آیت ۱۰۶
ی(
ٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ شَهَادَةُ بَیْنَکُمْ اِذَ ا حَضَرَ اَحْدُکُم َالْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّةَ اِثْنٰنِ ذَوَاعَدْلٍ مِنْکُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِکُْمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَةُ الْمَوْتِ تَحْبِسُوْا بِهِمَا مِّنْ بَعْدِ الصَّلٰوةِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ اِنِ رْتَبَتُْم لاَنَشْتَرَی بِه ثَمَنًا وَلَوْ کَا نَ ذَالْقُرْبٰی وَ لَا نَکْتُمْ شَهَادَةَ اللّٰهِ اِنَّا اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ
)
۔
ترجمہ۔ اے ایماندارو! جب تم میں سے کسی شخص کے پاس موت (کی نشانی) آپہنچے تو اپنے میں سے دو عادل آدمیوں کو وصیت کے وقت شہادت اور گواہی کے لئے بلاؤ۔ اور اگر سفر کی حالت میں ہو اور موت کی مصیبت تمہارے پاس آجائے (اور کوئی مسلمان گواہ بھی نہ ہو) تو اپنے غیر(دینی) افراد کو گواہی کے لیے بلاؤاور اگر تمہیں ان (کی صداقت)میں شک ہو تو نماز کے بعد انہیں اپنے پاس روکے رکھو تا کہ وہ خدا کی قسم کھائیں کہ ہم حق کو کسی قسمت پر بیچنے کے لئے تیار نہیں ہیں خواہ تمہارے قریبی لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔ اور اپنی خد الگتی گواہی نہیں چھپائے گے۔ (اگر ایسا نہیں کریں گے ) تو اس وقت ہم گناہگاروں میں سے ہوں گے۔
ایک نقطہ
"ابن ابی ماریہ" نامی ایک مسلمان " تمیم" اور " عدی نامی دو عیسائی بھائیوں کے ساتھ تجارت کی غرض سے سفر پر گیا۔ اور دوران سفر بیمار ہو گیا۔ اس نے وصیت نامہ لکھ کر اپنے سفر کے سامان میں چھپا کر رکھ دیا ۔ اور تمام مال و اسباب ان دو عیسائی بھائیوں کے حوالے کر دیا۔ تا کہ وہ اسے اس کے ورثا تک پہنچا دیں۔ جب وہ فوت ہو گیاتو ان دونوں بھائیوں نے اس کے سامان میں سے مرحوم کے خط ملاخطہ کیا تو اس میں تمام اشیاء کی تفصیل درجہ تھی ۔ چناچہ انہوں نے ان سے تمام چیزوں کا مطالبہ کیاتو انہوں نے دینے سے انکار کر دیا۔ ورثاء نے اس بات کی شکایت پیغمبراکرم سے کی، تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
کافی کی حدیث کے مطابق آنحضرت نے ان دونوں عیسائیوں سے قسم لے کر انہیں بری کر دیا۔ لیکن جب خط کے ذریعے ان کا پول کھل گیا توآنحضرت نے انہیں دوبارہ بلایا ، اور متوفی کے ورثاء نے قسم کھائی کہ او رمال بھی تھا ، لہذا ان سے وہ قیمتی واپس لے لیں۔
پیام
۱ ۔ وصیت کے وقت مومن کو چاہئیے کہ اچھی طرح اورسوچ سمجھ کر تمام لازمی امور کو پیش نظر رکھے(
یا ایهاالذین امنوا
)
۲ ۔ موت سب لوگوں کے ایک جیسی ہے او رہرایک نے موت کا پیالہ پینا ہے(
احدکم
)
۳ ۔ قرب قوت وصیت کے لئے آخری فرصت ہے(
حضراحدکم الموت ----الوصیته
)
۴ ۔ حقوق الناس کی ادائیگی کے لئے گواہ ٹھہرایاکرو۔(
شهادة بینکم
)
۵ ۔ حقوق الناس کی ادائیگی کے لئے ایک گواہ پر اکتفانہ کرو(
اثنان
)
۶ ۔ حقوق الناس کے لئے ادا کرنے کے لئے ہر شخص پر اعتماد کرو(
ذو اعدل
)
۷ ۔ حقوق الناس کے اداکرنے کے لیے مسلمان گواہ موجود نہ ہوں تو غیرمسلم کے ذریعہ بھی کام کو مستحکم کر سکتے ہو(
غیرکم
)
۸ ۔ حقوق الناس کی رعایت ہر جگہ ضروری ہے اس کے لئے زمان اور مکان کی کوئی قید نہیں۔(
ضربتم فی الارض
)
۹ ۔ حق کی ادائیگی کے لئے ہر قسم کے شک کو دور کرو(
ان ارتبتم
)
۱۰ ۔ قسم ۔ شک کے دور کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ((
یقسمان
)
۱۱ ۔ صرف "اللہ " کے نام سے کھائی جانے والی قسم قابل اعتماد اور فائدہ مند ہے(
باالله
)
۱۲ ۔ ملزم کو ایک مناسب وقت تک روکے رکھنا ضروری ہے(
تحسبونهما
)
