تفسیرنور

تفسیرنور5%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69134 / ڈاؤنلوڈ: 8327
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

1

2

آیت ۵۱

( وَاَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْآ اِلٰی رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِه وَلِیٌّ وَّلَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور اس (قرآن) کے ذریعہ ان لوگوں کو ڈراؤ جو اپنے پروردگار کے حضور محشور ہونے سے ڈرتے ہیں (کیونکہ) خداوند عالم کے علاوہ ان کا نہ تو کوئی ولی و سرپرست ہے اور نہ ہی کوئی شفاعت کرنے والا۔ ہو سکتا ہے کہ متقی بن جائیں۔

ایک نکتہ:

۹; قرآن مجید میں بارہا پیغمبر خدا سے کہا گیا ہے کہ آپ کا ڈرانا صرف ان لوگوں کے دلوں پر اثر کرتا ہے جو خدا سے ڈرتے ہیں۔ مثلاً "( انما تنذر من اتبع الذکر و خشی الرحمٰن ) " یعنی تم تو صرف اس شخص کو ڈرا سکتے ہو جو نصیحت کو مانے اور ان دیکھے، خد اسے ڈرے ( یٰس/ ۱۱) اور "( انما تنذرالذین یخافون ربهم بالغیب ) " یعنی تم تو بس ان لوگوں کو ڈرا سکتے ہو جو ان دیکھے، خدا سے ڈرتے ہیں (فاطر/ ۱۸)

پیام:

۱ ۔ لوگوں کی آمادگی، ہدایت انبیاء کے موثر ہونے کی شرط ہے( الذین یخافون )

۲ ۔ معاد (قیامت) کا عقیدہ تقویٰ کی کلید ہے( یخافون ان یحشروا…لعلهم یتقون )

آیت ۵۲

( وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهط مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْ ءٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْهِمْ مِّنْ شَیْ ءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ جو لوگ صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں جبکہ وہ اس کی رضامندی کے طلبگار ہوتے ہیں انہیں اپنے پاس سے نہ دھتکارو۔ ان کے حساب سے تمہارے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے اور تمہاے حساب سے ان کے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے کہ اگر تم نے انہیں دھتکار دیا تو ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔

چند نکات:

۹; اس آیت کے شان نزول کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ کچھ مالدار کفار نے جب دیکھا کہ عمار، بلال اور خباب وغیرہ جیسے غریب لوگ حضرت رسول خدا کے اطراف جمع رہتے ہیں، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کش کی کہ آپ ان لوگوں کو اپنے اطراف سے ہٹا دیں تاکہ ہم آپ کے پاس آیا کریں۔ بقول مفسر تفسیر "المنار" خلیفہ دوم نے یہ تجویز پیش کی کہ کفار کی اس پیشکش کو آزمائش کے طور پر قبول کر لیا جائے، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس سے ملتی جلتی سورہ کہف کی ۲۸ ویں آیت بھی ہے۔

۹; تفسیر قرطبی میں منقول ہے کہ اس آیت کے نازل ہو جانے کے بعد پیغمبر خدا غریبوں کی مجلس سے اس وقت تک نہیں اٹھتے تھے جب تک کہ وہ نہ اٹھ جاتے۔

۹; صبح و شام خدا کو پکارنے سے مراد شاید روزانہ کی نمازیں ہیں (تفیسر المیزان)

پیام:

۱ ۔ مخلص، فقیر اور مجاہد افرادی قوت کی حفاظت کرنا سرمایہ دار کفار کے امکانی جذب کرنے سے زیادہ اہم ہے( لاتطرد )

۲ ۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو امتیازات ‘نسل پرستی‘ تفوق طلبی اور ساز باز کے مخالف ہے (آیت کے شان نزول کے پیش نظر)

۳ ۔ "ایمان" کے ساتھ کوئی بھی امتیاز مقابلہ نہیں کر سکتا( یریدون وجهه )

۴ ۔ انبیاء کے طرفداروں کی غالب اکثریت غریب اور فقیر لوگوں کی تھی (آیت کے شان نزول کے پیش نظر)

۵ ۔ اسلا م میں "مقصد کا حصول" ہر قسم کے ذرائع اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ کفر کے سرداروں کو اپنانے کے لئے موجودہ مسلمانوں کی توہین نہیں کرنی چاہئے( لاتطرد )

۶ ۔ بہانہ بنانے والے اگر رہبر اور اس کے مسلک پر عیب نہیں لگا سکتے تو اس کے پیروکاروں یا پیروکاروں کی اقتصادی حالت کی عیب جوئی کرنے لگ جاتے ہیں (آیت کے شان نزول کے پیش نظر)

۷ ۔ معیار، افراد کی موجودہ حالت ہے۔ اگر غریب مومن اس سے پہلے کسی قسم کی کوئی خلاف ورزی کر چکے ہیں تو اس کا حساب کتاب خدا ہی کے سپرد ہے۔

۸ ۔ سب کا حساب خدا کے سپرد ہے، حتی کہ رسول اکرم بھی کسی کے گناہوں کے بخشنے یا سزا دینے کے ذمہ دار نہیں ہیں (برخلاف دین مسیحیت کے کہ ان کے لاٹ پادری گناہوں کو بخش دیتے ہیں)( ماعلیک )

۹ ۔ مخلص غریب اور فقیر افراد کو دھتکار دینا ظلم ہے( فتکون من الظالمین )

۱۰ ۔ پیغمبر اکرم کے لئے بھی حساب و کتاب ہے( وما من حسابک )

آیت ۵۳

( وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَهٰٓوٴُ لَآ ءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنْ م بَیْنِنَاط اَلَیْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰکِرِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور اسی طرح ہم نے بعض لوگوں کی دوسرے بعض افراد کے ذریعہ آزمائش کی ہے تاکہ وہ (استہزا کے طور پر) کہیں، آیا یہی وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہمارے درمیان میں سے ممنون فرمایا ہے؟ آیا خداوند عالم شکر ادا کرنے والوں کے حالات زیادہ نہیں جانتا؟

دو نکات:

