تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي18%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139668 / ڈاؤنلوڈ: 4388
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

سبق ۱۰:

حضرت علي(ع) كى شادى خانہ آبادي'' جنگ اُحد''

۱۶۱

غزوہ بنى قنيقاع

مدينہ ميں آباد يہوديوں كى خيانت و نيرنگى كم وبيش جنگ بدر سے قبل مسلمانوں پر عياں ہوچكى تھي_ جب مسلمانوں كو جنگ بدر ميں غير متوقع طور پر مشركين پر فتح وكامرانى نصيب ہوئي تو وہ سخت مضطرب و پريشان ہوئے اور ان كے خلاف ريشہ دوانيوں ميں لگ گئے ، قبيلہ بنى قنيقاع اندرون مدينہ آباد تھا اور اس شہر كى معيشت اسى كے ہاتھوں ميں تھى اور يہى وہ قبيلہ تھا جس كى سازش و شرارت مسلمانوں پر سب سے پہلے عياں ہوئي تھي_

پيغمبر اكرم (ص) نے ابتداء ميں انہيں نصيحت كى اور اس بات پر زور ديا كہ آنحضرت (ص) كے ساتھ انہوں نے جو عہد وپيما ن كياہے اس پر قائم رہيں اس كے ساتھ ہى مشركين قريش پر جو گزر گئي تھى اس سے بھى آپ (ص) نے انہيں آگاہ كيا ليكن جب آپ (ص) نے ديكھا كہ وہ لوگ خود سرى و بے حيائي پر اتر آئے ہيں اور قانون كى پاسدارى نيز مذہبى جذبات كى پاكيزگى كا احترام كرنے كى بجائے الٹا اس كا مذاق اڑا رہے ہيں اور مسلمانوں كى عزت وناموس پر مسلسل اہانت آميز وار كر رہے ہيں تو آپ (ص) نے نصف ماہ شوال سن ۲ ہجرى ميں ان كے قلعے كا محاصرہ كرليا تا كہ اس مسئلہ كا فيصلہ ہوجائے_

يہودى تعداد ميں تقريبا سات سو سپاہى تھے جن ميں سے تين سو زرہ پوش تھے پندرہ دن تك مقابلہ كرنے كے بعد انہوں نے اپنى شكست تسليم كرلى ، رسول خدا (ص) نے انہى كى تجويز پر

۱۶۲

ان كا مال و اسلحہ ضبط كرليا اور انہيں مدينہ سے باہر نكال ديا_(۱)

''بنى قنيقاع'' كے شرپسندوں كو جب اسلحہ سے محروم اور شہر بدر كرديا گيا تو مدينہ ميں دوبارہ امن و اتحاد اور سياسى استحكام كا ماحول بحال ہوگيا_ اس كے ساتھ ہى اسلامى حكومت كے مركز يعنى مدينہ ميں رسول خد ا(ص) كى سياسى حيثيت و رہبرانہ طاقت پہلے سے كہيں زيادہ مستحكم ہوگئي اس كے علاوہ قريش كے ان حملوں كے مقابل جو وہ انتقام جوئي كى غرض سے كيا كرتے تھے مسلمانوں كا دفاعى ميدان كافى محكم و مضبوط ہوگيا اور يہى بات قريش كے اس خط سے جو انہوں نے جنگ بدر كے بعد مدينہ كے يہوديوں كو لكھا تھا عياں ہوتى ہے كہ جب مسلمانوں سے انتقام جوئي كى غرض سے آئندہ كبھى جنگ كى جائے تو ان اسلام دشمن عناصر سے جو خود مسلمانوں ميں موجود ہيں جاسوسى اور تباہ كارى كا كام لياجائے_

سازشوں كو ناكام كرنا

رسول خدا (ص) نے صرف مدينہ ميں موجود خيانت كار اور عہد شكن افراد كا قلع قمع نہيں كيا بلكہ آپ(ص) ان قبائل پر بھى كڑى نظر ركھے ہوئے تھے جو مدينے كے اطراف ميں آباد اور اسلام دشمن تحريكوں نيز سازشوں ميں شريك تھے چنانچہ جب بھى حملے كى ضرورت پيش آتى تو آپ (ص) كى تلوار بجلى كى مانند كوندتى ہوئي ان جتھوں پر گرتى اور ان كى سازشوں كو ناكام بناديتى ''بنى غطفان'' اور ''بنى سليم'' دو ايسے طاقتور قبيلے تھے جو قريش كے تجارتى راستے پر آباد تھے اور ان كا قريش كے ساتھ مصالحتى عہدو پيمان بھى تھا ان كے ساتھ جو جنگ ہوئي وہ ''غزوہ بنى سليم'' كے نام سے مشہور ہے ، قبائل ''ثعلبہ'' اور ''محارب'' كے ساتھ جو جنگ لڑى گئي وہ غزوہ ''ذى امر'' كہلائي ، قريش نے جنگ بدر كے بعد چونكہ اپنا تجارتى راستہ بدل ديا تھا اور

۱۶۳

بحر احمر كے ساحل كى بجائے وہ عراق كے راستے سے تجارت كيلئے جانے لگے تھے ان پر جو لشكر كشى كى گئي وہ سريہ ''قروہ'' كے عنوان سے مشہور ہوئي _

لشكر اسلام كى ہوشمندى اور ہر وقت پيش قدمى كے باعث نو عمر اسلامى حكومت اپنى جاسوسي' ہوشيارى اور لشكر كشى كى استعداد و اہليت كى وجہ سے مدينہ كے گردو نواح ميں غالب آگئي اور اب وہ سياسى عسكرى طاقت كے عنوان سے منظر عام پر نمودار ہونے لگي_

تجارتى راستوں پر مسلمانوں كى مستقل موجودگى كے باعث قريش كى اقتصادى و سياسى طاقت سلب ہوگئي اور ان كے جتنے بھى تجارتى راستے تھے وہ مسلمانوں كے تحت تصرف آگئے_

اس عسكرى كيفيت كى حفاظت و توسيع، اس كے ساتھ ہى لشكر اسلام كا فطرى جذبہ شجاعت اور رسول خدا (ص) كا دانشورانہ دستور عمل ايسے عناصر تھے جن پر اس وقت بھى عمل كياجاتا تھا جبكہ دين اسلام طاقت كے اعتبار سے اپنے عروج كو پہنچ چكا تھا ، تحفظ و توسيع كا اس قدر پاس ركھا جاتا كہ ان مہينوں ميں بھى جنہيں ماہ حرام قرار ديا گيا تھا اس مقصد سے غفلت نہيں برتى جاتى تھي_

حضرت فاطمہ زہرا(س)كى شادى خانہ آبادي

جنگ بدر كے بعد جو اہم واقعات رونما ہوئے ان ميں دين مبين اسلام كى نامور خاتون حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا كا حضرت على عليہ السلام كے ساتھ رشتہ ازدواج قابل ذكر واقعہ ہے_(۲)

دور جاہليت كى ايك ناپسنديدہ رسم يہ بھى تھى كہ عرب بالخصوص اشراف اپنى بيٹيوں كے

۱۶۴

رشتے صرف ايسے آدميوں سے كرتے تھے جنہيں دولتمندى ' اقتداراور جاہ و مرتبہ كے باعث شہرت و نام آورى حاصل ہو_

اس رسم كى بنياد پر بعض اشرافى اور مقتدر صحابہ رسول (ص) نے آنحضرت (ص) كى خدمت ميں حضرت فاطمہ (ع) كے ساتھ اپنى شادى كا پيغام بھيجا اس مقصد كيلئے انہوں نے بہت زيادہ حق مہر ادا كرنے كى بھى پيشكش كى(۳) ليكن وہ لوگ اس بات سے بے خبر تھے كہ اسلام كى نظر ميں ان كى دولت ، اشراف زادگى اور قبائلى نامورى كى كوئي قدر ومنزلت نہيں ہے _

اس كے علاوہ حضرت فاطمہ (ع) آپ (ص) كى وہ دختر نيك اختر ہیں جن كى عظمت و منزلت آيہ ''مباہلہ''(۴) كى رو سے بہت بلند ہے_

( فَمَن حَاجَّكَ فيه من بَعد مَا جَائَكَ من العلم فَقُل تَعَالَوا نَدعُ أَبنَائَنَا وَأَبنَائَكُم وَنسَائَنَا وَنسَائَكُم وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُم ثُمَّ نَبتَهل فَنَجعَل لَعنَةَ الله عَلَى الكَاذبينَ )

''علم آجانے كے بعد اب جو كوئي اس معاملے ميں تم سے حجت كرے تو اے نبى اس سے كہو كہ آو ہم اور تم خود بھى آجائيں اور اپنے اپنے بال بچوں كو بھى لے آئيں اور خدا سے دعا كريں كہ جو جھوٹا ہو اس پر خدا كى لعنت ہو''_

آيہ ''تطہير''(۵) كے مطابق آپ (ع) كو معصوم اور گناہ سے مبرا قرار ديا گيا ہے_

( إنَّمَا يُريدُ الله ُ ليُذهبَ عَنكُم الرّجسَ أَهلَ البَيت وَيُطَهّرَكُم تَطهيرًا )

''اللہ تو يہ چاہتا ہے كہ تم اہل بيت نبى عليہم السلام سے رجس كو دور ركھے اور تمہيں پورى

۱۶۵

طرح پاك ركھے''_

ايسى صورت ميں آپ(ص) كا شريك حيات ايسے شخص كو ہى بنايا جاسكتا ہے جو فضيلت' تقوا' ايمان ' اخلاص' زہد اور عبادت ميں آپ(ع) كا ہم پلہ ہو_

چنانچہ جب بھى آپ (ع) كا رشتہ آتا تو رسول اكرم (ص) فرماتے :

''انَّ اَمرَهَا الى رَبّهَا''

يعنى حضرت فاطمہ (ع) كى شادى كا مسئلہ خداوند تعالى سے متعلق ہے ''_(۶)

چنانچہ جب حضرت على (ع) آنحضرت (ص) كى خدمت ميں تشريف لائے اور حضرت زہرا (ع) كيلئے پيغام ديا تو آپ (ص) نے اپنى جانب سے اظہار رضامندى كردى مگر اس شرط كے ساتھ كہ حضرت فاطمہ (ع) بھى اس رشتے كو قبول فرماليں، جب آنحضرت (ص) نے اس بات كا ذكر اپنى دختر نيك اختر سے فرمايا تو آپ (ع) نے سكوت كيا ، اس بناپر رسول خدا (ص) نے اس سكوت كو رضامندى كى علامت سمجھا اور فرمايا:

''اَللّهُ اَكبَرُ سُكُوتُهَا اقرَارُهَا'' _(۷)

''اللہ سب سے بڑا ہے يہ سكوت ہى اس كا اقرار ہے''_

اس كے بعد آپ(ص) نے حضرت على (ع) كى جانب رخ كيا اور فرمايا كہ : تمہارے پاس كيا اثاثہ ہے جس كى بناپر ميں اپنى لڑكى كو تمہارى زوجيت ميں دے سكوں يہ سن كر حضرت على (ع) نے فرمايا :

يا رسول اللہ (ص) ميرے ماں ' باپ آپ (ص) پر قربان ميرے پاس ايسى كوئي چيز نہيں جو آپ (ص) سے پنہان اور پوشيدہ ہو، ميرا كل اثاثہ ايك تلوار ' ايك زرہ اور ايك اونٹ ہے_

حضرت على (ع) كو حكم ديا گيا كہ آپ (ع) اپنى زرہ بكتر فروخت كرديں اور ا س سے جو رقم حاصل

۱۶۶

ہو اسے رسول خدا (ص) كے حوالے كرديں_

زرہ بكتر فروخت كرنے سے جو رقم حاصل ہوئي اس ميں سے كچھ رسول خدا (ص) نے بعض صحابہ كو دى اور كہا كہ اس سے وہ ضروريات زندگى كا سامان خريد لائيں باقى رقم كو آپ (ص) نے بطور امانت ''حضرت ام سلمہ'' كے پاس ركھ ديا _(۸)

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا كا مہر

مورخین نے لكھا ہے كہ حضرت على (ع) نے شادى كيلئے جو رقم رسول خدا (ص) كو ادا كى وہ كسى طرح سے بھى پانچ سو درہم سے زيادہ نہ تھى اور يہى حضرت زہرا (ع) كا مہر بھى تھااور اسى ہى رقم سے جہيز، دلہن كا لباس اور سامان آرائشے بھى خريدا گيا نيز اسى رقم سے (بقولے)دعوت وليمہ كا اہتمام بھى كيا گيا _(۹)

رقم كى يہ مقدار درحقيقت ''مہر سنت'' ہے اور تمام مسلمانوں كيلئے عمدہ مثال بالخصوص ان والدين كيلئے جو مہر كى كثير رقم كا مطالبہ كركے نوجوانوں كى شادى ميں ركاوٹ پيدا كرتے ہيں ، اس كے ساتھ ہى يہ ان كيلئے اچھا سبق بھى ہے جو يہ سمجھتے ہيں كہ عورت كى حيثيت كا انحصار مہر كى كثير رقم اور بھارى جہيز سے وابستہ ہے _

رسول خدا (ص) نے اس اقدام كے ذريعے عام لوگوں كو انسانيت كى اعلى اقدار اور عورت كے معنوى وروحانى مرتبے كى جانب متوجہ كيا ہے چنانچہ جب قريش نے اعتراض كيا كہ فاطمہ (ع) كو بہت معمولى مہر كى رقم پر على (ع) كى زوجيت ميں دے ديا تو آپ(ص) نے فرمايا كہ : ''يہ اقدام حكم خداكى بناپر كيا گيا ہے يہ كام ميں نے انجام نہيں ديا بلكہ خداوند تعالى كے حكم سے انجام پايا ہے''_(۱۰)

۱۶۷

احمد ابن يوسفى دمشقى نے لكھا ہے كہ جب حضرت زہرا (ع) كو معلوم ہوا كہ مہر كى رقم كتنى معين كى گئي ہے تو آپ (ع) نے اپنے والد محترم يعنى آنحضرت (ص) كى خدمت ميں عرض كيا '' عام لڑكيوں كى شادى اس وقت طے ہوتى ہے جب مہر كى رقم كے درہم مقرر كرلئے جاتے ہيں اگر ميں بھى ايسا كروں تو ميرے اور ان كے درميان كيا فرق باقى رہ جائے گا اسى لئے ميرى آپ (ص) سے يہ درخواست ہے كہ مہر كى رقم على (ع) كو ہى واپس كرديجئے اور اس كے عوض خداوند تعالى كى بارگاہ ميں يہ درخواست كيجئے كہ ميرے مہر كى رقم بروز قيامت آپ (ص) كى امت كے گناہگار بندوں كى شفاعت قرار دے(۱۱) _

شادى كى رسومات

جب ايك ماہ سے زيادہ عرصہ گزر گيا تو حضرت على (ع) نے فيصلہ كيا كہ اپنى زوجہ مطہرہ (ع) كو (رخصتى كے ساتھ) اپنے گھر لے آئيں اس مقصد كے تحت آپ (ع) نے دعوت وليمہ كا اہتمام كيا اور اس ميں شركت كى دعوت عام دى(۱۲) ، جب شادى كى رسومات ختم ہوگئيں تو آنحضر ت(ص) نے اپنى دختر نيك اختر كى سوارى كيلئے خچر كا بندوبست كى اور مسلمانوں سے كہا كہ وہ دلہن كے آگے آگے چليں اور خود (ص) سوارى كے پيچھے چلنے لگے اور اس طرح بنى ہاشم كے مردو زن اور ازواج مطہرات حضرت زہرا (ع) كى سوارى كى ہمراہى كر رہى تھيں_

حضرت على (ع) كے گھر پہنچ كر پيغمبر اكرم (ص) نے اپنى پيارى لڑكى كا ہاتھ پكڑ كر حضرت على (ع) كے ہاتھ ميں دے ديا اس كے ساتھ ہى آپ (ص) نے حضرت علي(ع) كے اوصاف حميدہ حضرت فاطمہ (ع) سے اور حضرت فاطمہ (ع) كى شخصيت نيز اوصاف حضرت على (ع) سے بيان فرمائے اور اس كے بعد آپ (ص) نے دونوں كيلئے دعائے خير فرمائي_(۱۳)

۱۶۸

غزوہ احد

ہجرت كے تيسرے سال كے دوران جو واقعات رونما ہوئے _ ان ميں ''غزوہ احد(۱۴) '' قابل ذكر ہے يہ جنگ ماہ شوال ميں وقوع پذير ہوئي جو خاص اہميت و عظمت كى حامل ہے _

ہم يہاں اس جنگ كا اجمالى طور پر جائزہ ليں گے اور اس سے پيدا ہونے والے مسائل كا تجزيہ كريں گے_

غزوہ احد كى اجمالى تاريخ

جنگ بدر ميںشرمناك شكست كے بعد قريش نے اندازہ لگايا كہ رسول خد ا(ص) كے ساتھ ان كى جنگ نے نيا رخ اختيار كيا اور يہ ايك نئے مرحلے ميں داخل ہوگئي ہے چنانچہ دوسرے مرحلے پر جب انہوں نے نو عمر اسلامى حكومت كے خلاف جنگ كا ارادہ كيا تو اس كيلئے انہو ں نے وسيع پيمانے پر تيارى كى تاكہ اس طريقے سے ايك توان مقتولين كا مسلمانوں سے بدلہ لے سكيں جو جنگ بدر ميں مارے گئے تھے اور دوسرے يہ كہ مكہ اور شام كے درميان واقع جس تجارتى شاہراہ كى ناكہ بندى مسلمانوں نے كردى تھى اسے ان كے چنگل سے آزاد كراكے اپنى اقتصادى مشكلات كا حل نكاليں اور اس كے ساتھ ہى اپنى حاكميت و بالادستى كو بحال كرليں جو زمانے كے انقلاب كے تحت ان كے ہاتھوں سے نكل چكى تھى اوراپنى ساكھ كو اپنے لوگوں نيز اطراف و جوانب كے قبائل پر قائم كرسكيں_

جن محركات كا اوپر ذكر كيا گيا ہے ان كے علاوہ''ابو رافع'' اور ''كعب الاشراف'' جيسے يہوديوں كى ايماء بھى اس جنگ كے شعلوں كو ہوا دينے ميں مؤثر ثابت ہوئي _

۱۶۹

سرداران مشركين ''دارالندوہ'' ميں جمع ہوئے جہاں انہوں نے لشكربھيجنے كى كيفيت اور جنگ كے اخراجات اور اسلحہ كى فراہمى كے بجٹ كے حصول كى كيفيت كے متعلق كئي فيصلے كئے ، بالآخر بہت زيادہ كوشش كے بعد تين ہزار سپاہيوں پر مشتمل ايسا لشكر تيار ہوگيا جس ميں (۷۰۰) زرہ پوش ،دو سو (۲۰۰) گھڑسواراو رباقى پيدل سپاہى شامل تھے اس مقصد كے لئے انہوں نے تين ہزار اونٹ بھى جمع كرلئے اور سپاہ ميں جوش وولولہ پيدا كرنے اور سپاہيوں كو جنگ پر اكسانے كيلئے ۱۵ عورتيں بھى ساتھ ہوگئيں چنانچہ اس ساز و سامان كے ساتھ يہ لشكر مدينے كى جانب روانہ ہوا _(۱۵)

رسول خدا (ص) كے چچا حضرت عباس نے جو مكہ ميں قيام پذير تھے آنحضرت (ص) كو قريش كى سازش سے مطلع كرديا، دشمن كى طاقت وحيثيت كا اندازہ لگانے اور اس سے متعلق مزيد اطلاعات حاصل كرنے كے بعد آنحضرت (ص) نے اہل نظر مہاجرين اور انصار كو جمع كيا اور انہيں پورى كيفيت سمجھا كر اس مسئلے پر غور كيا كہ دشمن كا مقابلہ كس طرح كياجائے اس سے متعلق دو نظريے زير بحث آئے:

الف :_شہر ميں محصور رہ كر عورتوں اور بچوں سے مدد حاصل كى جائے اور فصيل شہر كو دفاعى مقصد كيلئے استعمال كياجائے_

ب:_شہر سے باہر نكل كر كھلے ميدان ميں دشمن كا مقابلہ كياجائے_

معمر اور منافق لوگ پہلے نظريئےے متفق تھے ليكن جوانوں كى تعداد چونكہ بہت زيادہ تھى اسى لئے وہ دوسرے نظريئےے حامى تھے اور اس پر ان كاسخت اصرار تھا_

