تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي0%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 313
مشاہدے: 115081
ڈاؤنلوڈ: 2897


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 115081 / ڈاؤنلوڈ: 2897
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد 1

مؤلف:
اردو

اس مرحلے پر ہجرت كا مفہوم دشمن يا ميدان جنگ سے فرار نہيں بلكہ يہ وہ مقام ہے جہاں سے انقلاب كے نئے مرحلے كا آغاز ہوتاہے اگر حضرت ابراہيم (ع) ، حضرت موسى (ع) اور حضرت عيسى (ع) نے معاشرے كے اس ماحول سے ہجرت كى جہاں كفر و شرك كادور دورہ تھا تو اس كا مطلب ہرگز يہ نہيں تھا كہ يہ انبياء عليہم السلام اپنى جدو جہد سے دست بردار ہو گئے تھے اور انہيں اپنى جان ومال كى فكر لاحق ہوگئي تھى بلكہ اس كا مطلب يہ ہے كہ جب انہيں اپنے وطن ميں تبليغ اور سرگرمى كے مواقع نظر نہ آئے تو انہوں نے فيصلہ كيا كہ يہاں سے ہجرت كركے مناسب اور آزاد ماحول ميں پہنچيں اورمزيد طاقت و توانائي اوروسائل كے ساتھ اپنى جدو جہد كو جارى ركھيں_

رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے جب يہ ديكھا كہ آپ (ص) كى ہر اصلاح پسندانہ سعى و كوشش مكہ كے مايوس كن اور گھٹے ہوئے ماحول ميں لاحاصل اور بے نتيجہ ہے نيز دوسرى طرف سے ان حالات كامقابلہ كرنے كى تاب اور طاقت بھى نہيں تو آپ (ص) نے مجبورى كى حالت ميں اپنے انقلاب كے تحفظ اور اسے جارى ركھنے كى خاطر ہجرت كو ترجيح دى تاكہ اپنى تحريك كى كتاب كا نيا باب شروع كرسكيں اور دين مبين اسلام كو محدود علاقائي ماحول سے نكال كراس كى دعوت آزاد اور عالمى فضاء كے ماحول ميں پيش كريں_

عالمى اسلامى تحريك كا يہ نيا عظيم باب اس قدر اہم اورتاريخ ساز تھا كہ اسے تاريخ اسلام كا مبداء و آغاز قرار ديا گيا چنانچہ پيغمبر اكرم (ص) كے دين كو جو اس وقت تك واقعہ ''عام الفيل'' سے وابستہ تھا اور اب اس سے رہائي اور نجات مل گئي تھى اور وہ تاريخ كے لحاظ سے بھى مستقل ہوگيا تھا_

۱۲۱

سوالات

۱_ آيت مباركہ( سُبحَانَ الَّذى أَسرَى بعَبده لَيلًا من المَسجد الحَرَام إلَى المَسجد الأَقصَى الَّذى بَارَكنَا حَولَهُ لنُريَهُ من آيَاتنَا ) _كس حد تك مسئلہ معراج پر دلالت كرتى ہے اور اس سے كون كون سے نكات اخذ كئے گئے ہيں ؟

۲_حضرت ابوطالب (ع) كى وفات كے بعد قريش نے رسول خدا (ص) كے ساتھ كيا رويہ اختيا ر كيا؟

۳_ قبيلہ بنى عامر كو رسول(ص) خدا كے واقعہ دعوت اسلام كا مختصر حال بيان كيجئے؟

۴_وہ پہلے دو شخص كون تھے جو يثرب كے رہنے والے تھے اور ان كى رسول خدا (ص) سے پہلى ملاقات كس طرح ہوئي ؟ بيان كيجئے_

۵_ بعثت كے بارھويں سال اہل يثرب كے كتنے افراد رسول خدا (ص) كى ملاقات سے شرفياب ہوئے نيز ان كے اور رسول خدا (ص) كے درميان كيا معاہدہ ہوا؟

۶_ دوسرے تمام علاقوں سے قبل يثرب كے لوگوں نے كس وجہ سے دين اسلام قبول كيا؟

۷_مشركين قريش نے رسول خدا (ص) كو قتل كرنے كيلئے كيا سازش تيار كى تھى اور وہ كس طرح اپنے مقصد ميںناكام ہوئے؟ وضاحت كيجئے_

۱۲۲

حوالہ جات

۱_مزيد معلومات كيلئے ملاحظہ ہو الصحيح من سيرة النبي(ص) ج ۱ ص ۲۶۹ _۲۷۰_

۲_بنى اسرائيل آيت ۱_

۳_تاريخ پيغمبر (ص) تاليف آيتى مرحوم ص ۱۵۹_

۴_بحارالانوار ج ۱۸ ص ۲۸۹_

۵_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۵۸_

۶_لَواَنّيْ اَخَذتُ هذَا الفَتى من قُرَيش: لَاَ كَلْتُ به العَرَبَ يہ اس بات سے كنايہ ہے كہ ميں اس وسيلے سے دنيوى مال ومتاع حاصل كرلوں گا_

۷_اَلاَمْرُ الَى اللّه يَضَعُهُ حَيثُ يَشَائُ _

۸_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۶۶_

۹_الصحيح من سيرة النبى (ص) ج ۲ ص ۱۹۰_۱۹۱_

۱۰_ان چھ افراد كے نام يہ ہيں : اسعدبن زرارہ_ جابر بن عبداللہ_ عوف بن حارث_ رافع بن مالك _ قطبہ بن عامر اور عقبہ بن عامر_

