تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي18%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139839 / ڈاؤنلوڈ: 4393
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

كے وقت جبكہ مطلع صاف و روشن نہيں تھا دشمن كا اچانك حملہ وغيرہ ايسے عوامل تھے جن كے باعث مسلمانوں میں يہ قوت فيصلہ سلب ہو گئي كہ وہ كيا اقدام كريں_

ب:آخرى فتح

۱_ غيبى مدد اور خداوند تعالى كى طرف سے نصرت و كاميابى _اس كے بارے میں قرآن مجيد كا ارشاد ہے

( ثُمَّ أَنزَلَ الله ُ سَكينَتَهُ عَلى رَسُوله وَعَلَى المُؤمنينَ وَأَنزَلَ جُنُودًا لَم تَرَوهَا وَعَذَّبَ الَّذينَ كَفَرُوا وَذَلكَ جَزَائُ الكَافرينَ ) (۴۸)

'' پھر اللہ نے اپنا سكون اپنے رسول(ص) پر اور مومنين پر نازل فرمايا اور وہ لشكر اتارے جو تم كو نظر نہ آتے تھے اور منكرين حق كو سزا دى كہ يہى بدلہ ہے ان لوگوں كے لئے جو حق كا انكار كرتے ہيں '' _

۲_ رسول خدا(ص) ،حضرت على (ع) اور ديگر ايثار پسند اور جان نثار مردوں نيز عورتوں كى ميدان كا رزار ميں پائدارى ، اس كے ساتھ ہى ميدان جنگ ميں رسول خدا(ص) كا سپاہ كو واپسبلانا اور انھيں از سر نو منظم كرنا _

۳_ حضرت على (ع) كے ہاتھوں دشمن كے پر چمدار اور ديگر مسلمانوں كے ہاتھوں دشمن كے سردار '' دُرَيدبن صَمَّہ،، كا قتل كيا جانا _

۲۶۱

سوالات

۱_'' صلحنامہ حديبيہ ،، كى شرائط كے مطابق رسول خدا(ص) كو قريش كے ساتھ دس سال تك جنگ نہيں كرنى چاہئے تھى _ آنحضرت(ص) نے كس وجہ سے دو سال بعد ہى مكہ پر لشكر كشى كر دى ؟

۲_ رسول خدا(ص) نے جب مكہ پر لشكر كشى كى تو اس مہم كو قريش سے پوشيدہ ركھنے كيلئے آنحضرت(ص) نے كيا اقدامات كئے ؟

۳_ رسول خدا(ص) نے مكہ كے نزديك پہنچنے كے بعد خونريزى اور قريش كے ساتھ تصادم كو روكنے كيلئے كيا اقدامات كئے ؟

۴_ رسول خدا(ص) نے مكہ كو فتح كرنے كے بعد جب مشركين كو قيد كر ليا تو آنحضرت(ص) نے ان كے ساتھ كيا سلوك كيا ؟ اور آپ(ص) كے روےے كا ان پر كيا اثر ہوا ؟

۵_ غزوہ حنين كا كب اور كس طرح آغاز ہوا ؟

۶_ غزوہ حنين كى ابتدا میں مسلمانوں كے شكست كا كيا سبب تھا ؟

۷_ فتح حاصل كرنے كيلئے رسول خدا(ص) اور حضرت على (ع) كا كيا كردار رہا ؟ اس كى وضاحت كيجئے_

۸_ غزوہ حنين میں مسلمانوں كو ابتدا ء میں شكست ہوئي اور بعد میں فتح و نصرت سے ہمكنار ہوئے قرآن مجيد نے ان واقعات كا كس طرح تجزيہ كيا ہے ؟_

۲۶۲

حوالہ جات

۱_ المغازى ج۲صفحہ۷۹۶ _

۲_ السيرة النبويہ ج ۴ صفحات ۴۰_۴۱ _

۳_ المغازى ج۲ صفحات ۸۰۱ _۸۱۴_

۴_ بعض كتب تاريخ میں يہ آيا ہے كہ ابو سفيان كے ساتھى اسى جگہ سے واپس چلے گئے اور صرف ابوسفيان كو رسول خدا(ص) كى خدمت میںحاضر كيا گيا (السيرة النبويہ ابن ہشام ج۴ صفحہ ۴۵) _

۵_ المغازى ج۲ صفحات ۸۱۴ _۸۱۵ _

۶_ايضا صفحات ۸۱۸_۸۲۱ _

۷_ ۸_السيرة النبويہ ابن ہشام ج۴ صفحات ۴۶_۴۷ _

۹و ۱۰_ المغازى ج۲ صفحہ ۸۲۵ _

۱۱_ ملاحظہ ہو : اعيان الشيعہ ج۱صفحہ ۴۰۹ _

۱۲_ المغازى ج۲ صفحہ ۸۳۵ _

۱۳_ سورہ يوسف آيت۹۲ _

۱۴_ المغازى ج۲ صفحہ ۸۳۵_

۱۵و ۱۶_تاريخ طبرى ج۳ صفحہ ۶۱ _

۱۷_سورہ نصر آيت۲ _

۱۸_ ملاحظہ ہو : تفسير الميزان ج۲۰ صفحہ ۳۷۶ _

۱۹_ ملاحظہ ہو :المغازى ج۳ صفحہ ۸۷۳ والسيرة النبويہ ج۴ صفحہ ۷۰ _

۲۰_ ملاحظہ ہو : المغازى ج۲ صفحہ ۸۲۵_

۲۱_ ملاحظہ ہو : تاريخ طبرى ج۳ صفحہ ۶۰ _

۲۲_ المغازى ج۲ صفحات ۸۲۱' ۸۲۲ _

۲۳_ ملاحظہ ہو '' كتاب رسول اكرم(ص) ميدان جنگ میں،، ترجمہ سيد غلام رضا سعيدى ص ۱۴۸

