تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي18%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139888 / ڈاؤنلوڈ: 4393
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

سوالات

۱_ سريہ ابو سَلَمة كا كيا نتيجہ رہا؟

۲_ واقعہ رجيع كيوں كر واقع ہوا اور كتنے لوگ شہيد ہوئے؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمربن اميّہ كو مكّہ كيوں بھيجا؟

۴_ سريہ عبدُ اللہ بن اُنَيس كا كيا نتيجہ رہا؟

۵_ بنى نضير كے يہوديوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے قتل كا ارادہ كيوں كيا؟

۶_ غزوہ '' بدر الموعد'' ميں لشكر اسلام كا مقابلہ كرنے سے ابوسفيان كيوں ڈرگيا؟

۸۱

حوالہ جات

۱_ بعض لوگوں كى تحرير كے مطابق ۱۵ محرم، طبقات ابن سعد ج ۲، ص ۳۴۰_ واقدى كى تحرير كے مطابق يكم محرم مغازى ج ۱ ، ۲ ۲۴۰_

۲_طبقات ابن سعد ج۲ ص ۳۴۰_مغازى واقدى ج۱ ص ۳۴۰_

۳_طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۵۱_امتاع الاسماع ص ۲۵۴_

۴_ ابن ہشام نے سريہ رجيع كا تذكرہ جنگ احد كے بعد ہجرت كے تيسرے سال كے واقعات ميں كيا ہے ر_ك ''ج ۳ ص ۱۷۸''_

۵_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۳۰ سے ۵۴۲ تك سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۷_۱_

۶_ بقول ابو سعيد ۷۰ افراد_

۷_ مغازى واقدى ج ۱ ص ۳۴۶_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۵۱/۵۳_ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۱۹۳_

۸_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۴۲_مواہب اللدنّيہ ميں اس سر يہ كو ۶ ھ ميں ، صلح حديبيہ سے پہلے ذكر كيا گياہے _ ج ۱ ص ۱۲۵_

۹_ مخالف اسلام اور مفسد قبيلہ '' بنى نضير ''كے يہوديوں كے اخراج كے بعد صرف بنى قريظہ كے يہودى مدينہ ميں رہ گئے ،بنى نضير كے باقى اموال و املاك كى تقسيم كے بعد مہاجر مسلمانوں سے اقتصادى پريشانى ايك حد تك دور ہوئي_

۱۰_ مغازى واقدى ج ۱ _ ص ۳۶۳/ ۳۸۰ ، سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۱۹۶، طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۵۷، تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۵۱/۵۵۵، تاريخ دمشق ج ۱ ، ص ۴۱_

۱۱_ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۰۳_

۱۲_ اس غزوہ كى تاريخ ابن ہشام شعبان ۴ ھ اور واقعدى ذى قعدہ ۴ ھ سمجھتے ہيں سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۲۰_ مغازى واقدى ج ۱، ص ۳۸۴ ملاحظہ ہو_

۱۳_ مغازى واقدى ج ۱، ص ۳۸۴سے ۳۸۹تك _ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۲۰_

۱۴_ مروج الذّھب ج ۲ ، ص ۲۸۹_

۸۲

پانچواں سبق

غزوہ ذات الرقاع

غزوہ دومةُ الجندَل

غزوہ خندق (احزاب)

لشكر احزاب كى مدينہ كى طرف روانگي

لشكر كى روانگى سے متعلق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا آگاہ ہونا

بجلى كى چمك ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كيا ديكھا؟

مدينہ لشكر كفار كے محاصرے ميں

بنى قريظہ كى عہد شكني

خطرناك صورتحال

ايمان و كفر كا آمنا سامنا

سوالات

۸۳

غَزوہ ذاتُ الرّقاع

تاريخ : دسويں محرم ۵ ہجرى قمرى(۱) بمطابق ۱۳ جون ۶۲۶ ء بروز بدھ

غزوہ بنى نضير كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر ملى كہ قبيلہ غَطَفَان يعنى بنى ثعلبہ اور بنى مُحارب نے مسلمانوں سے جنگ كے لئے كچھ لشكر جمع كر ركھا ہے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سازش كو ناكام بنانے كے لئے مدينہ ميں جناب ابوذر كو اپنا جانشين بنايااور خود چار سو افراد كا لشكر لے كر نجد كى طرف روانہ ہوئے،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن كے عظيم لشكر كے روبرو ہوئے مگر دشمن كو خوف و دہشت نے گھير ليا اور كسى طرح كے ٹكراؤ سے پہلے ہى دشمن متفرق ہوگيا_

اس سفر ميں دشمن كے حملے كے پيش نظر ، خطرناك ماحول ميں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے لشكراسلام كے ساتھ نماز خوف ادا كى پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سفر كى كلُ مدّت ۱۵ روز تھي_(۲)

غزوہ دُومَةُ الجَندَل

روانگى بروز اتوار ۲۵ ربيع الاول ۵ ھ ق، مطابق ۲۶ اگست ۶۲۶ء

مدينہ واپسى ۲۰ ربيع الثانى ، بمطابق ۲۰ ستمبر ۶۲۶ ئ بروز جمعرات

مخبروں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر دى كہ دُومَةُ الجندل ميں بہت سے لوگ جمع ہوگئے ہيں اور مسافروں كا راستہ روكنے كے علاوہ ان پر ظلم و ستم بھى ڈھار ہے ہيں ان كا ارادہ ہے كہ مدينہ پر حملہ كريں_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سبَاعَ بن عرفُطَہ غَفاري كو مدينہ ميں اپنا جانشين معيّن

۸۴

فرمايا اور ہزار آدميوں كے لشكر كے ساتھ دُومَةُ الجندل كى طرف روانہ ہوگئے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سپاہى راتوں كو راستہ طے كرتے اور دن كو درّوں ميں چُھپ كر آرام كرتے تھے_ دشمن كو لشكر اسلام كى روانگى كا پتہ چلا تو ان پر ايسار عب طارى ہواجوپہلے كبھى نہيں ہوا تھا اور فوراً ہى اس علاقے سے فرار ہوگئے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چند دن علاقے ميں قيام پذير رہے اور مختلف دستوں كو اطراف و جوانب ميں بھيجا تا كہ معلومات اكٹھى كرنے كے لے ساتھ ساتھ دشمنوں كى ممكنہ سازشوں كو ناكام بنائيں_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۲۵ روز كے بعد مدينہ پلٹ آئے_ لوٹتے وقت فراز نامى شخص سے ، جس كا قبيلہ قحط سے متاثر ہوا تھا ، معاہدہ كيا اور اسے اجازت دى كہ مدينہ كے اطراف كى چراگاہوں سے استفادہ كرئے(۳) _

اس غزوہ كى اہميت كى وجہ يہ ہے كہ مدينہ سے دور دراز كے علاقوں تك جادہ پيمائي اور خشك و ہولناك صحراؤں سے عبور كرنے ميں مسلمانوں كى طاقت كا مظاہرہ ہوا اور دوسرى طرف اسلام مشرقى روم كى سرحدوں تك نفوذ كرگيا اور يہ فوجى تحريك روميوں كى تحقير كا موجب بنى _ مسعودى كى تحرير كے مطابق ، تاريخ اسلام ميں روم جيسى بڑى طاقت كى گماشتہ حكومت كے ساتھ فوجى مقابلہ كرنے كے لئے يہ پہلا قدم تھا _(۴)

غزوہ خَندَق ( اَحزاَب)

تقريباً ۲۳ شوال ۵ ھ ق(۵) بمطابق ۱۹ مارچ ۶۲۶ئ

غزوہ خندق كے اسباب

بنى نضير كے يہودى جنہوںنے بغض و كينہ اور انتقامى جذبات كے ساتھ مدينہ چھوڑا تھا

۸۵

خاموشى سے نہيں بيٹھے جب يہ لوگ خيبر پہنچے تو ان كے سردار حُيَّ بن اَخطَب اور كنَانَةبن اَبى الحُقيق ، ابُو عامر فاسق اور ايك جماعت كے ساتھ مكہ روانہ ہوئے قريش اور ان كے تابعين كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ كى دعوت دى ،انہوں نے قريش سے كہا كہ '' محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے بہت بڑا خطرہ ہمارئے انتظار ميں ہے اگر فوراً پسپا كردينے والا لشكر تيار نہ كيا گيا تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہرجگہ اور ہر شخص پر غالب آجائيں گے''_

ايك طرف بدر مَوعد ميں قريش كى شكست و سرنگونى ، جنگ كى دھمكى دينے كے باوجود لشكر اسلام كے خوف سے حاضر نہ ہونا اور لشكر اسلام كى پے درپے كاميابى نے قريش كو اس حقيقت كى طرف متوجہ كيا كہ مسلمانوں كى بڑھتى ہوئي جنگى طاقت كے پيش نظر اسلامى تحريك كو كچلنے كے ليے كوئي بنيادى اقدام كرنا چاہيے _ اسى وجہ سے قريش خود اس فكر ميں تھے كہ ايك عظيم لشكر تيار كريں اور اب بہترين موقع آن پہنچا تھا_ اس لئے كہ يہوديوں نے اعلان كيا كہ ہم تمہارے ساتھ رہيں گے يہاں تك كہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جڑسے اكھاڑ كرپھينك ديں لہذا وہ قريش كے سرداروں كے ساتھ كعبہ ميں گئے اور وہاں انہوں نے قسم كھائي كہ ايك دوسرے كو بے سہارا نہيں چھوڑيں گے اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مقابلے كے لئے آخرى فرد تك ايك دل اور ايك زبان ہوكر ڈٹے رہيں گے_(۶) قريش نے يہوديوں كے سربرآوردہ افراد سے پوچھا كہ تم قديم كتاب كے جاننے والے اور عالم دين ہو تم فيصلہ كرو كہ ہمارا دين بہتر ہے يا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا؟ يہوديوں كے چالاك و دھوكہ باز سرداروں نے جواب ديا كہ '' تمہارا دين بہتر ہے اور تم حق پر ہو''_

يہ يہودى توحيد پر ايمان كے باوجود ايسى بات كہہ كر سخت گناہ كے مرتكب ہوئے اور انہوں نے اپنى سياہ تاريخ ميں ننگ و عار والے ايك بڑے دھبے كا اضافہ كيا_ ايك يہودى

