بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں0%

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں

مؤلف: سید جعفر مرتضی عاملی
زمرہ جات:

مشاہدے: 9524
ڈاؤنلوڈ: 2349

تبصرے:

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9524 / ڈاؤنلوڈ: 2349
سائز سائز سائز
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں

مؤلف:
اردو

حکومت کی جانب سے ضروری اقدامات

یہاں ہم حکومت کی طرف سے عمومی فوائد اور صحیح تجارتی پیشرفت کے لئے اختیارات اور صلا حیتوں کا بروئے کار لاکر کی جانے والی ضروری تدبیروں اور مناسب اقدامات کے کچھ نمونے ذکر کرتے ہیں ۔

لہٰذا گذشتہ اور آئندہ فصلوں میں ذکر ہونے والی باتوں کو حسب ذیل مثالوں کے تحت اشارتاً بیان کریں گے ۔

تخمینی فروخت کی ممانعت

تخمینی فروخت سے مراد بغیر کسی وزن وشمار کے مال فروخت کرناہے ۔اسلام میں اس طرح کی فروخت سے روکاگیاہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ فروخت کایہ طریقہ خریدار کے حق میں دہوکہ اور ”غبن “کاباعث ہوتاہے اور پیچنے والے کو دغل بازی اور خیانت کاموقع فراہم کرتاہے اور خریدار بیچنے والے سے اپنے حق کامطالبہ بھی نہیں کرسکتا ۔

لیکن اس ممانعت کے باوجود چونکہ تاجروں کواس طرح مال فروخت کرنے میں نفع نظر آتاہے،اگر چہ یہ نوعیت سب کے لئے نقصاندہ تھی ،اس لئے وہ اس سے دستبردار نہیں ۔تھے لہٰذا اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ تاجروں کو اس طرح کے تجارتی معاملات سے روکنے اور ان پر پابندی لگانے کے لئے کافی اور قابل اطمینان وسائل کے ساتھ مداخلت کی جائے یہ مداخلت بازار کی پیشرفت وسا لمیت اور اسے غلط کاروبار سے پاک رکھنے کے لئے کئے جانے والے اقدامات میں شمار ہوتی ہے۔

اس قسم کے تاجروں کے خلاف جو پنداور نصیحتوں کے بعد بھی اپناعمل جاری رکھتے اور اس پر سختی کے ساتھ جمے رہتے ہیں یہی ایک راہ تھی کہ ایسے وسائل سے استفادہ کیاجائے جو انھیں ان حرکتوں سے باز رکھ سکیں چاہے ا ن کے لئے ضرب وشتم اور اہانت کی حد تک ہی کیوں نہ بڑھنا پڑے ”سالم“ نے اپنے والد سے نقل کیا ہے :۔

”ہم نے حضرت رسول خدا (ص) کے زمانے میں دیکھا کہ جو لوگ ”مجازفة“یعنی اندازہ وتخمینہ سے گیہوں یاغلہ بیچتے تھے ،ان کی پٹائی ہوتی تھی کہ وہ اس طرح غلہ نہ بیچیں اور اپنامال واپس لے لیں ۔

ٍ اور بعض روایات میں آیاہے کہ وہ لوگ گیہوں بازار کے آخری حصہ پراندازہ سے فروخت کرتے تھے ۔“(۱)

ناپ تول پر کنڑول

جب انسان اپنا مال دوسرے کو بیچنا چاہتا ہے تو مستحب ہے کہ تولتے وقت خریدار کے حق میں زیادہ تولے اور جب کسی دوسرے کا مال تول کر خرید نا چاہے تو مستحب ہے اپنے حق سے کم رکھے

لیکن جب کوئی تیسرا شخص وزن کرنے والا ہو کہ ایک شخص کا مال تولے اور دوسرا اسے لے لے یا جب کوئی لوگوں کے درمیان تقسیم ہونے والی چیز کو لوگوں میں بانٹنا چاہتا ہے تو اسے بہر حال وزن میںمساوات کا اطمینان حاصل کرنا چاہئے کسی کو کسی پر ترجیح نہ دینا چاہئے خاص طور سے جب کہ تقسیم شدہ مال عمومی اموال میں سے ہو لہٰذا اگر وزّان (تولنے والا) اس روش سے خطا کرے تو ظالم اور مجرم شمار ہوگا اور حاکم اسے روک سکتا ہے یہ وہ چیز ہے جس کی حضرت علی علیہ السلام نے تاکید فرمائی ہے

” عنبئہ وزّان “نے اپنے والد سے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے ایک شخص کو بلایا کہ کچھ زعفران لوگوں کے درمیان تقسیم کر دے اس شخص نے معین مقدار سے زیادہ تولنا چاہا تو حضرت نے اپنے ہاتھ کی چھڑی سے اسے مار کر فرمایا ”بلا شبہ وزن یکساں ہے “(۲)

جیسا کہ ہم روایات میںدیکھتے ہیں کہ جب حضرت علی علیہ السلام ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو زعفران تول رہا تھا اور کچھ زیادہ تول رہا تھا تو آپ نے اس سے فرمایا : وزّان قط و عدل کے ساتھ انجام دو ،اس کے بعد جو کچھ چاہو اضافہ کرو(۳)

اس جملہ سے حضرت فروخت میں ازادی کی طرف اشارہ کرنا چاہتے تھے ،پھر جو چاہو ،کی تعبیر اسی بات پر دلالت کرتی ہے

لیکن وہ روایت جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اہل بازار کے پاس ایک وزّان (تولنے والا ) جو مزدوری لے کر تولتا تھا ۔آنحضر ت نے اس سے فرمایا:کانٹا جھکا کر تولا کرو (یعنی زیادہ تولو)(۴) اور انس کی روایت کہ میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ بازار میں داخل ہوا ایک اعرابی کے پاس ایک زیر جامہ تھا جس کی قیمت وہ پانچ درہم اعلان کر رہا تھا اسی وقت حضرت تولنے والے کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا : مقدار سے کچھ زیادہ تولو(۵) اور حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:وزن میں اس وقت تک وفا نہیں ہو سکتی جب تک ترازو نیچے کی طرف نہ چھک جائے یاجھکاؤ نہ پیدا کر لے

یہ تمام روایتیں وزن پورا ہونے میںاطمینان حاصل کرنے کے لئے ہیںکیونکہ مال کا کچھ وزنی ہونا وزن کی صحت کے مکمل طور پر یقینی ہونے کی نشانی ہے اس لئے کے برابر تول کی صورت میں ہو سکتاہے صاحب حق کاتمام حق ادا نہ ہوپاتا۔وزن میں عدالت برقرار رکھنے کے لئے کچھ زیادہ ہی تولنے کی ضرورت ہے ،جس کی روایت میں ہدایت کی گئی ہے ۔تول کے بعد بیچنے والاجوکچھ چاہے اپنے لطف وکرم سے مزید دے سکتاہے۔