۱۳ ۔ حق کی ادائیگی کے لئے فرصت کے بہترلمحات سے فائدہ اٹھانا چاہئیے(
بعد الصواة
)
۱۴ ۔ حصول زراور روپیہ پیسہ کا حصول گمراہ کرنے والے اسباب میں سے ایک ہے۔(
تمنا
)
۱۵ ۔ رشتہ داری اور قوم پروری بھی گمراہی کے اسباب میں سے ایک ہے(
ذاقربیٰ
)
۱۶ ۔ وحی کے ذریعہ جس "قسم نامہ " کا متن قرآن میں بیان ہوا ہے وہ صرف "حقوق الناس " کے بارے میں ہے۔(
لا نشتری
)
۔)
۱۷ ۔ حق پوشی‘ عادل کو فاسق کر دیتی ہے ("(
ذوا عدل
)
" تبدیل ہو جاتے ہیں "آثمین ! میں)
آیت ۱۰۷
(
فَاِنْ عُثِرَ عَلَی اِنَّهُمَا اسْتَحَقًّا اِثْمًا فَاٰخَرٰنِ یَقُوْمٰنِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِیْنَ اسْتَحَقَّ عَلَیْهِمُ الْاَوْلَیٰنِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ لَشَهَادَتُنَآ اَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا وَ مَا اعْتَدَیْنَا اِنَّا اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ
)
ترجمہ۔ پس اگر معلوم ہو جائے کہ (سفر میں غیر مسلوں نے ) گناہ او رخیانت کا ارتکاب کیاہے (اور ان کی قسم ناحق تھی) تو دوسرے دو (مسلمان ) شخص جو میت کے زیادہ قریبی ہیں اور ان پرظلم ہوا ہے قسم کھائیں گے کہ ہماری (مسلمان وارثوں کی) گواہی ان دو (غیر مسلموں) کہ گواہی سے حق کے زیادہ قریب ہے (جن کی خیانت ظاہر ہو چکی ہے اورکہیں گے کہ ) ہم نے (حق اور حد سے ) تجاوز نہیں کیا ۔ اور اگر تجاوز کریں گے تو یقینا ظالموں میں سے ہوں گے ۔
ایک نقطہ
واضح یاد کہ میت کے ورثاء کی گواہی اور قسم ان معلومات کی بناء پر ہو گی جو پہلے سے میت کے اموال کے بارے میں سفر کے دوران یا اس کے علاوہ رکھتے ہیں۔
پیام
۱ ۔ تمہیں تجسس اور جستحو کا حق حاصل نہیں ہے لیکن اگر معلومات حاصل ہوجائیں تو پھر طریقہ کار بدل جائے گا (بقول مفردات راغب جستجوکئے بغیر حاصل ہونے والی معلومات کو "عشر" کہتے ہیں)
آیت ۱۰۸
(
ذَلِکَ أَدْنَی أَنْ یَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَی وَجْهِهَا أَوْ یَخَافُوا أَنْ تُرَدَّ أَیْمَانٌ بَعْدَ أَیْمَانِهِمْ وَاتَّقُوا اللهَ وَاسْمَعُوا وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ
)
۔
ترجمہ۔ یہ (طریقہ کا ر بہتری کے ) زیادہ قریب ہے کہ گواہی کو اچھے انداز میں پیش کریں یا انہیں خوف ہو کہ ان کے قسم کھانے کے بعد ‘ قسمیں (میت کے ورثاء کی طرف) پلٹا ئی جائیں گی او رخدا سے ڈرتے رہو او ر(اور اس کے فرامین کو) سفو ‘ اور خد ا وندعالم فاسق لوگوں کوہدایت نہیں کرتا۔
ایک نقطہ
یہ آیت گواہی دینے اور گواہ بنانے کے بارے میں اچھی طرح بوجھ سے کام لینے کے فلسفہ کو بیان کررہی ہے جو اس سے پہلے کی دو آیا ت میں ذکر ہوا ہے ، نماز کے بعد لوگوں کے سامنے قسم کھانا اس بات کا موجب بن جاتا ہے کہ گواہی سچی حقیقی اور واقعی ہو جھوٹی نہیں ہو گی ۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ان کی گواہی قابل قبول نہ ٹھہرے تو قسم او رگواہی نا قابل اعتبار ہو گی اور معاشرہ میں ان لوگوں کی رسوائی ہو گی ۔
پیام
۱ ۔ ایسے مراسم اور تکلفات جو حقوق النا س کے ضائع ہونے سے روکتے ہیں قابل قدر ہوتے ہیں ۔(
ذلک ادنی
)
۲ ۔ گناہ سے بچانے کے اسباب میں سے ایک سبب معاشرہ میں رسوائی کااندیشہ بھی ہے(
او یخافو ا ن ترد ایمان
)
۳ ۔ رہن سہن ایسااختیار کرو کہ کچھ لوگ تمہارے افطار و خیالات اور مال ودولت سے اس قدر باخبر ہوں کہ نا اہل اور نام عادل اپنی جھوٹی قسموں سے تمہاری کاوشوں کو ضائع مت کر سکیں۔ اور انہیں اس بات کا یقین ہو کہ اگر وہ غلط معلومات فراہم کریں گے تو ان سے بہتر لوگ صیح معلومات فراہم کر دیں گے ۔(
ترد ایمان بعد ایمانهم
)
