تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي18%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139679 / ڈاؤنلوڈ: 4388
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام كتاب: تاريخ اسلام (زندگى پيامبر)(ص) (۱)

مؤلف: مركز تحقيقات اسلامي

مترجم: معارف اسلام پبلشرز

ناشر: نور مطاف

جلد: اول

اشاعت: تیسری

تاريخ اشاعت: ۲۰ جمادی الثانی ۱۴۲۷ ھ_ق

جملہ حقوق طبع بحق معارف اسلام پبلشرز محفوظ ہيں _

۳

مقدمہ ناشر:

ادارہ معارف اسلام پبلشرز اپنى اصلى ذمہ دارى كو انجام ديتے ہوئے مختلف اسلامى علوم و معارف جيسے تفسير، فقہ، عقائد، اخلاق اور سيرت معصومين(عليہم السلام) كے بارے ميں جانے پہچانے محققين كى قيمتى اور اہم تاليفات كے ترجمے اور طباعت كے كام كو انجام دے رہاہے_

يہ كتاب(عہد رسالت ۱) جو قارئين كے سامنے ہے پيغمبر اكرم(صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم) اور آپ(ص) كے اہل بيت اطہار (عليہم السلام) كى سيرت اور تاريخ پر لكھى جانے والى كتابوں كے سلسلے كى ايك كڑى ہے جسے گذشتہ سالوں ميں ترجمہ كرواكر طبع كيا گيا تھا_ اس ترجمہ كے دستياب نہ ہونے اور معزز قارئين كے مسلسل اصرار كے باوجود اس پر نظر ثانى اور اسے دوبارہ چھپوانے كا موقع نہ مل سكا_

خداوند عالم كے لطف و كرم سے اس سال كہ جسے رہبر معظم (دام ظلہ) كى جانب سے رسول اعظم (صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم) كا سال قرار ديا گيا ہے، اس نفيس سلسلے كى پہلى جلد كو ، نظر ثانى اور تصحيح كے بعد دوبارہ زيور طبع سے آراستہ كيا جارہاہے_ ہم اميد كرتے ہيں كہ خداوند متعال كے فضل و كرم ، امام زمان (عجل اللہ تعالى فرجہ الشريف) كى خاص عنايت اور ادارے كے ساتھ تعاون كرنے والے محترم فضلاء كے مزيد اہتمام و توجہ سے اس سلسلے كى بعد والى جلدوں كو بھى جلد از جلدچھپوا كر مطالعہ كے شائقين كى خدمت ميں پيش كرسكيں گے_

ان شاء اللہ تعالى

معارف اسلام پبلشرز

۴

سبق ۱:

تاريخ كى اہميت

تاريخ اسلام كى دوسرى تواريخ پر فوقيت

۵

تاريخ كى تعريف

لغت كى كتابوں ميں تاريخ كے معنى ''زمانے كى تعيين '' كے ہيں_'' اَرَخَ الْكتَابَ وَ اَرَّخَہُ'' اس نے كتاب يا خط پرتاريخ تحرير ثبت كى(۱) _

تاريخ كے اصطلاحى معانى بيان كرتے ہوئے لوگوں نے اس كى مختلف تعريفيں كى ہيں جن ميں سے چند ذيل ميںدرج ہيں :

۱_ايك قديم اور مشہور واقعہ كى ابتدا سے ليكر اس كے بعد رونما ہونے والے دوسرے واقعہ كے ظہور تك كى مدت كا تعين _

۲_سر گذشت يا ايسے قابل ذكر حوادث اورواقعات كہ جنہيں بلحاظ ترتيب زمان منظم و مرتب كيا گيا ہو(۲) _

اقسام تاريخ

علم تاريخ ،اس كى اقسام اور خصوصيات اسى طرح ان ميں سے ہر ايك كے فوائد كے بارے ميں بہت زيادہ بحث و گفتگو كى جا چكى ہے_

استاد شہيد مرتضى مطہرى نے علم تاريخ كى تين قسميں بيان كى ہیں :

۶

۱:_ منقول تاريخ

موجودہ زمانہ كى كيفيت اور حالت كے برعكس ، گزشتہ زمانہ كے واقعات و حادثات اور انسانوں كى حالات اور كيفيات كا علم_

اس ميں سوانح عمرى ' فتح نامے اور سيرت كى وہ تمام كتابيں شامل ہیں جو اقوام عالم ميں لكھى گئي ہيں اور اب بھى لكھى جارہى ہيں _

منقول تاريخ كى خصوصيات

الف: يہ تاريخ جزئي ہوتى ہے مجموعى اور كلى نہيں_

ب: يہ محض منقول ہے اور اس ميں عقل و منطق كو دخل نہيں ہوتا_

ج:محض گذشتہ واقعات كا علم ہے تبديليوں اور تحولات كا نہيں_

(ماضى سے متعلق ہے، حال سے نہيں)

۲: علمى تاريخ

ان آداب و رسوم كا علم جن كا رواج عہد ماضى كے انسانوں ميں تھا اور يہ علم ، ماضى ميں رونما ہونے والے واقعات و حادثات كے مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے _(۴)

۳:فلسفہ تاريخ

معاشروں كے ايك مرحلہ سے دوسرے مرحلہ ميں تغيراور تبديليوں نيز ان تبديليوں پر حاكم قوانين كا علم _(۵)

