تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 63194
ڈاؤنلوڈ: 5536

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 63194 / ڈاؤنلوڈ: 5536
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۳۱ ۔ ۳۲

( قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ ط حتّٰیٓ اِذَا جَآ ءَ تْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطْنَا فِیْهَالا وَ هُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلٰی ظهُوْرِِهِمْ ط اَ لَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ- وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ ط وَلَلدَّارُالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ چکھو بیشک جن لوگوں نے قیامت کے دن خدا کی حضوری کو جھٹلا دیا وہ بڑے گھاٹے میں ہیں یہا ں تک کہ جب ان کے سر پر قیامت ناگہاں پہنچے گی تو کہنے لگیں گے اے ہے افسوس ہم نے تو اس میں بڑی کوتاہی کی (یہ کہتے جائیں گے) اور اپنے گناہوں کا پشتاوہ اپنی اپنی پیٹھ پر لادے جائیں گے دیکھو تو (یہ) کیا بوجھ ہے جس کو یہ لادے (لادے) پھر رہے ہیں اور (ئی) دنیاوی زندگی تو کھیل تماشے کے سوا کچھ بھی نہیں اور یہ تو ظاہر ہے کہ آخرت کا گھر (بہشت)پرہیزگاروں کے لئے اس سے بدرجہا بہتر ہے تو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے۔

چند نکات:

۱ ۔ اگر دنیا، آخرت کی کھیتی قرار نہ پائے تو بازیچہ( ٴ ) اطفال بن جاتی ہے ۔ اور لوگ اس میں بچوں کی مانند مال و مقام وغیرہ جیسے کھلونوں سے کھیلتے ہیں۔ بالکل ویسے جس طرح کسی ڈرامہ میں کوئی شخص بادشاہ کا لباس پہن کر اس جیسا کردار ادا کرتا ہے کوئی وزیر کا ، کوئی کوتوال ، چوکیدار کا۔ لیکن جب ڈرامہ ختم ہو جاتا ہے اور لباس اتر جاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک نمائش اور خیال تھا اور بس!

۲ ۔ قرآن مجید کی دوسری آیات کے پیش نظر، زیرِ نظر آیت کو رہبانیت اور ترک دنیا کا دائمی نہیں سمجھنا چاہئے۔

۳ ۔ دنیا کو لہو و لعب سے تشبیہ دینے کی درج ذیل وجوہات ہیں۔

ا۔ دنیا بھی کھیل کے دورانیہ کی مدت کی مانند کوتاہ ہے۔

ب۔ جس طرح کھیل میکں تفریح بھی ہوتی ہے اور تھکاوٹ بھی ، اسی طرح دنیا بھی تلخ اور شیریں حالات کا مجموعہ ہے۔

ج۔ اپنے مقصد تخلیق سے غافل لوگوں نے کھیل کو اپنا کاروبار بنا لیا ہے۔

پیام:

۱ ۔ خود خالقِ دنیا، آخرت سے غفلت اور دنیا کے ساتھ سرگرمی کو کھیل تماشہ سمجھتا ہے، ہم کیوں باور نہیں کرتے؟

۲ ۔ "انجام" پر نظر رکھنے والے کے لئے "آخرت" بہتر ہے۔ اور "طعام" پر نظر رکھنے والے کے لئے دنیا بہتر ہے (کیونکہ وہ اسی مستی میں مست ہے)

۳ ۔ آخرت کو مد نظر رکھے بغیر دنیا خطرناک ہے۔ اور جو دنیا آخرت کی کھیتی، آخرت کے لئے مقدمہ، آخرت کے لئے گزرگاہ اور آخرت کے لئے مقام تجارت ہو وہ میدان رُشدیددایت اور مقام نشونما ہے۔

۴ ۔ آخرت صاحبان تقوٰی کے لئے کے لئے مطلق خیر ہے۔ ورنہ تو اس میں انہیں کوئی رنج ہو گا، نہ تو وہ عارضی ہو گی اور نہ ہی وہ صرف اوہام اور خیالات پر مبنی ہے۔

