تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي12%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146725 / ڈاؤنلوڈ: 4755
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

نے انہيں اس ايثار و قربانى پرمجبور كيا _

حضرت ابوطالب(ع) كے ايمان كے متعلق شك و شبہ پيدا كرنے ميںجو محرك كار فرماتھا اس كا مذہبى عقيدے سے زيادہ سياسى پہلو تھا، بنى اميہ كى سياسى حكمت عملى كى بنياد چونكہ خاندان رسالت(ص) كے ساتھ دشمنى اور كينہ توزى پر قائم تھى اسى لئے انہوںنے بعض جعلى روايات پيغمبر اكرم (ص) سے منسوب كركے حضرت ابوطالب (ع) كو كافر مشہور كرنے ميںكوئي دقيقہ فروگذاشت نہ كيا وہ اس بات كو كہ وہ ايمان نہيں لائے تھے، فروغ ديكر لوگوں كو يہ باور كرانا چاہتے تھے كہ ان كے فرزند عزيز حضرت على (ع) كو عظمت و فضيلت كے اعتبار سے دوسروں پر كوئي فوقيت و برترى حاصل نہيں ہے اور اس طرح آپ (ع) كى شخصيت داغدار ہوسكے اگر حضرت ابوطالب (ع) حضرت على (ع) كے والد بزرگوار نہ ہوتے تو وہ ہرگز اس بات كا اتنا زيادہ چرچا نہ كرتے اور نہ ہى اس قدر نماياں طور پر اتنا جو ش وخروش دكھاتے_

كوئي بھى ايسا انصاف پسند شخص جسے تاريخ اسلام سے معمولى واقفيت ہوگى اور پيغمبر اكرم (ص) كے اس عظيم حامى اور مددگاركى جدو جہد سے لبريز زندگى كے بارے ميں علم ركھتا ہوگا وہ اپنے دل ميں حضرت ابوطالب (ع) كے بارے ميں ذرا بھى شك وشبہ نہ لائے گا جس كى دو وجوہات ہيں:

اول:_ ممكن ہے كوئي شخص قومى تعصب كى بناپر، كسى دوسرى شخص يا قبيلے كى حمايت و حفاظت كى خاطركچھ عرصے تك مرنے مارنے پر آمادہ ہوجائے ليكن يہ اس امر كا باعث نہيں ہوسكتا كہ وہ شخص چاليس سال تك نہ صرف حمايت وپشت پناہى كرے بلكہ اس شخص كا پروانہ وار شيفتہ بھى ہونيز اپنے جان سے بھى پيارے بيٹے كو اس پر قربان كردے_

دوم:_ يہ كہ حضرت ابوطالب (ع) كے اقوال و اشعار ، پيغمبر (ص) اور آئمہ معصومين عليہم السلام كى

۱۰۱

احاديث اور روايات اس وہم وگمان كى ترديد كرتے ہيں اور اس بات پر متفق ہيں كہ رسول خدا (ص) كى حمايت كا اصل محرك ان كا وہ راسخ عقيدہ اور محكم ايمان تھا جو انہيں رسول (ص) كى ذات بابركت پر تھا_

چنانچہ امام زين العابدين عليہ السلام كى محفل ميں حضرت ابوطالب (ع) كا ذكر آگيا تو آپ (ع) نے فرمايا :

''مجھے حیرت ہے كہ لوگوں كو حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان پر كيوں شك و تردد ہے كيونكہ كوئي ايسى عورت جس نے دين اسلام قبول كرنے كا شرف حاصل كرليا وہ اپنے كافر شوہر كے عقد ميں كيسے رہ سكتى ہے ، حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ عليہا ان اولين خواتين ميں سے تھيں جودين اسلام كى سعادت سے مشرف ہوئيں چنانچہ جب تك حضرت ابوطالب (ع) زندہ رہے وہ ان سے جدا نہ ہوئے''_

حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان سے متعلق سوال كيا گيا تو آپ (ع) نے فرمايا :

''اگر حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان كو ترازو كے ايك پلڑے ميں ركھاجائے اور دوسرے پلڑے ميں ديگر لوگوں كے ايمان كو ركھ كر تولاجائے تو يقينا حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان كا پلڑا بھارى رہے گا_ كيا آپ لوگوں كو اس بات كا علم نہيں كہ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے بعض لوگوں كو يہ حكم ديا تھا كہ وہ حضرت ابوطالب (ع) كى جانب سے فريضہ حج ادا كريں''_(۲۳)

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے رسول خدا (ص) كى حديث بيان كرتے ہوئے فرمايا :

''حضرت ابوطالب (ع) كا ايمان اصحاب كہف كے ايمان كى طرح تھا كہ وہ لوگ دل سے

۱۰۲

توايمان لے آئے تھے مگر زبان سے اس كا اظہار نہيں كرتے تھے ان كے اس عمل كا خداوند تعالى انہيں دو گنا اجر دے گا''_

دين اسلام كى ترويج و تبليغ كےلئے حضرت ابوطالب (ع) كى خدمات كے بارے ميں ابن ابى الحديد لكھتا ہے كہ :

''كسى شخص نے حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان سے متعلق كتاب لكھى اور مجھ سے كہا كہ اس كے بارے ميں اپنى رائے كا اظہار كروں اور اس پر اپنے ہاتھ سے كچھ لكھوں، ميں نے كچھ اشعار اس كتاب كى پشت پرلكھ ديئے جن كا مضمون يہ تھا:

وَ لَولَا اَبُوُطَالبٌ وَابنُهُ

لَمَا مُثّلَ الدّينُ شَخصَاً فَقَاما

فَذاك بمَكَّةَ آوَى وَحامى

وَهذَا بيَثرَبَ جَسَّ الحماما

اگر ابوطالب (ع) اور ان كے فرزند حضرت على (ع) نہ ہوتے تو دين اسلام ہرگزقائم نہيں ہوسكتا تھا باپ نے مكے ميں پيغمبر (ص) كى حمايت كى اور بيٹا يثرب ميں دين كى حمايت ميں موت كى سر حد تك آگے بڑھ گيا_

۱۰۳

سوالات

۱_رسول خدا (ص) كى ملاقات سے مشرف ہونے كيلئے قريش لوگوں كوكس طرح منع كيا كرتے تھے اس كى كوئي مثال پيش كريں؟

۲_ مشركيں نہيں چاہتے تھے كہ لوگ تلاوت قرآن سنيں ، اس مقصد كے حصول كيلئے انہوں نے كيا طريقہ استعمال كيا؟

۳_رسول خدا (ص) نے اصحاب كو ترك وطن كركے حبشہ جانے كى اجازت كس وجہ سے دى ؟

۴_ كيا وجہ تھى كہ مسلمانوں نے اپنى پناہ كيلئے ملك حبشہ كا ہى انتخاب كيا؟

۵_وطن ترك كرنے والوں كا پہلا گروہ كس تاريخ كو حبشہ كى جانب روانہ ہوا اس گروہ ميں كتنے لوگ شامل تھے اور ان كى سرپرستى كون سے صحابى كررہے تھے؟

۶_ ہجرت حبشہ كے كيا فوائد اور بركات تھے؟

۷_قريش كى طرف سے مسلمانوں كے اقتصادى محاصرہ كے كيا محركات تھے؟ اوريہ محاصرہ كتنے عرصے تك جارى رہا؟

۸_ پيغمبر اكرم (ص) نے شعب ابوطالب سے كب اور كس طرح رہائي حاصل كى ، اس كى تاريخ بتايئے؟

۹_ مكہ كے باہر سے جو پہلا وفد رسول خدا (ص) كے پاس مذاكرہ كےلئے آيا تھا اس كا تعلق كس ملك سے تھا؟ اور اس مذاكرے كا كيا نتيجہ برآمد ہوا؟

۱۰_ بعثت كے دسويں سال كو كيوں (عام الحزن) كہاجاتا ہے؟

۱۱_حضرت ابوطالب(ع) كے ايمان سے متعلق دشمنوں نے جو شك وشبہات پيدا كئے اس كے كيا محركات تھے؟

۱۰۴

حوالہ جات

۱_السيرة النبويہ ج ۲ 'ص ۲۵_۲۸_

۲_السيرة النبويہ ' ج ۱ ' ص۳۲۱_

۳_سورہ فرقان آيہ ۵ و ۶_

۴_سورہ فصلت آيہ ۲۶_

۵_آيتى مرحوم نے اپنى تاريخ ميں پانچ ايسے افراد كا نام ذكر كيا ہے جنہوں نے قريش كے كمر توڑ دبائو كى وجہ سے دين اسلام كو ترك كرديا اور دوبارہ بت پرستى شروع كردى _ ملاحظہ ہو تاريخ پيامبر (ص) ص ۱۲۸ _۱۲۹_

۶_ السيرة النبويہ ' ج۱ ' ص ۳۴۴_

۷_السيرة النبويہ ج' ص ۳۴۴_۳۶۲_

۸_ البتہ اس معاہدہے كے مندرجات كى روسے اسے اقتصادى نا كہ بندى كى بجائے صرف '' بائيكاٹ ''كہنا زيادہ مناسب رہے گا_ مترجم_

۹_السيرة النبويہ ابن ہشام ج ۱ ص ۳۷۵ ' والكامل فى التاريخ ج ۲ ' ص ۸۷_

۱۰_ملاحظہ ہو الصحيح من سيرة النبى (ص) ج ۲ ص ۱۰۷_

۱۱_السيرة النبويہ ج ۱ ص ۳۷۷ والسيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۳۳۷_

۱۲_الطبقات الكبرى ج ۱ ص ۲۰۹' والسيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۳۳۷_

۱۳_الصحيح من سيرة النبى (ص) ج ۲ ص ۱۰۸ والسيرة الحلبيہ ج ۱ ' ص ۳۳۷_

۱۴_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۱۳ ص ۲۵۴_

۱۵_الصحيح من سيرة النبى (ص) ج ۲ ص ۱۰۹_

۱۶_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۶ وتاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۳۱_۳۲_

۱۷_الطبقات الكبرى ج ۱ ص ۲۱۰_

۱۸_مصباح المتہجد اعمال نيمہ رجب ص ۷۴۱_

۱۹_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۳۲ والسيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۳۴۵_

