تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي0%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 313
مشاہدے: 115050
ڈاؤنلوڈ: 2895


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 115050 / ڈاؤنلوڈ: 2895
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد 1

مؤلف:
اردو

دونوں جنگجوؤں نے رجزيہ اشعار پڑھتے ہوئے قبضہ شمشير كو ہاتھ ميں ليا اور ايك دوسرے پر وار كرنے لگے ديكھتے ہى ديكھتے اميرالمومنين حضرت على (ع) كا نعرہ تكبير ميدان كارزار ميں بلند ہوا اور رسول خد ا(ص) نے فرمايا كہ خدا كى قسم على (ع) نے اسے مار گرايا _

''عمرو'' كے ساتھيوں نے جب اسے خاك و خون ميں لوٹتے ديكھا تو وہ ميدان جنگ سے بے محابہ بھاگ نكلے_(۴۱)

''عمرو'' كے مارے جانے كے بعد قريش كے حوصلے پست پڑگئے ، احزاب كے سرداروں نے جب اپنى انتقام جويانہ كاروائي اور ديگران عوامل ميں جن كا آيندہ ذكر كيا جائے گا ، خود كو بے دست و پا پايا تو انہوں نے محاصرہ كو جارى ركھنے كا خيال ترك كرديا اور واپس مكہ چلے گئے_

غزوہ احزاب ميں جانبازان اسلام ميں سے چھ افراد نے جام شہادت نوش كيا اور مشركين كے آٹھ سپاہى مارے گئے(۴۲) اور اسطرح ۲۳ ذيقعدہ سنہ ۵ ہجرى كو يہ جنگ ختم ہوئي(۴۳) اور احزاب كا لشكر شرمناك شكست سے دوچار ہو كر اپنے گھروں كو سدھارا _

۲۰۱

سوالات

۱_ جنگ احد ميں مسلمانوں كى شكست كے كيا اسباب تھے ؟ مختصر طور پر بيان كيجئے_

۲_ جنگ احد ميں مسلمان جس شكست سے دوچار ہوئے اس كے بارے ميں قرآن كا نظريہ مختصر طور پر بيان كيجئے؟

۳_جنگ احد كى شكست سے مسلمانوں كو كيا فائدہ پہنچا اور اس كے كيا مثبت نتائج برآمد ہوئے ؟

۴_غزوہ ''حمراء الاسد'' كا واقعہ كس طرح پيش آيا ، اس ميں كن لوگوں نے شركت كى اور اس كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟

۵_جنگ''احد '' اور''احزاب'' كے درميان كون سے اہم واقعات رونما ہوئے مختصر طور پر ان كى كيفيت بيان كيجئے_

۶_جنگ احزاب كن لوگوں كى تحريك كى باعث وقوع پذير ہوئي؟

۷_ رسول خد ا(ص) كو جب لشكر احزاب كى سازش كا علم ہو اتوآپ (ص) نے كيا اقدام فرمايا ؟

۸_ جب مسلمانوں كو ''بنى قريظہ'' كى عہد شكنى كا علم ہوا تو ان كے دلوں پر كيا گزري؟

۹_ جنگ احزاب كس تاريخ كو اور كس طرح اختتام پذير ہوئي؟

۲۰۲

حوالہ جات

۱_سورہ آل عمران ۱۵۲

۲_ان كى اس بدگمانى كے جواب ميں آل عمران كى آيت ۱۶۱ نازل ہوئي : وَمَاكَانَ لنَبّى اَن يَغُلّ (... ''كسى نبى كايہ كام نہيں ہوسكتا كہ وہ خيانت كرجائے)

۳_سورہ آل عمران آيہ ۱۵۲

۴_خداوند تعالى نے سورہ آل عمران كى آيت ۱۵۴ ميں ان كے اس گمان كے بارے ميں ذكر كيا ہے (ملاحظہ ہو : الميزان ج ۴ صفحات ۴۷_۴۸)

۵_آل عمران /۴۲

۶_آل عمران / ۱۵۴

۷_يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ اس افواہ كا بڑا فائدہ يہ ہوا كہ اس كى وجہ سے رسول خدا (ص) كو دشمن كى چنگل سے نجات مل گئي كيونكہ جب رسول خدا (ص) كے قتل كئے جانے كى افواہ گشت كرگئي تو دشمن نے لاشوں كى درميان آنحضرت (ص) كو تلاش كرنا شروع كرديا اور اسے آپ(ص) كا تعاقب كرنے كا خيال ہى نہ آيا_

۸_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۲۲۷ ، قرآن مجيد نے سورہ آل عمران كى آيت ۱۴۴ ميں اس طرز فكر كو بيان كيا ہے :

(وَمَا مُحَمَّدٌ إلاَّ رَسُولٌ قَد خَلَت من قَبلہ الرُّسُلُ أَفَإين مَاتَ أَو قُتلَ انقَلَبتُم عَلَى أَعقَابكُم وَمَن يَنقَلب عَلَى عَقبَيہ فَلَن يَضُرَّ الله َ شَيئًا)_''محمد (ص) بس ايك رسول ہيں ، ان سے پہلے اور رسول بھى گزرچكے ہيں پھر كيا اگر وہ مرجائيں يا قتل كرديئے جائيں تو تم لوگ الٹے پائوں پھر جائو گے؟ ياد ركھو جو الٹا پھرے گا وہ اللہ كا كچھ نقصان نہ كرے گا''_