۷

اس كتاب ميں ہمارا مطمح نظر

اس كتاب كے اسباق ميں اس بات كو مد نظر ركھا گيا ہے كہ سب سے پہلے ان واقعات كو تفصيل سے بيان كياجائے جو پيغمبر اكرم حضرت محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى رسالت كے دوران رونما ہوئے اور اس كے ساتھ ہى ان كا تجزيہ اور تحليل بھى كياجائے اس كے بعد دوسرے مرحلہ ميں ان واقعات سے پندو نصيحت حاصل كى جائے ، ان سے كلى قواعد اور نتائج اخذ كركے پھر انفرادى اور اجتماعى زندگى ميں ان سے استفادہ كيا جائے_ بالخصوص اس بات كے پيش نظر كہ ايران كے اسلامى انقلاب كى تاريخ بھى درحقيقت دوران رسالت و امامت كے تاريخ اسلام كا منطقى تسلسل ہے _ چنانچہ اس عہد كے اكثر حالات و واقعات ہوبہو صدر اسلام كے حالات و اقعات كى طرح تھے_

منقول تاريخ كا درجہ اعتبار

علمى نيز منقول تاريخ كى تشكيل چونكہ ان واقعات كى بنياد پر ہوتى ہے جو عہد ماضى ميں گزر چكے ہيں اس لئے محققين نے اس بات پر بھى بحث كى ہے كہ يہ واقعات كس حد تك معتبر يا غير معتبر ہوسكتے ہيں_

بعض محققين كى رائے يہ ہے كہ متقدمين كى كتابوں ميں منقول تاريخ سے متعلق جو كچھ درج كيا گيا ہے اسے بيان اور قلمبند كرنے والے وہ لوگ ہيں جنہوں نے واقعات كو ذاتى اغراض ، شخصى محركات ، قومى تعصبات يا اجتماعى و فكرى وابستگى كى بنياد پر نقل كيا ہے اور اس ميں تصرف اور تحريف كركے واقعات كو ايسى شكل دى ہے جيسى وہ خود چاہتے تھے يا صرف ان واقعات كوقلمبند كيا ہے جس سے ان كے اغراض و مقاصد پورے ہوتے تھے اور ان

۸

كے عقائد كے ساتھ ميل كھاتے تھے_

منقول تاريخ كے بارے ميں يہ بدگمانى اگر چہ بے سبب و بلاوجہ نہيں اور اس كا سرچشمہ تاريخ كى كتابوں اور مورخين كے ذاتى مزاج اور اسلوب كو قرارديا جاسكتا ہے ليكن اس كے باوجود تاريخ بھى ديگر علوم كى طرح سلسلہ وار مسلمہ حقائق و واقعات پر مبنى ايك علم ہے جن كا تجزيہ و تحليل كيا جاسكتا ہے_

اس كے علاوہ ايك محقق، شواہد و قرائن كى بنياد پر اسى طرح اپنى اجتہادى قوت كے ذريعے بعض حادثات و واقعات كى صحت و سقم معلوم كركے انہى معلومات كى بنياد پر بعض نتائج اخذ كرسكتا ہے _(۶)

تاريخ بالخصوص تاريخ اسلام كى اہميت اور قدر وقيمت

مسلم وغير مسلم محققين اور دانشوروں نے تاريخ بالخصوص تاريخ اسلام وسيرت النبى (ص) كے بارے ميں بہت زيادہ تحقيقات كى ہيں_ انہوں نے مختلف پہلوئوں كا جائزہ لے كر اس كى قدر وقيمت اور اہميت كو بيان كيا ہے_

الف: قرآن كى نظر ميں تاريخ كى اہميت

قرآن كى رو سے ' تاريخ بھى حصول علم و دانش اور انسانوں كے لئے غور وفكر كے ديگر ذرائع كى طرح ايك ذريعہ ہے قرآن نے جہاں انسانوں كو غور وفكر كرنے كى دعوت دى ہے وہاں اس نے غورو فكر كے منابع (يعنى ايسے موضوعات جن كے بارے ميں انسانوں كو غورو فكركركے ان سے ذريعہ شناخت و معرفت كے عنوان سے فائدہ اٹھائے) بھى ان كے

۹

سامنے پيش كئے ہيں_

قرآن نے اكثر آيات ميں انسانوں كو يہ دعوت دى ہے كہ وہ گزشتہ اقوام كى زندگى كا مطالعہ كريں_ان كى زندگى كے سودمند نكات پيش كرنے كے بعد انہيں يہ دعوت دى ہے كہ وہ لائق اور باصلاحيت افراد كو اپنا ہادى و رہنما بنائيں اور ان كى زندگى كو اپنے لئے نمونہ سمجھيں _

حضرت ابراہيم عليہ السلام كے بارے ميں فرماتا ہے:

( قَد كَانَت لَكُم أُسوَةٌ حَسَنَةٌ فى إبرَاهيمَ وَالَّذينَ مَعَهُ ) (۷)

''تم لوگوں كےلئے ابراہيم (ع) اور ان كے ساتھيوں ميں ايك اچھا نمونہ موجود ہے''_

اسى طرح رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے بارے ميں قرآن فرماتا ہے:

( لَقَد كَانَ لَكُم فى رَسُول الله أُسوَةٌ حَسَنَةٌ ) (۸)

''درحقيقت تم لوگوں كے لئے رسول اللہ (ص) كى ذات ايك بہترين نمونہ ہے''_

قرآن كى رو سے تاريخ بشر اور اس كا ارتقاء سلسلہ وار اصول وضوابط اور رسوم و رواج كى بنياد پر مبنى ہے _ عزت و ذلت فتح و شكست اور بدبختى و خوش بختى سب كے سب دقيق و منظم حساب و كتاب كے تحت حاصل ہوتى ہيں ان اصول و ضوابط اورروسوم و رواج كو سمجھنے كے بعد تاريخ پر تسلط حاصل كركے اس كے ذريعے اپنى ذات اور معاشرے كو فائدہ پہنچايا جاسكتا ہے_ مثال كے طور پر درج ذيل آيت ميں خداوند تعالى فرماتا ہے:

( قَد خَلَت من قَبلكُم سُنَنٌ فَسيرُوا فى الأَرض فَانظُروا كَيفَ كَانَ عَاقبَةُ المُكَذّبينَ ) (۱۰)

۱۰

''تم سے پہلے بھى رسوم و رواج اورطور طريقے موجود تھے پس زمين ميں چلو پھرو اور ديكھو كہ (خدا اور انبياء (ع) كو) جھٹلانے والوں كا كيا انجام ہوا ؟''

ب: نہج البلاغہ كى روسے تاريخ كى اہميت

قرآن كے علاوہ آئمہ طاہرين عليہم السلام نے بھى اپنے اقوال ميں شناخت و معرفت كے اس عظيم اور وسيع سرچشمے كى قدر و قيمت كى جانب اشارہ فرمايا ہے چنانچہ اس بارے ميں حضرت على عليہ السلام نہج البلاغہ ميں ارشاد فرماتے ہيں :

(يَابُنَيَّ انّي وَان لَم اَكُن عَمَرتُ عُمرَ مَن كَانَ قَبلي فَقَد نَظَرتُ في اَعمَالهم وَ فَكَّرتُ فى اَخبَارهم وَ سرتُ في آثَارهم حَتّى عُدتُ كَاَحَدهم بَل كَاَنّي بمَا انتَهى الَيَّ مَن اُمُورهم قَد عَمَرتُ مَعَ اَوَّلهم الى آخَرهم فَعَرَفتُ صَفْوَ ذَالكَ من كَدره وَ نَفعَهُ من ضَرَره )_(۱)

''يعنى اے ميرے بيٹے ميرى عمر اگر چہ اتنى لمبى نہيں جتنى گزشتہ دور كے لوگوں كى رہى ہے (يعنى آپ(ع) يہ فرمانا چاہتے ہيں كہ گرچہ ميں نے گذشتہ لوگوں كے ساتھ زندگى نہيں گزاري)ليكن ميں نے ان كے كاموں كو ديكھا ،ان كے واقعات پر غور كيا اور ان كے آثار اور باقيات ميں سير و جستجو كى يہاں تك كہ ميں بھى ان ميں سے ايك ہوگيا بلكہ ان كے جو اعمال و افعال مجھ تك پہنچے ان سے مجھے يوں لگتا ہے كہ گويا ميں نے ان كے ساتھ اول تا آخر زندگى بسر كى ہے پس ان كے كردار كى پاكيزگى و خوبى كو برائي اور تيرگى سے اور نفع كو نقصان سے عليحدہ كر كے پہچانا ''_

۱۱

اميرالمومنين حضرت على عليہ السلام كا يہ بيان اس امر كى وضاحت كرتا ہے كہ آئمہ عليہم السلام كس حد تك عہد گزشتہ كى تاريخ كو اہميت ديتے تھے _

ج: غير مسلم دانشوروں كى نظر ميں تاريخ اسلام كى اہميت

عيسائي دانشور اور اديب جرجى زيدان رقم طراز ہے كہ :

اس ميں شك نہيں كہ تاريخ اسلام كا شمار دنيا كى اہم ترين تاريخوںميں ہوتا ہے_كيونكہ مذكورہ تاريخ قرون وسطى(۲) ميںپورى دنيا كى تاريخ تمدن پر محيط ہے _(۱۲)

يايوں كہنا بہتر ہوگا كہ تاريخ اسلام زنجيركى وہ كڑى ہے جس نے دنيائے قديم كى تاريخ كو جديد تاريخ سے متصل كيا ہے يہ تاريخ اسلام ہى ہے جس سے جديد تمدن كا آغاز اور قديم تمدن كا اختتام ہوتا ہے_

ديگر تواريخ پر تاريخ اسلام كى برتري

تاريخ اسلام كو دوسرى تمام اقوام كى تاريخوں پر بہت زيادہ فوقيت اور برترى حاصل ہے _ ہم اس كے بعض پہلوئوں كى طرف يہاں اشارہ كرتے ہيں _

۱_ سيرت: پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم و ائمہ معصومين عليہم السلام كى سيرت ،كرداراور طرز زندگى سنت كى حيثيت ركھتى ہے اور ان كے اقوال كى طرح اسے بھى امت مسلمہ كے لئے حجت اور سند كا درجہ حاصل ہے_

سيرت نبوي(ص) ہميں يہ درس ديتى ہے كہ ہمارے اخلاق و كردار كونبى (ص) كى سيرت اور راہ وروش كے مطابق ہونا چاہئے جبكہ ديگر تاريخ ميں ايسا بالكل نہيں ہے_ مثال كے طور جرمنى

۱۲

كے فرمانروا ہٹلر اور دوسرى عالمى جنگ كے دوران اس كا كردار ہمارے لئے حجت و سند نہيںبن سكتے ان كافائدہ صرف علمى سطح پر ہى ہوسكتا ہے يا زيادہ سے زيادہ يہ ہوسكتا ہے كہ ہم اس كى زندگى سے عبرت حاصل كریں_

۲_دقت: تاريخ كے جتنے بھى منابع وماخذ موجود ہيں ان ميں معلومات كے لحاظ سے تاريخ اسلام سب سے زيادہ مالامال ہے چنانچہ جب كوئي محقق تاريخ اسلام لكھنا چا ہے تو اسے دقيق تاريخى واقعات وافر مقدار ميں مل جائيں گے_ اس كے علاوہ تاريخ اسلام ميں جس قدر مستند ، باريك اور روشن نكات موجود ہيں وہ ديگرتاريخوںميں نظر نہيں آتے_