۱۱_عقبہ كے لفظى معنى تنگ درہ كے ہيں يہ مكہ اور منى كے درميان واقع ہے_

۱۲_اس بيعت كو اس وجہ سے ''بيعت النسائ'' كہاجاتا ہے كہ اس ميںجنگ و جدال كو دخل نہ تھا اور كوئي عسكرى معاہدہ بھى نہيں كيا گيا تھا_ قرآن نے سورہ ''ممتحنہ'' كى آيت ۱۲ ميں پيغمبر اكرم (ص) كے ساتھ عورتوں كى بيعت كو بھى انہى شرائط كے ساتھ بيان كياہے _

۱۳_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۷۳_۷۷_

۱۴_نقيب كے معنى سردار و سرپرست قوم يا قبيلہ ہيں_

۱۵_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۱۱_

۱۶_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۷۰_

۱۷_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۷۱_

۱۲۳

۱۸_دارالندوة در حقيقت قريش كى مشاورتى كو نسل تھى يہ جگہ رسول اكرم (ص) كے چوتھے جد حضرت قصى ابن كلاب نے قائم كى تھي_ اسلامى دور ميں معاويہ نے اسے حكيم ابن حزام سے خريد ليا اور اسے ''دارالامارة'' (ايوان صدرات )قرار ديا اس كے بعد اسے مسجد الحرام ميں شامل كرليا گيا (معجم البلدان ج ۲ ص ۴۲۳)_

۱۹_الاحتجاج تاليف مرحوم طبرسى ج ۱ ص ۱۴۱_

۲۰_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۲۴_۱۳۶_

۲۱_مثال كے طور پر سورہ توبہ كى آيت ۲۰ ميں اللہ نے فرمايا ہے كہ( الَّذينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فى سَبيل الله بأَموَالهم وَأَنفُسهم أَعظَمُ دَرَجَةً عندَ الله ) _ اللہ كے يہاں تو انہى لوگوں كا درجہ بڑا ہے جو ايمان لائے اور جنہوں نے اس كى راہ ميں گھر بار چھوڑ ديا اور جان و مال سے جہاد كيا _

۲۲_كنزالعمال ج ۱ ص ۳۷ حديث ۶۵_

۲۳_بعض محققين كى يہ رائے ہے كہ سورہ مدثر وہ سورہ ہے جو سب سے پہلے رسول اكرم (ص) پر نازل ہواليكن دوسرے لوگوں كا يہ نظريہ ہے كہ جب عام دعوت اسلام كے لئے خداوند تعالى كى جانب سے حكم ہوا تو اس كے بعد يہ پہلى سورت تھى جو نازل ہوئي (الميزان) ج ۲۰ ، ص ۷۹ _

۲۴_سورہ مدثر آيات ۱_ ۵_

۱۲۴

سبق ۸:

مدينہ ہجرت كرنے كے بعدرسول خدا(ص) كے اقدام

۱۲۵

قبا ميں رسول خدا (ص) كى تشريف آوري

رسول خدا (ص) نو دن تك سفر كرنے كے بعد بتاريخ ۱۲ ربيع الاول بروز پير ''قبا''(۱) ميں تشريف فرما ہوئے، جہاں لوگوں نے آپ (ص) كا نہايت ہى گرم جوشى سے استقبال كيا كيونكہ انہوںنے كافى عرصے قبل يہ خبر سنى تھى كہ آنحضرت(ص) مكہ سے يثرب تشريف لانے والے ہيں اسى لئے وہ لوگ بے صبرى سے آپ (ص) كى تشريف آورى كا انتظار كر رہے تھے_

پيغمبر اكرم (ص) ''كلثوم بن ہدم'' كے گھر پر قيام فرما ہوئے اور ''سعد ابن خثيمہ'' كى قيام گاہ كو اس بنا پر كہ وہ مجرد آدمى تھے عام لوگوں سے ملاقات كےلئے پسند كيا _(۲)

رسول خدا (ص) مكہ سے ہجرت فرما كر يثرب تشريف لے گئے تو حضرت على (ع) تين روز تك مكہ ميں قيام پذير رہے اور پيغمبر (ص) نے جو ہدايت فرمائي تھى انہيںانجام ديتے رہے اس كے بعد اپنى والدہ محترمہ حضرت فاطمہ بنت اسد عليہا السلام ،فاطمہ بنت زبير ،حضرت فاطمہ زہرا عليہا السلام اور ديگر اصحاب كے ہمراہ مكہ سے مدينے كى جانب روانہ ہوئے اور آج كے حساب سے گويا تقريبا چار سو كيلوميٹر طويل راستہ پيدل طے كيا چنانچہ بروز جمعرات ربيع الاول كے نصف ميں، قبا ميں پيغمبر (ص) كى ملاقات سے مشرف ہوئے(۳) ، رسول خدا (ص) نے قبا ميں قيام كے دوران بنى عمر ابن عوف قبيلے كى عبادت كيلئے ايك مسجد كى بنياد ركھى(۴) ، يہ مسجد آج بھى مسجد قبا كے نام سے مشہور ہے اور يہى وہ پہلى مسجد ہے جسے مسلمانوں نے تعمير كى _