لیکن یہ لطف و کرم ان اموال میں جو بعض لوگوں کے خصوصی حق نہیں بلکہ ان میں عام طور سے سب برابر کے شریک ہیں،کوئی معنی ٰ نہیں رکھتا اور جیسا کہ اشارہ کیا جاتا ہے ان کو حتیٰ الامکان یکساں اور برابر سے تقسیم ہونا چاہئے

بہر حال یہ روایتیں بلا شبہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت پیغمبر اکرم اور آئمہ علیہم السلام مذکورہ سبب یا اور دوسرے اسباب کے تحت ” وزن “ اور طول پر نظر رکھتے تھے

ممنوعہ چیزوں کی تجارت روکنے کے اقدامات

اس کے دو نمونے یہاں ذکر کئے جاتے ہیں :

۱ ۔ شراب کی تجارت : عبد اللہ بن عمر نے کہا : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ایک چاقو لانے کا حکم دیا ، میں ان کی خدمت میں لے گیا حضرت نے اسے تیز کرنے کے لئے بھیجا اس کے بعد مجھے دیا اور فرمایا کل صبح یہ چاقو لے کر میرے پاس آؤ میں نے ایسا ہی کیا پس آن حضرت اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ کے ان بازاروں کی طرف تشریف لے گئے جہاں شام سے شراب کی مشکیں لائی گئی تھیں مجھ سے چاقولے کر اپ نے شراب کی جتنی مشکیں دیکھیں سب کو پھاڑڈالا،اس کے بعد چاقو مجھے دے کر اپنے ساتھ آنے والے اصحاب کو حکم دیا کہ میرے ساتھ آئیں اور میری مدد کریں تاکہ میں تمام بازاروں میں جاؤں اور شراب کی ساری مشکیں پھاڑ ڈالوں ۔میں نے بھی ایسا ہی کیا اور مدینہ کے بازاروں میں شراب کی کوئی مشک نہ چھوڑی جسے میں نے چاک نہ کیا ہو(۶)

اگر چہ ہمارے پاس کوئی ایسی اہم چیز نہیں ہے جس پر اس روایت کی صحت کے سلسلہ میں بھروسہ کر سکیں لیکن اسی نوعیت کے دوسرے موارد کو دیکھتے ہوئے ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ نہ فقط یہ عمل ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے اعمال و افعال سے کوئی ٹکراؤ نہیں رکھتا بلکہ واضح طور سے قابل قبول اور ان سے ہم آہنگ و سازگار بھی ہے خاص طور سے یہ کہ جب شراب حرام ہوئی تو اس سے نزدیک یا دور کا تعلق رکھنے والی تمام چیزیں بھی حرام ہو گئیں

روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خیبر میں کھانے کے دیگ الٹوا دیئے ، حضرت علی علیہ السلام نے ذخیرہ اندوزی سے جمع شدہ محصولات کو جلوا دیا اور رسول خدا(ص)نے حکم دیا کہ ” سمرة بن جندب “ کا خرمہ کا درخت کاٹ کر اس کے سامنے ڈال دیاجائے نیز روایت ہوئی ہے کہ ایک شخص حضرت علی علیہ السلام کے پاس شراب لایا ،حضرت نے اس سے پوچھا ” یہ کہاں سے لائے ؟“ کہا : گھڑے سے ،فرمایا: اسے میرے پاس لاؤ “ اس کے بعد حضرت باہر تشریف لائے گھڑے کو اٹھاکر زمین پر پٹخ دیا اور توڑ ڈالا پھر فرمایا :کیا میںنے اس (شراب )سے ایک سے زیادہ مرتبہ منع نہیں کیا ہے یا اسی طرح کی دوسری روایتیں جو کتابوں میں اسی موضوع کے تحت بیان ہوئی ہے

ظاہر ہے کہ شراب مسلمانوں کی ملکیت نہیں ہوتی اس سے حاصل شدہ پیسہ حرام ہے اور اس کی تجارت بھی صحیح نہیں ہے اسی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حاکم کی حیثیت سے اقدام فرمایا تاکہ اس کی تجارت نیز اس سے روزی حاصل کرنے کی راہوں پر پابندی لگائیں

۲ ۔ پانی میں مری ہوئی مچھلی کی فروخت جیسا کہ ہم کتابوں میں دیکھتے ہیں حضرت علی علیہ السلام بازاروں میں جاکر تاجروںکو وعظ ونصیحت کرتے ہیں لیکن جب مچھلی فروشوں کے بازار میں پہنچتے ہیں تو حاکم کے عنوان سے پانی میں مری ہوئی مچھلیوں کی فروخت پر ممانعت کا قانونی حکم صادر فرماتے ہیں حضرت علی علیہ السلام کے بازاروں سے گزرنے اور تاجروں کو نصیحت کرنے کے سلسلہ میں تاریخی روایت یوں بیان کرتی ہے:

”اس کے بعد آپ خرمہ بیچنے والوں کے پاس سے گزرے اور فرمایا“

”اے خرما فروشو!نادار و ںکو کھانا کھلاؤ تاکہ تمھارے باغوں میں رونق آئے (یعنی درختوں میں زیادہ پھل لگےں )اسی طرح آپ مسلمانوں کے ہمراہ راستہ طے کرتے ہوئے مچھلی فروشوںکے پاس پہنچے اور فرمایا : ” ہمارے بازار میں پانی میں مری ہوئی مچھلی نہیں بیچی جائے گی “(۷)

ہم دیکھتے ہیںکہ یہاں حضرت علیہ السلام کا لہجہ تبدیل ہو گیا ہے اور پانی میں مری ہوئی مچھلی کی فروخت سے روکنا ایک حکومتی دستورالعمل کی شکل اختیار کر گیا ہے خاص طور سے اگر ہم ”ہمارے بازار میں “ کے جملہ پر غور کریں تو حضرت علیہ السلام کا یہ کلام صرف پند و نصیحت شمار نہیں ہوگا بلکہ حاکمیت کی بنیاد پر ایک حکومتی قانون ہے اور شرعی حکم کے پیش نظر براہ راست عملی اقدام ہے

آپ دیکھتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام جو بات خرما فروشوں کے بازار میں فرماتے ہیں وہ اس اجرائی سطح کی نہیں تھی مثلا خراب خرما بیچنے سے روکنے کے لئے کوئی حکم و قانون صادر نہیں فرمایا وہاں فقط ایک اخلاقی بات کہی اور تشویق فرمائی تھی جب کہ مچھلی فروشوں کے بازار میں اس سے الگ بات فرمائی تھی ۔جیسا کہ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت نے عمار کو بازار بھیجا اور فرمایا:انکلیس(مارماہی) نہ کھاؤ(۸)

پھلوں کی فروخت

حضرت امام صادق علیہ السلام سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو

پھلوں کے پکنے سے پہلے باغ کے تمام پھل خرید لیتا ہے لیکن اس کے بعد تمام پھل برباد ہو جاتے ہیں تو آپ نے فرمایا:

”اس سلسلہ میں لوگوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں بھی یہی سوال کیا تھا جب آنحضرت نے دیکھا کہ لوگ اختلاف سے ہاتھ نہیں اٹھاتے تو بغیر اس کے کہ اس قسم کی خرید و فروخت کوحرام قرار دے دیں ،آپ نے اس اختلاف کو ختم کرنے کے لئے لوگوں کو اس کام سے منع کر دیا تاکہ جب پھل پک جائےں تو خریدیں“(۹)

اور ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ امام صادق علیہ السلام سے دو سالہ کھجور کے درخت کے پھل فروخت کرنے کے سلسلہ میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : ”کوئی حرج نہیں ہے “راوی نے عرض کیا آپ پر قربان جاؤں یہ کام یہاں ”بڑا“ (حرام و منع ) ہے ؟ فرمایا تم ایسا کہتے ہو لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے حلال کیا ہے جب آنحضرت کے پاس اختلاف لے کر گئے تو فرمایا : پھل اس وقت تک بیچا نہ جائے جب تک اس کے غنچہ ظاہر نہ ہو جائیں(۱۰)

اس بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حلال اور جائز تجارت میں مداخلت کرکے اسے روکا کیوں کہ آپ نے دیکھا کہ لوگ ایسی تجارت میں اختلاف و دشمنی کا شکار ہوتے ہیں بعض لوگ دوسروں پر زیادتی کرتے ہیں اور یہ منع کرنا اس حیثیت سے تھا کہ آنحضرت مسلمانوں کے حاکم اور ولی امر ہیں اور ان کی مصلحتوں کی رعایت کرتے ہیں اس جہت سے نہیں کہ آپ صرف احکام کے پہنچانے والے اور ان کے ناقل ہیں اور فقط احکام ثانوی پر عمل کرنے کی ہدایت کرتے ہیں

حیوانوں کی حفاظت کے لئے اقدامات

جانوروں کے شکار سے استفادہ کبھی خود ان کا گوشت استعمال کرکے اور کبھی انہیں فروخت کرکے ہوتا ہے جیساکہ بعض پالتو جانوروں کوذبح کرکے ان کا گوشت مصرف میں لایا جاتا ہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ بعض علاقوں میںجانوروںکا شکار یاان کا ذبح کیاجانابعض ان جانوروں کی نسلوں کی تباہی کا باعث ہو تا ہے جو غذائی یا اور دوسرے مقاصد کے حصول کے لئے زیادہ نشانہ بنتے اور استعمال ہوتے ہیں اسی طرح ممکن ہے کہ بعض جانور دوسروں کی ملکیت ہوں اور ان کا شکار ان کے مالکوں سے لڑائی جھگڑے کا باعث بنے ایسے حالات میں حاکم اپنی صلاحیتوں کو بروئے کا ر لاتے ہوئے بعض جانوروں کے شکار یا انھیں ذبح کرنے سے لوگوں کو روک سکتا ہے اس سلسلہ میں دو مثال ذیل میں پیش کی جاتی ہیں

۱ ۔ بعض جگہوں پر شکار سے ممانعت:۔”ضرار بن ازور “ کے حالات میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے قبیلہ بنی اسد کی طرف بھیجا کہ انھیں جانوروں کے شکار سے روک دے(۱۱)

حضرت علی علیہ السلام نے شہروں میں کبوتر کے شکار سے منع فرمایا اور دیہاتوں میں اس کی اجازت دی(۱۲)

بعض جانوروں کے ذبح کرنے پر روک :۔شیخ کلینی نے ایک حسن اور (اعتبار کے لحاظ سے ) صحیح کے مانند روایت میں محمد بن مسلم اور انھوں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے جب حضرت سے پالتو گدھے کا گوشت کھانے کے سلسلہ میں سوال کیا گیا تو فرمایا:رسول خدا (ص) نے جنگ خیبر کے دن اس پر پابندی لگا ئی تھی اور اس سے روکنے کا سبب یہ تھا کہ اس وقت لوگوں کے سامان ڈھونے کا وسیلہ تھا اوربلا شبہ حرام تو وہ چیز ہے جسے خدا وند عالم نے قرآن مجید میں حرام کیا ہے(۱۳)

اس سلسلہ میں کتاب من لایحضرہ الفقیہ میں یہ عبارت ہے :

” اور بلا شبہ رسول خدا (ص) نے خیبر میں پالتو گدھوں کا گوشت کھانے پر اس لئے پابندی لگائی کہ ان کی پشتیں (بار ڈھونے کی صلاحیت )ختم نہ ہو جائیں“(۱۴)

اورشاید پیغمبر اکرم (ص) نے جس عمل سے روکا تھا اسے انجام دینے کے سلسلہ میں بعض لوگ اصرار کرتے تھے اسی وجہ سے یہ تاکید ی حکم صادر ہوا کہ دیگیں الٹ دی جائیں اور اس میں پکنے والے کھانے خلاف ورزی کرنے والوں کی سزا کے طور پر ضائع کر دی جائیں

ایک دوسری روایت میں ہے کہ :

مسلمان خیبر میں غذائی مشکل سے دو چار ہوئے تو اس مشکل کے حل کے لئے انھوں نے چوپایوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا پیغمبر اسلام (ص) نے انھیں حکم دیا کہ دیگیں الٹ دو ۔ یہ نہیں فرمایا کہ گدھے کا گوشت حرام ہے بلکہ یہ اقدام اس لئے تھا کہ یہ چوپائے باقی رہیں(۱۵) لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ایک حاکم کی حثییت سے پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے روکنے کے لئے طاقت کااستعمال کرتے ہیں ۔

خیبر کے اس واقعہ سے ملتا جلتاایک اور واقعہ احمد کی روایت میں ابن ابی اوفی سے نقل ہواہے جس میں حکم کااختلاف پایاجاتاہے ۔اس روایت میں ہے کہ :ہم نے قریہ کے باہر کے گدھوں کو پکڑ کر (انہیں ذبح کیااور دیگ میں ڈال دیا )توحضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا :دیگوں کو جوکچھ اس میں ہے اس کے ساتھ زمین پر پلٹ دو ”یہ واقعہ سعید بن جبیر سے بھی نقل کیا گیا ہے تو انھوں نے کہا : اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ گدھے نجاست خوار تھے(۱۶)

ظاہر یہ ہے کہ یہ واقعہ دوسرا ہے اور اس میں پیغمبر اکرم (ص) کا حکم یہ تھا کہ نجاست خوار جانور کا گوشت حرام ہے لہٰذا آنحضرت (ص) کا یہ حکم حکومتی دستور نہیں تھا

ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ : لوگوں نے خیبر میں ایک بھیڑ چوری کرکے پکائی تو حضرت رسول خدا (ص) نے ان دیگوں کو الٹ دینے کا حکم دیا ، کیوں کہ چرایا ہوا جانور حلال نہیں ہے(۱۷)