رسول خدا (ص) نے طرفين كے نظريات اوراستدلال سننے كے بعد دوسرے نظريئےو پسند فرمايا اور يہ فيصلہ كيا كہ دشمن كا مقابلہ شہر سے باہر نكل كر كياجائے ، ۶ شوال كو آپ (ص) نے نماز

۱۷۰

جمعہ كى امامت فرمائي، فريضہ نماز ادا كرنے كے بعد آپ (ص) نے اصحاب كو صبر،حوصلے ،سنجيدگى اور عزم راسخ كے ساتھ جہاد كى تلقين فرمائي ، لشكر (۱۰۰۰) ہزار افراد پر مشتمل تھا جس ميں صرف (۱۰۰) سو سپاہى زرہ پوش تھے(۱۶) ، آپ (ص) نے فوج كا علم حضرت على (ع) كو ديا(۱۷) اور جہاد كى خاطر مدينے سے باہر تشريف لے گئے_

جب لشكر اسلام ''شوط''(۱۸) كى حدود ميں پہنچا تو منافقين كا سردار ''عبداللہ بن ابي'' اپنے (۳۰۰) تين سو ساتھيوں كے ساتھ يہ بہانہ بنا كرعليحدہ ہوگيا كہ رسول خدا (ص) نے جوانوں كے نظريئےو اس كے مشورے پر ترجيح دى ہے _او روہ اپنے ساتھيوں كے ہمراہ واپس مدينہ آگيا _(۱۹) در اصل اس منافق كى روگردانى كے پس پردہ يہ محرك كار فرما تھا كہ جنگ جيسے حساس ونازك موقعے پر پيغمبر خدا (ص) كى ہمراہى كو ترك كركے آپ (ص) كى قيادت كو كمزور كردے تاكہ سپاہ اسلام كى صفوں ميں تزلزل ، اضطراب اور اختلاف پيدا ہوجائے_

اسى تفرقہ انگيز حركت كے بعد قبيلہ ''خزرج'' كے گروہ''بنى سلمہ'' اور قبيلہ ''اوس'' كے گروہ ''بنى حارث ''كے لوگ بھى اپنى ثابت قدمى ميں متزلزل ہونے لگے اور واپس جانا ہى چاہتے تھے(۲۰) كہ خدا كى مدد اور دوسرے مسلمانوں كى ثابت قدمى نے ان كے ارادے كو مضبوط كيا ور اس طرح منافقين كى بزدلانہ سازش ناكام ہوگئي چنانچہ قرآن مجيد نے بھى سورہ آل عمران ميں اس مسئلے كى جانب اشارہ كيا ہے(۲۱) _

( إذ هَمَّت طَائفَتَان منكُم أَن تَفشَلاَوَالله ُ وَليُّهُمَا وَعَلَى الله فَليَتَوَكَّل المُؤمنُونَ )

''ياد كرو جب تمہارے دو گروہ بزدلى پر آمادہ ہوگئے تھے ، حالانكہ اللہ ان كى مدد پر موجود تھا اور مومنوں كو اللہ ہى پر بھروسہ كرناچاہئے''_

۱۷۱

ہفتہ كے دن ۷ شوال كو احد كے دامن ميں دونوں لشكر ايك دوسرے كے مقابل آگئے _

اگر چہ لشكر اسلام كى پشت پر كوہ احد تھا مگر اس كے باوجود رسول خدا (ص) نے ''عبداللہ بن جبير'' كے زير فرمان پچاس كمانڈروں كو درہ ''عينين'' كے دہانے پر اس مقصد كے تحت مقرر كرديا تھا كہ دشمن كو درے كے راستے سے ميدان كارزار ميں نہ گھسنے ديں _

جنگ كا آغاز دشمن كے سپاہى ''ابوعامر'' كى تير اندازى سے ہوا اس كے بعد تن بہ تن جنگ كى نوبت آئي اس مرحلے ميں مشركين كے نوشہسوار چند ديگر افراد كے ساتھ ميدان كارزار ميں اترے اور سب كے سب حضرت على (ع) كے ہاتھوں ہلاك ہوئے_

دوسرے عمومى مرحلے ميں دشمن كا پورا ريلا سپاہ اسلام پر حملہ آور ہوا جس پر قريش نے اپنى پورى طاقت صرف كردى گلو كارائيں بھى اشعار نيز نغمہ و سرود كے ذريعے مردوں كو مسلمانوں سے بدلہ لينے كى ترغيب دلا رہى تھيں تاكہ اس گہرے سياہ داغ كو جو جنگ بدر ميں ان كے دامن پر لگا تھا مٹا سكيں ليكن مجاہدين اسلام كى بہادرانہ استقامت اور دشمنوں كى صفوں پر ہر جانب سے حملہ آورى بالخصوص اميرالمومنين حضرت على (ع) ، حضرت حمزہ (ع) اور حضرت ابودجانہ كى گردن توڑ پے درپے ضربوں كے باعث مشركين كى فوج ميں مقابلے كى تاب نہ رہى اور اس نے اپنى عافيت فرار ميں ہى سمجھي_

جب مشركين فرار ہونے لگے تو بہت سے مسلمانوں نے يہ سمجھا كہ جنگ ختم ہوگئي ہے چنانچہ وہ مال غنيمت جمع كرنے ميں مشغول ہوگئے اگر چہ رسول اكرم (ص) كى سخت تاكيد تھى كہ جن سپاہيوں كو درہ عينين كى پہرہ دارى پر مقرر كيا ہے وہ اپنى ذمہ دارى سے ہرگز غافل نہ ہوں مگر آنحضرت (ص) كى تاكيد اور جرنيلوں كى سخت كوشش كے باوجود(۱۰) دس افراد كے علاوہ باقى تمام سپاہى جو اس درہ كى نگرانى پر مامور تھے اپنى پہرہ دارى كو چھوڑ كر مال غنيمت جمع

۱۷۲

كرنے ميںلگ گئے_

خالد بن وليد دشمن كى سوار فوج كا كمانڈر تھا ، درہ عينين كى عسكرى اہميت سے بھى وہ بخوبى واقف تھا اس نے كتنى ہى مرتبہ يہ كوشش كى تھى كہ سپاہ اسلام كے گرد چكر لگائے ليكن مسلمان تير اندازوں نے اسے ہر مرتبہ پسپا كرديا تھا اس نے جب مسلمانوں كو مال غنيمت جمع كرتے ديكھا تو جلدى سے كوہ احد كا چكر لگايا اور ان باقى سپاہيوں كو قتل كرديا جو وہاں موجود تھے جب درے كى پاسبانى كيلئے كوئي سپاہى نہ رہا تو وہ وہاں سے اتر كر نيچے آيا اور ان سپاہيوں پر جو مال غنيمت سميٹنے ميں لگے ہوئے تھے اچانك حملہ كرديا_

عورتوں نے جب خالد بن وليد كے سپاہيوں كو حملہ كرتے ديكھا تو انہوں نے بھى اپنے بال كھول كر بكھير ديئے اور گريبان چاك كر ڈالے وہ چيخ چيخ كر مشركين كو اشتعال دلا كر فرار كرنے والے لوگوں كو واپس پلٹانے كى كوشش كرنے لگيں_

دشمن كے ان دو اقدام كے باعث مشركين مكّہ كى طاقت دوبارہ منظم ہوگئي چنانچہ اس نے مسلمانوں پر سامنے اور پشت دونوں اطراف سے حملہ كرديا اگرچہ مسلمانوں نے اپنا دفاع كرنا بھى چاہا مگر چونكہ وہ بكھرے ہوئے تھے اسى لئے ان كى كوشش كارگر نہ ہوئي_

اسى اثنا ميں ميدان جنگ سے صدا بلند ہوئي كہ :''انَّ مُحَمَّداً قَد قُتلَ'' محمد قتل كرديئے گئے ہيں(۲۲) ، جب يہ افواہ ہر طرف پھيل گئي تو لشكر اسلام ان تين دستوں ميں تقسيم ہوگيا:

۱_ايك دستہ ميدان جنگ سے ايسا گيا كہ واپس نہ آيا اور جب تين دن بعد اس كے افراد رسول خدا (ص) كى خدمت ميں پہنچے تو آنحضرت (ص) نے ان كى سرزنش كرتے ہوئے فرمايا تم نے گويا تنگى سے نكل كر كشادہ راہ اختيار كى تھي(۲۳) _

۱۷۳

۲_دوسرے دستے ميں وہ لو گ شامل تھے جو فرار كركے گردو نواح كے پہاڑوں ميں چھپ گئے اور يہ انتظار كر رہے تھے كہ ديكھئے كيا پيش آتا ہے ان ميں سے بعض حواس باختہ ہو كر يہ كہنے لگے كہ اے كاش ہم ميں سے كوئي عبداللہ ابن ابى كے پاس جاكر اس سے كہتا كہ وہ ابوسفيان سے ہمارى امان كيلئے سفارش كرتا _(۲۴)

''انس ابن نضر'' كو را ستے ميں كچھ ايسے لوگ مل گئے جو فرار كرچكے تھے اس نے پريشان ہو كر ان سے دريافت كيا كہ تم لوگ يہاں بيٹھے كيا كر رہے ہو ؟ انہوں نے جواب ديا كہ : رسول خدا (ص) كو قتل كرديا گيا ہے ، اس پر انس نے جواب ديا كہ جب رسول خدا (ص) اس دنيا ميں نہيں رہے تو يہ زندگى كس كام كى ، اٹھو اور جہاں رسول خدا (ص) كاخون گرا ہے تم بھى اپنا لہو وہاں بہادو_(۲۵)

اس گروہ نے جو اكثريت پر مشتمل تھا نہ صرف انس كى بات كا مثبت جواب نہ ديا بلكہ انہوں نے رسول اكرم (ص) كى اس دعوت كو بھى نظر انداز كرديا كہ اے لوگو: فرار كركے كہاں جارہے ہو خدا كا وعدہ ہے كہ فتح و نصرت ہميں حاصل ہوگي_ ليكن انہوں نے رسول خدا (ص) كى ايك نہ سنى اور فرار كرتے ہى چلے گئے_(۲۶)

سورہ آل عمران كى آيت ۱۵۳ ميں بھى اس امر كى جانب اشارہ ہے :

( إذ تُصعدُونَ وَلاَتَلوُونَ عَلَى أَحَد: وَالرَّسُولُ يَدعُوكُم فى أُخرَاكُم )

