تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي0%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 313
مشاہدے: 115064
ڈاؤنلوڈ: 2896


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 115064 / ڈاؤنلوڈ: 2896
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد 1

مؤلف:
اردو

كے وقت جبكہ مطلع صاف و روشن نہيں تھا دشمن كا اچانك حملہ وغيرہ ايسے عوامل تھے جن كے باعث مسلمانوں میں يہ قوت فيصلہ سلب ہو گئي كہ وہ كيا اقدام كريں_

ب:آخرى فتح

۱_ غيبى مدد اور خداوند تعالى كى طرف سے نصرت و كاميابى _اس كے بارے میں قرآن مجيد كا ارشاد ہے

( ثُمَّ أَنزَلَ الله ُ سَكينَتَهُ عَلى رَسُوله وَعَلَى المُؤمنينَ وَأَنزَلَ جُنُودًا لَم تَرَوهَا وَعَذَّبَ الَّذينَ كَفَرُوا وَذَلكَ جَزَائُ الكَافرينَ ) (۴۸)

'' پھر اللہ نے اپنا سكون اپنے رسول(ص) پر اور مومنين پر نازل فرمايا اور وہ لشكر اتارے جو تم كو نظر نہ آتے تھے اور منكرين حق كو سزا دى كہ يہى بدلہ ہے ان لوگوں كے لئے جو حق كا انكار كرتے ہيں '' _

۲_ رسول خدا(ص) ،حضرت على (ع) اور ديگر ايثار پسند اور جان نثار مردوں نيز عورتوں كى ميدان كا رزار ميں پائدارى ، اس كے ساتھ ہى ميدان جنگ ميں رسول خدا(ص) كا سپاہ كو واپسبلانا اور انھيں از سر نو منظم كرنا _

۳_ حضرت على (ع) كے ہاتھوں دشمن كے پر چمدار اور ديگر مسلمانوں كے ہاتھوں دشمن كے سردار '' دُرَيدبن صَمَّہ،، كا قتل كيا جانا _

۲۶۱

سوالات

۱_'' صلحنامہ حديبيہ ،، كى شرائط كے مطابق رسول خدا(ص) كو قريش كے ساتھ دس سال تك جنگ نہيں كرنى چاہئے تھى _ آنحضرت(ص) نے كس وجہ سے دو سال بعد ہى مكہ پر لشكر كشى كر دى ؟

۲_ رسول خدا(ص) نے جب مكہ پر لشكر كشى كى تو اس مہم كو قريش سے پوشيدہ ركھنے كيلئے آنحضرت(ص) نے كيا اقدامات كئے ؟

۳_ رسول خدا(ص) نے مكہ كے نزديك پہنچنے كے بعد خونريزى اور قريش كے ساتھ تصادم كو روكنے كيلئے كيا اقدامات كئے ؟

۴_ رسول خدا(ص) نے مكہ كو فتح كرنے كے بعد جب مشركين كو قيد كر ليا تو آنحضرت(ص) نے ان كے ساتھ كيا سلوك كيا ؟ اور آپ(ص) كے روےے كا ان پر كيا اثر ہوا ؟

۵_ غزوہ حنين كا كب اور كس طرح آغاز ہوا ؟

۶_ غزوہ حنين كى ابتدا میں مسلمانوں كے شكست كا كيا سبب تھا ؟

۷_ فتح حاصل كرنے كيلئے رسول خدا(ص) اور حضرت على (ع) كا كيا كردار رہا ؟ اس كى وضاحت كيجئے_

۸_ غزوہ حنين میں مسلمانوں كو ابتدا ء میں شكست ہوئي اور بعد میں فتح و نصرت سے ہمكنار ہوئے قرآن مجيد نے ان واقعات كا كس طرح تجزيہ كيا ہے ؟_

۲۶۲

حوالہ جات

۱_ المغازى ج۲صفحہ۷۹۶ _

۲_ السيرة النبويہ ج ۴ صفحات ۴۰_۴۱ _

۳_ المغازى ج۲ صفحات ۸۰۱ _۸۱۴_

۴_ بعض كتب تاريخ میں يہ آيا ہے كہ ابو سفيان كے ساتھى اسى جگہ سے واپس چلے گئے اور صرف ابوسفيان كو رسول خدا(ص) كى خدمت میںحاضر كيا گيا (السيرة النبويہ ابن ہشام ج۴ صفحہ ۴۵) _

۵_ المغازى ج۲ صفحات ۸۱۴ _۸۱۵ _

۶_ايضا صفحات ۸۱۸_۸۲۱ _

۷_ ۸_السيرة النبويہ ابن ہشام ج۴ صفحات ۴۶_۴۷ _

۹و ۱۰_ المغازى ج۲ صفحہ ۸۲۵ _

۱۱_ ملاحظہ ہو : اعيان الشيعہ ج۱صفحہ ۴۰۹ _

۱۲_ المغازى ج۲ صفحہ ۸۳۵ _

۱۳_ سورہ يوسف آيت۹۲ _

۱۴_ المغازى ج۲ صفحہ ۸۳۵_

۱۵و ۱۶_تاريخ طبرى ج۳ صفحہ ۶۱ _

۱۷_سورہ نصر آيت۲ _

۱۸_ ملاحظہ ہو : تفسير الميزان ج۲۰ صفحہ ۳۷۶ _

۱۹_ ملاحظہ ہو :المغازى ج۳ صفحہ ۸۷۳ والسيرة النبويہ ج۴ صفحہ ۷۰ _

۲۰_ ملاحظہ ہو : المغازى ج۲ صفحہ ۸۲۵_

۲۱_ ملاحظہ ہو : تاريخ طبرى ج۳ صفحہ ۶۰ _

۲۲_ المغازى ج۲ صفحات ۸۲۱' ۸۲۲ _

۲۳_ ملاحظہ ہو '' كتاب رسول اكرم(ص) ميدان جنگ میں،، ترجمہ سيد غلام رضا سعيدى ص ۱۴۸

