تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 66200
ڈاؤنلوڈ: 7099

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 66200 / ڈاؤنلوڈ: 7099
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۶۵

( وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْکِتٰبِ اٰمَنُْوا وَ اتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَیِّاَتِهِمْ وَ لَاَ دْخَلْنٰهُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ )

ترجمہ۔ اور لوگ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) ایمان لے آئے اور تقویٰ اختیار کرتے تو یقیناً ہم بھی ان کے گناہ معاف کر دیتے، اور پورے یقین کے ساتھ ہم انہیں نعمتوں بھری بہشت میں لے جاتے۔

پیام:

۱ ۔ شدید طریقہ پر مذمت کرنے کے ساتھ، واپسی کی راہ بھی کھلی رکھنی چاہئے( ولو ان اهل الکتاب )

۲ ۔ ایمان اور اسلام لے آنے سے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں (حدیث پاک میں ہے کہ "( الاسلام یجب ما قبله ) " یعنی اسلام سابقہ خطاؤں کو معاف کر دیتا ہے اور قرآن مجید کہتا ہے( لفکرنا )

۳ ۔ تقویٰ گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے( اتقوا لکفرنا )

۴ ۔ تقویٰ کے بغیر ایمان کارساز نہیں ہوتا( امنوا و اتقوا )

۵ ۔ خدا کی رحمت اور اس کے لطف و کرم کے حصول کے لئے پہلے پاک صاف ہونا چاہئے( کفرنا، ادخلنا )

۶ ۔ خدا کے پاس عفو و درگزر کے علاوہ لطف و کرم بھی ہے( ولادخلنا )

آیت ۶۶

( وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوْا التَّوْرٰیةَ وَلْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْهِمْ مِنْ رِّبِّهِمْ لَاَ کَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ ط مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ط وَ کَثِیْرٌ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا یَعْمَلُوْنَ )

ترجمہ۔ اور اگر وہ (یہودی و نصاریٰ) توریت، انجیل اور اس چیز کو قائم رکھتے جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ہے تو ان کے اوپر سے (آسمانی برکتیں) اور نیچے سے (زمینی برکتیں) ان تک پہنچ جائیں اور وہ) مزے سے کھاتے۔ ان میں سے کچھ تو میانہ رو (اعتدال پسند) ہیں اور بہت سے لوگ برے کام کرتے ہیں۔

نکتہ:

اگر دوسری آسمانی کتابوں کے پیروکار قرآن کے آگے جھک جاتے، اور قرآن کے آگے جھکنے کا مقصد بنی اسرائیل کا عربوں کے آگے گھٹنے ٹیکنا نہ سمجھتے، اور یہ سمجھتے کہ انبیاء کی اصول تعلیمات ایک ہی ہیں اور توریت و انجیل کے بعد نازل ہونے والی کتاب (قرآن) پر ایمان، اوپر کی کلاس تک رسائی ہے نا کہ سابقہ آئین و دستور کا بطلان ہے تو وہ قیامت کے دن آخرت میں بہرہ مندی کے علاوہ اسی دنیا میں بھی انواع و اقسام کی نعمتوں سے مالا مال ہوتے۔

سابقہ آیت میں معنوی اور اخروی سعادت کے حصول میں ایمان کے عمل دخل کو بیان کیا گیا ہے اور اس آیت میں دنیوی سعادت اور اقتصادی آسائشوں کو ذکر کیا گیا ہے۔

پہلی آیت میں یہودیوں کے عقیدہ کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ خدا کے بارے میں کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ بند ہے، اور اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہودیو تم آسمانی کتابوں کی طرف رجوع کرو پھر دیکھو کو خدا کے ہاتھ بندھے ہیں یا کھلے؟ اگر تمہاری عظمت، ذلت میں تبدیل ہوگئی ہے تو یہ تمہارے کفر اور احکام الہٰی سے منہ موڑ لینے کی وجہ سے ہے نا کہ خدا کے بخل کی وجہ سے!

پیام:

۱ ۔ تمام آسمانی کتابیں قابل احترام ہیں( اقامو اا لتورٰة والا نجیل ) ۔۔۔۔۔)

۲ ۔ دوسروں کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے ان کے صحیح عقائد اور مقدسات پر حملہ نہ کرو۔( اقاموا التورٰة والانجیل ) ۔۔)

۳ ۔ آسمانی کتابیں، تمام تحریکوں کے لئے راہنما، محور اور آئین کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جس طرح محاذ جنگ پر جھنڈے کی حیثیت ہوتی ہے کہ اسے ہمیشہ کھلا اور سربلند رہنا چاہئے( اقاموا )

۴ ۔ مذہب کی طرف توجہ اور دینی دستوروں پر عمل مادی زندگی کو بھی سنوارتا ہے( لاکلوا ) ۔۔۔ ) ۴۴

۵ ۔ اسلام، عوام کے رفاہ اور سہولت کو بھی مدنظر رکھے ہوئے ہے۔( لاکلوا- ) ۔۔ )

۶ ۔ بگڑا ہوا معاشرہ انسان کو بگڑنے پرمجبور نہیں کرتا، بدکاروں کے انبوہ کثیر میں معتدل مزاج لوگ بھی موجود ہوتے ہیں( منهم امة معتقدة )

۷ ۔ لوگوں کا ایمان، نظام کائنات، زمین، ابروباراں، زراعت اور باغات وغیرہ میں بڑا عمل دخل رکھتا ہے (تفسیرالمیزان)

۸ ۔ کبھی بھی ایک اکائی، ایک قوم، ایک علاقہ اور ایک مذہب کے تمام لوگوں کو برا نہ سمجھو،( منهم امة مقتصدة )