۹_سورہ آل عمران/ ۱۶۶

۱۰_سورہ آل عمران / ۱۶۵

۱۱_سورہ آل عمران / ۱۳۹

۲۰۳

۱۲_سورہ آل عمران / ۱۴۰

۱۳_سورہ آل عمران / ۱۶۵

۱۴_سورہ آل عمران / ۱۴۳

۱۵_سورہ آل عمران / ۱۴۶_۱۴۷

۱۶_سورہ آل عمران / ۱۴۱

۱۷_سورہ آل عمران / ۱۵۴

۱۸_سورہ آل عمران / ۷۲

۱۹_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۲۵۶

۲۰_قمى مرحوم نے ايك روايت كى بناپر يہ بھى بيان كيا ہے كہ : اس مشق ميں صرف زخميوں كو شركت كرنے كى دعوت دى گئي تھى _ملاحظہ ہو : بحارالانوار ج ۲۰ ص ۶۴

۲۱_يہ جگہ مدينہ سے تقريباً ۸ ميل (۱۶ كلوميٹر) كے فاصلے پر واقع ہے ملاحظہ ہو : معجم البلدان ج ۲ ص ۳۰۱

۲۲_سورہ آل عمران / ۱۷۲

۲۳_مدينہ سے ۳۵ يا ۴۲ يا ۴۳ ميل كے فاصلے پر يہ جگہ تھى (ملاحظہ ہو : الصحيح من السيرة النبى (ص) ج ۴ ص ۳۳۵_ ۳۳۶)

۲۴_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۲۵۷_۲۵۹

۲۵_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۲۵۶

۲۶_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۰۹

۲۷_سورہ نور آيت ۶۲

۲۸_المغازى ج ۲ ص ۴۴۶ _ ۴۴۷ والسيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۱۳

۲۹_السيرة النبويہ ج ۳ ص ۲۲۶ ' ابن ہشام نے لكھا ہے كہ سورہ نور كى آيت ۶۳ ايسے ہى لوگوں كيلئے نازل ہوئي ہے _

۳۰_المغازى ج ۲ ص ۴۵۴

۲۰۴

۳۱_بحارالانوار ج ۲۰ ص ۲۲۱

۳۲_تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۷۰

۳۳_السيرة النبويہ ج ۳ ص ۲۳۱

۳۴_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۱۸

۳۵_سورہ احزاب آيت ۱۰ _ ۱۱

۳۶_سورہ احزاب آيت ۲۲

۳۷_سورہ احزاب آيت ۱۳

۳۸_السيرة النوبيہ ج ۳ ص ۲۳۳

۳۹_ المغازى ج ۲ ص ۴۶۰_

۴۰_وہ جنگ بدر ميں ايسا سخت زخمى ہوا تھا كہ جنگ احد ميں شريك ہونے كے قابل نہ رہا تھا_ اس كے بارے ميں مشہور تھا كہ بہادرى ميں وہ اكيلا ايك ہزار پر بھارى ہے _ بحارالانوار ج ۲۰ ص ۲۰۲

۴۱_بحارالانوار ج ۲۰ ص ۲۰۳_۲۱۵

۴۲_تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۵۱

۴۳_ المغازى ج ۲ ص ۴۴۰

۲۰۵

سبق ۱۲:

غزوات بنى قريظہ ، بنى مصطلق اور صلح حديبيہ

۲۰۶

لشكر احزاب كى شكست كے اسباب

جنگ احزاب ميں اسلام كے خلاف شرك كى سب سے بڑى طاقت كے شكست پذير ہونے كے مختلف اسباب و عوامل تھے جن ميں سے چند ذيل ميں درج ہيں:

۱_خداوند تعالى كى مخفى اور علانيہ مدد:

( يَاأَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اذكُرُوا نعمَةَ الله عَلَيكُم إذ جَائَتكُم جُنُودٌ فَأَرسَلنَا عَلَيهم ريحًا وَجُنُودًا لَم تَرَوهَا وَكَانَ الله ُ بمَا تَعمَلُونَ بَصيرًا ) _(۱)

''اے ايمان والو ياد كرو اللہ كے احسان كو جو (ابھى ابھي) اس نے تم پر پر كيا ہے ، جب تم پر (احزاب كے)لشكر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر شديد آندھى بھيجى اور ايسى فوجيں روانہ كيں جو تم كو نظر نہ آتى تھى اللہ وہ سب كچھ ديكھ رہا تھا جو تم اس وقت كر رہے ''_

۲_لشكر احزاب كے پہنچنے سے قبل خندق كا تيار ہوجانا جس كى وجہ سے نہ صرف دشمن شہر ميں داخل نہ ہوسكا بلكہ اس كے حوصلے بھى پست ہوگئے اور نفسياتى لحاظ سے اس پر كارى ضرب تھي_

۳_اميرالمومنين حضرت على عليہ السلام كى دليرى اور شجاعت كے باعث مشركين كا سب سے بڑا بہادر ''عمرو بن عبدود'' ہلاك ہوا ، حضرت على (ع) كى (تقدير ساز كارى )ضرب

۲۰۷

مسلمانوں كے حوصلے بلند كرنے ميں نہايت مفيد اور كفار كے حوصلے پست كرنے ميں انتہائي كارآمد ثابت ہوئي _(۲)

