تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62771
ڈاؤنلوڈ: 5347

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62771 / ڈاؤنلوڈ: 5347
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۸۱

( وَلَوْ کَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ النّبِیِّ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَا اتَّخَذُوْهُمْ اَوْلِیَآءَ وَ لَکِنَّ کَثِیْرًا مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ )

ترجمہ۔ اور اگر وہ خدا، پیغمبر اور جو کچھ پیغمبر کی طرف نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لے آئے تو پھر ہرگز کافروں کو اپنا سرپرست اور دوست نہ بناتے۔ لیکن ان میں سے بہت سے لوگ فاسق ہیں۔

نکتہ:

اس آیت کے کئی مصداق ہو سکتے ہیں۔

الف۔ اگر یہودی، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی کتاب تورات پر حقیقی معنوں میں ایمان لے آتے تو مشرکین کو ہرگز اپنا ولی قرار نہ دیتے۔ (تفسیر آلوسی)

ب۔ اگر کفار اور مشرکین مسلمان ہو جاتے تو یہودی ان کے ساتھ تعاون اور ہم کاری نہ کرتے۔ (تفسیر المیزان)

ج۔ اگر اہل کتاب یا منافقین یا خود مسلمان صحیح معنوں میں خدا اور سول پر ایمان رکھتے تو کفار کو اپنا ولی نہ بتاتے۔

پیام:

۱ ۔ اہلِ کتاب کا ایمان لانا اس قدر بعید ہے کہ اس بارے میں صرف آرزو ہی کی جا سکتی ہے۔( ولو )

۲ ۔ ہر وہ مشرک، منافق یا اہل کتاب جو دل کی گہرائیوں سے خدا اور رسول پر ایمان لے آئے کبھی اس بات کے لئے حاضر نہیں ہوتا کہ غیراللہ کی ولایت کا چولا اپنے گلے میں ڈالے۔

۳ ۔ ایمان اور کفار کی ولایت کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں، سازشی عناصر جو کفار کے تسلط اور غلبہ کو قبول کئے ہوتے ہیں بے دین اور فاسق ہیں۔

۴ ۔ فسق، ایمان سے مانع ہوتا ہے( لوکانوا یوٴمنون--- ولکن--- فاسقون )

۵ فسق اور بے ایمانی کفار کا تسلط قبول کرنے کا موجب ہیں۔

۶ ۔ مختلف قسم کے گمراہ لوگوں کے درمیان تعلقات کا اہم سبب ان کا کفر ہے، ان میں سے جو بھی اس حدود سے نکلے گا، دوسرے اسے فوراً چھوڑ دیں گے۔

۷ ۔ جو مدار حق سے نکل جائے گا، طاغوتوں اور کافروں کی گرفت میں چلا جائے گا۔ (فسق کے معنی کو پیش نظر رکھتے ہوئے)

آیت ۸۲

( لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُُوْ ا الْیَهُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّا نَصٰرٰی ط ذٰلِکَ بِاَنّ َمِنْهُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَ رُهْبَانًا وَّ اَنَّهُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ )

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) تم یقیناً مومنین کا سر سخت ترین دشمن یہودیوں اور مشرکین کو پاؤ گے، اور (اس کے برعکس) مومنین کے ساتھ دوستی کے لحاظ سے ان سب میں سے زیادہ قریب ان لوگوں کو پاؤ گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ (دوستی) اس وجہ سے ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ عالم اور راہب (عابد) ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔

نکتہ:

اس آیت کے شان نزول کے باے میں مفسرین کہتے ہیں کہ: یہ آیت نجاشی بادشاہ حبشہ اور اس ملک کے دوسرے عیسائیوں کا وہ حسن سلوک ہے جو انہوں نے "ہجرت حبشہ" کے مہاجرین کے ساتھ روا رکھا۔ اور یہ ہجرت بعثت کے پانچویں سال حضرت جفعر طیار (ابن ابی طالب) کی سرکردگی میں عمل آئی۔ چنانچہ بعثت میں کچھ مسلمان حضرت جعفر طیار کی قیادت میں رسول پاک کے حکم سے مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ پہنچے اور وہاں کے بادشاہ نجاشی نے پناہ دی اور وہ مشرکین اور ان کے دوسرے ہم پیمان لوگوں کی ایذارسانیوں سے محفوظ رہے۔

یہودیوں کی کیفیت تو یہ تھی کہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے اس قدر عظیم معجزے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اخلاق کو بھی ملاحظہ کیا لیکن پھر بھی ایمان نہ لائے، بلکہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے کئی طرح کی عہدشکنی کی اور فتنہ و فساد کی آگ بھڑکاتے رہے۔ جبکہ اس کے برعکس حبشہ کے نصرانی علماء نے سورہ مریم کی چند آیات کو سن کر گریہ بھی کیا اور مسلمانوں کی حمایت بھی کی (تفسیر مجمع البیان)

"قسیس" عربی میں نصرانی علماء کو کہتے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ دشمنانِ اسلام اور غیرمسلمین کی درجہ بندی ہونی چاہئے۔ اور ہر ایک کے ساتھ اس کے درجہ کے مطابق سلوک ہونا چاہئے۔

۲ ۔ تمہاری تبلیغ کا زیادہ تر رخ عیسائی حکومتوں کی طرف ہونا چاہئے۔

۳ ۔ عیسائی اگرچہ تثلیث جیسے گمراہ عقیدہ کے حامل ہیں لیکن ان کی قبولیت حق کے لئے آمادگی زیادہ ہوتی ہے۔

۴ ۔ کسی معاشرے کی ترقی کے تین بنیادی ستون ہیں۔ ۱ ۔ علما اور دانشمند افراد (قسیس) عبادت اور پرہیزگاری (رہبان) اور غیرمتکبرانہ مزاج۔

۵ ۔ مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کی پرانی دشمنی چلی آ رہی ہے۔

۶ ۔ یہودی، اسلام کے سخت ترین دشمن ہیں۔

آیت ۸۳

( وَوَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ یَقُوْلُوْنَ رَبَّناَ اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَٰهِدِیْنَ )

ترجمہ۔ اور جب وہ (عیسائی) ان آیات کو سنتے ہیں جو پیغمبر پر نازل ہوئی ہیں تو تم ان کی آنکھوں کو دیکھو گے کہ امر حق کے پہچاننے کی وجہ سے آنسو اس زور سے بہتے ہیں جیسے گویا جام چھلک رہا ہو۔ اور کہتے ہیں کہ: اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لا چکے۔ پس تو ہمیں گواہوں کے ساتھ لکھ دے۔

نکتہ:

مسیحیوں کے اشک شوق کا ایک نمونہ تو اس وقت دیکھنے میں آیا جب جناب جعفر طیار نے حبشہ میں نجاشی کے سامنے سورہ مریم کی کچھ آیات کی تلاوت کی۔ اور دوسرا اس وقت جب کچھ عیسائی حضرت جعفر طیار کے ہمراہ مدینہ آئے اور سورہ یٰس کی کچھ آیات کو سنا۔ (تفسیر نمونہ)

پیام:

۱ ۔ جن لوگوں کے دل حق بات قبول کرنے کے لئے آمادہ ہوتے ہیں تو وہ صرف حق بات سن کر ہی منقلب ہو جاتے ہیں۔ لیکن جو نااہل ہوتے ہیں وہ آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے)( اذاسمعوا )

۲ ۔ اشک شوق اگر معرفت کے ساتھ ہوں تو یہ کمال کی علامت ہوتے ہیں( مماعرفوا )

۳ ۔ انسان کی روح اور فطرت، حق و حقیقت کی شیدائی ہوتی ہیں جب بھی انہیں اپنے معشوق کا وصال ہوتا ہے فوراً اشک شوق جام چشم سے چھلک اٹھتے ہیں۔

۴ ۔ ایمان اور اقرار، معرفت کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔( مماعرفوا )

۵ ۔ سو سالہ راہ کو ایک ہی مرتبہ طے کرنا قابل قدر ہے۔ "سننا"( سموا ) ۔ "پہچان لینا"( عرفوا ) "اقرار کر لینا"( آمنا ) اور "آملنا"( مع الشٰهدین )

۶ ۔ ایمان اور اقرار کے ساتھ ہی دعا موثر ہوتی ہے( آمنا فاکثینا )

۷ ۔ عارضی اور وقتی ایمان بے سود ہے، پائیدار اور دائمی ہونا چاہئے( فاکتبنا )

۸ ۔ اہل ایمان آخری دم تک اپنی عاقبت بخیر ہونے اور ایمان کے محفوظ رہنے کے بارے میں ہر وقت متفکر رہیں اور دعا کرتے رہیں۔( فاکتبنا )

آیات ۸۴ تا ۸۶

( وَمَا لَناَ لَا نُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَماَ جَآءَ نَا مِنَ الْحَقِّ وَ نَطْمَعُ اَنْ یُّدْخِلْنَا رَبَّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِیْنَ ه فَاَثَابَهُمُ اللّٰهُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا ط وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الْمُحْسِنِیْنَ ه وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا اُوْلٰٓئٰکَ اَصْحَبُ الْجَحِیْمِ )

ترجمہ۔ اور (کہتے ہیں کہ) ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہم خدا پر اور (ہر) اس حق پر ایمان نہ لائیں جو (اس کی طرف سے) ہمارے پاس آ چکا ہے اور اس بات کی امید رکھیں کہ ہمارا پروردگار ہمیں نیک بندوں کے ساتھ (بہشت میں) پہنچا دے گا۔

پسند خداوند عالم نے انہیں اس بات (اور گواہی) کے صلہ میں ایسے باغات عطا فرمائے کہ جن (کے درختوں) کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے۔ اور نیکی کرنے والوں کی یہی جزا ہے۔

اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں اور ہماری نشانیوں کو جھٹلایا ہے، وہ جہنمی ہیں۔

نکتہ:

جو لوگ حق بات سمجھ لینے کے بعد مردانہ وار اور صدق دل سے فراخدلی کے ساتھ اس کا اعتراف کر لیتے ہیں اور اپنے دین و ہم مسلک لوگوں کی پروا نہیں کرتے، وہ بہترین اور نیک لوگ ہیں۔ اس لئے کہ ایک تو وہ خود اپنے ساتھ نیکی کرتے ہیں اور اس طرح کہ اپنے آپ کو جہنم سے نجات دلاتے ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ اپنے اقرار کے ساتھ دوسروں کے لئے نیکی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ ارتقائی مراحل میں سے ایک مرحلہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنے ضمیر کی طرف لوٹ آئے اور اپنے ضمیر سے سوال کرے۔( ومالنا--- ) ۴۷

۲ ۔ خارجی اثرات اور اعمال کے ذریعہ ہی بہشت کی توقع رکھی جا سکتی ہے( دامن القسومن )

۳ ۔ صرف مسلمان قوم ہی، صالح اور شائستہ قوم ہے( مع القوم الصٰلحین )

۴ ۔ خدا پر ایمان، وحی پر ایمان سے ہٹ کر نہیں ہے( بالله وما جائنا )

۵ ۔ ایمان کی جزا بہشت اور کفر و تکذیب کی سزا جہنم ہے۔

آیت ۸۷

( یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمَعْتَدِیْنَ )

ترجمہ۔ اے ایماندارو! پاک و پاکیزہ چیزوں کو جو خدا نے تمہارے لئے حلال کی ہیں اپنے اوپر حرام نہ کرو، اور حد سے آگے نہ بڑھو، یقیناً خدا حد سے آگے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

نکتہ:

ایک دن سرکار ختمی مرتبت نے روز قیامت اور عرصہ محشر کے بارے میں خطبہ ارشاد فرمایا جس کا لوگوں پر زبردست اثر ہوا اور بہت گریہ کاری ہوا اوران میں انقلاب برپا ہو گیا ان میں سے کچھ لوگوں نے تہیہ کر لیا کہ اب کے بعد نہ تو وہ اچھا کھانا کھائیں گے، نہ ہی آرام و راحت کریں گے روزے رکھیں گے، اپنی بیویوں سے جدا رہیں گے، رات کو کم سے کم سوئیں گے۔ اور پھر اس پر انہوں نے قسم بھی کھا لی۔

