تفسیرنور

تفسیرنور5%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69150 / ڈاؤنلوڈ: 8330
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

1

2

3

آیت ۶۱

( وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِه وَ یُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَةً ط حَتّٰیٓ اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور وہ وہی (خدا) ہی تو ہے جو اپنے بندوں پر مکمل تسلط رکھتا ہے۔ اور تمہارے اوپر نگرانی کرنے والے (فرشتے) بھیجتا ہے۔ حتیٰ کہ جب تم میں سے کسی ایک کو موت آتی ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے اس کی جان کو پوری طرح اپنے پاس لے لیتے ہیں۔ اور یہ فرشتے کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے۔

دو نکات:

۹; قبض روح کا مسئلہ قرآن مجید میں کہیں تو خدا کی طرف منسوب ہے جیسے "( الله یتو فی الانفس ) " (زمر/ ۴۲) کہیں ملک الموت کی طرف جیسے "( یتو فاکم ملک الموت ) " (سجدہ/ ۱۱) اور کہیں خصوصاً اسی آیت میں فرشتوں کی طرف۔

۹; "محافظ فرشتوں" سے مراد ممکن ہے کہ وہ فرشتے ہوں جو انسان کو حوادثات سے بچانے پر مامور ہیں۔ جیسا کہ سورہ رعد/ ۱۱ میں ہے "( له معقبٰت من بین یدیه ومن خلفه یحفظونه من امر الله ) " یعنی انسان کے لئے مامور کچھ ایسے (فرشتے) ہیں جو پے درپے سامنے سے اور اس کے پیچھے سے اسے حوادثات سے محفوظ رکھتے ہیں (از تفسیرالمیزن) اور ممکن ہے کہ ان محافظ فرشتوں سے وہ فرشتے مراد ہوں جو انسان کے اعمال ثبت و درج کرنے پر مامور ہوتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے "( رسلنا لدیهم یکتبون ) " (زخرف/ ۸۰)

پیام:

۱ ۔ خدا کا بندوں پر تسلط اس حد تک ہے کہ کسی کو اس کے آگے چوں کرنے کی جرات نہیں( القاهر )

۲ ۔ کائنات عالم میں مختلف قسم کے نگران ہیں( حفظة )

۳ ۔ خداوند عالم مکمل طور پر قدرت کاملہ کا مالک ہے، اگر اس نے تمہیں آزاد چھوڑا ہوا ہے تو اس کی کمال مہربانی ہے۔( وهوالقاهر )

۴ ۔ فرشتوں کے ہر گروہ کی اپنی ایک مخصوص ڈیوٹی ہے( حفظة، توفته، رسلنا )

۵ ۔ فرشتے اپنے مقررکردہ فرائض کی بجا آوری میں سہل انگاری سے کام نہیں لیتے اور وہ معصوم ہیں( لایفرطون )

۶ ۔ فرشتوں کے نگہبان ہونے پر ایمان، خدا کے شکر کا موجب ہے جس طرح دوسری آیات کے مطابق فرشتوں کے ذریعہ اعمال کے لکھے جانے پر ایمان، حیا اور تقوی کا سبب ہے۔

آیت ۶۲

( ثُمَّ رُدُّوْآ اِلَی اللّٰهِ مَوْلٰهُمُ الْحَقِّ ط اَ لَا لَهُ الْحُکْمُ وَهُوَاَسْرَعُ الْحَاسِبِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ پھر لوگ اپنے حقیقی مولا کی طرف پلٹائے جائیں گے۔ آگاہ رہو کہ (اس دن) فیصلہ صرف اور صرف اسی کے ہاتھ میں ہو گا اور وہ سب سے جلد حساب لینے والا ہے۔

ایک نکتہ:

۹; روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا حساب ایک ہی لحظہ میں لے لے گا، یا صرف اس قدر مدت میں جتنا دیر کسی بکری کا دودھ دوہنے میں لگتی ہے۔ (تفسیر مجمع البیان اور تفسیر نورالثقلین) چنانچہ حضرت علی علیہ اسلام سے پوچھا گیا کہ "کیف یحاسب اللہ الخلق ولایرونہ؟ " یعنی اللہ تعالیٰ مخلوق کا حساب کیونکر لے گا جبکہ مخلوق اسے دیکھ نہیں پائے گی؟ فرمایا: "کما یرزقھم ولا یرونہ" جس طرح مخلوق اسے دیکھ نہیں پاتی لیکن وہ مخلوق کو روزی دیتا ہے۔

۹; ایک سوال: اس قدر آیات و روایات کے باوجود پھر قیامت کا دن کیوں طولانی ہو گا؟

۹; جواب۔ (بقول تفسیر اطیب البیان) روز قیامت کی اس قدر لمبائی ایک قسم کی سزا ہو گی نہ کہ کام کی زیادتی اور حساب و کتاب میں عاجزی کی وجہ سے وہ دن لمبا ہو گا۔

پیام:

۱ ۔ سب لوگوں کی باز گشت خدا کے حضور ہو گی اور قیامت کے دن اکیلا قاضی ہو گا۔( ردواالی الله - له الحکم )

۲ ۔ حقیقی مولا وہ ہے جس کے قبضہ قدرت میں پیدائش ، تخلیق ، نگرانی ، خواب اور بیداری ، موت اور دوبارہ زندگی ، حساب رسی او رفیصلہ ہے اور وہ ہے خدا و ند عالم ۔( الی الله مولهم الحق )

۳ ۔ خدا کی عدالت میں پیشی لازمی اور حتمی ہے( ردوا )

۴ ۔ حقیقی مولا صرف خدا ہے باقی یا تو مجازی ہیں یا پھر باطل ۔( مولهم الحق )

۵ ۔ قیامت کا در حقیقت ہماری اپنی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ہے ورنہ خدا تو مولا بھی ہے اور حق بھی۔

