تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي18%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139680 / ڈاؤنلوڈ: 4388
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سبق ۹:

جنگ بدر

۱۴۱

۲ ہجرى ميں جو واقعات رونما ہوئے ان ميں سے ايك جنگ بدر كا تقدير ساز معركہ تھا اس جنگ كا تعلق ارادہ ايزدى سے تھا_

قرآن مجيد كى آيات سے جو بات سمجھ ميں آتى ہے وہ يہ ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) كا مدينہ سے قريش كے تجارتى قافلہ كے تعاقب اور نتيجہ ميں جنگ كيلئے نكلنا وحى اور آسمانى حكم كے مطابق تھا جيسا كہ ارشاد ہے:

( كَمَا اَخرَجَكَ رَبُّكَ من بَيتكَ بالحَقّ ) (۱)

''جس طرح تمہارے رب نے تمہيں تمہارے گھر سے حق(۲) كے ساتھ برآمد كيا''_

ليكن بعض سست عقيدہ لوگ كہ جو اسلامى مسائل كو اچھى طرح نہيں سمجھتے تھے انہيں اس جنگ ميں رسول خدا (ص) كے ساتھ روانہ ہونا گوارہ نہ تھا_

( وَانَّ فَريقاً من المُومنينَ لَكَارهُونَ ) (۳)

اور مومنوں ميں ايك گروہ كو يہ گوارہ نہ تھا_

يہ ظاہر بين گروہ اس حقيقت كو جاننے كے باوجود كہ پيغمبر اكرم (ص) كا يہ ا قدام حكم خدا كے عين مطابق ہے آنحضرت (ص) كے ساتھ جنگ بدر پر جانے كيلئے جھگڑا كرنے پر لگا ہواتھا_

( يُجَادلُونَكَ فى الحَقّ بَعدَ مَا تَبَيَّنَ_ ) (۴)

يہ لوگ حق كے واضح ہوجانے كے بعد بھى آپ (ص) سے بحث كرتے ہيں

قرآن مجيد نے اس گروہ كى ذہنى كيفيت كو اس طرح بيان كيا ہے_

۱۴۲

( كَا َنَّمَا يُسَاقُونَ الَى المَوت وَ هُم يَنظُرُونَ ) (۵)

جيسے يہ موت كى طرف ہنكائے جارہے ہيں اور حسرت سے اپنا انجام ديكھ رہے ہيں_

اگرچہ بعض مورخین نے لكھا ہے كہ جو لوگ بدر كى طرف جانے كے مخالف تھے ان كى مخالفت ميں بدنيتى اور ايمان كى كمزورى شامل نہ تھى بلكہ اس كى وجہ يہ تھى كہ انہيں چونكہ يہ يقين تھا نہ كہ يہ جنگ وقوع پذير ہوگى اسى لئے وہ ساتھ چلنے سے انكاركر رہے تھے(۶) مگر اس بارے ميں قرآن مجيد كا صريح ارشاد ہے كہ : اگر چہ حق ان پر واضح و روشن ہوچكا تھامگر اس كے باوجود انہيں اسے قبول كرنا گوارہ نہ تھا ان كى دليل يہ تھى كہ ہمارى تعداد بہت كم ہے اور دشمن بہت زيادہ ہيں ايسى صورت میں ہم اتنے بڑے دشمن كا مقابلہ كرنے كيلئے مدينہ سے باہر كيسے جاسكتے ہيں _(۷) يا ہم بلا سوچے سمجھے اندھا دھند يہ كام كر رہے ہيں، كيونكہ يہ بھى تو نہيں معلوم كہ ہدف كاروان جنگ ہے يا قافلہ تجارت(۸) ؟

دوسرى دليل جو اس حقيقت كو ثابت كرتى ہے كہ مسلمين وكفار كے درميان يہ جنگ حكم الہى كا قطعى و حتمى نتيجہ تھى اور انہيں ايك دوسرے كا مقابلہ كرنے كى ترغيب دلارہى تھى ' يہ تھى كہ جنگ سے پہلے ہى دونوں گروہوں ميں سے ہر ايك كو دوسرے كى تعداد كم نظر آرہى تھي_

( وَاذ يُريكُمُوهُم اذا لَتَقَيتُم في اَعيُنهم قَليلًا وَيُقَلّلكُم في اَعيُنهم ) _(۹)

''اس وقت كو ياد كرو جب تم ايك دوسرے كے مقابلے ميں آئے تو خدا نے انہيں تمہارى نگاہوں ميںكم دكھايا اور تمہيں اس كى نگاہوں ميںكم دكھايا ''_

۱۴۳

دشمن كى تعداد كو قليل كركے دكھانے كى وجہ يہ تھى كہ اگر كچھ مسلمانوں كو دشمن كى تعداد ' طاقت اور جنگى تيارى كا اندازہ ہوجاتا تو اس بات كا امكان تھا كہ وہ جنگ ميں سستى سے كام ليتے اور ان كے درميان باہمى اختلاف پيدا ہوجاتا _