۲۶۳

۲۴_ ملاحظہ ہو : بحار الانوار ج۲۱صفحہ ۱۴۵ _

۲۵ _ دور جاہليت ميں '' ذوالمجاز'' عربوں كا مشہور بازار تھا يہ جگہ اس بازار كے قريب مكہ و طائف كے درميان واقع تھى البتہ يہ جگہ مكے كى نسبت طائف سے نزديك تر ہے اور يہاں سے مكے كا فاصلہ تين راتوں میں طے ہوتا تھا ملاحظہ ہو : التنبيہ و الاشراف ص۲۳۴ و معجم البدان ج۲صفحہ ۳۱۳ _

۲۶_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۶۲ والارشاد مفيد ص ۷۴_

۲۷_تاريخ طبرى ج ۳ ص ۷۴_

۲۸_السيرة النبويہ، ابن ہشام ج ۴ ص ۸۵_

۲۹_الارشاد مفيد ۷۶_

۳۰_المغازى ج ۳ ص ۹۰۲_

۳۱_السيرة النبويہ' ابن كثير ج ۳ ص ۶۲۰_

۳۲_ملاحظہ ہو : الارشاد ص ۷۵ و تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۶۳_

۳۳_ملاحظہ ہو : الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۵۲ و تفسير المنارج ۱۰ ص ۲۵۸_

۳۴_الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۵۱_

۳۵_يہ كنويں كا نام تھا جو مكہ اور طائف كے درميان واقعہ تھا البتہ مكے سے زيادہ نزديك تھا معجم البلدان ج ۲ ص ۱۴۲ ' اس كنويں كا نام جعرَّانہ بھى لكھا گيا ہے_

۳۶_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۹۲۷ تاريخ طبرى ج ۳ ص ۸۳_

۳۷_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۹۳۶_ ۹۳۷و تاريخ طبرى ج ۳ ص ۸۴_

۳۸_بعض كتب تاريخ ميں درج ہے كہ رسول خدا(ص) نے يہ محاصرہ اول ماہ ذى القعدہ تك جارى ركھا ملاحظہ ہو بحارالانوار ج ۲۱ ص ۱۸۱ ، اور يہ قول اس بنا پركہ جنگ حنين بتاريخ دہم شوال واقعہ ہوئي (المغازى ج ۳ ص ۸۹۲)حقيقت كے زيادہ نزديك ہے_

۳۹_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۱۸۲_ يہاں يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ چند قيديوں نے فديہ ادا كركے بھى آزادى حاصل كى تھي_

۲۶۴

۴۰_ملاحظہ ہو: الارشاد ص ۷۶_

۴۱_الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۵۳_

۴۲_ملاحظہ ہو : الارشاد ص ۷۶_ ۷۷ رسول خدا(ص) كے اس اقدام ميں شايد يہ نقطہ پنہاں تھا كہ مكہ كے تازہ مسلمان بالخصوص ان كے سرداروں ميں عقل وبصيرت نہ تھى بلكہ وہ خوف و مجبورى كى وجہ سے مسلمان ہوئے تھے اسى لئے پيغمبر اكرم (ص) پر ان كى دلجوئي كرنا ضرورى تھى تاكہ ان كے دل اسلام كى جانب زيادہ مائل ہو جائيں فقہ اسلامى ميں اس عمل كو'' تاليف قلوب ''كہا جاتا ہے اور اس كا شمار مصارف زكات ميں ہوتا ہے_

۴۳_المختصر فى اخبار البشر تاريخ ابوالفداء ج ۱ ص ۱۴۸_

۴۴_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۸۹۰ والطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۵۰_

۴۵_سورہ توبہ آيت ۲۵_

۴۶_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۸۹۷_

۴۷_ملاحظہ ہو : تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۶۲_

۴۸_سورہ توبہ آيت ۲۶_

۲۶۵

سبق ۱۵:

غزوہ تبوك

۲۶۶

غزوہ تبوك(۱)

جزيرہ نما ئے عرب ميں مشرك كے عظيم ترين مركز كى شكست اور تسخير كے ساتھ ہى حجاز كے سرداروں نے بھى رسول خد ا(ص) كے سامنے سر تسليم خم كرديا اور اس طرح جب ملك كى شمالى حدود ميں دين اسلام كى اشاعت كے امكانات زيادہ ہوگئے تو رومى حكومت كے ايوانوں ميں وحشت و اضطراب كے باعث لرزہ پيدا ہونے لگا اس كى عظیم ترين عسكرى طاقت چونكہ انتہائي مرتب ومنظم تھى اور جنگوں ميں اپنے طاقتور حريف يعنى ملك ايران پر وہ پے در پے فتوحات حاصل كرچكا تھا اسى لئے اسے اپنى طاقت پر ناز و غرور تھا چنانچہ اس طاقت كے زعم ميں اس نے فيصلہ كرليا كہ اپنے اس مسلح و منظم لشكر كے ساتھ مسلمانوں پر حملہ كردے_