اس بات کی اطلاع سرکار رسالت کی بارگاہ تک پہنچی تو آپ نے لوگوں کو مسجد میں اکٹھا ہونے کا حکم دیا۔ جب سب جمع ہو گئے تو آپ نے ارشاد فرمایا: "میں کھانا کھاتا ہوں رات کو سویا کرتا ہوں، اپنی بیویوں سے الگ تھلگ نہیں رہتا، ہمارا دین گوشہ نشینی اور رہبانیت کا دین نہیں ہے، میری امت کی رہبانیت جہاد ہے، لہٰذا جو شخص میری سنت کے خلاف کرے گا، وہ مجھ سے نہیں ہے"

کچھ لوگوں نے عرض کیا: ہم نے جو قسمیں کھا رکھی ہیں ان کا کیا بنے گا؟" اس پر بعد کی آیات نازل ہوئیں۔

پیام:

۔ اسلام دین و آئین فطرت ہے اور فطرت کشی حرام ہے( لاتحرموا طیبتا )

۔ گوشہ نشینی، رہبانیت (سادھوازم) افراط اور تفریط ممنوع ہے۔( لاتحزوا )

مسلمان تو امر الٰہی کا فرمانبردار ہے از خود حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کرتا۔

۔ حلال خوراک، حلال پوشاک اور حلال لذات انسان کے لئے ہی پیدا کی گئی ہیں( حکم )

۔ حلال چیزوں سے استفادہ کرنے میں اسراف سے کام نہ لو( لاتعتداوا )

۶ ۔ جو نذر، عہد اور قسم قرآن کی صریح نہی کے خلاف ہو اس کا کوئی اعتبار اور قدر و قیمت نہیں ہے۔

آیت ۸۸

( وَ کُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰهُ حَلٰلاً طَیِّبًا وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْنَ اَنْتُمْ بِه مُؤْمِنُوْنَ )

ترجمہ۔ اور جو پاک و پاکیزہ روزی اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہے اس سے کھاؤ اور اس خدا سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔

نکتہ:

قرآن مجید میں عام طور پر جہاں بھی "کلوا" کا لفظ آیا ہے اس کے ساتھ دوسری شرائط اور احکام بھی موجود ہیں۔ مثلاً

( کلوا--- واشکروا ) (کھاؤ۔۔۔ اور (خدا کا) شکرو کرو)

( کلوا--- ولاتطفعوا ) (کھاؤ۔۔۔ اور سرکشی نہ کرو)

( کلوا--- واعملوا ) (کھاؤ۔۔۔ اور نیک کام کرو)

( کلوا--- واطعموا ) (کھاؤ۔۔۔ اور دوسروں کو کھلا ؤ)

( کلوا--- ولاتتبعوا خطوات الشیطان ) ۔ (کھاؤ۔۔۔ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو)

حدیث پاک میں ہے کہ: "اللہ تعالیٰ ٰنے لوگوں کا پاک و پاکیزہ رزق معین کیا ہے، جب وہ حرام کی طرف رخ کرتے ہیں تو ان کے حلال رزق کا حصہ کم ہو جاتا ہے (از تفسیراطیب البیان)

پیام:

۔ حلال چیزوں سے استفادہ، تمہارے ایمان کے منافی نہیں ہے( یایها الذین امنوا--- کلوا ) ۔ )

۔ غذائی مسائل میں خوب غور و فکر سے کام لو( حلالا، طیبا، واتوا )

۔ تمہارا رزق خدا کے ہاتھ میں ہے لہٰذا جلدبازی، حرص اور حرام خواری سے دور رہو۔( رزقکم الله )

۔ تقوا ایمان کی علامت ہے( واتقوا الله الذی انتم به موٴمنون )

آیت ۸۹

( لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْ اَیْمَانِکُمْ وَلَکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمْ الْاَیْمَانَ فَکَفَّارَتُهٓ اِطْعَامُ عَشْرَةِ مٰسَکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةً ط فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ ط ذٰلِکَ کَفَّارَةُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ط وَ احْفِظْ وَ اَیْمَانِکُمْ ط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَکُمْ اٰیٰتِه لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْْنَ )

ترجمہ۔ اللہ تعالیٰ تم سے تمہاری بے ہودہ (اور بغیر ارادہ کے کھائی جانے والی) قسموں کا مواخذہ نہیں کرے گا، لیکن جو قسمیں تم نے (تہہ دل سے) پختہ کرکے کھائی ہیں ان کا مواخذہ (ضرور) کرے گا۔ پس اس (قسم توڑنے) کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو اس کا اوسط قسم کا کھانا ہے یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنانا ہے یا ایک غلام کا آزاد کرنا ہے۔ پس جو شخص ایسا نہیں کر سکتا تو تین دن کے روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب بھی تم قسم کھاؤ۔ اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو (اور ان کا کفارہ ادا کرو) اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنی آیات کو بیان کرتا ہے تاکہ تم شکر کرو۔

نکتہ:

بے ہودہ قسمیں وہ ہوتی ہیں جو:

قصد اور توجہ کے بغیر بے مقصد غصے اور طیش کی حالت میں غلط مقاصد کے لئے خلاف شرع کاموں کے لئے۔۔۔ کھائی جائیں۔ اس قسم کی قسموں کا کفارہ نہیں ہوتا۔ لیکن قصد اور ارادے کے تحت اور مفید کاموں کے لئے کھائی جانے والی قسموں کی پابندی ضروری ہوتی ہے ورنہ کفارہ کی ادائیگی ضروری ہو جاتی ہے۔

قسم کے کفارہ کے بارے میں بیان ہونے والی ایک قسم مسکینوں کو کپڑے پہنانا بھی ہے، جو ہر قسم کی پوشاک خواہ وہ سردی کے لئے ہو یا گرمی کے لئے مردوں کے لئے ہو یا عورتوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

