بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں0%

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں

مؤلف: سید جعفر مرتضی عاملی
زمرہ جات:

مشاہدے: 9560
ڈاؤنلوڈ: 2398

تبصرے:

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9560 / ڈاؤنلوڈ: 2398
سائز سائز سائز
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں

مؤلف:
اردو

اسلامی بازار کی ابتدا اور اس کا ارتقاء

حکومت کا بازار سے ربط

اگر کوئی اسلامی نصوص کا جائزہ لے تو اسے ایسی بہت سی روایتیں نظر آئیں گی جو بازار تاجروں اور مجموعی طور پر خود تجارت کے حکومت کے ساتھ مضبوط اور گہرے ربط کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔

ایک آگاہ شخص کو ان روایات میں اسلامی حکومت کے تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ مخصوص رابطہ کی بہت سی مثالیں مل جائیں گی،خاص طور سے ان موارد میں جہاں حکومت نے ولایت امرہونے کی حیثیت سے مختلف میدانوں میں بعض امور سے منع کرنے یاکسی معین کام کو لازمی وضروری قرار دینے میں دخل دیا ہو ہم یہاں حسب ذیل عنوانات کے تحت بعض مثالوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

بازار کے لئے جگہ کاانتخاب

ہم دیکھتے ہیں کہ رسول خدا (صص) جو اسلامی حکومت کے سب سے بلند منصب پر فائض تھے ،جس طرح بذات خود مدینہ میں گھروں کے نقشے بناتے ہیں(۱) مسجدوں ،قبیلوں اور شہری علاقوں کی جگہیں معین فرماتے ہیں اور قبلہ مشخص فرماتے ہیں(۲) یوں ہی خود مدینہ میں بازار کے لئے بھی جگہ منتخب فرماتے ہیں ۔

روایت ہے کہ :ذهب رسول الله (صص) الی سوق النبیط فنظر الیه فقال لیس هذا لکم بسوق ،ثم ذهب الی سوق فنظر الیه فقال لیس هذا لکم بسوق، ثم رجع الیٰ هذا السوق فطاف به ،ثم قال:هذا سوقکم فلا ینتقص ولا یضرب علیکم خراج (۳) ۔

رسول خدا (صص) بازار ”نبیط “ تشریف لے گئے اور اس کا جائزہ لینے کے بعد فرمایا: یہ تمہارے لئے بازار نہیں ہے ؛(۴) ” یہ تمھارا بازار نہیں ہے“ ۔

اس کے بعد اس بازار (راوی کے منظور نظر بازار) کی طرف واپس ہونے اور اسے گھوم پھر کر دیکھا پھر فرمایا:”یہ تمھارا بازار ہے،اس سے کم نہیں ہوگا(یعنی اس کا رقبہ کم نہ ہوگا) اور نہ تم پر خراج (ٹیکس )لگے گا“۔

ایک دوسری روایت میں آیا ہے:جاء رجل الی النبی (صص) فقال : انی رایت موضعا للسوق افلا تنظر الیہ ؟ قال بلی ، فقام معہ ، حتی جاء موضع السوق ، فلما رآہ اعجبہ ، و رکض برجلہ و قال: نعم سوقکم ھذا ، فلا ینتقض، و لا یضرب علیکم خراج(۵) ۔

ایک شخص پیغمبر اکرم (صص) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا ،میں نے بازار کے لائق ایک جگہ دیکھی ہے کیا آپ اسے ملاحظہ نہ فرمائیں گے ؟فرمایا :کیوں نہیں، پھر آپ اس کے ہمراہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اس جگہ تشریف لے گئے ۔جب آپ نے اس جگہ کو دیکھا تو اسے پسند کیا اور پاوں سے اس پر ضرب لگا کر فرمایا :یہ تم لوگوں کے لئے کیا اچھا بازار ہے ۔اس کا رقبہ کم نہیں کیا جائے گا اور تم پر خراج نہیں لگے گا۔

عمر بن شبہ نے عطاء بن یسار سے روایت کی ہے کہ :لما اراد رسول الله (صص) ان یجعل للمسلمین سوقا اتیٰ سوق بنی قینقاع،ثم جاء سوق المدینة، فضربه برجله، وقال، هذا سوقکم فلا یضیق ولایوخد فیه خراج

اور ابن زبالہ نے یزید بن عبید اللہ بن قیط سے روایت کی ہے کہ:ان السوق کانت فی بنی قینقاع، حتی حول السوق بعد ذالک (۶)

پیغمبراسلام (ص)نے جب مسلمانوں کے لئے ایک بازار معین فرمانے کا ارادہ کیا تو بازار ”قینقاع “تشریف لے گئے اس کے بعد بازار مدینہ کی طرف تشریف لائے اور اسے پاوں سے تھپتھپا کر فرمایایہ تمھارا بازار ہے،چھوٹا نہیں ہوگا اور نہ اس سے کوئی خراج لیا جائے گا نیز ابن زبالہ نے یزید بن عبیداللہ بن قسیط سے روایت ہے کہ بازار پہلے محلہ بنی قینقاع میں تھیہاں تک کے اس واقعہ کے بعد اس جگہ منتقل کردیاگیا۔

