تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62991
ڈاؤنلوڈ: 5437

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62991 / ڈاؤنلوڈ: 5437
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۵۱

( وَاَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْآ اِلٰی رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِه وَلِیٌّ وَّلَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور اس (قرآن) کے ذریعہ ان لوگوں کو ڈراؤ جو اپنے پروردگار کے حضور محشور ہونے سے ڈرتے ہیں (کیونکہ) خداوند عالم کے علاوہ ان کا نہ تو کوئی ولی و سرپرست ہے اور نہ ہی کوئی شفاعت کرنے والا۔ ہو سکتا ہے کہ متقی بن جائیں۔

ایک نکتہ:

۹; قرآن مجید میں بارہا پیغمبر خدا سے کہا گیا ہے کہ آپ کا ڈرانا صرف ان لوگوں کے دلوں پر اثر کرتا ہے جو خدا سے ڈرتے ہیں۔ مثلاً "( انما تنذر من اتبع الذکر و خشی الرحمٰن ) " یعنی تم تو صرف اس شخص کو ڈرا سکتے ہو جو نصیحت کو مانے اور ان دیکھے، خد اسے ڈرے ( یٰس/ ۱۱) اور "( انما تنذرالذین یخافون ربهم بالغیب ) " یعنی تم تو بس ان لوگوں کو ڈرا سکتے ہو جو ان دیکھے، خدا سے ڈرتے ہیں (فاطر/ ۱۸)

پیام:

۱ ۔ لوگوں کی آمادگی، ہدایت انبیاء کے موثر ہونے کی شرط ہے( الذین یخافون )

۲ ۔ معاد (قیامت) کا عقیدہ تقویٰ کی کلید ہے( یخافون ان یحشروا…لعلهم یتقون )

آیت ۵۲

( وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهط مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْ ءٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْهِمْ مِّنْ شَیْ ءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ جو لوگ صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں جبکہ وہ اس کی رضامندی کے طلبگار ہوتے ہیں انہیں اپنے پاس سے نہ دھتکارو۔ ان کے حساب سے تمہارے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے اور تمہاے حساب سے ان کے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے کہ اگر تم نے انہیں دھتکار دیا تو ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔

چند نکات:

۹; اس آیت کے شان نزول کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ کچھ مالدار کفار نے جب دیکھا کہ عمار، بلال اور خباب وغیرہ جیسے غریب لوگ حضرت رسول خدا کے اطراف جمع رہتے ہیں، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کش کی کہ آپ ان لوگوں کو اپنے اطراف سے ہٹا دیں تاکہ ہم آپ کے پاس آیا کریں۔ بقول مفسر تفسیر "المنار" خلیفہ دوم نے یہ تجویز پیش کی کہ کفار کی اس پیشکش کو آزمائش کے طور پر قبول کر لیا جائے، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس سے ملتی جلتی سورہ کہف کی ۲۸ ویں آیت بھی ہے۔

۹; تفسیر قرطبی میں منقول ہے کہ اس آیت کے نازل ہو جانے کے بعد پیغمبر خدا غریبوں کی مجلس سے اس وقت تک نہیں اٹھتے تھے جب تک کہ وہ نہ اٹھ جاتے۔

۹; صبح و شام خدا کو پکارنے سے مراد شاید روزانہ کی نمازیں ہیں (تفیسر المیزان)

پیام:

۱ ۔ مخلص، فقیر اور مجاہد افرادی قوت کی حفاظت کرنا سرمایہ دار کفار کے امکانی جذب کرنے سے زیادہ اہم ہے( لاتطرد )

۲ ۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو امتیازات ‘نسل پرستی‘ تفوق طلبی اور ساز باز کے مخالف ہے (آیت کے شان نزول کے پیش نظر)

۳ ۔ "ایمان" کے ساتھ کوئی بھی امتیاز مقابلہ نہیں کر سکتا( یریدون وجهه )

