تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي18%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139737 / ڈاؤنلوڈ: 4388
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

سياست

زمانہ جاہليت كے عرب سياسى اعتبار سے كسى خاص طاقت كے مطيع اور فرمانبردار اور قانوں كے تابع نہ تھے_ وہ صرف اپنے ہى قبيلے كى طاقت كے بارے ميں سوچتے تھے دوسروں كے ساتھ ان كا وہى سلوك تھا جو افراطى قوم پرست ور نسل پرست روا ركھتے ہيں_

جغرافيائي اور سياسى اعتبار سے جزيرہ نمائے عرب ايسى جگہ واقع ہے كہ جنوبى علاقے كے علاوہ اس كا باقى حصہ اس قابل نہ تھا كہ ايران اور روم (موجودہ اٹلى) جيسے جنگجو اور كشور كشا ممالك اس كى جانب رخ كرتے _ چنانچہ اس زمانے ميں ان فاتحين نے اس كى طرف كم توجہ دى كيونكہ اس كے خشك بے آب و گياہ اور تپتے ہوئے ريگستان ان كے لئے قطعى بے مصرف تھے اس كے علاوہ عہد جاہليت كے عربوں كو قابو ميں لانا اور ان كے زندگى كو كسى نظام كے تحت منظم و مرتب كرنا انتہائي سخت اور دشوار كام تھا_

۲۱

قبيلہ

عرب ، انفرادى زندگى كو اپنے استبدادى اور خود خواہ مزاج كے مطابق پاتے تھے چنانچہ انہوں نے جب بيابانوں ميں زندگى كى مشكلات كا مقابلہ كيا تو يہ اندازہ لگايا كہ وہ تنہا رہ كر زندگى بسر نہيں كرسكتے اس بنا پر انہوں نے فيصلہ كيا كہ جن افراد كے ساتھ ان كا خونى اورنسلى يا سسرالى رشتہ دارى تھي_ ان كے ساتھ مل كر اپنے گروہ كو تشكيل ديں جس كا نام انہوں نے ''قبيلہ'' ركھا _ قبيلہ ايسى مستقل اكائي تھى جس كے ذريعے عہد جاہليت ميں عرب قوميت كى اساس و بنياد شكل پذير ہوتى تھى اور وہ ہر اعتبار سے وہ خود كفيل ہوتى تھي_

دور جاہليت ميں عربوں كے اقدار كامعيار قبائلى اقدارميں منحصر تھا ہر فرد كى قدر ومنزلت كا اندازہ اس بات سے لگايا جاتا تھا كہ قبيلے ميں اس كا كيا مقام و مرتبہ اور اہل قبيلہ ميں اس كا كس حد تك اثر و رسوخ ہے يہى وجہ تھى كہ قدر و منزلت كے اعتبار سے سرداران قبائل كو بالاترين مقام و مرتبہ حاصل تھا جبكہ اس كے مقابلے ميں كنيزوں اور غلاموں كا شمار قبائل كے ادنى ترين و انتہائي پست ترين افراد ميں ہوتا تھا_

ديگر قبائل كے مقابلے ميں جس قبيلے كے افراد كى تعداد جتنى زيادہ ہوتى اس كى اتنى ہى زيادہ عزت اور احترام ہوتاتھا اور وہ قبيلہ اتنا ہى زيادہ فخر محسوس كرتا اس لئے ہر قبيلہ اپنى قدر و منزلت بڑھانے اور افراد كى تعداد كو زيادہ كھانے كى غرض سے اپنے قبيلے كے مردوں كى قبروں كو بھى شامل اور شمار كرنے سے بھى دريغ نہ كرتا چنانچہ اس امر كى جانب قرآن نے اشارہ كرتے ہوئے بيان كيا ہے:

( أَلهَاكُم التَّكَاثُرُ، حَتَّى زُرتُم المَقَابرَ ) (۲)

''ايك دوسرے پر (كثرت افراد كى بنياد پر )فخر جتانے كى فكر نے تمہيں قبروں (كے ديدار )تك پہنچاديا ''(۳) _