ابن زبالہ نے عباس بن سہل اور اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے:ان النبی (صص)،اتی بنی ساعدة فقال: انی قد جئتکم فی حاجة، تعطونی مکان مقابرکم فاجعلها سوقا،وکانت مقابرهم ما حازت دارُابن ابی ذئب الی دار زید بن ثابت، فاعطاه بعض القوم ،ومنعه بعضهم،وقالوا : مقابرنا، و مخرج نسائنا، ثم تلاموافلحقوه ،و اعطوه ایاه ،فجعله سوقاً (۷) ۔

پیغمبر اکرم (ص) بنی ساعدہ کے پاس گئے اور فرمایا میں تم لوگوں کے پاس ایک ضرورت سے آیا ہوں ، تمھارے پاس جو قبرستان کی زمین ہے مجھے دے دو تاکہ میں اسے بازار بنا دوں ،(ان کا قبر ستان ابن ابی ذئب کے گھر سے لے کر زید بن ثابت کے گھر تک کی زمین میں پھیلا ہوا تھا ، ان میں سے بعض لوگوں نے وہ زمین دے دی اور بعض نے پہلے نہیں دی اور کہا کہ وہ ہمارا قبرستان اور ہماری عورتوں کی آمد و رفت کی جگہ ہے لیکن بعد مین اپنی قوم کے افراد کی مذمت کا نشانہ بنے اور خود پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں پہنچ کر اپنی رضامندی کا اعلان کیا اور زمین پیغمبر (ص) کے حوالہ کر دی آنحضرت (ص) نے اس جگہ کو بازار قرار دے دیا ۔

ابن شبہ نے صالح بن کیسان سے روایت کی ہے کہ:ضرب رسول الله (ص) قبة فی موضع بقیع الزبیر ،فقال ‘ هٰذا سوقکم ،فاقبل کعب بن الاشرف،فدخلها،و قطع اطنابها ،فقال رسول الله (ص) لا جرم لا نفلنها الیٰ موضع هو اغیظ له من هٰذا ،فنقلها الیٰ موضع سوق المدینة ثم قال ، هٰذا سوقکم لا تنحجروا ،ولا یضرب علیکم خراج (۸)

رسول خدا (ص) نے بقیع ربیر کی جگہ پر ایک قبہ (بڑا خیمہ ) نصب کرکے فرمایا : ”یہ تمھارا بازار ہے “ کعب بن اشرف نے اس میں داخل ہو کر اس کی طنابیں کاٹ دیں رسول اللہ (ص) نے فرمایا :مجبورا اسے ایسی جگہ منتقل کرتا ہوں اسے اس سے بھی زیادہ غضب ناک کرے گا پھر اسے بازار مدینہ کی جگہ پر منتقل کر دیا اور فرمایا یہ تمھارا بازار ہے تنگ نہیں ہوگا اور تم پر ٹیکس بھی نہی لگے گ ۔

شہری امور

مجموعی طور سے شہری منصوبوں پر اسلامی حاکم کی نگرانی اور شہروں میں عمومی اداروں کے قیام کی تاریخ و حدیث میں بہت سی مثالیں مل جائیں گی ۔

فقد کان امیر المومنین علی علیه السلام یامر بسدالمثاعب والکنف عن طریق المسلمین (۹)

امیر المو منین علیہ السلام مسلمانوں کی راہ میں پڑنے والی گندی نالیوں اور بیت الخلاء کے کنوؤںکو بند کرنے کا حکم دیتے تھے۔

کما انّ مهدی (علیه السلام )اذا خرج ، یبطل الکنف والمیازیب و یوسّع الطریق الاعظم (۱۰)

اور روایت ہے کہ جب امام زمانہ علیہ السلام ظہور فرمائیں گے تو ان گندی نالیوں اور نابدانوں کو جو سڑکوں اور گزر گاہوں میں بنائے گئے ہیں ختم کر دیں گے اور وسیع و عریض راہوں کو اور وسعت بخشیں گے ۔

و سال ابو العباس البقباق الاسلام الصادق (علیه السلام) الطریق الواسع هل یوخذ منه شیٴ اذا لم یضر بالطریق ؟،قال لا (۱۱)

ابو العباس بقباق نے امام صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ وسیع و عریض راہ کے کچھ حصہ پر تصرف کیا جا سکتا ہے جب کہ اس سے راہ کو کوئی ضرر بھی نہ ہو-؟فرمایا:نہیں :

و روی : انه وجدت صحیفة فی قراب سیف رسول الله (صص) مکتوب فیها : ملعون من اقتطع شئی من تخوم الارض (۱۲) یعنی بذالک طریق المسلمین (۱۳)

