تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62912
ڈاؤنلوڈ: 5408

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62912 / ڈاؤنلوڈ: 5408
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۴۱

( بَلْ اِیَّاهُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْهِ اِنْ شَآءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ بلکہ (خطرناک حالات میں تو ) صرف اسی کو پکارتے ہو اور اگر وہ چاہے تو جس بات کے لئے تم اسے پکارتے ہو وہ اسے دور کر دے ، اور تم بھی جسے خدا کا شریک ٹھہراتے ہو اسے بھول جاؤ۔

پیام:

۱ ۔ فطرت ، خدا کی معرفت کا ایک ہموار راستہ ہے( بل ایاه تدعون )

۲ ۔ خلوص پر مبنی دعا، دنیا میں خطرات سے نجات کا بہترین راستہ ہے (کافر کی دعا قیامت کے دن نہیں سنی جائے گی جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے "( وما دعاء الکفرین الافی ضلٰل ) " (رعد/ ۱۴)

۳ ۔ آخر صرف خطرناک حالات میں ہی خدا وند ذوالجلال کی طرف کیوں توجہ کرتے ہو؟ اور اپنے باطل خداؤں کی طرف کیوں نہیں جاتے ۱۰آخر کس لئے کسی قسم کی خاصیت سے عاری خداؤں کے پیچھے لگے ہوئے ہو؟ اور عارضی خداؤں کی پوجا کرتے ہو جنہیں مصیبت کے وقت بھلا دیتے ہو؟

۴ ۔ خدا کے علاوہ دوسری تمام طاقیتں معمول کے حالات میں جلوہ نمائیاں کرتی ہیں لیکن سخت اور خطرناک حالات میں سب کچھ فراموش ہو جاتا ہے۔۱۱

۵ ۔ خداوند تعالٰی ہر خطرے کو دور کرنے کی قدرت رکھتا ہے خواہ وہ دنیوی ہو یا (اخروی لیکن یہ اس کے ارادے اور حکمت سے مشروط ہے( فیکشف----ان شاء )

۶ ۔ عذاب کو دور کرنا یا تو اتمام حجت کے لئے ہوتا ہے یا پھر حالات کی تبدیلی کی بناء پر ۔ ۱۲

آیت ۴۲

( وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْ ٰنهُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور یقینا ہم نے تجھ سے پہلی امتوں کی طرف (پیغمبروں کو) بھیجا ، پس ہم نے انہیں تنگدستی اور بیماری میں مبتلا کر دیا تا کہ گڑ گڑاٹیں اور سر تسلیم خم کریں۔

ایک نکتہ:

"بآساء" کا معنی ہے جنگ، فقرو تنگدستی ‘ قحط ‘ سپلاب ‘ زلزلہ اور متعدی امراض کی مشکلات ۔ اور "ضرآئکا معنی ہے غم و غصہ ‘ آبروریزی ‘ جہالت او رنقصان۔

پیام:

۱ ۔ انبیاء کی بعثت ہو یا اتمام حجت دونوں ہی تاریخ کا حصہ او ر خدائی طریقہ کار میں شامل ہیں( الی المم )

۲ ۔ گزشتہ لوگوں کی تاریخ ، آئندہ والوں کے لئے باعث عبرت ہے۔( قبلک )

۳ ۔ تربیت اور ہدایت و رہنمائی کے لئے کبھی سختی سے بھی کام لینا پڑتا ہے( اخذ نا هم )

۴ ۔ مشکلات ‘ خدا کی طرف توجہ کرنے کا راستہ اور مغرور وسر کش افراد کو ٹھیک کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں( یتضرعون )

۵ ۔ ضروری نہیں کہ ہر آسائش لطف خداوند ی ہوا ور رنج و غم خدا کا قہر و غضب ہو( لعلهم یتضرعون )

۶ ۔ تمام سرکش، ضدی اور ہٹ دھرم لوگ دباؤ پڑنے پر سیدھے نہیں ہو جاتے( لعلهم )

