تفسیرنور

تفسیرنور0%

تفسیرنور مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیرنور

مؤلف: شیخ محسن قرائتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62886
ڈاؤنلوڈ: 5405

تبصرے:

تفسیرنور
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62886 / ڈاؤنلوڈ: 5405
سائز سائز سائز
تفسیرنور

تفسیرنور

مؤلف:
اردو

آیت ۹۱

( وَمَا قَدَرُوااللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَیْ ئٍط قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ الَّذِیْ جَآءَ بِه مُوْسٰی نُوْرًا وَّ هُدًی لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَه قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَهَا وَ تُخْفُوْنَ کَثِیْرًاج وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْآ اَنْتُمْ وَلَآ اٰبَآوٴُکُمْط قُلِ اللّٰهُلا ثُمَّ ذَرْهُمْ فِیْ خَوْضِهِمْ یَلْعَبُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور ان لوگوں نے خدا کو اس طرح نہیں پہچانا جس طرح اس کے پہچاننے کا حق ہے، کیونکہ انہوں نے کہا کہ: خداوند عالم نے کسی بشر پر کوئی چیز (اور کتاب) نازل نہیں کی۔ تم خود ہی کہہ دو کہ جو کتاب (توریت) موسیٰ لے کر آئے تھے وہ لوگوں کے لئے نور اورہدایت تھی، اسے کس نے نازل کیا؟ جس کتاب کو تم کاغذ کے پرزے بنا لیتے ہو اور (اپنی مرضی کے مطابق) اس سے (ایک حصے کو) ظاہر کرتے ہو اور بہت سے حصے کو چھپا دیتے ہو۔ اور جو کچھ تم اور تمہارے باپ دادا نہیں جانتے تھے (اسی آسمانی کتاب تورات) کے ذریعہ تمہیں تعلیم دی گئی۔ (اے پیغمبر!) کہہ دو کہ خدا ہی ہے (کہ جس نے ان کتابوں کو نازل کیا ہے) پھر تم انہیں چھوڑ دو تاکہ وہ اپنی یاوہ گوئیوں اور بیہودہ باتوں میں سرگرم رہیں۔

ایک نکتہ:

۹; یہ آیت یہودیوں کے اس گروہ کے جواب میں ہے جو لفظی نزاع کے طور پر کہتے تھے کہ خداوند عالم نے تو کسی پیغمبر پر کوئی کتاب نازل ہی نہیں کی۔

پیام:

۱ ۔ انبیاء اور آسمانی کتابوں کا بھیجنا خدا کا اپنے بندوں پر لطف ہے، لہٰذا جو لوگ اس بات کا انکار کرتے ہیں درحقیقت وہ خدا کے لطف و کرم، رحمت و مہربانی، حکمت اور دیرینہ طریقہ کار کے منکر ہیں۔( ما قدروا الله )

۲ ۔ اصلی تورات نور اور ہدایت تھی( نوراً وهدیً )

۳ ۔ دینی معارف کی قطع و برید، ان معارف کے ساتھ کھیلنا ہوتا ہے( قراطیس- یلعبون )

۴ ۔ وحی کے بغیر انسان کی بہت سے معارف اور معلومات تک دسترس ناممکن ہے( علمتم مالم تعلموا )

۵ ۔ کفار کے انکار اور ان کی ہٹ دھرمی کے مقابلے میں جو چیز انسان کی تقویت کا باعث بنتی ہے وہ ہے خدا کی ذات پر توکل۔( قل الله )

۶ ۔ انبیاء کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے کسی کو مجبور کرنا نہیں ہے( ذرهم )

آیت ۹۲

( وَهٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰاهُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَهَاط وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ یُؤْمِنُوْنَ بِه وَهُمْ عَلٰی صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور یہ مبارک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے، (اس آسمانی کتاب کی) تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے آ چکی ہے۔ اور اس لئے بھی کہ تم مکہ اور اس کے اطراف (کے لوگوں) کو ڈراؤ۔ اور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس پر بھی ایمان لاتے ہیں اور اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

ایک نکتہ:

۹; آیت میں "ولتنذر" کہا گیا ہے "لتنذر" نہیں کہا گیا۔ اور یہ شاید اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن مجید کے اور بھی اہداف ہیں۔ جن میں ایک مکہ اور اس کے اطراف کے لوگوں کو ڈرانا بھی ہے۔

پیام:

۱ آن مجید ہر قسم کی برکات کا حامل ہے (مثلاً تدبر، عبرت کا حصول، شفا، رشد و ہدایت عزت تک رسائی وغیرہ کیونکہ یہ سب کچھ قرآن میں ہے) (مبارک)

۲ ۔ قرآن دوسری آسمانی کتابوں کے ہم آہنگ ہے اور یہ اس کے مقصد واحد کے حامل ہونے اور الٰہی کتاب ہونے کی دلیل ہے (مصدق) جبکہ انسانوں کی لکھی ہوئی کتابیں جو ان کی خواہشات پر مبنی اور محدودیت پر مشتمل ہوتی ہیں ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں۔

۳ ۔ مکہ "ام القریٰ" (تمام آبادیوں کی ماں) ہے، لہٰذا عالم اسلام کو وہاں سے علمی اور روحانی غذا ملنی چاہئے اور وہیں سے ہی دنیائے اسلام کے امیدافزا پروگرام بننے چاہئیں، جس طرح ماں اپنی اولاد کے لئے امید، حفاظت، غذا، تربیت اور رشد و ہدایت کا ذریعہ ہوتی ہے۔

۔ اگرچہ انبیاء کرام علیہم السلام ہدایت اور نجات کی خوشخبری دینے والے ہوتے ہیں، لیکن چونکہ انسان کی زیادہ تر کوشش ضرر کو دور کرنے کے لئے ہوتی ہے اور روحانی طور پر اسے ڈرانے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اسی لئے قرآن مجید میں "نذیر" کا کلمہ "بشارت" کے کلمہ سے زیادہ استعمال ہوا ہے، "انذار" ۱۲۰ مرتبہ اور "بشارت" ۸۰ مرتبہ،( لتنذر )

۵ تبلیغ کا انداز قدم بقدم ہونا چاہئے۔ پہلے اسے اپنے رشتہ داروں سے شروع کیا جائے "( وانذر عشیرتک الاقربین ) " یعنی اپنے قریب ترین رشتہ دارں کو ڈراؤ (شعرأ/ ۲۱۴) پھر علاقہ کے لوگوں کو (ام القریٰ) پھر دنیا بھر کے انسانوں کو "رحمة للعالمین" تمام جہانوں کے لئے رحمت (انبیاء/ ۱۰۷) "( کافة للناس ) " (تمام لوگوں کے لئے) (سبا/ ۲۸) " لانذر کم بہ و من بلغ" یعنی تاکہ میں تمہیں اور ان تمام افراد کو ڈراؤں جن تک یہ قرآن پہنچے (انعام ۱۹) "( ان هو الاذکر للعالمین ) " یعنی یہ قرآن عالمین ہی کے لئے ہدایت ہے، انعام/ ۹۰)

۔ آخرت پر عقیدہ، نبوت پر عقیدہ کا موجب ہے( یوٴمنون بالاخرة، یوٴمنون به )

۷ ۔ ایمان کا واضح اور روشن ترین مظہر، نماز ہے( علی صلاتهم… )

۸ ۔ آخرت پر ایمان، نماز کی پابندی کے ساتھ ادائیگی کا ایک عامل ہے( بالاخرة…وهم علی صلاتهم یحافظون )

