تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي18%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139775 / ڈاؤنلوڈ: 4390
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

جنگ احد ميں مسلمانوں كى شكست كے اسباب

پہلے مرحلے ميں مسلمانوں كى فتح اور دوسرے مرحلے ميں شكست كے بعض اسباب كے بارے ميں قرآن مجيد نے بھى اشارہ كيا ہے يہاں ہم مسلمانوں كى شكست كے اہم ترين عوامل كا ذكر كريں گے جس كے باعث ان عوامل كى بھى وضاحت ہوجائے گى جن كى وجہ سے مسلمانوں كو پہلے مرحلے ميں فتح نصيب ہوئي تھي_

۱_سپاہ كے ايك گروہ ميں عسكرى نظم وضبط كا فقدان اور رسول (ص) خدا كے اس سخت تاكيدى حكم سے روگردانى جو درہ عينين كے تحفظ كے بارے ميں تھا_

( وَلَقَد صَدَقَكُم الله ُ وَعدَهُ إذ تَحُسُّونَهُم بإذنه حَتَّى إذَا فَشلتُم وَتَنَازَعتُم فى الأَمر وَعَصَيتُم من بَعد مَا أَرَاكُم مَا تُحبُّونَ ) (۱)

''اللہ نے (تائيد نصرت كا) جو وعدہ تم سے كيا تھا وہ تو اس نے پورا كرديا ، ابتدا ميں اس كے حكم سے تم ہى ان كو قتل كررہے تھے مگر جب تم نے كمزورى دكھائي اور اپنے كام ميں باہم اختلاف كيا اور جونہى وہ چيز اللہ نے تمہيں دكھائي جس كى محبت ميں تم گرفتار تھے (يعنى مال غنيمت) تم اپنے سردار كے حكم كى خلاف ورزى كر بيٹھے''_

۲_ايمان كى كمزورى اور دنيا كى محبت: سپاہيوں كے دلوں ميں رسول خد ا(ص) كى طرف سے

۱۸۱

بدگمانى(۲) پيدا ہوگئي اور انہوں نے يہ كہنا شروع كرديا تھا كہ ہميں انديشہ ہے كہ رسول خدا (ص) ہميں مال غنيمت ميں شريك نہ كريں اسى لئے وہ پناہ گاہوں كو خالى چھوڑ كر مال غنيمت سميٹنے ميں لگ گئے اور اسى بنا پر انہوں نے مال غنيمت كو حكم رسول خدا (ص) اور دشمن سے نبرد آزمائي پر فوقيت دي:

( منكُم مَن يُريدُ الدُّنيَا وَمنكُم مَن يُريدُ الآخرَةَ ) _(۳)

دوسرے مرحلے ميں بہت بڑى تعداد ميں سپاہ كا فرار كرجانا اور رسول خد ا(ص) كو تنہا چھوڑدينا اور اس قسم كى باتيں كرنا كہ اے كاش ہم عبداللہ ابن ابى كے پاس چلے گئے ہوتے تاكہ وہ ہمارے لئے ابوسفيان سے جان كى امان مانگتا ان كے يہ خيالات اس حقيقت كے آئينہ دار تھے كہ ان كے عقيدے كمزور اور وہ دنيا كى محبت ميں مبتلا تھے_

۳_غزوہ بدر ميں مسلمانوں كو جو فتح ونصرت حاصل ہوئي تھى اس سے انہوں نے جونتيجہ اخذ كيا وہ درست نہ تھا انہيں يہ گمان ہوگيا تھا كہ چونكہ ان كا دين حق پر مبنى ہے اس لئے انہيں كبھى دشمن كے ہاتھوں شكست نہ ہوگى اور وہ اسلحہ و جنگى وسائل سے خواہ كتنى ہى غفلت برتيں خداوند تعالى بہر صورت غيبى مدد كے ذريعے مشركين كے مقابلے ميں ان كا دفاع كرے گا_(۴)

دوسرى طرف وہ يہ سمجھتے تھے كہ ايمان كا اظہار ہى كاميابى و سعادت كے حصول كيلئے كافى ہے اور اس گمان ميں مبتلا ہوگئے تھے كہ جہاد اور راہ خدا ميں استقامت و پائيدارى كے بغير وہ جنت ميں داخل ہوجائيں گے(۵) درحاليكہ قرآن كا ان كے

۱۸۲

اس غلط گمان كے بارے ميں صريح ارشاد ہے كہ :

( أَم حَسبتُم أَن تَدخُلُوا الجَنَّةَ وَلَمَّا يَعلَم الله ُ الَّذينَ جَاهَدُوا منكُم وَيَعلَمَ الصَّابرينَ )

''كيا تم نے يہ سمجھ ركھا ہے كہ يونہى جنت میں چلے جائو گے حالانكہ ابھى اس نے يہ تو ديكھا ہى نہيں كہ تم ميں كون وہ لوگ ہيں جو اس كى راہ ميں جانيں لڑانے والے اور اس كى خاطر صبر كرنے والے ہيں''_

چنانچہ وہ اپنے اس گمان اور خيال خام كے باعث ہى دشمن كے معمولى دباو كى وجہ سے ميدان كارزار سے فرار ہوگئے اور اتنہائي مايوسى كى حالت ميں ايك دوسرے سے كہنے لگے :''هَل لَنَا منَ اَلاَمر'' _(۶)

