تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي18%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139673 / ڈاؤنلوڈ: 4388
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

سياست

زمانہ جاہليت كے عرب سياسى اعتبار سے كسى خاص طاقت كے مطيع اور فرمانبردار اور قانوں كے تابع نہ تھے_ وہ صرف اپنے ہى قبيلے كى طاقت كے بارے ميں سوچتے تھے دوسروں كے ساتھ ان كا وہى سلوك تھا جو افراطى قوم پرست ور نسل پرست روا ركھتے ہيں_

جغرافيائي اور سياسى اعتبار سے جزيرہ نمائے عرب ايسى جگہ واقع ہے كہ جنوبى علاقے كے علاوہ اس كا باقى حصہ اس قابل نہ تھا كہ ايران اور روم (موجودہ اٹلى) جيسے جنگجو اور كشور كشا ممالك اس كى جانب رخ كرتے _ چنانچہ اس زمانے ميں ان فاتحين نے اس كى طرف كم توجہ دى كيونكہ اس كے خشك بے آب و گياہ اور تپتے ہوئے ريگستان ان كے لئے قطعى بے مصرف تھے اس كے علاوہ عہد جاہليت كے عربوں كو قابو ميں لانا اور ان كے زندگى كو كسى نظام كے تحت منظم و مرتب كرنا انتہائي سخت اور دشوار كام تھا_

۲۱

قبيلہ

عرب ، انفرادى زندگى كو اپنے استبدادى اور خود خواہ مزاج كے مطابق پاتے تھے چنانچہ انہوں نے جب بيابانوں ميں زندگى كى مشكلات كا مقابلہ كيا تو يہ اندازہ لگايا كہ وہ تنہا رہ كر زندگى بسر نہيں كرسكتے اس بنا پر انہوں نے فيصلہ كيا كہ جن افراد كے ساتھ ان كا خونى اورنسلى يا سسرالى رشتہ دارى تھي_ ان كے ساتھ مل كر اپنے گروہ كو تشكيل ديں جس كا نام انہوں نے ''قبيلہ'' ركھا _ قبيلہ ايسى مستقل اكائي تھى جس كے ذريعے عہد جاہليت ميں عرب قوميت كى اساس و بنياد شكل پذير ہوتى تھى اور وہ ہر اعتبار سے وہ خود كفيل ہوتى تھي_

دور جاہليت ميں عربوں كے اقدار كامعيار قبائلى اقدارميں منحصر تھا ہر فرد كى قدر ومنزلت كا اندازہ اس بات سے لگايا جاتا تھا كہ قبيلے ميں اس كا كيا مقام و مرتبہ اور اہل قبيلہ ميں اس كا كس حد تك اثر و رسوخ ہے يہى وجہ تھى كہ قدر و منزلت كے اعتبار سے سرداران قبائل كو بالاترين مقام و مرتبہ حاصل تھا جبكہ اس كے مقابلے ميں كنيزوں اور غلاموں كا شمار قبائل كے ادنى ترين و انتہائي پست ترين افراد ميں ہوتا تھا_

ديگر قبائل كے مقابلے ميں جس قبيلے كے افراد كى تعداد جتنى زيادہ ہوتى اس كى اتنى ہى زيادہ عزت اور احترام ہوتاتھا اور وہ قبيلہ اتنا ہى زيادہ فخر محسوس كرتا اس لئے ہر قبيلہ اپنى قدر و منزلت بڑھانے اور افراد كى تعداد كو زيادہ كھانے كى غرض سے اپنے قبيلے كے مردوں كى قبروں كو بھى شامل اور شمار كرنے سے بھى دريغ نہ كرتا چنانچہ اس امر كى جانب قرآن نے اشارہ كرتے ہوئے بيان كيا ہے:

( أَلهَاكُم التَّكَاثُرُ، حَتَّى زُرتُم المَقَابرَ ) (۲)

''ايك دوسرے پر (كثرت افراد كى بنياد پر )فخر جتانے كى فكر نے تمہيں قبروں (كے ديدار )تك پہنچاديا ''(۳) _

معاشرتى نظام

جزيزہ نما ئے عرب كے اكثر و بيشتر لوگ اپنے مشاغل كے تقاضوں كے باعث صحرانشينى كى زندگى اختيار كئے ہوئے تھے _ كل آبادى كاصرف چھٹا حصہ ايسا تھا جو شہروں ميں آباد تھا ، شہروں ميں ان كے جمع ہونے كى وجہ يا تو اُن شہروںكا تقدس تھا يا يہ كہ ان ميں تجارت ہوتى تھى چنانچہ مكہ كو دونوں ہى اعتبار سے اہميت حاصل تھى اس كے علاوہ شہروں

۲۲

ميں آباد ہونے كى وجہ يہ بھى تھى كہ وہاں كى زمينين سرسبزو شاداب تھيں اور ان كى ضروريات پورى كرنے كيلئے ان ميں پانى كے علاوہ عمدہ چراگاہيں بھى موجود تھيں _ يثرب ' طائف' يمن ' حيرہ ' حضرموت اور غسان كا شمار ايسے ہى شہروں ميں ہوتا تھا_

عرب كے باديہ نشين (ديہاتى جنہيں بدو كہا جاتا ہے)اپنے خالص لب ولہجہ اور قومى عادت و خصلت كے اعتبار سے شہر نشين عربوں كے مقابل اچھے سمجھے جاتے تھے اسى لئے عرب كے شہرى اپنے بچوں كو چند سال كے لئے صحرائوں ميں بھيجتے تھے تاكہ وہاں ان كى پرورش اسى ماحول اور اسى تہذيب و تمدن كے گہوارے ميں ہوسكے_

ليكن اس كے مقابلے ميں شہروںميں آباد لوگوں كى سطح فكر زيادہ سيع اور بلند تھى اور ايسے مسائل كے بارے ميں ان كى واقفيت بھى زيادہ تھى جن كا تعلق قبيلے كے مسائل سے جدا اور ہٹ كر ہوتا تھا_

جبكہ صحرا نشين لوگوں كو شہرى لوگوں كے مقابل زيادہ آزادى حاصل تھي_ اپنے قبيلے كے مفادات كى خاطر ہر شخص كو يہ حق حاصل تھا كہ عملى طور پر وہ جو چاہے كرے اس معاملے ميں اہل قبيلہ بھى اس كى مدد كرتے تھے اسى لئے دوسروں سے جنگ و جدال اور ان كے مال ودولت كى لوٹ مار ان كے درميان ايك معمولى چيز بن گئي تھى _ چنانچہ عربوں ميں جنہوں نے شجاعت و بہادرى كے كارنامے سر انجام ديئے ہيں ان ميں سے اكثر وبيشتر صحرا نشين ہى تھے_

دين اور دينداري

زمانہ جاہليت ميںملك عرب ميں بت پرستى كا رواج عام تھا اور لوگ مختلف شكلوں ميں

۲۳

اپنے بتوں كى پوجا كرتے تھے اس دور ميں كعبہ مكمل طور پر بت خانہ ميں بدل چكا تھا جس ميں انواع و اقسام اور مختلف شكل و صورت كے تين سو ساٹھ سے زيادہ بت ركھے ہوئے تھے اور كوئي قبيلہ ايسا نہ تھا جس كا بت وہاں موجود نہ ہو_ حج كے زمانے ميں ہر قبيلے كے لوگ اپنے بت كے سامنے كھڑے ہوتے اس كى پوجا كرتے اور اس كو اچھے ناموںسے پكارتے نيز تلبيہ بھى كہتے تھے_(۴)

ظہور اسلام سے قبل يہود ى اور عيسائي مذہب كے لوگ بھى جو اقليت ميں تھے جزيرہ نمائے عرب ميں آباد تھے_ يہودى اكثر وبيشتر خطہ عرب كے شمالى علاقوں مثلاً يثرب' وادى القري' تيمائ' خيبراور فدك جيسے مقامات پر رہا كرتے تھے جبكہ عيسائي جنوبى علاقوں يعنى يمن اور نجران جيسى جگہوں پر بسے ہوئے تھے_

انہى ميں گنتى كے چند لوگ ايسے بھى تھے جو وحدانيت كے قائل اور خدا پرست تھے اور وہ خود كو حضرت ابراہيم عليہ السلام كے دين كے پيروكار سمجھتے تھے_ مورخين نے ان لوگوں كو حُنَفاء كے عنوان سے ياد كيا ہے_(۵)

بعثت رسول (ص) كے وقت عربوںكى مذہبى كيفيت كو حضرت على عليہ السلام نے اس طرح بيان كيا ہے :

(... وَاَهلُ الاَرض يَومَئذ: ملَلٌ مُتَفَرّقَة ٌوَاَهوَائٌ مُنتَشرَة ٌوطَرَائقُ مُتَشَتّتَةٌ بَينَ مُشَبّه للّه بخَلقه اَو مُلَحد: في اسمه اَو مُشير: الى غَيره فَهَدَاهُم به منَ الضَّلَالَة وَاَنَقَذَهُم بمَكَانه منَ الجَهَالَة) (۶)