۷ ۔ اے پیغمبر ! تمام انبیاء کرام کو ضدی اور اکھڑ مزاج لوگوں سے واسطہ پڑتا رہا لہٰذا آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔

۸ ۔ مشکلات میں گھر جانے کے موقع پر دست نیاز خدا ہی کی طرف بلند ہوتے ہیں۔ ۱۳

آیت ۴۳

( فَلَوْ لَآ اِذْ جَآ ءَ هُمْ بَاْ سُنَا تَضَرَّعُوْا وَٰلکِِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ زَیِّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ پس جب ہماری طرف سے ان کو ناگواری نے آ لیا تو انہوں نے تضرع اور زاری کیوں نہیں کی؟ لیکن ان کے دل پتھر اور سخت ہو چکے ہیں۔ اور وہ جو کام کرتے ہیں شیطان اسے ان کے سامنے زیبا کرکے پیش کرتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ خبردار اور ہوشیار کرنے کے باوجود بھی بے پروائی سے کام لینا سنگدلی کی علامت ہے۔( قست )

۲ ۔ ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں پر نہ تو تبلیغ اثر کرتی ہے اور نہ ہی تنبیہ( جاء هم باسنا )

۳ ۔ شیطان کا ان کے کرتوتوں کو زیبا کرکے پیش کرنا ان کے غرور و تکبر کا سبب بن جاتا ہے( زین لهم )

آیت ۴۴

( فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِه فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْئٍط حَتّٰیٓ اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْآ اَخَذْ ٰنهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ پس جو نصیحتیں انہیں کی گئی تھیں جب انہوں نے ان کو بھلا دیا تو ہم نے ان کے لئے تمام چیزوں کے دروازے کھول دیئے (تاکہ وہ آسائش اور مادیات میں پوری طرح غرق ہو جائیں) حتیٰ کہ جب وہ ان چیزوں پر خوش ہو گئے جو انہیں دی گئی تھیں تو ہم نے اچانک انہیں (سز اکی) گرفت میں لے لیا اور وہ یکدم غمگین اور نا امید ہو گئے۔

ایک نکتہ:

آیت میں لفظ "مبلسون" آیا ہے جو "ابلاس" کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے "مایوسی کے ہمراہ غم و اندوہ" یعنی وہ کیفیت جو مجرم لوگوں کی عدالت میں ان کی شنوائی نہ ہونے پر ہوتی ہے۔ (تفسیر المیزان)

پیام:

۔ آسائش پر مبنی زندگی ہمیشہ رحمت خداوندی کی علامت نہیں ہوا کرتی، کبھی سزا کا موجب بھی بن جاتی ہے( نسوا- فتحنا ) ۱۴

۲ ۔ مجرمین کو مہلت دینا اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے آسائش کے وسائل فراہم کرنا خدا کا ایک دیرینہ طریقہ کار چلا آ رہا ہے۔

۔ دنیا اور اس سے بہرہ برداری نعمت بھی ہو سکتی ہے اور عذاب بھی، خواہ یہ کسی کو بھی ملے۔ جیسا کہ سورہ اعراف/ ۹۶ میں ارشاد ہوتا ہے "( ولو ان اهل القریٰ امنوا و اتقو الفتحنا علیهم برکات من السماء و الارض ) " یعنی اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور پرہیزگار بنتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات (کے دروازے) کھول دیتے۔

یہاں ایمان اور تقویٰ کو برکات الٰہی کا موجب گردانا گیا ہے جبکہ زیر بحث آیت میں دنیا کو خدا کا عذاب اور نقمت بتایا گیا ہے۔ ۱۵

۵ ۔ موت ہو یا خدا کا قہر و غضب اچانک آتے ہیں لہٰذا ہمیشہ آمادہ رہنا چاہئے( بغتةً )

