تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي18%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139829 / ڈاؤنلوڈ: 4393
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

كروفر كے ساتھ منظر عام پر آچكى ہے اور اس كے پيروكار ايمان كے زير سايہ اور خلوص وعقيدت كى بناپر جو انہيں اس دين اور اس كے قائد سے ملا ہے اپنے ، اعلى مقاصد كو حاصل كرليتے ہيں اور اس كے حصول كى خاطر وہ دشمن كى كثير تعداد اور سامان جنگ كى فراوانى سے ذرا بھى خوف زدہ نہيں ہوتے چنانچہ يہى وہ كيفيت تھى جس نے ان بڑى طاقتوں كے دلوںميں اسلام كا رعب و دبدبہ قائم كرديا_

دوسرى طرف جزيرہ نما ئے عرب ميں ان طاقتوں كے دست پروردہ افراد كو عملى طور پر يہ معلوم ہوگيا كہ وہ قليل افرادجو اپنے مقصد و ارادے ميں مضبوط و محكم ہيں روم جيسى بڑى طاقت سے جس كى سپاہ كى تعداد كل مسلمانوں كى تعداد سے ساٹھ گنا زيادہ ہے ٹكر لے سكتے ہيں اور ان كے گھروں ميں گھس كر انہيں ذليل و خوار تك كرسكتے ہيں چنانچہ يہى وجہ تھى كہ اب دشمنان، اسلام كى عسكرى طاقت كا اعتراف كرنے لگے اور اس كى عظمت كارعب ان كے دلوں ميں بيٹھ گيا اور اب انہيں يہ بخوبى اندازہ ہوگيا كہ آئندہ مسلمان ان كے سامنے زيادہ قوت اور حوصلہ مندى كے ساتھ اب سے زيادہ وسيع ميدانوں ميں نبرد آزما ہونے كيلئے ظاہر ہوں گے_

۲۴۱

سوالات

۱_رسول خدا(ص) نے كب اور دنيا كے كن ممالك كو دين اسلام كى دعوت كا پيغام بھيجا ؟

۲_ اس دعوت كا مختلف ممالك كے سربراہوں پر كيا رد عمل ہوا ؟ مختصر طور پر بيان كيجئے_

۳_ غزوہ خيبر كب پيش آيا اور اس ميں كيا محركات كار فرما تھے؟

۴_ غزوہ خيبر كس طرح اختتام پذير ہوا ؟ اس جنگ ميں حضرت على (ع) نے كيا كردار ادا كيا؟

۵_ كيا رسول خدا (ص) كا خيبر كے يہوديوں كے علاوہ ان ديگر يہود كے ساتھ بھى جو مدينہ كے شمال ميں تھے كوئي مقابلہ ہوا؟ وہ مقابلہ كس طرح اور كہاں ہوا؟

۶_ ''عمرة القضائ'' كا واقعہ كب پيش آيا ؟ اس كى ادائيگى ميں كتنے لوگوں نے شركت كى اور اس كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟

۷_ سريہ ''موتہ'' كا واقعہ كب ہوا؟ اس ميں كتنے مسلمانوں نے شركت كى ؟ ان كے فرمانروا كے نام كيا تھے اس سريہ كى سياسى و ثقافتى اہميت كے بارے ميں بتايئے_

۸_ سريہ موتہ كا كيسے خاتمہ ہوا؟ اور اس كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟

۲۴۲

حوالہ جات

۱_الطبقات الكبرى ج ۱ ص ۲۵۸_۲۶۲_

۲_ايضا ص ۲۵۹_

۳_ايضا ص ۲۶۰_

۴_اےضا ص ۲۵۹_ ۲۶۲_

۵_يہ جگہ مدينہ سے ۸ بريد يعنى تقريباً۹۶ كيلومٹر كے فاصلے پر واقع ہے (ہر بريد دو فرسخ كا ہوتا ہے اور ہر فرسخ تين ميل كا ہوتا ہے _ بنابرايںلفظ بريد كيلئے ملاحظہ ہو : لسان العرب ج ۳ ص ۸۶)خيبر ميں بہت سے قلعے ، كشت زار اور نخلستان واقع تھے (ملاحظہ ہو : معجم البلدان ج ۲ ص ۴۰۹ وفاء الوفا ج ۳_۴ ص ۱۲۰۹)_

۶_المغازى ج ۲ ص ۶۳۴ _ ۶۳۷ _۶۴۲ ، ليكن يعقوبى نے جنگجو سپاہ كى تعداد بيس ہزار لكھى ہے تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۵۶_

۷_منقول ہے كہ : خيبر ميں ايسے مضبوط قلعے تھے اور ان ميں اسلحہ سے ليس سپاہ اس كثرت سے موجود تھى كہ يہودى يہ تصور بھى نہيں كرسكتے تھے كہ رسول خد ا(ص) ان كے ساتھ جنگ كا ارادہ كريں گے_ ہر روز دس ہزار نبرد آزما سپاہى صف آرائي كرتے اور كہتے كہ كيا محمد (ص) كو اتنى جرات ہوسكتى ہے كہ وہ ہم سے جنگ كريں ايسا ہرگز نہيں ہوسكتا (المغازى ج ۲ ص ۶۳۷)_

۸_دروازہ قلعہ خيبر كے بڑے اور وزنى ہونے كے بارے ميں ديگر روايات بھى ملتى ہيں جن كى رو سے اس قلعے كے كھولنے اور بند كرنے پر چاليس افراد اور بقولیستر افراد مقرر تھے_(ملاحظہ ہو بحارالانوار ج ۲۱ ص۴)_

۹_ملاحظہ ہو : الارشاد ص ۶۵_ ۶۷ بعض ماخذ ميں يہ بھى درج ہے كہ جب حضرت على (ع) كى سپر اس يہودى كے حملہ كرنے كى وجہ سے گر گئي تو آپ (ع) نے اس قلعے كے دروازے كو اكھاڑليا اور اسے بطور ڈھال استعمال كيا ملاحظہ ہو السيرة النبويہ ج ۳ ص ۳۴۹_ ۳۵۰_

۱۰_المغازى ج ۲ ص ۷۰۰_

۱۱_السيرة النبويہ ، ابن كثير ج ۳ ص ۳۷۵_

۱۲_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۲_

۱۳_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۵_

۲۴۳

۱۴_يہ جگہ حجاز ميں خيبر كے نزديك واقع ہے اور مدينہ سے يہاں تك دو يا تين دن كا راستہ ہے _ معجم البلدان ج ۲ ص ۲۳۸_

۱۵_ بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۲_ ۲۳_

۱۶_تفسير برہان ج ۲ ص ۴۱۴ _۴۱۶ ذيل آيہ شريفہ ''وَآت ذَالقُربى حَقَّہ'' _

۱۷_الكامل فى تاريخ ج ۲ ص ۲۲۲_

۱۸_معجم البلدان ج ۲ ص ۶۷_

۱۹_يہ جگہ شام اور وادى القرى كے درميان اورعہد نبوى ميں مدينہ سے آٹھ منزل تك فاصلے پر واقع تھى ملاحظہ ہو معجم البلدان ج ۲ ص ۶۷ و وفاء الوفاء ج ۳ _۴ ص ۱۱۶۴_

۲۰_التنبيہ والاشراف ص ۲۲۴_

۲۱_يہ جگہ حرم كے نزديك مكہ سے پانچ ميل(تقريباً دس كلوميٹر) كے فاصلے پر واقع تھى _ معجم البلدان ج ۵ ص ۱۰۴_

۲۲_السيرة النبويہ ج۴ ص ۱۳_

۲۳_ملاحظہ ہو : تاريخ طبرى ج ۳ ص ۲۴_

۲۴_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ، ابن كثير ج ۳ ص ۴۳۲_

۲۵_پروفيسر گيورگيوجن كى كتاب كا فارسى ترجمہ ''محمد (ص) پيغمبرى كہ از نو بايد شناخت'' كے زير عنوان طبع ہوچكا ہے ، اس شادى كے بارے ميں لكھتے ہيں كہ : يہ ازدواجى رشتہ پيغمبر خدا (ص) كى طرف سے نماياں سياسى اقدام تھا اس ضمن ميں موصوف نے مزيد لكھا ہے كہ حضرت ميمونہ (ع) كى چونكہ آٹھ بہنيں اور تھيں اور ان ميں سے ہر ايك كى شادى مكہ كے كسى سربرآوردہ شخص سے ہوچكى تھى اسى لئے اس كے ذريعے پيغمبر خدا (ص) كاتعلق مكہ كے آٹھ برجستہ افراد سے قائم ہوگيا اس كے علاوہ حضرت ميمونہ (ع) كى والدہ اپنى شان و شوكت كے اعتبار سے عرب خواتين ميں بے مثال سمجھى جاتى تھيں ،اس كے بعد پروفيسر مذكور نے ابن ہشام اور ديگر سيرت نگاروں كے قول كو نقل كرتے ہوئے لكھا ہے كہ حضرت ميمونہ (ع) كى شادى كے ذريعے درحقيقت تمام اہل مكہ كے ساتھ رشتہ و قرابت قائم كرنا مقصود تھا اس شادى كا قابل ذكر پہلو يہ تھا كہ حضرت ميمونہ كے بھتيجے خالد

۲۴۴

بن وليد مشرف بہ اسلام ہوئے _ ملاحظہ ہو مذكورہ كتاب ص ۳۴۷_

۲۶_يہ جكہ ''تنعيم' ' كے نزديك واقع ہے_ السيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۴_

۲۷_المغازى ج ۲ ص ۷۳۱ و ۷۴۱ والطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۲۰_ ۱۲۳_

۲۸_ اس كا شمار حدود شام ميں بلقاء كے ديہات ميں ہوتا تھا _ معجم البلدان ج ۵ ص ۲۲۰_

۲۹_اوپر متن ميں جو كچھ تحرير كيا گيا ہے وہ مورخين كى تحريروں پر مبنى ہے ليكن حضرت امام صادق (ع) سے حضرت ابان بن عثمان نے جو روايت نقل كى ہے (بحارالانوار ج ۱۲ _ ص ۵۵) اور جو اشعار حضرت كعب بن مالك نے موتہ كے شہداء كے مرثيے ميں كہے ہيں : اذ يَہدُونَ بجَعفَر: وَلوَائہ قُدَّامَ اَوَّلہم فَنعمَ الاوَّل'' (سيرہ ابن ہشام ج ۴ ص ۲۸) وہ اس امر پر دلالت كرتے ہيں كہ سپہ سالار حضرت ''جعفر ابن ابى طالب '' تھے نہ كہ ''زيد بن حارثہ'' چنانچہ علامہ مجلسى نے بھى بحارالانوار كى ج ۲۱ ص ۵۶ پر يہ عبادت درج كى ہے كہ شيعوں كا عقيدہ ہے كہ جعفر اميرا ول مقرر كئے گئے تھے_

۳۰_ملك شام ميں بلقاء كے ساتھحجاز كے راستے پر واقع ہے معجم البلدان ج ۵ ص ۱۵۳_

۳۱_جنگى حربہ يہ تھا كہ رات ہوگئي تو خالد نے سپاہ كے دائيں بائيں آگے اور پيچھے كے حصے بدل ديئے اورمجاہدوںكو ايك جگہ سے دوسرى جگہ منتقل كرديا اور ساتھ ہى نئے پرچم لہراديئے چنانچہ جب رومى سپاہيوں كى نظر سپاہ و پرچم اسلام پر گئي تو انہوں نے سمجھا كہ مسلمانوں كى مدد كے لئے تازہ دم لشكر آن پہنچا ہے چنانچہ اسى وجہ سے ان كے دلوں پر خوف طارى ہوگيا_ اور وہ يہ فيصلہ نہ كرسكے كہ آيا جنگ جارى ركھى جائے يا نہيں _ المغازى ج ۲ ص ۷۶۴_

۳۲_ملاحظہ ہو المغازى ج ۲ ص ۷۵۵ ۷۶۴ السيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۵_ ۲۱_

۳۳_السيرة النبويہ ج ۴ ص ۳۰_

۳۴_المغازى ج ۲ ص ۷۶۹_

۳۵_ السيرة النبويہ ج ۴ ص ۳۱ _ ۳۳_

۳۶_ البتہ مؤلف كى يہ بات پہلے سبق ميں ان كى اس بات سے بالكل متضاد ہے كہ ايران اور روم جيسے كشور كشا ممالك يہاں كا رخ ہى نہيں كرتے تھے_ اس پر مزيد توجہ كى ضرورت ہے _ مترجم

۲۴۵

سبق ۱۴:

فتح مكہ اور غزوات حونين اور طائف

۲۴۶

فتح مكّہ

رسول اكرم (ص) كيلئے صلح ''حديبيہ'' كے بعد يہوديوں كے خطرات دور كرنے اورعراق اور شام كى حدود تك مدينہ كے شمال ميں آباد عرب قبائل كے درميان اشاعت اسلام كے امكانات زيادہ ہوگئے، قلمرو اسلام ميں اب تنہا جو طاقت باقى رہ گئي تھى اور جس كا وجود جزيرة العرب كے باہر ترويج اسلام كيلئے خطرہ بنا ہوا تھا وہ قريش مكہ تھے، دشمن كے اس مركز كى دو اہم ترين خصوصيات يہ تھيں پہلى تو يہ كہ يہ شہر بہت سے مسلمانوں بلكہ خود رسول خدا(ص) كا وطن تھا اوردوسرى وجہ يہ تھى كہ كعبہ ابراہيم (ع) يعنى مركز توحيد اور مسلمانوںكا قبلہ اسى شہر ميں واقع تھا ان دو وجوہات كے علاوہ مسلمانوں نے اپنى اسلامى ز ندگى كے دوران جو صدمات برداشت كئے ان ميں سے اكثر وبيشتر اسى شہر كے لوگوں نے انہيں پہنچائے تھے مذكورہ بالا وجوہات كى بناپر مكہ كا شمار ان اہم ترين مراكز ميں ہوتا تھا جنہيں رسول خدا (ص) جزيرہ نما ئے عرب ميں دشمن كے وجود سے پاك و صاف كردينا چاہتے تھے اور يہى منصوبہ عرصے سے آنحضرت (ص) كے پيش نظر تھا_

غزوہ ''حديبيہ'' اور ''عمرة القضائ'' دو ايسے بڑے كامياب معركے تھے كہ جن كے باعث قريش كى عسكرى بالادستى اور مكہ پر اجارہ دارى ختم ہوگئي اور مسلمانوں كيلئے مكہ واپس آنے 'مناسك حج ادا كرنے اور اشاعت دين كى راہيں ہموار ہوگئيں مگر اس كے باوجود

۲۴۷

قريش كى سياسى و ثقافتى برترى اور لعنت شرك و بت پرستى اب بھى مثل سابق وہاں موجود تھي_