۱۰۵

۲۰_الصحيح من سيرة النبي(ص) ج ۲ ص ۱۲۸_

۲۱_تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۳۵_

۲۲_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۳۴۷_

۲۳_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۱۴ ص ۶۸_۷۰ والغدير ج ۷ ص ۳۸۰_

۲۴_ شرح نہج البلاغہ ج ۱۴ ص ۸۳_

۱۰۶

سبق۷:

معراج اوريثرب كے لوگوں كى دين اسلام سے آشنائي

۱۰۷

معراج

تاريخ اسلام كے بعثت سے عہد ہجرت تك كے دورميں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان ميں سے ايك واقعہ معراج ہے ،يہ كب پيش آيا اس كى صحيح و دقيق تاريخ كے بارے ميں اختلاف ہے ، بعض نے لكھا ہے كہ يہ بعثت كے چھ ماہ بعد اور بعض كى رائے ميں بعثت كے دوسرے ' تيسرے ' پانچويں ' دسويں يا گيارہویں حتى كہ بارہويں سال ميں رونما ہوا _(۱)

جب ہم رسول اكرم (ص) كى معراج كے بارے ميں گفتگو كرتے ہيں تو ہمارے سامنے دو عنوان آتے ہيں ، ان ميں سے ايك اسراء ہے اور دوسرا معراج_

واقعہ اسراء يا رات كے وقت آنحضرت (ص) كے مسجد الحرام سے مسجد الاقصى تك كے سفر كے بارے ميں قرآن مجيد كا صريح ارشاد ہے :

( سُبحَانَ الَّذيْ أَسرَى بعَبده لَيلًا منَ المَسجد الحَرَام إلَى المَسجد الأَقصَى الَّذيْ بَارَكنَا حَولَهُ لنُريَهُ من آيَاتنَا ) _

''پاك ہے وہ ذات جو راتوں رات اپنے بندے كو مسجد الحرام سے مسجد اقصى تك لے گئي جس كے ماحول كو اس نے بركت دى تاكہ اسے اپنى كچھ نشانيوں كا مشاہدہ كرائے''_

جملہ ''سُبْحنَ الَّذيْ'' اس حقيقت كو بيان كر رہا ہے كہ يہ سفر خداوند تعالى كى قدرت كے سائے ميں انجام پذير ہوا_

۱۰۸

جملہ''ا َسْرى بعَبْده لَيْلاً'' سے يہ مطلب واضح ہے كہ:

۱_ سير كرانے والى ذات خداوندكى تھى _

۲_ يہ سفر رات كے وقت ہوا ،يہ مفہوم لفظ ''لَيْلاً'' كے علاوہ لفظ ''اَسْرَى '' سے بھى سمجھ ميں آتا ہے كيونكہ عربى زبان ميں يہ لفظ رات كے وقت كے حركت (سفر) كے مفہوم ميں استعمال ہوتا ہے _

۳_ يہ ''سفر'' جسمانى تھا اور اگر فقط روحانى ہوتا تو اس كے لئے لفظ ''بعَبْدہ'' كے ذكر كى ضرورت پيش نہ آتي_

مذكورہ آيت كى رو سے اس ''سفر '' كا آغاز ''مسجد الحرام'' سے ہوتا ہے اور اختتام ''مسجد الاقصى '' پر اور آخر ميں اس ''سفر'' كا مقصديہ بتايا گيا ہے كہ اس سے خداوند تعالى كى نشانياں دكھانا مقصود تھا_

''معراج'' اور ملكوت اعلى كى سيربہت سے كا واقعہ بھى محدثين اور مؤرخين كى نظر ميں اسى رات ميں ہى وقوع پذيرا ہو(۳)

ہر چند مذكورہ بالا آيات سے مكمل طور پر يہ مفہوم واضح نہيں ہوتا ليكن سورہ ''النجم'' كى چند آيات اور اس واقعہ سے متعلق بہت سى روايات كى مدد سے يہ بات پايہ ثبوت كو پہنچ چكى ہے_

چنانچہ علامہ مجلسى متعلقہ آيات بيان كرنے كے بعد معراج كے بارے ميں لكھتے ہيں:

''رسول خدا (ص) كا بيت المقدس كى جانب عروج كرنا اور وہاں سے ايك ہى رات ميں آسمانوں پر پہنچنا اور وہ بھى اپنے بدن مبارك كے ساتھ ايك ايسا موضوع ہے جس كے وقوع پر آيات اور متواتر شيعہ سنى روايات دلالت كرتى ہيں ، اس حقيقت سے انكار كرنا يا

۱۰۹

اس حقيقت كى روحانى معراج كى تاويل پيش كرنا يا اس واقعے كا خواب ميں رونما ہونے كا عقيدہ ركھنا اس بات كى غمازى كرتا ہے كہ كہنے والے نے پيشوايان دين (ع) كى كتابوں كا دقيق مطالعہ نہيں كيا ہے يا يہ بات اس كے ايمان كى سستى اور اعتقاد ى كمزورى پر مبنى ہے''_(۴)

حضرت ابوطالب(ع) كى وفات كے بعد قريش كا رد عمل

حضرت ابوطالب (ع) كى رحلت كے بعد قريش اورزيادہ بے باك اورگستاخ ہوگئے اور وہ رسول خدا (ص) كوپہلے سے كہيں زيادہ آزار و تكليف پہنچانے لگے دين اسلام كى تبليغ كے حوالے سے انہوں نے آپ (ص) پر سخت پابندياں لگاديں اور اس كا دائرہ بہت ہى محدود كرديا چنانچہ نوبت يہاں تك آپہنچى كہ آپ (ص) حج كے زمانے كے علاوہ اپنے دين كى تبليغ نہيں كرسكتے تھے_

رسول خدا(ص) كا يہ فرمان كہ :جب تك ابوطالب(ع) زندہ رہے قريش مجھے ايسى گزند نہيں پہنچا سكے جو ميرے لئے سخت ناگوار ہوتي_(۵) اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت ابوطالب (ع) كى وفات كے بعد قريش كى جانب سے ايذا رسانى كى وارداتوں ميں اضافہ ہوگيا تھا مگر ان سختيوں اور پابنديوں كے باوجود رسول خدا(ص) حرام مہينوں ميں ، فرصت كو غنيمت سمجھتے اور اس فرصت سے زيادہ سے زيادہ فائدہ اٹھاتے چنانچہ حج كے تين ماہ كے دوران ''عكاظ '' ''مجنّہ'' اور ''ذوالمجاز'' كے بازاروں كے علاوہ ديگر جن مقامات پر بھى لوگ جمع ہوتے رسول خدا (ص) ان كے پاس تشريف لے جاتے وہاں سرداران قبائل نيز سربرآوردہ اشخاص سے ملاقات كرتے اور ہر ايك كو آسمانى دين كى دعوت ديتے_

۱۱۰

ان ملاقاتوں ميں ہر چند رسول خدا (ص) كى مخالفت كى جاتى اور ان كے بعد سرداران قبائل كا رد عمل ظاہر ہوتا ليكن مخالفت اور رد عمل كے باوجود يہ ملاقاتيں نہايت ہى مفيد اور ثمر بخش ثابت ہوئيں كيونكہ مكہ ميں داخل ہونے والے ہر قبيلے كے ہر فرد تك كسى نہ كسى طرح رسول خدا (ص) كى دعوت دين كا پيغام پہنچ جاتا چنانچہ فريضہ حج كى ادائيگى كے بعد جب وہ لوگ واپس اپنے اپنے گھروں كو جاتے تو وہ اس دعوت و ملاقات كو دوران حج كے تازہ ترين اہم واقعے يا خبر كى صورت ميں دوسروںكو بيان كرتے_

قبيلہ بنى عامر بن صعصعہ ان مشہور قبائل ميں سے تھا جس كے افراد كو رسول خدا (ص) نے اسلام كى دعوت دي_

''بيحرة ابن فراس'' كا شمار اس كے قبيلے كے سركردہ اشخاص ميں ہوتا تھا اسے رسول اكرم (ص) كى شہرت اورحالات كے بارے ميں كم وبيش علم تھا اس نے جب يہ بات سنى تو كہنے لگا : ''خدا كى قسم اگر قريش كے اس نوجوان كو ميںحاصل كرلوں تو اس كے ذريعہ سے ميں پورے عرب كو نگل جائوں گا''_(۶)

چنانچہ يہ سوچ كر وہ رسول خدا (ص) كے پاس آيا اور كہنے لگا كہ اگر ہم تمہارے ہاتھ پر بيعت كرليں اور تمہارا خدا ہميں تمہارے مخالفين پر كامياب بھى كردے تو كيا تمہارے انتقال كے بعد تمہارى قوم كى رہبرى و سردارى ہميں حاصل ہوجائے گي؟ اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا : ''يہ خدا كا كام ہے وہ جسے اہل سمجھے گا اسے جانشين مقرر كرے گا''_(۷)

بحيرہ نے جب رسول اللہ(ص) سے يہ جواب سنا تو كہنے لگا كہ ہم تمہارى خاطر عربوں سے جنگ كريں اور جب كامياب ہوجائيں تو قوم كى رہبرى دوسروں كے ہاتھوں ميں چلى جائے ايسى جنگ اورحمايت سے ہم بازآئے_(۸)

۱۱۱

رسول اكرم (ص) كى اس گفتگو كے اہم نكات

۱_عام مشاہدہ ہے كہ سياست دان حصول اقتدار سے قبل عوام كے ساتھ بڑے بڑے وعدے كرتے ہيں ، جنہيں بعد ميں وہ كبھى پورا نہيں كرتے ليكن پيغمبر اكرم (ص) نے سياست دانوںكى روش كے برعكس قبيلہ ''بنى عامر'' كى اس شرط پر كسى قسم كا وعدہ نہيں كيا_

۲_قول پيغمبر (ص) اس حقيقت كا آئينہ دار ہے كہ مسئلہ امامت امر الہى پر منحصر ہے اور خداوند تعالى جسے اس كا اہل سمجھے گا اسے پيغمبر (ص) كا جانشين مقرر كرے گا_

يثرب كے لوگوں كى دين اسلام سے آشنائي

جس وقت بنى ہاشم اور بنى مطلب شعب ابوطالب ميں محصور تھے اس وقت يثرب سے اسعد ابن زرارہ اور ذكوان ابن عبدالقيس قبيلہ خرزج كے نمائندے كى حيثيت سے مكہ ميں اپنے حليف عتبة بن ربيعہ كے پاس آئے اور قبيلہ اوس سے جنگ كے سلسلے ميں اس سے مدد چاہي_

