تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي25%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139674 / ڈاؤنلوڈ: 4388
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

دونوں جنگجوؤں نے رجزيہ اشعار پڑھتے ہوئے قبضہ شمشير كو ہاتھ ميں ليا اور ايك دوسرے پر وار كرنے لگے ديكھتے ہى ديكھتے اميرالمومنين حضرت على (ع) كا نعرہ تكبير ميدان كارزار ميں بلند ہوا اور رسول خد ا(ص) نے فرمايا كہ خدا كى قسم على (ع) نے اسے مار گرايا _

''عمرو'' كے ساتھيوں نے جب اسے خاك و خون ميں لوٹتے ديكھا تو وہ ميدان جنگ سے بے محابہ بھاگ نكلے_(۴۱)

''عمرو'' كے مارے جانے كے بعد قريش كے حوصلے پست پڑگئے ، احزاب كے سرداروں نے جب اپنى انتقام جويانہ كاروائي اور ديگران عوامل ميں جن كا آيندہ ذكر كيا جائے گا ، خود كو بے دست و پا پايا تو انہوں نے محاصرہ كو جارى ركھنے كا خيال ترك كرديا اور واپس مكہ چلے گئے_

غزوہ احزاب ميں جانبازان اسلام ميں سے چھ افراد نے جام شہادت نوش كيا اور مشركين كے آٹھ سپاہى مارے گئے(۴۲) اور اسطرح ۲۳ ذيقعدہ سنہ ۵ ہجرى كو يہ جنگ ختم ہوئي(۴۳) اور احزاب كا لشكر شرمناك شكست سے دوچار ہو كر اپنے گھروں كو سدھارا _

۲۰۱

سوالات

۱_ جنگ احد ميں مسلمانوں كى شكست كے كيا اسباب تھے ؟ مختصر طور پر بيان كيجئے_

۲_ جنگ احد ميں مسلمان جس شكست سے دوچار ہوئے اس كے بارے ميں قرآن كا نظريہ مختصر طور پر بيان كيجئے؟

۳_جنگ احد كى شكست سے مسلمانوں كو كيا فائدہ پہنچا اور اس كے كيا مثبت نتائج برآمد ہوئے ؟

۴_غزوہ ''حمراء الاسد'' كا واقعہ كس طرح پيش آيا ، اس ميں كن لوگوں نے شركت كى اور اس كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟

۵_جنگ''احد '' اور''احزاب'' كے درميان كون سے اہم واقعات رونما ہوئے مختصر طور پر ان كى كيفيت بيان كيجئے_

۶_جنگ احزاب كن لوگوں كى تحريك كى باعث وقوع پذير ہوئي؟

۷_ رسول خد ا(ص) كو جب لشكر احزاب كى سازش كا علم ہو اتوآپ (ص) نے كيا اقدام فرمايا ؟

۸_ جب مسلمانوں كو ''بنى قريظہ'' كى عہد شكنى كا علم ہوا تو ان كے دلوں پر كيا گزري؟

۹_ جنگ احزاب كس تاريخ كو اور كس طرح اختتام پذير ہوئي؟

۲۰۲

حوالہ جات

۱_سورہ آل عمران ۱۵۲

۲_ان كى اس بدگمانى كے جواب ميں آل عمران كى آيت ۱۶۱ نازل ہوئي : وَمَاكَانَ لنَبّى اَن يَغُلّ (... ''كسى نبى كايہ كام نہيں ہوسكتا كہ وہ خيانت كرجائے)

۳_سورہ آل عمران آيہ ۱۵۲

۴_خداوند تعالى نے سورہ آل عمران كى آيت ۱۵۴ ميں ان كے اس گمان كے بارے ميں ذكر كيا ہے (ملاحظہ ہو : الميزان ج ۴ صفحات ۴۷_۴۸)

۵_آل عمران /۴۲

۶_آل عمران / ۱۵۴

۷_يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ اس افواہ كا بڑا فائدہ يہ ہوا كہ اس كى وجہ سے رسول خدا (ص) كو دشمن كى چنگل سے نجات مل گئي كيونكہ جب رسول خدا (ص) كے قتل كئے جانے كى افواہ گشت كرگئي تو دشمن نے لاشوں كى درميان آنحضرت (ص) كو تلاش كرنا شروع كرديا اور اسے آپ(ص) كا تعاقب كرنے كا خيال ہى نہ آيا_

۸_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۲۲۷ ، قرآن مجيد نے سورہ آل عمران كى آيت ۱۴۴ ميں اس طرز فكر كو بيان كيا ہے :

(وَمَا مُحَمَّدٌ إلاَّ رَسُولٌ قَد خَلَت من قَبلہ الرُّسُلُ أَفَإين مَاتَ أَو قُتلَ انقَلَبتُم عَلَى أَعقَابكُم وَمَن يَنقَلب عَلَى عَقبَيہ فَلَن يَضُرَّ الله َ شَيئًا)_''محمد (ص) بس ايك رسول ہيں ، ان سے پہلے اور رسول بھى گزرچكے ہيں پھر كيا اگر وہ مرجائيں يا قتل كرديئے جائيں تو تم لوگ الٹے پائوں پھر جائو گے؟ ياد ركھو جو الٹا پھرے گا وہ اللہ كا كچھ نقصان نہ كرے گا''_

۹_سورہ آل عمران/ ۱۶۶

۱۰_سورہ آل عمران / ۱۶۵

۱۱_سورہ آل عمران / ۱۳۹

۲۰۳

۱۲_سورہ آل عمران / ۱۴۰

۱۳_سورہ آل عمران / ۱۶۵

۱۴_سورہ آل عمران / ۱۴۳

۱۵_سورہ آل عمران / ۱۴۶_۱۴۷

۱۶_سورہ آل عمران / ۱۴۱

۱۷_سورہ آل عمران / ۱۵۴

۱۸_سورہ آل عمران / ۷۲

۱۹_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۲۵۶

۲۰_قمى مرحوم نے ايك روايت كى بناپر يہ بھى بيان كيا ہے كہ : اس مشق ميں صرف زخميوں كو شركت كرنے كى دعوت دى گئي تھى _ملاحظہ ہو : بحارالانوار ج ۲۰ ص ۶۴

۲۱_يہ جگہ مدينہ سے تقريباً ۸ ميل (۱۶ كلوميٹر) كے فاصلے پر واقع ہے ملاحظہ ہو : معجم البلدان ج ۲ ص ۳۰۱

۲۲_سورہ آل عمران / ۱۷۲

۲۳_مدينہ سے ۳۵ يا ۴۲ يا ۴۳ ميل كے فاصلے پر يہ جگہ تھى (ملاحظہ ہو : الصحيح من السيرة النبى (ص) ج ۴ ص ۳۳۵_ ۳۳۶)

۲۴_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۲۵۷_۲۵۹

۲۵_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۲۵۶

۲۶_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۰۹

۲۷_سورہ نور آيت ۶۲

۲۸_المغازى ج ۲ ص ۴۴۶ _ ۴۴۷ والسيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۱۳

۲۹_السيرة النبويہ ج ۳ ص ۲۲۶ ' ابن ہشام نے لكھا ہے كہ سورہ نور كى آيت ۶۳ ايسے ہى لوگوں كيلئے نازل ہوئي ہے _

۳۰_المغازى ج ۲ ص ۴۵۴

۲۰۴

۳۱_بحارالانوار ج ۲۰ ص ۲۲۱

۳۲_تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۷۰

۳۳_السيرة النبويہ ج ۳ ص ۲۳۱

۳۴_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۱۸

۳۵_سورہ احزاب آيت ۱۰ _ ۱۱

۳۶_سورہ احزاب آيت ۲۲

۳۷_سورہ احزاب آيت ۱۳

۳۸_السيرة النوبيہ ج ۳ ص ۲۳۳

۳۹_ المغازى ج ۲ ص ۴۶۰_

۴۰_وہ جنگ بدر ميں ايسا سخت زخمى ہوا تھا كہ جنگ احد ميں شريك ہونے كے قابل نہ رہا تھا_ اس كے بارے ميں مشہور تھا كہ بہادرى ميں وہ اكيلا ايك ہزار پر بھارى ہے _ بحارالانوار ج ۲۰ ص ۲۰۲

۴۱_بحارالانوار ج ۲۰ ص ۲۰۳_۲۱۵

۴۲_تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۵۱

۴۳_ المغازى ج ۲ ص ۴۴۰

۲۰۵

سبق ۱۲:

غزوات بنى قريظہ ، بنى مصطلق اور صلح حديبيہ

۲۰۶

لشكر احزاب كى شكست كے اسباب

جنگ احزاب ميں اسلام كے خلاف شرك كى سب سے بڑى طاقت كے شكست پذير ہونے كے مختلف اسباب و عوامل تھے جن ميں سے چند ذيل ميں درج ہيں:

۱_خداوند تعالى كى مخفى اور علانيہ مدد:

( يَاأَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اذكُرُوا نعمَةَ الله عَلَيكُم إذ جَائَتكُم جُنُودٌ فَأَرسَلنَا عَلَيهم ريحًا وَجُنُودًا لَم تَرَوهَا وَكَانَ الله ُ بمَا تَعمَلُونَ بَصيرًا ) _(۱)

''اے ايمان والو ياد كرو اللہ كے احسان كو جو (ابھى ابھي) اس نے تم پر پر كيا ہے ، جب تم پر (احزاب كے)لشكر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر شديد آندھى بھيجى اور ايسى فوجيں روانہ كيں جو تم كو نظر نہ آتى تھى اللہ وہ سب كچھ ديكھ رہا تھا جو تم اس وقت كر رہے ''_

۲_لشكر احزاب كے پہنچنے سے قبل خندق كا تيار ہوجانا جس كى وجہ سے نہ صرف دشمن شہر ميں داخل نہ ہوسكا بلكہ اس كے حوصلے بھى پست ہوگئے اور نفسياتى لحاظ سے اس پر كارى ضرب تھي_

۳_اميرالمومنين حضرت على عليہ السلام كى دليرى اور شجاعت كے باعث مشركين كا سب سے بڑا بہادر ''عمرو بن عبدود'' ہلاك ہوا ، حضرت على (ع) كى (تقدير ساز كارى )ضرب

۲۰۷

مسلمانوں كے حوصلے بلند كرنے ميں نہايت مفيد اور كفار كے حوصلے پست كرنے ميں انتہائي كارآمد ثابت ہوئي _(۲)