قريش كے خلاف تيسرا اور آخرى قدم اٹھانے كيلئے اب مسلمانوں كے سياسى حالات و عسكرى انتظامات قطعى طور پر موافق و سازگار تھے اور جو چيز اس راہ ميں مانع بنى ہوئي تھى وہ يہ تھى كہ رسول(ص) خدا صلح حديبيہ كى كسى قسم كى عہد شكنى نہيں كرنا چاہتے تھے مگر قريش نے اپنى طرف سے اس معاہدے كى خلاف ورزى ميں پہل كرتے ہوئے قبيلہ ''بنى بكر'' كى حمايت ميں قبيلہ ''بنى خزاعہ'' كے بيس افراد كو محض اس بناپر بے دردى سے قتل كرڈالا كہ ان كا رسول خدا(ص) كے ساتھ باہمى معاہدہ تھا اسى لئے يہ دشوارى بھى دور ہوگئي چنانچہ اب وہ وقت آن پہنچا تھاكہ رسول خدا (ص) اس موقع كا فائدہ اٹھاتے ہوئے مكہ پر تسلط حاصل كر يں اور كعبہ كو بتوں سے نجات دلا كر اپنى ديرينہ آرزو كو عملى جامہ پہنائيں تاكہ شرك كے سب سے بڑے مركز كے وجود كونيست و نابود كرديں بالخصوص ان حالات ميں جبكہ قبيلہ خزاعہ كا سردار اپنے ہم قبيلہ افراد كو ساتھ لے كر رسول خدا (ص) كى خدمت میں حاضر ہوچكا تھا اور اس نے ان رقت انگيز واقعات كو بيان كركے ، جو اس كے قبيلے كے لوگوں پر گذرے تھے ، قريش كى عہد شكنى كا ذكر كيا اور ان كے خلاف اس نے آنحضرت (ص) سے مدد كى درخواست كى _

رسول خد ا(ص) نے عام تيارى كا حكم ديا اس كے ساتھ ہى آنحضرت (ص) نے مدينہ كى جانب اپنے ايلچى رانہ كئے تاكہ انہيں بھى اس ميں شريك ہونے كى دعوت دى جائے ، تيارى كا حكم ملتے ہى دس ہزار سپا ہى جمع ہوگئے اور يہ ايسى كثير تعداد تھى جو اہل مدينہ نے كبھى اپنى آنكھوں سے نہيں ديكھى تھي_

رسول خدا (ص) نے قريش كو غفلت ميں ڈالنے كيلئے تمام ممكنہ حفاظتى اقدامات كئے ابتداء ميں

۲۴۸

آپ (ص) نے اپنے قصد و ارادے كو كسى پر ظاہر نہيں كيا وہ تمام راستے جو مكہ كى طرف جاتے تھے ان كى سخت ناكہ بندى كردى گئي لوگوں كو دوسرى جانب متوجہ كرنے كيلئے رسول خدا (ص) نے سپاہ كا ايك دستہ '' ابوقتادہ'' كى قيادت ميں ''اضم'' نامى مقام كى جانب روانہ كيا تاكہ لوگ يہ سمجھيں كہ آنحضرت (ص) كا رخ اسى جانب ہے اس كے بعد آپ (ص) نے بارگاہ ايزدى ميں التجا كى كہ قريش كى آنكھوں اور كانوں پر غفلت كا پردہ پڑجائے اور ہوش انہيں اس وقت آئے جب وہ اچانك سپاہ اسلام كو اپنے سروں پر مسلط پائيں_(۱)

یہ اقدام اس وجہ سے كیا گیا كہ دشمن اس سے قبل كہ اپنے دفاع كى خا طر اپنى عسكرى طاقت كا استعمال كرے خود ہى بغیر كسى تصادم كے حق كے سا منے سر تسلیم خم كر دے اور حرم مكہ 'یعنى مقدس و معنوى پناہ گاہ ایزدى حتى الامكان خونریزى كے بغیر فتح ہو جائے_

ليكن تمام ممكنہ حفا ظتى اقدامات كے باوجود ''حاطب بن ابى بلتعہ''نامى شخص نے قریش كوخط لكھ ہى دیا اور ''سارہ''نامى عورت كو قریش مكہ تك پہنچانے كے لئے روانہ كر دیا تا كہ انہیں معلوم ہو جائے كہ رسول خدا(ص) كا ممكنہ اقدام كیا ہو سكتا ہے_

رسول خدا(ص) كو وحى كے ذریعے اس شخص كى خیا نت كا علم ہو گیا چنا نچہ اپ(ص) نے فوراً ہى حضرت على (ع) اور زبیر كو اس كام پر مامور فر ما یا كہ اس عورت سے خط حا صل كریں اور اسے واپس مدینہ لے ائیں(۲) _

رسول خدا(ص) دس ماہ رمضان سنہ ۸ہجرى كودس ہزارمسلما نوں كے ساتھ مدینہ سے مكہ كى جا نب روانہ ہو ئے چنانچہ جب اپ (ص) ''مرالظہران''نامى مقام پر تشریف فرما ہو ئے تو دشمن كو اپ(ص) كے انے كا ذرا بھى علم نہ ہو سكا_

یہاں رسول خدا(ص) نے حكم دیا كہ سپا ہى و سیع میدان میں منتشر و پراكندہ ہوجائیں اور ان

۲۴۹

میں سے ہر شخص اگ روشن كرے_رسول خدا(ص) كے اس حر بے نے اہل مكہ كو سخت وحشت میں مبتلا كر دیا(۳) _

ابو سفیان كے ہمراہ كچھ قریش سردارحالات كا جائزہ لینے كے لئے مكّہ سے باہر نكل آئے،راستے میں ان كى ملا قات سب سے پہلے رسو ل خد ا(ص) كے چچا حضرت عباس سے ہو ئي جو سپاہ اسلام كے پہنچنے سے قبل ہى وہاں پہنچ گئے تھے_اور ان سے حالات كے بارے میں پوچھا_حضرت عباسنے كہا كہ رسول خدا(ص) نے تم پر دس ہزار سپاہ كے ساتھ شب خون مارا ہے _اب تمہارے لئے راہ نجات یہى ہے كہ دین اسلام قبول كرلو _ابو سفیان كے ساتھ''حكیم بن حزام''اور''بُدَيُل بن وقار''بھى تھے یہى بات انہوں نے ان لو گوں سے بھى كہي_

یہ بات سن كر قریش كے سر داروں كے ا وسان خطا ہو گئے اور حضرت عباس سے اتنا ہى كہا كہ اب ہم اپ كے رحم وكرم پر ہیں _حضرت عباس انہیں رسول خدا(ص) كى خدمت میں لے گئے(۴) _رسول خدا(ص) نے ان سے قریش كى حالت اور كیفیت كے بارے میں كچھ سوالات كئے اور ضرورى معلومات حا صل كرنے بعدانہیں دین اسلام قبول كر نے كى دعوت دى _ انہیں رسول خدا(ص) كى با ت تسلیم كر نے كے علاوہ كو ئي چا رہ نظر نہ ایا _اور اس رات وہ حضرت عباس كے ساتھ ہى رہے_صبح كے وقت تمام سپاہ نے با واز بلند اذان دى جسے سن كر ابو سفیان پر خوف طارى ہو گیا(۵) اس كے بعد رسول خدا(ص) كے حكم سے اسے ایك ٹیلے پر لے جا یا گیا اورسپاہيوںنے منظم دستوں كى شكل میں اس كے سامنے مسلح پريڈ كى اور اس نے اسلام كى شان و عظمت اور عسكرى و معنوى طا قت اپنى انكھوں سے دیکھ لي(۶) _

رسول خدا(ص) نے اسلام كى طاقت كے جاہ و جلال كا مظاہرہ كر كے شرك كى استقامت و

۲۵۰

پائدارى كے ہر ارادے كو پاش پاش كر دیا _اور اب اپ(ص) نے یہ سعى و كوشش كى كہ ابو سفیان كے ذریعے قریش كى استقامت و پائدارى كو بھى چكنا چور كر دیں لہذا اپ(ص) نے ابو سفیان سے كہا كہ وہ قریش كے درمیان جاكر ان سے كہے كہ جو كوئي اسلحہ زمین پر ركھ كر اپنے گھر میں بیٹھا رہے گا یا مسجد الحرام میں پناہ لے گا یا ابو سفیان كے گھر میں پناہ گزیں ہو گا اسے كوئي نقصان نہيں ہوگا اور وہ امان ميں ہوگا(۷) _

رسول خدا (ص) كا یہ اقدام اس امر كا با عث ہوا كہ قریش كے ان سرداروں نے جوڈٹ كر سپاہ اسلام كا مقا بلہ كر نا چاہتے تھے ابو سفیان كى یہ كيفیت ديكھ كر اپنا ارادہ بدل دیا(۸) _

قریش كو زیر كر نے كے جتنے بھى مرا حل ہو سكتے تھے وہ اب طے ہو چكے تھے _اور وہ وقت آن پہنچا تھا كہ رسول خدا (ص) مكہ میں تشریف فر ما ہو ں _رسول خدا (ص) كى یہ سعى و كو شش تھى كہ سپاہ اسلام شہر میں اس طرح دا خل ہو كہ جس حد تك ممكن ہو سكے كو ئي تصادم نہ ہو چنا نچہ اس مقصد كے تحت آنحضرت (ص) نے كل سپاہ كو چا ر دستوں میں تقسیم كر كے ہر ایك كا ایك جرنيل مقرر فر میا ،اور ہر دستے كو یہ حكم دیا كہ اندرون شہر اس را ستے سے جا ئیں جو ان كے داخل ہو نے كےلئے مقرر كردیا گیا ہے تا كہ فوج چاروں طرف سے شہر يكبارگى داخل ہو اور لڑائي كا كوئي امكان نہ رہے_اور سب كو یہ ہدا یت دى كہ صرف اسى سے جنگ كر نا جو تمہارے مقابلے پر اتر آئے مگر ا س كے ساتھ ہى دس ایسے افراد كے نام بھى اپ(ص) نے دئے جن كا خون بہا نا جا ئز و مبا ح قرار دیا گیا تھا(۹) _

اہل لشكر مقررہ را ستوں سے مكہ میں دا خل ہو ئے _اندروں شہر دشمن كى ایك مختصر سى جماعت نے ہى استقا مت و پائدارى كى كو شش كى مگر جب اس كے چند افراد قتل ہو گئے تو ان كى استقامت كا بھى خاتمہ ہو گيا اور پھر سپاہ اسلام نے كسى خونرےزى كے بغیر مكہ كو فتح

۲۵۱

كرلیا(۱۰) _

حضرت خدےجہ(ع) اور حضرت ابو طا لب(ع) كى قبر كى زیا رت اور طواف كعبہ كے بعد رسول خدا (ص) ، حضرت على (ع) كے ہمراہ خا نہ خدا كو تصویروں اور بتوں سے پاك كر نے میں مشغول ہوگئے(۱۱) _

اہل مكہ خاص كر مشركين كے سردار نہا یت ہى اضطراب و بے چینى سے اپنا انجام ديكھنے كا انتظار كررہے تھے _مسلما نوں پروہ اب تك جو مظالم كر چكے تھے انہیں ديكھ كے انہیں اپنى مو ت سا منے نظر آرہى تھى _

رسول خدا (ص) نے پہلے تو بتوں كو سر نگوں كیا اور اس كام سے فارغ ہو نے كے بعد وہاں موجود لو گوں كے سا منے تقریر فر ما ئي _اس فتح و كا میا بى پرخدا وند تعا لى كى حمد كرنے كے بعد آپ (ص) نے قریش سے خطا ب كر تے ہو ئے فر ما یا ''اب بتاؤ كیا كہتے ہواور تمہا رے دلو ں میں كیا وسو سے ہیں؟''_سب نے بلند آواز سے انحضرت (ص) كى خدمت میں عر ض كیا :''ہمیں اپ(ص) سے یہى تو قع ہے كہ اپ(ص) ہما رے سا تھ خیر و نیکى كا سلوك فر ما ئیں گے _ہمیں یہى عرض كر نا ہے اور اس كے علا وہ ہما رے دلوں میں كو ئي خیا ل و فكر نہیں _آپ(ص) ہما رے قابل احترام بھائي ہیں اور ہم آپ(ص) كو اپنے بھائي كا فر زند ہى سمجھتے ہیں_با قى آپ(ص) كو اختیا ر ہے اور طاقت بھى اب آپ(ص) كے پاس ہے_(۲) ''

رسول خدا (ص) نے انہیں جواب دیتے ہو ئے فر ما یا :''میں تم سے اپنے بھا ئي حضرت ےو سف (ع) كى طرح چشم پو شى كر تے ہوئے كہتا ہوں:

( لَا تَثريبَ عَلَيكُم اليَومَ يَغفرُاللّهُ لَكُم وَ هُوَ اَرحَمُ الرّاحمينَ ) (۱۳)

۲۵۲

''اج تم پر كو ئي گر فت نہیں _اللہ تمہیں معاف كرے وہ سب سے بڑھ كر رحم كر نے وا لا ہے''(۱۴) _

چنا نچہ جب انہوں نے معا فى كى درخواست كى تو رسولخدا(ص) نے فر ما یا :

''اذهَبُو فَاَ نتُمُ الطُّلَقَائُ'' (۱۵)

جا ئو تم سب ازاد ہو_

جب رسول خدا (ص) نے عام معا فى كا اعلان كر دیا اورمشركين كے سرداروں كے اعمال سے چشم پوشى كى تو مكہ كے لوگ جو ق در جوق اپ(ص) كى خدمت میں حا ضر ہو كر دین اسلام قبول كرنے كا شرف حا صل كر نے لگے یہى نہیں بلكہ عرب خواتین نے بھى ان خا ص آداب كے مطا بق جو مقرر كئے گئے تھے رسول خدا (ص) سے بےعت كى(۱۶) قران مجید نے اس بے نظیر تبدےلى اور رجحان كى جا نب اشا رہ كر تے ہو ئے فر ما یاہے_

( وَرَاَ يتَ النّا سَ يَد خُلُونَ في دين اللّهَ اَفوَاجَاً ) (۱۷) _

اے نبي(ص) تم نے ديكھا كہ لوگ فوج در فوج اللہ كے دین میںداخل ہو رہے ہیں(۱۸)

رسول خدا (ص) نے بت بر ستى كوہر جگہ سے كلى طور پر نیست و نا بود كرنے كے لئے لو گو ں كو ہدایت كى كہ جس كسى كے پا س كو ئي بت ہو وہ اسے پا ش پا ش كر دے_اس كے علا وہ آپ(ص) نے مكہ كے با ہر بھى چند افراد كو بھےجا تا كہ جہا ں كہیں بھى كو ئي بت خا نہ ہو اسے ویران كر دیں ،اور لو گو ں كو دین اسلام كى دعوت دیں(۱۹)

