بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں0%

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں

مؤلف: سید جعفر مرتضی عاملی
زمرہ جات:

مشاہدے: 9559
ڈاؤنلوڈ: 2394

تبصرے:

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9559 / ڈاؤنلوڈ: 2394
سائز سائز سائز
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں

مؤلف:
اردو

تجارت کے اصول و ضوابط

ایسی روایتیں موجود ہیں جن سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ تجارتی کاموں کا انتخاب اور ان پر عمل درآمد حاکم کے ارادہ و اختیار اور اس کی مصلحت اندیشی کے تابع ہے ۔حاکم اس شخص کو جو مقررہ ضوابط کے تحت نا اہل یا تجارتی کا موں کے لئے مطلوبہ اور صاف و خصوصیات سے محروم ہو تجارت سے روک سکتا ہے۔

فقد روی :ان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم لم یاذن لحکیم بن حزام فی تجارته حتی ضمن له اقالة النادم و انظار المعسرواخذ الحق وافیا، غیر وافٍ(۱)

”روایت ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکیم بن حزام کو اس وقت تک تجارت کی اجازت نہیں دی جب تک اس سے نادم کے اقالہ (یعنی جب بھی ایک شخص کوئی مال خریدے اور بعد میں پشیمان ہو تو وہ مال اس سے واپس لے لے) تنگ دست کو مہلت دینے اور اپنے حق سے زیادہ نہ لینے کا عہد نہ لے لیا“

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم سے روایت کہ فرمایا :

”من باع واشتریٰ:فلیحفظ خمس خصال ،والا ، فلا یشترین ولا یبیعن الربا والحلف ، وکتمان العیب ،والحمد اذا باع والذم اذا اشتریٰ“ (۲)

جو شخص خرید تا اور بیچتا ہے اسے پانچ خصلتوں سے دور ی اختیار کرنا چاہئے ورنہ نہ وہ ہر گز خریدے اور نہ بیچے:

”سود،اورقسم کھانا، مال کاعیب چھپانا، بیچتے وقت تعریف کرنااورخریدتے وقت عیب نکالنا “

حضرت امیر المو٘نین علیہ السلام فرماتے ہیں :

لایقعدن فی السوق الا من یقعل الشراء والبیع(۳)

”عقل سے خریدوفروخت کرنے والے کے علاوہ کوئی اور ہرگزبازار میں نہ بیٹھے“

اورہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علیہ السلام فقہ وتفقہ کی اہمیت پر تا٘کید کرتے ہوئے فراز منبر پرارشاد فرماتے ہیں :

یامعشرالتجار الفقه ثم المتجر ،الفقه ثم المتجر الفقه ثم المتجر ،والله للربا فی هذه الامةاخفیٰ من دبیب النمل(۴)

اے تجارت کرنے والو !پہلے فقہ اس کے بعد تجارت پہلے فقہ اس کے بعد تجارت پہلے فقہ اس کے بعد تجارت خدا کی قسم اس امت میں ربا و سود چیونٹی کی رفتار سے بھی زیادہ مخفی انداز میں رینگ رہا ہے

شرطیں ،ضابطے ، اور صلاحیتیں

مذکورہ بالا چند روایات سے کام کے شرائط سے متعلق امور پر روشنی پڑتی ہے جو حسب ذیل ہیں:

۱ ۔ اجازت ، گزشتہ روایت جس میں ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکیم بن حزام کو تجارت کی اجازت نہ دی جب تک ،اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کو حق حاصل ہے کہ ان لوگوں کو تجارت سے روک دے جو شارع کے مقرر کردہ شرائط و قوانین پر عمل نہیں کر سکتے

بعض بزرگوں نے اس روایت کے مذکورہ مفہوم کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس شخص کو تجارت کی اجازت نہیں دی جب تک اس نے یہ عہد نہ کر لےا کہ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ آپ اس پر پابندی عائد کرنا چاہتے تھے بلکہ اس سے صرف حکم الٰہی بیان فرما رہے تھے کیوں کہ جب تک کوئی شخص کسی امر میں خدا کا حکم نہیں جانتا اس کا بجا لانا جائز نہیں ہےجیسے نماز کے متعلق معلومات حاصل کرنے سے پہلے اس کا پڑھنا جائز نہیں ہے ،یا مراد یہ ہے کہ حکیم بن حزام نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تجارت میں مشغول ہونے کے سلسلہ میں مشورہ کیا اور آنحضرت نے اس سے وہ بات ارشاد فرمائی جو شارع کے نظر میں بہتر تھی اور اس کی تجارت پر چند امور کی شرط لگا دی منجملہ (اقالہ بیچا ہوا مال واپس لینا )کہ یہ ایک مستحب امر ہے ورنہ اگر اقالہ تجارت کے لئے جواز کی شرط تھا تو اسے موجبات خیار میں شمار ہونا چاہئے تھا جب کہ ایسا نہیں ہے

لیکن ہم کہتے ہیں کہ روایت صراحت کے ساتھ یہ کہتی ہے کہ آنحضرت نے اسے اجازت نہیں دی اور اسے تجارت سے روک دیا جب تک کہ اس کا عہد نہ کر لےا کہ لہٰذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے اجازت نہ دیتے تو اسے تجارت کرنے کا حق نہ تھا اور شاید اسے تجارت سے روکے جانے کا سبب یہ رہا ہو کہ وہ احتکار (ذخیرہ اندوزی) کرتا تھا جو شرعی طور پر ممنوع اور عمل بد ہے