''ياد كرو جب تم بھاگے چلے جارہے تھے كسى كى طرف پلٹ كر ديكھنے تك كاہوش تمہيں نہ تھا اور تمہارے پيچھے رسول (ص) تم كو پكار رہا تھا''_

۳_تيسرے گروہ ميں وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے ايسے حساس و نازك موقع پر

۱۷۴

بے نظير ايثار وقربانى كى مثال پيش كى ، اگر چہ دشمن نے رسول خدا (ص) كو ہر طرف سے نرغے ميں لے ركھا تھا مگر وہ رسول خدا(ص) كے گرد پروانہ وار چكر لگارہے تھے اور آپ (ص) كى ذات گرامى كا ہر طرح سے تحفظ اور دفاع كررہے تھے _

اميرالمومنين حضرت على (ع) نماياں طور پر آنحضرت (ص) كا دفاع كررہے تھے اور سب سے پيش پيش تھے بلكہ بعض قطعى دلائل ، شواہد اور قرائن كى روسے حضرت على (ع) كے سوا باقى سب اپنى جان بچانے كى فكر ميں لگے ہوئے تھے(۲۷) _ اميرالمومنين حضرت على (ع) بے حد زخمى ہوجانے كے باوجود رسول خدا (ص) كا تحفظ كررہے تھے ،انہوں نے اس راہ ميں ايسى استقامت و پائدارى دكھائي كہ ان كى تلوار تك ميدان جنگ ميں ٹوٹ گئي ، اس موقع پر رسول خدا (ص) نے اپنى وہ تلوار جس كا نام ''ذوالفقار'' تھا حضرت على (ع) كو عنايت فرمائي اور آپ (ع) نے اسى تلوار سے نبرد آزمائي جارى ركھي_(۲۸)

يہ جذبہ ايثار و قربانى اس قدر قابل قدر تھا كہ خداوند تعالى نے اس كى مبارك باد رسول خدا (ص) كو دى چنانچہ رسول خدا (ص) نے اس فرمان كے ذريعے كہ ''على (ع) مجھ سے ہے اور ميں على (ع) سے ہوں'' اس جذبہ ايثار وقربانى كو قدر كى نگاہ سے ديكھا اور اس كو سراہا_

چنانچہ جب ہاتف غيبى سے يہ صدا آئي كہ :''لَاسَيفَ الاَّذُوالفَقَار وَ لَا فَتى الَّا عَليٌّ '' تو سب لوگ بالخصوص فرار كرنے والے اور اپنى ہى فكر ميں غرق لوگ اس بے نظير جرا ت مندانہ اقدام كى جانب متوجہ ہوئے _(۲۹)

جان نثاران اسلام كے سردار حضرت ''حمزہ بن عبدالمطلب'' دوسرے شخص تھے جو رسول خدا (ص) كا تحفظ كررہے تھے اور اسى حالت ميں وہ ''جبير بن مطعم'' كے غلام ''وحشي''كے ہاتھوں شہيد ہوئے_(۳۰)

''ابودجانہ'' اور ''ام عمارہ'' عرف ''نُسَيبَہ'' بھى ان حساس اورنازك لمحات ميں رسول

۱۷۵

خدا (ص) كے دوش بدوش رہے _(۳۱)

سپاہ كى دوبارہ جمع آوري

رسول خد ا(ص) كے بدن مبارك پر اگر چہ كارى زخم لگ چكے تھے اور آنحضرت (ص) دشمن كے نرغے ميں گھرے ہوئے تھے مگر اس كے باوجود آپ (ص) نے نہ صرف ميدان كار زار سے فرار نہيں كيا بلكہ مسلسل باآواز بلند ''الَيَّ عبَادَ اللّہ الَيَّ عبَادَ اللّہ''كہہ كر لوگوں كو ميدان جنگ ميں آنے كى دعوت ديتے رہے بالآخر آپ (ص) اپنے مقصد ميں كامياب ہوئے اور اپنى عسكرى طاقت كو دوبارہ منظم كركے مركز اور محاذ كى صف اول ميں لے آئے_(۳۲) ان سپاہيوں نے بھى تعداد كى كمى كے باوجود جنگ ميں ايسے نماياں كارنامے انجام ديئے كہ كفار كے دلوں ميں اس كارعب و دبدبہ پيدا ہوگيااور انہيں يہ خوف لاحق ہونے لگا كہ كہيں جنگ كا پانسہ نہ پلٹ جائے اور جو فتح انہيں حاصل ہوئي ہے وہ شكست ميں نہ بدل جائے چنانچہ اس خيال كے پيش نظر ابوسفيان نے اپنے لشكر كو پسپا ہونے كا حكم ديا اور جنگ بند كرنے كا اعلان كرديا_(۳۳)

اس طرح جنگ احد كا خاتمہ ہوا جس ميں لشكر اسلام كے(۷۰) ستر سپاہى شہيد ہوئے اور مشركين كے(۲۲) بائيس يا(۲۳) تئيس افراد(۳۴) مارے گئے _(۳۵)

۱۷۶

سوالات

۱_ ''بنى قنيقاع'' والے كون لوگ تھے ، انہوں نے رسول خد ا(ص) سے كيوں عہد شكنى كى ؟ اور رسول خدا (ص) ان كے ساتھ كس طرح پيش آئے؟

۲_ حضرت على (ع) كى حضرت زہرا (ع) كے ساتھ شادى كب اور كس طرح ہوئي؟

۳_ حضرت على (ع) اور حضرت زہرا (ع) كى شادى سے ہميں كيا سبق ملتا ہے؟

۴_ جنگ احد كے موقع پر قريش نے مدينہ جوپر لشكر كشى كى اس كے كيا عوامل و محركات تھے؟

۵_ جنگ احد كے موقع پر دونوں لشكروں كى تياريوںكا جائزہ ليجئے؟

۶_جنگ احد ميں پہلى مرتبہ ميدان جنگ كس لشكر كے ہاتھ ميں رہا اس جنگ ميں بہترين كردار كس كا رہا ؟

۷_ جنگ احد ميں دشمن شكست كھا كر كس طرح بھاگااور واپس آكر اس نے سپاہ اسلام پر كس طرح حملہ كيا ؟

۸_ جب مسلمان شكست سے دوچار ہوئے تووہ منتشر ہونے كے بعد كتنے گروہوں ميں تقسيم ہوگئے تھے؟

۹_ جو لوگ جنگ احد ميں رسول خدا (ص) كے ساتھ رہ گئے تھے اور آنحضرت (ص) كا تحفظ كر رہے تھے ان كا نام بتايئے؟

۱۰_ جب مسلمان فوج شكست سے دوچار ہوئي اور فرار كركے پہاڑوں ميں چلى گئي تو وہ دوبارہ كس طرح منظم ہوئي؟

۱۷۷

حوالہ جات

۱_ملاحظہ ہو :المغازى ج ۱ ص ۱۷۶ _ ۱۷۸_

۲_مرحوم شيخ طوسي نے بعض روايات كى بنا پر لكھا ہے كہ يہ شادى ماہ شوال ميں ہوئي_ ملاحظہ ہو بحار الانوار ج ۴۳ ص ۹۷_

۳_ملاحظہ ہو : بحارالانوار ج ۴۳ ص ۱۰۸_

۴_سورہ آل عمران آية ۶۱ : رسول خدا (ص) احقاق حق كيلئے علمائے نجران سے مباہلہ كرنے كيلئے تيار ہوگئے تاكہ ايك دوسرے پر اللہ كى پھٹكار ڈاليں اس وقت حضرت على (ع) ،حضرت فاطمہ (ع) اور آپ (ص) كے دونوں فرزند حضرات حسن (ع) اور حسين (ع) آپ (ص) كے ہمراہ تھے _

۵_سورہ احزاب آيت ۳۳_

۶_بحارالانوار ج ۴۳ ص ۱۲۵_

۷_ بحارالانوار ج ۱۱ ۱_۱۱۲_

۸_ملاحظہ ہو : بحارالانوار ج ۲۷ ص ۱۳۰_

۹_ايضاء ص ۱۳۲_

۱۰_ايضاً ۱۰۴_

۱۱_ اخبارالدُوَل و آثار الاُوَل، نقل از فاطمة(ع) الزہراء قزوينى ص ۱۸۴_

۱۲_بعض روايات ميں ہے كہ اس دعوت وليمہ میں سات سو عورتوں اور مردوں نے شركت كى اور بعض ميں ہے كہ چار ہزار سے زيادہ افراد حضرت على (ع) كے اس وليمہ ميں مدعو تھے ، ملاحظہ ہو : بحارالانوار ج ۴۳ ص ۱۳۲ ، ۹۶ _

۱۳_ملاحظہ ہو : بحارالانوار ج ۴۳ ص ۱۱۵ _ ۱۱۶_ و المغازى ج ۱ ص ۱۹۹_ ۲۰۳ _

۱۴_احد ايك پہاڑ ہے جومدينہ سے تقريباً ۶ كلوميٹر كے فاصلے پر واقع ہے _

۱۵_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۲۱۷ (معجم البلدان ج ۳ ص ۳۷۲)_

۱۶_المغازى ج ۱ ص ۱۹۹_ ۳_۲ المغازى ج ۱ ص ۲۰۳ _۲۱۴_

۱۷_ الصحيح من سيرة النبى ج ۴ ص ۱۹۳_

۱۷۸

۱۸_مدينہ اور احد كے درميان باغ تھا جو ''شواط'' كے نام سے مشہور تھا _

۱۹، ۲۰_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۲۲۱_

۲۱_سورہ آل عمران آيت۱۲۴_

۲۲_يہ صدا كس شخص نے بلند كى تھى اس كے بارے ميں اختلاف ہے بعض نے لكھا ہے كہ وہ شيطان تھا جو جُعال بن سُراقہ كى شكل ميں ظاہر ہوا_ بعض كے بقول وہ عبداللہ بن قمئہ تھا اس نے جب حضرت ''مصعب بن عمير'' كو شہيد كرديا تو وہ يہ سمجھا كہ اس نے پيغمبر اكرم (ص) كو شہادت سے ہمكنار كيا ہے (ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۲۲۶ ، السيرة النبويہ ج ۳ ص ۷۷)_

۲۳_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۲۲۷ و تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۲۰_

