آئین تربیت

آئین تربیت5%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 127299 / ڈاؤنلوڈ: 7407
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

آئین تربیت

تالیف:

آیت اللہ استاد ابراہیم امینی

ترجمہ :

  قیصر عبّاس    ثاقب نقوی

۱

۲

بسم الله الرحمن الحیم

۳

۴

عرض ناشر

دور حاضرمیں جہاں حضرت انسان نے مادیت میں اس قدر ترقس کی ہے اب وہ خلائی سفر کامیابی سے انجام دیتے ہوئے مظام شمسی میں دیگر سیارگان پر کمندین ڈال رہا ہے ، وہاں وہ اقدار انسانی میں مسلسل الخطاط کے مسئلہ سے بھی شدّت کے ساتھ دو چار ہے _ ظاہر ہے کہ یہ مادّی ترقی مادی تعلیم کے حصول کامنطقی نتیجہ ہے لیکن اقدار حیات کی ترقّی میں ایک اور چیز بھی ناگزیر ہے حبس کو تربیت کہتے ہیں _ یہ انسان کی ایسی ضرورت ہے جو مہد یعنی ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے اور یہ وہ کیفیت ہے جبس کی عدم مو جود گی مادّی تعلیم کے با وجود انسان کو اس سطح پر لے آئی ہے جہاں ترقّی علوم مادّی کا عملی مقصد مخالفین کی حیات کو صفحہ ء ہستی سے یکمرمٹا دنیا ہے _ دنیا کی بڑی طاقتوں کے وہ منصوبے اس بات کی دلیل

۵

ہیں جو بتدریج سائنسی تجربات کی شکل میں سامنے آرہے ہیں ان کے ذریعے کوشش کی جادہی ہے کہ ایسے ہتھیار ایجاد کریں ، جن کا استعمال کم سے کم وقت میں زیاد ہ سے زیادہ انسانوں کو نیست و نابود کردے _

ان تمام حالات کے پیش نظر تربیت انسان کی ضرورت ون بدن زیادہ محسوس ہوتی جارہی ہے _ کتا ب ہذا آئین تربیت ایران کے فاضل مصنّف جناب ابراہیم امینی نجف آبادی کی ایک نہایت عمدہ سعی ہے حبس میں تر بیت انسان کے موضوع پر اسوہ ء معصومین علیہم السلام کی روشنی میں بجث کی گئی ہے _ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں عرض کیا ہے ، تربیت کا پہلا مدرسہ آغوش مادر ہے _ اس سلسلہ مسن شاعر مشرق علاّمہ محمّد اقبال رحمة اللہ علیہ قرماتے ہیں _

سیرت فرزند ہا از امہات

جو ہر صدق وصفا از امہات

کتاب ہذا میں مندرجہ ذیل امور پر خصوصیت کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے جو ضروریات تربیت میں شامل ہیں :

۱ : جسمانی اور نفسانی دونوں میں تربیت کنندہ

۶

کی امور تربیت سے کما حقّہ ، واقفیت

۲: ہدف تربیت سے واقفیت _

۳: تربیت کے لیے جن اقدار و اوضاع کی ضرورت ہوتی ہے ، ان سے کما حقّہ واقفیت _

فاضل مؤلّف نے یہ سب کچھ سیرت معصومین کی روشنی میں پیش کیا ہے _ ہم ان کی اس کاوش کو اردو زبان میں بطور ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرر ہے ہیں _ امید و اثق ہے کہ یہ کتاب والدین اور اساتذہ کے لیے تربیت او لاد و شاگردان میں ایسی معاون ثابت ہو گی حبس سے دور مادیت میں قوم کو با اقدار انسان مل سکیں گے _

قارئین کرام سے استداعا ہے کہ کتاب ہذا کے مطالعہ کے بعد اپنی قیمتی آراء سے ادارہ مصباح الہدی پبلیکیشنز کو ضرور مطلع فرمائیں