۴ ۔ انبیاء کے طرفداروں کی غالب اکثریت غریب اور فقیر لوگوں کی تھی (آیت کے شان نزول کے پیش نظر)

۵ ۔ اسلا م میں "مقصد کا حصول" ہر قسم کے ذرائع اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ کفر کے سرداروں کو اپنانے کے لئے موجودہ مسلمانوں کی توہین نہیں کرنی چاہئے( لاتطرد )

۶ ۔ بہانہ بنانے والے اگر رہبر اور اس کے مسلک پر عیب نہیں لگا سکتے تو اس کے پیروکاروں یا پیروکاروں کی اقتصادی حالت کی عیب جوئی کرنے لگ جاتے ہیں (آیت کے شان نزول کے پیش نظر)

۷ ۔ معیار، افراد کی موجودہ حالت ہے۔ اگر غریب مومن اس سے پہلے کسی قسم کی کوئی خلاف ورزی کر چکے ہیں تو اس کا حساب کتاب خدا ہی کے سپرد ہے۔

۸ ۔ سب کا حساب خدا کے سپرد ہے، حتی کہ رسول اکرم بھی کسی کے گناہوں کے بخشنے یا سزا دینے کے ذمہ دار نہیں ہیں (برخلاف دین مسیحیت کے کہ ان کے لاٹ پادری گناہوں کو بخش دیتے ہیں)( ماعلیک )

۹ ۔ مخلص غریب اور فقیر افراد کو دھتکار دینا ظلم ہے( فتکون من الظالمین )

۱۰ ۔ پیغمبر اکرم کے لئے بھی حساب و کتاب ہے( وما من حسابک )

آیت ۵۳

( وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَهٰٓوٴُ لَآ ءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنْ م بَیْنِنَاط اَلَیْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰکِرِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور اسی طرح ہم نے بعض لوگوں کی دوسرے بعض افراد کے ذریعہ آزمائش کی ہے تاکہ وہ (استہزا کے طور پر) کہیں، آیا یہی وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہمارے درمیان میں سے ممنون فرمایا ہے؟ آیا خداوند عالم شکر ادا کرنے والوں کے حالات زیادہ نہیں جانتا؟

دو نکات:

۹; قرآن مجید میں بارہا سرمایہ داروں کی بلندپروازیوں اور اونچی اونچی توقعات کا ذکر آیا ہے اور اس سلسلہ میں ان کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ مثلاً ان کی ایک توقع یہ تھی کہ قرآن مجید ان پر ہی نازل ہوتا چنانچہ قرآن کہتا ہے:( لاء القی الذکر علیه من بیننا ) " یعنی آیا ہم سرمایہ داروں کے درمیان وحی اس پر نازل ہوئی؟ (قمر/ ۲۵) اور سورہ زخرف/ ۳۱ میں ہے وہ کہتے تھے "( لو لا نزل هذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم ) " یعنی یہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی ایک بڑے آدمی پر نازل کیوں نہیں ہوا؟۔

۹; حقیقی مومن، نعمت ایمان پر شکر ادا کرتا ہے۔ چنانچہ کسی شخص نے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے فقر و فاقہ اور غربت کی شکایت کی، امام علیہ اسلام نے اس سے فرمایا: "تمہاری نگاہوں میں مالدارترین شخص کون ہے؟ "اس نے کہا: "ہارون الرشید" امام نے اس سے فرمایا: " آیا اس بات کے لئے تیار ہو کہ اپنا ایمان دے کر اس کی ثروت حاصل کرو؟" اس نے عرض کیا: "نہیں! "فرمایا! "پس تو تم ہی سب سے زیادہ تونگر ہو! اس لئے کہ تمہارے پاس ایک ایسی چیز ہے جسے تم اس کے مال و دولت کے بدلے میں نہیں دینا چاہتے!" (از تفسیر اطیب البیان)

پیام:

۱ ۔ طبقاتی تقسیم بعض اوقات، امتحان کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی عادات و خصائل کے پروان چڑھنے کا موجب بھی! امیروں کا امتحان غریبوں کے ذریعہ ہوتا ہے( فتنا بعضهم ببعض )

۲ ۔ امیر لوگ، غریبوں کا مذاق اڑاتے ہیں( أ هولا ءٓ )

۳ ۔ غریب مومن، خدا کے برگزیدہ بندے ہوتے ہیں( من الله علیهم )

۴ ۔ انبیاء کرام علیہم السلام خدا کے شکرگزار بندوں کا واضح نمونہ ہوتے ہیں( بالشاکرین )

۵ ۔ غریبوں پر خدا کا احسان، ان کے شکر کا نتیجہ ہوتا ہے (( من الله- شاکرین )

۶ ۔ کفار کے توہین کرنے کا جواب، مومنین کو خدا کی طرف سے نوازشات کی صورت میں دیا جاتا ہے( اهوٴلاء- اعلم بالشٰکرین )

۷ ۔ خداوند اپنی حکمت کے مطابق کام کرتا ہے، لوگوں کی توقعات کے مطابق نہیں،( لیس الله باعلم بالشاکرین )

آیت ۵۴ ۔ ۵۵

( وَاِذَا جَآ ءَ کَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِهِ الرَّحْمةَلا اَنَّه مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سَوْٓءً ام بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ م بَعْدِه وَاَصْلَحَ فَاَنَّه غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ- وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ جب وہ لوگ تمہارے پاس آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو (ان سے) کہو تم پر سلام ہو۔ تمہارے پروردگار نے اپنی ذات پر رحمت واجب کر دی ہے کہ تم میں سے جو شخص نادانستہ طور پر کوئی برا کام انجام دیتا ہے اور پھر توبہ کرکے اپنی اصلاح کر لیتا ہے تو یقیناً خدا وند عالم بھی بخشنے والا مہربان ہے۔

۹; اور ہم اسی طرح (لوگوں کے لئے) تفصیل کے ساتھ آیات کو بیان کرتے ہیں تاکہ حق آشکار اور) گناہگاروں کا راستہ واضح ہو جائے۔

دو نکات:

۹; اس آیت کے شان نزول کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ کچھ گنہگار لوگ حضرت رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے "ہم نے بہت سی خلاف ورزیاں کی ہیں!" یہ سن کر آنحضرت خاموش ہو گئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۹; اسی سورت میں اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ "کتب علی نفسہ الرحمة" کا جملہ ارشاد فرمایا ہے۔ ایک تو اسی دنیا میں سرگرم رہنے کے لئے ہے (زیر نظر آیت) اور دوسرا قیامت کے لئے ہے (آیت ۱۲)

پیام

۔ اگر گناہ کو ہٹ دھرمی غرور اور ضد کی بنا پر انجام نہ دیا جائے تو قابل معافی ہوتا ہے( جهالة ) ۱۶

۲ ۔ رہبر اور عوام کا باہمی رابطہ انس و محبت کی بنیادوں پر مبنی ہونا چاہئے( قل سلام علیکم )

۔ "سلام" اسلام کی علامت ہے اور بڑا چھوٹے کو سلام کرتا ہے( سلام علیکم )

۴ ۔ مربی اور مبلغ کو چاہئے کہ لوگوں کے ساتھ محبت کرکے ان کی شخصیت سازی کرے( سلام علیکم )

۵ ۔ خداوند عالم نے رحمت کو اپنے اوپر واجب کر دیا ہے، لیکن اس کے شامل حال توبہ کرنے والے ہیں۔( کتب…ثم تاب )

۶ ۔ توبہ صرف ایک لفظ کا نام نہیں ہے، اس کے لئے عزم مصمم اور اصلاح احوال کی ضرورت بھی ہوتی ہے( تاب واصلح )

۷ ۔ مومن کی توبہ قابل قبول ہے ہر شخص کی نہیں۔( عمل منکم )

۸ ۔ خدا کی بخشش اس کی رحمت کے ساتھ ساتھ ہے( غفور رحیم )