۲۵۳

پیغمبر ہدایت و اصلاح

مسلما نوں كے ہا تھوں شہر مكہ كى تسخیر'مشركین كے سرداروں كى شكست اور تسليم اور ان لوگوں كے سا تھ جو بیس سال سے زيادہ عرصہ تك اسلام دشمنى میں رسولخدا (ص) سے بر سر پیکار رہے رسولخدا (ص) كے غیر متوقع و بے مثال در گزر و چشم پو شى نے ثابت كر دیا كہ انحضرت(ص) كا مقصد گمراہ و نا دان لو گو ں كى ہدا یت و اصلا ح كے علاوہ اوركچھ نہیں ہے_اور جنگ و تصادم كے جو واقعات پیش ائے ان میں اپ (ص) كا مقصدانكى ہدا یت واصلاح ہى تھا ناكہ انتقام جوئي اور جاہ و فضےلت طلبى چنانچہ ايسى عظیم الشان فتح كے با و جود صرف وہ دس افراد (چھ مر د اور چا ر عورتیں)جو سخت و سنگین جرائم كے مر تكب ہو ئے تھے قا بل سزا قرار ديئے گئے اور ''مَہدُورُالدَّم''كے عنوان سے انہیں یا د كیا گیا(۲۰) _

ان میں بھى چار افراد كو قتل كر دیا گیا اور با قى كسى نہ كسى بہانے سے امان پا نے میں كامیاب ہو گئے(۲۱) اگر چہ ایسے موقعوں پر دنیا وى انقلابى ليڈر سینكڑوں نہیں بلكہ ہزاروں افراد كوبا لخصوص انہیں جو دشمن كے محاذ پر پیش پیش ہو تے ہیں،تہ تےغ كر دیتے ہیں_لیکن جب سا رى دنیا كے پیغمبر(ص) رحمت ےعني''رحمةاللعالمین''سے بعض مسلمان سپاہیوں نے یہ كہا كہ''اَليَومَ يَومُ المَلحَمَة '' اج كا دن انتقام لینے اورجنگ كرنے كا دن ہے تو انحضرت (ص) نے یہ موقف اپنا ياكہ''اَليَومَ يَومُ المَرحَمَة' 'آج كا دن رحمت كا دن ہے(۲۲) چنا نچہ اس كےفیت كو پروفیسر حمید اللہ نے اپنے الفاظ میں اس طرح بیان كیا ہے_

جب رسول خدا (ص) كسى شہر كا فاتح ہو تو اُن سے اس عظمت و بزرگوارى كے علاوہ اور كو ئي توقع ركھنى ہى نہيں چاہئے(۲۳)

۲۵۴

غزوہ حنین وطائف:

جب شرك كاسب سے عظیم مر كزتسخير ہو گیا اور ''سواع''''منا ة ''اور ''عزي''جیسے بت كدے مسلمانوں كے ہاتھوں ویراں ہو گئے(۲۴) تواسلام كا عسكرى و سیاسى اثر و نفوذ تمام'' جزیرہ نمائے عرب '' پر چھا گیا _چنا نچہ یہى وجہ تھى كہ مشركین كے اكثر و بیشترقبا ئل نے اسلام كى اطا عت قبول كر لى اور اس كے سا منے سر تسليم خم كر ليا لكين''ہو ازن'' اور ''ثقےف'' ایسے دو قبیلہ تھے جو اسلام سے نفرت میں پیش پیش اور جنگجوئي میں سب پر فو قیت ركھتے تھے_اس كے علاوہ ان كے پاس اسلحہ بھى سب سے زیا دہ رہا كرتا تھا انہیں یہ علم ہو اكہ مسلما نوں كو مشركین پر فتح و نصرت حا صل ہے ہوئے تو وہ سخت سرا سیمہ اور پریشان خاطر ہو ئے اور اب انہیں یہ خو ف لا حق رہنے لگا كہ قریش كومغلوب كر نے كے بعد لشكر اسلام انہیں اپنے حملے كا نشا نہ بنا ئے گا چنانچہ انہوں نے خود ہى پيش قدمى كرتے ہوئے مسلمانوں كے ساتھ بر سر پیکا ر ہو نے كا ارادہ كر لیااور انہوںنے چند دےگر قبائل سے بھى عہد و پیمان كر لیا تھا_

چنانچہ سب نے مجمو عى طور پر طا قتور سپاہ كى شكل اختيار كر كے'' مالك بن عوف''كى سپہ سالارى ميںرسول خدا(ص) كے سا تھ جنگ ونبرد كرنے كےلئے خود كو آما دہ كر لیا_

دشمن نے اس خیال كے پیش نظر كہ محاذ جنگ كى پشت سے اس كا كو ئي تعلق نہ رہے اور مسلما نوں كے سا تھ جان توڑكرجنگ كر ے اس نے اپنى عورتوں 'بچوں ، مويشيوں اور مال غنیمت كو اپنے ساتھ لے ليا_

رسول خدا(ص) كو جب دشمن كے ارادے كى اطلاع ملى تو اپ(ص) بتا رےخ۶شوال سنہ۸ہجرى كو بارہ(۱۲۰۰۰)ہزار سپاہیوں كا لشكر(جس میں دس ہزار افراد مدینہ كے اور دو ہزار نو مسلم شا مل تھے) لے كر دشمن كى جا نب روانہ ہو ئے_

۲۵۵

دو نو ں لشكروں كا مقابلہ ''حُنَين(۲۵) نا مى جگہ پر ہوامشركین كا لشكر پہلے ہى وادى حنین میں اتر چكا تھا اور اس نے سارے نا كو ں پر قبضہ كر لیا تھا وہ سپاہ اسلام كے اس ہر اول دستے پر جس كا سپہ سالار''خالد بن ولید ''تھا اچانك حملہ اور ہوا اور اس دستے كو منتشر و پراكندہ كر ديا ، يہ صورتحال ديكھ كر باقى سپاہيوں نے بھى فرار كو قرار پر ترجيح دى اور سرپاؤں ركھ كر بھاگے_صرف دس افراد ہى ایسے تھے جو رسول خدا (ص) كے دوش بدوش رہے(۲۶)

ابو سفیان اور وہ قریش جو چند روز قبل ہى مسلمان ہو ئے تھے مسلمانوں كى اس شكست پر بہت مسرور ہوئے اور اس پر تمسخر كر نے لے(۲۷) _

اگرچہ پےغبر اكرم(ص) اس وقت تنہا رہ گئے تھے لیکن ان چند اصحاب كے ساتھ جو اس وقت اپ(ص) كے ساتھ تھے میدان جنگ میں پورى استقامت اور پائدارى كے ساتھ اپنى جگہ پر رہے اور جو لوگ فرار كر نے لگے تھے انہیں واپس انے كى دعوت دي_ اس مو قع پر اپ (ص) نے فر میا كہ:''اے لو گوكہاں بھاگے چلے جا رہے ہو؟واپس اجا ئومیں محمد (ص) بن عبد اللہ رسول خدا (ص) تمہیں بلارہا ہوں''_(۲۸)

رسول خدا(ص) كے ایماء پر حضرت ''عباس بن عب المطلب''نے انحضرت (ص) كا پےغام با واز بلند لو گوں تك پہنچیا جسے سن كر مسلمان ایك ایك كر كے واپس انے لگے_رسول خدا(ص) نے انہیں از سر نو مر تب كیا اور جنگ كى آگ دو بارہ شعلہ ور ہو گئي_

امیر المومنین حضرت علي(ع) سب سے زیا دہ جو ش و خروش میں تھے اور دشمنوں كو خاك و خون میں ملا رہے تھے يہاں تك كہ قبيلہ ہوا زن كے چاليس افراد آپ (ع) كى شمشير سے ہلاك ہوئے(۲۹) دوسرے مسلمانوں نے بھى شكست كى تلافياں كيں اور چند لمحہ فرار رہنے كى وجہ سے جو خفت ہوئي تھى اسے دور كرنے كيلئے جان كى بازى لگا دى بالخوص اس

۲۵۶

وقت جب كہ انہوں نے يہ ديكھا كہ '' ام عمارہ ، ''ام سليم ، '' ام سليط ،، اور '' ام حارث '' جيسى دلير خواتين بھى ميدان كار رزار ميں اترآئيں ہيں اور رسول خدا(ص) كا مردانہ وار دفاع و كر رہى ہيں( ۳۰ ) _

رسول خدا(ص) نے سپاہ میں مزيد جوش و خروش پيدا كرنے كى خاطر اعلان فرمايا كہ' ' جو كوئي كسى كافر كو قتل كرے گا وہ مقتول كے لباس اوراسلحہ كا مالك ہو گا ''( ۳۱)

اس وقت ہوازن كا پر چمدار ''ابو جرول '' سرخ اونٹ كے اوپر سوار بلند نيزہ ہاتھ ميں لئے اس پر سياہ جھنڈا لہرا رہا تھا وہ اپنے لشكر كے آگے آگے چل رہا تھا حضرت على (ع) كے ہاتھوں اس كے قتل(۳۲) كى وجہ سے دشمن كيلئے فرار كے علاوہ كوئي چارہ نہ رہا چنانچہ فتح اسلام كے حصے ميں آئي

اس جنگ ميں چھ ہزار سپاہى قيد ہوئے ان كے علاوہ چوبيس ہزار (۲۴۰۰۰) اونٹ، چاليس ہزار بھيٹريں اور وزن میں چار ہزار اوقيہ (تقريبا ۸۵۰ كلو گرام) چاندى بطور مال غنيمت مسلمانوں كے ہاتھ آئي (۳۳ )_ باقى جو سپاہ بچى تھى وہ بھاگ كر '' طائف ، '' نخلہ ،، اور '' اوطاس ،، كى طرف نكل گئي( ۳۴ ) _ رسول خدا(ص) نے '' بُدَيل بن ورقائ'' كو اس كام پر مامور فرمايا كہ وہ مال غنيمت كو''جعرانہ''(۳۵ ) نامى مقام پر لے جائيں اور وہيں اس كى حفاظت كريں تاكہ جنگ ختم ہونے كے بعد اسے تقسيم كيا جا سكے اور آپ(ص) بذات خود سپاہ اسلام كو ساتھ لے كر ''طائف ''كى جانب روانہ ہوئے كيونكہ '' مالك بن عوف '' ثقيف كے ديگر لشكرں كے ہمراہ بھاگ كر اس طرف نكل گيا تھا وہاں پہنچ كر آپ(ص) نے قلعے كا محاصرہ كر ليا _قلعہ طائف كا محاصرہ تقريبا بيس روز تك جارى رہا (۳۶ )_ دشمن كى استقامت و پايدارى كو ختم كرنے كيلئے مسلمانوں نے منجنيقيں اور جنگى گاڑياں بھى استعمال كيں ليكن اس

۲۵۷

كا كوئي نتيجہ بر آمد نہ ہوا _ قلعے كے استحكام ، اسلحہ جنگ اور سامان خوراك كے ذخيرے كى وجہ سے دشمن كى استقامت و پائدارى پہلے سے كہيں زيادہ بڑھ گئي_

رسول خدا(ص) نے صحابہ كے مشورے سے محاصرہ جارى ركھنے كا خيال ملتوى كرديا اور جعرانہ كى طرف روانہ ہو گئے( ۳۷) _

اس فيصلے كى شايد يہ وجہ يہ تھى كہ رسول خدا(ص) نے دشمن كے وسائل و اسلحہ كا جائزہ لينے كے بعديہى نتيجہ اخذ كيا كہ طائف كو فتح كرنے كيلئے زيادہ وقت دركار ہے اور مدينہ سے آنحضرت(ص) كوسوں دور تھے _ اس كے علاوہ مختلف افكار و خيالات كے حامل بارہ ہزار سپاہيوں كو كافى عرصے تك قلعہ طائف كے محاصرہ كے لئے يكجا ركھا بھى نہيں جا سكتا تھا _ كيونكہ ايك طرف تو لشكر كيلئے سامان خوراك كم ہوتا چلا جارہا تھا _ اور دوسرى طرف ماہ حرام اور حج كا زمانہ قريب چلا آ رہا تھا _( ۳۸ ) اس كے علاوہ چھ ہزار جنگى قيديوں كے مسئلے كے بارے میں بھى غور كرنا تھا تاكہ جس قدرجلد ہو سكے يہ مسئلہ حل ہو جائے _

مال غنيمت كى تقسيم

رسول خدا(ص) جب '' جعرانہ '' واپس تشريف لائے تو ہوازن كا وفد آنحضرت(ص) كى خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے دين اسلام قبول كرنے كے بعد رسول خدا(ص) سے درخواست كى كہ قيديوں كو آزاد كر ديا جائے رسول اكرم(ص) نے مسلمانوں كے ساتھ گفتگو كرنے كے بعد اور ان كا دل جيتنے كى خاطر ہوازن كے چھ ہزار قيديوں كو فديہ لئے بغير آزاد كر ديا( ۳۹ ) _ اور باقى مال غنيمت كو آپ(ص) نے قريش كے درميان تقسيم كر ديا اور وہ لوگ جو حال ہى ميں مشرف بااسلام ہوئے تھے ان كے سرداروں كو آپ(ص) نے بيشتر حصہ( ۴۰ ) عطا كيا تاكہ اس طريقے

۲۵۸

سے ان كے دل اسلام كى جانب بيشتر مائل ہو سكيں

جو لوگ چند روز قبل ہى مسلمان ہوئے تھے ان كے سرداروں كو آنحضرت(ص) كى زيادہ عطا بعض افراد بالخصوص انصار كو ناگوار گزرى حالانكہ يہ بخشش رسول(ص) خدا كے اپنے حصے ''خمس'' سے ہى تھي(۴۱) جس كى وجہ يہ تھى كہ مال غنيمت سے ان كا حصہ نظر انداز كر ديا گيا تھا ليكن جب انہوں نے رسول خدا(ص) كى نصيحتيںسنيں اور اس كى حكمت كے بارے ميں انہيں علم ہوا تو وہ آنحضرت(ص) كے اس اقدام سے مطمئن ہو گئے( ۴۲) _

رسول خدا(ص) نے عمرہ كرنے كے ارادے سے '' جعرانہ '' میں احرام باندھا عمرہ كرنے كے بعد آپ(ص) نے '' عتاب بن اسيد'' كو مكہ كا گورنر مقرر فرمايا اور حضرت '' معاذ بن جبل '' كو احكام دين كى تعليم دينے كيلئے متعين فرمايا اور خود آنحضرت(ص) واپس مدينہ تشريف لے آئے(۴۳) _

غزوہ حنين كى ابتدا میں مسلمانوں كى شكست اور آخر میں كاميابى كے اسباب

الف _ ابتدائي مرحلے میں شكست

۱_ كثرت سپاہ كى وجہ سے احساس تكبر اور غيبى مدد كى جانب سے غفلت و چشم پوشي_ جس وقت بارہ ہزار افراد پر مشتمل سپاہ اسلام كى شان و شوكت اور طاقت ،جناب ابوبكر نے ديكھى تو اسكى كى زبان پر يہ جملہ آہى گيا كہ اب طاقت كى كمى كے باعث اب ہم مغلوب نہ ہوں گے( ۴۴ ) _

۲۵۹

اور اس كے بارے میں قرآن مجيد كا ارشاد ہے كہ

( لَقَد نَصَرَكُم الله ُ فى مَوَاطنَ كَثيرَة: وَيَومَ حُنَين: إذ أَعجَبَتكُم كَثرَتُكُم فَلَم تُغن عَنكُم شَيئًا وَضَاقَت عَلَيكُم الأَرضُ بمَا رَحُبَت ثُمَّ وَلَّيتُم مُدبرينَ )

''اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہارى مدد كر چكا ہے ابھى غزوہ حنين كے روز بھى اس نے تمہارى دستگيرى كى جس كى شان تم ديكھ چكے ہو اس روز تمہيں اپنى كثرت تعداد كا غرور تھا مگر وہ تمہارے كچھ كام نہ آئي اور زمين اپنى وسعت كے باوجود تم پر تنگ ہو گئي اور تم پيٹھ دكھا كر بھاگ نكلے''_( ۴۵ )

۲_ سپاہ اسلام ميں اہل مكہ كے دو ہزار ايسے افراد كى موجودگى جو حال ہى میں مسلمان ہوئے تھے ان میں سے بعض منافق تھے اور بعض محض مال غنيمت جمع كرنے كى خاطر سپاہ اسلام كے ساتھ ہو گئے تھے نيز كچھ لوگ بغير مقصدو ارادہ ہى مكہ سے باہر نكل آئے تھے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ ابتدائي مرحلے پر جب دشمن كا اچانك حملہ ہوا تو سب سے پہلے جو سر پر پير ركھ كر بھاگے وہ يہى لوگ تھے(۴۶) _ اور يہى وہ لوگ تھے جنہوں نے سپاہ اسلام پر لعن و طعن شروع كر دى تھى حتى كہ بعض نے تو رسول خدا(ص) كو قتل كرنے كا ارادہ تك كرليا تھا(۴۷) _ چنانچہ ايسے عناصر كى ان حركات كا باقى سپاہ پر اثر انداز ہونا اور ان كى قوت ارادى و حوصلہ مندى میں ضعف آنا طبيعى اور و قدرتى امر تھا _

۳_ دشمن كے سپاہى جس جگہ جمع تھے نيز جہاں دونوں لشكروں كے درميان معركہ ہوا اس جگہ كا محل وقوع ،دشمن كا كمين گاہوں ،دروں اور پہاڑى شگافوں پر قبضہ اور اذان فجر

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

فضیلتوں کے حامل تھے اور ہم فضائل صحابہ کے منکر نہیں ہیں لیکن ان کے فضائل باب علم پیغمبر(ص) کا مقابلہ ہرگز نہیں کرسکتے۔ کیونکہ آپ کا مقام و مرتبہ سب سے افضل ہے۔

اگر صحابہ میں سے کسی فرد کو حق تقدم اور ترجیح حاصل ہوتی تو رسول اللہ(ص) قطعا امت کو اس کی پیروی کا حکم دیتے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک امر الہی ہے جس کو پیری اور جوانی سے ہرگز ربط نہیں ہے بلکہ خداوند عالم جس شخص کو اس مںصب کے لائق پاتا ہے اسی کی اطاعت کا حکم دیتا ہے چاہے وہ بوڑھا ہو یا نوجوان۔

پیغمبر(ص) کا علی(ع) کوعہدہ قضاوت پریمن بھیجنا

چنانچہ عام طور پر آپ کے اکابر علمائ نے علی علیہ السلام کو اہل یمن کی ہدایت اور قضاوت کے لئے بھیجے جانے کو تفصیل سے نقل کیا ہے بالخصوص ( ائمہ صحاح ستہ میں سے) امام ابوعبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی کے اندر اس بارے میں چھ حدیثیں درج کی ہیں۔ نیز ابوالقاسم حسین بن محمد راغب اصفہانی نے محاضرات الادبائ جدل دوم ص212 میں اور دوسروں نے نقل کیا ہے، جس کا خلاصہ مع سلسلہ اسناد یہ ہے کہ جس وقت رسول خدا صلعم نے علی علیہ السلام کو مامور فرمایا کہ قضاوت اور ہدایت خلق کے لئے یمن جائیں تو آپ نے عرض کیا کہ میں جوان ہوں آپ مجھ کو قوم کے بوڑھے لوگوں پر کیوں مقرر فرما رہے ہیں؟ آن حضرت(ص) نے فرمایا

" فان اللّه تعالى يهدي قلبك و يثبت‏ لسانك‏."( یعنی عنقریب خدا ( علم قضا میں) تمہاری رہنمائی کرے گا اور تمہاری زبان کو قائم کرے گا اگر فوقیت کے لئے کمسن ہونا ضروری تھا تو بزرگان صحابہ اور ابوبکر جیسے بوڑھے اور سن رسیدہ اشخاص کی موجودگی میں علی علیہ السلام کو کس لئے یمن والوں کی قضاوت و ہدایت پر مامور فرمایا؟ پس معلوم ہوا کہ امت کا قاضی اور ہادی بننے میں عمر کی کمی و بیشی اور پیری وجوانی کو کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ فقط علم و فضل، تقوی اور خصوصیت کے ساتھ نص کا ہونا لازمی ہے۔

پیغمبر(ص) کے بعد علی(ع) امت کے ہادی تھے

اور ایسی نص قرآن و احادیث میں سوا علی علیہ السلام کے اور کسنی کے لئے نہیں تھی۔ چنانچہ آیت نمبر8 سورہ نمبر13 ( رعد) میں پیغمبر(ص) سے کھلا ہوا خطاب ہو رہا ہے کہ:

"إِنَّما أَنْتَ‏ مُنْذِرٌ وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ" ( یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ تم ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لئے ایک راہنما ہے اور وہ ہادی ورہنما پیغمبر(ص) کے بعد علی(ع) اور عترتِ رسول ہے، جیسا کہ امام ثعلبی تفسیر کشف البیان میں، محمد بن جریر طبری ا پنی تفسیر میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالبباب 62 میں اسناد تاریخ

۲۸۱

ابن عساکرسے اور شیخ سلیمان حنفی نیابیع المودت آخر باب 26 میں ثعلبی، حموینی، حاکم ابوالقاسم حسکانی، ابن صباغ مالکی، میر سید علی ہمدانی اور مناقب خوارزمی سے ابن عباس، حضرت امیرالمومنین اورابوبریدہ اسلمی کے اسناد کے ساتھ مختلف الفاظ و عبارات میں گیارہ حدیثیں نقل کی ہیں، اور ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت نازل ہوئی تو رسول اکرم صلی اللہ و آلہ و سلم نے اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا انا : " أنا المنذر "( یعنی میں ڈرانے والا ہوں) پھر علی علیہ السلام کے سینے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا :

" و انت‏ الهادى‏ بك يا على يهتدى المهتدون من بعدى‏"(یعنی تم ( میرے بعد اس امت کے) ہادی ہو اور تم سے ہدایت پانے والے ہدایت پائیں گے۔

اگر ایسی کوئی نص دوسروں کے بارے میں بھی آئی ہوتی تو یقینا ہم ان کی پیروی کرتے، لیکن چونکہ یہ خصوصیت صرف علی علیہ السلام کو عطا کی گئی ہے لہذا ہم بھی مجبور ہیں کہ انہیں بزرگوار کی اطاعت کریں اور پیروی و جوانی پر نظر نہ کریں۔

دشمنوں کی سازشیں اور مجازی و حقیقی سیاست میں فرق

اور جو آپ نے یہ فرمایا ہے کہ علی علیہ السلام جوان اورناتجربہ کار تھے لہذا خلافت کی طاقت و قدرت نہیں رکھتے تھے، چنانچہ پچیس سال کے بعد بھی جب مسند خلافت پر آئے تو آپ کی سیاسی ناواقفیت کی وجہ سے اس قدر اس قدر خوں ریزیاں اور انقلابات برپا ہوئے۔ تو میں نہیں جانتا کہ آپ نے یہ بیان عمدا دیا ہے یا سہوا، یا محض اپنے اسلاف کی پیروی مقصود ہے؟ ورنہ ایک نکتہ رس عالم ہرگز ایسے الفاظ منہ سے نہیں نکالے گا۔

میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر آپ حضرات کی نظر میں سیاست کا مطلب کیا ہے؟ اگر جھوٹ بولنا، حیلہ سازی کرنا۔ سازش کر جال بچھانا، حق و باطل کو خلط ملط کردینا اور نفاق پر عمل کرنا مراد ہے( جیسا کہ ہرزمانے کے دنیا دار لوگ اپنے اقتدار اور منصب کو محفوظ رکھنے کے لئے اس پر عامل رہے اور ہیں) تو میں تصدیق کرتا ہوں کہ علی علیہ السلام اس قسم کی سیاست سے بہت دور تھے اورآپ ہرگز اس معنی میں سیاسی انسان نہیں تھے۔ کیونکہ ایسا طریقہ کار و حقیقت سیاست نہیں ہے بلکہ سراپا شرارت، مکاری، فریب کاری، حیلہ جوئی اور جعل سازی ہے جس پر دنیا پرست لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے اور اپنے جاہ و ثروت کا تحفظ کرنے کے لئے عمل پیرا ہوتے ہیں۔

حقیقی سیاست یہ ہے کہ عدل و اںصاف کا دامن نہ چھوڑتے ہوئے ہرکام کو اس کے صحیح محل پر انجام دیا جاۓ ایسی سیاست ان حق پرست لوگوں کے یہاں نشو ونما پاتی ہے جو فانی جاہ و منصب کے طالب نہیں ہیں بلکہ ان کی خواہش صرف یہ ہے کہ حق کا رواج ہو، لہذا حضرت علی علیہ السلامجو حق و حقیقت، عدالت و اںصاف اور صداقت صلاحیت کے مجسمہ تھے اس طرح کی سیاست سے الگ تھے جس پر دوسرے لوگ کار بند تھے۔

۲۸۲

چنانچہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ جس وقت آپ کو خلافت ظاہری حاصل ہوئی تو فورا تمام پچھلے حکام اور کارندوں کو معزول کردیا۔ عبداللہ ابن عباس(آپ کے ابن عم) اور دوسرے لوگوں نے عرض کیا کہ بہتر ہوگا اگر آپ یہ حکم چند روز کے لئے ملتوی فرمادیں تاکہ ساری ریاستوں اور دلایتوںکے حکام و عمال آپ کے اقتدار خلافت کو تسلیم کرلیں، اس کے بعد آہستہ آہستہ ان کی معزولی کا فرمان نافذ فرمائیں۔

حضرت نے فرمایا، تم نے ظاہری سیاست کا لحاظ کرتے ہوتے یہ مشورہ دیا ہے لیکن یہ بھی جانتے ہو کہ اس ظاہری سیاست کے خیال سے میں جتنے زمانے تک ظالم و جابر حکام کو ان کے عہدوں پر باقی رکھوں گااور ان کی بقا پر راضی رہوں گا چاہے وہ وقتی اور ظاہری حیثیت سے کیوں نہ ہو، خدا کے نزدیک ان کے اعمال کا ذمہ دار قرار پاؤں گا اور موقف حساب میں مجھ کو اس کا جواب دینا پڑے گا؟

قطعی طور پر سمجھ لو کہ علی(ع) سے ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا۔

غرضیکہ عدل و انصاف کی حفاظت کے لئے فورا ان کی معزولی کے احکام روانہ فرماۓ اور یہی فرمان معاویہ اور طلحہ و زبیر وغیرہ کی مخالفت کا باعث ہوا،جنہوںنے علم بغاوت بلند کر کے نفسانی خواہشات اور شیطانی خیالات کی بنا پرانقلاب اور خون ریزی کا بازار گرم کیا۔

طبری نے اپنی تاریخ میں، ابن عبدربہ نے عقد الفرید میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نیز اوروں نے نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام بار بار یہی فرماتے تھے کہ اگر مجھے دین و تقوی نے اور عدل و انصاف کا لحاظ نہ ہوتا تو میں تمام عرب سے زیادہ چالاکی اور مکاری کرسکتا تھا اور میری ہوشیاری سب سے بڑھی ہوئی تھی۔

محترم حضرات! آپ کو دھوکا ہوا ہے اور بغیر تحقیق کے غلط پروپیگنڈے کے شکار ہورہے ہیں جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ حضرت کے زمانہ خلافت کا انقلاب اورلوگوں کی پراگندگی آپ کے سیاست نہ جاننے کے وجہ سے تھی۔ در آں حالیکہ حقیقت یہ نہیں تھی بلکہ کچھ دوسرے ہی وجود و اسباب کام کررہے تھے جن کی پوری تفصیل تو اس تنگ وقت میں پیش نہیں کی جاسکتی لیکن آپ کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتا ہوں تاکہ یہ معما حل ہوجاۓ۔

امیرالمومنین(ع) کے دورِ خلافت میں انقلاب کے اسباب

اولا تو تقریبا پچیس سال تک جن لوگوں کو حضرت سے کینہ اور بغض و عداوت رکھنے کی تربیت دی جاچکی تھی ان کے لئے بہت مشکل تھا کہ دفعتا سب کے سب آپ کی ولایت و خلافت پر رضامند ہوکر آپ کی بلند منزلت کی تصدیق کریں (چنانچہ خلافت کے پہلے ہی روز اس زمانے کے شریف زادوں میں سے ایک صاحب مسجد کے دروازے سے داخل

۲۸۳

ہوۓ اور حضرت کو منبر پر دیکھا تو بآواز بلند کہا کہ اندھی ہوجاۓ وہ آنکھ جو بجاۓ خلیفہ عمر کے علی کو منبر کے اوپر دیکھے)

دوسرے دنیا طلب لوگوں کے لئے حضرت کے عدل و اںصاف کو قبول کرنا ممکن نہیں تھا( بالخصوص خلافت عثمان کے اندر حکومت بنی امیہ کے آخری برسوں میں جب کہ ان کو مکمل آزادی حاصل تھی) لہذا انہوں نے مخالفت کی آواز بلند کی تاکہ کوئی ایسا شخص برسر اقتدار آجاۓ جو ان کی دنیا پرستی اور ہوا و ہوس کے جذبات پورے کرسکے( چنانچہ خلافت معاویہ کے زمانے میں ان کی تمنائیں اور مرادیں بر آئیں اور دنیا طلبی کے مقاصد پورے ہوۓ) اسی بنائ پر طلحہ و زبیر نےپہلے تو بیعت کی لیکن جب حضرت سے حکومت کا تقاضا کیا اور وہ پورا نہیں کیا گیا تو فورا بیعت توڑ دی اور جنگ جمل کا فتنہ اٹھا کر کھڑا کردیا۔

تیسرے بہتر ہوگا کہ تاریخ کو ذرا غور سے پڑھئے اور انصاف کی نظر ڈالئے تو ظاہر ہو کہ ابتداۓ خلافت ہی سے فتنہ و فساد اور انقلاب انگیزی کا بانی کون تھا اور کس شخص نے لوگوں کو تحریص و ترغیب دے کر مخالفت اور بغاوت پر آمادہ کیا جس سے اس کثرت کے ساتھ خون ریزی ہوئی؟ آیا وہ شخص علاوہ ام المومنین عائشہ کے کوئی اور تھا؟ آیا وہ عائشہ ہی نہیں تھیں جو اسلام کے تمام شیعہ و سنی علمائ اور محدثین و مورخین کی شہادت کی روشنی میں اونٹ پر سوار ہوکر خدا و رسول کے اس فرمان کے برخلاف کہ اپنے گھر کے اندر بیٹھو) بصرہ پہنچیں اور انقلاب وفتنہ و فساد کی آگ بھڑکا کر لاتعداد مسلمانوں کا خون بہانے کی ذمہ دار ہوئیں؟