۲۴_تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۱۷ والسيرة النبويہ ج ۳ صفحہ ۸۸_

۲۵_بحارالانوار ج ۲۰ _ ۹۳_

۲۶_ان شواہد و قرائن سے مزيد واقفيت كيلئے ملاحظہ ہو كتاب الصحيح من سيرة النبى ، ج ۴ ص ۲۳۶ _ ۲۴۱ _

۲۷_بحارالانور ج ۲۰ ص ۵۴ _ ۷۱_

۲۸_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۱۴ و شرح ابن ابى الحديد ج ۱۴ ص ۲۵۰ _

۲۹_السيرة النبويہ ج ۳ ص ۱۲۹_

۳۰_ايضا صفحات ۸۶ _ ۸۷_

۳۱_ملاحظہ ہو تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۱۹ _ ۵۲۰_

۳۲_الصحيح من سيرة النبى (ص) ج ۴ ص ۲۷۶_

۳۳ _ابن ابى الحديد نے لكھا ہے كہ ان ميں سے بارہ افراد حضرت على (ع) كے ہاتھوں قتل ہوئے (شرح نہج البلاغہ ج ۱۵ ص ۵۴)_

۳۵_ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۲۵۵_

۱۷۹

سبق ۱۱:

جنگ احد سے جنگ احزاب تك

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

اس سے دل لگانا صحیح ہے ؟

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

(مالی وللدنیا،انما مَثَلی کمثل راکبٍ مرّللقیلولة فی ظلّ شجرة فی یوم صائف ثم راح وترکها )( ۱ )

''دنیا سے میرا کیا تعلق ؟میری مثال تو اس سوار کی سی ہے جوتیز ہوائوں کے تھپیڑوں کے درمیان آرام کی خاطر کسی درخت کے نیچے لیٹ جاتا ہے اور پھر اس جگہ کو چھوڑکر چل دیتا ہے ''

امیر المومنین حضرت علی نے اپنے فرزند امام حسن کو یہ وصیت فرمائی ہے :

(یابنیّ انی قدأنباتک عن الدنیا وحالها،وزوالها،وانتقالها،وأنبأتک عن الآخرةومااُعدّ لأهلها فیها،وضربتلک فیهماالأمثال،لتعتبربها، وتحذو علیها،انمامثل من خبرالدنیاکمثل قوم سفرنبا بهم منزل جذیب فأمّوا منزلاًخصیباً، وجناباً مریعاً،فاحتملواوعثاء الطریق،وفراق الصدیق،وخشونةالسفرومَثَل من اغترّبهاکمثل قوم کانوابمنزل خصیب فنبابهم الیٰ منزل جذیب،فلیس شیء أکره الیهم ولاأفضع عندهم من مفارقة ماکانوا فیه الیٰ مایهجمون علیه ویصیرون الیه )( ۲ )

''۔۔۔اے فرزند میں نے تمہیں دنیااوراسکی حالت اوراسکی بے ثباتی و ناپائیداری سے خبردار کردیا ہے ۔اور آخرت اور آخرت والوں کے لئے جو سروسامان عشرت مہیّاہے اس سے بھی آگاہ کردیا ہے اور ان دونوں کی مثالیںبھی تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ ان سے عبرت حاصل کرو

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۱۹۔

(۲)نہج البلاغہ مکتوب ۳۱۔

۲۴۱

اور ان کے تقاضے پر عمل کرو۔جن لوگوں نے دنیا کو خوب سمجھ لیا ہے ان کی مثال ان مسافروںکی سی ہے جن کا قحط زدہ منزل سے دل اچاٹ ہوا،اور انھوں نے راستے کی دشواریوں کو جھیلا، دوستوںکی جدائی برداشت کی،سفر کی صعوبتیںگواراکیں،اور کھانے کی بد مزگیوںپر صبر کیاتاکہ اپنی منزل کی پہنائی اور دائمی قرارگاہ تک پہنچ جائیں ۔اس مقصد کی دھن میں انھیں ان سب چیزوں سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔اور جتنا بھی خرچ ہوجائے اس میں نقصان معلوم نہیں ہوتا۔انھیں سب سے زیادہ وہی چیز مرغوب ہے جو انہیں منزل کے قریب اور مقصدسے نزدیک کردے اور اسکے برخلاف ان لوگوں کی مثال جنہوں نے دنیا سے فریب کھایاان لوگوں کی سی ہے جو ایک شاداب سبزہ زار میں ہوں اور وہاں سے دل برداشتہ ہوجائیں اور اس جگہ کا رخ کرلیں جو خشک سالیوں سے تباہ ہو۔ان کے نزدیک سخت ترین حادثہ یہ ہوگا کہ وہ موجودہ حالت کو چھوڑکرادھر جائیںکہ جہاں انھیں اچانک پہنچناہے اور بہر صورت وہاںجاناہے ۔۔۔ ''

حضرت عمر ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا آپ ایک بورئیے پر آرام فرمارہے ہیں اور آپ کے پہلو پر اسکا نشان بن گیاہے توعرض کی اے نبی خدا:

(یانبیّ ﷲ،لواتخذت فراشاً أوثر منه؟فقال صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :مالی وللدنیا،مامَثلی ومثَل الدنیا الاکراکب سارفی یوم صائف فاستظلّ تحت شجرة ساعة من نهار،ثم راح وترکها )( ۱ )

اگر آپ اس سے بہتربستر بچھالیتے تو کیا تھا ؟پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''دنیا سے میرا کیا تعلق؟میری اور دنیا کی مثال ایک سوار کی سی ہے جوتیز ہوائوں کے درمیان چلا جارہا ہو اور دن میں تھوڑی دیر آرام کرنے کے لئے کسی سایہ داردرخت کے نیچے رک جائے اور پھر اس جگہ کوچھوڑ کرآگے بڑھ جائے''

____________________

(۱)بحارالانوارج ۷۳ص۱۲۳۔

۲۴۲

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(ان الدنیالیست بدارقرارولامحلّ اقامة،انّما أنتم فیهاکرکب عرشوا وارتاحوا،ثم استقلّوا فغدوا وراحوا،دخلوهاخفافاً،وارتحلواعنها ثقالاً،فلم یجدواعنهانزوعاً،ولاالی ما ترکوبهارجوعاً )( ۱ )

''یہ دنیا دار القرار اور دائمی قیام گا ہ نہیں ہے تم یہاں سوار کی مانند ہو 'جنہوں نے کچھ دیرکیلئے خیمہ لگایا اور پھر چل پڑے پھر دوسری منزل پر تھوڑا آرام کیا اور صبح ہوتے ہی کوچ کر گئے ، ہلکے پھلکے (آسانی سے)اترے اور لاد پھاندکر مشکل سے روانہ ہوئے نہ انہیں اسکا کبھی اشتیاق ہوا اور جس کو ترک کرکے آگئے نہ اسکی طرف واپسی ممکن ہوئی ''

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا :انسان دنیا میں کیسے زندگی بسر کرے ؟آپ نے فرمایا جیسے قافلہ گذرتا ہے۔ دریافت کیا گیا اس دنیا میں قیام کتنا ہے ؟آپ نے فرمایا جتنی دیر قافلہ سے چھوٹ جانے والا رہتا ہے ۔دریافت کیا گیا! دنیا وآخرت میں فاصلہ کتنا ہے ؟آپ نے فرمایا پلک جھپکنے کا۔( ۲ ) اور اس آیۂ کریمہ کی تلاوت فرمائی :

(کأنّهم یوم یرون ما یوعدون لم یلبثوا الاساعة من نهار )( ۳ )

''تو ایسا محسوس کرینگے جیسے دنیا میں ایک دن کی ایک گھڑی ہی ٹھہرے ہیں ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الدنیاظلّ الغمام،وحلم المنام )( ۴ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ص۱۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۲۔

(۳)سورئہ احقاف آیت ۳۵۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۰۲۔

۲۴۳

''دنیا بادل کا سایہ اورسونے والے کا خواب ہے ''

امام محمد باقر نے فرمایا :

(انّ الدنیاعند العلماء مثل الظل )( ۱ )

''اہل علم کے نزدیک دنیا سایہ کے مانند ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(ألاوان الدنیادارلایسلم منها الافیها،ولاینجیٰ بشی ء کان لها،اُبتلی الناس فیها فتنة فماأخذوه منهالهاأخرجوامنه وحوسبواعلیه،وماأخذوهُ منها لغیرها، قدموا علیه وأقاموا فیه،فانهاعند ذوی العقول کفیٔ الظلّ بینا تراه سابغاً حتیٰ قلص،وزائداً حتیٰ نقص )( ۲ )

''یاد رکھو یہ دنیا ایسا گھر ہے جس سے سلامتی کا سامان اسی کے اندر سے کیا جاسکتا ہے اور کوئی ایسی شے وسیلہ نجات نہیں ہوسکتی ہے جو دنیا ہی کے لئے ہو۔لوگ اس دنیا کے ذریعہ آزمائے جاتے ہیں جو لوگ دنیا کا سامان دنیا ہی کے لئے حاصل کرتے ہیں وہ وہاں جاکر پالیتے ہیں اور اسی میں مقیم ہوجاتے ہیں ۔یہ دنیا در حقیقت صاحبان عقل کی نظر میں ایک سایہ جیسی ہے جو دیکھتے دیکھتے سمٹ جاتا ہے اور پھیلتے پھیلتے کم ہوجاتا ہے ''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۶۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۶۳۔

۲۴۴

دنیا ایک پل

دین اسلام مسلمان کو دنیا کے بارے میں ایک ایسے نظریہ کا حامل بنانا چاہتا ہے کہ اگر اسکے دل میں یہ عقیدہ و نظریہ راسخ ہوجائے توپھر دنیا کو ایک ایسے پل کے مانند سمجھے گا جس کے اوپر سے گذر کر اسے جانا ہے اور اس مسلمان کی نگاہ میں یہ دنیا دار القرار نہیں ہوگی ۔جب ایسا عقیدہ ہوگا تو خود بخود مسلمان دنیا پرفریفتہ نہ ہوگا اور اسکی عملی زندگی میں بھی اس کے نتائج نمایاں نظر آئیںگے۔

حضرت عیسیٰ کا ارشاد ہے :

(انما الدنیا قنطرة )( ۱ )

''دنیا ایک پل ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے :

(أیهاالناس انماالدنیادارمجازوالآخرة دار قرار،فخذوامن ممرّکم لمقرّکم،ولاتهتکواأستارکم عند من یعلم أسرارکم )( ۲ )

''اے لوگو !یہ دنیا گذر گاہ ہے اور آخرت دار قرارہے لہٰذا اپنے راستہ سے اپنے ٹھکانے کے لئے تو شہ اکٹھا کرلواور جو تمہارے اسرار کو جانتا ہے اس کے سامنے اپنے پردوں کو چاک نہ کرو ''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(الدنیا دارممرّولادار مقرّ،والناس فیهارجلان:رجل باع نفسه فأوبقها، ورجل ابتاع نفسه فأعتقها )( ۳ )

''دنیا گذرگاہ ہے دارالقرار نہیں اس میں دو طرح کے لوگ رہتے ہیں کچھ وہ ہیں جنھوں نے دنیا کے ہاتھوں اپنا نفس بیچ دیا تو وہ دنیا کے غلام ہوگئے کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنے نفس کوخرید لیااور دنیا کو آزاد کردیا''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۴ص۳۱۹۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۲۰۳۔

(۳)شرح نہج البلاغہ ج۱۸ص۳۲۹۔

۲۴۵

اسباب ونتائج کا رابطہ

اسلامی فکر کا امتیاز یہ ہے کہ وہ انسانی مسائل سے متعلق اسباب و نتائج کو ایک دوسرے سے لاتعلق قرار نہیں دیتی بلکہ انھیں آپس میں ملاکر دیکھنے اور پھراس سے نتیجہ اخذ کرنے کی قائل ہے جب ہم انسانی اسباب و نتائج کے بارے میں غورکرتے ہیں تو ان مسائل میں اکثر دو طرفہ رابطہ نظر آتا ہے یعنی دونوں ایک دوسرے پراثر انداز ہوتے ہیں ۔انسانی مسائل میںایسے دوطرفہ رابطوں کی مثالیں بکثرت موجود ہیں مثلاًآپ زہد اور بصیرت کو ہی دیکھئے کہ زہد سے بصیرت اور بصیرت سے زہد میں اضافہ ہوتا ہے ۔

یہاں پر ہم ان دونوں سے متعلق چند روایات پیش کر رہے ہیں ۔

زہد وبصیرت

(أفمن شرح ﷲصدرہ للاسلام فھوعلیٰ نورٍمِن ربَّہِ)کی تفسیر کے ذیل میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

(ان النوراذاوقع فی القلب انفسح له وانشرح)،قالوا یارسول ﷲ:فهل لذٰلک علامةیعرف بها؟قال:(التجافی من دارالغرور،والانابة الیٰ دارالخلود، والاستعداد للموت قبل نزول الموت )

''قلب پر جب نور کی تابش ہوتی ہے تو قلب کشادہ ہوجاتا ہے اور اس میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے عرض کیا گیا یا رسول ﷲ اسکی پہچان کیا ہے ؟

۲۴۶

آپ نے فرمایا :

''دار الغرور(دنیا)سے دوری ،دارالخلود(آخرت)کی طرف رجوع اور موت آنے سے پہلے اسکے لئے آمادہ ہوجانا ہے ''( ۱ )

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(أحقّ الناس بالزهادة،من عرف نقص الدنیا )( ۲ )

''جو دنیا کے نقائص سے آگاہ ہے اسے زیادہ زاہد ہونا چاہئے''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(من صوّرالموت بین عینیه،هان أمرالدنیا علیه )( ۳ )

''جس کی دونوں آنکھوں کے سامنے موت کھڑی رہتی ہے اس کے لئے دنیا کے امور آسان ہوجاتے ہیں ''

نیز آپ نے فرمایا :(زهدالمرء فیمایفنیٰ،علی قدر یقینه فیما یبقیٰ )( ۴ )

''فانی اشیائ(دنیا)کے بارے میں انسان اتناہی زاہد ہوتا ہے جتنا اسے باقی اشیاء (آخرت )کے بارے میں یقین ہوتا ہے ''

زہدو بصیرت کا رابطہ

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوذر (رح)سے فرمایا :

(یاأباذر:مازهد عبد فی الدنیا،الاأنبت ﷲ الحکمة فی قلبه،وأنطق بهالسانه ،ویبصّره عیوب الدنیا وداء ها ودواء ها،وأخرجه منهاسالماًالی دارالسلام )( ۵ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۲۔

(۲)غررالحکم۔

(۳)غررالحکم ۔

(۴)بحارالانوار ج۷۰ص۳۱۹۔

(۵)بحارالانوار ج۷۷ص۸۔

۲۴۷

''اے ابوذر جو شخص بھی زہداختیار کرتاہے ﷲ اس کے قلب میں حکمت کا پودا اگا دیتا ہے اور اسے اسکی زبان پر جاری کر دیتا ہے اسے دنیا کے عیوب ،اوردرد کے ساتھ انکاعلاج بھی دکھا دیتا ہے اور اسے دنیا سے سلامتی کے ساتھ دارالسلام لے جاتا ہے ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(من یرغب فی الدنیا فطال فیهاأمله،أعمیٰ ﷲ قلبه علیٰ قدررغبته فیها، ومن زهد فیها فقصُرأمله أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیً بغیرهدایة،وأذهب عنه العماء وجعله بصیراً )( ۱ )

جو دنیا سے رغبت رکھتا ہے اسکی آرزوئیں طویل ہوجاتی ہیں اوروہ جتنا راغب ہوتا ہے اسی مقدار میں خدا اسکے قلب کوا ندھا کر دیتا ہے اور جو زہد اختیار کر تا ہے اسکی آرزوئیں قلیل ہوتی ہیں ﷲ اسے تعلیم کے بغیرعلم اور رہنما ئی کے بغیرہدایت عطا کرتا ہے اور اس کے اند ھے پن کو ختم کر کے اسے بصیر بنا دیتا ہے ''

ایک دن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے درمیان آئے اور فرمایا:

(هل منکم من یریدأن یؤتیه ﷲ علماًبغیرتعلّم،وهدیاًبغیرهدایة؟هل منکم من یریدأن یذهب عنه العمیٰ و یجعله بصیراً؟ألاانه من زهد فی الدنیا،وقصرأمله فیها،أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیاً بغیرهدایة )( ۲ )

''کیا تم میں سے کوئی اس بات کا خواہاں ہے کہ ﷲ اسے تعلیم کے بغیر علم اور رہنمائی کے بغیرہدایت دیدے۔ تم میں سے کوئی اس بات کا خواہاں ہے کہ ﷲ اس کے اندھے پن کو دور کر کے اسے بصیر بنادے ؟آگاہ ہو جائو جو شخص بھی دنیا میں زہدا ختیار کر ے گااور اپنی آرزوئیں قلیل رکھے گا

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۷ص۲۶۳۔

(۲)درالمنثورج۱ص۶۷۔

۲۴۸

ﷲاسے تعلیم کے بغیرعلم اور رہنمائی کے بغیرہدایت عطاکر ے گا ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

(یاأباذراذارأیت أخاک قدزهد فی الدنیا فاستمع منه،فانه یُلقّیٰ الحکمة )( ۱ )

''اے ابوذراگر تم اپنے کسی بھائی کو دیکھو کہ وہ دنیا میں زاہد ہے تو اسکی باتوںکو(دھیان سے ) سنو کیونکہ اسے حکمت عطا کی گئی ہے ''

ان روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ زہد وبصیرت میں دو طرفہ رابطہ ہے ،یعنی زہد کا نتیجہ بصیرت اور بصیرت کا نتیجہ زہد ہے ۔اسی طرح زہد اور قلتِ آرزو کے مابین بھی دو طرفہ رابطہ ہے زہد سے آرزووں میں کمی اور اس کمی سے زہد پیدا ہوتا ہے زہد اورقلت آرزو کے درمیان رابطہ کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :(الزهدیخلق الابدان،ویحدّدالآمال،ویقرّب المنیة،ویباعدالاُمنیة،من ظفر به نصب،ومن فاته تعب )( ۲ )

'' زہد،بدن کو مناسب اور معتدل ،آرزووں کو محدود،موت کو نگاہوں سے نزدیک اور تمنائوں کو انسان سے دور کردیتا ہے جو اسکو پانے میں کامیاب ہوگیا وہ خوش نصیب ہے اور جو اسے کھو بیٹھا وہ در دسر میں مبتلاہوگیا''

آرزووں کی کمی اورزہد کے رابطہ کے بارے میں امام محمد باقر کا ارشاد ہے:

(استجلب حلاوة الزهادة بقصرالامل )( ۳ )

''آرزو کی قلت سے زہد کی حلاوت حاصل کرو''

ان متضاد صفات کے درمیان دو طرفہ رابطہ کا بیان اسلامی فکر کے امتیازات میں سے ہے

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۷ص۸۰ ۔

(۲)بحارالانوارج ۷۰ص۳۱۷۔

(۳)بحارالانوار ج۷۸ص۱۶۴۔

۲۴۹

زہد وبصیرت یا زہد وقلتِ آرزو کے درمیان دو طرفہ رابطہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں کے اندر ایک دوسرے کے ذریعہ اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس سے انسان ترقی کرتا رہتا ہے۔ اس طرح کہ بصیرت سے زہد کی کیفیت پیدا ہو تی ہے اور جب انسان زاہد ہو جاتا ہے تو بصیرت کے اعلیٰ مراتب حاصل ہو جاتے ہیں نیزبصیرت کے ان اعلیٰ مراتب سے زہد میں اضافہ ہوتا ہے اور اس زہد سے پھر بصیرت کے مزید اعلیٰ مراتب وجود پاتے ہیں۔اسطرح انسان ان دونوں صفات وکمالات کے ذریعہ بلندیوں تک پہنچ جاتا ہے۔

مذموم دنیا اور ممدوح دنیا

۱۔مذموم دنیا

اس سے قبل ہم نے ذکر کیا تھا کہ دنیا کے دو چہرے ہیں:

( ۱ ) ظاہری

( ۲ ) باطنی

دنیا کا ظاہر ی چہرہ فریب کا سر چشمہ ہے ۔یہ چہرہ انسانی نفس میں حب دنیا کا جذبہ پیدا کرتا ہے جبکہ باطنی چہرہ ذریعۂ عبرت ہے یہ انسان کے نفس میں زہدکا باعث ہوتا ہے روایات کے مطابق دنیا کا ظاہری چہرہ مذموم ہے اور باطنی چہرہ ممدوح ہے ۔

