تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي25%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139743 / ڈاؤنلوڈ: 4388
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اس مرحلے پر ہجرت كا مفہوم دشمن يا ميدان جنگ سے فرار نہيں بلكہ يہ وہ مقام ہے جہاں سے انقلاب كے نئے مرحلے كا آغاز ہوتاہے اگر حضرت ابراہيم (ع) ، حضرت موسى (ع) اور حضرت عيسى (ع) نے معاشرے كے اس ماحول سے ہجرت كى جہاں كفر و شرك كادور دورہ تھا تو اس كا مطلب ہرگز يہ نہيں تھا كہ يہ انبياء عليہم السلام اپنى جدو جہد سے دست بردار ہو گئے تھے اور انہيں اپنى جان ومال كى فكر لاحق ہوگئي تھى بلكہ اس كا مطلب يہ ہے كہ جب انہيں اپنے وطن ميں تبليغ اور سرگرمى كے مواقع نظر نہ آئے تو انہوں نے فيصلہ كيا كہ يہاں سے ہجرت كركے مناسب اور آزاد ماحول ميں پہنچيں اورمزيد طاقت و توانائي اوروسائل كے ساتھ اپنى جدو جہد كو جارى ركھيں_

رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے جب يہ ديكھا كہ آپ (ص) كى ہر اصلاح پسندانہ سعى و كوشش مكہ كے مايوس كن اور گھٹے ہوئے ماحول ميں لاحاصل اور بے نتيجہ ہے نيز دوسرى طرف سے ان حالات كامقابلہ كرنے كى تاب اور طاقت بھى نہيں تو آپ (ص) نے مجبورى كى حالت ميں اپنے انقلاب كے تحفظ اور اسے جارى ركھنے كى خاطر ہجرت كو ترجيح دى تاكہ اپنى تحريك كى كتاب كا نيا باب شروع كرسكيں اور دين مبين اسلام كو محدود علاقائي ماحول سے نكال كراس كى دعوت آزاد اور عالمى فضاء كے ماحول ميں پيش كريں_

عالمى اسلامى تحريك كا يہ نيا عظيم باب اس قدر اہم اورتاريخ ساز تھا كہ اسے تاريخ اسلام كا مبداء و آغاز قرار ديا گيا چنانچہ پيغمبر اكرم (ص) كے دين كو جو اس وقت تك واقعہ ''عام الفيل'' سے وابستہ تھا اور اب اس سے رہائي اور نجات مل گئي تھى اور وہ تاريخ كے لحاظ سے بھى مستقل ہوگيا تھا_

۱۲۱

سوالات

۱_ آيت مباركہ( سُبحَانَ الَّذى أَسرَى بعَبده لَيلًا من المَسجد الحَرَام إلَى المَسجد الأَقصَى الَّذى بَارَكنَا حَولَهُ لنُريَهُ من آيَاتنَا ) _كس حد تك مسئلہ معراج پر دلالت كرتى ہے اور اس سے كون كون سے نكات اخذ كئے گئے ہيں ؟

۲_حضرت ابوطالب (ع) كى وفات كے بعد قريش نے رسول خدا (ص) كے ساتھ كيا رويہ اختيا ر كيا؟

۳_ قبيلہ بنى عامر كو رسول(ص) خدا كے واقعہ دعوت اسلام كا مختصر حال بيان كيجئے؟

۴_وہ پہلے دو شخص كون تھے جو يثرب كے رہنے والے تھے اور ان كى رسول خدا (ص) سے پہلى ملاقات كس طرح ہوئي ؟ بيان كيجئے_

۵_ بعثت كے بارھويں سال اہل يثرب كے كتنے افراد رسول خدا (ص) كى ملاقات سے شرفياب ہوئے نيز ان كے اور رسول خدا (ص) كے درميان كيا معاہدہ ہوا؟

۶_ دوسرے تمام علاقوں سے قبل يثرب كے لوگوں نے كس وجہ سے دين اسلام قبول كيا؟

۷_مشركين قريش نے رسول خدا (ص) كو قتل كرنے كيلئے كيا سازش تيار كى تھى اور وہ كس طرح اپنے مقصد ميںناكام ہوئے؟ وضاحت كيجئے_

۱۲۲

حوالہ جات

۱_مزيد معلومات كيلئے ملاحظہ ہو الصحيح من سيرة النبي(ص) ج ۱ ص ۲۶۹ _۲۷۰_

۲_بنى اسرائيل آيت ۱_

۳_تاريخ پيغمبر (ص) تاليف آيتى مرحوم ص ۱۵۹_

۴_بحارالانوار ج ۱۸ ص ۲۸۹_

۵_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۵۸_

۶_لَواَنّيْ اَخَذتُ هذَا الفَتى من قُرَيش: لَاَ كَلْتُ به العَرَبَ يہ اس بات سے كنايہ ہے كہ ميں اس وسيلے سے دنيوى مال ومتاع حاصل كرلوں گا_

۷_اَلاَمْرُ الَى اللّه يَضَعُهُ حَيثُ يَشَائُ _

۸_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۶۶_

۹_الصحيح من سيرة النبى (ص) ج ۲ ص ۱۹۰_۱۹۱_

۱۰_ان چھ افراد كے نام يہ ہيں : اسعدبن زرارہ_ جابر بن عبداللہ_ عوف بن حارث_ رافع بن مالك _ قطبہ بن عامر اور عقبہ بن عامر_

۱۱_عقبہ كے لفظى معنى تنگ درہ كے ہيں يہ مكہ اور منى كے درميان واقع ہے_

۱۲_اس بيعت كو اس وجہ سے ''بيعت النسائ'' كہاجاتا ہے كہ اس ميںجنگ و جدال كو دخل نہ تھا اور كوئي عسكرى معاہدہ بھى نہيں كيا گيا تھا_ قرآن نے سورہ ''ممتحنہ'' كى آيت ۱۲ ميں پيغمبر اكرم (ص) كے ساتھ عورتوں كى بيعت كو بھى انہى شرائط كے ساتھ بيان كياہے _

۱۳_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۷۳_۷۷_

۱۴_نقيب كے معنى سردار و سرپرست قوم يا قبيلہ ہيں_

۱۵_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۱۱_

۱۶_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۷۰_

۱۷_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۷۱_

۱۲۳

۱۸_دارالندوة در حقيقت قريش كى مشاورتى كو نسل تھى يہ جگہ رسول اكرم (ص) كے چوتھے جد حضرت قصى ابن كلاب نے قائم كى تھي_ اسلامى دور ميں معاويہ نے اسے حكيم ابن حزام سے خريد ليا اور اسے ''دارالامارة'' (ايوان صدرات )قرار ديا اس كے بعد اسے مسجد الحرام ميں شامل كرليا گيا (معجم البلدان ج ۲ ص ۴۲۳)_

۱۹_الاحتجاج تاليف مرحوم طبرسى ج ۱ ص ۱۴۱_

۲۰_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۲۴_۱۳۶_

۲۱_مثال كے طور پر سورہ توبہ كى آيت ۲۰ ميں اللہ نے فرمايا ہے كہ( الَّذينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فى سَبيل الله بأَموَالهم وَأَنفُسهم أَعظَمُ دَرَجَةً عندَ الله ) _ اللہ كے يہاں تو انہى لوگوں كا درجہ بڑا ہے جو ايمان لائے اور جنہوں نے اس كى راہ ميں گھر بار چھوڑ ديا اور جان و مال سے جہاد كيا _

۲۲_كنزالعمال ج ۱ ص ۳۷ حديث ۶۵_

۲۳_بعض محققين كى يہ رائے ہے كہ سورہ مدثر وہ سورہ ہے جو سب سے پہلے رسول اكرم (ص) پر نازل ہواليكن دوسرے لوگوں كا يہ نظريہ ہے كہ جب عام دعوت اسلام كے لئے خداوند تعالى كى جانب سے حكم ہوا تو اس كے بعد يہ پہلى سورت تھى جو نازل ہوئي (الميزان) ج ۲۰ ، ص ۷۹ _

۲۴_سورہ مدثر آيات ۱_ ۵_

۱۲۴

سبق ۸:

مدينہ ہجرت كرنے كے بعدرسول خدا(ص) كے اقدام

۱۲۵

قبا ميں رسول خدا (ص) كى تشريف آوري

رسول خدا (ص) نو دن تك سفر كرنے كے بعد بتاريخ ۱۲ ربيع الاول بروز پير ''قبا''(۱) ميں تشريف فرما ہوئے، جہاں لوگوں نے آپ (ص) كا نہايت ہى گرم جوشى سے استقبال كيا كيونكہ انہوںنے كافى عرصے قبل يہ خبر سنى تھى كہ آنحضرت(ص) مكہ سے يثرب تشريف لانے والے ہيں اسى لئے وہ لوگ بے صبرى سے آپ (ص) كى تشريف آورى كا انتظار كر رہے تھے_

پيغمبر اكرم (ص) ''كلثوم بن ہدم'' كے گھر پر قيام فرما ہوئے اور ''سعد ابن خثيمہ'' كى قيام گاہ كو اس بنا پر كہ وہ مجرد آدمى تھے عام لوگوں سے ملاقات كےلئے پسند كيا _(۲)

رسول خدا (ص) مكہ سے ہجرت فرما كر يثرب تشريف لے گئے تو حضرت على (ع) تين روز تك مكہ ميں قيام پذير رہے اور پيغمبر (ص) نے جو ہدايت فرمائي تھى انہيںانجام ديتے رہے اس كے بعد اپنى والدہ محترمہ حضرت فاطمہ بنت اسد عليہا السلام ،فاطمہ بنت زبير ،حضرت فاطمہ زہرا عليہا السلام اور ديگر اصحاب كے ہمراہ مكہ سے مدينے كى جانب روانہ ہوئے اور آج كے حساب سے گويا تقريبا چار سو كيلوميٹر طويل راستہ پيدل طے كيا چنانچہ بروز جمعرات ربيع الاول كے نصف ميں، قبا ميں پيغمبر (ص) كى ملاقات سے مشرف ہوئے(۳) ، رسول خدا (ص) نے قبا ميں قيام كے دوران بنى عمر ابن عوف قبيلے كى عبادت كيلئے ايك مسجد كى بنياد ركھى(۴) ، يہ مسجد آج بھى مسجد قبا كے نام سے مشہور ہے اور يہى وہ پہلى مسجد ہے جسے مسلمانوں نے تعمير كى _