"اوسط" (متوسط اور درمیانہ قسم) کے لفظ کی بعض لوگوں نے بہترین اور عمدہ قسم کی غذا کے معنی کے ساتھ تفسیر کی ہے۔ جیسا کہ سورہ نٓ و القلم کی ایک آیت ہے کہ "قال۔ اوسطھم" یعنی ان کے بہترین اور بالاترین شخص نے کہا۔

پیام

۱ ۔ اسلام ایک آسان دین ہے اور غیرحتمی قسم کی قسموں کے لئے کفارہ مقرر نہیں کیا۔( لایوٴاخذکم ) ۔۔۔ )

۲ ۔ اسلام میں مالی جرمانہ بھی ہے( اطعام--- اوکسوتهم ) ۔۔۔ )

۳ ۔ اعتدال پسندی اور عدالت کی ہر جگہ حتیٰ کہ جرمانے کی نوعیت میں بھی اپنی قدر و قیمت ہے( من اوسط ) ۔ )

۴ ۔ جرمانہ، افراد کی مالی حالت کے مطابق ہونا چاہئے۔( تطعمون اهلیکم )

۵ ۔ جرمانے اور کفارہ میں افرا دکی روزمرہ اور معمول کی متوسط زندگی کو پیش نظر رکھنا چاہئے نا کہ استثنائی ایام کی زندگی کو( من اوسط )

۶ ۔ کفارہ کی ادائیگی میں فقراء کی شخصیت اور ان کے دلوں کو نہ توڑو اور انہیں اپنے خاندان کے افراد سمجھو۔( اهلیکم )

۷ ۔ ایک عالمی اور پائیدار دین کے قوانین اور سزاؤں کے جرمانوں میں بھی وسعت ہونی چاہئے۔ مثلاً غلام کا آزاد کرنا یا غریبوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑے پہنانا۔ ان میں سے جو بھی اور جس کے لئے بھی اور جہاں پر بھی قابل عمل ہو اس پر عملدرآمد کیا جائے گا۔

۸ ۔ مجرم پر جرمانے کی راہیں تنگ نہ کرو اور اسے جرمانہ کی نوعیت (خوراک، لباس یا غلام کی آزادی) میں اختیار دو۔

۹ ۔ اپنی قسم توڑنے کی جرأت کی تلافی روزے کی سختی یا جرمانہ کی ادائیگی سے کرو۔ اسلام میں جرمانہ کی ادائیگی اور کفارہ انسان سازی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

۱۰ ۔ اسلام نے غلاموں کی آزادی کے لئے ہر فرصت سے استفادہ کیا ہے( تحریر رقبة )

۱۱ ۔ قسم اور خدا کے مقدس نام کی حرمت کا خاص خیال رکھو یا تو قسم نہ کھاؤ، اگر قسم کھاؤ تو پھر اس پر عمل کرو یا پھر کفارہ ادا کرکے اس کی تلافی کرو( واحفظوا ایمانکم )

۱۲ ۔ ہم اپنی قسموں کے جوابدہ ہیں، سرمایہ دار یہ نہ سمجھیں کہ انہیں حق حاصل ہے جب چاہیں قسم کھا لیں اور جرمانہ ادا کر دیں۔( واحفظوا ایمانکم )

۱۳ ۔ جس شخص میں مالی توانائی نہیں ہے وہ جسمانی توانائی کو خرچ کرے( فصیام ثلثة ایام )

آیت ۹۰

( یٰٓاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُوَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ )

ترجمہ۔ اے ایماندارو! شراب، جوا، بت اور قرعہ کے تیر تو پلیدی اور شیطانی کاموں میں سے ہیں لہٰذا تم ان سے اجتناب کرو ہو سکتا ہے کہ تم فلاح پا جاؤ۔

نکتہ

عربوں کو شعر، شراب اور جنگ سے خاصی وابستگی تھی اور شراب کی حرمت کا حکم بتدریج نازل ہوا۔

پہلے تو یہ آیت نازل ہوئی کہ خرما اور انگور سے رزق و روزی بھی حاصل ہوتی ہے اور مست کرنے والی چیزیں بھی ہیں (نحل/ ۶۷) یہ اشارہ مست کرنے کی طرف جو اس کی برائی کو بیان کر رہا ہے۔ پھر جوا اور شراب کے فوائد اور فوائد سے زیادہ گناہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے (بقرہ/ ۲۱۹) پھر آیت نازل ہوئی کہ مستی کی حالت میں نماز نہ پڑھو (نسأ/ ۴۳) اور آخر میں زیرنظر آیت نازل ہوئی جس نے شراب کو نجاست، شیطانی کام اور حرام قرار دے دیا۔

"خَمر" اور "خُمر" کا ایک ہی رشتہ ہے۔ جن کا معنی ہے "چھپانا" اسی لئے عورت کے مقنعہ کو "خِمار" کہتے ہیں کیونکہ وہ سر کے بالوں کو چھپاتا ہے۔ اور شراب عقل پر پردے ڈال دیتی ہے۔

"مَیسر" کو "یُسر" (آسانی) کے لفظ سے لیا گیا ہے۔ چونکہ جوابازی میں لوگ کسی قسم کی تکلیف اور زحمت اٹھائے بغیر جوا کے ذریعہ رقوم اور پیسے کو حاصل کرتے ہیں۔

"ازلام" زمانہ جاہلیت میں لکڑیوں کے ذریعہ قرعہ اندازی کی ایک قسم ہے جس کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے (مائدہ/ ۳) مزید تفصیل کے لئے مفصل تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے)

پیام

۱ ۔ ایمان اور شر انجواری باہم سازگار نہیں ہیں( امنوا--- رجس فاجتنوبه )

۲ ۔ شراب اور جوا، بت پرستی کے مترادف ہیں( الخمر و المیسر و الانصاب ) ۴۸

۳ ۔ اسلام کے اوامر و نواہی دلیل اور حکمت کے بغیر نہیں ہیں( رجس فاجتنوبه )

۴ ۔ نہ صرف شراب نہ پیو بلکہ اس کے نزدیک بھی نہ پھٹکو۔ (اسی لئے "ل( اتشربوا ) " کی بجائے "اجنبوا" کہا ہے) ۴۹