۶ ۔ فیصلے جلدی نہ کر لیا کرو اور نعمتوں کو خدا کا لطف و مہربانی نہ سمجھ لیا کرو۔

۷ ۔ عیاش لوگوں کی خوشی کے نعرے بہت جلد مایوسی کی فریادوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔( فرحوا … مبلسون )

آیت ۴۵

( فَقُطِعَ دَابِرُالْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاط وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ پس ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا گیا اور ان کی نسل ختم ہو گئی او رحمد خاص ہے عالمین کے رب کے لئے۔

پیام:

۱ ۔ ظلم، ہمیشہ قائم نہیں رہتا۔( قطع )

ظلم کا اثر نسلوں پر پڑتا ہے۔( دابر )

۳ ۔ ظالموں کا انقراض اور ان کی تباہی قطعی، حتمی اور یقینی ہے (فقطع دابر) یا جس طرح کہ ایک اور آیت میں ہے "( فهل تری لهم من باقیه ) " ان میں سے تو کسی کو باقی دیکھتا ہے" (الحاقہ/ ۸)

۴ ۔ ظالموں کی تباہی پر خدا کا شکر کرنا چاہئے( فقطع…والحمد لله )

۵ ۔ ظالموں کی نابودی درحقیقت ان کے ظلم کا انجام اور اس کی سزا ہوتی ہے ورنہ اس پر خدا کی حمد نہ کی جاتی( والحمدلله )

۶ ۔ ظالموں کی ہلاکت، دوسرے لوگوں کے لئے تربیت کا موجب ہوتی ہے( رب العالمین )

آیت ۴۶

( قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ اَخَذَ اللّٰهُ سَمْعَکُمْ وَ اَبْصَارَکُمْ وَخَتَمَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ مَّنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْ تِیْکُمْ بِهط اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ هُمْ یَصْدِفُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) کہہ دو کہ آیا تم نے کچھ غور کیا ہے کہ اگر خداوند عالم تمہارے کانوں اور تمہاری آنکھوں کو اپنی گرفت میں لے لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے (کہ کچھ بھی نہ سمجھ سکو) تو خدا کے علاوہ کون معبود ایسا ہے جو تمہیں یہ سب کچھ واپس لوٹا دے؟ دیکھو کہ ہم آیات کو کن طریقوں سے بیان کرتے ہیں، پھر بھی وہ (ایمان لانے اور بات کو تسلیم کرنے کی بجائے ) منہ پھیر لیتے ہیں۔

ایک نکتہ:

۹; سورت کے آغاز سے لے کر یہاں تک اللہ تعالیٰ نے تقریباً دس مرتبہ سوالیہ انداز میں مخالفین کو دعوت فکر دی ہے۔

پیام:

۱ ۔ دی ہوئی نعمتوں کا واپس لینا خدا کے لئے آسان ہے۔ لہٰذا ہمیشہ خبردار رہو( اخذسمعکم )

۲ ۔ ایک تو تخلیق کائنات ہی خدا کا کام ہے اور دوسرے کائنات کو اپنے طور پر چلانا اور ہر لمحہ اس کی حفاظت، پروردگار عالم کی نعمت ہے( اخذسمعکم )

۳ ۔ خدا کی نعمتوں کے بارے میں غور و فکر اور ان نعمتوں میں تغیر و تبدل کا فرض کرنا، معرفت خداوندی اور نعمت شناسی کی راہوں میں سے ایک راہ ہے۔ مثلاً فرض کیجئے کہ:

اگر درخت سرسبز نہ ہونے پائیں( لونشاء لجعلناه حطامًا ) ۔ واقعہ/ ۶۰)

اگر پانی کڑوا اور شور ہوجائے( لونشاء لجعلناه اجاجا ) ۔ واقعہ/ ۷۰)

اگر پانی سارے کا سارا زمین کے اندر چلا جائے( ان اصبح ماؤ کم غورا ) ۔ ملک/ ۳۰)

اگر ہمیشہ ہی رات یا دن برقرار رہیں( ان جعل علیکم اللیل سرمدا ) ۔ قصص/ ۷۱)