''عتبہ '' نے مدد كرنے سے معذرت كرتے ہوئے كہا كہ مكہ اور مدينہ كے درميان فاصلہ كے طويل ہونے كے علاوہ ہم يہاں ايسى ايك مصيبت ميں گرفتار ہيں كہ جس كى وجہ سے ہم كسى اور كام ميں ہاتھ ڈال ہى نہيں سكتے اس نے ''نبى اكرم (ص) '' اور آپ(ص) كى تبليغى سرگرميوں كے واقعات قبيلہ ''خزرج'' كے نمائندوں كو بتائے اور تاكيد سے كہا كہ وہ آنحضرت (ص) سے ہرگزملاقات نہ كريں كيونكہ وہ ايساجادوگر ہے جو اپنى باتوں سے لوگوں كو مسحور كرليتا ہے اس كے ساتھ ہى اس نے ''اسعد'' كو حكم ديا كہ كعبہ كا طواف كرتے وقت وہ اپنے كانوں ميں

۱۱۲

روئي ٹھونس لے تاكہ پيغمبر (ص) كى آواز اس كے كانوں تك پہنچے_

''اسعد'' طواف كعبہ كے ارادے سے ''مسجد الحرام'' ميں داخل ہوا وہاں اس نے ديكھا كہ پيغمبر اكرم (ص) ''حجر اسماعيل'' ميں تشريف فرماہيں ، اس نے خود سے كہا كہ ميں بھى كيسا نادان ہوں بھلا ايسى خبر مكہ ميں گرم ہو اور ميں اس سے بے خبر رہوں ميں بھى تو سنوں كہ يہ شخص كيا كہتا ہے تاكہ واپس اپنے وطن جاكر لوگوں كو اس كے بارے ميں بتائوں ، رسول خدا(ص) كى باتيں سننے كى خاطر اس نے روئي اپنے كانوں سے نكال دى اور حضور(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا آنحضرت نے اسے دين اسلام قبول كرنے كے دعوت دى جسے اس نے قبول كيا اور ايمان لے آيا اس كے بعد ''ذكوان'' نے بھى دين اسلام قبول كرنے كا شرف حاصل كرليا_(۹)

اہل يثرب ميں يہ پہلے دو افراد تھے جو ايمان لائے اور دين اسلام سے مشرف ہو كر واپس اپنى قوم ميں پہنچے_

دوسرے مرحلے ميں يثرب والوں سے قبيلہ '' خرزج'' سے تعلق ركھنے والے چھ افراد بعثت كے گيارہویں سال ميں دوران حج پيغمبر اكرم (ص) كى ملاقات سے مشرف ہوئے(۱۰)

رسول خدا(ص) نے انہيں دين اسلام كى دعوت دى اور قرآن مجيد كى چند آيتوں كى تلاوت فرمائي، وہ رسول خدا(ص) كى ملاقات كا شرف حاصل كركے اور آپ (ص) كى زبان مبارك سے بيان حق سن كر ايك دوسرے سے كہنے لگے :'' خدا كى قسم يہ وہى پيغمبر (ص) ہے جس كے ظہوركى خبر دے كر يہودى ہميں ڈرايا كرتے تھے آؤ پہلے ہم ہى دين اسلام قبول كر ليں تاكہ ايسا نہ ہو كہ اس كار خير ميں وہ ہم پر سبقت لے جائيں ''يہ كہہ كر ان سب نے دين اسلام اختيار كرليا جب وہ واپس يثرب گئے تو انہوں نے اپنے عزيز واقارب كو بتايا كہ انہوں نے كيسے رسول

۱۱۳

خدا (ص) سے ملاقات كا شرف حاصل كيا اور انہيں بھى دين اسلام قبول كرنے كى دعوت دي_

انكى سرگرميوں كى وجہ سے رسول خدا (ص) اور اسلام كا چرچا اہل يثرب ميں ہونے لگا اور كوئي گھر ايسا نہ تھا جہاں رسول خدا (ص) اور دين اسلام كا تذكرہ نہ ہو_

پہلى بيعت عقبہ

تيسرے مرحلے ميں اہل يثرب كے بارہ اشخاص جن ميں سے دس كا تعلق قبيلہ ''خزرج'' سے تھا اور دو كا قبيلہ ''اوس'' سے تھا، بعثت كے بارھويں سال ميں ''عقبہ منا(۱۱) '' ميں رسول خدا (ص) كى ملاقات سے شرف ياب ہوئے ان بارہ اشخاص ميں سے جابر ابن عبداللہ كے علاوہ پانچ افراد وہى تھے جو ايك سال قبل بھى رسول اكرم (ص) كى خدمت ميں حاضر ہونے كا شرف حاصل كرچكے تھے_

ان اشخاص نے دين اسلام قبول كرنے كے بعد پيغمبر اكرم (ص) كے دست مبارك پر ''بيعت نسائ''(۱۲) كے طريقے پر بيعت كى اور عہد كيا كہ خدا كے ساتھ كسى كو شريك نہ ٹھہرائيں گے ، چورى سے باز رہيں گے، زنا كے مرتكب نہ ہوں گے، اپنى اولاد كو قتل نہيں كريں گے، ايك دوسرے پرجھوٹے الزام اوربہتان نہ لگائيں گے نيز كار خير ميں رسول اللہ (ص) كا ہر حكم بجالائيں گے_

رسول خدا (ص) نے معصب ابن عمير كو ان كے ہمراہ يثرب كے طرف روانہ كيا تاكہ وہاں پہنچ كر وہ دين اسلام كى تبليغ كريں اور لوگوں كو قرآن مجيد كى تعليم ديں اس كے ساتھ ہى وہ آنحضرت (ص) كو شہر كى حالت كے بارے ميں اطلاع ديں نيز يہ بتائيں كہ وہاں كے لوگ دين اسلام كا كس طرح استقبال كر رہے ہيں _''مصعب '' وہ پہلے مسلمان مہاجر تھے جو

۱۱۴

يثرب پہنچے اور روزانہ با جماعت نماز كا انہوں نے وہاں انتظام كيا _(۱۳)

دوسرى بيعت عقبہ

يثرب ميں رسول خدا (ص) كے نمائندے كى موجودگى نيزخزرجى اور اوسى قبائل كے افراد كى بے دريغ حمايت اس امر كا باعث ہوئي كہ ان قبائل كے بہت سے لوگ دين اسلام كے شيدائي اور مجذوب ہوگئے_

چنانچہ اسى وجہ سے چوتھے مرحلے اور بعثت كے بارہويں سال ميں تقريباً پانچ سو عورتوں اور مردوں نے خود كو حج كے لئے آمادہ كيا ان ميں تہتر افراد مسلمان اور دو مسلم خواتين شامل تھيں_

قبل اس كے كہ اہل يثرب سفر پر روانہ ہوں ''معصب'' مكہ كى جانب روانہ ہوئے اور اپنے سفر كى پورى كيفيت پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں پيش كي_

يثرب كے مسلمانوں نے مناسك حج (حج كے مخصوص اعمال) انجام دينے كے بعد بارہ ذى الحجہ بوقت نصف شب عقبہ منا ميں رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہونیکا شرف حاصل كيا _

رسول خدا (ص) نے اس مرتبہ ملاقات كے دوران قرآن مجيد كى چند آيات حاضرين كے سامنے تلاوت فرمائيں اور انہيں دين اسلام قبول كرنے كى دعوت دى اس ضمن ميں آنحضرت (ص) نے حاضرين سے فرمايا: '' ميں تم سے اس بات پر بيعت كرتا ہوں كہ جس طرح تم اپنے بيوى بچوں كى حفاظت كرتے ہو ميرى بھى حمايت كروگے ''_ انہوںنے آنحضرت (ص) كى بات سے اتفاق كيا اور يہ عہد كيا كہ وہ آپ (ص) كى حمايت كريں گے آخر ميں رسول خدا (ص) كے

۱۱۵

حكم سے ان ميں سے بارہ افراد''نقيب''(۱۴) مقرر كئے گئے تاكہ وہ لوگ اپنى قوم كے حالات كى نگرانى كرسكيں_

''خزرج'' اور ''اوس'' جيسے طاقتور قبائل كے ساتھ عہدو پيمان استوار كرنے نيز دين اسلام كے لئے جديد مركز قائم ہوجانے كے باعث اب رسول اكرم (ص) اور مسلمانوں كيلئے نئي سازگار صورت حال پيدا ہوگئي تھي_

اس عہد وپيمان كے بعد پيغمبر اكرم (ص) كى جانب سے مسلمانوں كو اجازت دے دى گئي كہ وہ چاہيں تو يثرب كو ہجرت كرسكتے ہيں ، اس ضمن ميں آپ (ص) نے فرمايا :'' خداوند تعالى نے تمہارے لئے ايسے بھائي اور گھر پيدا كرديئےيں جن كى مدد سے تم وہاں امن وامان سے رہوگے_

رسول خدا (ص) كى اجازت ملنے كے بعد مسلمان گروہ در گروہ يثرب كا سفر اختيار كرنے لگے اور اب پيغمبر اكرم (ص) خود بھى حكم خداوندى كے منتظر تھے_(۱۵)

اہل يثرب كے اسلام لانے كے اسباب

يثرب كے لوگ دين اسلام قبول كرنے ميں كيوں پيش پيش رہے اس كى كچھ وجوہات تھيں جو ذيل ميں درج كى جاتى ہيں_

۱_وہ لوگ چونكہ يہوديوں كے نزديك زندگى بسر كر رہے تھے اس لئے پيغمبر اكرم (ص) كے ظہور پذير ہونے كى خبريں اور آنحضرت (ص) كى خصوصيات ان كى زبان سے اكثر سنتے رہتے تھے_ حتى كہ جب كبھى ان كے اور يہوديوں كے درميان كوئي تصادم ہوجاتا تو يہودى ان سے كہا كرتے تھے كہ :

۱۱۶

جلد ہى اس علاقے ميں پيغمبر (ص) كا ظہور ہوگاہم اس كى پيروى كريں گے اور تمہيںقوم ''عاد'' اور ''ارم'' كى طرح تباہ و برباد كر كے ركھ ديں گے_(۱۶)