اسكى وجہ يہ ہے كہ مسلمان رسول خدا (ص) كى سنت اور سيرت كو حجت تسليم كرتے ہيں اور وہ اسے محفوظ كرنے كى كوشش ميں لگے رہتے تھے_

تاريخ اسلام كے بارے ميں استاد مطہرى رقم طراز ہيں:

پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كو ديگر اديان و مذاہب پر جو دوسرى فضيلت و فوقيت حاصل ہے وہ يہ ہے كہ پيغمبر اسلام(ص) كى تاريخ بہت زيادہ واضح اور مستند ہے _ اس اعتبار سے دنيا كے ديگر راہنما ہمارى برابرى نہيں كرسكتے_ چنانچہ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى زندگى كى ايسى يقينى اور مسلم دقيق باتيں اور ان كى جزئيات ہمارے پاس آج بھى اسى طرح موجود و محفوظ ہيں جو كسى اور كے بارے ميں نہيں ملتيں _ آپ (ص) كا سال ولادت ، ماہ ولادت ، ہفتہ ولادت يہاں تك كہ روز ولادت تك تاريخ كے سينے ميں درج ہے دوران شير خوارگي، وہ زمانہ جو آپ (ص) نے صحراميں بسر كيا ' آپ (ص) كے بچپن اور نوجوانى كا زمانہ، ملك عرب سے

۱۳

باہر آپ(ص) كے سفر، وہ مشاغل جو آپ (ص) نے نبوت سے پہلے انجام ديئے آپ (ص) نے كس سال شادى كى اور اس وقت آپ (ص) كا سن مبارك كيا تھا آپ (ص) كى ازواج كے بطن سے كتنے بچوں كى ولادت ہوئي اور جو بچے آپ (ص) كى رحلت سے قبل اس دنيا سے كوچ كرگئے تھے اور وفات كے وقت ان كى كيا عمريں تھى ،نيز عہد رسالت تك پہنچنے تك كے اكثر واقعات ہميں بخوبى معلوم ہيں اور كتب تاريخ ميںمحفوظ ہيں _اوراس كے بعد تويہى واقعات دقيق تر ہوجاتے ہيں كيونكہ اعلان رسالت جيسا عظيم واقعہ رونما ہوتا ہے _ يہاں وہ پہلا شخص كون تھا جو مسلمان ہوا اس كے بعد دوسرا كون مشرف بااسلام ہوا ، تيسرا شخص جو ايمان لايا كون تھا؟ فلاں شخص كس عمر ميں اور كب ايمان لايا_ دوسرے لوگوں سے آپ(ص) كى كيا گفتگو ہوئي ، كس نے كيا كارنامے انجام ديئےحالات كيا تھے اور كيا راہ و روش اختيار كى سب كے سب دقيق طور پر روشن و عياں ہيں(۹)

۳_ سب سے زيادہ اہم بات يہ ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) كى تاريخ زمانہ ''وحي'' كے دوران متحقق ہوئي _ تيئيس سالہ عہد نبوت كا ہر واقعہ وحى الہى كے نور سے منور ہوا اور اسى كے ذريعہ اس كا تجزيہ اور تحليل كيا گيا_ قرآن مجيد ميں عہد نبوت كے دوران پيش آنے والے بہت سارے مسائل وواقعات كا تذكرہ ہوا ہے جس واقعہ كو قرآن نے بيان كيا ہے اور خداوند عالم الغيب والشہادة نے اسكا تجزيہ و تحليل كيا ہے ،وہ تجزيہ تاريخى واقعات كے بارے ميں بلا شبہ مستند ترين و دقيق ترين نظريہ اور تجزيہ ہے_ اگر ہم واقعات كے بارے ميں غورو فكر كريں تو اس نظريئے اور تجزيئے كى روشنى ميں ہم ديگر تمام واقعات كى حقيقت تك پہنچ سكتے ہيں اور ان سے نتائج اخذ كركے دوسرے واقعات كا بھى اسلامى و قرآنى طرز تحليل معلوم كرسكتے ہيں_

۱۴

عہد رسالت كى تاريخ خود ذات گرامى پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى طرح انسانيت كےلئے بہترين مثال اور نمونہ عمل ہے _ چنانچہ تاريخ انسانيت كےلئے بھى يہى تاريخ بہترين نمونہ و مثال ثابت ہوسكتى ہے اور تاريخى رسوم و رواج كے لئے ہم اسے سودمندترين اور مالامامل ترين ماخذ كے طور پر بروئے كار لاسكتے ہيں_