۸۶

مصنف ڈاكٹر اسرائيل اپنى كتاب '' تاريخ يہوديان عربستان'' ميں لكھتاہے كہ '' ہرگز يہ بات مناسب نہيں تھى كہ يہودى ايسى خطا كے مرتكب ہوتے اگرچہ قريش ان كى خواہش كو رد كرديتے ، اس كے علاوہ ہرگز يہ بات صحيح نہيں تھى كہ ملّت يہود، بُت پرستوں كے پاس پناہ ليتى اس لئے كہ يہ روش تورات كى تعليمات كے مطابق نہيں ہے_(۷)

قرآن اس اتحاد كى طرف اشارہ كرتے ہوئے كہتا ہے كہ '' كيا تم نے ان لوگوں كو نہيں ديكھا كہ جن كو كتاب سے كچھ حصّہ ديا گيا ہے وہ كس طرح بتوں اور طاغوت پر ايمان لاتے ہيں اور كافرين و مشركين سے كہتے ہيں كہ تمہارا راستہ مومنين كى بہ نسبت حقيقت سے زيادہ نزديك ہے''(۸) _

جب مشركين نے يہودى سرداروں سے مدد كا وعدہ اور روانگى كى تاريخ معيّن كى تو يہوديوں نے بھى ان سے وعدہ كيا كہ بنى قُريظَہ كے يہوديوں كو جو اس وقت ساكن مدينہ تھے ، مدد كے لئے بلائيں گے _ قريش كو پيمان شكنى اور جنگ پر آمادہ كرنے كے بعد يہودى وفد قبيلہ غَطفان كى طرف روانہ ہوا ، قبيلہ غَطفان كے افراد نے ان كى ہمراہى كے علاوہ اپنے ہم عہد قبيلہ بنى اسد كو مدد كى دعوت دى اور قريش نے اپنے حليف قبيلہ بنى سُلَيم كو مدد كيلئے بلايا(۹) _

يہوديوں كى شہ پر اسلام كے خلاف ايك بہت بڑا محاذ تيار ہو گيا ، جس ميں مشركين ، مستكبرين ، منافقين ، يہود ، مدينہ سے فرار كرنے والے ،قريش كے مختلف قبائل ، بنى سليم ، بنى غطفان ، بنى اسد اور ديگر احزاب و قبائل شامل تھے اور سب نے مل كر اسلام كے خلاف جنگ كى ٹھانى ہوئي تھى تا كہ نور خدا كوخاموش كرديں_جنگى اخراجات اور اسلحہ كى فراہمى يہود كى طرف سے انجام پائي_

۸۷

لشكر احزاب كى مدينہ كى طرف روانگي

مختلف قبيلوں اور گروہوں كى طرف سے اس جنگى معاہدے كے نتيجہ ميں اكٹھے ہونے والے افراد كى مجموعى تعداد دس ۱۰ ہزار سے زيادہ(۱۰) اور لشكر كى كمان ابوسفيان كے ہاتھوں ميں تھي_لشكر احزاب كے جنگجو افراد اسلحہ سے ليس روانگى كيلئے تيار تھے_ اس زمانہ ميں جنگى ايمونيشن اور سازوسامان سے ليس اتنا بڑا لشكر سرزمين حجاز نے كبھى نہيں ديكھا تھا_

ماہ شوال ۵ ہجرى ميں ابوسفيان نے احزاب كے سپاہيوں كو تين الگ الگ دستوں ميں يثرب كى جانب روانہ كيا_

لشكر كى روانگى سے متعلق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا آگاہ ہونا

جب يہ لشكر مكّہ سے مدينہ كى طرف روانہ ہوا تو قبيلہ خُزاعة كے چند سوار نہايت سرعت كے ساتھ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس پہنچے اور سپاہ احزاب كى روانگى كى خبر دي_

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے لشكر كى جمع آورى اور آمادہ باش كے اعلان كے ساتھ جنگى ٹيكنيك اور دفاعى طريقہ كار كى تعيين كے لئے اصحاب سے مشورہ فرمايا اور مشاورتى كو نسل ميں يہ بات پيش ہوئي كہ مدينہ سے باہر نكل كر جنگ كى جائے يا مدينہ كے اندر موجود رہيں اور شہر كو ايك طرح سے قلعہ بناديں؟ سلمان فارسى نے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب ہم ايران ميں تھے تو اس وقت اگر دشمن كے شہ سواروں كے حملے كا خطرہ ہوتا تھا تو شہر كے چاروں طرف خندق كھود ديتے تھے'' دفاع كے لئے منعقدہ مجلس مشاورت نے سلمان كى رائے كو مان ليا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان كے نقشہ كے مطابق خندق كھودنے كا حكم ديا_(۱۱)

اس زمانہ ميں مدينہ ، تين طرف سے طبيعى ركاوٹوں جيسے پہاڑوں ، نخلستان كے جھنڈ اور

۸۸

نزديك نزديك بنے ہوئے گھروں ميں گھرا ہوا تھا صرف ايك طرف سے كھلا اور قابل نفوذ تھا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہردس ۱۰ آدميوں كو چاليس زراع كے ايك قطعہ ارض كو كھودنے پر مامور كيا _ جزيرة العرب كى گرم اور جھلسا دينے والى ہوا كے بر خلاف مدينہ سرديوں ميں صحرا كى طرح سرد اور تكليف دہ تھا ، جن دنوں خندق كى كھدائي ہو رہى تھى تين ہزار مسلمان صبح سويرے آفتاب طلوع ہونے سے پہلے جاڑے كى سخت سردى ميں لبوں پر ، پُر شور نعرہ اور دلوں ميں حرارت ايمانى كے جوش و ولولہ كے ساتھ كام ميں مشغول ہوتے اور غروب آفتاب تك كام كرتے رہتے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھى تمام مسلمانوں كے ساتھ ساتھ كام ميں مشغول تھے_ پھاؤڑے چلاتے ، مٹّى كو زنبيل ميں ڈال كر كاندھوںپر ركھ كر باہر لاتے تھے_ سلمان نہايت تيزى سے چند آدميوں كے برابر كام كر رہے تھے _ مہاجر و انصار ہر ايك نے كہا كہ سلمان ہم ميں سے ہيں، ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' سلمان ہم اہل بيت(ع) ميں سے ہيں''(۱۲) _

بجلى كى چمك ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كيا ديكھا؟

خندق كھودتے كھودتے سلمان كے سامنے ايك بہت بڑا سفيد پتّھر آگيا_ انہوں نے اور دوسرے افراد نے كافى كوشش كى مگر پتّھر اپنى جگہ سے ہلا تك نہيں _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر ہوئي تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشريف لائے اور ہتھوڑے سے پتّھر پر ايك ضرب لگائي، اس ضرب كى وجہ سے ايك بجلى چمكى اور پتّھر كا ايك حصّہ ٹوٹ كر بكھر گيا_ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صدائے تكبير بلند كى ، جب دوسرى اور تيسرى بار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ضرب لگائي تو ہر ضرب سے بجلى چمكى اور پتّھر كے ٹكڑے

۸۹

ہونے لگے، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر بار صدائے تكبير بلند كرتے رہے ، جناب سلمان نے سوال كيا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بجلى چمكتے وقت تكبير كيوں كہتے تھے؟

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ''جب پہلى بار بجلى چمكى تو ميں نے يمن اور صَنعاء كے محل كھلتے ديكھے، دوسرى مرتبہ بجلى كے چمكنے ميں شام و مغرب كے سرخ محلوں كو فتح ہوتے ديكھا، اور جب تيسرى بار بجلى چمكى تو ميں نے كسرى كے محلات كو ديكھا كہ جو ميرى اُمت كے ہاتھوں مسخر ہوجائيں گے''_(۱۳)

مومنين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بشارت سے خوش ہوگئے اور '' بشارت، بشارت'' كى آواز بلند كرنے لگے_ ليكن منافقين نے مذاق اُڑايا اور كہا كہ ''حالت يہ ہے كہ دشمن ہر طرف سے ٹوٹ پڑ رہے ہيں اور اتنى جرا ت نہيں ہے كہ ہم قضائے حاجت كے لئے باہر نكل سكيں اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ايران و روم كے محلوں كى فتح كى گفتگو كر رہے ہيں _ سچ تو يہ ہے كہ يہ باتيں فريب سے زيادہ نہيں ہيں( معاذ اللہ ) قرآن منافقين كے بارے ميں كہتا ہے '' منافقين او ر وہ لوگ جن كے دلوں ميں بيمارى ( نفاق) ہے وہ كہتے ہيں كہ يہ وعدے جو خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كر رہے ہيں يہ دھوكے سے زيادہ نہيں ہيں''(۱۴) _

منافقين خندق كھودنے ميں مسلمانوں كى مدد كر رہے تھے مگر ان كى كوشش تھى كہ كسى بہانے سے اپنے كاندھوں كو اس بوجھ سے خالى كريں اس طرح وہ اپنے نفاق كو آشكار كر رہے تھے_

خندق كى كھدائي تمام ہوئي جس كى لمبائي ۱۲۰۰۰ زراع تقريباً ۴/۵ كلوميٹر ،گہرائي ۵ ہاتھ اور اس كى چوڑائي اتنى تھى كہ ايك سوار گھوڑے كو جست ديگر پار نہيں كرسكتا تھا_ آخر ميں خندق كے بيچ ميں كچھ دروازے بناديئےئے اور ہر دروازے كى نگہبانى كے لئے ايك قبيلہ

۹۰

معيّن كرديا گيا اور زبير بن عوام كو دروازوںكے محافظين كى سربراہى پر معيّن كيا گيا(۱۵) _

مسلمانوں نے خندق كے پيچھے اپنے لئے مورچے بنالئے اور شہر كے دفاع كے لئے تيرانداز مكمل آمادگى كے ساتھ موجود تھے_