۹ ۔ کتاب آسمانی کی صرف تلاوت ہی کافی نہیں اس کا قائم کرنا بھی ضروری ہوتا ہے( اقاموا التورٰة )

۱۰ ۔ قرآن کی مخاطب تمام امتیں ہیں صرف مسلمان نہیں ہیں( ما انزل الیهم من ربهم )

آیت ۶۷

( یَاَ یُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رِّبِّکَ ط وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَلَتَه ط وَاللّٰهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ط اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ )

ترجمہ۔ اے رسول! جو کچھ کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ پہنچا دو۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو الٰہی رسالت کو نہیں پہنچایا۔ (ڈرو نہیں) خدا تمہیں لوگوں (اور ان افراد کے شر) سے بچائے گا (جو اس اہم پیغام کو سننا گوارا نہیں کرتے) یقیناً خداوند عالم کافر لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا۔

نکتہ:

تمام شیعہ مفسرین روایات اہل بیت کی رو سے اور فخر رازی اور صاحب تفسیر "النار" جیسے بعض اہلسنت مفسرین کہتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق علی بن ابی طالب کی ولایت اور واقعہ غدیرخم سے ہے۔

آیت کا انداز تخاطب اور لب و لہجہ اسے پہلے اور بعد کی آیات سے جدا کر رہا ہے پورے قرآن میں صرف اسی مقام پر پیغمبر کو پیغام نہ پہنچانے پر زبردست تہدید کی گئی ہے کہ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو جو کچھ تم نے ۲۳ سال کے عرصہ میں کاررسالت انجام دیا ہے وہ سب اکارت جائے گی۔

اب یہاں پر دیکھنا یہ چاہئے کہ یہ کیسا اہم پیغام ہے جس کے بارے میں اس قدر تاکید و تہدید سے کام لیا گیا ہے؟

اس آیت میں چند نکات ایسے ہیں جو اس کے مضامین پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔

۱ ۔ سورہ مائدہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں نازل ہوئی۔

۲ ۔ آیت میں آنجناب کو "یا ایھا النبی" کے ساتھ خطاب کرنے کی بجائے "یا ایھا الرسول" کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسالت کا کوئی اہم پیغام ہے۔

۳ ۔ "ابلغ" کی بجائے "بلغ" کے ساتھ تبلیغ رسالت کا حکم دیا گیا ہے جو ایک اہم سرکاری اور حتمی پیغام ہونے کی علامت ہے۔

۴ ۔ آیت شریفہ میں پیغمبر اکرم کو اس اہم پیغام نہ پہنچانے پر اس قدر دھمکی دی گئی ہے کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا اور لوگوں تک اسے نہ پہنچایا تو ان کی تمام تئیس سالہ دینی خدمات اور رسالت کا کام رائیگاں ہو جائے گا۔

۵ ۔ رسول گرامی اسلام کو اس پیغام کے پہنچانے پر کوئی خاص اندیشہ درپیش تھا، جس کی بنا پر خداوند عالم ان کی دلجوئی کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ "ہم تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھیں گے"۔

۶ ۔ سرکار رسالت کو اپنی جان کا خطرہ نہیں تھا، کیونکہ آپ تو اس وقت بھی نہیں ڈرے تھے تنہائیوں کے خلاف برسرپیکار رہے اور مشرکین کے ساتھ کئی لڑائیاں لڑیں حالانکہ اس وقت آپ اکیلے تھے اور خطرات اس سے کہیں زیادہ تھے۔ اس زمانے میں تو آپ کو پتھر مارے جاتے اور اصحاب کو اذیتیں پہنچائیں جاتیں۔ اب جبکہ آپ عمر کے آخری حصے میں ہیں اور اصحاب و احباب کی کثرت ہے کیسے ڈر سکتے ہیں؟

۷ ۔ آیت میں ایک ایسا پیغام ہے جو اپنی اہمیت کے لحاظ سے نبوت و رسالت کے تمام عرصے کے کار رسالت کے برابر ہے۔

۸ ۔ اس آیت میں الٰہی تربیت کے تسلسل کا پیغام پنہاں ہے۔( من ربک )

۹ ۔ اس پیغام کا مضمون کوئی خاص بنیادی اور اساسی مسئلہ ہونا چاہئے، ورنہ عام جزوی اور انفرادی مسائل میں اس قدر دھمکی یا دلجوئی کی ضرورت نہیں ہوتی۔

۱۰ ۔ آیت کا پیغام توحید، نبوت اور معاد (قیامت) سے متعلق بھی نہیں ہے، کیونکہ یہ اصول تو بعثت کے پہلے ہی ایام میں مکہ مکرمہ میں بیان کئے جا چکے تھے اور آنحضرت کی عمر کے آخری دنوں میں اس بارے میں اس قدر تاکید کی ضرورت نہیں ہے۔

۱۱ ۔ آیت کا پیغام، نماز، روزہ، حج، زکوٰة، خمس، جہاد وغیرہ کے بارے میں بھی نہیں ہے کیونکہ یہ سب کچھ آنحضرت کی ۲۳ سالہ زندگی میں بیان ہو چکے ہیں اور لوگ بھی ان پر عملدرآمد کر چکے ہیں اور ان کے بارے میں کسی قسم کا خدشہ یا اندیشہ بھی پیش نظر نہیں ہے۔