۵ ۔ صاف ستھری اور پاک و پاکیزہ غذا انسان کی سعادت کے لئے موثر ہے( فاجتنبوه لعلکم تفلحون )

آیت ۹۱

( اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَوَةَ وَالْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یُصُدَّ کُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰهِ وَ عَنْ الصَّلٰوةِ فَهَلْ اَنْتُمْ مُنْتَهُوْنَ )

ترجمہ۔ شیطان تو بس چاہتا ہی یہی ہے کہ شراب اور جوا کے ذریعہ تمہارے درمیان دشمنی اور کینہ ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد اور نماز سے روک دے۔ تو کیا تم (ان تمام برائیوں کی وجہ سے) باز آ جاؤ گے؟

نکتہ

اعداد و شمار کی رو سے بہت سے قتل، جرائم، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں گاڑیوں کا ٹکرا جانا، طلاقیں، ذہنی اور اندرونی بیماریاں وغیرہ شراب کی وجہ سے رونما ہوتی ہیں لیکن قرآن مجید نے اس کی حرمت کے فلسفہ کی دو بنیادی وجوہات پیش کی ہیں۔ ایک تو اجتماعی اور معاشرتی نقصان اور دوسرا معنوی نقصان (مثلاً عداوت اور نماز، یاد خدا سے غفلت)

پیام و نکات

۱ ۔ فلسفہ احکام کا بیان کلام کے موثر ہونے والے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔( انما یرید ) ۔۔۔ )

۲ ۔ کینہ کو وجود میں لانے والے تمام ذرائع سے نبردآزما رہنا چاہئے۔

۳ ۔ جو بھی تحرک یا جو بھی شخص لوگوں کے درمیان عداوت اور کینہ کا سبب بنتا ہے شیطانی ہے۔

۴ ۔ جو بھی کام یاد خدا اور نماز سے غفلت کا سبب بنتا ہے شراب اور جوئے کی مانند ناپسندیدہ ہے۔

۵ ۔ جہاں پر کینہ اور عداوت پیدا ہوں وہاں پر بہتر ہے کہ مالی اور مادی منفعت سے دستبرداری اختیار کر لینا ضروری ہے۔ خواہ یہ منفعت کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو!

۶ ۔ روحانی اور معنوی نقصانات، جسمانی اور مادی نقصانات سے زیادہ اہم ہیں۔ (اگرچہ شراب سے جسمانی نقصانات بھی ہوتے ہیں لیکن قرآن نے زیادہ زور عداوت اور یاد خدا اور نماز سے غفلت پر دیا ہے)

آیت ۹۲

( وَ اَطِیْعُو اللّٰهَ وَ اَطِیْعُو الرَّسُوْلَ وَ احْذَرُوْ ا فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اِنَّمَا عَلَی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ )

ترجمہ۔ اور خدا کی اطاعت کرو اور پیغمبر کی فرمانبرداری کرو اور (نافرمانی سے) بچتے رہو۔ پس اگر تم نے روگردانی کر لی (اور اطاعت نہ کی) تو جان لو کہ ہمارے پیغمبر پر واضح اور روشن پیغام پہنچانے کے علاوہ اور کوئی (ذمہ داری) نہیں ہے۔

پیام و نکات

۱ ۔ حضرت رسول خدا کے سرکاری اور سیاسی احکام، فرامین الٰہی کی مانند ہیں جن کی اطاعت واجب ہے( اطیعوا الله ) کے ساتھ ساتھ اطیعوا الرسول ہے)

۲ ۔ واضح اور روشن طریقہ سے دعوت، جزو نبوت لیکن التماس اور چاپلوسی ہرگز نہیں۔( فان تولیتم--- علی رسولنا البلاغ المبین )

۳ ۔ انسان، راستے کے انتخاب میں آزاد ہے( فان تولیتم )

۴ ۔ نافرمانی اور روگردانی کرکے اپنی ذات کے علاوہ کسی اور کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔( انما علی رسولنا البلاغ المبین )

آیت ۹۳

( لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوالصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَاٰمِنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّا اَحْسَنُوْا ط وَاللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ )

ترجمہ۔ جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک کام انجام دیئے ہیں ان پر کوئی جرح نہیں ہے کہ جو وہ (حرام ہونے سے پہلے) کھا چکے ہیں۔ اگر وہ تقویٰ اختیار کریں۔ اور ایمان دار ہوں، (اور اس ایمان پر پائیدار ہوں) نیک اعمال بجا لائیں پھر (حرام کردہ چیزوں سے) پرہیز کریں اور (ان کی حرمت پر) ایمان رکھیں پھر (حرام سے) پرہیز کریں اور نیکی کے کام کریں، اور خداوند عالم تو نیکی کا کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

دو نکات:

۱ ۔ شراب کو حرام کرنے والی آیت کے نزول کے بعد بعض مسلمان ان لوگوں کے بارے میں دریافت کرنے لگے جو شراب پیتے تھے اور ان سے پہلے فوت ہو چکے تھے، یہ آیت اسی کے جواب میں نازل ہوئی۔

۲ ۔ آیت میں دو مرتبہ ایمان اور عمل کو بیان کیا گیا ہے دو بار تقویٰ اور ایمان کو اور ایک مرتبہ تقویٰ اور ایمان کو۔ چنانچہ بعض مفسرین کے بقول یہ اس لئے کہ ہے کیونکہ ایمان اور تقویٰ کے مقامات، مراحل اور درجات مختلف ہیں اس لئے ان کا تکرار کیا گیا ہے (ملاحظہ ہو تفسیر نمونہ) بعض مفسرین کہتے ہیں کہ: ان کا تکرار دراصل ایمان اور تقویٰ کے تسلسل کو بحال رکھنے کے لئے ہے۔

پیام

۱ ۔ جو مومنین اور صاحبان تقویٰ اس حکم سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ان کی اس بارے میں غلطی قابل عفو ہے۔