۲۶۳

۲۴_ ملاحظہ ہو : بحار الانوار ج۲۱صفحہ ۱۴۵ _

۲۵ _ دور جاہليت ميں '' ذوالمجاز'' عربوں كا مشہور بازار تھا يہ جگہ اس بازار كے قريب مكہ و طائف كے درميان واقع تھى البتہ يہ جگہ مكے كى نسبت طائف سے نزديك تر ہے اور يہاں سے مكے كا فاصلہ تين راتوں میں طے ہوتا تھا ملاحظہ ہو : التنبيہ و الاشراف ص۲۳۴ و معجم البدان ج۲صفحہ ۳۱۳ _

۲۶_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۶۲ والارشاد مفيد ص ۷۴_

۲۷_تاريخ طبرى ج ۳ ص ۷۴_

۲۸_السيرة النبويہ، ابن ہشام ج ۴ ص ۸۵_

۲۹_الارشاد مفيد ۷۶_

۳۰_المغازى ج ۳ ص ۹۰۲_

۳۱_السيرة النبويہ' ابن كثير ج ۳ ص ۶۲۰_

۳۲_ملاحظہ ہو : الارشاد ص ۷۵ و تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۶۳_

۳۳_ملاحظہ ہو : الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۵۲ و تفسير المنارج ۱۰ ص ۲۵۸_

۳۴_الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۵۱_

۳۵_يہ كنويں كا نام تھا جو مكہ اور طائف كے درميان واقعہ تھا البتہ مكے سے زيادہ نزديك تھا معجم البلدان ج ۲ ص ۱۴۲ ' اس كنويں كا نام جعرَّانہ بھى لكھا گيا ہے_

۳۶_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۹۲۷ تاريخ طبرى ج ۳ ص ۸۳_

۳۷_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۹۳۶_ ۹۳۷و تاريخ طبرى ج ۳ ص ۸۴_

۳۸_بعض كتب تاريخ ميں درج ہے كہ رسول خدا(ص) نے يہ محاصرہ اول ماہ ذى القعدہ تك جارى ركھا ملاحظہ ہو بحارالانوار ج ۲۱ ص ۱۸۱ ، اور يہ قول اس بنا پركہ جنگ حنين بتاريخ دہم شوال واقعہ ہوئي (المغازى ج ۳ ص ۸۹۲)حقيقت كے زيادہ نزديك ہے_

۳۹_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۱۸۲_ يہاں يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ چند قيديوں نے فديہ ادا كركے بھى آزادى حاصل كى تھي_

۲۶۴

۴۰_ملاحظہ ہو: الارشاد ص ۷۶_

۴۱_الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۵۳_

۴۲_ملاحظہ ہو : الارشاد ص ۷۶_ ۷۷ رسول خدا(ص) كے اس اقدام ميں شايد يہ نقطہ پنہاں تھا كہ مكہ كے تازہ مسلمان بالخصوص ان كے سرداروں ميں عقل وبصيرت نہ تھى بلكہ وہ خوف و مجبورى كى وجہ سے مسلمان ہوئے تھے اسى لئے پيغمبر اكرم (ص) پر ان كى دلجوئي كرنا ضرورى تھى تاكہ ان كے دل اسلام كى جانب زيادہ مائل ہو جائيں فقہ اسلامى ميں اس عمل كو'' تاليف قلوب ''كہا جاتا ہے اور اس كا شمار مصارف زكات ميں ہوتا ہے_

۴۳_المختصر فى اخبار البشر تاريخ ابوالفداء ج ۱ ص ۱۴۸_

۴۴_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۸۹۰ والطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۵۰_

۴۵_سورہ توبہ آيت ۲۵_

۴۶_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۸۹۷_

۴۷_ملاحظہ ہو : تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۶۲_

۴۸_سورہ توبہ آيت ۲۶_

۲۶۵

سبق ۱۵:

غزوہ تبوك

۲۶۶

غزوہ تبوك(۱)

جزيرہ نما ئے عرب ميں مشرك كے عظيم ترين مركز كى شكست اور تسخير كے ساتھ ہى حجاز كے سرداروں نے بھى رسول خد ا(ص) كے سامنے سر تسليم خم كرديا اور اس طرح جب ملك كى شمالى حدود ميں دين اسلام كى اشاعت كے امكانات زيادہ ہوگئے تو رومى حكومت كے ايوانوں ميں وحشت و اضطراب كے باعث لرزہ پيدا ہونے لگا اس كى عظیم ترين عسكرى طاقت چونكہ انتہائي مرتب ومنظم تھى اور جنگوں ميں اپنے طاقتور حريف يعنى ملك ايران پر وہ پے در پے فتوحات حاصل كرچكا تھا اسى لئے اسے اپنى طاقت پر ناز و غرور تھا چنانچہ اس طاقت كے زعم ميں اس نے فيصلہ كرليا كہ اپنے اس مسلح و منظم لشكر كے ساتھ مسلمانوں پر حملہ كردے_