( وَلَواَرَاكَهُمْ كَثيرً الَفَشلتُم وَلَتَنَازَعتُم في الاَمر ) (۱۰) _

''اگر كہيں وہ تمہيں ان كى تعداد زيادہ دكھاديتا تو ضرور تم لوگ ہمت ہارجاتے اور جنگ كے معاملے ميںجھگڑا شروع كرديتے''_

اس وقت سياسى اور فوجى صورت حال ايسى تھى كہ اگر وہ آپس ميں ايك دوسرے كى مدد كا وعدہ بھى كرتے تو وہ اس سے روگرداں ہوجاتے_

( وَلَو تَوَاَعَدتُم لَا ختَلَفتُم في الميعَاد ) _(۱۱)

''اگر كہيں تم ايك دوسرے كى مدد كا وعدہ بھى كرچكے ہوتے تو تم ضرور اس موقع پر پہلو تہى كرجاتے''_

دوسرى طرف اگر دشمن كو مسلمان طاقت و تعداد ميں زيادہ نظر آتے تو اس ميں كوئي تعجب كى بات نہ تھى كہ كفار مسلمانوں كا مقابلہ كرنے سے گريز كر جاتے اور اس تقدير ساز جنگ كےلئے آمادہ نہ ہوتے_

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ خداوند تعالى نے حالات ايسے پيدا كرديئے كہ اب دونوں گروہوں كيلئے اس كے علاوہ چارہ نہ تھا كہ وہ ايك دوسرے كے مقابل آجائيں اور ايك دوسرے كے ساتھ جنگ كريں تاكہ ارادہ خداوندى حقيقت كى صورت اختيار كر جائے_

( ليَقضيَ اللّهُ اَمر اً كَانَ مَفعُولاً ) _(۱۲)

''تاكہ خد ا كى ہو كر رہنے والى بات ہو كر رہے''_

۱۴۴

اس زمانے ميں اسلامى معاشرے كى جو سياسى واجتماعى حالت تھى اگر ہم اس كا مطالعہ كريں تو ہم اس نتيجے پر پہنچيں گے كہ اس وقت كى سياسى واجتماعى حالت كے پيش نظرايسى فاتحانہ جنگ كى اشد ضرورت تھى كيونكہ پيغمبر اكرم (ص) تيرہ(۱۳) سال تك على الاعلان امت كى اصلاح ونجات كے لئے دعوت اسلام ديتے رہے مگر ان (ص) كى اس صدائے حق وعدل كو معدودے چند كے علاوہ باقى لوگوں نے نہ صرف سننا گوارہ نہ كيا بلكہ ہر قسم كى ايذا و تكليف پہنچا كر آپ(ص) كو جلاوطنى پرمجبور كرديا اور جو لوگ وہاں رہ گئے تھے وہ بھى سخت اذيت و آزار ميں مبتلا تھے اور انہو ںنے ان پر ايسى سخت پابندياں لگاركھى تھيں كہ وہ ہجرت كركے مدينہ بھى نہيں جاسكتے تھے_(۱۳)

رسول خدا (ص) كو ہجرت كے بعد بھى دشمنوں نے چين كا سانس لينے نہ ديا ، ابوجہل نے خط لكھ كر آنحضرت (ص) كو يہ دھمكى دى كہ يہ مت سمجھ لينا كہ تم نے ہجرت كركے قريش كے چنگل سے نجات پالى ہے ، ديكھنا جلد ہى تم پر چاروں طرف سے قريش اور دوسرے دشمنوں كى طرف سے يلغار ہوگى اور يہ ايسا سخت حملہ ہوگا كہ تمہارا اور تمہارے دين اسلام كا نام صفحہ ہستى سے نيست ونابود ہوجائے گا_(۱۴)

رسول خدا (ص) كو يہ خط جنگ شروع ہونے سے ۲۹ دن پہلے ملا تھا_(۱۵)

دوسرى طرف انصار مسلمين كى تعداد ميں روز بروزاضافہ ہو رہا تھا اوروہ كئي مناسب مواقع پر رسول خدا (ص) كے تحفظ اور آپ (ص) كے دين كى پاسدارى كا اعلان كرچكے تھے_

مہاجرين نے بھى ان مہمات وغزوات ميں جو جنگ بدر سے پہلے وقوع پذير ہوچكے تھے شركت كر كے يہ ثابت كرديا تھا كہ وہ اب بھى حسب سابق اپنے ارادے پر قائم اور ہر قسم كى قربانى دينے كيلئے تيار ہيں_

۱۴۵

دوسرى طرف منافقين اور يہوديوں كى تحريك اپنا كام كر رہى تھى ، ابتداء ميں جب آنحضرت (ص) مدينہ تشريف لائے تو انہوں نے پہلے پہل تو آپ(ص) كا خندہ پيشانى سے استقبال كيا ليكن جب وہ اپنے ناپاك ارادوں ميں كامياب نہ ہوسكے تو مخالفت و سركشى پر اتر آئے_