مدينہ لشكر كفار كے محاصرے ميں

كفر كا حملہ آور لشكر ابوسفيان كى سركردگى ميں خندق كھدجانے كے چھ دن بعد سيلاب كى طرح مدينہ پہنچ گيا _ انہوں نے شہر كے چاروں طرف اور اپنے آگے ايك بڑى خندق ديكھى اور مسلمانوں كى اس دفاعى حكمت عملى پر حيران رہ گئے_ جنگى ديدہ وروں نے كہا'' يہ فوجى حربہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايرانيوں سے سيكھا ہے اس لئے كہ عرب اس ڈھنگ سے واقف نہيںہيں_'' كفارنے مجبوراً اپنے خيمے خندق كے سامنے لگالئے_ دشمن كے لشكر كے خيموں سے سارا بيابان سياہ ہوگيا_ لشكر اسلام نے بھى خندق كے اس طرف خيمے لگالئے اور دشمن سے مقابلے اور اس كے حملے سے بچنے كے لئے تيار ہوگئے _

بَنى قُريَظہ كى عہد شكني

لشكر احزاب اور اس كے سپہ سالار ابوسفيان كے دماغ پرمسلمانوں پر برق رفتارى سے كاميابى حاصل كرنے كا بھوت سوار تھا، خندق جيسى بڑى ركاوٹ كے سامنے آجانے سے اب راستے كى تلاش ميں لگ گئے تا كہ لشكر كو خندق كے پار پہنچا سكيں _

مدينہ سے شہر بدر كيئے جانے والے يہودى قبيلے بنى نضير كا سردارحى ابن اخطب جنگ كى آگ بھڑكانے كا اصلى ذمّہ دار تھا _وہ خندق كى موجود گى كيوجہ سے سپاہ احزاب كے حملے كو

۹۱

ناكام ہوتے ہوئے ديكھ كرسب سے زيادہ خوف زدہ تھا، وہ كوشش كر رہا تھا كہ جلد سے جلد احزاب كى كاميابى كا كوئي راستہ مل جائے _ اس نے مدينہ كے اندر سے محاذ كھولنے كا ارادہ كيا _ اس پروگرام كو عملى جامہ پہنا نے كے لئے بَني قُريَظہ كے يہودى جو مدينہ ميں مقيم تھے، بہترين وسيلہ تھے _ اس نے رئيس قبيلہ سے گفتگو كرنے كا ارادہ كيا، قلعہ بَني قُريَظہ كى طرف گيا اور قلعہ كے بند دروازوں كے پيچھے سے گفتگو كى ، قبيلہ بَني قُريَظہ كے سردار كَعب بن اَسَد نے جواب ديا كہ ہم نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عہد و پيمان كيا ہے اور ہم يہ معاہدہ نہيں توڑ سكتے اس لئے كہ سوائے سچّائي اور وفادارى كے ان سے ہم نے اور كچھ نہيں ديكھا ہے_

حُيّ، كعب كو بھڑكانے ميں كامياب ہوگيا اور اس نے اپنے لئے قلعہ كا دروازہ كھلواليا_ قلعہ ميں داخل ہوا اور بَني قُريَظہ كے بزرگ افراد كو اس بات پر آمادہ كرليا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كئے ہوئے اپنے عہد و پيمان كو توڑديں اور اپنى فوجيں نيز دوسرا سامان حملہ آوروں كوديديں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جب بَني قُريَظہ كے يہوديوں كى پيمان شكنى كى خبر ملى تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبيلہ اوس و خزرج كے دو بزرگ افراد سَعد بن مُعَاذ اور سَعد بن عُبادة كو مزيد تحقيقات كے لئے قلعہ بَني قُريَظہ روانہ كيا _ وہ لوگ اس بات پر مامور تھے كہ اگر يہ خبر صحيح ہو تو خفيہ طور پر اس كى اطلاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوديں_ انہوں نے واپسى پر خفيہ كوڈ'' عَضَل'' و ''قارّہ'' كے الفاظ كے ساتھ يہوديوں كى پيمان شكنى كى خبر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كودى _(۱۶)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں كے ولولے كو باقى ركھنے كے لئے نعرہ تكبير بلند كيا اور فرمايااے مسلمانو ميں تمہيں كاميابى كى بشارت ديتا ہوں _(۱۷)

۹۲

خطرناك صورتحال

اسلامى تحريك ايك حساس موڑ پر تھى ايك طرف اسلحہ سے ليس دشمن كا دس ہزار افراد پر مشتمل لشكر شہر كے سامنے خيمہ زن تھا اور ہر لحظہ اس بات كا امكان تھا كہ خندق كو پار كر كے شہر ميں كشت وخون كا بازار گرم نہ كردے_ اور دوسرى طرف قبيلہ بَني قُريَظہ كے خائن يہودى پيمان شكنى كر كے مسلمانوں كى پيٹھ ميں خنجر گھونپنے كے لئے آمادہ تھے نہتے مسلمانوں بچّوں اور عورتوں پر يہوديوں كے حملے كا خطرہ ، كفار كے لشكر كا خندق عبور كرنے كے خطرہ سے زيادہ خطرناك تھا _

اس ہنگامے ميں منافقين، شيطانى قہقہوں ، طعنوں اور اشارے و كنائے سے مسلمانوں كے زخموں پر نمك پاشي، لوگوں كو دشمن كے سامنے ہتھيار ڈال دينے كى تشويق ،اپنے گھروں كے دفاع كا سامان نہ ہونے كا بہانہ بنا كر فرار كا قصد اور اپنى دفاع جگہوں كو چھوڑ دينے كا ارادہ كر رہے تھے _ قرآن اس سلسلہ ميں كہتا ہے كہ :

'' جب ايك گروہ ( منافقين اور سياہ قلب افراد) نے كہا كہ اے يثرب كے لوگو اب سرزمين يثرب تمہارے رہنے كى جگہ نہيں ہے_ لذا پلٹ جاؤاور ان ميں سے ايك گروہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت مانگ رہا ہے اور كہتا ہے كہ ہمارے گھر كھلے ہوئے ہيں ، دفاع كا كوئي انتظام نہيں ہے _ ايسى صورت ميں ان كا ارادہ و مقصد فرار كے سوااور كچھ نہيں ''(۱۸)

ليكن خدااور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ركھنے والے جاں باز نہ صرف ايسے طوفانوں سے لرزاں نہيں ہوئے بلكہ اور زيادہ مستحكم ہوگئے _ قرآن ان كے بارے ميں كہتا ہے :

'' جب مسلمانوں نے احزاب كے لشكر كو ديكھا تو كہا كہ يہ وہى ہے جس كا وعدہ اللہ اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كيا ہے اور اس واقعہ نے ان كے ايمان و تسليم كو بڑھانے كے علاوہ اور

۹۳

كچھ نہيں كيا''(۱۹)

اس حساس موقع پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلسل اپنى شعلہ بار تقريروں سے اسلام كے جاں بازوں كے حوصلے بڑھاتے رہے ،ان كے فرائض ياد لاتے رہے اور فرماتے '' اگر تم صبر سے كام لوگے اور خدا پر بھروسہ كروگے تو كامياب رہوگے_ '' اور ان لوگوں كو خدا اور اس كے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى فرماں بردارى كى طرف توجّہ دلاتے رہے _

ايسى حالت ميں جاں بازان اسلام اپنے محاذ كى نگہبانى اور تحفظ كے ساتھ ساتھ خندق كے اس طرف بَني قُريَظہ كے شب خون مارنے كے خطرے كو ناكام بنانے كے لئے ۵۰۰ جاں باروں كا ايك گشتى دستہ ليكر پورى تيارى كے ساتھ گشت لگاتے رہے اور راتوں كو اپنے نعرہ تكبير كى بلند آوازوںسے دشمن كے دلوں ميں خوف و ہراس ڈالتے رہے_ اس طرح غفلت كے عالم ميں دشمن كو حملے كرنے كا موقع نہيں مل سكا اور مدينہ پر حملے كا خطرہ ٹل گيا _

ايمان و كفر كا آمنا سامنا

خندق كے دوسرى طرف لشكر احزاب بہت دونوں تك يوں ہى پڑا رہا ليكن نہ پيادوں ميں سے كوئي خندق عبور كرسكا اور نہ سواروں ميں سے _آخر كار لشكر شرك ميں سے پانچ آدميوں عَمروبَن عَبدوَدّ، عكرمةَ بن اَبى جَہل ، ہُبَيرة بَن اَبى وَہب، نَوفل بَن عَبداللہ ، ضرار بن خَطّاب جنگى لباس پہننے كے بعد غرور و تكبّر كے ساتھ اتحادّيوں كى لشكر گاہ سے باہر آكر ان كو مخاطب كرتے ہوئے كہا كہ ''آج پتہ چل جائے گا كہ حقيقى بہادر كون ہے؟''

اس كے بعد انہوں نے ايڑلگا كر گھوڑوں كو اس حصّہ كى طرف سے اُڑايا جو خندق كا كم چوڑا حصّہ تھا _ جانبازوں كا دفاع ان كو نہ روك سكا عَمروبَن عَبدوَدّ نے بلند آواز سے

۹۴

مبارز طلبى كى اور مذاق اُڑانے والے لہجہ ميں بولا '' اے بہشت كے دعويدارو كہاں ہو؟ كيا كوئي ہے كہ جسے ميں بہشت روانہ كروں يا وہ مجھے جہنّم بھيج دے ؟'' وہ اپنى بات كا تكرار كرتا رہا يہاں تك كہ اس نے كہا '' ميں نے اتنى آوازيں دى كہ ميں تھك گيا اور ميرى آواز بيٹھ گئي ہے''

اس موقع پر پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں كى طرف رخ كيا اور فرمايا كيا كوئي ہے جو اس كے شركو ہمارے سروں سے دور كرے؟'' حضرت على (ع) نے آمادگى كا اعلان كيا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كو اجازت نہيں دى اور اپنى بات پھر دہرائي ،مجاہدين اسلام كے درميان سكوت كى حكمرانى تھى كسى ميں بھى قريش كے بڑے پہلوان سے مقابلہ كى جرا ت نہ تھى _ تيسرى بار آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر فرمايا اور اس موقع پر بھى حضرت على (ع) ہى تھے جنھوں نے آمادگى كا اعلان كيا _

نتيجہ ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت على (ع) كو اجازت ديدى اور اپنا عمامہ ان كے سرپر ركھا، اپنى تلواران كو عطا كي_ جب علي(ع) قريش كے اس بہادر سے لڑنے كے لئے چلے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' اب كل ايمان كل شرك كے مقابل ہے''(۲۰)