آیت ۶۳ ۔ ۶۴

( قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْکُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ تَدْعُوْنَه تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً ج لَئِنْ اَنْجٰنَا مِنْ هٰذِه لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ- قُلِ اللّٰهُ یُنَجِّیْکُمْ مِّنْهَا وَمِنْ کُلِّ کَرْبٍ ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِکُوْنَ ) ۔

ترجمہ: کہہ دو کہ کون تمہیں خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں نجات عطا کرتا ہے؟ جبکہ تم اسے زور زور کے نالہ و زاری کے ساتھ اور مخفی طور پر پکارتے ہو (اور کہتے ہو) کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس (مصیبت) سے نجات دے دی تو ہم شکر گذاروں میں سے ہوں گے۔

۹; کہہ دو کہ خدا وندعالم ہی تمہیں ان (تاریکیوں) اور دوسری مصیبتوں سے نجات دیتا ہے، پھر بھی تم (سپاسگزاری کی بجائے) شرک کرتے ہو۔

دو نکات:

کچھ لوگ زور زور سے خدا سے مانگ رہے تھے تو پیغمبر خدا نے انہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا اور کہا کہ خداوندعالم ہر ایک کے نزدیک بھی ہے اور ہر ایک کی بات کو سنتا بھی ہے۔ (نورالثقلین)

اس آیت کے مشابہ سورہ یونس کی ۱۳ ویں آیت بھی ہے کہ: "انسان خطرے کے موقع پر سوتے اور بیٹھتے وقت خدا کو یاد کرتا اور اسے پکارتا ہے"( فلما کشفنا عنه ضره مرکان لم یدعنا الی ضرمسه ) " یعنی جوں ہی اس کی مشکل حل ہوجاتی ہے۔ تو سر جھکائے گزر جاتا ہے گویا اس نے ہمیں کبھی پکارا ہی نہیں۔

پیام:

۱۔ مادی اسباب کے منقطع ہو جانے پر ہی خدا کی یاد انسان کے دل میں انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ اور وہ مشکلات میں خدائی طاقت کا مشاہدہ کرتا ہے۔

۲۔ اپنے ضمیر اور فطرت کو خطرات کی یاد دِلا کر بیدار کرو۔

۳۔ دُعا، فطرت کی ایک تصویر ہے۔( تدعون ) ہ)

۴۔ وعظ و تبلیغ کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ لوگوں کے ضمیر سے سوال کیا جائے۔( من ینجیکم )

۵۔ انسان جب خطرات اور مشکلات میں پھنس جاتا ہے تو کئی طرح کے وعدے کرتا ہے۔( لئن انجٰنا… لنکونن من الشا کرین )

۶۔ ہمیشہ ہر شخص کے لئے موجودہ مشکل ہی بہت بڑی مشکل ہوا کرتی ہے۔( هذه )

۷۔ انسان بڑا بدقول ہے، اور خدا سے کئے ہوئے وعدے بھی پورے نہیں کرتا( ثم انتم تشرکون )

آیت ۶۵ ۔ ۶۶

( قُلْ هُوَالْقَادِرُ عَلٰٓی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ اَوْمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ اَوْیَلْبِسَکُمْ شِیَعًاوَّ یُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍط اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ- وَکَذَّبَ بِه قَوْمُکَ وَهُوَ الْحَقُّط قُلْ لَّسْتُ عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍ ط ) ۔

ترجمہ۔ (اے پیغمبر !) کہہ دو کہ وہ (خدا) اس بات پر قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے تم پر عذاب بھیجے یا تمہیں مختلف گروہوں کی صورت میں ایک دوسرے درگیر کردے اور تمہیں ایک دوسرے کے ذریعے جنگ اور خونریزی کا تلخ مزا چکھائے۔ دیکھو تو ہم اپنی آیات کو گوناگوں طریقوں سے بیان کرتے ہیں۔ شاید کہ وہ سمجھ جائیں۔ اور تیری قوم نے اس (قرآن) کو جھٹلایا ہے حالانکہ وہ (کلام) برحق ہے، (ان سے) کہہ دو کہ میں تمہارے کاموں کا وکیل (اور ذمہ دار) نہیں ہوں۔

چند نکات:

۹; "لبس" کا معنی ہے ملانا اور "شیع" جمع ہے "شیعہ" کی جس کا معنی ہے گروہ۔

۹; اس سے پہلی آیت میں خداوند عالم کی نجات عطا کرنے والی قوت کا ذکر ہوا ہے جبکہ اس آیت میں اس کے قہر و عذاب کا تذکرہ ہے۔

۹; اوپر اور نیچے سے آنے والے عذاب سے مراد یا تو آسمانی یا زمینی عذاب ہے یا اوپر کے عذاب سے مراد حکام بالا کا عذاب اور ان کی سختیاں ہیں اور نیچے کے عذاب سے مراد ماتحتوں کا دباؤ ہے (جو کام میں رخنہ اندازی اور ہڑتال وغیرہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے) ضمناً یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے طبعی یا غیرطبعی عذاب مراد ہو جیسے اوپر سے فضائی بمباری اور نیچے سے بموں کے دھماکے مراد ہوں۔

پیام:

۔ خداوند عالم نجات بھی دیتا ہے اور عذاب بھی نازل کرتا ہے۔ جو شخص جان بوجھ کر غیر اللہ کی پرستش کرتا ہے اسے عذاب الٰہی کا منتظر رہنا چاہئے( قل هو القادر علی ان یبعث… )

۲ ۔ فرقہ واریت اور تفرقہ اندازی بھی خدائی عذاب ہے جو آسمانی اور زمینی عذاب کے ساتھ ساتھ مذکور ہے۔( یلبسکم شیعا )

