تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62446
ڈاؤنلوڈ: 5209

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62446 / ڈاؤنلوڈ: 5209
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۶۱

( وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِه وَ یُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَةً ط حَتّٰیٓ اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور وہ وہی (خدا) ہی تو ہے جو اپنے بندوں پر مکمل تسلط رکھتا ہے۔ اور تمہارے اوپر نگرانی کرنے والے (فرشتے) بھیجتا ہے۔ حتیٰ کہ جب تم میں سے کسی ایک کو موت آتی ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے اس کی جان کو پوری طرح اپنے پاس لے لیتے ہیں۔ اور یہ فرشتے کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے۔

دو نکات:

۹; قبض روح کا مسئلہ قرآن مجید میں کہیں تو خدا کی طرف منسوب ہے جیسے "( الله یتو فی الانفس ) " (زمر/ ۴۲) کہیں ملک الموت کی طرف جیسے "( یتو فاکم ملک الموت ) " (سجدہ/ ۱۱) اور کہیں خصوصاً اسی آیت میں فرشتوں کی طرف۔

۹; "محافظ فرشتوں" سے مراد ممکن ہے کہ وہ فرشتے ہوں جو انسان کو حوادثات سے بچانے پر مامور ہیں۔ جیسا کہ سورہ رعد/ ۱۱ میں ہے "( له معقبٰت من بین یدیه ومن خلفه یحفظونه من امر الله ) " یعنی انسان کے لئے مامور کچھ ایسے (فرشتے) ہیں جو پے درپے سامنے سے اور اس کے پیچھے سے اسے حوادثات سے محفوظ رکھتے ہیں (از تفسیرالمیزن) اور ممکن ہے کہ ان محافظ فرشتوں سے وہ فرشتے مراد ہوں جو انسان کے اعمال ثبت و درج کرنے پر مامور ہوتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے "( رسلنا لدیهم یکتبون ) " (زخرف/ ۸۰)

پیام:

۱ ۔ خدا کا بندوں پر تسلط اس حد تک ہے کہ کسی کو اس کے آگے چوں کرنے کی جرات نہیں( القاهر )

۲ ۔ کائنات عالم میں مختلف قسم کے نگران ہیں( حفظة )

۳ ۔ خداوند عالم مکمل طور پر قدرت کاملہ کا مالک ہے، اگر اس نے تمہیں آزاد چھوڑا ہوا ہے تو اس کی کمال مہربانی ہے۔( وهوالقاهر )

۴ ۔ فرشتوں کے ہر گروہ کی اپنی ایک مخصوص ڈیوٹی ہے( حفظة، توفته، رسلنا )

۵ ۔ فرشتے اپنے مقررکردہ فرائض کی بجا آوری میں سہل انگاری سے کام نہیں لیتے اور وہ معصوم ہیں( لایفرطون )

۶ ۔ فرشتوں کے نگہبان ہونے پر ایمان، خدا کے شکر کا موجب ہے جس طرح دوسری آیات کے مطابق فرشتوں کے ذریعہ اعمال کے لکھے جانے پر ایمان، حیا اور تقوی کا سبب ہے۔

آیت ۶۲

( ثُمَّ رُدُّوْآ اِلَی اللّٰهِ مَوْلٰهُمُ الْحَقِّ ط اَ لَا لَهُ الْحُکْمُ وَهُوَاَسْرَعُ الْحَاسِبِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ پھر لوگ اپنے حقیقی مولا کی طرف پلٹائے جائیں گے۔ آگاہ رہو کہ (اس دن) فیصلہ صرف اور صرف اسی کے ہاتھ میں ہو گا اور وہ سب سے جلد حساب لینے والا ہے۔

ایک نکتہ:

۹; روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا حساب ایک ہی لحظہ میں لے لے گا، یا صرف اس قدر مدت میں جتنا دیر کسی بکری کا دودھ دوہنے میں لگتی ہے۔ (تفسیر مجمع البیان اور تفسیر نورالثقلین) چنانچہ حضرت علی علیہ اسلام سے پوچھا گیا کہ "کیف یحاسب اللہ الخلق ولایرونہ؟ " یعنی اللہ تعالیٰ مخلوق کا حساب کیونکر لے گا جبکہ مخلوق اسے دیکھ نہیں پائے گی؟ فرمایا: "کما یرزقھم ولا یرونہ" جس طرح مخلوق اسے دیکھ نہیں پاتی لیکن وہ مخلوق کو روزی دیتا ہے۔