۴_''نعيم بن مسعود'' كى وجہ سے دشمن كى صفوں ميں اختلاف و خليج كا پيدا ہونا _ وہ قريش ويہود كے درميان ممتاز اور قابل اعتماد شخص تھے ، جنگ سے كچھ عرصہ قبل تك وہ محاذ كفر ميں شامل رہے مگر ايك دن خفيہ طور پر رسول خدا (ص) كى خدمت ميںحاضر ہوئے اور دين اسلام سے مشرف ہونے كے بعد رسول خدا(ص) كى اجازت سے انہوں نے جنگى چال كا حربہ استعمال كيا اور لشكر كفار كے ذہنوں ميں شك و وسواس پيدا كركے احزاب كى فوج اور ان كى يكسوئي كو درہم برہم كرديا_

انہوں نے سب سے پہلے ''بنى قريظہ'' كے يہوديوں سے ملاقات كى اور گفتگو كے درميان ان كے دلوں ميں قريش كى طرف سے بدگمانى پيدا كردى اس كے ساتھ باتوں ہى باتوں ميں انہوں نے اُن كو اس بات كيلئے آمادہ كرليا كہ وہ سپاہ احزاب كے سامنے يہ شرط ركھيں كہ ہم اس صورت ميں تمہارے ساتھ تعاون كرسكتے ہيں كہ اپنے سرداروں ميں سے چند افراد كو ہمارے پاس بطور يرغمال بھيجو_

اس كے بعد وہ ''ابوسفيان '' كے پاس گئے اور كہنے لگے كہ ''بنى قريظہ'' نے محمد (ص) كے ساتھ جو عہد شكنى كى ہے اس پر وہ پشيمان ہيں اپنے اس اقدام كى تلافى كيلئے انہوں نے فيصلہ كيا ہے كہ تم ميں سے چند لوگوں كو بطور يرغمال پكڑليں اور انہيں محمد(ص) كے حوالے كرديں_''نعيم'' كى كوشش كا ہى يہ نتيجہ تھا كہ وہ دو گروہ جو باہمى طور پر متحد ہوگئے تھے اب ايسے بدظن ہوگئے كہ ايك نے دوسرے سے جو بھى پيشكش كى اسے رد كرديا گيا(۳) _

۲۰۸

۵ _ دشمن كے مقابل رسول خدا (ص) كى استقامت و پائدارى اگر چہ اس وقت مسلمان دشوار ترين مراحل سے گزر رہے تھے اور پورى فضا ان كے خلاف ہوچكى تھى مگر ان صبر آزما حالات كے باوجود لشكر اسلام اس بات كيلئے تيار نہ تھا كہ دشمن كو ذرہ برابر بھى رعايت دى جائے _

۶_رسول خد ا(ص) كى دانشمندانہ قيادت ، ميدان كارزار ميں مسلسل موجودگى ، عين وقت پر صحيح تدبير' سياسى اور جنگى چالوں كے باعث بيرونى اوراندرونى دشمن كے دلوں پر مايوسى كا چھاجانا_

۷_فوجى نظم و ضبط' خندق كے نگہبانوں نيز گشتى پہرہ داروں كى زود فہمى اور محاذ جنگ كے متعلق تمام قواعد و آداب جنگ سے مكمل واقفيت _

۸_سردى ' دشمن كے جانوروں كيلئے چارے كى كمى ، ميدان كارزار كى مكہ سے دوري' حملہ آور سپاہ كى جسمانى كوفت بالخصوص اس وقت جبكہ وہ بار بار سعى و كوشش كے بعد بھى خندق كو عبور كرنے ميں ناكام رہے_

جنگ ''احزاب'' كا خاتمہ اور مسلمانوں كى يورش كا آغاز

جنگ احزاب، دشمن كى قوت نمائي كا آخرى مظہر تھى ، ايسى عظیم طاقت كا اسلام كے ہاتھوں شكست سے دوچار ہونا فطرى طور پر اس حقيقت كا آئينہ وار ہے كہ اب دشمن كے حوصلے قطعى پست پڑگئے اور اس كى ہر اميد ياس ميں بدل گئي اور يہ بات جنگ احزاب كے بہترين نتائج ميں سے تھي_

چنانچہ اسى وجہ سے رسول خدا (ص) نے مسلمانوں كو خوشخبرى دى تھى كہ اس مرحلے پر پہنچ كر

۲۰۹

اسلامى تحريك كے نئے دور كا آغاز ہوگا اور اس ضمن ميں فرمايا تھا كہ :''اَليَومَ نَغزُوہُم وَلَا يَغْزُونَا''_(۴) يعنى اس كے بعد ہم ان سے جنگ كريں گے وہ ہم سے آكر جنگ نہيں كرسكيں گے_

اور اس كے بعد كے واقعات بھى اسى طرح رونما ہوئے جس طرح رسول اكرم (ص) نے پيشين گوئي كى تھى _ مسلمانوں كى فتح ونصرت نے سياسى ، عسكرى اور اقتصادى اعتبار سے مشركين پر ايسى كارى ضرب لگائي كہ رسول خد ا(ص) كى حيات ميں تو ان ميں اتنى بھى سكت باقى نہ رہى كہ اپنى كمر سيدھى كرسكيں اور اپنى اس شكست كى تلافى كرسكيں_