۱۲۶

مدينے ميں تشريف آوري

رسول اكرم صلى اللہ وآلہ و سلم، حضرت على عليہ السلام اپنى دختر عزيز حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا اورديگر اصحاب كے ہمراہ بروز جمعہ قبا سے مدينہ كےلئے روانہ ہوئے ، آنحضرت (ص) نے پہلى بار نماز جمعہ راستے ميں قبيلہ ''بنى سالم بن عوف'' كے درميان ادا كى آپ (ص) نے خطبات ميں مسئلہ توحيد، لوگوں كى ہدايت كےلئے پيغمبروں كى آمد ، قرآن مجيد كى اہميت نيز افراد كى تعمير ميں اس كتاب مقدس كے كردار اور مسئلہ موت اور معاد كو بيان فرمايا آپ (ص) نے لوگوں كو يہ ہدايت فرمائي كہ تقوى اور پاكيزگى پر كاربند رہيں ، جو زبان سے كہيں اس پر عمل كريں اور راہ حق كے اپنے ساتھيوں كے ساتھ محبت اور خندہ روئي كے ساتھ پيش آئيں _(۵)

نماز ادا كرنے كے بعد آنحضرت (ص) ناقے پر سوار ہوئے اگرچہ راستے ميں كتنے ہى قبيلے ايسے آئے جنہوں نے بہت اصرار كيا كہ آپ (ص) ان كے درميان قيام فرما ہوں مگر آنحضرت (ص) نے مدينے كى جانب اپنا سفر جارى ركھا_

اس روز يثرب كى رونق ہى كچھ اور تھى انصار نوجوانوں نے فضا كو بتوں كى كثافت آلود ماحول سے پاك و صاف كرنے كيلئے جان ودل كى بازى لگادى راہ ميں ہر طرف نعرہ تكبر كى گونج تھى مرد عورتيں اور بچے آپ (ص) كا ديدار كرنے كيلئے مشتاق و بے قرار تھے ہر شخص كى كوشش تھى كہ آنحضرت (ص) كا ديدار كرنے ميں دوسروں پر سبقت لے جائے ، خوشيوں كے ترانے ان كى زبان پر جارى تھے اور سب مل كر پڑھ رہے تھے:

طَلَعَ البَدْرُ عَلَينَا

من ثَنيَّات الودَاع

وَجَبَ الشُّكرُ عَلَينَا

مَادَعَاللّه دَاع:

ايُّهَا المَبعُوثُ فينَا

جئتَ بالاَمر المُطَاع(۶)

۱۲۷

(ماہ كامل ثنيات، الوداع(۷) سے ہم پر طلوع ہوا ہے ، ہم پر شكر خدا اس وقت تك واجب ہے جب تك خدا كو پكارنے والا پكارتا رہے گا آپ (ص) وہ شخص ہيں جو ہمارے لئے ايسا فرمان لے كے آئے ہيں جس كى اطاعت كرنا ہمارے اوپر واجب ہے)_

بالآخر ناقہ رسول (ص) اس زمين پرركى جو دو يتيموں كى ملكيت تھي، رسول خدا (ص) نے اس سے اتر كر زمين پر قدم رنجہ فرمايا اس كے بعد آپ (ص) ''ابوايوب انصاري'' كے گھر تشريف لے گئے اور وہيںقيام فرمايا _(۸)

جب رسول خدا (ص) ہجرت فرما كر يثرب تشريف لے آئے تو اس شہر كا نام بدل كر مدينة الرسول(ص) ركھ ديا گيا _

الف: _مسجد كى تعمير

مورخين نے لكھا ہے كہ آنحضرت (ص) جب ہجرت كركے مدينہ تشريف لے گئے تو آپ (ص) نے سب سے پہلے جو اقدام يہاں فرمايا وہ مسجد كى تعمير تھى اسى ضمن ميں انہوں نے اس بات كا بھى ذكر كيا ہے :كہ يہ مسجد اس جگہ تعمير كى گئي جہاں آپ (ص) كى ناقہ زمين پر بيٹھى تھى اور اس كى زمين مبلغ دس دينا ر كے عوض دو يتيم بچوں سے خريدى گئي(۹) _

تمام مسلمانوں نے پورے ذوق و شوق اور خاص اہتمام سے اس مسجد كے بنانے كى كوشش كى ، اس كے ساتھ ہى پيغمبر اكرم (ص) كى جدو جہد نے اس جوش و خروش ميں كئي گنا اضافہ كرديا يہ ذوق وشوق حضرت عمار جيسے بعض لوگوں ميں زيادہ نماياں اور جلوہ گر تھا(۱۰) _

۱۲۸

مسلمانوں كى انتھك كوشش اور لگن سے يہ مسجد بن كر تيار ہوگئي ، اس كى ديواريں مٹى اور پتھروں سے بنائي گئي تھيں ستونوں كےلئے كھجور كے تنے استعمال كئے گئے تھے چھت بھى كھجو ر كے تختوں اوراس كى شاخوںسے پاٹى گئي تھى(۱۱) ، مسجد كے ايك كونے ميں كمرہ نما ايك جگہ مخصوص كى گئي تھى تاكہ وہ نادار اصحاب رسول (ص) جن كے پاس سر چھپانے كيلئے كوئي جگہ نہ تھى يہاں قيام پذير ہوں(۱۲) يہى وہ لوگ تھے جنہيںبعد ميں ''اصحاب صُفّہ'' كہا گيا _(۱۳)

اس مسجد كے بن جانے كے بعد مسلمانوں كو مركزيت حاصل ہوگئي چنانچہ عام مسلمان جن ميں صاحب خانہ اور بے گھر سب ہى شامل تھے بلا روك ٹوك يہاں جمع ہوتے اور عبادت ونماز باجماعت ادا كرنے كے علاوہ مسلمانوں كے اہم مسائل سے متعلق تبادلہ خےالات ميں حصہ ليتے اس كے ساتھ ہى رسول خدا (ص) سے يا ان اصحاب ميں سے جنہيں آنحضرت (ص) مقرر فرماتے احكام دين اور ديگر مسائل كى تعليم حاصل كرتے_

جب مسجد كى تعمير مكمل ہوگئي تو اس كے اطراف ميں رسول خد ا(ص) اور اصحاب كيلئے اس طرح مكانات بنائے گئے كہ ہر گھر كا ايك دروازہ مسجد كى جانب كھلتا تھا_

كچھ عرصے كے بعد خداوند تعالى كى طرف سے حكم ہوا كہ رسول خدا (ص) اور حضرت على (ع) كے گھروں كے علاوہ جن لوگوں كے گھروں كے دروازے مسجد كى جانب كھلتے ہيں بند كرديئے جائيں ، رسول خدا (ص) نے جب يہ حكم خداوندى لوگوں تك پہنچايا تو بعض اصحاب كو يہ بات بہت گراں گزرى اور ا نہيں يہ گمان ہونے لگا كہ يہ فرق و امتياز خود رسول خدا (ص) كا اپنا پيدا كردہ ہے اوريہ كام جذباتى پہلو ركھتا ہے ليكن رسول خدا (ص) نے انہيںجواب ديتے ہوئے فرمايا : ''يہ فرمان ميں نے اپنى طرف سے نہيں ديا ہے بلكہ يہ حكم خداوندى ہے''_(۱۴)

رسول خدا (ص) نے يہ قطعى موقف اس وقت اختيار كيا جبكہ مسلمان بالخصوص مہاجرين خاص

۱۲۹

حساسيت اور نازك صورت حال سے دوچار تھے اور انہيں پيغمبر (ص) سے يہ توقع تھى كہ ان كى دلجوئي كريں گے اور ان پر مزيد لطف وعنايت فرمائيں گے ان كيلئے يہ بھى بہت بڑى سعادت تھى كہ ان كے گھروں كے دروازے مسجد كى جانب كھلتے ہيں اس ميں شك نہيں كہ رسول خدا (ص) كو صحابہ كرام سے تعلق خاطر تھا مگر يہ واقعہ اس حقيقت كا آئينہ دار تھا كہ رسول خدا (ص) كا تعلق خاطر اور جذبہ لطف وعنايت، حكم الہى كو ان تك پہنچانے ميں مانع نہيں ہوا تھا اور كوئي چيز آنحضرت (ص) كو فرمان حق صادر كرنے سے نہيں روك سكتى تھى _

ب:_ رشتہ اخوت و برادري

اس ميں شك نہيں كہ پيغمبر خدا (ص) نے مكہ ميں مسلمانو ں كے درميان رشتہ اخوت و برادرى بر قرار فرماياتھا_(۱۵) ليكن ہجرت كركے ان مسلمانوں كا مكہ سے مدينہ چلے آنا اور نئے اقتصادى و اجتماعى مسائل وحالات كا پيدا ہونا يہ سب اس امر كا باعث ہوئے كہ مہاجر وانصار مسلمانوں كے درميان نئے سرے سے رشتہ اخوت و برادرى برقرار ہو چنانچہ يہى وجہ تھى كہ آپ (ص) نے مسلمانوں كو جمع كيا اور ان سے فرمايا :

(تَاَخَّوا فى اللّه اَخَوَين اَخَوَين)

''راہ خدا ميں تم دو دو مل كر بھائي بن جائو''_(۱۶)

رسول خد ا(ص) نے اپنے اس دانشمندانہ اقدام سے ان مہاجرين كے مسائل زندگى كو حل كرديا جو اپنے مقدس اہداف اور ايمان كى حفاظت كے لئے اپنى ہر چيز مكہ ميں چھوڑ كر مدينہ چلے آئے تھے اگرچہ مہاجرين اور انصار دو مختلف ماحول كے پروردہ تھے اور ان كے طرز فكر و معاشرت ميں بھى نماياں فرق تھا ليكن آپ (ص) نے انہيں اپنى دانشمندى سے نہ صرف يك جان و دو قالب كرديا بلكہ دونوں كے حقوق اور مراعات كو بھى مقرر اور مرتب فرمايا_