۱۵

سوالات

۱_ ''تاريخ'' كى لغوى اور اصطلاحى تعريف كيجئے؟

۲_تاريخ كى مختلف اقسام بيان كيجئے؟

۳_منقول تاريخ كى تعريف كيجئے اور خصوصيات بتائے؟

۴_بعض لوگ منقول تاريخ سے بد ظن ہيں اس كا كيا سبب ہے، بيان كيجئے؟

۵_قرآن مجيد كى رو سے تاريخ كى اہميت بيان كيجئے؟

۶_تاريخ اسلام كو ديگر تواريخ پر كيا فوقيت حاصل ہے؟ اس كى كوئي ايك مثال مختصر طور

پر بيان كيجئے؟

۱۶

حوالہ جات

۱_ ملاحظہ ہو :القاموس المحيط لفط'' ارخ''_

۲_ تاريخ سياسى معاصر ايران ، ج ۱ ، ص ۷_

۴_علمى اورمنقول تاريخ ميں فرق يہ ہے كہ علمى تاريخ صرف كلى اور عقلى ہى نہيں ہوتى ہے بلكہ يہ تاريخ مرتب ہى منقول تاريخ كى بنياد پر ہوتى ہے (يعنى علمى تاريخ ميں منقول تاريخ بھى شامل ہوتى ہے _ مترجم) جب مورخ اس نوعيت كى تاريخ لكھتا ہے تو وہ يہ بھى دريافت كرنا چاہتا ہے كہ تاريخى واقعات كى ماہيت اور طبيعت نيز ايك دوسرے كے ساتھ ان كا ربط اور تاريخ سازى ميں ان كا كيا كردار رہا ہے تاكہ اصول علت و معلول كے تحت وہ ايسے عام قواعد و ضوابط مرتب كرسكے جن كا اطلاق عہد ماضى و حال دونوں پر ہوسكے اس بناپر اس علم كا موضوع ہر چند عہد گزشتہ كے واقعات ہيں مگر اس سے مورخ ايسے مسائل اور قواعد و ضوابط استخراج كرتا ہے جن كا تعلق فقط عہد ماضى سے نہيں ہوتابلكہ ان كا اطلاق زمانہ حال و مستقبل پر بھى ہوسكتا ہے جامعہ وتاريخ نامى كتاب كے صفحہ ۳۵۲ كا خلاصہ_

۵_ملاحظہ ہو جامعہ وتاريخ ص ۳۵۱_ ۳۵۲ مطبوعہ دفتر انتشارات اسلامى _ اس مفہوم ميں علم تاريخ درحقيقت كسى معاشرے كے ايك مرحلہ سے دوسرے مرحلہ ميں ارتقاء كا علم ہے كسى خاص مرحلے ميں ان كى بود و باش اور ان كے حالات كا علم نہيں_ دوسرے لفظوں ميں يہ صرف گذشتہ واقعات كا ہى نہيں بلكہ معاشروں ميں تبديليوں كا علم ہے_ اس بناپر فلسفہ تاريخ كے موضوعات كے '' تاريخي'' ہونے كا معيار صرف يہ نہيں كہ ان كا تعلق گذشتہ زمانے سے ہے بلكہ يہ ان سلسلہ وار واقعات كا علم ہے جن كا آغاز ماضى ميں ہوا اور ان كا سلسلہ ابھى تك بھى جارى و سارى ہے_

۶_شہيد مطہرى كى كتاب جامعہ و تاريخ سے اقتباس_

۷_سورہ ممتحنہ آيت ۴

۱۷

۸_احزاب ۲۱

۹_سيرہ نبوى (ص) ص ۵ و ۶ طبع انتشارات اسلامى تہران (ايران)

۱۰_ آل عمران آيت ۱۳۷

۱۱_ نہج البلاغہ مكتوب نمبر۳۱ _ يہ خط حضرت على (ع) نے اپنے عزيزفرزند حضرت امام حسن عليہ السلام كےلئے مرقوم فرمايا تھا

۱۲_قرون وسطى كا آغاز سنہ ۴۷۶ ميں ہوااور اس كا اختتام ۱۴۵۳ (۸۳۳ ہجري) عيسوى ميں سلطان محمد فاتح كے قسطنطنيہ كو فتح كرنے كے سال ہوا(ملاحظہ ہو تاريخ سياسى معاصر ايران ج ۱/۸)

۱۸

سبق ۲:

اسلام سے قبل جزيرہ نما ئے عرب كى حالت

۱۹

حدود اربعہ اور محل وقوع

جزيرہ نما ئے عرب 'براعظم ايشيا كے جنوب مغرب ميں واقع ہے اس كے شمال ميں عراق اور اردن مشرق ميں خليج فارس جنوب ميں بحر عمان اور مغرب ميں بحر احمر اور خليج عقبہ واقع ہے_

اس جزيرہ نما كارقبہ تيس لاكھ مربع كلوميٹر سے زيادہ ہے_ اور جغرافيائي اعتبار سے تين حصوںميں تقسيم ہوتا ہے_

۱_ مركزى حصہ صحرائے عرب كے نام سے مشہور ہے اور يہ اس جزيرہ نماكا وسيع ترين علاقہ ہے_

۲_شمالى علاقہ كا نام حجاز ہے_ حجاز'' حَجَزَ''سے مشتق ہے جس كے معنى حائل اور مانع ہيں_ چونكہ يہ سرزمين نجد اور تہامہ كے درميان واقع اور دونوں علاقوں كے باہم ملاپ سے مانع ہے اسى لئے اس علاقے كو حجاز كہاجاتا ہے_(۱)

۳_ اس جزيرہ نما كا جنوبى حصہ بحر ہند او ربحر احمر كے ساحل پر واقع ہے جس ميں يمن اور حضر موت كے علاقے شامل ہيں_

جنوبى علاقے كے علاوہ جزيرہ نما كا پورا علاقہ مجموعى طور پر خشك اور بے آب و گياہ صحرا پر مشتمل ہے مگر بعض جگہوں پر اس ميں نخلستان بھى پائے جاتے ہيں _