۹; ایک سوال: اس قدر آیات و روایات کے باوجود پھر قیامت کا دن کیوں طولانی ہو گا؟

۹; جواب۔ (بقول تفسیر اطیب البیان) روز قیامت کی اس قدر لمبائی ایک قسم کی سزا ہو گی نہ کہ کام کی زیادتی اور حساب و کتاب میں عاجزی کی وجہ سے وہ دن لمبا ہو گا۔

پیام:

۱ ۔ سب لوگوں کی باز گشت خدا کے حضور ہو گی اور قیامت کے دن اکیلا قاضی ہو گا۔( ردواالی الله - له الحکم )

۲ ۔ حقیقی مولا وہ ہے جس کے قبضہ قدرت میں پیدائش ، تخلیق ، نگرانی ، خواب اور بیداری ، موت اور دوبارہ زندگی ، حساب رسی او رفیصلہ ہے اور وہ ہے خدا و ند عالم ۔( الی الله مولهم الحق )

۳ ۔ خدا کی عدالت میں پیشی لازمی اور حتمی ہے( ردوا )

۴ ۔ حقیقی مولا صرف خدا ہے باقی یا تو مجازی ہیں یا پھر باطل ۔( مولهم الحق )

۵ ۔ قیامت کا در حقیقت ہماری اپنی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ہے ورنہ خدا تو مولا بھی ہے اور حق بھی۔

آیت ۶۳ ۔ ۶۴

( قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْکُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ تَدْعُوْنَه تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً ج لَئِنْ اَنْجٰنَا مِنْ هٰذِه لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ- قُلِ اللّٰهُ یُنَجِّیْکُمْ مِّنْهَا وَمِنْ کُلِّ کَرْبٍ ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِکُوْنَ ) ۔

ترجمہ: کہہ دو کہ کون تمہیں خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں نجات عطا کرتا ہے؟ جبکہ تم اسے زور زور کے نالہ و زاری کے ساتھ اور مخفی طور پر پکارتے ہو (اور کہتے ہو) کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس (مصیبت) سے نجات دے دی تو ہم شکر گذاروں میں سے ہوں گے۔

۹; کہہ دو کہ خدا وندعالم ہی تمہیں ان (تاریکیوں) اور دوسری مصیبتوں سے نجات دیتا ہے، پھر بھی تم (سپاسگزاری کی بجائے) شرک کرتے ہو۔

دو نکات:

کچھ لوگ زور زور سے خدا سے مانگ رہے تھے تو پیغمبر خدا نے انہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا اور کہا کہ خداوندعالم ہر ایک کے نزدیک بھی ہے اور ہر ایک کی بات کو سنتا بھی ہے۔ (نورالثقلین)

اس آیت کے مشابہ سورہ یونس کی ۱۳ ویں آیت بھی ہے کہ: "انسان خطرے کے موقع پر سوتے اور بیٹھتے وقت خدا کو یاد کرتا اور اسے پکارتا ہے"( فلما کشفنا عنه ضره مرکان لم یدعنا الی ضرمسه ) " یعنی جوں ہی اس کی مشکل حل ہوجاتی ہے۔ تو سر جھکائے گزر جاتا ہے گویا اس نے ہمیں کبھی پکارا ہی نہیں۔

پیام:

۱۔ مادی اسباب کے منقطع ہو جانے پر ہی خدا کی یاد انسان کے دل میں انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ اور وہ مشکلات میں خدائی طاقت کا مشاہدہ کرتا ہے۔

۲۔ اپنے ضمیر اور فطرت کو خطرات کی یاد دِلا کر بیدار کرو۔

۳۔ دُعا، فطرت کی ایک تصویر ہے۔( تدعون ) ہ)

۴۔ وعظ و تبلیغ کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ لوگوں کے ضمیر سے سوال کیا جائے۔( من ینجیکم )

۵۔ انسان جب خطرات اور مشکلات میں پھنس جاتا ہے تو کئی طرح کے وعدے کرتا ہے۔( لئن انجٰنا… لنکونن من الشا کرین )

۶۔ ہمیشہ ہر شخص کے لئے موجودہ مشکل ہی بہت بڑی مشکل ہوا کرتی ہے۔( هذه )

۷۔ انسان بڑا بدقول ہے، اور خدا سے کئے ہوئے وعدے بھی پورے نہیں کرتا( ثم انتم تشرکون )

آیت ۶۵ ۔ ۶۶

( قُلْ هُوَالْقَادِرُ عَلٰٓی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ اَوْمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ اَوْیَلْبِسَکُمْ شِیَعًاوَّ یُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍط اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ- وَکَذَّبَ بِه قَوْمُکَ وَهُوَ الْحَقُّط قُلْ لَّسْتُ عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍ ط ) ۔

ترجمہ۔ (اے پیغمبر !) کہہ دو کہ وہ (خدا) اس بات پر قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے تم پر عذاب بھیجے یا تمہیں مختلف گروہوں کی صورت میں ایک دوسرے درگیر کردے اور تمہیں ایک دوسرے کے ذریعے جنگ اور خونریزی کا تلخ مزا چکھائے۔ دیکھو تو ہم اپنی آیات کو گوناگوں طریقوں سے بیان کرتے ہیں۔ شاید کہ وہ سمجھ جائیں۔ اور تیری قوم نے اس (قرآن) کو جھٹلایا ہے حالانکہ وہ (کلام) برحق ہے، (ان سے) کہہ دو کہ میں تمہارے کاموں کا وکیل (اور ذمہ دار) نہیں ہوں۔

چند نکات:

۹; "لبس" کا معنی ہے ملانا اور "شیع" جمع ہے "شیعہ" کی جس کا معنی ہے گروہ۔

۹; اس سے پہلی آیت میں خداوند عالم کی نجات عطا کرنے والی قوت کا ذکر ہوا ہے جبکہ اس آیت میں اس کے قہر و عذاب کا تذکرہ ہے۔

۹; اوپر اور نیچے سے آنے والے عذاب سے مراد یا تو آسمانی یا زمینی عذاب ہے یا اوپر کے عذاب سے مراد حکام بالا کا عذاب اور ان کی سختیاں ہیں اور نیچے کے عذاب سے مراد ماتحتوں کا دباؤ ہے (جو کام میں رخنہ اندازی اور ہڑتال وغیرہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے) ضمناً یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے طبعی یا غیرطبعی عذاب مراد ہو جیسے اوپر سے فضائی بمباری اور نیچے سے بموں کے دھماکے مراد ہوں۔

پیام:

۔ خداوند عالم نجات بھی دیتا ہے اور عذاب بھی نازل کرتا ہے۔ جو شخص جان بوجھ کر غیر اللہ کی پرستش کرتا ہے اسے عذاب الٰہی کا منتظر رہنا چاہئے( قل هو القادر علی ان یبعث… )

۲ ۔ فرقہ واریت اور تفرقہ اندازی بھی خدائی عذاب ہے جو آسمانی اور زمینی عذاب کے ساتھ ساتھ مذکور ہے۔( یلبسکم شیعا )

۳ ۔ بعض اوقات لوگ ایک دوسرے کے ہاتھوں سے عذاب سے دوچار ہوتے ہیں یا پھر متنبہ ہوجاتے ہیں۔( بعض بأس بعض )

۴ ۔ تم جس راہ پر گامزن ہو وہ چونکہ حق کی راہ ہے لہٰذا لوگوں سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے( وهوالحق )

۵ ۔ اے پیغمبر! آپ اپنے فریضہ کے متعلق جوابدہ ہوں گے، نتیجہ کی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں ہوتی۔( لست علیکم بوکیل ) ۱۹

آیت ۶۷

( لِکُلِّ نَبَاٍمُّسْتَقَرٌّوَّ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ جو خبر بھی (خدا یا اس کا رسول تمہیں دیتا) ہے اس کا ایک خاص مقرر وقت ہے اور تم بہت جلد اسے جان لو گے۔

پیام:

۱ ۔ خدا کی خبریں قطعی اور یقینی ہوتی ہیں۔

۲ ۔ خداوند عالم کے تمام منصوبے اور پروگرام حکمت پر مبنی اور مقررہ زمانے کے ساتھ متعلق ہوتے ہیں۔

۳ ۔ اگرچہ تم ایمان لانے پرمجبور نہیں ہو لیکن اپنی عاقبت اور انجام کار کی ضرور فکر کرو۔( سوف تعلمون )

۴ ۔ جلدی میں فیصلہ نہ کر لینا اور خدا کی طرف سے ملنے والی مہلت کو اس کی غفلت نہ سمجھ لینا۔

آیت ۶۸

( وَاِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهط وَاِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلاَ تَقْعُدْ بَعْدِالذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیات میں بیہودہ بحث کر رہے ہیں تو ان سے منہ پھیر لو یہاں تک کہ (گفتگو کا موضوع تبدیل کرکے) دوسری باتوں میں بحث کرنے لگ جائیں۔ اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو متوجہ ہو جانے کے بعد ان ظالم لوگوں کے پاس ہرگز نہ بیٹھو (اور فوراً اٹھ آؤ)

چند نکات:

۹; "خوض" کا لفظ قرآن مجید میں باطل اور بے ہودہ مسائل میں سرگرم ہونے کے معنی میں آیا ہے۔