۴_''نعيم بن مسعود'' كى وجہ سے دشمن كى صفوں ميں اختلاف و خليج كا پيدا ہونا _ وہ قريش ويہود كے درميان ممتاز اور قابل اعتماد شخص تھے ، جنگ سے كچھ عرصہ قبل تك وہ محاذ كفر ميں شامل رہے مگر ايك دن خفيہ طور پر رسول خدا (ص) كى خدمت ميںحاضر ہوئے اور دين اسلام سے مشرف ہونے كے بعد رسول خدا(ص) كى اجازت سے انہوں نے جنگى چال كا حربہ استعمال كيا اور لشكر كفار كے ذہنوں ميں شك و وسواس پيدا كركے احزاب كى فوج اور ان كى يكسوئي كو درہم برہم كرديا_

انہوں نے سب سے پہلے ''بنى قريظہ'' كے يہوديوں سے ملاقات كى اور گفتگو كے درميان ان كے دلوں ميں قريش كى طرف سے بدگمانى پيدا كردى اس كے ساتھ باتوں ہى باتوں ميں انہوں نے اُن كو اس بات كيلئے آمادہ كرليا كہ وہ سپاہ احزاب كے سامنے يہ شرط ركھيں كہ ہم اس صورت ميں تمہارے ساتھ تعاون كرسكتے ہيں كہ اپنے سرداروں ميں سے چند افراد كو ہمارے پاس بطور يرغمال بھيجو_

اس كے بعد وہ ''ابوسفيان '' كے پاس گئے اور كہنے لگے كہ ''بنى قريظہ'' نے محمد (ص) كے ساتھ جو عہد شكنى كى ہے اس پر وہ پشيمان ہيں اپنے اس اقدام كى تلافى كيلئے انہوں نے فيصلہ كيا ہے كہ تم ميں سے چند لوگوں كو بطور يرغمال پكڑليں اور انہيں محمد(ص) كے حوالے كرديں_''نعيم'' كى كوشش كا ہى يہ نتيجہ تھا كہ وہ دو گروہ جو باہمى طور پر متحد ہوگئے تھے اب ايسے بدظن ہوگئے كہ ايك نے دوسرے سے جو بھى پيشكش كى اسے رد كرديا گيا(۳) _

۲۰۸

۵ _ دشمن كے مقابل رسول خدا (ص) كى استقامت و پائدارى اگر چہ اس وقت مسلمان دشوار ترين مراحل سے گزر رہے تھے اور پورى فضا ان كے خلاف ہوچكى تھى مگر ان صبر آزما حالات كے باوجود لشكر اسلام اس بات كيلئے تيار نہ تھا كہ دشمن كو ذرہ برابر بھى رعايت دى جائے _

۶_رسول خد ا(ص) كى دانشمندانہ قيادت ، ميدان كارزار ميں مسلسل موجودگى ، عين وقت پر صحيح تدبير' سياسى اور جنگى چالوں كے باعث بيرونى اوراندرونى دشمن كے دلوں پر مايوسى كا چھاجانا_

۷_فوجى نظم و ضبط' خندق كے نگہبانوں نيز گشتى پہرہ داروں كى زود فہمى اور محاذ جنگ كے متعلق تمام قواعد و آداب جنگ سے مكمل واقفيت _

۸_سردى ' دشمن كے جانوروں كيلئے چارے كى كمى ، ميدان كارزار كى مكہ سے دوري' حملہ آور سپاہ كى جسمانى كوفت بالخصوص اس وقت جبكہ وہ بار بار سعى و كوشش كے بعد بھى خندق كو عبور كرنے ميں ناكام رہے_

جنگ ''احزاب'' كا خاتمہ اور مسلمانوں كى يورش كا آغاز

جنگ احزاب، دشمن كى قوت نمائي كا آخرى مظہر تھى ، ايسى عظیم طاقت كا اسلام كے ہاتھوں شكست سے دوچار ہونا فطرى طور پر اس حقيقت كا آئينہ وار ہے كہ اب دشمن كے حوصلے قطعى پست پڑگئے اور اس كى ہر اميد ياس ميں بدل گئي اور يہ بات جنگ احزاب كے بہترين نتائج ميں سے تھي_

چنانچہ اسى وجہ سے رسول خدا (ص) نے مسلمانوں كو خوشخبرى دى تھى كہ اس مرحلے پر پہنچ كر

۲۰۹

اسلامى تحريك كے نئے دور كا آغاز ہوگا اور اس ضمن ميں فرمايا تھا كہ :''اَليَومَ نَغزُوہُم وَلَا يَغْزُونَا''_(۴) يعنى اس كے بعد ہم ان سے جنگ كريں گے وہ ہم سے آكر جنگ نہيں كرسكيں گے_

اور اس كے بعد كے واقعات بھى اسى طرح رونما ہوئے جس طرح رسول اكرم (ص) نے پيشين گوئي كى تھى _ مسلمانوں كى فتح ونصرت نے سياسى ، عسكرى اور اقتصادى اعتبار سے مشركين پر ايسى كارى ضرب لگائي كہ رسول خد ا(ص) كى حيات ميں تو ان ميں اتنى بھى سكت باقى نہ رہى كہ اپنى كمر سيدھى كرسكيں اور اپنى اس شكست كى تلافى كرسكيں_

اس كے برعكس مسلمانوں نے ان مختلف پہلوئوں سے جن كا اوپر ذكر نے ميں كامياب ہو كيا جا چكا ہے وہ مقام ومرتبہ حاصل كرليا كہ اپنى توانائي اور برترى كے بل پر ہر سازش كو اس سے پہلے كہ وہ وجود ميں آئے نسيت ونابود كرديں_

عہد شكن لوگوں كى سزا

لشكر احزاب اگر چہ وقتى طور پر مسلمانوں كے چنگل سے نكل كر فرار كرنے ميں كامياب ہو گيا ليكن وہ داخلى خيانت كار (يہود بنى قريظہ) جو دشمن كے سپاہ كى تعداد ، اور سامان جنگ كى كثرت نيز اس كے پر فريب وعدوں كا شكار ہوگئے تھے اور اس كى فتح ونصرت كا انہيں پورا يقين تھا وہ اب بھى مسلمانوں كے ساتھ زندگى بسر كر رہے تھے ، اس خيال كے پيش نظر كہ وہ عدل وانصاف كے چنگل سے بچ كر نہ نكل جائيں انہيں ان كى خيانت كاريوں كى سزا دينى ضرورى تھي_

چنانچہ رسول خدا (ص) جيسے ہى غزوہ خندق سے واپس تشريف لائے فوراً ہى فرشتہ وحى نازل

۲۱۰

ہوااور پيغمبر اكرم (ص) كو ہدايت دى كہ آنحضرت(ص) ''بنى قريظہ'' كے قلعہ كى جانب تشريف لے جائيں_

رسول خد ا(ص) ۲۳ ذى القعدہ(۵) كو تين ہزار جنگجو افراد كو ساتھ لے كر دشمن كے قلعہ كى جانب روانہ ہوئے اس لشكر كے علم بردار حضرت على (ع) تھے اوروہ لشكر كے ہر اول دستے كے ساتھ ان كى طرف بڑھ رہے تھے_(۶)

نماز عصر ادا كرنے كے بعد دشمن كے قلعے كا محاصرہ ہواجو پندرہ(۷) يا پچيس روز(۸) تك جارى رہا اس عرصے ميں دونوں طرف سے صرف تيراندازى ہوتى رہى اور اس كے علاوہ كوئي واقعہ رونما نہيں ہوا_

يہوديوں نے جب ديكھا كہ مقابلے كا كوئي فائدہ نہيں تو وہ كچھ غور وفكر كرنے لگے چنانچہ انہوں نے اس طرح كى تجاوز پيش كيں كہ انہيں مدينہ سے چلے جانے كى اجازت دے دى جائے پہلے تو وہ اپنا مال واسباب بھى ساتھ لے جانا چاہتے تھے مگر بعد ميں اس بات پربھى راضى ہوگئے كہ وہ اپنے سارے ساز وسامان كو يہيں چھوڑ كر كوچ كرجائيں ليكن رسول خدا (ص) كو ابھى تك يہ ياد تھا كہ ''بنى قينقاع'' اور ''بنى نضير'' نے مدينہ سے باہر نكل جانے كے بعد كيا كيا خيانت كارياں كى تھيں اور آنحضرت (ص) يہ بات اچھى طرح جانتے تھے كہ اگر يہ لوگ بھى عدل وانصاف كے چنگل سے نكل گئے تو ممكن ہے كہ اسلام كے خلاف نئي سازشیں تيار كرنے ميں لگ جائيں اسى لئے آپ (ص) نے ان كى تجاويز كو رد كرديا اور يہ مطالبہ كيا كہ وہ بلا قيد و شرط ہتھيار ڈال ديں _

محاصرہ كو جارى ديكھ كر بنى قريظہ كے لئے خود كو تسليم كرنے كے علاوہ اور كوئي چارہ نہ رہا چنانچہ انہوں نے قلعے كے دروازے كھول ديئے اور رسول خد ا(ص) كے حكم سے اسلحہ ان سے

۲۱۱

ضبط كركے انہيں ايك گوشہ ميں حراست ميں لے ليا گيارسول خدا(ص) كى تجويز اور مقيد يہوديوں كے مشورے سے قبيلہ اوس كے سردار حضرت ''سعد بن معاذ '' اور جنگ احزاب كے ايك زخمى كو ان كے بارے ميں قائم كى گئي عدالت كا حاكم مقرر كياگيا _(۹)

سعد نے مردوں كے قتل ، عورتوں اور بچوں كى اسيرى اور ان كے تمام مال و اسباب پر بطور مال غنيمت قابض ہوجانے كا حكم صادر كيا ، جب سعد نے اپنا حكم صادر كر ديا تو رسول خدا (ص) نے ان سے فرمايا كہ :''سچ تو يہ ہے كہ ان كے بارے ميں تم نے وہى حكم صادر كيا ہے جو خداوند تعالى نے سات آسمانوں پر سے جارى كيا تھا''_

حضرت سعد ايك مومن ' متقى 'دانشمند اور سياسى شخض تھے اسى لئے انہوں نے جو فيصلہ صادر كيا وہ اس دور كے اسلامى معاشرے سے واقفيت پر مبنى تھا اور چونكہ وہ خيانت كار و سازشى عناصر كى كيفيت سے بخوبى واقف تھے اسى لئے انہوں نے اس پہلو كو بھى مدنظر ركھا نيز ديگر مسلمانوں پر بھى بارہا ثابت ہوچكا تھا كہ يہودى شرپسند اور ضدى ہونے كے باعث ہميشہ اسلام اور مسلمانوں كے خلاف سازشيں كرنے ميں منہمك رہتے ہيں اگر چہ رسول خدا (ص) نے ہميشہ نرمى اور در گزرسے كام ليا ليكن اس كے باوجود انہى لوگوں نے جنگ احد اور جنگ احزاب كے فتنے كو ہوا دى اور قتل و غارت گرى نيز تمام نقصانات كا سبب بنے_