۵ ۔ عقل سے کام لینا، تقوٰی اختیار کرنا اور آخرت پر ایمان رکھنا یہ سب ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔( للدارالاخرة، تیقون، تعقلون )

۶ ۔ تقویٰ، آخرت کی نعمتوں تک رسائی کا ذریعہ ہے۔( خیر اللذینِ تیقون )

آیت ۳۳

( قَدْ نَعْلَمُ اِنَّه لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) البتہ ہم جانتے ہیں جو کچھ وہ کہتے ہیں ان کی باتیں آپ کو غمگین کر دیتی ہیں وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ (یہ) ظالم لوگ (حقیقت میں) خدا کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔

ایک نکتہ:

اس آیت کے شان نزول کے بارے بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن آپ کو صادق اور امین سمجھتے تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے تھے کہ "اگر ہم ان کی تصدیق کریں گے تو قوم و قبیلہ میں ہماری توہین ہو گی اور ہماری ساکھ خراب ہو جائے گی۔" اس طرح سے وہ آیات الٰہی کی تکذیب کرتے تھے۔

پیام:

۱ ۔ ہادی برحق کو مخالفین کی تکذیب سے نہیں گھبرانا چاہئے۔

۲ ۔ حتیٰ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی تسلی، تشویق اور دلجوئی کی ضرورت ہوتی ہے۔

۳ ۔ جن لوگوں پر زبان کے ذریعہ ظلم کیا جاتا ہے ان کی حمایت کی جانی چاہئے۔( قد نعلم انه… )

۴ ۔ پیغمبر کی تکذیب درحقیقت خدا کی تکذیب ہوتی ہے جس طرح کہ پیغمبر کی بیعت درحقیقت خدا کی بیعت ہوتی ہے۔

۵ ۔ بڑی بڑی مشکلات کو پیش نظر رکھ کر اپنی مشکل کو آسان سمجھئے۔( لایکذبونک…بایات الله یجحدون )

۶ ۔ پیغمبر کے مخالفین درحقیقت خدا کا فریق مخالف ہیں لہٰذا غمگین نہیں ہونا چاہئے۔

۷ ۔ جھٹلائے جانے میں صرف پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکیلے فرد نہیں ہیں، آیات خداوندی کے مخالف لوگ تمام انبیاء کی تکذیب اور مخالفت کرتے رہے۔ (جیسا کہ بعد والی آیت میں ہے "( کذبت رسل من قبلک )

۸ ۔ آیات الٰہی اور اولیاء اللہ کی تکذیب کا نتیجہ ایک تو جھٹلانے والوں کا اپنی ذات پر ظلم ہوتا ہے کہ ایمان نہیں لاتے، دوسرے رسول خدا پر ظلم ہوتا ہے کہ انہیں غمگین اور محزون کرتے ہیں تیسرے مذہب و ملت پر ظلم ہوتا ہے اور چوتھے نسل انسانی پر ظلم ہوتا ہے۔

آیت ۳۴

( وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَ اُوْذُوْا حَتّٰیٓ اَتٰهُمْ نَصْرُنَاج وَلَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰهِج وَلَقَدْ جَآءَ کَ مِنَ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور یقین جانئے کہ آپ سے پہلے انبیاء کو بھی جھٹلایا گیا، لیکن انہوں نے تکذیب اور مصائب پر صبر کیا یہاں تک کہ ان تک ہماری امداد پہنچ گئی۔ خدا کے کلمات (اور طریقہ کار) کو کوئی تبدیل کرنے والا نہیں، یقیناً پیغمبروں کی طرح کچھ خبریں آپ تک پہنچ چکی ہیں (اور آپ ان کی تاریخ سے واقف ہیں)

ایک نکتہ:

سابقہ انبیاء اور ان کا صبر ہمارے لئے نمونہ ہونا چاہئے، اور ہود، صالح اور لوط وغیرہ جیسے پیغمبروں کی امتوں سے عبرت حاصل کرنی چاہئے جو انبیاء کو جھٹلانے کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئیں۔ انبیاء کا بھیجنا خدا کا کام ہے اور ان کی راہ کو اختیار کرنے میں بندوں کو آزادی حاصل ہے۔ البتہ وہ کفار کو سزا دیتا ہے اور انبیاء کی راہ حق کے لئے دعوت دینے میں امداد کرتا ہے۔

پیام

۱ ۔ حق کا سیدھا راستہ خطرات سے گھرا ہوا ہوتا ہے۔

۲ ۔ مشکلات اور شدائد میں ثابت قدم رہنے کا ایک بہترین اور اہم عنصر تاریخ اور خدا کے طریقہ کار سے آشنائی ہے

۳ ۔ رہبر کو اس بات کی توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ تمام دنیا اس کی اطاعت کرے گی۔

۴ ۔ کامیابی کی اصل شرط صبر ہے( فصبروا )

۵ ۔ حق کے دشمن حق کے خلاف کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرتے کبھی تکذیب کرتے ہیں اور کبھی ایذائیں پہنچاتے ہیں۔( کذبوا، اوزوا )

۶ ۔ حق، ہمیشہ کامیاب و کامران اور سرخرو ہوتا ہے( نصرها ) ۷

۷ ۔ خدائی طریقہ کار میں کبھی تبدیلی نہیں آتی( لامبدل لکلمات الله ) ۸

۸ ۔ نصرت الہٰی کے پہنچنے تک صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے( حتی اتاهم )

۹ ۔ گزشتہ لوگوں کے رنج اٹھانے اور تکلیفیں برداشت کرنے کی قدر کرنی چاہئے( ولقد جاء ک… )

۱۰ ۔ ہر شخص کو اپنے جیسے تاریخی نمونے پہچاننے چاہئیں( نبای المرسلین )

آیت ۳۵

( وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرٰضُهُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْسُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَهُمْ بِاٰیٰةٍط وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَی الْهُدٰي فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور اگر ان (کفار) کی روگردانی اور بے اعتنائی تمہارے لئے گراں ہے (اور چاہتے ہو کہ ہر صورت میں انہیں راہ راست پر لے آؤ تو) اگر کر سکتے ہو کہ زمین میں نقب لگا کر یا آسمان میں سیڑھی لگا کر ان کے لئے کوئی آیت لے آؤ (پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لے آئیں گے) اور اگر خدا چاہے تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر دے، (لیکن یہ خدا کا طریقہ نہیں ہے) پس تم ہرگز جاہلوں میں سے نہ ہونا۔

ایک نکتہ:

اس آیت کے شان نزول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: کفار حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتے تھے کہ "( لن نومن لک حتی تفجر لنا من الارض ینبوعاً او ترقی فی السماء ) " (بنی اسرائیل/ ۹۰) یعنی ہم آپ پر اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ آپ ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری نہیں کریں گے یا آسمان پر نہیں چڑھ جائیں گے۔

شاید یہ آیت ان مشرکین کے ان بے جا تقاضوں کی طرف اشارہ ہو کہ اگر آپ زمین میں نقب لگائیں یا سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ جائیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اس لئے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ میرے پیغمبر! آپ کی دعوت اور تبلیغ میں کسی قسم کا عیب اور نقص نہیں ہے، بلکہ یہ لوگ ضدی، ہٹ دھرم اور اکھڑ ہیں لہٰذا آپ ان کی ہدایت اور انہیں راہ راست پر لانے کے لئے اس قدر دل سوزی سے کام نہ لیں۔

پیام:

۱ ۔ حضرت رسول خدا لوگوں کی ہدایت کے لئے دلسوز اور ان کی روگردانی پر غمگین تھے۔( کبر علیک )

۲ ۔ اسلامی تعلیمات میں کوئی نقص نہیں ہے، ساری خرابی ضدی اور ہٹ دھرم کفار کی طبیعتوں میں ہے۔

۳ ۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت کر سکتا ہے لیکن اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان آزاد رہیں۔