”روایت کی گئی ہے کہ رسول خدا (صص) کی تلوار کے غلاف میں سے ایک نوشتہ پایا گیا جس میں لکھا تھا : ملعون ہے وہ شخص جو زمین کے کچھ حصہ پر قبضہ کر لے زمین کی حدود (تخوم الارض )سے مراد مسلمانوں کا راستہ ہے “

جلد ہی ہم اس حکم کی طرف اشارہ کریں گے کہ راستہ کم از کم سات ہاتھ(۱۴) چوڑا ہونا چاہئے(۱۵) ۔

فقد ورد انه اذا اخرج امام المهدی عجل الله تعالی فرجه وسع الطریق الاعظم (۱۶)

” روایت ہے کہ جب امام زمانہ تشریف لائیں گے تع سڑکوں کو مزید وسعت دیں گے “

یوں ہی ہمسایہ اور پڑوسی کے حقوق بھی ذکر ہوئے ہیں ، منجملہ اپنے گھروں کو پڑوسی کے مکان کے اوپر نہ بناو کی اس تک ہوا پہنچنے کا راستہ بند ہوجائے ایک دوسری روایت میں ہے کہ: اپنے مکان کو اس کے گھر سے بلند نہ بناو کے اس کی طرف ہوا کا بھاو بند ہوجائے ہاں یہ کام اس کی اجازت سے کرسکتے ہو ۔(۱۷)

امیر المومنین علیہ السلام وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے قید خانہ بنایا(۱۸) اور وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے قید یوں کے رفاہ کے اسباب ووسائل فراہم وتقرر کئے۔(۱۹)

وفی بناء الموسسات، فقد بنی امیر المومنین (علیه السلام )مربدا للضّوال ، فکان یعلفها علفا لایسمنها، ولا یهزلها من بیت المال (۲۰) حتی یجد صاحبھ

”اور عمومی ادارے بنانے کے سلسلہ میں :امیر المومنین علیہ السلام نے گم شدہ جانوروں کے لئے ایک اصطبل بنایا تھا اور ان جانوروں کا آذوقہ اتنی مقدار میں کہ وہ موٹے ہوں نہ دبلے،بیت المال سے دیتے تھے یہاں تک کہ جانوروں کا مالک آجاتا تھا“ ۔

کما ان النبی (ص) قد امر ببناء سد لاجل جمع الماء وکان ثمة قناة منه تصل الی قباء (۲۱)

جیسا کہ پیغمبر اسلام (صص) نے پانی کی جمع آوری کے لئے ایک بند بنانے کا حکم دیا جس کا پانی ایک نہر کے ذریعہ قبا کے علاقہ میں جاتا تھا۔

نیز حضرت علی علیہ السلام وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے ایک ایسی جگہ معین کی جہاں اطلاعات وگزارشات ڈالی جائیں(۲۲) ۔

اب رہی دوسری جگہوں سے آنے والے وفود کے ٹھہرنے کے لئے اقامت گاہ بنانے ،غریبوں اور بے گھر بار فقیروں مثلا اہل صفہ کے مکانوں اور جگہوں کی تعیین بیماروں کے علاج کی خاطر جگہ کی تعیین لوگوں کے مطالبات قلم بند کرنے کھجور کے درختوں کے محصول کا تخمینہ لگانے قرارداد وغیرہ لکھنے کے لئے منشیوں اور لکھنے والوں کو معین کرنے نیز امیر المومنین علیہ السلام کے ذریعہ اجتماعی رفاہ و تعاون کی بنیاد رکھنے کی بات جیسا کہ مالک اشتر کے عہد نامہ اور دوسرے منابع و مآخذ میں مذکورہے ،ان تمام امور اور عمومی اداروںکی تعیین و تعمیر سے متعلق امور کے سلسلہ میں مولفین اور صاحبان قلم نے خوب لکھا ہے(۲۳) ۔

مزید یہ کہ امیر المومنین علیہ السلام نے اس مکان کو منہدم کرا دیا جہاں اہل فسق و فجور جمع ہوا کرتے تھے(۲۴) جس طرح ان سے پہلے حضرت رسول خدا(صص) نے مسجد ضرار کو ویران کر دیا تھا ۔

ہم یہاں ان تمام باتوں کا جائزہ لینے کے درپے نہیں ہیں ،جو چیز ہماری بحث سے مربوط تھی وہ رواتیں تھیں جن میں پیغمبر اسلام (ص)کے ذریعہ بازار کی جائے وقوع کے انتخاب کی بات کہی گئی تھی۔

بازار بنانا اور اسے کرایہ پر دینا

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ بازار کے کمروں سے استفادہ کے عوض کرایہ نہیں لیتے تھے(۲۵)

و فی نص آخر :انه (علیه السلام ) کره ان یاخذ من سوق المسلمین اجراً(۲۶)

ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضرت علیہ السلام مسلمانوں کے بازار سے کرایہ لینے میں کراہت محسوس کرتے تھے :

و روی ابن شبه و ابن زیالة :عن محمد بن عبدالله ابن حسن :انّ رسول الله (ص )تصدق علی المسلمین باسواقهم (۲۷)

