تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي25%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139687 / ڈاؤنلوڈ: 4388
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

نے انہيں اس ايثار و قربانى پرمجبور كيا _

حضرت ابوطالب(ع) كے ايمان كے متعلق شك و شبہ پيدا كرنے ميںجو محرك كار فرماتھا اس كا مذہبى عقيدے سے زيادہ سياسى پہلو تھا، بنى اميہ كى سياسى حكمت عملى كى بنياد چونكہ خاندان رسالت(ص) كے ساتھ دشمنى اور كينہ توزى پر قائم تھى اسى لئے انہوںنے بعض جعلى روايات پيغمبر اكرم (ص) سے منسوب كركے حضرت ابوطالب (ع) كو كافر مشہور كرنے ميںكوئي دقيقہ فروگذاشت نہ كيا وہ اس بات كو كہ وہ ايمان نہيں لائے تھے، فروغ ديكر لوگوں كو يہ باور كرانا چاہتے تھے كہ ان كے فرزند عزيز حضرت على (ع) كو عظمت و فضيلت كے اعتبار سے دوسروں پر كوئي فوقيت و برترى حاصل نہيں ہے اور اس طرح آپ (ع) كى شخصيت داغدار ہوسكے اگر حضرت ابوطالب (ع) حضرت على (ع) كے والد بزرگوار نہ ہوتے تو وہ ہرگز اس بات كا اتنا زيادہ چرچا نہ كرتے اور نہ ہى اس قدر نماياں طور پر اتنا جو ش وخروش دكھاتے_

كوئي بھى ايسا انصاف پسند شخص جسے تاريخ اسلام سے معمولى واقفيت ہوگى اور پيغمبر اكرم (ص) كے اس عظيم حامى اور مددگاركى جدو جہد سے لبريز زندگى كے بارے ميں علم ركھتا ہوگا وہ اپنے دل ميں حضرت ابوطالب (ع) كے بارے ميں ذرا بھى شك وشبہ نہ لائے گا جس كى دو وجوہات ہيں:

اول:_ ممكن ہے كوئي شخص قومى تعصب كى بناپر، كسى دوسرى شخص يا قبيلے كى حمايت و حفاظت كى خاطركچھ عرصے تك مرنے مارنے پر آمادہ ہوجائے ليكن يہ اس امر كا باعث نہيں ہوسكتا كہ وہ شخص چاليس سال تك نہ صرف حمايت وپشت پناہى كرے بلكہ اس شخص كا پروانہ وار شيفتہ بھى ہونيز اپنے جان سے بھى پيارے بيٹے كو اس پر قربان كردے_

دوم:_ يہ كہ حضرت ابوطالب (ع) كے اقوال و اشعار ، پيغمبر (ص) اور آئمہ معصومين عليہم السلام كى

۱۰۱

احاديث اور روايات اس وہم وگمان كى ترديد كرتے ہيں اور اس بات پر متفق ہيں كہ رسول خدا (ص) كى حمايت كا اصل محرك ان كا وہ راسخ عقيدہ اور محكم ايمان تھا جو انہيں رسول (ص) كى ذات بابركت پر تھا_

چنانچہ امام زين العابدين عليہ السلام كى محفل ميں حضرت ابوطالب (ع) كا ذكر آگيا تو آپ (ع) نے فرمايا :

''مجھے حیرت ہے كہ لوگوں كو حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان پر كيوں شك و تردد ہے كيونكہ كوئي ايسى عورت جس نے دين اسلام قبول كرنے كا شرف حاصل كرليا وہ اپنے كافر شوہر كے عقد ميں كيسے رہ سكتى ہے ، حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ عليہا ان اولين خواتين ميں سے تھيں جودين اسلام كى سعادت سے مشرف ہوئيں چنانچہ جب تك حضرت ابوطالب (ع) زندہ رہے وہ ان سے جدا نہ ہوئے''_

حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان سے متعلق سوال كيا گيا تو آپ (ع) نے فرمايا :

''اگر حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان كو ترازو كے ايك پلڑے ميں ركھاجائے اور دوسرے پلڑے ميں ديگر لوگوں كے ايمان كو ركھ كر تولاجائے تو يقينا حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان كا پلڑا بھارى رہے گا_ كيا آپ لوگوں كو اس بات كا علم نہيں كہ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے بعض لوگوں كو يہ حكم ديا تھا كہ وہ حضرت ابوطالب (ع) كى جانب سے فريضہ حج ادا كريں''_(۲۳)

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے رسول خدا (ص) كى حديث بيان كرتے ہوئے فرمايا :

''حضرت ابوطالب (ع) كا ايمان اصحاب كہف كے ايمان كى طرح تھا كہ وہ لوگ دل سے

۱۰۲

توايمان لے آئے تھے مگر زبان سے اس كا اظہار نہيں كرتے تھے ان كے اس عمل كا خداوند تعالى انہيں دو گنا اجر دے گا''_

دين اسلام كى ترويج و تبليغ كےلئے حضرت ابوطالب (ع) كى خدمات كے بارے ميں ابن ابى الحديد لكھتا ہے كہ :

''كسى شخص نے حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان سے متعلق كتاب لكھى اور مجھ سے كہا كہ اس كے بارے ميں اپنى رائے كا اظہار كروں اور اس پر اپنے ہاتھ سے كچھ لكھوں، ميں نے كچھ اشعار اس كتاب كى پشت پرلكھ ديئے جن كا مضمون يہ تھا:

وَ لَولَا اَبُوُطَالبٌ وَابنُهُ

لَمَا مُثّلَ الدّينُ شَخصَاً فَقَاما

فَذاك بمَكَّةَ آوَى وَحامى

وَهذَا بيَثرَبَ جَسَّ الحماما

اگر ابوطالب (ع) اور ان كے فرزند حضرت على (ع) نہ ہوتے تو دين اسلام ہرگزقائم نہيں ہوسكتا تھا باپ نے مكے ميں پيغمبر (ص) كى حمايت كى اور بيٹا يثرب ميں دين كى حمايت ميں موت كى سر حد تك آگے بڑھ گيا_

۱۰۳

سوالات

۱_رسول خدا (ص) كى ملاقات سے مشرف ہونے كيلئے قريش لوگوں كوكس طرح منع كيا كرتے تھے اس كى كوئي مثال پيش كريں؟

۲_ مشركيں نہيں چاہتے تھے كہ لوگ تلاوت قرآن سنيں ، اس مقصد كے حصول كيلئے انہوں نے كيا طريقہ استعمال كيا؟

۳_رسول خدا (ص) نے اصحاب كو ترك وطن كركے حبشہ جانے كى اجازت كس وجہ سے دى ؟

۴_ كيا وجہ تھى كہ مسلمانوں نے اپنى پناہ كيلئے ملك حبشہ كا ہى انتخاب كيا؟

۵_وطن ترك كرنے والوں كا پہلا گروہ كس تاريخ كو حبشہ كى جانب روانہ ہوا اس گروہ ميں كتنے لوگ شامل تھے اور ان كى سرپرستى كون سے صحابى كررہے تھے؟

۶_ ہجرت حبشہ كے كيا فوائد اور بركات تھے؟

۷_قريش كى طرف سے مسلمانوں كے اقتصادى محاصرہ كے كيا محركات تھے؟ اوريہ محاصرہ كتنے عرصے تك جارى رہا؟

۸_ پيغمبر اكرم (ص) نے شعب ابوطالب سے كب اور كس طرح رہائي حاصل كى ، اس كى تاريخ بتايئے؟

۹_ مكہ كے باہر سے جو پہلا وفد رسول خدا (ص) كے پاس مذاكرہ كےلئے آيا تھا اس كا تعلق كس ملك سے تھا؟ اور اس مذاكرے كا كيا نتيجہ برآمد ہوا؟

۱۰_ بعثت كے دسويں سال كو كيوں (عام الحزن) كہاجاتا ہے؟

۱۱_حضرت ابوطالب(ع) كے ايمان سے متعلق دشمنوں نے جو شك وشبہات پيدا كئے اس كے كيا محركات تھے؟

۱۰۴

حوالہ جات

۱_السيرة النبويہ ج ۲ 'ص ۲۵_۲۸_

۲_السيرة النبويہ ' ج ۱ ' ص۳۲۱_

۳_سورہ فرقان آيہ ۵ و ۶_

۴_سورہ فصلت آيہ ۲۶_

۵_آيتى مرحوم نے اپنى تاريخ ميں پانچ ايسے افراد كا نام ذكر كيا ہے جنہوں نے قريش كے كمر توڑ دبائو كى وجہ سے دين اسلام كو ترك كرديا اور دوبارہ بت پرستى شروع كردى _ ملاحظہ ہو تاريخ پيامبر (ص) ص ۱۲۸ _۱۲۹_

۶_ السيرة النبويہ ' ج۱ ' ص ۳۴۴_

۷_السيرة النبويہ ج' ص ۳۴۴_۳۶۲_

۸_ البتہ اس معاہدہے كے مندرجات كى روسے اسے اقتصادى نا كہ بندى كى بجائے صرف '' بائيكاٹ ''كہنا زيادہ مناسب رہے گا_ مترجم_

۹_السيرة النبويہ ابن ہشام ج ۱ ص ۳۷۵ ' والكامل فى التاريخ ج ۲ ' ص ۸۷_

۱۰_ملاحظہ ہو الصحيح من سيرة النبى (ص) ج ۲ ص ۱۰۷_

۱۱_السيرة النبويہ ج ۱ ص ۳۷۷ والسيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۳۳۷_

۱۲_الطبقات الكبرى ج ۱ ص ۲۰۹' والسيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۳۳۷_

۱۳_الصحيح من سيرة النبى (ص) ج ۲ ص ۱۰۸ والسيرة الحلبيہ ج ۱ ' ص ۳۳۷_

۱۴_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۱۳ ص ۲۵۴_

۱۵_الصحيح من سيرة النبى (ص) ج ۲ ص ۱۰۹_

۱۶_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۶ وتاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۳۱_۳۲_

۱۷_الطبقات الكبرى ج ۱ ص ۲۱۰_

۱۸_مصباح المتہجد اعمال نيمہ رجب ص ۷۴۱_

۱۹_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۳۲ والسيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۳۴۵_

۱۰۵

۲۰_الصحيح من سيرة النبي(ص) ج ۲ ص ۱۲۸_

۲۱_تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۳۵_

۲۲_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۳۴۷_

۲۳_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۱۴ ص ۶۸_۷۰ والغدير ج ۷ ص ۳۸۰_

۲۴_ شرح نہج البلاغہ ج ۱۴ ص ۸۳_

۱۰۶

سبق۷:

معراج اوريثرب كے لوگوں كى دين اسلام سے آشنائي

۱۰۷

معراج

تاريخ اسلام كے بعثت سے عہد ہجرت تك كے دورميں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان ميں سے ايك واقعہ معراج ہے ،يہ كب پيش آيا اس كى صحيح و دقيق تاريخ كے بارے ميں اختلاف ہے ، بعض نے لكھا ہے كہ يہ بعثت كے چھ ماہ بعد اور بعض كى رائے ميں بعثت كے دوسرے ' تيسرے ' پانچويں ' دسويں يا گيارہویں حتى كہ بارہويں سال ميں رونما ہوا _(۱)

جب ہم رسول اكرم (ص) كى معراج كے بارے ميں گفتگو كرتے ہيں تو ہمارے سامنے دو عنوان آتے ہيں ، ان ميں سے ايك اسراء ہے اور دوسرا معراج_

واقعہ اسراء يا رات كے وقت آنحضرت (ص) كے مسجد الحرام سے مسجد الاقصى تك كے سفر كے بارے ميں قرآن مجيد كا صريح ارشاد ہے :

( سُبحَانَ الَّذيْ أَسرَى بعَبده لَيلًا منَ المَسجد الحَرَام إلَى المَسجد الأَقصَى الَّذيْ بَارَكنَا حَولَهُ لنُريَهُ من آيَاتنَا ) _

''پاك ہے وہ ذات جو راتوں رات اپنے بندے كو مسجد الحرام سے مسجد اقصى تك لے گئي جس كے ماحول كو اس نے بركت دى تاكہ اسے اپنى كچھ نشانيوں كا مشاہدہ كرائے''_

جملہ ''سُبْحنَ الَّذيْ'' اس حقيقت كو بيان كر رہا ہے كہ يہ سفر خداوند تعالى كى قدرت كے سائے ميں انجام پذير ہوا_

۱۰۸

جملہ''ا َسْرى بعَبْده لَيْلاً'' سے يہ مطلب واضح ہے كہ:

۱_ سير كرانے والى ذات خداوندكى تھى _

۲_ يہ سفر رات كے وقت ہوا ،يہ مفہوم لفظ ''لَيْلاً'' كے علاوہ لفظ ''اَسْرَى '' سے بھى سمجھ ميں آتا ہے كيونكہ عربى زبان ميں يہ لفظ رات كے وقت كے حركت (سفر) كے مفہوم ميں استعمال ہوتا ہے _