طلبگاری تعاون

ڈائر یکڑ مصباح الہدی پبلیکیشنز

لاہور

۷

انتساب

حضرت علی و فاطمہ سلام اللہ علیہما _ گی خدمت میں _ کہ جو اسلام کے مثالی ماں باپ ہیں _ جنہوں نے _ امام حسن ، امام حسین ، زینب اور ام کلشوم جیسی لائق اولاد کی تربیت کی _

ان لائق احترام ماں باپ _ کی خدمت میں _ جن کے دامن میں اما م خمینی روحی فدا جیسے با بصیرت اور مضبوط مو قف کے حامل رہبر کے سے فداکار اور آبرومند بیٹے پر وان چڑھے _

ان ماں باپ _ کی خدمت میں _ جو اپنے تربیت یافتہ مجاہد اور جانباز فرزندوں کی جدائی کا داغ سینے پر لگا ئے ہوئے ہیں _ وہی فرزند کہ جنہوں نے اسلام کے لیے شہادت نوش کیا اور اپنے عزیز خون کو نثار کر کے انقلاب اسلامی ایران کے چہر ے کو گل رنگ کردیا اور شجر اسلام کی آبیاری کی _

۸

بسم الله الرحمن الرحیم

کچھ تر جمے کے بار ے میں

ترجمہ کیا ہو ؟ اس کی شرائط کیا ہیں؟ اس پر بہت کچھ کہا گیا ہے ، کہا جاتار ہے گا اور کہا جا تار ہنا چا ہیے معمولا دو طریقے ترجمے کے لیے رائج ہیں :

۱_ لفظی ترجمہ

۲_ آزاد اور مفہومی ترجمہ

ان دونوں کی اپنی خو بیاں ہیں ، دونوں کے حامیوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں او ردونوں کے لیے موجود وزنی دلائل کی اپنے اپنے مقام پر اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا _

ہمیں یہاں صرف _ زیر نظر ترجمے کے بار ے میں کچھ عرض کرنا ہے _

آئین تربیت کے خاص اسلوب نگارش اور ترجمے کے قارئین پر نظر نے ہم سے ایک جدا گانہ سے طرز ترجمہ کا تقاظا کیا ہو ہو نے ;

بعض مقامات پر لفظی ترجمہ ضروری سمجھا اور بعض عبارتوں کو فقط اردو کا لباس پہنا کر آپ تک پنچا دیا ہے _

بعض _ بلکہ بہت سے مقامات پر آزاد ترجمے کی روش اپنائی ہے اور مفہوم عبارت منتقل کرنے کی کوشش کی ہے

بعض مقامات پران دونون صورتوں سے کام نہیں لیا بلکہ مقصود پہنچانے کی کوشش

۹

کی ہے کیونکہ دہاں ترجمے کی صورت مین مقصود مضمحل ہو جاتا اور مطلوب و مقصود کو بہر حال لفظ اور مفہوم پر فوقیت حاصل ہے _

جیسے اردو پر یورپی زبانوں کیے اثرات بے پناہ ہیں اسی طرح فارسی جیسی وسیع زبان بھی اپناد امن اس سے بچا نہیں سکی _ بہت سے انگیریزی لفظ اور اصطلاحات فرسی لہجے کا رنگ اختیار کر کے فارسی میں داخل ہو گئے ہیں یا یوں کہا جا ئے کہ فا رسیا لیے گئے ہیں _ اسی طرح فارسی کی اپنی اصطلاحات ہیں اور ہمارے ہاں اپنی اصطلاحات _ ان پہلوؤں کو ترجمہ کرتے ہو ئے ملحوظ رکھا گیا ہے _ متبادل اصطلاحات لکھی گئی ہیں جہاں جہاں ضروری محسوس ہو ا متبادل انگیزی اصطلاحات بھی لکھ دی گئی ہیں _