۴ ۔ (اس قدر سختی کے باوجود بھی) تقویٰ اختیار کئے رہو۔
۵ ۔ غلط گواہی ، فسق کی علامت ہے(
والله لا یهدی القوم الفسقین
)
آیت ۱۰۹
(
یَوْمَ یَجْمَعُ اللهُ الرُّسُلَ فَیَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُوا لاَعِلْمَ لَنَا إِنَّکَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ
)
ترجمہ۔ (یادکرو) اس دن (کو) جب خداوند عالم رسولوں کو جمع کرکے پوچھے گا کہ لوگوں نے تمہیں کیسا جواب دیا؟ تو وہ کہیں گے ہمیں علم نہیں ہے تو ہی تمام غیبوں کو اچھی طرح جانتا ہے ۔
ایک نقطہ
حقیقی علم صرف خدا ہی کے پاس ہے او رجو شخص بھی کوئی علم رکھتا ہے اسی کی طرف سے رکھتا ہے جس طرح کہ غیب کو صرف وہی جانتاہے او راس کا علم جسے چاہتا وہی خود عطا کرتا ہے۔
پیام
۱ ۔ قیامت کے دن انبیاء سے بھی سوال ہو گا کہ لوگوں کا تمہارے ساتھ کیسا رویہ رہا؟(
ماذااجتبنم
)
۲ ۔ انبیاء علیھم السلام کا علم ، خدا کے علم کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہے(
لا علم لنا
)
آیت ۱۱۰
(
إِذْ قَالَ اللهُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِی عَلَیْکَ وَعَلی وَالِدَتِکَ إِذْ أَیَّدتُّکَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَإِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنْ الطِّینِ کَهَیْئَةِ الطَّیْرِ بِإِذْنِی فَتَنفُخُ فِیهَا فَتَکُونُ طَیْرًا بِإِذْنِی وَتُبْرِءُ الْأَکْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِی وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَی بِإِذْنِی وَإِذْ کَفَفْتُ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَنْکَ إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُبِین
)
ترجمہ۔ اس وقت (کو یاد کرو) جب اللہ تعالی نے حضرت سے فرمایا : میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تمہیں اور تمہاری والدہ کو دی ۔ جب کہ میں نے "رو ح القدوس "کے ذریعہ تمہاری تائید کی کہ تم نے گہوارہ میں (معجزہ کے ساتھ ) اور بزرگی میں (وحی کے ساتھ) لوگوں سے باتیں کیں۔ جب کہ میں نے تمہیں کتاب و حکمت انجیل کی تعلیم دی ‘ او راس زمانے (کو فراموش نہ کرو) جب تم میرے حکم کے ساتھ مٹی سے پرندے جیسے چیز بناتے اور اس میں پھونک مارتے تو وہ میرے حکم سے پرندہ ہو جاتا ۔ اور میرے ہی اذن سے مادر زاد اند ھے اور کوڑھی کو شفا دیتے او رجبکہ میرے ہی اذن سے مردوں کو زندہ کرتے (اور قبر سے باہر نکالتے ) اوراس وقت کو یاد کرو جب میں نے بنی اسرائیل (کے ظلم ۔۔۔کے ہاتھ )کو میں نے تم سے روکے رکھا۔ جب کہ تم ان کے لیے واضح اور روشن دلائل لے آئے ۔ اور ان میں سے کافر لوگوں نے (معجزہ کے بارے میں ) کہا یہ تو کھلم کھلا جادو کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔
نکات
اس آیت سے لے کر سورت کے آخر تک کی تما م آیات حضرت عیسی کے بارے میں ہیں۔
اس آیت میں حضرت عیسی کے بارے میں خداوند کے لطف و کر م کی مختلف اقسام بیان کی گئی ہیں جن میں سر فہرست روح القدس کے ساتھ انکی تائید کو بیان کیا گیا ہے ۔
حضرت عیسی کی والدہ کو ملنے والی نعمت سے مراد شاید انہیں حضرت عیسی کے بارے میں ملنے والی خوشخبری اور ان کی فرشتو ں کے ساتھ ہونے والی گفتگو ہو(ملاخطہ ہو سورہ آل عمران آیات ۴۵ تا ۵۰ کہ جن کاآغاز و اذقالت الملائکہ یمریم سے ہوتا ہے)
پیام
۱ ۔ خداوند عالم کی اپنے اولیاء کو نعمتیں اور لطف و کرم کی یاد دہانی حق کی راہ پر چلنے والے افراد کے لئے تسلی اور دل گرمی کا موجب ہوتی ہے۔
۲ ۔ انبیاء کو بھی خدا کی نعمتوں کی یاد سے غافل نہیں رہنا چاہئیے۔