اگر یہ ہو جائے اور وہ ہو جائے تو کیا ہو گا؟ یہ سب خدا کی نعمتیں ہیں

۴ ۔ ضدی مزاج لوگوں کے لئے ہر طرح کا بیان بے اثر ہوتا ہے( نصرف الایات ) ۔۔ (یصدفون)

آیت ۴۷

( قُلْ اَرَءَ ْیتَکُمْ اِنْ اَٰتکُمْ عَذَابُ اللّٰهِ بَغْتَةً اَوْ جَهْرَةً هَلْ یُهْلَکُ اِلَّا الْقَوْمُ الظٰلِمُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ کہہ دو کہ آیا تم نے کچھ غور کیا ہے کہ خدا کا عذاب اچانک یا آشکارا تمہیں آ لے تو کیا ظالم لوگوں کے علاوہ کوئی اور ہلاک ہو گا؟

دو نکات:

۹; اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ صرف ظالم لوگ ہی عذاب الٰہی سے ہلاک ہوں گے، جبکہ ایک اور آیت میں ہے کہ "( واتقوافتنة لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصة ) " یعنی اس فتنہ سے ڈرو جو صرف تم میں سے ظالموں کو ہی نہیں پہنچے گا (بلکہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا) (انفال/ ۲۵) اس آیت میں فتنہ کی لپیٹ اور عذاب کے شعلے ہر ایک کے لئے بیان ہوئے ہیں اور اس سے ہر ایک کو خبردار کیا گیا ہے۔ تو پھر ان دونوں آیات کو کیونکر جمع کیا جا سکتا ہے؟ تفسیر فخر رازی اور مجمع البیان میں اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ "ہر فتنہ ہلاکت نہیں ہوتا، اور تلخ اور ناگوار حوادث میں جو چیز ظالموں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے وہ ہلاکت اور خدائی قہر ہے۔ اور جو چیز مومنین کو پہنچتی ہے وہ امتحان اور ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہوتی ہے"

۹; شاید کہ "( بغتة ) " سے مراد رات اور "جھرة" سے مراد دن ہو۔ جیسا کہ ایک اور مقام پر فرماتا ہے "( اتاها امرنا لیلا اونهارا ) " یونس/ ۲۴ ۔ تفسیر آلوسی)

۹; اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ "( بغتة ) " سے مراد ایسا عذاب ہو جو کسی مقدمہ کے بغیر آئے اور "جھر ة" سے مراد وہ عذاب ہو جس کے آثار پہلے دن سے ظاہر ہوں جیسے قوم عاد پر برسنے والے خطرناک عذاب کے بادل تھے، جس کے متعلق ارشاد الٰہی ہے "( قالو اهذا عار ض ممطرنا بل هوما استعجلتم به ریح فیها عذاب الیم ) " (احقاف/ ۲۳) یعنی وہ لوگ کہنے لگے یہ تو بادل ہے جو ہم پر برس کر رہے گا (نہیں) بلکہ یہ وہ (عذاب) ہے جس کی تم جلدی مچا رہے تھے، وہ آندھی ہے جس میں دردناک عذاب ہے۔ (از تفسیر اطیب البیان)

پیام:

۱ ۔ اپنی سرکشی اور اس پر تمہیں ملنے والی خدا کی مہلت سے مغرور نہ ہو جانا، ہو سکتا ہے کہ خدا کا عذاب اچانک ہی تم پر نازل ہو جائے( بغتة )

۲ ۔ جب خدا کا عذاب نازل ہو گا تو تباہی اور ہلاکت یقینی ہو جائے گی جسے نہ تو تم ٹال سکو گے اور نہ ہی کوئی اور۔( عذاب الله- یهلک )

۳ ۔ خدا کی طرف سے ملنے والی سزائیں عادلانہ اور منصفانہ ہوتی ہیں اور وہ بھی لوگوں کے ظلم کرنے کی وجہ سے۔ (یھلک۔ ظالمون)