اصل کتاب میں قرآنی آیات اور روایات کی عربی عبارات نہایت ہی کم درج کی گئی ہیں ترجمہ کر تے ہو ئے خاص طور پر قرآنی آیات اپنے اصل متن کے ساتھ درج کردی گئی ہیں اور بہت سے مقامات پر روایات کی عربی عبارات بھی اصل متن کودیکھ کر لکھ دی کئی ہیں _

کوشش کی گئی ہے کہ عبادت رواں ، ساوہ او رعام فہم ہو لیکن پھر بھی یہ ترجمہ ہی ہے _ تالیف یا تضعیف نہیں لہذا کہیں کہیں بو جھل پن کا احساس ہو تو قارئین معاف فرمائیں _

کتاب چو نکہ تربیتی ہے لہذا بہت سے مطالب تکراری ہیں اور یہ تربیت کا تقاضا بھی ہے اور خاصہ بھی _ ترجمہ کرتے ہوئے اس حو الے سے تصرف سے دامن بچا نے کی کوشش کی گئی ہے _

مذکورہ امور میں سے بینادی امور پر خود صاحب کتاب یعنی حضرت آیت اللہ ابراہیم امینی سے تبادلہ خیال کے بعد ہم آہنگی پاکر ہمین کچھ اور بھی اطمینان ہے _

تنقید اور آراء کے لیے بہر حال ہم خندہ پیشانی سے منتظر ہیں _ کیوں کہ کمال کا راستہ انہی وادیوں سے ہو کرگزرتا ہے

مترجمین

۱۰

پیشگفتار

تعلیم اور تربیت میں فرق ہے تعلیم کا معنی ہے آموزشی، سکھا نا یا کسی کو کوئی مطلب یاد کرانا_جب کہ تربیت کہ مطلب ہے شخصیت کی تعمیر اور پرورش _ تربیت کے ذریعے سے اپنے پسند کے مطابق افراد ڈھالے اور تیارکیے جا سکتے ہیں او رنتیجتا معاشر ے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے _

ضروری ہے کہ تربیت ایک سو چے سمجھے اور دقیق پروگرام کے تحت انجام پا ئے تا کہ کا میابی کے ساتھ نتیجہ ثابت ہو _ تربیت ہیں صرف و عظ و نصیحت اور ڈرانا رھمکانا ہی کافی نہیں بلکہ پا ہیے کہ تمام حالت اور شرائط مقصد کے مطابق فراہم ہوں _ تا کہ مقصود حاصل ہو سکے _

تربیت کے لیے چند چیزیں ضروری ہیں _

۱_ چاہیے کہ مربّی اس شخص کو اچھی طرح پہنچا نتا ہو کہ جس کی اسے تربیت کرنا ہے _ اس کی خوصیات اور اس کے جسمانی اور نفسیاتی رموز سے آگاہ ہو _

۲_ مربّی کی نگاہ میں تربیت کا کوئی ہدف ہو نا چا ہیے _ یعنی اس کی نظر میں یہ ہونا چا سیے کہ وہ کیسا انسان بنا نا چاہتا ہے _

۳_ تربیت کے لیے مربّی کے پاس کوئی پروگرام ہو نا چا ہیے _ یعنی اسے جاننا چاہیے کہ جیسی شخصیت و ہ پروان چڑھانا چاہتا ہے اس کے لیے کن حالات اور شرائط کی ضرورت ہے لہذا ان سب کو اسے فراہم کرنا چاہیے اور پورے غورو خوض سے کام لینا چاہیے _ پھر یہ ممکن ہو سکتا ہے کسی مثبت نتیجہ کا انتظار کرے _