۳_ يہ ''سفر'' جسمانى تھا اور اگر فقط روحانى ہوتا تو اس كے لئے لفظ ''بعَبْدہ'' كے ذكر كى ضرورت پيش نہ آتي_

مذكورہ آيت كى رو سے اس ''سفر '' كا آغاز ''مسجد الحرام'' سے ہوتا ہے اور اختتام ''مسجد الاقصى '' پر اور آخر ميں اس ''سفر'' كا مقصديہ بتايا گيا ہے كہ اس سے خداوند تعالى كى نشانياں دكھانا مقصود تھا_

''معراج'' اور ملكوت اعلى كى سيربہت سے كا واقعہ بھى محدثين اور مؤرخين كى نظر ميں اسى رات ميں ہى وقوع پذيرا ہو(۳)

ہر چند مذكورہ بالا آيات سے مكمل طور پر يہ مفہوم واضح نہيں ہوتا ليكن سورہ ''النجم'' كى چند آيات اور اس واقعہ سے متعلق بہت سى روايات كى مدد سے يہ بات پايہ ثبوت كو پہنچ چكى ہے_

چنانچہ علامہ مجلسى متعلقہ آيات بيان كرنے كے بعد معراج كے بارے ميں لكھتے ہيں:

''رسول خدا (ص) كا بيت المقدس كى جانب عروج كرنا اور وہاں سے ايك ہى رات ميں آسمانوں پر پہنچنا اور وہ بھى اپنے بدن مبارك كے ساتھ ايك ايسا موضوع ہے جس كے وقوع پر آيات اور متواتر شيعہ سنى روايات دلالت كرتى ہيں ، اس حقيقت سے انكار كرنا يا

۱۰۹

اس حقيقت كى روحانى معراج كى تاويل پيش كرنا يا اس واقعے كا خواب ميں رونما ہونے كا عقيدہ ركھنا اس بات كى غمازى كرتا ہے كہ كہنے والے نے پيشوايان دين (ع) كى كتابوں كا دقيق مطالعہ نہيں كيا ہے يا يہ بات اس كے ايمان كى سستى اور اعتقاد ى كمزورى پر مبنى ہے''_(۴)

حضرت ابوطالب(ع) كى وفات كے بعد قريش كا رد عمل

حضرت ابوطالب (ع) كى رحلت كے بعد قريش اورزيادہ بے باك اورگستاخ ہوگئے اور وہ رسول خدا (ص) كوپہلے سے كہيں زيادہ آزار و تكليف پہنچانے لگے دين اسلام كى تبليغ كے حوالے سے انہوں نے آپ (ص) پر سخت پابندياں لگاديں اور اس كا دائرہ بہت ہى محدود كرديا چنانچہ نوبت يہاں تك آپہنچى كہ آپ (ص) حج كے زمانے كے علاوہ اپنے دين كى تبليغ نہيں كرسكتے تھے_

رسول خدا(ص) كا يہ فرمان كہ :جب تك ابوطالب(ع) زندہ رہے قريش مجھے ايسى گزند نہيں پہنچا سكے جو ميرے لئے سخت ناگوار ہوتي_(۵) اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت ابوطالب (ع) كى وفات كے بعد قريش كى جانب سے ايذا رسانى كى وارداتوں ميں اضافہ ہوگيا تھا مگر ان سختيوں اور پابنديوں كے باوجود رسول خدا(ص) حرام مہينوں ميں ، فرصت كو غنيمت سمجھتے اور اس فرصت سے زيادہ سے زيادہ فائدہ اٹھاتے چنانچہ حج كے تين ماہ كے دوران ''عكاظ '' ''مجنّہ'' اور ''ذوالمجاز'' كے بازاروں كے علاوہ ديگر جن مقامات پر بھى لوگ جمع ہوتے رسول خدا (ص) ان كے پاس تشريف لے جاتے وہاں سرداران قبائل نيز سربرآوردہ اشخاص سے ملاقات كرتے اور ہر ايك كو آسمانى دين كى دعوت ديتے_

۱۱۰

ان ملاقاتوں ميں ہر چند رسول خدا (ص) كى مخالفت كى جاتى اور ان كے بعد سرداران قبائل كا رد عمل ظاہر ہوتا ليكن مخالفت اور رد عمل كے باوجود يہ ملاقاتيں نہايت ہى مفيد اور ثمر بخش ثابت ہوئيں كيونكہ مكہ ميں داخل ہونے والے ہر قبيلے كے ہر فرد تك كسى نہ كسى طرح رسول خدا (ص) كى دعوت دين كا پيغام پہنچ جاتا چنانچہ فريضہ حج كى ادائيگى كے بعد جب وہ لوگ واپس اپنے اپنے گھروں كو جاتے تو وہ اس دعوت و ملاقات كو دوران حج كے تازہ ترين اہم واقعے يا خبر كى صورت ميں دوسروںكو بيان كرتے_

قبيلہ بنى عامر بن صعصعہ ان مشہور قبائل ميں سے تھا جس كے افراد كو رسول خدا (ص) نے اسلام كى دعوت دي_

''بيحرة ابن فراس'' كا شمار اس كے قبيلے كے سركردہ اشخاص ميں ہوتا تھا اسے رسول اكرم (ص) كى شہرت اورحالات كے بارے ميں كم وبيش علم تھا اس نے جب يہ بات سنى تو كہنے لگا : ''خدا كى قسم اگر قريش كے اس نوجوان كو ميںحاصل كرلوں تو اس كے ذريعہ سے ميں پورے عرب كو نگل جائوں گا''_(۶)

چنانچہ يہ سوچ كر وہ رسول خدا (ص) كے پاس آيا اور كہنے لگا كہ اگر ہم تمہارے ہاتھ پر بيعت كرليں اور تمہارا خدا ہميں تمہارے مخالفين پر كامياب بھى كردے تو كيا تمہارے انتقال كے بعد تمہارى قوم كى رہبرى و سردارى ہميں حاصل ہوجائے گي؟ اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا : ''يہ خدا كا كام ہے وہ جسے اہل سمجھے گا اسے جانشين مقرر كرے گا''_(۷)

بحيرہ نے جب رسول اللہ(ص) سے يہ جواب سنا تو كہنے لگا كہ ہم تمہارى خاطر عربوں سے جنگ كريں اور جب كامياب ہوجائيں تو قوم كى رہبرى دوسروں كے ہاتھوں ميں چلى جائے ايسى جنگ اورحمايت سے ہم بازآئے_(۸)

۱۱۱

رسول اكرم (ص) كى اس گفتگو كے اہم نكات

۱_عام مشاہدہ ہے كہ سياست دان حصول اقتدار سے قبل عوام كے ساتھ بڑے بڑے وعدے كرتے ہيں ، جنہيں بعد ميں وہ كبھى پورا نہيں كرتے ليكن پيغمبر اكرم (ص) نے سياست دانوںكى روش كے برعكس قبيلہ ''بنى عامر'' كى اس شرط پر كسى قسم كا وعدہ نہيں كيا_

۲_قول پيغمبر (ص) اس حقيقت كا آئينہ دار ہے كہ مسئلہ امامت امر الہى پر منحصر ہے اور خداوند تعالى جسے اس كا اہل سمجھے گا اسے پيغمبر (ص) كا جانشين مقرر كرے گا_

يثرب كے لوگوں كى دين اسلام سے آشنائي

جس وقت بنى ہاشم اور بنى مطلب شعب ابوطالب ميں محصور تھے اس وقت يثرب سے اسعد ابن زرارہ اور ذكوان ابن عبدالقيس قبيلہ خرزج كے نمائندے كى حيثيت سے مكہ ميں اپنے حليف عتبة بن ربيعہ كے پاس آئے اور قبيلہ اوس سے جنگ كے سلسلے ميں اس سے مدد چاہي_

''عتبہ '' نے مدد كرنے سے معذرت كرتے ہوئے كہا كہ مكہ اور مدينہ كے درميان فاصلہ كے طويل ہونے كے علاوہ ہم يہاں ايسى ايك مصيبت ميں گرفتار ہيں كہ جس كى وجہ سے ہم كسى اور كام ميں ہاتھ ڈال ہى نہيں سكتے اس نے ''نبى اكرم (ص) '' اور آپ(ص) كى تبليغى سرگرميوں كے واقعات قبيلہ ''خزرج'' كے نمائندوں كو بتائے اور تاكيد سے كہا كہ وہ آنحضرت (ص) سے ہرگزملاقات نہ كريں كيونكہ وہ ايساجادوگر ہے جو اپنى باتوں سے لوگوں كو مسحور كرليتا ہے اس كے ساتھ ہى اس نے ''اسعد'' كو حكم ديا كہ كعبہ كا طواف كرتے وقت وہ اپنے كانوں ميں

۱۱۲

روئي ٹھونس لے تاكہ پيغمبر (ص) كى آواز اس كے كانوں تك پہنچے_

''اسعد'' طواف كعبہ كے ارادے سے ''مسجد الحرام'' ميں داخل ہوا وہاں اس نے ديكھا كہ پيغمبر اكرم (ص) ''حجر اسماعيل'' ميں تشريف فرماہيں ، اس نے خود سے كہا كہ ميں بھى كيسا نادان ہوں بھلا ايسى خبر مكہ ميں گرم ہو اور ميں اس سے بے خبر رہوں ميں بھى تو سنوں كہ يہ شخص كيا كہتا ہے تاكہ واپس اپنے وطن جاكر لوگوں كو اس كے بارے ميں بتائوں ، رسول خدا(ص) كى باتيں سننے كى خاطر اس نے روئي اپنے كانوں سے نكال دى اور حضور(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا آنحضرت نے اسے دين اسلام قبول كرنے كے دعوت دى جسے اس نے قبول كيا اور ايمان لے آيا اس كے بعد ''ذكوان'' نے بھى دين اسلام قبول كرنے كا شرف حاصل كرليا_(۹)

اہل يثرب ميں يہ پہلے دو افراد تھے جو ايمان لائے اور دين اسلام سے مشرف ہو كر واپس اپنى قوم ميں پہنچے_

دوسرے مرحلے ميں يثرب والوں سے قبيلہ '' خرزج'' سے تعلق ركھنے والے چھ افراد بعثت كے گيارہویں سال ميں دوران حج پيغمبر اكرم (ص) كى ملاقات سے مشرف ہوئے(۱۰)

رسول خدا(ص) نے انہيں دين اسلام كى دعوت دى اور قرآن مجيد كى چند آيتوں كى تلاوت فرمائي، وہ رسول خدا(ص) كى ملاقات كا شرف حاصل كركے اور آپ (ص) كى زبان مبارك سے بيان حق سن كر ايك دوسرے سے كہنے لگے :'' خدا كى قسم يہ وہى پيغمبر (ص) ہے جس كے ظہوركى خبر دے كر يہودى ہميں ڈرايا كرتے تھے آؤ پہلے ہم ہى دين اسلام قبول كر ليں تاكہ ايسا نہ ہو كہ اس كار خير ميں وہ ہم پر سبقت لے جائيں ''يہ كہہ كر ان سب نے دين اسلام اختيار كرليا جب وہ واپس يثرب گئے تو انہوں نے اپنے عزيز واقارب كو بتايا كہ انہوں نے كيسے رسول

۱۱۳

خدا (ص) سے ملاقات كا شرف حاصل كيا اور انہيں بھى دين اسلام قبول كرنے كى دعوت دي_

انكى سرگرميوں كى وجہ سے رسول خدا (ص) اور اسلام كا چرچا اہل يثرب ميں ہونے لگا اور كوئي گھر ايسا نہ تھا جہاں رسول خدا (ص) اور دين اسلام كا تذكرہ نہ ہو_

پہلى بيعت عقبہ

تيسرے مرحلے ميں اہل يثرب كے بارہ اشخاص جن ميں سے دس كا تعلق قبيلہ ''خزرج'' سے تھا اور دو كا قبيلہ ''اوس'' سے تھا، بعثت كے بارھويں سال ميں ''عقبہ منا(۱۱) '' ميں رسول خدا (ص) كى ملاقات سے شرف ياب ہوئے ان بارہ اشخاص ميں سے جابر ابن عبداللہ كے علاوہ پانچ افراد وہى تھے جو ايك سال قبل بھى رسول اكرم (ص) كى خدمت ميں حاضر ہونے كا شرف حاصل كرچكے تھے_

ان اشخاص نے دين اسلام قبول كرنے كے بعد پيغمبر اكرم (ص) كے دست مبارك پر ''بيعت نسائ''(۱۲) كے طريقے پر بيعت كى اور عہد كيا كہ خدا كے ساتھ كسى كو شريك نہ ٹھہرائيں گے ، چورى سے باز رہيں گے، زنا كے مرتكب نہ ہوں گے، اپنى اولاد كو قتل نہيں كريں گے، ايك دوسرے پرجھوٹے الزام اوربہتان نہ لگائيں گے نيز كار خير ميں رسول اللہ (ص) كا ہر حكم بجالائيں گے_