اس زمانہ كے آئين رزم كے مطابق اسلام و شرك كے دونوں بہادروں نے رجز خوانى كى اور اس كے بعد تلوار نيام سے باہر نكال كر حملہ آور ہوگئے_ جنگ كے وقت ميدان ميں اتنى گرد اُڑ رہى تھى كہ دونوں ميں سے كوئي دكھائي نہيں ديتا تھا يہاں تك كہ على (ع) كے نعرہ تكبير كى آواز گونجي، پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' خدا كى قسم علي(ع) نے اس كو قتل كرديا _''

يہ واقعہ اس قدر برق آسا اور حيرت انگيز تھا كہ عمرو كے ساتھى اس كے قتل كوديكھنے كے بعد فوراً فرار كر گئے _ نوفل بن عبداللہ خندق پار كرنے كے لئے كو دتے وقت اس ميں

۹۵

گرگيااور جان بازان اسلام نے اس پر سنگ بارى كردي، وہ چلّانے لگا كہ عرب كا قتل جواں مردى كے ساتھ ہوتا ہے_ على عليہ السلام نہايت سرعت سے خندق ميں كود پڑے اور اس كو بھى قتل كر ڈالا_(۲۱)

خندق كے دن حضرت على (ع) كى ضربت آئين اسلام كے استقرار كا سبب بنى اس لئے كہ اگر حضرت على (ع) ، عَمرو بن عَبدودّ كو قتل نہ كرديتے تو لشكر احزاب كى مسلمانوں كے سلسلہ ميں جرا ت بڑھ جاتى اور ان ميں سے دوسرے افراد بھى خندق كو پار كر كے حيات اسلام كا خاتمہ كرديتے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس ضربت كى فضيلت ميں فرمايا_ '' روز خندق علي(ع) كى ضربت تمام جن و انس كى عبادت سے افضل ہے''(۲۲)

اس كے دوسرے دن خالدبن وليد نے شكست كے جبران كے لئے خندق كے كم چوڑے حصّہ كى طرف سے اپنے شہ سواروں كے دستہ كو خندق سے عبور كرانا چاہا ليكن مجاہدين اسلام كے مردانہ واردفاع نے، جو غروب تك جارى رہا ، دشمن كے ہر طرح كے ابتكار عمل كى قوّت كو سلب كرليا_

۹۶

سوالات :

۱_ غزوہ دومة الجندل كى اہميّت كس چيز ميں ہے؟

۲_ جنگ احزاب كے اصلى محرّك كون لوگ ہيں؟

۳_ خندق كھود نے كى تجويز كس نے پيش كي؟

۴_ بنى قُرَيظَہ كے يہوديوں نے كيوں پيمان شكنى كي؟

۵_ جنگ خندق ميں ضربت على (ع) كى اہميت كس وجہ سے ہے؟

۹۷

حوالہ جات

۱_ اس غزوہ كى تاريخ ميں اختلاف ہے، ابن ہشام اس كو جمادى الاولى ۴ھ كے واقعات ميں ذكر كرتے ہيں ليكن واقدى اور مسعودى نے اسے محرم ۵ ھ كے واقعات ميں ذكر كيا ہے_ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۱۳_ تاريخ طبرى ج ۲ ، ص ۵۵۵_ مغازى واقدى ج ۱ ص ۳۹۵ _ التنبہ و الاشراف مسعودى ملاحظہ ہو_

۲_ سيرة ابن ہشام ج۳ص ۲۱۳_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۵۷/۵۵۵_

۳ _ مغازى واقدى ج ۱ ص ۴۰۲ تا ۴۰۴_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۶۲_

۴_ التنبيہ و الاشراف ص ۲۱۵_

۵_ ليكن غزوہ احزاب كى صحيح تاريخ مورخين نے بيان نہيں كى ہے اور كہا ہے كہ شوال يا ذى قعدہ ۵ ہجرى ہے_ مذكورہ بالا فرض كى بنا سپاہ احزاب كے ذريعہ مدينہ كا محاصرہ ۲۳ شوال ۵ ہجرى ہوگا_

۶_ اكثر مورخين نے لكھا ہے كہ ايك مہينے تك مدينہ پر لشكر احزاب كا محاصرہ تھا_ اور پھر مورخين كى اكثريت نے لكھا ہے كہ دشمن كے فرار كے بعد بلافاصلہ اسلامى سپاہيوں نے اسى دن بنى قريظہ كے لشكر اور قلعہ كا محاصرہ كرليا جس كى تاريخ ۲۳ ذى قعدہ بيان كى گئي ہے ليكن غزوہ احزاب كى دقيق تاريخ مؤرخين نے بيان نہيں كى بلكہ لكھاہے كہ ۵ ھ ق ميں ماہ شوال يا ذى القعدہ ميں يہ غزوہ پيش آيا ليكن اگر بنى قريظہ كے قلعہ كى تاريخ كو دقيق فرض كريں تو پھر دشمن نے مدينہ كا محاصرہ ۲۳ شوال ۵ ھ ق كو كيا_

۷_ طبقات ابن سعد ج۲ ص ۶۶_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۶۵_

۸_حيات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ڈاكٹر ہيكل ص ۲۹۷_

۹_( اَلم تَرَ الى الّذين اُوتوا نَصَيباً من الكتب يُؤمنون بالجبت و الطّاغوت و يقولون للّذين كَفَرُوا هؤلاء اَهدى منَ الَّذينَ اَمنُو سبيلاً ) (نسائ/۵۱)_

۱۰_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۶۶_

۱۱_ التنبيہ و الاشراف ميں مسعودى كى نقل كے مطابق حملہ آواروں كى تعداد چوبيس ہزار تھي_

۹۸

۱۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۴۴۴_

۱۳_سيرة حلبيہ ج ۲ ص ۳۱۳_'' سلمانُ منّا اہلَ البيت''_

۱۴_ سيرة حلبيہ ج ۲ ص ۳۱۳_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۶۹ _ تاريخ بغداد ج ۱ ص۱۳۱ ، ۱۳۲ تھوڑے سے اختلاف كے ساتھ_

۱۵_( و اذ يقولُ المُنافقون و الّذين فى قلوبهم مَرَضٌ ما وعدنا اللهُ و رسُولُه الا عُزوراً ) (احزاب۱۲) تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۷۰_

۱۶_ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۵۰_

۱۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۴۵۴/۴۵۹ سے تلخيص كيساتھ_ عَضَل و قارّہ دو قبيلوں كے نام ہيں _ يہ وہ قبيلے ہيں جنہوں نے اصحاب رجيع والے واقعہ ميں بے وفائي كى ، اپنا پيمان توڑڈالا اور مسلمانوں كو شہيد كيا ان كلمات كے استعمال كا مطلب يہ تھا كہ بنى قريظہ نے بھى ان دوقبيلوں كى مانند پيمان شكنى كى ہے _

۱۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۴۵۹_

۱۹_( وَ اذ قَالت طَائفةٌ منهُم يَا اَهلَ يَثربَ لا مُقامَ لَكم فَارجعُوا وَيَستَاذن فريقٌ مَنهُمُ البَّنيَّ يَقولُونَ انَّ بُيُو تَنَاعَورة وَ مَا هيَ بعَورَة: ان يُريدُونَ الّا فراراً ) ( احزاب/۱۳) _

۲۰_( وَ لمّارَا المؤمنُونَ الا حزاَبَ قَالوا هذا مَا وَعَدَنَا اللهُ و رَسُولُهُ و صَدَقَ الله و رَسُولُهُ و مَازَادَ هُم اَلّا ايماناً و تَسليماً ) (احزاب /۲۲) _

۲۱_ برزالايمانُ كُلَّہ، الى الشرك كُلہ_

۲۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۴۷۰_ ارشاد شيخ مفيد ص ۵۳_

۲۳_ ضَربة عَليّ يومَ الخَندَق اَفضَلُ من عبادة الثَقَلَين_ دلائل الصدق ج ۲ ص ۱۷۵، مستدرك ج ۳ ص ۳۲_

۹۹

چھٹاسبق

دشمن كى صفوں ميں تفرقہ پيدا كرنے كى كوشش

بنى قريظہ ور مشركين كے درميان پھوٹ

دشمن كى صفوں ميں لشكر اسلام كا سپاہي

شہداء اسلام اور كشتگان كفر

لشكر احزاب كى شكست كے اسباب

جنگ احزاب كے نتائج

غزوہ بنى قريظہ

ايك خيانت كا ر مسلمان اور اسكى توبہ كى قبوليت

بنى قريظہ كا اپنے آپ كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حوالے كرنا

سعد ابن معاذ كا فيصلہ

سعد كے فيصلے كى دليليں

پيمان شكنى كا انجام

اسارى اور مال غنيمت

سوالات

حوالہ جات

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

كے وقت جبكہ مطلع صاف و روشن نہيں تھا دشمن كا اچانك حملہ وغيرہ ايسے عوامل تھے جن كے باعث مسلمانوں میں يہ قوت فيصلہ سلب ہو گئي كہ وہ كيا اقدام كريں_

ب:آخرى فتح

۱_ غيبى مدد اور خداوند تعالى كى طرف سے نصرت و كاميابى _اس كے بارے میں قرآن مجيد كا ارشاد ہے

( ثُمَّ أَنزَلَ الله ُ سَكينَتَهُ عَلى رَسُوله وَعَلَى المُؤمنينَ وَأَنزَلَ جُنُودًا لَم تَرَوهَا وَعَذَّبَ الَّذينَ كَفَرُوا وَذَلكَ جَزَائُ الكَافرينَ ) (۴۸)

'' پھر اللہ نے اپنا سكون اپنے رسول(ص) پر اور مومنين پر نازل فرمايا اور وہ لشكر اتارے جو تم كو نظر نہ آتے تھے اور منكرين حق كو سزا دى كہ يہى بدلہ ہے ان لوگوں كے لئے جو حق كا انكار كرتے ہيں '' _

۲_ رسول خدا(ص) ،حضرت على (ع) اور ديگر ايثار پسند اور جان نثار مردوں نيز عورتوں كى ميدان كا رزار ميں پائدارى ، اس كے ساتھ ہى ميدان جنگ ميں رسول خدا(ص) كا سپاہ كو واپسبلانا اور انھيں از سر نو منظم كرنا _