۴ ۔ بہانہ گیر لوگوں کے ہر تقاضے کو پورا کرنا اور مبلغین کی بے صبری اور بے قراری جہالت ہے۔( فلاتکونن من الجاهلین )

آیت ۳۶

( اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ ط وَ الْمَوْتٰی یَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ صرف وہی لوگ ہی بات کو قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں، اور مردوں کو تو اللہ تعالیٰ دوبارہ اٹھائے گا اور پھر سارے کے سارے اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔

ایک نکتہ:

قرآن مجید نے بات کو قبول نہ کرنے والوں کو کئی مقامات پر "مردے" اور "بہرے" کی تعبیر کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ منجملہ ان کے سورہ نمل/ ۸۰ اور سورہ روم/ ۵۲ میں ہم پڑھتے ہیں کہ: "انک لا تسمع الموتی ولا تسمع الصم الدعاء اذا ولوا مدبرین" یعنی اے پیغمبر! نہ تو آپ مردوں کو اپنی آواز سنا سکتے ہیں اور نہ ہی بہروں کو خصوصاً جب وہ پیٹھ پھیر کر چلے جائیں۔

پیام:

۱ ۔ انسان راہ کے انتخاب میں آزاد ہے( انما یستجیب… )

۲ حق کو سننا اور اسے تسلیم کرنا معنوی زندگی اور قلبی حیات کی علامت ہے۔

۳ ۔ جو حیات معنوی نہیں رکھتا اور حق کو تسلیم نہیں کرتا، مردہ ہے کیونکہ کھانے، پینے اور سونے اور چلنے، پھرنے والی زندگی تو حیوان بھی رکھتے ہیں۔

۴ ۔ اے میرے پیغمبر! حق کو قبول کرنے والے دل تمہارے ذمہ اور کفار میرے ذمہ! اور دیکھنا کہ قیامت کے دن ان سے کیسے نمٹتا ہوں!

آیت ۳۷

( وَقَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهط قُلْ اِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌ عَلٰٓی اَنْ یُنَزِّلَ اٰیَةً وَّلَکِنَّ اَکْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور (کفار نے) کہا: اس (پیغمبر) پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی معجزہ (جسے ہم چاہتے ہیں) نازل نہیں ہوا؟ (اے پیغمبر!) کہہ دو کہ خدا اس بات پر قادر ہے کہ کوئی معجزہ اور نشانی اتارے لیکن ان (بہانہ گیروں) میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔

دو نکات:

اس آیت کے شان نزول کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ: قریش کے کچھ روسأ بہانہ سازی کے طور پر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتے تھے: معجزہ کے طور پر صرف قرآن کافی نہیں ہے، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ اور حضرت صالح وغیرھم جیسے معجزات لے آئیے! (از تفسیر مجمع البیان)

جو پیغمبر، گزشتہ انبیاء کے معجزات یاد دلا رہا ہے وہ ان کے جیسے معجزات بھی لا سکتا ہے، ورنہ لوگوں کو ان انبیاء کے معجزے اس وجہ سے یاد نہ دلاتا کہ مبادا لوگوں کا اس سے بھی اسی قسم کے معجزات کا تقاضا شروع ہو جائے۔

البتہ شیعہ اور سنی روایات کے مطابق رسول خدا نے قرآن کے علاوہ بھی کئی اور معجزات لوگوں کو دکھائے ہیں۔

معجزات دکھانے کا مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ خداوند عالم اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ میرے اور رسول کے درمیان ایک خصوصی رابطہ ہے۔ اور میری قدرت حد و حساب سے باہر ہے۔ تاہم یہ مقصد ہرگز نہیں ہوتا کہ جب بھی کوئی ضدی مزاج اور ہٹ دھرم شخص مطالبہ کرے تو فوراً معجزہ دکھا دیا جائے۔ البتہ بعض اوقات لوگوں کی درخواست کے مطابق بھی معجزہ دکھایا گیا ہے۔

پیام:

۱ ۔ دشمنوں اور مخالفوں کے بہانوں پر کان نہ دھرو۔ (خداوند عالم فرماتا ہے "( ولوداننا نزلنا--- ) " یعنی اگر ہم لوگوں پر فرشتے اتار دیں یا ان سے مردے باتیں کرنے لگیں تو معاند لوگ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ (انعام/ ۱۱۱)

۲ ۔ معجزہ کا مقصد تو محبت اور دلیل قائم کرنا ہوتا ہے نہ کہ کسی ایرے غیرے کی فرمائش کو پورا کرنا۔

۳ ۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلسل معجزات بھی ضدی مزاج اور ہٹ دھرم لوگوں کی ہدایت کا سبب نہیں بن سکے بلکہ الٹا ان کے لئے خدائی قہر و غضب اور سزا اور عذاب کا موجب بن گئے۔

۴ ۔ جہاں خداوند قادر مطلق ہے وہاں حکیم علی الاطلاق بھی ہے۔ لہٰذا اسکی قدرت و ہاں پر جلوہ گر ہوتی ہے جہاں اس کی حکمت کا تقاضا ہوتا ہے( ان الله قادر… )

آیت ۳۸

( وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا طَٓئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْط مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْ ءٍ ثُمَّ اِلٰی رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور زمین پر کوئی چلنے (پھرنے) والا نہیں اور اپنے دو پروں کے ساتھ اڑنے والا کوئی پرندہ نہیں مگر یہ کہ وہ بھی تمہاری طرح امتیں ہیں۔ ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کو فروگزاشت نہیں کیا، پھر سارے کے سارے اپنے پروردگار کے ہاں اکٹھے کئے جائیں گے۔

دو نکات:

قرآن مجید کی پرندوں اور ان کی صفات پر مکمل توجہ ہے۔ اور لوگوں کو ہدایت کرنے کے لئے ان کی تخلیق، شعور اور صفات کی یاددہانی کرا رہاہے، سورہ جاثیہ/ ۴ میں فرماتا ہے: و فی خلقکم وما یبث من دابة اٰیٰت للمومنین" یعنی تمہاری پیدائش میں بھی اور زمین پر چلنے پھرنے والے جانوروں (کی تخلیق) میں بھی یقین رکھنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔

روایات میں بھی اور انسانی تجربوں میں بھی جانوروں کے ادراک اور شعور کے وافر نمونے ملتے ہیں۔

ممکن ہے کہ "کتاب" سے مراد "لوح محفوظ" بھی ہو۔

پیام:

۱ ۔ مخلوق کی تخلیق اور اس کے مقاصد کی تکمیل کے لئے قدرت خداوندی تمام موجودات عالم کے لئے یکساں ہے( ومامن دابة …ولا طائر… )

۲ ۔ بامقصد تخلیق اور اجتماعی زندگی کا نظم و انتظام صرف انسانوں ہی سے مخصوص نہیں( امم امثالکم )

۳ ۔ انسان ہوں یا جانور، سب کو خدا کی تدبیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ خداوند عالم اپنی مصلحت کے مطابق انہیں شعور عطا کرتا ہے، سب تسبیح خداوندی بجا لاتے ہیں، سب خدا کا رزق کھاتے ہیں اور سب کے اندر نظم و نظام ہے۔

۴ ۔ جو جو چیزیں انسان کی رشد و ہدایت اور تربیت کا سبب بنتی ہیں ان سب کو قرآن مجید میں بیان کر دیا گیا ہے۔( مافرطنافی الکتٰب ) چاہے وہ چیزیں ایسی ہیں جنہیں انسان وحی کے بغیر نہیں سمجھ سکتا۔ چاہے ایسی چیزیں ہیں جن کاجاننا انسان کے لئے واجب اور ضروری ہے اور خواہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں رہنما اصول کہا جاتا ہے۔

۵ ۔ انسان کے ساتھ چرند و پرند کی مماثلت اور حیوانی زندگی کو سمجھنے کے لئے خوب غور و فکر اور عمیق مطالعہ و تجربہ کی ضرورت ہے( امم امثالکم )