۳ ۔ بعض اوقات لوگ ایک دوسرے کے ہاتھوں سے عذاب سے دوچار ہوتے ہیں یا پھر متنبہ ہوجاتے ہیں۔( بعض بأس بعض )

۴ ۔ تم جس راہ پر گامزن ہو وہ چونکہ حق کی راہ ہے لہٰذا لوگوں سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے( وهوالحق )

۵ ۔ اے پیغمبر! آپ اپنے فریضہ کے متعلق جوابدہ ہوں گے، نتیجہ کی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں ہوتی۔( لست علیکم بوکیل ) ۱۹

آیت ۶۷

( لِکُلِّ نَبَاٍمُّسْتَقَرٌّوَّ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ جو خبر بھی (خدا یا اس کا رسول تمہیں دیتا) ہے اس کا ایک خاص مقرر وقت ہے اور تم بہت جلد اسے جان لو گے۔

پیام:

۱ ۔ خدا کی خبریں قطعی اور یقینی ہوتی ہیں۔

۲ ۔ خداوند عالم کے تمام منصوبے اور پروگرام حکمت پر مبنی اور مقررہ زمانے کے ساتھ متعلق ہوتے ہیں۔

۳ ۔ اگرچہ تم ایمان لانے پرمجبور نہیں ہو لیکن اپنی عاقبت اور انجام کار کی ضرور فکر کرو۔( سوف تعلمون )

۴ ۔ جلدی میں فیصلہ نہ کر لینا اور خدا کی طرف سے ملنے والی مہلت کو اس کی غفلت نہ سمجھ لینا۔

آیت ۶۸

( وَاِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهط وَاِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلاَ تَقْعُدْ بَعْدِالذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیات میں بیہودہ بحث کر رہے ہیں تو ان سے منہ پھیر لو یہاں تک کہ (گفتگو کا موضوع تبدیل کرکے) دوسری باتوں میں بحث کرنے لگ جائیں۔ اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو متوجہ ہو جانے کے بعد ان ظالم لوگوں کے پاس ہرگز نہ بیٹھو (اور فوراً اٹھ آؤ)

چند نکات:

۹; "خوض" کا لفظ قرآن مجید میں باطل اور بے ہودہ مسائل میں سرگرم ہونے کے معنی میں آیا ہے۔

۹; "( بعدالذکریٰ ) " کا کلمہ ممکن ہے یاد دلانے کے معنی میں ہو اور ہو سکتا ہے کہ خود انسان کو یاد آ جانے کے معنی میں ہو۔

۹; انبیاء علیہم اسلام معصوم ہیں حتیٰ کہ بھول چوک سے بھی پاک اور مبرا ہیں۔ لہٰذا آیت میں شیطان کے فراموش کرا دینے سے مرا دیا ایک فرضی مسئلہ ہے جس طرح دوسری آیات میں بھی کئی مسائل فرض کئے گئے ہیں: جیسے آیت ہے کہ: "لئِن اشرکت لیحبطن عملک" (زمر/ ۶۵) یعنی اگر تونے شرک کیا تو تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں گے۔ یا یہ آیت ہے کہ: "( لو تقول علینا بعض الاقاویل ) " (حاقہ/ ۴۴) یعنی اگر وہ ہم پر جھوٹ باندھتے یا پھر محاورہ کے مطابق دروازے سے کہہ رہا ہوں تاکہ دیوار سن لے یعنی خطاب پیغمبر سے ہے اور مراد امت ہے۔

۹; اسی آیت سے ملتی جلتی آیت سورہ نسأ میں بھی ہے کہ: "( اذا سمعتم ایات الله یکفر بها و یستهزأ بها فلا تقعدوا معهم حتی یخوضوا فی حدیث غیره ) " (آیت ۱۴۰) یعنی اگر تم یہ سنو کہ آیات الٰہی سے کفر اختیار کیا جا رہا ہے یا ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو ان لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو یہاں تک کہ بات کو تبدیل نہ کر دیں۔

پیام:

۱ ۔ دشمن کے سامنے اپنے عقائد کے مقدسات کے بارے میں اپنی دینی غیرت اور اپنے مذہب میں تعصب کا ثبوت دو۔( فاعرض عنهم )

۲ ۔ برائیوں سے روگردانی اور بدکاروں سے نبردآزمائی نہی عن المنکر کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ ۲۰

۳ ۔ معاشرتی برائیوں میں خود غرق ہونے کی بجائے بری محفلوں، برے افراد اور برے گروہوں میں تبدیلی پیدا کرو (فی حدیث غیرہ)

۴ ۔ صرف اظہار برائت یا زبانی مذمت ہی کافی نہیں، ڈٹ کر مقابلہ کرنا ضروری ہے۔

۵ ۔ ظالم لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست ناجائز ہے لہٰذا اس سے پرہیز کیا کرو۔( فلا تقعد ) ۲۱

۶ ۔ فریضہ کی ادائیگی کی شرط توجہ اور آگاہی ہے( اماینسینک الشیطٰن )

۷ ۔ آیات قرآنی کے بارے میں کسی بھی قسم کی ناجائز سرگرمی (خواہ مذاق اڑانا ہو، خواہ تفسیر بالرائے ہو خواہ بدعت اور تحریف ہو) ظلم ہے( الظالمین )

۸ ۔ باطل اور بیہودہ باتوں کو سننا (اور گمراہ کن کتابوں کا پڑھنا) قابل مذمت ہے۔ ۲۲

آیت ۶۹

( وَمَا عَلَی الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّٰلکِنْ ذِکْرٰی لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ ان (ظالم) لوگوں کے حساب سے (جو کہ ہماری آیات میں مسخرہ بازی کے لئے بحث کرتے ہیں) متقی لوگوں کے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے۔ لیکن یاددہانی (لازم) ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ بھی (مسخرہ بازی سے) پرہیز کریں۔