تو پھر اس اہم پیغام کا مضمون اور مقصد کیا ہے جو اس آخری سورت میں آیا ہے؟ بہت سی شیعہ اور سنی روایات ہمیں اس حیرت سے نجات دلاتی ہیں اور ہماری راہنمائی کرتی ہیں۔ روایات بتاتی ہیں کہ اس آیت کا تعلق ۸ ذی الحجہ ۱۰ ہجری سے ہے جو حجة الوداع کے سفر میں آنحضرت پر نازل ہوئی ہے۔ اور وہ یوں کہ جب سرکار رسالت آخری حج سے فارغ ہو کر مدینہ واپس تشریف لے جا رہے تھے تو "غدیرخم" کے مقام پر آپ نے حکمِ الہٰی کے تحت تمام لوگوں کو رکنے کا حکم دیا اور سب حاجی صاحبان وہیں پر جمع ہوئے۔

یہ وہ جگہ ہے جس میں پانی بھی تھا اور درخت بھی جو حجاز کی گرمی میں بڑے کارآمد تھے اور یہیں سے ہی اہلِ یمن، عراق، شام، مدینہ اور حبشہ کے حاجیوں کے قافلے ایک دوسرے سے جدا ہوتے۔

مقام غدیرخم میں حضرت رسالت مآب نے مسلمانوں کے جم غفیر میں اونٹوں کے پالانوں کا منبر تیار کرایا اور اس پر تشریف لے جا کر ایک طویل خطبہ ارشاد فرمایا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خاص اور اہم ترین مسئلہ پیش نظر ہے جس کے لئے طولانی خطبہ ارشاد کیا جا رہا ہے۔ اور وہ بھی ایسی جگہ پر جہاں جھلسا دینے والی گرمی ہو اور زمین آگ اگل رہی ہو۔ لوگ اپنے سروں پر کپڑے ڈالے ہوئے تھے اور عبائیں نیچے بچھائے ہوئے تھے۔ اس خطبہ کا ابتدائی حصہ توحید، نبوت اور معاد پر مشتمل تھا۔ جو نوعیت کے لحاظ سے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ نئی بات وہاں سے شروع ہوئی جب آنحضرت نے اپنے وصال کی خبر دی اور اپنے بارے میں لوگوں کا نظریہ معلوم کرنا چاہا۔ سب نے آپ کی عظمت، شرافت، خدمت اور رسالت کی اعلیٰ درجہ کی گواہی دی۔

جب آپ مطمئن ہو گئے کہ آپ کی آواز چار اطراف تک بخوبی پہنچ رہی ہے، تو اس پر مستقبل کے لئے ایک اہم پیغام ان لوگوں تک پہنچایا۔ اور اطمینان کا یہ حصول مستقبل کی پیش بندی کے لئے تھا تاکہ کل کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم نے آپ کا پیغام نہیں سنا تھا۔ کیونکہ جب آنحضرت کی وفات کے بعد بنت پیغمبر حضرت فاطمہ زہرا نے ہر ایک کے دروازے پر جا کر یہ کہا: "کیا تم غدیرخم میں موجود نہیں تھے؟ اور تم نے نہیں سنا تھا رسول خدا نے علی کے بارے میں کیا کہا؟ اور کیا علی کا امام اور رہبر کی حیثیت سے تعارف نہیں کرایا؟ ۔۔۔ " تو وہ لوگ جواب میں کہتے: "ہم غدیرخم میں پیغمبر سے دور بیٹھے ہوئے تھے اور ان کی آواز کو نہیں سنا!"

خدا کی پناہ اس حق پوشی، ڈر، بے وفائی اور بنت پیغمبر سے جھوٹ بولنے سے!!!

بہرحال، تاریخ کے ان حساس ترین لمحوں میں اور اس کیفیت کے ساتھ ارشاد فرمایا: "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" یعنی جس کا میں مولا و رہبر ہوں، علی بھی اسی کے مولا و رہبر ہیں۔

پس معلوم ہوا کہ اس اہم پیغام کا موضوع "علی بن ابی طالب کی رہبری، امامت اور خلافت" تھا۔

پیام:

۱ ۔ خطاب کی نوعیت، ہدف کی نوعیت سے ہم آہنگ ہونی چاہئے۔ چونکہ ہدف، پیغام کی رسالت ہے لہٰذا خطاب بھی( یایهاالرسول ) کے ساتھ ہوا ہے۔

۲ ۔ خدائی احکام اور پیام، سب ایک سطح کے نہیں ہوتے، بعض اوقات ایک جملہ کو ظاہر نہ کرنا، تمام حقائق کے چھپانے کے برابر ہوتا ہے۔

۳ ۔ دشمن کے نیزوں، تلواروں اور ایذارسانیوں سے زیادہ خطرہ نہیں ہوتا جتنا خطرہ داخلی فتنوں سے ہوتا ہے۔

۴ ۔ اگر قیادت اور رہبری صحیح نہ ہو مذہب اور امت برباد ہو جاتے ہیں۔

۵ ۔ یہود و مشرکین سے جنگ کرنا اتنا خطرناک نہیں جتنا حسد کی آفتیں خطرناک ہوتی ہیں۔

۶ ۔ اسلام کا اصل رکن اسلامی قیادت اور اسلامی حکومت ہے۔( رسالته )

۷ ۔ اسلامی رہبر کا انتخاب خدا کی طرف سے ہونا چاہئے( ماانزل الیک من ربک )

(ملاحظہ ہو تفسیرالمیزان)

۸ ۔ ولایت کا انکار ایک طرح کا کفر ہے( ان الله لایهدٰی القوم الکافرین )

۹ ۔ زمان اور مکان دو ایسے عناصر ہیں جو تبلیغ کے لئے اہم ارکان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ "غدیرخم"

۱۰ ۔ لوگ تو دو گواہوں کے ساتھ اپنا حق حاصل کر لیتے ہیں، لیکن علی بن ابی طالب ہزارہا گواہوں کی موجودگی میں اپنا حق حاصل نہ کر سکے۔ خدا برا کرے دنیا کی محبت اور حسد کا!