۳_ حضرت على (ع) كے ہاتھوں دشمن كے پر چمدار اور ديگر مسلمانوں كے ہاتھوں دشمن كے سردار '' دُرَيدبن صَمَّہ،، كا قتل كيا جانا _

۲۶۱

سوالات

۱_'' صلحنامہ حديبيہ ،، كى شرائط كے مطابق رسول خدا(ص) كو قريش كے ساتھ دس سال تك جنگ نہيں كرنى چاہئے تھى _ آنحضرت(ص) نے كس وجہ سے دو سال بعد ہى مكہ پر لشكر كشى كر دى ؟

۲_ رسول خدا(ص) نے جب مكہ پر لشكر كشى كى تو اس مہم كو قريش سے پوشيدہ ركھنے كيلئے آنحضرت(ص) نے كيا اقدامات كئے ؟

۳_ رسول خدا(ص) نے مكہ كے نزديك پہنچنے كے بعد خونريزى اور قريش كے ساتھ تصادم كو روكنے كيلئے كيا اقدامات كئے ؟

۴_ رسول خدا(ص) نے مكہ كو فتح كرنے كے بعد جب مشركين كو قيد كر ليا تو آنحضرت(ص) نے ان كے ساتھ كيا سلوك كيا ؟ اور آپ(ص) كے روےے كا ان پر كيا اثر ہوا ؟

۵_ غزوہ حنين كا كب اور كس طرح آغاز ہوا ؟

۶_ غزوہ حنين كى ابتدا میں مسلمانوں كے شكست كا كيا سبب تھا ؟

۷_ فتح حاصل كرنے كيلئے رسول خدا(ص) اور حضرت على (ع) كا كيا كردار رہا ؟ اس كى وضاحت كيجئے_

۸_ غزوہ حنين میں مسلمانوں كو ابتدا ء میں شكست ہوئي اور بعد میں فتح و نصرت سے ہمكنار ہوئے قرآن مجيد نے ان واقعات كا كس طرح تجزيہ كيا ہے ؟_

۲۶۲

حوالہ جات

۱_ المغازى ج۲صفحہ۷۹۶ _

۲_ السيرة النبويہ ج ۴ صفحات ۴۰_۴۱ _

۳_ المغازى ج۲ صفحات ۸۰۱ _۸۱۴_

۴_ بعض كتب تاريخ میں يہ آيا ہے كہ ابو سفيان كے ساتھى اسى جگہ سے واپس چلے گئے اور صرف ابوسفيان كو رسول خدا(ص) كى خدمت میںحاضر كيا گيا (السيرة النبويہ ابن ہشام ج۴ صفحہ ۴۵) _

۵_ المغازى ج۲ صفحات ۸۱۴ _۸۱۵ _

۶_ايضا صفحات ۸۱۸_۸۲۱ _

۷_ ۸_السيرة النبويہ ابن ہشام ج۴ صفحات ۴۶_۴۷ _

۹و ۱۰_ المغازى ج۲ صفحہ ۸۲۵ _

۱۱_ ملاحظہ ہو : اعيان الشيعہ ج۱صفحہ ۴۰۹ _

۱۲_ المغازى ج۲ صفحہ ۸۳۵ _

۱۳_ سورہ يوسف آيت۹۲ _

۱۴_ المغازى ج۲ صفحہ ۸۳۵_

۱۵و ۱۶_تاريخ طبرى ج۳ صفحہ ۶۱ _

۱۷_سورہ نصر آيت۲ _

۱۸_ ملاحظہ ہو : تفسير الميزان ج۲۰ صفحہ ۳۷۶ _

۱۹_ ملاحظہ ہو :المغازى ج۳ صفحہ ۸۷۳ والسيرة النبويہ ج۴ صفحہ ۷۰ _

۲۰_ ملاحظہ ہو : المغازى ج۲ صفحہ ۸۲۵_

۲۱_ ملاحظہ ہو : تاريخ طبرى ج۳ صفحہ ۶۰ _

۲۲_ المغازى ج۲ صفحات ۸۲۱' ۸۲۲ _

۲۳_ ملاحظہ ہو '' كتاب رسول اكرم(ص) ميدان جنگ میں،، ترجمہ سيد غلام رضا سعيدى ص ۱۴۸

۲۶۳

۲۴_ ملاحظہ ہو : بحار الانوار ج۲۱صفحہ ۱۴۵ _

۲۵ _ دور جاہليت ميں '' ذوالمجاز'' عربوں كا مشہور بازار تھا يہ جگہ اس بازار كے قريب مكہ و طائف كے درميان واقع تھى البتہ يہ جگہ مكے كى نسبت طائف سے نزديك تر ہے اور يہاں سے مكے كا فاصلہ تين راتوں میں طے ہوتا تھا ملاحظہ ہو : التنبيہ و الاشراف ص۲۳۴ و معجم البدان ج۲صفحہ ۳۱۳ _

۲۶_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۶۲ والارشاد مفيد ص ۷۴_

۲۷_تاريخ طبرى ج ۳ ص ۷۴_

۲۸_السيرة النبويہ، ابن ہشام ج ۴ ص ۸۵_

۲۹_الارشاد مفيد ۷۶_

۳۰_المغازى ج ۳ ص ۹۰۲_

۳۱_السيرة النبويہ' ابن كثير ج ۳ ص ۶۲۰_

۳۲_ملاحظہ ہو : الارشاد ص ۷۵ و تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۶۳_

۳۳_ملاحظہ ہو : الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۵۲ و تفسير المنارج ۱۰ ص ۲۵۸_

۳۴_الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۵۱_

۳۵_يہ كنويں كا نام تھا جو مكہ اور طائف كے درميان واقعہ تھا البتہ مكے سے زيادہ نزديك تھا معجم البلدان ج ۲ ص ۱۴۲ ' اس كنويں كا نام جعرَّانہ بھى لكھا گيا ہے_

۳۶_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۹۲۷ تاريخ طبرى ج ۳ ص ۸۳_

۳۷_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۹۳۶_ ۹۳۷و تاريخ طبرى ج ۳ ص ۸۴_

۳۸_بعض كتب تاريخ ميں درج ہے كہ رسول خدا(ص) نے يہ محاصرہ اول ماہ ذى القعدہ تك جارى ركھا ملاحظہ ہو بحارالانوار ج ۲۱ ص ۱۸۱ ، اور يہ قول اس بنا پركہ جنگ حنين بتاريخ دہم شوال واقعہ ہوئي (المغازى ج ۳ ص ۸۹۲)حقيقت كے زيادہ نزديك ہے_

۳۹_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۱۸۲_ يہاں يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ چند قيديوں نے فديہ ادا كركے بھى آزادى حاصل كى تھي_

۲۶۴

۴۰_ملاحظہ ہو: الارشاد ص ۷۶_

۴۱_الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۵۳_

۴۲_ملاحظہ ہو : الارشاد ص ۷۶_ ۷۷ رسول خدا(ص) كے اس اقدام ميں شايد يہ نقطہ پنہاں تھا كہ مكہ كے تازہ مسلمان بالخصوص ان كے سرداروں ميں عقل وبصيرت نہ تھى بلكہ وہ خوف و مجبورى كى وجہ سے مسلمان ہوئے تھے اسى لئے پيغمبر اكرم (ص) پر ان كى دلجوئي كرنا ضرورى تھى تاكہ ان كے دل اسلام كى جانب زيادہ مائل ہو جائيں فقہ اسلامى ميں اس عمل كو'' تاليف قلوب ''كہا جاتا ہے اور اس كا شمار مصارف زكات ميں ہوتا ہے_

۴۳_المختصر فى اخبار البشر تاريخ ابوالفداء ج ۱ ص ۱۴۸_

۴۴_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۸۹۰ والطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۵۰_

۴۵_سورہ توبہ آيت ۲۵_

۴۶_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۸۹۷_

۴۷_ملاحظہ ہو : تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۶۲_

۴۸_سورہ توبہ آيت ۲۶_

۲۶۵

سبق ۱۵:

غزوہ تبوك

۲۶۶

غزوہ تبوك(۱)

جزيرہ نما ئے عرب ميں مشرك كے عظيم ترين مركز كى شكست اور تسخير كے ساتھ ہى حجاز كے سرداروں نے بھى رسول خد ا(ص) كے سامنے سر تسليم خم كرديا اور اس طرح جب ملك كى شمالى حدود ميں دين اسلام كى اشاعت كے امكانات زيادہ ہوگئے تو رومى حكومت كے ايوانوں ميں وحشت و اضطراب كے باعث لرزہ پيدا ہونے لگا اس كى عظیم ترين عسكرى طاقت چونكہ انتہائي مرتب ومنظم تھى اور جنگوں ميں اپنے طاقتور حريف يعنى ملك ايران پر وہ پے در پے فتوحات حاصل كرچكا تھا اسى لئے اسے اپنى طاقت پر ناز و غرور تھا چنانچہ اس طاقت كے زعم ميں اس نے فيصلہ كرليا كہ اپنے اس مسلح و منظم لشكر كے ساتھ مسلمانوں پر حملہ كردے_

رسول خدا (ص) كو علم ہوگيا كہ شہنشاہ روم ''ہرقل'' نے عظیم لشكر جمع كرليا ہے اور فوجيوں كو انكى ايك سال كى تنخواہ پيشگى ادا كردى ہے ، اس كے ساتھ ہى اس نے سرحدوں پر واقع ''لخم'' ، ''جذام''، ''غسان'' اور ''عاملہ'' نامى علاقے كے لوگوں كو بھى اپنے ساتھ ملا ليا ہے نيز اس كا ہر اول دستہ ''بلقائ(۲) '' تك آن پہنچا ہے(۳) _

رسول خد ا(ص) كو جب يہ اطلاع ملى تو اس وقت موسم انتہائي گرم تھا اور كھجور پك كر اتارنے كے قابل ہوچكى تھى ايك طرف راستے كى دورى اور دوسرى طرف سپاہ روم كى كثرت ايسے عوامل تھے جن كے باعث سپاہ كو روانہ كرنا سخت دشوار كام تھا بالخصوص ان واقعات كو مد نظر ركھتے ہوئے جو معركہ موتہ كے موقع پر پيش آچكے تھے ليكن ان لوگوں كيلئے جو واقعى مسلمان