۳ ۔ عورت ایسے مقام تک پہنچ سکتی ہے کہ اس کا تذکرہ انبیاء کے ساتھ ساتھ ہو(علیک و علی والدتک) بلکہ عورت او راس کا پیغمبر بیٹادونوں خدا کی " ایک آیت شمار ہوتے ہیں جیسا کہ ایک اور آیت میں ہے "و جعلنا ھا وا نبھاآیتہ ۔۔۔یعنی ہم نے اس (مریم ) اور اس کے بیٹے (عیسی ) کو ایک آیت قرار دیا ہے۔۔
۴ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صرف ایک ہی گفتگو کے ساتھ اپنی نبوت کو بھی ثابت کر دیااو راپنی والدہ کی عفت و عصمت کو بھی۔
۵ ۔ ارادہ الٰہی، تجربہ ،قدرت اور زمانے کے گزرنے کی ضرورت کو حل کر دیتا ہے او رحضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بغیر کسی تجربے ، مشق او رزمانہ کے گزرنے کے طفلی میں بھی ٹھیک ٹھیک وہی باتیں کیں جو بڑھاپے میں کرتے رہے بچپن میں بچوں والی باتیں نہیں کیں۔(
فی المهد و کهلا
)
۶ ۔ انبیاء کو عالم ہونا چاہئیے(
الکتاب
)
صاحب بینش ہونا چاہئیے(
الحکمته
)
سابق انبیاء کے فرمودات کے جانتے ہوں(
التو را ة
)
اور جدید پیام کا حامل ہونا چاہئیے(
الانجیل
)
۷ ۔ تخلیق و پیدائش کی نسبت غیر اللہ کی طرف بھی دی جا سکتی ہے البتہ خدا کے اذن و حکم کے تحت۔(
اذنحلق
)
۸ ۔ اذن الٰہی ، مجسمہ سازی کے جوا ز کا موجب بنا ہے(
باذنی
)
۹ ۔ خدا کے خاص بندے بھی ولایت تکوینی رکھتے ہیں ("تخلق "تنفخ،" برء اور تخرج کے ساتھ حضرت کو خطاب کیا گیا ہے )
۱۰ ۔ حضرت کے اعجاز میں جہاں ان کی مسیحائی کو عمل دخل حاصل ہے وہاں مجسمہ سازی کا ہنر بھی اپنی خاص اہمیت رکھتا ہے(
کهیئته الطیر--- فتنفخ
)
۱۱ ۔ حضرت عیسی کی مسیحائی نے جماد کو تو قوت پر ورز عطا کر دی لیکن بنی اسرائیل کے دلوں کو طاقت پرورزنہ دے سکی۔
۱۲ ۔ جہاں شرک کا اندیشہ ہوتا ہے وہاں توحید کا تکرار ضروری ہو جاتا ہے ( "باذنی"کے کلمہ کا تکرار)
۱۳ ۔ جب خداوند عالم کو مردہ زندہ کرنے او ربیماروں کو شفا دینے کی قدرت عطا کر تا ہے تو لوگوں کا ان سے مدد مانگنا انبیاء اور ان کو رہنا و سیلہ قرار دینا بھی جائز ہونا چاہئے۔ (توسل اور وسیلہ بنانے کے مخالفین سے ہمارا سوال ہے کہ آیا یہ ممکن ہے کہ خداوند عالم کسی کو قدرت تو عطا کرے لیکن لوگوں کو ان کی طرف توجہ کرنے سے روک دے؟
۱۴ ۔ "رجعت" اور مردوں کا زندہ کرنا اسی دنیا میں بھی رونما ہو چکا ہے۔(
تحرج الموتیٰ
)
۱۵ ۔ بنی اسرائیل کا حضرت عیسیٰ کو زک پہنچانے اور قتل کرنے کا ارادہ خدا کی طرف سے ناکام ہو چکا ہے(
کففت
)
آیت ۱۱۱
(
وَإِذْ أَوْحَیْتُ إِلَی الْحَوَارِیِّینَ أَنْ آمِنُوا بِی وَبِرَسُولِی قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ
)
ترجمہ۔ اور (اس وقت کو یاد کرو) جب میں نے (عیسیٰ کے) حواریوں کی طرف وحی کی مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لے آؤ، تو انہوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے اور گواہ رہ کہ ہم مسلمان ہیں اور سر جھکا چکے ہیں۔
نکتہ
حواریوں کی طرف وحی سے مراد یا تو خود انہی کے دلوں میں الہام ہے یا حضرت عیسیٰ کے ذریعہ وحی کا پیغام ہے۔
پیام
۱ ۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ آمادہ دلوں کو الہام کرتا ہے۔
۲ ۔ خدا پر ایمان، رسول پر ایمان سے علیحدہ نہیں ہے(
لی وبرسولی
)
۳ ۔ جب ہدایت باطنی اور خدا کی طرف سے ہو تو گہری بھی ہوتی ہے اور وسیع تر اثر بھی کرتی ہے۔(
اوحیت--- قالوا آمنا
)
۴ ۔ اندرونی طرف سے خدائی نور کے بغیر ہدایت یا تو بے اثر ہوتی ہے یا بہت ہی کم اثر اور ناپائیدار ہوتی ہے۔
۵ ۔ لوگوں کے خدا کے الہامات اس لئے ہوتے ہیں کہ وہ انبیاء کی تصدیق و تائید کرتے ہیں ان کی اپنی ذات کی وجہ سے نہیں ہوتے(
اوحیت--- آمنوا بی و برسولی
)
۶ ۔ باطنی ایمان کی نشانی، زبانی اقرار و اظہار ہوتا ہے وہ اس طرح کہ قلبی ایمان زبانی نعروں کا پشت پناہ ہوتا ہے(