آیت ۶۸

( قُلْ یَاَ هْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلیَ شَْی ءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا لتَّوْرٰیةَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رِّبِّکُمْ ط وَ لَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِنْهُمْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رِّبِّکَ طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا َفلَا تَاسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ )

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) کہہ دو کہ اے اہلِ کتاب! جب تک تم تورات، انجیل اور اس چیز کو جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوئی ہے قائم نہیں کرو گے (دین برحق کی) کسی چیز پر نہیں ہو گے۔ اور جو قرآن (اے پیغمبر!) تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے بالیقین ان میں سے بہتیروں کی سرکشی اور کفر میں اضافہ کر دے گا، لہٰذا کافر لوگوں پر افسوس نہ کیا کرو۔ ۴۵

پیام:

۱ ۔ تمام آسمانی کتابوں پر ایمان رکھنا ضروری ہے( یقیموا التورٰة والانجیل و ما ) ۔۔۔ )

۲ ۔ ایمان کا دعویٰ ہی کافی نہیں اسے قائم رکھنا اور اس کے مطابق عملی اقدام بھی ضروری ہوتا ہے( حتی یقیموا ) جو عمل نہیں کرتا بے دین ہے( لمنکم علی شیٴ )

۳ ۔ دینی احکام اور آسمانی کتاب کے قوانین کو محور عمل ہونا چاہئے اور انہی کی مقتدر اعلیٰ ہونا چاہئے۔( تقیموا، اقاموا )

۴ ۔ انسان کی شخصیت اور ان کی قدرو قیمت ان کے مذہبی امور کی پاسداری کے مطابق ہوتی ہے۔( لستم علی شیٴ حتی تقیمون )

۵ ۔ تبلیغ کا خوبصورت انداز یہ ہے کہ سب سے پہلے دوسروں عقائد حقہ کا احترام کرو پھر انہیں اپنے مذہب کی راہیں دکھاؤ (توریت، انجیل اور قرآن)

۶ ۔ افراد کا کفر اور ان کی سرکشی نہ تو نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور نہ ہی دین و مذہب کو، بلکہ خود ان کے اپنے لئے نقصان دہ اور مضر ہوتی ہے اور دین و مہذب کا حامی خود خدا ہے،( فلاتاس )

۷ ضدی مزاج اور ہٹ دھرم افراد کے لئے افسوس کرنا جائز نہیں ہے( فلاتاس )

آیت ۶۹

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ هَادُْوا وَالصَّابِئُوْنَ وَ النَّصٰرٰی مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحاً فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ )

ترجمہ۔ یقینا جو لوگ مومن ہیں، یہودی، صابی اور نصرانی ہیں، جو بھی (اپنے زمانے میں) خدا اور قیامت کے دن پر ایمان لے آیا اور نیک کام انجام دیئے ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ ۴۶

نکتہ:

حضرت امام رضا علیہ اسلام کے فرمان کے مطابق "صائبین" ستارہ پرست ہیں۔ (تفسیر اطیب البیان)

آیت کا تعلق ان لوگوں کے ایمان اور عمل صالح سے ہے جو اپنے دور کے دین کے پیروکار تھے اور نئے دین کے آجانے کے بعد، انہیں چاہئے کہ خدا کی نئی شریعت پر ایمان لے آئیں ورنہ تو ان کے بعد میں آنے والے انبیاء کی بعثت کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ یہودی، نصرانی اور دوسرے لوگ مسلمانوں کی طرح اسلام پر ایمان لے آئیں اور اعمال صالح بجا لائیں تو ان پر کسی قسم کا خوف اور غم نہیں ہوگا۔

۱ ۔ قوم پرستی، نسل پرستی اور ہر قسم کا مذہبی تعصب قطعاً ممنوع ہے( من امن بالله )

۲ ۔ تمام آسمانی ادیان میں سعادت کا معیار صرف اور صرف "ایمان اور عمل صالح ہے" نہ تو خالی خولی دعوے ہیں اور نہ ہی کسی خاص اسم سے موسوم ہونا۔

۳ ۔ ایمان اور عمل کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔( امن--- وعمل )

۴ ۔ سکون و اطمینان صرف ایمان اور عمل صالح کے زیرسایہ حاصل ہوتا ہے( فلاخوف ) ۔۔۔ )

آیت ۷۰

( لَقَدْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ وَ اَرْسَلْنَا اِلَیْهِمْ رُسُلًا ط کُلَّمَا جَاءَ هُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَهْوٰٓی اَنْفُسُهُمْ فَرِیْقًا کَذَّبُوْا وَ فَرِیْقًا یَقْتُلُوْنَ )

ترجمہ۔ یقینا ہم نے بنی اسرائیل سے عہد و پیمان لیا اور ان کی طرف رسول بھیجے، جب بھی کوئی پیغمبر ان کے پاس کوئی (پیغام اور) بات لے آیا جو ان کی منشا کے خلاف تھی تو کچھ کو تو انہوں نے جھٹلا دیتے اور کچھ کو قتل کر دیتے۔

نکتہ:

اس آیت میں "میثاق" سے مراد شاید وہی عہد و پیمان ہے جو سورہ بقرہ/ ۹۳ اور سورہ آل عمران / ۸۱ میں گزر چکا ہے۔