۱۲۶

مدينے ميں تشريف آوري

رسول اكرم صلى اللہ وآلہ و سلم، حضرت على عليہ السلام اپنى دختر عزيز حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا اورديگر اصحاب كے ہمراہ بروز جمعہ قبا سے مدينہ كےلئے روانہ ہوئے ، آنحضرت (ص) نے پہلى بار نماز جمعہ راستے ميں قبيلہ ''بنى سالم بن عوف'' كے درميان ادا كى آپ (ص) نے خطبات ميں مسئلہ توحيد، لوگوں كى ہدايت كےلئے پيغمبروں كى آمد ، قرآن مجيد كى اہميت نيز افراد كى تعمير ميں اس كتاب مقدس كے كردار اور مسئلہ موت اور معاد كو بيان فرمايا آپ (ص) نے لوگوں كو يہ ہدايت فرمائي كہ تقوى اور پاكيزگى پر كاربند رہيں ، جو زبان سے كہيں اس پر عمل كريں اور راہ حق كے اپنے ساتھيوں كے ساتھ محبت اور خندہ روئي كے ساتھ پيش آئيں _(۵)

نماز ادا كرنے كے بعد آنحضرت (ص) ناقے پر سوار ہوئے اگرچہ راستے ميں كتنے ہى قبيلے ايسے آئے جنہوں نے بہت اصرار كيا كہ آپ (ص) ان كے درميان قيام فرما ہوں مگر آنحضرت (ص) نے مدينے كى جانب اپنا سفر جارى ركھا_

اس روز يثرب كى رونق ہى كچھ اور تھى انصار نوجوانوں نے فضا كو بتوں كى كثافت آلود ماحول سے پاك و صاف كرنے كيلئے جان ودل كى بازى لگادى راہ ميں ہر طرف نعرہ تكبر كى گونج تھى مرد عورتيں اور بچے آپ (ص) كا ديدار كرنے كيلئے مشتاق و بے قرار تھے ہر شخص كى كوشش تھى كہ آنحضرت (ص) كا ديدار كرنے ميں دوسروں پر سبقت لے جائے ، خوشيوں كے ترانے ان كى زبان پر جارى تھے اور سب مل كر پڑھ رہے تھے:

طَلَعَ البَدْرُ عَلَينَا

من ثَنيَّات الودَاع

وَجَبَ الشُّكرُ عَلَينَا

مَادَعَاللّه دَاع:

ايُّهَا المَبعُوثُ فينَا

جئتَ بالاَمر المُطَاع(۶)

۱۲۷

(ماہ كامل ثنيات، الوداع(۷) سے ہم پر طلوع ہوا ہے ، ہم پر شكر خدا اس وقت تك واجب ہے جب تك خدا كو پكارنے والا پكارتا رہے گا آپ (ص) وہ شخص ہيں جو ہمارے لئے ايسا فرمان لے كے آئے ہيں جس كى اطاعت كرنا ہمارے اوپر واجب ہے)_

بالآخر ناقہ رسول (ص) اس زمين پرركى جو دو يتيموں كى ملكيت تھي، رسول خدا (ص) نے اس سے اتر كر زمين پر قدم رنجہ فرمايا اس كے بعد آپ (ص) ''ابوايوب انصاري'' كے گھر تشريف لے گئے اور وہيںقيام فرمايا _(۸)

جب رسول خدا (ص) ہجرت فرما كر يثرب تشريف لے آئے تو اس شہر كا نام بدل كر مدينة الرسول(ص) ركھ ديا گيا _

الف: _مسجد كى تعمير

مورخين نے لكھا ہے كہ آنحضرت (ص) جب ہجرت كركے مدينہ تشريف لے گئے تو آپ (ص) نے سب سے پہلے جو اقدام يہاں فرمايا وہ مسجد كى تعمير تھى اسى ضمن ميں انہوں نے اس بات كا بھى ذكر كيا ہے :كہ يہ مسجد اس جگہ تعمير كى گئي جہاں آپ (ص) كى ناقہ زمين پر بيٹھى تھى اور اس كى زمين مبلغ دس دينا ر كے عوض دو يتيم بچوں سے خريدى گئي(۹) _

تمام مسلمانوں نے پورے ذوق و شوق اور خاص اہتمام سے اس مسجد كے بنانے كى كوشش كى ، اس كے ساتھ ہى پيغمبر اكرم (ص) كى جدو جہد نے اس جوش و خروش ميں كئي گنا اضافہ كرديا يہ ذوق وشوق حضرت عمار جيسے بعض لوگوں ميں زيادہ نماياں اور جلوہ گر تھا(۱۰) _

۱۲۸

مسلمانوں كى انتھك كوشش اور لگن سے يہ مسجد بن كر تيار ہوگئي ، اس كى ديواريں مٹى اور پتھروں سے بنائي گئي تھيں ستونوں كےلئے كھجور كے تنے استعمال كئے گئے تھے چھت بھى كھجو ر كے تختوں اوراس كى شاخوںسے پاٹى گئي تھى(۱۱) ، مسجد كے ايك كونے ميں كمرہ نما ايك جگہ مخصوص كى گئي تھى تاكہ وہ نادار اصحاب رسول (ص) جن كے پاس سر چھپانے كيلئے كوئي جگہ نہ تھى يہاں قيام پذير ہوں(۱۲) يہى وہ لوگ تھے جنہيںبعد ميں ''اصحاب صُفّہ'' كہا گيا _(۱۳)