آیت ۹۳

( وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰهِ کَذِباً اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَلَمْ یُوْحَ اِلَیْهِ شَیْ ءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مثِْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ط وَلَوْتَرٰیٓ اِذِالظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰٓئِکَةُ بَاسِطُوْآ اَیْدِیْهُمْج اَخْرِجُوْآ اَنْفُسَکُمْط اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَ کُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِه تَسْتَکْبِرُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور اس سے بڑھ کر اور کون ظالم ہو گا جو خدا پر جھوٹ باندھتا ہے یا (دعویٰ کرکے) کہتا ہے کہ: مجھ پر وحی ہوتی ہے جبکہ اس پر کوئی بھی وحی نہیں ہوئی۔ یا (جھوٹ فریب کے طور پر) کہتا ہے کہ میں بھی اسی طرح نازل کرتا ہوں جس طرح خدا نے نازل کیا ہے، (اے پیغمبر!) اگر تم اس وقت کو دیکھو جب ظالم لوگ موت کی سکرات میں گرفتار ہو چکے ہوں گے اور فرشتے ان کی روح کو قبضرنے کے لئے اپنے طاقتور ہاتھ ان کی طرف بڑھائے ہوئے انہیں جان دینے کاحکم کرتے ہیں، (اور کہتے ہیں) آج رسواکن عذاب دیئے جاؤ گے بوجہ ان ناجائز باتوں کے جو تم خدا کی طرف منسوب کرتے تھے اور اس کی آیات سے سرپیچی کرتے تھے۔

چند نکات:

اس آیت کی شان نزول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: "عبد بن سعد" نامی ایک شخص کاتبان وحی میں سے تھا، اس نے وحی کی کتابت میں خیانت سے کام لیا تو سرکار رسالت نے اسے وہاں سے نکال دیا اس نے لوگوں کو اکٹھا کرکے کہنا شروع کر دیا "میں بھی قرآنی آیات کی مثل لا سکتا ہوں۔"

بعض لوگوں نے اس آیت کے نزول کی وجہ "مسیلمہ کذاب" کے دعوائے نبوت کو بیان کیا ہے جس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری ایام میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا، ان مفسرین کے نزدیک یہ آیت مدنی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے حکم سے اس جگہ پر درج کی گئی ہے۔

"غمرات" کا معنی ہے مرنے کے وقت کی سختیاں، جو انسان کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں، جو لفظ "غمرہ" سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے آثار کا مٹ جانا اور غرق ہونا۔

پیام:

۱ ۔ علمی طریقہ سے کسی پر ظلم کرنا اور نااہل افراد کی طرف سے رہبری کا دعویٰ بہت بڑا ظلم ہے( ومن اظلم…اوقال اوحی الی ) ۔

۲ ۔ دین میں بدعت۔ جو کہ بعض خلفأ کا کام بھی رہا ہے۔ جھوٹ باندھنے اور خدا پر بہتان طرازی کے مصداقوں میں سے ایک ہے۔

۳ ۔ حق کے دشمن یا تو حق کو نیچے لے آنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر اپنی باتوں کو اوپر لے جاتے ہیں۔ پہلے تو کہتے ہیں کہ "قرآن افسانہ ہے۔" اگر اس مقصد میں کامیاب نہ ہوئے تو کہتے ہیں کہ: "میں بھی قرآن کی طرح بہترین باتیں کر سکتا ہوں" (سانزل مثل ما انزل اللہ) ۲۷ یا کہتے ہیں: "( لو نشاء لقلنا مثل هذا ) " (انفال/ ۳۱)

۴ ۔ دینی منصب اور مذہبی تخصص کے جھوٹے اور نااہل دعویدار بہت برے طریقے سے جان دیتے ہیں۔( ولوتری اذا لظالمون )

۵ ۔ غرور و تکبر اور وحی و دین کی توہین کی سزا "عذاب الھون" (رسواکن عذاب) ہے۔( تجزون عذاب الهون )

۶ ۔ خدائی سزا کا آغاز موت کے پہلے ہی لمحہ سے ہو جاتا ہے اگرچہ روح اور جان لینا خدا کا کام ہے، لیکن کافروں سے کہا جائے گا "مرو" "نکالو اپنی جان"( اخرجوا انفسکم ) یہ ایک طرح کی توہین اور تحقیر ہے۔

۷ ۔ انسان کی روح مستقل ہے( اخرجوا انفسکم )

۸ ۔ دنیا میں تکبرو غرور کا نتیجہ آخرت کی خواری اور ذلت ہے( عذاب الهون…تستکبرون )