۹; "( بعدالذکریٰ ) " کا کلمہ ممکن ہے یاد دلانے کے معنی میں ہو اور ہو سکتا ہے کہ خود انسان کو یاد آ جانے کے معنی میں ہو۔

۹; انبیاء علیہم اسلام معصوم ہیں حتیٰ کہ بھول چوک سے بھی پاک اور مبرا ہیں۔ لہٰذا آیت میں شیطان کے فراموش کرا دینے سے مرا دیا ایک فرضی مسئلہ ہے جس طرح دوسری آیات میں بھی کئی مسائل فرض کئے گئے ہیں: جیسے آیت ہے کہ: "لئِن اشرکت لیحبطن عملک" (زمر/ ۶۵) یعنی اگر تونے شرک کیا تو تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں گے۔ یا یہ آیت ہے کہ: "( لو تقول علینا بعض الاقاویل ) " (حاقہ/ ۴۴) یعنی اگر وہ ہم پر جھوٹ باندھتے یا پھر محاورہ کے مطابق دروازے سے کہہ رہا ہوں تاکہ دیوار سن لے یعنی خطاب پیغمبر سے ہے اور مراد امت ہے۔

۹; اسی آیت سے ملتی جلتی آیت سورہ نسأ میں بھی ہے کہ: "( اذا سمعتم ایات الله یکفر بها و یستهزأ بها فلا تقعدوا معهم حتی یخوضوا فی حدیث غیره ) " (آیت ۱۴۰) یعنی اگر تم یہ سنو کہ آیات الٰہی سے کفر اختیار کیا جا رہا ہے یا ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو ان لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو یہاں تک کہ بات کو تبدیل نہ کر دیں۔

پیام:

۱ ۔ دشمن کے سامنے اپنے عقائد کے مقدسات کے بارے میں اپنی دینی غیرت اور اپنے مذہب میں تعصب کا ثبوت دو۔( فاعرض عنهم )

۲ ۔ برائیوں سے روگردانی اور بدکاروں سے نبردآزمائی نہی عن المنکر کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ ۲۰

۳ ۔ معاشرتی برائیوں میں خود غرق ہونے کی بجائے بری محفلوں، برے افراد اور برے گروہوں میں تبدیلی پیدا کرو (فی حدیث غیرہ)

۴ ۔ صرف اظہار برائت یا زبانی مذمت ہی کافی نہیں، ڈٹ کر مقابلہ کرنا ضروری ہے۔

۵ ۔ ظالم لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست ناجائز ہے لہٰذا اس سے پرہیز کیا کرو۔( فلا تقعد ) ۲۱

۶ ۔ فریضہ کی ادائیگی کی شرط توجہ اور آگاہی ہے( اماینسینک الشیطٰن )

۷ ۔ آیات قرآنی کے بارے میں کسی بھی قسم کی ناجائز سرگرمی (خواہ مذاق اڑانا ہو، خواہ تفسیر بالرائے ہو خواہ بدعت اور تحریف ہو) ظلم ہے( الظالمین )

۸ ۔ باطل اور بیہودہ باتوں کو سننا (اور گمراہ کن کتابوں کا پڑھنا) قابل مذمت ہے۔ ۲۲

آیت ۶۹

( وَمَا عَلَی الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّٰلکِنْ ذِکْرٰی لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ ان (ظالم) لوگوں کے حساب سے (جو کہ ہماری آیات میں مسخرہ بازی کے لئے بحث کرتے ہیں) متقی لوگوں کے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے۔ لیکن یاددہانی (لازم) ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ بھی (مسخرہ بازی سے) پرہیز کریں۔

دو نکات:

۹; جب آیات الٰہی کے بارے میں یاوہ گوئی اور مسخرہ بازی کرنے والوں کے ساتھ نشست و برخاست کی حرمت کے لئے سابقہ آیت نازل ہوئی تو کچھ لوگوں نے کہا کہ: "اس لحاظ سے تو ہمیں مسجد الحرام میں بھی نہیں جاناچاہئے اور نہ ہی وہاں طواف کرنا چاہئے کیونکہ یہ ظالم لوگ تو وہاں بھی موجود ہوتے ہیں"

۹; اہل گناہ کی مجلسوں میں نہی عن المنکر اور ارشاد و تبلیغ کی غرض سے شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ یہ اجازت ان لوگوں کے لئے ہے جو تقوی کے حامل ہیں اور ان پر دشمن کا کلام اثر نہیں کر سکتا ورنہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو غرق ہونے سے بچانے کے لئے جاتے ہیں لیکن خود ڈوب جاتے ہیں۔ بقول سعدی (ترجمہ شعر)