۲ ۔ انسان اس دنیا میں جو چیزیں استعمال کرتا ہے اگر ان کے ساتھ "ایمان"، "عمل"، "تقویٰ" اور "احسان" وہ تو حلال ہیں وگرنہ کفران نعمت ہے۔

۳ ۔ مادیات اور دنیا سے استفادہ کرتے وقت آخرت اور معنویات پر توجہ رکھنی چاہئے۔

۴ ۔ تقویٰ انسان کے لئے ایسے ہے جیسے انسانی جسم میں موجود رگوں میں خون ہوتا ہے۔

یعنی: استفادہ کرتے وقت تقویٰ( طمعوا اذاما اتقوا )

مذہب و مکتب میں تقویٰ(( ثم اتوا و امنوا )

خدمت میں تقویٰ( ثم اتقوا و احسنوا )

۵ ۔ آیت کہتی ہے کہ: کہاں سے لائے ہو؟( تقویٰ )

کہاں اور کس لئے خرچ کر رہے ہو؟( عمل صالح )

معاشرہ کے کچلے اور پسے ہوئے طبقہ یعنی محرومین کے ساتھ تمہارا کس حد تک تعلق ہے؟( احسان )

آیت ۹۴

( یٰٓاَیُّهُا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّکُمُ اللّٰهُ بِشَیْ ءٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُه اَیْدِیْکُمْ وَ رِمَا حُکُمْ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّخَافُه بِالْغَیْبِ فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَهُ عَذَابٌ اَلِیْمٌ )

ترجمہ۔ اے ایماندارو! یقینا خداوند عالم تمہیں کسی ایسے شکار کے ذریعہ آزماتا ہے جس تک تمہارے ہاتھ اور نیزے جا پہنچتے ہیں اور یہ (آزمائش) اس لئے ہے تاکہ اسے معلوم ہو جائے کہ کون شخص باطنی طور پر اس سے ڈرتا ہے (اور اس کا فرمانبردار ہے اور شکار نہیں کرتا) لہٰذا اس کے بعد جو شخص حد سے تجاوز کرے گا اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔

نکات:

۱ ۔ ایام حج اور احرام کی حالت میں حاجی کو شکار کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، انہی ایام میں بعض اوقات شکار کا جانور انسان کے اس حد تک نزدیک آ جاتا ہے کہ انسان جھپٹ کر اسے اپنے قابو میں لا سکتا ہے لیکن خدا کی آزمائش اس بات میں ہے کہ حاجی اس کا شکار نہ کرے۔

۲ ۔ قرآن مجید میں "پیٹ کا مسئلہ" خدا کی آزمائشوں میں سے ایک آزمائش بیان ہوا ہے۔ اور ا س کے کئی نمونے بیان ہوئے ہیں۔

الف: حضرت آدم اور جناب حوا غذا کے مسئلہ میں شکست کھا گئے۔ (جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے "( لا تقربا هذه الشجرة ) " یعنی اس درخت کے نزدیک مت جانا۔

ب: بنی اسرائیل ہفتہ کے دن مچھلی کے شکار کے شکست کھا گئے۔

ج: بنی اسرائیل کے لئے خدا کے مقررکردہ ایک دینی رہبر نے دریا سے گزرتے وقت اپنے لشکر والوں کو حکم دیا کہ دریا سے پانی نہیں پینا، لیکن سوائے معدودے چند لوگوں کے سب نے اس سے پیا۔ "( فشربوا منه الاقلیلاً ) "

د: روزہ رکھنا بھی بذات خود ایک آزمائش ہے۔

ھ: حالت احرام میں شکار کے جانور کا حاجی کے قریب آ جانا کہ جس کے شکار کا اسے حق حاصل نہیں ہے۔ آزمائش ہے۔

و: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری باوجودیکہ آپ سے اس قدر معجزات ملاحظہ کر چکے تھے پھر بھی وہ خدا کا امتحان کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے آسمانی مائدہ کی درخواست کی۔ اور خدا نے بھی وہ مائدہ کا نازل فرمایا: البتہ ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دے دی کہ اس کے نازل ہو جانے کے بعد جو کفر اختیار کرے گا اسے عذاب دیا جائے گا۔ (اسی سورہ کی ایک سو پندرھویں آیت)

پیام

۱ ۔ امتحان و آزمائش خداوند عالم کا ایک قطعی اور قدیمی طریقہ کار ہے( لیبلونکم )

۲ ۔ آزمائش و امتحان ہوتا ہی مومنین کا ہے ورنہ کفار کا تو کوئی دعویٰ ہی نہیں ہوتا۔( یٰا یهاالذین امنوا لیبلونکم )

۳ ۔ خوف خدا کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب گناہ کے ذرائع موجو ہوں اور انسان گناہ نہ کرے۔( تناله ایدیکم )

۴ ۔ ضروری نہیں ہے کہ جو چیز تمہارے ہاتھوں تک پہنچ جائے وہ حلال بھی ہو اور اس پر تمہاری روزی بھی۔( تناله ایدیکم )

۵ ۔ تقویٰ کا دارومدار باطنی خوف پر ہے نا کہ ظاہری حیا و شرم پر( یخافه بالغیب )

۶ ۔ جو حاجی کئی کئی دن تک اور کئی کئی میل تک جنگلوں اور بیابانوں میں حق تعالیٰ کے عشق میں جلتا رہتا ہے بعض اوقات اسے ایک چھوٹا سا شکار پچھاڑ دیتا ہے اور حق تعالیٰ کی نافرمانی تک جا پہنچتا ہے۔

۷ ۔ ذمہ داری پیغام پہنچ جانے کے بعد عائد ہوتی ہے۔( بعد ذالک )

۸ ۔ بعض اوقات شکار کا شمار بھی حد سے تجاوز کے زمرہ میں آتا ہے۔

۹ ۔ جس سرزمین میں حضرت ابراہیم نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل کی ذات کے بارے میں درگزر سے کام لیا وہاں پر تم بھی ایک شکار سے درگزر سے کام لو۔