۹; قرآن مجید میں بارہا سرمایہ داروں کی بلندپروازیوں اور اونچی اونچی توقعات کا ذکر آیا ہے اور اس سلسلہ میں ان کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ مثلاً ان کی ایک توقع یہ تھی کہ قرآن مجید ان پر ہی نازل ہوتا چنانچہ قرآن کہتا ہے:( لاء القی الذکر علیه من بیننا ) " یعنی آیا ہم سرمایہ داروں کے درمیان وحی اس پر نازل ہوئی؟ (قمر/ ۲۵) اور سورہ زخرف/ ۳۱ میں ہے وہ کہتے تھے "( لو لا نزل هذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم ) " یعنی یہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی ایک بڑے آدمی پر نازل کیوں نہیں ہوا؟۔

۹; حقیقی مومن، نعمت ایمان پر شکر ادا کرتا ہے۔ چنانچہ کسی شخص نے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے فقر و فاقہ اور غربت کی شکایت کی، امام علیہ اسلام نے اس سے فرمایا: "تمہاری نگاہوں میں مالدارترین شخص کون ہے؟ "اس نے کہا: "ہارون الرشید" امام نے اس سے فرمایا: " آیا اس بات کے لئے تیار ہو کہ اپنا ایمان دے کر اس کی ثروت حاصل کرو؟" اس نے عرض کیا: "نہیں! "فرمایا! "پس تو تم ہی سب سے زیادہ تونگر ہو! اس لئے کہ تمہارے پاس ایک ایسی چیز ہے جسے تم اس کے مال و دولت کے بدلے میں نہیں دینا چاہتے!" (از تفسیر اطیب البیان)

پیام:

۱ ۔ طبقاتی تقسیم بعض اوقات، امتحان کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی عادات و خصائل کے پروان چڑھنے کا موجب بھی! امیروں کا امتحان غریبوں کے ذریعہ ہوتا ہے( فتنا بعضهم ببعض )

۲ ۔ امیر لوگ، غریبوں کا مذاق اڑاتے ہیں( أ هولا ءٓ )

۳ ۔ غریب مومن، خدا کے برگزیدہ بندے ہوتے ہیں( من الله علیهم )

۴ ۔ انبیاء کرام علیہم السلام خدا کے شکرگزار بندوں کا واضح نمونہ ہوتے ہیں( بالشاکرین )

۵ ۔ غریبوں پر خدا کا احسان، ان کے شکر کا نتیجہ ہوتا ہے (( من الله- شاکرین )

۶ ۔ کفار کے توہین کرنے کا جواب، مومنین کو خدا کی طرف سے نوازشات کی صورت میں دیا جاتا ہے( اهوٴلاء- اعلم بالشٰکرین )

۷ ۔ خداوند اپنی حکمت کے مطابق کام کرتا ہے، لوگوں کی توقعات کے مطابق نہیں،( لیس الله باعلم بالشاکرین )

آیت ۵۴ ۔ ۵۵

( وَاِذَا جَآ ءَ کَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِهِ الرَّحْمةَلا اَنَّه مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سَوْٓءً ام بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ م بَعْدِه وَاَصْلَحَ فَاَنَّه غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ- وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ جب وہ لوگ تمہارے پاس آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو (ان سے) کہو تم پر سلام ہو۔ تمہارے پروردگار نے اپنی ذات پر رحمت واجب کر دی ہے کہ تم میں سے جو شخص نادانستہ طور پر کوئی برا کام انجام دیتا ہے اور پھر توبہ کرکے اپنی اصلاح کر لیتا ہے تو یقیناً خدا وند عالم بھی بخشنے والا مہربان ہے۔

۹; اور ہم اسی طرح (لوگوں کے لئے) تفصیل کے ساتھ آیات کو بیان کرتے ہیں تاکہ حق آشکار اور) گناہگاروں کا راستہ واضح ہو جائے۔

دو نکات:

۹; اس آیت کے شان نزول کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ کچھ گنہگار لوگ حضرت رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے "ہم نے بہت سی خلاف ورزیاں کی ہیں!" یہ سن کر آنحضرت خاموش ہو گئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۹; اسی سورت میں اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ "کتب علی نفسہ الرحمة" کا جملہ ارشاد فرمایا ہے۔ ایک تو اسی دنیا میں سرگرم رہنے کے لئے ہے (زیر نظر آیت) اور دوسرا قیامت کے لئے ہے (آیت ۱۲)

پیام

۔ اگر گناہ کو ہٹ دھرمی غرور اور ضد کی بنا پر انجام نہ دیا جائے تو قابل معافی ہوتا ہے( جهالة ) ۱۶

۲ ۔ رہبر اور عوام کا باہمی رابطہ انس و محبت کی بنیادوں پر مبنی ہونا چاہئے( قل سلام علیکم )

۔ "سلام" اسلام کی علامت ہے اور بڑا چھوٹے کو سلام کرتا ہے( سلام علیکم )

۴ ۔ مربی اور مبلغ کو چاہئے کہ لوگوں کے ساتھ محبت کرکے ان کی شخصیت سازی کرے( سلام علیکم )

۵ ۔ خداوند عالم نے رحمت کو اپنے اوپر واجب کر دیا ہے، لیکن اس کے شامل حال توبہ کرنے والے ہیں۔( کتب…ثم تاب )

۶ ۔ توبہ صرف ایک لفظ کا نام نہیں ہے، اس کے لئے عزم مصمم اور اصلاح احوال کی ضرورت بھی ہوتی ہے( تاب واصلح )

۷ ۔ مومن کی توبہ قابل قبول ہے ہر شخص کی نہیں۔( عمل منکم )

۸ ۔ خدا کی بخشش اس کی رحمت کے ساتھ ساتھ ہے( غفور رحیم )

۹ ۔ مجرمین کی علامتیں اور خطاکاروں اور سازشی عناصر کی راہیں واضح کرنا مذہب اور دین کے اہداف میں شامل ہے۔( لتستبین )

آیت ۵۶

( قُلْ اِنِّیْ نُهِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِط قُلْ لَّآ اَتَّبِعُ اَهْوَآءَ کُمْ قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) کہہ دو کہ مجھے ان کی عبادت سے روک دیا گیا ہے کہ تم خدا کے علاوہ جن کو پکارتے ہو، (یہ بھی) کہہ دو کہ میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کرتا کیونکہ ایسی صورت میں میں گمراہ ہو جاؤں گا، اور ہدایت یافتہ افراد سے نہیں ہوں گا۔

پیام:

۱ ۔ بے جا خواہشات کا دو ٹوک الفاظ میں نفی میں جواب دینا چاہئے( نهیت، لااتبع، ضللت )

۲ ۔ پیغمبر اسلام کے موقف کا مرکز اور منبع وحی الٰہی ہے( قل- قل )