ایسا نہیں ہے کہ واقعاً دنیا کے دو چہرے ہیں یہ فرق در حقیقت دنیا کو دیکھنے کے انداز سے پیدا ہوتا ہے ورنہ دنیا اور اسکی حقیقت ایک ہی ہے ۔فریب خور د ہ نگاہ سے اگر دنیا کو دیکھا جائے تو یہ دنیا مذموم ہوجاتی ہے اور اگر دیدئہ عبرت سے دنیا پر نگاہ کی جائے تو یہی دنیاممدوح قرار پاتی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لذات وخواہشات سے لبریز دنیا کا ظاہری چہرہ ہی مذموم ہے ۔

یہاں پر دنیا کے مذموم رخ کے بارے میں چند روایات پیش کی جارہی ہیں ۔

۲۵۰

امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا:

(الدنیا سوق الخسران )( ۱ )

''دنیا گھاٹے کا بازار ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مصرع العقول )( ۲ )

''دنیا عقلوں کا میدان جنگ ہے ''

آپ کا ہی ارشاد ہے :

(الدنیا ضحکة مستعبر )( ۳ )

''دنیا چشم گریاں رکھنے والے کے لئے ایک ہنسی ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مُطَلَّقةُ الاکیاس )( ۴ )

''دنیاذہین لوگوں کی طلاق شدہ بیوی ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا معدن الشرور،ومحل الغرور )( ۵ )

''دنیا شروفسا دکا معدن اور دھوکے کی جگہ ہے''

____________________

(۱)غررا لحکم ج ۱ص۲۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۴۵۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۲۶۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۷۳۔

۲۵۱

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیالا تصفولشارب،ولا تفی لصاحب )( ۱ )

''دنیا کسی پینے والے کے لئے صاف وشفاف اور کسی کے لئے باوفا ساتھی نہیں ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مزرعة الشر )( ۲ )

''دنیا شروفسا دکی کا شت کی جگہ ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مُنیة الاشقیائ )( ۳ )

''دنیا اشقیا کی آرزوہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الد نیا تُسْلِمْ )( ۴ )

''دنیا دوسرے کے حوالے کر دیتی ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا تُذِلّْ )( ۵ )

''دنیا ذلیل کرنے والی ہے''

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص ۸۵۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۲۶۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۳۷۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۱۱۔

۲۵۲

دنیا سے بچائو

امیر المو منین حضرت علی ہمیں دنیا سے اس انداز سے ڈراتے ہیں :

(أُحذّرکم الدنیافانّهالیست بدارغبطة،قدتزیّنت بغرورها،وغرّت بزینتهالمن ان ینظرالیها )( ۱ )

''میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں کیونکہ یہ فخرومباہات کاگھر نہیں ہے ۔یہ اپنے فریب سے مزین ہے اور جو شخص اسکی طرف دیکھتا ہے اسے اپنی زینت سے دھوکے میں مبتلاکردیتی ہے ''

ایک اور مقام پر آپ کا ارشاد گرامی ہے :

(أُحذّرکم الدنیافانها حُلوة خضرة،حُفّت بالشهوات )( ۲ )

''میں تمہیں اس دنیا سے بچنے کی تاکید کرتا ہوں کہ یہ دنیا سرسبز وشیریں اورشہوتوں سے گھری ہوئی ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(احذروا هذه الدنیا،الخدّاعة الغدّارة،التی قد تزیّنت بحلیّها،وفتنت بغرورها،فأصبحت کالعروسة المجلوة،والعیون الیها ناظرة )( ۳ )

''اس دھو کے باز مکار دنیا سے بچو یہ دنیا زیورات سے آراستہ اور فتنہ ساما نیوں کی وجہ سے سجی سجائی دلہن کی مانندہے کہ آنکھیں اسی کی طرف لگی رہتی ہیں ''

ب :ممدوح دنیا

دنیا کا دوسرا رخ اوراس کے بارے میں جو دوسرانظر یہ ہے وہ قابل مدح وستائش ہے البتہ

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ ص۲۱۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص۹۶۔

(۳)بحارالانوارج۷۳ص۱۰۸۔

۲۵۳

یہ قابل ستائش رخ اس دنیا کے باطن سے نکلتا ہے جو قابل زوال ہے جبکہ مذموم رخ ظاہری دنیا سے متعلق تھا ۔

بہر حال یہ طے شدہ بات ہے کہ دنیا کے دورخ ہیں ایک ممدوح اور دوسرا مذموم ۔ممدوح رخ کے اعتبار سے دنیا نقصان دہ نہیں ہے بلکہ نفع بخش ہے اورمضر ہونے کے بجائے مفید ہے اسی رخ سے دنیا آخرت تک پہو نچانے والی ،مومن کی سواری ،دارصدق اوراولیاء کی تجارت گاہ ہے۔لہٰذادنیا کے اس رخ کی مذمت صحیح نہیں ہے روایات کے آئینہ میں دنیا کے اس رخ کوبھی ملا حظہ فرما ئیں ۔

۱۔دنیا آخرت تک پہو نچانے والی

امام زین العابدین نے فرمایا :

(الدنیا دنیاءان،دنیابلاغ،ودنیاملعونة )( ۱ )

''دنیا کی دو قسمیں ہیں ؟دنیا ئے بلاغ اور دنیا ئے ملعونہ ''

دنیائے بلاغ سے مراد یہ ہے کہ دنیا انسان کو آخرت تک پہو نچاتی ہے اور خدا تک رسائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔بلاغ کے یہی معنی ہیں اوریہ دنیا کی پہلی قسم ہے ۔

دوسری دنیا جو ملعون ہے وہ دنیا وہ ہے جوانسان کو ﷲسے دورکرتی ہے اس لئے کہ لعن بھگانے اور دور کرنے کو کہتے ہیں اب ہرانسان کی دنیااِنھیں دومیں سے کوئی ایک ضرورہے یاوہ دنیا جو خدا تک پہونچاتی ہے یاوہ دنیا جو خدا سے دور کرتی ہے ۔

اسی سے ایک حقیقت اور واضح ہو جاتی ہے کہ انسان دنیا میں کسی ایک مقام پر ٹھہر انہیں رہتا ہے بلکہ یا تووہ قرب خداکی منزلیں طے کرتا رہتا ہے یا پھر اس سے دور ہوتا جاتا ہے ۔

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۳ص۲۰۔

۲۵۴

(لاتسألوافیها فوق الکفاف،ولاتطلبوامنها أکثرمن البلاغ )( ۱ )

''اس دنیا میں ضرورت سے زیادہ کا سوال مت کرو اور نہ ہی کفایت بھر سے زیادہ کا مطالبہ کرو ''

اس طرح اس دنیا کا مقصد (بلاغ)ہے اور انسان دنیا میں جو بھی مال ومتاع حاصل کرتا ہے وہ صرف اس مقصد تک پہونچنے کیلئے ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے اس طرح انسان کی ذمہ داری ہے کہ دنیا میں صرف اتنا ہی طلب کرے جس سے اپنے مقصود تک پہنچ سکے لہٰذا اس مقدار سے زیادہ مانگنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی وسیلہ کو مقصد بنانا چا ہئے اور یہ یادر کھنا چاہئے کہ دنیا وسیلہ ہے آخری مقصد نہیں ہے بلکہ آخری مقصد آخرت اور خدا تک رسائی ہے ۔

امیرا لمو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الدنیاخلقت لغیرها،ولم تخلق لنفسها )( ۲ )

''دنیا اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے غیر (آخرت تک رسائی )کیلئے خلق کی گئی ہے''

وسیلہ کو مقصد قرار دے دیاجائے یہ بھی غلط ہے اسی طرح واسطہ کو وسیلہ اور مقصد(دونوں ) قرار دینا بھی غلط ہے اسی لئے امیرالمو منین نے فر مایا ہے کہ دنیاکو صرف اس مقدارمیںطلب کرو جس سے آخرت تک پہونچ سکو ۔

لیکن خود حصول دنیا کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ صرف بقدر ضرورت سوال کرو ۔امام کے اس مختصر سے جملے میں حصول رزق کے لئے سعی و کو شش کے سلسلہ میں اسلام کا مکمل نظریہ موجود ہے ۔چونکہ مال و متاع ِ دنیا آخرت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے لہٰذا کسب معاش اور تحصیل رزق ضروری ہے لیکن اس تلاش و جستجو میں ''بقدر ضرورت ''کا خیال رکھنا ضروری ہے اور ''بقدر ''ضرورت سے مراد وہ

____________________

(۱)بحارالانوارج ۷۳ص۸۱۔

(۲)نہج البلاغہ حکمت ۴۵۵۔

۲۵۵

مقدار ہے کہ جس کے ذریعہ دنیاوی زندگی کی ضرورتیں پوری ہو تی رہیں اور آخرت تک رسائی ہو سکے

انسا نی ضرورت واقعی اور ضروری بھی ہو تی ہے اور غیر واقعی یا وہمی بھی ۔یعنی اسے زندہ رہنے اور آخرت تک رسائی کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ حقیقی ضرورتیں ہیں ۔اوران کے علاوہ کچھ غیر ضروری چیزیں بھی احتیاج وضرورت کی شکل میں انسان کے سامنے آتی ہیںجو در حقیقت حرص و طمع ہے اوران کا سلسلہ کبھی ختم ہو نے والا نہیں ہے اگر انسان ایک مرتبہ ان کی گرفت میں آگیا تو پھر ان کی کو ئی انتہا ء نہیں ہوتی ۔ان کی راہ میں جد وجہد کرتے ہوئے انسان ہلاک ہو جاتا ہے مگر اس جد و جہد سے اذیت و طمع میں اضافہ ہی ہوتا ہے ۔

حضرت امام جعفر صادق نے اپنے جد بزرگوار حضرت علی کا یہ قول نقل فرمایاہے:

یابن آدم:ان کنت ترید من الدنیامایکفیک فان أیسرما فیهایکفیک،و ان کنت انما ترید مالیکفیک فان کل ما فیهایکفیک ( ۱ )

''اے فرزند آدم اگر تو دنیا سے بقدر ضرورت کا خواہاں ہے تو تھوڑا بہت ،جو کچھ تیرے پاس ہے وہی کا فی ہے اور اگر تو اتنی مقدار میں دنیا کا خواہاں ہے جو تیری ضرورت سے زیادہ ہے تو پھر دنیا میں جو کچھ ہے وہ بھی نا کافی ہے ''