۱۳۰

رسول خدا (ص) نے مہاجرين اور انصار كے درميان رشتہ اخوت اور برادرى برقرار كرنے كے بعد حضرت على (ع) كے دست مبارك كو اپنے دست مبارك ميں لے كر فرمايا :''هذَا اَخي'' _ ''يہ ميرا بھائي ہے ''_(۱۷)

ج :_ يہوديوں كے ساتھ عہدو پيمان

رسول اكرم (ص) كے ہجرت كرنے سے قبل مقامى مشركين كے علاوہ يہوديوں كے '' بنى قينقاع'' ، ''بنى نضير'' اور ''بنى قريظہ'' نامى تين قبيلے مدينے ميں آباد تھے اور انہى كے ہاتھوں ميں اس شہر كى صنعت و تجارت تھي_

اگر چہ رسول خدا (ص) نے مہاجرين اور انصار كے درميان رشتہ اخوت و برادرى برقرار كركے اپنى طاقت كو متحد كرنے كيلئے بہت ہى اہم اقدام كيا مگر آپ (ص) كے سامنے ايك اور دشوارداخلى مرحلہ تھا اور وہ تھا ان يہوديوں كا وجود جو اس سرزمين پر آباد تھے_

حالات كے پيش نظر آنحضرت (ص) نے يہوديوں كے ساتھ ايك معاہدے پر دستخط كئے جس كى بعض شقيں ذيل ميں درج ہيں :

۱_جن لوگوں نے اس معاہدے پر دستخط كئے ہيں وہ ايك قوم بن كر يہاں زندگى بسر كريںگے_

۲_اس معاہدے ميں جو فريقين شامل ہيں ان ميں سے ہر فريق كو اپنى دينى رسومات انجام دينے كى آزادى ہوگي_

۳_مدينے كى حدود ميں ہر قسم كى خونريزى حرام ہوگى اور اگر باہر سے كسى دشمن نے حملہ كيا تو سب مل كر شہر كا دفاع كريں گے ، معاہدے ميں جو فريقين شامل ہيں اگر ان ميں

۱۳۱

سے كسى ايك فريق پركسى بيرونى طاقت نے حملہ كيا تو فريق ثانى اس كى مدد كرے گا بشرطيكہ وہ خود تجاوز كا ر نہ ہو_

۴_اختلافى مسائل ميں اختلاف كو دور كرنے كيلئے خدا اورحضرت محمد (ص) سے رجوع كيا جائےگا_(۱۸)

اس معاہدے كى برقرارى كے بعد پيغمبر اكرم (ص) كى حكومت معمولى حكومت نہيں رہ گئي بلكہ اس نے مستقل حيثيت اختيار كرلى اور رسول اكرم (ص) كو سركارى سطح پر حاكم مدينہ تسليم كر ليا گيا اور حلقہ اسلام كے اندر سياسى وحدت تشكيل پائي نيزبيرونى دشمنوں كے مقابل اسلام كى دفاعى بنياد كو تقويت حاصل ہوئي نيز رہبر اسلام كيلئے دين كى تبليغ كےلئے وسيع ترين ميدان ہموار ہوگيا اور بالآخر اس طرح معاشرتى حدود نيز انفرادى گروہى اور مذہبى اقليتوں كے حقوق اور ان كے باہمى روابط و تعلقات نيز دشمن كے ساتھ ان كے تعلقات كى كيفيت كى تعيين ہوئي_

عہد شكني

مسلمانوں اوريہوديوں كے درميان با ہمى مسالمت آميز عہد مدينے كے يہوديوں كيلئے بہت زيادہ سازگار ثابت ہوسكتا تھا وہ اس عہد و پيمان كى بدولت اسلامى حكومت كے زير سايہ آزادى كے ساتھ زندگى بسر كرسكتے تھے ليكن انہوں نے اس نعمت كى قدر نہ كى چنانچہ كچھ عرصہ گزرنے كے بعد جب انہوںنے جديد حكومت سے اپنى سياسى و اجتماعى زندگى اور برترى كو خطرہ ميں محسوس كيا تو انہوں نے اس عہد كو جو رسول خد ا(ص) كے ساتھ كيا تھا نظر انداز كرنا شروع كرديا اور آنحضرت (ص) كے خلاف سازشيں كرنے لگے وہ مسلمانوں كے

۱۳۲

دينى عقائد(۱۹) ميں شكوك و شبہات پيد اكركے اور دور جاہليت كے كينہ و اختلاف كو ياد دلاكر(۲۰) ان كے عقائد ميں ضعف و سستى اوران كى صفوں ميں انتشار پيدا كرنے كى كوشش كرنے لگے_

منافقين (بالخصوص ان كا سرغنہ عبداللہ ابن ابي) جو خفيہ طور پر يہوديوں كے ساتھ مل گئے تھے اس سازش ميں ان كے ساتھ شريك ہوگئے چنانچہ وہ لوگ مسلمانوں كے عقائد كا مذاق اڑاتے اور نوبت يہاں تك پہنچى كہ ايك مرتبہ رسول خدا (ص) نے مجبور ہو كر حكم ديا كہ انہيں مسجد سے باہر نكال دياجائے_(۲۱)

جنگى اور جاسوسى اقدامات كا آغاز

رسول خدا (ص) نے مملكت اسلامى كى طاقت كو وسعت دينے اور اسلامى حكومت كے مقدس اغراض و مقاصد كے تحقق كيلئے جو اقدامات فرمائے ان ميں جنگى اور جاسوسى ٹيموں كى تشكيل بھى تھي_ دستوں كو مدينہ سے باہر روانہ كيااور يہيں سے يہوديوں سے رسول خدا (ص) كے سرايا اور غزوات شروع ہوئے اس كے علاوہ دشمن كے خلاف جنگ و دفاع كا جو فرسودہ نظام اب تك چلا آرہا تھا اس ميں آپ (ص) نے تبديلى پيدا كركے اس كيلئے جديد اصول وقواعد مرتب كئے_

مورخين نے جنگ بدر سے قبل كے سرايا اور غزوات كى تعداد آٹھ عدد لكھى ہے(۲۲) ان مہمات ميںشريك سپاہيوںكى تعداد محدودتھى اور وہ سب كے سب مہاجر ہى تھے(۲۳) ہم يہاں دو نكات كا بطور اختصار ذكر كريں گے:

۱_انصار كے ان مہموں میں شريك نہ ہونے كا سبب

۲_ ان مہمات اور غزوات كا مقصد

۱۳۳

انصار كا ان مہمات ميں شريك نہ ہونے كا سبب

۱_عقبہ كے معاہدے كى رو سے انصار اس شرط كے پابند تھے كہ وہ رسول خدا (ص) كا دفاع شہر كى حدود كے اندر كريں گے اس كے باہر نہيں_

۲_انصار چونكہ كچھ عرصہ قبل ہى مشرف بااسلام ہوئے تھے اورآئندہ جو مشكلات نيز جو دوشوارياں در پيش تھيں ان كا مقابلہ كرنے كيلئے وہ خود كو تيار كر رہے تھے اسى لئے ان حقائق كو مد نظر ركھتے ہوئے پيغمبر اكرم (ص) نے مصلحت اس امر ميں ديكھى كہ ان كى طاقت كو اس موقع پر بروئے كار نہ لاياجائے_

۳_ مہاجرين كا انتخاب بھى شايد اس مقصد كے تحت كيا گيا تھا كہ ان ميں ايسى جنگى مہمات ميں شركت كا جذبہ انصار سے كہيں زيادہ تھا جس كى وجہ يہ تھى كہ انہوںنے قريش كے ہاتھوں جو تكاليف و سختياں برداشت كى تھيں ان كے باعث وہ ان سے سخت رنجيدہ خاطر تھا اس كے علاوہ ان كيلئے مدينہ ميں كوئي مادى وابستگى بھى نہ تھي_ دوسرى طرف وہ يہ بھى چاہتے تھے كہ مدينہ اور اطراف مدينہ كے جغرافيہ كے بارے ميں بيشتر اطلاعات كسب كريں_

۴_رسول اكرم (ص) اس تحريك كے ذريعے انصار پر يہ بات واضح كردينا چاہتے تھے كہ آپ اپنے مقاصد كو ہرحال حاصل كرنے كا قطعى فيصلہ اور مصمم ارادہ كرچكے ہيں وہ مہاجرين جنہوں نے راہ خدا ميں ہر چيز كو ترك كرديا تھا وہ مكہ كى طرح اس وقت بھى فرمان رسول (ص) كى خاطر شرك سے جنگ كرنے ميں اپنى جان قربان كرنے كيلئے تيار تھے يہ درحقيقت ان لوگوں كيلئے عملى درس تھا جو حال ہى ميں مشرف بااسلام ہوئے تھے_

۱۳۴

ان جنگوں اور غزوات كا مقصد :

۱_ہادى و رہبر كى حيثيت كو مستحكم كرنا اور اسلام كى مركزى حكومت كو تقويت پہنچانا_

۲_مسلمانوں كى جنگى استعداد و طاقت كو بلند و مضبوط كرنا نيز لشكر اسلام كو آئندہ كى مشكلات كيلئے آمادہ كرنا_

۳_اطراف ومضافات ميں بسنے والے قبائل كے ساتھ دفاعى معاہدے خصوصاً ان لوگوں سے معاہدہ كرنا جو قريش كے تجارتى قافلوں كے راستے ميں آباد تھے_

۴_جغرافيائي ماحول اور شہروں كو متصل كرنے والے راستوں سے واقفيت اس كے ساتھ ہى اطراف مدينہ ميں آباد قبائل كے بارے ميں معلومات حاصل كرنا_

۵_قريش كو جنگ كى تنبيہہ كرنا اور ان كے رابطوں اور تجارتى راستوں كو غير محفوظ بنانا اور دشمن كو مسلمانوں كى طاقت اور مقام سے آگاہ كرنا _

قبلہ كى تبديلي

پيغمبر اكرم (ص) مكہ ميں اور ہجرت كے بعد مدينہ ميں سترہ ماہ تك بيت المقدس كى جانب رخ كركے نماز ادا كرتے رہے يہاں تك كہ پير كے دن پندرہ ماہ رجب سنہ ۲ ھ ميں يہ واقعہ پيش آيا كہ جب آپ (ص) مسجد بنى سالم بن عوف ميں(۲۴) جہاں سب سے پہلى نماز جمعہ ادا كى گئي تھي، نماز ظہر ادا فرمارہے تھے آپ (ص) كو يہ حكم ديا گيا كہ اپنا قبلہ تبديل كرديں_

