تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي0%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 313
مشاہدے: 117041
ڈاؤنلوڈ: 2969


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 117041 / ڈاؤنلوڈ: 2969
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد 1

مؤلف:
اردو

جنگ احد ميں مسلمانوں كى شكست كے اسباب

پہلے مرحلے ميں مسلمانوں كى فتح اور دوسرے مرحلے ميں شكست كے بعض اسباب كے بارے ميں قرآن مجيد نے بھى اشارہ كيا ہے يہاں ہم مسلمانوں كى شكست كے اہم ترين عوامل كا ذكر كريں گے جس كے باعث ان عوامل كى بھى وضاحت ہوجائے گى جن كى وجہ سے مسلمانوں كو پہلے مرحلے ميں فتح نصيب ہوئي تھي_

۱_سپاہ كے ايك گروہ ميں عسكرى نظم وضبط كا فقدان اور رسول (ص) خدا كے اس سخت تاكيدى حكم سے روگردانى جو درہ عينين كے تحفظ كے بارے ميں تھا_

( وَلَقَد صَدَقَكُم الله ُ وَعدَهُ إذ تَحُسُّونَهُم بإذنه حَتَّى إذَا فَشلتُم وَتَنَازَعتُم فى الأَمر وَعَصَيتُم من بَعد مَا أَرَاكُم مَا تُحبُّونَ ) (۱)

''اللہ نے (تائيد نصرت كا) جو وعدہ تم سے كيا تھا وہ تو اس نے پورا كرديا ، ابتدا ميں اس كے حكم سے تم ہى ان كو قتل كررہے تھے مگر جب تم نے كمزورى دكھائي اور اپنے كام ميں باہم اختلاف كيا اور جونہى وہ چيز اللہ نے تمہيں دكھائي جس كى محبت ميں تم گرفتار تھے (يعنى مال غنيمت) تم اپنے سردار كے حكم كى خلاف ورزى كر بيٹھے''_

۲_ايمان كى كمزورى اور دنيا كى محبت: سپاہيوں كے دلوں ميں رسول خد ا(ص) كى طرف سے

۱۸۱

بدگمانى(۲) پيدا ہوگئي اور انہوں نے يہ كہنا شروع كرديا تھا كہ ہميں انديشہ ہے كہ رسول خدا (ص) ہميں مال غنيمت ميں شريك نہ كريں اسى لئے وہ پناہ گاہوں كو خالى چھوڑ كر مال غنيمت سميٹنے ميں لگ گئے اور اسى بنا پر انہوں نے مال غنيمت كو حكم رسول خدا (ص) اور دشمن سے نبرد آزمائي پر فوقيت دي:

( منكُم مَن يُريدُ الدُّنيَا وَمنكُم مَن يُريدُ الآخرَةَ ) _(۳)

دوسرے مرحلے ميں بہت بڑى تعداد ميں سپاہ كا فرار كرجانا اور رسول خد ا(ص) كو تنہا چھوڑدينا اور اس قسم كى باتيں كرنا كہ اے كاش ہم عبداللہ ابن ابى كے پاس چلے گئے ہوتے تاكہ وہ ہمارے لئے ابوسفيان سے جان كى امان مانگتا ان كے يہ خيالات اس حقيقت كے آئينہ دار تھے كہ ان كے عقيدے كمزور اور وہ دنيا كى محبت ميں مبتلا تھے_

۳_غزوہ بدر ميں مسلمانوں كو جو فتح ونصرت حاصل ہوئي تھى اس سے انہوں نے جونتيجہ اخذ كيا وہ درست نہ تھا انہيں يہ گمان ہوگيا تھا كہ چونكہ ان كا دين حق پر مبنى ہے اس لئے انہيں كبھى دشمن كے ہاتھوں شكست نہ ہوگى اور وہ اسلحہ و جنگى وسائل سے خواہ كتنى ہى غفلت برتيں خداوند تعالى بہر صورت غيبى مدد كے ذريعے مشركين كے مقابلے ميں ان كا دفاع كرے گا_(۴)

دوسرى طرف وہ يہ سمجھتے تھے كہ ايمان كا اظہار ہى كاميابى و سعادت كے حصول كيلئے كافى ہے اور اس گمان ميں مبتلا ہوگئے تھے كہ جہاد اور راہ خدا ميں استقامت و پائيدارى كے بغير وہ جنت ميں داخل ہوجائيں گے(۵) درحاليكہ قرآن كا ان كے

۱۸۲

اس غلط گمان كے بارے ميں صريح ارشاد ہے كہ :

( أَم حَسبتُم أَن تَدخُلُوا الجَنَّةَ وَلَمَّا يَعلَم الله ُ الَّذينَ جَاهَدُوا منكُم وَيَعلَمَ الصَّابرينَ )

''كيا تم نے يہ سمجھ ركھا ہے كہ يونہى جنت میں چلے جائو گے حالانكہ ابھى اس نے يہ تو ديكھا ہى نہيں كہ تم ميں كون وہ لوگ ہيں جو اس كى راہ ميں جانيں لڑانے والے اور اس كى خاطر صبر كرنے والے ہيں''_

چنانچہ وہ اپنے اس گمان اور خيال خام كے باعث ہى دشمن كے معمولى دباو كى وجہ سے ميدان كارزار سے فرار ہوگئے اور اتنہائي مايوسى كى حالت ميں ايك دوسرے سے كہنے لگے :''هَل لَنَا منَ اَلاَمر'' _(۶)