كيا يہ تجربات اس مقصد كيلئے كافى نہ تھے كہ سعد ان خيانت كاروں كے بارے ميں وہى اقدام كريں جو رسول خد ا(ص) ''ابو عزہ'' خيانت كار كے بارے ميں فرماچكے تھے_(۱۰) اور وہى بات نہ دہراتے جو رسول خدا (ص) كى مبارك زبان سے نكل چكى تھى يعنى مومن ايك سوراخ سے دوبار نہيں ڈساجاتا اور وہ بھى '' حُيّى ابن اخطب'' جيسے خيانت كار كے بارے ميں جس نے تختہ دار پر بھى نہايت گستاخى كے ساتھ رسول خدا (ص) سے كہا تھا كہ ''اس دشمنى كے

۲۱۲

باعث جو ميرے اور تيرے درميان ہے ميں خود كو قابل ملامت نہيں سمجھتا''_(۱۱)

اس كے علاوہ ''بنى قريظہ'' نے رسول خد ا(ص) سے جو عہد وپيمان كيا تھا اس ميں وہ اس شرط كے پابند تھے كہ وہ ہرگز رسول (ص) اور صحابہ رسول (ص) كے خلاف كوئي اقدام نہ كريں گے نيز ہاتھ اور زبان سے آنحضرت (ص) كو كوئي اےذا و تكليف نہيں پہنچائيں گے اور اگر وہ ان شرائط كى خلاف ورزى كريں گے تو رسول خدا (ص) كيلئے ان كا خون بہانا ' ان كے مال كو ضبط كرنااور ان كى عورتوں نيز بچوں كو اسير كرنا مباح ہوگا(۱۲) اس بنا پر سعد نے جو حكم جارى كيا وہ اس عہد و پيمان كى بنياد پر تھا جو بنى قريظہ كرچكے تھے_

''بنى قريظہ'' كى خيانت كاريوں پر اگر غور كياجائے تو ہم پر يہ حقيقت عياں ہو جائے گى كہ رسول خد ا(ص) نے ان كے ساتھ جو سلوك كيا وہ اسلام ويہوديت كا مسئلہ نہ تھا بلكہ اس كا سبب وہ عہد شكنى تھى جو اسلام كے ساتھ وہ ہميشہ سے كرتے آئے تھے ،قبيلہ ''بنى قنيقاع '' و''بنى نضير'' كے علاوہ ''خيبر'' اور ''وادى القري'' كے يہوديوں كے ساتھ رسول خدا (ص) كا جو بزرگوارانہ رويہ رہا اور جس تحمل و بردبارى كا آنحضرت (ص) سلوك فرماتے رہے نيز ''بنى قريظہ'' كے ساتھ جو مسالمت آميز معاہدہ آپ (ص) نے كيا وہ ان حقائق كو سمجھنے ميں ہميں مدد ديتے ہيں_

اس بناپر كہاجاسكتا ہے كہ دشمنان اسلام جب اسلام و يہوديت كى دشمنى كا ذكر كرتے ہوئے ان واقعات كو بطور سند بيان كرتے ہيں تو وہ يا تو اسلام اور سيرت رسول خد ا(ص) سے واقف نہيں ہوتے اور يا اس ميں ان كى كوئي خاص غرض شامل ہوتى ہے_

اس كے باوجود بعض مسلم مورخین(۱۳) نے اس واقعہ قتل كى صحت كے بارے ميں شك وترديد كا اظہار كركے مسلمانوں كى اس تقدير ساز جنگ ميں ان كى عظیم خيانت كارى كو

۲۱۳

نہايت ہى معمولى واقعہ سمجھا ہے بقول رسول خدا (ص) كل ايمان كا سراپا كفر كے ساتھ مقابلہ تھا اور يہودى كفر كے ساتھ تھے(۱۴) _اس كے ساتھ ہى اس ترديد كا مطلب'' غزوہ احد'' اور '' غزوہ احزاب '' ميں ان كے مجرمانہ افعال سے بھى چشم پوشى اور حق كے سامنے ان كے غير لچك دار اور ہٹ دھرم رو يہ پر عدم توجہ ہے_ چنانچہ يہى كينہ توزى اور اسلام دشمنى ہم يہودى ''بنى قريظہ'' كى موجودہ نسل 'اسرائيل اور صہيونيت كے ان تمام پيروكاروں ميں ديكھتے ہيں جو سارى دنيا ميں پھيلے ہوئے ہيں_

''بنى قريظہ'' كى خيانت كارى اور انہيں اس كى سزا ديئے جانے كے واقعے كو تمام مورخين كے علاوہ شيخ مفيد مرحوم'(۱۵) ابن شہرآشوب '(۱۶ ) قمى(۱۷) طبرسى(۱۸) علامہ مجلسى(۱۹) اورمعاصرين ميں علامہ طباطبائي(۲۰) جيسے محدثين اور مفسرين نے اپنى تصانيف ميں بيان كيا ہے اس بناپر خيانت كاروں كو ان كے كئے كى سزاديئے جانے كے اصل واقعہ كے بارے ميں كسى توجيہ يا خدشے كى گنجائشے باقى نہيں_

غزوہ بنى قريظہ كا سودمند پہلو

''بنى قريظہ'' كے يہود يوں كا قلع قمع كئے جانے كے بعد مسلمانوں كو يہ اطمينان حاصل ہو گيا كہ ان جاسوسوں كا خاتمہ ہوگيا ہے جو اندرون محاذ ميں سرگرم عمل تھے اور اس كى وجہ سے اسلامى حكومت كے مركز ميں قائم مشركين كى فوجى اور انٹيلى جنس ايجنسى كى سرگرميوں كا خطرہ بھى باقى نہ رہااور چونكہ مال غنيمت ميں مسلمانوں كے ہاتھ اسلحہ بھى لگا تھا اس لئے مسلمانوں كى اقتصادى اور عسكرى طاقت كو ايسى تقويت پہنچى كہ اس كى وجہ سے آئندہ فتوحات بالخصوص يہوديوں پر غلبہ پانے كى راہيں ہموار ہوگئيں اس كے ساتھ ہى رسول خدا (ص)

۲۱۴

كا مقام ومرتبہ بحيثيت قائد اور اسلامى طاقت كا رعب و دبدبہ ہر دوست و دشمن كے دل ميںجم گيا_

صلح ومحبت كا سال

سنہ ۶ ہجرى كو ''سنة الاستئناس''(۲۱) يعنى انس ومحبت كا سال كہاجاتا ہے(۲۲) چنانچہ يہ سال مسلمانوں كيلئے نہايت ہى پر خیرو بركت اور سازگا رہا_

اس سال مسلمانوں نے تقريباً تيس جنگى معركے كئے اور بيشتر مواقع پر وہ فتح و كاميابى سے ہمكنار ہوئے اور دشمن كا بہت سا مال غنيمت ہاتھ لگا(۲۳) ذيل ميں ہم مختصر طور پر دو غزوات كا جائزہ ليں گے_

۱_غزوہ ''بنى مصطلق''

قبيلہ ''بنى مصطلق'' كى چونكہ جنگ احد ميں قريش كے ساتھ ساز باز تھى اسى لئے انہوں نے مسلمانوں كے ساتھ نبرد آزما ہونے كےلئے جنگى سامان كى فراہمى شروع كردى _

رسول خدا(ص) كو جب ان كى سازش كا علم ہو اتو آنحضرت (ص) نے اپنے لشكر كو آمادہ جنگ ہونے كا حكم ديا چنانچہ ماہ شعبا ن ۶ ہجرى ميں مسلمانوں كو ايك گروہ كو ساتھ لے كر آپ (ص) دشمن كى جانب روانہ ہوئے '' مريسيع ''(۲۵) نامى مقام پر غنيم سے مقابلہ ہوا اس معركہ ميں سازشى گروہ كے دس(۱۰) افراد مارے گئے او رباقى چونكہ مقابلے كى تاب نہ لاسكے اس لئے انہوں نے راہ فرار اختيار كرنے ميں ہى عافيت سمجھى اور چونكہ وہ عورتوں اور بچوں كے ساتھ گرفتار ہوكر آئے تھے نيز ان كا مال جو تقريباً دو ہزار اونٹوں اور پانچ ہزار بھيڑوں پر

۲۱۵

مشتمل تھا، بطور غنيمت مسلمانوں كے ہاتھ لگا_

قيديوں كو مدينہ منتقل كرنے كے بعد رسول خدا (ص) نے قبيلہ ''بنى مصطلق'' كے سردار ''حارث ابن ابى ضرار'' كى لڑكى ''جويريہ'' سے فديہ ادا كرنے كے بعد نكاح كرليا _

مسلمانوں نے جب يہ ديكھا كہ اس شادى كے ذريعہ قبيلہ بنى مصطلق اور رسول خدا (ص) كے درميان قرابت دارى ہوگئي ہے تو انہوں نے فديہ لئے بغير ہى تمام قيديوں كو يہ كہہ كر آزاد كرديا كہ يہ بھى رسول خدا (ص) كے رشتہ دار ہيں_

اس پر بركت رشتہ ازدواج اور رسول خدا (ص) نيز مسلمانوں كے حسن سلوك كے باعث قيديوں كے دل دين اسلام كى جانب مائل ہوگئے چنانچہ ان سب نے دين اسلام قبول كرنے كا شرف حاصل كيا اور ہنسى خوشى اپنے اپنے وطن واپس چلے گئے _(۲۶)

۲_ صلح حديبيہ

سنہ ۵' ۶ ہجرى كے دوران محاذ حق پر مسلمانوں كو جو پے در پے فتوحات نصيب ہوئيں ان كے باعث سياسي' اقتصادى نيز عسكرى اعتبار سے اسلام كى حيثيت ''جزيرہ نمائے عرب'' ميں پہلے سے كہيں زيادہ مستحكم و پائدار ہوگئي اس كے ساتھ ہى رسول خد ا(ص) كے لئے يہ امكان پيدا ہوگيا كہ قريش كى سازشوں سے بلاخوف و خطر اور اسلحہ و ساز وسامان جنگ كے بغير مكہ كا سفر اختيار كركے زيارت كعبہ سے مشرف ہو سكيں چنانچہ آپ (ص) نے اندرون وبيرون مدينہ اعلان كرايا كہ لوگ اپنے اس عبادى ، سياسى سفر كى تيارى كريں_