اس زمانے ميں لوگ مختلف مذاہب كے ماننے والے تھے ان كے افكارپريشان اور

۲۴

ايك دوسرے كى ضد اور طريقے مختلف تھے بعض لوگ خدا كو مخلوق سے تشبيہ ديتے تھے (ان كا خيال تھاكہ خدا كے بھى ہاتھ پير ہيں اس كے رہنے كى بھى جگہ ہے اور اس كے بچے بھى ہيں) وہ خدا كے نام ميں تصرف بھى كرتے (اپنے بتوں كا نام خدا كے مختلف ناموں سے اخذ كركے ركھتے تھے مثلاً لات كو اللہ' عزّى كو عزيز اور منات كو منان كے ناموں سے اخذ كركے ركھا تھا)(۷) بعض ملحد لوگ خدا كے علاوہ دوسرى اشيا يعنى ماديات پر يقين ركھتے تھے (جس طرح دہريے تھے جو صرف طبيعت ، زمانہ ،حركات فلكيہ اورمرورمان ہى كو امور ہستى پر مؤثر سمجھتے تھے) _(۸) خداوند متعال نے پيغمبر (ص) كے ذريعے انہيں گمراہى سے نجات دلائي اور آپ (ص) كے وجود كى بركت سے انہيں جہالت كے اندھيرے سے باہر نكالا_

جب ہم بت پرستوں كے مختلف عقائد كا مطالعہ كرتے ہيں اور ان كا جائزہ ليتے ہيں تو اس نتيجے پر پہنچتے ہيں كہ انہيں اپنے بتوں سے ايسى زبردست عقيدت تھى كہ وہ ان كى ذراسى بھى توہين برداشت نہيں كرسكتے تھے اسى لئے وہ حضرت ابوطالب (ع) كے پاس جاتے اور پيغمبر (ص) كى شكايت كرتے ہوئے كہتے كہ وہ ہمارے خدائوں كو برا كہہ رہے ہيں اور ہمارے دين ومذہب كى عيب جوئي كر رہے ہيں(۹) _ وہ خدائے مطلق كے وجود كے معتقد اور قائل تو تھے اور اللہ كے نام سے اسے يادبھى كرتے تھے مگر اس كے ساتھ ہى وہ بتوں كو تقدس و پاكيزگى كا مظہر اور انہيں قابل پرستش سمجھتے تھے وہ يہ بات بھى اچھى طرح جانتے تھے كہ يہ بت ان كے معبود تو ہيں مگر ان كے خالق نہيں چنانچہ يہى وجہ تھى كہ جب رسول خدا (ص) ان سے گفتگو فرماتے تو يہ ثابت نہيں كرتے تھے كہ خداوند تعالى ان كا خالق ہے بلكہ ثبوت ودلائل كے ساتھ يہ فرماتے كہ خدائے مطلق ، واحد ہے اور ان لوگوںكے بنائے ہوئے معبودوں كى حيثيت و حقيقت كچھ بھى نہيں_

۲۵

قرآن مجيد نے مختلف آيات ميں اس حقيقت كى جانب اشارہ كيا ہے _يہاں اس كے چند نمونے پيش كئے جاتے ہيں:

( وَلَئن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرضَ لَيَقُولُنَّ الله ُ ) (۱۰)

''ان لوگوں سے اگر تم پوچھو كہ زمين اور آسمان كو كس نے پيدا كيا ہے ؟ تو يہ خود ہى كہيں گے كہ اللہ نے''_

اس كے علاوہ وہ بت پرستى كى يہ بھى توجيہ پيش كرتے تھے كہ :

( مَا نَعبُدُهُم إلاَّ ليُقَرّبُونَا إلَى الله زُلفَي ) (۱۰)

''ہم تو ان كى عبادت صرف اس لئے كرتے ہيں كہ وہ اللہ تك ہمارى رسائي كراديںگے_

دوسرے لفظوں ميں وہ يہ كہا كرتے تھے كہ:

( هَؤُلَائ شُفَعَاؤُنَا عندَ الله ) (۱۲)

''يہ اللہ كے ہاں ہمارے سفارشى ہيں''

تہذيب و ثقافت

زمانہ جاہليت كے عرب ناخواندہ اور علم كى روشنى سے قطعى بے بہرہ تھے _ ان كے اس جہل و ناخواندگى كے باعث ان كے پورے معاشرے پرجہالت اور خرافات سے اٹى بے ثقافتى حاكم تھى (وہ بے تہذيب لوگ تھے)_ ان كى كثير آبادى ميں گنتى كے چندلوگ ہى ايسے تھے جو لكھنا اور پڑھنا جانتے تھے(۱۳)

دور جاہليت ميں عرب تہذيب و تمدن كے نماياں ترين مظہر حسب ونسب كى پہچان،

۲۶

شعر گوئي اور تقارير ميں خوش بيانى جيسے اوصاف تھے_ چنانچہ عيش وعشرت كى محفل ہو ، ميدان كارزارہو يا قبائلى فخر فروشى كا ميدان غرض وہ ہرجگہ پرشعر گوئي يا جادو بيان تقارير كا سہارا ليتے تھے_

اس ميں شك نہيں كہ اسلام سے قبل عربوں ميں شجاعت، شيرين بياني، فصاحت و بلاغت مہمان نوازي، لوگوں كى مدد اور آزادى پسندى جيسى عمدہ خصوصيات و صفات بھى موجود تھيں مگر ان كے رگ و پے ميں سرايت كر جانے والى قابل مذمت عادات و اطوار كے مقابلے ميں ان كى يہ تمام خوبياں بے حقيقت بن كر رہ گئي تھيں_ اس كے علاوہ ان تمام خوبيوں اور ذاتى اوصاف كا اصل محرك، انسانى اقدار اور قابل تحسين باتيں نہ تھيں _

زمانہ جاہليت كے عرب طمع پرورى اور مادى چيزوں پر فريفتگى كا كامل نمونہ تھے_ وہ ہر چيز كو مادى مفاد كے زاويے سے ديكھتے تھے_ ان كى معاشرتى تہذيب بے راہروى ، بد كردارى اور قتل و غارتگرى جيسے برے افعال و اعمال پر مبنى تھى اور يہى پست حيوانى صفات ان كى سرشت اور عادت و جبلت كا جز بن گئي تھيں_

دور جاہليت ميں عربوں كى ثقافت ميں اخلاقيات كى توجيہ و تعبير دوسرے انداز ميں كى جاتى تھى _ مثال كے طور پر غيرت، مروت اور شجاعت كى تعريف تو كرتے تھے مگر شجاعت سے ان كى مراد سفاكى اور دوسروں كے قتل و خونريزى كى زيادہ سے زيادہ طاقت ہوتى تھي_ غيرت كا مفہوم ان كے تمدن ميں لڑكيوں كو زندہ دفن كردينا تھا_ اور اپنے اس طريقہ عمل سے اپنى غيرت كى نماياں ترين مثال پيش كرتے تھے _ ايفائے عہد كا مطلب وہ يہ سمجھتے تھے كہ حليف يا اپنے قبيلے كے افراد كى ہر صورت ميں حمايت كريں چاہے وہ حق پر ہويا باطل پر_

۲۷

توہم پرستى اور خرافات كى پيروي

طلوع اسلام كے وقت دنيا كى تمام اقوام كے عقائد ميں كم وبيش خرافات ، توہمات اور افسانے و غيرہ شامل تھے _ اس زمانے ميں يونانى اور ساسانى اقوام كا شمار دنيا كى سب سے زيادہ ترقى يافتہ اقوام ميں ہوتا تھا _ چنانچہ ان لوگوں كے اذہان اور افكار پر انہى كے قصوں اور كہانيوں كا غلبہ تھا _يہ بھى ايك حقيقت ہے كہ تہذيب وتمدن اور علم كے اعتبار سے جو بھى معاشرہ جس قدر پسماندہ ہوگا اس ميں توہمات و خرافات كا اتنا ہى زيادہ رواج ہوگا _ جزيرہ نما ئے عرب ميں توہمات اور خرافات كا رواج عام تھا ان كے بہت سے واقعات تاريخ نے اپنے سينے ميں محفوظ كرركھے ہيں _ يہاں بطور مثال چند نمونے پيش كئے جاتے ہيں:

۱_ايسى آنتوں اور ڈوريوں و غيرہ كو جنہيں كمانوں كى تانت بنانے كے كام ميں لاياجاتا تھا لوگ اپنے اونٹوں اور گھوڑوں كى گردنوں نيز سروں پر لٹكادياكرتے تھے _ ان كا عقيدہ تھا كہ ايسے ٹوٹكوں سے ان كے جانور بھوت پريت كے آسيب سے بچے رہتے ہيں اور انہيں كسى كى برى نظر بھى نہيں لگتى _ نيز جنگ اور لوٹ ماركے موقع پر بلكہ ہر موقع پر انہيں دشمنوں كى گزند سے محفوظ ركھنے ميں بھى يہ ٹوٹكے مؤثر ہيں_(۱۴)