جانوروں کو ذبح کرنے کے سلسلہ میں چند دستور

ابن الاخوة نے کہا ہے کہ ” امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ فالج زدہ ، کانی ، اندھی ، جس کے دانت گر گئے ہوں، جس کی گردن پر بال ہوں، پاگل ، جس کے کھر پھٹے ہوں ،عیبی اور بیمار گائیں ذبح نہ کی جائیں(۱۸)

یہ حکم فقط معاشرہ کے افراد کی صحت و سلامتی اور ان بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لئے تھا جو اس طرح کی گائے کا گوشت کھانے سے ہوتی ہیں کیوں کہ یہ حکم حضرت کی خلافت کے زمانہ میں صادر ہوا تھا اور ہم جانتے ہیں کہ شرع میں مذکورہ تمام جانوروں کا ذبح کرنا جائز اور حلال ہے

حکومتی وولایتی تدابیر و احکام

گزشتہ یا دوسرے موارد میں جو پہلے ذکر ہو چکے ہیںیاپھرآئندہ ذکرہوں گے، مسلمانوںکے مسائل اس حدکونہیں پہنچے ہیںکہ یہ موارد ثانوی عنوان کی حیثیت حاصل کر لیں اور قاعدہ استثنا ء ”الا ما اضطر ر تما الیه “ یا قاعدہ حرج (یعنی جس تکلیف کو حدیث کے تقاضے کے تحت ) امت کے دوش سے اٹھا لیا گیا ہے ، یا اور دوسرے ثانوی قواعد و احکام میں شامل ہو ئے ہوں بلکہ ایسے موارد میں پیغمبر اکرم (ص) حاکم اور مسلمانوں کے امور کے ولی و مدیر کی حیثیت رکھتے ہیں اور انھوں نے مسلمانوں کی مصلحتوں کا اہتمام کرنے ان کی بھلائی اور رفاہ و آسائش فراہم کرنے یا ان افراد کی مشکلیں دور کرنے کے لئے جو اپنی بھلائی اور مصلحت کے سلسلہ میںنا سمجھی یا بے توجہی کی بنا پر بعض نقصانات اور دشواریوں کا شکار ہو جاتے ہیں ، کچھ دستور فرماتے ہیں ان دستورات کے اوامرپر عمل اور نواہی سے پرہیز کرنا واجب ہے اور ان کی مخالفت کرنے والا ملامت اور سزا کا مستحق ہے

اس قسم کے تدبیری یا دستوراتی اوامر و نواہی حضرت رسول خدا (ص) یا ان کے جانشینوں یعنی آئمہ معصومین علیہم السلام کی طرف سے ولی و حاکم ہونے کی حیثیت سے صادر ہوئے ہیں (اس جہت سے نہیں کہ وہ پیغمبر اور امام ہیں ، اور مقرر و ثابت احکام کے مبلغ اور ان کی تعلیم و ہدایت دینے والے ہیں)اور اس کی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں منجملہ حسب ذیل مثالیں :

۱ ۔گزشتہ روایات جن میںپیغمبر اسلام (ص) کا پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے روکنا ،اس گوشت کی دیگوں کا الٹوا دینا لوگوں کے درمیان اختلافات ختم کرنے کے لئے پکنے سے پہلے پھلوں کی فروخت سے منع کرنا ”تلقی رکبان“روکنا ،شہری دلالوں کودیہاتیوں کا مال فروخت کرنے سے روکنا ،غلوں کے لئے معین بازار کے علاوہ دوسری جگہوں پر غلوں کی فروخت سے روک،نیز حضرت علی علیہ السلام کا بازار کے اندر بنائی گئی دکانوں اور دوسری تعمیروں کا ڈھا دینا اور پیغمبر اکرم (ص) کا بازار کے اندر لگائے گئے خیمہ کا جلوا دینا اور اس کا حکم کے راستہ سات ہاتھ چوڑا ہونا چاہئے یا ایسے ہی دوسرے دستورات ذکر ہوئے ہیں اور ہوں گے مثلا احتکار اور ذخیر ہ اندوزی وغیرہ جو رعایا کے لئے نقصان دہ اور حکام کے لئے ننگ و عار ہے ،سے روکنے کا حکم اس بحث کے واضح نمونہ ہیں

۲ ۔روایت میں کہ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام ،رنگریزوں ،سناروں کو لوگوںکے مال میں احتیاط پرتنے (اور ان کی حفاظت کرنے) کی غرض سے ان کے مال کا ضامن سمجھتے لیکن جلنے ،غرق ہونے ،نقصان ہونے یاکسی ناگہانی حادثہ کے تحت تلف ہوجانے کی صورت میں انھیں مال کا ضامن نہیں سمجھتے تھے(۱۹)

۳ ۔جب پیغمبر اسلام مکہ میں وارد ہوئے تواپنے اصحاب وانصار کو حکم دیا --”رمل“کی حالت (یعنی چلنے اور دوڑنے کی حالت )میںکعبہ کا طواف کریں اور حکم دیا کہ اپنے بازوجامہ احرام سے باہر نکالیں تاکہ مشرکین دیکھ لیں کہ مسلمان کمزور نہیں ہوئے ہیں لیکن بعد کے حج میں پیغمبر اکرم نے خود ایسا نہیں کیا اور اس کا حکم نہیں دی(۲۰)

۴: ۔پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے اصحاب کوبالو ںمیں خضاب کرنے کا حکم دیا لیکن حضرت علی خضاب نہیں کرتے تھے آپ نے پیغمبر (ص) کے اس حکم کی وجہ یہ بتائی کہ خضاب لگانا جنگ میں دشمن کے مقابل ہیبت اور بیویوں کی محبت وغیرہ کا باعث ہوتا ہے(۲۱)

حضرت علی سے پیغمبر اکرم (ص) کے اس قول (بڑھاپے کو تبدیل کرو اور یہودیوں جیسے نہ بنو) کے سلسہ میں سوال کیا گیا تو آپ(ص) نے فرمایا ”آنحضرت(ص) نے یہ بات اس وقت فرمائی جب دین کی سر حد یں محدود تھیں لیکن اب جبکہ دائرہ پھیل گیا گیا ہے اور مسلمان مستقل و مضبوط ہوگئے ہیں اب مرد کو اختیار ہے جو چاہے کرے(۲۲)

۵:- ۔”عن عبدالله بن خالد الکنانی قال:استقبلنی ابوالحسن موسیٰ بن جعفر علیه اسلام وقد علقت سمکةبیدی قال : اقذفها ؛انّی لا کره للرّجل اسرّی :ان یحمل الشیٴ الذی بنفسه، ثم قال انکم قوم اعداء وکم کثیر عداکم الخلق یا معشر الشیعة فتزیّنوا لهم ما قدرتم علیه(۲۳)