معاشرتى نظام

جزيزہ نما ئے عرب كے اكثر و بيشتر لوگ اپنے مشاغل كے تقاضوں كے باعث صحرانشينى كى زندگى اختيار كئے ہوئے تھے _ كل آبادى كاصرف چھٹا حصہ ايسا تھا جو شہروں ميں آباد تھا ، شہروں ميں ان كے جمع ہونے كى وجہ يا تو اُن شہروںكا تقدس تھا يا يہ كہ ان ميں تجارت ہوتى تھى چنانچہ مكہ كو دونوں ہى اعتبار سے اہميت حاصل تھى اس كے علاوہ شہروں

۲۲

ميں آباد ہونے كى وجہ يہ بھى تھى كہ وہاں كى زمينين سرسبزو شاداب تھيں اور ان كى ضروريات پورى كرنے كيلئے ان ميں پانى كے علاوہ عمدہ چراگاہيں بھى موجود تھيں _ يثرب ' طائف' يمن ' حيرہ ' حضرموت اور غسان كا شمار ايسے ہى شہروں ميں ہوتا تھا_

عرب كے باديہ نشين (ديہاتى جنہيں بدو كہا جاتا ہے)اپنے خالص لب ولہجہ اور قومى عادت و خصلت كے اعتبار سے شہر نشين عربوں كے مقابل اچھے سمجھے جاتے تھے اسى لئے عرب كے شہرى اپنے بچوں كو چند سال كے لئے صحرائوں ميں بھيجتے تھے تاكہ وہاں ان كى پرورش اسى ماحول اور اسى تہذيب و تمدن كے گہوارے ميں ہوسكے_

ليكن اس كے مقابلے ميں شہروںميں آباد لوگوں كى سطح فكر زيادہ سيع اور بلند تھى اور ايسے مسائل كے بارے ميں ان كى واقفيت بھى زيادہ تھى جن كا تعلق قبيلے كے مسائل سے جدا اور ہٹ كر ہوتا تھا_

جبكہ صحرا نشين لوگوں كو شہرى لوگوں كے مقابل زيادہ آزادى حاصل تھي_ اپنے قبيلے كے مفادات كى خاطر ہر شخص كو يہ حق حاصل تھا كہ عملى طور پر وہ جو چاہے كرے اس معاملے ميں اہل قبيلہ بھى اس كى مدد كرتے تھے اسى لئے دوسروں سے جنگ و جدال اور ان كے مال ودولت كى لوٹ مار ان كے درميان ايك معمولى چيز بن گئي تھى _ چنانچہ عربوں ميں جنہوں نے شجاعت و بہادرى كے كارنامے سر انجام ديئے ہيں ان ميں سے اكثر وبيشتر صحرا نشين ہى تھے_

دين اور دينداري

زمانہ جاہليت ميںملك عرب ميں بت پرستى كا رواج عام تھا اور لوگ مختلف شكلوں ميں

۲۳

اپنے بتوں كى پوجا كرتے تھے اس دور ميں كعبہ مكمل طور پر بت خانہ ميں بدل چكا تھا جس ميں انواع و اقسام اور مختلف شكل و صورت كے تين سو ساٹھ سے زيادہ بت ركھے ہوئے تھے اور كوئي قبيلہ ايسا نہ تھا جس كا بت وہاں موجود نہ ہو_ حج كے زمانے ميں ہر قبيلے كے لوگ اپنے بت كے سامنے كھڑے ہوتے اس كى پوجا كرتے اور اس كو اچھے ناموںسے پكارتے نيز تلبيہ بھى كہتے تھے_(۴)

ظہور اسلام سے قبل يہود ى اور عيسائي مذہب كے لوگ بھى جو اقليت ميں تھے جزيرہ نمائے عرب ميں آباد تھے_ يہودى اكثر وبيشتر خطہ عرب كے شمالى علاقوں مثلاً يثرب' وادى القري' تيمائ' خيبراور فدك جيسے مقامات پر رہا كرتے تھے جبكہ عيسائي جنوبى علاقوں يعنى يمن اور نجران جيسى جگہوں پر بسے ہوئے تھے_