اس مسجد كے بن جانے كے بعد مسلمانوں كو مركزيت حاصل ہوگئي چنانچہ عام مسلمان جن ميں صاحب خانہ اور بے گھر سب ہى شامل تھے بلا روك ٹوك يہاں جمع ہوتے اور عبادت ونماز باجماعت ادا كرنے كے علاوہ مسلمانوں كے اہم مسائل سے متعلق تبادلہ خےالات ميں حصہ ليتے اس كے ساتھ ہى رسول خدا (ص) سے يا ان اصحاب ميں سے جنہيں آنحضرت (ص) مقرر فرماتے احكام دين اور ديگر مسائل كى تعليم حاصل كرتے_

جب مسجد كى تعمير مكمل ہوگئي تو اس كے اطراف ميں رسول خد ا(ص) اور اصحاب كيلئے اس طرح مكانات بنائے گئے كہ ہر گھر كا ايك دروازہ مسجد كى جانب كھلتا تھا_

كچھ عرصے كے بعد خداوند تعالى كى طرف سے حكم ہوا كہ رسول خدا (ص) اور حضرت على (ع) كے گھروں كے علاوہ جن لوگوں كے گھروں كے دروازے مسجد كى جانب كھلتے ہيں بند كرديئے جائيں ، رسول خدا (ص) نے جب يہ حكم خداوندى لوگوں تك پہنچايا تو بعض اصحاب كو يہ بات بہت گراں گزرى اور ا نہيں يہ گمان ہونے لگا كہ يہ فرق و امتياز خود رسول خدا (ص) كا اپنا پيدا كردہ ہے اوريہ كام جذباتى پہلو ركھتا ہے ليكن رسول خدا (ص) نے انہيںجواب ديتے ہوئے فرمايا : ''يہ فرمان ميں نے اپنى طرف سے نہيں ديا ہے بلكہ يہ حكم خداوندى ہے''_(۱۴)

رسول خدا (ص) نے يہ قطعى موقف اس وقت اختيار كيا جبكہ مسلمان بالخصوص مہاجرين خاص

۱۲۹

حساسيت اور نازك صورت حال سے دوچار تھے اور انہيں پيغمبر (ص) سے يہ توقع تھى كہ ان كى دلجوئي كريں گے اور ان پر مزيد لطف وعنايت فرمائيں گے ان كيلئے يہ بھى بہت بڑى سعادت تھى كہ ان كے گھروں كے دروازے مسجد كى جانب كھلتے ہيں اس ميں شك نہيں كہ رسول خدا (ص) كو صحابہ كرام سے تعلق خاطر تھا مگر يہ واقعہ اس حقيقت كا آئينہ دار تھا كہ رسول خدا (ص) كا تعلق خاطر اور جذبہ لطف وعنايت، حكم الہى كو ان تك پہنچانے ميں مانع نہيں ہوا تھا اور كوئي چيز آنحضرت (ص) كو فرمان حق صادر كرنے سے نہيں روك سكتى تھى _

ب:_ رشتہ اخوت و برادري

اس ميں شك نہيں كہ پيغمبر خدا (ص) نے مكہ ميں مسلمانو ں كے درميان رشتہ اخوت و برادرى بر قرار فرماياتھا_(۱۵) ليكن ہجرت كركے ان مسلمانوں كا مكہ سے مدينہ چلے آنا اور نئے اقتصادى و اجتماعى مسائل وحالات كا پيدا ہونا يہ سب اس امر كا باعث ہوئے كہ مہاجر وانصار مسلمانوں كے درميان نئے سرے سے رشتہ اخوت و برادرى برقرار ہو چنانچہ يہى وجہ تھى كہ آپ (ص) نے مسلمانوں كو جمع كيا اور ان سے فرمايا :

(تَاَخَّوا فى اللّه اَخَوَين اَخَوَين)

''راہ خدا ميں تم دو دو مل كر بھائي بن جائو''_(۱۶)

رسول خد ا(ص) نے اپنے اس دانشمندانہ اقدام سے ان مہاجرين كے مسائل زندگى كو حل كرديا جو اپنے مقدس اہداف اور ايمان كى حفاظت كے لئے اپنى ہر چيز مكہ ميں چھوڑ كر مدينہ چلے آئے تھے اگرچہ مہاجرين اور انصار دو مختلف ماحول كے پروردہ تھے اور ان كے طرز فكر و معاشرت ميں بھى نماياں فرق تھا ليكن آپ (ص) نے انہيں اپنى دانشمندى سے نہ صرف يك جان و دو قالب كرديا بلكہ دونوں كے حقوق اور مراعات كو بھى مقرر اور مرتب فرمايا_

۱۳۰

رسول خدا (ص) نے مہاجرين اور انصار كے درميان رشتہ اخوت اور برادرى برقرار كرنے كے بعد حضرت على (ع) كے دست مبارك كو اپنے دست مبارك ميں لے كر فرمايا :''هذَا اَخي'' _ ''يہ ميرا بھائي ہے ''_(۱۷)

ج :_ يہوديوں كے ساتھ عہدو پيمان

رسول اكرم (ص) كے ہجرت كرنے سے قبل مقامى مشركين كے علاوہ يہوديوں كے '' بنى قينقاع'' ، ''بنى نضير'' اور ''بنى قريظہ'' نامى تين قبيلے مدينے ميں آباد تھے اور انہى كے ہاتھوں ميں اس شہر كى صنعت و تجارت تھي_