پس حضرت کی سیاسی ناواقفیت انقلاب اور فتنہ و فساد کا سبب نہیں بنی بلکہ پچیس سال تکتربیت پاۓ ہوۓ لوگوں کا طرزِ عمل ام المومنین عائشہ کی عداوت اور کینہ اور دنیا طلب اشخاص کی حرص و ہوس انقلاب اور خون ریزی کی باعث ہوئی۔

چوتھے آپ نے اشارہ کیا ہے کہ اندرونی لڑائیاں اور خون ریزیاں حضرت کی سیاسی کمزوری کی وجہ سے رونما ہوئیں تو یہ بھی ایک بہت بڑا اشتباہ ہے جو آپ نے بغیر تاریخ پر غور کئے بیان کیا ہے۔

اول تو عقل و اںصاف سے جائزہ لینے کے بعد نظر ہی آجاتا ہےکہ ان اندرونی لڑائیوں اور خون ریزیوں کی بانی ام المومنین عائشہ تھیں جو پیغمبر(ص) کی صریحی ممانعت کے باوجود حضرت علی(ع) کے مقابلے پر اٹھ کھڑی ہوئیں اور تمام لڑائیوں اور قتل و خون ریزی کی جڑ ثابت ہوئیں۔ اس لئے کہ اگر عائشہ نے بغاوت نہ کی ہوتی تو اور کسی کو حضرت کے مقابلے پر آنے کی جرات ہی نہ ہوتی جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صاف صاف فرمادیا تھا کہ علی(ع) سے جنگ کرنا مجھ سے جنگ کرنا ہے۔ پس جس شخص نے لوگوں کو جرات دلائی اور حضرت سے جنگ کرنے پر تیار کیا وہ عائشہ تھیں،جنہوں نے جنگ جمل کی تشکیل کی اور علی علیہ السلام کے حق میں بیہودہ باتیں کہہ کے میدان جنگ کو گرمایا اور لوگوں کی ہمت بڑھائی۔

۲۸۴

جمل و صفین اور نہروان کے لئے پیغمبر(ص) کی پشین گوئی

دوسرے بصرہ اور صفین و نہروان میں منافقین و مخالفین سے آپ کی لڑائیاں وہی نوعیت رکھتی تھیں جو کفار کے مقابلے میں رسول اللہ(ص) کی جنگیں۔

شیخ: مسلمانون کے مقابلے میں لڑائیاں مشرکین سے لڑائیوں کے مانند کیوکر تھیں؟

خیر طلب: اس صورت سے کہ بنا بر ان اخبار و احادیث کے جن کو آپ کے اکابر علمائ نے مثلا امام احمد حنبل نے مسند میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں، سلیمان بلخی نے ینابیع المودت میں، امام عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، محمد ابن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب37 میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ ( مطبوعہ مصر) جلد اول ص67 میں نقل کیا ہے کہ رسول خدا صلعم نے ناکثین و قاسطین و مارقین سے علی علیہ السلام کی جنگوں کی خبر دی ہے۔ جن میں ناکثین سے طلحہ و زبیر اور ان کے ساتھی، قاسطین سے معاویہ اور ان کے پیرو اور مارقین سے نہروان کے خوارج مراد تھے، یہ سب کے سب باغی اور واجب القتل تھے اور خاتم الانبیائ صلعم نے ان لڑائیوں کی خبر دیتے ہوۓ اسی کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ محمد ابن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب37 میں اسناد کے ساتھ ایک حدیث سعید ابن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس( جرامت) سے نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلعم نے ام المومنین ام سلمہ سے فرمایا:

" هذا علي بن أبي طالب لحمه‏ من‏ لحمي‏، و دمه من دمي، و هو مني بمنزلة هارون من موسى غير أنه لا نبي بعدي. و قال: يا أم سلمة اشهدي و اسمعي هذا علي أمير المؤمنين و سيد المسلمين و وعاء علمي، و بابي الذي أوتي منه، و أخي في الدنيا و الآخرة، و معي في السنام الأعلى، يقتل القاسطين و الناكثين و المارقين."

یعنی یہ علی ابن ابی طالب ہیں ان کا گوشت میرے گوشت سے اور ان کا خون میرے خون سے ہے اور یہ مجھ سے بمنزلہ ہارون ہیں موسی سے لیکن یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ اے ام سلمہیہ علی مومنین کے امیر مسلمانوں کے سردار، میرے علم کے مخزن، میرے وصی اور میرے علوم کے دروازہ ہیں جو ان سے حاصل ہوتے ہیں یہ دنیا و آخرت میں میرے بھائی اور مقام اعلیٰ میں میرے ساتھ ہیں۔ یہ ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے جنگ کریں گے۔

اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد محمد بن یوسف اس پر تبصرہ کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات

۲۸۵

پر پوری دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ نے علی علیہ السلام سے ان تینوں گروہوں کے ساتھ جنگ کا وعدہ کیا اور قطعا آں حضرت(ص) کا ارشاد برحق اور جو وعدہ فرمایا تھا وہ سچا تھا اور یقینا آں حضرت(ص) نے علی کو ان تینوں گروہوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا چنانچہ مخنف بن سلیم کی سند سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا، ابوایوب اںصاری ( جو رسول خدا(ص) کے بزرگ صحابہ میں سے تھے) ایک لشکر کے ساتھ جنگ پر آمادہ ہوۓ تو میں نے ان سے کہا کہ اے ابوایوب تمہارا معاملہ عجیب ہے، تم وہی ہو جس نے رسول خدا(ص) کے ہمراہ مشرکین سے جنگ کی اور اب مسلمانوں سے جنگ کرنے پر تلے ہوۓ ہو۔ انہوں نے جواب دیا :

"ان رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله امرنى‏ بقتال‏ الناكثين و القاسطين و المارقين."

رسول اللہ(ص) نے مجھ کو تین گروہوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ ناکثین قاسطین اور مارقین ہیں۔

اورجو میں نے یہ عرض کیا کہ اہل بصرہ(جمل) معاویہ ( صفین) اور اہل نہروان سے امیرالمومنین علیہ السلام کی جنگیں اسی طرح کی تھیں جس طرح کفار و مشرکین سے رسول کی جنگ، تو آپ کے اکابر علمائ جیسے امام ابو عبدالرحمن نسائی خصائص العلوی حدیث، ص155 میں ابو سعیدخدری کی سند سے اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب10 ص59 میں جمع الفوائد سے بروایت ابوسعید نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا، ہم صحابہ کے ساتھ بیٹھے ہوۓ رسول اللہ(ص) کے منتظر تھے کہ ا تنے میں آں حضرت(ص) ہماری طرف اس حالت میں تشریف لاۓ کہ آں حضرت(ص) کی نعلین کا تسمہ کٹ گیا تھا۔ اس جوتی کو علیعلیہ السلام کی طرف ڈال دیا اور علی(ع) اس کو سینے میں مشغول ہوگئے، اس وقت آں حضرت(ص) نے فرمایا:

"إنّ‏ منكم‏ من‏ يقاتل‏ على تأويل القرآن كما قاتلت على تنزيله». فقال أبو بكر: أنا ؟ قال: «لا». فقال عمر: أنا ؟ قال: «لا، و لكنّه خاصف النعل"

یعنی یقینا تم میں سے ایک شخص وہہے جو قرآن کی تاویل پر جنگ کرے گا جس طرح میں نے اس کی تنزیل پر جنگ کی ہے۔ پس ابوبکر نے عرض کیا وہ شخص میں ہوں؟ آں حضرت(ص) نے فرمایا نہیں۔ پھر عمر نے کہا میں ہوں؟ فرمایا نہیں، بلکہ جوتی سینے والا شخص ہے(یعنی علی علیہ السلام)۔

پس یہ حدیث ایک نص صریح ہے اس چیز پر کہ علی علیہ السلام کی جنگیں جہاد برحق اور قرآن مجید کی تاویل اور اس کے حقیقی مفہوم کی حفاظت کے لئے تھیں جیسا کہ رسول اللہ(ص) کی جنگیں قرآن کی تنزیل اور اس کے ظاہری نزول کے لئے تھیں یہ تینوں لڑائیاں جو علی علیہ السلام نے لڑیں ارشاد پیغمبر(ص) کے مطابق مسلمانوں کے مقابلے میں نہیں تھیں، کیونکہ اگرمسلمانوں سے جنگ ہوتی تو یقینا آں حضرت(ص) اس سے منع فرماتے نہ یہ کہ اس کے لئے حکم دیتے اور مخالفین کو ناکثین و قاسطین و مارقین کے ناموں سے یاد کرتے جو خود اپنی جگہ پر ان لوگوں کے ارتداد اور قرآن سے بغاوت کرنے کی دلیل ہے، جس طرح مشرکین قرآن کے مقابلے پر آچکے تھے معلوم ہوا کہ یہ سارے انقلابات اور لڑائیاں امیرالمومنین علیہ السلام کی سیاسی ناتجربہ کاری سے نہیں بلکہ مخالفین کے بغض و نفاق اور رسول اللہ(ص) کے قواعد و قوانین اور ہدایات پر ان کے توجہ نہ کرنے کے سبب سے تھیں۔ اگر آپ حضرات از روۓ علم و اںصاف اور غیر جانب داری کے ساتھ اس مکمل شرعی حکومت کے طور طریقے

۲۸۶

آپ کی پنج سالہ خلافت اور ان احکام پر جو آپ ولایتوں کے حکام اور فوجی وملکی افسروں کے نام صادر فرماتے تھے غور کیجئے ( مثلا وہ احکام و ہدایات جو حکومت مصر میں مالک اشتر اور محمد ابن ابی بکر کو، بصرے کی حکومت میں عثمان بن حنیف اور عبداللہ ابن عباس کو اور حکومت مکہ میں قثم ابن عباس کو نیز اپنے دوسرے عمال کو ان کی تقرری کے زمانے میں دیئے اور جو نہج البلاغہ کے اندر جمع ہیں) تو تصدیق کیجئے گا کہ رسول اللہ(ص) کے بعد علی علیہ السلام کا ایسا عادل اور قوم پرور سیاست دان چشم روزگار نے نہیں دیکھا، جس کا دوست و دشمن سبھی کواعتراف ہے۔ اس لئے کہ حضرت تقوی و پرہیزگاری میں امام المتقین تھے، علم ودانش میں کتاب اللہ کی تفسیر وتاویل، ناسخ و منسوخ ، محکم و متشابہ اور اس کے مجمل ومفصل کے اور اس کے علاوہ غیب و شہود کے عالم تھے۔

شیخ : میں اس مبہم جملے کے معنی نہیں سمجھا کہ آپ نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو غیب و شہود کا عالم کہہ دیا۔ غیب و شہود کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آیا، التماس ہے کہ وضاحب کے ساتھ بیان فرمائیے۔

خیر طلب: اس مطلب میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ علم غیب امور عالم کے باطنی حالات سے واقفیت اور کائنات کے پوشیدہ اسرار سے آگاہی کو کہتے ہیں جس کے عالم غیب الغیوب یعنی خداۓ عزوجل کے افاضات سے انبیائ اور ان کے اوصیائ تھے، البتہ ہرایک کو غیبی امور پر اسی حد تک آگاہی ملی جس قدر خداوند عالم نے ان کے لئے مناسب اور ان کے تبلیغات کے واسطے ضروری جانا اور خاتم الانبیائ(ص) کے بعد ایسے علم کی عالم امیرالمومنین علی (ع) کی ذات تھی۔

شیخ: جناب عالی سے مجھ کو یہ توقع نہیں تھی کہ غالی شیعوں کے باطل عقاید کو ( باوجودیکہ ان سے بیزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں) بیان کیجئے گا۔

بدیہی چیز ہے کہ یہ ایسی تعریف ہے جس سے خود صاحب تعریف بھی راضی نہیں اس لئے کہ علم غیب ذات باری تعالی کے مخصوص صفات میں سے ہے اور بندوں میں سے کوئی شخص اس میں دخل نہیں رکھتا۔

خیر طلب : آپ کی یہ گفتگو اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے جس میں عمدا یا سہوا آپ کے اسلاف مبتلا رہ چکے ہیں اور اب آپ بھی بغیر سوچے سمجھے اور غور و فکر کے انہیں کی پیروی میں یہ باتیںزبان پر جاری کررہے ہیں۔ اگر آپ تھوڑی دقت نظر سے کام لیتے تو حقیقت بے نقاب ہوجاتی ہے معلوم ہوجاتا کہ انبیاۓ عظام و اوصیاۓ کرام اور خدا کے برگزیدہ بندوں کے لئے علم غیب کا معتقد ہونا ہرگز غلو سے کوئی ربط نہیں رکھتا، بلکہ یہ تو ان کی ایک صفت اور ان کے لئےخالص مقام عبودیت کا اثبات تھا جس پر عقل و نقل اور قرآن مجید کی نص صریح شہادت دے رہے ہیں۔

۲۸۷

علم غیب سواۓ خدا کے کوئی نہیں جانتا

شیخ: یہ بے لطفی کی بات ہے کہ آپ نے قرآن کا حوالہ دیا ہے، حالانکہ قرآن کریم کی نص آپ کے اس بیان کے خلاف وارد ہوئی ہے۔

خیر طلب: میں بہت ممنوں ہوں گا جن آیات کو آپ مخالف بتارہے ہیں ان کی تلاوت فرمائیے۔

شیخ: قرآں کریم کے اندر کئی آیتیں ایسی ہیں جو میری اس گذارش پر گواہ ہیں۔ آیت نمبر59 سورہ6 ( انعام) میں صاف صاف ارشاد ہے:

" وَ عِنْدَهُ‏ مَفاتِحُ‏ الْغَيْبِ لا يَعْلَمُها إِلَّا هُوَ وَ يَعْلَمُ ما فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ ما تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُها وَ لا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ وَ لا رَطْبٍ وَ لا يابِسٍ إِلَّا فِي كِتابٍ مُبِينٍ‏."