”ابن شبہ اور ابن زبالہ نے محمّد بن عبداللہ بن حسن سے روایت کی ہے کہ :رسول خدا(ص)نے مسلمانوں پر ان کے بازارتصدق فرمادیئے“(یعنی مسلمانوںکے بازار سے استفادہ کے عوض ان سے کچھ لیا نہیں )

یہ روایتیں حسب ذیل تین مطالب کی طرف اشارہ کرتی ہیں :۔

۱) ۔ کم ازکم بازار کی ایک نوعیت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اس سے مراد وہ حجرے اور کمرے ہیں جو تجارت کے لئے بنائے جاتے رہے ہیں یہ بات پہلی روایت سے معلوم ہوتی ہے جس میں آیاہے کہ” امیر المو٘منین علیہ السلام بازار کے حجروں کاکرایہ نہیں لیتے تھے۔“

بعد کی گفتگو میں ہم یہ بات بھی لائیں گے کہ جب بعض لوگوں نے بازار میں دکانیں بنا ڈالیں تو امیر المومنین علیہ السلام نے انھیں ویران کر دی

بازار کی ایک دوسری شکل بلا کسی تعمیر کے کھلی ہوئی فضا اور میدان کی تھی کہ لوگ اپنا مال وہاں رکھ کر فروخت کرتے تھے ،جب دن تمام ہوجاتا تو اپنی جگہ ترک کر دیتے تھے اور دوسرے روز جو شخص بھی دوسروں سے پہلے آکر کسی جگہ بیٹھ جا تا تھا تو اس کا حق مقدم ہو جاتا تھا اور رات ہونے تک کسی کے لئے جائز نہیں تھا کہ اس پر اعتراض کرے

۲) ۔ جب کہ مذکورہ روایت کی نص سے یہ بات معلوم ہو ئی کہ بازار کی ایک نوعیت حجروں اور کمروں کی تھی اور امیر المومنین علیہ السلام ان کا کرایہ نہیں لیتے تھے تو اس سے یہ نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے کہ بازار کی عمارت کسی کی شخصی ملکیت نہیں رہی ہے بلکہ حکومت خود اس کی مالک تھیاور انھیں تاجروں کے اختیار میں دیتی تھی یا انھیں بلا عوض مالک بنا دیتی یا وا واگزارکر دیتی تھی جیسا کہ محمد بن عبد اللہ بن حسن سے منقول پیغمبر اسلام (ص)کی روایت سے ظاہر ہے کہ آنحضرت (ص)نے مسلمانوں کا بازار ان ہی کو تصدق فرما دیا یا پھر بازار حکومت کی ملکیت رہتا تھا اور لوگوں کو اس سے استفادہ کا حق دیا جاتاتھااس حدیث سے ظاہر ہے جس میں امیر المومنین علیہ السلام کے بازار کے حجروں او کمروں سے استفادہ کے عوض کرایہ لینے میں کراہت کا ذکر ہے ، حتیٰ یہ احتمال بھی ہے کہ پیغمبر اسلام (ص )کی طرف سے بازار مسلمانوں پر تصدق کرنے والی پچھلی روایت کا یہ ہو کہ مسلمانوں کا بازار سے استفادہ کرنا مباح ہے اور وہ اس کے استعمال میں آزادہیں بطور مطلق ان کی ملکیت نہیں ہے

مختصر یہ کہ گزشتہ باتوں میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ پیغمبر اسلام (ص) اور امیر المومنین علیہ السلام کے زمانہ میں حکومت ہی بازار بنانے کا اقدام کرتی تھی اور انھیں تاجروں کے اختیار میں دیتی تھی

یوں ہی آگے ذکر ہونے والی باتوں سے بھی معلوم ہوگاکہ بعض افراد خود اپنی ملکیت اور زمین میں تجارت خانہ بناتے تھے لیکن کبھی وہ مسلمانوں کے بازار یا دوسری جگہوں پر بھی جہاں وہ تعمیر کا حق نہیں رکھتے تھے اپنے تجارت خانہ بناتے تھے اور حاکم انھیں اس سے روکتا نیز ان کی تعمیر کو منہدم کرا دیتا تھا

۳) ۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام بازار کے حجروںسے استفادہ کے عوض کرایہ لینے میں کراہت محسوس کرتے تھے بلکہ تجارت کے معاملہ میں ان کے بے انتہا اہتمام اور اور تشویق دلانے کے لئے آپ ان جگہوں کو مفت اور بلا عوض تاجروں کے وحوالے کر دیتے تھے اگر وہ اس بابت کرایہ لینا چاہتے تو ان کے لئے جائز تھا لیکن حضرت کے نزدیک امت کی مصلحت اور معاشرہ کا رفاہ زیادہ اہمیت رکھتا تھا

”کما انهم یقولون : ان اول من اخذ علیٰ السوق اجرا زیاد لعنه الله(۲۸)