قبلہ جن وجوہات كى بناپر تبديل كيا گيا ان ميں سے چند يہ تھيں:

۱_ايك طرف تو رسول خدا (ص) پر يہودى يہ اعتراض كرتے تھے كہ جب تم ہمارى مخالفت كرتے ہو تو ہمارے قبلہ كى جانب رخ كركے نماز كيوں پڑھتے ہو اس كے ساتھ ہى

۱۳۵

وہ مسلمانوں سے يہ كہتے كہ :

اگر ہم حق پر نہ ہوتے تو تم ہمارے قبلے كى جانب رخ كركے نماز كيوں پڑھتے ؟(۲۵)

دوسرى طرف مشركين يہ طعنہ ديتے كہ : تم جبكہ قبلہ ابراہيم (ع) كو ترك كركے قبلہ يہود كى طرف نماز پڑھتے ہو تو يہ كيسے دعوى كرتے ہو كہ ہم ملت ابراہيم (ع) پر قائم ہيں(۲۶) _

اس قسم كے اعتراضات اور طعنے رسول خد ا(ص) كو سخت رنجيدہ اور آزردہ خاطر كرتے تھے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ آپ (ص) راتوں كو بارگاہ خداوندى ميں دعا فرماتے اور مقام رب ذوالجلال كى جانب رخ كركے اپنى آنكھيں آسمان كى جانب لگاديتے تاكہ خداوندتعالى كى جانب سے اس بارے ميں كوئي حكم صادر ہو _(۲۷)

قرآن مجيد نے رسول خدا (ص) كى اس ذہنى كيفيت كو ان الفاظ ميں بيان كيا ہے:

( قَد نَرى تَقَلُّبَ وَجهكَ فى السَّمَائ فَلَنُوَلّيَنَّكَ قبلَةً ترضى هَا ) _

''اے رسول(ص) ہم آپ (ص) كى توجہ آسمان كى جانب ديكھ رہے ہيں لو ہم اس قبلے كى طرف تمہيں پھيرے دیتے ہيں جسے تم پسند كرتے ہو''_(۲۸)

۲_خداوند تعالى قبلہ كا رخ تبديل كركے مسلمانوں كو آزماناچاہتا تھا كہ يہ معلوم ہو جائے كہ كون لوگ حكم خدا كے مطيع اور رسول خدا (ص) كے فرمانبردار ہيں_

( وَمَا جَعَلنَا القبلَةَ الَّتى كُنتَ عَلَيهَا إلاَّ لنَعلَمَ مَن يَتَّبعُ الرَّسُولَ ممَّن يَنقَلبُ عَلَى عَقبَيه وَإن كَانَت لَكَبيرَةً إلاَّ عَلَى الَّذينَ هَدَى الله ُ ) (۲۹)

''پہلے جس طرف تم رخ كرتے تھے اس كو تو ہم نے صرف يہ ديكھنے كيلئے قبلہ مقرر كيا تھا كہ

۱۳۶

كون رسول (ص) كى پيروى كرتا ہے اور كون الٹا پھر جاتا ہے يہ معاملہ تھا تو بڑا سخت مگر ان لوگوں كيلئے كچھ بھى سخت نہ تھا جو اللہ كى جانب سے ہدايت سے فيضياب تھے''_

۳_بعض روايات(۳۰) اور تاريخى كى كتابوں(۳۱) ميں اس كا ايك سبب يہ بھى بتايا گيا ہے كہ رسول خدا (ص) مكہ ميں اس وقت جبكہ آپ (ص) كا رخ مبارك بيت المقدس كى جانب ہوتا ہرگز كعبہ كى جانب پشت نہیں فرماتے تھے ليكن ہجرت كے بعد مدينے ميں جس وقت آپ (ص) نماز ادا كرتے تو اس وقت مجبوراً آپ(ص) كى پشت كعبہ كى جانب ہوتى ، رسول خدا (ص) كے قلب مبارك ميں بيت ابراہيمى كيلئے جو جو احترام تھا اور اس كى جانب پشت كرنے سے آپ (ص) كو تكليف ہوتى تھى اسے ملحوظ ركھتے ہوئے خداوند تعالى نے تحويل قبلہ كے ذريعے آپ (ص) كى رضامندى كا اہتمام كيا_

سمت قبلہ تبديل كئے جانے كے بعد يہوديوں نے دوبارہ اعتراضات كرنا شروع كرديئے كہ آخر وہ كيا عوامل تھے جن كے باعث مسلمان قبلہ اول سے روگرداں ہوگئے ؟ اس كے ساتھ ہى انہوں نے رسول خدا (ص) كے سامنے يہ شرط ركھى كہ اگر آپ (ص) قبلہ يہود كى طرف رخ فرماليں تو ہم آپ (ص) كى پيروى و اطاعت كرنے لگیں گے(۳۲) _

بعض سادہ لوح مسلمان يہوديوں كے پروپيگنڈے كا شكار ہوكر دريافت كرنے لگے كہ وہ نماز جو انہوں نے بيت المقدس كى جانب رخ كركے ادا كى ہيں ان كا كيا ہوگا_

قرآن مجيد نے ان كے اس سوال كا جواب ديتے ہوئے فرمايا :

( مَاكَانَ ليُضيعَ ايمَانَكُم ) _(۳۳)

''اللہ تعالى تمہارے ايمان (يعنى بيت المقدس كى جانب ادا كى جانے والى نماز)كو ہرگز ضائع نہ كرے گا''_(۳۴)

۱۳۷

سوالات

۱_رسول خدا (ص) كس تاريخ كو قبا پہنچے؟ آپ (ص) نے كتنے عرصے اور كس مقصد كيلئے توقف فرمايا اور دوران قيام كيا اقدامات كئے؟_

۲_ جب رسول خدا (ص) مدينہ ميں تشريف لائے تو لوگوں نے آپ (ص) كا كس طرح استقبال كيا اور آپ (ص) نے كس صحابى كے گھر پر قيام فرمايا ؟

۳_ ہجرت كے بعد مدينے ميں رسول خدا (ص) نے كن لوگوںكے درميان رشتہ اخوت وبرادرى قائم كيا؟ اپ كے اس اقدام كے كيا نتائج برامد ہوئے؟

۴_ہجرت كے بعد مدينہ ميں رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے سب سے پہلے كيا اقدام كيا اور اس كا كيا فائدہ ہوا؟

۵_پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے داخلى امن و امان فراہم كرنے كے لئے كيا اقدامات كئے ؟ ان اقدامات ميں كيا خوبياں اور بركات تھيں ؟

۶_جنگ بدر سے قبل سرايا اور غزوات ميں صرف مہاجرين ہى كيوں شريك رہا كرتے تھے ؟

۷_ جنگ بدر سے قبل رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سرايا اور غزوات كے ذريعے كن مقاصدكى تكميل چاہتے تھے؟

۸_سمت قبلہ بيت المقدس سے كعبہ كى جانب كس تاريخ ميں تبديل ہوئي اور تبديلى كى كيا وجوہات تھيں ؟

۱۳۸

حوالہ جات

۱_ قبا كسى زمانے ميں مدينہ سے دو فرسخ كے فاصلے پر ايك گائوں تھا اور اس كا شمار قبيلہ ''بنى عمر وابن عوف'' كے مركز ميں ہوتا تھا_ اب چونكہ مدينہ كافى وسيع ہوچكا ہے اسى لئے يہ اسى شہر ميں شمار ہوتا ہے_

۲_ السيرة النبويہ ج ۲ ص۱۳۷_۱۳۸_

۳_ ايضا صفحہ ۱۳۸_

۴_ ايضا صفحہ ۱۳۹_

۵_ اس خطبے كے متن كيلئے ''بحارالانوار'' كى جلد ۱۹ صفحہ ۱۲۶ اور تاريخ طبرى كى جلد ۲ صفحہ ۳۹۴ ملاحظہ فرمائيں_

۶_ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۵۴_۵۷ ، بعض محققين كى رائے ميں يہ اشعار اس وقت پڑھے گئے تھے جب آنحضرت (ص) غزوہ تبوك سے واپس تشريف لارہے تھے (ملاحظہ ہو الصحيح من سيرة النبي(ص) ج ۲ ص ۳۱۳)_

۷_ ''ثنيہ'' كے اصل معنى سنگلاخ كوہستانى راستے كے ہيں ثنية الوداع وہ جگہ تھى جہاں تك لوگ اپنے مسافروں كو وداع كرنے آتے تھے_ اور يہ رسم زمانہ جاہليت سے چلى آرہى تھى (ملاحظہ ہو معجم البلدان ج ۲ ص ۸۶)

۸_ السيرة النبويہ ج ۲ ص۱۳۹_ ۱۴۱ ، بحارالانوار ص ۱۰۴_ ۱۰۹_

۹_ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۶۶_۷۱_

۱۰_ السيرة الحلبيہ ج ۲ص ۶۶_۷۱_

۱۱_ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۶۶_۷۱_

۱۲_ بعض روايات ميں آيا ہے كہ ان كى تعداد چارسو افراد پر مشتمل تھى (ملاحظہ ہو بحارالانوار ج ۶۷ ، ص ۱۲۸)

۱۳_ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۸۱_

۱۴_ بحارالانوار ج ۱۹ ص ۱۱۲_

۱۵_ ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۹۰_

۱۶_ السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۵۰_

۱۷_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۹۰ السيرة النبويہ ج ۲ ص۱۵۰_

۱۸_ السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۴۷_ ۱۴۹_

۱۳۹

۱۹_ ان كے اعتراضات اور شكوك وشبہات كے بارے ميں مزيد اطلاع حاصل كرنے كيلئے ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۳۳۸ كے حاشيے پر السيرة النبويہ دحلان_