تقريباً چودہ (۱۴۰۰) پندرہ (۱۵۰۰ )يا سولہ (۱۶۰۰) سو سے زيادہ افراد نے اس سفر پر روانہ ہونے كےلئے آمادگى ظاہر كردى ، رسول خدا(ص) نے ان سے فرمايا كہ :

۲۱۶

اس سفر پر جانے كا ہمارا مقصد جنگ نہيں بلكہ عمرہ كرنا ہے چنانچہ ہر شخص اپنے ساتھ ايك تلوار اس وجہ سے لے سكتا ہے كہ يہ مسافروں كےلئے ضرورى ہے _

اس كے بعد رسول خد ا(ص) نے قربانى كيلئے ستر(۷۰) اونٹ اپنے ساتھ لئے_آنحضرت (ص) كے علاوہ اصحاب نے بھى قربانى كے مقصد كيلئے اونٹ اپنے ساتھ لئے _ رسول خدا (ص) نے ''ذوالحليفہ'' نامى مقام پر احرام باندھا اور پہلى ذى القعدہ سنہ ۶ ہجرى كو خانہ خدا كى زيارت كى خاطر مدينہ سے مكہ كى جانب روانہ ہوئے_(۲۷)

مسلمانوں كى اس مختصر تعداد كے ساتھ رسول خد ا(ص) كا سفر مكہ اختيار كرنا اور وہ بھى عسكرى ساز وسامان كے بغير خطرات سے خالى نہ تھا كيونكہ يہ واضح تھا كہ قريش اسلام پر كارى ضرب لگانے نيز رسول خدا(ص) كو اپنے راستے سے ہٹانے كے علاوہ كچھ سوچتے ہى نہيں تھے اور گزشتہ چند سال كے دوران ان كا سابقہ رسول خدا (ص) كے ساتھ ميدان جنگ ميں اس طرح پڑا تھا كہ ہر بار منہ كى كھائي تھى تو جب رسول خدا (ص) كو صحابہ كى اس مختصر جماعت كے ساتھ ديكھيں گے اور انہيں معلوم ہوگا كہ آنحضرت (ص) بغير اسلحہ كے تشريف لا رہے ہيں تو وہ لامحالہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے كى كوشش گے اور اسلام و پيغمبر اكرم (ص) كا كام ہى تمام كر ديںگے_

چنانچہ اسى وجہ سے منافقين اور صحرا نشين عربوں نے رسول خدا (ص) كے ساتھ مكہ جانے سے اجتناب كيا اور يہ نتيجہ اخذ كيا كہ اگر وہ مسلمانوں كى اس مختصر جماعت كے ساتھ بغير اسلحہ كے جائيں گے تو ہرگز مدينہ واپس نہ آسكيں گے اور جب قريش اس جماعت كو معمولى ساز وسامان كے ساتھ ديكھيں گے تو انہيں نيست ونابود كرديں گے_(۲۸)

چنانچہ قرآن مجيد نے ان كے گمان كى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمايا ہے كہ :

۲۱۷

( بَل ظَنَنتُم أَن لَن يَنقَلبَ الرَّسُولُ وَالمُؤمنُونَ إلَى أَهليهم أَبَدًا ) _(۲۹)

''بلكہ تم لوگوں نے تو يہ سمجھا كہ رسول (ص) اور مومنين اپنے گھروں كو ہرگز پلٹ كر نہ آسكيںگے''_

قريش كى مخالفت

مشركين مكہ كو معلوم ہوگيا كہ رسول خدا (ص) ان كے شہر كى طرف تشريف لارہے ہيں چنانچہ انہوں نے سپاہ اسلام كو مكہ ميں داخل ہونے سے روكنے كيلئے ''خالد بن وليد'' كو دوسو(۲۰۰) سواروں كے ہمراہ رسول خد ا(ص) كى جانب روانہ كيا_

رسول خدا (ص) نے اس خيال كے پيش نظر كہ دشمن سے مقابلہ نہ ہو راستہ كو بدل كر اپنا سفر جارى ركھا اور ''حديبيہ ''(۳۰) نامى جگہ پر قيام فرمايا _(۳۰) لشكر''خالد بن وليد'' بھى رسول خد ا(ص) كا تعاقب كرتا ہواسپاہ اسلام كے نزديك پہنچ گيا اور وہيں اس نے پڑائو ڈالا_

رسول خدا (ص) حرمت كے مہينے كے احترام اور اپنے پيش نظر اہداف و مقاصد كے تحت ہرقسم كے تصادم سے بچنے كے لئے كوشاں تھے_

مذاكرات كا آغاز

پہلے قريش نے اپنے نمائندے رسول خدا(ص) كى خدمت ميں بھيجے تا كہ يہ جاننے كے ساتھ كہ آنحضرت (ص) نے يہ سفر كس مقصد سے اختيا ركيا ہے ضرورى اطلاعات بھى حاصل كرليں، رسول خدا (ص) نے نمائندگان قريش كو جواب ديتے ہوئے تاكيد سے فرمايا كہ ہم جنگ

۲۱۸

كرنے كيلئے نہيں آئے ہيں بلكہ ہمارا مقصد تو عمرہ اور زيارت كعبہ سے مشرف ہونا ہے ليكن ہٹ دھرم قريش نے ايسى سختى پاليسى اختيار كى كہ وہ كسى طرح بھى پيغمبر اكرم (ص) كے ساتھ مسالمت آميز برتاؤ نہيں كرنا چاہتے تھے بلكہ انہوںنے رسول خدا(ص) كے اس نرم رويے كا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے لشكر كے پچاس(۵۰) سپاہيوں كو اس كام كےلئے مقرر كرديا كہ وہ سپاہ اسلام كے نزديك جاكر چند لوگوں كو گرفتار كر كے لے آئيں _ ليكن سپاہ اسلام كے مستعد پاسبانوں نے ان سب كو گرفتار كرليا اور رسول خدا (ص) كى خدمت ميں پيش كرديا ، رسول خدا (ص) نے انہيں يہ بتانے كيلئے كہ آپ (ص) كا رويہ صلح آميز ہے ان سب كو آزاد كرديا_

جب قريش كے نمائندوں كى آمد و رفت كا كوئي فائدہ نہ ہوا تو رسول خدا(ص) نے اپنے نمائندے قريش كى جانب روانہ كئے ، ليكن انہوںنے نمائندوں كے ساتھ بدسلوكى كى بلكہ ان ميں سے ايك كے پيچھے اونٹ دوڑا كر ان كى جان لينے كا قصد كيا اور دوسرے كو اپنے پاس روك ليا _(۳۱)

بيعت رضوان

جب رسول خدا (ص) كے آخرى نمائندے (عثمان )صحيح وقت پر واپس نہ آئے تو اس افواہ كو تقويت ملى كہ انہيں قتل كرديا گيا ہے اور يہ بات رسول خدا (ص) اور مسلمانوں پر بہت شاق گزري_

اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا كہ جب تك قريش كا خاتمہ نہيں كرليتے ہم يہاں سے نہيں جائيں گے اور آنحضرت (ص) نے مسلمانوں سے كہا كہ وہ اس مسئلے كے بارے ميں آپ(ص) كے دست مبارك پر بيعت كرليں ، مسلمين نے اس درخت كے نيچے جس كانام ''سمرہ'' تھا يہ

۲۱۹

بيعت كى كہ مرتے دم تك ہم آپ (ص) كے ساتھ ہيں چنانچہ يہى وہ بيعت ہے جسے ''بيعت رضوان'' سے تعبير كيا گيا ہے اور قرآن مجيد ميں بھى اس كى طرف اشارہ كيا گيا ہے_

( لَقَد رَضيَ الله ُ عَن المُؤمنينَ إذ يُبَايعُونَكَ تَحتَ الشَّجَرَة فَعَلمَ مَا فى قُلُوبهم فَأَنزَلَ السَّكينَةَ عَلَيهم وَأَثَابَهُم فَتحًا قَريبًا ) (۳۲)

''اللہ مومنين سے اس وقت خوش ہوگيا جب وہ درخت كے نيچے تم سے بيعت كر رہے تھے ان كے دلوں كا حال اس كو معلوم تھا اسى لئے اس نے ان اطمينان و پر سكون نازل فرمايا اور ان كو انعام ميںعنقريب ہونے والى فتح بخشي''_

جب لوگ رسول خدا (ص) كے دست مبارك پر بيعت كرچكے تو معلوم ہوا كہ آپ (ص) كا نمائندہ قتل نہيں ہوا ہے_ اس واقعہ كے بعد قريش نے ''سہيل بن عمرو'' كو مصالحت كى غرض سے رسول خدا (ص) كى خدمت ميں روانہ كيا طويل بحث وگفتگو كے بعد صلح كا معاہدہ كيا گيا جس كى بنياد پر طرفين ميں يہ طے ہوا كہ دس سال تك ايك دوسرے سے جنگ نہ كريں گے ، اس سال تو مسلمان يہيں سے واپس مدينہ چلے جائيں ليكن آئندہ سال بيت اللہ كى زيارت كو آسكتے ہيں ، مسلمين ومشركين كو اپنى دينى رسومات ادا كرنے كى اجازت ہوگي، طرفين كو اس بات كى بھى اجازت ہوگى كہ وہ جس قبيلے كو بھى چاہيں اپناحليف بناليں اگر قريش كے كسى فرد نے مسلمانوں كى پناہ لى تو ان كيلئے يہ لازم ہوگا كہ وہ اسے واپس كريں ليكن قريش كے لئے يہ ضرورى نہيں ہوگا كہ وہ بھى كسى مسلمان پناہ گزين كو واپس كريں_

جب صلح كا عہد وپيمان ہوگيا تو رسول خدا (ص) اور مسلمانوں نے اپنى قربانى كے اونٹوں كونحركيا ، سروںكے بال ترشوا كر احرام سے باہر نكلے اورمدينہ واپس آگئے _(۳۳)

۲۲۰

۱۔ﷲ نے بندوں کوجو معین عمرعطا فرمائی ہے اس میں انسان مسلسل روزے رکھ سکتا ہے روزہ اگر چہ صرف ماہ رمضان میں ہی واجب ہے لیکن سال کے بقیہ دنوں میں مستحب ہی نہیں بلکہ''مستحب مؤکد ''ہے ۔

امام محمد باقر نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالہ سے خداوند عالم کا یہ قول نقل کیا ہے ۔

(الصوم لی وأنا اجزی به )( ۱ )

''روزہ میرے لئے ہے اورمیں ہی اسکی جزادوں گا ''