جیسا کہ لوگ کہتے ہیں:وہ پہلا شخص جس نے بازار کا کرایہ وصول کیا زیاد لعنت اللہ علیہ تھااور یہ اس کی دنیا طلبی دولت پرستی اور اجارہ داری کا نتیجہ ہے

ایک شبہ کا جواب

یہ بات فطری ہے کہ وہ پہلا بازار جس کا ذکر حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے منقول روایت کے ضمن میں آیا ،اور جس میں یہ بات بیان ہوئی تھی کہ حضرت اس کے حجروں اور کمروں سے استفادہ کی بابت کرایہ لینے میں کراہت محسوس کرتے تھے حضرت کے دارالحکومت کوفہ کا بازار ہی ہوگ

اسی طرح بعد کے عنوان کے ذیل میں ذکر ہونے والی بات طبری کے قول کے غلط ہونے پر دلالت کرتی ہے کہ اس کے بقول کوفہ کے بازاروں کی نہ کوئی عمارت یا مکان اور نہ کوئی علامت و نشان تھا ۱# کیوں کہ امیر المومنین کی کراہت بازار کے ”حجروں کمروں “کا کرایہ لینے سے متعلق تھی نیز بعد میں بیان ہونے والی باتیں یہ ثابت کریں گی کہ بازار کوفہ میں حجر ے اور کمرے موجود تھے جیسا کہ ”یعقوبی“نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ ابتدا سے ”خالد القسریٰ“کے زمانہ تک ان کمروں یا حجروں پر ٹاٹ یا چٹائی کی چھت تھی(۲۹)

مگر یہ کہ اس سے یعقوبی کی مراد یہ ہو کہ دھوپ یا بارش سے بچنے کے لئے بازار کی کھلی ہوئی اور بغیر مکان والی میدانی فضا کے اوپر حصیر لگا دیا گیا ہو ،یا جیسا کہ بعض محققین نے احتمال دیا ہے اس کا مقصد یہ ہو کہ بازار حصیروں سے گھرا ہوا تھا تا کہ جو لوگ بازار کے اندر ہیں اس کی معین شدہ حدود سے باہر نہ جائیں۔

اور شاید طبری کے قول کی توجیہ یوں کی جاسکتی ہو کہ اس کی مراد یہ ہو کہ ابتدا میں کوفہ کا بازار بغیر کسی عمارت ومکان اور علامت ونشان کے تھا اگر چہ اس کے بعد حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے زمانہ میں یا اس سے کچھ قبل اس میں کمرے اور حجرے بھی بنے تھے اور ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں کہ بعض بازار کمروں اور حجروں کی شکل کے تھے اور کچھ دوسرے کھلے ہوئے اور وسیع میدان کی شکل کے کہ تاجر شب ہونے تک اس جگہ بیٹھے رہتے تھے

اسلامی بازار کے دوسرے قوانین

حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا مسلمانوں کا بازار ان کی مسجدوں کی مانند ہے پس جو شخص جس جگہ پہلے قابض ہو جائے شب تک اس جگہ کا حقدار ہے(۳۰) اور ”اصبغ ابن نباتہ “ سے روایت ہے کہ :میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ہمراہ بازار گیا ،لوگوں نے کہا یہ اہل بازار ہیں اور اپنی جگہوں سے آگے بڑھ گئے ہیں

فقال : لیس ذالک الیهم ، سوق المسلمین کمضلیٰ المسلمین ، من سبق الیٰ شیٴ فهو له یومه حتیٰ یدعه ۔(۳۱)

” فرمایا :انھیں یہ حق حاصل نہیں ہے مسلمانوں کا بازار ان کی مسجدوں کے مانند ہے جو شخص جس جگہ پہلے پہنچ جائے وہ جگہ اس دن اس کی ہو گی یہاں تک کہ وہ اسے ترک کردے

اصبغ ابن نباتہ سے ایک اور روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام بازار تشریف لے گئے انھوں نے وہاں دکانیں دیکھیں جو بازار میں بنا لی گئی تھیں آپ نے حکم دیا کہ انھیں منہدم کر کے زمین کے برابر کر دیا جائے اصبغ نے مزید کہا کہ حضرت ”بنی البکاء“ کے گھروں کی طرف سے گزرے اور فرمایا : یہ جگہ مسلمانوں کے بازار کا حصہ ہے پھر آپ نے ان کو دوسری جگہ جانے کاحکم دیا اور ان گھروں کو منہدم کر دی

نیز حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :جو شخص بازار میں جس جگہ کو پہلے اختیار کرلے وہ اس جگہ کا زیادہ حقدار ہے اور اصبغ کہتے ہیں :صورت حال یہ تھی کہ آج ایک شخص ایک جگہ اپنا مال فروخت کرتا تھااور دوسرے دن دوسری جگہ(۳۲)

و عن ابن ابی ذئب : انّ رسول الله صلی الله علیه و آله وسلم مرعلیٰ خیمة عند موضع دار المنبعث فقال : ما هٰذه الخیمة؟ فقالوا : خیمة لرجل من بنی حارثة ، کان یبیع فیها التمر ، فقال :حرقوها فحرقت قال ابن ابی ذئب: و بلغنی ان الرجل محمد بن مسلمه (۳۳)