دو نکات:

۹; جب آیات الٰہی کے بارے میں یاوہ گوئی اور مسخرہ بازی کرنے والوں کے ساتھ نشست و برخاست کی حرمت کے لئے سابقہ آیت نازل ہوئی تو کچھ لوگوں نے کہا کہ: "اس لحاظ سے تو ہمیں مسجد الحرام میں بھی نہیں جاناچاہئے اور نہ ہی وہاں طواف کرنا چاہئے کیونکہ یہ ظالم لوگ تو وہاں بھی موجود ہوتے ہیں"

۹; اہل گناہ کی مجلسوں میں نہی عن المنکر اور ارشاد و تبلیغ کی غرض سے شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ یہ اجازت ان لوگوں کے لئے ہے جو تقوی کے حامل ہیں اور ان پر دشمن کا کلام اثر نہیں کر سکتا ورنہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو غرق ہونے سے بچانے کے لئے جاتے ہیں لیکن خود ڈوب جاتے ہیں۔ بقول سعدی (ترجمہ شعر)

۹; غلام نے پانی کی نہر کھودی جب پانی آیا تو وہ خود ہی اس میں ڈوب گیا۔

پیام:

۱ ۔ مسائل کو "اہم" اور "اہم تر" میں تقسیم کرنے کا اصول عقلی بھی ہے اور اسلامی بھی، جواب دینے یا گمراہوں کو ہمیشہ کے لئے راہ راست پر لانے کی غرض سے یاوہ گوئیوں اور بے ہودہ باتوں کو سننا جائز ہے۔

۲ ۔ تقویٰ انسان کے لئے گناہ کے مقابلے میں حفاظت اور اس کے بیمہ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ جیسے نہ جلنے والا لباس فائر بریگیڈ کے عملہ کے لئے ہوتا ہے۔

۳ ۔ اپنے آپ کے لئے تقویٰ اختیار کرنے کے علاوہ دوسروں کو متقی بنانے کے لئے بھی فکر کیا کرو،( لعلهم یتقون )

آیت ۷۰

( وَذَرِالَّذِّیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَعِبًاوَّلَهْوًا وَّغَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَذَکِّرْ بِهٓ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌم بِمَا کَسَبَتْ لَیْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیٌّ وَّلاَ شَفِیْعٌج وَاِنْ تَعْدِلْ کُلَّ عَدْلٍ لَّا یُوٴْ خَذْ مِنْهَاط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا کَسَبُوْاج لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیْمٌٌم بِمَا کَانُوْایَکْفُرُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا ہے اور دنیا نے انہیں دھوکہ دے رکھا ہے۔ اور انہیں قرآن کے ذریعہ (اسی قدر) یاد دلا دو تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنے کئے کی سزا میں ہلاکت میں جا پڑیں اور خدا کے علاوہ ان کے لئے نہ کوئی مددگار ہے اور نہ ہی کوئی شفاعت کرنے والا (اس دن) اگر وہ ہر قسم کا بدلہ بھی دیں (تاکہ سزا سے بچ جائیں) پھر بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی بدکرداری کی وجہ سے پکڑے جا چکے ہیں، ان کے پینے کے لئے جلا دینے والا گرم پانی اور دردناک عذاب ہو گا، اس لئے کہ وہ کفرکیا کرتے تھے۔

دو نکات:

۹; "انہیں چھوڑ دو"( ذرالذین --- ) سے مراد نفرت کا اظہار اور قطع تعلقی ہے جو بعض اوقات ان سے لڑائی کے معاملہ تک بھی جا پہنچتی ہے۔ اور یہ مراد نہیں ہے کہ ان سے جہاد ترک کر دیا جائے۔

۹; ہر دور میں دین کو کھیل تماشا سمجھنا اور دین کا مذاق اڑانا مختلف انداز میں ہوتا ہے کبھی خرافات پر مبنی عقائد کو اس کا حصہ بنا لیا جاتا ہے تو کبھی اس کے احکام کو قابل اجرا نہیں سمجھا جاتا۔ کبھی اپنے گناہوں کی توجیہہ کی جاتی ہے تو کبھی بدعت ایجاد کر دی جاتی ہے۔ کبھی تفسیر بالرائے کرکے آیات متشابہات کی پیروی کی جاتی ہے وغیرہ۔

پیام:

۱ ۔ دین کے بارے میں سستی سے کام لینا، منافقانہ رویہ اختیار کرنا اور دین کو بازیچہ اطفال سمجھ لینا، دینداری سے سازگار نہیں ہے۔( لعباولهوا )

۲ ۔ دنیا کے ساتھ فریفتہ ہو جانا دین کو کھیل تماشا سمجھنے کا موجب ہوتا ہے( غرتهم الحیٰوة الدنیا )

۳ ۔ وعظ و نصیحت، خدا کے قہر و غضب سے عذاب کا موجب ہوتا ہے( وذکربه )

۴ ۔ دنیا کے دھوکے میں نہ آؤ کیونکہ قیامت کے دن خدا کے علاوہ کوئی بھی تمہاری امداد نہیں کرے گا۔( لیس لها من دون الله ولی ولا شفیع )

۵ ۔ انسان کی بدبختی اور تباہی کا موجب خود وہ اور اس کی کارستانیاں ہوتی ہیں۔( بماکسبت، بماکسبوا، بما کانوا یکفرون ) ۔

۶ ۔ دینی غیرت معاشرہ سے بے دین لوگوں کے نکال باہر کرنے اور دشمنان دین و مذہب کے بائیکاٹ کا موجب ہوتی ہے( ذرالذین… )