۲۰_ مثال كے طور پر ايك مرتبہ ان ميں سے ايك شخص نے ''اوس'' اور ''خزرج'' قبائل كے اجتماع ميں اس جنگ كا ذكر چھڑ ديا جو مذكورہ بالا دونوں قبائل كے درميان لڑى گئي تھى اور جنگ ''بعاث'' كے نام سے مشہور تھي_ اور اس طرح ايك دوسرے كے خلاف ان كے جذبات مشتعل كرنے كى كوشش كى _ اگر اس وقت رسول خد ا(ص) درميان ميں نہ آگئے ہوتے تو عين ممكن تھا كہ يہ دونوں بھائي تلواروں سے ايك دوسرے پرٹوٹ پڑتے_ ملاحظہ ہو السيرة النبويہ ج ۲ ص ۲۰۴ _ ۲۰۵_

۲۱_ السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۷۵_

۲۲_ ان غزوات اورسرايا سے متعلق بيشتر اطلاع كيلئے ملاحظہ ہو السيرة النبويہ ج ۲ ص ۲۴۱_ ۲۵۶

۲۳_الصحيح من سيرة النبى (ص) ج ۳ ص ۱۴۵_

۲۴_ اعلام الورى ص ۸۲_

۲۵_۲۶ _ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۱۲۸_

۲۷_ بحارالانوار ج ۱۹ ص ۲۰۱_

۲۸_ سورہ بقرہ آيہ ۱۴۴_

۲۹_ سورہ بقرہ آيہ ۱۴۳_

۳۰_ بحارالانوار ج ۱۹ ص ۲۰۰_

۳۱_ملاحظہ ہو: السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۱۲۸_ ۱۳۰_

۳۲_ ملاحظہ ہو: السيرة النبويہ ج ۲ ص ۱۹۸،۱۹۹و بحار الانوار ج ۱۹ ص ۱۹۵_

۳۳_بقرہ آيت ۱۴۳_

۳۴_بحارالانوار ج ۱۹ ص ۱۹۷_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

پوری شیعہ تاریخ میں علماء حقہ نے جن زحمات و تکالیف کو برداشت کیا ،ان کی زحمات لوگوں کو بتائیں اور ان کے احترام کی کوشش کریں،ان کی بدگوئی اور استخفاف سے گریز کریں۔

امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' من اَفسَدَ بالعلَماء اَفسَدَدینَه''( 1 )

علماء کی اہانت کرنے والا اپنے دین کو فاسد کرتا ہے۔

یہ فرامین ان علماء کے بارے میں صادر ہوئے ہیں کہ جنہوں نے دین خدا کی خدمت میں اپنی زندگی بسر کی۔ایسے علماء کی اہانت ،دین اور خدا کے دستورات کی اہانت ہے۔ کیونکہ ایسے علماء علم ودانش کو کسب کرنے کی جستجو و کوشش اور اسے معاشرے میں فروغ دینے کی وجہ سے خدا کی بارگاہ اوراہلبیت عصمت و طہارت علیہم  السلام  کے مقربین میں سے ہیں۔

اس بناء پر جو ان کی اہانت کرے،حقیقت میں  وہ دین کی اہانت کرتا ہے،اور جو خدا کے دستورات کی اہانت کرے وہ اپنے دین کو تباہ کرتاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج23ص378

۲۰۱

نتیجۂ بحث

علم و دانش کے حصول کیلئے شوق اور ارادہ بہت اہم کردار کے حامل ہیں۔لہٰذا اپنے اندر ان دونوں صفات کو ایجاد کریںاور انہیں تقویت دیں۔اس علم کو حاصل کرنے کی کوشش کہ جس کا سرچشمہ مکتب وحی ہو،اور اپنے وجود کو ان کے تابناک انوار سے منوّر کریں۔

ان علوم کو حاصل کرنے سے آپ کے نفس میںعظیم تحولات جنم لیںگے۔کیونکہ علم و دانش شعور پر اثرانداز ہوتے ہیں اور آپ کے افکار کو بلند مقام پر پہنچاتے ہیں۔

ان روحانی تحولات کا نتیجہ جاویدانی حیات اور اغیار سے پوشیدہ اسرار تک رسائی ہے۔اس صورت میں آپ کو بلند درجات کا وسیلہ فراہم ہوجائے گا۔

آپ ان عالی اور علمی مقامات کو کسب کرنے سے معاشرے اور امت کی ہدایت اور راہنمائی کریں اور انہیں ضلالت اور گمراہی نجات دے کر مکتب اہل بیت سے آشنا کروائیں۔

چو علمت ہست خدمت کن کہ زشت آید بردانا

گرفتہ چینیان احرام و مکّی خفتہ در بطحا

تمہارے پاس علم ہے تو خدمت کرو کیونکہ عالم کے لئے زشت ہے کہ وہ دوسروں کو اپنے علم سے مستفید نہ کرے ہماری غفلت کا یہ حال ہے کہ اہل چین نے احرام بہی باندہ لیا اور ہم مدینہ میں بیٹہے سو  رہے ہیں۔

۲۰۲

بارہواں باب

توفیق

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' لَا ینفَع اجتهاد بغیر تَوفیق ''

توفیق کے بغیر کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔

    انسان کی ترقی میں توفیق کا کردار

    سعادت کے چار بنیادی ارکان

    توفیق نیکیوں کی طرف ہدایت کا ذریعہ

    کامیاب اشخاص

    توفیق حاصل کرنے کے ذرائع

   1 ۔ کسب توفیق کے لئے دعا کرنا

    ایک اہم نکتہ

   2 ۔ ماں باپ کی دعا توفیق کا سبب

   3 ۔ توفیق کے حصول کے لئے جستجو اور کوشش کرنا

   4 ۔ خدا کی نعمتوں میں تفکر، توفیق الٰہی کا سبب

    نتیجۂ بحث

۲۰۳

انسان کی ترقی میں توفیق کا کردار

نیک کام انجام دینے کے لئیانسان کو خداوند متعال کی جانب سے توفیق اور عنایت کی ضرورت ہوتی ہے،جب تک توفیق الٰہی شامل حال نہ ہو تب تک وہ کسی بہی خدا پسندانہ کام کو انجام دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔لہٰذا اپنے اہداف تک پہنچنے اور اپنے امور زندگی میں کامیابی کے لئے خداوندعالم سے دعا کرنا ضروری  ہے کہ اے پروردگار ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم اہم اور عالی اہداف و مقاصد تک پہنچ سکیں اور ان کا حصول ہمارے لئے آسان فرما۔

حضرت جوادالائمہ امام محمد تقی (ع) فرماتے ہیں:

''اَلمؤمن يَحتاج الٰی تَوفیقٍ من اللّه وَ وَاعظٍ من نفسه وَ قَبول ممَّن يَنصَحَه''(1) مومن تین چیزوں کا محتاج ہے:

1 ۔ خدا کی طرف سے حاصل ہونے والی توفیق۔

2 ۔ اپنے نفس کے ذریعہ خود کو وعظ کرنے والا ہو۔

3 ۔ جو اسے نصیحت کرے اس کی نصیحت قبول کرے۔

اس فرمان کی رو سے توفیق الٰہی ہر مومن شخص کی ضرورتوں میں سے ہے تاکہ اس کی مدد سے وہ اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہنائے،زیارت سے مشرف ہوتے وقت جس دعا کو پڑہنا مستحب ہے،اس دعا میں کہتے ہیں:

''اَلَّلهمَّ صل  نیَّتی باالتَوفیق ''(2) پروردگارا  میرے ارادہ کو  تو فیق  کے سات ھ متصل فرما۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ تحف العقول مرحوم حرّانی:457

[2]۔ بحارالانوار:ج 102 ص162

۲۰۴

کیونکہ جس خدا پسندانہ اور نیک کام کی نیت و ارادہ میں توفیق الٰہی شامل نہ ہو ،وہ کام کبہی بہی مؤثر نہیں ہوتا۔

لہٰذا انسان کی نیت و ارادہ ،توفیق الٰہی کے ہمراہ ہونی چاہئے تاکہ کام پایہ تکمیل تک پہنچ سکے ۔ لیکن اگر نیت کے ساتہ توفیق الٰہی شامل نہ ہو تو اس کام کا کوئی عملی اثر نہیں ہوگا،اگرچہ انسا ن وعدہ دیئے گئے ثواب سے بہرہ مند ہوجائے گا۔

اس بناء پر خدا کی توفیق ہر مؤمن کی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔کیونکہ کسی نیک کام کو انجام دینے کی قدرت اور نیت ،اس کام کے وقوع پذیر ہونے کی علت تامّہ نہیںہے۔

کار خیر کو انجام دینے کے لئے نیت اور توانائی کے علاوہ توفیق الٰہی کی بہی ضرورت ہوتی ہے،اگر خدا کی توفیق آپ کے شامل حال نہ ہو تو نیک کام انجام دینے کا امکان ہی نہیں ہے۔

خدا وند متعال قرآن میں حضرت شعیب کے قول کو یوں بیان فرماتا ہے ،جو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا تہا:

'' ان اریدَ الّا الاصلَاح مَا اَستَطَعت وَ مَا تَوفیقی الَّا باللّٰه ''( 1 )

میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں، جہاں تک میرے امکان میں ہو،میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی نیک کام کو انجام دینے کے لئے فقط استطاعت اور قدرت کافی نہیں ہے بلکہ خدا کی توفیق بہی مورد نیاز ہے۔

پروردگا ر کی توفیق اور لطف انسان کی قوت اور قدرت کی تکمیل کرتی ہے ورنہ صرف انسان کی توانائی مشکلات کو حل کرنے سے قاصر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ ہود آیت:88

۲۰۵

اس بیان کی رو سے نہ صرف عام افراد بلکہ اولیاء خدا اور بزرگان دین بہی اسی صورت میں نیک کاموں کو انجام دینے میں کامیاب ہوسکتے  ہیں کہ جب خدا کی جانب سے توفیق شامل حال ہو۔

اس نکتہ کی جانب توجہ نہ صرف لازم اور ضروری ہے، بلکہ اس کے بہت اہم اثرات بہی ہیں۔

اس نکتہ پر اعتقاد اور توجہ کہ تمام افراد کے لئے خداپسندانہ امور کو انجام دینے میںتوفیق الٰہی کا حاصل ہونا نہ صرف لازم اور ضروری ہے بلکہ اس کے بہت مہم اثرات بہی ہیں اور وہ یہ کہ اس سے انسان میں غرور اور تکبر پیدا نہیں ہوتا۔اولیائ خدا اور بزرگان دین اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ ان کے تمام نیک کاموں میں خدا کی توفیق شامل ہے، لہٰذا ان میں غرور اور تکبر پیدا نہیں ہوتا۔