اس كے برعكس مسلمانوں نے ان مختلف پہلوئوں سے جن كا اوپر ذكر نے ميں كامياب ہو كيا جا چكا ہے وہ مقام ومرتبہ حاصل كرليا كہ اپنى توانائي اور برترى كے بل پر ہر سازش كو اس سے پہلے كہ وہ وجود ميں آئے نسيت ونابود كرديں_

عہد شكن لوگوں كى سزا

لشكر احزاب اگر چہ وقتى طور پر مسلمانوں كے چنگل سے نكل كر فرار كرنے ميں كامياب ہو گيا ليكن وہ داخلى خيانت كار (يہود بنى قريظہ) جو دشمن كے سپاہ كى تعداد ، اور سامان جنگ كى كثرت نيز اس كے پر فريب وعدوں كا شكار ہوگئے تھے اور اس كى فتح ونصرت كا انہيں پورا يقين تھا وہ اب بھى مسلمانوں كے ساتھ زندگى بسر كر رہے تھے ، اس خيال كے پيش نظر كہ وہ عدل وانصاف كے چنگل سے بچ كر نہ نكل جائيں انہيں ان كى خيانت كاريوں كى سزا دينى ضرورى تھي_

چنانچہ رسول خدا (ص) جيسے ہى غزوہ خندق سے واپس تشريف لائے فوراً ہى فرشتہ وحى نازل

۲۱۰

ہوااور پيغمبر اكرم (ص) كو ہدايت دى كہ آنحضرت(ص) ''بنى قريظہ'' كے قلعہ كى جانب تشريف لے جائيں_

رسول خد ا(ص) ۲۳ ذى القعدہ(۵) كو تين ہزار جنگجو افراد كو ساتھ لے كر دشمن كے قلعہ كى جانب روانہ ہوئے اس لشكر كے علم بردار حضرت على (ع) تھے اوروہ لشكر كے ہر اول دستے كے ساتھ ان كى طرف بڑھ رہے تھے_(۶)

نماز عصر ادا كرنے كے بعد دشمن كے قلعے كا محاصرہ ہواجو پندرہ(۷) يا پچيس روز(۸) تك جارى رہا اس عرصے ميں دونوں طرف سے صرف تيراندازى ہوتى رہى اور اس كے علاوہ كوئي واقعہ رونما نہيں ہوا_

يہوديوں نے جب ديكھا كہ مقابلے كا كوئي فائدہ نہيں تو وہ كچھ غور وفكر كرنے لگے چنانچہ انہوں نے اس طرح كى تجاوز پيش كيں كہ انہيں مدينہ سے چلے جانے كى اجازت دے دى جائے پہلے تو وہ اپنا مال واسباب بھى ساتھ لے جانا چاہتے تھے مگر بعد ميں اس بات پربھى راضى ہوگئے كہ وہ اپنے سارے ساز وسامان كو يہيں چھوڑ كر كوچ كرجائيں ليكن رسول خدا (ص) كو ابھى تك يہ ياد تھا كہ ''بنى قينقاع'' اور ''بنى نضير'' نے مدينہ سے باہر نكل جانے كے بعد كيا كيا خيانت كارياں كى تھيں اور آنحضرت (ص) يہ بات اچھى طرح جانتے تھے كہ اگر يہ لوگ بھى عدل وانصاف كے چنگل سے نكل گئے تو ممكن ہے كہ اسلام كے خلاف نئي سازشیں تيار كرنے ميں لگ جائيں اسى لئے آپ (ص) نے ان كى تجاويز كو رد كرديا اور يہ مطالبہ كيا كہ وہ بلا قيد و شرط ہتھيار ڈال ديں _

محاصرہ كو جارى ديكھ كر بنى قريظہ كے لئے خود كو تسليم كرنے كے علاوہ اور كوئي چارہ نہ رہا چنانچہ انہوں نے قلعے كے دروازے كھول ديئے اور رسول خد ا(ص) كے حكم سے اسلحہ ان سے

۲۱۱

ضبط كركے انہيں ايك گوشہ ميں حراست ميں لے ليا گيارسول خدا(ص) كى تجويز اور مقيد يہوديوں كے مشورے سے قبيلہ اوس كے سردار حضرت ''سعد بن معاذ '' اور جنگ احزاب كے ايك زخمى كو ان كے بارے ميں قائم كى گئي عدالت كا حاكم مقرر كياگيا _(۹)

سعد نے مردوں كے قتل ، عورتوں اور بچوں كى اسيرى اور ان كے تمام مال و اسباب پر بطور مال غنيمت قابض ہوجانے كا حكم صادر كيا ، جب سعد نے اپنا حكم صادر كر ديا تو رسول خدا (ص) نے ان سے فرمايا كہ :''سچ تو يہ ہے كہ ان كے بارے ميں تم نے وہى حكم صادر كيا ہے جو خداوند تعالى نے سات آسمانوں پر سے جارى كيا تھا''_