۳ ۔ شرک سے اظہار برائت، اسلام کا جزو ہے( نهیت ان اعبد )

۴ ۔ شرک کا اصل مرکز، ہوس پرستی ہے( لااتبع اهوائکم )

۵ ۔ مبلغ کو نہیں چاہئے کہ وہ لوگوں کی خواہشات کو پورا کرتا پھرے( لااتبع اهوائکم )

۶ ۔ ہوس پرستی، ہدایت کے رستے گم کر دیتی ہے( لااتبع اهوائکم…وما انا من المهتدین )

آیت ۵۷

( قُلْ اِنِّیْ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَکَذَّبْتُمْ بِهط مَا عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهط اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰهِط یَقُصُّ الْحَقَّ وَ هُوَ خَیْرُ الْفَاصِلِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) کہہ دو کہ میں تو یقیناً اپنے پروردگار کی روشن دلیل پر ہوں، لیکن تم اسے جھٹلاتے ہو۔ اور تم (خدا کی) جس فوری سزا کی جلدی کے خواہاں ہو وہ میرے پاس نہیں ہے۔ حکم تو بس اللہ ہی کے لئے ہے، وہی حق کو بیان کرتا ہے اور وہ (حق کو باطل سے) بہترین جدا کرنے والا (حاکم) ہے۔

چند نکات:

۹; "بینہ" کا لفظ "بینونہ" سے ہے جس کا معنی ہے "جدائی" اور بینہ اس دلیل کو کہتے ہیں جو مکمل طور پر واضح اور روشن ہو اور حق کو باطل سے جدا کر دے۔

۹; کفار کہتے تھے کہ اے محمد! اگر تم سچ کہتے ہو تو پھر ہم پر خدا کا قہر و غضب نازل کیوں نہیں ہوتا؟( تستعجلون به ) بعینہ اس آیت کی مانند جس میں کہا گیا ہے کہ کافر کہتے ہیں کہ اگر یہ بات سچی ہے تو اے اللہ! ہم پر پتھر برسا("( فامطر علینا حجارة من السماء ) " (انفال/ ۳۲)

۹; انبیاء کے دلائل اور معجزات نہ تو ثقیل (بوجھل) ہوتے تھے اور نہ ہی مبہم۔ سب لوگ انہیں سمجھ لیتے تھے بشرطیکہ ہٹ دھرمی اور ضد سے کام نہ لیتے ہوں۔ اور انہیں دل وجان سے تسلیم بھی کر لیتے تھے۔ اسی لئے تو انبیاء نے اپنا تعارف "صاحب بینہ" کے طور پر کرایا ہے۔

۹; "استعجال" یعنی جلد عذاب خواہی کی بیماری دوسری قوموں میں بھی تھی، حضرت صالح، حضرت ہود اور حضرت نوح کی قوم کے افراد بھی کہا کرتے تھے "فاتنا بما تعدنا" یعنی اگر سچ کہتے ہو تو عذاب موعود کو ہمارے لئے لے آؤ (اعراف/ ۷۰ ۔ ۷۷ ہود/ ۳۲)

پیام:

۱ ۔ انبیاء کی دعوت کا دارومدار "بینہ" (واضح دلیل) پر ہوتا ہے، خیالات اور اندھی تقلید پر نہیں۔( علی بینة )

۲ ۔ انبیاء کے پاس "بینہ الٰہی" ہونا چاہئے انہیں لوگوں کے روزمرہ کے تقاضوں کے مطابق عمل نہیں کرنا چاہئے( بینة من ربی )

۳ ۔ کفار ادھر تو پیغمبر کے بینہ کو جھٹلاتے ہیں اور ادھر اس بات کی توقع بھی رکھتے ہیں کہ وہ ان کی خواہشات نفسانی کی اتباع بھی کریں( کذبتم ما عندی تستعجلون به )

۴ ۔ بہانہ گروں کے ساتھ دوٹوک الفاظ میں بات کرنی چاہئے۔( ما عنوی )

۵ ۔ یہ آیت جہاں کفار کو تہدید اور سرزنش کرا رہی ہے وہاں پیغمبر کو تسلی بھی دے رہی ہے ۔( خیر الفٰصلین )

۶ ۔ پیغمبر کو اللہ نے منطق اور بینہ دے کر بھیجا ہے اور کائنات کا سارا انتظام خدا کے ہاتھ میں ہے (لہٰذا پیغمبر سے اپنی زندگی کے خاتمے کی درخواست نہ کرو)

آیت ۵۸

( قُلْ لَّوْ اَنَّ عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِه لَقُضِیَ الْاَمْرُ بَیْنِیْ وَ بَیْنَکُمْ ط وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِالظّٰلِمِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ کہہ دو کہ جس چیز کے بارے میں تم مجھ سے جلدی کا سوال کرتے ہو اگر وہ میرے پاس ہوتی (اور تمہارے کہنے کے مطابق عذاب نازل ہوتے) تو یقینا میرے اور تمہارے درمیان بات ہی ختم ہو جاتی ۔ اور اللہ تعالی ٰظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ ہر قسم کی سزا اور عذاب خدا کے ہاتھ میں ہیلیکن وہ اپنی حکمت اور طریقہ کار کے تحت ظالمون کو ڈھیل دیتا ہے۔

۲ ۔ لوگوں کی جلد بازی ، خدا کی حکمت کو تبدیل نہیں کر سکتی۔

۳ ۔ خدائی قہر و غضب میں تاخیر اس بات کا سبب نہ بن جائے کہ کفار خیال کرنے لگ جائیں کہ خدا نے ان کے کفر کو بھلا دیا ہے( واللّٰه اعلم بالشاکرین )

۴ ۔ ایمان سے روگردانی اور عذاب میں جلد بازی ظلم ہے( بالظٰلمین )

۵ ۔ اگر خداوند عالم کفار کے تقاضوں کے مطابق اپنے عذاب میں جلدی کرے تو کوئی شخص بھی زندہ نہ رہ سکے۔( اقضی الامر ) ۱۷

آیت ۵۹

( وَعِنْدَه مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَایَعْلَمُهَٓا اِلاَّ هُوَط وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِط وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ) ۔

ترجمہ۔ اور غیب کی چابیاں صرف اسی (خدا) کے پاس ہیں، اور انہیں اس کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔ اور وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو خشکی اور سمندر میں ہے۔ اور (درخت سے) کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اسے بھی جانتا ہے۔ اور کوئی بھی دانہ زمین کی تاریکیوں میں اور کوئی تراور خشک ایسا نہیں ہے مگر اس کا علم کتاب مبین میں (درج) ہے۔