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

کی سرسراہٹ پہ چونک اٹھتی ہیں

بادِ صرصر کے ہاتھ سے بچنے

والے پھولوں کو چومتی ہیں

چھپانے لگتی ہیں اپنے دل میں

بدلتے، سفاک موسموں کی ادا شناسی نے چشمِ

حیرت کو سہمناکی کا مستقل رنگ دے دیا ہے

چمکتے نیزوں پہ سارے پیاروں کے سر سجے ہیں

کٹے ہوئے سر

شکستہ خوابوں سے کیسا پیمان لے رہے ہیں

کہ خالی آنکھوں میں روشنی آتی جا رہی ہے

***

۴۱

میں نوحہ گر ہوں

امجد اسلام امجد

میں نوحہ گر ہوں

میں اپنے چاروں طرف بکھرتے ہوئے زمانوں کا نوحہ گر ہوں

میں آنے والی رتوں کے دامن میں عورتوں کی اداس بانہوں کو دیکھتا ہوں

اور انکے بچوں کی تیز چیخوں کو سن رہا ہوں

اور انکے مَردوں کی سرد لاشوں کو گن رہا ہوں

میں اپنے ہاتھوں کے فاصلے پر فصیلِ دہشت کو چھو رہا ہوں

زمیں کے گولے پر زرد کالے تمام نقطے لہو کی سرخی میں جل رہے ہیں

نئی زمینوں کے خواب لے کر

مسافر اِن تباہ یادوں کے ریگ زاروں میں چل رہے ہیں میں نو

حہ گر ہوں مسافروں کا جو اپنے رستے سے بے خبر ہیں میں ہوش والوں کی بد حواسی کا نوحہ گر ہوں