۱۰ ۔ خود شکار کا دردناک عذاب نہیں ہے بلکہ عذاب کا موجب قانون شکنی ہوتی ہے۔

آیت ۹۵

( یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوْا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ ط وَمَنْ قَتَلَه مِنْکُمْ مُعْتَمِدًا فَجَزَآءُ مِثْلَ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِه ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ هَدْیًا بٰلِغَ الْکَعْبَةِ اَوْ کَفَّارَةٌ طَّعَامُ مَسٰکِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صَیَامًا لِّیَذُوْقَ وَ بَالَ اَمْرِه ط عَفَا اللّٰهُ عَمَّا سَلَفَ ط وَمَنْ عَادَفَیَنْتَقِمُ اللّٰهُ مِنْهُ ط وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ ذُوْا انْتِقَامٍ ) ہ

ترجمہ۔ اے ایماندارو! احرام کی حالت میں شکار نہ کرو۔ اور تم میں سے جو شخص جان بوجھ کر شکار کو قتل کرے گا تو اس کی سزا اور کفارہ چوپالوں میں سے اسی جیسا جانو رذبح کرنا ہے ۔ اور ( اس جیسا ہونے کے لئے) دو عادل گواہ فیصلہ کریں گے ۔ (یہ جانور ) ایک ہدیہ اورقربانی ہے جو کعبہ تک جا پہنچے ۔ (وہیں پر ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت وہاں کے غریبوں کو ملے) یا ذبح شدہ شکار کے برابر کفارہ ہے جو مسکینوں کے دیا جائے یا اس کے برابر روزے رکھے۔

(یہ تین طرح کا کفارہ اس لئے ہے ) تا کہ شکاری اپنے کئے ہوئے شکار کا مزہ چکھے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے تمہاری اس سے قبل کی خلاف ورزیوں کو معاف کر دیا ہے (جب تک کفارہ کا قانون نہیں آیا تھا ) اور جو شخص ( شکار کے قتل کا ) اعادہ کرے گا خدا ہی اس سے انتقام لے گا ۔ اور اللہ تعالیٰ ناقابل شکست اور انتقام لینے والا ہے ۔

پیام

۱ ۔ حرم کعبہ کا امن وا مان اور اس کی حفاظت کرنی چاہئیے خواہ جانوروں کے لئے ہی ہو ۔( لا تقتلوا الصید )

۲ ۔ عمل سے زیادہ خطرناک جان بوجھ کر برائی کا قصد کرنا ، اس کا سوچنا اور اسے ہدف قرار دینا ہے۔( متعمدا )

۳ ۔ سزا منصفانہ ہونی چاہئیے ۔( مثل ما )

۴ ۔ سزا اور جرمانہ کا اجر ا سوچ سمجھ کر اور خوب غور و خوض کے ساتھ ہونا چاہئیے۔( یحکم به ذواعدل )

۵ ۔ جرمانی کی ادائیگی کے لئے مجرم کا ہاتھ کھلا چھوڑنا چاہئیے۔ (قربانی دے یا کھانا کھلائے یا روزے رکھے) اور اس کی جسمانی اور مالی توانائیوں کو پیش نظر رکھنا چاہئیے۔

۶ ۔ کعبہ کے باہر گناہ کے ارتکاب کا کفارہ بھی کعبہ کے باہر ہی ادا کرنا چاہئیے۔( بالغ الکعبة )

۷ ۔ خدا کی طرف سے مقر ر کردہ جرمانے تربیت کا پہلو رکھتے ہیں اور انسانی غرور کو توڑتے ہیں( وبال امره )

۸ ۔ قوانین کا اجراء رسمی طور پر قوانین کے اعلان کے بعد ہوتا ہے( عضی الله عماسلف )

۹ ۔ گناہ کا تکرار ‘ زبردست اور سخت سزا کا موجب بن جاتا ہے( ومن عماد ) ۔۔۔ )

آیت ۹۶

( اَحِلَّ لَکُمْ صَیْدَ الْبَحْرِ وَ طَعَامُه مَتَاعًا لَّکُمْ وَ لِلسِّیَّارَةِ وَ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدَ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ط وَاتَّقُوْا اللّٰهَ الَّذِیْ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ ) ہ

ترجمہ۔ دریاکی شکار اور اس کی غذا تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہے ۔ (یہ شکار اور خوراک ) تمہارے لئے اور قافلہ والوں کے لئے زادراہ ہے۔ اور جب تک تم احرام کی حالت میں ہو خشکی کا شکار تمہارے لئے حرام ہے ۔ او راس خدا سے ڈرتے رہو جس کی طرف تمہیں محشور ہونا ہے۔

ایک نقطہ :

اس آیات کی رو سے احرام کی حالت میں دریا کی شکار اور اسکی غذا کا استعمال جائز ہے ۔ لیکن صحرائی جانوروں کا شکار اور ان کی غذا کا استعمال حرام ہے ۔ (ملاحظہ ہو تفسیر مجمع البیان اور دیگر فقہی کتابیں)

پیام

۱ ۔ احرام والے شخص کے لئے تمام راہیں بند نہیں کی گئیں( احل ----حرم )

۲ ۔ دریائی شکار یا غذا صرف ساحل نشینوں کے ساتھ خاص نہیں ہے( ولسیارة )

۳ ۔ ساحل نشینوں کو دریاسے استفادہ کرنے میں اولویت ضروری حاصل ہے( لکم و للسیارة )

۴ ۔ کسی چیز کا حلال یا حرام کرنا ہمیشہ کے لئے ذاتی نہیں ہوتا ، بلکہ بعض اوقات زمان اور مکان کی کیفیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ تاریخ اور جغفرایہ کے پیش نظر احکام الہیٰ مئوثر ہوں( وانتم حرم )

۵ ۔ قیامت اور معاد پر ایمان ہی تقوی کا موجب ہوتا ہے( واتقو الله الذی الیه تحشرون )

۶ ۔ انسانی آبادی کا کثرت سے اژدھام اور عبادی وسیاسی مراسم کی ادائیگی کو جانوروں کی نسل یا درختوں کی تباہی کا موجب نہیں ہونا چاہئیے۔