حضرت سعد ايك مومن ' متقى 'دانشمند اور سياسى شخض تھے اسى لئے انہوں نے جو فيصلہ صادر كيا وہ اس دور كے اسلامى معاشرے سے واقفيت پر مبنى تھا اور چونكہ وہ خيانت كار و سازشى عناصر كى كيفيت سے بخوبى واقف تھے اسى لئے انہوں نے اس پہلو كو بھى مدنظر ركھا نيز ديگر مسلمانوں پر بھى بارہا ثابت ہوچكا تھا كہ يہودى شرپسند اور ضدى ہونے كے باعث ہميشہ اسلام اور مسلمانوں كے خلاف سازشيں كرنے ميں منہمك رہتے ہيں اگر چہ رسول خدا (ص) نے ہميشہ نرمى اور در گزرسے كام ليا ليكن اس كے باوجود انہى لوگوں نے جنگ احد اور جنگ احزاب كے فتنے كو ہوا دى اور قتل و غارت گرى نيز تمام نقصانات كا سبب بنے_

كيا يہ تجربات اس مقصد كيلئے كافى نہ تھے كہ سعد ان خيانت كاروں كے بارے ميں وہى اقدام كريں جو رسول خد ا(ص) ''ابو عزہ'' خيانت كار كے بارے ميں فرماچكے تھے_(۱۰) اور وہى بات نہ دہراتے جو رسول خدا (ص) كى مبارك زبان سے نكل چكى تھى يعنى مومن ايك سوراخ سے دوبار نہيں ڈساجاتا اور وہ بھى '' حُيّى ابن اخطب'' جيسے خيانت كار كے بارے ميں جس نے تختہ دار پر بھى نہايت گستاخى كے ساتھ رسول خدا (ص) سے كہا تھا كہ ''اس دشمنى كے

۲۱۲

باعث جو ميرے اور تيرے درميان ہے ميں خود كو قابل ملامت نہيں سمجھتا''_(۱۱)

اس كے علاوہ ''بنى قريظہ'' نے رسول خد ا(ص) سے جو عہد وپيمان كيا تھا اس ميں وہ اس شرط كے پابند تھے كہ وہ ہرگز رسول (ص) اور صحابہ رسول (ص) كے خلاف كوئي اقدام نہ كريں گے نيز ہاتھ اور زبان سے آنحضرت (ص) كو كوئي اےذا و تكليف نہيں پہنچائيں گے اور اگر وہ ان شرائط كى خلاف ورزى كريں گے تو رسول خدا (ص) كيلئے ان كا خون بہانا ' ان كے مال كو ضبط كرنااور ان كى عورتوں نيز بچوں كو اسير كرنا مباح ہوگا(۱۲) اس بنا پر سعد نے جو حكم جارى كيا وہ اس عہد و پيمان كى بنياد پر تھا جو بنى قريظہ كرچكے تھے_

''بنى قريظہ'' كى خيانت كاريوں پر اگر غور كياجائے تو ہم پر يہ حقيقت عياں ہو جائے گى كہ رسول خد ا(ص) نے ان كے ساتھ جو سلوك كيا وہ اسلام ويہوديت كا مسئلہ نہ تھا بلكہ اس كا سبب وہ عہد شكنى تھى جو اسلام كے ساتھ وہ ہميشہ سے كرتے آئے تھے ،قبيلہ ''بنى قنيقاع '' و''بنى نضير'' كے علاوہ ''خيبر'' اور ''وادى القري'' كے يہوديوں كے ساتھ رسول خدا (ص) كا جو بزرگوارانہ رويہ رہا اور جس تحمل و بردبارى كا آنحضرت (ص) سلوك فرماتے رہے نيز ''بنى قريظہ'' كے ساتھ جو مسالمت آميز معاہدہ آپ (ص) نے كيا وہ ان حقائق كو سمجھنے ميں ہميں مدد ديتے ہيں_

اس بناپر كہاجاسكتا ہے كہ دشمنان اسلام جب اسلام و يہوديت كى دشمنى كا ذكر كرتے ہوئے ان واقعات كو بطور سند بيان كرتے ہيں تو وہ يا تو اسلام اور سيرت رسول خد ا(ص) سے واقف نہيں ہوتے اور يا اس ميں ان كى كوئي خاص غرض شامل ہوتى ہے_

اس كے باوجود بعض مسلم مورخین(۱۳) نے اس واقعہ قتل كى صحت كے بارے ميں شك وترديد كا اظہار كركے مسلمانوں كى اس تقدير ساز جنگ ميں ان كى عظیم خيانت كارى كو

۲۱۳

نہايت ہى معمولى واقعہ سمجھا ہے بقول رسول خدا (ص) كل ايمان كا سراپا كفر كے ساتھ مقابلہ تھا اور يہودى كفر كے ساتھ تھے(۱۴) _اس كے ساتھ ہى اس ترديد كا مطلب'' غزوہ احد'' اور '' غزوہ احزاب '' ميں ان كے مجرمانہ افعال سے بھى چشم پوشى اور حق كے سامنے ان كے غير لچك دار اور ہٹ دھرم رو يہ پر عدم توجہ ہے_ چنانچہ يہى كينہ توزى اور اسلام دشمنى ہم يہودى ''بنى قريظہ'' كى موجودہ نسل 'اسرائيل اور صہيونيت كے ان تمام پيروكاروں ميں ديكھتے ہيں جو سارى دنيا ميں پھيلے ہوئے ہيں_