كيا اس دل آزار حالت كے باوجود ہميں نصرت و فتح حاصل ہوگي؟

۴_جب قريش نے يہ افواہ پھيلائي كہ رسول خدا (ص) كو قتل كرديا گيا ہے(۷) تو اس كے باعث ايك طرف تو دشمن كى جرا ت و گستاخى بڑھ گئي اور دوسرى طرف مسلمانوں كے دلوں پر رعب طارى ہوگيا كيونكہ انہيں يہ گمان ہونے لگا كہ اسلام محض ذات رسول (ص) كى وجہ سے قائم ہے اور اس گمان نے ہى ان كے دلوں سے جنگ جارى ركھنے كى خواہش و ولولے اور اسلام پر قائم رہنے كے عزم وارادے كو سلب كرليا اور نوبت يہاں تك آن پہنچى تھى كہ انہوں نے ايك دوسرے سے يہ كہنا شروع كرديا تھا كہ : محمد (ص) كو قتل كرديا گيا ہے اس سے پہلے كہ قريش تم پريورش كريں تم خود ہى ان كے پاس جائو اور ان كے ساتھ تعاون كا اعلان كردو _(۸)

۱۸۳

تعميرى شكست

اس ميں شك نہيں كہ مسلمانوں كو جنگ احد ميں وقتى شكست ہوئي اور اس كے باعث(۷۰) ستر افرادشہيد ہوئے ، مگر اس كے باوجود يہى جنگ بعض اعتبار سے سبق آموز اور تعميرى بھى ثابت ہوئي ، قرآن مجيد نے اس كا كلى طور پر جس طرح جائزہ لياہے اور اس شكست سے متعلق رسول خدا (ص) نے جو موقف اختيار كيا اسے مد نظر ركھتے ہوئے يہ كہا جاسكتا ہے كہ يہ جنگ در حقيقت تعميرى تھى كيونكہ اس كے ذريعے مسلمانوں كى توجہ ان غلطيوں كى جانب مبذول كرائي گئي جو ان سے سرزد ہوئي تھيں اور ان كى كمزوريوں كو ان پر عياں كيا گيا اس كے ساتھ ہى انہيں يہ درس بھى ديا گيا كہ وہ خود كو كس طرح منظم كريں اور جو تلخ تجربات انہيں حاصل ہوئے ہيں انہيں مدنظر ركھتے ہوئے وہ اپنے حوصلے بلند كريں اور اس شكست كى تلافى كيلئے خود ميں ضرورى طاقت و اعتماد پيدا كريں تاكہ آئندہ جب بھى دشمن سے مقابلہ ہو تو انہيں نصرت و كاميابى نصيب ہو_

يہاں ہم آيات قرآنى كى روشنى ميں ان بعض پہلوئوں كا جائزہ ليں گے جو تعميرى اور سبق آموز ثابت ہوئے_

الف_اس جنگ ميں مسلمانوں كو جو شكست ہوئي اگر قرآن مجيد كى روشنى ميں ديكھا جائے تو اس ميں خداوند تعالى كى مرضى شامل تھى :

( وَمَا أَصَابَكُم يَومَ التَقَى الجَمعَان فَبإذن الله ) _(۹)

''جونقصان لڑائي كے دن تمہيں پہنچا وہ اللہ كے اذن سے تھا''_

البتہ يہ وہى مرضى ومشيت الہى ہے جو نظام ہستى ميں ''قانون عليت'' كے نام سے

۱۸۴

جارى و سارى ہے اور اس كى بنياد پر ہر وجود كى مخصوص علت ہے ليكن اس شكست كا ذمہ دار مسلمانوں كو قرار ديا ہے اور ان كى اس بات كے جواب ميں كہ : يہ بلا كہاں سے آكر ہمارى جان كو لگ گئي، صريحاً فرمايا كہ ہُوَ من عنداَنفُسكُم _(۱۰) (يہ مصيبت تمہارى اپنى لائي ہوئي ہے) يعنى اس شكست كا سرچشمہ تمہارى اپنى ہى ذات ہے اور اس شكست كے اسباب كى تلاش تم اپنے ہى اندر كرو_

پيغمبر خدا (ص) كے حكم كى خلاف ورزى ، اپنے فرائض سے غفلت ،جنگ ختم ہوجانے سے قبل مال غنيمت جمع كرنے ميں دلچسپى وسرگرمى ، ميدان كارزار سے گريز اور جہاد سے روگردانى ايسے افعال ہيں جو تم سے ہى سرزد ہوئے ہيں اور يہ قانون الہى ہے كہ جو بھى سپاہى ميدان جنگ ميں سستى دكھائے گا ، اپنے باخبر اورہمدردجرنيل كے حكم سے چشم پوشى كرے گا اور دشمن كے بارے ميں سوچنے كى بجائے اسكى نظر مال غنيمت پر رہے گى تو ناچار اس كى سزا شكست ہوگي_

ب_قرآن مجيد نے اس امر كى صراحت كرنے كے بعد كہ اس حادثے كے وقوع پذير ہونے كا اصل عامل مسلمانوں كى سستى تھى ، انہيں يہ بھى بتاديا ہے كہ يہ شكست وقتى ہے اس كے ساتھ ہى اس مقدس كتاب نے يہ بھى تنبيہہ كى ہے كہ وہ اس شكست كے باعث سست ورنجيدہ خاطر اور فتح و كامرانى سے مايوس نہ ہو ں :( وَ لَا تَهنُوا وَ لَا تَحزَنُوا ) _(۱۱) (دل شكستہ نہ ہو ' غم نہ كرو) اس كے بعد اس نے يہ ہدايت بھى كى كہ جب سستى اور پريشان دلى سے نكل آئو گے تو ''اَنْتُمُ الاَ علَونَ ان كُنتُم مُومنينَ''_ ''تم ہى غالب ہوگے اگر تم مومن ہو'' اس آيت نے اس بات كى وضاحت كرنے كے علاوہ كہ ايمان ہى وہ عامل ہے جسے ہر چيز پر برترى حاصل ہے

۱۸۵

اس حقيقت كو بھى ان كے گوش گزار كرديا ہے كہ شكست كا اصل سبب ان ميں روح ايمانى كا ضعف تھا_

دوسرى جگہ ارشاد ہے كہ :