رسول خدا (ص) كو علم ہوگيا كہ شہنشاہ روم ''ہرقل'' نے عظیم لشكر جمع كرليا ہے اور فوجيوں كو انكى ايك سال كى تنخواہ پيشگى ادا كردى ہے ، اس كے ساتھ ہى اس نے سرحدوں پر واقع ''لخم'' ، ''جذام''، ''غسان'' اور ''عاملہ'' نامى علاقے كے لوگوں كو بھى اپنے ساتھ ملا ليا ہے نيز اس كا ہر اول دستہ ''بلقائ(۲) '' تك آن پہنچا ہے(۳) _

رسول خد ا(ص) كو جب يہ اطلاع ملى تو اس وقت موسم انتہائي گرم تھا اور كھجور پك كر اتارنے كے قابل ہوچكى تھى ايك طرف راستے كى دورى اور دوسرى طرف سپاہ روم كى كثرت ايسے عوامل تھے جن كے باعث سپاہ كو روانہ كرنا سخت دشوار كام تھا بالخصوص ان واقعات كو مد نظر ركھتے ہوئے جو معركہ موتہ كے موقع پر پيش آچكے تھے ليكن ان لوگوں كيلئے جو واقعى مسلمان

۲۶۷

تھے اسلام كى قدر وقيمت ذاتى آسائشے و آرام اور مادى منفعت سے كہيں زيادہ تھى ا ور وہ اسلام كى فلاح كى خاطر ان كو نظر انداز كرسكتے تھے چنانچہ اس خےال كے پيش نظر رسول خدا (ص) نے صحابہ كو جمع كيا اور مختصر طور پر دشمن كے استعداد اور اس كى عسكرى بالادستى كے بارے ميں مطلع كيا اس كے ساتھ ہى آنحضرت (ص) نے لشكر كى تيارى اورر وانگى كے لئے سعى وكوشش شروع كردى(۴) چنانچہ قبائل كے درميان اور مكہ كى جانب رسول خدا (ص) كے نمائندے روانہ كئے گئے تاكہ وہ لوگوں كو مقدس جہاد ميں شركت كى دعوت ديں_(۵)

ناسازگار حالات كے باوجود تيس ہزار جنگجو سپاہيوں نے جن ميں دس ہزار سوار بھى تھے رسول خدا (ص) كى پكار پر لبيك كہا_(۶)

رسول خدا (ص) نے جنگ كے اخراجات كيلئے مالدار لوگوں سے كہا كہ سپاہ كى مال و اسلحہ كے ذريعے مدد كريں(۷) اس كے علاوہ جب پيغمبر خدا (ص) كى طرف سے يہ اعلان كرديا گيا كہ اس سفر كا مقصد كيا ہے تو مسلمان اس اسلحہ اور ساز و سامان كے ساتھ جو ان كے پاس تھا اسے لے كر بير كوںميں جمع ہوگئے _

رسول خد ا(ص) كے فرمان پر لوگوں كے مختلف موقف

جب ہم تاريخ كى كتابوں كے صفحات اور ان آيات پر نظر ڈالتے ہيں جو اس سلسلے ميں نازل(۸) ہوئي ہيں تو ہم ديكھتے ہيں كہ اس غزوہ كے بارے ميں مسلمانوں كے افكار و نظريات مختلف و گوناگوں تھے جس كى كيفيت ذيل ميں درج ہے_

۱_خاص مو من افرادكو (اور اكثريت ان ہى پر مشتمل تھى) جيسے ہى رسول خدا (ص) كى دعوت كا علم ہوا تو اس ساز وسامان كے ساتھ جوان كے پاس موجود تھا رسول خدا (ص) كى سپاہ ميں

۲۶۸

شامل ہوگئے_

۲_ايك گروہ ايسا بھى تھا جو رسول خد ا(ص) كے ساتھ جانا تو چاہتا تھا مگر اس كے پاس سوارى كے جانور نہ تھے چنانچہ انہوں نے رسول خدا (ص) سے كہا كہ اگر سوارى كا بندوبست ہو جائے تو وہ چلنے كو تيار ہيں ليكن جب رسول خد ا(ص) نے كہا كہ سوارى كے جانور كا فراہم كرنا تو ممكن نہيں تو ان كى آنكھوںميں آنسو آگئے اور وہ اشك بار اپنے اپنے گھروں كى طرف واپس چلے گئے _(۹)

۳_كچھ لوگ ايسے بھى تھے جنہوں نے نہ فقط يہ كہ فرمان رسول (ص) كے سامنے سر نہيں جھكايا بلكہ سپاہ كى روانگى ميں جس حد تك ممكن ہوسكتا تھا خلل اندازى سے بھى باز نہ آئے چنانچہ وہ مجاہدين جو جنگ ميں شركت كرنا چاہتے تھے ان سے يہ لوگ كہتے تھے كہ : اس سخت گرمى ميں جنگ پر مت جائو(۱۰) اس كے علاوہ جو لوگ ان مجاہدين كو مالى مدد دينا چاہتے تھے تو ان كا بھى يہ لوگ مذق اڑاتے(۱۱) كسى پر ريا كا رہونے كا الزام لگا تے اور كسى كى يہ كہہ كر حوصلہ شكنى كرتے كہ تمہارے پاس سامان سفر بہت كم ہے جنگ پر جاكر كيا كرو گے(۱۲)