كيا اس دل آزار حالت كے باوجود ہميں نصرت و فتح حاصل ہوگي؟

۴_جب قريش نے يہ افواہ پھيلائي كہ رسول خدا (ص) كو قتل كرديا گيا ہے(۷) تو اس كے باعث ايك طرف تو دشمن كى جرا ت و گستاخى بڑھ گئي اور دوسرى طرف مسلمانوں كے دلوں پر رعب طارى ہوگيا كيونكہ انہيں يہ گمان ہونے لگا كہ اسلام محض ذات رسول (ص) كى وجہ سے قائم ہے اور اس گمان نے ہى ان كے دلوں سے جنگ جارى ركھنے كى خواہش و ولولے اور اسلام پر قائم رہنے كے عزم وارادے كو سلب كرليا اور نوبت يہاں تك آن پہنچى تھى كہ انہوں نے ايك دوسرے سے يہ كہنا شروع كرديا تھا كہ : محمد (ص) كو قتل كرديا گيا ہے اس سے پہلے كہ قريش تم پريورش كريں تم خود ہى ان كے پاس جائو اور ان كے ساتھ تعاون كا اعلان كردو _(۸)

۱۸۳

تعميرى شكست

اس ميں شك نہيں كہ مسلمانوں كو جنگ احد ميں وقتى شكست ہوئي اور اس كے باعث(۷۰) ستر افرادشہيد ہوئے ، مگر اس كے باوجود يہى جنگ بعض اعتبار سے سبق آموز اور تعميرى بھى ثابت ہوئي ، قرآن مجيد نے اس كا كلى طور پر جس طرح جائزہ لياہے اور اس شكست سے متعلق رسول خدا (ص) نے جو موقف اختيار كيا اسے مد نظر ركھتے ہوئے يہ كہا جاسكتا ہے كہ يہ جنگ در حقيقت تعميرى تھى كيونكہ اس كے ذريعے مسلمانوں كى توجہ ان غلطيوں كى جانب مبذول كرائي گئي جو ان سے سرزد ہوئي تھيں اور ان كى كمزوريوں كو ان پر عياں كيا گيا اس كے ساتھ ہى انہيں يہ درس بھى ديا گيا كہ وہ خود كو كس طرح منظم كريں اور جو تلخ تجربات انہيں حاصل ہوئے ہيں انہيں مدنظر ركھتے ہوئے وہ اپنے حوصلے بلند كريں اور اس شكست كى تلافى كيلئے خود ميں ضرورى طاقت و اعتماد پيدا كريں تاكہ آئندہ جب بھى دشمن سے مقابلہ ہو تو انہيں نصرت و كاميابى نصيب ہو_

يہاں ہم آيات قرآنى كى روشنى ميں ان بعض پہلوئوں كا جائزہ ليں گے جو تعميرى اور سبق آموز ثابت ہوئے_

الف_اس جنگ ميں مسلمانوں كو جو شكست ہوئي اگر قرآن مجيد كى روشنى ميں ديكھا جائے تو اس ميں خداوند تعالى كى مرضى شامل تھى :

( وَمَا أَصَابَكُم يَومَ التَقَى الجَمعَان فَبإذن الله ) _(۹)

''جونقصان لڑائي كے دن تمہيں پہنچا وہ اللہ كے اذن سے تھا''_

البتہ يہ وہى مرضى ومشيت الہى ہے جو نظام ہستى ميں ''قانون عليت'' كے نام سے

۱۸۴

جارى و سارى ہے اور اس كى بنياد پر ہر وجود كى مخصوص علت ہے ليكن اس شكست كا ذمہ دار مسلمانوں كو قرار ديا ہے اور ان كى اس بات كے جواب ميں كہ : يہ بلا كہاں سے آكر ہمارى جان كو لگ گئي، صريحاً فرمايا كہ ہُوَ من عنداَنفُسكُم _(۱۰) (يہ مصيبت تمہارى اپنى لائي ہوئي ہے) يعنى اس شكست كا سرچشمہ تمہارى اپنى ہى ذات ہے اور اس شكست كے اسباب كى تلاش تم اپنے ہى اندر كرو_

پيغمبر خدا (ص) كے حكم كى خلاف ورزى ، اپنے فرائض سے غفلت ،جنگ ختم ہوجانے سے قبل مال غنيمت جمع كرنے ميں دلچسپى وسرگرمى ، ميدان كارزار سے گريز اور جہاد سے روگردانى ايسے افعال ہيں جو تم سے ہى سرزد ہوئے ہيں اور يہ قانون الہى ہے كہ جو بھى سپاہى ميدان جنگ ميں سستى دكھائے گا ، اپنے باخبر اورہمدردجرنيل كے حكم سے چشم پوشى كرے گا اور دشمن كے بارے ميں سوچنے كى بجائے اسكى نظر مال غنيمت پر رہے گى تو ناچار اس كى سزا شكست ہوگي_

ب_قرآن مجيد نے اس امر كى صراحت كرنے كے بعد كہ اس حادثے كے وقوع پذير ہونے كا اصل عامل مسلمانوں كى سستى تھى ، انہيں يہ بھى بتاديا ہے كہ يہ شكست وقتى ہے اس كے ساتھ ہى اس مقدس كتاب نے يہ بھى تنبيہہ كى ہے كہ وہ اس شكست كے باعث سست ورنجيدہ خاطر اور فتح و كامرانى سے مايوس نہ ہو ں :( وَ لَا تَهنُوا وَ لَا تَحزَنُوا ) _(۱۱) (دل شكستہ نہ ہو ' غم نہ كرو) اس كے بعد اس نے يہ ہدايت بھى كى كہ جب سستى اور پريشان دلى سے نكل آئو گے تو ''اَنْتُمُ الاَ علَونَ ان كُنتُم مُومنينَ''_ ''تم ہى غالب ہوگے اگر تم مومن ہو'' اس آيت نے اس بات كى وضاحت كرنے كے علاوہ كہ ايمان ہى وہ عامل ہے جسے ہر چيز پر برترى حاصل ہے

۱۸۵

اس حقيقت كو بھى ان كے گوش گزار كرديا ہے كہ شكست كا اصل سبب ان ميں روح ايمانى كا ضعف تھا_

دوسرى جگہ ارشاد ہے كہ :

( إن يَمسَسكُم قَرحٌ فَقَد مَسَّ القَومَ قَرحٌ مثلُهُ وَتلكَ الأَيَّامُ نُدَاولُهَا بَينَ النَّاس ) _(۱۲)