اسی طرح اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ حکیم نے آنحضرت سے مشورہ کیا اور حضرت نے اس سے خدا کا حکم بیان کیا اسے نصیحت فرمائی ہے تو یہاں تک کہ حکیم نے عہد کی)کی تعبیر کے معنیٰ نہیں مانتے کیوں کہ ظاہر سی بات ہے کہ ارشاد و نصیحت اور حکم خدا بیان کرنے کے سلسلہ میں عہد اور ضمانت نہیں لی جاتی اور جو کہا گیا ہے کہ ”اگر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اجازت نہ دینے کا مطلب حکیم کو تجارت سے روکنا ہو تو اس کا لازمہ یہ کہ ایک ایسے امر کی مخالفت کے باعث جو بذات خود مستحب ہے حق خیار ثابت ہو جائے“اس کے جواب میں ہم یہ کہےں گے کہ حاکم ۔مبلغ و پیغمبرہونے کے عنوان سے نہیں بلکہ ۔ حاکم و ولی ہونے کے عنوان سے کسی مستحب یا مباح امر کو شرط قرار دے سکتا ہے اور یہی شرط لازم و ضروری ہو جاتی ہے اور حاکم اپنے اس حکومتی دستور کی مخالفت پر سرتابی کرنے والے کو سزا دے سکتا ہے چاہے وہ حکومتی دستور ( مخالفت کی صورت میں ) حق خیار ثابت ہونے کا موجب نہ ہو ان سب کے علاوہ جس چیز کو حکم الٰہی کا بیان و ارشاد ونصیحت کہا گیا ہے وہ بذات خود اپنی جگہ پر صحیح ہے لیکن پیغمبر نے جو چیز حکیم بن حزام پر شرط فرمائی ہے وہ کوئی انجانی یا نئی چیز نہیں تھی بلکہ ایک دم واضح اور بدیہی چیز تھی یہی واضح و بدیہی ہونا شرط اورضمانت سے میل کھاتا ہے نصیحت یا بیان سے ہم آہنگ نہیں ہے

۲ ۔یوں ہی گزشتہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حاکم تجارت کی اجازت دینے کے لئے بعض غیر واجب امور انجام دینے کی شرط بھی لگا سکتا ہے اور حاکم کے شرط قرار دینے ہی سے ان امور کی انجام دہی ضروری ہو جاتی ہے جیسے ”اقالہ “ کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکیم بن حزام پر اس کی شرط لگائی اور یہ خود واجبات میں سے نہیںہے لیکن چوں کہ آنحضرت نے اس کی پابندی کو شرط قرار دے دیا اسی شرط کے ذریعہ حکیم بن حزام کے لئے اس پر عمل کرنا ضروری ہو گیا

۳ ۔ جو شخص مسلمانوں کے بازار میں تجارتی کارو بار کرتا ہے اس میں کچھ مشخص صفات و خصوصیات کا ہونا ضروری ہے مثلا اس میں ادراک تمیز اور ہوشیاری ہونی چاہئے یعنی اس میں خرید و فروخت کی عقل موجود ہو اور شاید خرید اور فروخت کی عقل سے مراد تفقہ ہو یعنی وہ خرید و فروخت کے احکام کا علم رکھتا ہو ہر چند کہ یہ معنیٰ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے اس جملہ ”لا یقعد ن فی السوق الا من یقعل الشراء والبیع “ کی تعبیر سے الگ ہے جو اس خصوصیت سے محروم افراد کو بازار میں بیٹھنے سے روکتا ہے

۴ ۔ان شرائط پرعمل کے سلسلہ میں مزید اطمینان حاصل کرنے کی غرض سے تجارت کی طرف رجحان رکھنے والوں پر یہ بات لازم قرار دی جا سکتی ہے کہ وہ تجارتی کاروبار شروع کرنے سے پہلے تو خود کو تجارت کے لئے ضروری صلاحیتوں اور خصوصیتوں سے آراستہ کریں

۵ ۔ جس طرح ”اقالہ “ کی شرط تجارت کی اجازت کے لئے صحیح ہے یوں ہی خرید و فروخت کے احکام کا علم حاصل کرنے کی شرط یا دوسری شرطیں مثلا سود نہ کھانا ،قسم نہ کھانا مال کا عیب نہ چھپانا ،بیچتے وقت تعریف نہ کرنا اور خرید تے وقت عیب نہ نکالنا جیسے شرائط بھی صحیح ہیں کہ اگر مورد نظر شخص ان شرطوں پر عمل نہیںکرتا ہے تو ہرگز خرید و فروخت نہ کرے یعنی وہ خرید و فروخت کرنے کا حق نہ رکھتا ہو

یہ چند نکات و مطالب تھے جو مذکورہ بالا روایات سے سمجھے جا سکتے ہیں اور اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حاکم ، مذکورہ بالا یا ان سے بیشتر امور میں مداخلت کا حق رکھتا ہے بعض محققین کہتے ہیں کہ مذکورہ باتوں کے علاوہ ان روایات سے جو مزید باتوں کا بھی استفادہ ہوتا ہے :

ایک یہ کہ ولی امر بازار کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتا ہے

اور دوسرے یہ کہ ولی امر وحاکم جس جگہ کو بازار قرار دے دے اس جگہ پر بازار سے متعلق احکام لاگو ہوں گے