دو نکات:

۹; "مفاتیح" ایک تو خزینہ کے معنی میں ہے اور وہ "مفتح" کی جمع ہے، اور دوسرے چابی کے معنی میں ہے اور وہ "مفتح" کی جمع ہے، لیکن پہلا معنی زیادہ بہتر ہے (از تفسیر المیزان)

۹; خشکی اور سمندر یا خشک اور تر کا کلمہ کنایہ ہے ان دوسری تمام چیزوں سے جو ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ جیسے موت اور حیات، صحت اور بیماری، فقر اور غنا، نیک اور بد اور مجرد اور مادہ۔ نیز یہی بات سورہ یس/ ۱۱ میں بھی بیان ہوئی ہے ارشاد ہوتا ہے "( وکل شیٴ احصیناه فی امام مبین ) "

پیام:

۱ ۔ چونکہ خداوند عالم ہر چیز سے واقف اور کائنات کی تمام جزئیات سے باخبر ہے لہٰذا ہمیں اپنے اعمال کا خاص خیال رکھناچاہئے۔

۲ ۔ خدا کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اپنی طرف سے علم غیب نہیں جانتا( وعنده )

۳ ۔ ہو سکتا ہے کہ پتوں کے گرنے سے مراد "نزولی حرکات" ہوں اور دانہ کے زمین کے اگنے سے "صعودی حرکات" مراد ہوں۔ (تفسیر فی ظلال القرآن)

۴ ۔ کائنات میں معلومات کا ایک مرکز موجود ہے( کتاب مبین )

۵ ۔ نظام کائنات، باقاعدہ منصوبہ کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔( کتاب مبین )

آیت ۶۰

( وَهُوَ الَّذِْیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیْهِ لِیُقْضٰٓی اَجَلٌ مُّسَمًّی ج ثُمَّ اِلَیْهِ مَرْجِعُکُمْ ثُمَّ یُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ وہ (خدا تو) وہی ہے جو تمہیں (تمہاری روح کو) رات کے وقت (نیند کی حالت میں) پوری طرح لے لیتا ہے اور تم نے جو کچھ دن کو انجام دیا ہے اسے جانتا ہے، پھر تمہیں دن میں دوبارہ اٹھاتا ہے تاکہ مقررہ مدت پوری ہو اور اس کے بعد تمہاری بازگشت اسی کی طرف ہو گی پھر تمہیں وہ ہر اس کام سے باخبر کرے گا جو تم کیا کرتے تھے۔

ایک نکتہ:

۹; "جرحتم" کا کلمہ "جارحہ" بمعنی عضو سے لیا گیا ہے یعنی ایسا عضو جس سے کوئی کام سرانجام دیا جاتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ نیند ایک عارضی موت ہے اور نیند سے بیداری ایک قسم کا قبر سے باہر آنا ہے۔( یتو فاکم- یبعثکم )

۲ ۔ انسان کی حقیقت وہی روح ہی ہے، کیونکہ آیت میں( یتوفاکم ) فرمایا ہے "یتو فی روحکم" نہیں فرمایا۔

۳ ۔ ہماری جان ہر رات خدا کے سپرد ہوتی ہے اور ہر رات ہمارے لئے قبر کی پہلی رات کی مانند اور ہر بیداری قبر سے باہر آنے کی طرح ہوتی ہے۔ (اس کے باوجود پھر موت اور قبر سے باہر آنے سے انکار کیا؟)

۴ ۔ قانون طبیعت بھی یہی ہے کہ رات سونے کے لئے اور دن کام کرنے کے لئے ہوتا ہے۔( جرحتم بالنهار- تیوفاکم باللیل )

۵ ۔ زندگی کا ہر دن ایک تازہ فرصت اور ایک نئی زندگی کا سرنامہ ہوتا ہے( یبعثکم )

۶ ۔ ہماری زندگی کے لئے ایک مقررہ تاریخ، منصوبہ اور متعینہ مدت ہے( اجل مسمی )

۷ ۔ اپنے آپ کو قیامت کے دن میں جواب دینے کے لئے تیار رکھو( الیه مرجعکم )

آیت ۳۱ ۔ ۳۲

( قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ ط حتّٰیٓ اِذَا جَآ ءَ تْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطْنَا فِیْهَالا وَ هُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلٰی ظهُوْرِِهِمْ ط اَ لَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ- وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ ط وَلَلدَّارُالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ چکھو بیشک جن لوگوں نے قیامت کے دن خدا کی حضوری کو جھٹلا دیا وہ بڑے گھاٹے میں ہیں یہا ں تک کہ جب ان کے سر پر قیامت ناگہاں پہنچے گی تو کہنے لگیں گے اے ہے افسوس ہم نے تو اس میں بڑی کوتاہی کی (یہ کہتے جائیں گے) اور اپنے گناہوں کا پشتاوہ اپنی اپنی پیٹھ پر لادے جائیں گے دیکھو تو (یہ) کیا بوجھ ہے جس کو یہ لادے (لادے) پھر رہے ہیں اور (ئی) دنیاوی زندگی تو کھیل تماشے کے سوا کچھ بھی نہیں اور یہ تو ظاہر ہے کہ آخرت کا گھر (بہشت)پرہیزگاروں کے لئے اس سے بدرجہا بہتر ہے تو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے۔

چند نکات:

۱ ۔ اگر دنیا، آخرت کی کھیتی قرار نہ پائے تو بازیچہ( ٴ ) اطفال بن جاتی ہے ۔ اور لوگ اس میں بچوں کی مانند مال و مقام وغیرہ جیسے کھلونوں سے کھیلتے ہیں۔ بالکل ویسے جس طرح کسی ڈرامہ میں کوئی شخص بادشاہ کا لباس پہن کر اس جیسا کردار ادا کرتا ہے کوئی وزیر کا ، کوئی کوتوال ، چوکیدار کا۔ لیکن جب ڈرامہ ختم ہو جاتا ہے اور لباس اتر جاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک نمائش اور خیال تھا اور بس!