۲_قبيلہ ''اوس'' اور ''خزرج'' كے درميان سالہا سال سے خانہ جنگى اور قتل و غارت كا سلسلہ چلا آرہا تھا ، اہل يثرب اس داخلى جنگ سے تنگ آچكے تھے دونوں قبائل كے بزرگ اس فكر ميں تھے كہ كوئي ايسى راہ نكل آئے جس كے ذريعے اس مصيبت بھرى صورتحال سے نجات ملے ، رسول خد ا(ص) كى بعثت ان كيلئے درحقيقت اميد بخش خوشخبرى تھى چنانچہ يہى وجہ تھى كہ انہوں نے رسول خدا (ص) سے پہلى ملاقات ميں عرض كيا :

''ہم اپنے قبائل كے افراد كو جنگ ونزاع ميں چھوڑ كر آپ (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے ہيں اميد ہے كہ خداوند تعالى آپ (ص) كے ذريعے ان ميں صلح كرادے اور وہ ايك دوسرے كے ساتھ مل كر زندگى گزاريں_اگر ايسا ہوجائے تو ہمارے نزديك آپ (ص) سے بڑھ كر كوئي شخص عزيز تر نہ ہوگا _(۱۷)

۳_ حقيقت كى جستجو كرنے والوں كى رسول خدا (ص) كى خدمت ميں بار بار حاضري:

اہل يثرب كى زمانہ حج ميں آنحضرت (ص) سے بار بار اور مسلسل ملاقاتيں ' كلام اللہ كى تاثير' پيغمبر (ص) كى معنوى كشش اور ان ملاقاتوں كے دوران آسمانى دين كے بارے ميں آپ (ص) كى سودمند و پر مغز گفتگو اس امر كا باعث ہوئي كہ قبائل ''اوس'' اور ''خزرج'' كے افراد جانب حق كشاں كشاں چلے آئے اور دين اسلام كو انہوں نے خوشى خوشى قبول كرليا_

پيغمبر اكرم (ص) كو قتل كرنے كى سازش

جب مسلمانوں كى غالب اكثريت ''يثرب'' منتقل ہوگئي اور وہ شہر دين اسلام كا جديد

۱۱۷

مركزبن گيا تو قريش كے سردار جو اس وقت تك اس گمان ميں مبتلا تھے كہ رسول خدا (ص) اور اصحاب رسول (ص) ہميشہ ان كى مٹھى ميں رہيں گے اور ايذا وآزار پہنچا كر انہيں كسى بھى وقت فنا كياجاسكتا ہے يہ كيفيت ديكھ كر سخت مضطرب اور پريشان ہوئے، رسول خدا (ص) كے ساتھ اہل يثرب كے دفاعى عہد وپيمان نے بھى ان كے لئے خطرہ كى اہميت اور شدت كو واضح كرديا تھا چنانچہ اب وہ اس كى سنگينى كے بارے ميں سوچنے لگے كيونكہ اب انہيں يہ خوف لاحق تھا كہ كہيں رسول خدا (ص) ان لوگوں كى مدد سے جو آپ (ص) كے ساتھ عہد وپيمان ميں شريك ہيں ان سے انتقام لينے پر كمر بستہ نہ ہوجائيں يا كم از كم''يثرب'' كے علاقے پر غالب آنے كے بعد مسلمان ان كى تجارتى اور معاشى زندگى كو تو تباہ كرہى سكتے ہيں_

ان حالات كے پيش نظر قريش كے سردار ''دارالندوہ ''(۱۸) ميں جمع ہوئے_ طويل بحث وگفتگو اور تبادلہ خيال كے بعد انہوں نے اس رائے سے اتفاق كيا كہ ہر قبيلے سے ايك دلير جوان منتخب كياجائے اور وہ سب مل كر راتوں رات رسول اكرم (ص) كے گھر كا محاصرہ كرليں اور آنحضرت (ص) پر حملہ آور ہوكر آپ (ص) كو قتل كرڈاليں ايسى صورت ميں آپ (ص) كا خون تمام قبائل ميں تقسيم ہوجائے گا اور حضرت عبدمناف كا خاندان قريش كى پورى طاقت كا مقابلہ نہيں كرسكے گا اور اگر انہوں نے خون بہا كا مطالبہ كيا تو سب مل كر اسے ادا كرديںگے_

رسول اكرم (ص) كو وحى كے ذريعے ان كى سازش كے بارے ميں علم ہوگيا تھا چنانچہ آنحضرت (ص) كو حكم ديا گيا كہ ہجرت كر كے يثرب تشريف لے جائيں _قريش نے اپنى پورى طاقت كے ساتھ يكم ربيع الاول كى شب بعثت كے چودھويں سال آپ (ص) كے گھر كا محاصرہ

۱۱۸

كرليا، رسول اكرم (ص) نے حضرت على (ع) سے فرمايا كہ تم ميرے بستر پر آرام كرو اور چادر اپنے سر مبارك پر ڈال لو تاكہ دشمن كو يہ علم نہ ہوسكے كہ آپ (ص) گھر سے تشريف لے جارہے ہيں اس كے بعد آپ (ص) نے مٹھى بھر خاك دست مبارك ميں اٹھائي اور محاصرہ كرنے والوں كے سروں پر پھينك دى اور سورہ يسين كى پہلى نوآيتوںكى تلاوت فرمائي اور گھر سے باہر اس طرح تشريف لے آئے كہ كسى كو آپ(ص) كے وہاں سے جانے كاعلم نہ ہوسكا _

رسول خدا(ص) نے گھر سے باہر تشريف لانے كے بعد شمال كى جانب رخ نہيں فرمايا كيونكہ اس طرف سے ''يثرب '' كا راستہ گزرتا تھا بلكہ اس كے برعكس آپ(ص) نے جنوب مكہ كى راہ اختيار فرمائي اور ابوبكركو لے كر '' غارثور '' ميں تشريف لے گئے_

جب قريش كو يہ علم ہوا كہ رسول خدا(ص) گھر سے باہر تشريف لے گئے ہيں تو وہ شہر مكہ اور'' يثرب'' كى طرف جانے والے تمام راستوں كى نگرانى كرنے لگے _يہى نہيں بلكہ انہوں نے ماہر كھوجيوں كى خدمات بھى حاصل كيں اور يہ اعلان كيا كہ جو شخص بھى آپ(ص) كو گرفتار كر كے لائے گا اسے سو اونٹ بطور انعام ديئے جائيں گے ليكن انہوں نے جس قدر جستجو كى اپنے مقصد ميں كامياب نہ ہوئے چنانچہ تين دن كے بعد تھك ہار كر بيٹھے رہے

رسول اكرم(ص) جتنے عرصے غار '' ثور '' ميں تشريف فرما رہے حضرت على (ع) پيغمبرخدا(ص) اور حضرت ابوبكر كے لئے كھانا پہنچاتے رہے اس كے ساتھ ہى آپ(ع) مكہ كے حالات و واقعات سے بھى آنحضرت(ص) كو مطلع فرماتے رہے(۱۹)

چوتھى رات ميں رسول خدا(ص) حضرت على عليہ السلام كو كچھ خاص ہدايات دے كر انجان راستہ سے يثرب كى طرف روانہ ہوئے _( ۲۰ )

۱۱۹

ہجرت ، انقلاب كى ضرورت

ايمان و جہاد كے ساتھ ساتھ قرآن مجيد ميں جن اہم اور تعميرى اصول و قواعد كا ذكر كيا گيا ہے ان ميں سے ايك ''ہجرت ''بھى ہے(۲۱) _

ہجرت كے معنى ان قيود و بندشوں سے نجات اور رہائي حاصل كر لينا ہے جو انسان كے وجود يا اس كى زندگى كے اطراف ميں موجود ہوتے ہيں ہوا و ہوس اورباطنى آلودگيوں سے دل و دماغ كو پاك كر لينا اور ان سے فراغت پالينا ہى انسان كى ہجرت كا عالى ترين مرحلہ ہے :چنانچہ اس بارے میں رسول خدا(ص) نے فرمايا :

(اَشرَفُ الهجرَة اَن تُهجُرَ السَّيئَات )( ۲۲)

چنانچہ يہى وجہ ہے كہ خداوند تعالى كى جانب سے مقرر كر دہ انبياء ، اولياء اور مصلحين انسانيت نے درجہ كمال پر پہنچنے اور اپنى مقدس آرزؤں كو عملى شكل میں ديكھنے كے لئے '' ہجرت'' كى تحريك كا آغاز ہر گناہ و آلائشے سے اجتناب كے ساتھ كيا _ بعثت كے ابتدائي دنوں ميں نازل نے والى آيتوں میں قرآن مجيد كا ارشاد ہے( ۲۳) كہ :

( يَاأَيُّهَا المُدَّثّرُ (۱) قُم فَأَنذر (۲) وَرَبَّكَ فَكَبّر (۳) وَثيَابَكَ فَطَهّر (۴) وَالرُّجزَ فَاهجُر ) _(۲۴)

''اے اوڑھ لپيٹ كر ليٹنے والے ، اٹھواور ڈرائو اور اپنے كپڑے پاك ركھو اور گندگى سے دور رہو''_

اگلے مرحلے ميں ''آفاقى ہجرت'' كى ہدايت دى گئي ہے يعنى اس مردہ معاشرے سے ہجرت جس ميں كفر كے باعث جمود طارى ہوگيا ہے يہ ہجرت اس ماحول كى جانب ہے جو زندہ وآزاد ہے اور اس كا مقصد عقائد كا تحفظ نيز انقلاب كے اغراض و مقاصد كو حقيقت كى شكل ميں پيش كرنا ہے_

۱۲۰

اس مرحلے پر ہجرت كا مفہوم دشمن يا ميدان جنگ سے فرار نہيں بلكہ يہ وہ مقام ہے جہاں سے انقلاب كے نئے مرحلے كا آغاز ہوتاہے اگر حضرت ابراہيم (ع) ، حضرت موسى (ع) اور حضرت عيسى (ع) نے معاشرے كے اس ماحول سے ہجرت كى جہاں كفر و شرك كادور دورہ تھا تو اس كا مطلب ہرگز يہ نہيں تھا كہ يہ انبياء عليہم السلام اپنى جدو جہد سے دست بردار ہو گئے تھے اور انہيں اپنى جان ومال كى فكر لاحق ہوگئي تھى بلكہ اس كا مطلب يہ ہے كہ جب انہيں اپنے وطن ميں تبليغ اور سرگرمى كے مواقع نظر نہ آئے تو انہوں نے فيصلہ كيا كہ يہاں سے ہجرت كركے مناسب اور آزاد ماحول ميں پہنچيں اورمزيد طاقت و توانائي اوروسائل كے ساتھ اپنى جدو جہد كو جارى ركھيں_

رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے جب يہ ديكھا كہ آپ (ص) كى ہر اصلاح پسندانہ سعى و كوشش مكہ كے مايوس كن اور گھٹے ہوئے ماحول ميں لاحاصل اور بے نتيجہ ہے نيز دوسرى طرف سے ان حالات كامقابلہ كرنے كى تاب اور طاقت بھى نہيں تو آپ (ص) نے مجبورى كى حالت ميں اپنے انقلاب كے تحفظ اور اسے جارى ركھنے كى خاطر ہجرت كو ترجيح دى تاكہ اپنى تحريك كى كتاب كا نيا باب شروع كرسكيں اور دين مبين اسلام كو محدود علاقائي ماحول سے نكال كراس كى دعوت آزاد اور عالمى فضاء كے ماحول ميں پيش كريں_

عالمى اسلامى تحريك كا يہ نيا عظيم باب اس قدر اہم اورتاريخ ساز تھا كہ اسے تاريخ اسلام كا مبداء و آغاز قرار ديا گيا چنانچہ پيغمبر اكرم (ص) كے دين كو جو اس وقت تك واقعہ ''عام الفيل'' سے وابستہ تھا اور اب اس سے رہائي اور نجات مل گئي تھى اور وہ تاريخ كے لحاظ سے بھى مستقل ہوگيا تھا_

۱۲۱

سوالات

۱_ آيت مباركہ( سُبحَانَ الَّذى أَسرَى بعَبده لَيلًا من المَسجد الحَرَام إلَى المَسجد الأَقصَى الَّذى بَارَكنَا حَولَهُ لنُريَهُ من آيَاتنَا ) _كس حد تك مسئلہ معراج پر دلالت كرتى ہے اور اس سے كون كون سے نكات اخذ كئے گئے ہيں ؟

۲_حضرت ابوطالب (ع) كى وفات كے بعد قريش نے رسول خدا (ص) كے ساتھ كيا رويہ اختيا ر كيا؟

۳_ قبيلہ بنى عامر كو رسول(ص) خدا كے واقعہ دعوت اسلام كا مختصر حال بيان كيجئے؟

۴_وہ پہلے دو شخص كون تھے جو يثرب كے رہنے والے تھے اور ان كى رسول خدا (ص) سے پہلى ملاقات كس طرح ہوئي ؟ بيان كيجئے_

۵_ بعثت كے بارھويں سال اہل يثرب كے كتنے افراد رسول خدا (ص) كى ملاقات سے شرفياب ہوئے نيز ان كے اور رسول خدا (ص) كے درميان كيا معاہدہ ہوا؟

۶_ دوسرے تمام علاقوں سے قبل يثرب كے لوگوں نے كس وجہ سے دين اسلام قبول كيا؟

۷_مشركين قريش نے رسول خدا (ص) كو قتل كرنے كيلئے كيا سازش تيار كى تھى اور وہ كس طرح اپنے مقصد ميںناكام ہوئے؟ وضاحت كيجئے_

۱۲۲

حوالہ جات

۱_مزيد معلومات كيلئے ملاحظہ ہو الصحيح من سيرة النبي(ص) ج ۱ ص ۲۶۹ _۲۷۰_

۲_بنى اسرائيل آيت ۱_

۳_تاريخ پيغمبر (ص) تاليف آيتى مرحوم ص ۱۵۹_

۴_بحارالانوار ج ۱۸ ص ۲۸۹_

۵_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۵۸_

۶_لَواَنّيْ اَخَذتُ هذَا الفَتى من قُرَيش: لَاَ كَلْتُ به العَرَبَ يہ اس بات سے كنايہ ہے كہ ميں اس وسيلے سے دنيوى مال ومتاع حاصل كرلوں گا_

۷_اَلاَمْرُ الَى اللّه يَضَعُهُ حَيثُ يَشَائُ _

۸_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۶۶_

۹_الصحيح من سيرة النبى (ص) ج ۲ ص ۱۹۰_۱۹۱_

۱۰_ان چھ افراد كے نام يہ ہيں : اسعدبن زرارہ_ جابر بن عبداللہ_ عوف بن حارث_ رافع بن مالك _ قطبہ بن عامر اور عقبہ بن عامر_

۱۱_عقبہ كے لفظى معنى تنگ درہ كے ہيں يہ مكہ اور منى كے درميان واقع ہے_

۱۲_اس بيعت كو اس وجہ سے ''بيعت النسائ'' كہاجاتا ہے كہ اس ميںجنگ و جدال كو دخل نہ تھا اور كوئي عسكرى معاہدہ بھى نہيں كيا گيا تھا_ قرآن نے سورہ ''ممتحنہ'' كى آيت ۱۲ ميں پيغمبر اكرم (ص) كے ساتھ عورتوں كى بيعت كو بھى انہى شرائط كے ساتھ بيان كياہے _

۱۳_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۷۳_۷۷_

۱۴_نقيب كے معنى سردار و سرپرست قوم يا قبيلہ ہيں_

۱۵_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۱۱_

۱۶_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۷۰_

۱۷_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۷۱_

۱۲۳

۱۸_دارالندوة در حقيقت قريش كى مشاورتى كو نسل تھى يہ جگہ رسول اكرم (ص) كے چوتھے جد حضرت قصى ابن كلاب نے قائم كى تھي_ اسلامى دور ميں معاويہ نے اسے حكيم ابن حزام سے خريد ليا اور اسے ''دارالامارة'' (ايوان صدرات )قرار ديا اس كے بعد اسے مسجد الحرام ميں شامل كرليا گيا (معجم البلدان ج ۲ ص ۴۲۳)_

۱۹_الاحتجاج تاليف مرحوم طبرسى ج ۱ ص ۱۴۱_

۲۰_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۲۴_۱۳۶_

۲۱_مثال كے طور پر سورہ توبہ كى آيت ۲۰ ميں اللہ نے فرمايا ہے كہ( الَّذينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فى سَبيل الله بأَموَالهم وَأَنفُسهم أَعظَمُ دَرَجَةً عندَ الله ) _ اللہ كے يہاں تو انہى لوگوں كا درجہ بڑا ہے جو ايمان لائے اور جنہوں نے اس كى راہ ميں گھر بار چھوڑ ديا اور جان و مال سے جہاد كيا _

۲۲_كنزالعمال ج ۱ ص ۳۷ حديث ۶۵_

۲۳_بعض محققين كى يہ رائے ہے كہ سورہ مدثر وہ سورہ ہے جو سب سے پہلے رسول اكرم (ص) پر نازل ہواليكن دوسرے لوگوں كا يہ نظريہ ہے كہ جب عام دعوت اسلام كے لئے خداوند تعالى كى جانب سے حكم ہوا تو اس كے بعد يہ پہلى سورت تھى جو نازل ہوئي (الميزان) ج ۲۰ ، ص ۷۹ _

۲۴_سورہ مدثر آيات ۱_ ۵_

۱۲۴

سبق ۸:

مدينہ ہجرت كرنے كے بعدرسول خدا(ص) كے اقدام

۱۲۵

قبا ميں رسول خدا (ص) كى تشريف آوري

رسول خدا (ص) نو دن تك سفر كرنے كے بعد بتاريخ ۱۲ ربيع الاول بروز پير ''قبا''(۱) ميں تشريف فرما ہوئے، جہاں لوگوں نے آپ (ص) كا نہايت ہى گرم جوشى سے استقبال كيا كيونكہ انہوںنے كافى عرصے قبل يہ خبر سنى تھى كہ آنحضرت(ص) مكہ سے يثرب تشريف لانے والے ہيں اسى لئے وہ لوگ بے صبرى سے آپ (ص) كى تشريف آورى كا انتظار كر رہے تھے_

پيغمبر اكرم (ص) ''كلثوم بن ہدم'' كے گھر پر قيام فرما ہوئے اور ''سعد ابن خثيمہ'' كى قيام گاہ كو اس بنا پر كہ وہ مجرد آدمى تھے عام لوگوں سے ملاقات كےلئے پسند كيا _(۲)

رسول خدا (ص) مكہ سے ہجرت فرما كر يثرب تشريف لے گئے تو حضرت على (ع) تين روز تك مكہ ميں قيام پذير رہے اور پيغمبر (ص) نے جو ہدايت فرمائي تھى انہيںانجام ديتے رہے اس كے بعد اپنى والدہ محترمہ حضرت فاطمہ بنت اسد عليہا السلام ،فاطمہ بنت زبير ،حضرت فاطمہ زہرا عليہا السلام اور ديگر اصحاب كے ہمراہ مكہ سے مدينے كى جانب روانہ ہوئے اور آج كے حساب سے گويا تقريبا چار سو كيلوميٹر طويل راستہ پيدل طے كيا چنانچہ بروز جمعرات ربيع الاول كے نصف ميں، قبا ميں پيغمبر (ص) كى ملاقات سے مشرف ہوئے(۳) ، رسول خدا (ص) نے قبا ميں قيام كے دوران بنى عمر ابن عوف قبيلے كى عبادت كيلئے ايك مسجد كى بنياد ركھى(۴) ، يہ مسجد آج بھى مسجد قبا كے نام سے مشہور ہے اور يہى وہ پہلى مسجد ہے جسے مسلمانوں نے تعمير كى _

۱۲۶

مدينے ميں تشريف آوري

رسول اكرم صلى اللہ وآلہ و سلم، حضرت على عليہ السلام اپنى دختر عزيز حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا اورديگر اصحاب كے ہمراہ بروز جمعہ قبا سے مدينہ كےلئے روانہ ہوئے ، آنحضرت (ص) نے پہلى بار نماز جمعہ راستے ميں قبيلہ ''بنى سالم بن عوف'' كے درميان ادا كى آپ (ص) نے خطبات ميں مسئلہ توحيد، لوگوں كى ہدايت كےلئے پيغمبروں كى آمد ، قرآن مجيد كى اہميت نيز افراد كى تعمير ميں اس كتاب مقدس كے كردار اور مسئلہ موت اور معاد كو بيان فرمايا آپ (ص) نے لوگوں كو يہ ہدايت فرمائي كہ تقوى اور پاكيزگى پر كاربند رہيں ، جو زبان سے كہيں اس پر عمل كريں اور راہ حق كے اپنے ساتھيوں كے ساتھ محبت اور خندہ روئي كے ساتھ پيش آئيں _(۵)

