تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62781
ڈاؤنلوڈ: 5359

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62781 / ڈاؤنلوڈ: 5359
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۸۱

( وَکَیْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَکْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکْتُمْ بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِه عَلَیْکُمْ سُلْطٰانًاط فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِج اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور میں اس چیز سے کیونکر ڈروں جسے تم نے خدا کا شریک بنا لیا ہے جبکہ تم (اس بات سے نہیں ڈرتے کہ) ان چیزوں کی پرستش کرتے ہو جن کے بارے میں اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ اگر تم جانتے ہو (تو بتاؤ کہ) ان دونوں فریقوں میں سے کون سا (فریق) امن میں رہنے کا زیادہ سزاوار ہے؟

ایک نکتہ:

۹; جو لوگ خداپرستی کا عقیدہ خوف اور ڈر کی پیداوار بتاتے ہیں، ان کے اس نظریہ کے برعکس آیت بتا رہی ہے کہ دراصل شرک کا عقیدہ، ڈر کی پیداوار ہے۔

پیام:

۱ ۔ مشرک کے پاس کسی قسم کی دلیل اور برہان نہیں ہے( لم ینزل به علیکم سلطانا )

۲ ۔ امن و سکون، خدا پر ایمان کے زیرسایہ ہے( فای الفریقین احق بالامن )

۳ ۔ صحیح علم خدا تک رسائی کا ذریعہ ہوتا ہے، اگر اس علم سے صحیح کام لیا جائے تو اس سے صحیح نتائج حاصل ہوتے ہیں ۔( ان کنتم تعلمون )

۴ ۔ بحث اور مناظرہ میں لوگوں کے تعصب کو نہیں چھیڑنا چاہئے (ای الفریقین) فرمایا ہے یہ نہیں کہا کہ "حتماً ہم ہی امن و سکون میں ہیں"۔

آیت ۸۲ ، ۸۳

( اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسَُُوْٓا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُوُْنَ- وَ تِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰهَآ اِبْرٰهِیْمَ عَلٰی قَوْمِهط نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْْ نَّشَآئُط اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ ) ۔

ترجمہ۔ جو لوگ ایمان لے آتے ہیں اور اپنے ایمان کو کسی قسم کے ظلم کے ساتھ نہیں چھپاتے، ان کے لئے امن و سکون ہے اور ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ اور یہ ہمارے دلائل تھے جو ہم نے ابراہیم کو عطا کئے تاکہ وہ اپنی قوم پر استدلال کریں ہم جس کے لئے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں۔ بے شک تمہارا پروردگار حکمت والا اور صاحب علم ہے۔

چند نکات:

۹; "لبس" کا معنی ہے کسی چیز کو ڈھانپنا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان چونکہ ایک فطری امر ہے لہٰذا ختم نہیں ہو سکتا۔ البتہ اسے مختلف قسم کے غبار ضرور ڈھانپ لیتے ہیں۔

۹; اگرچہ آیت ۸۲ خداوند عالم ہی کا بیان ہے، لیکن ایک حدیث میں ہے کہ یہ کلام بھی حضرت ابراہیم کی اس گفتگو کا حصہ ہے جو اس سے پہلی آیت میں بیان ہوئی ہے۔

۹; بعض روایات کے مطابق آیت میں مذکور ظلم سے مراد "شرک" ہے۔ اور بعض دوسری روایات میں یہ بھی ہے کہ خدا کے مقررکردہ رہبروں اور برحق ہادیان کو چھوڑ کر دوسروں کے پیچھے لگ جانا بھی ظلم ہے۔ (تفسیر نمونہ از تفسیر نورالثقلین)

پیام:

۱ ۔ ظلم، ایمان کے لئے آفت ہے اور اس پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

۲ ۔ ترک ظلم، ہدایت کی علامت ہے اور ستم، مانع ہدایت ہے( هم مهتدون، لم یلبسوا )

۳ ۔ ایمان کی حفاظت، خود ایمان سے زیادہ اہم ہے( لم یلبسوا ایمانهم )

۴ ۔ حقیقی امن و سکون اور صحیح ہدایت ایمان اور عدالت کے سایہ میں ہے( الامن، مهتدون ) نہ تو ظالم مومن ہدایت یافتہ ہوتے ہیں اور نہ ہی بے ایمان عدالت پسند۔

۵ ۔ جب تک خالص ایمان نہ ہو دل کو کھٹکا لگا رہتا ہے( لهم الامن )

۶ ۔ جو توحیدپرست دلیل اور برہان کے ساتھ معاشرہ کی بے راہروی کا مقابلہ کرے وہ بہت سے درجات کا مستحق ہوتا ہے۔