”عبد اللہ بن خالد کنانی سے روایت ہے کہ میں اپنے ہاتھ میں ایک مچھلی لئے ہوئے تھا کہ امام موسی کاظم علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اسے پھینک دو، مجھے یہ پسند نہیں کہ ایک شریف شخص کوئی پست و نامرغوب چیز اٹھائے اس کے بعد فرمایا؛ تم لوگ ایسی قوم ہو کہ تمہارے دشمن بہت ہیں،لوگ تم سے اپنے دل میں کینہ رکھتے ہیں اے گروہ شیعہ جہاںتک ہوسکے ان کے مقابل خود کو آراستہ کرو“

ورای الامام الصادق علیه السلام معاویة بن وهب وهو یحمل بقلا فقال له: انه یکره للرّجل السری ان یحمل الشیٴ الدنی فیجترا علیه

امام صادق عیہ السلام نے معاویہ بن وہب کو دیکھا کہ کچھ سبزی اپنے ہمراہ لے جارہے ہیں آپ نے ان سے فرمایا:مجھے پسند نہیں کہ ایک شریف انسان کوئی پست اور ناپسند چیز اٹھائے تا کہ دوسروں کو اس کے مقابلہ میں جرات پیدا ہو(۲۴)

۶: ۔حضرت رسول خدا (ص) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: میں اس پر آمادہ ہوا کہ نماز جماعت کا اعلان کروں اور اسے قائم کرنے کاحکم دوں،اس کے بعد ہر اس شخص کے گھر کو آگ لگادوں جو مسجد میں نہ آئے(۲۵)

۷ ۔ ”عمار “سے روایت ہے کہ انھوںنے کہا :امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے اور سلیمان بن خالد سے فرمایا : جب تک مدینہ میں ہو میری طرف سے ”متعہ“ازدواج موقت تم پر حرام ہے کیونکہ تم لوگ میرے پاس بہت زیادہ آتے جاتے ہو؛مجھے خدشہ ہے کہ گرفتار ہوجاؤ اور لوگ یہ کہیں کہ یہ لوگ جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھیوںمیں سے ہیں(۲۶)

نیز امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے اپنے اصحاب و انصار سے فرمایا : ”مکہ اور مدینہ میں متعہ میری وجہ سے چھوڑدواس لئے کہ تم لوگ میرے پاس بہت آیا جایا کرتے ہو اور مجھے اس بات سے اطمینان نہیں ہے کہ اگر گرفتار ہوجاؤ گے تو یہ کہا جائے کہ یہ لوگ جعفر صادق علیہ السلام کے دوستوں میں سے ہیں“۔

روایا ت میںکہ حضرت کے اس دستورکا سبب ایک واقعہ تھاجو”ابان بن تغلب “اور ایک عورت کے در میان پیش آیا کہ اس عورت نے انھیںفریب و نیرنگ سے ایک صندو ق میں بند کردیا اور چند حمالوں کو بلایا وہ یہ صندوق ”باب الصفا “لے گئے اور وہاں انھیںڈرایا کہ ہم تم پر زنا کا الزام لگائیں گے چنانچہ ابان بن تغلب نے اپنی نجات کے لئے دس ہزار درہم دئیےیہ خبر امام علیہ السلام تک پہنچی اور امام نے ان لو گو ں کو حکم دیا متعہ ترک کردیں(۲۷) ۔اس بارے میں دوسری روایات بھی ہیں جو اپنی جگہ ذکر ہوئی ہیں۔

۸: ۔روایت ہے :

و کان علی رضی الله عنه باالکوفه؛قد منع الناس من القعودعلیٰ ظهر الطریق ،فکلّموه فی ذلک فقال ادعکم علیٰ شریطه ،قالوا وماهی یاامیرالمومنین؟فقال :غضّ الابصار و ردّالسّلاموارشاد الضّلال قالو قد قبلنا فترکهم(۲۸)

حضرت علی علیہ السلام نے لو گو ں کو سر راہ بیٹھنے سے منع کردیا تھا لو گوں نے حضرت علیہ السلام سے اس سلسلہ میں گفتگو کی تو آپ نے فرمایا :ایک شرط پر مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا لوگوں نے پوچھا یا امیرالمومنین وہ شرط کیا ہے ؟ فرمایا(نا محرم کی طرف سے)آنکھیں بند کرنا ، گزرنے والوں کے سلام کا جواب دینا اور بھٹک جانے والے کی راہ نمائی کرنا لوگو ں نے کہا ہمیں قبول ہے تو حضرت علیہ السلام نے لوگوں کو اجا زت دے دی ۔

۹ ۔یوںہی وہ روایت ہے جس میں عورتوں اور مردوں کی راہیں جدا کرنے کا ذکر ہے(۲۹)

۱۰ ۔حضرت علی علیہ السلام نے لوگوں کو سزادی جو کوفہ سے کئی فرسخ کے فاصلہ پر ایک دیہات سے میّت ڈھوکر کوفہ میں دفن کرنے لائے تھے(۳۰)

۱۱ ۔طاؤوس سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے عبد اللہ بن عمرو کے جسم پر دو معصفر(زرد رنگ کے) لباس دیکھےاس سے فرمایا: کیا تیری ماں نے یہ لباس پہننے کو کہا ہے؟ عبد اللہ نے کہا :یا رسول اللہ (ص) ! انھیںدھوڈالوںگا رسول خدا (ص) نے فرمایا: انھیں جلاڈالو(۳۱)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت (ص) نے فرمایا:”یہ لباس کفار کے لباس ہیں انھیں مت پہنو“۔

۱۲ ۔ایک شخص نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے عرض کیا :مجھے فلاںکام پر معین کردیجئے فرمایا: ہم اپنے کام پر کسی ایسے شخص کو جو اس کا مطالبہ کرتا ہے نہیں رکھتے“(۳۲)

۱۳ ۔نجاری نے آنحضرت (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:میرے لے ہر اس شخص کا نام لکھو جو اسلام کے لئے زبان کھولتا ہے پس کلیفہ بن یمانی نے ایک ہزار پانچ سو مردوں کے نا م لکھے، ایک دوسری روایت میں ہے کہ : اور ہمارے نام چھ سو سے سات سو افراد کے درمیان تھے یہ دمامینی کے بقول یہ واقعہ حدیبیہ کے سال پیش آی(۳۳)

آنحضرت (ص) کے زمانہ میں خود حضور (ص) کی عادت تھی کہ لشکر کا ایک دفتر ہوتا تھا اور اس میں جنگ میں جانے والوں کے نام لکھے جاتے تھے(۳۴)