نماز ادا كرنے كے بعد آنحضرت (ص) ناقے پر سوار ہوئے اگرچہ راستے ميں كتنے ہى قبيلے ايسے آئے جنہوں نے بہت اصرار كيا كہ آپ (ص) ان كے درميان قيام فرما ہوں مگر آنحضرت (ص) نے مدينے كى جانب اپنا سفر جارى ركھا_

اس روز يثرب كى رونق ہى كچھ اور تھى انصار نوجوانوں نے فضا كو بتوں كى كثافت آلود ماحول سے پاك و صاف كرنے كيلئے جان ودل كى بازى لگادى راہ ميں ہر طرف نعرہ تكبر كى گونج تھى مرد عورتيں اور بچے آپ (ص) كا ديدار كرنے كيلئے مشتاق و بے قرار تھے ہر شخص كى كوشش تھى كہ آنحضرت (ص) كا ديدار كرنے ميں دوسروں پر سبقت لے جائے ، خوشيوں كے ترانے ان كى زبان پر جارى تھے اور سب مل كر پڑھ رہے تھے:

طَلَعَ البَدْرُ عَلَينَا

من ثَنيَّات الودَاع

وَجَبَ الشُّكرُ عَلَينَا

مَادَعَاللّه دَاع:

ايُّهَا المَبعُوثُ فينَا

جئتَ بالاَمر المُطَاع(۶)

۱۲۷

(ماہ كامل ثنيات، الوداع(۷) سے ہم پر طلوع ہوا ہے ، ہم پر شكر خدا اس وقت تك واجب ہے جب تك خدا كو پكارنے والا پكارتا رہے گا آپ (ص) وہ شخص ہيں جو ہمارے لئے ايسا فرمان لے كے آئے ہيں جس كى اطاعت كرنا ہمارے اوپر واجب ہے)_

بالآخر ناقہ رسول (ص) اس زمين پرركى جو دو يتيموں كى ملكيت تھي، رسول خدا (ص) نے اس سے اتر كر زمين پر قدم رنجہ فرمايا اس كے بعد آپ (ص) ''ابوايوب انصاري'' كے گھر تشريف لے گئے اور وہيںقيام فرمايا _(۸)

جب رسول خدا (ص) ہجرت فرما كر يثرب تشريف لے آئے تو اس شہر كا نام بدل كر مدينة الرسول(ص) ركھ ديا گيا _

الف: _مسجد كى تعمير

مورخين نے لكھا ہے كہ آنحضرت (ص) جب ہجرت كركے مدينہ تشريف لے گئے تو آپ (ص) نے سب سے پہلے جو اقدام يہاں فرمايا وہ مسجد كى تعمير تھى اسى ضمن ميں انہوں نے اس بات كا بھى ذكر كيا ہے :كہ يہ مسجد اس جگہ تعمير كى گئي جہاں آپ (ص) كى ناقہ زمين پر بيٹھى تھى اور اس كى زمين مبلغ دس دينا ر كے عوض دو يتيم بچوں سے خريدى گئي(۹) _

تمام مسلمانوں نے پورے ذوق و شوق اور خاص اہتمام سے اس مسجد كے بنانے كى كوشش كى ، اس كے ساتھ ہى پيغمبر اكرم (ص) كى جدو جہد نے اس جوش و خروش ميں كئي گنا اضافہ كرديا يہ ذوق وشوق حضرت عمار جيسے بعض لوگوں ميں زيادہ نماياں اور جلوہ گر تھا(۱۰) _

۱۲۸

مسلمانوں كى انتھك كوشش اور لگن سے يہ مسجد بن كر تيار ہوگئي ، اس كى ديواريں مٹى اور پتھروں سے بنائي گئي تھيں ستونوں كےلئے كھجور كے تنے استعمال كئے گئے تھے چھت بھى كھجو ر كے تختوں اوراس كى شاخوںسے پاٹى گئي تھى(۱۱) ، مسجد كے ايك كونے ميں كمرہ نما ايك جگہ مخصوص كى گئي تھى تاكہ وہ نادار اصحاب رسول (ص) جن كے پاس سر چھپانے كيلئے كوئي جگہ نہ تھى يہاں قيام پذير ہوں(۱۲) يہى وہ لوگ تھے جنہيںبعد ميں ''اصحاب صُفّہ'' كہا گيا _(۱۳)

اس مسجد كے بن جانے كے بعد مسلمانوں كو مركزيت حاصل ہوگئي چنانچہ عام مسلمان جن ميں صاحب خانہ اور بے گھر سب ہى شامل تھے بلا روك ٹوك يہاں جمع ہوتے اور عبادت ونماز باجماعت ادا كرنے كے علاوہ مسلمانوں كے اہم مسائل سے متعلق تبادلہ خےالات ميں حصہ ليتے اس كے ساتھ ہى رسول خدا (ص) سے يا ان اصحاب ميں سے جنہيں آنحضرت (ص) مقرر فرماتے احكام دين اور ديگر مسائل كى تعليم حاصل كرتے_

جب مسجد كى تعمير مكمل ہوگئي تو اس كے اطراف ميں رسول خد ا(ص) اور اصحاب كيلئے اس طرح مكانات بنائے گئے كہ ہر گھر كا ايك دروازہ مسجد كى جانب كھلتا تھا_

كچھ عرصے كے بعد خداوند تعالى كى طرف سے حكم ہوا كہ رسول خدا (ص) اور حضرت على (ع) كے گھروں كے علاوہ جن لوگوں كے گھروں كے دروازے مسجد كى جانب كھلتے ہيں بند كرديئے جائيں ، رسول خدا (ص) نے جب يہ حكم خداوندى لوگوں تك پہنچايا تو بعض اصحاب كو يہ بات بہت گراں گزرى اور ا نہيں يہ گمان ہونے لگا كہ يہ فرق و امتياز خود رسول خدا (ص) كا اپنا پيدا كردہ ہے اوريہ كام جذباتى پہلو ركھتا ہے ليكن رسول خدا (ص) نے انہيںجواب ديتے ہوئے فرمايا : ''يہ فرمان ميں نے اپنى طرف سے نہيں ديا ہے بلكہ يہ حكم خداوندى ہے''_(۱۴)

رسول خدا (ص) نے يہ قطعى موقف اس وقت اختيار كيا جبكہ مسلمان بالخصوص مہاجرين خاص

۱۲۹

حساسيت اور نازك صورت حال سے دوچار تھے اور انہيں پيغمبر (ص) سے يہ توقع تھى كہ ان كى دلجوئي كريں گے اور ان پر مزيد لطف وعنايت فرمائيں گے ان كيلئے يہ بھى بہت بڑى سعادت تھى كہ ان كے گھروں كے دروازے مسجد كى جانب كھلتے ہيں اس ميں شك نہيں كہ رسول خدا (ص) كو صحابہ كرام سے تعلق خاطر تھا مگر يہ واقعہ اس حقيقت كا آئينہ دار تھا كہ رسول خدا (ص) كا تعلق خاطر اور جذبہ لطف وعنايت، حكم الہى كو ان تك پہنچانے ميں مانع نہيں ہوا تھا اور كوئي چيز آنحضرت (ص) كو فرمان حق صادر كرنے سے نہيں روك سكتى تھى _

ب:_ رشتہ اخوت و برادري

اس ميں شك نہيں كہ پيغمبر خدا (ص) نے مكہ ميں مسلمانو ں كے درميان رشتہ اخوت و برادرى بر قرار فرماياتھا_(۱۵) ليكن ہجرت كركے ان مسلمانوں كا مكہ سے مدينہ چلے آنا اور نئے اقتصادى و اجتماعى مسائل وحالات كا پيدا ہونا يہ سب اس امر كا باعث ہوئے كہ مہاجر وانصار مسلمانوں كے درميان نئے سرے سے رشتہ اخوت و برادرى برقرار ہو چنانچہ يہى وجہ تھى كہ آپ (ص) نے مسلمانوں كو جمع كيا اور ان سے فرمايا :

(تَاَخَّوا فى اللّه اَخَوَين اَخَوَين)

''راہ خدا ميں تم دو دو مل كر بھائي بن جائو''_(۱۶)

رسول خد ا(ص) نے اپنے اس دانشمندانہ اقدام سے ان مہاجرين كے مسائل زندگى كو حل كرديا جو اپنے مقدس اہداف اور ايمان كى حفاظت كے لئے اپنى ہر چيز مكہ ميں چھوڑ كر مدينہ چلے آئے تھے اگرچہ مہاجرين اور انصار دو مختلف ماحول كے پروردہ تھے اور ان كے طرز فكر و معاشرت ميں بھى نماياں فرق تھا ليكن آپ (ص) نے انہيں اپنى دانشمندى سے نہ صرف يك جان و دو قالب كرديا بلكہ دونوں كے حقوق اور مراعات كو بھى مقرر اور مرتب فرمايا_

۱۳۰

رسول خدا (ص) نے مہاجرين اور انصار كے درميان رشتہ اخوت اور برادرى برقرار كرنے كے بعد حضرت على (ع) كے دست مبارك كو اپنے دست مبارك ميں لے كر فرمايا :''هذَا اَخي'' _ ''يہ ميرا بھائي ہے ''_(۱۷)

ج :_ يہوديوں كے ساتھ عہدو پيمان

رسول اكرم (ص) كے ہجرت كرنے سے قبل مقامى مشركين كے علاوہ يہوديوں كے '' بنى قينقاع'' ، ''بنى نضير'' اور ''بنى قريظہ'' نامى تين قبيلے مدينے ميں آباد تھے اور انہى كے ہاتھوں ميں اس شہر كى صنعت و تجارت تھي_

اگر چہ رسول خدا (ص) نے مہاجرين اور انصار كے درميان رشتہ اخوت و برادرى برقرار كركے اپنى طاقت كو متحد كرنے كيلئے بہت ہى اہم اقدام كيا مگر آپ (ص) كے سامنے ايك اور دشوارداخلى مرحلہ تھا اور وہ تھا ان يہوديوں كا وجود جو اس سرزمين پر آباد تھے_

حالات كے پيش نظر آنحضرت (ص) نے يہوديوں كے ساتھ ايك معاہدے پر دستخط كئے جس كى بعض شقيں ذيل ميں درج ہيں :