''اس وقت اگر تمہيں چوٹ لگى ہے تو اس سے پہلے ايسى ہى چوٹ تمہارے مخالف فريق كو بھى لگ چكى ہے يہ تو زمانے كے نشيب وفراز ہيں جنہيں ہم لوگوں كے درميان گردش ديتے رہتے ہيں''_

دوسرى جگہ اسى بات كو اس پيرائے ميں بيان فرمايا ہے كہ :

( أَوَلَمَّا أَصَابَتكُم مُصيبَةٌ قَد أَصَبتُم مثلَيهَا قُلتُم أَنَّى هَذَا قُل هُوَ من عند أَنفُسكُم إنَّ الله َ عَلَى كُلّ شَيئ: قَديرٌ )

''جب تم پر مصيبت آپڑى تو تم كہنے لگے كہ يہ كہاں سے آئي ؟ حالانكہ (جنگ بدر ميں) اس سے دوگنى مصيبت تمہارے ہاتھوں (فريق مخالف پر) پڑچكى ہے اے نبي(ص) ان سے كہ ديجئے كہ يہ مصيبت تمہارے اپنى لائي ہوئي ہے ، اللہ ہر چيز پر قادر ہے''_

اس آيت ميں خداوند تعالى نے مسلمانوں كو دلا سہ ديتے ہوئے فرمايا ہے كہ تم نے جنگ بدر ميں دشمن كے(۷۰) ستر آدمى قتل كئے اور(۷۰) آدميوں كو قيدى بھى بنايا اور يہ تعداد ان سے دوگنا ہے جو جنگ احد ميں تمہارى طرف سے كام آئے اس آيت كے ضمن ميں خداوند تعالى نے اس امر كى جانب بھى توجہ دلائي كہ اس قادر

۱۸۶

مطلق كو ہر چيز پر قدرت و توانائي حاصل ہے اور اگر تم اپنى كوتاہيوں كى تلافى اور كمزورياں دور كرلو تو جنگ بدر كى طرح عنايت الہى تمہارے شامل حال رہے گي_

ج_قرآن مجيد نے اس شكست كے جو مثبت پہلو بيان كئے ہيں انہيں ذيل ميں درج كياجاتا ہے:

۱_ جنگ بدر كے ختم ہونے اورلشكر اسلام كے چند لوگوں كى شہادت كے بعد بعض مسلمان يہ آرزو كرتے رہتے كہ وہ كاش بھى شہادت سے سرخروہوں اور باہمى گفتگو ميں ان كى زبان پر بھى ذكر آجاتا كہ كاش يہ فخر ہمیںبھى نصيب ہوتا مگر انہى ميں چند لوگ جھوٹے اور رياكار بھى تھے چنانچہ جب جنگ احد كاسانحہ پيش آيا تو وہ لوگ جو حقيقى معنوں ميں مومن اور شہادت كے عاشق و تمنائي تھے وہ تو جى جان سے دشمن كے ساتھ نبر دآ زما ہوئے مگرانہى ميں جولوگ جھوٹے اور رياكار تھے انہوں نے جيسے ہى اپنے لئے خطرہ محسوس كيا ميدان كارزار سے فرار ہوگئے اور ان كا اصلى چہرہ ہميشہ كيلئے بے نقاب ہوگيا جيسا كہ قرآن مجيد نے ارشاد فرمايا ہے كہ :

( وَلَقَد كُنتُم تَتَمَنَّون المَوتَ من قَبل أَن تَلقَوهُ فَقَد رَأَيتُمُوهُ وَأَنتُم تَنظُرُونَ ) _(۱۴)

''تم تو راہ خدا ميں شہادت كا سامنا كرنے سے قبل موت كى تمنائيں كر رہے تھے لو اب وہ تمہارے سامنے آگئي اور تم نے اسے آنكھ سے ديكھ ليا ''_

۲_ احد كا سانحہ حقيقت نما آئينہ تھا جس نے ہر مسلمان كے اصلى چہرے كو آشكار ، كے درجات ايمان كو واضح اور ان ان كا رسول خدا (ص) سے كس حد تك تعلق خاطر تھا اسے ظاہر و عياں كرديا ، اس موقع پر حقيقى مومنين و منافقين كى پورى شناخت ہوگئي اور

۱۸۷

دونوں كى صفيں ايك دوسرے سے بالكل عليحدہ نظر آنے لگيں : (... ليَعلَمَ المُومنينَ وَليَعلَمَ الَّذينَ نَافَقُوا)_(۱۵) تاكہ مومنين كو بھى پہچان لياجائے اور منافقوں كو بھى پہچان لياجائے_

اس موقع پر مومنوں كو اپنى غلطيوں اور كوتاہيوں كا اندازہ ہوگيا اور وہ اپنى اصلاح كى كوشش كرنے لگے اور جنگ احد ايسى آتش ثابت ہوئي جس كى تپش نے كثافتيں اور آلودگياں دور كركے انہيں عيوب سے پاك و صاف كرديا _

''وَليُمَحّصَ الَّذينَ آمَنوُا ''(۱۶) اور وہ اس آزمائشے كے ذريعے مومنوں كو چھانٹ كر كافروں سے الگ كردينا چاہتا تھا_

اس كے ساتھ ہى حضرت على (ع) ، حضرت حمزہ (ع) ، حضرت ابودجانہ ، حضرت حنظلہ اور حضرت ام عمارہ وغيرہ جيسے صحابہ رسول (ص) كے چہرے نماياں ہوگئے ان حضرات نے اپنے كردار سے ثابت كرديا كہ ان كے دلوں ميں دين اسلام اور رسول خدا (ص) كے علاوہ كسى چيز كا خيال وانديشہ تك نہيں ، اس كے برعكس وہ چہرے بھى سامنے آگئے جن كو قرآن مجيد نے ان الفاظ ميں ياد كيا ہے :( اَهَمَّتهُم اَنفُسُهُم ) _(۱۷) ''انكى سارى اہميت اپنى ذات ہى كيلئے تھي'' انہيں بس اپنى ہى جان كى فكر تھى ا ور دين اسلام و پيغمبر خدا (ص) سے كوئي سروكار نہ تھا_