”ابن ابی ضعف سے روایت ہے کہ :رسول خدا (ص) ایک خیمہ کی طرف سے گزرے جو ”ار المنبعث “کی جگہ پر تھا آپ نے پوچھا یہ کیسا خمیہ ہے؟لوگوں نے کہا کے بنی حارثہ کے ایک شخص کا خمیہ ہے جس میں وہ خرمہ فروخت کرتاتھا حضرت نے فرمایا”اسے جلا ڈالو“ پس اسے جلاڈالا گیاابن ابی ذئب نے کہا مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اس خیمہ کا مالک ”محمد بن مسلمہ“تھا “

مذکورہ روایات سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:۔

۱ ۔جب تک کسی نے جگہ لینے میں پہل نہ کی ہو ہر شخص اپنا مال فروخت کرنے کے لئے جہاں چاہے جگہ کا انتخاب کرسکتا ہے

۲ ۔انتخاب شدہ جگہ سے استفادہ کرنا وہ حق ہے جو انتخاب کے ذریعہ حاصل ہوا ہے اور یہ حق ایک معین مدت یعنی رات ہونے تک باقی ہے

۳ ۔معین شدہ جگہوں سے زیادہ بڑھنے اور پھیلنے کی ممانعت :بازار کے لوگوں کو یہ حق نہیں ہے کہ جو جگہیں ان کے لئے معین کردی گئی ہےں ان سے آگے قدم بھڑائےں کیوں کہ مسلمانوں کا بازار ان کی مسجدوں کی مانند ہے اور معین شدہ جگہوں سے تجاوز کرنا ان لوگوں کو نقصان پہچانے کے مترادف ہے جو اپنا مال فروخت کرنے آئے ہیں اور شب ہوتے ہی اپنی جگہ چھوڑدیتے ہیں اب وہ تاجر جو بازار میں کمرا یا حجرہ کے مالک ہیں اگر اپنی جگہوں سے تجاوز کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اس کھلی ہوئی جگہ کا کچھ حصہ گھرلیا ہے جس سے وہ تاجر استفادہ کرتے ہیں جن کے یا حجرہ یا کمرے نہیں ہے

۴ ۔ناجائز تعمیرکا انہدام :گزشتہ روایات سے یہ بھی واضح ہوا کہ حاکم عمومی جگہوں پر بنی ہوئی دکانوں اس جہت سے کہ وہ لوگوں کے حقوق پر تجاوز و قبضہ کے مترادف ہے منہدم کراسکتا ہے جیسا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے کیا کہ عوام کے حق پر تجاوز کرکے بنائی گئی دکانوں کو خراب کردینے کا حکم دیا اور رسول خدا (صص) نے اس خیمہ کو جلا ڈالنے کا حکم دیا جو خرما فروخت کرنے کے لئے اسی جگہ پر نصب تھا جہاں کسی کو خیمہ لگانے کا حق نہیں تھا

۵ ۔ حاکم کو حق کہ ہے بازار کی حدود میں بنائے جانے والے مکانوں کو چاہے وہ رہایشی ہی کیو ںنہ ہوں منہدم کردے جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے ”بنی البکاء“ کے گھروںکو منہدم کردیا

۶ ۔حق اولیت فروخت کرنا:

وعن محمد بن مسلم، قال: سالت ابا عبد الله (علیه السلام) عن الرجل یرشو الرجل الرّشوة علی ان یتحول من منزله فیسکنه؟ قال: لا باس به

محمد ابن مسلم سے روایت ہے کہ: میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا ”اگر ایک شخص دوسرے کو اس بات پر رشوت دیتاہے کہ وہ اپنی جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجائے اور اس کی جگہ پر وہ ساکن ہوجائے ؟فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے“

صاحب وسائل نے یہ فرمایاہے کہ اس جگہ سے مراد مسلمانوں کے درمیان مشترک زمین ہے جیسے وہ زمین جو قہر وغلبہ کے ذریعہ مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوئی ہو(۳۴) اور ہم اس روایت کی روشنی میں بازار کو اماکن مشترکہ میں شمار کرسکتے ہیں کہ اس میں روایت کی بنیاد پر اگر کوئی شخص بازار میں کسی جگہ پر پہلے قابض ہوجائے تو دوسرا شخص پہلے، شخص کو اس جگہ سے جانے پر راضی کرنے اور خود وہ جگہ حاصل کرنے کے لئے اسے کچھ مال یا پیسہ دے سکتاہے تا کہ رات تک کے لئے اس جگہ ساکن ہوسکے دوسرے روز صبح پھر وہ جگہ تمام مسلمانوں سے متعلق ہے اور جو شخص بھی دوسروں سے پہلے اس پر قابض ہوجائے اس کا حقدار ہو گا کیونکہ ہر حال میں طرفین کی صلح ومصالحت جگہ کی عمومیت کو ختم نہیں کرتی اور صرف شب ہونے تک حق تقدم کا سبب بنتی ہےبازار میں حکومت کے بنائے ہوئے حجروں میں اور کمروں کی بھی یہی کیفیت ہے۔