واشهد باننا مسلمون
)
آیت ۱۱۲ ، ۱۱۳
(
إِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیعُ رَبُّکَ أَنْ یُنَزِّلَ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَاءِ قَالَ اتَّقُوا اللهَ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ -- قَالُوا نُرِیدُ أَنْ نَأْکُلَ مِنْهَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ أَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَکُونَ عَلَیْهَا مِنْ الشَّاهِدِینَ
)
ترجمہ۔ (اس وقت کو یاد کرو) جب حواریوں نے کہا: اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! آیا تمہارا پروردگار (تمہاری دعا کے ساتھ) آسمان سے (غذا کا) دسترخوان ہمارے لئے اتار سکتا ہے؟ عیسیٰ نے کہا: اگر تم مومن ہو تو خدا سے ڈرو۔
انہوں نے کہا: (ہمارا کوئی غلط نظریہ نہیں ہے اور ہم بہانہ گیری سے کام لے رہے ہیں بلکہ) ہم چاہتے ہیں کہ اس سے کھائیں تاکہ ہمارے دل مطمئن ہو جائیں اور جان لیں (اور دیکھ لیں) کہ تم نے ہم سے سچ کہا ہے اور ہم آسمانی دسترخوان پر گواہ رہیں۔
چند نکات
اس سورت کو اسی آسمانی دسترخوان کی درخواست کی وجہ سے "مائدہ" کہتے ہیں۔
"مائدہ" کا معنی غذا بھی ہے اور "دسترخوان" بھی کہ جس پر غذا ہوتی ہے۔
چونکہ ان کے سوال کا انداز کسی حد تک غیرمودبانہ اور مہذبانہ تھا، اسی لئے انہیں "اتقوااللہ" کے ساتھ جواب ملا۔ ("یاروح اللہ" یا پھر "یا رسول اللہ" کہنے کی بجائے انہوں نے "یا عیسیٰ بن مریم" کہا۔ " آیا خدا مہربانی کرے گا؟ " کی بجائے انہوں نے کہا " آیا خدا اتار سکتا ہے" اور "ہمارا پروردگار" کہنے کی بجائے "تمہارا پروردگار" کہا۔ جو غیرمہذبانہ انداز گفتگو ہے)
پیام
۱ ۔ اگر بری نیت نہ بھی رکھتے ہو لیکن کسی سے گفتگو کرتے وقت مخاطب کے احترام کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے ("(
اتقواالله
)
" کے ساتھ جوا)
۲ ۔ مومن شخص کو زیب نہیں دیتا کہ وہ خدا کا امتحان کرے(
هل یستطیع؟
)
۳ ۔ کسب و کار اور معاشی امور کو معجزہ سے وابستہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ تلاش و کوششیں اور توکل برخدا کرکے طبعی راستہ کو اختیار کرنا چاہئے۔ اور یہاں پر تو درخواست ہی صرف ایک وقت کے کھانے کی گئی ہے نا کہ ہمیشہ کے لئے غذا بھیجنے کی (مائدة)
۴ ۔ تقویٰ ایمان کی علامت ہے(
اتقوا الله ان کنتم مومنین
)
۵ ۔ اے رسول اسلام ! آپ کو ان لوگوں سے زیادہ توقع وابستہ نہیں کرنی چاہئے، باوجودیکہ حواریوں عیسیٰ کی طرف الہام بھی ہوتا تھا، ایمان اور اسلام کا اقرار بھی کرتے تھے پھر بھی ہم سے مفت کھانے اور اپنی حسب منشاء معجزہ کے بھی طلبگار ہوئے۔
آیت ۱۱۴
(
قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللهُ مَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَاءِ تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَةً مِنْکَ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَیرُ الرَّازِقِین
)
ترجمہ۔ مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا: خداوندا! پروردگارا! ہم پر آسمان سے غذا کا دسترخوان بھیج تاکہ ہماری موجودہ اور آئندہ نسل کے لئے جشن و عید اور تیری نشانی قرار پائے، اور روزی عطا فرما کیونکہ تو بہترین روزی دینے والا ہے۔
ایک نکتہ
قرآنی دعائیں ہر مقام پر "ربنا" کے ساتھ شروع ہوتی ہیں لیکن اس آیت میں دو کلمات "(
اللهم ربنا
)
" کے ساتھ شروع ہورہی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ یہ ایک نہایت ہی اہم واقعہ ہے اور اس کا انجام بہت سخت ہے۔
پیام
۱ ۔ اولیاء اللہ کی طرف سے دعا، توسل اور تقاضائے حاجت جائز ہے۔