۲_خشك سالى كے زمانے ميں بارش لانے كى غرض سے جزيرہ نما ئے عرب كے بوڑھے اور كاہن لوگ ''سَلَع'' نامى درخت (جس كا پھل كڑوا ہوتا ہے) اور ''عُشَر'' نامى پيڑ(جس كى لكڑى جلدى جل جاتى ہے) كى لكڑيوں كوگائے كى دُموں اور پيروں ميں باندھ ديتے اور انہيں پہاڑوں كى چوٹيوں تك ہانك كر لے جاتے_ اس كے بعد وہ ان لكڑيوں كو آگ لگاديتے _ آگ كے شعلوں كى تاب نہ لاكر ان كى گائے

۲۸

ادھر ادھر بھاگنے لگتى اور سرمار مار كر ڈكرانا شروع كرديتي_ ان كے خيال ميں ان گائيوں كے ڈكرانے اور بے قرارى كرسے پانى برسنے لگے گا _ شايد اس گمان سے كہ جب بارش بھيجنے والا مؤكل يا خدا (ورشا ديوى يا جل ديوتا) ان گائيوں كو تڑپتا ہوا ديكھيں گے تو ان كى پاكيزگى اورتقدس كى خاطر جلد ہى بادلوں كو برسنے كيلئے بھيج ديں گے_(۱۵)

۳_وہ مردوں كى قبروں كے پاس اونٹ نحر كركے اسے گڑھے ميں ڈال ديتے _ ان كا يہ عقيدہ تھا كہ ان كے اس كا م سے صاحب قبر عزت واحترام كے ساتھ اونٹ پر سوارمحشر ميں واردہوگا_(۱۶)

عہد جاہليت ميں عورتوں كا مقام

دورجاہليت كے عرب عورتوں كى قدر ومنزلت كے ذرہ برابر بھى قائل نہ تھے_ وہ ہر قسم كے انفرادى و اجتماعى حقوق سے محروم تھيں_ اس عہد جاہليت كے معاشرتى نظام ميں عورت صرف ورثے سے ہى محروم نہيں ركھى جاتى تھى بلكہ خود اس كا شمار بھى اپنے باپ' شوہر يا بيٹے كى جائداد ميں ہوتا تھا _ چنانچہ مال و جائداد كى طرح اسے بھى ورثے اور تركے ميں تقسيم كردياجاتا تھا _

عرب قحط سالى كے خوف يا اس خيال سے كہ لڑكيوں كا وجود ان كى ذات كےلئے باعث ننگ و عيب ہے انہيں پيدا ہوتے ہى زمين ميں زندہ گاڑديتے تھے_

اپنى معصوم لڑكيوں سے انہوں نے جو غير انسانى و ناروا سلوك اختيار كر ركھا تھا اس كى مذمت كرتے ہوئے قرآن مجيد فرماتا ہے:

۲۹

( وَإذَا بُشّرَ أَحَدُهُم بالأُنثَى ظَلَّ وَجهُهُ مُسوَدًّا وَهُوَ كَظيمٌ _ يَتَوَارَى من القَوم من سُوئ مَا بُشّرَ به أَيُمسكُهُ عَلَى هُون: أَم يَدُسُّهُ فى التُّرَاب أَلاَسَائَ مَا يَحكُمُونَ ) (۱۷)

''جب ان ميں سے كسى كو بيٹى كے پيدا ہونے كى خبر دى جاتى ہے تويہ سنتے ہى اس كا چہرہ سياہ پڑ جاتا ہے اور وہ بس خون كا گھونٹ سا پى كر رہ جاتا ہے_ لوگوں سے منھ چھپاتا پھرتا ہے كہ برى خبر كے بعد كيا كسى كو منہ دكھائے _ سوچتا ہے كہ ذلت كے ساتھ بيٹى كو لئے رہے يا مٹى ميں دبا دے بے شك وہ لوگ بہت برا كرتے ہيں''_

دوسرى آيت ميں بھى قرآن مجيد انہيں اس برى اور انسانيت سوز حركت كے بد-لے خداوند تعالى كى بارگاہ ميں جوابدہ قرار ديتا ہے _ چنانچہ ارشاد فرماتا ہے:

( وَإذَا المَوئُودَةُ سُئلَت بأَيّ ذَنب: قُتلَت ) _(۱۸)

''او رجب زندہ گاڑى ہوئي لڑكى سے پوچھا جائے گا كہ وہ كس قصور ميں مارى گئي''_

سب سے زيادہ افسوس ناك بات يہ تھى كہ ان كے درميان شادى بياہ كى ايسى رسومات رائج تھيں كہ ان كى كوئي خاص بنياد نہ تھى وہ اپنى شادى كے لئے كسى معين حد كے قائل نہ تھے(جتنى بھى دل كرتا بيوياں اپنے پاس ركھتے تھے)_ مہر كى رقم ادا كرنے كى ذمہ دارى سے سبكدوش ہونے كيلئے وہ انہيں تكليف اور اذيت ديتے تھے _ كبھى وہ اپنى زوجہ پر بے عصمت ہونے كا نارواالزام لگاتے تاكہ اس بہانے سے وہ مہر كى رقم ادا كرنے سے بچ جائيں _ ان كا باپ اگر كسى بيوى كو طلاق دے ديتا ' يا خود مرجاتا تو اس كى بيويوں سے شادى كرلينا ان كيلئے كوئي مشكل نہ تھانہ ہى قابل اعتراض تھا_

۳۰

حرمت كے مہينے

دور جاہليت كے تہذيب و تمدن ميں ذى القعدہ ' ذى الحجة ' محرم اور رجب چار مہينے ايسے تھے جنہيں ماہ حرام سے تعبير كياجاتا تھا _ ان چار ماہ كے دوران ہر قسم كى جنگ و خونريزى ممنوع تھي_ البتہ اس كے بدلے تجارت ' ميل ملاقات' مقامات مقدسہ كى زيارت اوردينى رسومات كى ادائيگى اپنے عرو ج پر ہوتى تھيں_

اور چونكہ قمرى مہينے سال كے موسموں كے لحاظ سے آہستہ آہستہ بدلتے رہتے تھے اوربسا اوقات يہ موسم ان كى تجارت و غيرہ كےلئے سازگار اور مناسب نہ ہوتے اسى لئے وہ قابل احترام مہينوں ميں تبديلى كرليا كرتے تھے_ قرآن مجيد نے انہيں ''النسيئ'' كے عنوان سے ياد كيا ہے_(۱۹) چنانچہ فرماتاہے:

( إنَّمَا النَّسيئُ زيَادَةٌ فى الكُفر )

''حرام ہينوں ميں تبديلى اور تاخير تو ان كے كفر ميں ايك اضافہ ہے''_(۲۰)

۳۱

سوالات

۱_ جزيرہ نمائے عرب كا محل وقوع بتايئے؟

۲_ فاتحين كس وجہ سے جزيرہ نمائے عرب كى طرف توجہ نہيں ديتے تھے؟

۳_ جزيرہ نمائے عرب كى اسلام سے قبل معاشرتى حالت كيا تھي؟ صراحت سے

بيان كيجئے؟

۴_ دور جاہليت كے عربوںميں كس قسم كا مسلك زيادہ رائج تھا؟

۵_ كيا عربوں كا خدا پراعتقاد تھا؟ قرآن مجيد سے كوئي ايك دليل پيش كيجئے؟

۶_ عربوں ميں كس قسم كے توہمات و خرافات كا رواج تھا اس كى ايك مثال پيش كيجئے؟

۷_ عہد جاہليت ميں عورت كا كيا مقام تھا؟

۳۲

حوالہ جات

۱_ معجم البلدان ج ۲ ' ۶۳ و ۲۱۹

۲_ سورہ التكاثر آيت ۱و ۲

۳_ اصل كتاب ميں اسى طرح ترجمہ ہوا ہے _ مترجم

۴_تاريخ يعقوبى ، ج ۱، ص ۲۵۵ ، تلبيہ '' لَبَّيْكَ اللّہُمَ لَبَّيْكَ'' كہنے كا نام ہے _ مترجم _ہر قبيلے كا لبيك كہنے كا ايك مخصوص طريقہ تھا مزيد معلومات كے لئے مذكور ماخ كا مطالعہ فرمائيں_

۵_ تاريخ پيا مبر اسلام (ص) ، ص ۱۳ ، علامہ آيتى مرحوم نے اس عنوان كے تحت چودہ ايسے افراد كے نام بھى بيان كئے ہيں جن كا شمار حنفا ميں ہوتا تھا_

۶_نہج البلاغہ خطبہ ۱ ص ۴۴ ، مرتبہ صبحى صالح

۷_ملاحظہ ہو : تفسير مجمع البيان ج ۴، ص ۵۰۳ سورہ اعراف آيت ۱۸۰ كے ذيل ميں

۸_زمانہ جاہليت كے عربوں كے عقائد سے مزيد واقفيت كے لئے ملاحظہ ہو: شرح ابن ابى الحديد ج ۱ صفحہ ۱۱۷