اس طرح سال کے دوران روزہ چھوڑدینے سے انسان کتنے عظیم ثواب سے محروم ہوتا ہے ؟ اسے خدا کے علاوہ کوئی نہیںجانتا ۔اب انسان جس دن بھی روزہ نہ رکھکرﷲکی جائزاور حلال نعمتیں استعمال کرتا ہے اس کی وجہ سے وہ جنت کی کتنی نعمتوںسے محروم ہواہے ؟اسکا علم خدا کے علاوہ کسی کو نہیں ہے اگر چہ یہ طے ہے کہ جو کچھ اس نے کھایا وہ رزق حلال ہی تھا لیکن اس تھوڑے سے رزق کے باعث بہر حال آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کا موقع اسکے ہاتھ سے جاتا رہا ۔حلال لذتوں کے باعث دنیا و آخرت کے درمیان ٹکرائو کی یہ ایک مثال ہے ۔

۲۔جب انسان رات میں نیند کی لذت سے لطف اندوز ہوتا ہے تو بلا شبہ یہ زندگانی دنیا کی حلال اور بہترین لذت ہے لیکن جب انسان پوری رات سوتے ہوئے گذاردیتا ہے تو اس رات نماز شب اور تہجد کے ثواب سے محروم رہتا ہے ۔

فرض کیجئے خدا نے کسی کو ستر برس کی حیات عطا کی ہو تو اس کے لئے ستر سال تک یہ ثواب ممکن ہے لیکن جس رات بھی نماز شب قضا ہوجاتی ہے آخرت کی نعمتوں میں سے ایک حصہ کم ہوجاتاہے اگر (خدا نخواستہ )پورے ستر سال اسی طرح غفلت میں بسر ہوجائیں تو نعمات اخروی

____________________

(۱)بحارالانوار ج۹۶ص ۲۵۴ ،۲۵۵، ۲۴۹ ۔

۲۲۱

حاصل کرنے کا موقع بھی ختم ہوجائے گا اور پھر انسان افسوس کرے گا کہ ''اے کاش میں نے اپنی پوری عمر عبادت الٰہی میں بسر کی ہوتی ''

۳۔اگر خداوند عالم کسی انسان کومال عطا کرے تو اس مال کو راہ خدا میں خرچ کرکے کافی مقدار میں اخروی نعمتیں حاصل کرنے کاامکان ہے انسان جس مقدار میںدنیاوی لذتوں کی خاطرمال خرچ کرتا ہے اتنی ہی مقدار میںآخرت کی نعمتوں سے محروم ہوسکتا ہے کہ اسی مال کو راہ خدا میں خرچ کرکے دنیا کے بجائے آخرت کی لذتیں اور نعمتیں حاصل کرسکتا تھا لہٰذا اگر انسان اپنا پورا مال دنیاوی کاموں کے لئے خرچ کردے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس مال سے اخروی نعمتیں حاصل کرنے کا موقع گنوادیا ۔چاہے اس نے یہ مال حرام لذتوں میں خرچ نہ کیا ہو ۔

اسی طرح انسان کے پاس آخرت کی لذتیں اورنعمتیں حاصل کرنے کے بے شمار مواقع ہوتے ہیں ۔مال ،دولت، عمر، شباب، صحت ،ذہانت ،سماجی حیثیت اور علم جیسی خداداد نعمتوں کے ذریعہ انسان آخرت کی طیب وطاہر نعمتیں کما سکتا ہے لیکن جیسے ہی اس سلسلہ میں کو تاہی کرتا ہے اپنا گھاٹا کر لیتا ہے خدا وندعالم نے ارشاد فرما یا ہے :

( والعصرِ٭انّ الا نسان لفی خسر ) ( ۱ )

''قسم ہے عصر کی بیشک انسان خسارہ میں ہے ''

آیۂ کر یمہ نے جس گھا ٹے کا اعلان کیا ہے وہ اس اعتبار سے ہے کہ آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کے لئے جن چیز وں کی ضرورت ہے خداوندعالم نے وہ تمام چیزیں اپنے بندوں کو (مفت ) عطا کردی ہیں اور انھیں خدا داد نعمتوں سے آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کا بھی انتظام کردیا ہے اس کے باوجود انسان کوتاہی کرتا ہے اور ان نعمتوں کو خواہشات دنیا کے لئے صرف کر کے آخرت کما نے کا

____________________

(۱)سورئہ عصر آیت۱۔۲۔

۲۲۲

موقع کھودیتا ہے تو یقیناگھاٹے میں ہے ۔

اس صور ت حال کی منظر کشی امیر المو منین حضرت علی نے بہت ہی بلیغ انداز میں فرمائی ہے آپ کا ارشاد ہے :

(واعلم أن الد نیاداربلیّة،لم یفرغ صاحبها فیها قط ساعة لاکانت فرغته علیه حسرة یوم القیامة )( ۱ )

''آگاہ ہو جا ئو یہ دنیا دار ابتلاہے اس میںا گر کوئی ایک ساعت بے کار رہتا ہے تو یہ ایک ساعت کی بے کاری روز قیامت حسرت کا باعث ہوگی''

یہاں بے کاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان ذکر خدا نہ کرے اور اسکی خوشنودی کے لئے کوئی عمل نہ بجالا ئے اور اسکے اعضاء وجوارح بھی قربت خدا کے لئے کوئی کام نہ کر رہے ہوں یا یاد خدا میں مشغول نہ ہوں ۔

اب اگر ایک گھنٹہ بھی اس طرح خالی اوربے کار رہے چاہے اس دوران کوئی گنا ہ بھی نہ کرے تواسکی بناپر قیامت کے دن اسے حسرت کا سامناکرنا ہوگا اس لئے کہ اس نے عمر ،شعور اور قلب جیسی نعمتوں کو معطل رکھا اورانہیں ذکرو اطاعت خدا میں مشغول نہ رکھ کر اس نے رضا ئے خدا اور نعمات اخروی حاصل کرنے کا وہ موقع گنوادیا ہے جسکا تدارک قطعا ممکن نہیں ہے بعد میں چاہے وہ جتنی اخروی نعمتیں حاصل کرلے لیکن یہ ضائع ہوجانے والا موقع بہر حال نصیب نہ ہوگا ۔

۳۔سنت الٰہی یہ ہے کہ انسان ترقی وتکامل اور قرب الٰہی کی منزلیں سختیوں اورمصائب کے ذریعہ طے کر تا ہے ۔ارشاد الٰہی ہے :

( أحَسِبَ الناس أن یُترکوا أن یقولواآمنّا وهم لایُفتنون ) ( ۲ )

____________________

(۱) نہج البلاغہ مکتوب ۵۹۔

(۲)سورئہ عنکبوت آیت۲۔

۲۲۳

''کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ و ہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ہوگا''

دوسرے مقام پرارشاد ہوتا ہے :

( ولنبلونّکم بشیٔ من الخوف والجوع ونقصٍ من الأموال والأنفس والثمرات ) ( ۱ )

''اور ہم یقیناتمہیں تھوڑاخوف تھوڑی بھوک اور اموال ونفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے ۔۔۔''

نیزارشاد خداوندی ہے :

( فأخذناهم بالبأساء والضرّاء لعلهم یتضرّعون ) ( ۲ )

''۔۔۔اسکے بعد ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں''

یہ آخری آیت واضح الفاظ میں ہمارے لئے خدا کی طرف انسانی قافلہ کی حرکت اور ابتلاء وآز مائش ،خوف، بھوک اور جان ومال کی کمی کے درمیان موجود رابطہ کی تفسیر کر رہی ہے کیونکہ تضرع وزاری قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے اور تضرع کی کیفیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان جان ومال کی کمی، بھوک ،خوف اور شدائد ومصائب میں گرفتار ہوتاہے اس طرح انسان کے پاس دنیاوی نعمتیں جتنی زیادہ ہو ں گی اسی مقدار میں اسے تضرع سے محرومی کاخسارہ اٹھانا پڑے گا اور نتیجتاً وہ قرب الٰہی کی سعادتوں اور اخروی نعمتوں سے محروم ہوجا ئے گا ۔

زندگانی دنیا کے مصائب ومشکلات کبھی تو خدا اپنے صالح بندوں کو مرحمت فرماتا ہے تا کہ وہ تضرع وزاری کیلئے آمادہ ہوسکیں اور کبھی اولیائے الٰہی اوربند گان صالح خود ہی ایسی سخت زندگی

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت۱۵۵۔

(۲)سورئہ انعام آیت ۴۲۔

۲۲۴

کواختیار کر لیتے ہیں ۔

۴۔لذائذ دنیا سے کنار کشی کا ایک سبب یہ ہو تا ہے کہ انسان کبھی یہ خوف محسوس کرتا ہے کہ کہیں لذائذ دنیا کا عادی ہوکر وہ بتدریج حب دنیا میں مبتلا نہ ہو جا ئے اوریہ حب دنیاا سے خدا اور نعمات اخروی سے دور نہ کردے ۔اس لئے کہ لذائذ دنیا اورحب دنیا میں دوطرفہ رابطہ پایا جاتا ہے یہ لذ تین انسان میںحب دنیا کا جذبہ پیدا کر تی ہیں یااس میں شدت پیدا کر دیتی ہیں اس کے بر عکس حب دنیا انسان کودنیاوی لذتوں کو آخرت پر ترجیح دینے اوران سے بھر پور استفادہ کرنے بلکہ اسکی لذتوں میںبالکل ڈوب جانے کی دعوت دیتی ہے ۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان لا شعوری طور پر حب دنیا کا شکار ہو جائے لہٰذا لذائذ دنیاسے ہو شیار رہنا چاہئے کیونکہ عین ممکن ہے کہ یہ لذتین اسے اسکے مقصد سے دور کردیں ۔

۵۔کبھی ہمیں روایات میں ایسی بات بھی نظر آتی ہے کہ جو مذ کور ہ وضاحتوں سے الگ ہے جیسا کہ مولا ئے کائنات حضرت علی نے جناب محمدبن ابی بکر کو مصر کا حاکم مقرر کرتے وقت (عہد نامہ میں)ان کے لئے یہ تحریر فرما یاتھا:

(واعلمواعبادﷲأن المتّقین ذهبوا بعاجل الدنیا وآجل الآخرة ،۔۔۔)( ۱ )

''بندگان خدا !یا د رکھو کہ پرہیزگار افراد دنیا اور آخرت کے فوائد لے کرآگے بڑھ گئے ۔وہ اہل دنیا کے ساتھ ان کی دنیا میں شریک رہے لیکن اہل دنیا ان کی آخرت میں شریک نہ ہوسکے۔وہ دنیا میں بہترین انداز سے زندگی گذار تے رہے جو سب نے کھایا اس سے اچھاپاکیزہ کھانا کھایااور وہ تمام لذتیںحاصل کرلیں جو عیش پرست حاصل کرتے ہیں اور وہ سب کچھ پالیا جو جابراور متکبر افراد کے حصہ میں آتا ہے ۔اسکے بعد وہ زادراہ لے کر گئے جو منزل تک پہونچادے اور وہ تجارت کرکے گئے