کافر ذمی کو صرافہ کے کار و بار سے روکنا

ایک اور امر جو گزشتہ امور یعنی حاکم کا ان شرائط کی تعیین کرنا جو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں ہو ۔کے علاوہ یہ ہے کہ اکثر ولی حاکم اس میں مصلحت دیکھتا ہے کہ بعض افراد کو بعض تجارتی اعمال و امور سے روک دے یہ وہ موقع ہے جب حاکم یہ جان لے کہ یہ افراد یا گروہ اگر زیادہ تر بد اندیش ،خود غرض اور امت کے لئے بلا و مصیبت نہ ہوں تو کم از کم امت کی مصلحتوں کے امانتدار نہیں ہیں اور صرف اسی فکر میں ہیں کہ اسلامی امت کے اقتصاد کی شہ رگ کو اپنے قبضہ میں رکھیں اور دولتوں کو چوس کر نیز اقتصادی منابع پر تسلط رکھتے ہوئے امت کی نبض حیات کو اپنے ہاتھ میں رکھیں اور اس پر حکومت کریں

اور شاید اسلامی امت کے ان ہی مصالح کے پیش نظر حضرت امیر المومنین - نے اہواز میں اپنے قاضی کو خط لکھا جس میں تھا کہ :

یا مره بطرد اهل الذمة من الصرف(۵)

”آپ اسے حکم دیتے ہیں کہ اہل ذمہ (کفار ذمی ) کو صرفہ کے کار بار سے دور رکھے“

مسجد سے قصہ گویوں اور تصوف کے مبلغوں کو نکالنا

شاید ان ہی اقدامات میں سے یہ بھی ہو جس کے بارے میں حضرت امام صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

وانّ امیر المومنین علیه السلام رای قاصا فی المسجد فضربه و طرده(۶)

امیر المومنین علیہ السلام ایک قصہ گو شخص کو مسجد میں (داستان بیان کرتے ہوئے )دیکھا تو اسے مار کر مسجد سے باہر نکال دیا“

پس امیر المومنین علیہ السلام کا ایک قصہ گو سے متعلق یہ اقدام اس بات کی تاکید تھی کہ آپ اس قسم کے افراد کو جو لوگوں کو اوہام ،افسانوں اور خرافات کی دنیا میں لے جاتے ہیں اور قصہ گوئی کے ذریعہ اپنی روزی حاصل کرتے ہیں ،اپنا کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے

لہٰذا اول یہ کہ حضرت اپنے اس عمل سے ایسے افراد کے جھوٹ اور دغا بازی کو کچلتے ہیں جو اسرائیلیات (یہودیوں کی ساختہ و پرداختہ جھوٹی داستانوں ) کی ترویج و اشاعت کرتے ہیں

دوسرے: اس بات کو غلط قرار دیتے ہیں کہ ایسے کام مسجد میں انجام پائیں اور تیسرے : اس ذریعہ سے روزی کمانے کو غلط قرار دیتے ہیں اس راہ سے روزی حاصل کرنا صدر اسلام میں عام اور رائج تھا ”عمران ابن حصین “ نے ایسے ہی قصہ گو کو دیکھا کہ اس نے قران پڑھا ، اس کے بعد لوگوں سے (اس کے عوض پیسہ کا) سوال کیا عمران نے کلمہ استرجاع ( انا للہ و انا لیہ راجعون) زبان پر جاری کیا اور کہا : میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے ،آپ نے فرمایا : (جو قرآن پڑھتا ہے اسے اس کا عوض خدا سے حاصل کرنا چاہئے آگاہ رہو کہ جلد ہی ایسے لوگ بھی آیں گے جو قرآن پڑھیں گے اور اس کے ذریعہ لوگوں سے پیسہ حاصل کریں گے )(۷) ” ابن مبارک “سے پوچھا گیا کہ ”غوغاء“(۸) کا کیا مطلب ہے ؟ تو اس نے کہا اس سے مراد وہ قصہ گو افراد ہیں جو اپنی زبان کے ذریعہ لوگوں کا مال کھاتے ہیں(۹)

ظاہر ہے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا یہ عمل ولایتی یاحکومتی اقدام تھ آپ چوں کہ حاکم و ولی امر تھے لہٰذا آپ کو یہ حق تھا کہ ہر اس بات پر روک لگائیں جو نظام حکومت کے لئے نقصان دہ ہو اور لوگوں کے امور میں خلل و فساد پیدا کرے

مخفی نہ رہے کہ سچی اور حق داستانیں بیان کرنے میں کوئی نقصان یا عیب نہیں ہے کیوں کہ یہ قرآن کی روش ہے ارشاد ہوتا ہے (نحن نقص علیک احسن القصص ہم تمھارے لئے بہترین داستان بیان کرتے ہیں )(۱۰)

سعد اسکاف نے امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا : کیا میں بیٹھ کر قصہ بیان کروں اور اس میں حق اور آپ کے فضائل کا ذکر کروں ؟ امام نے فرمایا: ” مجھے یہ بات پسند ہے کہ روے زمین پر ہر تیس ہاتھ کے اوپر تمھارے جیسا ایک قصہ گو ہوتا “(۱۱)

اور ہم دیکھتے ہیں کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے جس طرح قصہ و افسانہ گوئی کی مضر اور نقصان دہ راہ سے روزی حاصل کرنے کے خلاف سخت قدم اٹھایا ہے یوں ہی زہد و تقویٰ اور دنیا سے دوری کی نمائش کے ذریعہ روزی کمانے کی بھی سخت مخالفت کی ہے ، جیسا کہ روایت میں ہے حضرت علیہ السلام نے حسن بصری کو مسجد سے باہر نکال دیا اور انھیں تصوف کی باتیں بیان کرنے سے منع کر دیا(۱۲)