بعض علماء کے نزدیک یہ حدیث حسب ذیل امور پر بھی دلالت کرتی ہے:۔

۱ ۔خراج والی اراضی(۳۵) میں حق اولیت یا حق تقدم فروخت کرنے کا جواز ۔

۲ ۔یہ روایت مسجد میں پہلے سے لی گئی جگہ کاحق اولیت فروخت کرنے کے فتویٰ و قول کی تائید کرتی ہے

۳ ۔یوں ہی یہ روایت اس گھر کے حق سکونت کو فروخت کرنے کے جواز پر وہی دلالت کرتی ہے جو کسی کی ملکیت تو نہیں ہے لیکن بیچنے والا اس میں سکونت کا حق رکھتا ہے

اس وضاحت کے ساتھ کہ ممکن ہے یہ کہا جائے یہ جواز عقل اجارہ کے تابع ہے ۔اگر اجارہ اس طور پر مطلق ہوگا کہ اس سے مستاجر (کرایہ دار)کے ذریعہ منفعت کی و اگزاری کا جواز سمجھ میں آئے یا یہ کہ کرایہ دار نے منفعت واگزار کرنے کی شرط کر لی ہو ،اس طرح کی واگزاری جائز ہے ورنہ ظاہر ہے کہ کرایہ پر دی جانے والی چیز کا نفع کرایہ دار سے مخصوص ہے اور وہ اسے دوسرے کو واگزار نہیں کر سکتا اور نہ بیچ سکتا ہے ۔ہم یہاں اس موضوع کی تحقیق کے در پے نہیں ہیں

بازار کے لئے قسام ( سپلائی آفیسر ) معین کرنا

روی:انه کان لعلی علیه السلام قسام یقال له عبد الله ابن یحیٰ و کان یرزقه من بیت المال (۳۶) وقال ابن مرتضیٰ ”لم یکن لعلی علیه السلام الا قسام واحد(۳۷)

روایت ہے کہ علی علیہ السلام کے پاس ایک قسام (تقسیم و سپلائی کاآفیسر) تھا جس کا نام عبد اللہ ابن یحیٰ تھا اور جسے حضرت بیت المال سے تنخواہ دیتے تھے اور ابن مرتضیٰ کے بقول :علی علیہ ا لسلام کے پاس ایک سے زیادہ قسام نہیں تھا ۔

____________________

۱۔کافی ج/۵، ص/۹۲،من لایحضرہ الفقیہ ج/۳،ص /۱۷۰،وسائل ج/۱۲،ص/۴۵ بعض محققین نے بعض مورخین سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کایہ عمل انصار کے گھروں میں مہاجرین کے مسکن کی تعیین کے لئے تھا لیکن ظاہر نص کے خلاف ہے بلکہ جیساکہ واضح ہے ،صریحاً خلاف ہے

۲۔الاصابة ،ج/۱ ص/۳۲،وص۲۱۱ از تاریخ البخاری وابن ابی عاصم وطبری وغیرہ اور ”البادردی“ سے ”الصاحبہ “ میں نیز التراتیب الاداریہ ج/۲،ص/۷۶

۳۔سنن ابن ماجہ ،ج/۲،ص/۷۵۱

۴۔ یعنی یہ جگہ بازار کے لئے مناسب نہیں ہے

۵۔مجمع الزوائد ج/۴،ص/۷۶۔الترتیب الادواریةج/۲،ص۱۶۳۔وفاء الوفاء ج/۲، ص/۸۴

۶۔وفاء الوفاء،ج/۲،ص،۷۴۷

۷۔ کتاب وفاء الوفا ء ،ج/۲ص/۷۴۸

۸۔کتاب وفاء الوفا ء ،ج/۲ص/۷۴۸

۹۔ معالم القربہ،ص/۱۵،المصنف عبد الرزاق ، ج/۱۰ ص/۷۲،کنزل العمال ،ج/۵ ص/۴۸۸،مجلہ نور العلم سال دوم ، شمارہ ۳ ص/۴۵، آخری دو کتابوں سے نقل ،مصنف ابن ابی شیبہ، ج/۷ ص/۳۵۴