____________________

(۱)نہج البلا غہ مکتوب ۲۷۔

۲۲۵

جس میں فائدہ ہو۔دنیا میں رہ کر دنیا کی لذت حاصل کی اور یقین رکھے رہے کہ آخرت میں پروردگار کے جوار رحمت میں ہوںگے۔جہاں نہ ان کی آواز ٹھکرائی جائے گی اور نہ کسی لذت میں ان کے حصہ میں کوئی کمی ہوگی''

ان جملات میں متقین اور غیر متقین کا مواز نہ کیا گیا ہے جبکہ جن روایات کا ہم تجز یہ پیش کررہے تھے انمیں درجات متقین کا مو از نہ ہے،نہ کہ متقین اور غیر متقین کا!ظا ہر ہے کہ یہ دو نوں الگ ا لگ چیزیں ہیں لہٰذا ان دو نوں کا حکم بھی الگ ہو گا ۔

۲۲۶

با طن بیں نگاہ

دنیا کے بارے میں سر سری اور سطحی نگاہ سے ہٹ کر ہم دنیا پر زیادہ گہرائی اور سنجیدگی کے سا تھ نظر کر سکتے ہیں ۔جسے ہم (الرؤ یة النافذة) کا نام دے سکتے ہیں اس رویت میں ہم دنیا کے ظاہر سے بڑ ھ کر اس کے با طن کا نظارہ کر سکتے ہیں ۔ جس سے ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا کا ظا ہراگر حبّ دنیا کی طرف لے جا تا ہے اور انسان کو فر یب دیتا ہے تو اس کے بر خلا ف دنیا کا باطن انسان کو زہداور دنیا سے کنارہ کشی کی دعوت دیتا ہے ۔باطن بیں نگاہ ظا ہر سے بڑھکر دنیا کی اندرو نی حقیقت کو عیاں کر کے یہ بتا تی ہے کہ متاع دنیا بہر حال فنا ہو جا نے والی ہے نیز یہ کہ انسان کا دنیا میں انجام کیا ہو گا ؟ یوں انسان خو د بخود زہدا ختیار کر لیتا ہے ۔

روایات میںکثرت سے یہ تا کید کی گئی ہے کہ دنیا کو اس (نظر) سے دیکھنا چا ہئے، انسان مو ت کی طرف متو جہ رہے اورہمیشہ مو ت کو یاد رکھے، طویل آرزووں اور مو ت کی طرف سے غا فل ہو نے سے منع کیا گیاہے ۔

مو ت در اصل اس با طنی دنیا کا چہرہ ہے جس سے انسان فرار کرکے موت کو بھلا نا چا ہتا ہے چنا نچہ روایت میں وارد ہو ا ہے کہ (موت سے بڑھ کر کو ئی یقین ، شک سے مشا بہ نہیں ہے ) اس لئے کہ موت یقینی ہے ،اسمیں شک و شبہ کی گنجائش نہیں اس کے با وجود انسان اس سے گر یزاں ہے

۲۲۷

اور اسے بھلا ئے رکھنا چا ہتا ہے ۔

حا لا نکہ روایات میں اس کے با لکل بر عکس نظر آتا ہے امام محمد با قر کا ارشاد ہے:

(أکثروا ذکرالموت، فانه لم یُکثرالانسان ذکرالموت الازهد فی الدنیا )( ۱ )

'' مو ت کو کثرت سے یا د کرو کیو نکہ انسان جتنا کثرت سے موت کو یا د کر تا ہے اس کے زہد میں اتنا ہی اضا فہ ہو تا ہے''

امیر امو منین حضرت علی کا ار شاد گر امی ہے :

(من صوّرالموتَ بین عینیه هان أمرالدنیا علیه )( ۲ )

''جس کی نگا ہوں کے سا منے مو ت ہو تی ہے دنیا کا مسئلہ اس کے لئے آسان ہو تا ہے''

آپ ہی کا ار شاد ہے :

(أحقّ الناس بالزهادة من عرف نقص الدنیا )( ۳ )

''جو دنیا کے نقائص سے آگاہ ہے وہ زہد کا زیادہ حقدار ہے ''

امام مو سیٰ کا ظم کا ارشاد ہے:

(ان العقلاء زهدوا فی الدنیا،ورغبوا فی الآخرة ۔۔۔)( ۴ )

''بے شک صاحبان عقل دنیا میں زاہد اور آخرت کی جا نب راغب ہو تے ہیں انھیں معلوم ہے کہ دنیا طالب بھی ہے مطلوب بھی ،اسی طرح آخرت بھی طالب اور مطلوب ہو تی ہے ۔جو آخرت کا طلبگار ہو تا ہے اسے دنیا طلب کرتی ہے اور اپنا حصہ لے لیتی ہے ۔جو دنیا کا طلبگار ہو تا ہے آخرت اس

____________________

(۱) بحارالانوار ج۷۳ص۶۴۔

(۲)غرر الحکم ج۲ص۲۰۱۔

(۳) غرر الحکم ج۱ص۱۹۹۔

(۴)بحارالانوار ج ۷۸ ص ۳۰۱۔

۲۲۸

کی طالب ہو تی ہے پھر جب مو ت آتی ہے تو اس کی دنیا و آخرت دونوں خراب ہو جا تی ہیں ''

روا یت میں ہے کہ امام مو سی ٰ کا ظم ایک جنا زہ کے سر ہا نے تشریف لا ئے تو فر ما یا:

(ان شیئاً هذا أوّله لحقیق أن یُخاف آخره )( ۱ )

''جس چیز کا آ غازیہ (مر دہ لاش )ہو اس کے انجام کا خوف حق بجا نب ہے ''

ان روا یات میں ذکر مو ت اور زہد کے در میان واضح تعلق نظر آ تا ہے بالفاظ دیگران روایات میںنظر یہ یاتھیوری اورپریکٹیکل کے در میان تعلق کو ظاہر کیا گیا ہے کیونکہ موت کا ذکر اور اسے یاد رکھنا ایک قسم کا نظر یہ اور تھیوری ہے اور زھد اس نظریہ کے مطابق راہ وردش یاپر یکٹیکل کی حیثیت رکھتا ہے امیر المو منین حضرت علی لوگوں کو دنیا کے بارے میں صحیح اور حقیقی نظریہ سے روشناس کراتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

(کونواعن الدنیا نُزّاها،والیٰ الآخرة ولّاهاولاتشیموا بٰارقها،ولا تسمعواناطقها،ولاتجیبواناعقها،ولاتستضیئواباشراقها،ولاتفتنواباعلاقها،فن برقهاخالب،ونطقهاکاذب ،واموالها محروبة،واعلاقها مسلوبة )( ۲ )

''دنیا سے پاکیزگی اختیار کرو اور آخرت کے عاشق بن جائو۔۔۔ اس دنیا کے چمکنے والے بادل پر نظر نہ کرو اور اسکے ترجمان کی بات مت سنو ،اسکے منادی کی بات پر لبیک مت کہو اور اسکی چمک د مک سے روشنی مت حاصل کرو اور اسکی قیمتی چیزوں پر جان مت دو اس لئے کہ اسکی بجلی فقط چمک دمک ہے اور اسکی باتیں سراسر غلط ہیں اسکے اموال لٹنے والے ہیں اور اسکا سامان چھننے والا ہے ''

آپ ہی کاارشاد گرامی ہے:

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ ص۳۲۰ ۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۱ ۔

۲۲۹

(وأخرجوا من الدنیا قلوبکم من قبل ان تخرج منها ابدانکم )( ۱ )

''دنیا سے اپنے دلوں کو نکال لو قبل اس کے کہ تمہارے بدن دنیا سے نکالے جائیں ''

دنیا سے دل نکال لینے کا مطلب ،دنیا سے قطع تعلق کرنا ہے جسے ہم (ارادی اور اختیاری موت)کا نام دے سکتے ہیں اس کے بالمقابل( قہری اور غیر اختیاری موت )ہے جسمیں ہمارے بدن دنیا سے نکالے جائیں گے ۔امام نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم قہری موت سے پہلے ارادی موت اختیارکرلیں اور دنیا سے قطع تعلق کا ہی دوسرا نام ''زہد''ہے ۔۔۔دنیا کے باطن کو دیکھنے والی نظر اور زہد سے اسکے رابطہ کو سمجھنے کے لئے خود زہد کے بارے میںجاننااور گفتگوکرنا ضروری ہے ۔

زہد

زہد،حب دنیا کے مقابل حالت ہے ۔طور وطریقہ اور سلوک کی یہ دونوں حالتیں دو الگ الگ نظریوں سے پیداہوتی ہیں ۔

حب دنیا کی کیفیت اس وقت نمودار ہوتی ہے کہ جب انسان دنیا کے فقط ظاہرپر نظر رکھتا ہے اس کے بر خلاف اگر انسان کی نظر دنیا کے باطن کو بھی دیکھ رہی ہے تو اس سے زہد کی کیفیت جنم لیتی ہے ۔

چونکہ حب دنیا کا مطلب دنیا سے تعلق رکھنا ہے اور زہد اس کے مقابل کیفیت کا نام ہے تو زہد کا مطلب ہوگا دنیا سے آزاد البتہ اس کے معنی کی وضاحت ضروری ہے ۔حب دنیا کے مفہوم کو سمیٹ کر دو لفظوں میںیوں بیان کیا جاسکتا ہے :

۱۔فرحت ومسرت

۲۔حزن وملال

حب دنیا کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کولذائذ دنیا میں جب کچھ بھی نصیب ہو تا ہے تووہ خوش

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۴۔

۲۳۰

ہوجاتا ہے اور جب وہ کسی نعمت سے محروم رہتا ہے یااس سے کوئی نعمت چھن جاتی ہے تووہ محزون ہوجاتاہے چونکہ زہد حب دنیا کے مقابل کیفیت کا نام ہے لہٰذا زہد کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان دنیا سے اتنا آزاداور بے پرواہ ہوکہ دنیا میں سب کچھ مل جانے پربھی خوشی محسوس نہ کرے اور کچھ بھی نہ ملنے پر مغموم و محزون نہ ہو ۔

خدا وند عالم فر ماتا ہے :

(۔۔۔لکیلا تحزنوا علیٰ مافاتکم ولامااصابکم ۔۔۔)( ۱ )