۱_جن لوگوں نے اس معاہدے پر دستخط كئے ہيں وہ ايك قوم بن كر يہاں زندگى بسر كريںگے_

۲_اس معاہدے ميں جو فريقين شامل ہيں ان ميں سے ہر فريق كو اپنى دينى رسومات انجام دينے كى آزادى ہوگي_

۳_مدينے كى حدود ميں ہر قسم كى خونريزى حرام ہوگى اور اگر باہر سے كسى دشمن نے حملہ كيا تو سب مل كر شہر كا دفاع كريں گے ، معاہدے ميں جو فريقين شامل ہيں اگر ان ميں

۱۳۱

سے كسى ايك فريق پركسى بيرونى طاقت نے حملہ كيا تو فريق ثانى اس كى مدد كرے گا بشرطيكہ وہ خود تجاوز كا ر نہ ہو_

۴_اختلافى مسائل ميں اختلاف كو دور كرنے كيلئے خدا اورحضرت محمد (ص) سے رجوع كيا جائےگا_(۱۸)

اس معاہدے كى برقرارى كے بعد پيغمبر اكرم (ص) كى حكومت معمولى حكومت نہيں رہ گئي بلكہ اس نے مستقل حيثيت اختيار كرلى اور رسول اكرم (ص) كو سركارى سطح پر حاكم مدينہ تسليم كر ليا گيا اور حلقہ اسلام كے اندر سياسى وحدت تشكيل پائي نيزبيرونى دشمنوں كے مقابل اسلام كى دفاعى بنياد كو تقويت حاصل ہوئي نيز رہبر اسلام كيلئے دين كى تبليغ كےلئے وسيع ترين ميدان ہموار ہوگيا اور بالآخر اس طرح معاشرتى حدود نيز انفرادى گروہى اور مذہبى اقليتوں كے حقوق اور ان كے باہمى روابط و تعلقات نيز دشمن كے ساتھ ان كے تعلقات كى كيفيت كى تعيين ہوئي_

عہد شكني

مسلمانوں اوريہوديوں كے درميان با ہمى مسالمت آميز عہد مدينے كے يہوديوں كيلئے بہت زيادہ سازگار ثابت ہوسكتا تھا وہ اس عہد و پيمان كى بدولت اسلامى حكومت كے زير سايہ آزادى كے ساتھ زندگى بسر كرسكتے تھے ليكن انہوں نے اس نعمت كى قدر نہ كى چنانچہ كچھ عرصہ گزرنے كے بعد جب انہوںنے جديد حكومت سے اپنى سياسى و اجتماعى زندگى اور برترى كو خطرہ ميں محسوس كيا تو انہوں نے اس عہد كو جو رسول خد ا(ص) كے ساتھ كيا تھا نظر انداز كرنا شروع كرديا اور آنحضرت (ص) كے خلاف سازشيں كرنے لگے وہ مسلمانوں كے

۱۳۲

دينى عقائد(۱۹) ميں شكوك و شبہات پيد اكركے اور دور جاہليت كے كينہ و اختلاف كو ياد دلاكر(۲۰) ان كے عقائد ميں ضعف و سستى اوران كى صفوں ميں انتشار پيدا كرنے كى كوشش كرنے لگے_

منافقين (بالخصوص ان كا سرغنہ عبداللہ ابن ابي) جو خفيہ طور پر يہوديوں كے ساتھ مل گئے تھے اس سازش ميں ان كے ساتھ شريك ہوگئے چنانچہ وہ لوگ مسلمانوں كے عقائد كا مذاق اڑاتے اور نوبت يہاں تك پہنچى كہ ايك مرتبہ رسول خدا (ص) نے مجبور ہو كر حكم ديا كہ انہيں مسجد سے باہر نكال دياجائے_(۲۱)

جنگى اور جاسوسى اقدامات كا آغاز

رسول خدا (ص) نے مملكت اسلامى كى طاقت كو وسعت دينے اور اسلامى حكومت كے مقدس اغراض و مقاصد كے تحقق كيلئے جو اقدامات فرمائے ان ميں جنگى اور جاسوسى ٹيموں كى تشكيل بھى تھي_ دستوں كو مدينہ سے باہر روانہ كيااور يہيں سے يہوديوں سے رسول خدا (ص) كے سرايا اور غزوات شروع ہوئے اس كے علاوہ دشمن كے خلاف جنگ و دفاع كا جو فرسودہ نظام اب تك چلا آرہا تھا اس ميں آپ (ص) نے تبديلى پيدا كركے اس كيلئے جديد اصول وقواعد مرتب كئے_

مورخين نے جنگ بدر سے قبل كے سرايا اور غزوات كى تعداد آٹھ عدد لكھى ہے(۲۲) ان مہمات ميںشريك سپاہيوںكى تعداد محدودتھى اور وہ سب كے سب مہاجر ہى تھے(۲۳) ہم يہاں دو نكات كا بطور اختصار ذكر كريں گے:

۱_انصار كے ان مہموں میں شريك نہ ہونے كا سبب

۲_ ان مہمات اور غزوات كا مقصد

۱۳۳

انصار كا ان مہمات ميں شريك نہ ہونے كا سبب

۱_عقبہ كے معاہدے كى رو سے انصار اس شرط كے پابند تھے كہ وہ رسول خدا (ص) كا دفاع شہر كى حدود كے اندر كريں گے اس كے باہر نہيں_

۲_انصار چونكہ كچھ عرصہ قبل ہى مشرف بااسلام ہوئے تھے اورآئندہ جو مشكلات نيز جو دوشوارياں در پيش تھيں ان كا مقابلہ كرنے كيلئے وہ خود كو تيار كر رہے تھے اسى لئے ان حقائق كو مد نظر ركھتے ہوئے پيغمبر اكرم (ص) نے مصلحت اس امر ميں ديكھى كہ ان كى طاقت كو اس موقع پر بروئے كار نہ لاياجائے_

۳_ مہاجرين كا انتخاب بھى شايد اس مقصد كے تحت كيا گيا تھا كہ ان ميں ايسى جنگى مہمات ميں شركت كا جذبہ انصار سے كہيں زيادہ تھا جس كى وجہ يہ تھى كہ انہوںنے قريش كے ہاتھوں جو تكاليف و سختياں برداشت كى تھيں ان كے باعث وہ ان سے سخت رنجيدہ خاطر تھا اس كے علاوہ ان كيلئے مدينہ ميں كوئي مادى وابستگى بھى نہ تھي_ دوسرى طرف وہ يہ بھى چاہتے تھے كہ مدينہ اور اطراف مدينہ كے جغرافيہ كے بارے ميں بيشتر اطلاعات كسب كريں_

۴_رسول اكرم (ص) اس تحريك كے ذريعے انصار پر يہ بات واضح كردينا چاہتے تھے كہ آپ اپنے مقاصد كو ہرحال حاصل كرنے كا قطعى فيصلہ اور مصمم ارادہ كرچكے ہيں وہ مہاجرين جنہوں نے راہ خدا ميں ہر چيز كو ترك كرديا تھا وہ مكہ كى طرح اس وقت بھى فرمان رسول (ص) كى خاطر شرك سے جنگ كرنے ميں اپنى جان قربان كرنے كيلئے تيار تھے يہ درحقيقت ان لوگوں كيلئے عملى درس تھا جو حال ہى ميں مشرف بااسلام ہوئے تھے_

۱۳۴

ان جنگوں اور غزوات كا مقصد :

۱_ہادى و رہبر كى حيثيت كو مستحكم كرنا اور اسلام كى مركزى حكومت كو تقويت پہنچانا_

۲_مسلمانوں كى جنگى استعداد و طاقت كو بلند و مضبوط كرنا نيز لشكر اسلام كو آئندہ كى مشكلات كيلئے آمادہ كرنا_

۳_اطراف ومضافات ميں بسنے والے قبائل كے ساتھ دفاعى معاہدے خصوصاً ان لوگوں سے معاہدہ كرنا جو قريش كے تجارتى قافلوں كے راستے ميں آباد تھے_

۴_جغرافيائي ماحول اور شہروں كو متصل كرنے والے راستوں سے واقفيت اس كے ساتھ ہى اطراف مدينہ ميں آباد قبائل كے بارے ميں معلومات حاصل كرنا_

۵_قريش كو جنگ كى تنبيہہ كرنا اور ان كے رابطوں اور تجارتى راستوں كو غير محفوظ بنانا اور دشمن كو مسلمانوں كى طاقت اور مقام سے آگاہ كرنا _

قبلہ كى تبديلي

پيغمبر اكرم (ص) مكہ ميں اور ہجرت كے بعد مدينہ ميں سترہ ماہ تك بيت المقدس كى جانب رخ كركے نماز ادا كرتے رہے يہاں تك كہ پير كے دن پندرہ ماہ رجب سنہ ۲ ھ ميں يہ واقعہ پيش آيا كہ جب آپ (ص) مسجد بنى سالم بن عوف ميں(۲۴) جہاں سب سے پہلى نماز جمعہ ادا كى گئي تھي، نماز ظہر ادا فرمارہے تھے آپ (ص) كو يہ حكم ديا گيا كہ اپنا قبلہ تبديل كرديں_

قبلہ جن وجوہات كى بناپر تبديل كيا گيا ان ميں سے چند يہ تھيں:

۱_ايك طرف تو رسول خدا (ص) پر يہودى يہ اعتراض كرتے تھے كہ جب تم ہمارى مخالفت كرتے ہو تو ہمارے قبلہ كى جانب رخ كركے نماز كيوں پڑھتے ہو اس كے ساتھ ہى

۱۳۵

وہ مسلمانوں سے يہ كہتے كہ :

اگر ہم حق پر نہ ہوتے تو تم ہمارے قبلے كى جانب رخ كركے نماز كيوں پڑھتے ؟(۲۵)

دوسرى طرف مشركين يہ طعنہ ديتے كہ : تم جبكہ قبلہ ابراہيم (ع) كو ترك كركے قبلہ يہود كى طرف نماز پڑھتے ہو تو يہ كيسے دعوى كرتے ہو كہ ہم ملت ابراہيم (ع) پر قائم ہيں(۲۶) _

اس قسم كے اعتراضات اور طعنے رسول خد ا(ص) كو سخت رنجيدہ اور آزردہ خاطر كرتے تھے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ آپ (ص) راتوں كو بارگاہ خداوندى ميں دعا فرماتے اور مقام رب ذوالجلال كى جانب رخ كركے اپنى آنكھيں آسمان كى جانب لگاديتے تاكہ خداوندتعالى كى جانب سے اس بارے ميں كوئي حكم صادر ہو _(۲۷)