( إن يَمسَسكُم قَرحٌ فَقَد مَسَّ القَومَ قَرحٌ مثلُهُ وَتلكَ الأَيَّامُ نُدَاولُهَا بَينَ النَّاس ) _(۱۲)

''اس وقت اگر تمہيں چوٹ لگى ہے تو اس سے پہلے ايسى ہى چوٹ تمہارے مخالف فريق كو بھى لگ چكى ہے يہ تو زمانے كے نشيب وفراز ہيں جنہيں ہم لوگوں كے درميان گردش ديتے رہتے ہيں''_

دوسرى جگہ اسى بات كو اس پيرائے ميں بيان فرمايا ہے كہ :

( أَوَلَمَّا أَصَابَتكُم مُصيبَةٌ قَد أَصَبتُم مثلَيهَا قُلتُم أَنَّى هَذَا قُل هُوَ من عند أَنفُسكُم إنَّ الله َ عَلَى كُلّ شَيئ: قَديرٌ )

''جب تم پر مصيبت آپڑى تو تم كہنے لگے كہ يہ كہاں سے آئي ؟ حالانكہ (جنگ بدر ميں) اس سے دوگنى مصيبت تمہارے ہاتھوں (فريق مخالف پر) پڑچكى ہے اے نبي(ص) ان سے كہ ديجئے كہ يہ مصيبت تمہارے اپنى لائي ہوئي ہے ، اللہ ہر چيز پر قادر ہے''_

اس آيت ميں خداوند تعالى نے مسلمانوں كو دلا سہ ديتے ہوئے فرمايا ہے كہ تم نے جنگ بدر ميں دشمن كے(۷۰) ستر آدمى قتل كئے اور(۷۰) آدميوں كو قيدى بھى بنايا اور يہ تعداد ان سے دوگنا ہے جو جنگ احد ميں تمہارى طرف سے كام آئے اس آيت كے ضمن ميں خداوند تعالى نے اس امر كى جانب بھى توجہ دلائي كہ اس قادر

۱۸۶

مطلق كو ہر چيز پر قدرت و توانائي حاصل ہے اور اگر تم اپنى كوتاہيوں كى تلافى اور كمزورياں دور كرلو تو جنگ بدر كى طرح عنايت الہى تمہارے شامل حال رہے گي_

ج_قرآن مجيد نے اس شكست كے جو مثبت پہلو بيان كئے ہيں انہيں ذيل ميں درج كياجاتا ہے:

۱_ جنگ بدر كے ختم ہونے اورلشكر اسلام كے چند لوگوں كى شہادت كے بعد بعض مسلمان يہ آرزو كرتے رہتے كہ وہ كاش بھى شہادت سے سرخروہوں اور باہمى گفتگو ميں ان كى زبان پر بھى ذكر آجاتا كہ كاش يہ فخر ہمیںبھى نصيب ہوتا مگر انہى ميں چند لوگ جھوٹے اور رياكار بھى تھے چنانچہ جب جنگ احد كاسانحہ پيش آيا تو وہ لوگ جو حقيقى معنوں ميں مومن اور شہادت كے عاشق و تمنائي تھے وہ تو جى جان سے دشمن كے ساتھ نبر دآ زما ہوئے مگرانہى ميں جولوگ جھوٹے اور رياكار تھے انہوں نے جيسے ہى اپنے لئے خطرہ محسوس كيا ميدان كارزار سے فرار ہوگئے اور ان كا اصلى چہرہ ہميشہ كيلئے بے نقاب ہوگيا جيسا كہ قرآن مجيد نے ارشاد فرمايا ہے كہ :

( وَلَقَد كُنتُم تَتَمَنَّون المَوتَ من قَبل أَن تَلقَوهُ فَقَد رَأَيتُمُوهُ وَأَنتُم تَنظُرُونَ ) _(۱۴)

''تم تو راہ خدا ميں شہادت كا سامنا كرنے سے قبل موت كى تمنائيں كر رہے تھے لو اب وہ تمہارے سامنے آگئي اور تم نے اسے آنكھ سے ديكھ ليا ''_

۲_ احد كا سانحہ حقيقت نما آئينہ تھا جس نے ہر مسلمان كے اصلى چہرے كو آشكار ، كے درجات ايمان كو واضح اور ان ان كا رسول خدا (ص) سے كس حد تك تعلق خاطر تھا اسے ظاہر و عياں كرديا ، اس موقع پر حقيقى مومنين و منافقين كى پورى شناخت ہوگئي اور

۱۸۷

دونوں كى صفيں ايك دوسرے سے بالكل عليحدہ نظر آنے لگيں : (... ليَعلَمَ المُومنينَ وَليَعلَمَ الَّذينَ نَافَقُوا)_(۱۵) تاكہ مومنين كو بھى پہچان لياجائے اور منافقوں كو بھى پہچان لياجائے_

اس موقع پر مومنوں كو اپنى غلطيوں اور كوتاہيوں كا اندازہ ہوگيا اور وہ اپنى اصلاح كى كوشش كرنے لگے اور جنگ احد ايسى آتش ثابت ہوئي جس كى تپش نے كثافتيں اور آلودگياں دور كركے انہيں عيوب سے پاك و صاف كرديا _

''وَليُمَحّصَ الَّذينَ آمَنوُا ''(۱۶) اور وہ اس آزمائشے كے ذريعے مومنوں كو چھانٹ كر كافروں سے الگ كردينا چاہتا تھا_

اس كے ساتھ ہى حضرت على (ع) ، حضرت حمزہ (ع) ، حضرت ابودجانہ ، حضرت حنظلہ اور حضرت ام عمارہ وغيرہ جيسے صحابہ رسول (ص) كے چہرے نماياں ہوگئے ان حضرات نے اپنے كردار سے ثابت كرديا كہ ان كے دلوں ميں دين اسلام اور رسول خدا (ص) كے علاوہ كسى چيز كا خيال وانديشہ تك نہيں ، اس كے برعكس وہ چہرے بھى سامنے آگئے جن كو قرآن مجيد نے ان الفاظ ميں ياد كيا ہے :( اَهَمَّتهُم اَنفُسُهُم ) _(۱۷) ''انكى سارى اہميت اپنى ذات ہى كيلئے تھي'' انہيں بس اپنى ہى جان كى فكر تھى ا ور دين اسلام و پيغمبر خدا (ص) سے كوئي سروكار نہ تھا_