''بنى قريظہ'' كى خيانت كارى اور انہيں اس كى سزا ديئے جانے كے واقعے كو تمام مورخين كے علاوہ شيخ مفيد مرحوم'(۱۵) ابن شہرآشوب '(۱۶ ) قمى(۱۷) طبرسى(۱۸) علامہ مجلسى(۱۹) اورمعاصرين ميں علامہ طباطبائي(۲۰) جيسے محدثين اور مفسرين نے اپنى تصانيف ميں بيان كيا ہے اس بناپر خيانت كاروں كو ان كے كئے كى سزاديئے جانے كے اصل واقعہ كے بارے ميں كسى توجيہ يا خدشے كى گنجائشے باقى نہيں_

غزوہ بنى قريظہ كا سودمند پہلو

''بنى قريظہ'' كے يہود يوں كا قلع قمع كئے جانے كے بعد مسلمانوں كو يہ اطمينان حاصل ہو گيا كہ ان جاسوسوں كا خاتمہ ہوگيا ہے جو اندرون محاذ ميں سرگرم عمل تھے اور اس كى وجہ سے اسلامى حكومت كے مركز ميں قائم مشركين كى فوجى اور انٹيلى جنس ايجنسى كى سرگرميوں كا خطرہ بھى باقى نہ رہااور چونكہ مال غنيمت ميں مسلمانوں كے ہاتھ اسلحہ بھى لگا تھا اس لئے مسلمانوں كى اقتصادى اور عسكرى طاقت كو ايسى تقويت پہنچى كہ اس كى وجہ سے آئندہ فتوحات بالخصوص يہوديوں پر غلبہ پانے كى راہيں ہموار ہوگئيں اس كے ساتھ ہى رسول خدا (ص)

۲۱۴

كا مقام ومرتبہ بحيثيت قائد اور اسلامى طاقت كا رعب و دبدبہ ہر دوست و دشمن كے دل ميںجم گيا_

صلح ومحبت كا سال

سنہ ۶ ہجرى كو ''سنة الاستئناس''(۲۱) يعنى انس ومحبت كا سال كہاجاتا ہے(۲۲) چنانچہ يہ سال مسلمانوں كيلئے نہايت ہى پر خیرو بركت اور سازگا رہا_

اس سال مسلمانوں نے تقريباً تيس جنگى معركے كئے اور بيشتر مواقع پر وہ فتح و كاميابى سے ہمكنار ہوئے اور دشمن كا بہت سا مال غنيمت ہاتھ لگا(۲۳) ذيل ميں ہم مختصر طور پر دو غزوات كا جائزہ ليں گے_

۱_غزوہ ''بنى مصطلق''

قبيلہ ''بنى مصطلق'' كى چونكہ جنگ احد ميں قريش كے ساتھ ساز باز تھى اسى لئے انہوں نے مسلمانوں كے ساتھ نبرد آزما ہونے كےلئے جنگى سامان كى فراہمى شروع كردى _

رسول خدا(ص) كو جب ان كى سازش كا علم ہو اتو آنحضرت (ص) نے اپنے لشكر كو آمادہ جنگ ہونے كا حكم ديا چنانچہ ماہ شعبا ن ۶ ہجرى ميں مسلمانوں كو ايك گروہ كو ساتھ لے كر آپ (ص) دشمن كى جانب روانہ ہوئے '' مريسيع ''(۲۵) نامى مقام پر غنيم سے مقابلہ ہوا اس معركہ ميں سازشى گروہ كے دس(۱۰) افراد مارے گئے او رباقى چونكہ مقابلے كى تاب نہ لاسكے اس لئے انہوں نے راہ فرار اختيار كرنے ميں ہى عافيت سمجھى اور چونكہ وہ عورتوں اور بچوں كے ساتھ گرفتار ہوكر آئے تھے نيز ان كا مال جو تقريباً دو ہزار اونٹوں اور پانچ ہزار بھيڑوں پر

۲۱۵

مشتمل تھا، بطور غنيمت مسلمانوں كے ہاتھ لگا_

قيديوں كو مدينہ منتقل كرنے كے بعد رسول خدا (ص) نے قبيلہ ''بنى مصطلق'' كے سردار ''حارث ابن ابى ضرار'' كى لڑكى ''جويريہ'' سے فديہ ادا كرنے كے بعد نكاح كرليا _

مسلمانوں نے جب يہ ديكھا كہ اس شادى كے ذريعہ قبيلہ بنى مصطلق اور رسول خدا (ص) كے درميان قرابت دارى ہوگئي ہے تو انہوں نے فديہ لئے بغير ہى تمام قيديوں كو يہ كہہ كر آزاد كرديا كہ يہ بھى رسول خدا (ص) كے رشتہ دار ہيں_

اس پر بركت رشتہ ازدواج اور رسول خدا (ص) نيز مسلمانوں كے حسن سلوك كے باعث قيديوں كے دل دين اسلام كى جانب مائل ہوگئے چنانچہ ان سب نے دين اسلام قبول كرنے كا شرف حاصل كيا اور ہنسى خوشى اپنے اپنے وطن واپس چلے گئے _(۲۶)