''۔۔۔تاکہ تم نہ اس پر رنجیدہ ہو جو چیز ہاتھ سے نکل گئی ہے اور نہ اس مصیبت پر جو نازل ہوگئی ہے ۔۔۔''

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

(۔۔۔لکیلا تاسوا علیٰ مافاتکم ولا تفرحوا بماآتاکم ۔۔۔)( ۲ )

''تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اسکا افسوس نہ کرو اور جو مل جائے اس پر غروراور فخر نہ کرو ۔۔۔''

امیر المو منین حضرت علی سے مروی ہے :

(الزهدکله فی کلمتین من القرآن )

''پورا زہد قرآن کے دو لفظوں میں سمٹا ہوا ہے جیسا کہ خدا کا ارشاد ہے :

(لکیلا تأسواعلیٰ مافاتکم )( ۳ )

''تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل گیا ہے اسکا افسوس نہ کرو''

____________________

(۱)سورئہ آل عمران آیت ۱۵۳۔

(۲)سورئہ حدید آیت۲۳۔

(۳)سورئہ حدید آیت ۲۳۔

۲۳۱

(فمن لم یأس علی الماضی ولم یفرح بالآ تی فهوالزاهد )( ۱ )

جو انسان ماضی پرافسوس نہ کرے اور ہاتھ آجانے والی چیز پر خوش نہ ہووہ زاہد ہے ''

ایک دوسرے مقام پر آپ سے روایت ہے :

''الزهدکلمة بین کلمتین من القرآن قال اللّٰه:(لکیلا تأسوا)فمن لم یأس علیٰ الماضی،ولم یفرح بالآ تی،فقد اخذ الزهد بطرفیه ''( ۲ )

''زہد قرآن کے دو لفظوں کا مجمو عہ ہے خدا وند عالم فر ماتا ہے :

(لکیلا تأسوا ۔۔۔)''تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل گیا ہے اسکا افسوس نہ کرو''

لہٰذاجو انسان ماضی پر افسوس نہ کرے اور ہاتھ آجانے والی چیز پر خوش نہ ہو اس نے پورا زہد حاصل کرلیا ہے ''

امیرالمو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(من اصبح علی الدنیا حزیناً،فقد أصبح لقضاء اللّٰه ساخطاً،ومن لهج قلبه بحب الدنیاالتاط قبله منها بثلاث:همّ لایُغِبُّه،وحرص لایترکه،وأمل لایدرکه )( ۳ )

''جو دنیا کے بارے میں محزون ہو گا وہ قضا و قدر الٰہی سے ناراض ہو گا جس کا دل محبت دنیا کا دلدادہ ہوجائے اسکے دل میں یہ تین چیزیں پیوست ہوجاتی ہیں وہ غم جو اس سے جدا نہیں ہوتا ہے ،وہ لالچ جو اسکا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے وہ امید جسے وہ کبھی حاصل نہیں کرسکتا ہے ''

یہ بھی حزن و فر حت سے آزادی کا ایک رخ ہے کہ دنیا کے بارے میں حزن وملال ،قضا وقدر الٰہی سے ناراضگی کے باعث ہوتا ہے اس لئے کہ انسان دنیا میں جن چیزوں سے بھی محروم ہوتا

____________________

(۱)بحا ر الانوار ج ۷۸ ص ۷۰۔

(۲)بحارالانوار ج ۷۰ ص ۳۲۔

(۳)نہج البلاغہ حکمت ۲۲۸۔

۲۳۲

ہے وہ در حقیقت قضا وقدر الٰہی کے تحت ہی ہوتا ہے نیز حب دنیا انسان میں تین صفتیں پیدا کرتی ہے ہم وغم ،حرص وطمع، آرزو۔ اس طرح وہ انسان کو ظلم وستم اور عذاب کے پنجوں میں جکڑدیتی ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

(ایهاالناس انماالدنیا ثلا ثة:زاهدوراغب وصابر،فأماالزاهدفلا یفرح بشیٔ من الدنیا أتاه،ولایحزن علیٰ شیٔ منها فاته وامّاالصابرفیتمنّاها بقلبه،فان ادرک منهاشیئاصرف عنها نفسه،لما یعلم من سوء عاقبتها وامّا الراغب فلایبالی من حِلٍّ اصابها أم من حرام )( ۱ )

''اے لوگو: دنیا کے افرادتین قسم کے ہیں :۱۔زاہد ۲۔صابر ۳۔راغب

۱۔زاہد وہ ہے جو کسی بھی چیز کے مل جانے سے خوش یا کسی بھی شے کے نہ ملنے سے محزون نہیں ہوتا ۔صابر وہ ہے جو دل ہی دل میں دنیا کی تمنا تو کرتا ہے لیکن اگر اسے دنیا مل جاتی ہے تو چونکہ اسکے برے انجام سے واقف ہے لہٰذا اپنامنھ اس سے پھیر لیتا ہے اور راغب وہ ہے کہ جسے یہ پروا نہیں ہے کہ اسے دنیا حلال راستہ سے مل رہی ہے یا حرام راستہ سے ''

زہدکے معنی ،لوگوں کی تین قسموںاور ان قسموں پر زاہد ین کی تقسیم کے سلسلہ میں یہ حدیث عالی ترین مطالب کی حامل ہے ۔اسکے مطابق لوگوں کی تین قسمیں ہیں :

زاہد ،صابر اور راغب۔

زاہد وہ ہے کہ جو دنیا اور اسکی فرحت وملال سے آزاد ہو۔

صابر وہ ہے کہ جو ان چیزوں سے آزاد تو نہیں ہے مگر حب دنیا ،دنیاوی فرحت ومسرت اور حزن وملال سے نجات پانے کے لئے کوشاںہے ۔

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱ص۱۲۱۔

۲۳۳

راغب وہ ہے کہ جو دنیا کا اسیر اور اسکی فرحت ومسرت اور حزن و ملال کے آگے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے۔

ان میں پہلا اور تیسراگروہ ایک دوسرے کے بالکل مقابل ہے کہ ایک مکمل طریقہ سے آزاد اور دوسراہر اعتبار سے مطیع و اسیرجبکہ تیسرا گروہ درمیانی ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی لوگوں کو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی فرحت و ملال کا رخ دنیا سے آخرت کی جانب موڑدیں یہی بہترین چیز ہے کیونکہ اگر ہماری کیفیت یہ ہوکہ ہم اطاعت خدا کرکے خوشی محسوس کریں اور اطاعت سے محرومی پر محزون ہوں تو یہ بہترین بات ہے اس لئے کہ اس خوشی اورغم کا تعلق آخرت سے ہے ۔

مولائے کائنات حضرت علی، ا بن عباس کے نام اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:

''اما بعد !انسان کبھی کبھی ایسی چیز کو پاکر بھی خوش ہوجاتا ہے جو ہاتھ سے جانے والی نہیںتھی اور ایسی چیز کو کھوکر رنجیدہ ہوجاتا ہے جو ملنے والی نہیں تھی لہٰذا خبر دار تمہارے لئے دنیا کی سب سے بڑی نعمت، کسی لذت کا حصول یا جذبۂ انتقام ہی نہ بن جائے بلکہ بہترین نعمت باطل کو مٹانے اور حق کو زندہ کرنے کو سمجھو اور تمہیں ان اعمال سے خوشی ہو جنہیں پہلے بھیج دیا ہے اور تمہارا افسوس ان امور پر ہو جنہیں چھوڑکر چلے گئے ہو اور تمام تر فکر موت کے مرحلہ کے بارے میں ہونی چاہئیے''( ۱ )

زہد،تمام نیکیوں کا سرچشمہ

جس طرح حیات انسانی میں حب دنیا تمام برائیوں کی جڑہے اسی طرح تمام نیکیوں اور اچھائیوں کا سرچشمہ ''زہد''ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حب دنیا انسان کو دنیا اور اسکی خواہشات کا اسیر بنادیتی ہے اور دنیا خود تمام برائیوں اور پستیوں کی بنیاد ہے لہٰذا حب دنیابھی انسان کو برائیوںاور

____________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب ۶۶۔

۲۳۴

پستیوں کی طرف لے جاتی ہے جبکہ زہد کا مطلب ہے دنیااور خواہشات دنیا سے آزاد ہونا اور جب انسان برائیوں کی طرف لے جانے والی دنیا سے آزاد ہوگا تو اسکی زندگی خود بخود نیکیوں اور اچھائیوں کا سرچشمہ بن جائے گی ۔

روایات معصومین میں اس چیز کی طرف متعدد مقامات پر مختلف اندازسے اشارہ کیا گیا ہے بطور نمونہ ہم یہاں چند احادیث پیش کر رہے ہیں۔

امام صادق کا ارشاد ہے:

(جُعل الخیرکله فی بیت وجُعل مفتاحه الزهد فی الدنیا )( ۱ )

''تمام نیکیاں ایک گھر میں قرار دی گئی ہیں اور اسکی کنجی دنیا کے سلسلہ میں زہد اختیار کرنا ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الزهد أصل الدین )( ۲ )

''دین کی اصل، زہد ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الزهد اساس الدین )( ۳ )

''دین کی اساس اور بنیاد، زہد ہے ''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(الزهد مفتاح باب الآخرة،والبرا ئة من النار،وهو ترکک کل شیٔ

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۴۹۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۲۹۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۳۰۔

۲۳۵

یشغلک عن اللّٰه من غیرتأسف علیٰ فوتها ولا أعجاب فی ترکها،ولاانتظارفرج منها،ولاطلب محمدة علیها،ولاعوض منهابل تریٰ فواتهاراحة،وکونهاآفة،وتکون أبداً هارباً من الآفة،معتصماً بالراحة )( ۱ )

''زہد،باب آخرت کی کنجی اورجہنم سے نجات کا پروانہ ہے ۔زہد کا مطلب یہ ہے کہ تم ہراس چیز کو ترک کردو جو تمہیں یاد خدا سے غافل کردے اور تمہیں اسکے چھوٹ جانے کا نہ کوئی افسوس ہو اور نہ اسے ترک کرنے میں کوئی زحمت ہو ۔اس کے ذریعہ تمہاری کشادگی کی توقع نہ ہو،نہ ہی اس پر تعریف کی امید رکھو، نہ اسکا بدلہ چاہو بلکہ اسکے فوت ہوجانے میں ہی راحت اور اسکی موجود گی کو آفت سمجھوایسی صورت میں تم ہمیشہ آفت سے دوراورراحت وآرام کے حصارمیںرہو گے''

حضرت علی نے فرمایا ہے :

(الزهد مفتاح الصلاح )( ۲ )