۷ ۔ خدا کی طرف سے افراد کو ملنے والے درجات اس کی حکمت کے مطابق ہوتے ہی( درجات…حکیم )

آیت ۸۴

( وَوَهَبْنَا لَهٓ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَط کُلًّا هَدَیْنَاج وَنُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِه دَاودَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰی وَ هٰرُوْنَط وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ-لا )

ترجمہ۔ اور ہم نے ابراہیم کو (ان کی بانجھ بیوی بنام سارہ سے) اسحق اور یعقوب بخشے۔ اور ان میں سے ہر ایک کو ہدایت کی۔ اور نوح کو اس سے پہلے ہدایت کر چکے ہیں اور ابراہیم کی نسل سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو (پیغمبر) قرار دیا۔ اور نیک لوگوں کو ہم اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ ۲۵

دو نکات:

۹; اگرچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام جناب ابراہیم کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے بیٹے تھے، لیکن چونکہ حضرت اسحق بانجھ ماں سے اور وہ بھی ان کے بڑھاپے میں پیدا ہوئے اسی لئے آیت اسحق کا تذکرہ کر رہی ہے۔

۹; اس آیت میں اور بعد کی دو آیتوں میں مجموعی طور پر سترہ انبیاء کا نام آیا ہے، لیکن ان میں نہ تو زمانی ترتیب ہے اور نہ ہی ان کے رتبے کے مطابق۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ ان تینوں آیات میں ان کی تقسیم اس بنیاد پر ہو کہ آیت ۸۴ میں ان انبیاء کا نام ہے جنہوں نے حکومت کی ہے۔ آیت ۸۵ میں ان انبیاء کا ذکر ہے جو دنیادار نہیں غریب تھے اور آیت ۸۶ میں وہ انبیاء مذکور ہیں جو خاص قسم کی مشکلات سے دوچار رہے ہیں۔ (تفسیرالمیزان)

پیام:

۱ ۔ نیک اولاد (جو پاکیزہ ذریت کے ذریعہ انسان کے توحیدی افکار کے دوام کا موجب ہوتی ہے) خدا کا بہترین ہدیہ اور بخشش ہے۔( وهبنا- نجزی )

۳ ۔ تاریخ بشریت میں ہدایت اور بعثت کا قدیم سے سلسلہ چلا آ رہا ہے۔( نوحاهدینا من قبل )

۴ ۔ صرف اولاد پیغمبر ہونا کوئی اعزاز نہیں ہے، ابراہیم کی ذریت میں ذاتی کمالات بھی تھے اور خدائی ہدایت سے بھی بہرہ مند رہے ہیں۔( کلاهدینا )

۵ ۔ الطاف الٰہی کسی کو بے مقصد عطا نہیں ہوتے۔( کذٰلک نجزی المحسنین )

آیت ۸۵ تا ۸۷

( وَزَکَرِیَّا وَیَحْیٰ وَ عِیْسٰی وَ اِلْیَاسَط کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ-لا وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاط وَکُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ-لا وَمِنْ اٰبَآئِهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ اِخْوَانِهِمْج وَاجْتَبَیْنٰهُمْ وَهَدَیْنٰهُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ) ۔

ترجمہ۔ اور زکریا، یحیٰ، عیسیٰ اور الیاس کو (بھی ابراہیم کی نسل سے قرار دیا) جو سب کے سب صالحین میں سے تھے۔

۹; اور اسماعیل، الیسع، یونس اور لوط کو بھی، اور سب کو تمام جہانوں پر فضیلت دی۔ اور ان کے آباء، ذریت اور بھائیوں میں سے (کچھ لوگوں پر لطف و کرم کیا اور ان کی شائستگی کی وجہ سے انہیں) برگزیدہ کیا اور انہیں سیدھے راستے کی ہدایت کی۔

چند نکات:

۱ ۔ "ذریت‘ ‘ اس اولاد کو کہتے ہیں جو باپ کی طرف سے کسی انسان کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ اگرچہ حضرت عیسیٰ کے والد نہیں تھے اور وہ صرف ماں کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب تھے لیکن اس آیت میں انہیں بھی ابراہیم کی ذریت میں شمار کیا گیا( ومن ذریة…وعیسیٰ ) ۔

۹; روایات میں ہے کہ حضرت امام جعفر صادق اور حضرت امام موسیٰ کاظم علیہم السلام نے بھی اسی آیت کوسند بنا کر اہلبیت اطہار علیہم اسلام کو جو ماں کی طرف سے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جا پہنچتے ہیں ذریت رسول اور اولاد رسول بتایا ہے۔ (تفسیر نورالثقلین جلد اول ص ۷۴۳ ۔) اور فخر رازی نے بھی اپنی تفسیر جلد ۱۳ ص ۶۶ میں اسی نکتہ کو قبول کیا ہے۔ اور صحیح بخاری میں بھی حضرت ابوبکر سے منقول ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی "ذریت" کا لفظ حضرت امام حسن علیہ السلام کے لئے استعمال کیا ہے۔