۹_السيرہ النبويہ ، ج۱ ، ص ۲۸۳_ ۲۸۴

۱۰_سورہ زمر آيت ۳۸

۱۱_سورہ زمر آيت ۳

۱۲_ سورہ يونس آيت ۱۷

۱۲_بلاذرى لكھتا ہے كہ ظہور اسلام كے وقت قريش ميں سے صرف سترہ افراد ايسے تھے جو لكھنا پڑھنا جانتے تھے (ملاحظہ ہو فتوح البلدان صفحہ ۴۵۷)

۱۴_اسلام و عقائد وآراء بشرى ص ۴۹۱

۱۵_لسان العرب، ج ۹ ، ص ۱۶۱، ملاحظہ ہو : لفظ ''سَلَعَ'' نيز اسلام و عقائد و آراء بشرى ، صفحہ ۵۰۱

۳۳

۱۶_اسلام و عقائد و آراء بشرى صفحہ ۵۰۹

۱۷_ سورہ نحل آيت ۵۸_ ۵۹

۱۸_سورہ تكوير آيت ۸، ۹

۱۹_''نسيء ''لفظ ''نساء '' سے مشتق ہے ' جس كے معنى ' تاخير ميں ڈالنا ہے_ عہد جاہليت كے عرب كبھى كبھى قابل احترام مہينوں ميں تاخير كرديا كرتے تھے _ مثال كے طور پر وہ ماہ محرم كى جگہ ماہ صفر كو قابل احترام مہينہ بناليتے تھے_

۲۰_سورہ توبہ آيت ۳۷_

۳۴

سبق ۳:

پيغمبر اكرم (ص) كا نسب اور آپ(ص) كى ولادت با سعادت

۳۵

رسول خدا (ص) كا تعلق خاندان بنى ہاشم اور قبيلہ قريش سے ہے _ جزيرہ نما ئے عرب ميں تين سو ساٹھ(۳۶۰) قبيلے آباد تھے ان ميں قريش شريف ترين اور معروف ترين قبيلہ تھا نسب شناس ماہرين كى اصطلاح ميں قريش انہيں كہا جاتا ہے جو آنحضرت (ص) كے بار ہويں جدا مجد حضرت نضر بن كنانہ كى نسل سے ہوں _(۱)

آپ كے چوتھے جد اعلى حضرت قصى بن كلاب كا شمار قبيلہ قريش كے معروف اور سركردہ افراد ميں ہوتا تھا _ انہوں نے ہى كعبہ كى توليت اور كنجى ، قبيلہ ''خزاعہ'' كے چنگل سے نكالى تھي_ اور حرم كے مختلف حصوں ميں اپنے قبيلے كے افراد كو آبادكركے كعبہ كى توليت سنبھالى تھى _(۲)

معروف مورخ يعقوبى لكھتا ہے كہ ''قصى بن كلاب'' وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے قبيلہ قريش كو عزت و آبرو بخشى اور اس كى عظمت كو اجاگر كيا(۳)

قبيلہ قريش ميں بھى خاندان بنى ہاشم سب سے زيادہ نجيب و شريف شمار ہوتا تھا _

رسول خدا (ص) كے آباء و اجداد

مورخين نے آنحضرت (ص) كے آباء و اجداد ميں حضرت عدنان تك اكيس پشتوںكے نام بيان كئے ہيں درج ذيل ترتيب وار اسماء پر سب متفق الرائے ہيں:

۳۶

حضرت عبداللہ (ع) ، حضرت عبدالمطلب(ع) ، حضرت ہاشم(ع) ، حضرت عبدمناف (ع) ، حضرت قصي(ع) ، حضرت كلاب(ع) ، حضرت مرہ(ع) ، حضرت كعب(ع) ، حضرت لوي(ع) ، حضرت غالب(ع) ، حضرت فہر(ع) ، حضرت مالك(ع) ، حضرت نضر(ع) ، حضرت كنانہ(ع) ، حضرت خزيمہ(ع) ، حضرت مدركہ(ع) ، حضرت الياس(ع) ، حضرت مضر (ع) ، حضرت نزار(ع) ، حضرت معد (ع) اور حضرت عدنان(ع) _(۴)

حضرت عدنان سے اوپر حضرت ابراہيم (ع) تك اور حضرت ابراہيم خليل (ع) سے حضرت آدم صفى اللہ (ع) تك كى ترتيب كے بارے ميں اختلاف ہے _ اس سلسلے ميں پيغمبر اكرم (ص) كى ايك روايت بھى بيان كى گئي ہے_

(اذَا بَلَغَ نَسَبَيُ الى عَدُنَانَ فَامسُكُوا) (۵)

''جب ميرے نسب كے بارے ميں حضرت عدنان تك پہنچو تو توقف كرو (اور آگے مت بڑھو) ''_

ہم يہاں مختصر طور پر آپ (ص) كے چند قريبى آباء و اجداد كا حال بيان كريں گے_

حضرت عبدمناف (ع)

حضرت قصى كے عبدالدار، عبدمناف ، عبدالعزى اور عبد قصى نامى چار فرزند تھے_ جن ميں حضرت عبدمناف سب سے زيادہ شريف، محترم اور بزرگ سمجھے جاتے تھے(۶) حضرت عبدمناف كا اصل نام ''مغيرہ'' تھا _ انہيں اپنے والد محترم كے ہاں نيز لوگوں كے درميان خاص مرتبہ ا ور مقام حاصل تھا_ وہ بہت زيادہ سخى اور وجيہہ انسان تھے اسى وجہ سے انہيں ''فياض(۷) '' اور'' قمرالبطحاء(۸) '' كے القاب سے نوازا گيا ہے پرہيزگارى ،خوش اخلاقي' نيك چلن اور صلہ رحمى جيسے اوصاف كى طرف دعوت ان كى زندگى كا شعار تھا_(۹)

۳۷

ان كى نظر ميں دنيوى مقامات و مراتب ہيچ تھے_ وہ اہل منصب لوگوں سے حسد بھى نہيں كرتے تھے_ اگر چہ كعبہ كے تمام عہدے اور مناصب ان كے بڑے بھائي عبدالدار كے پاس تھے مگر ان كى اپنے بھائي سے كوئي شكر رنجى نہيں تھي_

حضرت ہاشم (ع)

حضرت قصى (ع) كے فرزند، مكہ سے متعلق معاملات اور كعبہ كى توليت اور انتظام جيسے امور كو كسى اختلاف و قضيے كے بغير انجام ديتے رہے_ مگر ان كى وفات كے بعد عبدالدار اور عبدمناف كى اولاد كے درميان كعبہ كے عہدوں كے بارے ميں اختلاف ہوگيا _ بالآخر اتفاق اس بات پر ہوا كہ كعبہ كى توليت اور دارالندوہ(۱۰) كى صدارت عبدالدار كے فرزندوں كے پاس ہى رہے اور حاجيوں كو پانى پلانے نيز ان كى پذيرائي كا معاملہ حضرت عبدالمناف كے لڑكوں كى تحويل ميں دے ديا جائے _(۱۱) حضرت عبدمناف كے فرزندوں ميں يہ عہدہ حضرت ہاشم كے سپرد كيا گيا _(۱۲)

حضرت ہاشم اور ان كے بھائي عبدالشمس جڑواں پيدا ہوئے تھے پيدائشے كے وقت دونوں كے بدن ايك دوسرے سے جڑے ہوئے تھے _ جس وقت انہيں ايك دوسرے سے جدا كيا گيا تو بہت سا خون زمين پر بہہ گيا اور عربوں نے اس واقعہ كو سخت بدشگونى سے تعبير كيا_

اتفاق سے يہ بدشگونى اپنا كام كر گئي اور حضرت ہاشم اور عبدالشمس كے لڑكوں ميں ہميشہ كشمكش اور لڑائي رہي_

عبدالشمس كا لڑكا اميہ پہلا شخص تھا جس نے حضرت ہاشم كى مخالفت شروع كى _ اس نے جب فرزندان عبدمناف ميں سے حضرت ہاشم ميں عزت و شرف اور بزرگوارى جيسے

۳۸

اوصاف پائے تو ان سے حسد كرنے لگا اور اپنے چچا كے ساتھ مخاصمت اور مخالفت پر اتر آيا چنانچہ يہيں سے بنى ہاشم اور بنى اميہ كے درميان اختلاف اوردشمنى شروع ہوئي جو ظہور اسلام كے بعد بھى جارى رہي_(۱۳)

حضرت ہاشم اپنى ذمہ دارى نبھانے ميں كوئي دقيقہ فرو گذاشت نہيں كرتے تھے چنانچہ جيسے ہى حج كا زمانہ شروع ہوتا تھا وہ قبيلہ قريش كى پورى طاقت و قوت اور تمام وسائل اور امكانات حجاج بيت اللہ كى خدمت كيلئے بروئے كار لاتے اور زمانہ حج كے دوران جس قدر پانى اور خوراك كى انہيں ضرورت ہوتى وہ اسے فراہم كرتے_

لوگوں كى خاطر دارى 'مہمان نوازى اور حاجتمندوں كى مدد كرنے ميں وہ بے مثال و يكتائے روزگار تھے_ اسى وجہ سے انہيں ''سيدالبطحائ(۱۴) '' كے لقب سے ياد كياجاتا تھا_

