہ خدا کے سامنے بھی اسی طرح قسمیں کھائیں گے جس طرح تمہارے سامنے کھاتے ہیں اور گمان کریں گے کہ اپنی کسی بات پر قائم ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام اسی آیت کے ذیل میں ارشاد فرماتے ہیں "اس جھوٹ کے بعد ان کے لبوں پر مہر لگا دی جائیے گی اور ان کے دوسرے اعضاء حق بات بیان کریں گے"

پیام:

۱۔ جھوٹ بولنے کی عادت قیامت میں بھی ظاہر ہوگی۔( والله ربنا ماکنا مشرکین )

۲۔ خدائی عدالت میں نہ تو جھوٹ کام آئے گا اور نہ ہی قسم۔( ضل عنهم ماکانو ایفترون )

۳۔ قیامت کے دِن، مشرکین اپنے افکار اور عقائد سے اظہار برائت کریں گے۔( ماکنا مشرکین )

۹; (یہ اور بات ہے کہ قیامت کے دِن شر ک سے بیزاری ان کے لئے کارآمد نہیں ہوگی)

۴۔ قیامت اس قدر حتمی اور یقینی ہے گویا اس وقت موجود ہے۔( انظر ) فرمایا ہے "ستنظر" نہیں فرمایا)

۵۔ خدا کے علاوہ دوسرے تمام سہارے نابود ہو جائیں گے۔( ضل عنهم )

۶۔ خدا کے علاوہ دوسرے تمام سہارے صرف خیال ہی خیال ہیں۔( یفترون )

آیت ۲۵

( وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ ج وَجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِهِمْ اَکِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَفِیْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا ط وَاِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَةٍ لَّا یُوٴمِنُوْا بِهَاط حَتّٰیٓ اِذَا جَآءُ وْکَ یُجَادِ لُوْنَکَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِنْ هٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ) ۔

ترجمہ: اور ان میں سے کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو (اے پیغمبر!) آپ کی باتوں کو غور سے سنتے ہیں۔ لیکن ہم نے ان کے دِلوں پر پردے ڈال دئیے ہیں تاکہ وہ کچھ نہ سمجھ سکیں اور ان کے کان (حق بات سننے کے لئے) سنگین ہیں۔ اور اگر وہ ایک آیت کو دیکھیں پھر بھی اس پر ایمان نہیں لائیں گے حتیٰ کہ جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں تو جھگڑا شروع کر دیتے ہیں۔ کافر لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو گذشتہ لوگوں کے قصے کہانیوں کے علاوہ کچھ نہیں۔

چند نکات:

اس آیت کا شانِ نزول اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ابوسفیان، ولید بن مغیرہ، عتبہ، شیبہ اور نضربن حارث خانہ کعبہ کے باہر کھڑے ہو کر پیغمبرِ گرامی اسلام( ٴ ) کی تلاوت کو غور سے سننے لگے، سب نے "نضر" سے پوچھا۔ "کیا پڑھ رہے ہیں؟" اس نے کہا "رب کعبہ کی قسم! میں نہیں سمجھ رہا کہ کیا پڑھ رہے ہیں؟ البتہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ لوگوں کے قصے کہانیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس قسم کے قصے کہانیوں میں بھی تم سے بیان کرتا رہتا ہوں۔" جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۹; "اکنة " جمع ہے "کن " یا "کنان " کی جس کا معنی ہے "پردہ" اور "وقر" کا معنی ہے "سنگینی" اور "اساطیر"جمع ہے "اسطورة" کی جس کا معنی ہے "پے در پے" اور خیالی مطالب" ہے، چنانچہ ایک اور مقام پر قرآن فرماتا ہے ’‘’( فلماز اغوا أزاغ الله قلوبهم ) " یعنی جب وہ خود پھر گئے تو خدا نے ان کے دلوں کو بھی پھیر دیا۔

پیام:

۱۔ تمام کفار سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے ان میں سے بعض کافر ضدی اور اکھڑ مزاج ہیں۔( ومنهم )

۲۔ قرآنی آواز کا سننا اس وقت موثر اور قابل قدر ہوتا ہے جب دِلوں پر اثر کرے( اکنة ان یفقهوه )

۳۔ کفار کے دلوں کی پردہ پوشی خود ان کے معاندانہ رویہ کی وجہ سے ہے۔ (قرآن مجید کے ایک اور مقام پر ہے کہ وہ انبیاء سے کہتے تھے "قلوبنا فی اکنة مماتدعون وفی آذاننا وقر" یعنی جس بات کی طرف تم بلاتے ہو اس سے ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ہمارے کانوں میں سنگینی ہے۔

۴۔ خدائی رہبر کو چاہیے کہ وہ خود کو ہر طرح کی افتراء پردازیوں اور ناروا تہمتوں کے سننے کے لئے تیار رکھیں۔

۵۔ ہٹ دھرمی، ضد اور اکھڑ مزاجی لا علاج بیماری ہے۔ اور ٹیڑھے میڑھے آئینہ کی مانند بہترین شکل و صورت کو بھی بے ڈھنگے انداز میں پیش کرتا ہے۔( یرواکل آیة لایوٴمنوا )