۱۱

تربیت کے لئے بہترین زمانہ بچین کا ہے کیونکہ بچے نے ابھی پوری شکل اختیار نہیں کی ہوتی اور ہر طرح کی تربیت کے لئے آمادہ ہوتا ہے _ یہ حساس اور اہم ذم داری پہلے مرحلہ پرماں باپ کے ذمے ہے _ لیکن تربیت ایک سہل اور سادہ سا کام نہیں ہے _بلکہ ایک انتہائی ظریف و حساس فن ہے کہ جس کے لیے کام کی شناخت ، کافی اطاعات ، تجربہ ، برد باری اور حوصلہ و عزم کی ضرورت ہے _ یہ بات باعث افسوس ہے کہ اکثرماں باپ فن تربیت سے آشنا نہیں _ یہی و جہ ہے کہ زیادہ تر بچوں کی کسی حساب شدہ اور منظم پروگرام کے تحت پرورش نہیں ہوتی بلکہ وہ گویا خود رو پودوں کی طرح پروان چڑ ھتے ہیں _

مشرق و مغرب کے ترقی یافتہ کہلا نے والے ممالک میں تربیت کے مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے _ انہوں نے اس سلسلے میں بہت تحقیقات کی ہیں ، بہت سی سودمند کتا بیں لکھی ہیں اوران کے ہاں فن کے بہت سے ماہرین موجود ہین _ لیکن ہمارے ملک میں زندگی کے اس اہم مسئلہ کی طرف کوئی تو جہ نہیں کی گئی _ البتہ چند ایک ماہرین موجود ، ہیں اور تھوڑی بہت کتا بیں بھی ہیں لیکن اتنا کچھ کفایت نہیں کرنا _ دوسری زبانوں سے اس ضمن میں بہت سی کتابوں کافارسی میں ترجمہ ہوا ہے جو سب کی دسترس میں ہیں _ لیکن ان مشترقی اور مغربی کتابوں میں دوبڑے نقص موجود ہیں _

پہلا عیب یہ ہے کہ ان میں انسان کو فقط جسمانی حوالے اور اس کی دینا دی زندگی کے حوالے سے دیکھا گیا ہے اور بحث و تحقیق کی گئی ہے _اور وحانی سعادت و بد بختی اور اخروی زندگی سے یا غفلت برقی گئی ہے یااعراض کیا گیا ہے _

مغرب میں تربیت کے لیے اس کے علاوہ کوئی ہدف نہیں کہ بچے کی جسمانی طاقت اس کی حیوائی قوتوں ، اعصاب اور مغز کو صحیح طریقے سے پروان چڑ ھا یا جائے تا کہ جس و قت وہ بڑا ہو آرام سے زندگی گزارسکے اور مادی فوائد اور حیوانی لذتوں سے بہرہ مند ہو سکے اور ان کتابوں ہیں اگر اخلاق کے بارے مین گفتگو ہوتی بھی ہے تو وہ بھی ای دنیا وی زندگی اور مادی مفادات کے حصول سے مربوط ہے _ ان کتایوں میں روحانی کمالات یا نقائص کاذکر نہیں _

۱۲

اخروی خوشبختی یا بد بختی کا تذکرہ نہیں اور مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے ان مین اخلاقی اور روحانی زندگی کے بارے مین کچھ نییں _ دوسراعیب یہ ہے کہ مغرب والوں کے نزدیک تربیتی مسائل کا انحصار تجربات اور شماریات پر ہے _ دذین کا ان پرکوئی رنگ نہیں _