۴_ كچھ لوگ ايسے بھى آرام طلب تھے جو جنگ سے فرار كرنے كى غرض سے رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوتے اور كوئي بے بنياد بہانہ تراش كر آنحضرت (ص) سے يہ درخواست كرتے كہ انہيں مدينہ ميں ہى رہنے ديا جائے(۱۳) _

۵_ بعض نے سپاہ اسلام كے ساتھ جنگ ميں شريك ہونے سے ہچكچا ہٹ كامظاہرہ كيا ليكن تردّدميں ان كى بدنيتى شامل نہيں تھى بلكہ اس كا سرچشمہ جنگ كے معاملے ميں ان كى سستى اورغفلت تھى دشمن كے ساتھ جنگ كرنے سے زيادہ انہيںاپنے درختوں اور

۲۶۹

محصولات كے ساتھ دلچسپى تھى اور يہ كہتے تھے كہ ہم كھجوريں جمع كرنے كے بعد ہى جنگ ميں شركت كريں گے _(۱۴)

تبوك كى جانب روانگي

منافقين كى ہر قسم كى رخنہ اندازى ،افترا پردازى اور منفى پروپيگنڈے كے باوجود رسول خد ا(ص) نے حضرت على (ع) كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر كرديا اورماہ رجب سنہ ۹ ہجرى قمرى كو اس عظيم لشكر كے ہمراہ جسے اس دن تك مدينہ ميں كسى كى آنكھ نے نہ ديكھا تھا شمال كا طويل اور پر مشقت راستہ اختيار كيا _

تاريخ كى بعض كتابوں ميں درج ہے(۱۵) كہ رسول خدا(ص) نے حضرت على (ع) كو مدينہ ميں اپنا جانشين اسى وجہ سے مقرر كيا كہ آنحضرت (ص) كو عربوں كى بدنيتى كے بارے ميں بخوبى علم تھا جن كے ساتھ آپ (ص) نے جنگ كى تھى اور ان كے بہت سے رشتہ داروں كو تہ تيغ كيا تھا اس كے علاوہ آپ(ص) مدينہ كے ان منافقين كى كارستانيوں سے بھى بے خبر نہ تھے جنہوں نے كوئي نہ كوئي بہانہ بناكر اس جنگ ميں شركت كرنے سے اجتناب كيا تھا اور يہ احتمال تھا كہ جب رسول خد ا(ص) كافى عرصے تك مدينہ سے باہر تشريف فرمارہيں گے تو آپ (ص) كى غير موجودگى نيز مسلمانوں كى تنہائي كا وہ غلط فائدہ اٹھانا چاہيں گے اور مدينہ پر حملہ كرديں گے ، حضرت على (ع) كى مدينہ ميں موجودگى رسول (ص) خدا كى موجود گى كى طرح دشمنوں كو خوف زدہ ركھنے ، ان كى سازشوں كو نام كام بنانے اور مركزى حكومت كى حفاظت و پاسدارى كيلئے اشد ضرورى تھي_

چنانچہ يہى وجہ تھى جب رسول خدا(ص) نے حضرت على (ع) كو اپنا جانشين مقرر كيا تو اس سلسلے ميں آپ (ع) نے فرمايا كہ :

۲۷۰

''انَّ الْمَديْنَةَ لَا تَصْلَحُ اَلَّا بيْ اَوْبكَ'' _

''مدينہ ميرے يا تمہارے بغير اصلاح پذير نہ ہوگا''_(۱۶)

سپاہ اسلام كے سامنے چونكہ اقتصادى مشكلات، راستے كى دورى ، سوارى كے جانوروں كى كافى كمي، سخت گرمي، جھلسادنے والى ہوا كى تپش جيسى مشكلات تھيں اسى لئے اس لشكر كو ''جَيشُ العُسرَة'' كے عنوان سے ياد كيا گيا ہے(۱۷) چنانچہ يہ سپاہ ان تمام سختيوں كو برداشت كرتى ہوئي ''تبوك'' نامى مقام پر پہنچ گئي مگر يہاں پہنچ كر معلوم ہوا كہ دشمن كا دور دور تك اتا پتہ نہيں گويا ہر قل كو جب اسلام كى عظیم سپاہ كى روانگى كا علم ہوا تو اس نے عافيت اسى ميں سمجھى كہ وہ پسپا ہو كر اپنے ملك كى حدود ميں چلاجائے(۱۸) ليكن سپاہ اسلام نے وسيع پيمانے پر انتہائي تيزى كے ساتھ شمالى حدود كے كنارے پہنچ كر اور بيس روز تك وہاں قيام پذير رہ كر دشمنان اسلام كو بہت سے پند آموز سبق سكھاديئے جن ميں سے چند كا ہم يہاں ذكر كريں گے_