لوگوں کی مرضی اور منشاء کے خلاف انبیاء کی دعوت، اولیاء خدا کی تکذیب، لوگوں کی پیمان شکنی اور اولیاء اللہ کی شہادت کا تذکرہ اور وہ بھی ایسی آیات میں جو مقام غدیرخم میں علی علیہ السلام کے منصب امامت و خلافت پر فائز ہونے کے بارے میں نازل ہونے والی آیت کے بعد، کوئی اتفاقی بات نہیں ہے۔ اسی طرح یہ آیت جو پیمان غدیرخم کے بعد کی آیت ہے، اور اس سورت کا آغاز بھی عقود و پیمان کو پورا کرنے " سے ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر کئی پیام مضمر ہیں۔

پیام:

۱ ۔ عہد شکنی، پیغمبرکشی ، تکذیب اور ہٹ دھرمی بنی اسرائیل کی خصوصیات رہی ہیں۔

۲ ۔ انبیاء کرام علیہم اسلام کی تکذیب کا سرچشمہ نفسانی خواہشات ہیں( بما لاتهوی ) ۔۔۔ )

۳ ۔ بنی اسرائیل میں صرف حضرت موسیٰ ہی نہیں کئی دوسرے انبیاء بھی گزر چکے ہیں( رسلا )

۴ ۔ بنی اسرائیل کی تاریخ سے واقفیت سے ایک تو ان کے حقائق سے واقفیت ہوتی ہے دوسرے ان کے واقعات سے عبرت حاصل ہوتی ہے تیسرے اس سے مسلمانوں کو خبردار کیا جاتا ہے اور چوتھے سب لوگوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔

۵ ۔ تمام انبیاء علیہم اسلام یا تو جھٹلائے گئے ہیں یا پھر انہوں نے جام شہادت نوش کیا ہے( فریق کذبوا وفریقایقتلون )

۶ ۔ بگڑے ہوئے خراب معاشرے میں یا تو اللہ والوں کی ذات کو قتل کیا جاتا ہے یا پھر ان کی شخصیت کو۔( قتل- تکذیب )

آیت ۷۱

( وَ حَسَبُوْا اَلاََّ تَکُوْنَ فِتْنَةٌ فَعَمُوْا وَ صَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ ثمُ َّعَمُوْا وَ صَمُّوْا کَثِیْرٌ مِّنْهُمْ ط وَاللّٰهُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُوْنَ )

ترجمہ۔ اور (یہودی چونکہ خود کو برتر اور اولیاء اللہ سمجھتے تھے لہٰذا) انہوں نے یہ گمان کر لیا کہ ان کے لئے کوئی فتنہ اور آزمائش نہیں ہو گی۔ لہٰذا وہ (حقائق کو دیکھنے سے) اندھے اور (حقائق کو سننے سے) بہرے ہو گئے۔ پھر خدا نے اپنا لطف و کرم ان کی طرف پلٹا دیا اور ان کی توبہ قبول کر لی۔ لیکن پھر بھی ان میں سے بہت لوگ (آیات الٰہی کو دیکھنے اور سننے سے) اندھے اور بہرے ہو گئے۔ اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔

نکتہ:

بنی اسرائیل سمجھتے تھے کہ خدائی آزمائشات اور قہر و غضب کا تعلق صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے تک تھا۔ اب وہ بات نہیں رہی۔ اس لئے وہ مادی زندگی، آسائش طلبی میں سرگرم ہو گئے اور آیات خداوندی سے اپنا تعلق منقطع کر لیا۔

پیام:

۱ ۔ کبھی بھی فتنوں (خدا کی آزمائش، اس کے قہر و غضب اور شرک کی آلودگیوں) سے غافل نہیں ہونا چاہئے( وحسبوا الاتکون فتنة )

۲ ۔ غرور، تکبر، خیال گمان، انسان کو اندھا اور بہرہ اور صحیح شناخت سے محروم کر دیتے ہیں۔( عموا--- )

۳ ۔ کسی کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ امتحان کے بغیر کسی مقام و منصب پر فائز ہو جائے گا۔( حسبوا الاتکون فتنة )

۴ ۔ خداوند عالم کا لطف و کرم اس حد تک ہے کہ انسان کی عذرخواہی کے بغیر بھی اس کے پاس آ پہنچتا ہے( تاب الله )

۵ ۔ خداوند کریم تو مہربان ہے لیکن انسان ضدی اور ہٹ دھرم ہے( تاب الله علیهم ثم عموا )

۶ ۔ توبہ شکنی بنی اسرائیل کے کرتوتوں میں سے ایک ہے( تاب الله علیهم ثم عموا )

۷ ۔ اگرچہ انسان بعض اوقات اندھا اور بہرہ ہو جاتا ہے لیکن خداوند عالم ہمیں اچھی طرح دیکھ رہا ہوتا ہے،( والله بصیر )

سورہ مائدہ آیت ۷۲

( لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ ط وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اعْبُدُوْا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّکُمْ ط اِنَّه مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰهِ فَقَدْ َحرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَاوٰهُ النَّارُ ط وَماَ لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ )

ترجمہ۔ جن لوگوں نے کہا: "حضرت مسیح بن مریم ہی خدا ہیں" یقیناً وہ کافر ہو گئے ہیں (وہ ایسا کیوں کہتے ہیں جبکہ خود) حضرت عیسیٰ نے کہا: اے بنی اسرائیل! اس خدا کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے۔ یقینی بات یہ ہے کہ جو شخص خدا کے ساتھ شرک کرے گا، خدا اس پر بہشت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں ہے۔

نکتہ:

انجیل مرقس باب ۱۲ آیت ۲۹ میں حضرت عیسیٰ نے لوگوں کو توحیدِ الٰہی کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا ہے: "ہمارا خدا ایک ہی خدا ہے"

انجیل میں باب ۶ آیت ۲۴ میں بھی یوں آیا ہے کہ "مجال ہے کہ انسان کے دو آقا اور دو محبوب ہوں۔ اور وہ خدا کی بھی خدمت کرے اور کسی دوسرے کی بھی!"