۱۴ ۔حضرت علی علیہ السلام کے مدبرانہ اقدامات میں سے ایک اقدام یہ بھی تھا کہ بیت المال سے جس کے دودروازہ تھے آپ لوگوں کانام لکھے بغیر چیزیں دیاکرتے تھے یہاں تک کہ ”مسور بن مخرمہ “نے آپ کوخبر دی کہ بعض افراددوبارہ بھی چیزیں لینے آتے ہیںتوآپنے حکم دیاکہ چیزیں لے لینے والوں کے نام لکھے جائیں۔اس کے بعد سے نام لکھے جانے لگے۔(۳۵)

۱۵ ۔حضرت علی علیہ السلام نے حبیب بن مرہ کو”سواد“(دجلہ وفرات کے اطراف میں کھجور کے درختوں سے ڈھکاہواعلاقہ )پرمامورکیااورحکم دیا کہ سواد میں رہنے والے مسلمانوںکوکوفہ لے آو۔(۳۶)

۱۶ ۔اورپیش بندی کے لئے کئے جانے والے اقدامات میں ہم دیکھتے ہیں کہ خیبر میں آنحضرت (ص) کومسموم بھیڑہدیہ کئے جانے کے بعد پیغمبراسلام (ص) کی خدمت میں جوبھی تحفہ یاہدیہ آتاتھا پہلے خود اس کے مالک کو کھانے کاحکم دیتے تھے پھرنوش فرماتے تھے۔(۳۷)

۱۷ ۔”حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پرپیغمبر اسلام (ص) کی روایت ،جس میں آپ نے زنا کارکی تکفیر کی ہے نقل کرتے ہوئے فرمایا:آنحضرت (ص) ہمیں حکم دیتے تھے کہ رخصت دینے والی حدیثوں (بعض امور کی چھوٹ دینے والی حدیثوں) کومبہم ہی رہنے دو۔زانی کی تکفیر کامطلب یہ ہے کہ اگر زانی اس حیث سے زنا کا اودام کرے کہ اسے جائز اور حلال جانتا ہو تو کافر ہے“(۳۸)

۱۸ ۔جن امور کا رسول خدا (ص) نے خود کو پابند بنالیا تھا ان میں سے ایک یہ عمل بھی تھا کہ حضر ت (ص) نے ”ابن ابی“ کو اس قاعدہ پر عمل کرتے ہوئے قتل نہیں کیا کہ ”لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد (ص) اپنے ساتھیوں اور اصحاب کو قتل کر رہے ہیں“(۳۹) کیونکہ صحابی کا قتل الہیٰ دعوت قبول کرنے والوں پر منفی اثرات ڈال سکتا تھ

۱۹ ۔روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے مسجد میں کمزور و ناتواں افراد کے لئے ایک الگ امام معین کیا یوں ہی مردوں کے لئے الگ اور عورتوں کے لئے الگ پیشنماز مقرر فرمایا۔(۴۰)

۲۰ ۔اور ایک دوسرے سلسلہ میں امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:تکبیر ة الاحرام کہنے کے علاوہ نماز میں دوسری تکبیروں کے موقع پر ہا تھ بلند کرنا چھوڑدو کیوںکہ لوگوں نے اس عمل کے ذریعہ تمھیں پہچان لیا ہے ۔”والله المستعان ولا حول ولا قوة الّا بالله(۴۱)

۲۱ ۔ابو مطر”کہتا ہے کہ میں مسجد سے باہر آیا ناگاہ ایک شخص نے مجھے پس پشت سے مخاطب کرتے ہوئے کہا: اپنی ازار (لنگی کی طرح ایک جامہ جو کمر پہ باندھا جاتا ہے پائجامہ) اوپر رکھو تا کہ تمھار ا لباس زیادہ دنوںتک چلے اور خود پاکیزہ رہو اور اگر مسلمان ہوتو اپنے بال چھو ٹے کرو ،مجھے خطاب کرنے والے حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام تھے یہ واقعہ اس حدیث کے ضمن میں نقل ہوا ہے جس میں حضرت علیہ السلام کے بازار میں گشت کرنے اور اسی دوران لوگوں کے لئے مختلف احکام صادر فرمانے کا ذکر ہے ۔(۴۲)

۲۲ ۔روایات میں ملتا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) لسن کھانے والوں کو کو حکم دیتے ہیں ”جس نے یہ خبیث گیاہ کھائی ہے وہ مسجد میںمجھ سے قریب نہ ہو یا اس سے ملتی جلتی تعبیر ۔ اور بعض روایات میں ہے کہ پہلے آنحضرت (ص) نے لوگوں کو مسجد میں داخل ہونے سے قبل لسن کھانے سے منع فرمایا لیکن جب لوگ اس سے نہیں مانے تو آپ نے مذکورہ بالا کلام ارشاد فرمایا ۔ اورصادق آل محمد(ص) امام صادق علیہ السلام سے منقول روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ ”یہ نہیں فرمایا کہ لسن حرام ہے “(۴۳)

۲۳ ۔یوں ہی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اس شخص کا گھر منہدم کرادیتے ہیں جو معاویہ کے جرگہ سے ملحق ہوجاتا ہے(۴۴) ۔جب کہ وہ بیت المال میں شامل کرسکتے تھے لیکن آپنے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ ایک تویہ اس عمل کی غلط توجیہ و تفسیر کی جائے گی دوسرے طاغوتوں اور ظالم حکام کو لوگوں کے اموال میں تصرف کا ایک ثبوت ہاتھ آجائے گا

۲۴ ۔حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک شخص جس کے عادات واطوار زنانہ تھے آپ نے اسے مسجد رسول اکرم (ص) سے باہر کر دی(۴۵)

اور ایک دوسری روایت کے مطابق آپ علیہ السلام نے فرمایا:”ان لوگوں کو اپنے گھر وںسے باہر کرو کیوں کہ یہ کثیف ترین چیز ہیں “(۴۶)

۲۵ ۔ ”سوادہ بن ربیع“ سے روایت ہے کہ میں حضرت پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں آیا آپ کے حکم سے لوگ میرے لئے ایک اونٹ لائے پھر حضرت (ص) نے فرمایا: جب تم اپنے خاندان میں واپس پہنچو تو انھیں ناخن کاٹنے کا حکم دو اور ان سے کہو کہ دودھ دوہتے وقت جانوروں کے تھن کو انگلیوں سے دبا کر خون نہ نکالیں(۴۷)

۲۶ ۔ یہ اشارہ بھی کرتے چلیں کہ رسول خدا (ص) بنی ہاشم کو زکوٰةکی وصولیابی کے عہدہ پر کام کرنے سے منع فرماتے تھے اور اپنے خاندان میں کسی ایک سے آپ (ص) نے یہ کام نہیں لیا ۔

۲۷ ۔ان ہی میں وہ اداری دستورات اور تدبیری اقدامات بھی شامل ہیں جو مسلمانوں کے امور منظم کرنے اور ان کی خیر ومصلحت کے تحت عمل میں آئے مثلا مسلمانوں میں ہر دس افراد پر ایک عریف (سرپرست یا مکھیا کی تعیین(۴۸) فرمائی تاکہ اچھے برے کی تشخیص ہو سکے(۴۹) اور اسی طرح کے دیگر مقاصد(۵۰) آنحضرت (ص) نے ہجرت کے بعد مسلمانوں کو دس دس افراد کے گروہوں میں تقسیم فرمای اور مقداد ان دس افراد کے انچارج تھے جس میں خود پیغمبر (ص) بھی شامل تھے(۵۱)