آخرى بات جس كا استفادہ قرآن مجيد سے ہوتا ہے يہ ہے كہ : اس قسم كے واقعات كا ہر قوم وملت كى زندگى ميں رونما ہونا لازمى امر ہے تاكہ ہر شخص كے دل ميں جو كچھ ہے وہ ظاہر و آشكار ہوجائے اور ان كى صفيں ايك دوسرے سے عليحدہ ہوجائيں اس كے علاوہ جب افراد اس طرح كے حادثات سے دوچار ہوں گے تو ان حوادث كے ذريعے ان كى تربيت ہوگى اس كے ساتھ ہى ان كے قلب پاك اورنيت خالص ہوجائیں گي_

۱۸۸

( ... ليَبتَليَ اللّهُ مَا في صُدُوركُم وَليُمَحّصَ مَافي قُلُوبكُم ) _(۱۸)

''اور جو كھوٹ تمہارے دلوں ميں ہے اسے چھانٹ دے''_

طاقت كا اظہار

جنگ احد ميں مسلمانوں كى غير متوقع شكست نے مدينہ كے منافقوں اور يہوديوں كو بہت گستاخ و بے باك بناديا تھا چنانچہ مسلمانوں كى حقارت و سرزنش كے ساتھ ساتھ زبان درازى تك كرنے لگے تھے(۱۹) ، ان بيرونى سازشوں اورمنفى پروپيگنڈوں كو ناكام بنانے كيلئے جن كے رونما ہونے كا احتمال ہوسكتا تھا خداوند تعالى كى طرف سے رسول خدا (ص) كو حكم ديا گيا كہ وہ اتوار كے دن ۸ شوال كو دشمن كا تعاقب كريں اس مشق ميں وہ لوگ شريك ہوسكتے ہيں جو گزشتہ جنگ كے موقعے پر ميدان كارزار ميں موجود تھے_(۲۰)

اس شرط ميں ممكن ہے يہ راز پنہاں ہوكہ رسول خدا(ص) يہ چاہتے تھے كہ اس گروہ كو ، جو جہاد ميں شركت كرنے كيلئے ليت و لعل سے كام لے رہاتھا، نفسياتى و اجتماعى اعتبار سے تنبيہہ كرسكيں اور ان سپاہيوں كيلئے يہ بھى درس عبرت ثابت ہو، تا كہ گزشتہ جنگ ميں ان سے جو تقصير ہوئي تھى اس كى تلافى ہوسكے اور رسول اكرم (ص) پر يہ امر واضح ہوجائے كہ وہ اپنے ايمان اور خلوص كے كس درجے پر ہيں ، اس كے علاوہ رسول خد ا(ص) يہ بھى جانتے تھے كہ اس اقدام كے ذريعے كوئي جنگ واقع نہيں ہوگى اور دشمن مسلمانوں كے چنگل سے نكل كر فرار ہوجائيں گے ، رسول خدا (ص) نے زخميوں كو اس جنگى مشق ميں شركت كى دعوت اس لئے دى تھى كہ ان كے حوصلے بلند ہوں اور ان ميں خود اعتمادى پيدا ہوسكے_

۱۸۹

فوج بالخصوص زخميوں نے اس كے باوجودكہ ان كو كارى زخم آئے تھے اور جس رنج وتكليف سے وہ دوچار ہوئے تھے اس كے كرب كو وہ ابھى تك محسوس كر رہے تھے، انہوں نے حكم خدا اور رسول (ص) كو لبيك كہا اور آنحضرت (ص) كے ہمراہ مدينے سے اپنى منزل ''حمراء الاسد''(۱۶) كى جانب روانہ ہوگئے ، قرآن مجيد ان كے اس مخلصانہ اور ايثار پسندانہ اقدام كى تعريف كرتے ہوئے فرماتا ہے كہ :

( الَّذينَ استَجَابُوا للّه وَالرَّسُوْل من بَعد مَا أَصَابَهُمُ القَرحُ للَّذينَ أَحسَنُوا منهُم وَاتَّقَوا أَجرٌ عَظيمٌ ) _(۲۲)

'' جنہوں نے زخم كھانے كے بعد بھى اللہ اور رسول (ص) كى پكار پر لبيك كہا ان ميں جو اشخاص نيكوكار اور پرہيزگار ہيں ان كے لئے بہت بڑا اجر ہے''_

قريش كا وہ لشكر جو اس ارادے سے ''روحاء(۲۳) '' ميں اترا تھا كہ مدينہ جاكرمسلمانوں كو تہس نہس كرے گا، جب اسے لشكر اسلام كى روانگى كا علم ہوا اور بالخصوص ''معبد خزاعي'' نے اس كى كيفيت كو ابوسفيان سے بيان كيا تو اس نے اپنا فيصلہ بدل ديا اور فرار ہوكر مدينہ چلاگيا _

مسلمانوں نے تين روز تك ''حمراء الاسد'' ميں سپاہ قريش كا انتظار كيا اور دشمن كے دل ميں رعب و ہيبت پيدا كرنے كى غرض سے انہوں نے ہر رات مختلف جگہوں پر آگ روشن كى چنانچہ انہيں جب يہ اطمينان ہوگيا كہ دشمن مرعوب ہو كر فرار ہوگيا ہے تو وہ واپس مدينہ آگئے_(۲۴)

سپاہ اسلام كى اس دليرانہ جنگى مشق نے دشمنان دين ، منافقين اور يہود يوں كى نفسيات

۱۹۰

پر بہت زيادہ اثر ڈالا اس كے جو منفى اور مثبت اثرات نماياں ہوئے ان كى كيفيت ذيل ميں درج كى جاتى ہے_