آخرى بات جس كا استفادہ قرآن مجيد سے ہوتا ہے يہ ہے كہ : اس قسم كے واقعات كا ہر قوم وملت كى زندگى ميں رونما ہونا لازمى امر ہے تاكہ ہر شخص كے دل ميں جو كچھ ہے وہ ظاہر و آشكار ہوجائے اور ان كى صفيں ايك دوسرے سے عليحدہ ہوجائيں اس كے علاوہ جب افراد اس طرح كے حادثات سے دوچار ہوں گے تو ان حوادث كے ذريعے ان كى تربيت ہوگى اس كے ساتھ ہى ان كے قلب پاك اورنيت خالص ہوجائیں گي_

۱۸۸

( ... ليَبتَليَ اللّهُ مَا في صُدُوركُم وَليُمَحّصَ مَافي قُلُوبكُم ) _(۱۸)

''اور جو كھوٹ تمہارے دلوں ميں ہے اسے چھانٹ دے''_

طاقت كا اظہار

جنگ احد ميں مسلمانوں كى غير متوقع شكست نے مدينہ كے منافقوں اور يہوديوں كو بہت گستاخ و بے باك بناديا تھا چنانچہ مسلمانوں كى حقارت و سرزنش كے ساتھ ساتھ زبان درازى تك كرنے لگے تھے(۱۹) ، ان بيرونى سازشوں اورمنفى پروپيگنڈوں كو ناكام بنانے كيلئے جن كے رونما ہونے كا احتمال ہوسكتا تھا خداوند تعالى كى طرف سے رسول خدا (ص) كو حكم ديا گيا كہ وہ اتوار كے دن ۸ شوال كو دشمن كا تعاقب كريں اس مشق ميں وہ لوگ شريك ہوسكتے ہيں جو گزشتہ جنگ كے موقعے پر ميدان كارزار ميں موجود تھے_(۲۰)

اس شرط ميں ممكن ہے يہ راز پنہاں ہوكہ رسول خدا(ص) يہ چاہتے تھے كہ اس گروہ كو ، جو جہاد ميں شركت كرنے كيلئے ليت و لعل سے كام لے رہاتھا، نفسياتى و اجتماعى اعتبار سے تنبيہہ كرسكيں اور ان سپاہيوں كيلئے يہ بھى درس عبرت ثابت ہو، تا كہ گزشتہ جنگ ميں ان سے جو تقصير ہوئي تھى اس كى تلافى ہوسكے اور رسول اكرم (ص) پر يہ امر واضح ہوجائے كہ وہ اپنے ايمان اور خلوص كے كس درجے پر ہيں ، اس كے علاوہ رسول خد ا(ص) يہ بھى جانتے تھے كہ اس اقدام كے ذريعے كوئي جنگ واقع نہيں ہوگى اور دشمن مسلمانوں كے چنگل سے نكل كر فرار ہوجائيں گے ، رسول خدا (ص) نے زخميوں كو اس جنگى مشق ميں شركت كى دعوت اس لئے دى تھى كہ ان كے حوصلے بلند ہوں اور ان ميں خود اعتمادى پيدا ہوسكے_

۱۸۹

فوج بالخصوص زخميوں نے اس كے باوجودكہ ان كو كارى زخم آئے تھے اور جس رنج وتكليف سے وہ دوچار ہوئے تھے اس كے كرب كو وہ ابھى تك محسوس كر رہے تھے، انہوں نے حكم خدا اور رسول (ص) كو لبيك كہا اور آنحضرت (ص) كے ہمراہ مدينے سے اپنى منزل ''حمراء الاسد''(۱۶) كى جانب روانہ ہوگئے ، قرآن مجيد ان كے اس مخلصانہ اور ايثار پسندانہ اقدام كى تعريف كرتے ہوئے فرماتا ہے كہ :

( الَّذينَ استَجَابُوا للّه وَالرَّسُوْل من بَعد مَا أَصَابَهُمُ القَرحُ للَّذينَ أَحسَنُوا منهُم وَاتَّقَوا أَجرٌ عَظيمٌ ) _(۲۲)

'' جنہوں نے زخم كھانے كے بعد بھى اللہ اور رسول (ص) كى پكار پر لبيك كہا ان ميں جو اشخاص نيكوكار اور پرہيزگار ہيں ان كے لئے بہت بڑا اجر ہے''_

قريش كا وہ لشكر جو اس ارادے سے ''روحاء(۲۳) '' ميں اترا تھا كہ مدينہ جاكرمسلمانوں كو تہس نہس كرے گا، جب اسے لشكر اسلام كى روانگى كا علم ہوا اور بالخصوص ''معبد خزاعي'' نے اس كى كيفيت كو ابوسفيان سے بيان كيا تو اس نے اپنا فيصلہ بدل ديا اور فرار ہوكر مدينہ چلاگيا _

مسلمانوں نے تين روز تك ''حمراء الاسد'' ميں سپاہ قريش كا انتظار كيا اور دشمن كے دل ميں رعب و ہيبت پيدا كرنے كى غرض سے انہوں نے ہر رات مختلف جگہوں پر آگ روشن كى چنانچہ انہيں جب يہ اطمينان ہوگيا كہ دشمن مرعوب ہو كر فرار ہوگيا ہے تو وہ واپس مدينہ آگئے_(۲۴)

سپاہ اسلام كى اس دليرانہ جنگى مشق نے دشمنان دين ، منافقين اور يہود يوں كى نفسيات

۱۹۰

پر بہت زيادہ اثر ڈالا اس كے جو منفى اور مثبت اثرات نماياں ہوئے ان كى كيفيت ذيل ميں درج كى جاتى ہے_