لہذار یہ مابیں مسلمانوں کے نزدیک مفید ، جامغ اور کامل نہیں ہو سکتیں کیوں کہ ایک مسلمان کی نظر مین انسان کے دو پہلو میں _ ایک جسم اور دوسرا روح _ لیک دنیا دی زندگی اور دوسری اخروی زندگی _ لہذا قم نے فیصلہ کیا کہ اس سلسلے اس مین مطالعہ اور تحقیق کی جائے اور پھرا پنے نتیجہ کو تحریر کی صورت مین طالبین کی خدمت میں پیش کیا جائے _ اس کتاب کی تحریر کے لیے را قم کا اصلی ماخذ قآن اور کمتب حدیث و اخلاق ہیں _ البتہ بچے کی تربیت سے متعلق اور فضیات سے متعلق دسیلوں کتابیں جو فارسی اور عربی زبان مین ترجمہ ہو چکی مین او رحفظان صحت سے متعلق کتب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے _ ایرانی علماء نے بچے کی تربیت کے متعلق جو کتابیں لکھی ہیں ان سے بھی استفادہ کیا گیا ہے _ البتہ اس سلسلے مین را قم کے اپنے بھی کچھ تجربات ہیں _ امید ہے کہ یہ نا چیز پیش کش تربیت کرنے والوں کے مفید ثابت ہو گی اور اسلام اور مسلمانوں کے لیے سودمند قرار پائے گی _

ابراہیم امینی نجف آبادی

حوزہ علمیہ قم

بہمن ماہ۱۳۵۸ ھ

جنوری سنہ ۱۹۸۰ئ

۱۳
۱۴

ماں باپ کی ذمہ داری

اسلام کی نظر مین ماں باپ کا مقام بہت بلند ہے _ اللہ تعالی نھ ، رسول اکرام نے اور آئمہ معصومین علیہم السلام نے اس بار ے میں بہت تا کید کی ہے اور اس سلسلے میں بہت سی آیات اور روایات موجود ہین _ ماں باپ سے حسن سلوک کو بہترین عبادات میں سے شمار کیا گیا ہے _ارشاد الہی ہے _ وقضی ربک الا تعبد و االا آیاه و لاوالدین احسنا

اورتیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرو اور والادن کے تاسھ حسن سلوک اختیاد کرو _ ( بنی اسرائیل ۲۳ )

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے _

تین چیزین بہترین عمل ہین :

۱_ پابندی وقت کے ساتے نماز نچگہنہ کی اوائیگی _

۲_ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک اور

۳_ راہ خدا میں جہاد

(اصول کافی ج ۲ ص ۱۵۸)

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماں ماپ کو سہ مرتبہ کیوں اور کیوں کرملا ہے ؟ کیا اللہ تعالی انے انہیں یہ مقام بلا وجہ عطا کردیا ہے یا ان کے کسی قیمتی عمل کی وجہ سے ؟ ماں باپ بچے کے لیے کون سابڑا کام انجام دیتے ہیں کہ جس کے باعث وہ اس فذر مقام و خدمت کے لائق قرار

۱۵

پاتے ہیں _ باپ نے ایک جنسی جذبے کس تسکین کے لیے ایک خلیہ حیات ( ) رحم مادر میں منتقل کیا ہے _ یہ سیل ماں کی جانب سے ایک اور سیل کے ساتھ مل کرمرکب ہو جاتا ہے جو ایک نئے وجود کے طور پر رحم مادر مین پرورش پاتا ہے _ جونو ماہ کے بعد ایک ننھے منے بچے کی صورت میں زمین پر قدم رکھتا ہے _ اں اسے دودھ او رودسری غذا دیتی ہے _ اسے کبھی صاف کرتی ہے کبھی کپڑ ے بدلتی ہے اس کی تری اور خشکی کا خیال رکھتی ہے ان مراحل میں باپ خاندان کے اخراجات پورے کرتا ہے اوران کی دیکے بھال کرتا ہے _ کیاماں باپ کی ان کاموں کے علاوہ کوئی مہ داری نہیں ؟ کیا انہی کاموں کی وجہ سے ماں باپ کو اس قدر بلند مقام حاصل ہے ؟ کیا صرف ماں باپ اپنی اولاد پر حق رکھتے ہیں اور اولاد اپنے مان باپ پر کوئی حق نہیں رکھتی ؟ میرے خیال میں ایسا یک طرفہ حق تو کوی بھی قبول نہیں کرتا _ احادیث معصومین علیم السلام میں ایسے حقوق اولاد بھی بان فرمائے کئے ہیں کہ جن کی ادائیکی ماں باپ کی ذمہ داری ہے _ ان میں سے چند احادیث ہم ذیل میں ذکر کر تے ہین :