۹; آیا "یسع" ایک مستقل نام ہے یا لغوی طور پر "وسعت" کے لفظ سے لیا گیا ہے اور وسع کا مضارع ہے (جیسے یحی ہے) یا یہ کہ وہی "یوس ع" نبی کا نام ہے جو عبری زبان کا لفظ ہے اور عربی میں منتقل ہو کر "یسع" بن گیا ہے؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں،

۹; اگرچہ بعض تاریخیں حضرت یونس کو نسل ابراہیم میں شمار نہیں کرتیں، لیکن چونکہ اس آیت میں انہیں ذریہ( ٴ ) ابراہیم میں شمار کیا گیا ہے لیکن ہم کتب تاریخ کے نقل کرنے کی وجہ سے آیات قرآنی سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ بلکہ دوسرے حد سیات کا قرآنی آیات کے ساتھ مقائسہ کریں گے۔ اسی طرح یہی شبہ حضرت لوط کے بارے میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

۹; بعض لوگوں نے آیت ۸۷ میں موجود "آبائھم" کے کلمہ کے ساتھ "من" (بعضیہ) کی وجہ سے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ نعوذ باللہ انبیاء کے آباؤاجداد میں کچھ گمراہ لوگ بھی تھے، لیکن آیات کا انداز یہ بتا رہا ہے کہ ان انبیاء کے آباؤ اجداد میں سے بعض کو نبوت کے لئے برگزیدہ کیا اور بعض کو برگزیدہ نہیں کیا، نہ یہ کہ ان میں سے کچھ کافر تھے اور کچھ مومن۔ (از تفسیر نمونہ)

آیت ۸۸

( ذٰلِکَ هُدَی اللّٰهِ یَهْدِیْ بِه مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهط وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ یہ ہے خدا کی ہدایت، جس کے ذریعہ خدا اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔ اور ا گر وہ شرک کریں گے تو ان کے تمام اعمال حبط (اور برباد) ہو جائیں گے۔

پیام:

۱ ۔ حقیقی اور واقعی ہدایت تو خدا ہی کی ہے۔ دوسری تمام ہدایتیں سراب ہیں( ذٰلک هدی الله )

۲ ۔ الٰہی ہدایت کا دروازہ ہر شخص کے لئے کھلا ہے (من یشاء) اب یہ ہمارا کام ہے کہ اپنے دل اور کانوں کو حق کے قبول کرنے اور وحی کے سننے کے لئے آمادہ کریں۔

۳ ۔ انبیاء سمیت تمام لوگ جب تک خدا کے ارادے اور اس کے لطف و کرم کے زیرِ سایہ نہیں ہوں گے از خود ہدایت نہیں پا سکتے۔( یهدی به من یشاء )

۴ ۔ شرک تمام اعمال کے مٹنے اور باطل ہونے کا موجب بن جاتا ہے( لحبط )

۵ ۔ خدائی طریقہ کار میں تفریق نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اگر انبیاء بھی شرک کریں گے تو ان کو بھی تنبیہ کی جائے گی، کیونکہ معیار حق ہے نہ کہ افراد۔( ولواشرکوا ) اس بات کے پیش نظر کہ سابقہ آیات انبیاء سے متعلق ہیں۔

۶ ۔ تمام انبیاء معصوم ہیں اور غبار شرک کبھی بھی ان کے پاکیزہ دامن پر نہیں پڑا۔ آیت میں انبیاء کے لئے شرک کا فرض، فرض محال کے عنوان سے لیا گیا ہے،(( ولو )

۷ ۔ زندگی بھر میں اگر انسان نے ایک لمحہ کے لئے بھی شرک کیا ہے تو وہ رہبر بننے کے لائق نہیں ہے،( اشرکوا ) ۲۶

۸ ۔ الٰہی نقطہ نظر سے اخلاص اور خدائی روح کے حامل ہونے کو اہمیت حاصل ہے۔ اگر روح اخلاص نہ ہو تو سب کچھ ضائع ہو جاتا ہے۔( ولو اشرکوا لحبط )