اگر چہ رسول خدا (ص) نے مہاجرين اور انصار كے درميان رشتہ اخوت و برادرى برقرار كركے اپنى طاقت كو متحد كرنے كيلئے بہت ہى اہم اقدام كيا مگر آپ (ص) كے سامنے ايك اور دشوارداخلى مرحلہ تھا اور وہ تھا ان يہوديوں كا وجود جو اس سرزمين پر آباد تھے_

حالات كے پيش نظر آنحضرت (ص) نے يہوديوں كے ساتھ ايك معاہدے پر دستخط كئے جس كى بعض شقيں ذيل ميں درج ہيں :

۱_جن لوگوں نے اس معاہدے پر دستخط كئے ہيں وہ ايك قوم بن كر يہاں زندگى بسر كريںگے_

۲_اس معاہدے ميں جو فريقين شامل ہيں ان ميں سے ہر فريق كو اپنى دينى رسومات انجام دينے كى آزادى ہوگي_

۳_مدينے كى حدود ميں ہر قسم كى خونريزى حرام ہوگى اور اگر باہر سے كسى دشمن نے حملہ كيا تو سب مل كر شہر كا دفاع كريں گے ، معاہدے ميں جو فريقين شامل ہيں اگر ان ميں

۱۳۱

سے كسى ايك فريق پركسى بيرونى طاقت نے حملہ كيا تو فريق ثانى اس كى مدد كرے گا بشرطيكہ وہ خود تجاوز كا ر نہ ہو_

۴_اختلافى مسائل ميں اختلاف كو دور كرنے كيلئے خدا اورحضرت محمد (ص) سے رجوع كيا جائےگا_(۱۸)

اس معاہدے كى برقرارى كے بعد پيغمبر اكرم (ص) كى حكومت معمولى حكومت نہيں رہ گئي بلكہ اس نے مستقل حيثيت اختيار كرلى اور رسول اكرم (ص) كو سركارى سطح پر حاكم مدينہ تسليم كر ليا گيا اور حلقہ اسلام كے اندر سياسى وحدت تشكيل پائي نيزبيرونى دشمنوں كے مقابل اسلام كى دفاعى بنياد كو تقويت حاصل ہوئي نيز رہبر اسلام كيلئے دين كى تبليغ كےلئے وسيع ترين ميدان ہموار ہوگيا اور بالآخر اس طرح معاشرتى حدود نيز انفرادى گروہى اور مذہبى اقليتوں كے حقوق اور ان كے باہمى روابط و تعلقات نيز دشمن كے ساتھ ان كے تعلقات كى كيفيت كى تعيين ہوئي_

عہد شكني

مسلمانوں اوريہوديوں كے درميان با ہمى مسالمت آميز عہد مدينے كے يہوديوں كيلئے بہت زيادہ سازگار ثابت ہوسكتا تھا وہ اس عہد و پيمان كى بدولت اسلامى حكومت كے زير سايہ آزادى كے ساتھ زندگى بسر كرسكتے تھے ليكن انہوں نے اس نعمت كى قدر نہ كى چنانچہ كچھ عرصہ گزرنے كے بعد جب انہوںنے جديد حكومت سے اپنى سياسى و اجتماعى زندگى اور برترى كو خطرہ ميں محسوس كيا تو انہوں نے اس عہد كو جو رسول خد ا(ص) كے ساتھ كيا تھا نظر انداز كرنا شروع كرديا اور آنحضرت (ص) كے خلاف سازشيں كرنے لگے وہ مسلمانوں كے

۱۳۲

دينى عقائد(۱۹) ميں شكوك و شبہات پيد اكركے اور دور جاہليت كے كينہ و اختلاف كو ياد دلاكر(۲۰) ان كے عقائد ميں ضعف و سستى اوران كى صفوں ميں انتشار پيدا كرنے كى كوشش كرنے لگے_

منافقين (بالخصوص ان كا سرغنہ عبداللہ ابن ابي) جو خفيہ طور پر يہوديوں كے ساتھ مل گئے تھے اس سازش ميں ان كے ساتھ شريك ہوگئے چنانچہ وہ لوگ مسلمانوں كے عقائد كا مذاق اڑاتے اور نوبت يہاں تك پہنچى كہ ايك مرتبہ رسول خدا (ص) نے مجبور ہو كر حكم ديا كہ انہيں مسجد سے باہر نكال دياجائے_(۲۱)

جنگى اور جاسوسى اقدامات كا آغاز

رسول خدا (ص) نے مملكت اسلامى كى طاقت كو وسعت دينے اور اسلامى حكومت كے مقدس اغراض و مقاصد كے تحقق كيلئے جو اقدامات فرمائے ان ميں جنگى اور جاسوسى ٹيموں كى تشكيل بھى تھي_ دستوں كو مدينہ سے باہر روانہ كيااور يہيں سے يہوديوں سے رسول خدا (ص) كے سرايا اور غزوات شروع ہوئے اس كے علاوہ دشمن كے خلاف جنگ و دفاع كا جو فرسودہ نظام اب تك چلا آرہا تھا اس ميں آپ (ص) نے تبديلى پيدا كركے اس كيلئے جديد اصول وقواعد مرتب كئے_

مورخين نے جنگ بدر سے قبل كے سرايا اور غزوات كى تعداد آٹھ عدد لكھى ہے(۲۲) ان مہمات ميںشريك سپاہيوںكى تعداد محدودتھى اور وہ سب كے سب مہاجر ہى تھے(۲۳) ہم يہاں دو نكات كا بطور اختصار ذكر كريں گے:

۱_انصار كے ان مہموں میں شريك نہ ہونے كا سبب

۲_ ان مہمات اور غزوات كا مقصد

۱۳۳

انصار كا ان مہمات ميں شريك نہ ہونے كا سبب

۱_عقبہ كے معاہدے كى رو سے انصار اس شرط كے پابند تھے كہ وہ رسول خدا (ص) كا دفاع شہر كى حدود كے اندر كريں گے اس كے باہر نہيں_

۲_انصار چونكہ كچھ عرصہ قبل ہى مشرف بااسلام ہوئے تھے اورآئندہ جو مشكلات نيز جو دوشوارياں در پيش تھيں ان كا مقابلہ كرنے كيلئے وہ خود كو تيار كر رہے تھے اسى لئے ان حقائق كو مد نظر ركھتے ہوئے پيغمبر اكرم (ص) نے مصلحت اس امر ميں ديكھى كہ ان كى طاقت كو اس موقع پر بروئے كار نہ لاياجائے_

۳_ مہاجرين كا انتخاب بھى شايد اس مقصد كے تحت كيا گيا تھا كہ ان ميں ايسى جنگى مہمات ميں شركت كا جذبہ انصار سے كہيں زيادہ تھا جس كى وجہ يہ تھى كہ انہوںنے قريش كے ہاتھوں جو تكاليف و سختياں برداشت كى تھيں ان كے باعث وہ ان سے سخت رنجيدہ خاطر تھا اس كے علاوہ ان كيلئے مدينہ ميں كوئي مادى وابستگى بھى نہ تھي_ دوسرى طرف وہ يہ بھى چاہتے تھے كہ مدينہ اور اطراف مدينہ كے جغرافيہ كے بارے ميں بيشتر اطلاعات كسب كريں_

۴_رسول اكرم (ص) اس تحريك كے ذريعے انصار پر يہ بات واضح كردينا چاہتے تھے كہ آپ اپنے مقاصد كو ہرحال حاصل كرنے كا قطعى فيصلہ اور مصمم ارادہ كرچكے ہيں وہ مہاجرين جنہوں نے راہ خدا ميں ہر چيز كو ترك كرديا تھا وہ مكہ كى طرح اس وقت بھى فرمان رسول (ص) كى خاطر شرك سے جنگ كرنے ميں اپنى جان قربان كرنے كيلئے تيار تھے يہ درحقيقت ان لوگوں كيلئے عملى درس تھا جو حال ہى ميں مشرف بااسلام ہوئے تھے_

۱۳۴

ان جنگوں اور غزوات كا مقصد :

۱_ہادى و رہبر كى حيثيت كو مستحكم كرنا اور اسلام كى مركزى حكومت كو تقويت پہنچانا_

۲_مسلمانوں كى جنگى استعداد و طاقت كو بلند و مضبوط كرنا نيز لشكر اسلام كو آئندہ كى مشكلات كيلئے آمادہ كرنا_

۳_اطراف ومضافات ميں بسنے والے قبائل كے ساتھ دفاعى معاہدے خصوصاً ان لوگوں سے معاہدہ كرنا جو قريش كے تجارتى قافلوں كے راستے ميں آباد تھے_

۴_جغرافيائي ماحول اور شہروں كو متصل كرنے والے راستوں سے واقفيت اس كے ساتھ ہى اطراف مدينہ ميں آباد قبائل كے بارے ميں معلومات حاصل كرنا_

۵_قريش كو جنگ كى تنبيہہ كرنا اور ان كے رابطوں اور تجارتى راستوں كو غير محفوظ بنانا اور دشمن كو مسلمانوں كى طاقت اور مقام سے آگاہ كرنا _

قبلہ كى تبديلي

پيغمبر اكرم (ص) مكہ ميں اور ہجرت كے بعد مدينہ ميں سترہ ماہ تك بيت المقدس كى جانب رخ كركے نماز ادا كرتے رہے يہاں تك كہ پير كے دن پندرہ ماہ رجب سنہ ۲ ھ ميں يہ واقعہ پيش آيا كہ جب آپ (ص) مسجد بنى سالم بن عوف ميں(۲۴) جہاں سب سے پہلى نماز جمعہ ادا كى گئي تھي، نماز ظہر ادا فرمارہے تھے آپ (ص) كو يہ حكم ديا گيا كہ اپنا قبلہ تبديل كرديں_

قبلہ جن وجوہات كى بناپر تبديل كيا گيا ان ميں سے چند يہ تھيں:

۱_ايك طرف تو رسول خدا (ص) پر يہودى يہ اعتراض كرتے تھے كہ جب تم ہمارى مخالفت كرتے ہو تو ہمارے قبلہ كى جانب رخ كركے نماز كيوں پڑھتے ہو اس كے ساتھ ہى

۱۳۵

وہ مسلمانوں سے يہ كہتے كہ :

اگر ہم حق پر نہ ہوتے تو تم ہمارے قبلے كى جانب رخ كركے نماز كيوں پڑھتے ؟(۲۵)

دوسرى طرف مشركين يہ طعنہ ديتے كہ : تم جبكہ قبلہ ابراہيم (ع) كو ترك كركے قبلہ يہود كى طرف نماز پڑھتے ہو تو يہ كيسے دعوى كرتے ہو كہ ہم ملت ابراہيم (ع) پر قائم ہيں(۲۶) _