۲_ صلح حديبيہ

سنہ ۵' ۶ ہجرى كے دوران محاذ حق پر مسلمانوں كو جو پے در پے فتوحات نصيب ہوئيں ان كے باعث سياسي' اقتصادى نيز عسكرى اعتبار سے اسلام كى حيثيت ''جزيرہ نمائے عرب'' ميں پہلے سے كہيں زيادہ مستحكم و پائدار ہوگئي اس كے ساتھ ہى رسول خد ا(ص) كے لئے يہ امكان پيدا ہوگيا كہ قريش كى سازشوں سے بلاخوف و خطر اور اسلحہ و ساز وسامان جنگ كے بغير مكہ كا سفر اختيار كركے زيارت كعبہ سے مشرف ہو سكيں چنانچہ آپ (ص) نے اندرون وبيرون مدينہ اعلان كرايا كہ لوگ اپنے اس عبادى ، سياسى سفر كى تيارى كريں_

تقريباً چودہ (۱۴۰۰) پندرہ (۱۵۰۰ )يا سولہ (۱۶۰۰) سو سے زيادہ افراد نے اس سفر پر روانہ ہونے كےلئے آمادگى ظاہر كردى ، رسول خدا(ص) نے ان سے فرمايا كہ :

۲۱۶

اس سفر پر جانے كا ہمارا مقصد جنگ نہيں بلكہ عمرہ كرنا ہے چنانچہ ہر شخص اپنے ساتھ ايك تلوار اس وجہ سے لے سكتا ہے كہ يہ مسافروں كےلئے ضرورى ہے _

اس كے بعد رسول خد ا(ص) نے قربانى كيلئے ستر(۷۰) اونٹ اپنے ساتھ لئے_آنحضرت (ص) كے علاوہ اصحاب نے بھى قربانى كے مقصد كيلئے اونٹ اپنے ساتھ لئے _ رسول خدا (ص) نے ''ذوالحليفہ'' نامى مقام پر احرام باندھا اور پہلى ذى القعدہ سنہ ۶ ہجرى كو خانہ خدا كى زيارت كى خاطر مدينہ سے مكہ كى جانب روانہ ہوئے_(۲۷)

مسلمانوں كى اس مختصر تعداد كے ساتھ رسول خد ا(ص) كا سفر مكہ اختيار كرنا اور وہ بھى عسكرى ساز وسامان كے بغير خطرات سے خالى نہ تھا كيونكہ يہ واضح تھا كہ قريش اسلام پر كارى ضرب لگانے نيز رسول خدا(ص) كو اپنے راستے سے ہٹانے كے علاوہ كچھ سوچتے ہى نہيں تھے اور گزشتہ چند سال كے دوران ان كا سابقہ رسول خدا (ص) كے ساتھ ميدان جنگ ميں اس طرح پڑا تھا كہ ہر بار منہ كى كھائي تھى تو جب رسول خدا (ص) كو صحابہ كى اس مختصر جماعت كے ساتھ ديكھيں گے اور انہيں معلوم ہوگا كہ آنحضرت (ص) بغير اسلحہ كے تشريف لا رہے ہيں تو وہ لامحالہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے كى كوشش گے اور اسلام و پيغمبر اكرم (ص) كا كام ہى تمام كر ديںگے_

چنانچہ اسى وجہ سے منافقين اور صحرا نشين عربوں نے رسول خدا (ص) كے ساتھ مكہ جانے سے اجتناب كيا اور يہ نتيجہ اخذ كيا كہ اگر وہ مسلمانوں كى اس مختصر جماعت كے ساتھ بغير اسلحہ كے جائيں گے تو ہرگز مدينہ واپس نہ آسكيں گے اور جب قريش اس جماعت كو معمولى ساز وسامان كے ساتھ ديكھيں گے تو انہيں نيست ونابود كرديں گے_(۲۸)

چنانچہ قرآن مجيد نے ان كے گمان كى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمايا ہے كہ :

۲۱۷

( بَل ظَنَنتُم أَن لَن يَنقَلبَ الرَّسُولُ وَالمُؤمنُونَ إلَى أَهليهم أَبَدًا ) _(۲۹)

''بلكہ تم لوگوں نے تو يہ سمجھا كہ رسول (ص) اور مومنين اپنے گھروں كو ہرگز پلٹ كر نہ آسكيںگے''_

قريش كى مخالفت

مشركين مكہ كو معلوم ہوگيا كہ رسول خدا (ص) ان كے شہر كى طرف تشريف لارہے ہيں چنانچہ انہوں نے سپاہ اسلام كو مكہ ميں داخل ہونے سے روكنے كيلئے ''خالد بن وليد'' كو دوسو(۲۰۰) سواروں كے ہمراہ رسول خد ا(ص) كى جانب روانہ كيا_

رسول خدا (ص) نے اس خيال كے پيش نظر كہ دشمن سے مقابلہ نہ ہو راستہ كو بدل كر اپنا سفر جارى ركھا اور ''حديبيہ ''(۳۰) نامى جگہ پر قيام فرمايا _(۳۰) لشكر''خالد بن وليد'' بھى رسول خد ا(ص) كا تعاقب كرتا ہواسپاہ اسلام كے نزديك پہنچ گيا اور وہيں اس نے پڑائو ڈالا_

رسول خدا (ص) حرمت كے مہينے كے احترام اور اپنے پيش نظر اہداف و مقاصد كے تحت ہرقسم كے تصادم سے بچنے كے لئے كوشاں تھے_