آیت ۹۴

( وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی کَمَاخَلَقْٰنکُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ تَرَکْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰکُمْ وَرَآءَ ظُهُوْرِکُمْ وَمَا نَرٰی مَعَکُمْ شُفَعَآءَ کُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِیْکُمْ شُرَکٰٓؤُاط لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَیْنَکُمْ وَضَلَّ عَنْکُمْ مَّا کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ یقیناً تم (بوقت موت یا بروز قیامت) اکیلے ہی ہمارے پاس آؤ گے۔ جس طرح کہ پہلی مرتبہ ہم نے تمہیں تنہا پیدا کیا ہے، اور تمام اموال کو جو ہم نے تمہیں دئیے ہیں اپنے پیچھے چھوڑ آؤ گے۔ اور جن (بتوں) کو تم اپنا شفیع اور خدا کا شریک سمجھتے تھے ہم انہیں تمہارے ساتھ نہیں دیکھتے۔ تمہارے تمام رشتے ٹوٹ گئے اور تمہارے تمام خیالات اور گمان مٹ گئے۔

دو نکات:

یہ خطاب بوقت مرگ یا بروز قیامت مشرکین سے کیا جائے گا۔ "خولنا" کا کلمہ "خول"(بر وزن عمل) سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے وہ خیر اور بہتری جس کے لیے سر پرست کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور عام طور پر اس کا اطلاق مال و شروت پر کیا جاتا ہے۔

پیام:

۱ ۔ قیامت اور قبر میں انسان ‘ پیدائش کے دن کی مانند یکہ و تنہا ہو گا( فرادیٰ )

۲ ۔ انسان قیامت کے دن کے لیے محشور ہونے کے وقت روز ولادت کی طرح عریان ‘ گریان ‘ عاجز و نادار ہو گا( کما خلقنکم اول مرة )

۳ ۔ معاد‘ جسمانی ہو گی۔( کما خلقنکم اول مرة )

۴ ۔ مشرکین کو چار چیزوں پر زیادہ بھر وسہ تھا ۔ ا۔ قوم و قبیلہ ۲ ۔ مال و ثروت ۳ ۔ طاعوت او رارباب ۴ ۔ بت۔ چنانچہ یہ آیت مرنے کے بعد اور قیامت میں ان چار چیزوں کی بے ثباتی اور بے بضاعتی کو بیان کر رہی ہے۔

"( فردایٰ" ) قوم و قبیلہ کے بغیر۔

"( ترکتم ما خولناکم ) " مال و ثروت کے بغیر۔

"( مانریٰ معکم شفعاء ) " یارو مدد گار کے بغیر۔

"( ضل عنکم ما کنتم تزعمون ) " ہر قسم کی دوسری خیالی قدرت کی حمایت کے بغیر۔

آیت ۹۵

( اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰیط یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّط ذٰلِکُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ بے شک خدوند عالم ہی دانے اور گٹھلی کو شگافتہ کرنے والا ہے، زندہ کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے باہر نکالنے والا ہے، یہ ہے تمہارا خدا بس تم کس لئے بھٹکتے پھرتے ہو؟

دو نکات:

"فالق کا لفظ "فلق" سے نکلا ہے جس کامعنی ہے شگافتہ کرنا۔ "حب" اور "حبہ" غلہ کے دانے کو کہتے ہیں۔ جیسے گندم اور جو وغیرہ کے دانے کہ جن کی فصلات کو کاٹا جاتا ہے۔ دوسرے دانوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے اور "نویٰ" کا معنی ہے گٹھلی۔

بے جان چارے سے جاندار حیوانوں کو اور جاندار حیوانوں سے بے جان دودھ کو پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح بے جان گٹھلی سے زندہ اور فعال درخت کو اور پروان چڑھے درخت سے بے جان گٹھلی کو پیدا کرتا ہے اور روایات کے بقول: بے ایمان لوگوں سے مومن افراد پیدا ہوتے ہیں اور مومن افراد سے بعض اوقات کافر پیدا ہوتے ہیں۔ (یخرج الحی من المیت و مخرج المیت من الحی)

پیام:

۱ ۔ دانے یا گٹھلی کو زمین میں ڈالنا اور کاشت کرنا انسان کا کام ہے لیکن انہیں شگافتہ کرنا اور اگانا خدا کا کام ہے۔( فالق )