حضرت ہاشم (ع) كے پاس اونٹ كافى تعداد ميں تھے _ چنانچہ جس سال اہل مكہ قحط اورخشك سالى كا شكار ہوئے تو انہوں نے اپنے بہت سے اونٹ قربان كرديئے اور اس طرح لوگوں كےلئے كھانے كا سامان فراہم كيا _(۱۵)

حضرت ہاشم (ع) كے انحصارى اور نماياں كارناموں ميں سے ايك ان كايہ كارنامہ بھى تھا كہ انہوں نے قريش كى محدود كاروبارى منڈيوں كو جاڑوں اور گرميوں كے موسم ميں لمبے تجارتى سفروں كے ذريعے وسيع كيا (دوسرے لفظوں ميں لوكل بزنس كو امپورٹ ايكسپورٹ بزنس ميں ترقى دى _ مترجم)اور اس علاقے كى اقتصادى زندگى ميں حركت پيدا كى(۱۶)

حضرت ہاشم (ع) كا انتقام بيس يا پچيس سال كى عمر ميں ايك تجارتى سفر كے دوران ''غزہ''(۱۷) ميں ہوا_

۳۹

حضرت عبدالمطلب(ع)

حضرت ہاشم (ع) كى وفات كے بعد ان كے بھائي ''مطلب'' كو قبيلہ قريش كا سردار مقرر كيا گيا اور جب ان كى وفات ہوگئي تو حضرت ہاشم (ع) كے فرزند حضرت ''شيبہ(ع) '' كو ، جنہيں لوگ عبدالمطلب(ع) كہتے تھے قريش كى سردارى سپرد كى گئي_

حضرت عبدالمطلب(ع) كو اپنى قوم ميں خاص مقام و مرتبہ حاصل تھا اور لوگوں ميں وہ بہت مقبول اور ہر د ل عزيز تھے جس كا سبب وہ مختلف اچھے اوصاف اور فضائل تھے جو ان كى ذات ميں جمع ہوگئے تھے _ وہ عاجز و مجبور لوگوں كے حامى اور ان كے پشت پناہ تھے ، ان كى جود وبخشش كا يہ عالم تھا كہ ان كے دسترخوان سے صرف انسان ہى نہيں بلكہ پرندے اور حيوانات تك بھى فيضياب ہوتے اسى وجہ سے انہيں''فياض'' كا لقب ديا گيا تھا_(۱۸)

رسول خدا (ص) كے دادا بہت ہى دانشمند و بردبار شخص تھے _ وہ اپنى قوم كو اخلاق حسنہ ، جورو ستم سے كنارہ كشى ' برائيوں سے بچنے اور پست باتوںسے دور رہنے كى تعليم ديتے _ ان كا موقف يہ تھا كہ ''ظالم آدمى اپنے كئے كى سزا اسى دنيا ميں ہى پاتا ہے او ر اگر اسے اپنے كئے كا بدلہ اس دنيا ميں نہيںملتاتو آخرت ميں يہ سزا اسے ضرور ملے گي''_(۱۹)

اپنے اس عقيدے كى بناپر انہوں نے اپنى زندگى ميں نہ توكبھى شراب كو ہاتھ لگايا' نہ كسى بے گناہ كو قتل كيا اور نہ ہى كسى برے كام كى طرف رغبت كى بلكہ اس كے برعكس انہوں نے بعض ايسے نيك كاموں كى بنياد ركھى جن كى دين اسلام نے بھى تائيد كى ، ان كى قائم كردہ بعض روايات درج ذيل ہيں :

۱_باپ كى كسى زوجہ كو بيٹے كيلئے حرام كرنا

۲_مال و دولت كا پانچواں حصہ (خمس) راہ خدا ميں خرچ كرنا_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عزت خدا کے لیے ہے پھر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا (کہ جب تمام عزت اللہ کے لیے ہے) پھر عزت کی خاطر ادھر ادھر کیوں جاتے ہو۔ یا پھر فرمایا:انّ القَوة للّٰه جمیعًا (1) تمام قدرت خدا کے لیے ہے۔ پھر نتیجہ کے طور پر فرمایا: کہ تو پھر ہر وقت کسی اور کے پیچھے کیوں لگے رہتے ہو؟ اس آیت میں بھی یہی فرمایا: سب مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں پھر فرمایا: تو اب جب کہ تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو تو پھر یہ لڑائی جھگڑا کس لیے؟ پس آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ پیار ومحبت سے رہو۔ اس لیے کہ فرد اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے پہلے فکری اور اعتقادی اصلاح ضروری ہے اُس کے بعد انسان کے کردار اور اس کی رفتار کی بات آتی ہے۔

٭ اخوت و برادری جیسے کلمات کا استعمال اسلام نے ہی کیا ہے۔ صدر اسلام میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سات سو چالیس افراد کے ہمراہ ''نخلیہ'' نامی علاقے میں موجود تھے کہ جبرائیل امین ـ نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے درمیان اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کیا ہے۔ لہٰذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اپنی اصحاب کے درمیان اخوت کے رشتہ کو قائم کیا اور ہر ایک کو اس کے ہم فکر کا بھائی بنادیا۔ مثلاً: ابوبکر کو عمر کا، عثمان کو عبدالرحمن کا، حمزہ کو زید بن حارث کا، ابو درداء کو بلال کا، جعفرطیار کو معاذ بن جبل کا، مقداد کو عمار کا، عائشہ کو حفصہ ، ام سلمہ کو صفیہ، اور خود پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو اپنا بھائی بنایا۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارک بقرہ، آیت 165

(2)۔ بحارا لانوار، ج38، ص 335

۱۰۱

جنگ اُحد میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو شہداء (عبداللہ بن عمر اور عمر بن جموع) جنکے درمیان اخوت و برادری کا عقد برقرار تھا کو ایک ہی قبر میں دفن کرنے کا حکم دیا۔(1)

٭ نسبی برادری بالآخر ایک دن ختم ہوجائے گی۔فَلَا أَنسَابَ بَیْنَهُمْ (2) لیکن دینی برادری قیامت کے دن بھی برقرار رہے گی۔اِخوانًا علی سُرُررٍ مُّتَقَابِلِیْنَ (3)

٭اخوت و برادری با ایمان عورتوں کے درمیان بھی قائم ہے چنانچہ ایک مقام پر عورتوں کے درمیان بھی اخوت و برادری کی تعبیر موجود ہے۔وَاِن کَانُوا اِخوَةً رِجَالاً و نِسآئً (4)

٭اخوت و برادری صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اگر کوئی کسی کے ساتھ دنیا کی خاطر اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کرے تو جو اس کی نظر میں ہے وہ اس سے محروم رہے گا۔ اس طرح کے برادر قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن نظر آئیں گے۔(5)

الَْخِلاَّئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ ِلاَّ الْمُتَّقِینَ - (6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ شرح ابن الحدید، ج15، ص 215؛ بحار الانوار، ج20، ص 121 (2)۔ سورئہ مبارکہ مومنون، آیت 101

(3)۔ سورئہ مبارکہ حجر، آیت 57 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 176

(5)۔ بحار، ج75، ص 167 (6)۔ سورئہ مبارکہ زخرف، آیت 67

۱۰۲

٭برادری اور اخوت کی برقراری سے زیادہ اہم چیز برادر کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ روایات میں ایسے شخص کی سرزنش کی گئی ہے جو اپنے برادر دینی کا خیال نہ رکھے اور اُسے بھلا دے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ اگر تمہارے برادران دینی نے تم سے قطع تعلق کرلیا ہے تو تم ان سے تعلق برقرار رکھوصِلْ مَنْ قَطَعَک (1)

روایات میں ہے کہ جن افراد سے قدیمی اور پرانا رشتہ اخوت و برادری قائم ہو ان پر زیادہ توجہ دو اگر کوئی لغزش نظر آئے تو اُسے برداشت کرو۔ اگر تم بے عیب دوستوں (برادران) کی تلاش میں رہو گے تو دوستوں کے بغیر رہ جاؤ گے۔(2)

٭روایات میں ہے کہ جو اپنے برادر کی مشکل حل کرے گا اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ جو اپنے دینی برادر کی ایک مشکل دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ایک لاکھ حاجات پوری کرے گا۔(3)

٭حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: مومن ، مومن کا بھائی ہے ۔ دونوں ایک جسم کی مانند ہیں۔کہ اگر ایک حصے میں درد ہو تو دوسرا حصہ بھی اُسے محسوس کرتا ہے۔

(4) سعدی نے اس حدیث کو شعر کی صورت میں یوں بیان کیا ہے۔

بنی آدم اعضای یکدیگرند کہ در آفرینش زیک گوھرند

چو معنوی بہ درد آورد روزگار دگر عضوھا را نماند قرار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار ، ج78، ص 71 (2)۔ میزان الحکمہ