۹ ۔ مجرمین کی علامتیں اور خطاکاروں اور سازشی عناصر کی راہیں واضح کرنا مذہب اور دین کے اہداف میں شامل ہے۔( لتستبین )

آیت ۵۶

( قُلْ اِنِّیْ نُهِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِط قُلْ لَّآ اَتَّبِعُ اَهْوَآءَ کُمْ قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) کہہ دو کہ مجھے ان کی عبادت سے روک دیا گیا ہے کہ تم خدا کے علاوہ جن کو پکارتے ہو، (یہ بھی) کہہ دو کہ میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کرتا کیونکہ ایسی صورت میں میں گمراہ ہو جاؤں گا، اور ہدایت یافتہ افراد سے نہیں ہوں گا۔

پیام:

۱ ۔ بے جا خواہشات کا دو ٹوک الفاظ میں نفی میں جواب دینا چاہئے( نهیت، لااتبع، ضللت )

۲ ۔ پیغمبر اسلام کے موقف کا مرکز اور منبع وحی الٰہی ہے( قل- قل )

۳ ۔ شرک سے اظہار برائت، اسلام کا جزو ہے( نهیت ان اعبد )

۴ ۔ شرک کا اصل مرکز، ہوس پرستی ہے( لااتبع اهوائکم )

۵ ۔ مبلغ کو نہیں چاہئے کہ وہ لوگوں کی خواہشات کو پورا کرتا پھرے( لااتبع اهوائکم )

۶ ۔ ہوس پرستی، ہدایت کے رستے گم کر دیتی ہے( لااتبع اهوائکم…وما انا من المهتدین )

آیت ۵۷

( قُلْ اِنِّیْ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَکَذَّبْتُمْ بِهط مَا عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهط اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰهِط یَقُصُّ الْحَقَّ وَ هُوَ خَیْرُ الْفَاصِلِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) کہہ دو کہ میں تو یقیناً اپنے پروردگار کی روشن دلیل پر ہوں، لیکن تم اسے جھٹلاتے ہو۔ اور تم (خدا کی) جس فوری سزا کی جلدی کے خواہاں ہو وہ میرے پاس نہیں ہے۔ حکم تو بس اللہ ہی کے لئے ہے، وہی حق کو بیان کرتا ہے اور وہ (حق کو باطل سے) بہترین جدا کرنے والا (حاکم) ہے۔

چند نکات:

۹; "بینہ" کا لفظ "بینونہ" سے ہے جس کا معنی ہے "جدائی" اور بینہ اس دلیل کو کہتے ہیں جو مکمل طور پر واضح اور روشن ہو اور حق کو باطل سے جدا کر دے۔

۹; کفار کہتے تھے کہ اے محمد! اگر تم سچ کہتے ہو تو پھر ہم پر خدا کا قہر و غضب نازل کیوں نہیں ہوتا؟( تستعجلون به ) بعینہ اس آیت کی مانند جس میں کہا گیا ہے کہ کافر کہتے ہیں کہ اگر یہ بات سچی ہے تو اے اللہ! ہم پر پتھر برسا("( فامطر علینا حجارة من السماء ) " (انفال/ ۳۲)

۹; انبیاء کے دلائل اور معجزات نہ تو ثقیل (بوجھل) ہوتے تھے اور نہ ہی مبہم۔ سب لوگ انہیں سمجھ لیتے تھے بشرطیکہ ہٹ دھرمی اور ضد سے کام نہ لیتے ہوں۔ اور انہیں دل وجان سے تسلیم بھی کر لیتے تھے۔ اسی لئے تو انبیاء نے اپنا تعارف "صاحب بینہ" کے طور پر کرایا ہے۔