حُسین،

میں اپنے ساتھیوں کی سیہ لباسی کا نوحہ گر ہوں

ہمارے آگے بھی کربلا ہے، ہمارے پیچھے بھی کربلا ہے

حُسین، میں اپنے کارواں کی جہت شناسی کا نوحہ گر ہوں

نئے یزیدوں کو فاش کرنا ہے کام میرا

ترے سفر کی جراحتوں سے

ملا ہے مجھ کو مقام میرا

حُسین، تجھ کو سلام میرا

***

۴۲

آنسوؤں کے موسم میں

اقبال ساجد

حُسین تیرے لیے خواہشوں نے خوں رویا

فضائے شہرِ تمنّا بہت اداس ہوئی

*

غبارِ ظلم پہ رنگِ شفق بھڑک اٹھا

زمیں پہ آگ بگولا گُلوں کی باس ہوئی

*

غموں کو کاشت کیا آنسوؤں کے موسم میں

یہ فصل اب کے بہت دل کے آس پاس ہوئی

*

وہ پیاس جس کو سمندر سلام کرتے ہیں

ہوئی تو تیرے لبوں سے ہی روشناس ہوئی

*

جو تُو نے خون سے لکھی حُسین وہ تحریر

کتابِ حق و صداقت کا اقتباس ہوئی

*

کبھی بجھا نہ سکے گی ترے چراغ کی لو

کہ جمع تیری امانت ہوا کے پاس ہوئی

*

دکھوں میں ڈوب گئی دشتِ کربلا کی سحر

ہوائے شام ترے غم میں بد حواس ہوئی

***

۴۳

قتیل شفائی

سلام اس پر کہ سب انسانیت جس سے شناسا ہے

پسر ہے جو علی کا اور محمّد کا نواسہ ہے

*

تضاداتِ مشیت دیکھئے، اس کے حوالے سے

جو اپنی ذات میں ہے اک سمندر، اور پیاسا ہے

*

برہنہ سر، لٹی املاک اور کچھ راکھ خیموں کی

مدینے کے سفر کا بس اتنا سا ہی اثاثہ ہے

*

علی اصغر تکے جاتے ہیں اس عالم کو حیرت سے

نہ لوری پیاری امّاں کی، نہ بابا کا دلاسہ ہے

*

کسی نے سر کٹایا اور بیعت کی نہ ظالم کی

سنی تھی جو کہانی، اس کا اتنا سا خلاصہ ہے

*

نہ مانگا خوں بہا اپنا خدا سے روزِ محشر بھی

مگر نانا کی امّت کے لیے ہاتھوں میں کاسہ ہے

*

قتیل اب تجھ کو بھی رکھنا ہے اپنا سر ہتھیلی پر

کہ تیرے شہر کا ماحول بھی اب کربلا سا ہے

*

قتیل اس شخص کی تعظیم کرنا فرض ہے میرا

جو صورت اور سیرت میں محمّد مصطفیٰ سا ہے

***

۴۴

عبدالحمید عدم

تھا کربلا کو ازل سے جو انتظارِ حُسین

وہیں تمام ہوئے جملہ کاروبارِ حسین

*

دکانِ صدق نہ کھولو، اگر نہیں توفیق

کہ جاں چھڑک کے نکھرتا ہے کاروبارِ حسین

*

وہ ہر قیاس سے بالا، وہ ہر گماں سے بلند

درست ہی نہیں اندازۂ شمارِ حسین

*

کئی طریقے ہیں یزداں سے بات کرنے کے

نزولِ آیتِ تازہ ہے یادگارِ حسین

*

وفا سرشت بہتّر نفوس کی ٹولی

گئی تھی جوڑنے تاریخِ زر نگارِ حسین

***

۴۵

فارغ بخاری

حُسین نوعِ بشر کی ہے آبرو تجھ سے

حدیثِ حرمتِ انساں ہے سرخرو تجھ سے

*

ملایا خاک میں تُو نے ستمگروں کا غرور

یزیدیت کے ارادے ہوئے لہو تجھ سے

*

بہت بلند ہے تیری جراحتوں کا مقام

صداقتوں کے چمن میں ہے رنگ و بُو تجھ سے

*

ترے لہو کا یہ ادنیٰ سا اک کرشمہ ہے

ہوئی ہے عام شہادت کی آرزو تجھ سے

*

کبھی نہ جبر کی قوت سے دب سکا فارغ

ملی ہے ورثے میں یہ سر کشی کی خُو تجھ سے

***

۴۶

عطاء الحق قاسمی

جب بھی شام کو سورج ڈوبنے لگتا ہے

ایسے میں یہ دل بھی ڈولنے لگتا ہے

*

آنکھوں میں پھر جاتی ہے وہ سوہنی صورت

اور پھر دل پر خنجر چلنے لگتا ہے

*

اس کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں

خیموں میں کوئی بچہ رونے لگتا ہے

*

چاروں جانب گھیرا جھوٹ کے لشکر کا

سچ کا سایہ اس پر پھیلنے لگتا ہے

*

سچ کا سایہ حُر کی صورت سامنے ہے

وہ ہر دل پر دستک دینے لگتا ہے

*

حرص و ہوس کے بندے لیکن کیا جانیں

مرنے والا کیسے جینے لگتا ہے

*

لیکن تم مایوس نہ ہونا دل والو

دل جو سوچتا ہے وہ ہونے لگتا ہے

****

۴۷

خالد احمد

اے لب گرفتگی، وہ سمجھتے ہیں پیاس ہے

یہ خستگی تو اہلِ رضا کا لباس ہے

*

اے تشنگی، یہ حُسنِ محبت کے رنگ ہیں

اے چشمِ نم، یہ قافلۂ اہلِ یاس ہے

*

یہ عشق ہے کہ وسعتِ آفاقِ کربلا

یہ عقل ہے کہ گوشۂ دشتِ قیاس ہے

*

سایہ ہے سر پہ چادرِ صبر و صلوٰۃ کا

بادل کی آرزو ہے نہ بارش کی آس ہے

*

سوئے دمشق صبر کا سکہ رواں ہوا

اک رخ پہ ہے خراش تو اک رخ پہ لاس ہے

*

اے زینِ عابدین، امامِ شکستگاں

زنجیر زن ہواؤں میں کس خوں کی باس ہے

*

اے سر بلند و سر بہ فلک اہلِ دین و دل

مدفون کربلا میں ہماری اساس ہے

*

۴۸

تاجِ سرِ نیاز کا ہالہ ہے رفتگی

آہِ امامِ دل زدگاں آس پاس ہے

*

ممکن ہے کسطرح وہ ہماری خبر نہ لیں

ہر سانس، تارِ پیرہنِ التماس ہے

*

خالد شکست و فتح کے معنی بدل گئے

بازارِ شام ہے کہ شبِ التباس ہے

***

۴۹

محمد اعظم چشتی

جہانِ عشق و محبّت ہے آستانِ حُسین

نشانِ حق و صداقت ہے آستانِ حُسین

*

حدیثِ صدق و صفا، داستانِ صبر و رضا

بنائے شوقِ شہادت ہے آستانِ حُسین

*

جہاں میں مسکن و ماوا ہے اہلِ ایماں کا

دیارِ حُسنِ عقیدت ہے آستانِ حُسین

*

زمانہ کہتا ہے جس کو جمالِ لم یزلی

اسی جمال کی حجّت ہے آستانِ حُسین

*

نظر گئی مگر اب تک نہ لوٹ کر آئی

وہ برجِ اوجِ امامت ہے آستانِ حُسین

*

جو دیکھنا ہو تو میری نگاہ سے دیکھو

گناہ گاروں کی جنّت ہے آستانِ حُسین

*

یہیں سے جلتے ہیں اعظم حقیقتوں کے چراغ

ضیائے شمعِ نبوت ہے آستانِ حُسین

***

۵۰

رباعیات ۔

کنور مہندر سنگھ بیدی سحر

نغمۂ بربطِ کونین ہے فریادِ حُسین

جادۂ راہِ بقا مسلک آزاد حُسین