رسول خدا (ص) كو علم ہوگيا كہ شہنشاہ روم ''ہرقل'' نے عظیم لشكر جمع كرليا ہے اور فوجيوں كو انكى ايك سال كى تنخواہ پيشگى ادا كردى ہے ، اس كے ساتھ ہى اس نے سرحدوں پر واقع ''لخم'' ، ''جذام''، ''غسان'' اور ''عاملہ'' نامى علاقے كے لوگوں كو بھى اپنے ساتھ ملا ليا ہے نيز اس كا ہر اول دستہ ''بلقائ(۲) '' تك آن پہنچا ہے(۳) _

رسول خد ا(ص) كو جب يہ اطلاع ملى تو اس وقت موسم انتہائي گرم تھا اور كھجور پك كر اتارنے كے قابل ہوچكى تھى ايك طرف راستے كى دورى اور دوسرى طرف سپاہ روم كى كثرت ايسے عوامل تھے جن كے باعث سپاہ كو روانہ كرنا سخت دشوار كام تھا بالخصوص ان واقعات كو مد نظر ركھتے ہوئے جو معركہ موتہ كے موقع پر پيش آچكے تھے ليكن ان لوگوں كيلئے جو واقعى مسلمان

۲۶۷

تھے اسلام كى قدر وقيمت ذاتى آسائشے و آرام اور مادى منفعت سے كہيں زيادہ تھى ا ور وہ اسلام كى فلاح كى خاطر ان كو نظر انداز كرسكتے تھے چنانچہ اس خےال كے پيش نظر رسول خدا (ص) نے صحابہ كو جمع كيا اور مختصر طور پر دشمن كے استعداد اور اس كى عسكرى بالادستى كے بارے ميں مطلع كيا اس كے ساتھ ہى آنحضرت (ص) نے لشكر كى تيارى اورر وانگى كے لئے سعى وكوشش شروع كردى(۴) چنانچہ قبائل كے درميان اور مكہ كى جانب رسول خدا (ص) كے نمائندے روانہ كئے گئے تاكہ وہ لوگوں كو مقدس جہاد ميں شركت كى دعوت ديں_(۵)

ناسازگار حالات كے باوجود تيس ہزار جنگجو سپاہيوں نے جن ميں دس ہزار سوار بھى تھے رسول خدا (ص) كى پكار پر لبيك كہا_(۶)

رسول خدا (ص) نے جنگ كے اخراجات كيلئے مالدار لوگوں سے كہا كہ سپاہ كى مال و اسلحہ كے ذريعے مدد كريں(۷) اس كے علاوہ جب پيغمبر خدا (ص) كى طرف سے يہ اعلان كرديا گيا كہ اس سفر كا مقصد كيا ہے تو مسلمان اس اسلحہ اور ساز و سامان كے ساتھ جو ان كے پاس تھا اسے لے كر بير كوںميں جمع ہوگئے _

رسول خد ا(ص) كے فرمان پر لوگوں كے مختلف موقف

جب ہم تاريخ كى كتابوں كے صفحات اور ان آيات پر نظر ڈالتے ہيں جو اس سلسلے ميں نازل(۸) ہوئي ہيں تو ہم ديكھتے ہيں كہ اس غزوہ كے بارے ميں مسلمانوں كے افكار و نظريات مختلف و گوناگوں تھے جس كى كيفيت ذيل ميں درج ہے_

۱_خاص مو من افرادكو (اور اكثريت ان ہى پر مشتمل تھى) جيسے ہى رسول خدا (ص) كى دعوت كا علم ہوا تو اس ساز وسامان كے ساتھ جوان كے پاس موجود تھا رسول خدا (ص) كى سپاہ ميں

۲۶۸

شامل ہوگئے_

۲_ايك گروہ ايسا بھى تھا جو رسول خد ا(ص) كے ساتھ جانا تو چاہتا تھا مگر اس كے پاس سوارى كے جانور نہ تھے چنانچہ انہوں نے رسول خدا (ص) سے كہا كہ اگر سوارى كا بندوبست ہو جائے تو وہ چلنے كو تيار ہيں ليكن جب رسول خد ا(ص) نے كہا كہ سوارى كے جانور كا فراہم كرنا تو ممكن نہيں تو ان كى آنكھوںميں آنسو آگئے اور وہ اشك بار اپنے اپنے گھروں كى طرف واپس چلے گئے _(۹)

۳_كچھ لوگ ايسے بھى تھے جنہوں نے نہ فقط يہ كہ فرمان رسول (ص) كے سامنے سر نہيں جھكايا بلكہ سپاہ كى روانگى ميں جس حد تك ممكن ہوسكتا تھا خلل اندازى سے بھى باز نہ آئے چنانچہ وہ مجاہدين جو جنگ ميں شركت كرنا چاہتے تھے ان سے يہ لوگ كہتے تھے كہ : اس سخت گرمى ميں جنگ پر مت جائو(۱۰) اس كے علاوہ جو لوگ ان مجاہدين كو مالى مدد دينا چاہتے تھے تو ان كا بھى يہ لوگ مذق اڑاتے(۱۱) كسى پر ريا كا رہونے كا الزام لگا تے اور كسى كى يہ كہہ كر حوصلہ شكنى كرتے كہ تمہارے پاس سامان سفر بہت كم ہے جنگ پر جاكر كيا كرو گے(۱۲)