۲۶۷

تھے اسلام كى قدر وقيمت ذاتى آسائشے و آرام اور مادى منفعت سے كہيں زيادہ تھى ا ور وہ اسلام كى فلاح كى خاطر ان كو نظر انداز كرسكتے تھے چنانچہ اس خےال كے پيش نظر رسول خدا (ص) نے صحابہ كو جمع كيا اور مختصر طور پر دشمن كے استعداد اور اس كى عسكرى بالادستى كے بارے ميں مطلع كيا اس كے ساتھ ہى آنحضرت (ص) نے لشكر كى تيارى اورر وانگى كے لئے سعى وكوشش شروع كردى(۴) چنانچہ قبائل كے درميان اور مكہ كى جانب رسول خدا (ص) كے نمائندے روانہ كئے گئے تاكہ وہ لوگوں كو مقدس جہاد ميں شركت كى دعوت ديں_(۵)

ناسازگار حالات كے باوجود تيس ہزار جنگجو سپاہيوں نے جن ميں دس ہزار سوار بھى تھے رسول خدا (ص) كى پكار پر لبيك كہا_(۶)

رسول خدا (ص) نے جنگ كے اخراجات كيلئے مالدار لوگوں سے كہا كہ سپاہ كى مال و اسلحہ كے ذريعے مدد كريں(۷) اس كے علاوہ جب پيغمبر خدا (ص) كى طرف سے يہ اعلان كرديا گيا كہ اس سفر كا مقصد كيا ہے تو مسلمان اس اسلحہ اور ساز و سامان كے ساتھ جو ان كے پاس تھا اسے لے كر بير كوںميں جمع ہوگئے _

رسول خد ا(ص) كے فرمان پر لوگوں كے مختلف موقف

جب ہم تاريخ كى كتابوں كے صفحات اور ان آيات پر نظر ڈالتے ہيں جو اس سلسلے ميں نازل(۸) ہوئي ہيں تو ہم ديكھتے ہيں كہ اس غزوہ كے بارے ميں مسلمانوں كے افكار و نظريات مختلف و گوناگوں تھے جس كى كيفيت ذيل ميں درج ہے_

۱_خاص مو من افرادكو (اور اكثريت ان ہى پر مشتمل تھى) جيسے ہى رسول خدا (ص) كى دعوت كا علم ہوا تو اس ساز وسامان كے ساتھ جوان كے پاس موجود تھا رسول خدا (ص) كى سپاہ ميں

۲۶۸

شامل ہوگئے_

۲_ايك گروہ ايسا بھى تھا جو رسول خد ا(ص) كے ساتھ جانا تو چاہتا تھا مگر اس كے پاس سوارى كے جانور نہ تھے چنانچہ انہوں نے رسول خدا (ص) سے كہا كہ اگر سوارى كا بندوبست ہو جائے تو وہ چلنے كو تيار ہيں ليكن جب رسول خد ا(ص) نے كہا كہ سوارى كے جانور كا فراہم كرنا تو ممكن نہيں تو ان كى آنكھوںميں آنسو آگئے اور وہ اشك بار اپنے اپنے گھروں كى طرف واپس چلے گئے _(۹)

۳_كچھ لوگ ايسے بھى تھے جنہوں نے نہ فقط يہ كہ فرمان رسول (ص) كے سامنے سر نہيں جھكايا بلكہ سپاہ كى روانگى ميں جس حد تك ممكن ہوسكتا تھا خلل اندازى سے بھى باز نہ آئے چنانچہ وہ مجاہدين جو جنگ ميں شركت كرنا چاہتے تھے ان سے يہ لوگ كہتے تھے كہ : اس سخت گرمى ميں جنگ پر مت جائو(۱۰) اس كے علاوہ جو لوگ ان مجاہدين كو مالى مدد دينا چاہتے تھے تو ان كا بھى يہ لوگ مذق اڑاتے(۱۱) كسى پر ريا كا رہونے كا الزام لگا تے اور كسى كى يہ كہہ كر حوصلہ شكنى كرتے كہ تمہارے پاس سامان سفر بہت كم ہے جنگ پر جاكر كيا كرو گے(۱۲)

۴_ كچھ لوگ ايسے بھى آرام طلب تھے جو جنگ سے فرار كرنے كى غرض سے رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوتے اور كوئي بے بنياد بہانہ تراش كر آنحضرت (ص) سے يہ درخواست كرتے كہ انہيں مدينہ ميں ہى رہنے ديا جائے(۱۳) _

۵_ بعض نے سپاہ اسلام كے ساتھ جنگ ميں شريك ہونے سے ہچكچا ہٹ كامظاہرہ كيا ليكن تردّدميں ان كى بدنيتى شامل نہيں تھى بلكہ اس كا سرچشمہ جنگ كے معاملے ميں ان كى سستى اورغفلت تھى دشمن كے ساتھ جنگ كرنے سے زيادہ انہيںاپنے درختوں اور

۲۶۹

محصولات كے ساتھ دلچسپى تھى اور يہ كہتے تھے كہ ہم كھجوريں جمع كرنے كے بعد ہى جنگ ميں شركت كريں گے _(۱۴)

تبوك كى جانب روانگي

منافقين كى ہر قسم كى رخنہ اندازى ،افترا پردازى اور منفى پروپيگنڈے كے باوجود رسول خد ا(ص) نے حضرت على (ع) كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر كرديا اورماہ رجب سنہ ۹ ہجرى قمرى كو اس عظيم لشكر كے ہمراہ جسے اس دن تك مدينہ ميں كسى كى آنكھ نے نہ ديكھا تھا شمال كا طويل اور پر مشقت راستہ اختيار كيا _

تاريخ كى بعض كتابوں ميں درج ہے(۱۵) كہ رسول خدا(ص) نے حضرت على (ع) كو مدينہ ميں اپنا جانشين اسى وجہ سے مقرر كيا كہ آنحضرت (ص) كو عربوں كى بدنيتى كے بارے ميں بخوبى علم تھا جن كے ساتھ آپ (ص) نے جنگ كى تھى اور ان كے بہت سے رشتہ داروں كو تہ تيغ كيا تھا اس كے علاوہ آپ(ص) مدينہ كے ان منافقين كى كارستانيوں سے بھى بے خبر نہ تھے جنہوں نے كوئي نہ كوئي بہانہ بناكر اس جنگ ميں شركت كرنے سے اجتناب كيا تھا اور يہ احتمال تھا كہ جب رسول خد ا(ص) كافى عرصے تك مدينہ سے باہر تشريف فرمارہيں گے تو آپ (ص) كى غير موجودگى نيز مسلمانوں كى تنہائي كا وہ غلط فائدہ اٹھانا چاہيں گے اور مدينہ پر حملہ كرديں گے ، حضرت على (ع) كى مدينہ ميں موجودگى رسول (ص) خدا كى موجود گى كى طرح دشمنوں كو خوف زدہ ركھنے ، ان كى سازشوں كو نام كام بنانے اور مركزى حكومت كى حفاظت و پاسدارى كيلئے اشد ضرورى تھي_

چنانچہ يہى وجہ تھى جب رسول خدا(ص) نے حضرت على (ع) كو اپنا جانشين مقرر كيا تو اس سلسلے ميں آپ (ع) نے فرمايا كہ :

۲۷۰

''انَّ الْمَديْنَةَ لَا تَصْلَحُ اَلَّا بيْ اَوْبكَ'' _

''مدينہ ميرے يا تمہارے بغير اصلاح پذير نہ ہوگا''_(۱۶)

سپاہ اسلام كے سامنے چونكہ اقتصادى مشكلات، راستے كى دورى ، سوارى كے جانوروں كى كافى كمي، سخت گرمي، جھلسادنے والى ہوا كى تپش جيسى مشكلات تھيں اسى لئے اس لشكر كو ''جَيشُ العُسرَة'' كے عنوان سے ياد كيا گيا ہے(۱۷) چنانچہ يہ سپاہ ان تمام سختيوں كو برداشت كرتى ہوئي ''تبوك'' نامى مقام پر پہنچ گئي مگر يہاں پہنچ كر معلوم ہوا كہ دشمن كا دور دور تك اتا پتہ نہيں گويا ہر قل كو جب اسلام كى عظیم سپاہ كى روانگى كا علم ہوا تو اس نے عافيت اسى ميں سمجھى كہ وہ پسپا ہو كر اپنے ملك كى حدود ميں چلاجائے(۱۸) ليكن سپاہ اسلام نے وسيع پيمانے پر انتہائي تيزى كے ساتھ شمالى حدود كے كنارے پہنچ كر اور بيس روز تك وہاں قيام پذير رہ كر دشمنان اسلام كو بہت سے پند آموز سبق سكھاديئے جن ميں سے چند كا ہم يہاں ذكر كريں گے_

۱_روم كى شہنشاہيت اور اسكے دست پروردہ سرحدى نگہبانوں پر اسلام كى طاقت و عظمت قطعى طور آشكار و عياں ہوگئي اور يہ حقيقت پايہ ثبوت كو پہنچ گئي كہ مسلمانوں كى عظيم عسكرى طاقت اس حد تك ہے كہ اگر دنيا كے طاقتور ترين لشكر سے بھى ٹكرلينے كى نوبت آجائے تو اس كا مقابلہ كرنے ميں انہيں ذرا بھى باك نہيں چنانچہ يہى وجہ تھى كہ لشكر اسلام كے سرزمين تبوك تك پہنچنے كى اطلاع ملتے ہى بعض سرحدى صوبوں كے فرمانروا رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور اس معاہدے كے ساتھ كہ وہ كسى طرح كا تعرض نہ كريں گے يہ بھى وعدہ كيا كہ ہر سال معقول رقم اسلامى حكومت كو بطور خراج بھى ادا كريں گے _(۱۹)