۱_ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :چنانچہ جس طرح تیرا باپ تجھ پر حق رکھتا ہے تیری اولاد بھی پر حق رکھتی ہے

مجمع الزوائد ، ج ۸ ، ص ۱۴۶

۲_پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :جیسے اولاد اپنے ماں باپ کس نا فرمانی کی وجہ سے عاق ہو حاتی ہے اسی طرح سے ممکن ہے ماں باپ بھی اپنے فریضے کی عدم ادائیگی کے باعث اولاد کی طرف سے عاق ہو جائیں : بحار ، ج ۱۰ ،ص ۹۳

۳_ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا :

خدا ایسے ماں باپ پر لعنت کرے جو اپنی اولاد کے عاق ہونے کا باعث بنیں ( مکارم الاخلاق ، ص ۵۱۸ )

۴_ اما م سجّاد علیہ السلام نے فرمایا :

تیر ی اولاد کا حق یہ ہے کہ تو اس پر غور کر کہ وہ بری ہے یااچھی ہے بہر حال

۱۶

تجھی سے وجود میں آئی ہے اوراس دنیا میں وہ تجھی سے منسوب ہے اور تیری ذمہ دار ہے کہ تو اسے ادب سکھا، اللہ کی معرفت کے لیے اس کی راہنمائی کر اور اطاعت پروردگار میں اس کی مددکر، تیرا سلوک اپنی اولاد کے ساتھ ایسے شخص کاساہونا چاہیے کہ جسے یقین ہوتا ہے کہ احسان کے بدلے میں اسے اچھی جزا ملے گی اور بد سلوکی کے باعث اسے سزاملے گی ''_ (مکارم الاخلاق ص ۴۸۴)

۵_ امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

''کہیں ایسا نہ ہو کہ تیری وجہ سے تیرا خاندان اور تیرے اقربا بدبخت ترین لوگوں میں سے ہوجائیں ''_ (غررالحکم ص ۸۰۲)

۶_ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

''جو کوئی بھی یہ چاہتا ہو کہ اپنی اولاد کو عاق ہونے سے بچائے اسے چاہیے کہ نیک کاموں میں اس کی مدد کرے''_ (مجمع الزوائد ج ۸ ص ۱۴۶)

۷_ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

''جس کسی کے ہاں بیٹی ہو اور وہ اسے خوب ادب و اخلاق سکھائے ، اسے تعلیم دینے کے لیے کوشش کرے، اس کے لیے آرام و آسائشے کے اسباب فراہم کرے تو وہ بیٹی اسے دوزخ کی آگ سے بچائے گی '' _(مجمع الزوائد _ ج ۸ _ ص ۱۵۸)

سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

یا ایها الذین آمنوا قو اانفسکم و اهلیکم ناراً وقودها الناس و الحجارة _

اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ کہ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں _ (سورہ تحریم _ آیہ ۶)

۱۷

بچے نے سبب کہ ابھی وضع زندگی کے بارے میں کوئی راستہ متعین نہیں کیا ہوتا اور سعادت و بدبختی ہر دو کی اس میں قابلیت ہوتی ہے اس سے ایک کامل انسان بھی بنایا جا سکتا ہے اور ایک گھٹیا درجے کا حیوان بھی _ ہر انسان کی سعادت اور بدبختی اس کی کیفیت تربیت سے وابستہ ہے اور اس عظیم کام کی ذمہ داری ماں باپ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے _ اصولاً ماں باپ کا معنی یہی ہے _ ماں باپ یعنی انسان ساز اور کمال بخشنے والے دو وجود _ عظیم ترین خدمت کہ جو ماں باپ اپنی اولاد کے لیے انجام دے سکتے ہیں وہ یہ ہے اسے خوش اخلاق ، مہربان، انسان دوست ، خیرخواہ، حریت پسند، شجاع ، عدالت پسند، دانا، درست کام کرنے والا، شرافت مند ، با ایمان فرض شناس ، سالم ، محنتی ، تعلیم یافتہ ، اور خدمت گزار بننے کی تربیت دیں _