آیت ۴۱

( بَلْ اِیَّاهُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْهِ اِنْ شَآءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ بلکہ (خطرناک حالات میں تو ) صرف اسی کو پکارتے ہو اور اگر وہ چاہے تو جس بات کے لئے تم اسے پکارتے ہو وہ اسے دور کر دے ، اور تم بھی جسے خدا کا شریک ٹھہراتے ہو اسے بھول جاؤ۔

پیام:

۱ ۔ فطرت ، خدا کی معرفت کا ایک ہموار راستہ ہے( بل ایاه تدعون )

۲ ۔ خلوص پر مبنی دعا، دنیا میں خطرات سے نجات کا بہترین راستہ ہے (کافر کی دعا قیامت کے دن نہیں سنی جائے گی جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے "( وما دعاء الکفرین الافی ضلٰل ) " (رعد/ ۱۴)

۳ ۔ آخر صرف خطرناک حالات میں ہی خدا وند ذوالجلال کی طرف کیوں توجہ کرتے ہو؟ اور اپنے باطل خداؤں کی طرف کیوں نہیں جاتے ۱۰آخر کس لئے کسی قسم کی خاصیت سے عاری خداؤں کے پیچھے لگے ہوئے ہو؟ اور عارضی خداؤں کی پوجا کرتے ہو جنہیں مصیبت کے وقت بھلا دیتے ہو؟

۴ ۔ خدا کے علاوہ دوسری تمام طاقیتں معمول کے حالات میں جلوہ نمائیاں کرتی ہیں لیکن سخت اور خطرناک حالات میں سب کچھ فراموش ہو جاتا ہے۔۱۱

۵ ۔ خداوند تعالٰی ہر خطرے کو دور کرنے کی قدرت رکھتا ہے خواہ وہ دنیوی ہو یا (اخروی لیکن یہ اس کے ارادے اور حکمت سے مشروط ہے( فیکشف----ان شاء )

۶ ۔ عذاب کو دور کرنا یا تو اتمام حجت کے لئے ہوتا ہے یا پھر حالات کی تبدیلی کی بناء پر ۔ ۱۲

آیت ۴۲

( وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْ ٰنهُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور یقینا ہم نے تجھ سے پہلی امتوں کی طرف (پیغمبروں کو) بھیجا ، پس ہم نے انہیں تنگدستی اور بیماری میں مبتلا کر دیا تا کہ گڑ گڑاٹیں اور سر تسلیم خم کریں۔

ایک نکتہ:

"بآساء" کا معنی ہے جنگ، فقرو تنگدستی ‘ قحط ‘ سپلاب ‘ زلزلہ اور متعدی امراض کی مشکلات ۔ اور "ضرآئکا معنی ہے غم و غصہ ‘ آبروریزی ‘ جہالت او رنقصان۔

پیام:

۱ ۔ انبیاء کی بعثت ہو یا اتمام حجت دونوں ہی تاریخ کا حصہ او ر خدائی طریقہ کار میں شامل ہیں( الی المم )

۲ ۔ گزشتہ لوگوں کی تاریخ ، آئندہ والوں کے لئے باعث عبرت ہے۔( قبلک )

۳ ۔ تربیت اور ہدایت و رہنمائی کے لئے کبھی سختی سے بھی کام لینا پڑتا ہے( اخذ نا هم )

۴ ۔ مشکلات ‘ خدا کی طرف توجہ کرنے کا راستہ اور مغرور وسر کش افراد کو ٹھیک کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں( یتضرعون )

۵ ۔ ضروری نہیں کہ ہر آسائش لطف خداوند ی ہوا ور رنج و غم خدا کا قہر و غضب ہو( لعلهم یتضرعون )

۶ ۔ تمام سرکش، ضدی اور ہٹ دھرم لوگ دباؤ پڑنے پر سیدھے نہیں ہو جاتے( لعلهم )

۷ ۔ اے پیغمبر ! تمام انبیاء کرام کو ضدی اور اکھڑ مزاج لوگوں سے واسطہ پڑتا رہا لہٰذا آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔

۸ ۔ مشکلات میں گھر جانے کے موقع پر دست نیاز خدا ہی کی طرف بلند ہوتے ہیں۔ ۱۳

آیت ۴۳

( فَلَوْ لَآ اِذْ جَآ ءَ هُمْ بَاْ سُنَا تَضَرَّعُوْا وَٰلکِِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ زَیِّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ پس جب ہماری طرف سے ان کو ناگواری نے آ لیا تو انہوں نے تضرع اور زاری کیوں نہیں کی؟ لیکن ان کے دل پتھر اور سخت ہو چکے ہیں۔ اور وہ جو کام کرتے ہیں شیطان اسے ان کے سامنے زیبا کرکے پیش کرتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ خبردار اور ہوشیار کرنے کے باوجود بھی بے پروائی سے کام لینا سنگدلی کی علامت ہے۔( قست )

۲ ۔ ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں پر نہ تو تبلیغ اثر کرتی ہے اور نہ ہی تنبیہ( جاء هم باسنا )

۳ ۔ شیطان کا ان کے کرتوتوں کو زیبا کرکے پیش کرنا ان کے غرور و تکبر کا سبب بن جاتا ہے( زین لهم )

آیت ۴۴

( فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِه فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْئٍط حَتّٰیٓ اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْآ اَخَذْ ٰنهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ پس جو نصیحتیں انہیں کی گئی تھیں جب انہوں نے ان کو بھلا دیا تو ہم نے ان کے لئے تمام چیزوں کے دروازے کھول دیئے (تاکہ وہ آسائش اور مادیات میں پوری طرح غرق ہو جائیں) حتیٰ کہ جب وہ ان چیزوں پر خوش ہو گئے جو انہیں دی گئی تھیں تو ہم نے اچانک انہیں (سز اکی) گرفت میں لے لیا اور وہ یکدم غمگین اور نا امید ہو گئے۔

ایک نکتہ:

آیت میں لفظ "مبلسون" آیا ہے جو "ابلاس" کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے "مایوسی کے ہمراہ غم و اندوہ" یعنی وہ کیفیت جو مجرم لوگوں کی عدالت میں ان کی شنوائی نہ ہونے پر ہوتی ہے۔ (تفسیر المیزان)

پیام:

۔ آسائش پر مبنی زندگی ہمیشہ رحمت خداوندی کی علامت نہیں ہوا کرتی، کبھی سزا کا موجب بھی بن جاتی ہے( نسوا- فتحنا ) ۱۴

۲ ۔ مجرمین کو مہلت دینا اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے آسائش کے وسائل فراہم کرنا خدا کا ایک دیرینہ طریقہ کار چلا آ رہا ہے۔

۔ دنیا اور اس سے بہرہ برداری نعمت بھی ہو سکتی ہے اور عذاب بھی، خواہ یہ کسی کو بھی ملے۔ جیسا کہ سورہ اعراف/ ۹۶ میں ارشاد ہوتا ہے "( ولو ان اهل القریٰ امنوا و اتقو الفتحنا علیهم برکات من السماء و الارض ) " یعنی اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور پرہیزگار بنتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات (کے دروازے) کھول دیتے۔

یہاں ایمان اور تقویٰ کو برکات الٰہی کا موجب گردانا گیا ہے جبکہ زیر بحث آیت میں دنیا کو خدا کا عذاب اور نقمت بتایا گیا ہے۔ ۱۵

۵ ۔ موت ہو یا خدا کا قہر و غضب اچانک آتے ہیں لہٰذا ہمیشہ آمادہ رہنا چاہئے( بغتةً )

۶ ۔ فیصلے جلدی نہ کر لیا کرو اور نعمتوں کو خدا کا لطف و مہربانی نہ سمجھ لیا کرو۔

۷ ۔ عیاش لوگوں کی خوشی کے نعرے بہت جلد مایوسی کی فریادوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔( فرحوا … مبلسون )

آیت ۴۵

( فَقُطِعَ دَابِرُالْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاط وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ پس ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا گیا اور ان کی نسل ختم ہو گئی او رحمد خاص ہے عالمین کے رب کے لئے۔

پیام:

۱ ۔ ظلم، ہمیشہ قائم نہیں رہتا۔( قطع )

ظلم کا اثر نسلوں پر پڑتا ہے۔( دابر )

۳ ۔ ظالموں کا انقراض اور ان کی تباہی قطعی، حتمی اور یقینی ہے (فقطع دابر) یا جس طرح کہ ایک اور آیت میں ہے "( فهل تری لهم من باقیه ) " ان میں سے تو کسی کو باقی دیکھتا ہے" (الحاقہ/ ۸)

۴ ۔ ظالموں کی تباہی پر خدا کا شکر کرنا چاہئے( فقطع…والحمد لله )

۵ ۔ ظالموں کی نابودی درحقیقت ان کے ظلم کا انجام اور اس کی سزا ہوتی ہے ورنہ اس پر خدا کی حمد نہ کی جاتی( والحمدلله )

۶ ۔ ظالموں کی ہلاکت، دوسرے لوگوں کے لئے تربیت کا موجب ہوتی ہے( رب العالمین )

آیت ۴۶

( قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ اَخَذَ اللّٰهُ سَمْعَکُمْ وَ اَبْصَارَکُمْ وَخَتَمَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ مَّنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْ تِیْکُمْ بِهط اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ هُمْ یَصْدِفُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) کہہ دو کہ آیا تم نے کچھ غور کیا ہے کہ اگر خداوند عالم تمہارے کانوں اور تمہاری آنکھوں کو اپنی گرفت میں لے لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے (کہ کچھ بھی نہ سمجھ سکو) تو خدا کے علاوہ کون معبود ایسا ہے جو تمہیں یہ سب کچھ واپس لوٹا دے؟ دیکھو کہ ہم آیات کو کن طریقوں سے بیان کرتے ہیں، پھر بھی وہ (ایمان لانے اور بات کو تسلیم کرنے کی بجائے ) منہ پھیر لیتے ہیں۔

ایک نکتہ:

۹; سورت کے آغاز سے لے کر یہاں تک اللہ تعالیٰ نے تقریباً دس مرتبہ سوالیہ انداز میں مخالفین کو دعوت فکر دی ہے۔

پیام:

۱ ۔ دی ہوئی نعمتوں کا واپس لینا خدا کے لئے آسان ہے۔ لہٰذا ہمیشہ خبردار رہو( اخذسمعکم )

۲ ۔ ایک تو تخلیق کائنات ہی خدا کا کام ہے اور دوسرے کائنات کو اپنے طور پر چلانا اور ہر لمحہ اس کی حفاظت، پروردگار عالم کی نعمت ہے( اخذسمعکم )

۳ ۔ خدا کی نعمتوں کے بارے میں غور و فکر اور ان نعمتوں میں تغیر و تبدل کا فرض کرنا، معرفت خداوندی اور نعمت شناسی کی راہوں میں سے ایک راہ ہے۔ مثلاً فرض کیجئے کہ:

اگر درخت سرسبز نہ ہونے پائیں( لونشاء لجعلناه حطامًا ) ۔ واقعہ/ ۶۰)

اگر پانی کڑوا اور شور ہوجائے( لونشاء لجعلناه اجاجا ) ۔ واقعہ/ ۷۰)

اگر پانی سارے کا سارا زمین کے اندر چلا جائے( ان اصبح ماؤ کم غورا ) ۔ ملک/ ۳۰)

اگر ہمیشہ ہی رات یا دن برقرار رہیں( ان جعل علیکم اللیل سرمدا ) ۔ قصص/ ۷۱)