(3)۔ میزان الحکمہ (اخوة) (5)۔ اصول کافی، ج2، ص 133

۱۰۳

تو کز محنت دیگران بی غمی نشاید کہ نامت نھند آدمی

ترجمہ: اولاد آدم ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں کیونکہ سب خاک سے پیدا ہوئے ہیں اگر کسی پر مشکل وقت آجائے تو دوسروںکو بھی بے قرار رہنا چاہیے۔

اگر تم دوسروں کی پریشانی اور محنت سے بے اعتنائی کرو تو شاید تمہیں کوئی انسان بھی نہ کہے۔

برادری کے حقوق:

٭ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی کی گردن پر تیس حق ہیں اور اسے ان تمام حقوق کو ادا کرنا ہوگا۔(جن میں سے پچیس حقوق درج ذیل ہیں)

1۔ عفو و درگزر 2۔ راز داری

3۔ خطاؤں کو نظر انداز کردینا 5۔ عذر قبول کرنا

5۔ بد اندیشوں سے اس کا دفاع کرنا 5۔ خیر خواہی کرنا

7۔ وعدہ کے مطابق عمل کرنا 8۔ عیادت کرنا

9۔ تشییع جنازہ میں شرکت کرنا 10۔ دعوت اور تحفہ قبول کرنا

11۔ اسکے تحفے کی جزا دینا 12۔ اسکی عطا کردہ چیزوں پر شکریہ ادا کرنا

13۔ اسکی مدد کے لیے کوشش کرنا 15۔ اسکی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا

15۔ اسکی حاجت روائی کرنا 16۔ اسکی مشکلات کو دور کرنے کے لیے سعی کرنا

17۔ اسکی گمشدہ چیز کو تلاش کرنا 18۔ اسے چھینک آئے تو اسکے لیے طلب رحمت

۱۰۴

کرنا

19۔ اسکے سلام کا جواب دینا 20۔ اسکی بات کا احترام کرنا

21۔ اسکے لیے بہترین تحفہ کو پسند کرنا 22۔ اس کی قسم کو قبول کرنا

23۔ اسکے دوست کو دوست رکھنا اور اس سے دشمنی نہ رکھنا

25۔ مشکلات میں اُسے تنہا نہ چھوڑنا

25۔ جو اپنے لیے پسند کرے وہی اس کے لیے پسند کرے(1)

ایک اور حدیث میں ہم پڑھتے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس آیت(اِنّما المومنون اخوة) کی تلاوت کے بعد فرمایا مسلمانوں کا خون ایک ہے اگر عام لوگ بھی کوئی عہد و پیمان کریں تو سب کو اس کا پابند ہونا چاہیے۔ مثلاً اگر ایک عام مسلمان کسی کو پناہ یا امان

دے تو دوسرے کو بھی اس کا پابند ہونا چاہیے۔ سب مشترکہ دشمن کے مقابل اکھٹے ہوجائیں۔وَهُمْ یَد علی مَن سَواهم- (2)

٭ حضرت علی ـ سے منقول ہے کہ آپ نے کمیل سے فرمایا: اے کمیل اگر تم اپنے بھائی کو دوست نہیں رکھتے تو پھر وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔(3)

انسان اپنے ایمان کامل کے ساتھ اولیاء خدا کے مدار تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔

سلْمٰان مِنا اهل البیت (4) سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ جس طرح کفر کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار، ج75، ص 236 (1)۔ تفسیر قمی، ج1، ص 73

(3)۔ تحف العقول ص 171 (5)۔ بحارالانور، ج10، ص 23ا

۱۰۵

ہمراہ ہوکر اس مدار سے خارج ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرزند نوح ـکے بارے میں حضرت نوح ـ سے فرمایا:اِنّه لَیسَ مِنْ أهلَکَ- وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔(1)

بہترین بھائی:

٭روایات میں بہترین بھائی کی یہ نشانیاں بیان کی ہیں۔

1۔ تمہارا بہترین بھائی وہ ہے جو تمہارا غمخوار اور ہمدرد ہو یہاں تک کہ سختی سے تمہیں خدا کی اطاعت کی طرف دعوت دے۔ تمہاری مشکلوں کو حل کرے۔ خدا کی خاطر تیرا دوست بنا ہو۔ اسکا عمل تیرے لیے سرمشق ہو۔ اسکی گفتگو تیرے عمل میں اضافہ کا باعث ہو۔ تیری کوتاہیوں کو نظر انداز کرے۔ اور تجھے خواہشات نفس میں گرفتار ہونے سے بچائے۔ اور اگر تجھ میں کوئی

عیب دیکھے تو تجھے خبردار کرے۔ نماز کو اہمیت دے ۔ حیادار، امانت دار اور سچا ہو۔خوشحالی اور تنگ دستی میں تجھے نہ بھلائے۔(2)

صلح و آشتی قرآن کی روشنی میں:

ہم نے اس آیت میں پڑھا ہے کہ مومنین آپس میں بھائی ہیں لہٰذا اُن میں صلح و

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارکہ ہود، آیہ 56

(2)۔ میزان الحکمہ

۱۰۶

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتے ہیں۔

قرآن میں اسی سلسلہ میں مختلف تعابیر آئی ہیں:

صلح ''والصُّلح خَیر'' (1) ''وأصلِحوا ذات بینکم'' (2)

2۔تالیف قلوب''فَألف بین قلوبکم'' (3)

3۔توفیق''اِن یُریدا اصلاحًا یُوَفِّق اللّٰه بینهُمٰا'' (4)

5۔ سِلم''أدخُلوا فِی السِّلم کافَّة'' (5)

مندرجہ بالا تعبیر اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ اسلام صلح و آشتی ، پیار ومحبت اور خوشگوار زندگی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔

صلح آشتی کی اہمیت:

٭مسلمانوں کی درمیان الفت اور محبت کو خداوند عالم کی نعمتوں میں شمار کیا ہے۔''کنتم أعدا فَاَلَّفَ بین قلوبکم'' (6) یاد کرو اس وقت کوکہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر خدا نے تمہارے درمیان پیار و محبت کو قائم کردیا۔ جیسا کہ قبیلہ اوس و خزرج کے درمیان ایک سو بیس سال سے جنگ و خونریزی چل رہی تھی اسلام نے ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 128 (2)۔سورئہ مبارکہ انفال، آیت 1

(3)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 103 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 35

(5)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 208 (6)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 103

۱۰۷

کے درمیان صلح کرادی۔

صلح وآشتی کرانا عزت و آبرو کی زکات اور خدا کی طرف سے رحمت اور بخش کا سبب ہے۔''ان تُصلحوا و تتّقوا فانَّ اللّٰه کان غفوراً رحیمًا'' (1) جو بھی مسلمانوں کے درمیان صلح و دوستی کا سبب بنے تو اُسے جزائے خیر ملے گی۔

''وَمَن یَشفَع شَفَاعةً حَسنةً یکن لَه نصیب منها'' (2)

٭ لوگوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے لیے اسلام کے خاص احکامات ہیں من جملہ۔

1۔جھوٹ جو گناہان کبیرہ میں سے ہے اگر صلح و آشتی کرانے کے لیے بولا جائے تو اسکا کوئی گناہ نہیں ہے۔'' لَا کِذْبَ علی المُصْلح'' (3)

2۔ سرگوشی ایک شیطانی عمل ہے جو دیکھنے والوں میں شک و شبہ پیدا کرتا ہے جسکی نہی کی گئی ہے لیکن اگر یہ سرگوشی صلح و آشتی کرانے کے لیے ہو تو کوئی گناہ نہیں ہے۔''لَا خَیرَ فی کثیر من نجواهم اِلّا مَنْ أمَرَ بِصدقةٍ أو معروفٍ او اصلاح بین الناس'' (4)

3۔ اگرچہ قسم کو پورا کرنا واجب ہے لیکن اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے سلسلے میں کوئی قدم نہ اٹھائے گا تو اس قسم کو توڑا جاسکتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 129 (2)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 85

(3)۔بحارا الانوار،ج69، ص 252 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 115

۱۰۸

ہے۔''وَلا تجعلو اللّٰه عرضَة لایمانکم ان --- تصلحوا بین الناس'' (1)

ہم تفاسیر کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی کی بیٹی اور ان کے داماد میں اختلاف ہوگیا۔ لڑکی کے والد نے یہ قسم کھائی کہ وہ ان کے معاملے میں دخالت نہ کریگا۔ یہ آیت نازل ہوئی کہ قسم کو نیکی و پرہیز گاری اور اصلاح کے ترک کا وسیلہ قرار مت دو۔

5۔ اگرچہ وصیت پر عمل کرنا واجب اور اس کا ترک کرنا حرام ہے لیکن اگر وصیت پر عمل کرنا لوگوں کے درمیان کینہ اور کدورت کی زیادتی کا سبب ہو تو اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ وصیت پر عمل نہ کیا جائے تاکہ لوگوں کے درمیان پیار ومحبت اور بھائی چارہ کی فضا قائم رہے۔''فَمن خَافَ مِن مُوصٍ و جُنفًا أو اِثمًا فاصلح بینهم فلا اثم علیه'' (2)