۱_رسول خد ا(ص) كى دور انديشى ، تدبر و انتظامى صلاحیت، كمانڈنگ كى سوج بوجھ ، قطعى فيصلے كى قوت اور ہرصورت ميں شرك والحاد كے خلاف قاطعانہ استقامت اور پائيدارى سب پرعياں ہوگئي اس كے ساتھ ہى قيادت كا مقام بھى پہلے سے زيادہ ثابت اور پختہ ہوگيا_

۲_جن سپاہيوں كے حوصلے پست ہوگئے تھے ان كے دلوں ميں دوبارہ حملے كى امنگ پيدا ہوگئي، چند روزقبل والى جنگ ميں شكست كے باعث جو اضطراب و پريشان حالى كى كيفيت پيدا ہوگئي تھى وہ اب سپاہيوں كے دلوں سے قطعى زائل ہوگئي اور وہ كاميابى كے احساس كے ساتھ واپس مدينہ آگئے_

۳_وہ دشمن جو اپنى طاقت كے نشے ميں چور اور اپنى عسكرى طاقت كى برترى كے خيال ميں مست مكہ كى جانب چلاجانا چاہتے تھے راستے ميں ان كے اسى باطل احساس نے انہيں اس بات پر مجبور كيا كہ دوبارہ مدينہ كى طرف رخ كريں اور وہاں پہنچ كر وہ اسلام نيز رسول خدا (ص) كا كام تمام كرديں مگر جب رسول خدا (ص) كى غير متوقع فوجى طاقت اور جنگى تيارى كو اپنى آنكھوں سے ديكھا تو ان پر دہشت و سراسيمگى طارى ہوگئي چنانچہ جس طرح جنگ احد سے قبل وہ مايوس وناكام مكہ واپس گيا تھا اس مرتبہ بھى اسى حالت ميں وہ فرار ہو كے مكہ پہنچے_

۴_مسلمانوں كو جو شكست ہوئي تھى اس كى خبر يہوديوں اور منافقين نے سارے شہر ميں پھيلادى تھى وہ اپنى جگہ يہ فرض كئے ہوئے تھے كہ مسلمانوں پر ايسى كارى ضرب لگ

۱۹۱

چكى ہے كہ وہ اب رسول اكرم (ص) كى اطراف سے متفرق ہوجائيں گے اور ان ميں اتنا حوصلہ نہ رہے گا كہ اپنى عسكرى كاروائي كو جارى ركھ سكيں ليكن اپنى اس خام خيالى كے برعكس جب انہوں نے مسلمانوں كے جذبہ ايثار و قربانى اور دليرانہ اقدام كو اپنى آنكھوں سے ديكھا تو انہيں پہلے سے كہيں زيادہ مايوسى و نااميدى ہوئي اور وہ لوگ جو مسلمانوں كو حقيرنظروں سے ديكھا كرتے تھے اب خود ہى ايسے ذليل و خوار ہوئے كہ منہ چھپائے پھرتے تھے اور نوبت يہاں تك پہنچى كے جس وقت منافقين كے ليڈرنے دستور كے مطابق يہ چاہا كہ رسول خدا (ص) كے ارشاد سے قبل ، زبان كھولے اور كچھ كہے تو لوگوں نے اس كے قميص كا دامن پكڑ كر اسے نيچے كھينچ ليا اور دشمن خدا كہہ كر اس پر لعن طعن كى _(۲۵)

احد سے خندق تك

جنگ احد اور جنگ خندق كے درميان تقريبا دوسال كا فاصلہ تھا _ اس عرصے ميں مشركين ، بالخصوص مدينہ كے اطراف ميں آباد قبائل اور يہودى ، اسلام كے خلاف سازش كرنے ميں سرگرم عمل رہے اور رسول اكرم (ص) پورى ذہانت و ہوشمندى اور مكمل تيارى اور ہمت كے ساتھ ان كے ہر حربے كا مقابلہ كرتے رہے رسول خدا (ص) دين اسلام كى ترويج و اشاعت كى خاطر اطراف و جوانب ميں آباد قبائل كے درميان تبليغى جماعتيں بھى بھيجتے رہے ليكن افسوس كہ وہ قبائل مبلغين اسلام كے ارشادات عاليہ سے مستفيد ہونے كى بجائے ان كے ساتھ جنگ كرتے تھے چنانچہ ''رجيع'' ميں وہ چھ مبلغ جنہيں رسول(ص) خدا نے دين اسلام كى اشاعت كى خاطر روانہ كيا تھا قبائل ''عضل'' اور ''قارہ'' كے لوگوںكى وجہ

۱۹۲

سے شہيد ہوئے اسى طرح ''بئرمعونہ'' كے جانكاہ حادثے ميں تقريباً چاليس معلمين قرآن اور مبلغين اسلام قبيلہ ''بنى لحيان'' اور ان ديگر قبائل كے ہاتھوں شہادت سے ہمكنار ہوئے دراصل يہ واقعات و حادثات اس حقيقت كے آئينہ دار ہيں كہ رسول خد ا(ص) كى كوشش يہى تھى كہ دين اسلام كى اشاعت وترويج ہو اگر چہ آنحضرت (ص) اس واقعيت سے بھى بے خبر نہ تھے كہ اس خطے ميں دشمن اس تحريك كو روكنے كيلئے اپنى عسكرى طاقت كو استعمال كر رہا ہے اور اس راہ ميں خطرات و دشوارياں بہت ہيں مگر اس كے باجوود آنحضرت (ص) كى يہ تمنا تھى كہ كسى تصادم كے بغير دين اسلام كى اشاعت و تبليغ كے ذريعے لوگ توحيد كى جانب كشاں كشاں چلے آئيں_

رسول خدا (ص) نے جن سريوں اور غزوات ميں دشمنوں كا مقابلہ كيا ان كى مختصر فہرست ذيل ميں درج ہے_