۱_روم كى شہنشاہيت اور اسكے دست پروردہ سرحدى نگہبانوں پر اسلام كى طاقت و عظمت قطعى طور آشكار و عياں ہوگئي اور يہ حقيقت پايہ ثبوت كو پہنچ گئي كہ مسلمانوں كى عظيم عسكرى طاقت اس حد تك ہے كہ اگر دنيا كے طاقتور ترين لشكر سے بھى ٹكرلينے كى نوبت آجائے تو اس كا مقابلہ كرنے ميں انہيں ذرا بھى باك نہيں چنانچہ يہى وجہ تھى كہ لشكر اسلام كے سرزمين تبوك تك پہنچنے كى اطلاع ملتے ہى بعض سرحدى صوبوں كے فرمانروا رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور اس معاہدے كے ساتھ كہ وہ كسى طرح كا تعرض نہ كريں گے يہ بھى وعدہ كيا كہ ہر سال معقول رقم اسلامى حكومت كو بطور خراج بھى ادا كريں گے _(۱۹)

۲۷۱

۲_مدينہ و تبوك كے راستے پر ''دَوْمُة الجندلَ'' نامى محكم قلعہ(۲۰) بنا ہوا تھا جس پر ''اُكَيدَر'' نامى عيسائي بادشاہ كى حكمرانى تھى چونكہ اس كے تعلقات ہر قل كے ساتھ خوشگوار تھے اسى لئے اس كا شمار ان مراكز ميں ہوتا تھا جو مسلمانوں كيلئے خطرات پيدا كرسكتے تھے چنانچہ رسول خدا(ص) نے خالد بن وليد كو تبوك سے چار سو بيس سواروں كے ہمراہ دومة الجندل كى جانب روانہ تا كہ وہاں پہنچ كر انہيں غير مسلح كردے ، خالد نے دشمن كونہتا كرنے كے بعد اس علاقے كے فرمانروا كو گرفتار كرليا اور اسے مال غنيمت كے ساتھ لے كر رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا رسول خدا (ص) نے اسے اس شرط پر آزاد كرديا كہ وہ ''جزيہ'' ادا كرے گا_(۲۱)

۳_اس غزوہ كے باعث دين اسلام اور رسول خد ا(ص) كا نام نامى روم كے عيسائيوں كى زبان پر جارى رہنے لگا اور اس كا چرچا تازہ ترين خبر كى طرح ہر جگہ رہتا چنانچہ ميدان ايساہموار ہوگيا كہ رومى دين اسلام كو عالمى طاقت كى نظر سے ديكھنے لگے_

۴_جزيرہ نمائے عرب ميں وہ عرب و مشركين جو دين اسلام قبول كرنے كى سعادت سے محروم رہ گئے تھے اب انہيںبھى دين اسلام كى قوت كا پورى طرح اندازہ ہونے لگا تھا اور يہ بات اچھى طرح ان كى سمجھ ميں آگئي كہ جب روميوں كا طاقت ور لشكر اپنے پورے جنگى ساز وسامان كے باوجودلشكر اسلام كا مقابلہ نہ كرسكا تو ايسى زبردست طاقت كے سامنے ان كا سينہ سپر رہنا لا حاصل ہے ، ان خيالات كے پيش نظر ان قبائل نے يہ فيصلہ كرليا كہ اس سے قبل كہ رسول خدا (ص) ان كى خبر لينے كيلئے آئيں وہ خود ہى اپنے نمائندے رسول خدا (ص) كى خدمت ميں روانہ كرديں اور يا تو دين اسلام قبول كرليں اور يا پھر ايسا معاہدہ كريں جس كى رو سے وہ اسلامى حكومت كے معاملات

۲۷۲

ميں متعرض نہ ہوں گے او راسلامى حكومت كے سائے ميں ہى رہيں گے(۲۲) چونكہ بيشتر وفد غزوہ تبوك كے بعد سنہ ۹ ہجرى ميں رسول خدا (ص) كى ملاقات سے مشرف ہوئے(۲۳) اسى وجہ سے سنہ ۹ ہجرى كو ''سَنَةُ الُوفُود'' كہاجانے لگا _(۲۴)

اس كے علاوہ رومى لشكر مسلمانوں كا مقابلہ كرنے سے پہلے ہى چونكہ فرار كر گيا تھا اس لئے سپاہ كے حوصلے اس واقعے سے بہت زيادہ بلند ہوگئے چنانچہ مسلمانوں كے روم پر بعد والے حملوں پر اس كے بہت عمدہ اثرات رونما ہوئے_

پہلا تو يہى كہ : ان كے حوصلے اتنے قوى ہوگئے كہ وہ كسى بھى طاقت كو خاطر ميں نہيں لاتے تھے اور شايد اسى حوصلہ كى وجہ سے انہوں نے اپنا اسلحہ فروخت كردينا چاہا تھا كيونكہ وہ اكثر كہا كرتے تھے كہ ''اب جہاد كى ضرورت ہى باقى نہيں رہى ہے '' مگر رسول خدا (ص) نے انہيں اس اقدام سے منع فرمايا _(۲۵)

مدينہ كے رہنے والوں كو جب يہ اطلاع ملى كہ روميوں پر فتح حاصل ہوئي ہے تو وہ ايسے مسرور ہوئے كہ بقول ''بيہقي'' عورتوں ' بچوں اور نوجوانوں نے يہ ترانے گا كر لشكر اسلام كا استقبال كيا _

طَلَعَ البَدرُ عَلَينَا

من ثََنيَّات الوَدَاع

وَجَبَ الشُّكرُ عَلَينَا

مَا دَعَا للّه دَاع

اَيُّهَا المَبعُوثُ فينَا

جئتَ بالَامَر المُطَاع

''ہم پر ثنيات الوداع سے چودھويں كے چاندنے طلوع كيا جب تك كوئي دعا كرنے والا ہے' ہم پر شكر واجب ہے ، اے ہم ميں مبعوث ہونے والے نبى (ص) آپ(ص) ايسا حكم لے كر آئے ہيں جس كى اطاعت ضرورى ہے''_(۲۶)