۶ ۔ حیوانات پر بھی ظلم نہ کرو اور نہ ہی ان کے حق میں کوتاہی کرو کیونکہ وہ بھی تمہاری طرح ہیں( امم امثالکم ) (ازتفسیر قرطبی)

۷ ۔ قرآن مجید کامل ترین کتاب ہے( مافر طنافی الکتٰب من شیٴ ) ۹

۸ ۔ معاد اور حشر صرف انسانوں ہی سے مخصوص نہیں( ثم امی ربهم یحشرون )

حیوانات کا شعور:

آیات و روایات اور تجربوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شعور صرف انسان ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔

مندرجہ ذیل چند نمونے ملاحظہ ہوں۔

۱ ۔ حضرت سلیمان پیغمبر اپنے لشکر کے ساتھ ایک جگہ سے گزر رہے تھے کہ ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں سے کہا: "جلدی سے اپنے بلوں میں گھس جاؤ کہیں سلیمان کا لشکر تمہیں پامال نہ کر دے۔" (نمل/ ۱۸) یہ ٹھیک ہے کہ دشمن کی پہچان چیونٹیوں کے عزیزہ (فطرت ) میں شامل ہے لیکن یہ شناخت کہ یہ سلیمان ہیں اور ان کے ساتھ ان کا لشکر ہے یہ بات عزیزہ سے بالاتر ہے۔

۲ ۔ ہد ہد فضا کی بلندیوں سے زمین پر رہنے والے بندوں کے شرک سے مطلع ہوا اور سلیمان کے پاس آکر اس کا ذکر کیا کہ "سبا"کے رہنے والے کدا پرست نہیں ہیں ، اس کے ذمہ ایک کام لگایا جسے اس نے انجام دیا ہے۔ شرک اور توحید کی معرفت کہ یہ شرک بری چیز ہے، اس بات کی خبر حضرت سلیمان پیغمبر تک پہنچانا اور پھر پیغام رسانی کی خصوصی ڈیوٹی انجام دینا یہ سب کچھ عزہزہ سے بالاتر امور ہیں۔

۳ ۔ ہد ہد کا غائب ہو جانے کے بعد واپس آکر غیر حاضری کی معقول اور قابلِ قبول دلیل کرنا عزہزہ سے بالاتر شعور کی دلیل ہے۔

۴ ۔ خدا فرماتا ہے کہ "تمام موجودات ِ عالم خدا کی تسبیح پڑھتے ہیں لیکن تم اسے نہیں سمجھتے" "تسبیح تکوینی" کو تو ہم سمجھ سکتے ہیں لیکن دوسری تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے جس کا ذکر قرآن نے کیا ہے۔

۵ ۔ قرآن مجید میں تمام معجودات کا خدا کے لئے سجدہ ریز ہونے کا ذکر ہے۔

۶ ۔ بعض جانوروں ازآنجملہ کتے میں اپنے مالک اور اس کے بچوں کے لئے وفاداری کا عنصر۔ اس کے خصوصی شعور کی علامت ہے۔

۷ ۔ جرائم خصوصاً منشیات اور اسمگلنگ کی دریافت کے لئے پولیس اور فوج کے کتوں کی تربیت یا شکار اور اشیاء کی خریداری کے لئے انہیں سدھایا جانا ان کے خاص شعور اور آگاہی کی دلیل ہے۔

۸ ۔ اسلام نے ایک جانور کودوسرے جانوروں کے سامنے ذبح کرنے سے منع کیا ہے۔

۹ ۔ حضرت سلیمان کے لشکر کی مشقوں میں پرندوں کی شرکت کا تذکرہ ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: "( وحئی لسلیمٰن جنوده من الجن و الانس والطیر… ) " یعنی حضرت سلیمان کے پاس جنوں، انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے جاتے (نمل/ ۱۷)

۱۰ ۔ پرندے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں اور حضرت سلیمان اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ "ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے "( علمنا منطق الطیر ) " (نمل/ ۱۶)