پیام:

۱ ۔ انحراف، کج فکری اور گمراہی کا جواب دو ٹوک انداز میں دینا چاہئے۔( لقد )

۲ ۔ غلو، اور خدا کے حصول کا عقیدہ خواہ خدا کے بہترین بندے کے قالب کے بارے میں کیوں نہ ہو، کفر ہے( کفر )

۳ ۔ جو لوگ حضرت عیسیٰ کو خدا سمجھتے ہیں وہ کافر، مشرک، ظالم اور بہشت سے محروم ہیں۔

۴ ۔ جو شخص شکم مادر سے باہر آئے وہ کیونکر خدا ہو سکتا ہے؟( مسیح بن مریم )

۵ ۔ مدعی سست گواہ چست کا مصداق نہ بنو، خود حضرت عیسیٰ تو خدا کی توحیدپرستی کی دعوت دیں اور تم عیسیٰ کو خدا ماننے لگو( قال المسیح--- )

۶ ۔ مشرک ہرگز بہشت نہیں جائے گا۔( فقد حرم الله--- )

۷ ۔ غیرخدا کی عبادت کا سوچنا بھی مقام انسانیت پر ظلم ہوتا ہے( للظالمین )

۸ ۔ یہ خیال دل سے نکال دو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جان کا نذرانہ دے کر تمہاری نجات کی ضمانت دے دی ہے۔ ایں خیال است و محال است و جنون،( وما للظالمین من انصار )

آیت ۷۳

( لَقَدْ کَفَرَا لَّذِیْنَ قَالُْوا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةَ وَمَامِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اِلٰهٌ وّاحِدٌ ط وَاِنْ لَّمْ یَنْتَهَوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌه )

ترجمہ۔ جن لوگوں نے یہ کہا کہ" خدا تین (خداؤں میں) سے تیسرا خدا ہے" وہ یقیناً کافر ہو گئے جبکہ خداوند یکتا کے علاوہ اور کوئی خدا ہے ہی نہیں۔ اور اگر وہ اس بات سے باز نہیں آتے جو کہتے ہیں تو یقیناً دردناک عذاب کافروں کو آ لے گا۔

نکتہ:

گزشتہ آیت میں حضرت عیسیٰ کے قالب میں خداوند یگانہ کے حلول کے گمراہ کن عقیدہ کی نفی کی گئی ہے اور اس آیت میں "تثلیث" کے گمراہ کن عقیدہ کو باطل کیا جا رہا ہے۔ چونکہ دونوں شرک ہیں اور ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جانا چاہئے۔

اور عیسائیوں دانشوروں کی جدید تحقیق کے مطابق "تثلیث" کا عقیدہ علمی لحاظ سے قابلِ اعتبار نہیں ہے۔ (ملاحظہ ہو تفسیرالمیزان)

پیام:

۱ ۔ اسلام، تمام آسمانی ادیان اعتقادات کی اصلاح کا ذمہ دار ہے۔

۲ ۔ شرک اور کئی خداؤں (تثلیث) کا ماننا کفر ہے،( لقد کفر ) ۔۔۔ )

۳ ۔ ایسی یاوہ گوئی کی سزا ملتی ہے جو جان بوجھ کر، دشمنی کی بنا پر اور کوتاہی کی وجہ سے کی جائے۔( کفروامنهم )

۴ ۔ عذاب سے پہلے تنبیہ ضروری ہے( وان لم نیتهوا )

۵ ۔ کفر و شرک کا انجام، عذاب ہے( عذاب الیم )

آیت ۷۴

( اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَی اللّٰهِ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَه ط وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) ہ

ترجمہ۔ آیا وہ خدا کی طرف واپس نہیں لوٹتے اور (اپنی غلطیوں کی)خدا سے معافی نہیں مانگتے؟ جبکہ خداوند عالم بخشنے والا مہربان ہے۔

پیام:

۱ ۔ غلط اور گمراہ عقیدوں سے توبہ کرنی چاہئے( افلاتیوبوں )

۲ ۔ گمراہ اور منحرف لوگوں کو خدا کی بخشش اور رحمت کا ذکر کرکے سیدھے راستے کی دعوت دو( والله غفور رحیم )

۳ ۔ کفر اور شرک جیسے گناہ بھی توبہ اور خدا کی توحید پر عقیدہ رکھنے سے بخشے جاتے ہیں۔

۴ ۔ خدا بخشتا بھی ہے اور اپنی رحمت بھی نازل کرتا ہے( غفور رحیم )

۵ ۔ عذا ب کے ساتھ ساتھ (جیسا کہ گزشتہ آیت میں ہے) توبہ کرنے والوں کے لئے رحمت کا ذکر بھی ہے۔

آیت ۷۵

( مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرِیْمَ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ط وَ اُمُّه صَدِیْقَةٌ ط کَاَنَّا یَاْکُلٰنِ الطُّعَامَ ط اُنْظُرْ کَیْفَ نُبَیِّنُ لَهُمُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰیْ یُؤْفَکُوْنَ )

ترجمہ۔ مسیح بن مریم کو رسول کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں۔ ان سے پہلے کئی رسول گزر چکے ہیں اور ان کی ماں بہت سچی تھیں اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ (اے پیغمبر!) آپ دیکھئے کہ ہم اپنی نشانیاں کس طرح بیان کرتے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھئے کہ یہ لوگ (حق سے) کس طرح بھٹکتے پھرتے ہیں۔

نکتہ:

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین دلائل کے ذریعہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ خدا نہیں ہیں۔