۲۷۳

دوسرا يہ كہ : مسلمان اتنا طويل پر مشقت سفر كرنے كے باعث چونكہ اس كى مشكلات و خصوصيات سے واقف ہوگئے تھے اسى لئے مستقبل ميں شام كو فتح كرنے كا راستہ ان كے لئے ہموار ہوگيا اور شايد يہى وجہ تھى كہ رسول اكرم (ص) كى رحلت كے بعد ديگر ممالك كو فتح كرنے سے قبل مسلمان شام كو فتح كرنے كى جانب متوجہ ہوئے_

منافقوں كى رسوائي

'غزوہ تبوك '' صدر اسلام كى ديگر سب جنگوں سے زيادہ منافقين كى جولان گاہ اور ان كے خيانت كارانہ ومجرمانہ افعال كى آماجگاہ رہا چنانچہ انہوں نے جتنى بھى بداعمالياں اور بدعنوانياں كيں خداوند تعالى نے دوسرى جنگوں كے مقابل ان كے اتنے ہى برے ارادوں اور ان كے منافقانہ چہروں كو بے نقاب كيا اور شايد اسى وجہ سے اس غزوہ كو ''فَاضحَہ '' (رسوا كن )كہا گيا ہے _(۲۷)

اس سے قبل كہ سپاہ اسلام ''تبوك'' كى جانب روانہ ہو منافقين نے جو بھى خيانت كارياں كيں ان كے بعض نمونے اوپر پيش كئے جاچكے ہيں انہوں نے انہى خيانت كاريوں اور اپنى بداعماليوں پر اكتفانہ كى بلكہ جتنے عرصے تك لشكر اسلام غزوہ تبوك پر رہا ان كے سازشيں بھى جارى رہيں چنانچہ ذيل ميں ہم اس كے چند نمونے پيش كريں گے_

۱_منافقين كے ايك گروہ نے ''سُويلم'' نامى يہودى كے گھر پر ميٹنگ كى جس ميں انہوں نے اس مسئلے پر غور وفكر كيا كہ جنگى امور اور لشكر كى روانگى ميں كس طرح خلل اندازى كى جائے چنانچہ جب رسول خدا (ص) كو ان كے ارادے كا علم ہوا تو آنحضرت (ص) نے چند لوگوں كو اس كے گھر كى طرف روانہ كيا جنہوں نے اسے نذر آتش كرديا(۲۸) _

۲۷۴

۲_جس وقت سپاہ اسلام نے ''ثينة الوداع'' نامى جگہ پر پڑاؤ كيا تو منافقين كے سردار عبداللہ ابن ابى نے اپنے ساتھيوں اور يہودى حليفوں كے ہمراہ كوہ ''ذباب'' كے كنارے اپنا خيمہ لگايا اور رسول خد ا(ص) كے خلاف اس طرح زہر اگلنا شروع كيا_

''محمد(ص) كو روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كى سوجھى ہے اور وہ بھى اس جھلس دينے والى گرمى ميں اور اتنى دور جاكر_ ادھر سپاہ اسلام كا يہ حال ہے كہ اس ميں جنگ كرنے كى ذرا بھى تاب نہيں ، روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كواس نے كھيل تماشا سمجھ ركھا ہے مجھے تو ابھى يہ نظر آرہا ہے كہ محمد (ص) كے جتنے بھى ساتھى ہيں سب ہى كل قيدى ہوں گے اور سب كى مشكيں كسى ہوئي نظر آئيں گي''_

وہ اپنى اس خيانت كارانہ گفتار اور بدكردارى سے چاہتا تھا كہ مسلمانوں كے حوصلے پست كردے اور انہيں اس جہاد مقدس پر جانے سے باز ركھے ، مگر اس كہ يہ نيرنگى وحيلہ گرى كارگر ثابت نہ ہوئي اور بہت ہى ياس و نااميدى كى حالت ميں مدينہ پہنچا_(۲۹)

۳_سپاہ اسلام كى تبوك كى جانب روانگى اور حضرت على (ع) كے مدينہ ميں قيام سے منافقوں كو اپنى تمام كوششيں ناكام ہوتى نظر آئيں چنانچہ اب وہ اس فكر ميں رہنے لگے كہ كس طرح ايسا ماحول پيدا كريں اور اس قسم كى افواہيں پھيلاديں كہ حضرت على (ع) مركزى حكومت سے دور چلے جائيں تاكہ رسول خدا(ص) اور حضرت على (ع) كى غير موجودگى ميں پورے اطمينان كے ساتھ اپنى سازشوں كو عملى جامہ پہناسكيں_

حضرت على (ع) نے جب يہ افواہيں سنيں كہ رسول خدا (ص) آپ(ع) كو اپنى سرد مہرى اور بے توجہى كى وجہ سے محاذ جنگ پر لے كر نہيں جارہے ہيں تو آپ (ع) نے رسول خدا(ص) كى خدمت ميں

۲۷۵

حاضر ہوكر تمام واقعات آنحضرت (ص) كے سامنے بيان كئے جنہيں سن كر رسول خدا(ص) نے فرمايا كہ :