۱_رسول خد ا(ص) كى دور انديشى ، تدبر و انتظامى صلاحیت، كمانڈنگ كى سوج بوجھ ، قطعى فيصلے كى قوت اور ہرصورت ميں شرك والحاد كے خلاف قاطعانہ استقامت اور پائيدارى سب پرعياں ہوگئي اس كے ساتھ ہى قيادت كا مقام بھى پہلے سے زيادہ ثابت اور پختہ ہوگيا_

۲_جن سپاہيوں كے حوصلے پست ہوگئے تھے ان كے دلوں ميں دوبارہ حملے كى امنگ پيدا ہوگئي، چند روزقبل والى جنگ ميں شكست كے باعث جو اضطراب و پريشان حالى كى كيفيت پيدا ہوگئي تھى وہ اب سپاہيوں كے دلوں سے قطعى زائل ہوگئي اور وہ كاميابى كے احساس كے ساتھ واپس مدينہ آگئے_

۳_وہ دشمن جو اپنى طاقت كے نشے ميں چور اور اپنى عسكرى طاقت كى برترى كے خيال ميں مست مكہ كى جانب چلاجانا چاہتے تھے راستے ميں ان كے اسى باطل احساس نے انہيں اس بات پر مجبور كيا كہ دوبارہ مدينہ كى طرف رخ كريں اور وہاں پہنچ كر وہ اسلام نيز رسول خدا (ص) كا كام تمام كرديں مگر جب رسول خدا (ص) كى غير متوقع فوجى طاقت اور جنگى تيارى كو اپنى آنكھوں سے ديكھا تو ان پر دہشت و سراسيمگى طارى ہوگئي چنانچہ جس طرح جنگ احد سے قبل وہ مايوس وناكام مكہ واپس گيا تھا اس مرتبہ بھى اسى حالت ميں وہ فرار ہو كے مكہ پہنچے_

۴_مسلمانوں كو جو شكست ہوئي تھى اس كى خبر يہوديوں اور منافقين نے سارے شہر ميں پھيلادى تھى وہ اپنى جگہ يہ فرض كئے ہوئے تھے كہ مسلمانوں پر ايسى كارى ضرب لگ

۱۹۱

چكى ہے كہ وہ اب رسول اكرم (ص) كى اطراف سے متفرق ہوجائيں گے اور ان ميں اتنا حوصلہ نہ رہے گا كہ اپنى عسكرى كاروائي كو جارى ركھ سكيں ليكن اپنى اس خام خيالى كے برعكس جب انہوں نے مسلمانوں كے جذبہ ايثار و قربانى اور دليرانہ اقدام كو اپنى آنكھوں سے ديكھا تو انہيں پہلے سے كہيں زيادہ مايوسى و نااميدى ہوئي اور وہ لوگ جو مسلمانوں كو حقيرنظروں سے ديكھا كرتے تھے اب خود ہى ايسے ذليل و خوار ہوئے كہ منہ چھپائے پھرتے تھے اور نوبت يہاں تك پہنچى كے جس وقت منافقين كے ليڈرنے دستور كے مطابق يہ چاہا كہ رسول خدا (ص) كے ارشاد سے قبل ، زبان كھولے اور كچھ كہے تو لوگوں نے اس كے قميص كا دامن پكڑ كر اسے نيچے كھينچ ليا اور دشمن خدا كہہ كر اس پر لعن طعن كى _(۲۵)

احد سے خندق تك

جنگ احد اور جنگ خندق كے درميان تقريبا دوسال كا فاصلہ تھا _ اس عرصے ميں مشركين ، بالخصوص مدينہ كے اطراف ميں آباد قبائل اور يہودى ، اسلام كے خلاف سازش كرنے ميں سرگرم عمل رہے اور رسول اكرم (ص) پورى ذہانت و ہوشمندى اور مكمل تيارى اور ہمت كے ساتھ ان كے ہر حربے كا مقابلہ كرتے رہے رسول خدا (ص) دين اسلام كى ترويج و اشاعت كى خاطر اطراف و جوانب ميں آباد قبائل كے درميان تبليغى جماعتيں بھى بھيجتے رہے ليكن افسوس كہ وہ قبائل مبلغين اسلام كے ارشادات عاليہ سے مستفيد ہونے كى بجائے ان كے ساتھ جنگ كرتے تھے چنانچہ ''رجيع'' ميں وہ چھ مبلغ جنہيں رسول(ص) خدا نے دين اسلام كى اشاعت كى خاطر روانہ كيا تھا قبائل ''عضل'' اور ''قارہ'' كے لوگوںكى وجہ

۱۹۲

سے شہيد ہوئے اسى طرح ''بئرمعونہ'' كے جانكاہ حادثے ميں تقريباً چاليس معلمين قرآن اور مبلغين اسلام قبيلہ ''بنى لحيان'' اور ان ديگر قبائل كے ہاتھوں شہادت سے ہمكنار ہوئے دراصل يہ واقعات و حادثات اس حقيقت كے آئينہ دار ہيں كہ رسول خد ا(ص) كى كوشش يہى تھى كہ دين اسلام كى اشاعت وترويج ہو اگر چہ آنحضرت (ص) اس واقعيت سے بھى بے خبر نہ تھے كہ اس خطے ميں دشمن اس تحريك كو روكنے كيلئے اپنى عسكرى طاقت كو استعمال كر رہا ہے اور اس راہ ميں خطرات و دشوارياں بہت ہيں مگر اس كے باجوود آنحضرت (ص) كى يہ تمنا تھى كہ كسى تصادم كے بغير دين اسلام كى اشاعت و تبليغ كے ذريعے لوگ توحيد كى جانب كشاں كشاں چلے آئيں_

رسول خدا (ص) نے جن سريوں اور غزوات ميں دشمنوں كا مقابلہ كيا ان كى مختصر فہرست ذيل ميں درج ہے_