پہلے امتحان

”ابن اخو“ نے لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے والے شخص سے امتحان لئے جانے کاذکر کرتے ہوئے کہا ہے : ” اس سے ان فنوں سے متعلق سوالات پوچھے جائیں گے اور اس کا امتحان لیا جائے گا اگر اس نے جواب دیا (تو اسے اجازت دے دی جائے گی ) ورنہ روک دیا جائے گا ، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے حسن بصری کا امتحان لیا جو لوگوں کے درمیان وعظ و نصیحت کرتے تھے حضرت نے ان سے دریافت کیا : ” دین کا ستون کیا ہے ؟ جواب دیا تقویٰ و پرہیز گاری“ پوچھا آفت دین کیا ہے ؟ ” جواب دیا طمع و لالچ “ تو آپ نے ان سے فرمایا : اب تم لوگوں کو وعظ و نصیحت کر سکتے ہو “(۱۳)

اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص کا اختبار و امتحان جو لوگوں کے اجتماعی امور کا ذمہ دار اور ان پر اثر انداز ہوتا ہے قانونی حیثیت رکھتا ہے لہٰذا ایسے امتحان میں کامیاب ہوئے بغیر کسی کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے کام انجام دے یا اس کے ذریعہ روزی حاصل کرے

علی علیہ السلام اور منجمین

” بلاذری “نے حضرت علی علیہ السلام اور ” مسافر بن عفیف ازدی“ کے درمیان گفتگو کو نقل کیا ہے اس روایت میں ہے کہ جب اس نجومی نے امیرالمومنین علیہ السلام کو ایک خاص ساعت میں اہل نہر وان کی طرف جانے سے منع کیا تو حضرت نے فرمایا : ” اگر مجھے یہ معلوم ہو ا کہ تم ستاروں کا معائنہ کرتے ہو تو جب تک میں بر سر حکومت ہوں تمھیںہمیشہ کے لئے قید میں ڈال دوں گخدا کی قسم نہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نجومی تھے اور نہ کاہن ۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضر ت نے فرمایا: جب تک تم ہو اور میں بھی زندہ ہوں تمھیں ہمیشہ کے لئے قید کر دوں گا اور جب تک بر سر حکومت ہوں تمھیں بیت المال سے محروم کر دوں گا(۱۴)

جب کہ منجمین حکام کے ندیم اور مقرب افراد میں شمار ہوتے رہے ہیں اور ان حکام کے لئے جو خدمتیںانجام دیتے تھے ان کے عوض ہدیئے اور انعامات بھی پاتے تھے فقہ الرضا میں اس طرف اشارہ کیا گیا کہ منجمین اس راہ سے مال و دولت حاصل کرتے تھے وہاں علم نجوم کو علوم فنون کے صنف میں شمار کیا گیا ہے اور اسے حاصل کرنے اس پر عمل کرنے اور اگر شرعی امور میں اس سے استفادہ کیا جائے تو اس کے عوض حق المحنت طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے(۱۵)

ظاہر ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اس نجومی کے ساتھ جو سلوک فرمایا اس حیثیت سے تھا کہ آپ ولی و حاکم تھے اور چاہتے تھے کہ اسے ایک پیشہ اور روزی کمانے کا ذریعہ بنائے جانے سے روکیں اور نجومیوں کی تصدیق نیز ان کی گرم بازاری کے مقابلہ میں خدا وند عالم کے علم اور اس کی قددرت سے متعلق لوگوں کے عقائد مخدوش ہونے سے بچائیں

تعیین شدہ مقامات کے علاوہ دوسری جگہ خرید و فروخت پر پابندی

اس کا شمار بھی لین دین اور تجارت کے قواعد و ضوابط میں ہوتا ہے جیسا کہ نقل ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں بعض مسلمان تجارتی قافلوں والوں سے (منزل پر پہنچنے سے پہلے ) طعام(۱۶) کھانا خرید لیتے تھے ، آنحضرت نے ایک شخص کو ان لوگوں کی طرف بھیجا کہ اپنی خریدی ہوئی چیزوں کو اسی جگہ فروخت نہ کریں بلکہ اسے اس جگہ لے جائیں جہاں کھانا فروخت کیا جاتا ہے(۱۷)

ابن عمر سے نقل ہے کہ ”ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں کھانے کی چیزیں خرید تے تھے آنحضرت کسی کو ہمارے پاس بھیج کر حکم دیتے تھے کہ اپنی خریدی ہوئی #چیز کو بیچنے سے پہلے خرید کی جگہ سے منتقل کر دیں(۱۸)

شہر کے باہر ہی مال لانے والوں سے چیزیں خرید لینے والوں کے پاس مامور بھیجنے کا مقصد انھیں اس بات پر مجبور کرنا تھا کہ اپنا خریدا ہوا مال شہر کے بازار میں لائیں یہ اقدام ان افراد سے مقابلہ کے لئے تھا جو تلقی رکبان ( یعنی تجارتی قافلوں سے شہر کے باہر ہی مال خرید نے جانا )نیز شہر میں مال لانے والوں سے شہر کے باہر لین دین کرنے اور دیہاتیوں کا مال ایک شہر کو فروخت کرنے کے سلسلہ میں دلالی کرنے سے متعلق رسول خدا کہ امتنائی حکم کی خلاف ورزی پر اصرار کرتے تھے(۱۹)

”ابن اخوہ “ کا کہنا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تلقی رکبان اور بازار میںبیچنے سے پہلے ہی مال کی خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے(۲۰)

تلقی رکبان کی حد بند ی کی گئی ہے کہ چار فرسخ کے فاصلے تک تجارتی قافلوں کی پیش قدمی کے لئے جایا جائے چار فرسخ سے زیادہ جانے کو ”تلقی “ نہیں کہا گیا ہے بلکہ اسے مال در آمد کرنا شمار کیا گیا ہے(۲۱)