''زہد صلاح کی کنجی ہے ''

زہد کے آثار

حیات انسانی میں زہد کے بہت عظیم آثار و نتائج پائے جاتے ہیں جنہیں زاہد کے نفس اور اسکے طرز زندگی میں بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔

۱۔آرزووں میں کمی

حب دنیا کا نتیجہ آرزووں کی کثرت ہے اور زہد کا نتیجہ آرزووں میں کمی۔ جب انسان کا تعلق دنیا سے کم ہو اوروہ خواہشات دنیا سے آزاد ہوتو طبیعی طور پر اسکی آرزوئیں بھی مختصر ہوںگی وہ دنیا میں

____________________

(۱) بحا ر الا نو ا ر ج ۰ ۷ ص۳۱۵۔

(۲)غررالحکم ص۹۹،۳۷۔۸۔

۲۳۶

زندگی بسر کرے گا متاع زندگانی اوردنیاوی لذتوںسے استفادہ کرے گا لیکن ہمیشہ موت کو بھی یاد رکھے گا اور اسی طرح یہ بات بھی اسکے پیش نظر رہے گی کہ ان چیز وں کا سلسلہ کسی بھی وقت اچانک ختم ہوجائے گا۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

(من یرغب فی الدنیا فطال فیها أمله،أعمیٰ ﷲ قلبه علیٰ قدررغبته فیها، ومن زهد فیها فقصرفیهاأمله،أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیً بغیرهدایة،وأذهب عنه العمائ،وجعله بصیرا )( ۱ )

''جو شخص دنیا کی طرف راغب ہوتاہے اسکی آرزوئیں طولانی ہوتی ہیں اور دنیا کی طرف اسکی رغبت کے مطابق ﷲ اسکے قلب کو اندھا کردیتاہے اور جو دنیا میں زاہد ہوتاہے اسکی آرزوئیں مختصر ہوتی ہیں اور ﷲ اسے تعلیم کے بغیر علم اوراسباب ہدایت کے بغیر ہدایت عطا کرتاہے۔اوراس سے اندھے پن کو دور کرکے اسکو بصیر بنا دیتاہے ''

اس روایت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ زہد ،سے آرزوئیںکم ہوجاتی ہیں اور اس کمی سے بصیرت اورہدایت ملتی ہے اسکے برعکس دنیا کی جانب رغبت سے آرزووں میں کثرت پیدا ہوتی ہے اور یہ کثرت اندھے پن کا سبب ہے تو آخر آرزووں کی قلت اور بصیرت کے درمیان کیا تعلق ہے ؟

اسکا راز یہ ہے کہ طویل آرزوئیںانسان کو دنیا میں اس طرح جکڑدیتی ہیں کہ انسان اس سے بیحدمحبت کرنے لگتا ہے اوردنیاکی محبت ا انسان اور خدا کے درمیان حجاب بن جاتی ہے اور جب آرزوئیں مختصر ہوتی ہیں تو یہ حجاب اٹھ جاتا ہے۔اور ظاہر ہے کہ جب قلب کے حجابات دور ہوجائیں گے تواس میں بصیرت پیدا ہوجائے گی ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۷ص۲۶۳۔

۲۳۷

(الزهد فی الدنیا قصرالأمل،وشکرکل نعمة،والورع عن کل ماحرّم ﷲ )( ۱ )

''دنیا میں زہد کا مطلب یہ ہے کہ آرزوئیں قلیل ہوں،ہر نعمت کا شکر ادا کیا جائے اور محرمات الٰہی سے پرہیز کیا جائے''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الزهد تقصیرالآمال،واخلاص الاعمال )( ۲ )

''آرزووںمیںکمی اور اعمال میں خلوص کا نام زہد ہے ''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(أیهاالناس،الزهادة قصرالأمل،والشکرعندالنعم،والتورع عندالمحارم،فانْ عزب ذلک عنکم،فلایغلب الحرام صبرکم،ولاتنسواعندالنعم شکرکم،فقدأعذرﷲالیکم بحججٍ مسفرةظاهرة،وکتبٍ بارزةالعذرواضحة )( ۳ )

''اے لوگوں:زہد امیدوں کے کم کرنے ،نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے اور محرمات سے پرہیز کرنے کا نام ہے ۔اب اگر یہ کام تمہارے لئے مشکل ہوجائے تو کم ازکم اتنا کرناکہ حرام تمہاری قوت برداشت پر غالب نہ آنے پائے اور نعمتوں کے موقع پر شکر کو فراموش نہ کردینا کہ پروردگار نے نہایت درجہ واضح اور روشن دلیلوں اور حجت تمام کرنے والی کتابوں کے ذریعہ تمہارے ہر عذر کا خاتمہ کردیا ہے ''

۲۔دنیاوی تاثرات سے نجات اورآزادی

دنیاوی نعمتیں ملنے سے نہ انسان خوشی محسوس کرے گا اور نہ ان سے محرومی پر محزون ہوگا ۔

امیرالمومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۷ص۱۶۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۹۳۔

(۳)نہج البلاغہ خطبہ ۸۱۔

۲۳۸

(فمن لم یأس علیٰ الماضی،ولم یفرح بالآ تی فقد أخذ الزهد بطرفیه )( ۱ )

''جو شخص ماضی پر افسوس نہ کرے اور ہاتھ آنے والی چیزوں سے مغرور نہ ہوجائے اس نے سارا زہدسمیٹ لیا ہے ''

امیر المومنین کے ہر کلام کی مانند حیات انسانی میں زہد کے نتائج کے بارے میں شاہکار کلام پایا جاتا ہے ہم یہاں اس کلام کو نہج البلاغہ سے نقل کر رہے ہیں ۔''اپنے کانوں کو موت کی آواز سنادو قبل اسکے کہ تمہیں بلالیاجائے دنیا میں زاہدوں کی شان یہی ہوتی ہے کہ وہ خوش بھی ہوتے ہیں تو ان کا دل روتا رہتاہے اور وہ ہنستے بھی ہیںتوان کا رنج و اندوہ شدیدہوتاہے۔وہ خود اپنے نفس سے بیزاررہتے ہیںچاہے لوگ ان کے رزق سے غبطہ ہی کیوں نہ کریں ۔افسوس تمہارے دلوں سے موت کی یاد نکل گئی ہے اور جھوٹی امیدوں نے ان پر قبضہ کرلیا ہے۔اب دنیا کا اختیار تمہارے اوپر آخرت سے زیادہ ہے اور وہ عاقبت سے زیادہ تمہیں کھینچ رہی ہے ۔تم دین خدا کے اعتبار سے بھائی بھائی تھے۔ لیکن تمہیں باطن کی خباثت اور ضمیر کی خرابی نے الگ الگ کردیا ہے کہ اب نہ کسی کا بوجھ بٹاتے ہو۔نہ نصیحت کرتے ہو۔نہ ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہواور نہ ایک دوسرے سے واقعاًمحبت کرتے ہو۔آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ معمولی سی دنیا کو پاکر خوش ہوجاتے ہو اور مکمل آخرت سے محروم ہوکر رنجیدہ نہیں ہوتے ہو۔تھوڑی سی دنیا ہاتھ سے نکل جائے تو پریشان ہوجاتے ہو اور اسکا اثر تمہارے چہروں سے ظاہر ہوجاتاہے اور اس کی علیٰحدگی پر صبر نہیں کرپاتے ہو جیسے وہی تمہاری منزل ہے اور جیسے اس کا سرمایہ واقعی باقی رہنے والا ہے۔تمہاری حالت یہ ہے کہ کوئی شخص بھی دوسرے کے عیب کے اظہارسے باز نہیں آتا ہے مگر صرف اس خوف سے کہ وہ بھی اسی طرح پیش آئے گا ۔تم سب نے آخرت کو نظر انداز کرنے اور دنیا کی محبت پر اتحاد کرلیاہے اور ہر ایک کا دین زبان کی چٹنی بن کر رہ گیا

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۰ص۳۲۰،نہج البلاغہ حکمت ۴۳۹۔

۲۳۹

ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب نے اپنا عمل مکمل کرلیا ہے اور اپنے مالک کو واقعا خوش کرلیا ہے۔''( ۱ )

۳۔دنیاپرعدم اعتماد

انسانی نفس کے اوپر زہد کے آثار میں سے ایک اثریہ بھی ہوتا ہے کہ زاہد کبھی بھی دنیا پر اعتماد نہیں کرتا ۔انسان جب دنیا سے محبت کرنے لگتا ہے اور اس کا نفس دنیا میں الجھ جاتا ہے تو وہ دنیا پر بھروسہ کرتا ہے اوردنیا کو ہی اپناٹھکانہ اوردائمی قیام گا ہ مان لیتا ہے لیکن جب انسان کے اندر زہد کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اوروہ اپنے دل سے حب دنیا کونکال دیتا ہے تو پھراسے دنیا پر اعتبار بھی نہیں رہ جاتا اور وہ دنیا کو محض ایک گذرگاہ اور آخرت کے لئے ایک پُل تصور کرتاہے ۔

دنیا کے بارے میں لوگوں کے درمیان دو طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں ۔کچھ افراد دنیا کو قیام گاہ مان کر اس سے دل لگالیتے ہیں اور کچھ لوگ دنیا کو گذر گاہ اور آخرت کے لئے ایک پل سمجھ کر اس سے دل نہیں لگاتے ۔دو نوںقسم کے افراد اسی دنیا میں رہتے ہیں اورخدا کی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں مگر ان کے درمیان فر ق یہ ہے کہ پہلے گروہ کامنظور نظر خود دنیا ہوتی ہے اور وہ اسی کو سب کچھ مانتے ہیں یہاںتک کہ موت ان سے دنیا کو الگ کردیتی ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہے کہ جو دنیا کو سب کچھ سمجھ کر اس سے دل نہیں لگاتا بلکہ اسے گذر گاہ اور پل کی حیثیت سے دیکھتا ہے لہٰذا جب موت آتی ہے تو دنیا کی مفارقت ان پر گراں نہیں گذرتی ہے۔

دنیا میں انسان کی حالت او راس میں اسکے قیام کی مدت کو روایات میں بہترین مثالوں کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے ایک مثال کے بموجب دنیامیں انسان کا قیام ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی سوار راستہ میںسورج کی گرمی سے پریشان ہوکر کسی سایہ داردرخت کے نیچے بیٹھ جاتا ہے اور تھوڑی دیر آرام کے بعد پھر اپنے کام کے لئے چل پڑتا ہے ۔ کیا ایسی صورت میں دنیا کو اپنا ٹھکانہ، دائمی قیام گاہ سمجھنا اور

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۳

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313