۱_سريہ ''ابوسلمہ'' ميں ايك سو پچاس مسلمانوں شركت فرمائي اور پہلى محرم سنہ ۴ ہجرى كو قبيلہ ''بنى اسد'' سے مقابلہ ہوا_

۲_سريہ ''عبداللہ بن انيس'' ميں ''سفيان ابن خالد'' كے ساتھ 'عرنہ'' نامى مقام پر ۵ محرم سنہ ۴ ہجرى كو مقابلہ ہوا_

۳_غزوہ ''بنى نضير'' ميں رسول خدا (ص) نے '' بنى نضير'' قبيلے كے يہوديوں كى شرپسنديوں اور خيانت كاريوں كو روكنے نيز انہيں مدينہ سے شہر بدر كرنے كيلئے ربيع الاول سنہ ۴ ہجرى ميں شركت فرمائي_

۴_غزوہ ''بدر موعد'' ميں ابوسفيان كى دريدہ دہنى كا دندان شكست جواب دينے كيلئے جنگ احد كے بعد بدر كے علاقہ ميں بتاريخ ۱۶ ذيقعدہ سنہ ۴ ہجرى ميں شركت فرمائي _

۱۹۳

۵_غزوہ ''دومتہ الجندل'' ميں ان شرپسندوں كى سركوبى كيلئے رسول خدا (ص) نے شركت فرمائي جنہوں نے مسافروں پر راستے تنگ كرديئے تھے اور ان كے ساتھ ظلم وستم روا ركھا ہواتھااس كے علاوہ انہوں نے اسلامى مركزى حكومت پر بھى دست اندازى شروع كردى تھى ، يہ غزوہ ۲۵ ربيع الاول سنہ ہجرى ميں پيش آيا _

غزوہ احزاب

غزوہ ''احزاب '' يا ''خندق'' رسول خدا (ص) كے خلاف دشمنان اسلام كا عظيم ترين اور وسيع ترين معركہ تھا اس جنگ ميں قريش ' يہود اور جزيرة العرب كے بہت سے بت پرست قبائل نے متحد ہوكر عہد وپيمان كيا تھا كہ مسلمانوں پر ايسا سخت حملہ كياجائے كہ ان كا كام ہى تمام ہوجائے_

عملى طور پر يہ سازش اس وقت شروع ہوئي جب يہودى قبيلہ ''بنى نضير'' كے سرداروں كو دين اسلام كے ہاتھوں كارى ضرب لگى تھى اور انہيں مدينہ سے نكال باہر كر ديا گيا تھا يہاں سے انہوں نے مكہ كا رخ كيا تاكہ رسول خد ا(ص) سے انتقام لينے كيلئے وہ قريش سے گفتگو كركے ان سے مدد ليں _

ابوسفيان نے ان كا پورے جوش و خروش سے استقبال كيا اور كہا كہ ''ہمارے نزديك عزيزترين افراد وہ ہيں جو محمد (ص) كے ساتھ دشمنى ميں ہمارے معاون ومددگار ہوں '' اس كے بعد انہوں نے باہمى طور پر عہد وپيمان كيا اور يہ قسم كھائي كہ ايك دوسرے كا ساتھ ديں گے اور ان ميں سے جب تك ايك مرد بھى زندہ رہے گا وہ پيغمبر اكرم (ص) كے خلاف جنگ و جدال كرتا رہے گا _(۲۶)

۱۹۴

قريش كو جنگ كيلئے آمادہ كرنے كے بعد يہى فتنہ انگيز يہودى نجد كى جانب روانہ ہوئے اور وہاں ''قبيلہ غطفان'' اور قبيلہ ''بنى سليما'' سے گفتگو كى اور ايك سال تك خيبر كا محصول ادا كرنے كا وعدہ كركے انہيں بھى رسول خدا(ص) كے خلاف جنگ كرنے كى ترغيب دلائي_

آخر كار اسلام كے خلاف متحدہ محاذ قائم ہوگيا اور تقريباً دس ہزار ايسے جنگ آزما بہادر جن كا شمار قوى ترين اسلام دشمن عناصر ميں ہوتا تھاابوسفيان كى قيادت ميں اسلام كو نيست و نابود كرنے كى خاطر مدينہ كى جانب روانہ ہوئے_

رسول خدا (ص) كو جب اس عظيم سازش كا علم ہوا تو آنحضر ت(ص) نے صحابہ سے مشورہ كيا ، حضرت ''سلمان فارسي'' نے يہ تجويز پيش كى كہ خندق كھودى جائے يہ تجويز پسند كى گئي اور فوراً ہى يہ كام شروع كرديا گيا _

اس زمانے ميں مدينہ كا بيشتر علاقہ پہاڑوں ' ايك دوسرے سے متصل مكانوں اور نخلستان سے گھرا ہوا تھا چنانچہ يہى سب چيزيں مل كر شہر كى فصيل كا كام كرتى تھيں صرف ''ابوعبيد'' اور ''راتج'' كے درميان كى جگہ سے حملہ ہوسكتا تھا ، رسول خد ا(ص) نے حكم ديا كہ دس دس آدمى مل كر چاليس چاليس ذراع خندق كھود ڈاليں _

مسلمان پورى لگن ، تعلق خاطر اور دلچسپى كے ساتھ اس كام ميں مشغول ہوگئے اگر كوئي بہت ہى ضرورى كام ہوتا تو وہ رسول خدا (ص) سے اجازت لے كر اپنے كام سے دست كش ہو كر اس جگہ سے جاتے جہاں انہيں متعين كيا گيا تھا چنانچہ ان كے بارے ميں قرآن كا ارشاد ہے _:

( إنَّمَا المُؤمنُوْنَ الَّذيْنَ آمَنُوْا بالله وَرَسُوله وَإذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمر: جَامع: لَم يَذهَبُوا حَتّى