الف: شکم مادر سے باہر آئے ہیں اور مریم کے بیٹے ہیں۔

ب: ا ن کی طرح کے اور پیغمبر بھی گزر چکے ہیں وہ کوئی اکیلے پیغمبر نہیں ہیں۔

ج: انہیں بھی دوسرے لوگوں کی طرح کھانے اور زندگی کی ضروریات کی دوسری چیزوں کی ضرورت رہتی ہے اور اپنے زور بازو سے لقمہ نان حاصل کرتے ہیں اور کسی طرح کی قدرت کاملہ کے مالک نہیں ہیں کہ خدا ہوتے، جسے کھانے کی ضرورت ہوتی ہے وہ غذا کا خالق نہیں بن سکتا۔ یہ قرآن کا واضح اور عمومی بیان ہے۔

پیام:

۱ ۔ (معجزہ جیسی) بعض خصوصیات یا مستثنیات کا حامل ہونا کسی کے خدا ہونے کی دلیل نہیں ہوتا۔ دوسرے انبیاء بھی معجزے پیش کیا کرتے تھے یا آدم علیہ السلام بھی بغیر ماں اور باپ کے پیدا ہوئے تھے (قد خلت میں قبلہ الرسل)

۲ ۔ حضرت مریم "ولیتہ اللہ" ہیں۔ قرآن، عورت کی تعظیم کرتا ہے اور حضرت مریم کو "صدیقہ" کہتا ہے۔ ایک اور آیت میں ہے کہ حضرت مریم، کلمات اللہ کی تصدیق کرتی تھیں اور عبادت گزاروں میں سے تھیں۔( صدقت بکلمات ربها و کتبه و کانت من القانئین ) ،) سورہ تحریم/ ۱۲ ۔

۳ ۔ موت، تمام انبیاء کے لئے حتمی ہے۔( قد خلت )

۴ ۔ خدا کا نہ جسم ہے نہ کسی سے پیدا ہوا ہے، نہ کسی کا محتاج ہے نہ کسی مکان میں ہے، جبکہ حضرت عیسٰی ان سب چیزوں کے حامل ہیں، کہاں ضرورت مند ہونا اور احتیاج رکھنا اور کہاں خدا ہونا؟

۵ ۔ اگر عناد اور دشمنی ہی اصل بنیاد ہو تو واضح سے واضح اور روشن سے روشن دلائل بھی بیکار ہوتے ہیں( کیف نبین--- انی یوٴفکون )

آیت ۷۶

( قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِن دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَاللّٰهُ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ )

ترجمہ۔ (اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ آیا خدا کے علاوہ ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہو جو نہ تو کسی نفع کی مالک ہیں اور نہ ہی نقصان کی؟ اور خداوند عالم ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔

پیام:

۱ ۔ کسی کی عبادت اور پرستش کا محور، ضروریات کا پورا کرنا، منفعت کا حصول اور مضرات کا دور کرنا ہے۔ اور غیراللہ تو تمہاری کوئی بھی ضرورت پوری نہیں کرتے۔( اتعبدون ) ۔۔۔ )

۲ ۔ مضرات کا دور کرنا، منفعت کے حصول پر مقدم ہوتا ہے( ضرا و الانفعا )

۳ ۔ مشرک کی راہوں کے باطل ہونے کے لئے اپنے ضمیر اور اپنی عقل کی طرف رجوع کرو!( اتعبدون )

۴ ۔ خدا کے علاوہ تمہارے دوسرے معبود تو تمہاری باتوں کے سننے اور ضروریات کو سمجھنے سے بھی عاجز ہیں تو انہیں پورا کیسے کر سکتے ہیں؟ جبکہ خداوند عالم سننے والا اور جاننے والا ہے۔( السمیع العلیم )

آیت ۷۷

( قُلْ یٰٓاَ هْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوْا اَهْوَآ ءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا وَ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ )

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) کہہ دو کہ اے اہلِ کتاب! اپنے دین میں (ناحق) غلو (حد سے تجاوز) نہ کرو اور ایسے لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو اس سے پہلے خود بھی گمراہ ہو چکے ہیں اور بہتیروں کو گمراہ بھی کر چکے ہیں اور (اب بھی) حق کی راہ سے منحرف ہو چکے ہیں۔

نکتہ:

اس آیت سے یہ بات سمجھتی جا سکتی ہے کہ حضرت عیسیٰ کو خدا جاننے کا عقیدہ ایک طرح کا غلو ہے جو سابقہ امتوں کے مشرکانہ افکار سے اخذ کیا گیا ہے۔ سورہ برائت کی ۳۰ ویں آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کا غلو، کفار کے ان عقائد سے ملتا جلتا ہے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ تمام ادیان کی نظریاتی سرحدوں کو محفوظ رہنا چاہئے اور شخصیتوں کے بارے میں غلو ممنوع اور ناجائز ہے( لاتغلوا )

۲ ۔ رہبر، دین و مذہب اور ملت کی تصویر ہوتا ہے لہٰذا اس کے بارے میں غلو کرنا دین میں غلو کے مترادف ہوتا ہے (گزشتہ آیات کے پیش نظر جن میں بتایا گیا ہے کہ عیسائی حضرت مسیح کو خدا جانتے ہیں)

۳ ۔ افراط اور تفریط دونوں ممنوع ہیں( لاتغلوا )

۴ ۔ اگر خدا کے دین اور اولیاء اللہ کے بارے میں غلو ممنوع ہے تو دوسرے لوگوں کے بارے میں مبالغہ آرائی بھی جائز نہیں ہے۔

۵ ۔ اندھی تقلید ممنوع ہے( ولاتتبعوا )