رسول خدا (ص) نے معصب ابن عمير كو ان كے ہمراہ يثرب كے طرف روانہ كيا تاكہ وہاں پہنچ كر وہ دين اسلام كى تبليغ كريں اور لوگوں كو قرآن مجيد كى تعليم ديں اس كے ساتھ ہى وہ آنحضرت (ص) كو شہر كى حالت كے بارے ميں اطلاع ديں نيز يہ بتائيں كہ وہاں كے لوگ دين اسلام كا كس طرح استقبال كر رہے ہيں _''مصعب '' وہ پہلے مسلمان مہاجر تھے جو

۱۱۴

يثرب پہنچے اور روزانہ با جماعت نماز كا انہوں نے وہاں انتظام كيا _(۱۳)

دوسرى بيعت عقبہ

يثرب ميں رسول خدا (ص) كے نمائندے كى موجودگى نيزخزرجى اور اوسى قبائل كے افراد كى بے دريغ حمايت اس امر كا باعث ہوئي كہ ان قبائل كے بہت سے لوگ دين اسلام كے شيدائي اور مجذوب ہوگئے_

چنانچہ اسى وجہ سے چوتھے مرحلے اور بعثت كے بارہويں سال ميں تقريباً پانچ سو عورتوں اور مردوں نے خود كو حج كے لئے آمادہ كيا ان ميں تہتر افراد مسلمان اور دو مسلم خواتين شامل تھيں_

قبل اس كے كہ اہل يثرب سفر پر روانہ ہوں ''معصب'' مكہ كى جانب روانہ ہوئے اور اپنے سفر كى پورى كيفيت پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں پيش كي_

يثرب كے مسلمانوں نے مناسك حج (حج كے مخصوص اعمال) انجام دينے كے بعد بارہ ذى الحجہ بوقت نصف شب عقبہ منا ميں رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہونیکا شرف حاصل كيا _

رسول خدا (ص) نے اس مرتبہ ملاقات كے دوران قرآن مجيد كى چند آيات حاضرين كے سامنے تلاوت فرمائيں اور انہيں دين اسلام قبول كرنے كى دعوت دى اس ضمن ميں آنحضرت (ص) نے حاضرين سے فرمايا: '' ميں تم سے اس بات پر بيعت كرتا ہوں كہ جس طرح تم اپنے بيوى بچوں كى حفاظت كرتے ہو ميرى بھى حمايت كروگے ''_ انہوںنے آنحضرت (ص) كى بات سے اتفاق كيا اور يہ عہد كيا كہ وہ آپ (ص) كى حمايت كريں گے آخر ميں رسول خدا (ص) كے

۱۱۵

حكم سے ان ميں سے بارہ افراد''نقيب''(۱۴) مقرر كئے گئے تاكہ وہ لوگ اپنى قوم كے حالات كى نگرانى كرسكيں_

''خزرج'' اور ''اوس'' جيسے طاقتور قبائل كے ساتھ عہدو پيمان استوار كرنے نيز دين اسلام كے لئے جديد مركز قائم ہوجانے كے باعث اب رسول اكرم (ص) اور مسلمانوں كيلئے نئي سازگار صورت حال پيدا ہوگئي تھي_

اس عہد وپيمان كے بعد پيغمبر اكرم (ص) كى جانب سے مسلمانوں كو اجازت دے دى گئي كہ وہ چاہيں تو يثرب كو ہجرت كرسكتے ہيں ، اس ضمن ميں آپ (ص) نے فرمايا :'' خداوند تعالى نے تمہارے لئے ايسے بھائي اور گھر پيدا كرديئےيں جن كى مدد سے تم وہاں امن وامان سے رہوگے_

رسول خدا (ص) كى اجازت ملنے كے بعد مسلمان گروہ در گروہ يثرب كا سفر اختيار كرنے لگے اور اب پيغمبر اكرم (ص) خود بھى حكم خداوندى كے منتظر تھے_(۱۵)

اہل يثرب كے اسلام لانے كے اسباب

يثرب كے لوگ دين اسلام قبول كرنے ميں كيوں پيش پيش رہے اس كى كچھ وجوہات تھيں جو ذيل ميں درج كى جاتى ہيں_

۱_وہ لوگ چونكہ يہوديوں كے نزديك زندگى بسر كر رہے تھے اس لئے پيغمبر اكرم (ص) كے ظہور پذير ہونے كى خبريں اور آنحضرت (ص) كى خصوصيات ان كى زبان سے اكثر سنتے رہتے تھے_ حتى كہ جب كبھى ان كے اور يہوديوں كے درميان كوئي تصادم ہوجاتا تو يہودى ان سے كہا كرتے تھے كہ :

۱۱۶

جلد ہى اس علاقے ميں پيغمبر (ص) كا ظہور ہوگاہم اس كى پيروى كريں گے اور تمہيںقوم ''عاد'' اور ''ارم'' كى طرح تباہ و برباد كر كے ركھ ديں گے_(۱۶)

۲_قبيلہ ''اوس'' اور ''خزرج'' كے درميان سالہا سال سے خانہ جنگى اور قتل و غارت كا سلسلہ چلا آرہا تھا ، اہل يثرب اس داخلى جنگ سے تنگ آچكے تھے دونوں قبائل كے بزرگ اس فكر ميں تھے كہ كوئي ايسى راہ نكل آئے جس كے ذريعے اس مصيبت بھرى صورتحال سے نجات ملے ، رسول خد ا(ص) كى بعثت ان كيلئے درحقيقت اميد بخش خوشخبرى تھى چنانچہ يہى وجہ تھى كہ انہوں نے رسول خدا (ص) سے پہلى ملاقات ميں عرض كيا :

''ہم اپنے قبائل كے افراد كو جنگ ونزاع ميں چھوڑ كر آپ (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے ہيں اميد ہے كہ خداوند تعالى آپ (ص) كے ذريعے ان ميں صلح كرادے اور وہ ايك دوسرے كے ساتھ مل كر زندگى گزاريں_اگر ايسا ہوجائے تو ہمارے نزديك آپ (ص) سے بڑھ كر كوئي شخص عزيز تر نہ ہوگا _(۱۷)

۳_ حقيقت كى جستجو كرنے والوں كى رسول خدا (ص) كى خدمت ميں بار بار حاضري:

اہل يثرب كى زمانہ حج ميں آنحضرت (ص) سے بار بار اور مسلسل ملاقاتيں ' كلام اللہ كى تاثير' پيغمبر (ص) كى معنوى كشش اور ان ملاقاتوں كے دوران آسمانى دين كے بارے ميں آپ (ص) كى سودمند و پر مغز گفتگو اس امر كا باعث ہوئي كہ قبائل ''اوس'' اور ''خزرج'' كے افراد جانب حق كشاں كشاں چلے آئے اور دين اسلام كو انہوں نے خوشى خوشى قبول كرليا_

پيغمبر اكرم (ص) كو قتل كرنے كى سازش

جب مسلمانوں كى غالب اكثريت ''يثرب'' منتقل ہوگئي اور وہ شہر دين اسلام كا جديد

۱۱۷

مركزبن گيا تو قريش كے سردار جو اس وقت تك اس گمان ميں مبتلا تھے كہ رسول خدا (ص) اور اصحاب رسول (ص) ہميشہ ان كى مٹھى ميں رہيں گے اور ايذا وآزار پہنچا كر انہيں كسى بھى وقت فنا كياجاسكتا ہے يہ كيفيت ديكھ كر سخت مضطرب اور پريشان ہوئے، رسول خدا (ص) كے ساتھ اہل يثرب كے دفاعى عہد وپيمان نے بھى ان كے لئے خطرہ كى اہميت اور شدت كو واضح كرديا تھا چنانچہ اب وہ اس كى سنگينى كے بارے ميں سوچنے لگے كيونكہ اب انہيں يہ خوف لاحق تھا كہ كہيں رسول خدا (ص) ان لوگوں كى مدد سے جو آپ (ص) كے ساتھ عہد وپيمان ميں شريك ہيں ان سے انتقام لينے پر كمر بستہ نہ ہوجائيں يا كم از كم''يثرب'' كے علاقے پر غالب آنے كے بعد مسلمان ان كى تجارتى اور معاشى زندگى كو تو تباہ كرہى سكتے ہيں_

ان حالات كے پيش نظر قريش كے سردار ''دارالندوہ ''(۱۸) ميں جمع ہوئے_ طويل بحث وگفتگو اور تبادلہ خيال كے بعد انہوں نے اس رائے سے اتفاق كيا كہ ہر قبيلے سے ايك دلير جوان منتخب كياجائے اور وہ سب مل كر راتوں رات رسول اكرم (ص) كے گھر كا محاصرہ كرليں اور آنحضرت (ص) پر حملہ آور ہوكر آپ (ص) كو قتل كرڈاليں ايسى صورت ميں آپ (ص) كا خون تمام قبائل ميں تقسيم ہوجائے گا اور حضرت عبدمناف كا خاندان قريش كى پورى طاقت كا مقابلہ نہيں كرسكے گا اور اگر انہوں نے خون بہا كا مطالبہ كيا تو سب مل كر اسے ادا كرديںگے_

رسول اكرم (ص) كو وحى كے ذريعے ان كى سازش كے بارے ميں علم ہوگيا تھا چنانچہ آنحضرت (ص) كو حكم ديا گيا كہ ہجرت كر كے يثرب تشريف لے جائيں _قريش نے اپنى پورى طاقت كے ساتھ يكم ربيع الاول كى شب بعثت كے چودھويں سال آپ (ص) كے گھر كا محاصرہ

۱۱۸

كرليا، رسول اكرم (ص) نے حضرت على (ع) سے فرمايا كہ تم ميرے بستر پر آرام كرو اور چادر اپنے سر مبارك پر ڈال لو تاكہ دشمن كو يہ علم نہ ہوسكے كہ آپ (ص) گھر سے تشريف لے جارہے ہيں اس كے بعد آپ (ص) نے مٹھى بھر خاك دست مبارك ميں اٹھائي اور محاصرہ كرنے والوں كے سروں پر پھينك دى اور سورہ يسين كى پہلى نوآيتوںكى تلاوت فرمائي اور گھر سے باہر اس طرح تشريف لے آئے كہ كسى كو آپ(ص) كے وہاں سے جانے كاعلم نہ ہوسكا _

رسول خدا(ص) نے گھر سے باہر تشريف لانے كے بعد شمال كى جانب رخ نہيں فرمايا كيونكہ اس طرف سے ''يثرب '' كا راستہ گزرتا تھا بلكہ اس كے برعكس آپ(ص) نے جنوب مكہ كى راہ اختيار فرمائي اور ابوبكركو لے كر '' غارثور '' ميں تشريف لے گئے_

جب قريش كو يہ علم ہوا كہ رسول خدا(ص) گھر سے باہر تشريف لے گئے ہيں تو وہ شہر مكہ اور'' يثرب'' كى طرف جانے والے تمام راستوں كى نگرانى كرنے لگے _يہى نہيں بلكہ انہوں نے ماہر كھوجيوں كى خدمات بھى حاصل كيں اور يہ اعلان كيا كہ جو شخص بھى آپ(ص) كو گرفتار كر كے لائے گا اسے سو اونٹ بطور انعام ديئے جائيں گے ليكن انہوں نے جس قدر جستجو كى اپنے مقصد ميں كامياب نہ ہوئے چنانچہ تين دن كے بعد تھك ہار كر بيٹھے رہے

رسول اكرم(ص) جتنے عرصے غار '' ثور '' ميں تشريف فرما رہے حضرت على (ع) پيغمبرخدا(ص) اور حضرت ابوبكر كے لئے كھانا پہنچاتے رہے اس كے ساتھ ہى آپ(ع) مكہ كے حالات و واقعات سے بھى آنحضرت(ص) كو مطلع فرماتے رہے(۱۹)

چوتھى رات ميں رسول خدا(ص) حضرت على عليہ السلام كو كچھ خاص ہدايات دے كر انجان راستہ سے يثرب كى طرف روانہ ہوئے _( ۲۰ )

۱۱۹

ہجرت ، انقلاب كى ضرورت

ايمان و جہاد كے ساتھ ساتھ قرآن مجيد ميں جن اہم اور تعميرى اصول و قواعد كا ذكر كيا گيا ہے ان ميں سے ايك ''ہجرت ''بھى ہے(۲۱) _

ہجرت كے معنى ان قيود و بندشوں سے نجات اور رہائي حاصل كر لينا ہے جو انسان كے وجود يا اس كى زندگى كے اطراف ميں موجود ہوتے ہيں ہوا و ہوس اورباطنى آلودگيوں سے دل و دماغ كو پاك كر لينا اور ان سے فراغت پالينا ہى انسان كى ہجرت كا عالى ترين مرحلہ ہے :چنانچہ اس بارے میں رسول خدا(ص) نے فرمايا :

(اَشرَفُ الهجرَة اَن تُهجُرَ السَّيئَات )( ۲۲)

چنانچہ يہى وجہ ہے كہ خداوند تعالى كى جانب سے مقرر كر دہ انبياء ، اولياء اور مصلحين انسانيت نے درجہ كمال پر پہنچنے اور اپنى مقدس آرزؤں كو عملى شكل میں ديكھنے كے لئے '' ہجرت'' كى تحريك كا آغاز ہر گناہ و آلائشے سے اجتناب كے ساتھ كيا _ بعثت كے ابتدائي دنوں ميں نازل نے والى آيتوں میں قرآن مجيد كا ارشاد ہے( ۲۳) كہ :