۱۹۵

يَستَأذنُوهُ إنَّ الَّذينَ يَستَأذنُونَكَ أُولَئكَ الَّذينَ يُؤمنُونَ بالله وَرَسُوله ) _(۲۷)

''مؤمن تودر اصل وہى ہيں جو اللہ اور اس كے رسول (ص) كو دل سے مانيں اور جب كسى اجتماعى كام كے موقع پر رسول (ص) كے ساتھ ہوں تو اس سے اجازت لئے بغير نہ جائيں ، اے نبى (ص) جو لوگ تم سے اجازت مانگتے ہيں وہى اللہ اور رسول (ص) كے ماننے والے ہيں''_

اس وقت حضرت سلمان فارسى سب سے زيادہ محنت و ہمت سے كام لے رہے تھے چنانچہ واقدى اور حلبى نے لكھا ہے كہ وہ دس آدميوں كے برابر كام كررہے تھے ان كى اس لگن و جانفشانى كو ديكھ كر مہاجر يں وانصار دونوں كو ہى حيرت ہوتى تھى اور ہر گروہ ان كے بارے ميں يہى كہتا تھا كہ ''سلمان ہمارے اپنے ہيں'' اور جب رسول خدا (ص) نے ان گروہوں كى يہ گفتگو سنى تو فرمايا كہ :''سَلمَانُ منَّا اَُهلَ البَيت ''(۲۸) سلمان تو ميرے اہل بيت ميں سے ہيں _

اگر چہ منافقين بھى بظاہر مومنين كے دوش بدوش خندق كھودنے كے كام ميں لگے ہوئے تھے ليكن انہيں جب بھى موقع ملتا كوئي نہ كوئي بہانہ بنا كر رسول خدا (ص) سے اجازت لئے بغير اپنے كام سے دستكش ہوجاتے اور مختلف بہانوں سے محاذ حق كو كمزور كرنے كى جستجو ميں لگے رہتے _(۲۹)

( قَد يَعلَمُ الله ُ الَّذينَ يَتَسَلَّلُوْنَ منكُم لوَاذًا فَليَحذر الَّذيْنَ يُخَالفُونَ عَن أَمره أَن تُصيْبَهُم فتنَةٌ أَو يُصيْبَهُم عَذَابٌ أَليمٌ )

''اللہ ان لوگوں كو خوب جانتا ہے جو تم ميں ايسے ہيں كہ ايك دوسرے كى آڑ ليتے ہوئے

۱۹۶

چپكے سے چلے جاتے ہيں ، رسول (ص) كے حكم كى خلاف ورزى كرنے والوں كو كسى فتنے ميں گرفتار ہونے يا دردناك عذاب ميں مبتلا ہونے سے ڈرنا چاہئے ''_

خندق كى كھدائي كا كام چھ روز(۳۰) يعنى احزاب كى سپاہ كے مدينے پہنچنے سے تين روز قبل(۳۱) مكمل ہوگيا اور تين ہزار جنگجو مسلمان اس كى پشت پر اپنى اپنى جگہ متعين ہوگئے_(۳۲)

احزاب كى فوج كو جب يہ خندق نظر آئي تو وہ مجبوراً خندق كے اس پار ہى رك گئي اور وہيں انہوں نے اپنے خيمے لگائے_

اندرون مدينہ جنگى محاذ كا كھولنا

سپاہ احزاب كى كثرت' سامان خوراك كى كمي' مكہ و مدينہ كے درميان دورى اور اس قول نے جو قبيلہ ''بنى نضير'' كے سرداروں نے قريش كو ديا تھا ، لشكر احزاب كے سپہ سالاروں كو اس بات پر مجبور كيا كہ مسلمانوں كو جلد از جلد شكست دينے كيلئے اندرون شہر محاذ قائم كريں چنانچہ ''حُيَّى ابن اخطب'' بنى قريظہ كے قلعہ ميں داخل ہوا اور اس كے سردار سے گفتگو كى ، اسے شيطانى مكرو فريب سے مجبور كيا كہ رسول خدا (ص) سے اس نے جو معاہدہ كيا تھا اس كى خلاف ورزى كرے(۳۳) اور اس طرح ''بنى قريظہ'' كے نوسو جنگجو سپاہى مسلمانوں كے خلاف جنگ كيلئے آمادہ ہوگئے تاكہ خندق كے اس پار احزاب كے لشكر كى فتح ونصرت كے لئے پل كا كام دے_

اس خبر كے پھيلنے سے مسلمانوں ميں پريشانى و سراسيمگى كى لہر دوڑ گئي كيونكہ ايك طرف تو دشمن كے دس ہزار سپاہيوں نے ان كا محاصرہ كر ركھاتھا اور دوسرى طرف ''بنى قريظہ'' كے

۱۹۷

يہودى عہد شكنى كركے دشمن كے ساتھ مل گئے تھے اس كے ساتھ ہى منافقين نے بھى رسول خدا (ص) كو طعنے دينے شروع كرديئے وہ آنحضرت (ص) كا مذاق اڑا كر كہتے تھے كہ : محمد (ص) تو ہميں ''قيصر'' اور ''كسري'' كے خزانوں كے سبز باغ ديكھا رہے ہيں اور ہمارى حالت يہ ہے كہ رفع حاجت تك كيلئے بھى اپنے گھروں سے باہر قدم نہيں نكال سكتے ، خدا وپيغمبر (ص) نے ہميں فريب كے علاوہ ديا ہى كيا ہے_(۳۴) قرآن مجيد نے اس بحرانى كيفيت كا ذكر ان الفاظ ميں كيا ہے:

( إذ جَائُوكُم من فَوقكُم وَمن أَسفَلَ منكُم وَإذ زَاغَت الأَبصَارُ وَبَلَغَت القُلُوبُ الحَنَاجرَ وَتَظُنُّونَ بالله الظُّنُونَ _ هُنَالكَ ابتُليَ المُؤمنُونَ وَزُلزلُوا زلزَالًا شَديدًا ) _(۳۵)