ان تدبیری اقدامات میں شہر کے محافظ و نگہبان کا تقرر بھی ہے(۵۲) ( اور روایات میں وارد ہوا ہے کہ ”پولیس “ اور ”عریف “ (نگراں) ”نقیب “ (مکھیا) اور ”جابی“ (ٹیکس وصول کرنے والے) کا نام رسول خدا (ص) کی زبانی نقل ہوا ہے(۵۳) نیز دفتر اور منشی کا تعین تاکہ درختوں کے محصول کا تخمینہ لکھا جا سکے مطالبات ،قراردادیں اور وہ تمام چیزیں جو لشکروں کے نظم و نسق سے متعلق ہوتی ہیں اور دیگر بہت سے اقدامات جن کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ہے(۵۴) حکومت کی ذمہ داریوں سے ہے

____________________

۱)۔ ملاحظہ فرمائیں :سنن نسائی، ج/۷ ص/۲۸۷۔ مسند احمد ج/۲ ص/۱۵،۲۱،۷۔ سنن ابی داود، ج/۳ ص/۲۸۱،اورص/۲۸۲۔ صحیح مسلم، ج/۵ ص/۸۔ صحیح بخاری، ج/۲ ص/۱۱۔ کنز العمال، ج/۴، ص/۱۰۲،از عبد الرزاق۔ الترتیب الاداریہ، ج/۱ ص/۲۸۵ و ج/۲،ص/۳۸۔ نظام الحکم فی الشریعہ والتاریخ: السلطة القضائیة، ص/۵۹۱

۲)۔ تاریخ واسط ،ص/۱۰۱، مصنفہ اسلم بن سہل رزاز معروف بہ واسطی ۔طبع بیروت ۱۴۰۶ئھ

۲)۔ التراتیب الاداریہ ج/۲ ص/۱۳۴ ، از کتاب تحفة الناظر و غنیة الذاکر فی حفظ الشعائرتفسیر المناکر ،مصنفہ ابو عبد اللہ عقبانی تلمسانی ، الراعی و الراعیہ ،ص/۲۴۱

۳)۔ملاحظہ ہو سنن نسائی ج/۷ص/۲۸۴ ،سنن ابی داؤد ،ج/۳ ص/۲۴۵۔کنز العمال ،ج/۴ ص/۱۸۸ ، از احمد عبد الرزاق طیالسی ، دارمی ، نسائی ،ابن ماجہ ، ابن حیان ، مستدرک حاکم ، طبرانی ، سعید بن منصور نیز التراتب الاداریہ ، ج/۱ ص/۴۱۱و ۴۱۲، سنن ابن ماجہ ج/۲ ص/۷۴۸۔ التراتب الاداریہ ،ج/۲ ص/۳۲تا ۳۵

۴)۔ الجروحون ،ج/۱ص/۱۴۸

۵)۔من لا یحضرہ الفقیہ ج/۳ص۱۹۸،کافی ج/۵ص/۱۵۹و ۱۶۰

۶)۔ مسند احمد ابن حنبل ،ج/۲ ص/۱۳۳

۷)۔تاریخ دمشق ، تحقیق محمودی حصہ شرح حال امام علی علیہ السلام ، ج/۳ ص/۱۹۴و۱۹۵،البدایة والنہایہ ج/۸ص/۴، مناقب خوارزمی ص/۷۰، ملحقات احقاق الحق ،ج/۸ص/۶۶۳، کنزلالعمال ،ج/۱۵ص/۱۶۳، حیات الصحابہ ج/۲ ص/۶۲۵، منتخب کنزالعمال (مطبوعہ در حاشیہ مسند احمد )،ج/۵ ص/۵۷

۸)۔ الفائق ،ج/۲ص/۶۲

۹)۔ وسائل ،ج/۱۳ص/۳، اور اسی موضوع کا حاشیہ فروع کافی ج/۱ص/۳۷۸،من لایحضرہ الفقیہ ج/۲ص/۷۰، علل الشرائع ص/۱۹۶،تہذیب ج/۲ص/۱۴۱، استبصار ج/۳ص/۸۷،نیز ملاحظہ فرمائیں :مستدرک الوسائل ج/۲ص/۴۸۲، دعائم السلام ج/۲ص/۲۵، بحار الانوار ج/۱۰۰ص/۱۲۶، بحار میں نقل ہے کہ :”جب آنحضرت نے دیکھا کہ یہ لوگ اختلاف سے ہاتھ نہیں اٹھاتے تو آپ نے (پھل پکنے سے ) پہلے ان کی فروخت سے منع کر دیا

۱۰)۔وسائل ج/۱۳ص/۲،۳،۴۔فروع کافی ج/۱،ص/۳۷۸ تہذیب ج/۲ص/۱۴۱،استبصار ج/۳ص/۸۷و۸۸

۱۱)۔ الاصابة ج/۲ ص/۲۰۸و ۲۰۹ التراتیب الاداریہ ج/۲ص/۹۵

۱۲)۔من لایحضرہ الفقیہ ج/۳ص/۳۲۱ ،دعائم الاسلام ج/۲ص/۱۶۸

۱۳)۔کافی ج/۶ ص/۲۴۶ علل الشرائع ص/۵۶۳

۱۴)۔من لا یحضرہ الفقیہ ج/۳ص/۳۳۵و ص/۵۶۳

۱۵)۔کافی ج/ ۶ ص۲۴۶

۱۶)۔مسند احمد بن حنبل ج/۴ص/۳۸۱

۱۷)۔ المصنف سید الرزاق ،ج/۱۰ ص/۲۰۵

۱۸)۔ معالم القربة ص/۱۶۳

۱۹)۔استبصار ،ج/۳ص/۱۳۱تھذیب ج/۷ص/۱۲۹و۲۲۰کافی ج/۵ ص۲۴۲و۲۴۳من لا یحضرہ الفقیہ ج/۳ ص/۲۵۶ بحارالانوارج/۱۰۰ص/۱۶۸وسائل الشیعہ ج/۱۳ ص/۲۷۲ تا۲۷۴

۲۰)۔علل الشرائع ،ص/۴۱۲۔وسائل ج/۹،ص/۴۲۸و۴۲۹۔اور اس کا حاشیہ نقل از علل الشرائع و فقہ الرضا،ص/۷۵۔الترتیب الاداریة،ج/۱،ص/۳۷۷