اس قسم كے اعتراضات اور طعنے رسول خد ا(ص) كو سخت رنجيدہ اور آزردہ خاطر كرتے تھے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ آپ (ص) راتوں كو بارگاہ خداوندى ميں دعا فرماتے اور مقام رب ذوالجلال كى جانب رخ كركے اپنى آنكھيں آسمان كى جانب لگاديتے تاكہ خداوندتعالى كى جانب سے اس بارے ميں كوئي حكم صادر ہو _(۲۷)

قرآن مجيد نے رسول خدا (ص) كى اس ذہنى كيفيت كو ان الفاظ ميں بيان كيا ہے:

( قَد نَرى تَقَلُّبَ وَجهكَ فى السَّمَائ فَلَنُوَلّيَنَّكَ قبلَةً ترضى هَا ) _

''اے رسول(ص) ہم آپ (ص) كى توجہ آسمان كى جانب ديكھ رہے ہيں لو ہم اس قبلے كى طرف تمہيں پھيرے دیتے ہيں جسے تم پسند كرتے ہو''_(۲۸)

۲_خداوند تعالى قبلہ كا رخ تبديل كركے مسلمانوں كو آزماناچاہتا تھا كہ يہ معلوم ہو جائے كہ كون لوگ حكم خدا كے مطيع اور رسول خدا (ص) كے فرمانبردار ہيں_

( وَمَا جَعَلنَا القبلَةَ الَّتى كُنتَ عَلَيهَا إلاَّ لنَعلَمَ مَن يَتَّبعُ الرَّسُولَ ممَّن يَنقَلبُ عَلَى عَقبَيه وَإن كَانَت لَكَبيرَةً إلاَّ عَلَى الَّذينَ هَدَى الله ُ ) (۲۹)

''پہلے جس طرف تم رخ كرتے تھے اس كو تو ہم نے صرف يہ ديكھنے كيلئے قبلہ مقرر كيا تھا كہ

۱۳۶

كون رسول (ص) كى پيروى كرتا ہے اور كون الٹا پھر جاتا ہے يہ معاملہ تھا تو بڑا سخت مگر ان لوگوں كيلئے كچھ بھى سخت نہ تھا جو اللہ كى جانب سے ہدايت سے فيضياب تھے''_

۳_بعض روايات(۳۰) اور تاريخى كى كتابوں(۳۱) ميں اس كا ايك سبب يہ بھى بتايا گيا ہے كہ رسول خدا (ص) مكہ ميں اس وقت جبكہ آپ (ص) كا رخ مبارك بيت المقدس كى جانب ہوتا ہرگز كعبہ كى جانب پشت نہیں فرماتے تھے ليكن ہجرت كے بعد مدينے ميں جس وقت آپ (ص) نماز ادا كرتے تو اس وقت مجبوراً آپ(ص) كى پشت كعبہ كى جانب ہوتى ، رسول خدا (ص) كے قلب مبارك ميں بيت ابراہيمى كيلئے جو جو احترام تھا اور اس كى جانب پشت كرنے سے آپ (ص) كو تكليف ہوتى تھى اسے ملحوظ ركھتے ہوئے خداوند تعالى نے تحويل قبلہ كے ذريعے آپ (ص) كى رضامندى كا اہتمام كيا_

سمت قبلہ تبديل كئے جانے كے بعد يہوديوں نے دوبارہ اعتراضات كرنا شروع كرديئے كہ آخر وہ كيا عوامل تھے جن كے باعث مسلمان قبلہ اول سے روگرداں ہوگئے ؟ اس كے ساتھ ہى انہوں نے رسول خدا (ص) كے سامنے يہ شرط ركھى كہ اگر آپ (ص) قبلہ يہود كى طرف رخ فرماليں تو ہم آپ (ص) كى پيروى و اطاعت كرنے لگیں گے(۳۲) _

بعض سادہ لوح مسلمان يہوديوں كے پروپيگنڈے كا شكار ہوكر دريافت كرنے لگے كہ وہ نماز جو انہوں نے بيت المقدس كى جانب رخ كركے ادا كى ہيں ان كا كيا ہوگا_

قرآن مجيد نے ان كے اس سوال كا جواب ديتے ہوئے فرمايا :

( مَاكَانَ ليُضيعَ ايمَانَكُم ) _(۳۳)

''اللہ تعالى تمہارے ايمان (يعنى بيت المقدس كى جانب ادا كى جانے والى نماز)كو ہرگز ضائع نہ كرے گا''_(۳۴)

۱۳۷

سوالات

۱_رسول خدا (ص) كس تاريخ كو قبا پہنچے؟ آپ (ص) نے كتنے عرصے اور كس مقصد كيلئے توقف فرمايا اور دوران قيام كيا اقدامات كئے؟_

۲_ جب رسول خدا (ص) مدينہ ميں تشريف لائے تو لوگوں نے آپ (ص) كا كس طرح استقبال كيا اور آپ (ص) نے كس صحابى كے گھر پر قيام فرمايا ؟

۳_ ہجرت كے بعد مدينے ميں رسول خدا (ص) نے كن لوگوںكے درميان رشتہ اخوت وبرادرى قائم كيا؟ اپ كے اس اقدام كے كيا نتائج برامد ہوئے؟

۴_ہجرت كے بعد مدينہ ميں رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے سب سے پہلے كيا اقدام كيا اور اس كا كيا فائدہ ہوا؟