۲ ۔ تمہارا رزق اور روزی انہی دانوں اور گٹھلیوں کی راہ سے حاصل ہوتی ہے پس تم کہاں اور کس کے پیچھے سرگرداں پھر رہے ہو؟( فانی توٴفکون )

۳ ۔ قدرتی اور طبعی آثار میں غور و فکر، خدا کی معرفت کا بہترین راستہ ہے۔

آیت ۹۶

( فَالِقُ الْاِصْبَاحِج وَجَعَلَ الَّیْلَ سَکَنًا وَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًاط ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعََلِیْمِ ) ۔

ترجمہ۔ خداوند عالم صبح (کی سفیدی) کو شگافتہ کرنے والا ہے، اس نے رات کو آرام و سکون کے لئے اور سورج اور چاند کو حساب کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ یہ خداوند دانا و توانا کے مقررکردہ (اصول) ہیں۔

دو نکات:

"اصباح" کا ایک معنی تو ہے "صبح" اور دوسرا معنی ہے "صبح میں داخل" ہونا، لیکن یہاں پر مراد وہی پہلا معنی ہے۔

اس سے پہلی آیت میں زمین میں خداوند عالم کی قدرت اور حکمت کی تین نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔ اور اس آیت میں آسمان میں اس کی قدرت کی نشانیوں کو بیان کیا گیا ہے، اور وہ ہیں رات اور دن جو اس کی قدرت کی دو نشانیاں ہیں۔ جس طرح کہ سورہ بنی اسرائیل / ۱۲ میں ارشاد ہوتا ہے "وجعلنا اللیل والنھار آیتین"۔ رات کے وقت آرام و استراحت، مناجات، معراج، نزول قرآن اور تہجد کی باتوں کا ذکر ہے۔

پیام:

۱ ۔ رات اور دن کے ہر لمحہ کی پیدائش، قدرت، حکمت اور ایسے فالق کی محتاج ہے جو یہ کام تقدیر اور اندازے کے ساتھ انجام دیتا ہے۔

۲ ۔ رات آرام کے لئے ہے اسی لیے روایات میں رات کے وقت کام کرنے، جانور کو ذبح کرنے اور سفر کرنے کی مذمت وارد ہوئی ہے۔ ۲۸

۳ ۔ سورج اور چاند نظم و انتظام، حساب و کتاب اور دوسرے منظم امور بجا لانے کا ذریعہ ہیں۔ ۲۹

آیت ۹۷

( وَهُوَالَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ النُّجُوْمَ لِتَهْتَدُوْا بِهَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِط قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور وہ وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے ہیں تاکہ تم خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں ان کے ذریعہ سے راہ معلوم کرو۔ اس میں شک نہیں ہے کہ ہم نے اپنی نشانیاں ان لوگوں کے لئے تفصیل کے ساتھ بیان کر دی ہیں جو آگاہ ہیں اور دانا ہیں۔

دو نکات:

علم ہیئت، انسان کے قدیم ترین علوم میں سے ہے۔ اور انسان ایک عرصہ دراز سے وقت، سمت، قبلہ اور دوسری چیزوں کی پہچان کے لئے صحراؤں اور دریاؤں کے سفر میں ستاروں سے استفادہ کرتا چلا آ رہا ہے۔ یہ ایک ایسا اوزار ہیں جو قابل اطمینان، دائمی، ہر دم تازہ، طبعی قدرتی، عمومی اور مفت ہیں۔

اسلام نے مظاہر فطرت پر خصوصی توجہ فرمائی ہے۔ بعض سورتوں کے نام طبعی چیزوں کے نام پر ہیں۔ اسلامی عبادات کا طبعیات سے گہرا تعلق ہے۔ مثلاً وقت شناسی، قبلہ شناسی، چاند گرہن، سورج گرہن، نماز آیات، ہر مہینے کی پہلی تاریخ، اور یہی چیزیں، علم ہیئت سے مسلمانوں کی آشنائی کا سبب بنیں اور انہی کی وجہ سے بغداد، دمشق، قاہرہ، مراغہ اور اندلس میں مسلمانوں کے ہاتھوں رصدخانے وجود میں آئے اور اس بارے میں مسلمانوں نے کتابیں تحریر کیں۔

پیام:

۱ ۔ ستارے، خدا کی مخلوق اور راہ معلوم کرنے کا ذریعہ ہیں، کائنات کے خالق اور اس کے مدبر نہیں ہیں۔( جعل لکم )

۲ ۔ ستاروں کا نظام اس قدر منظم اور مرتب ہے کہ اس سے بڑی آسانی کے ساتھ راہیں معلوم ہو جاتی ہیں۔( لتهتدوا )

۳ ۔ دریائی اور صحرائی سفر کے لئے جس کا انسان کو زندگی میں بہت کم ہی اتفاق ہوتا ہے خدا نے راہنما مقرر فرمائے ہیں، تو کیا یہ بات قابل قبول ہو سکتی ہے کہ انسان کی دائمی حرکت کے لئے اور راہ حق کو گم نہ کرنے کے لئے کوئی راہنما (نبی اور امام) نہ بنائے ہوں؟

۴ ۔ فقط ستاروں کے وزن، حجم، فاصلے، حرکت اور مدار کی پہچان بلکہ کلی طور پر ستارہ شناسی یا علم نجوم انسان کو خدا تک نہیں پہنچاتا، بلکہ انسان خود ارادہ کرے کہ اس ذریعہ سے خدا کی معرفت حاصل کرے( لقوم یعلمون )

اس لئے بہت سے آئینہ فروش ایسے ہیں جو اپنے چہرے کو نہیں سنوارتے اور آئینہ میں اپنی صورت کو نہیں دیکھتے۔ اصلاح کے لئے شرط ہے کہ ارادہ کرکے مقصد کو حاصل کیا جائے صرف آئینہ یا اس کی طرف دیکھنا ہی کافی نہیں۔

آیت ۹۸

( وَهُوَالَّذِیْٓ اَنْشَاَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّ مُسْتَوْدَعٌط قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَهُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور وہ وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا (تم سب آدم کی اولاد ہو) پس تم میں سے کچھ تو قرار پا چکے ہیں (اور اپنی معمول کی زندگی گزار رہے ہیں) اور کچھ ابھی (باپ کی پشتوں اور ماؤں کے رحم میں) نقل وانتقال کی حالت میں ہیں۔ ہم نے اپنی آیات کو ان لوگوں کے لئے تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے جو اہل فہم و شعور ہیں۔

دو نکات:

"انشأ" کی تعبیر میں دو نکتے پوشیدہ ہیں ۱ ۔ نئی چیز کووجود میں لانا ۲ ۔ مسلسل تربیت۔ انسان کی پیدائش میں ان دونوں نکات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ایک تو اس میں نیا وجود ہے اور دوسرے اس کی مسلسل تربیت کی جاتی ہے۔ کسی کی تقلید کرتے ہوئے پیدا کرنا یا پیدا کرکے اسے چھوڑ دینا بے فائدہ ہے۔ اور اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔

"مستقر" اور "مستودع" کی تعبیر میں اور بھی معانی ذکر ہوئے ہیں۔ منجملہ ان کے یہ بھی ہیں کہ: ۱ ۔ تم پائیدار روح اور ناپائیدار جسم کے حامل ہو۔ ۲ ۔ تم پائیدار اور ناپائیدار ایمان کے حامل ہو۔ ۳ ۔ تم عورت کے پائیدار اور مرد کے ناپائیدارنطفوں سے پیدا ہوئے ہو۔ ۴ ۔ تم زمین میں مستقر ہو اور قیامت تک کے لئے قبر میں ودیعت ہو۔ ۵ ۔ نعمتیں کبھی پائیدار ہوتی ہیں اور کبھی ناپائیدار۔ جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ اسلام سے منقول ہے کہ: "نماز عید کے بعد خدا سے دعا مانگی جائے کہ وہ اپنی نعمتیں ہمارے لئے دائمی قرار دے کیونکہ اس نے خود فرمایا ہے "فمستقرو مستودع" (تفسیر نورالثقلین اسی آیت کے ذیل میں)

پیام:

۱ ۔ تم سب کی اصل اور بنیاد ایک ہی ہے پس یہ سب اختلافات، تفوق طلبی اور نسلی امتیاز کیسا؟( من نفس واحدة )