رسول خدا(ص) نے بھى اٹھارہ(۱۸) ماہ سے زيادہ قيام كے دوران جہاں تك ہوسكتا تھا دشمن سے مقابلہ كيلئے فوج تيار كى تھي_

ان تمام پہلوئوں كو مد نظر ركھتے ہوئے كہا جاسكتا ہے كہ اب وہ وقت آن پہنچا تھا كہ رسول خدا (ص) وسيع پيمانے پر فتح مندانہ عسكرى تحريك كے ساتھ دين اسلام كو گوشہ نشينى كى حالت سے نكال كر اسے طاقتور اجتماعى تحريك ميں بدل ديں تاكہ شرك كے دعويدار اچھى طرح سمجھ ليں كہ مكہ ميں جو مسلمانوں كى حالت تھى اب وہ بدل چكى ہے اور اگر اس كے بعد مخالفت و خلل اندازى كى گئي تو وہ ہوں گے اور اسلام كى ايسى كاٹ دار تلوار ہوگى جس سے ان كى جڑيں تك كٹ جائيں گى اور بنياد تباہ و برباد ہوكر رہ جائے گي،كيونكہ يہ حق كا ارادہ ہے اور اس ميںكوئي تبديلى واقع نہيں ہوسكتي_

( يُريدُ اللّهُ اَن يُحقَّ الحَقَّ بكَلَمَاته وَ يَقطَعَ دَابرَ الكَافرينَ ) _(۱۶)

''خدا اپنے كلمات كے ذريعے حق كو ثابت كردينا چاہتا ہے اور كافروں كے سلسلے كو قطع كردينا چاہتا ہے''_

جنگ بدر كى مختصر تاريخ

رسول خد ا(ص) اتوار كے روز ۱۲ رمضان سنہ ۲ہجرى كو ۳۱۳ مسلمان افراد كے ہمراہ (جن

۱۴۶

ميں۸۲ مہاجرين اور ۲۳۱ انصار شامل تھے )مدينہ سے ''بدر'' كى جانب روانہ ہوئے اس وقت آپ (ص) كے پاس صرف دو گھوڑے اور سترہ اونٹ تھے اورابتدائي مقصد قريش كے اس تجارتى قافلے كا تعاقب كرنا تھا جو ابوسفيان كى سركردگى ميں چلا جارہا تھا_(۱۷)

''ذفران'' كے مقام پر آپ (ص) كو اطلاع ملى كہ ابوسفيان اپنے قافلے كى حفاظت كى خاطر راستہ بدل كر مكہ چلا گيا ہے ليكن مسلح سپاہى مكہ سے مسلمانوں كے ساتھ جنگ كرنے كيلئے ''بدر '' كى جانب روانہ ہوچكے ہيں_

رسول اكرم(ص) نے اصحاب كے درميان اس خبر كا اعلان كرنے كے بعد ان سے مشورہ كيا ، متفقہ طور پر يہ فيصلہ ہو اكہ اس مختصر لشكر كے ساتھ ہى دشمن كا مقابلہ كياجائے چنانچہ اب يہ قافلہ ''بدر'' كى جانب روانہ ہوا_

آخر ۱۷ رمضان كو دونوں لشكروں كے سپاہيوں ميں بدر كے كنويں كے پاس مقابلہ ہوا_

جنگ كاآغاز دشمن كى طرف سے ہوا پہلے مشركين كے تين شہسوار ''عتبہ'' ، ''شيبہ'' اور ''وليد'' نكلے تھے جو '' حضرت علي(ع) '' ، '' حضرت حمزہ (ع) '' او ر '' حضرت عبيدہ (ع) '' كے ہاتھوں جہنم رسيد ہوئے

عام جنگ ميں بھى سپاہ اسلام نے پروردگار كى غيبى امداد نيز پيغمبر اكرم(ص) كى دانشمندانہ قيادت كے تحت اور جہاد سے متعلق آيات سن كر پہلے تو دشمن كے ابتدائي حملوں كا دفاع كيا اس كے بعد اس كى صفوں ميں گھس كر ايسى سخت يلغار كى كہ اس كى تمام صفيں درہم برہم ہو كر رہ گئي اور بہت سى سپاہ بالخصوص فرعون قريش يعنى ابوجہل كو موت كے گھاٹ اتار ديا دشمن كا لشكر جو نو سو پچاس (۹۵۰) سپاہيوں پر مشتمل اور پورے سازو سامان جنگ سے مسلح و آراستہ تھا سپاہ اسلام كے مقابلے كى تاب نہ لا سكا چنانچہ كثير جانى و مالى (ستر( ۷۰)

۱۴۷

متقول اور ستر(۷۰) قيدى) كا نقصان برداشت كرنے كے بعد اس نے فرار اختيار كرنے ميں ہى اپنى عافيت سمجھى اس جنگ ميں سپاہ اسلام ميں سے صرف ۱۴ صحابيوںنے جام شہادت نوش كيا(۱۸)