۴ ۔ انبیاء علیہم اسلام کی دعوت سے انحراف اور روگردانی ظلم ہے( یصدفون- الظالمون )

آیت ۴۸ ، ۴۹

( وَمَا نُرْسِلُ الْمَرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ ج فَمَنْ اٰمَنَ وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَاهُمْ یَحْزَنُوْنَ- وَالَّذِیْنَ کَذَّبُُوْا بِاٰیٰتِنَا یَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ ہم، رسولوں کو صرف خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجتے ہیں پس جو لوگ ایمان لے آتے ہیں اور اپنی اصلاح کرتے ہیں (نیک بن جاتے ہیں) تو ان پر نہ تو کسی قسم کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں۔

۹; اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں تو ان کے فسق کی وجہ سے عذاب انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

ایک نکتہ:

۹; متعدد آیات میں اولیاء اللہ کے بارے میں ہے کہ ان پر نہ تو کسی قسم کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں۔( لا خوف علیهم ولا هم یحزنون ) جبکہ دوسری طرف آیات قرآنی میں جو خوف خدا اولیاء اللہ کا خاصہ بتایا گیا ہے مثلاً وہ کہتے ہیں "انا نخاف من ربنا( --- ) " یعنی ہم اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ (دہر/ ۱۰) تو ان دونوں طرح کی آیات کو کیونکر جمع کیا جا سکتا ہے؟ تو ا س کا جواب یہ ہے کہ: اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے بیمار آپریشن اور معالجہ سے ڈرتا ہے لیکن ڈاکٹر اسے اطمینان اور تسلی دیتا ہے کہ "گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں" تو گھبرانے کی ضرورت کا نہ ہونا، بیمار کے اندیشوں سے منافات نہیں رکھتا۔

پیام:

۱ ۔ تمام انبیاء کا مجموعی طریقہ کار ایک جیسا تھا( مبشرین ومنذرین )

۲ ۔ ہدایت اور تربیت، بیم و امید اور سزا و جزا کے دو اصولوں پر استوار ہے( مبشرین، منذرین )

۳ ۔ ایمان اور عمل ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔ اور ایمان کے بغیر عمل بیکار ہے( آمن و اصلح )

۴ ۔ مومن کا کام ہمیشہ اصلاح کے رخ پر ہونا چاہئے( آمن و اصلح )

۵ ۔ صرف صالح ہونا ہی کافی نہیں، مصلح ہونا بھی ضروری ہے( اصلح )

۶ ۔ ایمان اور عمل دونوں مل کر انسان کا بیمہ کرتے ہیں( لاخوف علیهم ولا هم یخزنون )

۷ ۔ فسق، عذاب الٰہی کا موجب بن سکتا ہے( بما کانوا یفسقون )

آیت ۵۰

( قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌج اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ ط قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَ الْبَصِیْرُط اَفَلَا تَتَفَکَّرُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ (اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ میں تمہیں نہیں کہتا کہ میرے پاس خدا کے خزانے ہیں۔ اور میں غیب بھی نہیں جانتا اور تمہیں یہ بھی نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اسی بات کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی ہوتی ہے۔ (اور اے پیغمبر یہ بھی) کہہ دو کہ آیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہیں؟ آیا تم کچھ غور و فکر نہیں کرتے؟

ایک نکتہ:

۹; اس آیت میں پیغمبر خدا کی غیب دانی کی نفی کی گئی ہے لیکن خدا کی طرف سے غیب پر آگاہی آنجناب کو ضرور عطا ہوئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بارہا حضرت یوسف ، جناب مریم، حضرت نوح اور دیگر انبیاء کرام علیہم اسلام کے بارے میں آپ سے فرمایا ہے کہ:( ذالک من انباء الغیب نوحیه الیک ) " یعنی یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں۔