قرآن مجيد نے رسول خدا (ص) كى اس ذہنى كيفيت كو ان الفاظ ميں بيان كيا ہے:

( قَد نَرى تَقَلُّبَ وَجهكَ فى السَّمَائ فَلَنُوَلّيَنَّكَ قبلَةً ترضى هَا ) _

''اے رسول(ص) ہم آپ (ص) كى توجہ آسمان كى جانب ديكھ رہے ہيں لو ہم اس قبلے كى طرف تمہيں پھيرے دیتے ہيں جسے تم پسند كرتے ہو''_(۲۸)

۲_خداوند تعالى قبلہ كا رخ تبديل كركے مسلمانوں كو آزماناچاہتا تھا كہ يہ معلوم ہو جائے كہ كون لوگ حكم خدا كے مطيع اور رسول خدا (ص) كے فرمانبردار ہيں_

( وَمَا جَعَلنَا القبلَةَ الَّتى كُنتَ عَلَيهَا إلاَّ لنَعلَمَ مَن يَتَّبعُ الرَّسُولَ ممَّن يَنقَلبُ عَلَى عَقبَيه وَإن كَانَت لَكَبيرَةً إلاَّ عَلَى الَّذينَ هَدَى الله ُ ) (۲۹)

''پہلے جس طرف تم رخ كرتے تھے اس كو تو ہم نے صرف يہ ديكھنے كيلئے قبلہ مقرر كيا تھا كہ

۱۳۶

كون رسول (ص) كى پيروى كرتا ہے اور كون الٹا پھر جاتا ہے يہ معاملہ تھا تو بڑا سخت مگر ان لوگوں كيلئے كچھ بھى سخت نہ تھا جو اللہ كى جانب سے ہدايت سے فيضياب تھے''_

۳_بعض روايات(۳۰) اور تاريخى كى كتابوں(۳۱) ميں اس كا ايك سبب يہ بھى بتايا گيا ہے كہ رسول خدا (ص) مكہ ميں اس وقت جبكہ آپ (ص) كا رخ مبارك بيت المقدس كى جانب ہوتا ہرگز كعبہ كى جانب پشت نہیں فرماتے تھے ليكن ہجرت كے بعد مدينے ميں جس وقت آپ (ص) نماز ادا كرتے تو اس وقت مجبوراً آپ(ص) كى پشت كعبہ كى جانب ہوتى ، رسول خدا (ص) كے قلب مبارك ميں بيت ابراہيمى كيلئے جو جو احترام تھا اور اس كى جانب پشت كرنے سے آپ (ص) كو تكليف ہوتى تھى اسے ملحوظ ركھتے ہوئے خداوند تعالى نے تحويل قبلہ كے ذريعے آپ (ص) كى رضامندى كا اہتمام كيا_

سمت قبلہ تبديل كئے جانے كے بعد يہوديوں نے دوبارہ اعتراضات كرنا شروع كرديئے كہ آخر وہ كيا عوامل تھے جن كے باعث مسلمان قبلہ اول سے روگرداں ہوگئے ؟ اس كے ساتھ ہى انہوں نے رسول خدا (ص) كے سامنے يہ شرط ركھى كہ اگر آپ (ص) قبلہ يہود كى طرف رخ فرماليں تو ہم آپ (ص) كى پيروى و اطاعت كرنے لگیں گے(۳۲) _

بعض سادہ لوح مسلمان يہوديوں كے پروپيگنڈے كا شكار ہوكر دريافت كرنے لگے كہ وہ نماز جو انہوں نے بيت المقدس كى جانب رخ كركے ادا كى ہيں ان كا كيا ہوگا_

قرآن مجيد نے ان كے اس سوال كا جواب ديتے ہوئے فرمايا :

( مَاكَانَ ليُضيعَ ايمَانَكُم ) _(۳۳)

''اللہ تعالى تمہارے ايمان (يعنى بيت المقدس كى جانب ادا كى جانے والى نماز)كو ہرگز ضائع نہ كرے گا''_(۳۴)

۱۳۷

سوالات

۱_رسول خدا (ص) كس تاريخ كو قبا پہنچے؟ آپ (ص) نے كتنے عرصے اور كس مقصد كيلئے توقف فرمايا اور دوران قيام كيا اقدامات كئے؟_

۲_ جب رسول خدا (ص) مدينہ ميں تشريف لائے تو لوگوں نے آپ (ص) كا كس طرح استقبال كيا اور آپ (ص) نے كس صحابى كے گھر پر قيام فرمايا ؟

۳_ ہجرت كے بعد مدينے ميں رسول خدا (ص) نے كن لوگوںكے درميان رشتہ اخوت وبرادرى قائم كيا؟ اپ كے اس اقدام كے كيا نتائج برامد ہوئے؟

۴_ہجرت كے بعد مدينہ ميں رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے سب سے پہلے كيا اقدام كيا اور اس كا كيا فائدہ ہوا؟

۵_پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے داخلى امن و امان فراہم كرنے كے لئے كيا اقدامات كئے ؟ ان اقدامات ميں كيا خوبياں اور بركات تھيں ؟

۶_جنگ بدر سے قبل سرايا اور غزوات ميں صرف مہاجرين ہى كيوں شريك رہا كرتے تھے ؟

۷_ جنگ بدر سے قبل رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سرايا اور غزوات كے ذريعے كن مقاصدكى تكميل چاہتے تھے؟

۸_سمت قبلہ بيت المقدس سے كعبہ كى جانب كس تاريخ ميں تبديل ہوئي اور تبديلى كى كيا وجوہات تھيں ؟

۱۳۸

حوالہ جات

۱_ قبا كسى زمانے ميں مدينہ سے دو فرسخ كے فاصلے پر ايك گائوں تھا اور اس كا شمار قبيلہ ''بنى عمر وابن عوف'' كے مركز ميں ہوتا تھا_ اب چونكہ مدينہ كافى وسيع ہوچكا ہے اسى لئے يہ اسى شہر ميں شمار ہوتا ہے_

۲_ السيرة النبويہ ج ۲ ص۱۳۷_۱۳۸_

۳_ ايضا صفحہ ۱۳۸_

۴_ ايضا صفحہ ۱۳۹_

۵_ اس خطبے كے متن كيلئے ''بحارالانوار'' كى جلد ۱۹ صفحہ ۱۲۶ اور تاريخ طبرى كى جلد ۲ صفحہ ۳۹۴ ملاحظہ فرمائيں_

۶_ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۵۴_۵۷ ، بعض محققين كى رائے ميں يہ اشعار اس وقت پڑھے گئے تھے جب آنحضرت (ص) غزوہ تبوك سے واپس تشريف لارہے تھے (ملاحظہ ہو الصحيح من سيرة النبي(ص) ج ۲ ص ۳۱۳)_

۷_ ''ثنيہ'' كے اصل معنى سنگلاخ كوہستانى راستے كے ہيں ثنية الوداع وہ جگہ تھى جہاں تك لوگ اپنے مسافروں كو وداع كرنے آتے تھے_ اور يہ رسم زمانہ جاہليت سے چلى آرہى تھى (ملاحظہ ہو معجم البلدان ج ۲ ص ۸۶)

۸_ السيرة النبويہ ج ۲ ص۱۳۹_ ۱۴۱ ، بحارالانوار ص ۱۰۴_ ۱۰۹_

۹_ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۶۶_۷۱_

۱۰_ السيرة الحلبيہ ج ۲ص ۶۶_۷۱_

۱۱_ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۶۶_۷۱_

۱۲_ بعض روايات ميں آيا ہے كہ ان كى تعداد چارسو افراد پر مشتمل تھى (ملاحظہ ہو بحارالانوار ج ۶۷ ، ص ۱۲۸)

۱۳_ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۸۱_

۱۴_ بحارالانوار ج ۱۹ ص ۱۱۲_

۱۵_ ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۹۰_

۱۶_ السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۵۰_

۱۷_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۹۰ السيرة النبويہ ج ۲ ص۱۵۰_

۱۸_ السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۴۷_ ۱۴۹_

۱۳۹

۱۹_ ان كے اعتراضات اور شكوك وشبہات كے بارے ميں مزيد اطلاع حاصل كرنے كيلئے ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۳۳۸ كے حاشيے پر السيرة النبويہ دحلان_

۲۰_ مثال كے طور پر ايك مرتبہ ان ميں سے ايك شخص نے ''اوس'' اور ''خزرج'' قبائل كے اجتماع ميں اس جنگ كا ذكر چھڑ ديا جو مذكورہ بالا دونوں قبائل كے درميان لڑى گئي تھى اور جنگ ''بعاث'' كے نام سے مشہور تھي_ اور اس طرح ايك دوسرے كے خلاف ان كے جذبات مشتعل كرنے كى كوشش كى _ اگر اس وقت رسول خد ا(ص) درميان ميں نہ آگئے ہوتے تو عين ممكن تھا كہ يہ دونوں بھائي تلواروں سے ايك دوسرے پرٹوٹ پڑتے_ ملاحظہ ہو السيرة النبويہ ج ۲ ص ۲۰۴ _ ۲۰۵_

۲۱_ السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۷۵_

۲۲_ ان غزوات اورسرايا سے متعلق بيشتر اطلاع كيلئے ملاحظہ ہو السيرة النبويہ ج ۲ ص ۲۴۱_ ۲۵۶

۲۳_الصحيح من سيرة النبى (ص) ج ۳ ص ۱۴۵_

۲۴_ اعلام الورى ص ۸۲_

۲۵_۲۶ _ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۱۲۸_

۲۷_ بحارالانوار ج ۱۹ ص ۲۰۱_

۲۸_ سورہ بقرہ آيہ ۱۴۴_

۲۹_ سورہ بقرہ آيہ ۱۴۳_

۳۰_ بحارالانوار ج ۱۹ ص ۲۰۰_

۳۱_ملاحظہ ہو: السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۱۲۸_ ۱۳۰_

۳۲_ ملاحظہ ہو: السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۹۸،۱۹۹و بحار الانوار ج ۱۹ ص ۱۹۵_

۳۳_بقرہ آيت ۱۴۳_

۳۴_بحارالانوار ج ۱۹ ص ۱۹۷_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313