۲ ۔ قرآن مجید کی دوسری آیات کے پیش نظر، زیرِ نظر آیت کو رہبانیت اور ترک دنیا کا دائمی نہیں سمجھنا چاہئے۔

۳ ۔ دنیا کو لہو و لعب سے تشبیہ دینے کی درج ذیل وجوہات ہیں۔

ا۔ دنیا بھی کھیل کے دورانیہ کی مدت کی مانند کوتاہ ہے۔

ب۔ جس طرح کھیل میکں تفریح بھی ہوتی ہے اور تھکاوٹ بھی ، اسی طرح دنیا بھی تلخ اور شیریں حالات کا مجموعہ ہے۔

ج۔ اپنے مقصد تخلیق سے غافل لوگوں نے کھیل کو اپنا کاروبار بنا لیا ہے۔

پیام:

۱ ۔ خود خالقِ دنیا، آخرت سے غفلت اور دنیا کے ساتھ سرگرمی کو کھیل تماشہ سمجھتا ہے، ہم کیوں باور نہیں کرتے؟

۲ ۔ "انجام" پر نظر رکھنے والے کے لئے "آخرت" بہتر ہے۔ اور "طعام" پر نظر رکھنے والے کے لئے دنیا بہتر ہے (کیونکہ وہ اسی مستی میں مست ہے)

۳ ۔ آخرت کو مد نظر رکھے بغیر دنیا خطرناک ہے۔ اور جو دنیا آخرت کی کھیتی، آخرت کے لئے مقدمہ، آخرت کے لئے گزرگاہ اور آخرت کے لئے مقام تجارت ہو وہ میدان رُشدیددایت اور مقام نشونما ہے۔

۴ ۔ آخرت صاحبان تقوٰی کے لئے کے لئے مطلق خیر ہے۔ ورنہ تو اس میں انہیں کوئی رنج ہو گا، نہ تو وہ عارضی ہو گی اور نہ ہی وہ صرف اوہام اور خیالات پر مبنی ہے۔

۵ ۔ عقل سے کام لینا، تقوٰی اختیار کرنا اور آخرت پر ایمان رکھنا یہ سب ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔( للدارالاخرة، تیقون، تعقلون )

۶ ۔ تقویٰ، آخرت کی نعمتوں تک رسائی کا ذریعہ ہے۔( خیر اللذینِ تیقون )

آیت ۳۳

( قَدْ نَعْلَمُ اِنَّه لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) البتہ ہم جانتے ہیں جو کچھ وہ کہتے ہیں ان کی باتیں آپ کو غمگین کر دیتی ہیں وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ (یہ) ظالم لوگ (حقیقت میں) خدا کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔

ایک نکتہ:

اس آیت کے شان نزول کے بارے بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن آپ کو صادق اور امین سمجھتے تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے تھے کہ "اگر ہم ان کی تصدیق کریں گے تو قوم و قبیلہ میں ہماری توہین ہو گی اور ہماری ساکھ خراب ہو جائے گی۔" اس طرح سے وہ آیات الٰہی کی تکذیب کرتے تھے۔

پیام:

۱ ۔ ہادی برحق کو مخالفین کی تکذیب سے نہیں گھبرانا چاہئے۔

۲ ۔ حتیٰ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی تسلی، تشویق اور دلجوئی کی ضرورت ہوتی ہے۔

۳ ۔ جن لوگوں پر زبان کے ذریعہ ظلم کیا جاتا ہے ان کی حمایت کی جانی چاہئے۔( قد نعلم انه… )

۴ ۔ پیغمبر کی تکذیب درحقیقت خدا کی تکذیب ہوتی ہے جس طرح کہ پیغمبر کی بیعت درحقیقت خدا کی بیعت ہوتی ہے۔

۵ ۔ بڑی بڑی مشکلات کو پیش نظر رکھ کر اپنی مشکل کو آسان سمجھئے۔( لایکذبونک…بایات الله یجحدون )

۶ ۔ پیغمبر کے مخالفین درحقیقت خدا کا فریق مخالف ہیں لہٰذا غمگین نہیں ہونا چاہئے۔

۷ ۔ جھٹلائے جانے میں صرف پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکیلے فرد نہیں ہیں، آیات خداوندی کے مخالف لوگ تمام انبیاء کی تکذیب اور مخالفت کرتے رہے۔ (جیسا کہ بعد والی آیت میں ہے "( کذبت رسل من قبلک )

۸ ۔ آیات الٰہی اور اولیاء اللہ کی تکذیب کا نتیجہ ایک تو جھٹلانے والوں کا اپنی ذات پر ظلم ہوتا ہے کہ ایمان نہیں لاتے، دوسرے رسول خدا پر ظلم ہوتا ہے کہ انہیں غمگین اور محزون کرتے ہیں تیسرے مذہب و ملت پر ظلم ہوتا ہے اور چوتھے نسل انسانی پر ظلم ہوتا ہے۔

آیت ۳۴

( وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَ اُوْذُوْا حَتّٰیٓ اَتٰهُمْ نَصْرُنَاج وَلَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰهِج وَلَقَدْ جَآءَ کَ مِنَ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور یقین جانئے کہ آپ سے پہلے انبیاء کو بھی جھٹلایا گیا، لیکن انہوں نے تکذیب اور مصائب پر صبر کیا یہاں تک کہ ان تک ہماری امداد پہنچ گئی۔ خدا کے کلمات (اور طریقہ کار) کو کوئی تبدیل کرنے والا نہیں، یقیناً پیغمبروں کی طرح کچھ خبریں آپ تک پہنچ چکی ہیں (اور آپ ان کی تاریخ سے واقف ہیں)

ایک نکتہ:

سابقہ انبیاء اور ان کا صبر ہمارے لئے نمونہ ہونا چاہئے، اور ہود، صالح اور لوط وغیرہ جیسے پیغمبروں کی امتوں سے عبرت حاصل کرنی چاہئے جو انبیاء کو جھٹلانے کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئیں۔ انبیاء کا بھیجنا خدا کا کام ہے اور ان کی راہ کو اختیار کرنے میں بندوں کو آزادی حاصل ہے۔ البتہ وہ کفار کو سزا دیتا ہے اور انبیاء کی راہ حق کے لئے دعوت دینے میں امداد کرتا ہے۔

پیام

۱ ۔ حق کا سیدھا راستہ خطرات سے گھرا ہوا ہوتا ہے۔

۲ ۔ مشکلات اور شدائد میں ثابت قدم رہنے کا ایک بہترین اور اہم عنصر تاریخ اور خدا کے طریقہ کار سے آشنائی ہے