۲۷۱

۲_مدينہ و تبوك كے راستے پر ''دَوْمُة الجندلَ'' نامى محكم قلعہ(۲۰) بنا ہوا تھا جس پر ''اُكَيدَر'' نامى عيسائي بادشاہ كى حكمرانى تھى چونكہ اس كے تعلقات ہر قل كے ساتھ خوشگوار تھے اسى لئے اس كا شمار ان مراكز ميں ہوتا تھا جو مسلمانوں كيلئے خطرات پيدا كرسكتے تھے چنانچہ رسول خدا(ص) نے خالد بن وليد كو تبوك سے چار سو بيس سواروں كے ہمراہ دومة الجندل كى جانب روانہ تا كہ وہاں پہنچ كر انہيں غير مسلح كردے ، خالد نے دشمن كونہتا كرنے كے بعد اس علاقے كے فرمانروا كو گرفتار كرليا اور اسے مال غنيمت كے ساتھ لے كر رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا رسول خدا (ص) نے اسے اس شرط پر آزاد كرديا كہ وہ ''جزيہ'' ادا كرے گا_(۲۱)

۳_اس غزوہ كے باعث دين اسلام اور رسول خد ا(ص) كا نام نامى روم كے عيسائيوں كى زبان پر جارى رہنے لگا اور اس كا چرچا تازہ ترين خبر كى طرح ہر جگہ رہتا چنانچہ ميدان ايساہموار ہوگيا كہ رومى دين اسلام كو عالمى طاقت كى نظر سے ديكھنے لگے_

۴_جزيرہ نمائے عرب ميں وہ عرب و مشركين جو دين اسلام قبول كرنے كى سعادت سے محروم رہ گئے تھے اب انہيںبھى دين اسلام كى قوت كا پورى طرح اندازہ ہونے لگا تھا اور يہ بات اچھى طرح ان كى سمجھ ميں آگئي كہ جب روميوں كا طاقت ور لشكر اپنے پورے جنگى ساز وسامان كے باوجودلشكر اسلام كا مقابلہ نہ كرسكا تو ايسى زبردست طاقت كے سامنے ان كا سينہ سپر رہنا لا حاصل ہے ، ان خيالات كے پيش نظر ان قبائل نے يہ فيصلہ كرليا كہ اس سے قبل كہ رسول خدا (ص) ان كى خبر لينے كيلئے آئيں وہ خود ہى اپنے نمائندے رسول خدا (ص) كى خدمت ميں روانہ كرديں اور يا تو دين اسلام قبول كرليں اور يا پھر ايسا معاہدہ كريں جس كى رو سے وہ اسلامى حكومت كے معاملات

۲۷۲

ميں متعرض نہ ہوں گے او راسلامى حكومت كے سائے ميں ہى رہيں گے(۲۲) چونكہ بيشتر وفد غزوہ تبوك كے بعد سنہ ۹ ہجرى ميں رسول خدا (ص) كى ملاقات سے مشرف ہوئے(۲۳) اسى وجہ سے سنہ ۹ ہجرى كو ''سَنَةُ الُوفُود'' كہاجانے لگا _(۲۴)

اس كے علاوہ رومى لشكر مسلمانوں كا مقابلہ كرنے سے پہلے ہى چونكہ فرار كر گيا تھا اس لئے سپاہ كے حوصلے اس واقعے سے بہت زيادہ بلند ہوگئے چنانچہ مسلمانوں كے روم پر بعد والے حملوں پر اس كے بہت عمدہ اثرات رونما ہوئے_

پہلا تو يہى كہ : ان كے حوصلے اتنے قوى ہوگئے كہ وہ كسى بھى طاقت كو خاطر ميں نہيں لاتے تھے اور شايد اسى حوصلہ كى وجہ سے انہوں نے اپنا اسلحہ فروخت كردينا چاہا تھا كيونكہ وہ اكثر كہا كرتے تھے كہ ''اب جہاد كى ضرورت ہى باقى نہيں رہى ہے '' مگر رسول خدا (ص) نے انہيں اس اقدام سے منع فرمايا _(۲۵)

مدينہ كے رہنے والوں كو جب يہ اطلاع ملى كہ روميوں پر فتح حاصل ہوئي ہے تو وہ ايسے مسرور ہوئے كہ بقول ''بيہقي'' عورتوں ' بچوں اور نوجوانوں نے يہ ترانے گا كر لشكر اسلام كا استقبال كيا _

طَلَعَ البَدرُ عَلَينَا

من ثََنيَّات الوَدَاع

وَجَبَ الشُّكرُ عَلَينَا

مَا دَعَا للّه دَاع

اَيُّهَا المَبعُوثُ فينَا

جئتَ بالَامَر المُطَاع

''ہم پر ثنيات الوداع سے چودھويں كے چاندنے طلوع كيا جب تك كوئي دعا كرنے والا ہے' ہم پر شكر واجب ہے ، اے ہم ميں مبعوث ہونے والے نبى (ص) آپ(ص) ايسا حكم لے كر آئے ہيں جس كى اطاعت ضرورى ہے''_(۲۶)

۲۷۳

دوسرا يہ كہ : مسلمان اتنا طويل پر مشقت سفر كرنے كے باعث چونكہ اس كى مشكلات و خصوصيات سے واقف ہوگئے تھے اسى لئے مستقبل ميں شام كو فتح كرنے كا راستہ ان كے لئے ہموار ہوگيا اور شايد يہى وجہ تھى كہ رسول اكرم (ص) كى رحلت كے بعد ديگر ممالك كو فتح كرنے سے قبل مسلمان شام كو فتح كرنے كى جانب متوجہ ہوئے_

منافقوں كى رسوائي

'غزوہ تبوك '' صدر اسلام كى ديگر سب جنگوں سے زيادہ منافقين كى جولان گاہ اور ان كے خيانت كارانہ ومجرمانہ افعال كى آماجگاہ رہا چنانچہ انہوں نے جتنى بھى بداعمالياں اور بدعنوانياں كيں خداوند تعالى نے دوسرى جنگوں كے مقابل ان كے اتنے ہى برے ارادوں اور ان كے منافقانہ چہروں كو بے نقاب كيا اور شايد اسى وجہ سے اس غزوہ كو ''فَاضحَہ '' (رسوا كن )كہا گيا ہے _(۲۷)

اس سے قبل كہ سپاہ اسلام ''تبوك'' كى جانب روانہ ہو منافقين نے جو بھى خيانت كارياں كيں ان كے بعض نمونے اوپر پيش كئے جاچكے ہيں انہوں نے انہى خيانت كاريوں اور اپنى بداعماليوں پر اكتفانہ كى بلكہ جتنے عرصے تك لشكر اسلام غزوہ تبوك پر رہا ان كے سازشيں بھى جارى رہيں چنانچہ ذيل ميں ہم اس كے چند نمونے پيش كريں گے_

۱_منافقين كے ايك گروہ نے ''سُويلم'' نامى يہودى كے گھر پر ميٹنگ كى جس ميں انہوں نے اس مسئلے پر غور وفكر كيا كہ جنگى امور اور لشكر كى روانگى ميں كس طرح خلل اندازى كى جائے چنانچہ جب رسول خدا (ص) كو ان كے ارادے كا علم ہوا تو آنحضرت (ص) نے چند لوگوں كو اس كے گھر كى طرف روانہ كيا جنہوں نے اسے نذر آتش كرديا(۲۸) _

۲۷۴

۲_جس وقت سپاہ اسلام نے ''ثينة الوداع'' نامى جگہ پر پڑاؤ كيا تو منافقين كے سردار عبداللہ ابن ابى نے اپنے ساتھيوں اور يہودى حليفوں كے ہمراہ كوہ ''ذباب'' كے كنارے اپنا خيمہ لگايا اور رسول خد ا(ص) كے خلاف اس طرح زہر اگلنا شروع كيا_

''محمد(ص) كو روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كى سوجھى ہے اور وہ بھى اس جھلس دينے والى گرمى ميں اور اتنى دور جاكر_ ادھر سپاہ اسلام كا يہ حال ہے كہ اس ميں جنگ كرنے كى ذرا بھى تاب نہيں ، روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كواس نے كھيل تماشا سمجھ ركھا ہے مجھے تو ابھى يہ نظر آرہا ہے كہ محمد (ص) كے جتنے بھى ساتھى ہيں سب ہى كل قيدى ہوں گے اور سب كى مشكيں كسى ہوئي نظر آئيں گي''_

وہ اپنى اس خيانت كارانہ گفتار اور بدكردارى سے چاہتا تھا كہ مسلمانوں كے حوصلے پست كردے اور انہيں اس جہاد مقدس پر جانے سے باز ركھے ، مگر اس كہ يہ نيرنگى وحيلہ گرى كارگر ثابت نہ ہوئي اور بہت ہى ياس و نااميدى كى حالت ميں مدينہ پہنچا_(۲۹)

۳_سپاہ اسلام كى تبوك كى جانب روانگى اور حضرت على (ع) كے مدينہ ميں قيام سے منافقوں كو اپنى تمام كوششيں ناكام ہوتى نظر آئيں چنانچہ اب وہ اس فكر ميں رہنے لگے كہ كس طرح ايسا ماحول پيدا كريں اور اس قسم كى افواہيں پھيلاديں كہ حضرت على (ع) مركزى حكومت سے دور چلے جائيں تاكہ رسول خدا(ص) اور حضرت على (ع) كى غير موجودگى ميں پورے اطمينان كے ساتھ اپنى سازشوں كو عملى جامہ پہناسكيں_

حضرت على (ع) نے جب يہ افواہيں سنيں كہ رسول خدا (ص) آپ(ع) كو اپنى سرد مہرى اور بے توجہى كى وجہ سے محاذ جنگ پر لے كر نہيں جارہے ہيں تو آپ (ع) نے رسول خدا(ص) كى خدمت ميں

۲۷۵

حاضر ہوكر تمام واقعات آنحضرت (ص) كے سامنے بيان كئے جنہيں سن كر رسول خدا(ص) نے فرمايا كہ :

''يہ لوگ جھوٹ بول رہے ہيں ميں تو تمہيں اس وجہ سے چھوڑ كر آيا ہو كہ وہاں جو كچھ ہے تم اس كى حفاظت و نگہبانى كرو كيا تمہيں يہ بات پسند نہيں ہے كہ تم ميرے لئے ايسے ہى ہو جيسے موسى (ع) كے لئے ہارون (ع) تھے ، فرق صرف يہ ہے كہ ميرے بعد نبوت كا سلسلہ ختم ہو جائے گا''_