۲ ۔ انبیاء علیہم السلام کے تمام لوگ اور ہر دور کی نسلیں پیش نظر ہوتی ہیں(
لاولنا و اخرنا
)
۳ ۔ خدائی نشانیوں سے ہمیشہ کے لئے سبق حاصل کرنا چاہئے(
اولنا و اخرنا
)
۴ ۔ قرآن کی رو سے عید اور جشن منانا جائز ہے (اولیاء اللہ کی ولادت اور رسول اکرم کی بعثت آسمانی مائدہ کے نزول سے کم اہمیت کی حامل نہیں)
۵ ۔ اللہ کے پیغمبر جناب عیسیٰ علیہ السلام دعا میں "کھانے کے مسئلے" کی بجائے مائدہ کے خدا کی نشانی ہونے کی طرف توجہ دی ہے(
آیة منک
)
۶ ۔ مومنین کے عذر اور ان کی توجیہ کو قبول کرو۔ (اس سے پہلی آیت میں مائدہ کے نزول کا سبب بتایا گیا ہے۔ اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام) آسمانی مائدہ (دسترخوان) کی طلب اور دعا کے ساتھ ان کی درخواست اور عذر کو قبول فرمایا)
۷ ۔ لوگوں کی پیش کش اور تقاضوں کو پورا کرنا چاہئے (سابق آیت میں لوگوں کی طرف سے مائدہ کی درخواست کھانے اور اطمینان حاصل کرنے کے لئے تھی۔ اور کھانے کو مقدم رکھا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خدا سے مائدہ کی درخواست کی تاکہ عید و جشن بھی ہو اور لوگوں کو اطمینان بھی حاصل ہوجائے اور آیت و نشانی بھی قرار پائے اور لوگ اسے کھائیں بھی۔ عیسیٰ علیہ السلام نے عید کے لفظ کا بھی اضافہ کیا اور نشانی ہونے کو کھانے کے مسئلہ پر مقدم کیا)
۸ ۔ دوسروں کی سبک اور توہین آمیز تعبیرات کو اصلاح کرکے بیان کرنا چاہئے۔ (حواریوں کا سوال اس طرح تھا کہ "ھل یستطع ربک" کیا تیرا رب قدرت رکھتا ہے؟ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب دعا کی تو انہوں نے اس سے بلند تر مقصد کے لئے مائدہ کی درخواست کی اور جو باتیں یا توہین کا پہلو رکھتی تھیں انہیں حذف کر دیا)
۹ ۔ دعاؤں میں خداوند تعالیٰ کو دعا سے مناسب صفات کے ساتھ پکارا جائے (چونکہ "مائدہ" کی درخواست کی گئی تھی لہٰذا "خیرالرازقین" کا جملہ استعمال کیا گیا)
آیت ۱۱۵
(
قَالَ اللهُ إِنِّی مُنَزِّلُهَا عَلَیْکُمْ فَمَنْ یَکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ فَإِنِّی أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لاَأُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنْ الْعَالَمِین
)
ترجمہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں یقینا اس (مائدہ) کو تم پر نازل کروں گا، پس تم میں سے جو شخص اس کے بعد اس سے کفر اختیار کرے گا اسے ایسا عذاب دوں گا کہ تمام جہانوں میں سے کسی ایک کو اس جیسا عذاب نہیں کروں گا۔
چند نکات
مائدہ کے نزول کی داستان جس طرح قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے انجیل میں اسی طرح نہیں ہے (تفسیر نمونہ)
بعض لوگوں کے بقول جب حوراریوں نے آیت کی تہدید (دھمکی) کو سنا تو انہوں نے اپنی درخواست واپس لے لی اور مائدہ نازل نہیں ہوا۔ لیکن ان کا یہ قول آیت اور روایات کے خلاف ہے (ملاحظہ ہو تفسیراطیب البیان)
روایات میں ہے کہ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد کچھ لوگ کافر ہو گئے تھے اور سور (خنزیر) کی صورتوں میں مسخ ہوگئے۔
پیام
۱ ۔ انبیاء کی دعا قبول ہوتی ہے(
انی منزلها
)
۲ ۔ جو لوگ علم و یقین اور شہود کی اعلیٰ منازل تک جا پہنچتے ہیں ان پر ذمہ داری بھی بھاری عائد ہو جاتی ہے اور ان کی خلاف ورزی کی سزا بھی سخت ہوتی ہے(
فمن یکفر بعد ذالک---
)
یہ آیت لوگوں کو خبردار کرنے کے لئے سب سے زیادہ دھمکی آمیز آیت ہے۔
۳ ۔ معمول کی زندگی بسر کرنے والے خداوند عالم کے قہر و غضب سے بہت دور ہوتے ہیں۔
۴ ۔ خداوند عالم کا عذاب اور لطف و کرم کے مختلف درجات ہیں۔