شوخیِ لالۂ رنگین ہے کہیں خونِ شفق

کس قدر عام ہوئی سرخیِ رودادِ حُسین

***

زندہ اسلام کو کیا تُو نے

حق و باطل کو دکھا دیا تُو نے

جی کے مرنا تو سب کو آتا ہے

مر کے جینا سکھا دیا تُو نے

***

بڑھائی دینِ مُحمد کی آبرو تُو نے

جہاں میں ہو کے دکھایا ہے سرخرو تُو نے

چھڑک کے خون شہیدوں کا لالہ و گل پر

عطا کیے ہیں زمانے کو رنگ و بُو تُو نے

***

لب پہ جب شاہِ شہیداں ترا نام آتا ہے

ساقی بادۂ عرفاں لیے جام آتا ہے

مجھ کو بھی اپنی غلامی کا شرف دے دیتے

کھوٹا سکہ بھی تو آقا کبھی کام آتا ہے

****

۵۱

سبط علی صبا

جمود ذہن پہ طاری تھا انقلاب نہ تھا

سکونِ قلب کہیں سے بھی دستیاب نہ تھا

*

حصارِ ظلم کی بنیاد کو اکھاڑ دیا

جہاں میں تجھ سا کوئی بھی تو فتح یاب نہ تھا

*

کچھ اس لیے بھی ترے نام کے ہوئے دشمن

تو وہ سوال تھا جس کا کوئی جواب نہ تھا

*

کچھ اس طرح سے بہتر کا انتخاب کیا

کسی رسول کا بھی ایسا انتخاب نہ تھا

*

حسین ابنِ علی کو نہ آفتاب کہو

وہ جب تھا جب کہ کہیں نامِ آفتاب نہ تھا

*

حُسین مصدرِ اُمّ الکتاب کیا کہنا

بجز تمھارے کوئی وارثِ کتاب نہ تھا

*

حُسین باعثِ تخلیقِ کائنات ہے تُو

غضب ہے تیرے لیے کربلا میں آب نہ تھا

***

۵۲

گردھاری پرشاد باقی

سلامی کربلا ہے اور میں ہوں

غمِ کرب و بلا ہے اور میں ہوں

*

کہا شہ نے نہیں کوئی رفیق اب

فقط ذاتِ خدا ہے اور میں ہوں

*

دیا ہے اپنا سر میں نے خوشی سے

قضا ہے یا رضا ہے اور میں ہوں

*

جو کچھ وعدہ کیا پورا کروں گا

یہ خنجر ہے گلا ہے اور میں ہوں

***

۵۳

نظم طباطبائی

چمکا خدا کا نور عرب کے دیار میں

پھیلی شعاع ہند میں چین و تتار میں

*

پہنچا ستارہ اوج پہ دینِ حُسین کا

اب تک تھا گردشِ فلکِ کج مدار میں

*

چونکیں ذرا یہود و نصاریٰ تو خواب سے

آئی نسیم صبحِ شبِ انتظار میں

*

وردِ زبانِ پاک صحیفہ ہے نور کا

اترا تھا جو خلیل پہ گلزارِ نار میں

*

ہے یاد دشت میں گہر افشانیِ کلیم

اور موعظ مسیح کا وہ کوہسار میں

*

موسیٰ کی رات کی مناجات طُور پر

داؤد کا وظیفہ وہ صبح بہار میں

*

بت ہو گیا ہے سنگ سرِ بت پرست پر

سرکہ بنی شراب کہن بادہ خوار میں

*

وہ جام پی کے اٹھ گئے پردے نگاہ سے

دریائے علم و نور کو پایا کنار میں

***

۵۴

ثروت حسین

کس کی خوں رنگ قبا آتی ہے

روشنی اب کے سوا آتی ہے

*

ساعتِ علم و خبر سے پہلے

منزلِ کرب و بلا آتی ہے

*

روزِ پیکار و جدل ختم ہوا

شبِ تسلیم و رضا آتی ہے

*

گریہ و گرد کا ہنگام نہیں

دل دھڑکنے کی صدا آتی ہے

*

پھر سرِ خاکِ شہیداں ثروت

پھول رکھنے کو ہوا آتی ہے

****

۵۵

صدائے استغاثہ

افتخار عارف

ھَل مِن ناصِرٍ یَنصَرنا

ھَل مِن ناصِرٍ یَنصَرنا

کیا کوئی ہے جو میری مدد کو پہنچے گ

کیا کوئی ہے جو میری مدد کو پہنچے گا

صدیوں پہلے دشتِ بلا میں اک آواز

سنائی دی تھی

جب میں بہت چھوٹا ہوتا تھا مری امی کہتی تھی

یہ جو صفِ عزا بچھتی ہے اسی صدا کی

بازگشت ہے

اسی صدا پر بستی بستی گریہ و زاری کا

سامان کیا جاتا ہے

اور تجدیدِ بیعتِ نصرت کا اعلان کیا

جاتا ہے

تب میں پہروں بیٹھ کے پیارے پیارے

اچھے اچھے لوگوں کی باتیں سنتا تھا

سچے سچے لوگوں کی باتیں پڑھتا تھا اور پہروں روتا تھا

اور اب برسوں بیت گئے ہیں

۵۶

جن آنکھوں میں آنسو تھے اب ان آنکھوں میں حیرت ہے

سچائی کی گواہی دینے والے آخر ظالم کو

ظالم کہنے سے ڈرتے کیوں ہیں؟

موت سے پہلے مرتے کیوں ہیں؟

***

۵۷

شورش کاشمیری

قرنِ اوّل کی روایت کا نگہ دار حسین

بس کہ تھا لختِ دلِ حیدرِ کرار حسین

*

عرصۂ شام میں سی پارۂ قرآنِ حکیم

وادیِ نجد میں اسلام کی للکار حسین

*

سر کٹانے چلا منشائے خداوند کے تحت

اپنے نانا کی شفاعت کا خریدار حسین

*

کوئی انساں کسی انساں کا پرستار نہ ہو

اس جہاں تاب حقیقت کا علمدار حسین

*

ابو سفیان کے پوتے کی جہانبانی میں

عزّتِ خواجۂ گیہاں کا نگہ دار حسین

*

کرۂ ارض پہ اسلام کی رحمت کا ظہور

عشق کی راہ میں تاریخ کا معمار حسین

*

جان اسلام پہ دینے کی بنا ڈال گیا

حق کی آواز، صداقت کا طرفدار حسین

*

۵۸

دینِ قیم کے شہیدوں کا امامِ برحق

حشر تک امّتِ مرحوم کا سردار حسین

*

ہر زمانے کے مصائب کو ضرورت اس کی

ہر زمانے کے لیے دعوتِ ایثار حسین

*

کربلا اب بھی لہو رنگ چلی آتی ہے

دورِ حاضر کے یزیدوں سے دوچار حسین

***

۵۹

شہزاد احمد

وعدہ کر کے بھی نہیں ساتھ نبھانے والے

کتنے بیدرد ہیں یہ لوگ زمانے والے

*

اہلِ کوفہ نے بلایا تو چلے آئے ہیں

کیسے سادہ ہیں محمد کے گھرانے والے

*

رحم کرتے ہیں تو اس کی بھی نہیں حد کوئی

کسی سفاک کو خاطر میں نہ لانے والے

*

فیصلہ آپ کریں، آپ کو کرنا کیا ہے؟

آپ پر چھوڑتے ہیں شمع بجھانے والے

*

ظلم کے تیروں سے چھلنی ہیں حسین ابنِ علی

غلبۂ کفر سے دنیا کو بچانے والے

*

ظلم کرنے پہ تلی بیٹھی ہے دنیا ساری

اور ہم لوگ فقط سوگ منانے والے

*

عرصۂ دہر میں باقی نہیں رہتا کچھ بھی

خاک ہو جاتے ہیں خیموں کو جلانے والے

*

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313