آیت ۸۹

( اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَج فَاِنْ یَّکْفُرْ بِهَا هٰٓؤُلَآءِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِهَا قَوْماً لَّیْسُوْا بِهَا بِکٰفِرِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے آسمانی کتاب، حکومت اور مقام نبوت عطا کیا۔ پس اگر (مشرک لوگ) ان سے کفر برتیں اور انہیں تسلیم نہ کریں (تو اے پیغمبر! پریشان نہ ہونا کیونکہ) ہم نے ایسے لوگوں کو ان کے لئے نگہبان مقرر کر دیا ہے جو کافر نہیں ہیں۔ (اگر مشرکین ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہیں اور تسلیم نہیں کرتے تو دوسرے لوگ موجود ہیں جو ایمان لا چکے ہیں اور ان پر نگران ہیں)

دو نکات:

۹; "حکم" کا لفظ، حکومت اور فرمانروائی کے معنی کے لئے بھی آتا ہے اور فیصلہ کرنے اور عقل و ادراک کے لئے بھی۔ مفردات راغب میں ا س کا اصلی معنی "روکنا" اور "منع کرنا" ذکر ہوا ہے۔

۹; چونکہ صحیح عقل، صحیح فیصلہ اور صحیح حکومت غلطی، اشتباہ اور خلاف ورزیوں سے مانع ہوتے ہیں لہٰذا "حکم" کا اطلاق ان پر ہوتا ہے (تفسیر نمونہ)

۹; تفسیر المنار اور تفسیر روح المعانی میں مفسرین سے نقل کیا گیا ہے کہ "جو لوگ کافر نہیں ہیں اور حق کو قبول کر چکے ہیں اور اس کی حمایت پر کمربستہ ہیں" سے مراد ایرانی قوم ہے، (تفسیر نمونہ)

پیام:

۱ ۔ کچھ لوگوں کے کفر کی وجہ سے حق کا مشن اپنے حامیوں اور طرفدارں کے بغیر نہیں رہ جاتا، جب راستہ، حق کا راستہ ہو اور خدائی راستہ ہو تو افراد کی آمدورفت انسان کے لئے اہمیت کی حامل نہیں ہونی چاہئے۔ اگر کچھ لوگ چلے جاتے ہیں تو دوسرے افراد آ ہی جاتے ہیں۔

آیت ۹۰

( اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ هَدَی اللّٰهُ فَبِهُدٰهُمُ اقْتَدِهْط قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًاط اِنْ هُوَ اِلَّا ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ ) ۔

ترجمہ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت کی ہے پس تم بھی ان کے انداز ہدایت کی اقتدا کرو، (لوگوں سے) کہو کہ: میں اس (رسالت) کی مزدوری تم سے نہیں مانگتا، یہ قرآن تو عالمین ہی کے لئے ہدایت ہے۔

ایک نکتہ:

۹; لفظ "اقتدہ" میں حرف "ہ" ضمیر کے لئے نہیں ہے بلکہ "ہائے سکتہ ہے" ، اور وقت کے لئے استعمال ہوئی ہے۔

پیام:

۱ ۔ ہدایت انبیاء کی پیروی درحقیقت الٰہی ہدایت کی اقتدأ ہے۔( هدی الله فبهدلٰهم اقتده )

۲ ۔ اولیاء اللہ کا نام، ان کی یاد اور ان کی راہ کو زندہ رکھنا چاہئے، اور نئے احکامات کے آ جانے سے گزشتہ افراد کی خدمات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے( فبهدا هم اقتده )

۳ ۔ انسانیت کی اہمیت یا اس کی قدر و قیمت اس کے افکار اور عملی سیرت سے ہے۔ فرمایا ہے( فبهداهم اقتده ) یہ نہیں فرمایا "( بهم اقتده ) " یعنی خود ان کی اقتدا کرو۔ (از تفسیرالمیزان)

۴ ۔ بعض جزئی احکام کی تبدیلی یا تنسیخ سے اصول اور کلیات پر اثر نہیں پڑتا، پس انبیاء کے کلی اصولوں کو دائمی رہنا چاہئے( فبهدا هم اقتده )

۵ ۔ مبلغ دین کو دنیا طلبی اور مادیات سے دور رہنا چاہئے( قل لا اسئلکم )

۶ ۔ انبیاء میں اور دنیا کے دوسرے انقلابی رہنماؤں کے درمیان یہی فرق ہے کہ انبیاء کا ہدف مادیات نہیں ہوتا(( لا اسئلکم )

۷ ۔ موفق اور کامیاب ترین انسان وہ ہوتا ہے جو گزشتہ لوگوں کے کمالات، نیک اخلاق اور محکم طریقہ سے فیض حاصل کرے،( فبهدا هم اقتده )

۸ ۔ انبیاء، فراموش کار لوگوں کے لئے یادگار اور یادآور ہیں( ذکری )

۹ ۔ اسلام، عالمی دین ہے( للعالمین )