۳ ۔ رہبر کو اس بات کی توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ تمام دنیا اس کی اطاعت کرے گی۔

۴ ۔ کامیابی کی اصل شرط صبر ہے( فصبروا )

۵ ۔ حق کے دشمن حق کے خلاف کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرتے کبھی تکذیب کرتے ہیں اور کبھی ایذائیں پہنچاتے ہیں۔( کذبوا، اوزوا )

۶ ۔ حق، ہمیشہ کامیاب و کامران اور سرخرو ہوتا ہے( نصرها ) ۷

۷ ۔ خدائی طریقہ کار میں کبھی تبدیلی نہیں آتی( لامبدل لکلمات الله ) ۸

۸ ۔ نصرت الہٰی کے پہنچنے تک صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے( حتی اتاهم )

۹ ۔ گزشتہ لوگوں کے رنج اٹھانے اور تکلیفیں برداشت کرنے کی قدر کرنی چاہئے( ولقد جاء ک… )

۱۰ ۔ ہر شخص کو اپنے جیسے تاریخی نمونے پہچاننے چاہئیں( نبای المرسلین )

آیت ۳۵

( وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرٰضُهُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْسُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَهُمْ بِاٰیٰةٍط وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَی الْهُدٰي فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور اگر ان (کفار) کی روگردانی اور بے اعتنائی تمہارے لئے گراں ہے (اور چاہتے ہو کہ ہر صورت میں انہیں راہ راست پر لے آؤ تو) اگر کر سکتے ہو کہ زمین میں نقب لگا کر یا آسمان میں سیڑھی لگا کر ان کے لئے کوئی آیت لے آؤ (پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لے آئیں گے) اور اگر خدا چاہے تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر دے، (لیکن یہ خدا کا طریقہ نہیں ہے) پس تم ہرگز جاہلوں میں سے نہ ہونا۔

ایک نکتہ:

اس آیت کے شان نزول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: کفار حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتے تھے کہ "( لن نومن لک حتی تفجر لنا من الارض ینبوعاً او ترقی فی السماء ) " (بنی اسرائیل/ ۹۰) یعنی ہم آپ پر اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ آپ ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری نہیں کریں گے یا آسمان پر نہیں چڑھ جائیں گے۔

شاید یہ آیت ان مشرکین کے ان بے جا تقاضوں کی طرف اشارہ ہو کہ اگر آپ زمین میں نقب لگائیں یا سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ جائیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اس لئے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ میرے پیغمبر! آپ کی دعوت اور تبلیغ میں کسی قسم کا عیب اور نقص نہیں ہے، بلکہ یہ لوگ ضدی، ہٹ دھرم اور اکھڑ ہیں لہٰذا آپ ان کی ہدایت اور انہیں راہ راست پر لانے کے لئے اس قدر دل سوزی سے کام نہ لیں۔

پیام:

۱ ۔ حضرت رسول خدا لوگوں کی ہدایت کے لئے دلسوز اور ان کی روگردانی پر غمگین تھے۔( کبر علیک )

۲ ۔ اسلامی تعلیمات میں کوئی نقص نہیں ہے، ساری خرابی ضدی اور ہٹ دھرم کفار کی طبیعتوں میں ہے۔

۳ ۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت کر سکتا ہے لیکن اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان آزاد رہیں۔

۴ ۔ بہانہ گیر لوگوں کے ہر تقاضے کو پورا کرنا اور مبلغین کی بے صبری اور بے قراری جہالت ہے۔( فلاتکونن من الجاهلین )

آیت ۳۶

( اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ ط وَ الْمَوْتٰی یَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ صرف وہی لوگ ہی بات کو قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں، اور مردوں کو تو اللہ تعالیٰ دوبارہ اٹھائے گا اور پھر سارے کے سارے اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔

ایک نکتہ:

قرآن مجید نے بات کو قبول نہ کرنے والوں کو کئی مقامات پر "مردے" اور "بہرے" کی تعبیر کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ منجملہ ان کے سورہ نمل/ ۸۰ اور سورہ روم/ ۵۲ میں ہم پڑھتے ہیں کہ: "انک لا تسمع الموتی ولا تسمع الصم الدعاء اذا ولوا مدبرین" یعنی اے پیغمبر! نہ تو آپ مردوں کو اپنی آواز سنا سکتے ہیں اور نہ ہی بہروں کو خصوصاً جب وہ پیٹھ پھیر کر چلے جائیں۔

پیام:

۱ ۔ انسان راہ کے انتخاب میں آزاد ہے( انما یستجیب… )

۲ حق کو سننا اور اسے تسلیم کرنا معنوی زندگی اور قلبی حیات کی علامت ہے۔

۳ ۔ جو حیات معنوی نہیں رکھتا اور حق کو تسلیم نہیں کرتا، مردہ ہے کیونکہ کھانے، پینے اور سونے اور چلنے، پھرنے والی زندگی تو حیوان بھی رکھتے ہیں۔

۴ ۔ اے میرے پیغمبر! حق کو قبول کرنے والے دل تمہارے ذمہ اور کفار میرے ذمہ! اور دیکھنا کہ قیامت کے دن ان سے کیسے نمٹتا ہوں!

آیت ۳۷

( وَقَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهط قُلْ اِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌ عَلٰٓی اَنْ یُنَزِّلَ اٰیَةً وَّلَکِنَّ اَکْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور (کفار نے) کہا: اس (پیغمبر) پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی معجزہ (جسے ہم چاہتے ہیں) نازل نہیں ہوا؟ (اے پیغمبر!) کہہ دو کہ خدا اس بات پر قادر ہے کہ کوئی معجزہ اور نشانی اتارے لیکن ان (بہانہ گیروں) میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔

دو نکات:

اس آیت کے شان نزول کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ: قریش کے کچھ روسأ بہانہ سازی کے طور پر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتے تھے: معجزہ کے طور پر صرف قرآن کافی نہیں ہے، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ اور حضرت صالح وغیرھم جیسے معجزات لے آئیے! (از تفسیر مجمع البیان)

جو پیغمبر، گزشتہ انبیاء کے معجزات یاد دلا رہا ہے وہ ان کے جیسے معجزات بھی لا سکتا ہے، ورنہ لوگوں کو ان انبیاء کے معجزے اس وجہ سے یاد نہ دلاتا کہ مبادا لوگوں کا اس سے بھی اسی قسم کے معجزات کا تقاضا شروع ہو جائے۔