۲ ۔ ایک نفس (جان) سے تمام انسانوں کی تخلیق میں اس قدر تنوع اور نت نئے نمونے، عظمت خداوندی کی علامت ہے۔

۳ ۔ ہر بخشش اور عطیہ پائیدار نہیں ہوتا جب تک نعمت اور امکانات موجود ہیں ا س سے بہتر سے بہتر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو( فمستقرو مستودع )

۴ ۔ جب تک انسان "اہل فہم" نہ ہو معارفِ الٰہی سے بہرہ مند نہیں ہو سکتا۔( لقوم یفقهون )

آیت ۹۹

( وَهُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآئًج فَاَخْرَجْنَا بِه نَبَاتَ کُلِّ شَیْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ ِمنْهُ حَبًّا مُّتَرَاکِبًاج وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَّجَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَّغَیْرَ مُتَشَابِهٍط اُنْظُرُوْآ اِلٰی ثَمَرِهٓ اِذَآ اَثْمَرَوَیَنْعِهط اِنَّ فِیْ ذٰلِکُمْ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور وہ وہی خدا تو ہے جس نے آسمان سے پانی نازل کیا، پس اس کے ذریعہ ہر قسم کی نباتات کو ہم نے اگایا اور اس نباتات سے سبز تنے اور شاخیں نکالیں کہ ہم اس سے باہم گتھے ہوئے دانے نکالتے ہیں۔ اور کھجور کے شگوفوں سے لٹکے ہوئے گچھے اور خوشے (باہر نکالے) اور (ہم نے) انگور اور زیتون اور انار کے باغات (کی پرورش کی) جو باہم صورت میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور (کچھ) ایک دوسرے سے جدا جدا بھی ہیں۔ اور اس کے پھل کی طرف غور سے نگاہ کرو کہ جب وہ پھلے اور پکے۔ بے شک اس میں ایماندار لوگوں کے لئے (خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔

چند نکات:

اس سے پہلی آیت میں فرمایا: تمام انسان ایک نفس سے ہیں اور اس آیت میں فرماتا ہے کہ: تمام نباتات، درخت اور پھل میوے ایک ہی سرچشمہ سے ہیں اور وہ ہے بارش کا پانی۔

"متراکب" کا لفظ "رکوب" (سوار ہونا) سے نکلا ہے۔ جس کا مطلب ہے ایک دوسرے پر سوار پھل اور باہم گتھے ہوئے دانے۔

"طلع" کھجور کے بند شگوفوں کو کہتے ہیں۔ "قنوان" تار کی مانند باریک لڑیاں بعد میں جن پر کھجور کے خوشے تیار ہوتے ہیں۔ "دانیہ" ایسے خوشے ہوتے ہیں جو گتھے ہوئے ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے نزدیک ہوتے ہیں یا سنگین بوجھ کی وجہ سے زمین کے نزدیک ہوتے ہیں۔ "متشابہ" وہ درخت ہوتے ہیں جو ظاہری شکل و شباہت میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں،۔ جیسے زیتون اور انار ہیں (اس بارے میں اسی سورت کی ۱۴۱ ویں آیت میں بھی اسی بات کاذکر ہے) "غیرمتشابہ" مزے اور خاصیت میں ایک دوسرے سے جدا جدا۔ یا اس سے یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ ایک دوسرے سے اس بات میں مشابہ ہیں کہ ایک ہی آب و خاک سے ہیں۔ اور غیرمتشابہ میووں اور درختوں میں ہیں۔ بعض پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور بعض ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اور "ینع" کا معنی ہے پھل کے پکنے کی طرز۔

اس آیت میں اور اس سے پہلے کی دو آیات میں تین پے درپے تعبیریں بیان ہوئی ہیں۔ "( لقوم یعلمون ) "، "لقوم یفقھون" اور "لقوم یومنون" اس قسم کی تعبیرات لانے کی کیا وجہ ہے؟ اس کا جواب آپ کو ذیل کے پیام میں ملے گا۔

پیام:

۱ ۔ تمام سبزہ جات اور نباتات کا منبع بارش کا پانی ہے( من السماء ماء فاخر جنابه نبات کل شیٴ )