( يَاأَيُّهَا المُدَّثّرُ (۱) قُم فَأَنذر (۲) وَرَبَّكَ فَكَبّر (۳) وَثيَابَكَ فَطَهّر (۴) وَالرُّجزَ فَاهجُر ) _(۲۴)

''اے اوڑھ لپيٹ كر ليٹنے والے ، اٹھواور ڈرائو اور اپنے كپڑے پاك ركھو اور گندگى سے دور رہو''_

اگلے مرحلے ميں ''آفاقى ہجرت'' كى ہدايت دى گئي ہے يعنى اس مردہ معاشرے سے ہجرت جس ميں كفر كے باعث جمود طارى ہوگيا ہے يہ ہجرت اس ماحول كى جانب ہے جو زندہ وآزاد ہے اور اس كا مقصد عقائد كا تحفظ نيز انقلاب كے اغراض و مقاصد كو حقيقت كى شكل ميں پيش كرنا ہے_

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

امام علیہ السلام سے کہنے لگے : اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے! آپ کہاں جارہے ہیں ! امام علیہ السلام نے انکار کیا اور دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے یہاں تک کہ انھوں نے تازیانہ بلندکر لیا لیکن امام علیہ السلام اپنی راہ پر گامزن رہے۔ جب امام علیہ السلام کو ان لوگوں نے جاتے ہوئے دیکھاتوبلند آوازمیں پکارکر کہا : اے حسین !کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے جو جماعت سے نکل کر اس امت کے درمیان

تفرقہ اندازی کررہے ہو ! ان لوگوں کی باتیں سن کر امام علیہ السلام نے قران مجید کی اس آیت کی تلاوت فرمائی( : لِیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِيْئُوْنَ مِمَّا اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِی ئْ مِمَّا تَعْمَلُوْنَ'' ) (١) و(٢)

اگر وہ تم کو جھٹلائیں تو تم کہہ دو کہ ہمارا عمل ہمارے لئے اور تمہاری کارستانی تمہارے لئے ہے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کے تم ذمہ دار نہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری ہوں ۔

عبداللہ بن جعفر کاخط

چوتھے امام حضرت علی بن حسین بن علی (علیہم السلام) کا بیان ہے کہ جب ہم مکہ سے نکل رہے تھے تو عبداللہ بن جعفربن ابیطالب(٣) نے ایک خط لکھ کر اپنے دونوں فرزندوں عون و محمد(٤) کے ہمراہ روانہ کیا جس کی عبارت یہ ہے:

____________________

١۔ سورہ ٔیونس ٤١

٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٨٥،ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے ۔

٣۔ آپ جنگ جمل میں امیر المومنین کے لشکر میں تھے اور عائشہ کو مدینہ پہنچانے میں آپ نے آنحضرت کی مدد فرمائی تھی ۔(طبری، ج٤، ص٥١٠)آپ کی ذات وہ ہے جس سے حضرت امیر المومنین کوفہ میں مشورہ کیا کرتے تھے۔ آ پ ہی نے حضرت کو مشورہ دیا تھا کہ محمد بن ابی بکر جو آپ کے مادری بھائی بھی تھے، کو مصر کا والی بنادیجئے۔ (طبری ،ج٤، ص ٥٥٤)آپ جنگ صفین میں بھی حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور آپ کے حق میں بڑھ بڑھ کر حملہ کررہے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٤٨)بنی امیہ کے خلاف امام حسن علیہ السلام کے قیام میں بھی آپ ان کے مدد گار تھے (طبری ،ج٥،ص ١٦٠) اور جب صلح کے بعد سب مدینہ لوٹنے لگے تو دونو ں امامو ں کے ہمراہ آپ بھی مدینہ لوٹ گئے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٦٥) آپ کے دونو ں فرزند عون و محمد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ جب آپ تک ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا :''واللّه لو شهدته ،لأ حببت الّا أفارقه حتی أقتل معه'' خداکی قسم اگر میں موجود ہوتا تو واقعاً مجھے یہ محبوب تھا کہ میں ان سے جدا نہ ہو ں یہا ں تک کہ ان کے ہمراہ قتل ہوجاؤ ں ۔ (طبری ج٥ ، ص ٤٦٦)

٤۔یہ دونو ں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلامیں جام شہادت نوش فرماکرسرفراز ہوئے۔ طبری کے بیان کے مطابق عون کی ما ں جمانہ بنت مسیب بن نجبہ بن فزاری ہیں (مسیب بن نجبہ توابین کے زعماء میں شمار ہوتے ہیں ) اور محمد کی ما ں خو صاء بنت خصفہ بنت ثقیف ہیں جو قبیلہ بکربن وائل سے متعلق ہیں ۔

۲۲۱

'' امابعد ، فانّی أسألک باللّه لمّا انصرفت حین تنظر فی کتابی فانّی مشفق علیک من الوجه الذی تتوجه له أن یکون فیه هلاکک واستئصال اهل بیتک ، أن هلکت الیوم طفیٔ نور الارض فانک علم المهتدین ورجاء المؤمنین، فلا تعجل بالسیر فانّی فی أثر الکتاب؛ والسلام ''

اما بعد : جب آپ کی نگاہ میرے خط پر پڑے تو میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے ؛کیو نکہ آپ نے جس طرف کا رخ کیا ہے مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلا کت اور آپ کے خاندان کی اسیری ہے اور اگر آپ دنیا سے گذرگئے تو زمین کا نور خاموش ہو جا ئے گا؛ کیوں کہ آپ ہدایت یافتہ افراد کے پر چمدار اور مو منین کی امید ہیں ؛ لہٰذا آپ سفر میں جلدی نہ کریں ۔ میں اس خط کے پہنچتے پہنچتے آپ کی خدمت میں شر فیاب ہو رہا ہوں ۔ والسلام

عبد اللہ بن جعفر اس خط کے فوراًبعد عمرو بن سعید بن عاص کے پاس گئے اور اس سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا : حسین (علیہ السلام) کو ایک خط لکھو جس میں تم ان کے امن وامان کا تذکرہ کرو ، اس میں ان سے نیکی اور صلہ رحم کی تمنا وآرزو کرو اور اطمینان دلا ؤ، ان سے پلٹنے کی درخواست کرو، شائد وہ تمہاری باتوں سے مطمئن ہو کر پلٹ آئیں اور اس خط کو اپنے بھائی یحٰی بن سعید کے ہمراہ روانہ کرو؛ کیو نکہ وہ زیادہ سزاوار ہے کہ اس سے وہ مطمئن ہوں اور ان کو یقین ہو جا ئے کہ تم اپنے قصد میں مصمم ہو۔عمر وبن سعید نے عبد اللہ بن جعفر کو جواب دیتے ہو ئے کہا : تم جو چا ہتے ہو لکھ کر میرے پاس لے آؤ میں اس پر مہر لگا دوں گا، بنابر یں عبد اللہ بن جعفر نے اس طرح نامہ لکھا :

بسم اللہ الر حمن الر حیم ،یہ خط عمر وبن سعید کی جانب سے حسین بن علی کے نام ہے ۔

اما بعد : میں خدا وند متعال سے در خواست کر تا ہوں کہ آپ کو ان چیزوں سے منصرف کر دے جس میں آپ کا رنج و ملال ہے اور جس میں آپ کی ہدایت ہے اس طرف آپ کو سر فراز کرے ۔مجھے خبر ملی ہے کہ آپ نے عراق کا رخ کیا ہے ۔

خداوند عالم آپ کو حکومت کی کشمکش او رمخالفت سے محفو ظ رکھے؛ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلاکت ہے۔ میں آپ کی طرف عبداللہ بن جعفر اور یحٰبن سعید کوروانہ کررہا ہوں ؛آپ ان دونوں کے ہمراہ میرے پاس تشریف لے آئیے کیونکہ میرے پاس آپ کے لئے امان ، صلہ رحم ، نیکی اورخانہ خداکے پاس بہترین جائیگاہ ہے۔ میں خداوند عالم کو اس سلسلے میں گواہ ، کفیل ، ناظر اور وکیل قر ار دیتاہوں ۔ والسلام

۲۲۲

خط لکھ کر آپ اسے عمر و بن سعید کے پاس لے کر آئے اور اس سے کہا: اس پر مہر لگاؤ تواس نے فوراًاس پر اپنی مہر لگادی اور اس خط کو لے کرعبداللہ بن جعفر اور یحٰی امام علیہ السلام کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر آپ کی خدمت میں یحٰی بن سعیدنے خط پڑھا تو امام حسین علیہ السلام نے عمر و بن سعید کو خط کا جواب اس طرح لکھا:

بسم اللّہ الرحمن الرحیم

امابعد، فانه لم یشاقق الله ورسوله من دعاالی اللّٰه عزَّو جلَّ وعمل صالحاًو قال أنّنی من المسلمین؛وقد دعوت الیٰ الامان والبرّو الصلة فخیرالامان امان الله ولن یؤمّن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا، فنسأل اللّٰه مخافة فی الدنیاتوجب لنا أمانه یو م القیامة فان کنت نویت بالکتاب صلتی و برّی فجُزیتَ خیراًفی الدنیاوالآخرة ۔ والسلام

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ، امابعد،ہر وہ شخص جو لوگوں کو خدائے عزّو جلّ کی طرف دعوت دیتاہے اور عمل صالح انجام دیتاہے اور کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو وہ خدااور رسول کی مخالفت نہیں کرتا ہے اور تم نے جو مجھے امان ، نیکی اور صلہ رحم کی دعوت دی ہے تو جان لو کہ بہترین امان خداوندمتعال کی امان ہے اور قیامت میں وہ شخص اللہ کی امان میں نہیں ہے جو دنیا میں اللہ سے نہیں ڈرتا ۔میں دنیامیں خدا سے اس خوف کی درخواست کرتا ہوں جو آخرت میں قیامت کے دن ہمارے لئے اما ن کا باعث ہو۔اب اگر تم نے اپنے خط کے ذریعہ میر ے ساتھ صلہ رحم اور نیکی کی نیت کی ہے تو تم کو دنیاوآخر ت میں اس کی جزا ملے گی۔

۲۲۳

وہ دونوں امام علیہ السلام کا جواب لے کرعمرو بن سعید کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہم دونوں نے تمہارے خط کو ان کے سامنے پڑھا اور اس سلسلے میں بڑی کو شش بھی کی لیکن اس سلسلہ میں ان کا عذر یہ تھا کہ وہ فر ما رہے تھے :'' انّی رأیت رؤیاً فیهارسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه (وآله) وسلم وأُمرتُ فیها بأ مرٍأنا ما ضٍ له، علیّ کان أولٰ''

میں نے ایک ملکو تی خواب دیکھا ہے جس میں رسو ل خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم موجو د تھے۔ اس خوا ب میں آپ نے مجھ کو ایک چیز کا حکم دیا گیا ہے۔میں اس پر ضرور عمل کروں گا اور یہ مجھ پر سب سے زیادہ اولیٰ ہے۔

جب ان دونوں نے امام علیہ السلام سے پوچھا کہ وہ خواب کیا تھا ؟تو آپ نے فر مایا :'' ما حدثت بها أحداً وما أنا محدّ ث بها حتی ألقی ربِّی'' (١) اور(٢) میں یہ خواب کسی سے بیان نہیں کرسکتا اور نہ ہی میں یہ خواب کسی سے بیان کرنے والا ہوں یہاں تک کہ اپنے رب سے ملا قات کر لوں ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے علی بن الحسین (علیہما السلام) کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٨٨)

٢۔امام علیہ السلام یہ مناسب نہیں دیکھ رہے تھے کہ اپنے سفر کے رازسے سب کو آشنا کر تے کیو نکہ انسان جوکچھ جا نتا ہے وہ سب بیان نہیں کر دیتا ہے خصوصاً جبکہ انسان ظرف و جودکے لحاظ سے مختلف و متفاوت ہو ں اور امام علیہ السلام پر واجب ہے کہ ہر شخص کو اس کے وجود کی وسعت اور معرفت کی گنجا ئش کے اعتبار سے آشنائی بہم پہنچائی ں ، اسی لئے امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو ایک واقعی جو اب دیدیا کہ''لم یشا قق الله ورسوله من دعا الی اللّٰه وعمل صالحاً ...وخیر الا مان أمان اللّٰه و لن یؤمن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا فنسأل اللّٰه مخافةفی الدنیا تو جب لنا أما نه یوم القیامه ''

اور جب وہ لوگ اس جواب سے قانع نہ ہو ئے تو امام علیہ السلام نے کہہ دیاکہ آپ کو ایک ایسے خواب میں حکم دیا گیا ہے جس میں خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود تھے کہ آپ اپنے سفر کو جاری رکھی ں ؛ لیکن آپ نے اس خواب کو بیان نہیں کیا اور یہ کہہ کربات تمام کردی : ''وما أنا محدث لها حتی ألقی ربی ''