آیت ۹۷

( جَعَلَ اللّٰهُ الْکَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًالِلنَّاسِ وَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ والْهَدْیَ الْقَلَائِدَ ذٰلِکَ لِتَعْلَمُْوْا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَ اَنَّ للّٰهَ بِکُلِّ شَیْءٍ عُلَیّمٌ ) ۔

ترجمہ۔ خداوند عالم نے کعبہ حرمت والے گھر کعبہ کو لوگوں کے لئے امر کے قیام کا ذریعہ قرار دیا ہے اور( اسی طرح)حرمت والا مہینہ اور بے نشان قربانیوں اور نشاندار قربانیوں کو بھی (لوگوں کے امر کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے) یہ سب اس لئے ہے تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ان سب کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور خداوند عالم ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

نکات:

"قیام" پائیداری کا ذریعہ ہے جس طرح خیمہ کے لئے ستوں اس کی پائیداری کا ذریعہ ہوتا ہے (سفطہ ہو مفردات راغب)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ کعبہ کو اس لئے "بیت الحرام " کہا گیا ہے کہ وہاں پر کفارکا داخلہ حرام ہے۔ (تفسیر نور التقلین)

کسی امر کے قائم اور پائیدار ہونے کے لیے چند چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ۱ ۔مرکزیت ۔ ۲ ۔ امن و امان ۳ ۔ غذا اور خوراک ۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ تینوں چیزیں کعبہ بیت الحرام میں مقر ر فرما دی ہیں ۔ کہ یہ جگہ مرکز مسلمین بھی ہے ۔ وہاں ہر کسی کو کسی قسم کے جھگڑے فساد کی اجازت بھی نہیں ۔ او رقربانی کا گوشت مسلمان کی غذابھی ہے۔

"ھُدی" بغیر نشانی والی قربانی کو کہتے ہیں او ر"قلائد " نشانی والی قربانیوں کو حرمت والے مہینے چار ہیں ۱ ۔ رجب ۲ ۔ ذیقعد ۳ ۔ ذی الحجہ اور ۴ محرم کو ان مہینوں میں جنگ ممنوع اور حرام ہے۔

اس مقام پر مسلمانوں کالا کھوں کا اجتماع جس میں نہ تو کسی قسم کا سرکاری پرٹوکول ہوتاہے اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی امتیاز روا رکھاجاتاہے ایک مقدس مقام پر لفظی اور عملی جدال اور نزاع سے پاک موحول اسلام کے امتیاز میں سے ایک ہے۔ اور اگر ہم حج کی دوسری برکتوں کو بھی مد نظر لے آئیں یعنی حج پر جاتے وقت یا حجاج کی واپسی پران سے ملاقات کے موقع پر مسلمانوں کا ایک دوسرے سے معافی طلب کرنا ، اپنے گناہ بخشوانا ، ایام حج میں تجارت کی رونق ، خمس و زکات کی ادائیگی، معار ف الہیٰ اوررنگ و نسل کا امتیاز کئے بغیر مختلف قوموں کی ایک دوسرے آشنا کی ، سب لوگوں کا توحید کے قدیم ترین مرکز میں اجتماع ، گریہ وزری صحرائے عرفات و شعر میں توبہ کرنا اور وہاں پر قیامت کی یاد دلوں میں رونا ‘ سیاسی مشقیں اور کفارے اظہار برائت اور اس قسم کی دوسری برکتوں کو نظر میں لے آئیں تو ہمیں اچھی طرح معلوم ہو جائے گا کہ حج کے یہ تمام جچے تلے پروگرام اور منصوبے ۔ خدا کے ایسے بے پایاں علم سے عمل میں آئے ہیں جو کائنات کی ہر چیز سے آگاہ ہے او رمحدود علم ہر گز اس قسم کے ہر کشش قوانین جاری نہیں کر سکتا۔

پیام

۱ ۔ "کعبہ " سب کے لئے ہے( للناس )

۲ ۔ مسلمانوں کا ثبات اور ان کی زندگی حج سے وابستہ ہے( قیاماللناس )

۳ ۔ امور کے قیام کے لئے اجتماعیت ‘ وحدت اور عبادت (کعبہ) قدس اور حرمت( بیت الحرام ) امن اور سکون (الشھرالحرام) نشاندار اور بے نشان کام( هدی و قلائد ) اور بقدر ضرورت غذا اور خوراک ضروری ہے

۴ ۔ کعبہ جو کہ حرمت والاگھر ہے سادہ پتھروں سے بنایا گیاہے اور یہ اس کی معنوی قدرو قیمت کی دلیل ہے ۔

۵ ۔ قانون سازی اورقوانین کے نفاذ کا حق اسے حاصل ہوتاہے جو تمام کائنات سے آگاہ ہوتاہے( یعلم مافی السموت و مافی الارض )

۔ احکام الہٰی کا سرچشمہ اس کا بے پایاں اور بیکراں علم ہے ۔ اگر تمہیں ان احکام کا فلسفہ نظر نہ آئے تو ا س کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ احکام ہی نا مناسب ہیں ۔ اس لئے کہ وہ خود انہی سے آگاہ ہے ۔( ذالک لتعلموا )

۷ ۔ خدائی قوانین کے بعض اسرار ور موز مستقبل میں واضح ہوں گے اور سمجھ میں آئیں گے( تعلموا )

۸ ۔ مسجد ہو یا قربانگاہ دونوں قیام و پائیداری کاموجب ہیں( کعبه ، هدی )

آیت ۹۸ ، ۹۹

( اِعْلَمُوْآ اَن اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ وَ اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ - مَاعَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مَاتُبْدُْونَ وَ مَاتَکْتُمُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا وند عالم سخت عذاب دینے والا ہے اور اللہ تعالی یقینا بخشنے والااور مہربان ہے۔

پیغمبر پر سوائے (احکام الٰہی کے )پہنچانے کے اور کچھ نہیں اور اللہ تعالی جانتاہے جو کچھ کہ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔

پیام

۱ ۔ تشویق و ترغیب اور تہدیدو دھمکی ساتھ ساتھ ہونی چاہئیے( شدید العقاب ، غفورر حیم )