۹; اسی طرح اللہ تعالیٰ سورہ جن کے آخر میں فرماتا ہے: "خداوند عالم کے پاس غیب کا علم ہے جو وہ اپنے برگزیدہ بندوں کے علاوہ کسی اور کو عطا نہیں کرتا" پس علم غیب مخصوص تو خدا ہی سے ہے لیکن اگر وہ چاہے تو اس میں سے اپنے اولیاء کو بھی عطا کر دیتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ پیغمبر خدا کی صداقت تو اس حد تک ہے کہ اگر ان سے کوئی قدرت سلب ہوتی ہے تو اس کا بھی وہ لوگوں میں اعلان کرتے ہیں( قل لا اقول )

۲ ۔ انبیاء علیہم اسلام کا کام خرافات سے نبردآزمائی اورجھوٹی شخصیت بنانے کے خلاف جنگ ہے (متن آیت)

۳ ۔ انبیاء کرام سے بے جا توقعات وابستہ نہ رکھو( لا اقول لکم عندی خزائن الله )

۴ ۔ رہبر کی زندگی، اس کا ہدف اور طریقہ کار عوام پر واضح ہونا چاہئے۔

۵ ۔ "جو کچھ تم ہو" لوگوں کو بھی وہی باور کراؤ اورایسا نہ ہونے دو کہ لوگ تمہیں تمہاری اصلی حالت سے بڑھ کر سمجھنے لگیں )(اگر نامور شخصیات اپنی ذات سے جھوٹے القاب کی خود نفی کریں تو غلو اور گمراہی کے آگے بند باندھا جا سکتا ہے)

۶ ۔ انبیاء کرام روپے پیسے کا لالچ دے کر لوگوں کو خدا کی طرف نہیں بلاتے اور نہ ہی دھونس اور دھاندلی سے کام لیتے ہیں تاکہ لوگ ڈر کر یا کسی لالچ میں آ کر ان کے پاس اکٹھے نہ ہوں۔ (اور لوگ یہ خیال نہ کریں کہ اگر پیغمبر خدا کے ساتھ ہوں گے تو علم غیب یا خدا ئی خزانہ سے ان کی مشکلات حل ہو جائیں گی)

۷ ۔ پیغمبر خدا اپنی شخصی زندگی یا حکومت چلانے کے لئے دوسرے لوگوں کی طرح عام روش پر چلتے ہیں علم غیب اور خدائی خزانے سے کام نہیں لیتے۔ البتہ اپنی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان چیزوں سے استفادہ کریں)

۸ ۔ اگرچہ پیغمبر خدا کے پاس خدائی خزانہ یا علم غیب نہیں ہوتا لیکن چونکہ ان پر "وحی" ہوتی ہے لہٰذا ان کی پیروی لازمی ہے۔

۹ ۔ پیغمبر کا کام نہ ان کے خیال اور سلیقہ کی بنا پر ہوتا ہے اور نہ ہی معاشرتی میلان اور ماحول سے متاثر ہوتا ہے بلکہ صرف اور صرف وحی کی اتباع اور پیروی ہوتا ہے( ان اتبع الاما یوحیٰ الی )

۱۰ ۔ انبیاء کی اتباع بصیرت ہے اور ان سے روگردانی اندھاپن۔( هل یستوی الاعمٰی والصبیر )

۱۱ ۔ صحیح فکر انسان کو انبیاء کی پیروی پر آمادہ کرتی ہے، اور بہانوں اور توقعات کو رد کرتی ہے( افلاتتفکرون )

۱۲ ۔ انبیاء علیہم السلام کی رفتار اور ان کی گفتار ہمارے لئے حجت ہوتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد وحی پر استوار ہوئی ہے۔( ان اتبع الا مایوحی الی )

۱۳ ۔ لوگوں سے تمام انبیاء کا رویہ ایک جیسا رہا ہے، حضرت نوح علیہ اسلام نے بھی لوگوں سے یہی باتیں کی تھیں۔ ملاحظہ ہو سورہ ہود آیت ۳۱ ۔