۲۱)۔ربیع الابرار،ج/۱،ص/۷۳۶۔بحار الانوار،ج/۷۳،ص/۱۰۲و۱۰۳

۲۲)۔بحار الانوار،ج/۷۳،ص/۱۰۴۔نہج البلاغہ شرح عبدہ،ج/۲،ص/۱۵۴و۱۵۵

۲۳)۔صفات الشیعہ،ص/۱۶۔بحار الانوار،ج/۷۳۔ص/۳۲۴ ،اور جلد/۷۱،ص/۱۴۸

۲۴)۔بحار الانوار،ج/۷۱،ص/۱۴۷۔خصال،ج/۱،ص/۱۰

۲۵)۔صحیح بخاری،ج/۱،ص/۷۸صحیح مسلم ج/۲ص/۱۲۳،التراتیب الاداریہ ج/۱ص/۸۹۔ص/۸۹کزشتہ دو ماخذوں سے نقل ،المصنف عبد الرزاق ج/۱ص/۵۱۸و۵۲۲،المعجم الصغیر ج/۱ص/۱۷۲ و ج/۲ص/۵۷ مجلہ نور علم ،سال دوم شمارہ ۹ص/۳۱نقل از اخبارالقضاة وکیع ج/۳ص/۱۲ و از ترتیب المسند شافعی ،ج/۱ص/۱۰، مسند زید ص/۲۹۹،المصنف ابن ابی شیبہ ج/۲ص/۱۵۵ و ص/۱۹۱ ،وسائل الشیعہ ج/۵ ص/۳۷۶ وص/۳۷۷، من لا یحضرہ الفقیہ ج/۱ص/۳۷۶ ، فتح الباری ج/۲ ص/۱۰۵ وص/۱۰۸

۲۶)۔ کافی ج/۵ص/۴۱۷،وسائل ج/۱۴ص/۴۵۰،مستدرک الوسائل ج/۲ص/۵۸۸و۵۸۹

۲۷)۔مستدرک الوسائل ج/۲ص/۵۸۸ملاحظہ فرمائیں

۲۸)۔البیان والتبیین ج/۲ص/۲۱و۱۰۶

۲۹)۔المعرفة والتاریخ،ج/۱،ص/۳۴۴

۳۰)۔دعائم الاسلام ،ج/۱،ص/۲۳۸۔بحار الانوار،ج/۷۹،ص/۶۷نقل ا ز دعائم الاسلام

۳۱)۔طبقات بن سعد،طبع صاد،ج/۴،ص۲۶۵

۳۲)۔معالم القربة،ص/۳۰۱۔اور اس کے حاشیہ نیز تفسیر الاصول،ج/۲،ص/۳۶سے نقل اور اضافہ شدہ ہے کہ: اصحاب صحاح میں سے پانچ افراد نے اسے نقل کیا ہے

۳۳)۔ملاحظہ فرمائیں صحیح بخاری ج/۲ ص/۱۱۶صحیح مسلم ج/۱ ص/۹۱، مسند احمد ج/۵ص/۳۸۴، سنن ابن ماجہ ج/۲ ص/۱۳۳۷ الترتیب الاداریہ ج/۲ ص/۲۵۱ و۲۵۲، ج/۱ ص/۲۲۰و۲۲۳، المصنف ابن ابی شیبہ ج۱۵ص/۶۹

۳۴)۔ صحیح بخاری ج/۲ص/۱۱۷، الترتیب الاداریہ،ج/۱ص/۲۲۰و۲۲۱،فتح الباری

۳۵)۔شرح حال امام علی علیہ السلام از کتاب”تاریخ دمشق“تحقیق محمودی ،ج/۳،ص/۱۸۳

۳۶)۔”تاریخ دمشق“ تحقیق محمودی ج/۳،ص/۱۸۳

۳۷)۔کشف الاستار عن مسند البزار ج/۳،ص/۱۴۱۔مجمع الزوائد،ج/۸،ص/۲۹۶

۳۸)۔المعجم الصغیر،ج/۲،ص/۵۰

۳۹)۔الجامع الصحیح ترمذی،ج/۵،ص/۴۱۸،مسند احمدج/۳،ص۳۵۵و۳۹۳۔حیاة الصحابة،ج/۱،ص/۴۸۴ و۴۸۶ فتح الباری،ج/۸،ص/۴۹۸۔تفسیر القرآن العظیم، ج/۴،ص/۳۷۰و۳۷۲ نقل از صحیحین ،صحیح بخاری، ج/۲، ص/۱۳۱،۱۳۲ ۔صحیح مسلم،ج/۸، ص/۱۹۔المصنف عبد الزارقی،ج/۹،ص/۴۶۹۔السیرة الحلبیة،ج/۲، ص/۲۵۶ کنز العمال ج/۱۱ ،ص/۲۹۵ البدایہ والنھایة،ج/۷،ص/۲۹۷و۲۹۸

۴۰)۔المصنف ج/۴،ص/۲۵۸۔

۴۱)۔کافی ج/۸ص/۷۔بحارالانوارج/۷۵ ص/۲۱۵

۴۲)۔مناقب خوارزمی،ص/۷۰۔شرح حال امام علی بن ابی طالب علیہ السلام ازتاریخ دمشق تحقیق محنودی ج/۳ص/۱۹۴

۴۳)۔المعجم الصغیر ج/۲ص/۲۲و۵۶و۱۵۰۔کشف الاستار عن مسند البزارج ج/۱ص/۲۰۷۔مجمع الزوئد ج/۲ص/۱۷و۱۸نقل از احمد’طبرانی “در”کبیر‘و”الصغیر “و’الاوسط “نیز ازابی یعلی اورالبزار ۔علل الشرایع ص/۵۱۹۔

۴۴)۔ اس روایت کے ماخذ بہت ہیں نمونہ کے طور پر ملاحظہ ہو : انساب الا شراف ،تحقیق محمودی ،ج/۲ ص/۴۱۷ وص/۴۲۰وص/۴۶۵

۴۵۔۴۶)۔ وسائل الشیعہ ،ج/۱۲ ص/۲۱۱

۴۷)۔ کشف الاستار عن مند البزار ج/۲،ص/۲۷۳ ۔ مجمع الزوائد ،ج/۵ ،ص/۲۵۹

۴۸)۔تذکرة الفقہا ج/۱ص/۴۳۷ النظم السلامیةنشاتہا وتطوردما ص/ ۴۹۲نقل از طبری ج/ ۴ص/۸۷و۸۸المبسوط ج/۲ص/۷۵ منتہی المطلب ج/۲ص/۹۵۸۔

۴۹)۔بصائر الدرجات ص/۴۹۶

۵۰)۔التراتیب الاداریہ ج/۱ص/۲۳۵

۵۱)۔المعجم الصغیر ج/ص/۱۶۴

۵۲)۔التراتیب الاداریہ ،ج/۱ ص۲۹۲و۲۹۴

۵۳)۔ المعجم الصغیر ،ج/۱ص/۲۰۴

۵۴)۔التراتیب الاداریہ،ج/۱ ص۲۲۸و۲۷۵