”تلقی رکبان“سے روکنے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے :کہ مال بیچنے والے جو شہر کی طرف آتے ہیں اس روز کی قیمت سے واقف نہیں ہوتے(۲۲) پس بہتر ہے کہ جو لوگ اطراف سے شہر میں مال لاتے ہیں وہی اسے بازار میں فروخت کریں یہ حکم فقط دیہاتیوں اور بادیا نشینوں سے مربوط رہا ہے ایک شہر سے دوسرے شہر مال لے جانے کی صورت میں منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے اسے خریدنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور جیسا کہ ذکر ہوا ہے(۲۳) اسے تجارت کہا جاتا ہے

بہر حال بازار تک پہنچنے سے پہلے مال خرید نے کے لئے پیش قدمی کرنے کی ممانعت ثابت اور مسلم(۲۴) ہے اور جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں اس سلسلہ میں پیغمبر اسلام سے بہت سی روایتیں نقل ہوئی ہیں حتیٰ امام صادق علیہ السلام سے بھی تجارتی قافلوں کی مال سے پرہیز کرنے کا حکم نقل ہو ا ہے منجملہ یہ ہے کہ :

لا تلقٰ ولا تشترما تلقیٰ ، ولا تاکل منه و معنیٰ غیره(۲۵)

”مال کی طرف پیش قدمی نہ کرو اور جو کچھ (بازار میں پہنچنے سے پہلے)خریدا گیا ہے اسے نہ کھاؤاور اسی سے ملتی جلتی دوسری روایتیں بھی--“

”ابن قیم الجوزیہ “ نے اگرچہ یہ دعویٰ کی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ میں کوئی شخص غلہ درآمد کرنے والوں سے متلقی نہیں کرتا تھا بلکہ لوگ غلہ آنے کے بعد ان ہی وارد کرنے والوں سے خرید تے تھے(۲۶) لیکن حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے متلقی کے سلسلہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کی مخالفت کی اور غلہ لانے والوں سے شہر کے باہر خرید اری کی جاتی تھی اور جب وہ اس کے بعد بازار آتے تھے تو انھیں اس روز کی موجودہ قیمت معلوم ہوتی تھی جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے:

فمن تلقاه فاشتری منه فاذا اتیٰ سیده السوق فهو بالخیار(۲۷)

جس شخص سے شہر کے باہرمال خریدا جائے جب وہ بازار آئے تو اسے حق خیار حاصل ہوگا ۔یہ عمل بھی ان کے لئے مو٘ثر ثابت نہ ہوا کیوں کہ بہت سے مال لانے والے دیہاتی اپنے اس حق سے باخبر نہیں تھے کہ اپنا مال محفوظ کرنے کے لئے اس کا استعمال کرتے

اس حق خیار کی قانونی حیثیت اس قسم کے معاملات میں بھاری نقصان اور دھوکے کے سبب وجود میں آئی ہے اور علامہ حلی کے بقول حق خیار مطلق طور سے ثابت ہے حتیٰ چاہے بیچنے والے کے ساتھ دھوکا نہ بھی ہواہو اور شاید اس قول کی سند مذکورہ بالا حدیث کا مطلق ہونا ہے(۲۸)

لیکن ”ابن الاخو“ نے یہ نکتہ ذکر کرنے کے بعد کہ” تلقیٰ رکبان “ یا مال بازار میں آنے سے پہلے خرید کئے جانے کی صورت میں بیچنے والے کے لئے خیار کاحق ثابت ہے یہ کہا ہے یہ اس صورت میں ہے جب تاجروں سے ملنے کے لئے پہلے ہی شہر سے باہر جایا جائے اور شہر کے بازار کی قیمت کے سلسلہ میں ان سے جھوٹ بول کر مال خرید لیا جائے ایسی صورت میں مذہب شافعی کی رو سے خود معاملہ صحیح ہے ہاں حدیث کی نقل کے مطابق تلقی کرنے والا گنہگار اور بیچنے والے کا خیار ثابت ہے(۲۹)

بہر حال خیار کا یہ قانون مو ثر ثابت نہ ہوا ، لہٰذا ضروری تھا کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو اس کام سے روکنے کے لئے کوئی اور قدم اٹھایا جاتا تاکہ ایک طرف بادیہ نشینوں اور دیہاتیوں کے منافع محفوظ ہوتے اور دوسری طرف غلہ بازار میں لاکر رائج اور معقول قیمت پر بیچا جاتا ساتھ ہی ذخیرہ اندوزی روز کی قیمت سے لاعلمی اور موجودہ قیمت سے بے خبر افراد کے ساتھ ظلم و زیادتی کا سوال پیدا نہ ہوت

اس کے علاوہ مال بازار میں لایا جائے گا تو اہل شہر کے لئے اس کی خرید اری ممکن ہوگی کیوں کہ اگر تلقی کی اجازت دے دی جائے تو چیزیں بازار میں پہنچنے سے پہلے خریدی یا احتکار کر لی جائیں گی جس سے اہل شہر کے لئے ان کی خریداری ممکن نہ ہو سکے گی(۳۰)

ان سب سے بڑھ کر بازار میں چیزوں کی فراوانی عام طور سے لوگوں میں اور خصوصا فقراء میں گرانی کے زمانہ میں بھی سر چشمی کا نمایاں اثر رکھتی ہے(۳۱)

اور شاید ”ابن قیم جوزیہ “کا مذکورہ قول اسی صورت حال کے پیش نظر رہا ہو کہ ۔ جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں۔حکومت نے لوگوں کو تلقی سے توکنے کے لئے خود اقدام کیا ہے