شاید یہیں پرا حمد بن اعثم کوفی متوفی ٣١٠ ھ نے امام علیہ السلام کے اس خواب کا تذکر ہ کر دیا ہے جو آپ نے اپنے جد کی قبر پر مد ینہ میں دیکھا تھا لیکن یہ کیسے معلوم کہ یہ خواب وہی ہے ؟ جب امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ خواب خدا کی ملا قات سے قبل میں کسی سے بھی بیان نہیں کرو ں گا یعنی یہ وہی بات ہے جس کا میں نے عہد کیا ہے ۔ واللہ اعلم بہ ، اللہ اس سے بہتر آگاہ ہے۔

۲۲۴

راستہ کی منزلیں

* پہلی منزل: تنعیم

* دوسری منزل : صفاح

*تیسری منزل : حاجر

* چوتھی منزل:چشمۂ آب

* پانچویں منزل : خزیمیہ

* زہیر بن قین کا امام علیہ السلام سے ملحق ہونا

* ایک اور نامہ

* چھٹی منزل :زرود

* ساتویں منزل :ثعلبیہ

* آٹھویں منزل:زبالہ

* نویں منزل : درّہ عقبہ

* دسویں منزل : شراف

* گیارہویں منزل : ذو حسم

* بارہویں منزل : البیضہ

* تیرہویں منزل : عذیب الھجانات

* چودہویں منزل : قصر بنی مقاتل

* قربان گاہ عشق نینوا

۲۲۵

راستہ کی چودہ (١٤)منزلیں

پہلی منزل :تنعیم(١)

امام حسین علیہ السلام نے اپنے سفرکو جاری رکھااورراستہ میں آپ کا گذرایک ایسی جگہ سے ہوا جسے تنعیم کہتے ہیں ۔ وہاں آپ کی ملاقات ایک قافلہ سے ہوئی جسے بحیر بن ریسان حمیر ی(٢) نے یزید بن معاویہ کی طرف روانہ کیا تھا۔ یہ شخص یمن میں یزید کاکار گزار تھا۔ اس قافلہ کے ہمراہ الورس(٣) اور بہت سارے شاہانہ لباس تھے جسے عامل یمن نے یزید کے پاس روانہ کیا تھا۔امام علیہ السلام نے اس کا روان کے سارے بار کو اپنی گرفت میں لے لیا اور قافلہ والوں سے فرمایا :''لا أکر هکم من أحب أن یمضی معنا الی العراق أوفینا کراء ه وأحسنا صحبته، ومن أحب أن یفارقنا من مکاننا هذا أعطیناه من الکراء علیٰ قدر ماقطع من الارض''

____________________

١۔یہ مکہ سے دوفرسخ پر ایک جگہ ہے جیساکی معجم البلدان ج٢،ص٤١٦پر مرقوم ہے ۔ مکہ کے داہنی جانب ایک پہاڑہے جسے تنعیم کہتے ہیں اور شمالی حصہ میں ایک دوسراپہاڑہے جسے ''ناعم ''کہتے ہیں او راس وادی کو ''نعیمان''کہتے ہیں ۔وہا ں پر ایک مسجد موجود ہے جو قر یب ترین میقات اورحرم سے نزدیک ترین احرام سے باہر آنے کی جگہ ہے آج کل یہ جگہ مکہ کے مرکزی علاقہ سے ٦ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے جس کا مطلب یہ ہو ا کہ ایک فرسخ ہے نہ کہ دو فرسخ ۔ اس وقت شہر سے لے کر یہا ں تک پورا ایک متصل اور وسیع علاقہ ہے جو مدینہ یا جدہ سے مکہ آنا چاہتا ہے اسے ادھر ہی سے ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔

٢۔گویایہ وہی شخص ہے جو علم نجوم میں صاحب نظر تھاکیونکہ اس نے عبداللہ بن مطیع کو بتایا تھا کہ جب ابن زبیر قیام کرے گا تو وہ کوفہ کاوالی بنے گا۔(طبری ،ج٦، ص ٩) طاوؤ س یمانی جو بہت معروف ہیں اس شخص کے آقا تھے۔طاوؤ س یمانی نے مکہ میں ١٠٥ھ میں وفات پائی۔(طبری، ج٦، ص٢٩)

٣۔ الورس؛ یہ خاص قسم کی گھاس ہے جو تل کی طرح ہوتی ہے اور رنگ ریزی کے کام آتی ہے اور اس سے زعفران بھی بنایا جاتا ہے۔ یہ گھاس یمن کے علاوہ کہیں بھی نہیں ملتی ہے۔

ممکن ہے کہ بادی النظر فکر میں کسی کو امام علیہ السلام کا یہ فعل العیاذباللہ نا مناسب لگے کہ آپ نے درمیان سے قافلہ کے بار کو اپنی گرفت میں کیو ں لیا؟ یہ تو غصب ہے لیکن وہ افراد جو تاریخ کی ابجد خوانی سے بھی واقف ہو ں گے وہ بالکل اس کے برعکس فیصلہ کری ں گے۔ ہمارے عقیدہ کے مطابق تو امام علیہ السلام کا کام غلط ہوہی نہیں سکتا، انھو ں نے جو کیا وہی حق ہے لیکن ایک غیر کے لئے تا ریخ کی ورق گردانی کافی ہوگی اور جب وہ تاریخ کے اوراق میں امام حسن علیہ ا لسلام کی صلح کے شرائط پر نگاہ ڈالے گا تو ظاہری اعتبار سے بھی یزید کا تخت حکومت پر براجمان ہونا غلط ثابت ہوگا اور وہ ایک باغی شمار کیا جائے گا جس نے مسلمانو ں کے بیت المال کو غصب کیاہے اور امام حسین علیہ السلام امت مسلمہ کے خلیفہ قرار پائی ں گے جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی ہر ممکن کوشش صرف کرکے اس غاصب و باغی تک اموال مسلمین پہنچنے سے مانع ہو ں پس یمن کے اس قافلہ کو روک کر اموال کو اپنی گرفت میں لینا امام علیہ السلام کا اولین فریضہ تھا لہٰذا ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے قافلہ والو ں سے بڑی دلنشین گفتگو کی جب کہ ظالم وجابر حکومت کی نگاہ میں ایسے افراد لائق گردن زدنی یا قابل قید و بندہوتے ہیں ۔(مترجم)

۲۲۶

میں تم لوگوں پر کوئی زبر دستی نہیں کرتا لیکن تم میں جو یہ چاہتا ہے کہ ہمارے ساتھ عراق چلے تو ہم اس کو کرایہ سفر بھی دیں گے اور اس کی ہمراہی کو خوش آمدید بھی کہیں گے اور جو ہم سے یہیں سے جدا ہونا چاہتا ہے اسے بھی ہم اتنا کرایہ سفر دے دیں گے کہ وہ اپنے وطن تک پہنچ جائے ۔

امام علیہ السلام کی اس دلنشین گفتار کے بعد جو بھی اس قافلہ نور سے جدا ہوا اسے امام علیہ السلام نے اس کا حق دے دیا اور جس نے رکنا چاہا اسے کرایہ دینے کے علاوہ اما م علیہ السلام نے لباس بھی عطا کیا۔(١)

دوسری منزل : الصفاح(٢)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل اسدی کا بیان ہے کہ پہلی منزل سے چلنے کے بعدہم لوگ امام حسین علیہ السلام کے قافلہ کے ہمراہ دوسری منزل پر پہنچے جسے '' الصفاح '' کہتے ہیں اور وہاں ہماری ملاقات فرزدق بن غالب(٣) شاعر سے ہوئی۔ وہ حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا: خدا وند متعال آپ کی حاجت کو پورا کرے اور آ پ کی تمنا و آرزو کو منزل مراد تک پہنچائے ۔

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری،ج٥، ص ٣٨٥)

٢۔یہ جگہ حنین اور انصاب الحرم کے درمیان ہے جو بہت آ سانی سے مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے ۔

٣۔ اس شخص کا نام ھمام بن غالب بن صعصہ ہے۔ ان کے دونو ں چچا'' ذھیل'' اور ''زحاف ''بصرہ میں زیاد بن سمیہ کے دیوان میں دو دو ہزار بخشش لیا کرتے تھے ۔انھو ں نے بنی نہشل اور فقیم کی ہجو میں اشعار کہے تو ان دونو ں نے زیاد سے جا کر ان کی

۲۲۷

شکایت کی ۔جب اس نے فرزدق کو طلب کیا تویہ وہا ں سے بھاگ گئے۔ اس کے بعد نوبت یہ آ گئی جب زیاد بصرہ آتا تھا تو فرزدق کوفہ آجاتے تھے اور جب وہ کوفہ آتا تھا تو فرزدق بصرہ روانہ ہوجاتے تھے۔ واضح رہے کہ زیاد ٦ مہینہ بصرہ رہتا تھااور ٦ مہینہ کوفہ کے امور سنبھالتا تھا۔ اس کے بعد یہ حجاز چلے گئے اور وہیں مکہ ومدینہ میں رہنے لگے۔اس طرح زیاد کی شرارتو ں سے بچ کر سعید بن عاص کی پناہ میں رہنے لگے یہا ں تک کہ زیاد ہلاک ہوگیا(طبری، ج٥، ص ٢٤٢، ٢٥٠)تو انھو ں نے اس کی ہجو میں مرثیہ کہا :

بکیت امرئً امن آ ل سفیان کافراً ککسری علی عدوانہ أو کقیصراً (طبری، ج٥،ص ٢٩٠)میں نے آل سفیان کے ایک مرد پر گریہ کیا جو کافر تھا جیسے قیصر و کسری اپنے دشمن پر روتے ہیں ۔

ابن زیاد کی ہلاکت کے بعد یہ دوبارہ بصرہ پلٹ گئے اور وہیں رہنے لگے۔ ٦٠ھمیں یہ اپنی ما ں کے ہمراہ حج پر آ رہے تھے جب ان کی امام حسین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی شاید اسی لئے حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا میں حاضری نہ دے سکے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٨٦) انھو ں نے حجاج کے لئے بھی شعر کہے ہیں ۔(طبری ،ج٦،ص ٣٨٠و ٩٣٩٤) سلیمان بن عبدالملک کے محل میں بھی ان کی آمد ورفت تھی۔ (طبری ،ج٥، ص ٥٤٨)١٠٢ھ تک یہ شاعر زندہ رہے۔(طبری ،ج٥، ص ٢٤٢ ، ٢٥٠) بنی نہشل کی ہجو میں جب انھو ں نے اشعار کہے تھے تو یہ جوان تھے بلکہ ایک نوجوان اعرابی تھے جو دیہات سے آئے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٢٤٢) ایسی صورت میں امام علیہ السلام سے ملاقات کے وقت ان کی عمر ٣٠سال سے کم تھی۔

امام علیہ السلام نے اس سے کہا :''بيّن لنا نبأ الناس خلفک'' تم جس شہر اور جہا ں کے لوگو ں کو اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو ان کی خبری ں ہمارے لئے بیان کرو ۔فرزدق نے کہا : آ پ نے واقف کار شخص سے سوال کیا ہے تو سنئے :'' قلوب الناس معک ''لوگو ں کے دل آپ کے ساتھ ہیں ''و سیوفهم مع بنی امیه'' اور ان کی تلواری ں بنی امیہ کے ساتھ ہیں'' والقضاء ینزل من السمائ'' لیکن فیصلہ و قضا تو خدا وند عالم کی طرف سے ہے ''واللّہ یفعل ما یشائ'' اور اللہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔

۲۲۸

امام حسین علیہ السلام نے ان سے کہا : تم نے سچ کہا، اللہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے ؛ہمارے رب کی روزانہ اپنی ایک خاص شان ہے لہٰذا اگر اس کا فیصلہ ایسا ہوا جو ہمیں محبوب ہے تو اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں گے اور شکر کی ادائیگی میں وہ ہمارا مدد گا ر ہے اور اگرفیصلہ الہٰی ہماری امیدوں کے درمیان حائل ہوگیا تب بھی اس شخص کے لئے کچھ نہیں ہے جس کی نیت حق اور جس کی سرشت تقویٰ ہے۔ یہ کہہ کر امام علیہ السلام نے اپنی سواری کو حرکت دی تو انھوں نے امام کو سلام کیا اور دونوں جدا ہوگئے۔(١) و(٢) جب عبیداللہ بن زیاد کو خبر ملی کہ امام حسین علیہ السلام مکہ سے عراق کی طرف آرہے ہیں تو اس نے اپنی پولس کے سربراہ حصین بن تمیم تمیمی کو روانہ کیا۔ اس نے مقام قادسیہ میں آکر پڑاؤ ڈالا اور قادسیہ(٣) و خفا ن(٤) کے درمیان اپنی فوج کو منظم کیا اسی طرح قادسیہ اور قطقطانہ(٥) اورلعلع کے درمیان اپنی فوج کو منظم کرکے کمین میں لگادیا۔(٦)