ماں باپ کو چاہیے کہ اپنے بچے کو اس طرح سے ڈھالیں کہ وہ دنیا میں بھی سعادت مند ہو اور آخرت میں بھی سرخرد_ ایسے ہی افراد در حقیقت ماں باپ کے عظیم مرتبے پر فائز ہو سکتے ہیں نہ وہ کہ جنہوں نے ایک جنسی جذبہ کے تحت اولاد کو وجود بخشاہے اور اسے بڑا ہونے کے لئے چھوڑدیا ہے کہ وہ خود بخود تر بیت پائے پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:باپ جو اپنی اولاد کو بہترین چیز عطا کرسکتا ہے وہ اچھا ادب اور نیک تربیت ہے _ (مجمع الزوائد _ ج ۸ ص ۱۵۹)

خصوصاً ماں کی اس سلسلے میں زیادہ اہمیت ہے _ حتی کہ دوران حمل بھی اس کی خوراک اور طرز عمل بچے کی سعادت اور بدبختی پر اثر انداز ہوتا ہے _

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:خوش نصیب وہ ہے کہ جس کی خوش بختی کی بنیاد ماں کے پیٹ میں پڑی ہو اور بدبخت وہ ہے جس کی سعادت کا آغاز شکم مادر سے ہوا ہو _ (بحار الانوار _ ج ۷۷ _ ص۱۱۵_۱۳۳)

رسول اکرم (ص) نے فرمایا: الجنة تحت اقدام الامهات   (مستدرک _ ج ۲ _ ص ۶۳۸)

۱۸

جو ماں باپ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ نہیں کرتے بلکہ اپنی رفتار و کردار سے انہیں منحرف بنادیتے ہیں وہ بہت بڑے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں ایسے ماں باپ سے پوچھنا چاہیے کہ کیا اس بے گناہ بچے نے تقاضا کیا تھا کہ تم اسے وجود بخشو کہ اب وجود میں لانے کے بعد اسے تم نے گائے ے بچھڑے کی طرح چھوڑدیا ہے _ اب جب کہ تم اس کے وجود کا باعث بن گئے ہو تو شرعاً اور عقلا ً تم ذمہ دار ہو کہ اس کی تعلیم و تربیت کے لیے کوشش کرو _ لہذا تعلیم و تربیت ہر ماں باپ کی عظیم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے _اس کے علاوہ ماں باپ معاشرے کے سامنے بھی جواب وہ ہیں _ آج کے بچے ہی کل کے مرد او رعورت ہیں _ کل کا معاشرہ انہیں سے تشکیل پاناہے _ آج جو سبق سیکھیں گے کل اسی پر عمل کریں گے _ اگر ان کی تربیت درست ہوگئی تو کل کا معاشرہ ایک کامل تراور صالح معاشرہ ہوگا اور اگر آج کی نسل نے غلط پروگرام کے تحت اور نادرست طور پر پرورش پائی تو ضروری ہے کہ کل کا معاشرہ فاسدتر اور بدتر قرارپائے _ کل کی سیاسی ، علم اور سماجی شخصیات انہیں سے وجود میں آئیں گی _ آج کے بچے کل کے ماں باپ ہیں _ آج کے بچے کل کے مربّی قرار پائیں گے _ اور اگر انہوں نے اچھی تربیت پائی ہوگی تو اپنی اولاد کو بھی ویسا ہی بنالیں گے اور اسی طرح اس کے برعکس _ لہذا اگر ماں باپ چاہیں _ تو آئندہ آنے والے معاشرہ کی اصلاح کرسکتے ہیں اور اسی طرح اگرچاہیں تو اسے برائیں اور تباہی سے ہمکنار کرسکتے ہیں _ اس طرح سے ماں باپ معاشرے کی حوالے سے بھی ایک اہم ذمہ داری کے حامل ہیں _ اگر وہ اپنے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کے لیے کوشش کریں تو انہوں نے گویا معاشرے کی ایک عظیم خدمت سرانجام دی ہے او روہ اپنی زحمتوں کے صلے میں اجر کے حقدار ہیں اور اگر وہ اس معاملے میں غفلت اور سہل انگاری سے کام لیں تو نہ صرف اپنے بے گناہ بچوں کے بارے میں بلکہ پورے معاشرے کے لیے خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں اور یقینی طور پر بارگاہ الہی میں جواب وہ ہوں گے _