اس كے بعد رسول خدا (ص) نے حضرت على (ع) سے ارشاد فرمايا كہ : ''آپ (ع) واپس مدينہ چلے جائيں اوراپنے خاندان اور '' دار الہجرة '' ميں آنحضرت (ص) كے جانشين كى حيثيت سے ساتھ مقيم رہيں _(۳۰)

۴_سپاہ اسلام كے خوف سے لشكر روم كے فرار نيز ان فتوحات كے باعث جو آنحضرت (ص) كو ''تبوك'' ميں مقيم رہنے كى دوران حاصل ہوئيں ، منافقين كا حسد و كينہ پہلے سے كہيں زيادہ بڑھ گيا اسى لئے جس وقت سپاہ اسلام تبوك سے واپس آرہى تھى تو ان منافقين نے نہايت ہى خطرناك چال چلنے كا فيصلہ كيا ، ان كى سازش يہ تھى كہ جب رسول خدا(ص) رات كى تاريكى ميں بلند درے سے گذريں گے تو منافقين ميں سے دس بارہ آدمى(۳۰) آنحضرت (ص) كى گھات ميں بيٹھ رہیں تاكہ جيسے ہى آپ (ص) كى سوارى كا اونٹ اس راستے سے گذرے تواسے بھڑكاديں اور آنحضرت (ص) اس گہرے درے ميں گر كر مارے جائيں_

ليكن خداوندتعالى نے آنحضرت (ص) كو ان كى سازش سے آگاہ كرديا چنانچہ جب منافقين نے يہ ديكھا كہ رسول خدا(ص) كو ان كى سازش كا علم ہوگيا ہے تو وہ وہاں سے فرار ہوگئے

۲۷۶

اور اپنے ساتھيوں سے جاملے اگر چہ رسول خدا(ص) نے ان سب كو پہچان ليا تھا اور صحابہ نے بھى انہيں قتل كر نے پر اصرار كيا تھامگر رسول خدا(ص) نے انہيں معاف كرديا _(۳۲)

۵_منافقين اپنے جرائم كى پردہ پوشى كرنے كيلئے ہميشہ اس بات كى كوشش كرتے كہ انہيں دين كا لبادہ پہنائے رہيں ، مذہب كے پردے ميں اپنے ان مجرمانہ افعال كو جارى ركھنے كيلئے انہوں نے محلہ''قبا'' ميں مسجد كے نام سے ايك سازشى مركز قائم كيا تاكہ وہاں سے اپنى سياسى سرگرميوں كو جارى ركھ سكيں ، رسول خدا (ص) كى تبوك كى طرف روانگى سے پہلے انہوں نے مسجد كى تعمير شروع كى اور رسول خد ا(ص) اس كے بارے ميں مطلع بھى ہوئے اور جس وقت آنحضرت (ص) واپس تشريف لارہے تھے تو مدينہ كے نزديك قاصد غيب وحى لے كر نازل ہوا اور آيات قرآنى كے ذريعہ مسجد بنانے والوں كے گمراہ كن ارادوں سے مطلع كرديا(۳۲) رسول خد ا(ص) نے حكم صادر فرمايا كہ اس مسجد كو آگ لگا كر خاكستر كرديں اور جو كچھ وہاں ہے اسے تباہ و برباد كرديں اور اس جگہ كو گندگى كے ڈھير كے طور پر استعمال كريں_(۳۴)

غزوہ تبوك ميں مسلمانوں كى فتح اس جنگ كے بارے ميں منافقين كے تمام تجزيوں اور اندازوں كا بطلان، جنگ كے دوران ان كى سازشوں كى ناكامى ، مسجد ضرار كى ويرانى ، اسلام دشمن عناصر كے چہروں پر سے ريا او رنفاق كى نقاب كشائي اور آيات قرآنى(۳۵) ميں ان كى خصوصيات كى نشاندہى كے باعث كفر كے پيكر پر پے در پے ايسى سخت ضربات لگيں كہ اس كا سر كچل كر رہ گيا اور وہ خيانت كار خطرناك گروہ جو اسلامى معاشرے ميں پل رہا تھا منہ كے بل گرا اور وہ لوگ جو محاذ نفاق كى جانب رسول خدا (ص) كے خلاف نبرد آزمائي كر رہے تھے سخت مايوسى و نا اميدى كے شكار ہوئے

۲۷۷

چنانچہ مسلسل ناكاميوں اور نامراديوں كا ہى نتيجہ تھا كہ منافقين كا سرغنہ ''عبداللہ بن ابى '' غزوہ تبوك كے ايك ماہ بعد ہى بيمار پڑگيا اور غموں ميں گھل گھل كر مرگيا_(۳۶)

مشركين سے بيزاري

سنہ ۹ ہجرى كے اواخر ميں زمانہ حج كے شروع ہونے سے قبل قاصد پيغام وحى نے سورہ توبہ كى چند ابتدائي آيات رسول خد ا(ص) كو پڑھ كر سنائيں ان آيات ميں خدا اور رسول خدا (ص) كى مشركين سے بيزارى ، مسلمانوں كے ساتھ ان سے قطع تعلق اور ان معاہدوں كو منسوخ كرنے كى ہدايت كى گئي جو مسلمانوں نے ان كے ساتھ كئے تھے _

حضرت رسول خدا (ص) نے پہلے تو حضرت ابوبكر كو امير حج مقرر كركے انہيں يہ ہدايت فرمائي كہ مشركين تك سورہ توبہ كى آيات پہنچاديں ليكن جب وہ روانہ ہوگئے تو دوبارہ فرشتہ وحى نازل ہوا اور يہ پيغام سنايا كہ اس كام كو پيغمبر خدا (ص) يا خاندان رسالت كے كسى فرد كے علاوہ كوئي دوسرا فردانجام نہيں دے سكتا(۳۷) چنانچہ رسول خدا (ص) نے حضرت على (ع) كو بلايا اورانہيں مشركين تك ان آيات كو پہنچانے كى ذمہ دارى سونپي_

حضرت على (ع) راستے ميں ہى حضرت ابوبكر سے جاملے اور ان سے فرمايا كہ يہ آيات مجھے ديں ، حضرت على (ع) مذكورہ آيات كو لے كر خود مكہ كى جانب روانہ ہوئے جب مناسك حج كا زمانہ آگيا تو آپ (ع) نے مسلمانوں اور كفار كے مجمع كثير ميں آيات تلاوت فرمائيں اور اس كے ساتھ ہى رسول خد ا(ص) كا پيغام بھى پہنچاديااس پيغام ميں جو باتيں كہى گئي تھيں وہ يہ ہيں كہ :

۱_كافر جنت ميں داخل نہ ہوں گے_

۲۷۸

۲_آئندہ مشركين كو مكہ ميں داخل ہونے اور مناسك حج ادا كرنے كى اجازت نہيں دى جائے گي_

۳_آئندہ كسى شخص كو يہ اجازت نہيں ہوگى كہ وہ برہنہ خانہ كعبہ كا طواف كرے_

۴_جن لوگوں نے رسول خد ا(ص) سے كوئي معاہدہ كيا ہوا ہے وہ تو مدت معينہ تك معتبر و قابل عمل ہے ليكن جن كے ساتھ كوئي معاہدہ نہيں كيا گيا ہے انہيں چار ماہ كى مہلت دى جاتى ہے كہ وہ اس عرصے ميں اپنے معاہدے كے بارے ميں غور كريں اور جب يہ عرصہ گزر جائے تو كسى بھى مشرك كے ساتھ عہدو پيمان نہ كياجائے گا_(۳۸)

رسول (ص) خدا نے جو يہ صريح و قطعى اقدام كيا اس كى شايد وجہ يہ تھى كہ اس وقت سے جب كہ يہ پيغام مشركين كو پہنچايا گيا نزول رسالت تك تقريباً بائيس(۲۲) سال كا عرصہ گزر چكا تھا اور اس طوي-ل عرصے ميں رسول خد ا(ص) كى تمام تر سعى و كوشش يہ رہى كہ مشركين راہ راست پر آجائيں چنانچہ اس كے بعد كسى شك كى گنجائشے نہيں رہتى كہ بت پرستوں كے شرك اور پيغمبر اكرم (ص) كے ساتھ جنگ و جدال كى اصل وجہ ان كى ضد اور ذاتى دشمنى تھى اور اب اس چيز كى سخت ضرورت تھى كہ اسلامى معاشرہ جس قدر جلد ہوسكے ايسے عناصر سے پاك ہوجائے اگر كسى زمانے ميں پيغمبر اكرم (ص) نے سياسى حالات كے تحت مجبور ہوكر مشركين كے ساتھ معاہدہ صلح كياتھا تو اب جبكہ تمام علاقہ دين اسلام كے تحت اثر آچكا تھا اور اس نے صرف اندرونى ہى نہيں بلكہ بيرونى محاذوں پر بھى عظيم ترين فتح حاصل كرلى تھى آنحضرت(ص) كے لئے ايسے عناصر كو اسلامى معاشرے كے اندر برداشت كرنا ضرورى نہيں تھا جو توہمات و خرافات اور خلل اندازى كے پردے ميں زمين پر فساد بپا كئے رہيں ، انہيں چار ماہ كى مہلت اس لئے دى گئي تھى كہ انہيں اپنے بارے ميں سوچنے كيلئے كافى وقت مل سكے اور اپنے توہمات

۲۷۹

وخرافات سے دست بردار ہونے كے بارے ميں غور وفكر كرسكيں_

رسول خد ا(ص) كا قطعى فيصلہ' سورہ توبہ كى آيات كا نزول اور مشركين كے مقابل رسول خد ا(ص) كے جرا تمندانہ مگر انسان دوستى پر مبنى اقدام بالخصوص چار ماہ كى مہلت، اس امر كے باعث ہوئے كہ وہ اپنے بارے ميں سوچيں اور موقع سے فائدہ اٹھائيں ، اس كے ساتھ ہى دين اسلام كى آسمانى تعليمات اور اپنے خرافات مبنى طور پر طريقے كے بارے ميں غورو فكر كرنے كے بعد دين اسلام كى آغوش ميں چلے جائيں _

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313