____________________

١۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ ابی جناب نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٨٦) یہ بیان اس بیان سے میل نہیں کھاتا جو ان دونو ں سے عنقریب بیان ہو گا کہ یہ دو نو ں کہتے ہیں کہ ہم لوگ مقام '' زرود میں امام علیہ السلام سے ملحق ہوئے اور یہ منزل صفاح کے بعد کوفہ کے راستہ میں چندمنازل کے بعد ہے مگر یہ کہا جائے کہ ان کے قول''اقبلنا حتی انتھینا ''کا مطلب یہ ہوکہ ہم لوگ کوفہ سے روانہ ہوکر صفاح تک پہنچے جو مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے پھر مناسک حج انجام دینے کے بعد منزل زرود میں امام علیہ السلام سے دوبارہ ملحق ہوگئے ۔

٢۔طبری نے کہا : ہشام نے عوانہ بن حکم کے حوالے سے، اس نے لبطہ بن فرزدق بن غالب سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ اس کے باپ نے کہا : میں نے ٦٠ھ میں حج انجام دیا اور ایام حج میں حرم میں داخل ہو ا تو دیکھا حسین بن علی مکہ سے نکل رہے ہیں میں ان کے پاس آیا اورعرض کی: بأبی أنت و أمی یا بن رسول اللّٰہ! ما اعجلک عن الحج؟ فرزند رسول خدا میرے ما ں باپ آپ پر قربان ہوجائی ں !آپ کو اتنی بھی کیا جلدی تھی کہ آپ حج چھوڑ کر جارہے ہیں ؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا : لو لم أعجل لأْ خذت اگر میں جلدی نہ کرتا تو پکڑ لیا جاتا ۔ فرزدق کہتا ہے کہ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا ممن أنت ؟تم کہا ں کے رہنے والے ہو ؟ تو میں نے جواب دیا : میں عراق کا رہنے والا ایک شخص ہو ں ؛ خدا کی قسم !اس سے زیادہ انھو ں نے میرے بارے میں تفتیش نہیں کی ؛ بس اتنا فرمایا : جن لوگو ں کو تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو مجھے ان کی خبر بتاؤ تو میں نے کہا: انکے قلوب آپ کے ساتھ ہیں اور تلواری ں بنی امیہ کے ہمراہ ہیں اور قضاء اللہ کے ہاتھ میں ہے۔آپ نے مجھ سے فرمایا : تم نے سچ کہا! پھر میں نے نذر اور مناسک حج کے سلسلہ میں کچھ سوالات کئے تو آپ نے اس کے جواب سے مجھے بہرہ مند فرمایا۔(طبری، ج٥، ص ٣٨٦)

٣۔قادسیہ او ر کوفہ کے درمیان ١٥ فرسخ کی مسافت ہے اور اس کے وعذیب کے درمیان ٤میل کا فاصلہ ہے اور اسے دیوانیہ کہتے ہیں ۔ حجاز کے دیہات کی طرف یہ(قادسیہ) عراق کا سب سے پہلا بڑاشہر ہے۔ اسی جگہ پر عراق کی سب سے پہلی جنگ بنام جنگ قادسیہ سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں ہوئی ہے ۔

٤۔ یہ ایک قریہ ہے جو کوفہ سے نزدیک ہے جہا ں بنی عباس کا ایک پانی کاچشمہ ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٣ ، ص٤٥١ پر موجود ہے ۔

٥۔ قطقطانہ ، رہیمہ سے کوفہ کی طرف تقریباً ٢٠میل کے فاصلہ پرہے۔ (طبری، ج٧ ، ص ١٢٥) یعقوبی کا بیان ہے : جب امام علیہ السلام کومسلم کی شہادت کی خبر ملی تو آپ قطقطانہ میں تھے۔ (طبری، ج٢، ص ٢٣٠)

٦۔ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یونس بن ابی اسحاق سبیعی نے اس کی روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٤)

۲۲۹

تیسری منزل : حاجر(١)

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے مقصد کی طرف روانہ ہوتے ہوئے حاجر بطن رمہ(٢) تک پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے قیس بن مسہر صیداوی کو اہل کوفہ کی طرف روانہ کیا اور ان کے ہمراہ اہل کوفہ کے نام ایک خط لکھا :

''بسم اللّه الرحمن الرحیم ! من الحسین بن علی الی اخوانه من المومنین و المسلمین، سلام علیکم : فانّی أحمد الیکم اللّٰه الذی لا اله الا هو ، أما بعد ، فان کتاب مسلم بن عقیل جاء ن یخبرن فیه بحسن رأیکم و اجتماع ملئکم علی نصرنا و الطلب بحقنا فسألت اللّٰه أن یحسن لنا الصنع وأن یثیبکم علی ذالک أعظم الاجر ، وقدشخصت من مکة یوم الثلاثاء لثمان مضین من ذی الحجه یوم التروية فاذا قدم علیکم رسول فا کمشوا أمرکم و جدّ وا، فان قادم علیکم فأیام هٰذه، ان شاء اللّٰه؛ والسلام علیکم ورحمة اللّه وبرکا ته ''

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ! یہ خط حسین بن علی کی جانب سے اپنے مومنین و مسلمین بھائیوں کے نام، سلام علیکم ، میں اس خدا کی حمد و ثنا کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔امابعد ، حقیقت یہ ہے کہ مسلم بن عقیل کا خط مجھ تک آچکا ہے، اس خط میں انھوں نے مجھے خبر دی ہے کہ تم لوگوں کی رائے اچھی ہے اور تمہارے بزرگوں نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ وہ ہماری مدد کریں گے اور ہمارے حق کو ہمارے دشمنوں سے واپس لے لیں گے تو میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہمارے لئے اچھی راہ قرار دے اور اس کے ثواب میں تم لوگوں کو اجرعظیم سے نوازے ۔

____________________

١ ۔حاجرنجد کی بلند وادی کو کہتے ہیں ۔

٢۔ بطن رمہ وہ جگہ ہے جہا ں اہل کو فہ و بصرہ اس وقت یکجا ہوتے تھے جب وہ مدینہ جانے کا ارادہ کرتے تھے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٤،ص ٢٩٠،اور تاج العروس، ج ٣،ص١٣٩پر مرقوم ہے۔

۲۳۰

اس سے تم لوگ آگاہ رہوکہ میں بروز سہ شنبہ ٨ ذی الحجہ یوم الترویہ مکہ سے نکل چکا ہوں لہذا جب میرا نامہ بر تم لوگوں تک پہنچے تو جو کام تم کو کرنا چاہئیے اس کی تدبیر میں لگ جاؤ اور اس مسئلہ میں بھر پور کوشش کرو کیونکہ میں انشا ء اللہ انہی چند دنوں میں تم تک پہنچنے والا ہوں ۔ والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

امام حسین علیہ السلام کا یہ خط لے کر قیس بن مسہر صیداوی کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے۔آپ جب قادسیہ پہنچے تو حصین بن تمیم نے آپ کو گرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا ۔

ابن زیاد نے آپ سے کہا محل کی چھت پر جاؤ اور کذاب بن کذاب کو گالیاں دو !

قیس بن مسہر شجاعت وشہا مت کے ساتھ محل کی چھت پر آئے اور کہا :'' أیھا الناس ! ان الحسین علیہ السلام بن علی خیر خلق اللّٰہ ابن فاطمہ بنت رسول اللہ وأنا رسولہ الیکم وقد فارقتہ بالحاجر فأجیبوہ ثم لعن عبید اللہ بن زیاد وأباہ واستغفر لعلیِّ بن أبی طالب '' اے لوگو ! حسین بن علی خلق خدا میں بہتر ین مخلوق ہیں ، آپ فرزند فاطمہ بنت رسول خدا ہیں اور میں ان کا نامہ بر ہوں ، میں ان کو مقام حاجر میں چھوڑ کر یہاں آیا ہوں ۔ تم لوگ ان کی عدالت خواہ آواز پر لبیک کہنے کے لئے آمادہ ہو جاؤ پھر آپ نے عبید اللہ اور اس کے باپ پر لعنت کی اور علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کے لئے طلب مغفرت کی۔عبید اللہ نے حکم دیا کہ انھیں محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا جائے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔اس طرح آپ شہید ہو گئے ۔] اللہ آپ پر نزول رحمت فر مائے[(١)

چو تھی منزل : چشمۂ آب

امام حسین علیہ السلام کا قافلہ کوفہ کی طرف رواں دواں تھا؛ راستے میں آپ کا قافلہ عرب کے ایک پا نی کے چشمہ کے پاس جا کر ٹھہرا۔ وہاں عبد اللہ بن مطیع عدوی بھی موجود تھے جو پا نی لینے کی غرض سے وہاں اترے تھے۔جیسے ہی عبد اللہ بن مطیع نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا ویسے ہی آپ کی خدمت میں

____________________

١۔ کتاب کے مقدمہ میں شرح احوال موجود ہے۔

۲۳۱

آکر کھڑے ہو گئے اور عرض کی: فرزند رسول خدا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں !کون سا سبب آپ کو یہاں تک لے آیا ؟

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : اہل عراق نے خط لکھ کر مجھے اپنی طرف بلا یا ہے۔عبد اللہ بن مطیع نے آپ سے عرض کیا: فرزند رسول اللہ آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ اس راہ میں آپ اسلام کی ہتک حرمت نہ ہو نے دیں ، میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ(وآلہ) وسلم کی حرمت خطرے میں نہ پڑے ،خدا کے لئے عرب کی حرمت خطرے میں نہ ڈالئے۔خدا کی قسم! اگر حق کو بنی امیہ سے واپس لینا چاہیں گے تو وہ آپ کو قتل کر ڈالیں گے اور اگر ان لوگوں نے آپ کو قتل کردیا تو آپ کے بعد کسی کو نگا ہ میں نہیں لا ئیں گے ۔(١) خدا کی قسم! اسلام کی حرمت، قریش کی حرمت ہے اورعربوں کی حرمت خاک میں مل جائے گی ،پس آپ ایسا نہ کریں اور کوفہ نہ جائیں اور بنی امیہ سے نہ الجھیں !عبد اللہ بن مطیع نے اپنے نظر یہ کو پیش کیا اور امام علیہ السلام اسے بغور سنتے رہے لیکن اپنے راستے پر چلتے رہے۔

پانچو یں منزل:خزیمیہ(٢)

امام حسین علیہ السلام کا سفر اپنے مقصد کی طرف جاری تھا۔ چلتے چلتے پھر ایک منزل پررکے جو مقام '' زرود'' سے پہلے تھی یہاں پر پانی موجود تھا،(٣) اس جگہ کا نام خزیمیہ ہے ۔

____________________

١۔ امام کے عمل سے نہ تو اسلام کی بے حرمتی ہوئی نہ ہی رسول خدا ، عرب اور قریش کی ہتک حرمت ہوئی بلکہ اسلام دشمن عناصر کی کا رستا نیو ں سے یہ سب کچھ ہوا ۔ابن مطیع نے اپنے اس جملہ میں خطا کی ہے جو یہ کہہ دیا کہولئن قتلوک لا یها بون بعد ک احداابدا کیونکہ امام علیہ السلام کے بعد ان لوگو ں کو جرأ ت ملی جو مکہ ومدینہ وکوفہ میں اس سے پہلے اپنے ہاتھو ں میں چوڑیا ں پہنے بیٹھے تھے انھی ں میں سے خود ایک ابن مطیع بھی ہے جو ابن زبیر کے زمانے میں کوفہ کا والی بنا۔ اگر امام حسین علیہ السلام نے قیام نہ کیا ہوتا تو بنی امیہ کے خلا ف کسی میں جرأ ت پیدا نہ ہوتی اور اسلام کو مٹا نے میں وہ جو چاہتے وہی کرتے ۔

٢۔یہ جگہ مقام زرود سے پہلے ہے اس کے بعدکاراستہ کوفہ جانے والو ں کے لئے ہے جیسا کہ معجم البلدان میں آیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے اس کے اورثعلبیہ کے درمیان ٣٢کیلومیٹرکا فاصلہ ہے۔ یہ درحقیقت ثعلبیہ کے بعدحجاج کی پہلی منزل ہے۔

٣۔ طبری ،ج٥،ص ٣٩٤، ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے محمد بن قیس نے یہ روایت بیان کی ہے ۔شاید یہ قیس بن مسہر کے فرزند ہیں ۔