یعنی خزانہ غیب کی کنجیاں خدا کے پاس ہیں سوا خدا کےآگاہ نہیں ہے، نیز خشکی اور سمندر میں جو کچھ ہے اس سے واقف ہے اور درخت کا کوئی پتا نہیں گرتا ہے لیکن یہ کہ اس کو جانتا ہے اور زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے اور نہ کوئی خشک و تر ایسا ہے جو کتاب مبین میں درج نہ ہو۔

یہ آیت دلیل قاطع ہے کہ سوا ذات پروردگار کے کوئی شخص علم غیب کا عالم نہیں ہے اور جو شخص غیر خدا کے لئے علم غیب کا قائل ہو اس نے غلو کیا اور ایک ضعیف بندے کو خدائی کی صفت میں شریک قرار دیا اور آں حالیکہ ذات الہی ذاتی اور مفاتی دونوں حیثیتوں میں شریک سے معرا و مبرا ہے۔ آپ نے جو یہ فرمایا کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ علم غیب سے واقف تھے تو علاوہ اس کے کہ آپ نے ان کو خدا کی مخصوص صفت میں شریک قرار دے دیا، ان کی منزل کو پیغمبر(ص) کی بلند منزل سے بھی اونچا کردیا، کیونکہ خود رسول اللہ(ص) مکرر فرماتے تھے کہ میں تمہارا ایسا ایک انسان ہوں۔ اور علم غیب کا عالم خدا ہے۔ اور آں حضرت(ص) صریحی طور پر علم غیب سے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے تھے۔ کیا آپ نے سورہ نمبر18(کہف) کی آیت 110 نہیں پڑھیں ہے جس میں ارشاد ہے کہ:

"قُل إِنَّما أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ‏ يُوحى‏ إِلَيَّ- أَنَّما إِلهُكُمْ إِلهٌ واحِدٌ"( یعنی (اے رسول(ص)) امت سے کہہ دو کہ میں تمہارا ہی ایسا انسان ہوں(صرف فرق اتنا ہے کہ) مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ سوا اس کے نہیں ہے کہ تمہارا معبود خداۓ واحد ہے) ؟ نیز آیت نمبر188 ( اعراف) فرمایا ہے:

"قُلْ لا أَمْلِكُ‏ لِنَفْسِي‏ نَفْعاً وَ لا ضَرًّا إِلَّا ما شاءَ اللَّهُ وَ لَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَ ما مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَ بَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ"

یعنی (اے رسول(ص)) امتسے کہہ دو کہ میں اپنے نفع اور ضرر کا مالک نہیں ہوں سوا اس کے کہ جو خدا نے چاہا ہے۔ اور اگر میں(از خود) غیب کا عالم ہوتا تو اپنے لئے کثیر فائد مہیا کرلیتا اور کبھی نقصان و رنج نہ اٹھاتا میں صرف ایمان لانے والوں کو ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔

اور آیت نمبر33 سورہ نمبر11( ہود) میں فرماتا ہے:

" وَ لا أَقُولُ‏ لَكُمْ‏ عِنْدِي خَزائِنُ اللَّهِ وَ لا أَعْلَمُ الْغَيْبَ ..."

۲۸۸

یعنی میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ خدا کے خزانے میرے پاس ہیں اور نہ میں خود علم غیب سے آگاہ ہوں۔

مزید بر آں آیت 201 سورہ نمبر27( النمل) میں ارشاد ہے:

" قُلْ لا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَ ما يَشْعُرُونَ أَيَّانَ‏ يُبْعَثُونَ‏."

یعنی (اے رسول(ص)) کہہ دو کہ آسمانوں اور زمین میں سوا خدا کے کوئی علم غیب سے آگاہ نہیں ہے اور یہ بھی شعور نہیں رکھتے کہ کب محشور ہوں گے۔

ایسی صورت میں کہ خود پیغمبر(ص) ان آیات شریفہ کے کھلے ہوۓ اعلان سے علم غیب نہ جاننے پر یقین رکھتے ہیں اور اس علم کو ذاتِ الہی کے مخصوصات میں سے سمجھتے ہیں، آپ کیونکر علی(ع) کے لئے ایسے علم کے قائل ہیں؟ پس اس عقیدے کا مطلب سوا اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ علی(ع) کی منزل پیغمبر(ص) کی منزل سے بالاتر ثابت کی جاۓ۔ آخر آپ کس قاعدے سے غیر خدا کے لئے علم غیب کے قائل ہیں؟ اگر علی(ع) کو خدا کا شریک قرار دینے والا آپ کا یہ عقیدہ غلو نہیں ہے تو پھر غلو کیا چیز ہے۔

خیر طلب: آپ کے بیانات کے مقدمات صحیح ہیں جو ہمارے لئے قابل قبول ہیں اور یہی ہم سب کا عقیدہ ہے لیکن ان سے آپ نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ ناقص ہے۔

انبیائ(ص) و اوصیائ(ع) کو علم غیب خدا کی طرف سے ملتا ہے

آپ نے فرمایا ہے کہ عالم غیب ذات پروردگار ہے۔ غیب کی کنجیاں خداۓ تعالیٰ کے پاس ہیں اور سورہ کہف کی آخری آیت کے پیش نظر خاتم الانبیائ حضرت رسول خدا صلعم تمام انبیاۓ عظام، اوصیاء کرام اور ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم اجمعین بھی دوسرے انسانوں کے مانند انسان ہیں جو اپنی جسمانی ساخت میں کوئی زیادتی نہیں رکھتے اور ان حضرات کے اجسام طاہرہ بھی اسی طرح پیدا ہوۓ ہیں جس طرح دوسروں کے تو اسمیں ہرگز کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور سارے فرقہ امامیہ کے یہی عقائد ہیں۔ نیز جو آیتیں آپ نے تلاوت کیں وہ سب اپنے اپنے محل پر صحیح ہیں۔ لیکن آپ نے سورہ ہود کی جو آیت پڑھی ہے وہ شیخ الانبیائ حضرت نوح علی نبینا و آلہ و علیہ وسلم کے بارے میں ہے۔ البتہ سورہ نمبر6( انعام) کی آیت نمبر50 ہمارے عظیم المرتبت پیغمبر(ص) کے لئے مخصوص ہے، کیونکہ جب کفار و مشرکین آں حضرت سے علامتوں کا مطالبہ کرتے تھے کہ ان پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اترتا اور وہ مستقل غیب سے کیوں واقف نہیں ہیں؟ تو ان کے جواب میں یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی:

"

‏ قُلْ‏لا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزائِنُ اللَّهِ وَ لا أَعْلَمُ الْغَيْبَ- وَ لا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ- إِنْ‏ أَتَّبِعُ‏ إِلَّا ما يُوحى‏ إِلَيَ‏"

یعنی کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس خدا کے خزانے ہیں، نہ یہ کہ میں عالم الغیب ہوں اور نہ اس کا مدعی ہوں کہ فرشتہ ہوں( میں فقط اتنا کہتا ہوں کہ ) میں صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جس کی مجھ پر وحی ہوتی ہے۔

اس آیہ مبارکہ کے نزول کا مقصد یہ تھا کہ جاہل لوگوں کی ہوس بازیوں کی روک تھام کی جاۓ تاکہ وہ جان لیں کہ خدائی

۲۸۹

کارخانہ اور نبوت و رسالت کی منزل اس سے بالاتر ہے کہ شعبدہ بازی کے اسٹیج کے مانند ان کو خوش کرنے اور ان کے مطالبات پورے کرنے کا ذریعہ بنے۔ رہا وہ علم غیب جس کے ہم انبیاء اور ان کے اوصیائ کے لئےقائل ہیں، وہ وہ خدائی کی صفت میں شریک نہیں ہے بلکہوحی والہام کا ایک حصہ ہے جو من جانب خدا ن حضرات پر نازل ہو کر ان کے سامنے سے پردے اٹھاتا تھا اورحقائق کو ان پر ظاہر کرتا تھا۔ بہتر ہوگا کہ ہم اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ مطالب کی تشریح کریں تاکہ حقیقت کھل جاۓ اور دھوکا دینے والے لوگ شیعوں کے عقائد میں بے جا دخل اندازی نہ کریں، ان پر تہمتیں نہ لگائیں اور یہ نہ کہیں کہ شیعہ اپنے اماموں کا علم خداوندی میں شریک سمجھتے ہیں لہذا مشرک ہیں۔

علم کی دو قسمین ہیں، ذاتی اور عرضی

ہماری شیعہ امامیہ جماعت کا اعتقاد یہ ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں ذاتی اور عرضی۔

علم ذاتی وہ ہے جس میں الگ سے قطعا کوئی چیز عارض نہیں ہوتی اور ایک فرد اکمل پر اس کا اطلاق انحصار ہے۔ یہ خداۓ عزوجل کی ذات سے مخصوص ہے اور ہم سوا اس اجمال اقرار کے اس کی حقیقت کا کوئی تصور کرنے سے قاصر ہیں ہم اس کی جو بھی تعبیر یا اندازہ کریں وہ چند محدود الفاظ سے زیادہ نہ ہوگا۔ ورنہ علم بالذات کی انسان عاجز کا احاطہ عقل و خیال میں سمائی نہیں ہوسکتی۔

اور علم عرضی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان پیغمبر(ص) ہو یا امت میں سے امام ہو ماموم، ذاتی طور پر علم کا مالک نہیں ہوتا بلکہ بعد کو اس سے مستفیض ہوتا ہے، اور اس کی بھی دو قسمیں ہیں، تحصیلی اور لدنی۔ یہ دونوں قسمیں خداوند عالم کے فیضان قدرت سے تعلق رکھتی ہیں۔ پہلی قسم میں جو طالب العلم تحصیل علم کرتا ہے اس کی کوششیں اس وقت تک بار آور نہیں ہوسکتیں جب تک فیضاں الہی اس کی تائید نہ کرے۔ اور چاہے جس قدر زحمت برداشت کرے عالم نہیں بن سکتا، سوا اس کے اسباب تعلیم یعنی مدرسہ جانے اور استاد کے آگے زانوۓ ادب تہ کرنے کے ساتھ ساتھ توفیق خداوندی بھی شاملِ حال ہو ایسی صورت میں جتنی مدت تک اور جس قدر مشقت برداشت کرے گا کسب فیض کرتا رہے گا۔

رہی دوسری قسم یعنی علم لدنی تو اس میں انسان بلا واسطہ کسب فیض کرتا ہے اور بغیر حروف و الفاظ کی تحصیل و تعلیم کے مبدا فیاض مطلق سے براہِ راست افاضہ ہوتا ہے جس سے وہ عام ہو جاتا ہے چنانچہ آیت نمبر64 سورہ نمبر18( کہف) میں ارشاد ہے:"وَ عَلَّمْناهُ مِنْ‏ لَدُنَّا عِلْماً "(یعنی ہم نے ان کو اپنے پاس سے علم لدنی ( اور اسرار غیب) کی غیب تعلیم دی۔)

کسی ایک شیعہ نے بھی اس کا دعوی نہیں کیا ہے کہ غیبی امور کا علم پیغمبر(ص) یا امام کا جزئ ذات تھا یعنی رسول اللہ(ص) اور ائمہ(ع) ذاتی حیثیت سے اسی طرح علم غیب کے عالم تھے جس طرح خداۓ تعالی عالم الغیب ہے۔البتہ جو ہم کہتے ہیں

۲۹۰

اور جو ہمارا عقیدہ ہے وہ یہ ہے کہ خداۓ بزرگ و برتر کی ذات مجبور اور محدود نہیں ہے بلکہ جو اس کی مشیت ہو اس میں سب سے زیادہ خود مختار اور قادر مطلق ہے اور جن مواقع پر اس کی مشیت و مصلحت کا تعلق ہو وہ اپنی کسی بھی مخلوق کو حسب ضرورت اور مناسب علم و قدرت دینے پر قادر و توانا ہے۔چنانچہ کبھی تو بشری معلم کے واسطے اور ذریعے سے اور کبھی بلا واسطہ اپنے فیض کا افاضہ فرماتا ہے اور اسی کو بلا واسطہ علم لدنی اور علم غیب سے تعبیر کرتے ہیں جس میں بغیر مکتب میں یا استاد کے پاس حاضری کے فیض حاصل کیا جاتا ہے۔ بقول شاعر؎

نگار من کہ بہ مکتب نہ رفت و خط نہ نوشتبغمزہ مسئلہ آموزِ صدر مدرس شد

شیخ : آپ کا مقدماتی بیان درست ہے لیکن مشیت خداوندی ایسے غیر فطری امر سے متعلق نہیں ہوتی کہ بغیر معلم اور مدرس کے اپنے علم غیب کا اضافہ کرے۔

خیر طلب: آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو اسی مقام پر دھوکاہوا ہے کیونکہ کہ تھوڑے سے غور و فکر سے کام نہیںلیتے یہاں تک کہ اپنے اکثرمحققین علمائ کے برخلاف گفتگو کرتے ہیں، ورنہ مطلب اس قدر صاف اور واضح ہے کہ اس میں بحث کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس حقیقت میں کہ خداۓ تعالی نے تمام انبیائ اور ان کے اوصیائ کو جو اس کے برگزیدہ بندے ہیں جس قدر ہر ایک کی استعداد اور حلقہ عمل کے لحاظ سے ضروری تھا علم غیب کا افاضہ فرمایا ہے۔ کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

شیخ : قرآن مجید کی ان منفی آیتوں کے مقابلے میں جو صریحی طور سے جملہ افراد بشر سے علم غیب کی نفی کر رہی ہیں۔ آپ کے پاس اپنے دعوے کے ثبوت میں کیا دلیل ہے؟

خیر طلب: ہم قرآن مجید کی منفی آیتوں کے مخالف نہیں ہیں، اس لئے کہ قرآن کی آیت ایک مخصوص امر کے لئے نازل ہوئی ہے جو صورتِ حال کے لحاظ سے کبھی منفی اورکبھی مثبت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے بزرگوں کا قول ہے کہ "آیات القرآن یشددد بعضها بعضا " یعنی آیات قرآن میں سے ایک آیت دوسرے کو مضبوط کرتی ہے۔ در اصل کفار مشرکین کے تقاضے کے مقابلے میں جو برابر آں حضرت سے علامات اور نشانیاں طلب کرتے رہتے تھے اور در حقیقت چاہتے یہ تھے کہ منصب نبوت کو اپنے ہاتھوں کا کھلونا بنادیں) یہ منفی آیتیں نازل ہوتی تھیں لیکن اصل مقصد کو ثابت کرنے کے لئے مثبت آیات کا بھی نزول ہوا تاکہ حقیقت کا انکشاف ہوجاۓ۔ رہے قرآن مجید اخبار صحیحہ اور تاریخ کے دلائل جن کا آپ کے علمائ کو بھی اعتراف ہے حتی کہ غیروں نے بھی تصدیق کی ہے بکثرت ہیں۔

۲۹۱

انبیائ(ص) و اوصیائ(ع) کے علمِ غیب پر قرآنی دلائل

شیخ: سخت تعجب ہے کہ آپ فرماتے ہیں دلیل مثبت قرآن کریم کے اندر ہے مہربانی کر کے وہ آیتیں پڑھئے۔

خیر طلب: تعجب نہ فرمائیے، آپ خود بھی واقف ہیں لیکن اقرار کرنا آپ کی مصلحت کے خلاف ہے،کیونکہ اس طرح آپ کو اپنے عقیدے کے مطابق خلافت کا ثبوت دینے میں بہت زحمت ہوجاۓ گی یا پھر اپنے اسلاف کی پیروی نے آپ کو تعجب پر مجبور کیا ہے۔ ارشاد الہی ہے :