وہ اس دنیا میں  خود کو کچہ بہی نہیں سمجہتے،اس اعتقاد سے ان کے اخلاص میں اضافہ ہوتا ہے۔جو انہیں خود پسندی اور انانیّت سے باز رکہتا ہے۔

صبر بردرد، نہ از ہمت مردانہ ماست

درد  از او، صبر از او، ہمت مردانہ از اوست

دگری را بہ جز او،راہ بہ ویرانہ دل

نتوان داد،کہ این گوشہ ویرانہ از او  ست

شمع و پروانہ از او سوختن آموختہ اند

شعلہ شمع از او ،سوزش پروانہ از اوست

مصیبتوں پہ صبر ہماری مردانگی کی علامت نہیں ہے ، صبر درد اور ہمت مردانہ اسی کی عطا ہے لہذا اپنے دل میں اس کے علاوہ کسی اور کو نہ بٹہائوکیونکہ یہ دل اسی کا گہر ہے، شمع اور پروانے نے جلنا اسی سے سیکہا شمع کا شعلہ اور پروانے کا جلنا بہی اسی سے ہی ہے۔

۲۰۶

سعادت کے چار بنیادی ارکان

نیت ، قدرت، توفیق، منزل تک پہنچنا۔

توفیق کے مطابق عمل کرنے والا انسان سعادتمند ہوتاہے ،یعنی جو نیت و ارادہ اور قدرت و توفیق کے علاوہ توفیق الٰہی کو عملی صورت میں لائے اور شیطان کے فریب و وسوسہ سے توفیق کو نہ کہودے۔ بہت سے لوگ کامیابی کی تمام شرائط کے با وجود منفی و شیطانی افکار کی وجہ سے کام کو انجام دینے سے گریز کرتے ہیں اور یوں توفیق کہودیتے ہیں۔امام صادق(ع) فرماتے ہیں:

'' مَا کلّ مَن نَویٰ شَیئا قَدَرَ عَلَیه وَ لَا کلّ مَن قَدَرَ عَلیٰ شئی وفّقَ لَه وَلَا کلّ مَن وفّقَ لشَئی اَصَابَ لَه فَاذااجتَمَعَت النّيةوَالقدرَة وَالتَّوفیق وَالاصَابَةفَهنَالک تَمَّت السَّعَادَة''(1)

ایسا نہیں ہے کہ جو شخص کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کر ے وہ اسے انجام دینے کی قدرت بہی رکہتا ہو اور جو قدرت بہی رکہتا ہو وہ اسے انجام دینے کی توفیق بہی رکہتا ہو،نیز ایسا بہی نہیں ہے کہ جو کسی کام انجام دینے کی توفیق بہی رکہتا ہو وہ اس تک پہنچ جائے ، پس جب نیت، قدرت، توفیق اور مقصد تک پہنچنا ایک ساتہ جمع ہوجائیں تو انسان کی سعادت مکمل ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:۵ ص۲۱۰

۲۰۷

توفیق نیکیوں کی طرف ہدایت کا ذریعہ

روایت سے لائے گئے نکتہ سے استفادہ کرتے ہیں کہ توفیق کے مسئلہ میں اجباری طور پر اجراء کی قدرت کا وجود نہیں ہے،کیونکہ سعادت تک پہنچنے کے لئے توفیق کے علاوہ مقصد تک پہنچنے کی بہی ضرورت ہے۔توفیق،ایک ایسی قوت ہے کہ جو انسان کی خوبیوں اور پسندیدہ امور کی طرف ہدایت کرتی ہے۔حقیقت میں توفیق نیک کاموں کو انجام دینے کے لئے راہنمائی کرتی ہے۔اس مسئلہ میں جبر کا کوئی عمل دخل نہیں ہے کیونکہ کامیاب فرد اسے انجام دینے کے لئے مجبور نہیں ہے البتہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قوت سے استفادہ کرے اور اسے ضائع نہ کرے۔اس بناء پر توفیق نیک اعمال کے لئے فقط راہنمائی کرتی ہے۔اس میں کسی قسم کا اجبار اور اکراہ موجود نہیں ہوتا۔اسی وجہ سے حضرت امیرالمؤمنین (ع) فرماتے ہیں:''  لَا قَائدَ خَیر من التَّوفیق'' (1) توفیق سے بہتر کوئی راہنماموجود نہیں ہے۔حضرت امیرالمؤمنین (ع) توفیق کو بہترین راہنما کے عنوان سے متعارف کرواتے ہیں ۔ کیونکہ جس طرح ہم نے کہا کہ اعطائ توفیق میں کوئی اجباری قدرت پوشیدہ نہیں ہوتی، لہٰذا کبہی خدا ہمیں توفیق عنایت کرتا ہے لیکن ہم اسے ضائع کرتے ہیں۔حضرت امیرالمؤمنین (ع) نے جو تعبیر فرمائی ہے وہ ان افراد کے لئے جواب ہے کہ جو نیک اور پسندیدہ کاموں کو انجام دینے سے گریز کرتے ہیں۔اگر ان سے اس بارے میں پوچہا جائے اور ان پر اعتراض کیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ خدا وند تعالی نے ہمیں توفیق عطا نہیں کی ۔اس بیان کی رو سے واضح ہوجاتا ہے کہ بہت سے موارد میں توفیق الٰہی ہماری مدد کرتی ہے۔لیکن ہم اسے ضائع کر دیتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے اس بناء پر حتمی کامیابی اور ہدف تک رسائی کی شرائط میں سے ایک شرط توفیق الٰہی کے مطابق عمل کرنا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج9ص41

۲۰۸

کامیاب اشخاص

مرحوم سید محمد باقر قزوینی بزرگ شخصیت کے مالک تہے ۔ وہ عظیم و بیکران توفیق سے بہرہ مند تہے۔یہ مرحوم بزرگ علماء شیعہ میں سے اور خلق خدا کے گزار تہے ،یہ سید بحرالعلوم کے بہانجے تہے۔

ان کے بہتیجے مرحوم سید مہدی قزوینی (جو خود بہی بزرگ علماء میں سے تہے) نقل کرتے ہیں کہ عراق میں طاعون کی وباء پہیلنے سے دو سال پہلے اس بزرگ نے اس کے آنے کی خبر دی تہی اور اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں میں سے ہر ایک کو دعا لکہ کر دی اور فرمایا حضرت امیرالمؤمنین(ع) نے خواب میں مجہ سے فرمایا ہے'' وَ بکَ ختم یا وَلَدی'' طاعون کی بیماری تم پر ختم ہوجائے گی۔اس سال انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی ایسی خدمت کہ جس سے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔انہوں نے شہر اور شہر سے باہر ہر میت کی نماز پڑہی،وہ ہر بیس ،تیس یا اس سے کم یا زیادہ افراد پر ایک نماز پڑہتے۔طاعون کے مرض سے اتنی زیادہ ہلاکتیں ہوئیں کہ ایک دن ہزار افرادکے لئے  ایک نماز بجا لائی گئی۔وہ  1246 ہ کو عرفہ کی رات نمازمغرب کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔وہ طاعون کے مرض سے ہلاک ہونے والے آخری  شخص تہے۔

ایک بار وہ دسیوں علماء و صلحاء کے ہمراہ کشتی میں سوار تہے،طوفان کی وجہ سے وہ سب غرق ہونے کے قریب تہے ،لیکن اس بزرگوار نے اپنی غیر معمولی معنوی قوّت سے طوفان کو ٹال دیا اور کشتی کو غرق ہونے سے بچالیا۔ان کے بہتیجے کا کہنا ہے کہ علماء و صالحین کے ایک گروہ کے ساتہ کشتی میں سوار ہوکر کربلا سے آرہے تہے کہ اچانک بہت تیز ہوا چلنے لگی کہ جس سے کشتی کے الٹنے کا خطرہ لاحق ہوا،ہمارے ساتہ ایک شخص بہت خوفزدہ اور مضطرب ہوگیا اور اس کی حالت متغیر ہوگئی،وہ کبہی روتا تہا اور کبہی حضرت امیرالمؤمنین سے متوسّل ہوتا،لیکن اس دوران مرحوم سید اپنی عادی حالت میں بیٹہے رہے،

۲۰۹

جب وہ شخص خوف کے مارے بہت زیادہ رونے لگا تو اس سے فرمایا:تم کس چیز سے ڈر رہے ہو؟ہوا،آندہی،اور رعد و برق یہ تمام خدا کے امر کے مطیع ہیں،پہر انہوں نے اپنی عباء کو اکٹہا کیا اور ہوا کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:آرام کرو اسی وقت طوفان تہم گیا اور کشتی بہی طوفان سے بچ گئی۔

یہ بزرگوار اس توفیق کی وجہ سے ایسے عظیم علوم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے کہ عام حالات اور شرائط میں جن کا حصول ممکن نہیں ہے۔

اس مرحوم کی شخصیت اور غیر معمولی عظمت کو بیان کرنے والے اس واقعہ کو مرحوم محدّث نوری یوں بیان کرتے ہیں۔امام زمان نے اس بزرگوار کو بشارت دی تہی کہ مستقبل میں تمہاری روزی علم توحید ہوگا۔مرحوم فرماتے ہیں کہ اس بشارت کے بعد ایک رات خواب میں دیکہا کہ دو فرشتے آسمان سے نازل ہوئے ،ان میں سے ایک کے ہاتہ میں کچہ لوح تہے جن پر کچہ لکہا تہا اور دوسرے کے ہاتہ میں ایک میزان تہا، ان فرشتوں کے دونوں لوح ترازو کے دونوں پلڑوں میں رکہے اور انہیں تولنے لگے ،پہر انہوں نے وہ لوح مجہے دیئے اور میں نے ان پر لکہی ہوئی تحریر کو پڑہا ،پہر انہوں نے تمام لوح میرے سامنے رکہے اور میں نے انہیں پڑہا ،ان میں سے بعض لوح پر اصحاب پیغمبر (ص) اور اصحاب ائمہ اطہار (سلمان،ابوذر،سے نوّاب اربعہ تک)کے علوم و عقائد لکہے تہے اور بعض دیگر پر علماء شیعہ جیسے کلینی،صدوق،تا بحرالعلوم اور ان کے متاخرین علماء کے علوم و عقائد درج تہے،وہ دونوں فرشتے پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ اطہار علیہم  السلام  کے اصحاب اور بزرگ شیعہ علماء کے علوم و عقائد کو ترازو میں رکہ کر تول رہے تہے۔اس خواب کی وجہ سے میں علوم کے بہت سے اسرار سے آگاہ ہوا کی اگرمجہے نوح کی عمر بہی مل جاتی اور میں جستجو کرتا تو اس کا ایک فیصد بہی حاصل نہ ہوتا۔