البتہ شیعہ اور سنی روایات کے مطابق رسول خدا نے قرآن کے علاوہ بھی کئی اور معجزات لوگوں کو دکھائے ہیں۔

معجزات دکھانے کا مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ خداوند عالم اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ میرے اور رسول کے درمیان ایک خصوصی رابطہ ہے۔ اور میری قدرت حد و حساب سے باہر ہے۔ تاہم یہ مقصد ہرگز نہیں ہوتا کہ جب بھی کوئی ضدی مزاج اور ہٹ دھرم شخص مطالبہ کرے تو فوراً معجزہ دکھا دیا جائے۔ البتہ بعض اوقات لوگوں کی درخواست کے مطابق بھی معجزہ دکھایا گیا ہے۔

پیام:

۱ ۔ دشمنوں اور مخالفوں کے بہانوں پر کان نہ دھرو۔ (خداوند عالم فرماتا ہے "( ولوداننا نزلنا--- ) " یعنی اگر ہم لوگوں پر فرشتے اتار دیں یا ان سے مردے باتیں کرنے لگیں تو معاند لوگ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ (انعام/ ۱۱۱)

۲ ۔ معجزہ کا مقصد تو محبت اور دلیل قائم کرنا ہوتا ہے نہ کہ کسی ایرے غیرے کی فرمائش کو پورا کرنا۔

۳ ۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلسل معجزات بھی ضدی مزاج اور ہٹ دھرم لوگوں کی ہدایت کا سبب نہیں بن سکے بلکہ الٹا ان کے لئے خدائی قہر و غضب اور سزا اور عذاب کا موجب بن گئے۔

۴ ۔ جہاں خداوند قادر مطلق ہے وہاں حکیم علی الاطلاق بھی ہے۔ لہٰذا اسکی قدرت و ہاں پر جلوہ گر ہوتی ہے جہاں اس کی حکمت کا تقاضا ہوتا ہے( ان الله قادر… )

آیت ۳۸

( وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا طَٓئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْط مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْ ءٍ ثُمَّ اِلٰی رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور زمین پر کوئی چلنے (پھرنے) والا نہیں اور اپنے دو پروں کے ساتھ اڑنے والا کوئی پرندہ نہیں مگر یہ کہ وہ بھی تمہاری طرح امتیں ہیں۔ ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کو فروگزاشت نہیں کیا، پھر سارے کے سارے اپنے پروردگار کے ہاں اکٹھے کئے جائیں گے۔

دو نکات:

قرآن مجید کی پرندوں اور ان کی صفات پر مکمل توجہ ہے۔ اور لوگوں کو ہدایت کرنے کے لئے ان کی تخلیق، شعور اور صفات کی یاددہانی کرا رہاہے، سورہ جاثیہ/ ۴ میں فرماتا ہے: و فی خلقکم وما یبث من دابة اٰیٰت للمومنین" یعنی تمہاری پیدائش میں بھی اور زمین پر چلنے پھرنے والے جانوروں (کی تخلیق) میں بھی یقین رکھنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔

روایات میں بھی اور انسانی تجربوں میں بھی جانوروں کے ادراک اور شعور کے وافر نمونے ملتے ہیں۔

ممکن ہے کہ "کتاب" سے مراد "لوح محفوظ" بھی ہو۔

پیام:

۱ ۔ مخلوق کی تخلیق اور اس کے مقاصد کی تکمیل کے لئے قدرت خداوندی تمام موجودات عالم کے لئے یکساں ہے( ومامن دابة …ولا طائر… )

۲ ۔ بامقصد تخلیق اور اجتماعی زندگی کا نظم و انتظام صرف انسانوں ہی سے مخصوص نہیں( امم امثالکم )

۳ ۔ انسان ہوں یا جانور، سب کو خدا کی تدبیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ خداوند عالم اپنی مصلحت کے مطابق انہیں شعور عطا کرتا ہے، سب تسبیح خداوندی بجا لاتے ہیں، سب خدا کا رزق کھاتے ہیں اور سب کے اندر نظم و نظام ہے۔

۴ ۔ جو جو چیزیں انسان کی رشد و ہدایت اور تربیت کا سبب بنتی ہیں ان سب کو قرآن مجید میں بیان کر دیا گیا ہے۔( مافرطنافی الکتٰب ) چاہے وہ چیزیں ایسی ہیں جنہیں انسان وحی کے بغیر نہیں سمجھ سکتا۔ چاہے ایسی چیزیں ہیں جن کاجاننا انسان کے لئے واجب اور ضروری ہے اور خواہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں رہنما اصول کہا جاتا ہے۔

۵ ۔ انسان کے ساتھ چرند و پرند کی مماثلت اور حیوانی زندگی کو سمجھنے کے لئے خوب غور و فکر اور عمیق مطالعہ و تجربہ کی ضرورت ہے( امم امثالکم )

۶ ۔ حیوانات پر بھی ظلم نہ کرو اور نہ ہی ان کے حق میں کوتاہی کرو کیونکہ وہ بھی تمہاری طرح ہیں( امم امثالکم ) (ازتفسیر قرطبی)

۷ ۔ قرآن مجید کامل ترین کتاب ہے( مافر طنافی الکتٰب من شیٴ ) ۹

۸ ۔ معاد اور حشر صرف انسانوں ہی سے مخصوص نہیں( ثم امی ربهم یحشرون )

حیوانات کا شعور:

آیات و روایات اور تجربوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شعور صرف انسان ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔

مندرجہ ذیل چند نمونے ملاحظہ ہوں۔

۱ ۔ حضرت سلیمان پیغمبر اپنے لشکر کے ساتھ ایک جگہ سے گزر رہے تھے کہ ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں سے کہا: "جلدی سے اپنے بلوں میں گھس جاؤ کہیں سلیمان کا لشکر تمہیں پامال نہ کر دے۔" (نمل/ ۱۸) یہ ٹھیک ہے کہ دشمن کی پہچان چیونٹیوں کے عزیزہ (فطرت ) میں شامل ہے لیکن یہ شناخت کہ یہ سلیمان ہیں اور ان کے ساتھ ان کا لشکر ہے یہ بات عزیزہ سے بالاتر ہے۔