"عالِمُ‏ الْغَيْبِ‏ فَلا يُظْهِرُ عَلى‏ غَيْبِهِ أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضى‏ مِنْ رَسُولٍ‏ الخ".(سورہ جن آیت26 ( وہی اللہ) غیب داں ہے اور اپنی غیب کی بات کسی پر ظاہر نہیں کرتا مگر جس کو پسند فرماۓ تو اس کے آگے اور پیچھے نگہبان فرشتے مقرر کردیتا ہے تاکہ دیکھ لے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغامات پہنچا دئیے یہ آیت بتاتی ہے کہ حق تعالیٰ کے برگزیدہ مرسلین اس بارے میں مستثنی ہیں جن کو وہ علم غیب کا فیض پہنچاتا ہے۔

دوسرے یہی سورہ آل عمران کی آیت جس کا کچھ حصہ آپ نے پڑھا اور باقی چھوڑ دیا ہے، میرے دعوے اور مقصد ثابت کررہی ہے۔ پوری آیت یہ ہے:

"وَ ما كانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ‏ عَلَى‏ الْغَيْبِ‏ وَ لكِنَ‏ اللَّهَ‏ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشاءُ ‏ فَآمِنُوا بِاللَّهِ ‏ وَ تَتَّقُوا ‏ فَلَكُمْ‏ أَجْرٌ عَظِيمٌ‏"

یعنی اللہ تم سب کو علم غیب سے آگاہ نہیں کرتا لیکن اس کے لئے اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے۔ یہ دونوں آیتیں صاف صاف بتارہی ہیں کہ چند برگزیدہ ہستیاں جو خدا کی طرف سے رسالت پر مبعوث ہوئی ہیں امر الہی سے علم غیب پر فائز ہیں۔ اور اگر ذات خداندی کے علاوہ کسی اور کو علم غیب حاصل نہ ہوتا تو لفظ الا کے ساتھ الا من ارتضی من رسول کا جملہ استثنائیہ مہمل ہوجاتا۔ ظاہر ہے کہ اس مقام پر کوئی استثنا ضرور موجود ہے اور ان صاحبان استثناء کو معین بھی فرمایا کہ وہ اس کے رسول اور پیغام رساں یعنی انبیاۓ عظام اور اوصیاۓ کرام تھے۔ (چنانچہ سورہ ہود )میں فرمااتا ہے:

"تِلْكَ‏مِنْ‏ أَنْباءِ الْغَيْبِ‏ نُوحِيها إِلَيْكَ ما كُنْتَ تَعْلَمُها أَنْتَ وَ لا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هذا"

یعنی یہ خبر اخبار غیب میں سے ہے جو میں تمہاری طرف وحی کے ذریعے بھیج رہا ہوں۔ اس سے قبل نہ تم اس سے واقف تھے نہ تمہاری قوم۔

اور سورہ شوری میں ارشاد فرمایا ہے کہ:

" وَ كَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ‏ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ وَ لَا الْإِيمانُ وَ لكِنْ جَعَلْناهُ نُوراً نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشاءُ مِنْ عِبادِنا "

یعنی اور اسی طرح ہم نے روح یعنی ایک بزرگ فرشتے کو اپنے فرمان سے وحی کے لئے تمہاری طرف بھیجا تم ( علم تحصیلی سے ) یہنہیں جانتے تھے کہ کتاب خدا کیا چیز ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے۔ لیکن ہم نے اس کو نور علم دیا۔ جس کے ذریعے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ہدایت کرتے ہیں۔

کہ دنیا علم غیب کا افاضہ نہ ہوتا تو انبیائ(ع)

۲۹۲

کیونکر باطنی امور کی خبر دیتے اور لوگوں کو ان کے باطنی حالات سے مطلع کرتے؟ حضرت بنی اسرائیل سے فرماتے :"وَ أُنَبِّئُكُمْ بِما تَأْكُلُونَ وَ ما تَدَّخِرُونَ‏ فِي بُيُوتِكُمْ" ( یعنی میں تم کو علم غیب سے اس کی خبر دیتا ہوں کہ تم اپنے گھروں میں کھایا کرتے ہو اور ذخیرہ کرتے ہو) آیا لوگوں کے اندرونی معاملات کی خبر دینا علم غیب سے تعلق نہیں رکھتا؟ اگر میں قرآن مجید کی وہ تمام آیتیں پیش کرنا چاہوں جو اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں تو جلسے کا وقت کافی نہ ہوگا میرا خیال ہے کہ ثبوت کے لئے اس قدر کافی ہوگا۔

شیخ: آپ لوگوں کے اسی قسم کے بیانات اور عقاید سے قوم کے اندر یایوں، جفاروں، نجومیوں، زائچہ بنانے والوں اسی طرح کے دوسرے فریب کاروں کے گروہ پیدا ہوگئے جو ناواقف لوگوں کو بیوقوف بنا کر اپنی جیبیں بھرتے اور خلق خدا کو گمراہی اور حق و حقیقت سے دوری کی طرف لے جاتے ہیں۔

سچے ذرائع سے علمِ غیب کے مدعی جھوٹے ہیں

خیر طلب : سچے عقائد بدبختی کے باعث نہیں ہوتے، یہ قوموں کی جہالت اور نادانی ہے جو ان کو ہر کس و ناکس کے دروازے پر کھینچ کے لے جاتی ہے، ورنہ مسلمان اگر عقل سے کام لیتے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاکیدی ہدایتوں کے مطابق علم اور عالم کی پیروی کرتے، بالخصوص قرآن کی معرفت حاصل کرتے اور روز اول ہی سے باب علم کو مسدود نہ کرتے تو ایرے غیرے اور خود غرض اشخاص کے پیچھے نہ دوڑتے، ہر شغال و روباہ کے شکار نہ بنتے اورسمجھ لیتے کہ قرآن صریحی اعلان کررہا ہے کہ" الا من ارتضی من رسول" خصوصیت کے ساتھ لفظ رسول نے تو شعبدہ بازوں اور بازیگروں کا راستہ باکل ہی بند کردیا ہے کیونکہ یہ لفظ اس چیز کی پوری وضاحت کررہا ہے کہ بغیر اسباب و ذرائع اور وسائل تحصیل علم کے مخصوص خداوندی علم غیب کے عالم صرف خدا کے بھیجے ہوۓ برگزیدہ افراد ہیں۔

اگر کوئی شخص جنبہ رسالت نہ رکھتا ہو یعنی پیغمبر یا امام نہ ہو پھر بھی رمل یا جفر یا قیافہ شناسی یا صوفیت یا مجذوبیت یا زائچہ بنانے یا ہتھیلی دیکھنے یا فال نکالنےیا اسی قسم کی دوسری ترکیبوں کے ذریعہ اللہ کے مخصوص علم سے متعلق غیبی خبریں دینے کا مدعی ہوتو وہ قطعا جھوٹا ہے اور قرآن مجید کے سمجھنے اور پیروی کرنے والے سچے مسلمان نہ ان کو حق پر سمجھتے ہیں نہ ان کی طرف دوڑتے ہیں اور ان کے فریب میں آتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ اچھی طرح سمجھ بوجھ چکے ہیں کہ سوا قرآن مجید اور حاملین ومفسرین قرآن یعنی محمد و آل محمد صلوات اللہ علیہم اجمعین کے جو عدیل قرآن ہیں اور کسی کی پیروی نہ کرنا چاہیئے۔

خلاصہ کلام یہ کہ بجز پیغمبر(ص) اور آن حضرت(ص) کے اوصیاۓ طاہرین(ع) کے جو خدا کے برگزیدہ بندے ہیں اس امت میں جو شخص بھی غیب دانی کا دعوی کرے اور کہے کہ میں غیب کی خبر دیتا ہوں وہ لازمی اور مسلمہ حیثیت سے کذاب و شعبدہ باز ہے چاہے جو وسیلہ اور طریقہ اختیار کرے۔

۲۹۳

شیخ: انبیاء چونکہ نزول وحی کے مرکز تھے لہذا بقول آپ کے غیبی امور پر علم و اطلاع حاصل کرتے تھے لیکن کیا سیدنا علی کرم اللہ وجہہ بھی پیغمبر تھے۔ یا امررسالت میں شریک تھے جس سے غیب کی باتوں پر آگاہی رکھتے تھے، جیسا کہ آپ ان کے لئے اس منزلت کو ثابت کررہے ہیں۔

انبیائ(ع) و اصیائ(ع) عالم غیب تھے

خیر طلب: اول یہ کہ آپ نے فرمایا ہے بقول آپ کے "تو آخر آپ قصدا سہو کر کےمغالطہ کیوں دے رہے ہیں؟ اور بقول آپ کے فرمانے کے عوض یہ کیون نہیں فرماتے کہ" بقول خداۓ تعالی"؟ میں نہ اپنی طرف سے کوئی چیز ایجاد کرتا ہوں نہ اپنی مرضی سے کوئی عقیدہ اور دعوی پیشکرتا ہوں بلکہ قرآن مجید کا حکم نقل کر کے مبین قرآن حضرت رسول خدا صلعم کے ارشادات سے اس کے حقائق کا انکشاف کررہا ہوں۔

ایک تو جیسا میں نے آیات قرآںی کے شواہد سے بتایا ہے کہ انبیائ ومرسلین حق تعالی کے برگزیدہ اور علم غیب کےعالم ہیں، خود آپ کے اکابر علمائ نے بھی اس مطلب کی تصدیق کی ہے اور حضرت خاتم الانبیاء(ص) سے اخبار غیبیہ نقل کرنے میں دلچسپی دکھائی ہے۔

من جملہ ان کے ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد اول ص67( مطبوعہ مصر) میں رسول اللہ(ص) سے ایک حدیث نقل کرنے کےبعد کہ آں حضرت نے علی(ع) سے فرمایا:

" سَيُقَاتِلُ‏ بَعْدِيَ‏ النَّاكِثِينَ وَ الْقَاسِطِينَ وَ الْمَارِقِينَ "

یعنی عنقریب تم میرے بعد ناکثین و قاسطین و مارقین سے جنگ کروگے۔

کہتے ہیں ک یہ حدیث آں حضرت کے دلائل نبوت میں سے ہے، اس لئے کہ اس میں صریحی طور سے غیب کی خبر دی گئی ہے جس کے اندر ہرگز کسی شک اور شبے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اپنےبعد کے لئے جن واقعات کی خبر دی ہے وہ تقریبا تیس سال کے بعدبعینہ اسی طرح سے رونما ہوۓ۔ آں حضرت(ص) نے فرمایا تھا کہ تم ان تین گروہوں سے جنگ کرو گے جن میں ناکثین سے اہل جمل مراد تھے جنہوں نے طلحہ و زبیر کے اغوا سے عائشہ کی قیادت میں حضرت علی(ع) سے جنگ کی، قاسطین سے اہل صفین یعنی معاویہ کے پیرو مقصود تھے اور مارقین خوارج نہروان تھے جو دین سے خارج ہوگئے تھے انتہی( جیسا کہ پہلے تشریح کے ساتھ عرض کرچکا ہوں)۔

دوسرے فرقہ امامیہ اور شیعوں میں سے ایک شخص نے بھی امیرالمومنینعلی ابن ابی طالب(ع) اور ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم اجمعین کے لئے نبوت کا دعوی نہیں کیا ہے۔ بلکہ ہم خود مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خاتم النبیین اور بلاشرکت غیر کے امر نبوت میں مستقل جانتے ہیں اور مذکورہ بالا امر باطل کے مدعی اور معقد کو کافر سمجھتے ہیں۔ البتہ حضرت کو اور حضرت کی

۲۹۴

نسل سے گیارہ اماموں کو ائمہ برحق اور رسول اللہ(ص) کے منصوص اوصیائ خلفائ جانتے ہیں جن کو خداوند عالم نے آں حضرت(ع) کے واسطے اور ذریعے سے اسرار و غیوب پر آگاہ مطلع فرمایا ہے۔ ہمارا اعتقاد ہے اہل عالم کی نگاہوں کے سامنے جو ایک پردہ کھنچا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ دنیا کے اندر صرف انہیں چیزوں کو دیکھتے ہیں جو ظاہر و نمایاں ہیں وہی پردہ انبیائ(ع) و اصیائ(ع) کے سامنے بھی ہے لیکن وقت اور موقع کے لحاظ سے خداۓ عالم الغیب نے جو ہر قسم کے اضافے پر پوری قدرت رکھتا ہے جسقدر ضروری اور مصلحت کے مطابق تھا یہ حجاب ان کی نگاہوں سے ہٹا دیا جس سے وہ حالات پس پردہ کا بھی مطالعہ کرتے تھے اور اسی وجہ سے غیب کی خبریں دیتے تھے اور جس وقت مصلحت نہیں ہوتی تھی پردہ پڑا رہتا تھا اور یہ حضرات بھی بے خبر رہتے تھے۔( اسی بنا پر بعض روایتوں میں ہے کہ کبھی کبھی اپنی ناواقفیت کا اظہار کرتے تھے) چنانچہ ارشاد ہے:

"‏ وَ لَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ‏ الْغَيْبَ‏ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ "

یعنی اگر میں عالم الغیب ہوتا تو یقینا اپنی خوبیوں میں اضافہ کرلیتا۔

مطلب یہ کہ میںبذاتِ خود مستقل طور پر غیب سے آگاہی نہیں رکھتا جب تک پردہ نہ اٹھے اور فیضان الہی شامل حال نہ ہو۔

شیخ: کہاں اور کس مقام پر پیغمبر(ص) نے امت والوں کو اس قسم کی خبریں دیہیں جس سے لوگ پوشیدہ حقائق پر آگاہ ہوۓ ۔

خیر طلب: آیا قرآنی آیتوں کی روشنی میں جن میں سے بعض کی جانب اشارہ کیا جاچکا ہے۔ آپ خاتم الانبیائ حضرت رسول خدا صلعم کومرتضی برگزیدہ خلائق اور خدا کا رسول برحق سمجھتے ہیں یا نہیں؟

شیخ: آپ نے یہ عجیب سوال کیا۔ بدیہی چیز ہے کہ آں حضرت(ص) مرتضی اور خاتم الانبیائ تھے۔

خیر طلب: بس آیہ شریفہ :"عالِمُ‏ الْغَيْبِ‏ فَلا يُظْهِرُ عَلى‏ غَيْبِهِ أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضى‏ مِنْ رَسُولٍ‏ " کے حکم سے پیغمبر(ص)خاتم علم غیب کے عالم تھے کیونکہ اس آیت میں ارشاد ہے کہ خداۓ عالم الغیب اپنے علم غیب سے صرف رسول مرتضی و برگزیدہ کو آگاہ کرتا ہے۔

شیخ: اگر فرض کر لیا جاۓ کہ آں حضرت(ص) غیب کے مالک تھے تو اس چیز کو اس چیز سے کیا ربط ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ بھی ضرور عالم غیب ہوں؟