يہاں ہم مختصر طور پر چند مسائل كا ذكر و تجزيہ كريں گے

۱_ مال غنيمت اور قيديوں كا انجام

۲_ فتح وكاميابى كے عوامل

۳_ جنگ كے نتائج

الف _ مال غنيمت اور قيديوں كا انجام

جنگ بدر ميں ايك سو پچاس (۱۵۰) اونٹ ، دس(۱۰) او ربعض روايات كے مطابق تيس(۳۰) گھوڑے، بہت سے ہتھيار اور كھاليں مسلمانوں كے ہاتھ بطور مال غنيمت آئے(۱۹) مگر اس مال كى تقسيم پر ان كے درميان اختلاف ہوگيا جس كا سبب يہ تھا كہ انہيں معلوم نہيں تھا كہ مال غنيمت ميں ان مجاہدين كا بھى حصہ ہے جنہوں نے جنگ ميں ہر طرح سے شركت كى تھى يا يہ صرف ان سپاہيوں كا حصہ ہے جو دشمن سے نبرد آزما ہوئے تھے ، اس مال غنيمت ميں آيا سب كا حصہ برابر تھا يا پيدل اور سوار سپاہ كے درميان كوئي فرق و امتياز ركھاگيا تھا_

يہ معاملہ پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں پيش كيا گيا اور سورہ ''انفال'' كى پہلى آيت نازل ہوئي جس نے مسئلہ مال غنيمت كو روشن كرديا_

( يَسئَلُوَنَكَ عَن الاَنفَال _ قُل الَانفَالُ للّه وَالرَّسُول

۱۴۸

فَاتَّقُواللّهَ وَاَصلحُو ذَاتَ بَينكُم وَاَطيعُوا اللّهَ وَرَسُوُلَهُ ان كُنتُم مُومنينَ ) _

''تم سے انفال (مال غنيمت) كے متعلق پوچھتے ہيں كہہ دو يہ انفال تو اللہ اور اس كے رسول (ص) كے ہيں پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور آپس كے تعلقات ميں فرق نہ آنے دو اور اللہ اور اس كے رسول كى اطاعت كرو اگر تم مومن ہو ''_

اس آيہ شريفہ كى بنياد پر مال غنيمت خدا اور رسول (ص) كا حق ہے، پيغمبر اكرم (ص) نے اس كے تين سو تيرہ (۳۱۳) حصہ كركے اسے سب كے درميان تقسيم كرديا (تقسيم كے اعتبار سے دونوں سوار سپاہيوں كيلئے دو اضافى حصے مقرر كئے گئے تھے اور شہداء كا حصہ ان كے پس ماندگان كو دے ديا گيا _ايك روايت يہ بھى ملتى ہے كہ وہ لوگ جو رسول اكرم (ص) كے حكم سے مدينہ ميں اپنى خدمات انجام دينے كيلئے مقرر كئے گئے تھے اور وہ وہيں مقيم تھے ان كا بھى حصہ مقرر كيا گيا تھا)_(۲۰)

رسول خدا (ص) كے حكم كے مطابق قيديوں كو مدينہ لے جايا گيا ، راستے ميں ايك منزل پر دو آدميوں كو جن ميں سے ايك كا نام ''نصر بن حارث '' اور دوسرے كا نام ''عقبہ بن ابى معيط '' تھا رسول خدا (ص) كے حكم سے قتل كرديا گيا _(۲۱)

مذكورہ اشخاص كے قتل كئے جانے كى وجہ شايد يہ تھى كہ يہ دونوں ہى كفر كے سرغنہ تھے اور اسلام كے خلاف سازشيں تيار كرنے ميں پيش پيش رہا كرتے تھے انہوں نے رسول خدا (ص) اور مسلمانوں كو جس طرح تكاليف پہنچائي تھيں اس كى ايك طويل داستان ہے اگر يہ لوگ آزاد ہو كر واپس مكہ پہنچ جاتے تو يہ امكان تھا كہ وہ از سر نو اسلام كى بيخ كنى كيلئے سازشوں ميںملوث ہوجاتے چنانچہ ان كا قتل كياجانا اسلام كى مصلحت كے تحت تھا نہ كہ انتقام لينے كى

۱۴۹

غرض سے_

ان تمام قيديوں كو فديہ وصول كركے (جوكہ فى كس ہزار سے چار ہزار درہم تك تھا) بتدريج آزاد كرديا گيا ، ان ميں جو لوگ نادار تھے مگر لكھنا اور پڑھنا جانتے تھے انہيں آزاد كرنے كى يہ شرط ركھى گئي كہ اگر وہ دس مسلمانوں كو لكھنا اور پڑھنا سكھاديں گے انہيں آزاد كردياجائے گا_