۱_سريہ ''ابوسلمہ'' ميں ايك سو پچاس مسلمانوں شركت فرمائي اور پہلى محرم سنہ ۴ ہجرى كو قبيلہ ''بنى اسد'' سے مقابلہ ہوا_

۲_سريہ ''عبداللہ بن انيس'' ميں ''سفيان ابن خالد'' كے ساتھ 'عرنہ'' نامى مقام پر ۵ محرم سنہ ۴ ہجرى كو مقابلہ ہوا_

۳_غزوہ ''بنى نضير'' ميں رسول خدا (ص) نے '' بنى نضير'' قبيلے كے يہوديوں كى شرپسنديوں اور خيانت كاريوں كو روكنے نيز انہيں مدينہ سے شہر بدر كرنے كيلئے ربيع الاول سنہ ۴ ہجرى ميں شركت فرمائي_

۴_غزوہ ''بدر موعد'' ميں ابوسفيان كى دريدہ دہنى كا دندان شكست جواب دينے كيلئے جنگ احد كے بعد بدر كے علاقہ ميں بتاريخ ۱۶ ذيقعدہ سنہ ۴ ہجرى ميں شركت فرمائي _

۱۹۳

۵_غزوہ ''دومتہ الجندل'' ميں ان شرپسندوں كى سركوبى كيلئے رسول خدا (ص) نے شركت فرمائي جنہوں نے مسافروں پر راستے تنگ كرديئے تھے اور ان كے ساتھ ظلم وستم روا ركھا ہواتھااس كے علاوہ انہوں نے اسلامى مركزى حكومت پر بھى دست اندازى شروع كردى تھى ، يہ غزوہ ۲۵ ربيع الاول سنہ ہجرى ميں پيش آيا _

غزوہ احزاب

غزوہ ''احزاب '' يا ''خندق'' رسول خدا (ص) كے خلاف دشمنان اسلام كا عظيم ترين اور وسيع ترين معركہ تھا اس جنگ ميں قريش ' يہود اور جزيرة العرب كے بہت سے بت پرست قبائل نے متحد ہوكر عہد وپيمان كيا تھا كہ مسلمانوں پر ايسا سخت حملہ كياجائے كہ ان كا كام ہى تمام ہوجائے_

عملى طور پر يہ سازش اس وقت شروع ہوئي جب يہودى قبيلہ ''بنى نضير'' كے سرداروں كو دين اسلام كے ہاتھوں كارى ضرب لگى تھى اور انہيں مدينہ سے نكال باہر كر ديا گيا تھا يہاں سے انہوں نے مكہ كا رخ كيا تاكہ رسول خد ا(ص) سے انتقام لينے كيلئے وہ قريش سے گفتگو كركے ان سے مدد ليں _

ابوسفيان نے ان كا پورے جوش و خروش سے استقبال كيا اور كہا كہ ''ہمارے نزديك عزيزترين افراد وہ ہيں جو محمد (ص) كے ساتھ دشمنى ميں ہمارے معاون ومددگار ہوں '' اس كے بعد انہوں نے باہمى طور پر عہد وپيمان كيا اور يہ قسم كھائي كہ ايك دوسرے كا ساتھ ديں گے اور ان ميں سے جب تك ايك مرد بھى زندہ رہے گا وہ پيغمبر اكرم (ص) كے خلاف جنگ و جدال كرتا رہے گا _(۲۶)

۱۹۴

قريش كو جنگ كيلئے آمادہ كرنے كے بعد يہى فتنہ انگيز يہودى نجد كى جانب روانہ ہوئے اور وہاں ''قبيلہ غطفان'' اور قبيلہ ''بنى سليما'' سے گفتگو كى اور ايك سال تك خيبر كا محصول ادا كرنے كا وعدہ كركے انہيں بھى رسول خدا(ص) كے خلاف جنگ كرنے كى ترغيب دلائي_

آخر كار اسلام كے خلاف متحدہ محاذ قائم ہوگيا اور تقريباً دس ہزار ايسے جنگ آزما بہادر جن كا شمار قوى ترين اسلام دشمن عناصر ميں ہوتا تھاابوسفيان كى قيادت ميں اسلام كو نيست و نابود كرنے كى خاطر مدينہ كى جانب روانہ ہوئے_

رسول خدا (ص) كو جب اس عظيم سازش كا علم ہوا تو آنحضر ت(ص) نے صحابہ سے مشورہ كيا ، حضرت ''سلمان فارسي'' نے يہ تجويز پيش كى كہ خندق كھودى جائے يہ تجويز پسند كى گئي اور فوراً ہى يہ كام شروع كرديا گيا _

اس زمانے ميں مدينہ كا بيشتر علاقہ پہاڑوں ' ايك دوسرے سے متصل مكانوں اور نخلستان سے گھرا ہوا تھا چنانچہ يہى سب چيزيں مل كر شہر كى فصيل كا كام كرتى تھيں صرف ''ابوعبيد'' اور ''راتج'' كے درميان كى جگہ سے حملہ ہوسكتا تھا ، رسول خد ا(ص) نے حكم ديا كہ دس دس آدمى مل كر چاليس چاليس ذراع خندق كھود ڈاليں _

مسلمان پورى لگن ، تعلق خاطر اور دلچسپى كے ساتھ اس كام ميں مشغول ہوگئے اگر كوئي بہت ہى ضرورى كام ہوتا تو وہ رسول خدا (ص) سے اجازت لے كر اپنے كام سے دست كش ہو كر اس جگہ سے جاتے جہاں انہيں متعين كيا گيا تھا چنانچہ ان كے بارے ميں قرآن كا ارشاد ہے _:

( إنَّمَا المُؤمنُوْنَ الَّذيْنَ آمَنُوْا بالله وَرَسُوله وَإذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمر: جَامع: لَم يَذهَبُوا حَتّى