''يہ لوگ جھوٹ بول رہے ہيں ميں تو تمہيں اس وجہ سے چھوڑ كر آيا ہو كہ وہاں جو كچھ ہے تم اس كى حفاظت و نگہبانى كرو كيا تمہيں يہ بات پسند نہيں ہے كہ تم ميرے لئے ايسے ہى ہو جيسے موسى (ع) كے لئے ہارون (ع) تھے ، فرق صرف يہ ہے كہ ميرے بعد نبوت كا سلسلہ ختم ہو جائے گا''_

اس كے بعد رسول خدا (ص) نے حضرت على (ع) سے ارشاد فرمايا كہ : ''آپ (ع) واپس مدينہ چلے جائيں اوراپنے خاندان اور '' دار الہجرة '' ميں آنحضرت (ص) كے جانشين كى حيثيت سے ساتھ مقيم رہيں _(۳۰)

۴_سپاہ اسلام كے خوف سے لشكر روم كے فرار نيز ان فتوحات كے باعث جو آنحضرت (ص) كو ''تبوك'' ميں مقيم رہنے كى دوران حاصل ہوئيں ، منافقين كا حسد و كينہ پہلے سے كہيں زيادہ بڑھ گيا اسى لئے جس وقت سپاہ اسلام تبوك سے واپس آرہى تھى تو ان منافقين نے نہايت ہى خطرناك چال چلنے كا فيصلہ كيا ، ان كى سازش يہ تھى كہ جب رسول خدا(ص) رات كى تاريكى ميں بلند درے سے گذريں گے تو منافقين ميں سے دس بارہ آدمى(۳۰) آنحضرت (ص) كى گھات ميں بيٹھ رہیں تاكہ جيسے ہى آپ (ص) كى سوارى كا اونٹ اس راستے سے گذرے تواسے بھڑكاديں اور آنحضرت (ص) اس گہرے درے ميں گر كر مارے جائيں_

ليكن خداوندتعالى نے آنحضرت (ص) كو ان كى سازش سے آگاہ كرديا چنانچہ جب منافقين نے يہ ديكھا كہ رسول خدا(ص) كو ان كى سازش كا علم ہوگيا ہے تو وہ وہاں سے فرار ہوگئے

۲۷۶

اور اپنے ساتھيوں سے جاملے اگر چہ رسول خدا(ص) نے ان سب كو پہچان ليا تھا اور صحابہ نے بھى انہيں قتل كر نے پر اصرار كيا تھامگر رسول خدا(ص) نے انہيں معاف كرديا _(۳۲)

۵_منافقين اپنے جرائم كى پردہ پوشى كرنے كيلئے ہميشہ اس بات كى كوشش كرتے كہ انہيں دين كا لبادہ پہنائے رہيں ، مذہب كے پردے ميں اپنے ان مجرمانہ افعال كو جارى ركھنے كيلئے انہوں نے محلہ''قبا'' ميں مسجد كے نام سے ايك سازشى مركز قائم كيا تاكہ وہاں سے اپنى سياسى سرگرميوں كو جارى ركھ سكيں ، رسول خدا (ص) كى تبوك كى طرف روانگى سے پہلے انہوں نے مسجد كى تعمير شروع كى اور رسول خد ا(ص) اس كے بارے ميں مطلع بھى ہوئے اور جس وقت آنحضرت (ص) واپس تشريف لارہے تھے تو مدينہ كے نزديك قاصد غيب وحى لے كر نازل ہوا اور آيات قرآنى كے ذريعہ مسجد بنانے والوں كے گمراہ كن ارادوں سے مطلع كرديا(۳۲) رسول خد ا(ص) نے حكم صادر فرمايا كہ اس مسجد كو آگ لگا كر خاكستر كرديں اور جو كچھ وہاں ہے اسے تباہ و برباد كرديں اور اس جگہ كو گندگى كے ڈھير كے طور پر استعمال كريں_(۳۴)

غزوہ تبوك ميں مسلمانوں كى فتح اس جنگ كے بارے ميں منافقين كے تمام تجزيوں اور اندازوں كا بطلان، جنگ كے دوران ان كى سازشوں كى ناكامى ، مسجد ضرار كى ويرانى ، اسلام دشمن عناصر كے چہروں پر سے ريا او رنفاق كى نقاب كشائي اور آيات قرآنى(۳۵) ميں ان كى خصوصيات كى نشاندہى كے باعث كفر كے پيكر پر پے در پے ايسى سخت ضربات لگيں كہ اس كا سر كچل كر رہ گيا اور وہ خيانت كار خطرناك گروہ جو اسلامى معاشرے ميں پل رہا تھا منہ كے بل گرا اور وہ لوگ جو محاذ نفاق كى جانب رسول خدا (ص) كے خلاف نبرد آزمائي كر رہے تھے سخت مايوسى و نا اميدى كے شكار ہوئے

۲۷۷

چنانچہ مسلسل ناكاميوں اور نامراديوں كا ہى نتيجہ تھا كہ منافقين كا سرغنہ ''عبداللہ بن ابى '' غزوہ تبوك كے ايك ماہ بعد ہى بيمار پڑگيا اور غموں ميں گھل گھل كر مرگيا_(۳۶)