۲۱۰

توفیق حاصل کرنے کے ذرائع

1۔ کسب توفیق کے لئے دعا کرنا

خدا وند متعال سے توفیق کی درخواست و دعا کریں تاکہ بزرگان دین کو حاصل ہونے والی توفیقات الٰہی سے ہم بہی بہرہ مند ہوسکیں ،اکثر دعائوں میں خدا وند بزرگ و برتر سے توفیق کا سوال کرتے ہیں۔

1 ۔ نماز جعفر طیار کے بعد دعا میں پڑہتے ہیں :

''اللّٰهمَّ انّی اَساَلکَ تَو فیقَ اَهل الهدیٰ وَ اَعمَالَ اَهل التَّقویٰ''(1)

پروردگار ا میں تجہ سے اہل ہدایت کی توفیق اور اہل تقویٰ کے اعمال و رفتار کا سوال کرتا ہوں۔

یہ جملہ اس بات کی تائید کرتا ہے کہ فقط توفیق کا حاصل ہوجانا نیک کام کو انجام دینے کی دلیل نہیں ہے ،اسی وجہ سے اس دعا میں اہل ہدایت کی توفیق طلب کرنے کے علاوہ خدا سے پرہیزگاروں کے اعمال و رفتار کا بہی سوال کرتے ہیں۔

2 ۔آیت قرآن''صرَاطَ الَّذینَ اَنعَمتَ عَلَیہم'' کی تفسیر میں امام حسن عسکری  (ع) سے نقل ہوا ہے کہ امام نے فرمایا:

''قولوا اهدنَا الصّراطَ الَّذینَ اَنعَمتَ عَلَیهم باالتَّوفیق لدینک وَ طَا عَتکَ''(2)

کہو کہ ہمیں ان کے راستے کی طرف ہدایت فرما جن پر تو نے اپنے دین کو قبول کرنے اور تیری اطاعت کرنے کی توفیق کے ذریعہ نعمتیں نازل کی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:۹۱ص۱۹۸

[2]۔ معانی الاخبار: 15 ، بحارالانوار: 1024، تفسیر الامام العسکری:17

۲۱۱

اس بناء پر خدا کی اطاعت و فرمانبرداری اور دینداری کی توفیق ،خدا کی طرف سے بندوں کو عنایت ہونے والا لطف ہے۔ہم سب کو خدا سے دعا کرنی چاہیئے کہ پروردگار دنیا کے اس پر خطر سفر میں توفیق الٰہی کو ہمارا مونس و ہمسفر قرار دے تاکہ ہمارا سفر خیریت سے اختتام پذیر ہو۔

3 ۔ماہ مبارک رمضان کی تیرہویں دن کی دعا میں آیا ہے:

''اَلَّلهمَّ وَفّقنی فیه عَلی التّقیٰ وَ صحبَةالاَبرَار''( 1 )

پروردگارا! اس دن میں مجہے تقویٰ کی اور نیک و متقی افراد کی صحبت کی توفیق عطا فرما۔

4 ۔ماہ رمضان کی بائیسویں شب کی دعا میں وارد ہوا ہے :

''وَارزقنی فیها التَّوفیقَ لماوَفَّقتَ له شیعَةَ آل محمَّد ''( 2 )

پروردگارا! آج کی رات میں مجہے وہ توفیق عنایت فرما کہ جس سے تو نے پیروان  آل محمد کو کامیاب فرمایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج۹۸ص۳۷

[2]۔ بحارالانوار:ج۹۸ص۵۳

۲۱۲

ایک اہم نکتہ

اگرچہ ممکن ہے کہ سائل مقربین آل محمد اور شیعوں کی توفیقات کو بہت بڑی حاجت سمجہے اور اپنے آپ کو اس عظیم نعمت کے سامنے پست اور  نا اہل سمجہے ، لیکن چونکہ وہ خدا بزرگ و برتر کے حضور میں ہے اور خالق کائنات کی بارگاہ میں سوال کررہا ہے،لہٰذا وہ بہترین اور پر ثمر ترین حاجات طلب کرے ۔ کیونکہ خدا کے حضور اور خدا کی بارگاہ میں خدا کی عظمت و بزرگی کو مدّ نظر رکہیں نہ کہ فقط اپنی پستی و ذلت کو ملاحظہ کریں۔

بعض لوگ معتقد ہیں کہ انسان خدا وند متعال سے اپنی حد اور اوقات سے زیادہ طلب نہ کرے ، لہٰذا اپنی حیثیت و صلاحیت اور حدود کو مد نظر رکھ کر اپنے ہدف تک پہنچنے کی دعا کریں۔اگر فرض کریں کہ   یہ عقیدہ صحیح بھی ہو تو یہ کلیّت نہیں رکھتا۔کیونکہ بعض مقامات پر اور بعض اوقات  انسان خدا کے نزدیک اس قدر عظیم و عالی مقام رکھتا ہے کہ انسان خدا سے ہر قسم کی عظیم حاجت طلب کرسکتا ہے۔حضرت امیرالمؤمنین (ع)  کی زیارت  وداع میں پڑھتے ہیں:''اَلَّلهمَّ وَفّقنا لکلّ مَقامٍ مَحمودٍوَ اَقلبنی من هذا الحَرَم بکلّ خَیرٍ مَوجودٍ'' (1)

پروردگارا، مجہے ہر قسم کے مقام محمود کے حصول کی توفیق عطا فرما اور مجہے اس حرم سے ہر موجود خیر کے ساتہ لوٹا۔

خدا کے نزدیک حضرت امیرالمؤمنین  کے حرم مطہر کی شرافت و محبوبیت کی وجہ سے زائر کو اجازت ہے کہ وہ خدا سے ہر قسم کی توفیق اور مقام محمود کو طلب کرسکتا ہے۔

اسی بناء پر اگرچہ سائل بعض مقامات کو طلب کرنے کی لیاقت و صلاحیت نہ رکہتا ہو لیکن زمان ومکان کی عظمت کی وجہ سے ایسی بزرگ حاجات کو طلب کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج۱۰۰ص۳۸۲

۲۱۳

2۔ ماں باپ کی دعا  توفیق کا سبب

ماں باپ کی دعا توفیق کو ایجاد کرنے میں مؤثر کردار کی حامل ہے،بعض بزرگان اپنی تمام تر توفیقات کو اپنے والدین کی دعائوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں،مرحوم مجلسی جو کہ کثرت تالیفات اور اہلبیت کی خدمت کے لحاظ سے شیعہ علماء میں کم نظیر بلکہ بے نظیر ہیں،وہ اپنی عظیم توفیقات کو اپنے والد بزرگوار کی دعائوں کے مرہون منت سمجہتے ہیں۔

مرحوم مجلسی اول فرماتے ہیں کہ ایک رات نماز شب سے فارغ ہونے کے بعد مجہ  پرایک ایسی حالت  طاری ہوئی کہ جس سے میں یہ سمجہا کہ اگر دعا کروں تو ضرور مستجاب ہوگی،میں ابہی اسی سوچ   میں مبتلا تہا کہ آخر خدا سے کس چیز کی دعا کروں؟اچانک جہولے سے سے محمد باقر کے رونے کی آواز بلند ہوئی،میں نے کہا :پروردگار بحق محمد و آل محمدعلیہم السلام اس بچے کو شریعت محمد(ص) اور دین کا خادم اور مروّج قرار دے اور اسے بے انتہا توفیقات سے بہرہ مند فرما۔صاحب مراةالاحوال کہتے ہیں علامہ مجلسی سے ظاہر ہونے والے غیر معمولی امور مسلما ًاسی دعا کے آثار ہیں(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ فوائد الرضویہ محدث قمی:411

۲۱۴

3۔ توفیق کے حصول کے لئے جستجو اور کوشش کرنا

جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ توفیق حاصل کرنے کے ذرائع میں سے ایک خدا سے دعا کرنا ہے ۔ دل سے دعا کے لئے ہاتہ اٹہائیںاور پروردگار بزرگ و مہربان سے نیک مقاصد کے حصول کی دعا کریں،دعا کے بعد ان مقاصد کو حاصل کرنے کی سعی و کوشش بہی کریں ورنہ آپ کی دعا استہزاء اور تمسخر شمار ہوگی۔

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہیں:

''مَن سَاَله التَّوفیق وَ لَم یَجتَهد فَقَد استَهزَئَ بنَفسه ''(1)

جو خدا سے توفیق کا سوال کرے لیکن اس کے لئے کوشش نہ رے وہ اپنے ساتہ مذاق کرتا ہے۔

کیونکہ توفیق کی دعا کے علاوہ ایک اور بنیاد بہی ہے کی جسے سعی و کوشش کہتے ہیں ،اس بناء پر عالی مقاصد اور خدا پسندانہ اہداف کو حاصل کرنے کیلئے توفیق کی دعا کے علاوہ کوشش اور جستجو بہی کریں، جب آپ دعا کے بعد کوشش بہی کریں گے تو خدا کی توفیق آپ کے لئے شامل حال ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج۷۸ص۳۵6