۲ ۔ ہد ہد فضا کی بلندیوں سے زمین پر رہنے والے بندوں کے شرک سے مطلع ہوا اور سلیمان کے پاس آکر اس کا ذکر کیا کہ "سبا"کے رہنے والے کدا پرست نہیں ہیں ، اس کے ذمہ ایک کام لگایا جسے اس نے انجام دیا ہے۔ شرک اور توحید کی معرفت کہ یہ شرک بری چیز ہے، اس بات کی خبر حضرت سلیمان پیغمبر تک پہنچانا اور پھر پیغام رسانی کی خصوصی ڈیوٹی انجام دینا یہ سب کچھ عزہزہ سے بالاتر امور ہیں۔

۳ ۔ ہد ہد کا غائب ہو جانے کے بعد واپس آکر غیر حاضری کی معقول اور قابلِ قبول دلیل کرنا عزہزہ سے بالاتر شعور کی دلیل ہے۔

۴ ۔ خدا فرماتا ہے کہ "تمام موجودات ِ عالم خدا کی تسبیح پڑھتے ہیں لیکن تم اسے نہیں سمجھتے" "تسبیح تکوینی" کو تو ہم سمجھ سکتے ہیں لیکن دوسری تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے جس کا ذکر قرآن نے کیا ہے۔

۵ ۔ قرآن مجید میں تمام معجودات کا خدا کے لئے سجدہ ریز ہونے کا ذکر ہے۔

۶ ۔ بعض جانوروں ازآنجملہ کتے میں اپنے مالک اور اس کے بچوں کے لئے وفاداری کا عنصر۔ اس کے خصوصی شعور کی علامت ہے۔

۷ ۔ جرائم خصوصاً منشیات اور اسمگلنگ کی دریافت کے لئے پولیس اور فوج کے کتوں کی تربیت یا شکار اور اشیاء کی خریداری کے لئے انہیں سدھایا جانا ان کے خاص شعور اور آگاہی کی دلیل ہے۔

۸ ۔ اسلام نے ایک جانور کودوسرے جانوروں کے سامنے ذبح کرنے سے منع کیا ہے۔

۹ ۔ حضرت سلیمان کے لشکر کی مشقوں میں پرندوں کی شرکت کا تذکرہ ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: "( وحئی لسلیمٰن جنوده من الجن و الانس والطیر… ) " یعنی حضرت سلیمان کے پاس جنوں، انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے جاتے (نمل/ ۱۷)

۱۰ ۔ پرندے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں اور حضرت سلیمان اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ "ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے "( علمنا منطق الطیر ) " (نمل/ ۱۶)

۱۱ ۔ بعض روایات میں بعض جانوروں کے لئے فضلیت اور درجات کا ذکر ہے، مثلاً جو اونٹ تین بار (عازمین حج کو لے کر) مکہ مکرمہ جائے تو وہ بہشتی ہے۔ (تفسیر صافی)

اسی طرح حضرت امام زین العابدین علیہ اسلام فرماتے ہیں جو اونٹ سات سال تک صحرائے عرفہ میں رہے وہ بہشتی جانوروں میں سے ہو گا۔ (تفسیر نور الثقلین)

۱۲ ۔ "( واذا الوحوش حشرت ) " یعنی جب وحشی جانوروں کو جمع کیا جائے گا (تکویر/) یہ آیت قیامت کے دن جانوروں کے محشور ہونے کو بیان کر رہی ہے۔

۱۳ ۔ "( کل قد علم صلاة و تسبیحه ) " یعنی سب کے سب اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتے ہیں (نور/ ۴۱) یہ آیت انسان کے علاوہ دوسری موجودات کے بارے میں ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حیوانات بھی شعوری طور پر عبادت کرتے ہیں۔

آیت ۳۹

( وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا صُمٌّ وَّ بُکْمٌ فِی الظُّلُمٰتِط مَنْ یَّشَاِ اللّٰهُ یُضْلِلْهُط وَمَنْ یَّشَاْ یَجْعَلْهُ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ) ۔

ترجمہ۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے وہ تاریکیوں میں بہرے اور گونگے ہیں۔ خداوند جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست پر قائم رکھتا ہے۔

ایک نکتہ:

اگرچہ ہدایت اور گمراہی خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن انسان کا اپنا ارادہ اور اس کے لئے تیار کی جانے والی راہیں بھی موثر ہوتی ہیں، اور خدا کا کام بھی حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ موجب ہوتا ہے خدا کی طرف سے ہدایت کا "( والذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا ) " اور خدا کے بندوں پر ظلم سبب ہوتا ہے گمراہی کا "یضل اللہ الظالمین"۔

پیام:

۱ ۔ کفر اور عناد ایسی ظلمت اور تاریکی ہے جو نجات کی راہوں سے دوری کا سبب بن جاتی ہے( فی الظلمات )

۲ ۔ حق کو چھپانا "گونگا پن" ہے اور حق کو نہ سننا "بہرا پن"( صم و بکم )

۳ ۔ لوگوں کا گمراہ کرنا اور ان پر خدا کا غضب نازل کرنا خود ان کی تکذیب کا نتیجہ ہوتا ہے۔( کذبوا…یضلله )

۴ ۔ صراط مستقیم پر چلنے کے لئے حق کے سننے والے کانوں، حق بات کہنے والی زبان اور باطن کی روشنی درکار ہوتی ہے۔

آیت ۴۰

( قُلْ اَرَءَ یْتَکُمْ اِنْ اَٰتکُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْکُمُ السَّاعَةُ اَغَیْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَجاِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ کہہ دو کہ آیا تم نے کچھ غور بھی کیا ہے کہ اگر (دنیا میں) خدا کا عذاب تمہارے پاس آجائے یا قیامت (کادن) تمہیں آلے تو کیا (اپنی نجات کے لئے پھر بھی ) غیر اللہ کو پکاروگے؟ اگر تم سچے ہو تو ۔

ایک نکتہ:

اگرچہ آیت کا خطاب کفارسے ہے جو معاد سے انکاری ہیں ، لیکن یہ بھی معلوم ہونا چاہئیے کہ ان میں سے بعض کا قیامت پر عقیدہ ہے ۔ علاوہ ازیں ہو سکتا ہے کہ "اتتکما الساعته " میں "ساعت سے مراد موت کا وقت یا قیامت سے پہلے ہو لناک حوادث کا ظہور ہو۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ فرض کرنے کی صورت میں ا یمان کا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔

پیام:

ا۔ حواد ثات اور مشکل حالا ت میں جب تمام پردے اٹھ جاتے ہیں تو انسان خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے( اغیرالله تد عون )


5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36