تعلیم و تربیت کے موضوع کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے _ ماں باپ اولاد کی تربیت کے لئے جو کوشش کرتے ہیں اور جو مصیبتیں اٹھاتے ہیں وہ سینکڑوں استادوں ، انجینئروں ، ڈاکٹروں اور عالموں کے کاموں پر بھاری ہیں _ یہ ماں باپ ہیں جو انسان کامل پرواں چڑھاتے ہیں اور ایک

۱۹

لائق و دیندار استاد، ڈاکٹر اور انجینئر وجود میں لاتے ہیں _

خاص طور پر مائیں بچوں کی تربیت کے بارے میں زیادہ ذمہ داری رکھتی ہیں اور تربیت کا بوجھ ان کے کندھوں پر رکھا گیا ہے _ بچے اپنے بچپن کا زیادہ عرصہ ماؤں کے دامن میں ہی گزارتے ہیں _ اور آئندہ زندگی کے رخ کی بنیاد اسی زمانہ میں پڑتی ہے _ لہذا افراد کی خوشبختی اور بدبختی اور معاشرے کی ترقی او رتنزل کی کنجی ماؤں کے ہاتھ میں ہے _ عورت کا مقام وکالت وزارت ، اور افسری میں نہیں یہ سب چیزیں مقام مادر سے کہیں کم تر ہیں _ مائیں کامل انسانوں کی پرورش کرتی ہیں اور صالح وزیر، وکیل ، افسر اور استاد پروان چڑھاتی ہیں اور معاشرے کو عطا کرتی ہیں _

جو ماں باپ پاک، صالح اور قیمتی بچے پروان چڑھاتے ہیں نہ صرف یہ کہ وہ اپنی اولاد اور معاشرے کی خدمت کرتے ہیں بلکہ خود بھی اسی جہان میں ان کے وجود کی خیر وخوبی سے بہرہ مند ہوتے ہیں _ نیک اولاد ماں باپ کی سرافرازی کا سرمایہ ہوتی ہے اور ناتوانی کے زمانے میں ان کا سہارا ہوتی ہے _ اگر ماں باپ ان کی تعلیم و تربیت کے لیے کوشش کریں تو اسی دنیا میں اس کا نتیجہ دیکھیں گے اور اگر اس معاملے میں غفلت اور سہل انگاری سے کام لیں تو اسی دنیا میں اس کا ضرر بھی دیکھ لیں گے _

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:بری اولاد انسان کے لیے بڑی مصیبتوں میں سے ہے _ (غرر الحکم _ ص ۱۸۰)

حضرت علی علیہ السلام نے یہ بھی فرمایاہے:بری اولاد ماں باپ کی آبروگنوادیتی ہے اور وارثوں کو رسوا کردیتی ہے _ (غررالحکم _۷۸۰)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:خدا رحمت کرے ان ماں باپ پر جنہوں نے اپنی اولاد کو تربیت دی کہ وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کریں _ (مکارم الاخلاق_ ص ۵۱۷)

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361