۵ ۔ جن کی توقعات زیادہ ہوتی ہیں (آسمانی مائدہ) انہیں اصولوں کی پاسداری بھی زیادہ کرنا پڑتی ہے پہاڑ کی بلند چوٹیوں کے درے بھی خطرناک ہوتے ہیں۔
ضمنی طور پر معلوم ہونا چاہئے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے لئے آسمان سے غذا نازل ہوئی ہے تو روایات کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی بہشتی میوے اترے ہیں جن سے حضرت فاطمہ زہر اسلام اللہ علیہا کی پیدائش عمل میں آئی۔
آیت ۱۱۶
(
وَإِذْ قَالَ اللهُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِی وَأُمِّی إِلَهَیْنِ مِنْ دُونِ اللهِ قَالَ سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِی أَنْ أَقُولَ مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ إِنْ کُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِی وَلاَأَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِکَ إِنَّکَ أَنْتَ عَلاَّمُ
)
(
الْغُیُوبِ
)
ترجمہ۔ اور جس وقت اللہ نے فرمایا: اے مریم کے فرزند عیسیٰ ! آیا تونے لوگوں سے کہا تھا کہ"خدا کی بجائے مجھے اور میری والدہ دونوں کو معبود بناؤ؟ " (حضرت عیسیٰ نے) کہا: (خداوندا! تو پاک اور منزہ ہے میرے لئے مناسب نہیں ہے کہ میں کوئی ایسی بات کہوں میرے شایان شان نہیں ہے۔ اگر میں ایسی کوئی (غلط) بات کی ہے تو تُو اسے جانتا ہے۔ جو کچھ میرے دل و جان میں ہے تو اسے جانتا ہے، یہ میں ہوں کہ تیرے اسرار سے بے خبر ہوں یقیناً تو ہی ہر قسم کے غیب کو اچھی طرح جانتا ہے۔
چند نکات
اسی سورہ (مائدہ) کی ۱۰۹ ویں آیت میں ہے کہ "خداوند عالم انبیاء (علیہم السلام) کو قیامت میں اکٹھا کرکے فرمائے گا، لوگوں سے تم نے کیا جواب سنا؟" اور یہ آیت اسی دن کے لئے خدا اور عیسیٰ علیہ السلام کی گفتگو کو بیان کر رہی ہے۔
اگرچہ عیسائی حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو خدا نہیں جانتے لیکن ان کے مجسمہ کے سامنے ان لوگوں کا عبادت کرنا، حضرت مریم کو معبود قرار دینا ہے۔
پیام
۱ ۔ بعض اوقات "درے کہا جاتا ہے تاکہ دیوار سن لے" کے مصداق سوال اور سرزنش تو بے گناہ کو کی جاتی ہے تاکہ دوسرے لوگ خبردار ہو جائیں۔(
ء انت قلت
)
۲ ۔ "دون اللہ" شرک کی نشانی ہے نا کہ خدا کی نفی کی دلیل، یعنی خدا کے علاوہ عیسیٰ اور مریم کو معبود سمجھنا بھی شرک اور تثلیث ہے۔ (البتہ عیسائیوں کی موجود تثلیث باپ، بیٹا اور روح القدس ہے
۳ ۔ انسانوں کا دعوی الوہیت ایک غلط اور ناروا دعوی ہے(
لیس لی بحق
)
۴ ۔ انبیاء معصوم ہوتے ہیں(
مایکون لی ان اقول ما لیس لی بحق
)
۵ ۔ انبیاء اپنے ماننے والوں کے غلو سے بیزار ہیں(
ان کنت قلة فقد علمته
)
۵۰
۶ ۔ گزشتہ انسانوں کی تمام گفتگو اور ان کے باطن کے تمام اسرار خدا کے لئے روشن، آشکار اور واضح ہے۔(
فقد علمته، تعلم ما فی نفسی
)
۷ ۔ خداوند عالم کی مقدس ذات کو ہر طرح کی ناروا اور غیرمودبانہ نسبت سے پاک و منزہ سمجھنا لازم اور ضروری ہے(
سبحانک
)
۵۱
آیت ۱۱۷
(
مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلاَّ مَا أَمَرْتَنِی بِهِ أَنْ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّی وَرَبَّکُمْ وَکُنت عَلَیْهِمْ شَهِیدًا مَا دُمْتُ فِیهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی کُنتَ أَنْتَ الرَّقِیبَ عَلَیْهِمْ وَأَنْتَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ شَهِیدٌ
)
ترجمہ۔ (عیسیٰ نے خدا سے عرض کیا) میں نے ان سے صرف وہی بات کی ہے جس کا تونے مجھے حکم دیا ہے۔ (میں نے ان سے کہا) کہ "خدا کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے" اور جب تک میں ان کے درمیان رہا، ان (کے توحیدی افکار و عقائد) کا شاہد اور ناظر رہا۔ پس جب تونے مجھے (ان کے درمیان سے) اٹھا لیا تو تو خود ہی ان پر نگہبان تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے۔