خیر طلب: اگر آپ حضرات جمود اور تقلید اسلاف سے ہٹ کے دل و دماغ کو ذرا وسعت دیں اور اخبار صحیحہ اور حالات رسول اللہ صلعم پر غور کریں تو مطلب خود بخود واضح و آشکار ہوجاۓ۔

شیخ: اگر ہماری عقل محدود ہے ماشائ اللہ آپ کا دماغ تو کشادہ ہے اور زبان بھی روان ہے۔ فرمائیے کونسی حدیث ہے جو سیدنا علی اکرم اللہ وجہہ کے لئے علم غیب کو ثابت کرتی ہے؟

اگر عل غیب پیغمبر(ص) کے اوصیائ وخلفائ کے لئے ضروری ہو تو استثناء کے کوئی معنی نہیں اور لازمی طور پر سارے

۲۹۵

خلفائ بالخصوص خلفاۓ راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کو عالم غیب ہونا چاہیئے حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی ایک خلیفہ نے بھی ایسا دعوی نہیں کیا بلکہ خود پیغمبر(ص) کے مانند اپنے عجز کا اظہار کرتے تھے۔ پھر آپ تنہا علی کرم اللہ وجہہ کو کیونکر مستثنی کررہے ہیں۔

خیر طلب: اولا میں پیغمبر(ص) کے اظہار عجز کے سلسلے میں پہلے ہی آپ کو جواب دے چکا ہوں کہ آں حضرت غیبی امور کی آگاہی میں بذات خود استقلال اور قدرت نہیں رکھتے تھے بلکہ ذاتِ علام الغیوب کے افاضے سے حقائق پر مطلع ہوتے تھے۔ جس مقام پر یہ فرماتے ہیں کہ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو اپنی خوبیاں بڑھا لیتا وہاں اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ میں خداۓ تعالی کے مانند علم حضوری کا حامل نہیں ہوں۔ یعنی جس وقت ادھر سے فیضان ہوتا تھا اور پردہ دار عالم الغیب آں حضرت(ص) کے سامنے سے حجات اٹھالیتا تھا تو آپ پر پوشیدہ حقیقتیں منکشف ہوجاتی تھیں اور آپ غیب کی خبریں دیا کرتے تھے۔

ائمہ طاہرین(ع) خلفاۓ برحق اور عالمِ غیب تھے

دوسرے آپ نے فرمایا کہ اگر علم غیب تھا تو خلفائ کے درمیان استثنائ نہ ہونا چاہیئے۔ آپ نے یہ ایک صحیح اور مضبوط بات کہی ہے ہم بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں اور یہیں سے ہمارا اور آپ کا اختلاف بھی شروع ہوتا ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ خلفاۓ رسول کو آں حضرت(ص) کے مانند امور ظاہری و باطنی کا علم ہونا چاہیئے بلکہ سوا مقام نبوت و رسالت اور نبوت کی خاص شرطوں کے (جن سے وحی اور کتاب و احکام کا نزول مراد ہے) جملہ صفات میں خلفائ و اوصیائ کو آں حضرت کا نمونہ ہونا چاہیئے۔ البتہ آپ مخلوق کے چنے ہوۓ خلفائ یعنی ان لوگوں کو جنہیں چند اشخاص نے اکٹھا ہو کر خلیفہ کہہ دیا ہو چاہے پیغمبر(ص)نے ان پر لعنت ہی کی ہو( جیسے معاویہ وغیرہ) خلیفہ رسول(ص) کہتے ہیں۔

لیکن ہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) کے خلفائ و اوصیائ وہ حضرات ہیں جن کی خلافت پر خود آں حضرت نے نص فرمائی ہو جس طرح انبیاۓ ماسلف کے نصوص ان کے اوصیائ کے لئے وارد ہوۓ ہیں۔ قطعی طور پر وہ خلفائ و اوصیائ جن کے لئے رسول اکرم صلعم نے نص فرمائی ہے بلا استثنا آں حضرت(ص) کے صفات کے مکمل نمونے تھے اور اسی جہت سے علم غیب اور باطنی امور کے عالم بھی تھے۔

وہ منصوص اور برحق خلفائ بارہ نفر تھے جن کی تعداد اور نام آپ کے اخبار و احادیث میں بھی منقول ہیں اور شیعوں کے وہبارہ برحق امام عترت و اہل بیت رسالت(ع) میں سے امیرالمومنین علی علیہ السلام اور آپ کے گیارہ بزرگوار فرزند ہیں اور اس بات کی دلیل کہ دوسرے لوگ رسول اللہ صلعم کے منصوص خلیفہ نہیں تھے، خود آپ ہی کا وہقول ہے جس کی آپ کے جملہ اکابر علمائ نے بھی تصدیق کی ہے کہ یہ لوگ برابر معمولی علم سے بھی اپنی عاجزی کا اظہار کرتے رہتے تھے علم غیب اور باطنی حالات سے آگاہی کا کیا ذکر۔

۲۹۶

تیسرے آپ نے فرمایا ہے کہ کس حدیث سے امیرالمومنین علی علیہ السلام ک لئے علم غیب ثابت ہوتا ہے تو اس بارے میں حضرت رسول خدا صلعم سے بکثرت حدیثیں مروی ہیں۔ من جملہ ان کے ایک خاص حدیث ہے جو مختلف مقامات و اوقات میں باربار آں حضرت(ص) کی زبان مبارک پر جاری ہوئی ہے اور احادیث کے درمیان اس کو حدیث مدینہ کے نام سے شہرت حاصل ہے نیز تقریبا فریقین ( شیعہ و سنی) کے متواترات میں سے ہے کہ آںحضرت(ص) نے انحصار کے ساتھ صرف علی علیہ السلام کو اپنے علم و حکمت کا دروازہ بتایا اور یہ الفاظ ارشاد فرماۓ:

"‏أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ‏ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا- فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ."

یعنی میں شہر علم ہوں اور علی(ع) اس کے در ہیں پس جو شخص علم کا خواہاں ہو وہ دروازے کے پاس آۓ۔

شیخ: یہ حدیث ہمارے علمائ کے نزدیک ثابت نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو خبر واحد ہے یا ضعیف حدیثوں میں سے ہوگی۔

حدیث مدینہ کے ناقلین و روات

خیر طلب: افسوس کی بات ہے کہ ایسی محکم اور متواتر حدیث کو آپ نے خبر واحد اور ضعیف احادیث میں شمار کیا حالانکہ آپ کے اکابر علمائ اس کی صحت کیتصدیق کرچکے ہیں۔

بہتر ہوگا کہ آپ جمع الجامع سیوطی، تہذیب الاثار محمد بن جریرطبری، تذکرۃ الابرار سید محمد بخاری مستدرک حاکم نیشاپوری، نقدالصحیح فیروز آبادی، کنزالعمال متقی ہندی، کفایت الطالب گنجی شافعی اور تذکرۃ الوضورات جمال الدین ہندی جیسی اپنی معتبر کتابوں کی طرف رجوع کیجئے جن میں کہتے کہ " فمن حکم بکذبہ فقد خطائ" یعنی جو شخص اس حدیث کو جھٹلاۓ وہ یقینا غلطی پر ہے نیز روضتہ الندایہ امیرمحمد کافی بحرالاسانید و حافظ ابو محمد سمرقندی اور مطالب السئول محمد بن طلحہ شافعی وغیرہ میں عام طور سے اس حدیث شریف کی صحت کا حکم دیا ہے۔

اس لئے کہ یہ با عظمت حدیث متفاوت اور مختلف طرق و اسناد کے ساتھ بکثرت اصحاب و تابعین سے مثلا صحابہ عظام میں سے حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام ، سبط اکبر ابومحمد حسن بن علی علیہما السلام، امام المفسرین( جرامت) عبداللہ ابن عباس، جابر ابن عبداللہ انصاری، عبداللہ ابن مسعود، حذیفہ بن الیمان، عبداللہ ابن عمر، انس ابن مالک اور عمرو بن عاص تھے۔

تابعین میں سے امام زین العابدین علی الحسین اور امام محمد ابن علی الباقر علیہم السلام، اصبغ ابن نباتہ، جریر الضبی، حارث بن عبداللہ ہمدانی کوفی، سعدبن طریف الحنظلی کوفی، سعید بن جبیر اسدی کوفی، سلمہ بن کہیل حضرمی کوفی، سلیمان بن مہران اعمش کوفی، عاصم بن حمزہ سلولی کوفی، عبداللہ بن عثمان بن خیثم القاری المکی، عبدالرحمن ابن عثمان بن عیلتہ المرادی

۲۹۷

ابو عبداللہ صنابحی اور مجاہد ابو الحاج المخزرمی المکی سے مروی ہے۔

اور ( علاوہ جمہور علماۓ شیعہ کے خود آپ ہی کے کثیر التعداد علماۓ اعلام، محدثیں عظام اور مورخین کرام اس کے ناقل ہیں، چنانچہ جہاں تک میں نے دیکھا ہے آپ کے تقریبا دوسو علماء اور بزرگان دین نے اس حدیث مبارک کو نقل کیا ہے۔ اس وقت جس قدر میرے پیش نظر ہیں ان میں سے چند اقوال کا حوالہ پیش کرتا ہوں تاکہ شیخ صاحب زیادہ شرمندہ نہ ہوں اور سمجھ لیں کہ انہوں نے محض عادتا اور اپنے اسلاف کی پیروی میں اس حدیث کی سند میں شک وارد کیا ہے ورنہ بالعموم سب کے نزدیک مطلب بالکل صاف اور واضح ہے۔

منجملہ اکابر علماۓ اہل سنت

1۔ تیسرے صدی کے مفسر و مورخ محمد بن جریر طبری متوفی سنہ310 ہجری تہذیب الآثار میں۔

2۔ حاکم نیشاپوری متوفی سنہ405 ہجری مستدرک جلد سیم صفحہ 126و 128و 226 میں،

3۔ ابو عیسی محمد بن ترمذی متوفی سنہ289ہجری اپنی صحیح میں،

4۔ جلال الدین سیوطی متوفی سنہ911 ہجری جمع الجوامع میں اور جامع الصغیر جلد اول ص374 میں،

5۔ ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی سنہ360 ہجری کبیر اور اوسط میں،

6۔ حافظ ابو محمد حسن سمرقندی متوفی سنہ491 ہجری بحرالاسانید میں،

7۔ حافظ ابو نعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی متوفی سنہ430ہجری معرفتہ الصحابہ میں،

8۔ حافظ ابو عمر یوسف بن عبداللہ بن عبدالبر قرطبی متوفی سنہ463 ہجری استیعاب جلد دوم ص461 میں،

9۔ ابوالحسن فقیہ شافعی علی بن محمد بن طبیب الجلابی ابن مغازلی متوفی سنہ483 ہجری مناقب میں،

10۔ ابو شجاع شیرویہ ہمدانی دیلمی متوفی سنہ509 ہجری فردوس الاخبار میں،

11۔ ابو الموید خطیب خوارزمی متوفی سنہ568 ہجری مناقب ص49 اور مقتل الحسین جلد اول ص93 میں،

12۔ ابو القاسم ابن عساکر علی بن حسن دمشقی متوفی سنہ571ہجری تاریخ کبیر میں،

13۔ ابو الحجاج یوسف بن محمد آندلسی متوفی سنہ605 ہجری" الف باء" جلد اول ص222 میں،

14۔ ابوالحسن علی بن محمد بن اثیر جزری متوفی سنہ630 ہجری اسد الغابہ جلد چہارم ص22 میں،

15۔ محب الدین احمد بن عبداللہ طبری شافعی متوفی سنہ694ہجری ریاض النفرہ جلد اول ص129 اور ذخائر العقطی ص77 میں،

16۔ شمس الدین محمد بن احمد ذہبی شافعی متوفی سنہ478ہجری تذکرۃ الحفاظ جلد چہارم ص28 میں،

۲۹۸

17۔ بدر الدین محمد زرکشی مصری شافعی متوفی سنہ749 ہجری فیض القدر جدل سیم ص47 میں،

18۔ حافظ علی بن ابی بکر ہیثمی متوفی سنہ807 ہجری مجمع الزوائد جدل نہم ص114 میں،

19۔ کمال الدین محمد بن موسی و میری متوفی سنہ808 ہجیر حیات الحیوان جلد اول ص55 میں،

20۔ شمس الدین محمد بن محمد جزری متوفی سنہ833ہجری اسنی المطالب ص14 میں،

21۔ شہاب الدین ابن حجر بن علی عسقلانی متوفی سنہ852ہجری تہذیب التہذیب جلد ہفتم ص337 میں،

22۔ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی سنہ855ہجری عمدۃ القاری جلد ہفتم ص631 میں،

23۔ علی بن حسام الدین متفقی ہندی متوفی سنہ975 ہجری کنز العمال جلد ششم ص156 میں،

24۔ عبدالرؤف المنادی شافعی متوفی سنہ1031ہجری فیض القدیر شرح جامع الصغیر جلد سیم ص46 میں،

25۔ حافظ علی بن احمد عزیزی شافعی متوفی سنہ1070 ہجری سراج المنیر جامع الصغیر جلد دوم ص63 میں،

26۔ محمد بن یوسف شافعی متوفی سنہ942 ہجری سبل الہدی والرشاد فی اسمائ خیر العباد میں،

27۔ محمد بن یعقوب فیروز آبادی متوفی سنہ817ہجری نقد الصحیح میں،

28۔ امام احمد بن حنبل متوفی سنہ241ہجری مکرر مجلدات مناقب مسند میں،

29۔ ابوسالم محم بن طلحہ شافعی متوفی سنہ652ہجری مطالب السئول میں،

30۔ شیخ الاسلام ابراہیم بن محمد حموینی متوفی سنہ722ہجری فرائد السمطین میں،

31۔ شہاب الدین دولت آبای متوفی سنہ849ہجری ہدایت السعدائ میں،

32۔ علامہ سہودی سید نور الدینشافعی متوفی سنہ911ہجری جواہر العقدین میں،

33۔ قاضی فضل بن رزبہان شیرازی ابطال الباطل میں،

34۔ نور الدین بن صباغمالکی متوفی سنہ955 ہجری فصول المہمہ ص18 میں،

35۔ شہاب الدین ابن حجر مکی( متعصب عنید) متوفی سنہ974ہجری صواعق محرقہ ص73 میں،

36۔ جمال الدین عطا اللہ محدث شیرازی متوفی سنہ1000ہجری اربعین میں،

37۔ علی قاری ہروی متوفی سنہ1014 ہجری مرقاۃ شرح مشکوۃ میں،

38۔ محمد بن علی الضبان متوفی سنہ1205 ہجری اسعاف الراغبین ص156 میں،

39۔ قاضی محمد بن شوکانی متوفی سنہ1250ہجری فوائد المجموعہ الاحادیث الموضوعہ میں،

40۔ شہاب الدین سید محمود آلوسی بغدادی متوفی سنہ1270ہجری تفسیر روح المعانی میں،

41۔ امام غزالی احیائ العلوم میں،

۲۹۹

دو صفحے نہیں ہیں

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313