۴_ كچھ لوگ ايسے بھى آرام طلب تھے جو جنگ سے فرار كرنے كى غرض سے رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوتے اور كوئي بے بنياد بہانہ تراش كر آنحضرت (ص) سے يہ درخواست كرتے كہ انہيں مدينہ ميں ہى رہنے ديا جائے(۱۳) _

۵_ بعض نے سپاہ اسلام كے ساتھ جنگ ميں شريك ہونے سے ہچكچا ہٹ كامظاہرہ كيا ليكن تردّدميں ان كى بدنيتى شامل نہيں تھى بلكہ اس كا سرچشمہ جنگ كے معاملے ميں ان كى سستى اورغفلت تھى دشمن كے ساتھ جنگ كرنے سے زيادہ انہيںاپنے درختوں اور

۲۶۹

محصولات كے ساتھ دلچسپى تھى اور يہ كہتے تھے كہ ہم كھجوريں جمع كرنے كے بعد ہى جنگ ميں شركت كريں گے _(۱۴)

تبوك كى جانب روانگي

منافقين كى ہر قسم كى رخنہ اندازى ،افترا پردازى اور منفى پروپيگنڈے كے باوجود رسول خد ا(ص) نے حضرت على (ع) كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر كرديا اورماہ رجب سنہ ۹ ہجرى قمرى كو اس عظيم لشكر كے ہمراہ جسے اس دن تك مدينہ ميں كسى كى آنكھ نے نہ ديكھا تھا شمال كا طويل اور پر مشقت راستہ اختيار كيا _

تاريخ كى بعض كتابوں ميں درج ہے(۱۵) كہ رسول خدا(ص) نے حضرت على (ع) كو مدينہ ميں اپنا جانشين اسى وجہ سے مقرر كيا كہ آنحضرت (ص) كو عربوں كى بدنيتى كے بارے ميں بخوبى علم تھا جن كے ساتھ آپ (ص) نے جنگ كى تھى اور ان كے بہت سے رشتہ داروں كو تہ تيغ كيا تھا اس كے علاوہ آپ(ص) مدينہ كے ان منافقين كى كارستانيوں سے بھى بے خبر نہ تھے جنہوں نے كوئي نہ كوئي بہانہ بناكر اس جنگ ميں شركت كرنے سے اجتناب كيا تھا اور يہ احتمال تھا كہ جب رسول خد ا(ص) كافى عرصے تك مدينہ سے باہر تشريف فرمارہيں گے تو آپ (ص) كى غير موجودگى نيز مسلمانوں كى تنہائي كا وہ غلط فائدہ اٹھانا چاہيں گے اور مدينہ پر حملہ كرديں گے ، حضرت على (ع) كى مدينہ ميں موجودگى رسول (ص) خدا كى موجود گى كى طرح دشمنوں كو خوف زدہ ركھنے ، ان كى سازشوں كو نام كام بنانے اور مركزى حكومت كى حفاظت و پاسدارى كيلئے اشد ضرورى تھي_

چنانچہ يہى وجہ تھى جب رسول خدا(ص) نے حضرت على (ع) كو اپنا جانشين مقرر كيا تو اس سلسلے ميں آپ (ع) نے فرمايا كہ :

۲۷۰

''انَّ الْمَديْنَةَ لَا تَصْلَحُ اَلَّا بيْ اَوْبكَ'' _

''مدينہ ميرے يا تمہارے بغير اصلاح پذير نہ ہوگا''_(۱۶)

سپاہ اسلام كے سامنے چونكہ اقتصادى مشكلات، راستے كى دورى ، سوارى كے جانوروں كى كافى كمي، سخت گرمي، جھلسادنے والى ہوا كى تپش جيسى مشكلات تھيں اسى لئے اس لشكر كو ''جَيشُ العُسرَة'' كے عنوان سے ياد كيا گيا ہے(۱۷) چنانچہ يہ سپاہ ان تمام سختيوں كو برداشت كرتى ہوئي ''تبوك'' نامى مقام پر پہنچ گئي مگر يہاں پہنچ كر معلوم ہوا كہ دشمن كا دور دور تك اتا پتہ نہيں گويا ہر قل كو جب اسلام كى عظیم سپاہ كى روانگى كا علم ہوا تو اس نے عافيت اسى ميں سمجھى كہ وہ پسپا ہو كر اپنے ملك كى حدود ميں چلاجائے(۱۸) ليكن سپاہ اسلام نے وسيع پيمانے پر انتہائي تيزى كے ساتھ شمالى حدود كے كنارے پہنچ كر اور بيس روز تك وہاں قيام پذير رہ كر دشمنان اسلام كو بہت سے پند آموز سبق سكھاديئے جن ميں سے چند كا ہم يہاں ذكر كريں گے_

۱_روم كى شہنشاہيت اور اسكے دست پروردہ سرحدى نگہبانوں پر اسلام كى طاقت و عظمت قطعى طور آشكار و عياں ہوگئي اور يہ حقيقت پايہ ثبوت كو پہنچ گئي كہ مسلمانوں كى عظيم عسكرى طاقت اس حد تك ہے كہ اگر دنيا كے طاقتور ترين لشكر سے بھى ٹكرلينے كى نوبت آجائے تو اس كا مقابلہ كرنے ميں انہيں ذرا بھى باك نہيں چنانچہ يہى وجہ تھى كہ لشكر اسلام كے سرزمين تبوك تك پہنچنے كى اطلاع ملتے ہى بعض سرحدى صوبوں كے فرمانروا رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور اس معاہدے كے ساتھ كہ وہ كسى طرح كا تعرض نہ كريں گے يہ بھى وعدہ كيا كہ ہر سال معقول رقم اسلامى حكومت كو بطور خراج بھى ادا كريں گے _(۱۹)