''جب دشمن اوپر نيچے سے تم پر چڑھ آئے او رخوف كے مارے تمہارى آنكھيں پتھرا گئيں، كليجے منہ كو آگئے اور تم لوگ اللہ كے بارے ميں طرح طرح كے گمان كرنے لگے ، اس وقت ايمان لانے والے خوب آزمائے گئے اور وہ سخت تزلزل كا شكار ہوئے''_

مومن اس كے باوجود خدا پر توكل اور رسول اكرم (ص) كے وعدوں پر اعتماد كركے ايمان و استقامت پر قائم رہے _

( وَلَمَّا رَا َى المُؤمنُوْنَ الأَحزَابَ قالُوْا هذا مَا وَعَدَنَا الله ُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ الله ُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُم إلاَّ إيمَانًا وَتَسليمًا ) (۳۶)

''اور سچے مومنوں كا حال اس وقت يہ تھا كہ جب انہوں نے حملہ آور لشكروں كو ديكھا تو

۱۹۸

پكاراٹھے كہ ''يہ وہى چيز ہے جس كا اللہ اور اس كے رسول (ص) نے ہم سے وعدہ كيا تھا اللہ اور اس كے رسول (ص) كى بات بالكل سچى تھي'' اور اس واقعہ نے ان كے ايمان اوراطاعت كو اور زيادہ بڑھا ديا''_

ليكن منافق اور ''ضعيف الايمان'' لوگ ايسے مرعوب و وحشت زدہ ہوئے كہ وہ مختلف بہانے بنا كر يہ كوشش كرنے لگے كہ محاذ جنگ سے فرار كركے كسى طرح مدينے چلے جائيں_

( وَإذ قَالَت طَائفَةٌ منهُم يَاأَهلَ يَثربَ لاَمُقَامَ لَكُم فَارجعُوا وَيَستَأذنُ فَريقٌ منهُم النَّبيَّ يَقُولُونَ إنَّ بُيُوتَنَا عَورَةٌ وَمَا هيَ بعَورَة: إن يُريدُونَ إلاَّ فرَارًا ) _(۳۷)

''جب ان ميں سے ايك گروہ نے كہا كہ ''اے يثرب كے لوگو تمہارے لئے اب ٹھہرنے كا كوئي موقع نہيں ہے پلٹ چلو جب ان كا ايك فريق يہ كہہ كر نبى سے رخصت طلب كر رہا تھا كہ '' ہمارے گھر خطرے ميں ہيں '' حالانكہ ان كے گھر خطرے ميں نہ تھے دراصل وہ محاذ سے بھاگنا چاہتے تھے''_

رسول خدا (ص) كى ذمہ دارى اس وقت بہت سخت اور دشوار تھى ايك طرف تو آنحضرت (ص) كو اس سپاہ كے مقابل جس كى تعداد سپاہ اسلام سے تين گنا سے بھى زيادہ تھي، اپنے كمزور محاذ كو مضبوط و آمادہ كرناتھا دوسرى طرف ان غداروں كى سركوبى تھى جو محاذ كے اندر ريشہ دوانى كر رہے تھے ، اس كے ساتھ ہى اس سپاہ كى آپ (ص) كو حوصلہ افزائي كرنى تھى جن كے دل مضطرب اور جانيں لبوں تك پہنچ گئيں تھى ،

ان تمام نامساعد حالات كے باوجود جو اس وقت رونما ہورہے تھے آپ (ص) اپنے اصحاب

۱۹۹

كو فتح و كامرانى كى خوشخبرى بھى دے رہے تھے، جو ان ظاہرى نامساعد (نامناسب) حالت كے پس پشت پنہاں تھي_

رسول خد ا(ص) انتہائي سخت و دشوار حالات يہاں تك كہ بنى قريظہ كى عہد شكنى كے بعد بھى اپنى سپاہ كے حوصلے بلند كرنے كيلئے برابر فتح و كامرانى كا يقين دلا رہے تھے_(۳۸) اور عہد شكنوں كى سازشوں كا توڑ كرنے كے لئے پانچ سو(۵۰۰) سپاہيوں كو تكبير كہتے ہوئے مدينہ كى گليوں ميں گشت كرنے كا حكم ديا تھا_(۳۹)

ايمان و كفر كے نمائندوںكى جنگ

تقريباً ايك ماہ تك مدينہ كا محاصرہ رہا اور قريش كى كوشش لاحاصل رہى ، آخر كار سپاہ مكہ كے پانچ جنگنجو خندق كا وہ حصہ تلاش كرنے ميں كامياب ہوگئے جس كى چوڑائي نسبتاً كم تھا چنانچہ اسے انہوں نے عبور كيا اور سپاہ اسلام كو جنگ كيلئے للكارا_ ''عمروابن عبدود'' سب سے زيادہ رجز يہ اشعار پڑھ رہا تھا(۴۰) وہ لشكر اسلام كو مخاطب كركے كہہ رہا تھا ''تمہيں للكارتے ہوئے اور لڑنے كى دعوت ديتے ديتے ميرى آواز بيٹھ گئي ہے او رميں تھك گياہوں'' ليكن كسى نے اسكى للكار كا جواب نہ ديا_

سپاہ اسلام ميں حضرت على (ع) كے علاوہ كسى اور نے اس كى للكار كا جواب دينے كى جرا ت نہيں كي_ رسول اكرم (ص) نے اپنى شمشير حضرت على (ع) كو عنايت فرمائي او رآپ (ع) كے حق ميں دعا كى جس وقت حضرت على (ع) ''عمرو'' كے مقابل آئے تو رسول خد ا(ص) نے فرمايا :''بَرَزَالايمَانُُ كُلُّهُ الَى الشّرك كُلّه'' يعنى اب كل ايمان سراپا شرك كے مقابلے كيلئے ميدان ميں آگيا ہے_

۲۰۰