۹; "استعجال" یعنی جلد عذاب خواہی کی بیماری دوسری قوموں میں بھی تھی، حضرت صالح، حضرت ہود اور حضرت نوح کی قوم کے افراد بھی کہا کرتے تھے "فاتنا بما تعدنا" یعنی اگر سچ کہتے ہو تو عذاب موعود کو ہمارے لئے لے آؤ (اعراف/ ۷۰ ۔ ۷۷ ہود/ ۳۲)

پیام:

۱ ۔ انبیاء کی دعوت کا دارومدار "بینہ" (واضح دلیل) پر ہوتا ہے، خیالات اور اندھی تقلید پر نہیں۔( علی بینة )

۲ ۔ انبیاء کے پاس "بینہ الٰہی" ہونا چاہئے انہیں لوگوں کے روزمرہ کے تقاضوں کے مطابق عمل نہیں کرنا چاہئے( بینة من ربی )

۳ ۔ کفار ادھر تو پیغمبر کے بینہ کو جھٹلاتے ہیں اور ادھر اس بات کی توقع بھی رکھتے ہیں کہ وہ ان کی خواہشات نفسانی کی اتباع بھی کریں( کذبتم ما عندی تستعجلون به )

۴ ۔ بہانہ گروں کے ساتھ دوٹوک الفاظ میں بات کرنی چاہئے۔( ما عنوی )

۵ ۔ یہ آیت جہاں کفار کو تہدید اور سرزنش کرا رہی ہے وہاں پیغمبر کو تسلی بھی دے رہی ہے ۔( خیر الفٰصلین )

۶ ۔ پیغمبر کو اللہ نے منطق اور بینہ دے کر بھیجا ہے اور کائنات کا سارا انتظام خدا کے ہاتھ میں ہے (لہٰذا پیغمبر سے اپنی زندگی کے خاتمے کی درخواست نہ کرو)

آیت ۵۸

( قُلْ لَّوْ اَنَّ عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِه لَقُضِیَ الْاَمْرُ بَیْنِیْ وَ بَیْنَکُمْ ط وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِالظّٰلِمِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ کہہ دو کہ جس چیز کے بارے میں تم مجھ سے جلدی کا سوال کرتے ہو اگر وہ میرے پاس ہوتی (اور تمہارے کہنے کے مطابق عذاب نازل ہوتے) تو یقینا میرے اور تمہارے درمیان بات ہی ختم ہو جاتی ۔ اور اللہ تعالی ٰظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ ہر قسم کی سزا اور عذاب خدا کے ہاتھ میں ہیلیکن وہ اپنی حکمت اور طریقہ کار کے تحت ظالمون کو ڈھیل دیتا ہے۔

۲ ۔ لوگوں کی جلد بازی ، خدا کی حکمت کو تبدیل نہیں کر سکتی۔

۳ ۔ خدائی قہر و غضب میں تاخیر اس بات کا سبب نہ بن جائے کہ کفار خیال کرنے لگ جائیں کہ خدا نے ان کے کفر کو بھلا دیا ہے( واللّٰه اعلم بالشاکرین )

۴ ۔ ایمان سے روگردانی اور عذاب میں جلد بازی ظلم ہے( بالظٰلمین )

۵ ۔ اگر خداوند عالم کفار کے تقاضوں کے مطابق اپنے عذاب میں جلدی کرے تو کوئی شخص بھی زندہ نہ رہ سکے۔( اقضی الامر ) ۱۷

آیت ۵۹

( وَعِنْدَه مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَایَعْلَمُهَٓا اِلاَّ هُوَط وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِط وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ) ۔

ترجمہ۔ اور غیب کی چابیاں صرف اسی (خدا) کے پاس ہیں، اور انہیں اس کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔ اور وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو خشکی اور سمندر میں ہے۔ اور (درخت سے) کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اسے بھی جانتا ہے۔ اور کوئی بھی دانہ زمین کی تاریکیوں میں اور کوئی تراور خشک ایسا نہیں ہے مگر اس کا علم کتاب مبین میں (درج) ہے۔

دو نکات:

۹; "مفاتیح" ایک تو خزینہ کے معنی میں ہے اور وہ "مفتح" کی جمع ہے، اور دوسرے چابی کے معنی میں ہے اور وہ "مفتح" کی جمع ہے، لیکن پہلا معنی زیادہ بہتر ہے (از تفسیر المیزان)

۹; خشکی اور سمندر یا خشک اور تر کا کلمہ کنایہ ہے ان دوسری تمام چیزوں سے جو ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ جیسے موت اور حیات، صحت اور بیماری، فقر اور غنا، نیک اور بد اور مجرد اور مادہ۔ نیز یہی بات سورہ یس/ ۱۱ میں بھی بیان ہوئی ہے ارشاد ہوتا ہے "( وکل شیٴ احصیناه فی امام مبین ) "

پیام:

۱ ۔ چونکہ خداوند عالم ہر چیز سے واقف اور کائنات کی تمام جزئیات سے باخبر ہے لہٰذا ہمیں اپنے اعمال کا خاص خیال رکھناچاہئے۔

۲ ۔ خدا کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اپنی طرف سے علم غیب نہیں جانتا( وعنده )

۳ ۔ ہو سکتا ہے کہ پتوں کے گرنے سے مراد "نزولی حرکات" ہوں اور دانہ کے زمین کے اگنے سے "صعودی حرکات" مراد ہوں۔ (تفسیر فی ظلال القرآن)

۴ ۔ کائنات میں معلومات کا ایک مرکز موجود ہے( کتاب مبین )

۵ ۔ نظام کائنات، باقاعدہ منصوبہ کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔( کتاب مبین )

آیت ۶۰

( وَهُوَ الَّذِْیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیْهِ لِیُقْضٰٓی اَجَلٌ مُّسَمًّی ج ثُمَّ اِلَیْهِ مَرْجِعُکُمْ ثُمَّ یُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ وہ (خدا تو) وہی ہے جو تمہیں (تمہاری روح کو) رات کے وقت (نیند کی حالت میں) پوری طرح لے لیتا ہے اور تم نے جو کچھ دن کو انجام دیا ہے اسے جانتا ہے، پھر تمہیں دن میں دوبارہ اٹھاتا ہے تاکہ مقررہ مدت پوری ہو اور اس کے بعد تمہاری بازگشت اسی کی طرف ہو گی پھر تمہیں وہ ہر اس کام سے باخبر کرے گا جو تم کیا کرتے تھے۔

ایک نکتہ:

۹; "جرحتم" کا کلمہ "جارحہ" بمعنی عضو سے لیا گیا ہے یعنی ایسا عضو جس سے کوئی کام سرانجام دیا جاتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ نیند ایک عارضی موت ہے اور نیند سے بیداری ایک قسم کا قبر سے باہر آنا ہے۔( یتو فاکم- یبعثکم )

۲ ۔ انسان کی حقیقت وہی روح ہی ہے، کیونکہ آیت میں( یتوفاکم ) فرمایا ہے "یتو فی روحکم" نہیں فرمایا۔

۳ ۔ ہماری جان ہر رات خدا کے سپرد ہوتی ہے اور ہر رات ہمارے لئے قبر کی پہلی رات کی مانند اور ہر بیداری قبر سے باہر آنے کی طرح ہوتی ہے۔ (اس کے باوجود پھر موت اور قبر سے باہر آنے سے انکار کیا؟)

۴ ۔ قانون طبیعت بھی یہی ہے کہ رات سونے کے لئے اور دن کام کرنے کے لئے ہوتا ہے۔( جرحتم بالنهار- تیوفاکم باللیل )

۵ ۔ زندگی کا ہر دن ایک تازہ فرصت اور ایک نئی زندگی کا سرنامہ ہوتا ہے( یبعثکم )

۶ ۔ ہماری زندگی کے لئے ایک مقررہ تاریخ، منصوبہ اور متعینہ مدت ہے( اجل مسمی )

۷ ۔ اپنے آپ کو قیامت کے دن میں جواب دینے کے لئے تیار رکھو( الیه مرجعکم )