۲۷۱

۲_مدينہ و تبوك كے راستے پر ''دَوْمُة الجندلَ'' نامى محكم قلعہ(۲۰) بنا ہوا تھا جس پر ''اُكَيدَر'' نامى عيسائي بادشاہ كى حكمرانى تھى چونكہ اس كے تعلقات ہر قل كے ساتھ خوشگوار تھے اسى لئے اس كا شمار ان مراكز ميں ہوتا تھا جو مسلمانوں كيلئے خطرات پيدا كرسكتے تھے چنانچہ رسول خدا(ص) نے خالد بن وليد كو تبوك سے چار سو بيس سواروں كے ہمراہ دومة الجندل كى جانب روانہ تا كہ وہاں پہنچ كر انہيں غير مسلح كردے ، خالد نے دشمن كونہتا كرنے كے بعد اس علاقے كے فرمانروا كو گرفتار كرليا اور اسے مال غنيمت كے ساتھ لے كر رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا رسول خدا (ص) نے اسے اس شرط پر آزاد كرديا كہ وہ ''جزيہ'' ادا كرے گا_(۲۱)

۳_اس غزوہ كے باعث دين اسلام اور رسول خد ا(ص) كا نام نامى روم كے عيسائيوں كى زبان پر جارى رہنے لگا اور اس كا چرچا تازہ ترين خبر كى طرح ہر جگہ رہتا چنانچہ ميدان ايساہموار ہوگيا كہ رومى دين اسلام كو عالمى طاقت كى نظر سے ديكھنے لگے_

۴_جزيرہ نمائے عرب ميں وہ عرب و مشركين جو دين اسلام قبول كرنے كى سعادت سے محروم رہ گئے تھے اب انہيںبھى دين اسلام كى قوت كا پورى طرح اندازہ ہونے لگا تھا اور يہ بات اچھى طرح ان كى سمجھ ميں آگئي كہ جب روميوں كا طاقت ور لشكر اپنے پورے جنگى ساز وسامان كے باوجودلشكر اسلام كا مقابلہ نہ كرسكا تو ايسى زبردست طاقت كے سامنے ان كا سينہ سپر رہنا لا حاصل ہے ، ان خيالات كے پيش نظر ان قبائل نے يہ فيصلہ كرليا كہ اس سے قبل كہ رسول خدا (ص) ان كى خبر لينے كيلئے آئيں وہ خود ہى اپنے نمائندے رسول خدا (ص) كى خدمت ميں روانہ كرديں اور يا تو دين اسلام قبول كرليں اور يا پھر ايسا معاہدہ كريں جس كى رو سے وہ اسلامى حكومت كے معاملات

۲۷۲

ميں متعرض نہ ہوں گے او راسلامى حكومت كے سائے ميں ہى رہيں گے(۲۲) چونكہ بيشتر وفد غزوہ تبوك كے بعد سنہ ۹ ہجرى ميں رسول خدا (ص) كى ملاقات سے مشرف ہوئے(۲۳) اسى وجہ سے سنہ ۹ ہجرى كو ''سَنَةُ الُوفُود'' كہاجانے لگا _(۲۴)

اس كے علاوہ رومى لشكر مسلمانوں كا مقابلہ كرنے سے پہلے ہى چونكہ فرار كر گيا تھا اس لئے سپاہ كے حوصلے اس واقعے سے بہت زيادہ بلند ہوگئے چنانچہ مسلمانوں كے روم پر بعد والے حملوں پر اس كے بہت عمدہ اثرات رونما ہوئے_

پہلا تو يہى كہ : ان كے حوصلے اتنے قوى ہوگئے كہ وہ كسى بھى طاقت كو خاطر ميں نہيں لاتے تھے اور شايد اسى حوصلہ كى وجہ سے انہوں نے اپنا اسلحہ فروخت كردينا چاہا تھا كيونكہ وہ اكثر كہا كرتے تھے كہ ''اب جہاد كى ضرورت ہى باقى نہيں رہى ہے '' مگر رسول خدا (ص) نے انہيں اس اقدام سے منع فرمايا _(۲۵)

مدينہ كے رہنے والوں كو جب يہ اطلاع ملى كہ روميوں پر فتح حاصل ہوئي ہے تو وہ ايسے مسرور ہوئے كہ بقول ''بيہقي'' عورتوں ' بچوں اور نوجوانوں نے يہ ترانے گا كر لشكر اسلام كا استقبال كيا _

طَلَعَ البَدرُ عَلَينَا

من ثََنيَّات الوَدَاع

وَجَبَ الشُّكرُ عَلَينَا

مَا دَعَا للّه دَاع

اَيُّهَا المَبعُوثُ فينَا

جئتَ بالَامَر المُطَاع

''ہم پر ثنيات الوداع سے چودھويں كے چاندنے طلوع كيا جب تك كوئي دعا كرنے والا ہے' ہم پر شكر واجب ہے ، اے ہم ميں مبعوث ہونے والے نبى (ص) آپ(ص) ايسا حكم لے كر آئے ہيں جس كى اطاعت ضرورى ہے''_(۲۶)