۱۹۵

يَستَأذنُوهُ إنَّ الَّذينَ يَستَأذنُونَكَ أُولَئكَ الَّذينَ يُؤمنُونَ بالله وَرَسُوله ) _(۲۷)

''مؤمن تودر اصل وہى ہيں جو اللہ اور اس كے رسول (ص) كو دل سے مانيں اور جب كسى اجتماعى كام كے موقع پر رسول (ص) كے ساتھ ہوں تو اس سے اجازت لئے بغير نہ جائيں ، اے نبى (ص) جو لوگ تم سے اجازت مانگتے ہيں وہى اللہ اور رسول (ص) كے ماننے والے ہيں''_

اس وقت حضرت سلمان فارسى سب سے زيادہ محنت و ہمت سے كام لے رہے تھے چنانچہ واقدى اور حلبى نے لكھا ہے كہ وہ دس آدميوں كے برابر كام كررہے تھے ان كى اس لگن و جانفشانى كو ديكھ كر مہاجر يں وانصار دونوں كو ہى حيرت ہوتى تھى اور ہر گروہ ان كے بارے ميں يہى كہتا تھا كہ ''سلمان ہمارے اپنے ہيں'' اور جب رسول خدا (ص) نے ان گروہوں كى يہ گفتگو سنى تو فرمايا كہ :''سَلمَانُ منَّا اَُهلَ البَيت ''(۲۸) سلمان تو ميرے اہل بيت ميں سے ہيں _

اگر چہ منافقين بھى بظاہر مومنين كے دوش بدوش خندق كھودنے كے كام ميں لگے ہوئے تھے ليكن انہيں جب بھى موقع ملتا كوئي نہ كوئي بہانہ بنا كر رسول خدا (ص) سے اجازت لئے بغير اپنے كام سے دستكش ہوجاتے اور مختلف بہانوں سے محاذ حق كو كمزور كرنے كى جستجو ميں لگے رہتے _(۲۹)

( قَد يَعلَمُ الله ُ الَّذينَ يَتَسَلَّلُوْنَ منكُم لوَاذًا فَليَحذر الَّذيْنَ يُخَالفُونَ عَن أَمره أَن تُصيْبَهُم فتنَةٌ أَو يُصيْبَهُم عَذَابٌ أَليمٌ )

''اللہ ان لوگوں كو خوب جانتا ہے جو تم ميں ايسے ہيں كہ ايك دوسرے كى آڑ ليتے ہوئے

۱۹۶

چپكے سے چلے جاتے ہيں ، رسول (ص) كے حكم كى خلاف ورزى كرنے والوں كو كسى فتنے ميں گرفتار ہونے يا دردناك عذاب ميں مبتلا ہونے سے ڈرنا چاہئے ''_

خندق كى كھدائي كا كام چھ روز(۳۰) يعنى احزاب كى سپاہ كے مدينے پہنچنے سے تين روز قبل(۳۱) مكمل ہوگيا اور تين ہزار جنگجو مسلمان اس كى پشت پر اپنى اپنى جگہ متعين ہوگئے_(۳۲)

احزاب كى فوج كو جب يہ خندق نظر آئي تو وہ مجبوراً خندق كے اس پار ہى رك گئي اور وہيں انہوں نے اپنے خيمے لگائے_

اندرون مدينہ جنگى محاذ كا كھولنا

سپاہ احزاب كى كثرت' سامان خوراك كى كمي' مكہ و مدينہ كے درميان دورى اور اس قول نے جو قبيلہ ''بنى نضير'' كے سرداروں نے قريش كو ديا تھا ، لشكر احزاب كے سپہ سالاروں كو اس بات پر مجبور كيا كہ مسلمانوں كو جلد از جلد شكست دينے كيلئے اندرون شہر محاذ قائم كريں چنانچہ ''حُيَّى ابن اخطب'' بنى قريظہ كے قلعہ ميں داخل ہوا اور اس كے سردار سے گفتگو كى ، اسے شيطانى مكرو فريب سے مجبور كيا كہ رسول خدا (ص) سے اس نے جو معاہدہ كيا تھا اس كى خلاف ورزى كرے(۳۳) اور اس طرح ''بنى قريظہ'' كے نوسو جنگجو سپاہى مسلمانوں كے خلاف جنگ كيلئے آمادہ ہوگئے تاكہ خندق كے اس پار احزاب كے لشكر كى فتح ونصرت كے لئے پل كا كام دے_

اس خبر كے پھيلنے سے مسلمانوں ميں پريشانى و سراسيمگى كى لہر دوڑ گئي كيونكہ ايك طرف تو دشمن كے دس ہزار سپاہيوں نے ان كا محاصرہ كر ركھاتھا اور دوسرى طرف ''بنى قريظہ'' كے

۱۹۷

يہودى عہد شكنى كركے دشمن كے ساتھ مل گئے تھے اس كے ساتھ ہى منافقين نے بھى رسول خدا (ص) كو طعنے دينے شروع كرديئے وہ آنحضرت (ص) كا مذاق اڑا كر كہتے تھے كہ : محمد (ص) تو ہميں ''قيصر'' اور ''كسري'' كے خزانوں كے سبز باغ ديكھا رہے ہيں اور ہمارى حالت يہ ہے كہ رفع حاجت تك كيلئے بھى اپنے گھروں سے باہر قدم نہيں نكال سكتے ، خدا وپيغمبر (ص) نے ہميں فريب كے علاوہ ديا ہى كيا ہے_(۳۴) قرآن مجيد نے اس بحرانى كيفيت كا ذكر ان الفاظ ميں كيا ہے:

( إذ جَائُوكُم من فَوقكُم وَمن أَسفَلَ منكُم وَإذ زَاغَت الأَبصَارُ وَبَلَغَت القُلُوبُ الحَنَاجرَ وَتَظُنُّونَ بالله الظُّنُونَ _ هُنَالكَ ابتُليَ المُؤمنُونَ وَزُلزلُوا زلزَالًا شَديدًا ) _(۳۵)