۲۱۵

4۔ خدا کی نعمتوں میں تفکر، توفیق الٰہی کا سبب

پروردگار کی بے شمار نعمتوں کے بارے میں تفکر کرنا توفیق حاصل کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔خدا کی مخلوقات میں تفکر سے آپ خدا کی توفیقات کو جلب کرسکتے ہیں۔حضرت امیرالمؤمنین (ع) فرماتے ہیں:''مَن تَفَکَّر فی آلائ اللّه وفّقَ '' (1) جو خدا کی نعمتوں میں تفکر کرے ،وہ کامیاب ہوگیا۔

کیونکہ انسان اس ذریعہ سے اپنے دل میں خدا کی محبت پیدا کرتا ہے۔جب دل میں خدا کی محبت پیدا ہوجائے تو وہ خدا کی طرف جذب ہوجاتا ہے  اور خدا کی طرف مجذوب ہونے کے ثمرات میں سے ایک ہے۔اسی وجہ سے امیرالمؤمنین(ع) اپنے دوسرے فرمان میں ارشاد فرماتے ہیں:''التَّوفیق من جَذَبات الرَّب '' (2) توفیق خداوند تعالیٰ کے جذبات میں سے ہے۔

مذکورہ بیان کے رو سے انسان خدا کی بے شمار نعمتوں میں تفکر کے ذریعہ توفیقات کو اپنی طرف جذب کرکے درگاہ الہٰی کے مقربین سے مخصوص جذبہ ربّانی سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔البتہ اس امر کی جانب متوجہ رہیں کہ اہلبیت اطہار کا وجود مبارک نہ صرف خدا کی مہم ترین نعمت ہے ۔بلکہ ہم پرنازل ہونے والی ہر نعمت ان ہی مقدس ہستیوں کے طفیل ہے،یہ بزرگ ہستیاں وجہ تخلیق کائنات ہیں،اسی بناء پر اہلبیت عصمت و طہارت بالخصوص اس خاندان کی آخری کڑی حضرت امام زمان کے فضائل و مناقب میں تفکر و تامّل کے ذریعہ اپنی توفیقات میں اضافہ کریں۔اس صورت میں جذبہ رحمانی شامل حال ہوگا، اس صراط مستقیم پر عمل پیرا رہنے اور ان ہستیوں کے نقش قدم پر چلنے سے آپ بلند مقام حاصل کرسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ شرح غرر الحکم:ج۵ ص۳۰۸

[2]۔ شرح غرر الحکم:ج۱ص۱۴۴

۲۱۶

نتیجۂ بحث

عظیم مقاصد اور عالی معنوی اہدا ف تک پہنچنے کے لئے ارادہ و تصمیم کے علاوہ توفیق کی قوت سے بہی بہرہ مند ہوں،توفیق راہنما کی حیثیت رکہتی ہے اسی وجہ سے اگرچہ یہ کامیابی کی علت تامہ نہیں ہے لیکن اس کے متحقق ہونے سے مؤثر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

آپ کی ذمہ داری ہے کہ توفیق کے حصول کے لئے دعا کریں اور پہر توفیقحاصل ہونے پر اکتفاء نہ کریں بلکہ کوشش کریں کہ یہ حاصل ہونے والی توفیق ضائع نہ ہوجائے۔

خدا کی نعمتوں اور بالخصوص وجود اہلبیت اطہارعلیہم  السلام کی عظیم نعمت کے فضائل ومناقب میں تفکر کرنا ، توفیق کے مہم ترین عوامل میں سے ہے ،اپنی توفیقات میں اضافہ کے لئے حضرت بقیةاللہ (ارواحنا فداہ) کی عظمت پر تفکر کریں اور امام عصر کی غیبی امداد کو اپنے ذہن میں پروان چڑہائیں اس سے آپ کی توفیقات میں اضافہ ہوگا ،ضعف، سستی و کاہلی اور گناہوں کے ارتکاب سے فراہم ہونے والی توفیقات کو ضائع نہ ہونے دیں۔

راہ  جستن  ز تو ہدایت از او        جہد کردن زتو عنایت ا ز او

جہد بر  تو  است  و  بر خدا  توفیق     زآن کہ  توفیق  و جہد ہست رفیق

یعنی تم کسی راہ کا انتخاب کرو اور وہ تمہاری ہدایت کرے گا۔تم کوشش کرو ،خدا عنایت کرے گا۔ جدوجہد کرنا تمہاری ذمہ داری ہے  جب تم کوشش کرو گے تو خدا تمہیں توفیق عطا فرمائے گا۔کیونکہ توفیق اور کوشش ہمیشہ سے دوست ہیں۔

۲۱۷

تیرہواں باب

یقین

حضرت امیر المو منین علی علیہ  السلام  فرماتے ہیں :'' باالیَقین تد رَک غَایَة القصویٰ ' 'یقین کے ذریعہ مقصد کی انتہا حاصل ہوتی ہے ۔    یقین کی اہمیت    یقین کے آثار

   1 ۔ یقین دل کو محکم کرتا ہے

    مجلس مباہلہ میں حاضری

    ۲۔ یقین اعمال کی اہمیت میں اضافہ کا ذریعہ

   3 ۔ یقین آپ کے باطن کی اصلاح کرتا ہے

    یقین کو متزلزل کرنے والے امور

   1 ۔ شک و شبہ

   2 ۔ گناہ

    یقین کہودینا

    تحصیل یقین کے ذرائع

   1 ۔ کسب معارف

   2 ۔ دعا اور خدا سے راز و نیاز

   3 ۔ تہذیب و اصلاح نفس

    نتیجۂ بحث

۲۱۸

یقین کی اہمیت

یقین با عظمت عالم غیب کی طرف جانے کا آسان اور سیدہا راستہ ہے۔ یقین عالم ملکوت تک پہنچنے اور نا مرئی دنیا سے ارتباط کے لئے صراط مستقیم ہے۔ یقین تہذیب یافتہ اشخاص اور بزرگان کی اہم ترین صفات میں سے ہے، یقین اہلبیت اطہار کے اصحاب اور اللہ کے خاص بندوں کی اہم ترین خصوصیات میں سے ہے۔یقین ،انسان میں قوی ترین روحانی قوّت کو ایجاد کرتا ہے، یقین خاندان وحی سے ارتباط کا وسیلہ ہے، دل میں یقین کا وجود معنوی پیوند کے موانع کو برطرف کرتا ہے اور اہلبیت کے تقرب اور ان تک پہنچنے کی راہ کو ہموار کرتا ہے۔یقین کی افزائش سے آپ اپنے دل کو ملائکہ کی قیامگاہ قرار دے کر اسے شیاطین کے شر اور وسوسوں سے نجات دے سکتے ہیں۔شیطان کے شر سے رہائی پانے کے بعد آپ کو بہت سے معنوی فیض حاصل ہوںگے۔اس صورت میں آپ کا دل نورانیت سے سرشار ہوجائیگا۔

اسی وجہ سے حضرت بقیة اللہ (عج)  کے ظہور کے دن تمام لوگوں کے دل و جان میں یقین پیدا ہوجائیگا ، کیونکہ اس دن جب تاریخ کی قدیم ترین  عبات گاہ (خانہ کعبہ) سے حضرت قائم آل محمد (عج)  کی حیات بخش صدا لوگوں کی سماعتوں تک پہنچے گی توابلیس اور اس کے پیروکاروں کے دلوںمیں خوف طاری ہوجائے گا ،حضرت بقیةاللہ اعظم  کے ظہور سے سب شیاطین ہلاک ہوجائیں گے۔ اس وقت لوگوں کے دل وسوسہ سے نجات پاجائیں گے اور ان کے دل و جان پر آرام و اطمینان کی حاکمیت ہوگی۔اس دن لوگوں کے دلوں میں یقین اور ایمان میں اضافہ ہوگا۔اس دن یقین پیدا کرنے والے سب امور فراہم ہوجائیں  گے اور یقین کے ذریعہ سب کے باطن کی اصلاح ہوجائے گی۔ یہ بات ثابت کرنے کے لئے کہ ظہور کے وقت سب اہل یقین بن جائیں گے، ہم مقدمہ کے طور پر کچہ مطالب ذکر کرتے ہیں:  خدا وند متعال قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کے بارے میں فرماتا ہے:

۲۱۹

'' وَ کَذٰلکَ نری َابرَاهیمَ مَلَکوت السمٰوات وَالاَرض وَ لیَکون من المؤمنین''(1)

او ر اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمان اور زمین کے اختیارات دکہاتے ہیں اور اس لئے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں۔

صفوان کہتا ہے کہ میں نے امام رضا(ع)  سے پوچہا کہ خدا نے حضرت ابراہیم  (ع) کے بارے فرمایاہے:

'' اَوَ لَم نؤمن قَال بلیٰ وَ لٰکن لیَطمَئنَّ قَلبی '' (2)

کیا ابراہیم کو یقین نہیں تہا اور کیا ان کے دل میں شک و شبہہ موجود تہا؟

'' قَالَ لَا،کَانَ عَلیٰ یَقینٍ وَ لٰکن اَرادَ منَ اللّٰه الزّیَا دَةَ فی یَقینه ''(3)

حضرت امام رضا (ع) نے فرمایا : نہیں ، انہیں یقین تہا لیکن اس نے خدا سے چاہا کہ اس کا یقین زیادہ ہوجائے۔

اس بناء پر حضرت ابراہیم  نے ملکوت آسمانی اور زمین کو دیکہا اور ان کے یقین میں اضافہ ہوا ملکوت آسمان و زمین کو دیکہنے کی وجہ سے ان کا یقین زیادہ ہوا ، پہر ان میں دوسروں  کے دلوں میں بہی یقین ایجاد کرنے کی قدرت پیدا ہو گئی۔

ظہور کے زمانے کے لوگوں کی حالت اور امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی سلطنت پر توجہ کریں کہ آنحضرت صاحب ملکوت ہیں وہ جلوہ ولایت و ملکوتی سے زمین و آسمان کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کیا اس زمان کے لوگ یقین یقین حاصل نہیں کرسکتے؟پس عصر غیبت میں بہی ہر کوئی یقین حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔یقین حاصل کرنے سے انسان شیطان پر حاکم بنسکتا ہے اور معنویت کے صراط مستقیم پر گامزن ہوسکتاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ  آیت انعام:75

[2]۔ سورہ بقرہ  آیت:260

[3]۔ بحارالانوار:ج۷۰ص۱۷6

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313