۲۷۳

دوسرا يہ كہ : مسلمان اتنا طويل پر مشقت سفر كرنے كے باعث چونكہ اس كى مشكلات و خصوصيات سے واقف ہوگئے تھے اسى لئے مستقبل ميں شام كو فتح كرنے كا راستہ ان كے لئے ہموار ہوگيا اور شايد يہى وجہ تھى كہ رسول اكرم (ص) كى رحلت كے بعد ديگر ممالك كو فتح كرنے سے قبل مسلمان شام كو فتح كرنے كى جانب متوجہ ہوئے_

منافقوں كى رسوائي

'غزوہ تبوك '' صدر اسلام كى ديگر سب جنگوں سے زيادہ منافقين كى جولان گاہ اور ان كے خيانت كارانہ ومجرمانہ افعال كى آماجگاہ رہا چنانچہ انہوں نے جتنى بھى بداعمالياں اور بدعنوانياں كيں خداوند تعالى نے دوسرى جنگوں كے مقابل ان كے اتنے ہى برے ارادوں اور ان كے منافقانہ چہروں كو بے نقاب كيا اور شايد اسى وجہ سے اس غزوہ كو ''فَاضحَہ '' (رسوا كن )كہا گيا ہے _(۲۷)

اس سے قبل كہ سپاہ اسلام ''تبوك'' كى جانب روانہ ہو منافقين نے جو بھى خيانت كارياں كيں ان كے بعض نمونے اوپر پيش كئے جاچكے ہيں انہوں نے انہى خيانت كاريوں اور اپنى بداعماليوں پر اكتفانہ كى بلكہ جتنے عرصے تك لشكر اسلام غزوہ تبوك پر رہا ان كے سازشيں بھى جارى رہيں چنانچہ ذيل ميں ہم اس كے چند نمونے پيش كريں گے_

۱_منافقين كے ايك گروہ نے ''سُويلم'' نامى يہودى كے گھر پر ميٹنگ كى جس ميں انہوں نے اس مسئلے پر غور وفكر كيا كہ جنگى امور اور لشكر كى روانگى ميں كس طرح خلل اندازى كى جائے چنانچہ جب رسول خدا (ص) كو ان كے ارادے كا علم ہوا تو آنحضرت (ص) نے چند لوگوں كو اس كے گھر كى طرف روانہ كيا جنہوں نے اسے نذر آتش كرديا(۲۸) _

۲۷۴

۲_جس وقت سپاہ اسلام نے ''ثينة الوداع'' نامى جگہ پر پڑاؤ كيا تو منافقين كے سردار عبداللہ ابن ابى نے اپنے ساتھيوں اور يہودى حليفوں كے ہمراہ كوہ ''ذباب'' كے كنارے اپنا خيمہ لگايا اور رسول خد ا(ص) كے خلاف اس طرح زہر اگلنا شروع كيا_

''محمد(ص) كو روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كى سوجھى ہے اور وہ بھى اس جھلس دينے والى گرمى ميں اور اتنى دور جاكر_ ادھر سپاہ اسلام كا يہ حال ہے كہ اس ميں جنگ كرنے كى ذرا بھى تاب نہيں ، روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كواس نے كھيل تماشا سمجھ ركھا ہے مجھے تو ابھى يہ نظر آرہا ہے كہ محمد (ص) كے جتنے بھى ساتھى ہيں سب ہى كل قيدى ہوں گے اور سب كى مشكيں كسى ہوئي نظر آئيں گي''_

وہ اپنى اس خيانت كارانہ گفتار اور بدكردارى سے چاہتا تھا كہ مسلمانوں كے حوصلے پست كردے اور انہيں اس جہاد مقدس پر جانے سے باز ركھے ، مگر اس كہ يہ نيرنگى وحيلہ گرى كارگر ثابت نہ ہوئي اور بہت ہى ياس و نااميدى كى حالت ميں مدينہ پہنچا_(۲۹)

۳_سپاہ اسلام كى تبوك كى جانب روانگى اور حضرت على (ع) كے مدينہ ميں قيام سے منافقوں كو اپنى تمام كوششيں ناكام ہوتى نظر آئيں چنانچہ اب وہ اس فكر ميں رہنے لگے كہ كس طرح ايسا ماحول پيدا كريں اور اس قسم كى افواہيں پھيلاديں كہ حضرت على (ع) مركزى حكومت سے دور چلے جائيں تاكہ رسول خدا(ص) اور حضرت على (ع) كى غير موجودگى ميں پورے اطمينان كے ساتھ اپنى سازشوں كو عملى جامہ پہناسكيں_

حضرت على (ع) نے جب يہ افواہيں سنيں كہ رسول خدا (ص) آپ(ع) كو اپنى سرد مہرى اور بے توجہى كى وجہ سے محاذ جنگ پر لے كر نہيں جارہے ہيں تو آپ (ع) نے رسول خدا(ص) كى خدمت ميں

۲۷۵

حاضر ہوكر تمام واقعات آنحضرت (ص) كے سامنے بيان كئے جنہيں سن كر رسول خدا(ص) نے فرمايا كہ :