۵_پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے داخلى امن و امان فراہم كرنے كے لئے كيا اقدامات كئے ؟ ان اقدامات ميں كيا خوبياں اور بركات تھيں ؟

۶_جنگ بدر سے قبل سرايا اور غزوات ميں صرف مہاجرين ہى كيوں شريك رہا كرتے تھے ؟

۷_ جنگ بدر سے قبل رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سرايا اور غزوات كے ذريعے كن مقاصدكى تكميل چاہتے تھے؟

۸_سمت قبلہ بيت المقدس سے كعبہ كى جانب كس تاريخ ميں تبديل ہوئي اور تبديلى كى كيا وجوہات تھيں ؟

۱۳۸

حوالہ جات

۱_ قبا كسى زمانے ميں مدينہ سے دو فرسخ كے فاصلے پر ايك گائوں تھا اور اس كا شمار قبيلہ ''بنى عمر وابن عوف'' كے مركز ميں ہوتا تھا_ اب چونكہ مدينہ كافى وسيع ہوچكا ہے اسى لئے يہ اسى شہر ميں شمار ہوتا ہے_

۲_ السيرة النبويہ ج ۲ ص۱۳۷_۱۳۸_

۳_ ايضا صفحہ ۱۳۸_

۴_ ايضا صفحہ ۱۳۹_

۵_ اس خطبے كے متن كيلئے ''بحارالانوار'' كى جلد ۱۹ صفحہ ۱۲۶ اور تاريخ طبرى كى جلد ۲ صفحہ ۳۹۴ ملاحظہ فرمائيں_

۶_ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۵۴_۵۷ ، بعض محققين كى رائے ميں يہ اشعار اس وقت پڑھے گئے تھے جب آنحضرت (ص) غزوہ تبوك سے واپس تشريف لارہے تھے (ملاحظہ ہو الصحيح من سيرة النبي(ص) ج ۲ ص ۳۱۳)_

۷_ ''ثنيہ'' كے اصل معنى سنگلاخ كوہستانى راستے كے ہيں ثنية الوداع وہ جگہ تھى جہاں تك لوگ اپنے مسافروں كو وداع كرنے آتے تھے_ اور يہ رسم زمانہ جاہليت سے چلى آرہى تھى (ملاحظہ ہو معجم البلدان ج ۲ ص ۸۶)

۸_ السيرة النبويہ ج ۲ ص۱۳۹_ ۱۴۱ ، بحارالانوار ص ۱۰۴_ ۱۰۹_

۹_ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۶۶_۷۱_

۱۰_ السيرة الحلبيہ ج ۲ص ۶۶_۷۱_

۱۱_ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۶۶_۷۱_

۱۲_ بعض روايات ميں آيا ہے كہ ان كى تعداد چارسو افراد پر مشتمل تھى (ملاحظہ ہو بحارالانوار ج ۶۷ ، ص ۱۲۸)

۱۳_ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۸۱_

۱۴_ بحارالانوار ج ۱۹ ص ۱۱۲_

۱۵_ ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۹۰_

۱۶_ السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۵۰_

۱۷_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۹۰ السيرة النبويہ ج ۲ ص۱۵۰_

۱۸_ السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۴۷_ ۱۴۹_

۱۳۹

۱۹_ ان كے اعتراضات اور شكوك وشبہات كے بارے ميں مزيد اطلاع حاصل كرنے كيلئے ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۳۳۸ كے حاشيے پر السيرة النبويہ دحلان_

۲۰_ مثال كے طور پر ايك مرتبہ ان ميں سے ايك شخص نے ''اوس'' اور ''خزرج'' قبائل كے اجتماع ميں اس جنگ كا ذكر چھڑ ديا جو مذكورہ بالا دونوں قبائل كے درميان لڑى گئي تھى اور جنگ ''بعاث'' كے نام سے مشہور تھي_ اور اس طرح ايك دوسرے كے خلاف ان كے جذبات مشتعل كرنے كى كوشش كى _ اگر اس وقت رسول خد ا(ص) درميان ميں نہ آگئے ہوتے تو عين ممكن تھا كہ يہ دونوں بھائي تلواروں سے ايك دوسرے پرٹوٹ پڑتے_ ملاحظہ ہو السيرة النبويہ ج ۲ ص ۲۰۴ _ ۲۰۵_

۲۱_ السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۷۵_

۲۲_ ان غزوات اورسرايا سے متعلق بيشتر اطلاع كيلئے ملاحظہ ہو السيرة النبويہ ج ۲ ص ۲۴۱_ ۲۵۶

۲۳_الصحيح من سيرة النبى (ص) ج ۳ ص ۱۴۵_

۲۴_ اعلام الورى ص ۸۲_

۲۵_۲۶ _ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۱۲۸_

۲۷_ بحارالانوار ج ۱۹ ص ۲۰۱_

۲۸_ سورہ بقرہ آيہ ۱۴۴_

۲۹_ سورہ بقرہ آيہ ۱۴۳_

۳۰_ بحارالانوار ج ۱۹ ص ۲۰۰_

۳۱_ملاحظہ ہو: السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۱۲۸_ ۱۳۰_

۳۲_ ملاحظہ ہو: السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۹۸،۱۹۹و بحار الانوار ج ۱۹ ص ۱۹۵_

۳۳_بقرہ آيت ۱۴۳_

۳۴_بحارالانوار ج ۱۹ ص ۱۹۷_

۱۴۰