انہى ميں گنتى كے چند لوگ ايسے بھى تھے جو وحدانيت كے قائل اور خدا پرست تھے اور وہ خود كو حضرت ابراہيم عليہ السلام كے دين كے پيروكار سمجھتے تھے_ مورخين نے ان لوگوں كو حُنَفاء كے عنوان سے ياد كيا ہے_(۵)

بعثت رسول (ص) كے وقت عربوںكى مذہبى كيفيت كو حضرت على عليہ السلام نے اس طرح بيان كيا ہے :

(... وَاَهلُ الاَرض يَومَئذ: ملَلٌ مُتَفَرّقَة ٌوَاَهوَائٌ مُنتَشرَة ٌوطَرَائقُ مُتَشَتّتَةٌ بَينَ مُشَبّه للّه بخَلقه اَو مُلَحد: في اسمه اَو مُشير: الى غَيره فَهَدَاهُم به منَ الضَّلَالَة وَاَنَقَذَهُم بمَكَانه منَ الجَهَالَة) (۶)

اس زمانے ميں لوگ مختلف مذاہب كے ماننے والے تھے ان كے افكارپريشان اور

۲۴

ايك دوسرے كى ضد اور طريقے مختلف تھے بعض لوگ خدا كو مخلوق سے تشبيہ ديتے تھے (ان كا خيال تھاكہ خدا كے بھى ہاتھ پير ہيں اس كے رہنے كى بھى جگہ ہے اور اس كے بچے بھى ہيں) وہ خدا كے نام ميں تصرف بھى كرتے (اپنے بتوں كا نام خدا كے مختلف ناموں سے اخذ كركے ركھتے تھے مثلاً لات كو اللہ' عزّى كو عزيز اور منات كو منان كے ناموں سے اخذ كركے ركھا تھا)(۷) بعض ملحد لوگ خدا كے علاوہ دوسرى اشيا يعنى ماديات پر يقين ركھتے تھے (جس طرح دہريے تھے جو صرف طبيعت ، زمانہ ،حركات فلكيہ اورمرورمان ہى كو امور ہستى پر مؤثر سمجھتے تھے) _(۸) خداوند متعال نے پيغمبر (ص) كے ذريعے انہيں گمراہى سے نجات دلائي اور آپ (ص) كے وجود كى بركت سے انہيں جہالت كے اندھيرے سے باہر نكالا_

جب ہم بت پرستوں كے مختلف عقائد كا مطالعہ كرتے ہيں اور ان كا جائزہ ليتے ہيں تو اس نتيجے پر پہنچتے ہيں كہ انہيں اپنے بتوں سے ايسى زبردست عقيدت تھى كہ وہ ان كى ذراسى بھى توہين برداشت نہيں كرسكتے تھے اسى لئے وہ حضرت ابوطالب (ع) كے پاس جاتے اور پيغمبر (ص) كى شكايت كرتے ہوئے كہتے كہ وہ ہمارے خدائوں كو برا كہہ رہے ہيں اور ہمارے دين ومذہب كى عيب جوئي كر رہے ہيں(۹) _ وہ خدائے مطلق كے وجود كے معتقد اور قائل تو تھے اور اللہ كے نام سے اسے يادبھى كرتے تھے مگر اس كے ساتھ ہى وہ بتوں كو تقدس و پاكيزگى كا مظہر اور انہيں قابل پرستش سمجھتے تھے وہ يہ بات بھى اچھى طرح جانتے تھے كہ يہ بت ان كے معبود تو ہيں مگر ان كے خالق نہيں چنانچہ يہى وجہ تھى كہ جب رسول خدا (ص) ان سے گفتگو فرماتے تو يہ ثابت نہيں كرتے تھے كہ خداوند تعالى ان كا خالق ہے بلكہ ثبوت ودلائل كے ساتھ يہ فرماتے كہ خدائے مطلق ، واحد ہے اور ان لوگوںكے بنائے ہوئے معبودوں كى حيثيت و حقيقت كچھ بھى نہيں_

۲۵

قرآن مجيد نے مختلف آيات ميں اس حقيقت كى جانب اشارہ كيا ہے _يہاں اس كے چند نمونے پيش كئے جاتے ہيں:

( وَلَئن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرضَ لَيَقُولُنَّ الله ُ ) (۱۰)

''ان لوگوں سے اگر تم پوچھو كہ زمين اور آسمان كو كس نے پيدا كيا ہے ؟ تو يہ خود ہى كہيں گے كہ اللہ نے''_

اس كے علاوہ وہ بت پرستى كى يہ بھى توجيہ پيش كرتے تھے كہ :

( مَا نَعبُدُهُم إلاَّ ليُقَرّبُونَا إلَى الله زُلفَي ) (۱۰)

''ہم تو ان كى عبادت صرف اس لئے كرتے ہيں كہ وہ اللہ تك ہمارى رسائي كراديںگے_

دوسرے لفظوں ميں وہ يہ كہا كرتے تھے كہ:

( هَؤُلَائ شُفَعَاؤُنَا عندَ الله ) (۱۲)

''يہ اللہ كے ہاں ہمارے سفارشى ہيں''

تہذيب و ثقافت

زمانہ جاہليت كے عرب ناخواندہ اور علم كى روشنى سے قطعى بے بہرہ تھے _ ان كے اس جہل و ناخواندگى كے باعث ان كے پورے معاشرے پرجہالت اور خرافات سے اٹى بے ثقافتى حاكم تھى (وہ بے تہذيب لوگ تھے)_ ان كى كثير آبادى ميں گنتى كے چندلوگ ہى ايسے تھے جو لكھنا اور پڑھنا جانتے تھے(۱۳)

دور جاہليت ميں عرب تہذيب و تمدن كے نماياں ترين مظہر حسب ونسب كى پہچان،

۲۶

شعر گوئي اور تقارير ميں خوش بيانى جيسے اوصاف تھے_ چنانچہ عيش وعشرت كى محفل ہو ، ميدان كارزارہو يا قبائلى فخر فروشى كا ميدان غرض وہ ہرجگہ پرشعر گوئي يا جادو بيان تقارير كا سہارا ليتے تھے_

اس ميں شك نہيں كہ اسلام سے قبل عربوں ميں شجاعت، شيرين بياني، فصاحت و بلاغت مہمان نوازي، لوگوں كى مدد اور آزادى پسندى جيسى عمدہ خصوصيات و صفات بھى موجود تھيں مگر ان كے رگ و پے ميں سرايت كر جانے والى قابل مذمت عادات و اطوار كے مقابلے ميں ان كى يہ تمام خوبياں بے حقيقت بن كر رہ گئي تھيں_ اس كے علاوہ ان تمام خوبيوں اور ذاتى اوصاف كا اصل محرك، انسانى اقدار اور قابل تحسين باتيں نہ تھيں _

زمانہ جاہليت كے عرب طمع پرورى اور مادى چيزوں پر فريفتگى كا كامل نمونہ تھے_ وہ ہر چيز كو مادى مفاد كے زاويے سے ديكھتے تھے_ ان كى معاشرتى تہذيب بے راہروى ، بد كردارى اور قتل و غارتگرى جيسے برے افعال و اعمال پر مبنى تھى اور يہى پست حيوانى صفات ان كى سرشت اور عادت و جبلت كا جز بن گئي تھيں_

دور جاہليت ميں عربوں كى ثقافت ميں اخلاقيات كى توجيہ و تعبير دوسرے انداز ميں كى جاتى تھى _ مثال كے طور پر غيرت، مروت اور شجاعت كى تعريف تو كرتے تھے مگر شجاعت سے ان كى مراد سفاكى اور دوسروں كے قتل و خونريزى كى زيادہ سے زيادہ طاقت ہوتى تھي_ غيرت كا مفہوم ان كے تمدن ميں لڑكيوں كو زندہ دفن كردينا تھا_ اور اپنے اس طريقہ عمل سے اپنى غيرت كى نماياں ترين مثال پيش كرتے تھے _ ايفائے عہد كا مطلب وہ يہ سمجھتے تھے كہ حليف يا اپنے قبيلے كے افراد كى ہر صورت ميں حمايت كريں چاہے وہ حق پر ہويا باطل پر_