دنیا کے بارے میں یہ دقیق نظریہ متعدد اسلامی روایات اور احا دیث میں وارد ہوا ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے:

ألا وان الدنیادار لا یُسلَم منها الا فیها،ولاینجیٰ بشی ء کان لها،ابتلی الناس بها فتنة،فما أخذوه منها لهااُخرجوا منه وحوسبوا علیه،

____________________

(۱)اصول کافی ج۲ص۱۳۸۔

۲۵۶

وما أخذوه منهالغیرها قدمواعلیه وأقاموا فیه )( ۱ )

''آگاہ ہو جا ئو کہ یہ دنیا ایسا گھرہے جس سے سلامتی کا سامان اسی کے اندر سے کیا جاسکتا ہے اور کو ئی ایسی شئے وسیلۂ نجات نہیں ہو سکتی ہے جو دنیا ہی کے لئے ہو ۔لوگ اس دنیا کے ذریعہ آزمائے جاتے ہیں ۔جو لوگ دنیا کا سامان ،دنیا ہی کیلئے حاصل کرتے ہیں وہ اسے چھوڑکر چلے جاتے ہیں اور پھر حساب بھی دینا ہوتا ہے اور جولوگ یہاں سے وہاںکیلئے حاصل کرتے ہیں وہ وہاں جاکر پالیتے ہیں اور اسی میں مقیم ہوجاتے ہے یہ دنیا در حقیقت صاحبان عقل کی نظر میں ایک سایہ جیسی ہے جو دیکھتے دیکھتے سمٹ جاتا ہے اور پھیلتے پھیلتے کم ہوجاتا ہے ''

ان کلمات میں اختصار کے باوجود بے شمار معانی ومطالب پائے جاتے ہیں (دارلایسلم منها اِلا فیها )اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان سے فرار اور خدا تک رسائی کے لئے دنیا مومن کی سواری ہے اس کے بغیر اسکی بارگاہ میں رسائی ممکن نہیں ہے عجیب وغریب بات ہے کہ دنیا اور لوگوں سے کنا رہ کشی کرنے والا قرب خدا کی منزل مقصود تک نہیں پہونچ سکتا بلکہ ﷲ یہ چاہتا ہے کہ بندہ اسی دنیا میں رہ کر اسی دنیا کے سہارے اپنی منزل مقصود حاصل کرے۔لہٰذا ان کلمات سے پہلی حقیقت تو یہ آشکار ہوئی ہے کہ دنیا واسطہ اور وسیلہ ہے اس کو نظر انداز کرکے مقصدحاصل نہیںکیاجاسکتا۔

لیکن یہ بھی خیال رہے کہ دنیا مقصد نہ بننے پائے۔ اگر انسان دنیا کو وسیلہ کے بجائے ہدف اور مقصد بنالے گا تو ہرگز نجات حاصل نہیں کرسکتا (ولاینجی لشی کان لھا) اس طرح اگر انسان نے دنیا کواس کی اصل حیثیت ''واسطہ ووسیلہ''سے الگ کردیا اور اسی کو ہدف بنالیا تو پھر دنیاشیطان سے نجات اور خدا تک پہنچانے کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہے یہ دوسری حقیقت ہے جوان

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۶۲ ۔

۲۵۷

کلمات میں موجود ہے ۔

اور پھراگر انسان دنیا کو خدا ،قرب خدا اور رضائے الٰہی حاصل کرنے کے بجائے خود دنیا کی خاطر اپناتا ہے تو یہی دنیا اسکو خدا سے دور کردیتی ہے ۔اس دنیا کا بھی عجیب و غریب معاملہ ہے یعنی اگر انسان اسے وسیلہ اور خدا تک رسائی کا ذریعہ قرار دیتا ہے تو یہ دنیا اس کے لئے ذخیرہ بن جاتی ہے اور اس کے لئے باقی رہتی ہے نیز دنیا وآخرت میں اس کے کام آتی ہے لیکن اگر وسیلہ کے بجائے اسے مقصد بنالے تو یہ ﷲ سے غافل کرتی ہے ۔خدا سے دور کردیتی ہے موت کے بعدانسان سے جدا ہوجاتی ہے اور بارگاہ الٰہی میں اسکا سخت ترین حساب لیا جاتاہے ۔

یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ فرق کمیت اور مقدار کا نہیں ہے بلکہ کیفیت کا ہے اور عین ممکن ہے کہ انسان وسیع و عریض دنیا کا مالک ہو لیکن اسکا استعمال راہ خدا میں کرتا ہو اس کے ذریعہ قرب خدا کی منزلیں طے کرتا ہو ایسی صورت میں یہ دنیا اس کے لئے ''عمل صالح''شمار ہوگی اس کے برخلاف ہوسکتا ہے کہ مختصر سی دنیا اور اسباب دنیاہی انسان کے پاس ہوں لیکن اسکا مقصد خود وہی دنیا ہو تو یہ دنیا اس سے چھین لی جائے گی اسکا محاسبہ کیا جائے گا ۔یہ ہے ان کلمات کا تیسرا نتیجہ۔

اگر خود یہی دنیا انسان کے مد نظر ہوتو اسکی حیثیت ''عاجل''''نقد''کی سی ہے جو کہ اسی دنیا تک محدود ہے اور اس کا سلسلہ آخرت سے متصل نہ ہوگابلکہ زائل ہو کر جلد ختم ہوجائے گی لیکن اگر دنیا کو دوسرے (آخرت )کے لئے اختیار کیا جائے تو اسکی حیثیت''آجل''''ادھار''کی سی ہوگی کہ جب انسان حضور پروردگار میں پہونچے گا تو وہاںدنیا کو حاضر وموجود پائے گا ۔ایسی دنیا زائل ہونے والی نہیں بلکہ باقی رہے گی''وماعندﷲ خیر وأبقی''امیر المومنین کے اس فقرہ''وماأخذ وہ منھا لغیرھا قدموا علیہ وأقاموا فیہ'' سے یہ چوتھا نتیجہ برآمد ہوتا ہے ۔

۲۵۸

زیارت امام حسین سے متعلق دعا میں نقل ہوا ہے:

(ولاتشغلنی بالاکثارعلیّ من الدنیا،تلهینی عجائب بهجتها،وتفتننی زهرات زینتها،ولا بقلالٍ یضرّ بعملی،ویملأ صدری همّه )( ۱ )

''کثرت دنیا سے میرے قلب کو مشغول نہ کردینا کہ اسکے عجائبات مجھے تیری یاد سے غافل کردیں یا اسکی زینتیں مجھے اپنے فریب میں لے لیں اور نہ ہی دنیا میں میرا حصہ اتنا کم قرار دینا کہ میرے اعمال متاثر ہوجائیں اور میرا دل اسی کے ہم وغم میں مبتلا رہے ''

دنیا اوراس سے انسان کے تعلق، بقاء و زوال ،اسکے مفید ومضر ہونے کے بارے میں اس سے قبل جو کچھ بیان کیا گیا وہ کیفیت کے اعتبار سے تھا کمیت ومقدار سے اسکا تعلق نہیں تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کمیت و مقدار بھی اس میں دخیل ہے کثرت دنیا اور اسکی آسا ئشیںانسان کو اپنے میں مشغول کرکے یاد خدا سے غافل بنادیتی ہیں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دنیا میں بڑاحصہ ہونے کے باوجود انسان دنیا میں گم نہ ہو یا یہ زیادتی اسے خدا سے دور نہ کردے اسکے لئے سخت جد وجہد درکار ہوتی ہے اور اسی طرح اگر دنیا وی حصہ کم ہو،دنیا روگردانی کر رہی ہو تو یہ بھی انسان کی آزمائش کا ایک انداز ہوتا ہے کہ انسان کا ہم وغم اور اس کی فکریں دنیا کے بارے میں ہوتی ہیں اور وہ خدا کو بھول جاتا ہے اسی لئے اس دعا میں حد متوسط کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ نہ تو اتنی کثرت ہو جس سے انسان یاد خدا سے غافل ہوجائے اور نہ اتنی قلت ہوکہ انسان اسی کی تلاش میں سرگرداں رہے اور خدا کو بھول بیٹھے۔

۲۔دنیا مومن کی سواری

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(لاتسبّوا الدنیا فنعمت مطیة المؤمن،فعلیها یبلغ الخیر وبها ینجو من الشر )( ۲ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۰۱ ص۲۰۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۷ص۱۷۸۔

۲۵۹

''دنیا کو برا مت کہو یہ مومن کی بہترین سواری ہے اسی پر سوار ہوکر خیر تک پہنچاجاتا ہے اور اسی کے ذریعہ شرسے نجات حاصل ہوتی ہے ''

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ دنیا سواری کی حیثیت رکھتی ہے جس پر سوار ہوکر انسان خدا تک پہونچتا اور جہنم سے فرار اختیار کرتا ہے ۔

یہ دنیاکاقابل ستائش رخ ہے اگر دنیانہ ہوتی توانسان رضائے الٰہی کے کام کیسے بجالاتا ، کیسے خدا تک پہونچتا ؟اولیاء خدا اگر قرب خداوند ی کے بلند مقامات تک پہونچے ہیں تو وہ بھی اسی دنیا کے سہارے سے پہونچے ہیں ۔

۳۔دنیا صداقت واعتبار کا گھر ہے ۔

۴۔دنیا دار عافیت۔

۵۔دنیا استغنا اور زاد راہ حاصل کرنے کی جگہ ہے ۔

۶۔دنیا موعظہ کا مقام ہے ۔

۷۔دنیا محبان خدا کی مسجدہے ۔

۸۔دنیا اولیاء الٰہی کے لئے محل تجارت ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی نے جب ایک شخص کو دنیا کی مذمت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا :

(أیهاالذام للدنیاالمغترّبغرورهاالمنخدع بأباطیلها!أتغتر بالدنیاثم تذمّها،أنت المتجرّم علیهاأم هی المتجرّمةعلیک؟متیٰ استهوتک؟أم متیٰ غرّتک؟ )( ۱ )

''اے دنیا کی مذمت کرنے والے اور اسکے فریب میں مبتلا ہوکر اسکے مہملات میں دھوکا کھا

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۱۲۶۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313