۲ ۔ بارش کا نازل کرنا ہو یا دانے کا شگافتہ کرنا اور ا س سے درختوں اور پھل میووں کا اگانا، سب خدا کے ہاتھ میں ہے( انزل، فالق، نخرج )

۳ ۔ مطلب کو بیان کرنے میں اولویت کو پیش نظر رکھا جائے (زراعت اور گندم، خرما، انگور، زیتون، اور انار)

۴ ۔ پھل میووں سے تمہارا تعلق صرف مادی اور کھانے کی حد تک ہی نہیں ہونا چاہئے، ان سے فکری اور توحیدی تعلق بھی ہونا چاہئے( انظروا )

۵ ۔ ستاروں سے بہرہ مندی کے علم اور واقفیت کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا فرمایا ہے "( لقوم یعلمون ) " (آیت ۹۷) اس بات کا ادراک کہ کاروان بشریت کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے اور یہ کاروان پائیدار اور ناپائیدار صورت میں رواں دواں ہے ، اس بات کو سمجھنے کے لئے گہرے ادراک کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا فرمایا ہے "لقوم یفقہون" (آیت ۹۸) نباتات، بارش اور پھل میووں سے معنوی طور پر بھی استفادہ کیا جانا چاہئے، اور اس بات سے غافل نہیں رہنا چاہئے کہ ان سب کا پیدا کرنے والا اور انہیں ہستی کی نعمت سے نوازنے والا خداوند عالم ہے، اس کے لئے ایمان کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا فرماتا ہے( لقوم یوٴمنون )

آیت ۱۰۰

( وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَکَآءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوْا لَه بَنِیْنَ وَ بَنٰتٍم بِغَیْرِ عِلْمٍط سُبْحٰنَه وَ تَعٰالٰی عَمََّا یَصِفُوْنَ ) ۔

ترجمہ۔ اور ان لوگوں نے جنات کو خدا کا شریک بنایا ہے جبکہ جن خدا کی مخلوق ہیں۔ اور بغیر سوچے سمجھے خدا کے لئے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لی ہیں۔ خداوند عالم ان صفات سے منزہ اور برتر ہے جو وہ خدا کے لئے بیان کرتے ہیں۔

دونکات:

"خلق" کا معنی ہے کسی چیز کو باقاعدہ حساب کے تحت وجود میں لانا، اور "خرق" کسی چیز کو بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کسی حساب کے پارہ پارہ کر دینا اور "اختراق" بے انتہا اور بغیر سوچے سمجھے جھوٹ بنانا۔ پس "خرقوا" کے جملے کا معنی ہو گا بغیر کسی سوچ سمجھ کے اور اطراف و جوانب کو پیش نظر رکھے بغیر کسی بات کا اظہار کرنا، باتیں بنانا اور دعوے کرنا۔ (تفسیر نمونہ)

بقول قرآن مجید، عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو اور یہودی حضرت عزیر علیہ اسلام کو خدا کا بیٹا جانتے تھے۔ اور سورہ زخرف کی آیت ۱۹ کے بقول: کئی لوگ ملائکہ کو خدا کی اولاد سمجھتے تھے۔ زردشتی بھی "اھریمن" کو جو جنات میں سے تھا خدا کا شریک قرار دیتے تھے اور تمام برائیاں اسی کی طرف منسوب کرتے تھے۔ کچھ عرب تو خدا اور جنوں کے درمیان رشتہ داری کے قائل تھے۔ بقول قرآن "وجعلوابینہ و بین الجنة نسبا" یعنی ان لوگوں نے خدا اور جنات کے درمیان رشتہ قرار دیا ہے (صافات/ ۱۵۸)

پیام:

۱ ۔ جہالت، خرافات گھڑنے کی بنیاد ہے( خرقوا…بغیر علم )

۲ ۔ مخلوق، خالق کیونکر بن سکتی ہے؟( وخلقهم )

۳ ۔ ازدواج اور اولاد کا پیدا کرنا ایک کمی کو پورا کرنے کے لئے ہوتے ہیں اور خداوند متعال اس قسم کے نقائص اور عیوب سے پاک و مبرا ہے( سبحٰنه )