۲۷

توہم پرستى اور خرافات كى پيروي

طلوع اسلام كے وقت دنيا كى تمام اقوام كے عقائد ميں كم وبيش خرافات ، توہمات اور افسانے و غيرہ شامل تھے _ اس زمانے ميں يونانى اور ساسانى اقوام كا شمار دنيا كى سب سے زيادہ ترقى يافتہ اقوام ميں ہوتا تھا _ چنانچہ ان لوگوں كے اذہان اور افكار پر انہى كے قصوں اور كہانيوں كا غلبہ تھا _يہ بھى ايك حقيقت ہے كہ تہذيب وتمدن اور علم كے اعتبار سے جو بھى معاشرہ جس قدر پسماندہ ہوگا اس ميں توہمات و خرافات كا اتنا ہى زيادہ رواج ہوگا _ جزيرہ نما ئے عرب ميں توہمات اور خرافات كا رواج عام تھا ان كے بہت سے واقعات تاريخ نے اپنے سينے ميں محفوظ كرركھے ہيں _ يہاں بطور مثال چند نمونے پيش كئے جاتے ہيں:

۱_ايسى آنتوں اور ڈوريوں و غيرہ كو جنہيں كمانوں كى تانت بنانے كے كام ميں لاياجاتا تھا لوگ اپنے اونٹوں اور گھوڑوں كى گردنوں نيز سروں پر لٹكادياكرتے تھے _ ان كا عقيدہ تھا كہ ايسے ٹوٹكوں سے ان كے جانور بھوت پريت كے آسيب سے بچے رہتے ہيں اور انہيں كسى كى برى نظر بھى نہيں لگتى _ نيز جنگ اور لوٹ ماركے موقع پر بلكہ ہر موقع پر انہيں دشمنوں كى گزند سے محفوظ ركھنے ميں بھى يہ ٹوٹكے مؤثر ہيں_(۱۴)

۲_خشك سالى كے زمانے ميں بارش لانے كى غرض سے جزيرہ نما ئے عرب كے بوڑھے اور كاہن لوگ ''سَلَع'' نامى درخت (جس كا پھل كڑوا ہوتا ہے) اور ''عُشَر'' نامى پيڑ(جس كى لكڑى جلدى جل جاتى ہے) كى لكڑيوں كوگائے كى دُموں اور پيروں ميں باندھ ديتے اور انہيں پہاڑوں كى چوٹيوں تك ہانك كر لے جاتے_ اس كے بعد وہ ان لكڑيوں كو آگ لگاديتے _ آگ كے شعلوں كى تاب نہ لاكر ان كى گائے

۲۸

ادھر ادھر بھاگنے لگتى اور سرمار مار كر ڈكرانا شروع كرديتي_ ان كے خيال ميں ان گائيوں كے ڈكرانے اور بے قرارى كرسے پانى برسنے لگے گا _ شايد اس گمان سے كہ جب بارش بھيجنے والا مؤكل يا خدا (ورشا ديوى يا جل ديوتا) ان گائيوں كو تڑپتا ہوا ديكھيں گے تو ان كى پاكيزگى اورتقدس كى خاطر جلد ہى بادلوں كو برسنے كيلئے بھيج ديں گے_(۱۵)

۳_وہ مردوں كى قبروں كے پاس اونٹ نحر كركے اسے گڑھے ميں ڈال ديتے _ ان كا يہ عقيدہ تھا كہ ان كے اس كا م سے صاحب قبر عزت واحترام كے ساتھ اونٹ پر سوارمحشر ميں واردہوگا_(۱۶)

عہد جاہليت ميں عورتوں كا مقام

دورجاہليت كے عرب عورتوں كى قدر ومنزلت كے ذرہ برابر بھى قائل نہ تھے_ وہ ہر قسم كے انفرادى و اجتماعى حقوق سے محروم تھيں_ اس عہد جاہليت كے معاشرتى نظام ميں عورت صرف ورثے سے ہى محروم نہيں ركھى جاتى تھى بلكہ خود اس كا شمار بھى اپنے باپ' شوہر يا بيٹے كى جائداد ميں ہوتا تھا _ چنانچہ مال و جائداد كى طرح اسے بھى ورثے اور تركے ميں تقسيم كردياجاتا تھا _