ان قيديوں ميں چند اشخاص رسول خدا (ص) اور حضرت على (ع) كے رشتہ دار بھى تھے چنانچہ رسول خد ا(ص) كے چچا عباس اپنا اور ''عقيل'' و ''نوفل ''نامى اپنے دو بھتيجوں كا فديہ ادا كركے آزاد ہوئے _(۲۲)

ب_ فتح وكاميابى كے اسباب

اس ميں شك نہيں كہ جنگ بدر ميں كفار كو طاقت اوراسلحہ كے اعتبار سے مسلمانوں پر فوقيت حاصل تھى مگر مسلمانوں كو مختلف عوامل كى بناپر فتح حاصل ہوئي تھى جن كى بنياد اسلام پر ايمان و اعتقاد جيسى نعمت اور مدد خداوندى تھي_ ہم دو اہم عنوانات كے تحت ان عوامل كى وضاحت كريں گے_

۱_ معنوى عوامل

۲_ مادى اور عسكرى عوامل

معنوى عوامل

۱_خداوند تعالى كے قريش كے ايك گروہ پر (تجارتى قافلے يا اس لشكر پر جو مكہ سے روانہ

۱۵۰

ہوا تھا) فتح وكاميابى دينے كے وعدہ كو، پيغمبر اكرم (ص) نے ''ذفران'' ميں سپاہ اسلام تك پہنچاديا چنانچہ يہى وعدہ ان كيلئے جنگ ميں جرا ت و حوصلہ افزائي كا سبب ہوا _

( وَاذ يَعدُكُمُ اللّهُ احدَى الطَّائفَتَين اَنَّهَالَكُم ) _(۲۳)

'ياد كرو وہ موقع جب اللہ تم سے وعدہ كر رہا تھا كہ دونوں گروہوں ميں سے ايك تمہيں مل جائے گا''_

۲_جس روز جنگى كاروائي ہونے والى تھى اسى شب بارش ہوئي جس كے باعث :

الف: مسلمانوں نے جن كى بدر كے كنويں تك رسائي نہ تھى ، غسل كركے خود كو ہر طرح كى نجاست سے پاك كيا_

ب: چونكہ بارش كثرت سے ہوئي تھى اسى لئے دشمن كى سپاہ كيچڑ اور دلدل ميں پھنس گئي اور اسے جنگ كے لئے حركت كرنے كا موقع نہ مل سكا ليكن جس طرف مسلم سپاہ تھى وہاں كى زمين كنكريلى تھى جو بارش كے پانى سے مزيد پختہ ہوگئي_

( وَيُنَزّلُ عَلَيكُم من السَّمَائ مَائً ليُطَهّرَكُم به وَيُذهبَ عَنكُم رجزَ الشَّيطَان وَليَربطَ عَلى قُلُوبكُم وَيُثَبّتَ به الأَقدَامَ ) _(۲۴)

''اور آسمان سے تمہارے اوپر پانى برس رہا تھا كہ تمہيں پاك كرے اور تم سے شيطان كى ڈالى ہوئي نجاست دور كرے اور تمہارى ہمت بندھائے اور اس كے ذريعے تمہارے قدم جم جائيں''_

۳_جس روز جنگ ہوئي اس سے پہلى رات مسلمانوں كو عالم خواب ميں بشارت ملى تھى

۱۵۱

اور ان كے دل مطمئن ہوگئے تھے_

۴_مسلمانوں كى مدد كےلئے تين ہزار فرشتوں كا زمين پر اترنا(۲۵) _

۵_دونوں لشكر ايك دوسرے كى تعداد كے بارے ميں غلط فہمى ميں مبتلا تھے ، اس سے قبل كہ مسلمانوں اور مشركين كے درميان جنگ شروع ہو وہ ايك دوسرے كى تعداد كو كم سمجھ رہے تھے ليكن جيسے ہى جنگ شروع ہوئي دشمن كو مسلمانوں كى تعداد دوگنا نظر آنے لگي_

( قَد كَانَ لَكُم آيَةٌ في فئَتَين التَقَتَافئَةٌ تُقَاتلُ في سَبيل اللّه وَاُخرى كَافرَةٌ يَرَونَهُم مثلَيهم رَاْيَ العَين ) _(۲۶)

''تمہارے لئے ان دو گروہوں ميں ايك نشان عبرت تھا جو (بدر) ميں ايك دوسرے سے نبرد آزما ہوئے تھے ايك گروہ اللہ كى راہ ميں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ كافر تھا ديكھنے والے كافر لوگ بچشم خود مؤمنوں كو دوگنا ديكھ رہے تھے ''_

۶_كفار كے دلوں پر مسلمانوں كا وہ رعب چھاجانا جسے ''رعب نصريہ'' سے تعبير كياجاسكتا ہے_

( سَاُلقي في قُلُوب الّذينَ كَفَرُوا الرُّعبَ ) _(۲۷)