پیام
۱ ۔ انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں، خدا کے حکم کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرتے، خدا کی وحی میں کسی قسم کی تبدیلی اور تصرف نہیں کرتے۔
۲ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے آپ کو دوسرے لوگوں کی طرح خدا کا دست پروردہ سمجھتے ہیں(
ربی و ربکم
)
۵۲
۳ ۔ انبیاء علیہم السلام لوگوں کے اعمال کے ناظر ہیں(
کنت علیهم شهیدا
)
آیت ۱۱۸
(
إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ
)
ترجمہ۔ (عیسیٰ نے کہا خدوندا!) اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں معاف کر دے تو تو خود ہی غالب اور حکمت والا ہے۔
ایک نکتہ
حضرت ابوذر غفاری روایت کرتے ہیں: پیغمبر خدا ایک رات صبح تک اس آیت کی بار بار تلاوت کرتے رہے اور رکوع و سجود میں اسے پڑھتے رہے اور خدا سے اس قدر شفاعت کی درخواست کی کہ خدا نے انہیں عطا فرما دی (تفسیر مراغی) آنحضرت اس آیت کو تلاوت کرتے وقت اپنے مبارک ہاتھوں کو بلند کرکے درود کر امت کے حق میں دعا فرماتے تھے۔
پیام
۱ ۔ حضرت انبیاء کرام علیہ السلام بارگاہ رب العزت میں سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔ ۵۳
۲ ۔ خدا کا کسی پر قہر و غضب یا لطف و کرم اس کی حکمت کی بنیاد پر ہے(
الحکیم
)
۳ ۔ دعا کی روش میں رحمت طلبی کو فراموش نہیں کرنا چاہئے(
فانهم عبادک
)
۴ ۔ تم اپنے فریضہ کو ادا کرتے رہو، انجام خدا کے ہاتھ میں ہے۔
۵ ۔ انبیاء علیہم السلام مقام شفاعت کے حامل ہیں لیکن کبھی گناہ اور جرم اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ انبیاء کو بھی کنارہ کشی اختیار کرنی پڑ جاتی ہے۔(
ان تعذبهم فانهم عبادک
)
آیت ۱۱۹ ، ۱۲۰
(
قَالَ اللهُ هَذَا یَوْمُ یَنفَعُ الصَّادِقِینَ صِدْقُهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا أَبَدًا رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ -- لِلَّهِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا فِیهِنَّ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ
)
ترجمہ۔ اللہ نے فرمایا: یہ وہ دن ہے کہ جس میں سچ بولنے والوں کو ان کا سچ فائدہ پہنچاتا ہے۔ ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے (درختوں کے) نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے خدا ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ کہ ان کے اندر ہے (سب) کی ملکیت اور حکومت خدا کے لئے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
پیام
۱ ۔ اگر اپنی صداقت کی وجہ سے مومنین کو دنیا میں مشکلات اور سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو آخرت میں ان کی یہی صداقت ان کے لئے کارساز اور کارآمد ضرور ہو گی۔
۲ ۔ صرف سچے لوگوں کو ہی فائدہ حاصل ہو گا، نا کہ سچ کا غلط دعویٰ کرنے والوں، نعرہ بازوں اور ریاکاروں کو۔
۳ ۔ جس چیز کو اہمیت حاصل ہے وہ ہے خود بندوں سے خدا کی رضا نا کہ بندوں کے کاموں سے، (کیونکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے فاسد اور غلط قسم کے لوگ اچھے اچھے کام کرتے ہیں، ان کے کام تو اچھے ہوتے ہیں لیکن خود افراد خدا کے لئے قہر و غضب کا شکار ہو جاتے ہیں)(
منهم
)
۴ ۔ خدا کی رضا کے ساتھ ساتھ بہشت، باغات اور نہریں بہت بڑی کامیابی اور "فوز عظیم" ہے۔
۵ ۔ عبادت اسی ذات کے شایان شان ہوتی ہے جس کے قبضہ میں کائنات کی سلطنت اور قدرت مطلقہ ہے نا کہ عیسیٰ و مریم جیسے لوگوں کے۔
تمام شد سورہ مائدہ
حوالا جات ۔ فٹ نوٹس