عرب قحط سالى كے خوف يا اس خيال سے كہ لڑكيوں كا وجود ان كى ذات كےلئے باعث ننگ و عيب ہے انہيں پيدا ہوتے ہى زمين ميں زندہ گاڑديتے تھے_

اپنى معصوم لڑكيوں سے انہوں نے جو غير انسانى و ناروا سلوك اختيار كر ركھا تھا اس كى مذمت كرتے ہوئے قرآن مجيد فرماتا ہے:

۲۹

( وَإذَا بُشّرَ أَحَدُهُم بالأُنثَى ظَلَّ وَجهُهُ مُسوَدًّا وَهُوَ كَظيمٌ _ يَتَوَارَى من القَوم من سُوئ مَا بُشّرَ به أَيُمسكُهُ عَلَى هُون: أَم يَدُسُّهُ فى التُّرَاب أَلاَسَائَ مَا يَحكُمُونَ ) (۱۷)

''جب ان ميں سے كسى كو بيٹى كے پيدا ہونے كى خبر دى جاتى ہے تويہ سنتے ہى اس كا چہرہ سياہ پڑ جاتا ہے اور وہ بس خون كا گھونٹ سا پى كر رہ جاتا ہے_ لوگوں سے منھ چھپاتا پھرتا ہے كہ برى خبر كے بعد كيا كسى كو منہ دكھائے _ سوچتا ہے كہ ذلت كے ساتھ بيٹى كو لئے رہے يا مٹى ميں دبا دے بے شك وہ لوگ بہت برا كرتے ہيں''_

دوسرى آيت ميں بھى قرآن مجيد انہيں اس برى اور انسانيت سوز حركت كے بد-لے خداوند تعالى كى بارگاہ ميں جوابدہ قرار ديتا ہے _ چنانچہ ارشاد فرماتا ہے:

( وَإذَا المَوئُودَةُ سُئلَت بأَيّ ذَنب: قُتلَت ) _(۱۸)

''او رجب زندہ گاڑى ہوئي لڑكى سے پوچھا جائے گا كہ وہ كس قصور ميں مارى گئي''_

سب سے زيادہ افسوس ناك بات يہ تھى كہ ان كے درميان شادى بياہ كى ايسى رسومات رائج تھيں كہ ان كى كوئي خاص بنياد نہ تھى وہ اپنى شادى كے لئے كسى معين حد كے قائل نہ تھے(جتنى بھى دل كرتا بيوياں اپنے پاس ركھتے تھے)_ مہر كى رقم ادا كرنے كى ذمہ دارى سے سبكدوش ہونے كيلئے وہ انہيں تكليف اور اذيت ديتے تھے _ كبھى وہ اپنى زوجہ پر بے عصمت ہونے كا نارواالزام لگاتے تاكہ اس بہانے سے وہ مہر كى رقم ادا كرنے سے بچ جائيں _ ان كا باپ اگر كسى بيوى كو طلاق دے ديتا ' يا خود مرجاتا تو اس كى بيويوں سے شادى كرلينا ان كيلئے كوئي مشكل نہ تھانہ ہى قابل اعتراض تھا_

۳۰

حرمت كے مہينے

دور جاہليت كے تہذيب و تمدن ميں ذى القعدہ ' ذى الحجة ' محرم اور رجب چار مہينے ايسے تھے جنہيں ماہ حرام سے تعبير كياجاتا تھا _ ان چار ماہ كے دوران ہر قسم كى جنگ و خونريزى ممنوع تھي_ البتہ اس كے بدلے تجارت ' ميل ملاقات' مقامات مقدسہ كى زيارت اوردينى رسومات كى ادائيگى اپنے عرو ج پر ہوتى تھيں_

اور چونكہ قمرى مہينے سال كے موسموں كے لحاظ سے آہستہ آہستہ بدلتے رہتے تھے اوربسا اوقات يہ موسم ان كى تجارت و غيرہ كےلئے سازگار اور مناسب نہ ہوتے اسى لئے وہ قابل احترام مہينوں ميں تبديلى كرليا كرتے تھے_ قرآن مجيد نے انہيں ''النسيئ'' كے عنوان سے ياد كيا ہے_(۱۹) چنانچہ فرماتاہے:

( إنَّمَا النَّسيئُ زيَادَةٌ فى الكُفر )

''حرام ہينوں ميں تبديلى اور تاخير تو ان كے كفر ميں ايك اضافہ ہے''_(۲۰)

۳۱

سوالات

۱_ جزيرہ نمائے عرب كا محل وقوع بتايئے؟

۲_ فاتحين كس وجہ سے جزيرہ نمائے عرب كى طرف توجہ نہيں ديتے تھے؟

۳_ جزيرہ نمائے عرب كى اسلام سے قبل معاشرتى حالت كيا تھي؟ صراحت سے

بيان كيجئے؟

۴_ دور جاہليت كے عربوںميں كس قسم كا مسلك زيادہ رائج تھا؟

۵_ كيا عربوں كا خدا پراعتقاد تھا؟ قرآن مجيد سے كوئي ايك دليل پيش كيجئے؟

۶_ عربوں ميں كس قسم كے توہمات و خرافات كا رواج تھا اس كى ايك مثال پيش كيجئے؟

۷_ عہد جاہليت ميں عورت كا كيا مقام تھا؟

۳۲

حوالہ جات

۱_ معجم البلدان ج ۲ ' ۶۳ و ۲۱۹

۲_ سورہ التكاثر آيت ۱و ۲

۳_ اصل كتاب ميں اسى طرح ترجمہ ہوا ہے _ مترجم

۴_تاريخ يعقوبى ، ج ۱، ص ۲۵۵ ، تلبيہ '' لَبَّيْكَ اللّہُمَ لَبَّيْكَ'' كہنے كا نام ہے _ مترجم _ہر قبيلے كا لبيك كہنے كا ايك مخصوص طريقہ تھا مزيد معلومات كے لئے مذكور ماخ كا مطالعہ فرمائيں_

۵_ تاريخ پيا مبر اسلام (ص) ، ص ۱۳ ، علامہ آيتى مرحوم نے اس عنوان كے تحت چودہ ايسے افراد كے نام بھى بيان كئے ہيں جن كا شمار حنفا ميں ہوتا تھا_

۶_نہج البلاغہ خطبہ ۱ ص ۴۴ ، مرتبہ صبحى صالح

۷_ملاحظہ ہو : تفسير مجمع البيان ج ۴، ص ۵۰۳ سورہ اعراف آيت ۱۸۰ كے ذيل ميں

۸_زمانہ جاہليت كے عربوں كے عقائد سے مزيد واقفيت كے لئے ملاحظہ ہو: شرح ابن ابى الحديد ج ۱ صفحہ ۱۱۷

۹_السيرہ النبويہ ، ج۱ ، ص ۲۸۳_ ۲۸۴

۱۰_سورہ زمر آيت ۳۸

۱۱_سورہ زمر آيت ۳

۱۲_ سورہ يونس آيت ۱۷

۱۲_بلاذرى لكھتا ہے كہ ظہور اسلام كے وقت قريش ميں سے صرف سترہ افراد ايسے تھے جو لكھنا پڑھنا جانتے تھے (ملاحظہ ہو فتوح البلدان صفحہ ۴۵۷)

۱۴_اسلام و عقائد وآراء بشرى ص ۴۹۱

۱۵_لسان العرب، ج ۹ ، ص ۱۶۱، ملاحظہ ہو : لفظ ''سَلَعَ'' نيز اسلام و عقائد و آراء بشرى ، صفحہ ۵۰۱

۳۳

۱۶_اسلام و عقائد و آراء بشرى صفحہ ۵۰۹

۱۷_ سورہ نحل آيت ۵۸_ ۵۹

۱۸_سورہ تكوير آيت ۸، ۹

۱۹_''نسيء ''لفظ ''نساء '' سے مشتق ہے ' جس كے معنى ' تاخير ميں ڈالنا ہے_ عہد جاہليت كے عرب كبھى كبھى قابل احترام مہينوں ميں تاخير كرديا كرتے تھے _ مثال كے طور پر وہ ماہ محرم كى جگہ ماہ صفر كو قابل احترام مہينہ بناليتے تھے_