''ميں ابھى ان كافروںكے دلوں ميں رعب ڈالے ديتا ہوں''_

۷_سپاہ كى كثرت اور سامان جنگ كى فراوانى كے باعث لشكر كفار كا غرور وتكبر _

( وَاذ زَيَّنَ لَهُم الشَّيطَانُ اَعمَالَهُم وَقَالَ لاَ غَالب

۱۵۲

لَكُم اليَومَ من النَّاس وَ انّي جَارٌ لَكُم ) _(۲۸)

''اور اس وقت كو ياد كرو جب شيطان نے ان لوگوں كے كرتوت ان كى نگاہوں ميں خوش نمابناكر دكھائے تھے اور ان سے كہا تھا كہ آج كوئي تم پر غالب نہيں آسكتا اور پھر ميں بھى تمہارے ساتھ ہوں''_

جب ہم اس كاميابى اور غيبى مدد كے بارے ميں غور كرتے ہيں تو اس نتيجے پر پہنچتے ہيں كہ يہ فتح و نصرت خداوند تعالى كى جانب سے تھي_

( فَلَم تَقتُلُوهُم وَلكنَّ اللّهُ قتَلَهُم وَمَارَمَيتَ اذ رَمَيتَ وَلكن اللّهَ رَمَى ) _(۲۹)

''پس حقيقت يہ ہے كہ تم نے انہيں قتل نہيں كيا بلكہ اللہ نے ان كو قتل كيا اور اے نبى تم نے ان پر ايك مٹھى خاك نہيں پھينكى بلكہ اللہ نے پھينكي''_

مادى اور عسكرى عوامل

۱_پيغمبر اكرم (ص) كى دانشمندانہ قيادت اور لشكر كى سپہ سالارى نيز آنحضرت (ص) كا بذات خود جنگ كى صف اول ميں دشمن كے روبرو موجود رہنا_

اميرالمومنين حضرت على (ع) فرماتے ہيں كہ جب جنگ و قتال كے شعلے پورى طرح مشتعل ہوجاتے تو ہم رسول خدا (ص) كى پناہ تلاش كرتے اور ہم ميں سے كوئي شخص دشمن كے اس قدر نزديك نہ ہوتا جتنے آنحضرت (ص) ہوتے_(۳۰)

۲_اميرالمومنين حضرت على (ع) كے شجاعتمندانہ اور دليرانہ كارناموں كا ذكر كرتے ہوئے مورخين نے لكھا ہے كہ : اس جنگ ميں بيشتر مشركين كا خون حضرت على (ع) كى تيغ سے

۱۵۳

ہوا(۳۱) جناب شيخ مفيد مرحوم نے لكھا ہے كہ حضرت على (ع) كے ہاتھوں چھتيس(۳۶) مشرك تہ تيغ ہوئے اگر چہ باقى مقتولين كى تعداد كے بارے ميں اختلاف ہے كيونكہ ان كے متعلق كہاجاتا ہے كہ ان كے قتل ميں حضرت على (ع) شريك تھے_(۳۲)

چنانچہ حضرت على (ع) كے عظيم حوصلے اور تقدير ساز كردار كو مد نظر ركھتے ہوئے ہى كفار قريش نے آپ (ع) كو ''سرخ موت'' كا لقب ديا تھا_(۳۳)

۳_سپاہ اسلام كا جذبہ نظم وضبط ، اپنے فرماندار كے حكم كى اطاعت پذيرى اوررن ميں صبر وپائيدارى سے ڈٹے رہنا _

۴_دشمن كى صورتحال كے بارے ميں صحيح و دقيق معلومات اور اس كے ساتھ ہى رسول خدا (ص) كى جانب سے جن جنگى حربوں كو بروئے كار لانے كى ہدايت دى جاتى تھى اس كى مكمل اطاعت _

جنگ بدر كے نتائج

زمانہ كے اعتبار سے ''غزوہ بدر'' كى مدت اگر چہ ايك روز سے زيادہ نہ تھى ليكن سياسى و اجتماعى اعتبار سے جو نتائج برآمد ہوئے ان كى بنياد پر كہا جاسكتا ہے كہ يہ جنگ نہ صرف مسلمانوں كى تاريخى معركہ آرائي تھى بلكہ حيات اسلام كو ايك نئے رخ كى جانب لے جانے ميںممدو معاون ثابت ہوئي جس كى وجہ يہ تھى كہ يہ جنگ دونوں ہى گروہوں كے لئے تقدير ساز تھي، مسلمانوں كے واسطے يہ جنگ اس اعتبار سے اہميت كى حامل تھى كہ وہ جانتے تھے كہ اگر اس جنگ ميں وہ كامياب ہوجاتے ہيں (اور ہوئے بھى) تو عسكرى طاقت كا توازن تبديل ہو كر مسلمانوں كے حق ميں ہوجائے گا ، وہ اس علاقے كى قابل ذكر طاقت