5۔ اگرچہ مسلمان کا خون محترم ہے لیکن اگر بعض افراد فتنہ، فساد کا باعث بنیں تو اسلام نے صلح و آشتی کے لیے انکے قتل کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔'' فقاتلو الّتی تبغی'' (3)

صلح و آشتی کے موانع:

قرآن و احادیث میں صلح و آشتی کے بہت سے موانع ذکر کیے گئے ہیں من جملہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 225

(2)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 182 (3)۔سورئہ مبارکہ حجرات، آیت 9

۱۰۹

1۔ شیطان: قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔ادخلوا فی السّلم کافّة ولا تتّبعوا خطوات الشیطان'' (1) سب آپس میں پیار و محبت کے ساتھ رہو اور شیطان کی پیروی نہ کرو۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔انّما یُرید الشیطان أنْ یوقع بینکم العداوة والبغضائ'' (2) شیطان تمہارے درمیان کینہ و کدورت پیدا کرنا چاہتا ہے۔

2۔ مال کی چاہت اور بخل۔'' والصلح خیر و اُحضِرتِ الاَنفس الشُح'' (3) اور صلح و دوستی بہتر ہے اگرچہ لوگ حرص و لالچ اور بخل کرتے ہیں۔

3۔ غرور و تکبر بھی کبھی کبھی صلح و آشتی کے لیے مانع ہے۔

قرآن میں نزول رحمت کے چند عوامل:

٭ اگر قرآن مجید کے''لعلکم ترحمون'' کے جملوں پر نظر کریں تو نزول رحمت کے چند عوامل تک رسائی ممکن ہے۔

1۔ خدا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آسمانی کتب کی پیروی''واطیعو اللّٰه والرسول--- '' (4) ''وهذا کتاب --- فاتبعوه--- لعلکم ترحمون'' (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 208 (2)۔ سورئہ مبارکہ مائدہ، آیت 91

(3)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 128 (5)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 132

(5)۔سورئہ مبارکہ انعام، آیت 155

۱۱۰

2۔ نماز کا قائم کرنا اور زکات کا ادا کرنا۔''اقیموا الصلوٰة واتو الزکاة--- لعلکم ترحمون'' (1)

3۔ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانا۔''فاصلحوا--- لعلکم ترحمون''

5۔ استغفار اور توبہ۔''لولا تستغفرون اللّٰه لعلکم ترحمون'' (2)

5۔ غور سے قرآن کی تلاوت سننا''واذ اقرأ القرآن فاستمعوا له --- لعلکم ترحمون'' (3)

روایات میں نزول رحمت کے عوامل:

٭ معصومین کی روایات میں بھی نزول رحمت کے عوامل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

1۔ بیمار مومن کی عیادت کرنا:''مَن عَادَ مومِنًا خاض- الرَّحمة خوضًا'' (4)

جو شخص بیمار مومن کی عیادت کے لیے جائے تو وہ شخص خدا کی مکمل رحمت کے زیر سایہ ہے۔

2۔ کمزور اور ناتوان افراد کی مدد کرنا۔''اِرحموا ضُعفائکم واطلبوا الرحمة- ---،، (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نور، آیت 56 (2)۔ سورئہ مبارکہ نمل، آیت 56

(3)۔ سورئہ مبارکہ اعراف، آیت 205 (5)۔ وسائل الشیعہ، ج2، ص 515 (5)۔ مستدرک، ج9، ص 55

۱۱۱

معاشی حوالے سے کمزور افراد پر رحم کرکے خدا کی رحمت کو طلب کرو۔

3۔ روایات میں کثیر العیال افراد کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کو کہا گیا ہے خاص طور پر جن کی بیٹیاں زیادہ ہوں۔

5۔ دعاو نماز، نرمی سے پیش آنا اور اپنے برادر دینی سے مصافحہ اور معانقہ کرنا بھی نزول رحمت کے اسباب ہیں۔(1)

5۔ لوگوں کی پریشانیوں کو دور کرنا۔ وہ افراد جو اپنی پریشانیوں کے حل کے لیے تمہارے پاس آئیں خدا کی رحمت میں انکی حاجت روائی کیے بغیر واپس نہ پلٹانا۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ وسائل الشیعہ، ج7، ص 31

(2)۔کافی، ج2، ص 206

۱۱۲

آیت نمبر 11

یٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ قَوْم مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی أَنْ یّکُوْنوا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآئ مِّنْ نِسَآئٍ عَسٰی أنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّج وَلَا تَلْمِزُوْآ أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزوا بِالْأَلْقٰابِط بِئسَ الاِسْمُ الفُسُوقُ بَعْدَ الاِیْمٰانِج وَمَنْ لَّم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظّٰلِمُونَ-

ترجمہ:

اے ایمان والو! خبر دار کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اُڑائے کہ شاید کہ وہ اس سے بہتر ہو اور عورتوں کی بھی کوئی جماعت دوسری جماعت کا مسخرہ نہ کرے کہ شاید وہی عورتیں ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو طعنے بھی نہ دینا اور برے برے الفاظ سے بھی یاد نہ کرنا کہ ایمان کے بعد بدکاری کا نام ہی بہت برا ہے اور جو شخص بھی توبہ نہ کرے تو سمجھو کہ یہی لوگ درحقیقت ظالمین ہیں۔

نکات:

O کلمہ''لَمْز'' یعنی لوگوںکے سامنے ان کی عیب جوئی کرنا ، کلمہ''همز'' کے معنی پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنا ہے(1) اور کلمہ''تَنَابز'' کے معنی دوسروں کو برے القاب سے پکارنا ہے۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ کتاب العین (2)۔ لسان العرب

۱۱۳

O گزشتہ آیت میں اخوت و بردری کے بارے میں بحث ہوئی اور اس آیت میں ان چیزوں کا ذکر ہے جو اخوت و برادری کے راستہ میں رکاوٹ ہیں اور اسی طرح ماقبل کی آیات میں لڑائی جھگڑے اور صلح و صفا کی بات تھی تو اس آیت میں بعض ایسے عوامل کا ذکر ہے جو لڑائی جھگڑے کاسبب بنتے ہیں جیسے مذاق اڑانا ، تحقیر کرنا اور برے القاب سے پکارناہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی برکات میں سے ایک معاشرہ کے ماحول کو پاک و پاکیزہ بنانا اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے نیز ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارنے سے روکنا ہے۔

پیغامات:

1۔ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اُسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ بندگان خدا کا مذاق اڑائے ۔''یٰاایُّهٰا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ''

2۔ جو شخص کسی کو لوگوں کی توہین کرنے سے روکنا چاہتا ہے تو اس کے روکنے میں توہین آمیز پہلو نہ ہو۔''یٰا ایُّهٰا الذّین امَنُولَا یَسْخَرُ قَوْم مِنْ قَوْمٍ '' یہی نہیں فرمایا:لَا تَسْخَروا کہ جس کے معنی یہ ہیں کہ تم مذاق اڑانے والے ہو۔

3۔ مذاق اڑانا، فتنہ و فساد، کینہ پروری اور دشمنی کی کنجی ہے''لا یَسْخَر قَوْم---'' برادری اور صلح و آشتی بیان کرنے کے بعد مذاق اڑانے سے منع کیا ہے۔

5۔ تبلیغ کا طریقہ کار یہ ہے کہ جہاں اہم مسئلہ بیان کرنا ہو یا مخاطبین میں ہر نوع کے افراد موجود ہوں تو وہاں مطالب کو ہر گروہ کے لیے تکرار کے ساتھ بیان کرنا

۱۱۴

چاہیے۔قومٍ من قومٍ وَلَا نِسَاء مِنْ نِسَآئٍ-

5۔ تربیت اور وعظ و نصیحت کے دوران لوگوں میں سے فتنہ و فساد کی جڑ کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے- (عسیٰ اَنْ یکونوا خیرا ) مذاق اڑانے کی اصل وجہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھناہے۔ قرآن مجید اس معاملے کو جڑ سے ختم کرنا چاہتا ہے اس لیے فرماتا ہے: تمہیں اپنے آپ کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھنا چاہیئے شاید کہ وہ تم سے برتر ہوں۔

6۔ ہم لوگوں کے باطن سے بے خبر ہیں اس لیے ہمیں ظاہر بین، سطحی نظر اور فقط موجودہ حالات پر نگا نہیں کرنی چاہیے۔(عسیٰ أَنْ یَکُونوا خَیْرًا---)

7۔ سب لوگ ایک جوہر سے ہیں اس لیے لوگوں کی برائی کرنا دراصل اپنی برائی کرنا ہے ۔''وَلَا تَلْمِزُو أَنْفُسکُم''

8۔ دوسروں کی عیب جوئی کرکے انہیں انتقام جوئی پر ابھارنا ہے تاکہ وہ بھی تمہارے عیب بیان کریںپس دوسروں کے عیب نقل کرنا در حقیقت اپنے عیوب کا انکشاف کرنا ہے( لَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَکُم)