اگر یہ ہو جائے اور وہ ہو جائے تو کیا ہو گا؟ یہ سب خدا کی نعمتیں ہیں

۴ ۔ ضدی مزاج لوگوں کے لئے ہر طرح کا بیان بے اثر ہوتا ہے( نصرف الایات ) ۔۔ (یصدفون)

آیت ۴۷

( قُلْ اَرَءَ ْیتَکُمْ اِنْ اَٰتکُمْ عَذَابُ اللّٰهِ بَغْتَةً اَوْ جَهْرَةً هَلْ یُهْلَکُ اِلَّا الْقَوْمُ الظٰلِمُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ کہہ دو کہ آیا تم نے کچھ غور کیا ہے کہ خدا کا عذاب اچانک یا آشکارا تمہیں آ لے تو کیا ظالم لوگوں کے علاوہ کوئی اور ہلاک ہو گا؟

دو نکات:

۹; اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ صرف ظالم لوگ ہی عذاب الٰہی سے ہلاک ہوں گے، جبکہ ایک اور آیت میں ہے کہ "( واتقوافتنة لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصة ) " یعنی اس فتنہ سے ڈرو جو صرف تم میں سے ظالموں کو ہی نہیں پہنچے گا (بلکہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا) (انفال/ ۲۵) اس آیت میں فتنہ کی لپیٹ اور عذاب کے شعلے ہر ایک کے لئے بیان ہوئے ہیں اور اس سے ہر ایک کو خبردار کیا گیا ہے۔ تو پھر ان دونوں آیات کو کیونکر جمع کیا جا سکتا ہے؟ تفسیر فخر رازی اور مجمع البیان میں اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ "ہر فتنہ ہلاکت نہیں ہوتا، اور تلخ اور ناگوار حوادث میں جو چیز ظالموں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے وہ ہلاکت اور خدائی قہر ہے۔ اور جو چیز مومنین کو پہنچتی ہے وہ امتحان اور ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہوتی ہے"

۹; شاید کہ "( بغتة ) " سے مراد رات اور "جھرة" سے مراد دن ہو۔ جیسا کہ ایک اور مقام پر فرماتا ہے "( اتاها امرنا لیلا اونهارا ) " یونس/ ۲۴ ۔ تفسیر آلوسی)

۹; اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ "( بغتة ) " سے مراد ایسا عذاب ہو جو کسی مقدمہ کے بغیر آئے اور "جھر ة" سے مراد وہ عذاب ہو جس کے آثار پہلے دن سے ظاہر ہوں جیسے قوم عاد پر برسنے والے خطرناک عذاب کے بادل تھے، جس کے متعلق ارشاد الٰہی ہے "( قالو اهذا عار ض ممطرنا بل هوما استعجلتم به ریح فیها عذاب الیم ) " (احقاف/ ۲۳) یعنی وہ لوگ کہنے لگے یہ تو بادل ہے جو ہم پر برس کر رہے گا (نہیں) بلکہ یہ وہ (عذاب) ہے جس کی تم جلدی مچا رہے تھے، وہ آندھی ہے جس میں دردناک عذاب ہے۔ (از تفسیر اطیب البیان)

پیام:

۱ ۔ اپنی سرکشی اور اس پر تمہیں ملنے والی خدا کی مہلت سے مغرور نہ ہو جانا، ہو سکتا ہے کہ خدا کا عذاب اچانک ہی تم پر نازل ہو جائے( بغتة )

۲ ۔ جب خدا کا عذاب نازل ہو گا تو تباہی اور ہلاکت یقینی ہو جائے گی جسے نہ تو تم ٹال سکو گے اور نہ ہی کوئی اور۔( عذاب الله- یهلک )

۳ ۔ خدا کی طرف سے ملنے والی سزائیں عادلانہ اور منصفانہ ہوتی ہیں اور وہ بھی لوگوں کے ظلم کرنے کی وجہ سے۔ (یھلک۔ ظالمون)

۴ ۔ انبیاء علیہم اسلام کی دعوت سے انحراف اور روگردانی ظلم ہے( یصدفون- الظالمون )

آیت ۴۸ ، ۴۹

( وَمَا نُرْسِلُ الْمَرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ ج فَمَنْ اٰمَنَ وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَاهُمْ یَحْزَنُوْنَ- وَالَّذِیْنَ کَذَّبُُوْا بِاٰیٰتِنَا یَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ ہم، رسولوں کو صرف خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجتے ہیں پس جو لوگ ایمان لے آتے ہیں اور اپنی اصلاح کرتے ہیں (نیک بن جاتے ہیں) تو ان پر نہ تو کسی قسم کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں۔

۹; اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں تو ان کے فسق کی وجہ سے عذاب انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

ایک نکتہ:

۹; متعدد آیات میں اولیاء اللہ کے بارے میں ہے کہ ان پر نہ تو کسی قسم کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں۔( لا خوف علیهم ولا هم یحزنون ) جبکہ دوسری طرف آیات قرآنی میں جو خوف خدا اولیاء اللہ کا خاصہ بتایا گیا ہے مثلاً وہ کہتے ہیں "انا نخاف من ربنا( --- ) " یعنی ہم اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ (دہر/ ۱۰) تو ان دونوں طرح کی آیات کو کیونکر جمع کیا جا سکتا ہے؟ تو ا س کا جواب یہ ہے کہ: اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے بیمار آپریشن اور معالجہ سے ڈرتا ہے لیکن ڈاکٹر اسے اطمینان اور تسلی دیتا ہے کہ "گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں" تو گھبرانے کی ضرورت کا نہ ہونا، بیمار کے اندیشوں سے منافات نہیں رکھتا۔

پیام:

۱ ۔ تمام انبیاء کا مجموعی طریقہ کار ایک جیسا تھا( مبشرین ومنذرین )

۲ ۔ ہدایت اور تربیت، بیم و امید اور سزا و جزا کے دو اصولوں پر استوار ہے( مبشرین، منذرین )