مذاكرات كا آغاز

پہلے قريش نے اپنے نمائندے رسول خدا(ص) كى خدمت ميں بھيجے تا كہ يہ جاننے كے ساتھ كہ آنحضرت (ص) نے يہ سفر كس مقصد سے اختيا ركيا ہے ضرورى اطلاعات بھى حاصل كرليں، رسول خدا (ص) نے نمائندگان قريش كو جواب ديتے ہوئے تاكيد سے فرمايا كہ ہم جنگ

۲۱۸

كرنے كيلئے نہيں آئے ہيں بلكہ ہمارا مقصد تو عمرہ اور زيارت كعبہ سے مشرف ہونا ہے ليكن ہٹ دھرم قريش نے ايسى سختى پاليسى اختيار كى كہ وہ كسى طرح بھى پيغمبر اكرم (ص) كے ساتھ مسالمت آميز برتاؤ نہيں كرنا چاہتے تھے بلكہ انہوںنے رسول خدا(ص) كے اس نرم رويے كا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے لشكر كے پچاس(۵۰) سپاہيوں كو اس كام كےلئے مقرر كرديا كہ وہ سپاہ اسلام كے نزديك جاكر چند لوگوں كو گرفتار كر كے لے آئيں _ ليكن سپاہ اسلام كے مستعد پاسبانوں نے ان سب كو گرفتار كرليا اور رسول خدا (ص) كى خدمت ميں پيش كرديا ، رسول خدا (ص) نے انہيں يہ بتانے كيلئے كہ آپ (ص) كا رويہ صلح آميز ہے ان سب كو آزاد كرديا_

جب قريش كے نمائندوں كى آمد و رفت كا كوئي فائدہ نہ ہوا تو رسول خدا(ص) نے اپنے نمائندے قريش كى جانب روانہ كئے ، ليكن انہوںنے نمائندوں كے ساتھ بدسلوكى كى بلكہ ان ميں سے ايك كے پيچھے اونٹ دوڑا كر ان كى جان لينے كا قصد كيا اور دوسرے كو اپنے پاس روك ليا _(۳۱)

بيعت رضوان

جب رسول خدا (ص) كے آخرى نمائندے (عثمان )صحيح وقت پر واپس نہ آئے تو اس افواہ كو تقويت ملى كہ انہيں قتل كرديا گيا ہے اور يہ بات رسول خدا (ص) اور مسلمانوں پر بہت شاق گزري_

اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا كہ جب تك قريش كا خاتمہ نہيں كرليتے ہم يہاں سے نہيں جائيں گے اور آنحضرت (ص) نے مسلمانوں سے كہا كہ وہ اس مسئلے كے بارے ميں آپ(ص) كے دست مبارك پر بيعت كرليں ، مسلمين نے اس درخت كے نيچے جس كانام ''سمرہ'' تھا يہ

۲۱۹

بيعت كى كہ مرتے دم تك ہم آپ (ص) كے ساتھ ہيں چنانچہ يہى وہ بيعت ہے جسے ''بيعت رضوان'' سے تعبير كيا گيا ہے اور قرآن مجيد ميں بھى اس كى طرف اشارہ كيا گيا ہے_

( لَقَد رَضيَ الله ُ عَن المُؤمنينَ إذ يُبَايعُونَكَ تَحتَ الشَّجَرَة فَعَلمَ مَا فى قُلُوبهم فَأَنزَلَ السَّكينَةَ عَلَيهم وَأَثَابَهُم فَتحًا قَريبًا ) (۳۲)

''اللہ مومنين سے اس وقت خوش ہوگيا جب وہ درخت كے نيچے تم سے بيعت كر رہے تھے ان كے دلوں كا حال اس كو معلوم تھا اسى لئے اس نے ان اطمينان و پر سكون نازل فرمايا اور ان كو انعام ميںعنقريب ہونے والى فتح بخشي''_

جب لوگ رسول خدا (ص) كے دست مبارك پر بيعت كرچكے تو معلوم ہوا كہ آپ (ص) كا نمائندہ قتل نہيں ہوا ہے_ اس واقعہ كے بعد قريش نے ''سہيل بن عمرو'' كو مصالحت كى غرض سے رسول خدا (ص) كى خدمت ميں روانہ كيا طويل بحث وگفتگو كے بعد صلح كا معاہدہ كيا گيا جس كى بنياد پر طرفين ميں يہ طے ہوا كہ دس سال تك ايك دوسرے سے جنگ نہ كريں گے ، اس سال تو مسلمان يہيں سے واپس مدينہ چلے جائيں ليكن آئندہ سال بيت اللہ كى زيارت كو آسكتے ہيں ، مسلمين ومشركين كو اپنى دينى رسومات ادا كرنے كى اجازت ہوگي، طرفين كو اس بات كى بھى اجازت ہوگى كہ وہ جس قبيلے كو بھى چاہيں اپناحليف بناليں اگر قريش كے كسى فرد نے مسلمانوں كى پناہ لى تو ان كيلئے يہ لازم ہوگا كہ وہ اسے واپس كريں ليكن قريش كے لئے يہ ضرورى نہيں ہوگا كہ وہ بھى كسى مسلمان پناہ گزين كو واپس كريں_

جب صلح كا عہد وپيمان ہوگيا تو رسول خدا (ص) اور مسلمانوں نے اپنى قربانى كے اونٹوں كونحركيا ، سروںكے بال ترشوا كر احرام سے باہر نكلے اورمدينہ واپس آگئے _(۳۳)

۲۲۰