یہ باتیں تو تلقی رکبان کے سلسلہ میں تھیں اب رہی یہ بات شہری افراد دیہاتیوں کامال ان کی طرف سے فروخت نہ کریں تو اس ممانعت کاسبب یہ ہے کہ لوگوں کو بیچنے اور خرید نے والے کے در میان دلّالی کرنے اور کوئی قابل ذکر عمل یا خدمت انجام دیئے بغیر پیسہ حاصل کرنے سے روکا جائے اس کے علاوہ شہری دلال غیر شہری صاحب مال کی لاعلمی ونادانی سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے مال کے تبادلے میں اپنی دخل اندازی کے ذریعہ پیسہ کماتے ہیں

مزید یہ کہ شہری دلال مال لانے والے دیہاتیوں پر اپنا نظریہ تھوپ کر اسے اپنا مال ایسی قیمتوں پر فروخت کرنے کے لئے مجبور کرتے ہیں، جو ان پر ظلم وزیادتی شمار ہوتی ہے اور یہی حرکت احتکار یا یکے بعد دیگرے کئی دلالوں کے ذریعہ قیمتوں کی زیادتی کاسبب ہوتی ہے

”طاووس“نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

قال رسول الله (صلی الله علیه وآله وسلم) لا یبیع حاضرلباد ، قلت: لم لا یبیع حاضر لباد ؟ قال لانه ُکون له سمساراً

” رسول خدا نے فرمایا :کوئی شہری کسی دیہاتی کی طرف سے (اس کی نیابت میں)اس کا مال نہ بیچے، میں نے دریافت کیاکیوں؟ تو فرمایا: کیوں کہ شہری اس دیہاتی کے لئے دلال ہوجاتا ہے“(۳۲)

اور شاید بعض اسباب اس بات کی علت ہوں جس کی طرف یہ روایت اشارہ کررہی ہے:

مر النبی (صلی الله علیه وآله وسلم) برجل معه سلعة یرید بیعها فقال: علیک باول السوق(۳۳)

”پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جس کے پاس کچھ مال تھا اور وہ اسے بیچنا چاہتا تھا آپ نے اس فرمایا : تم پر لازم ہے کہ ”اول بازار“ کی طرف جاو“

احتمال یہ ہے کہ ”اول بازار“ سے مراد شاید وہ جگہ ہو جو اس قسم کا مال بیچنے کے لئے بنائی گئی تھییا شاید آنحضرت اس شخص کو ایسا مال بیچنے کے لئے مناسب جگہ کی رہنمائی فرما کر اس کی مدد اور اس پر احسان کرنا چاہتے ہوں

زیر سایہ فروخت

جیسا کہ ہم آئندہ دیکھیں گے،امام موسی کاظم علیہ السلام (جو یہ جانتے ہیں کہ وہ ہشام بن حکم جیسے افراد کو جو کچھ بھی حکم دیں گے تعمیل کیا جائے گا کیونکہ وہ امام ہونے کی حیثیت سے انھیں حکم دے رہے ہیں اور ان کے پاس فرمانبرداری و تعمیل کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے) جب آپ ہشام بن حکم کے پاس سے اس حال میں گزرتے ہیں کہ ہشام سایہ میں ”سابری“ایک قسم کا لباس بیچ رہے ہوتے ہیں تو آپ ہشام سے فرماتے ہیں:

یا هشام ان بیع فی الظلال غش و الغش لایحل(۳۴)

”اے ہشام سایہ میں فروخت کرنا دھوکہ دہی ہے اور تجارت میں دھو کہ دھڑی حلال نہیں ہے“

امام علیہ السلام کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام حالات وشرائط جو صحیح تجارتی معاملات میں خلل پیدا کرتے ہیں اور چاہے براہ راست نہ سہی دوسروں کے حق میں دھو کہ دہی کا سبب بنتے ہیں ان پر بھر پور توجہ رکھنا چاہئے

نیز صحیح تجارتی معاملہ اور امانتداری کے اصول کی رعایت کے سلسلہ میں اسلام نے جو قوانین بنائے ہیں اور اس کے باریک باریک پہلووں پر زور دیا ہے ان کی طرف بھی اشارہ کرناچاہئے حتی ان قوانین میں اس کی طرف بھی توجہ کی گئی ہے کہ سایہ میں یا سایہ کہ باہر ہونے کی صورت میں تجارتی مال پر کیا اثر مرتب ہوتاہے،میں نہیں سمجھتا کہ اسلامی قانون جو حکیم ودانا اور رووف ومہربان خدا کی جانب سے آیاہے،کے علاوہ دنیا کے کسی بھی قانون میں حتی اتنی معمول سطح پر غش اور دھوکہ دہی سے پر ہیز کا اہتمام برتاگیا ہو

شبہ سے بھی پرہیز

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

”مر النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علی رجل و معہ ثو یبیعہ و کان الرجل طویلا و الثوب قصیرا فقال لہ اجلس فانہ انفق لسلعتک “(۳۵)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک لباس بیچنے والے لمبے شخص کے پاس سے گزرے اور وہ لباس اسکے قد کی مناسبت سے ناٹا تھا حضرت نے اس سے فرمایا :بیٹھ جاو اس طرح سے تمھارا جامہ بہتر طور سے بکے گ

لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام جس طرح یہ نہیں چاہتا کہ خریدار کے ساتھ دھوکہ دھڑی ہو ۔کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہشام بن حکم کو ”سابری“ سایہ میں فروخت کرنے سے منع کرتے ہیںیوں ہی وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ بیچنے والا بھی نقصان کا شکار ہوحتیٰ شبہ کے ذریعہ بھی جو ایک طویل القامت شخص کے کوتاہ اور چھوٹے لباس بیچنے سے پیدا ہوتا ہے ، لہٰذااسے بیچنے کا حکم دیتا ہے تاکہ خریدار لباس کی ناپ کے بارے میں اور اپنی مطلوبہ چیز کے بارے میں وہم اور شبہ کا شکار نہ ہو جائے اور لباس کو اس کے اصل اندازے سے چھوٹا تصور نہ کرے

____________________

۱)۔کافی،ج/۵،ص/۱۵۱۔التہذیب،ج/۷،ص/۵۔وسائل،ج/۱۲،ص/۲۸۶

۲)۔کافی /ج۵،ص/۵۰و۱۵۰ من لایحضرہ الفقیہ ،ج/۳ ص/۱۳خصائل ج/۱ص/۲۸۲فقہ الرضا ص/۲۵۰، وسائل ج/۱۲ ص/۲۸۴،بحارالانوار ج/۱۰۰ص/۹۶و۱۰۰،مستدرک الوسائل ج/۲ص /۴۶۳

۳)۔کافی ج/۵ ص/۱۵۴،من لایحضرہ الفقیہ ج/۳ص/۱۹۳،التہذیب ج/۷ص/۵وسائل ج/۳ص/۲۸۳

۴)۔ آگے اس مطلب پر دلالت کرنے والی روایت نقل کی جائے گی۔

۵)۔ دعائم الاسلام ،ج/۲ص/۳۸،مستدرک الوسائل،ج/۲،ص/۴۸۲،نہج السعادہ ،ج/۵نص/۶۳۱آخر کے ماخذ وں کے پہلے ماخذ سے نقل کیا ہے

۶)۔ کافی ،ج/۷،ص/۲۶۳،التہذیب ،ج/۱۰ ص/۱۴۹،وسائل ،ج/۱۲ ص/۱۱۱ ،اور ج/۸ ص/۵۷۵ اور ج/۳ص/۵۱۵

۷)۔ الجامع الصحیح ترمزی ،ج/۵ ص/۱۷۹ ، مسند احمد ،ج/۴ ص/۴۳۹ و ص/۴۴۵ ، الحضارة الاسلامیہ فی القران الرابع الہجری ج/۲ ص/۱۵۵

۸)۔بے لگام افراد جو کسی چیز کے پابند نہیں ہوتے

۹)۔ ربیع الابرار ، ج/۳ ص/۵۸۹، قصہ گوئی کے ذریعہ روزی کمانے سے متعلق اور یہ کہ قصہ گوئی ایک حکومتی منصب بن گیا تھا ملاحظہ فرمائیں !الحضارة الاسلامیہ فی القرآن الرابع الہجری ، ص/۱۱۰، ص/۱۱۱و ص/۱۱۵نیز اس سے قبل اور بعد الخطط المقریزی ج/۲ ص/۲۵۴ ،اورالمعجم المفہر س لا لفاط السنہ انبیویہ کے مادہ ” قصّ“ میں نیز آن ماخذ میں جن کی طرف اشارہ کیا گیا

۱۰)۔ سورہ یوسف /۳

۱۱)۔اختیار المعرفة الرجال ص/۲۱۴ ،ص/۲۱۵،جامع الرواة ، ج/۱ ص/۳۵۳، تنقیح المقال ،ج/۲ص/۱۲،منتہیٰ المقال ص/۱۴۴، نقد الرجال ص/۱۴۸ ، قاموس الرجال ج/۴ ص/۳۲۴ ، معجم الرجال الحدیث ج/۸ص/۶۸۔۶۹

۱۲)۔ التراتب الاداریہ ج/۲ ص/۲۷۲

۱۳)۔ معالم القریہ ص/۲۷۱

۱۴)۔ انساب الاشراف بلاذری ،ج/۲ ص/۳۶۸و ۳۶۹بہ تحقیق محمودی حیاة الصحابة ج/۳ ص/۷۵۳،از کنزل العمال ج/۵ص/۲۳۵ ،تذکرة الخواص ص/۱۵۹،نیز ملاحظہ فرمائیں شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی حنفی ج/۲ص/۲۷۰

۱۵)۔ فقہ الرضا ص/۳۰۱، بحار الانوار ج/۱۰۰ ص/۵۲

۱۶)۔طعام کے مطلق معنی قوت اور غذا کے ہیں لیکن جیسا کہ” لسان العرب “ میں ہے اس لفظ سے اہل حجاج گیہوں مراد لیتے ہیں

۱۷)۔ ملاحظہ فرمائیں : صحیح بخار ی ج/۲ ص/۱۰، التراتیب الاداریة ج/۱ ص/۲۸۵، صحیح مسلم ج/۵ ص/۸ ، نظام الحکم فی الشریعة و التاریخ الاسلامی (السطة القضائیہ ) ص/۲۹۰و ۲۹۱،معالم الحکومت الاسلامیہ ص/۲۴۴نقل از: النظم الاسلامیہ نشاتھا و نظورھا ،و سنن نسائی ، ج/۷ ص/۲۸۷ ۔ آخری ماخذ میں آیا ہے یہاں تک کہ اسے بازار طعام لے جائیں