9۔ مذاق اڑانا یک طرفہ نہیں ہوتا ہے ممکن ہے کہ طرف مقابل بھی دیر یا جلد آپ کا مذاق اڑانا شروع کردے۔(و لَا تَنَابَزُوا کسی کام کے دو طرفہ انجام پانے کے لیے استعمال ہوتا ہے)

10۔ اگر کسی کا مذاق اڑایا ہو یا اُسے برے نام سے پکارا ہو تو اس کے لیے توجہ کرنا ضروری ہے(من لم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ ) البتہ یہ توبہ فقط زبانی نہ ہو

۱۱۵

بلکہ کسی کو تحقیر کرنے کی توبہ یہ ہے کہ جس کی تحقیر کے ہے اس کی تکریم کرنا ہوگی کسی حق کے چھپانے کی توبہ یہ ہوگی کے اُس حق کو ظاہر کیا جائے(تابو و اصلحوا و بیّنوا) (1) فساد کرنے والے کی توبہ یہ ہے کہ وہ اپنے امور میں اصلاح کرے(تَابُوا واصلحوا )

11۔ کسی کا مذاق اڑانا در حقیقت اس کے احترام پر تجاوز کرنا ہے اگر مذاق اڑانے والا توبہ نہ کرے تو وہ ظالم ہے(فَأُولٰئِکَ هُم الظَّالِمُونَ)

دوسروں کا مذاق اڑانا اور استہزاء کرنا:

O ظاہری طور پر استہزاء ایک گناہ دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت وہ چند گناہوں کا مجموعہ ہے مثال کے طور پر مذاق اڑانے میں، تحقیر کرنا، ذلیل و خوار کرنا، کسی کے عیوب ظاہر کرنا، اختلاف ایجاد کرنا، غیبت کرنا، کینہ توزی، فتنہ و فساد پھیلانا، انتقام جوئی کی طرف مائل کرنا، اور طعنہ زنی جیسے گناہ پوشیدہ ہیں۔

مذاق اڑانے کی وجوہات:

1۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ مال و دولت ہے قرآن مجید میں ہے''ویل لِکُلِّ هُمَزَة لُّمَزَةٍ ن الَّذِیْ جَمَعَ مٰالاً وَّعَدَّده '' (2) وائے ہو اس پر جو اُس مال و دولت کی خا طر جو اس نے جمع کر رکھی ہے پیٹھ پیچھے انسان کی برائی کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ 160

(2)۔ سورئہ مبارکہ ھمزہ 1۔2

۱۱۶

2۔ کبھی استہزاء اور تمسخر کی وجہ علم اور مختلف ڈگریاں ہوتی ہیں قرآن مجید نے اس گروہ کے بارے میں فرمایا:'' فَرِحُوا بِمَا عِنْدَ هُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَا کَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِؤُونَ '' (1) اپنے علم کی بناء پر ناز کرنے لگے ہیں اور جس چیز کی وجہ سے وہ مذاق اڑا رہے تھے اُسی نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔

3۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جسمانی قوت و توانائی ہوتی ہے ۔ کفار کا کہنا تھا( مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةَ) (2) کون ہے جو ہم سے زیادہ قوی ہے۔

5۔ کبھی دوسروں کا مذاق اڑانے کی وجہ وہ القاب اور عناوین ہوتے ہیں جنہیں معاشرہ میں اچھا نہیں سمجھتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کفار ان غریب لوگوں کو جو انبیاء کا ساتھ دیتے تھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے اور کہتے تھے:''مَا نَراکَ اتَّبَعکَ اِلّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرذِلْنَا'' (3)

ہم آپ کے پیرو کاروں میں صرف پست اور ذلیل افراد ہی دیکھ رہے ہیں۔

5۔ کبھی مذاق اڑانے کی علت تفریح ہوتی ہے۔

6۔ کبھی مال و مقام کی حرص و لالچ کی وجہ سے تنقید تمسخر کی صورت اختیار کرلیتی ہے مثال کے طور پر ایک گروہ زکوٰة کی تقسیم بندی پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عیب جوئی کرتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ غافر 83

(2)۔ سورئہ مبارکہ فصلت 15

(3)۔ سورئہ مبارکہ ھود 27

۱۱۷

قرآن مجید میں ارشاد ہوا:''وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَلْمِزْکَ فِی الصَّدَقاتِ فَاِنْ أُعْطُوا مِنْهٰا رَضُوا وَ اِنْ لَمْ یُعْطَوْا مِنْهٰا اِذَا هُمْ یَسْخَطُونَ'' (1) اس تنقید کی وجہ طمع اور لالچ ہے کہ اگر اسی زکوٰة میں سے تم خود ان کو دیدو تو یہ تم سے راضی ہوجائیں گے لیکن اگر انہیں نہیں دو گے تو وہ آپ سے ناراض ہوکر عیب جوئی کریں گے۔

7۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جہل و نادانی ہے۔ جیسے جناب موسی ـ نے جب گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو بنی اسرائیل کہنے لگے کیا تم مذاق اڑا رہے ہو؟ جناب موسی ـنے فرمایا:''أَعُوذُ بِاللّٰهِ أَنْ أَکُونَ مِنَ الجٰاهِلِیْنَ'' (2) خدا کی پناہ جو میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔یعنی مذاق اڑانے کی وجہ جہالت ہوتی ہے اور میں جاہل نہیں ہوں۔

نا چاہتے ہوئے تحقیر کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے ایک صحابی سے پوچھا اپنے مال کی زکوٰة کیسے دیتے ہو؟ اس نے کہا: فقراء میرے پاس آتے ہیں اور میں انہیں دے دیتا ہوں۔

امام ـ نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤتم نے انہیں ذلیل کیا ہے آئندہ ایسانہ کرنا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو بھی میرے دوست کو ذلیل کرے گا گویا وہ مجھ سے جنگ کے لیے آمادہ ہے۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ توبہ 58

(2)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ 67

(3)۔مستدرک الوسائل ج/9، ص 105

۱۱۸

تمسخر اور مذاق اُڑانے کے مراتب:

O جس کا مذاق اڑایا جارہا ہو وہ جس قدر مقدس ہوگا اس سے مذاق بھی اتنا ہی خطرناک ترہوگا قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے''أ باللّٰه و آیاتِه وَ رَسُولِهِ کنتم تَسْتَهْزِؤُنَ'' (1)

کیا تم اللہ، قرآن اور رسول کا مذاق اڑا رہے ہو۔

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر سب مشرکین کو معاف کردیا سوائے ان لوگوں کے جن کا کام عیب جوئی اور مذاق اڑانا تھا۔

O حدیث میں ہے کہ مومن کو ذلیل کرنا خدا کے ساتھ اعلان جنگ کے مترادف ہے۔(2)

مذاق اڑانے کا انجام:

O آیات و روایات کی روشنی میں بری عاقبت مذاق اڑانے والوں کا انتظار کررہی ہے من جملہ:

الف: سورئہ مطففین میں ہے کہ جو لوگ دنیا میں مومنین پر ہنستے تھے، انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے روز قیامت اہل جنت انہیں

حقارت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ان پر ہنسیں گے۔''فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا مِنَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ توبہ 65 (2)۔ وسائل الشیعہ ج/ 12،ص270

۱۱۹

الکُفَّارِ یَضْحَکُونَ'' (1)

ب: کبھی کبھی اڑانے والوں کو اسی دنیا میں سزا مل جاتی ہے۔'' اِنْ تسخَرُوا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرو مِنکُمْ کما تَسْخَرُونَ'' (2)

ج: قیامت کا دن مذاق اڑانے والوں کے لیے حیرت کا دن ہوگا''یَا حَسْرَةً عَلٰی العِبٰادَ مَا یَا تِیْهِمْ مِّنْ رَّسُولٍ اِلَّا کَانُوا بِه یَسْتَهْزَئُ ونَ'' (3)

د: حدیث میں ہے کہ مذاق اڑانے والے کی جان کنی نہایت سخت ہوگی۔''مَاتَ بِشَرّ مَیْتَه'' (4)

ھ: حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: اگر کوئی شخص مومنین پر طعنہ زنی کرتا ہے یا انکی بات کو رد کرتا ہے تو گویا اس نے خدا کو رد کیا ہے۔(5)

یاد داشت:

Oرسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جہاں اور بہت سے کام انجام دیئے وہاں ایک کام یہ کیا کہ لوگوں اور علاقوں کے وہ نام تبدیل کردیئے جو برے مفاہیم رکھتے تھے(6) کیوں کہ برے نام لوگوں کی تحقیر اور تمسخر کا باعث بنتے تھے۔

Oایک روز جناب عقیل ـمعاویہ کے پاس گئے تو معاویہ نے آپ کی تحقیر کی غرض

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ مطففین 35 (2)۔ سورئہ مبارکہ ہود 38

(3)۔ سورئہ مبارکہ یس 30 (5)۔ بحار الانوار ج72 ص 155

(5)۔ وسائل الشیعہ ج13، ص 270 (6)۔ اسد الغابہ ج3، ص 76، ج5 ص362

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313