مشركين سے بيزاري

سنہ ۹ ہجرى كے اواخر ميں زمانہ حج كے شروع ہونے سے قبل قاصد پيغام وحى نے سورہ توبہ كى چند ابتدائي آيات رسول خد ا(ص) كو پڑھ كر سنائيں ان آيات ميں خدا اور رسول خدا (ص) كى مشركين سے بيزارى ، مسلمانوں كے ساتھ ان سے قطع تعلق اور ان معاہدوں كو منسوخ كرنے كى ہدايت كى گئي جو مسلمانوں نے ان كے ساتھ كئے تھے _

حضرت رسول خدا (ص) نے پہلے تو حضرت ابوبكر كو امير حج مقرر كركے انہيں يہ ہدايت فرمائي كہ مشركين تك سورہ توبہ كى آيات پہنچاديں ليكن جب وہ روانہ ہوگئے تو دوبارہ فرشتہ وحى نازل ہوا اور يہ پيغام سنايا كہ اس كام كو پيغمبر خدا (ص) يا خاندان رسالت كے كسى فرد كے علاوہ كوئي دوسرا فردانجام نہيں دے سكتا(۳۷) چنانچہ رسول خدا (ص) نے حضرت على (ع) كو بلايا اورانہيں مشركين تك ان آيات كو پہنچانے كى ذمہ دارى سونپي_

حضرت على (ع) راستے ميں ہى حضرت ابوبكر سے جاملے اور ان سے فرمايا كہ يہ آيات مجھے ديں ، حضرت على (ع) مذكورہ آيات كو لے كر خود مكہ كى جانب روانہ ہوئے جب مناسك حج كا زمانہ آگيا تو آپ (ع) نے مسلمانوں اور كفار كے مجمع كثير ميں آيات تلاوت فرمائيں اور اس كے ساتھ ہى رسول خد ا(ص) كا پيغام بھى پہنچاديااس پيغام ميں جو باتيں كہى گئي تھيں وہ يہ ہيں كہ :

۱_كافر جنت ميں داخل نہ ہوں گے_

۲۷۸

۲_آئندہ مشركين كو مكہ ميں داخل ہونے اور مناسك حج ادا كرنے كى اجازت نہيں دى جائے گي_

۳_آئندہ كسى شخص كو يہ اجازت نہيں ہوگى كہ وہ برہنہ خانہ كعبہ كا طواف كرے_

۴_جن لوگوں نے رسول خد ا(ص) سے كوئي معاہدہ كيا ہوا ہے وہ تو مدت معينہ تك معتبر و قابل عمل ہے ليكن جن كے ساتھ كوئي معاہدہ نہيں كيا گيا ہے انہيں چار ماہ كى مہلت دى جاتى ہے كہ وہ اس عرصے ميں اپنے معاہدے كے بارے ميں غور كريں اور جب يہ عرصہ گزر جائے تو كسى بھى مشرك كے ساتھ عہدو پيمان نہ كياجائے گا_(۳۸)

رسول (ص) خدا نے جو يہ صريح و قطعى اقدام كيا اس كى شايد وجہ يہ تھى كہ اس وقت سے جب كہ يہ پيغام مشركين كو پہنچايا گيا نزول رسالت تك تقريباً بائيس(۲۲) سال كا عرصہ گزر چكا تھا اور اس طوي-ل عرصے ميں رسول خد ا(ص) كى تمام تر سعى و كوشش يہ رہى كہ مشركين راہ راست پر آجائيں چنانچہ اس كے بعد كسى شك كى گنجائشے نہيں رہتى كہ بت پرستوں كے شرك اور پيغمبر اكرم (ص) كے ساتھ جنگ و جدال كى اصل وجہ ان كى ضد اور ذاتى دشمنى تھى اور اب اس چيز كى سخت ضرورت تھى كہ اسلامى معاشرہ جس قدر جلد ہوسكے ايسے عناصر سے پاك ہوجائے اگر كسى زمانے ميں پيغمبر اكرم (ص) نے سياسى حالات كے تحت مجبور ہوكر مشركين كے ساتھ معاہدہ صلح كياتھا تو اب جبكہ تمام علاقہ دين اسلام كے تحت اثر آچكا تھا اور اس نے صرف اندرونى ہى نہيں بلكہ بيرونى محاذوں پر بھى عظيم ترين فتح حاصل كرلى تھى آنحضرت(ص) كے لئے ايسے عناصر كو اسلامى معاشرے كے اندر برداشت كرنا ضرورى نہيں تھا جو توہمات و خرافات اور خلل اندازى كے پردے ميں زمين پر فساد بپا كئے رہيں ، انہيں چار ماہ كى مہلت اس لئے دى گئي تھى كہ انہيں اپنے بارے ميں سوچنے كيلئے كافى وقت مل سكے اور اپنے توہمات

۲۷۹

وخرافات سے دست بردار ہونے كے بارے ميں غور وفكر كرسكيں_

رسول خد ا(ص) كا قطعى فيصلہ' سورہ توبہ كى آيات كا نزول اور مشركين كے مقابل رسول خد ا(ص) كے جرا تمندانہ مگر انسان دوستى پر مبنى اقدام بالخصوص چار ماہ كى مہلت، اس امر كے باعث ہوئے كہ وہ اپنے بارے ميں سوچيں اور موقع سے فائدہ اٹھائيں ، اس كے ساتھ ہى دين اسلام كى آسمانى تعليمات اور اپنے خرافات مبنى طور پر طريقے كے بارے ميں غورو فكر كرنے كے بعد دين اسلام كى آغوش ميں چلے جائيں _

۲۸۰