۳ ۔ ایمان اور عمل ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔ اور ایمان کے بغیر عمل بیکار ہے( آمن و اصلح )

۴ ۔ مومن کا کام ہمیشہ اصلاح کے رخ پر ہونا چاہئے( آمن و اصلح )

۵ ۔ صرف صالح ہونا ہی کافی نہیں، مصلح ہونا بھی ضروری ہے( اصلح )

۶ ۔ ایمان اور عمل دونوں مل کر انسان کا بیمہ کرتے ہیں( لاخوف علیهم ولا هم یخزنون )

۷ ۔ فسق، عذاب الٰہی کا موجب بن سکتا ہے( بما کانوا یفسقون )

آیت ۵۰

( قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌج اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ ط قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَ الْبَصِیْرُط اَفَلَا تَتَفَکَّرُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ (اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ میں تمہیں نہیں کہتا کہ میرے پاس خدا کے خزانے ہیں۔ اور میں غیب بھی نہیں جانتا اور تمہیں یہ بھی نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اسی بات کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی ہوتی ہے۔ (اور اے پیغمبر یہ بھی) کہہ دو کہ آیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہیں؟ آیا تم کچھ غور و فکر نہیں کرتے؟

ایک نکتہ:

۹; اس آیت میں پیغمبر خدا کی غیب دانی کی نفی کی گئی ہے لیکن خدا کی طرف سے غیب پر آگاہی آنجناب کو ضرور عطا ہوئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بارہا حضرت یوسف ، جناب مریم، حضرت نوح اور دیگر انبیاء کرام علیہم اسلام کے بارے میں آپ سے فرمایا ہے کہ:( ذالک من انباء الغیب نوحیه الیک ) " یعنی یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں۔

۹; اسی طرح اللہ تعالیٰ سورہ جن کے آخر میں فرماتا ہے: "خداوند عالم کے پاس غیب کا علم ہے جو وہ اپنے برگزیدہ بندوں کے علاوہ کسی اور کو عطا نہیں کرتا" پس علم غیب مخصوص تو خدا ہی سے ہے لیکن اگر وہ چاہے تو اس میں سے اپنے اولیاء کو بھی عطا کر دیتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ پیغمبر خدا کی صداقت تو اس حد تک ہے کہ اگر ان سے کوئی قدرت سلب ہوتی ہے تو اس کا بھی وہ لوگوں میں اعلان کرتے ہیں( قل لا اقول )

۲ ۔ انبیاء علیہم اسلام کا کام خرافات سے نبردآزمائی اورجھوٹی شخصیت بنانے کے خلاف جنگ ہے (متن آیت)

۳ ۔ انبیاء کرام سے بے جا توقعات وابستہ نہ رکھو( لا اقول لکم عندی خزائن الله )

۴ ۔ رہبر کی زندگی، اس کا ہدف اور طریقہ کار عوام پر واضح ہونا چاہئے۔

۵ ۔ "جو کچھ تم ہو" لوگوں کو بھی وہی باور کراؤ اورایسا نہ ہونے دو کہ لوگ تمہیں تمہاری اصلی حالت سے بڑھ کر سمجھنے لگیں )(اگر نامور شخصیات اپنی ذات سے جھوٹے القاب کی خود نفی کریں تو غلو اور گمراہی کے آگے بند باندھا جا سکتا ہے)

۶ ۔ انبیاء کرام روپے پیسے کا لالچ دے کر لوگوں کو خدا کی طرف نہیں بلاتے اور نہ ہی دھونس اور دھاندلی سے کام لیتے ہیں تاکہ لوگ ڈر کر یا کسی لالچ میں آ کر ان کے پاس اکٹھے نہ ہوں۔ (اور لوگ یہ خیال نہ کریں کہ اگر پیغمبر خدا کے ساتھ ہوں گے تو علم غیب یا خدا ئی خزانہ سے ان کی مشکلات حل ہو جائیں گی)

۷ ۔ پیغمبر خدا اپنی شخصی زندگی یا حکومت چلانے کے لئے دوسرے لوگوں کی طرح عام روش پر چلتے ہیں علم غیب اور خدائی خزانے سے کام نہیں لیتے۔ البتہ اپنی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان چیزوں سے استفادہ کریں)

۸ ۔ اگرچہ پیغمبر خدا کے پاس خدائی خزانہ یا علم غیب نہیں ہوتا لیکن چونکہ ان پر "وحی" ہوتی ہے لہٰذا ان کی پیروی لازمی ہے۔

۹ ۔ پیغمبر کا کام نہ ان کے خیال اور سلیقہ کی بنا پر ہوتا ہے اور نہ ہی معاشرتی میلان اور ماحول سے متاثر ہوتا ہے بلکہ صرف اور صرف وحی کی اتباع اور پیروی ہوتا ہے( ان اتبع الاما یوحیٰ الی )

۱۰ ۔ انبیاء کی اتباع بصیرت ہے اور ان سے روگردانی اندھاپن۔( هل یستوی الاعمٰی والصبیر )

۱۱ ۔ صحیح فکر انسان کو انبیاء کی پیروی پر آمادہ کرتی ہے، اور بہانوں اور توقعات کو رد کرتی ہے( افلاتتفکرون )

۱۲ ۔ انبیاء علیہم السلام کی رفتار اور ان کی گفتار ہمارے لئے حجت ہوتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد وحی پر استوار ہوئی ہے۔( ان اتبع الا مایوحی الی )

۱۳ ۔ لوگوں سے تمام انبیاء کا رویہ ایک جیسا رہا ہے، حضرت نوح علیہ اسلام نے بھی لوگوں سے یہی باتیں کی تھیں۔ ملاحظہ ہو سورہ ہود آیت ۳۱ ۔


6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36