۲۳۲

زہیر بن قین کا امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہونا

قبیلہء بنی فنرارہ کے ایک مرد کا بیان ہے : ہم زہیر بن قین بجلی کے ہمراہ تھے اور ہم اسی راستے پر چل رہے تھے جس راستہ پر حسین (علیہ السلام) محو سفر تھے لیکن ہمارے لئے سب سے زیادہ نا پسند امر یہ تھا کہ ہم ان کے ہمراہ ایک ساتھ سفر کریں اور ایک منزل پر ٹھہریں لہٰذ ا زہیر کے حکم کے مطا بق حسین جہاں ٹھہر تے تھے ہم وہاں سے آگے بڑھ جا تے اور وہ جہاں پر آگے بڑھتے ہم وہاں پڑاؤ ڈال کر آرام کرتے تھے؛ لیکن راستے میں ہم ایک ایسی منزل پر پہنچے کہ چارو نا چار ہم کو بھی وہیں پر رکنا پڑا جہاں پر امام حسین نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ امام حسین نے ایک طرف اپنا خیمہ لگا یا اور ہم نے اس کے دوسری طرف ؛ ہم لوگ ابھی بیٹھے اپنے خیمے میں کھا نا ہی کھا رہے تھے کہ یکایک حسین کا پیغام رساں حاضر ہوا اور اس نے سلام کیاپھر خیمہ میں داخل ہوا اور کہا : اے زہیر بن قین ! ابو عبد اللہ حسین بن علی نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے تا کہ تم ان کے پاس چلو۔ اس جملہ کا اثر یہ ہوا کہ حیرت وتعجب سے جس انسان کے ہاتھ میں جو لقمہ تھا وہ نیچے گر گیا؛ سکوت کا یہ عالم تھا کہ ایسا محسوس ہو تا تھا کہ ہم سب کے سروں پر طائر بیٹھے ہیں ۔(١) زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر کہتی ہے کہ میں نے زہیر سے کہا : فرزند رسول اللہ تمہارے پاس پیغام بھیجے اور تم ان کے پاس نہ جائو !سبحان اللہ! اگر انھوں نے مجھے بلایا ہوتاتو میں ضرور جاتی اور ان کے گہر بار کلام کو ضرور سنتی، پھر میں نے کچھ نہ کہا لیکن زہیر بن قین اٹھے اور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں روانہ ہوگئے ۔ابھی کچھ دیر نہ گزری تھی کہ واپس آگئے لیکن اب تو بات ہی کچھ اور تھی؛ چہرے پر خوشی کے آثار تھے اور چہرہ گلاب کی طرح کھلا جارہاتھا۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سدّی نے بنی فزارہ کے ایک جوان کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جب حجاج بن یوسف کے زمانے میں ہم لوگ زہیر بن قیس بجلی کے مکان میں چھپے تھے جہا ں اہل شام داخل نہیں ہو تے تھے تو میں نے فزاری سے پوچھا: ذرا مجھ سے اس واقعہ کو بیان کرو جب تم لوگ حسین بن علی کے ہمراہ، سفر میں تھے تو اس نے یہ روایت بیان کی۔(طبری، ج٥، ص ٣٩٦، ارشاد، ص ٢٢١، خوارزمی، ص٣٢٥)

۲۳۳

اسی عالم میں زہیر نے اپنے ہمراہیوں سے کہا : تم میں سے جو ہمارے ساتھ آناچاہتا ہے آ جائے اور اگر نہیں تو اب اس سے میرا یہ آخری دیدار ہے۔اس کے بعداپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے زہیر نے کہا : میں تم لوگوں سے ایک روایت بیان کرنا چاہتا ہوں ، اسے غور سے سنو !ہم لوگ جب مقام '' بلنجر ''(١) پر لڑنے کے لئے گئے تو خداوندمتعال نے ہم لوگوں کو دشمنوں پر کامیابی عطاکی اور بڑی مقدار میں مال غنیمت بھی ہاتھ آیا۔اس وقت سلمان باہلی(٢) نے ہم لوگوں سے کہا : کیا تم لوگ اس بات پر خوش ہو کہ خدا وند عالم نے تم لوگوں کو فتح و ظفر سے نوازاہے اور کافی مقدار میں مال غنیمت تمہارے ہاتھوں لگاہے ؟ ہم لوگوں نے کہا : ہاں کیوں نہیں !تواس نے ہم لوگوں سے کہا : جب تم لوگ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی جوانی دیکھو گے تو تمہاری ان کے ساتھ جنگ کی خوشی اس مال غنیمت ملنے کی خوشی سے زیادہ ہو گی اورجہاں تک میری بات ہے تو اب میں تم لوگوں سے خدا حافظی کر تا ہوں ۔

پھر زہیر بن قین نے اپنی زوجہ کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا : اب میں تم کو طلا ق دے رہا ہوں تاکہ تم آزاد ہو جاؤ اورگھروالوں کے پاس جا کر وہیں زندگی بسر کرو؛ کیونکہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میری وجہ سے تمہیں کوئی نقصان پہنچے۔میں تمہارے لئے بہتری چاہتاہوں ۔(٣) و(٤)

____________________

١۔ یہ تاتا ریو ں (یا خزریو ں) کا شہر ہے جو انہیں کے دروازو ں میں سے ایک دروازے کے نزدیک ہے ٣٣ھ عہد عثمان میں سلمان بن ربیعہ باہلی کے ہاتھو ں یہ جنگ فتح کی گئی جیسا کہ معجم البلدان میں یہی موجود ہے ۔

٢۔ طبری ،ج٤، ص ٣٠٥ پر ہے کہ سلمان فارسی اور ابو ہریرہ اس جنگ میں لشکر کے ہمراہ موجود تھے ۔یہ بیان ابن اثیر کی الکامل میں ہے (ج ٤،ص ١٧)پھریہ بیان ہے کہ جس شخصیت نے ان لوگو ں سے یہ گفتگوکی وہ سلمان فارسی ہیں نہ کہ باہلی۔ ابن اثیر نے ا پنی تاریخ الکامل فی التاریخ میں اس بات کا ارادہ کیا ہے کہ تاریخ طبری کو کامل کری ں لہٰذاوہ اکثرو بیشتر اخبار میں طبری سے ناقل دکھائی دیتے ہیں ۔شیخ مفید نے ارشاد میں اور فتال نے روضة الواعظین میں ص ١٥٣پر ، ابن نمانے مثیر الاحزان میں ص ٢٣پر ، خوارزمی نے اپنے مقتل میں ج١، ص ٢٢٥پر اور البکری نے معجم ج١ ،ص٣٧٦ پر واضح طور سے اس بات کی صراحت کی ہے کہ وہ شخص جناب سلمان فارسی ہی تھے جنہو ں نے یہ جملہ کہا تھا۔ اس بات کی تائید طبری نے بھی کی ہے کیونکہ طبری کے بیان کے مطابق جناب سلمان وہا ں موجود تھے ؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ مدائن فتح ہونے کے بعد جناب سلمان فارسی وہیں کے گورنر رہے اور وہیں اپنی وفات تک قیام پذیر رہے اور کسی بھی جنگ کے لئے وہا ں سے نہیں نکلے؛ بلکہ اس جنگ سے قبل عمر کے عہد حکومت میں آپ نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا ۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبر زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر و نے بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٦، الارشاد، ص ٢٢١)

٤۔ عنقریب یہ بات کربلامیں زہیر بن قین کے خطبے سے معلوم ہوجائے گی کہ اس سے قبل زہیراس بات پر معاویہ کی مذمت کیا کرتے تھے کہ اس نے زیاد کو کس طرح اپنے سے ملحق کرلیا؛اسی طرح حجر بن عدی کے قتل پر بھی معاویہ سے ناراض تھے ۔

۲۳۴

ایک اور نامہ بر

اسی جگہ سے امام حسین علیہ السلام نے عبداللہ بن بقطر حمیری(١) کو بعض راستوں سے مسلم بن عقیل(٢) کی طرف روانہ کیا۔ سپاہ اموی جو حصین بن تمیم کے سربراہی میں کوفہ کے قریب قادسیہ میں چھاؤنی ڈالے راہوں کو مسدود کئے تھی اور آمد و رفت پر سختی سے نظررکھے ہوئی تھی؛ اس نے عبداللہ بن بقطر کوگرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ جب آپ عبیداللہ کے پاس لائے گئے تو اس نے کہا : محل کے اوپر جاؤ اور کذاب بن کذاب پر لعنت بھیجو پھر نیچے اتر آؤ تاکہ میں تمہارے سلسلے میں اپنانظریہ قائم کرسکوں ۔یہ سن کر عبداللہ بن بقطر محل کے اوپر گئے اور جب دیکھا کہ لوگ تماشابین کھڑے ہیں تو آپ نے فرمایا :

'' أیھاالناس انی رسول الحسین علیہ السلام بن فاطمہ بنت رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم لتنصروہ و توازروہ علی بن مرجانة بن سمیہ الدعی ! ''

اے لوگومیں حسین فرزند فاطمہ بنت رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام رساں ہوں تاکہ تم لوگ ان کی مدد و نصرت کر سکو اور اس مرجانہ بن سمیہ کے بچے جس کی پیدائش کا بستر معلوم نہیں ہے، کے خلاف ان کی پشت پناہی کرو ،یہ سنتے ہی عبیداللہ بن زیادنے حکم دیاکہ انھیں چھت سے پھینک دیاجائے۔ اس کے کارندوں نے آپ کو محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا؛جس کی وجہ سے آ پ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ؛ لیکن ابھی رمق حیات باقی تھی۔عبدالملک بن عمیرلخمی(٣) آپ کے پاس آ یا اور آپ کو ذبح کر کے شہید کر ڈالا۔

____________________

١۔ آپ کی ما ں امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیاکرتی تھی ں اسی لئے آپ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ آ پ حضرت امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی تھے۔طبری نے بقطر ہی لکھا ہے اسی طرح جزری نے الکامل میں بھی بقطر ہی ذکر کیا ہے؛ لیکن ہمارے بزرگو ں نے(ی) کے ساتھ یعنی یقطر لکھاہے جیسا کہ سماوی نے ابصارالعین، ص٥٢پر یہی لکھا ہے ۔

٢۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبرابو علی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے نقل کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٣٩٨؛ارشاد، ص ٢٢٠) اس خبر کو انھو ں نے قیس بن مسہر صیداوی کی خبرسے خلط ملط کردیا ہے ۔

٣۔ شعبی کے بعد اس نے کوفہ میں قضاوت کا عہدہ سنبھالا۔ ١٣٦ ھ میں وہ ہلاک ہوا ؛اس وقت اس کی عمر ١٠٣ سال تھی جیسا کہ میزان الاعتدال، ج ١، ص ١٥١ ، اور تہذیب الاسمائ، ص٣٠٩ پر تحریرہے۔ عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ پر صیداوی کی شہادت کی خبر سے پہلے امام علیہ السلام کو ابن بقطر کی شہادت کی خبر ملی ہے؛ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے قیس بن مسہر صیداوی سے پہلے یقطر کو روانہ کیا تھا ۔

۲۳۵

چھٹی منزل: زرود(١)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل سے روایت ہے کہ ان دونوں نے کہا :

جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو ہماری ساری کوشش یہی تھی کہ ہم کسی طرح حسین سے راستے میں ملحق ہو جائیں تاکہ دیکھیں کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے؛ لہٰذا ہم لوگوں نے اپنے ناقوں کو سر پٹ دو ڑایا؛ یہاں تک کہ مقام زرود(٢) پر ہم ان سے ملحق ہوگئے۔جب ہم لوگ ان کے قریب گئے تو دیکھا کوفہ کا رہنے والا ایک شخص عراق سے حجاز کی طرف روانہ ہے، جیسے ہی اس نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا اپنے راستے سے پلٹ گیا تاکہ آپ سے اس کی ملاقات نہ ہو لیکن ا مام علیہ السلام وہاں پر کھڑ ے رہے گویا اس کے دیدار کے منتطر تھے لیکن جب دیکھا کہ وہ ملاقات کے لئے مائل نہیں ہے تو اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔

ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : آؤ اس شخص کے پاس چلیں اور اس سے پوچھیں اگر اس کے پاس کوفہ کی خبر ہو گی تووہ ہم کو اس سے مطلع کرے گا ؛یہ کہہ کر ہم لوگ چلے یہاں تک کہ اس تک پہنچ ہی گئے، پہنچ کر ہم نے کہا : السلام علیک ، تو اس نے جواب دیا: وعلیکم السلام ورحمة اللہ ۔

پھر ہم لوگوں نے پوچھا : تم کس قبیلہ سے ہو ؟ اس شخص نے جواب دیا : ہم قبیلہ بنی اسد سے ہیں ۔

ہم لوگوں نے کہا : ہم لوگ بھی بنی اسد سے متعلق ہیں ؛تمہارا نام کیا ہے ؟

____________________

١۔یہ جگہ خزیمیہ او رثعلبیہ کے درمیان کوفہ کے راستے میں ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج٤،ص ٣٢٧میں یہی موجود ہے۔