۱۸)۔ سنن نسائی ج/۷ ص/۲۸۷ ، اور کنز العمال ج/۴ ص/۸۰

۱۹)۔ رک :کافی ج/۵ص/۱۶۹،التھذیب ،ج/۷ص/۱۵۷، من لایحضرہ الفقیہ ج/۳ ص/۲۷۳، وسائل ج/۱۲ ص/۳۲۶و۳۲۸، امالی شیخ طوسی ج/۲ص/۱۱،سنن ابی داؤد ج/۲ص/۲۶۹ ۲۷۰،صحیح بخاری ج/۲ ص/۱۱، سنن نسائی ج/ ۷ ص/۲۵۵ تا ۲۵۹ ، سنن داری ج/۲ ص۲۵۵، مسند احمد ج/۵ ص/۲۲ و ۹۱و۶۳، المسند حمیدی ج/۲ص/۴۴۶، مصابیح السنة ج/۲ ص/۶، نصب الرایہ ج/۴ص/۲۱و۲۲و۲۶۱، نیز اس کے حاشیہ میں ملاحظہ ہو :الجامع الصحیح ترمذی ج/۳ ص/۵۵۴ تا ۵۵۶ ، سنن ابن ماجہ ج/۲ ص/۷۳۴و ۷۲۵، صحیح مسلم ج/۵ ص/۴تا۶، مجمع الزوائد ج/۴ ص/۸۱تا ۸۳، بحار لانوار ج/۱۰۰ ص۸۸،عوالی اللئالی ج/۳ ص/۲۰۶و۲۱۰، تذکرة الفقہا ج/۱ ص/۵۸۵، ۵۸۶، التراتیب الاداریہ ج/۲ص/۵۷و۵۸، کنز العمال ج/۴ص۳۶تا۳۹و۵۴تا۵۵و۹۲تا ۹۳، بعض مذکورہ ماخذ نیز : طحاوی ، مالک ، سعید ابن منصور ، طیالسی ، شافعی ، بیہقی ،طہرانی ،ابن ابی شبیہ اور ابن عسکری سے نقل شدہ اور ملاحظہ ہو : معالم القریہ ص/۲۱۲و۲۱۳، کشف الاستار ج/۲ص/۸۸و۸۹، نظام الحکم فی الشریعہ والتاریخ (السلطة القضائیہ )ص/۶۰۳

۲۰)۔معالم القریہ ص/۱۲۳

۲۱) ۔ کافی ج/۵ ص/۱۶۹ و ۱۶۸، التہذیب ج/۷ ص/۱۵۸ ،من لایحضرہ الفقیہ ج/۳ ص/۲۷۴ وسائل ج/۱۲ص/۳۲۶و۳۲۷

۲۲) ۔نظام الحکم فی الشریعہ والتاریخ لاسلامی (السلطة القضائیہ) ص/۶۰۳ نقل از ابن تیمیہ

۲۳) ۔ کافی ج/۵ ص/ ۱۷۷ ۔وسائل ج/۱۲ ص/۳۲۷

۲۴) ۔ کنز العمال ج/۴ ص۳۷و۳۸ ، از طحاوی اور از ابی سعید ، مصابیح السنہ ج/۲ ص/۶

۲۵) ۔وسائل ج/۱۲ص/۳۲۶،من لا یحضرہ الفقیہ ج/۳ص/۲۷۳،کافی ج/۵ص/۱۶۸ التہذیب ج/۷ص/۱۹۸،عوالی اللئایی ج/۲ص/۲۱۰۔مستدرک الوسائل،ج/۲،ص/۴۶۹

۲۶) ۔ التراتیب الاداریہ ج/۲ ص/۹۱نقل از الطرق الحکمیہ ابن قیم

۲۷) ۔رک :عوالی اللئالی،ج/۴ص/۲۱۱ تذکرة الفقھا ،ج/۱ص/۵۸۵،مستدرک الوسائل ج/۲ص/۴۶۹، صحیح مسلم ج/۵ص/۵، سنن ابی داؤد ج/۳ص/۳۶۹،سنن داری ج/۲ص/۲۵۵، سنن نسائی ج/۷ص/۲۵۷، الجامع صحیح ترمذی ج/۳ ص/۵۲۴، سنن ابن ماجہ ج/۲ ص/۷۳۵، مسند احمد ج/۲ص/۲۸۴،۴۰۳،۴۸۸،نصب الرایہ ج/ ۴ص/۳۶۱، المکاسب ص/۳۱۱، کنز العمال ج/۴ص/۳۷،۹۳( بعض مذکورہ بالا مآخذ سے نقل ) نیز از عبد الرزاق و معالم القربہ ص/۱۲۳

۲۸) ۔ مکاسب شیخ انصاری ،ص/۲۴

۲۹) ۔معالم القریة فی احکام الحسبة ،ص/۱۴۳

۳۰)۔دعائم الاسلام ،ج/۲ ص/۳۰ مستدرک الوسائل ،ج/۲ ص/ ۴۶۹

۳۱)۔المکاسب ،ص/۲۱۱

۳۲)۔معالم القریہ،ص/۲۱۲

۳۳)۔وسائل،ج/۱۲،ص/۲۹۶۔من لا یحضرہ الفقیہ،ج/۳،ص/۱۹۶۔کنز العمال،ج/۴،ص/۸۷۔نقل از ابن شیبہ آخری ماخذ میں ”اول السوق “ کے بجائے ”اول السوم “آیا ہے جو شاید چاپ کی غلطی ہے۔

۳۴)۔وسائل ،ج/۱۲،ص/۲۰۸۔من لایحضرہ الفقیہ،ج/۲،ص/۲۷۱۔فروع کافی،ج/۵،ص/۱۶۱۔ التہذیب، ج/۷، ص/۱۳

۳۵)۔کافی،ج/۵،ص/۳۱۲۔التہذیب شیخ طوسی ،ج/۷،ص۲۲۷۔وسائل ،ج/۱۲،ص۳۴۰