۶ ۔ غلو کا سرچشمہ، نفسانی خواہشات ہیں( لاتغلوا--- لاتتبعوا اهواء ) ۔۔۔ )

۷ ۔ غلو صرف حضرت عیسیٰ ہی بارے میں نہیں تھا، بعض یہودیوں نے بھی حضرت "عزیر" کے بارے میں غلو کیا اور انہیں خدا کا بیٹا جانا( یٰاهل الکتٰب )

۸ ۔ قدیمی اور پرانے علم و ہنر کی قدروقیمت ہے، لیکن نفسانی خواہشات پر مبنی پرانے لوگوں کے نظریات اور عقائد کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے( ضلوامن قبل )

آیت ۷۸

( لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ م بَنِیْ ٓ اِسْرَآ ئِْیلَ عَلَی لِسَانِ دَاودَ وَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ )

ترجمہ۔ جو لوگ بنی اسرائیل سے کافر ہو گئے ان پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی ہے (انبیاء کی یہ نفرین اور لعنت) ان لوگوں کے گناہوں اور حد سے تجاوزکرنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔

نکتہ:

حضرت داؤد علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو اس لئے لعنت کی کہ ان لوگوں نے ہفتہ کے دن تعطیل کے دوران احکام خداوندی کی خلاف ورزی کی۔ اور حضرت عیسیٰ نے اس لئے ان پر لعنت کی کہ ان لوگوں نے اپنے اطمینان قلب کی خاطر آسمانی مائدہ کی درخواست کی اور حضرت عیسیٰ کی دعا کی وجہ سے وہ زمین پر اترا انہوں نے اس سے کھایا بھی لیکن پھر کفر اختیار کر لیا جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان پر لعنت بھیجی۔ (تفسیر نمونہ)

پیام:

۱ ۔ بنی اسرائیل اونچی اور برتر نسل سے نہیں ہیں( لعن )

۲ ۔ انبیاء کی دعا قبول ہوتی ہے( علی لسان )

۳ ۔ انبیاء ہمیشہ شفیع ہی نہیں ہوتے، کبھی لعنت بھی بھیجا کرتے ہیں۔

۴ ۔ گناہ اور حد سے تجاوز اللہ کی لعنت کا سبب ہوتے ہیں( بماعصوا )

۵ ۔ حد سے تجاوز اور قانون شکنی بنی اسرائیل کا شیوہ تھا( کانوایعتدون )

۶ ۔ اے میرے محبوب پیغمبر! آپ نہ گھبرائیں، بنی اسرائیل نے بھی گزشتہ انبیاء کے دل خون سے بھر دیئے تھے۔

سورہ مائدہ آیت ۷۹

( کَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْکِرٍ فَعَلُوْهُ ط لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ )

ترجمہ۔ (حضرت داؤد اور جناب عیسیٰ کی بنی اسرائیل پر لعنت اس لئے تھی ان لوگوں نے گناہ اور حد سے تجاوز کیا تھا اور) وہ جو بھی برا کام کرتے تھے اس سے ایک دوسرے کو نہیں روکتے تھے، اور کس قدر برا کام تھا جو وہ انجام دیتے تھے۔

نکتہ:

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔ "بنی اسرائیل کے نیک لوگ گناہ کی محفلوں میں شریک نہیں ہوا کرتے تھے لیکن مجرموں اور گناہگاروں کے ساتھ ہنستے مسکراتے اور ان سے انس و محبت کرتے تھے" (اس لئے عذاب میں مبتلا ہوئے)

(ملاحظہ ہو تفسیر نورالثقلین)

پیام:

۱ ۔ جو معاشرتی برائیوں کے بارے میں لاتعلق رہے وہ انبیاء کی زبانی ملعون ہے،( لعن--- لایتناهون )

۲ ۔ نہی عن المنکر صرف دین اسلام سے مخصوص نہیں( کانوالاتینا هون )

۳ ۔ نہی عن المنکر ہر ایک کے لئے برابر کا فریضہ ہے( لایتناهون )

۴ ۔ بنی اسرائیل اور یہودیوں میں برائیاں پھیل چکی تھیں( منکر فعلوه )

سورہ مائدہ آیت ۸۰

( تَرٰی کَثِیْرًا مِّنْهُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ اَنَّ سَخِطَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ فِی الْعَذَابِ هُمْ خٰلِدُوْنَ )

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) ان (بنی اسرائیل) میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھو گے جو (مومنین کی بجائے) کفار سے محبت کرتے ہیں، انہیں دوست بناتے ہیں اور اپنا سرپرست سمجھتے ہیں۔ کس قدر بری چیز کو ان کا نفس (قیامت کے لئے) آگے بھیجتا ہے کہ خدا کی ناراضگی ان پر حاکم ہے اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔

نکتہ:

اس آیت میں بنی اسرائیل کے ملعون ہونے کی ایک اور دلیل پیش کی گئی ہے کہ یہ لوگ کفار کے ساتھ دوستی اور ولایت کی پینگیں بڑھائے ہوئے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ کفار کی ولایت کو اپنانا، خدا کے غیض و غضب اور ناراضگی کا موجوب ہے۔

۲ ۔ اہلِ کتاب، کفار کے تسلط اور دوستی کو تو قبول کر لیتے ہیں لیکن اسلام کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ رکھنا گوارہ نہیں کرتے۔ (انہوں نے ایک مرتبہ تو یہ تک بھی کہہ دیا کہ "ھٰولاء اھدیٰ من الذین امنوا" یعنی مشرکین کا راستہ تو مسلمانوں سے بہتر ہے) ملاحظہ ہو تفسیر مجمع البیان