۱۰۔ اعلام الوریٰ با اعلام الھدیٰ ص/۴۶۲،تفسیر نور الثقلین ج/۲ ص۲۱۳

۱۱۔ تہذیب ، ج/۷ ص/۱۲۹،وسائل ج/۱۲ص/۲۸۱

۱۲۔تخوم الارض : یعنی راہ کی نشانیاں اور حدود

۱۳۔ کشف المسطار عن مسند البزار، ج/۱ ص/۱۷۳ و مجمع الزوائد ج/ ۱ ص/۲۹۴

۱۴۔ایک زراع یعنی پچاس سے ستر سینٹی میٹر کے درمیان ۔المنجد

۱۵۔ازالمنصف ابن ابی شیبہ ، ج/۷ ص/۲۵۵

۱۶۔الارشاد شیخ مفید ص/۴۱۲،الغیبة شیخ طوسی ، ص/۲۸۳ ، بحار الانوار ج/۵۲ ص/۳۳۳و ص/۳۳۹،وسائل ج/۱۷ ص/۳۴۷ ،اولین دانشگاہ و آخرین پیمبر ج/۲ ص/ ۱۹۳

۱۷۔الترتیب الاداریہ،ج/۶،ص/۸۰۔بیہقی سے ”شعب الایمان“میں اور ابن عدی سے ”الکامل “میں

۱۸۔محاضرة الادائل،ص/۱۰۸۔الترتیب الاداریة،ج/۱،ص/۲۹۸و۲۹۹،از ”التحاف الرواة“واز ”شفاء الغلیل“ اور از ”العینی“ج/۱،ص/۵۲۵،نیز ملاحظہ ہو:الفائق،ج/۱،ص۴۰۵

۱۹۔الترتیب الاداریة،ج/۱،ص۳۰۰

۲۰۔المناقب ابن شہر آشوب ،ج/۲،ص/۱۱۱۔بحار الانوار،ج/۴۱،ص/۱۱۷و۱۱۸

۲۱۔ملاحظہ ہو :معجم البلدان ،ج/۳،ص/۱۹۷

۲۲۔ماثرالانافہ،ج/۳،ص/۳۴۱۔الاوائل عسکری،ج/۱،ص/۲۹۸۔الترتیب الاداریة،ج/۱،ص/۲۶۸،نقل ازالخلط مقریزی

۲۳۔ملاحظہ ہو نہج البلاغہ عہد نامہ مالک اشتر وغیرہ الترتیب الاداریہ ج/۱،ٓ/۴۴۶ وص/۴۴۸

۲۴۔مجلہ نور العلم ،سال دوم شمارہ ۳ ص/۴۵،نشر االدرر ،ج/۲ ص/۱۵۲ملاحظہ ہو

۲۵۔فروع کافی طبع آخوندی ،ج/۵،ص/۱۵۵، اصول کافی طبع اسلامیہ ،ج/۲ ،ص/۴۸۵،التھذیب ج/۷ص/۹، وسائل ج/۱۲،ص/۳۰۰،ج/۳،ص/۵۴۲

۲۶۔ التھذیب ج/۶ ،ص/۲۸۳،وسائل ج/۱۲ ،ص/۲۰۰

۲۷۔وفاء الوفاء ،سمھودی ،ج/۲،ص/۷۴۸

۲۸۔المصنف ابن ابی شیبہ ،ج/۱۴،ص/۷۱

۲۸۔ تاریخ طبری ،ج/۴،ص/۴۵،الاصناف فی العصر العباس ،ص/۷۹،نقل از تاریخ طبری

۲۹۔البلدان ،یعقوبی ،ص/۲۱۱،الاصناف ص/۷۹نقل از البدان

۳۰۔یہی مطلب امام صادق سے بھی روایت ہو املاحظہ ہو فروع کافی، طبع اخوندی، ج/۵ص/۱۵۵؛ اصول کافی، طبع اسلامیہ ج/۲ص/۴۸۵؛ من لایحضرہ الفقیہ، ج/۴ص/۱۹۹؛ التہذیب ج/۷ص/۹ ؛ وسائل ج/۱۲ص/۲۰۰ج/۲ص/۵۲۲

۳۱۔کنزل العمال ج/۵ ص/۴۸۸،الاموال ابی عبید ص/۱۲۲و۱۲۳،الاصناف فی العصر العباسی ص/۷۸گزشتہ کتاب فتوح البلدان ص/۳۶۶اور تاریخ طبری ج/۴ ص/۴۶ سے نقل ،حیات الصحابہ ج/۲ ص/۱۳نقل از کنزل العمال

۳۲۔سنن بیہقی ،ج/۶،ص/۱۵۱،باب الاحیاء الموات

۳۳۔ وفاء الوفاء السمہودی ،ج/۲،ص/۲۴۹

۳۴۔وسائل الشیعہ،ج/۲،ص/۲۰۷۔التہذیب،ج/۶،ص/۳۷۵

۳۵۔ اس سلسلہ میں کئی روایتیں وارد ہوئی ہیں ملاحظہ ہو:وسائل ،ج/۱۲،ص/۲۷۴و۲۷۵ اور دوسرے ماخذ جو وسائل کے حاشیہ میں ذکر ہیں

۳۶۔ جواہر الاخبار والآثار ،البحر الزخار کے حاشیہ پر طبع شدہ ،ج/۵،ص/۱۰۵نیز یہ بات کتاب شفاء میں دو بار نقل ہوئی ہیں

۳۷۔ البحر الزخار ، ج/۵ ْص/۱۰۸