۱۱ ۔ بعض روایات میں بعض جانوروں کے لئے فضلیت اور درجات کا ذکر ہے، مثلاً جو اونٹ تین بار (عازمین حج کو لے کر) مکہ مکرمہ جائے تو وہ بہشتی ہے۔ (تفسیر صافی)

اسی طرح حضرت امام زین العابدین علیہ اسلام فرماتے ہیں جو اونٹ سات سال تک صحرائے عرفہ میں رہے وہ بہشتی جانوروں میں سے ہو گا۔ (تفسیر نور الثقلین)

۱۲ ۔ "( واذا الوحوش حشرت ) " یعنی جب وحشی جانوروں کو جمع کیا جائے گا (تکویر/) یہ آیت قیامت کے دن جانوروں کے محشور ہونے کو بیان کر رہی ہے۔

۱۳ ۔ "( کل قد علم صلاة و تسبیحه ) " یعنی سب کے سب اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتے ہیں (نور/ ۴۱) یہ آیت انسان کے علاوہ دوسری موجودات کے بارے میں ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حیوانات بھی شعوری طور پر عبادت کرتے ہیں۔

آیت ۳۹

( وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا صُمٌّ وَّ بُکْمٌ فِی الظُّلُمٰتِط مَنْ یَّشَاِ اللّٰهُ یُضْلِلْهُط وَمَنْ یَّشَاْ یَجْعَلْهُ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ) ۔

ترجمہ۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے وہ تاریکیوں میں بہرے اور گونگے ہیں۔ خداوند جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست پر قائم رکھتا ہے۔

ایک نکتہ:

اگرچہ ہدایت اور گمراہی خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن انسان کا اپنا ارادہ اور اس کے لئے تیار کی جانے والی راہیں بھی موثر ہوتی ہیں، اور خدا کا کام بھی حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ موجب ہوتا ہے خدا کی طرف سے ہدایت کا "( والذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا ) " اور خدا کے بندوں پر ظلم سبب ہوتا ہے گمراہی کا "یضل اللہ الظالمین"۔

پیام:

۱ ۔ کفر اور عناد ایسی ظلمت اور تاریکی ہے جو نجات کی راہوں سے دوری کا سبب بن جاتی ہے( فی الظلمات )

۲ ۔ حق کو چھپانا "گونگا پن" ہے اور حق کو نہ سننا "بہرا پن"( صم و بکم )

۳ ۔ لوگوں کا گمراہ کرنا اور ان پر خدا کا غضب نازل کرنا خود ان کی تکذیب کا نتیجہ ہوتا ہے۔( کذبوا…یضلله )

۴ ۔ صراط مستقیم پر چلنے کے لئے حق کے سننے والے کانوں، حق بات کہنے والی زبان اور باطن کی روشنی درکار ہوتی ہے۔

آیت ۴۰

( قُلْ اَرَءَ یْتَکُمْ اِنْ اَٰتکُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْکُمُ السَّاعَةُ اَغَیْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَجاِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ کہہ دو کہ آیا تم نے کچھ غور بھی کیا ہے کہ اگر (دنیا میں) خدا کا عذاب تمہارے پاس آجائے یا قیامت (کادن) تمہیں آلے تو کیا (اپنی نجات کے لئے پھر بھی ) غیر اللہ کو پکاروگے؟ اگر تم سچے ہو تو ۔

ایک نکتہ:

اگرچہ آیت کا خطاب کفارسے ہے جو معاد سے انکاری ہیں ، لیکن یہ بھی معلوم ہونا چاہئیے کہ ان میں سے بعض کا قیامت پر عقیدہ ہے ۔ علاوہ ازیں ہو سکتا ہے کہ "اتتکما الساعته " میں "ساعت سے مراد موت کا وقت یا قیامت سے پہلے ہو لناک حوادث کا ظہور ہو۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ فرض کرنے کی صورت میں ا یمان کا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔

پیام:

ا۔ حواد ثات اور مشکل حالا ت میں جب تمام پردے اٹھ جاتے ہیں تو انسان خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے( اغیرالله تد عون )