''يہ لوگ جھوٹ بول رہے ہيں ميں تو تمہيں اس وجہ سے چھوڑ كر آيا ہو كہ وہاں جو كچھ ہے تم اس كى حفاظت و نگہبانى كرو كيا تمہيں يہ بات پسند نہيں ہے كہ تم ميرے لئے ايسے ہى ہو جيسے موسى (ع) كے لئے ہارون (ع) تھے ، فرق صرف يہ ہے كہ ميرے بعد نبوت كا سلسلہ ختم ہو جائے گا''_

اس كے بعد رسول خدا (ص) نے حضرت على (ع) سے ارشاد فرمايا كہ : ''آپ (ع) واپس مدينہ چلے جائيں اوراپنے خاندان اور '' دار الہجرة '' ميں آنحضرت (ص) كے جانشين كى حيثيت سے ساتھ مقيم رہيں _(۳۰)

۴_سپاہ اسلام كے خوف سے لشكر روم كے فرار نيز ان فتوحات كے باعث جو آنحضرت (ص) كو ''تبوك'' ميں مقيم رہنے كى دوران حاصل ہوئيں ، منافقين كا حسد و كينہ پہلے سے كہيں زيادہ بڑھ گيا اسى لئے جس وقت سپاہ اسلام تبوك سے واپس آرہى تھى تو ان منافقين نے نہايت ہى خطرناك چال چلنے كا فيصلہ كيا ، ان كى سازش يہ تھى كہ جب رسول خدا(ص) رات كى تاريكى ميں بلند درے سے گذريں گے تو منافقين ميں سے دس بارہ آدمى(۳۰) آنحضرت (ص) كى گھات ميں بيٹھ رہیں تاكہ جيسے ہى آپ (ص) كى سوارى كا اونٹ اس راستے سے گذرے تواسے بھڑكاديں اور آنحضرت (ص) اس گہرے درے ميں گر كر مارے جائيں_

ليكن خداوندتعالى نے آنحضرت (ص) كو ان كى سازش سے آگاہ كرديا چنانچہ جب منافقين نے يہ ديكھا كہ رسول خدا(ص) كو ان كى سازش كا علم ہوگيا ہے تو وہ وہاں سے فرار ہوگئے

۲۷۶

اور اپنے ساتھيوں سے جاملے اگر چہ رسول خدا(ص) نے ان سب كو پہچان ليا تھا اور صحابہ نے بھى انہيں قتل كر نے پر اصرار كيا تھامگر رسول خدا(ص) نے انہيں معاف كرديا _(۳۲)

۵_منافقين اپنے جرائم كى پردہ پوشى كرنے كيلئے ہميشہ اس بات كى كوشش كرتے كہ انہيں دين كا لبادہ پہنائے رہيں ، مذہب كے پردے ميں اپنے ان مجرمانہ افعال كو جارى ركھنے كيلئے انہوں نے محلہ''قبا'' ميں مسجد كے نام سے ايك سازشى مركز قائم كيا تاكہ وہاں سے اپنى سياسى سرگرميوں كو جارى ركھ سكيں ، رسول خدا (ص) كى تبوك كى طرف روانگى سے پہلے انہوں نے مسجد كى تعمير شروع كى اور رسول خد ا(ص) اس كے بارے ميں مطلع بھى ہوئے اور جس وقت آنحضرت (ص) واپس تشريف لارہے تھے تو مدينہ كے نزديك قاصد غيب وحى لے كر نازل ہوا اور آيات قرآنى كے ذريعہ مسجد بنانے والوں كے گمراہ كن ارادوں سے مطلع كرديا(۳۲) رسول خد ا(ص) نے حكم صادر فرمايا كہ اس مسجد كو آگ لگا كر خاكستر كرديں اور جو كچھ وہاں ہے اسے تباہ و برباد كرديں اور اس جگہ كو گندگى كے ڈھير كے طور پر استعمال كريں_(۳۴)

غزوہ تبوك ميں مسلمانوں كى فتح اس جنگ كے بارے ميں منافقين كے تمام تجزيوں اور اندازوں كا بطلان، جنگ كے دوران ان كى سازشوں كى ناكامى ، مسجد ضرار كى ويرانى ، اسلام دشمن عناصر كے چہروں پر سے ريا او رنفاق كى نقاب كشائي اور آيات قرآنى(۳۵) ميں ان كى خصوصيات كى نشاندہى كے باعث كفر كے پيكر پر پے در پے ايسى سخت ضربات لگيں كہ اس كا سر كچل كر رہ گيا اور وہ خيانت كار خطرناك گروہ جو اسلامى معاشرے ميں پل رہا تھا منہ كے بل گرا اور وہ لوگ جو محاذ نفاق كى جانب رسول خدا (ص) كے خلاف نبرد آزمائي كر رہے تھے سخت مايوسى و نا اميدى كے شكار ہوئے

۲۷۷

چنانچہ مسلسل ناكاميوں اور نامراديوں كا ہى نتيجہ تھا كہ منافقين كا سرغنہ ''عبداللہ بن ابى '' غزوہ تبوك كے ايك ماہ بعد ہى بيمار پڑگيا اور غموں ميں گھل گھل كر مرگيا_(۳۶)