۱۵۴

بن جائيں گے اور رائے عامہ ان كى جانب متوجہ ہوگى اس كے علاوہ اور بھى مفيد نتائج برآمد ہوسكتے تھے جن ميں سے بعض كا ذكرہم ذيل ميں كريں گے ، اس كے برعكس اگر اس جنگ ميں مسلمانوں كو شكست ہوجاتى تو اس كے بعد اسلام كا نام ونشان باقى نہ رہتا چنانچہ رسول خدا (ص) كا جنگ سے پہلے كا وہ ارشاد جو بصورت دعا بيان فرمايا اس حقيقت كى تائيد كرتا ہے:

(اَللّهُمَّ ان تَهلكْ هذه العصَابَةُ اليَومَ لا تُعبَد )(۳۴)

''پروردگارا اگر آج يہ جماعت تباہ ہوگئي تو تيرى عبادت كرنے والا كوئي نہ رہے گا''_

ليكن جب اس مسئلے كو كفار كے اعتبار سے ديكھتے ہيں تو اگر وہ اس جنگ ميں كامياب ہوجاتے تو رسول اكرم (ص) اور مسلمانوں كا خاتمہ ہوجاتا جويہ سمجھ رہے تھے كہ وہ مدينہ كو ہجرت كركے قريش كے چنگل سے نكل گئے ہيں اس كے علاوہ اہل مدينہ كےلئے يہ درس عبرت ہو تاكہ وہ آيندہ دشمنان قريش كو اپنے گھروں ميں پناہ دينے اور اہل مكہ كا سامنا كرنے كى جرات نہ كرسكيں_

جنگ بدر ميں خداوند تعالى كى مرضى سے جو پيشرفت ہوئي اس كے باعث اسلامى نيز مشرك دونوں معاشرے سياسى ' اجتماعى ' عسكرى اور اقتصادى لحاظ سے بہت متاثر ہوئے بطور مثال:

۱_مسلمانوں بالخصوص انصار كے دلوں ميں نفسياتى طور پر مكتب اسلام كى حقانيت كے بارے ميں پہلے سے كہيں زيادہ اطمينان و اعتقاد پيدا ہوگيا اور اسلام كے درخشاں مستقبل كے متعلق اب وہ بہت زيادہ پر اميد ہوگئے تھے كيونكہ ميدان جنگ ميں طاقت ايمان كے مظاہرے كو انہوں نے اپنى آنكھوں سے ديكھ ليا تھا_

دوسرى طرف ''جزيرة العرب'' كے لوگوں ميں اسلام كو برتر طاقت كى حيثيت سے

۱۵۵

ديكھاجانے لگا چنانچہ اب سب ہى لوگ رسول خدا (ص) اور آنحضرت (ص) كے دين اسلام كى جانب متوجہ ہونے لگے_

۲_جنگ بدر ايسى طوفانى جنگ ثابت ہوئي كہ اس نے مخالفين اسلام (مشركين ' يہود اور منافقين) كى بنيادوں كو لرزاكر ركھ ديا تھا_ چنانچہ ان كے دلوں ميں ايسا خوف و ہراس پيدا ہو اكہ اب وہ يہ سوچنے پر مجبور ہوگئے كہ اپنى حفظ وبقا كى خاطر اپنے تمام اختلافات كے باوجود يك جا جمع ہوں اور مسلمانوں كو تہ تيغ كرنے كيلئے كوئي راہ تلاش كريں(۳۵) _

جنگ بدر كے بعد پورے شہر مكہ ميں صف ماتم بچھ گئي ، قريش كا كوئي گھر ايسا نہ بچا جہاں كسى عزيز كے مرنے كى وجہ سے رسم سوگوارى نہ منائي جارہى ہو اور جو چند قريش باقى بچے رہے انہوں نے اضطرارى حالت كے تحت جلسہ طلب كيا اور وہ اس بات پر غور كرنے لگے كہ اس شرمناك شكست كے منفى اثرات كو كيسے دور كريں اور اس كى تلافى كس طرح كى جائے(۳۶) _

''ابولہب'' كو تو ايسا صدمہ ہوا كہ وہ جنگ بدر كے بعد دس دن كے اندر اندر ہى غم غصے سے گھل كر و اصل جہنم ہوا(۳۷) _

مدينہ ميں بھى جس منافق يہودى نے مسلمانوں كى فتح وكامرانى كے بارے ميں سنا اس كا شرم سے سر جھك گيا(۳۸) _

ان ميں سے بعض نے تو يہاں تك كہنا شروع كرديا كہ جنگ ''بدر'' ميں اتنے اشراف ' سرداران قوم ' حكمرانان عرب اور اہل حرم مارے گئے ہيں كہ اب اس كے بعد ہمارے لئے بہتر يہى ہے كہ زمين كے سينے پر رہنے كى بجائے اس كى كوكھ ميں چلے

۱۵۶

جائيں(۳۹) _

اور بعض كى زبان پر يہ بات بار بار آرہى تھى كہ ''اب جہاں كہيں پرچم محمدى (ص) لہرائے گا فتح و نصرت اس كے دوش بدوش ہوگي_(۴۰) _