۶۔ اگر لڑائی جھگڑے، بدگمانی، منفی انداز اور پہلے سے تیارشدہ منصوبے کے تحت پیغمبر گرامی اسلام سے بھی ملاقات کی جائے، بے فائدہ ہے( جاؤک یجادلونک… )

آیت ۲۶

( وَهُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ وَیَنْئَوْنَ عَنْهُ ج وَاِنْ یُّهْلِکُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَهُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ ) ۔

ترجمہ: اور وہ کفار لوگوں کو ایمان لانے سے (بھی) روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دور اور محروم ہیں اور (لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ) لاشعوری طور پر اپنے سوا کسی کو تباہ و برباد نہیں کر رہے۔

دو نکات:

"ینئون" کا لفظ"نأی" سے مشتق ہے جس کا معنی ہے "دور کرنا"

۹; بعض اہل سنت مفسرین نے اپنی تفسیروں میں لکھا ہے کہ "یہ آیت حضرت ابو طالب کے بارے میں ہے۔ کیونکہ وہ لوگوں کو پیغمبر کی ایذارسانی سے تو روکتے تھے لیکن خود ایمان نہیں لائے اور ایمان سے دور رہے" اسی طرح قرآن مجید کی ایک دو اور آیات (مثلاً توبہ/ ۱۱۵ ۔ قصص/ ۵۷) کے بارے میں بھی یہی کہتے ہیں۔ جبکہ مذہب شیعہ کے نزدیک وہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ بہترین مومن بھی ہیں۔ جن کے ایمان اور اسلام کا اظہار ان کے اشعار سے ہوتاہے۔ علاوہ ازیں حضرت فاطمہ بنت اسد جیسی دنیا کی بہترین مومن خاتون آخر عمر تک آپ کی زوجیت میں رہیں جو آپ کے مومن ہونے کی ایک اور عمدہ دلیل ہے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب "الغدیر" جلد ۷ ۔ ۸)

پیام

۱ ۔ کفار ہوں یا مشرکین ہر دو تخریب کاری اور لوگوں کو راہ راست سے روکنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔

۲ ۔ حق کو قبول کرنے کی بجائے اس سے دوری اختیار کرنا، انسان کا خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔

۳ ۔ حقیقی شعور یہ ہے کہ راہ حق کو پا لیا جائے۔ حقیقی راستہ اور برحق رہبر کو گم کر دینا خواہ کسی کی طرف سے کیوں نہ ہو بے شعوری ہے۔

آیت ۲۷

( وَلَوْتَرٰیٓ اِذْوُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یَلَیْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُکَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَکُوْنَ مِنَ الْمُوٴمِنِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اگر تم انہیں اس وقت دیکھو جب وہ جہنم کے کنارے ٹھہرائے جائیں گے اور کہیں گے اے کاش کہ واپس پلٹائے جاتے اور اپنے پروردگار کی آیات کو نہ جھٹلاتے اور (حقیقی) مومنوں سے ہوتے۔

ایک نکتہ

قرآنی آیات کے مطابق دنیا کی طرف واپس پلٹائے جانے کی آرزو تین موقعوں میں ہو گی۔ ایک مرتے وقت دوسرے قبر میں اور تیسرے قیامت میں۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے: "( رب ارجعونی لعلی اعمل صالحا ) " یعنی اے میرے رب! مجھے دنیا میں لوٹا دیا جائے تاکہ میں نیک اعمال کو بجا لاؤں (مومنون/ ۱۰۱) اور "( ربنا اخرجنا منها فان عدنا فانا ظٰلمون ) " یعنی اے ہمارے رب تو ہمیں یہاں سے نکال! پس اگر ہم دوبارہ ایسے کام کریں تو ہم ظالم ہوں گے۔ (مومنون/ ۱۰۷)

پیام

۱ ۔ جب تک دنیا میں فرصت باقی ہے ایمان لے آؤ کیونکہ آخرت میں اس کی گنجائش نہیں ہوگی۔

۲ ۔ آیات خداوندی کی تکذیب، آخرت میں پشیمانی کا موجب ہو گی( لیتنا )

۳ ۔ آیات الٰہی کی تکذیب کا نتیجہ، جہنم کی آگ میں ڈالا جانا ہے( علی النار…لانکذب )

آیت ۲۸

( بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا کَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ ط وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَانُهُوْا عَنْهُ وَ اِنَّهُمْ لَکٰذِبُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ بلکہ وہ اس سے پہلے دنیا میں جو (کفر و نفاق) چھپایا کرتے تھے (اس دن) وہ ان کے لئے ظاہر ہو جائے گا اور اگر (وہ درخواست اور خواہش کے مطابق) دنیا میں پلٹا بھی دیئے جائیں پھر بھی جس چیز سے انہیں روکا گیا ہے دوبارہ انجام دیں گے اور یہ لوگ قطعی طور پر جھوٹے ہیں۔

ایک نکتہ:

قیامت کا دن، لوگوں کے مخفی رازوں کے ظاہر ہونے کا دن ہے، اور قرآن مجید نے بارہا اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں سے ایک یہ بھی ہے( بدالهم سیئات ما عملوا ) ان کے برے اعمال ان کے لئے ظاہر ہو جائیں گے (جاثیہ/ ۳۳) اور( بدالهم سیئات ماکسبوا ) ان کے برے کرتوت ان کے لئے ظاہر ہو جائیں گے (زمر/ ۴۸)

پیام:

۱ ۔ قیامت کے دن تمام راز کھل جائیں گے( بدالهم )

۲ ۔ آخرت سے دنیا کی طرف واپسی محال ہے( ولوردوا… )

۳ ۔ بعض لوگ ایسے ہیں کہ جن کے سدھرنے اور ٹھیک ہونے کی ہرگز امید نہیں ہے۔ اور اگر انہیں (ان کی اپنی درخواست کے مطابق) واپسی کی فرصت مل بھی جائے تو بھی اسی حالت میں رہیں گے جس میں وہ پہلے تھے۔ کیونکہ انسان بارہا مصائب و مشکلات میں کئی قسم کے فیصلے کرتا ہے لیکن ان سے نجات حاصل کر لیتا ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے( لوردوا لعادوا )

۴ ۔ جب جھوٹ بولنا انسان کی عادت بن جائے تو قیامت میں بھی جھوٹ بولنے سے نہیں چوکے گا اور وہاں پر بھی جھوٹے دعوے کرے گا( لکاذبون ) ۶

آیت ۲۹ ، ۳۰

( وَقَالُوْآ اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ- وَ لَوْ تَرٰیٓ اِذْوُقِفُوْا عَلٰی رَبِِّّهِمْ ط قَالَ اَلَیْسَ هٰذَا بِالْحَقِّط قَالُوْا بَلٰی وَ رَبِّنَا ط قَالَ فَذُوْقُوا العَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور انہوں نے کہا: ہماری اس دنیوی زندگی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور ہم (مرنے کے بعد) دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے۔

اور اگر تم اس وقت دیکھو جب وہ تمہارے پروردگار کے سامنے روکے ہوئے ہوں گے (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا آیا یہ (قیامت میں دوبارہ اٹھانا) حق نہیں ہے؟ تو وہ کہیں گے: ہمارے رب کی قسم ایسا ہی ہے! تو خدا فرمائے گا پس تم اپنے کفر کے ارتکاب کی وجہ سے عذا ب کو چکھو۔

چند نکات:

۲۹ ویں آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کا معاد (قیامت) پر ایمان نہیں ہے اور اگر وہ باتوں کے بارے میں "( هٰوٴلآء شفعاوٴنا ) " (یہ ہمارے شفیع ہیں) کہا کرتے تھے تو ان کا یہ اعتقادِ شفاعت آخر (معاد) کے بارے میں نہیں بلکہ دنیوی شفاعت کے سلسلہ میں تھا (تفسیر المیزان)

۱ ۔ اسلام کے نزدیک انسان کے لئے چند قسم کی حیات (زندگی) ہے۔

۱ ۔ دنیوی حیات ۲ ۔ برزخ کی حیات۔ ارشاد ہوتا ہے "( بل احیاء عند ربهم ) "

۳ ۔ حیات معنوی یا ہدایت۔ ارشاد ہوتا ہے "( دعا کم لم یحییکم ) "

۴ ۔ اجتماعی و معاشرتی حیات۔ ارشاد ہوتا ہے "( لکم فی القصاص حیٰوة ) "

۵ ۔ حیات طیبہ یا پاکیزہ زندگی (جو قلب سلیم اور قناعت کے زیرسایہ ملتی ہے)

۳۰ ویں آیت کے مطابق خداوند عالم مجرمین سے باتیں کرے گا، جبکہ بعض دوسری آیات ان کے ساتھ خدا کے بات کرنے کی نفی کرتی ہیں کہ "( لایکلمهم الله ) " (خدا ان سے بات تک نہیں کرے گا) تو اس سے مراد یا تو یہ ہے کیفیتیں مختلف ہوں گی یا پھر ان سے کلام طیب نہیں کرے گا۔

پیام:

۱ ۔ مشرکین، زندگی کو صرف دنیاوی زندگی تک ہی محدود سمجھتے ہیں اور آخرت کی زندگی کے منکر ہیں۔

۲ ۔ مجرم افراد، ذلیل قیدیوں کی طرح گرفتار کئے جائیں گے( اذوقفوا )

۳ ۔ قیامت کے دن، پہلے مرحلہ میں قاضی بھی خود خدا ہو گا اور سوال بھی وہ خود ہی کرے گا( قال الیس هذا بالحق )

۴ ۔ مجرمین کا اپنے جرائم کا اقرار و اعتراف، قیامت کے لرزا دینے والے مناظر میں سے ایک ہو گا۔( قالوابلیٰ )

۵ ۔ قیامت کے دن گناہوں کا اعتراف بے سود ہو گا( فذوقوا )