مشركين سے بيزاري

سنہ ۹ ہجرى كے اواخر ميں زمانہ حج كے شروع ہونے سے قبل قاصد پيغام وحى نے سورہ توبہ كى چند ابتدائي آيات رسول خد ا(ص) كو پڑھ كر سنائيں ان آيات ميں خدا اور رسول خدا (ص) كى مشركين سے بيزارى ، مسلمانوں كے ساتھ ان سے قطع تعلق اور ان معاہدوں كو منسوخ كرنے كى ہدايت كى گئي جو مسلمانوں نے ان كے ساتھ كئے تھے _

حضرت رسول خدا (ص) نے پہلے تو حضرت ابوبكر كو امير حج مقرر كركے انہيں يہ ہدايت فرمائي كہ مشركين تك سورہ توبہ كى آيات پہنچاديں ليكن جب وہ روانہ ہوگئے تو دوبارہ فرشتہ وحى نازل ہوا اور يہ پيغام سنايا كہ اس كام كو پيغمبر خدا (ص) يا خاندان رسالت كے كسى فرد كے علاوہ كوئي دوسرا فردانجام نہيں دے سكتا(۳۷) چنانچہ رسول خدا (ص) نے حضرت على (ع) كو بلايا اورانہيں مشركين تك ان آيات كو پہنچانے كى ذمہ دارى سونپي_

حضرت على (ع) راستے ميں ہى حضرت ابوبكر سے جاملے اور ان سے فرمايا كہ يہ آيات مجھے ديں ، حضرت على (ع) مذكورہ آيات كو لے كر خود مكہ كى جانب روانہ ہوئے جب مناسك حج كا زمانہ آگيا تو آپ (ع) نے مسلمانوں اور كفار كے مجمع كثير ميں آيات تلاوت فرمائيں اور اس كے ساتھ ہى رسول خد ا(ص) كا پيغام بھى پہنچاديااس پيغام ميں جو باتيں كہى گئي تھيں وہ يہ ہيں كہ :

۱_كافر جنت ميں داخل نہ ہوں گے_

۲۷۸

۲_آئندہ مشركين كو مكہ ميں داخل ہونے اور مناسك حج ادا كرنے كى اجازت نہيں دى جائے گي_

۳_آئندہ كسى شخص كو يہ اجازت نہيں ہوگى كہ وہ برہنہ خانہ كعبہ كا طواف كرے_

۴_جن لوگوں نے رسول خد ا(ص) سے كوئي معاہدہ كيا ہوا ہے وہ تو مدت معينہ تك معتبر و قابل عمل ہے ليكن جن كے ساتھ كوئي معاہدہ نہيں كيا گيا ہے انہيں چار ماہ كى مہلت دى جاتى ہے كہ وہ اس عرصے ميں اپنے معاہدے كے بارے ميں غور كريں اور جب يہ عرصہ گزر جائے تو كسى بھى مشرك كے ساتھ عہدو پيمان نہ كياجائے گا_(۳۸)

رسول (ص) خدا نے جو يہ صريح و قطعى اقدام كيا اس كى شايد وجہ يہ تھى كہ اس وقت سے جب كہ يہ پيغام مشركين كو پہنچايا گيا نزول رسالت تك تقريباً بائيس(۲۲) سال كا عرصہ گزر چكا تھا اور اس طوي-ل عرصے ميں رسول خد ا(ص) كى تمام تر سعى و كوشش يہ رہى كہ مشركين راہ راست پر آجائيں چنانچہ اس كے بعد كسى شك كى گنجائشے نہيں رہتى كہ بت پرستوں كے شرك اور پيغمبر اكرم (ص) كے ساتھ جنگ و جدال كى اصل وجہ ان كى ضد اور ذاتى دشمنى تھى اور اب اس چيز كى سخت ضرورت تھى كہ اسلامى معاشرہ جس قدر جلد ہوسكے ايسے عناصر سے پاك ہوجائے اگر كسى زمانے ميں پيغمبر اكرم (ص) نے سياسى حالات كے تحت مجبور ہوكر مشركين كے ساتھ معاہدہ صلح كياتھا تو اب جبكہ تمام علاقہ دين اسلام كے تحت اثر آچكا تھا اور اس نے صرف اندرونى ہى نہيں بلكہ بيرونى محاذوں پر بھى عظيم ترين فتح حاصل كرلى تھى آنحضرت(ص) كے لئے ايسے عناصر كو اسلامى معاشرے كے اندر برداشت كرنا ضرورى نہيں تھا جو توہمات و خرافات اور خلل اندازى كے پردے ميں زمين پر فساد بپا كئے رہيں ، انہيں چار ماہ كى مہلت اس لئے دى گئي تھى كہ انہيں اپنے بارے ميں سوچنے كيلئے كافى وقت مل سكے اور اپنے توہمات

۲۷۹

وخرافات سے دست بردار ہونے كے بارے ميں غور وفكر كرسكيں_

رسول خد ا(ص) كا قطعى فيصلہ' سورہ توبہ كى آيات كا نزول اور مشركين كے مقابل رسول خد ا(ص) كے جرا تمندانہ مگر انسان دوستى پر مبنى اقدام بالخصوص چار ماہ كى مہلت، اس امر كے باعث ہوئے كہ وہ اپنے بارے ميں سوچيں اور موقع سے فائدہ اٹھائيں ، اس كے ساتھ ہى دين اسلام كى آسمانى تعليمات اور اپنے خرافات مبنى طور پر طريقے كے بارے ميں غورو فكر كرنے كے بعد دين اسلام كى آغوش ميں چلے جائيں _

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313