۹; غلام نے پانی کی نہر کھودی جب پانی آیا تو وہ خود ہی اس میں ڈوب گیا۔

پیام:

۱ ۔ مسائل کو "اہم" اور "اہم تر" میں تقسیم کرنے کا اصول عقلی بھی ہے اور اسلامی بھی، جواب دینے یا گمراہوں کو ہمیشہ کے لئے راہ راست پر لانے کی غرض سے یاوہ گوئیوں اور بے ہودہ باتوں کو سننا جائز ہے۔

۲ ۔ تقویٰ انسان کے لئے گناہ کے مقابلے میں حفاظت اور اس کے بیمہ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ جیسے نہ جلنے والا لباس فائر بریگیڈ کے عملہ کے لئے ہوتا ہے۔

۳ ۔ اپنے آپ کے لئے تقویٰ اختیار کرنے کے علاوہ دوسروں کو متقی بنانے کے لئے بھی فکر کیا کرو،( لعلهم یتقون )

آیت ۷۰

( وَذَرِالَّذِّیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَعِبًاوَّلَهْوًا وَّغَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَذَکِّرْ بِهٓ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌم بِمَا کَسَبَتْ لَیْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیٌّ وَّلاَ شَفِیْعٌج وَاِنْ تَعْدِلْ کُلَّ عَدْلٍ لَّا یُوٴْ خَذْ مِنْهَاط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا کَسَبُوْاج لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیْمٌٌم بِمَا کَانُوْایَکْفُرُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا ہے اور دنیا نے انہیں دھوکہ دے رکھا ہے۔ اور انہیں قرآن کے ذریعہ (اسی قدر) یاد دلا دو تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنے کئے کی سزا میں ہلاکت میں جا پڑیں اور خدا کے علاوہ ان کے لئے نہ کوئی مددگار ہے اور نہ ہی کوئی شفاعت کرنے والا (اس دن) اگر وہ ہر قسم کا بدلہ بھی دیں (تاکہ سزا سے بچ جائیں) پھر بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی بدکرداری کی وجہ سے پکڑے جا چکے ہیں، ان کے پینے کے لئے جلا دینے والا گرم پانی اور دردناک عذاب ہو گا، اس لئے کہ وہ کفرکیا کرتے تھے۔

دو نکات:

۹; "انہیں چھوڑ دو"( ذرالذین --- ) سے مراد نفرت کا اظہار اور قطع تعلقی ہے جو بعض اوقات ان سے لڑائی کے معاملہ تک بھی جا پہنچتی ہے۔ اور یہ مراد نہیں ہے کہ ان سے جہاد ترک کر دیا جائے۔

۹; ہر دور میں دین کو کھیل تماشا سمجھنا اور دین کا مذاق اڑانا مختلف انداز میں ہوتا ہے کبھی خرافات پر مبنی عقائد کو اس کا حصہ بنا لیا جاتا ہے تو کبھی اس کے احکام کو قابل اجرا نہیں سمجھا جاتا۔ کبھی اپنے گناہوں کی توجیہہ کی جاتی ہے تو کبھی بدعت ایجاد کر دی جاتی ہے۔ کبھی تفسیر بالرائے کرکے آیات متشابہات کی پیروی کی جاتی ہے وغیرہ۔

پیام:

۱ ۔ دین کے بارے میں سستی سے کام لینا، منافقانہ رویہ اختیار کرنا اور دین کو بازیچہ اطفال سمجھ لینا، دینداری سے سازگار نہیں ہے۔( لعباولهوا )

۲ ۔ دنیا کے ساتھ فریفتہ ہو جانا دین کو کھیل تماشا سمجھنے کا موجب ہوتا ہے( غرتهم الحیٰوة الدنیا )

۳ ۔ وعظ و نصیحت، خدا کے قہر و غضب سے عذاب کا موجب ہوتا ہے( وذکربه )

۴ ۔ دنیا کے دھوکے میں نہ آؤ کیونکہ قیامت کے دن خدا کے علاوہ کوئی بھی تمہاری امداد نہیں کرے گا۔( لیس لها من دون الله ولی ولا شفیع )

۵ ۔ انسان کی بدبختی اور تباہی کا موجب خود وہ اور اس کی کارستانیاں ہوتی ہیں۔( بماکسبت، بماکسبوا، بما کانوا یکفرون ) ۔

۶ ۔ دینی غیرت معاشرہ سے بے دین لوگوں کے نکال باہر کرنے اور دشمنان دین و مذہب کے بائیکاٹ کا موجب ہوتی ہے( ذرالذین… )