٢۔ یہ خبر اس خبر سے منافات ر کھتی ہے جوابھی گذرچکی کہ یہ لوگ منزل صفاح پر مقام زرو د سے چند منزل قبل فر زدق والے واقعے میں موجود تھے کیونکہ اس خبر سے یہی ظاہر ہوتاہے بلکہ واضح ہے کہ یہ لوگ امام حسین علیہ السلام سے زرود میں ملحق ہوئے ہیں اور اس سے پہلے یہ لوگ امام کے ساتھ موجود نہیں تھے بلکہ حج کی ادائیگی کے ساتھ یہ ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ منزل صفاح اوائل میں ہے جبکہ امام علیہ السلام ''یوم الترویہ'' کو مکہ سے نکلے ہیں ۔ اگر یہ لوگ امام علیہ السلام سے منزل صفاح پر ملحق ہوئے ہیں تو پھر حج کی انجام دہی ممکن نہیں ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ دونو ں خبرو ں کا ایک ہی راوی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا؛ نہ ہی ابو جناب ، نہ ابو مخنف اورنہ ہی طبری، مگر یہ کہ یہ کہا جائے کہ حج سے پہلے یہ دونو ں منزل صفاح پر امام علیہ السلام سے ملے اور پھر حج کے بعد منزل زرود پر پہنچ کرامام علیہ السلام سے ملحق ہو گئے ۔

اس نے جواب دیا : بکیر بن مثعبہ، ہم لوگو ں نے بھی اپنا نام بتایا اور پھر اس سے پوچھا : کیا تم ہمیں ان لوگو ں کے بارے میں بتاؤ گے جنہیں تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو؟

اس نے جواب دیا:ہا ں ! میں جب کوفہ سے نکلاتھا تو مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل کئے جا چکے تھے ۔ ہم نے دیکھا ان دونو ں کے پیرو ں میں رسی باندھ کر انھی ں بازار میں پھرایا جا رہاہے۔ اس خبر کے سننے کے بعد ہم لوگ اس سے جداہوکر اپنے راستے پر چل پڑے یہا ں تک کہ(حسین علیہ السلام) سے ملحق ہوگئے اور ایک دوسری منزل پر ان کے ہمراہ پٹراؤ ڈالا ۔

۲۳۶

ساتویں منزل : ثعلبیہ(١)

شام کا وقت تھا جب امام علیہ السلام نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا جس کا نام'' ثعلبیہ'' تھا۔جب آپ کے خیمہ نصب ہوچکے تو ہم لوگوں نے آپ کی خدمت میں آکر سلام عرض کیا ۔آ پ نے سلام کا جواب دیا تو ہم لوگوں نے آپ سے کہا : اللہ آپ پر رحمت نازل کرے! ہم لوگوں کے پاس ایک اہم خبر ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اسے اعلانیہ بیان کریں اوراگر چاہیں ۔ توخفیہ اور پوشیدہ طور پر بیان کریں ۔ امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا: ''مادون ھولاء سر'' ان لوگوں سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے جو خبر لائے ہو بیان کردو، ہم لوگوں نے ان سے کہا : آپ نے کل شام اس سوار کو دیکھا تھا جو آپ کے پاس سے گزرا تھا ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا : ہاں ! میں اس سے کوفہ کے بارے میں سوال کرناچاہتا تھا۔ ہم نے کہا: ہم نے اس سے آپ کے لئے خبر لے لی ہے اورآپ کے بجائے ہم لوگوں نے کوفہ کے موضوع پر تحقیق کر لی ہے۔ وہ شخص قبیلہ بنی اسد کاایک مرد تھا جو ہمارے ہی قبیلہ سے تھا ۔ وہ صاحب نظر، سچا، اور صاحب عقل و فضل تھا ۔اس نے ہم لوگوں سے بتایا کہ جب وہ وہاں سے نکلا تھا تومسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل ہوچکے تھے حتیٰ اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ ان دونوں کے پیروں میں رسی باندھ کر بازار میں گھسیٹا جارہاہے۔یہ سن کر آپ نے فرمایا :

____________________

١۔ کوفہ سے مکہ جانے کے لئے جو راستہ مڑتا ہے یہ وہی ہے۔ اس کی نسبت بنی اسد کے ایک شخص ثعلبہ کی طرف دی گئی ہے جیسا کہ معجم میں تحریر ہے۔

۲۳۷

'' انّاللّہ وانّاالیہ راجعون'' اس جملہ کی آپ نے چند مرتبہ تکرار فرمائی(١) پھر ہم نے عرض کی : آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آ پ اپنے گھر والوں کے ہمراہ یہاں سے واپس لوٹ جائیں ؛کیونکہ اب کوفہ میں آپ کا کوئی ناصر ومدد گا ر نہیں ہے بلکہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں وہ سب آپ کے مخالف نہ ہوگئے ہو ں ۔ایسے موقع پر فرزندان عقیل بن ابیطالب اٹھے اور انھوں نے اس کی مخالفت کی(٢) اور کہنے لگے : نہیں خدا کی قسم ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے۔جب تک ہم ان سے اپنا انتقام نہ لے لیں یا وہی مزہ نہ چکھ لیں جس کاذائقہ ہمارے بھائی نے چکھاہے۔(٣) ان دونوں کا بیان ہے: حسین (علیہ السلام) نے ہم لوگوں پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا : ''لاخیر فی العیش بعد ھولاء !'' ان لوگوں کے بعد زندگی میں کوئی اچھائی نہیں ہے۔ اس جملہ سے ہم نے بخوبی سمجھ لیا کہ سفر کے ارادے میں یہ مصمم ہیں تو ہم نے کہا : خدا کرے خیر ہو ! آپ نے بھی ہمارے لئے دعا کی اور فرمایا:'' رحمکم اللّہ ''اللہ تم دونوں پر رحمت نازل کرے ۔

رات کا سناٹا چھاچکا تھا، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آپ سپیدہ سحر کے انتظار میں ہیں ؛جیسے ہی سپیدہ سحر نمودار ہوئی ،آپ نے اپنے جوانوں اور نو جوانوں سے فرمایا :''اکثروا من المائ'' پانی زیادہ سے زیادہ جمع کرلو ، ان لوگوں نے خوب خوب پانی جمع کرلیا اور اپنے سفر پر نکل پڑے یہاں تک کہ ایک دوسری منزل تک پہنچ گئے ۔

____________________

١۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جناب مسلم کی شہادت کی خبر یہا ں عام ہوگئی لیکن عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ میں پہنچ کر امام علیہ السلام نے یہ خط لکھ کر اپنے اصحاب کے سامنے اس کا اعلان کیا تھا؛ یہا ں سے امام علیہ السلام کے اس جملے کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے کہ'' مادو ں ھولاء سر'' یعنی ان کے علاوہ جو لوگ ہیں ان کے لئے یہ خبر سری ہے اور اسی طرح یہ خبر منزل زبالہ تک پوشیدہ ہی رہی لیکن یعقوبی کا بیان ہے کہ مسلم کی شہادت کی خبر آپ کو مقام'' قطقطانہ'' میں ملی تھی۔ (تاریخ یعقوبی ،ج٦ ، ص ٢٣٠ ،ط، نجف)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے : ابو جناب کلبی نے عدی بن حرملہ اسد کے حوالے سے اور اس نے عبداللہ سے اس خبر کو ہمارے لئے بیان کیاہے۔ (طبری ،ج٥، ص٣٩٧) ارشاد میں ،ص ٢٢٢ پر ہے کہ عبداللہ بن سلیمان نے یہ روایت بیان کی ہے۔(ارشاد ، طبع نجف)

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے عمر بن خالد نے یہ خبر بیان کی ہے (لیکن صحیح عمرو بن خالد ہے) اور اس نے زید بن علی بن الحسین سے اور اس نے دائود بن علی بن عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے ۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٧ ؛ارشاد، ص٢٢٢، مسعودی ،ج٣ ،ص ٧٠، الخواص ، ص ٢٤٥ ، طبع نجف)

۲۳۸

آٹھویں منزل : زبالہ(١)

یہ نورانی قافلہ اپنے سفرکے راستے طے کرتا ہوا زبالہ(٢) کے علاقے میں پہنچا تو وہاں امام حسین علیہ السلام کو اپنے رضائی بھائی عبداللہ بن بقطر(٣) کی شہادت کی خبر ملی۔ آپ نے ایک نوشتہ نکال کر لوگوں کو آواز دی اور فرمایا :'' بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم، أمابعد، فقد أتانا خبر فضیع ! قتل ابن عقیل و هانی بن عروةو عبدالله بن یقطر، وقدخذلتنا شیعتنا (٤) فمن أحب منکم الانصراف فلینصرف لیس علیه منا ذمام ''

بسم اللہ الرحمن الرحیم، امابعد،مجھ تک ایک دل دھلانے والی خبر پہنچی ہے کہ مسلم بن عقیل ، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر قتل کردئے گئے ہیں اور ہمار ی محبت کا دم بھرنے والوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے لہذا اب تم میں سے جو جانا چاہتا ہے وہ چلاجائے، ہماری جانب سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔

یہ جملہ سنتے ہی لوگ امام علیہ السلام سے جدا ہونے لگے کوئی داہنی طرف جانے لگاکوئی بائیں طرف؛ نتیجہ یہ ہواکہ فقط وہی ساتھی رہ گئے جو مدینہ سے آئے تھے۔ آپ نے یہ کام فقط اس لئے کیاتھا کہ

____________________

١۔ یہ جگہ کوفہ سے مکہ جاتے وقت مختلف راستے پیداہونے سے قبل ہے۔ یہا ں ایک قلعہ اورجامع مسجد ہے جو بنی اسد کی ہے۔ اس جگہ کا نام عمالقہ کی ایک عورت کے نام پر ہے جیسا کہ معجم البلدان میں یہی ہے ۔

(٢) ابومخنف کا بیان ہے : ابوجناب کلبی نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے میرے لئے یہ خبر بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٩٨)

٣۔ ان کے شرح احوال گزر چکے ہیں اور وہ یہ کہ ان کی والدہ امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی ں اسی لئے ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی ہیں ۔

٤۔ اس جملہ میں امام علیہ السلام کی تصریح ہے کہ کوفہ کے شیعو ں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ کوفہ اور جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے سلسلے میں یہ پہلا اعلان ہے اگرچہ اس کی خبر آپ کو اس سے قبل منزل زرود میں مل چکی تھی؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ جو لوگ وہا ں موجود تھے۔ ان کے علاوہ سب پر یہ خبر پوشیدہ تھی کیونکہ یہ امام علیہ السلام کے حکم سے ہوا تھا۔آخر کار آپ نے یہا ں '' زبالہ'' میں تمام حاضرین کے لئے اس خبر کا اعلان کردیا ۔

۲۳۹

باد یہ نشین عرب اس گمان میں آپ کے پیچھے پیچھے ہوئے تھے کہ آپ ایسے شہر میں آئیں گے جوظالم حکمرانوں کی حکومت سے پاک ہوگا اور وہاں کے لوگ آپ کے فرمانبردار ہوں گے لہذا امام علیہ السلام نے ناپسند کیا کہ ایسے لوگ آپ کے ہمسفر ہوں ۔امام چاہتے تھے کہ آپ کے ہمراہ صرف وہ رہیں جنہیں معلوم ہو کہ وہ کہاں جارہے ہیں اور امام علیہ السلام کو معلوم تھا کہ جب ان لوگوں پر بات آشکار ہوجائیگی تو کوئی بھی آپ کے ہمراہ نہیں رہے گا مگر وہ لوگ جو عدالت چاہتے ہوں اور موت ان کے ہمراہ چل رہی ہو۔(١) رات اسی منزل پر گزری ،صبح کو آپ نے اپنے جوانوں کو چلنے کا حکم دیاتو انھوں نے سب کو پانی پلاکر اور خوب اچھی طرح پانی بھر کر اپنا سفر شروع کر دیا یہاں تک کہ درّۂ عقبہ سے آپ کا گزرہوا ۔

نویں منزل : درّہ عقبہ(٢)

یہ نورانی قافلہ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھتا ہوا درّہ عقبہ تک پہنچا۔وہاں اس قافلہ نے اپنا پڑاؤ ڈالا۔(٣) بنی عکرمہ کے ایک شخص نے امام سے عرض کیا: آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آپ یہیں سے پلٹ جائیے، خداکی قسم !آپ یہاں سے قدم آگے نہیں بڑھائیں گے مگریہ کہ نیزوں کی نوک اور تلواروں کی دھار پر آگے بڑھیں گے ، جن لوگوں نے آپ کو خط لکھا تھا اور آپ کوآنے کی دعوت دی تھی اگر یہ لوگ میدان کارزار کی مصیبتیں برداشت کرکے آپ کے لئے راستہ آسان کردیتے تب آپ وہاں جاتے تو آپ کے لئے بہت اچھا ہوتا لیکن ایسی بحرانی حالت میں جس سے آپ خود آگاہ ہیں ، میں نہیں سمجھتا کہ آپ کوفہ جانے کے سلسلے میں قدم آگے بڑھائیں گے۔

____________________

١۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو جانے کی اجازت دی تو آپ کا مقصد کیا تھا؟ امام علیہ السلام کا یہ بیان تمام چیزو ں پر کافی ہے

٢۔واقصہ کے بعد اور قاع سے پہلے مکہ کے راستے میں یہ ایک منزل ہے۔ یہ منزل ان کے لئے ہے جو مکہ جانا چاہتے ہیں ۔

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : ابوعلی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے مجھ سے یہ خبر بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٨ ، ارشاد ،ص ٢٢٢ ،طبع نجف)

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313