۳_جنگ بدر سے مسلمانوں كو جو مال غنيمت ملا اس كى وجہ سے مسلمانوں كى اقتصادى حالت بہتر ہوگئي اور اس كى وجہ سے ان كى ڈھير سارى ذاتى اور جنگى ضروريات بھى پورى ہو گئيں ان كے واسطے وسيع جنگ كے راستے زيادہ ہموارہوگئے اس كے مقابل قريش كى اقتصادى زندگى كو سخت نقصان پہنچا كيونكہ ايك طرف تو وہ تمام تجارتى راستے جو شمال كى طرف جاتے تھے ان كيلئے مخدوش ہوگئے دوسرى طرف جنگ ميں وہ تمام لوگ مارے گئے جو فن تجارت كے ماہر سمجھے جاتے تھے اور مكہ كى اقتصادى زندگى كا انحصار انہى كے ہاتھوں ميں تھا_

۱۵۷

سوالات

۱_ جنگ بدر ميں مشيت الہى كيا تھي؟

۲_ كيا جنگ بدر ميں كسى شخص نے محاذ پر جانے سے روگردانى كى اوركيوں؟

۳_ رسول خدا (ص) نے كس تاريخ كو كتنے مسلمانوں كے ساتھ اور كيسے حالات كے تحت مدينہ سے بدر كى جانب روانگى كا ارادہ كيا ؟

۴_ جنگ بدر ميں دشمن كا كتنا جانى ومالى نقصان ہوا؟

۵_ آيہ شريفہ :( يَسْئَلُوْنَكَ عَن الاَنْفَال قُلْ الْاَنْفَالُ لله وَالرَّسُوْل ) كى شان نزول كے بارے ميں مختصر طور پر لكھيں_

۶_ جنگ بدر كے قيديوں كا كيا انجام ہوا؟

۷_ جنگ بدر ميں مسلمانوں كى كاميابى كے كيا اسباب تھے؟ ان ميں سے دو معنوى اور دو مادى عوامل كا ذكر كيجئے_

۸_ غزوہ بدر كے نتائج مختصر طور پر بيان كيجئے_

۱۵۸

حوالہ جات

۱_سورہ انفال آيت ۵

۲_مجمع البيان ج ۴' ص ۵۲۱ميں ايك روايت كى بنا پر '' بالحَقّ'' سے مراد '' بالوَحي'' ہے_

۳_سورہ انفال آيت ۵

۴و ۵_ سورہ انفال /۶

۶_ ملاحظہ ہو المغازى ،واقدى ، ج ۱ ص ۲۱ و شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۱۴ ص ۸۵

۷و۸_مجمع البيان ج ۳ _۴ ص ۵۲۰

۹_ سورہ انفال /۴۴

۱۰_ سورہ انفال /۴۳

۱۱_ سورہ انفال /۴۲

۱۲_ سورہ انفال /۴۴

۱۳_السيرة النبويہ ج ۲ ' ص۱۴۴

۱۴و۱۵_بحارالانوار ج ۱۹ ' ص ۲۶۵ _ ۲۶۷

۱۶_ سورہ انفال /۷

۱۷_ المغازى واقدى ج ۱ ص ۲۱_۲۷

۱۸_تاريخ پيامبر (ص) تاليف آيتى مرحوم ص ۲۵۳_ ۲۹۱

۱۹_المغازى واقدى ج ۱ ص ۱۰۲ _۱۰۳

۲۰_الميزان ج ۹ ص ۹

۲۱_المغازى ج ۱ ص ۱۰۰_ ۱۰۱

۲۲_المغازى ج ۱ ص ۱۰۰ _ ۱۱۴ ، السيرة النبويہ ج ۲ ص ۲۹۸

۲۳_ سورہ انفال /۷

۲۴_ سورہ انفال /۱۱

۱۵۹

۲۵_ سورہ آل عمران كى آيت ۱۲۴ كى طرف اشارہ ہے_

۲۶_ سورہ انفال /۱۳

۲۷_ سورہ انفال /۱۱

۲۸_ سورہ انفال /۴۸

۲۹_ سورہ انفال /۱۷

۳۰_ كُنَّا اذَااحمَرَّ البا سُ اتَّقَينَا برَسُول اللہ فَلَم يَكُن اَحَدٌ منَّا اَقرَبُ اليَ العَدُوّمنہُ (نہج البلاغہ ، صبحى صالح كلمات قصار ح ۹ ص ۵۲۰)

۳۱_ بحار الانوار ج۱۹ ص ۲۹۱

۳۲_ارشاد مفيد ص ۴۰

۳۳_مناقب ابن شہر آشوب ج ۲ ص ۶۸

۳۴_السيرة النبويہ ج ۲ ص ۲۷۹

۳۵_ان كى اس كوشش كے بارے ميں آئندہ ذكر كياجائے گا_

۳۶و ۳۷_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۲ ص ۳۰۲

۳۸_۳۹_۴۰ _ المغازى و اقدى ج ۱ ص ۱۲۱

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313