''جب دشمن اوپر نيچے سے تم پر چڑھ آئے او رخوف كے مارے تمہارى آنكھيں پتھرا گئيں، كليجے منہ كو آگئے اور تم لوگ اللہ كے بارے ميں طرح طرح كے گمان كرنے لگے ، اس وقت ايمان لانے والے خوب آزمائے گئے اور وہ سخت تزلزل كا شكار ہوئے''_

مومن اس كے باوجود خدا پر توكل اور رسول اكرم (ص) كے وعدوں پر اعتماد كركے ايمان و استقامت پر قائم رہے _

( وَلَمَّا رَا َى المُؤمنُوْنَ الأَحزَابَ قالُوْا هذا مَا وَعَدَنَا الله ُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ الله ُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُم إلاَّ إيمَانًا وَتَسليمًا ) (۳۶)

''اور سچے مومنوں كا حال اس وقت يہ تھا كہ جب انہوں نے حملہ آور لشكروں كو ديكھا تو

۱۹۸

پكاراٹھے كہ ''يہ وہى چيز ہے جس كا اللہ اور اس كے رسول (ص) نے ہم سے وعدہ كيا تھا اللہ اور اس كے رسول (ص) كى بات بالكل سچى تھي'' اور اس واقعہ نے ان كے ايمان اوراطاعت كو اور زيادہ بڑھا ديا''_

ليكن منافق اور ''ضعيف الايمان'' لوگ ايسے مرعوب و وحشت زدہ ہوئے كہ وہ مختلف بہانے بنا كر يہ كوشش كرنے لگے كہ محاذ جنگ سے فرار كركے كسى طرح مدينے چلے جائيں_

( وَإذ قَالَت طَائفَةٌ منهُم يَاأَهلَ يَثربَ لاَمُقَامَ لَكُم فَارجعُوا وَيَستَأذنُ فَريقٌ منهُم النَّبيَّ يَقُولُونَ إنَّ بُيُوتَنَا عَورَةٌ وَمَا هيَ بعَورَة: إن يُريدُونَ إلاَّ فرَارًا ) _(۳۷)

''جب ان ميں سے ايك گروہ نے كہا كہ ''اے يثرب كے لوگو تمہارے لئے اب ٹھہرنے كا كوئي موقع نہيں ہے پلٹ چلو جب ان كا ايك فريق يہ كہہ كر نبى سے رخصت طلب كر رہا تھا كہ '' ہمارے گھر خطرے ميں ہيں '' حالانكہ ان كے گھر خطرے ميں نہ تھے دراصل وہ محاذ سے بھاگنا چاہتے تھے''_

رسول خدا (ص) كى ذمہ دارى اس وقت بہت سخت اور دشوار تھى ايك طرف تو آنحضرت (ص) كو اس سپاہ كے مقابل جس كى تعداد سپاہ اسلام سے تين گنا سے بھى زيادہ تھي، اپنے كمزور محاذ كو مضبوط و آمادہ كرناتھا دوسرى طرف ان غداروں كى سركوبى تھى جو محاذ كے اندر ريشہ دوانى كر رہے تھے ، اس كے ساتھ ہى اس سپاہ كى آپ (ص) كو حوصلہ افزائي كرنى تھى جن كے دل مضطرب اور جانيں لبوں تك پہنچ گئيں تھى ،

ان تمام نامساعد حالات كے باوجود جو اس وقت رونما ہورہے تھے آپ (ص) اپنے اصحاب

۱۹۹

كو فتح و كامرانى كى خوشخبرى بھى دے رہے تھے، جو ان ظاہرى نامساعد (نامناسب) حالت كے پس پشت پنہاں تھي_

رسول خد ا(ص) انتہائي سخت و دشوار حالات يہاں تك كہ بنى قريظہ كى عہد شكنى كے بعد بھى اپنى سپاہ كے حوصلے بلند كرنے كيلئے برابر فتح و كامرانى كا يقين دلا رہے تھے_(۳۸) اور عہد شكنوں كى سازشوں كا توڑ كرنے كے لئے پانچ سو(۵۰۰) سپاہيوں كو تكبير كہتے ہوئے مدينہ كى گليوں ميں گشت كرنے كا حكم ديا تھا_(۳۹)

ايمان و كفر كے نمائندوںكى جنگ

تقريباً ايك ماہ تك مدينہ كا محاصرہ رہا اور قريش كى كوشش لاحاصل رہى ، آخر كار سپاہ مكہ كے پانچ جنگنجو خندق كا وہ حصہ تلاش كرنے ميں كامياب ہوگئے جس كى چوڑائي نسبتاً كم تھا چنانچہ اسے انہوں نے عبور كيا اور سپاہ اسلام كو جنگ كيلئے للكارا_ ''عمروابن عبدود'' سب سے زيادہ رجز يہ اشعار پڑھ رہا تھا(۴۰) وہ لشكر اسلام كو مخاطب كركے كہہ رہا تھا ''تمہيں للكارتے ہوئے اور لڑنے كى دعوت ديتے ديتے ميرى آواز بيٹھ گئي ہے او رميں تھك گياہوں'' ليكن كسى نے اسكى للكار كا جواب نہ ديا_

سپاہ اسلام ميں حضرت على (ع) كے علاوہ كسى اور نے اس كى للكار كا جواب دينے كى جرا ت نہيں كي_ رسول اكرم (ص) نے اپنى شمشير حضرت على (ع) كو عنايت فرمائي او رآپ (ع) كے حق ميں دعا كى جس وقت حضرت على (ع) ''عمرو'' كے مقابل آئے تو رسول خد ا(ص) نے فرمايا :''بَرَزَالايمَانُُ كُلُّهُ الَى الشّرك كُلّه'' يعنى اب كل ايمان سراپا شرك كے مقابلے كيلئے ميدان ميں آگيا ہے_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313