۲۰_سورہ توبہ آيت ۳۷_

۳۴

سبق ۳:

پيغمبر اكرم (ص) كا نسب اور آپ(ص) كى ولادت با سعادت

۳۵

رسول خدا (ص) كا تعلق خاندان بنى ہاشم اور قبيلہ قريش سے ہے _ جزيرہ نما ئے عرب ميں تين سو ساٹھ(۳۶۰) قبيلے آباد تھے ان ميں قريش شريف ترين اور معروف ترين قبيلہ تھا نسب شناس ماہرين كى اصطلاح ميں قريش انہيں كہا جاتا ہے جو آنحضرت (ص) كے بار ہويں جدا مجد حضرت نضر بن كنانہ كى نسل سے ہوں _(۱)

آپ كے چوتھے جد اعلى حضرت قصى بن كلاب كا شمار قبيلہ قريش كے معروف اور سركردہ افراد ميں ہوتا تھا _ انہوں نے ہى كعبہ كى توليت اور كنجى ، قبيلہ ''خزاعہ'' كے چنگل سے نكالى تھي_ اور حرم كے مختلف حصوں ميں اپنے قبيلے كے افراد كو آبادكركے كعبہ كى توليت سنبھالى تھى _(۲)

معروف مورخ يعقوبى لكھتا ہے كہ ''قصى بن كلاب'' وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے قبيلہ قريش كو عزت و آبرو بخشى اور اس كى عظمت كو اجاگر كيا(۳)

قبيلہ قريش ميں بھى خاندان بنى ہاشم سب سے زيادہ نجيب و شريف شمار ہوتا تھا _

رسول خدا (ص) كے آباء و اجداد

مورخين نے آنحضرت (ص) كے آباء و اجداد ميں حضرت عدنان تك اكيس پشتوںكے نام بيان كئے ہيں درج ذيل ترتيب وار اسماء پر سب متفق الرائے ہيں:

۳۶

حضرت عبداللہ (ع) ، حضرت عبدالمطلب(ع) ، حضرت ہاشم(ع) ، حضرت عبدمناف (ع) ، حضرت قصي(ع) ، حضرت كلاب(ع) ، حضرت مرہ(ع) ، حضرت كعب(ع) ، حضرت لوي(ع) ، حضرت غالب(ع) ، حضرت فہر(ع) ، حضرت مالك(ع) ، حضرت نضر(ع) ، حضرت كنانہ(ع) ، حضرت خزيمہ(ع) ، حضرت مدركہ(ع) ، حضرت الياس(ع) ، حضرت مضر (ع) ، حضرت نزار(ع) ، حضرت معد (ع) اور حضرت عدنان(ع) _(۴)

حضرت عدنان سے اوپر حضرت ابراہيم (ع) تك اور حضرت ابراہيم خليل (ع) سے حضرت آدم صفى اللہ (ع) تك كى ترتيب كے بارے ميں اختلاف ہے _ اس سلسلے ميں پيغمبر اكرم (ص) كى ايك روايت بھى بيان كى گئي ہے_

(اذَا بَلَغَ نَسَبَيُ الى عَدُنَانَ فَامسُكُوا) (۵)

''جب ميرے نسب كے بارے ميں حضرت عدنان تك پہنچو تو توقف كرو (اور آگے مت بڑھو) ''_

ہم يہاں مختصر طور پر آپ (ص) كے چند قريبى آباء و اجداد كا حال بيان كريں گے_

حضرت عبدمناف (ع)

حضرت قصى كے عبدالدار، عبدمناف ، عبدالعزى اور عبد قصى نامى چار فرزند تھے_ جن ميں حضرت عبدمناف سب سے زيادہ شريف، محترم اور بزرگ سمجھے جاتے تھے(۶) حضرت عبدمناف كا اصل نام ''مغيرہ'' تھا _ انہيں اپنے والد محترم كے ہاں نيز لوگوں كے درميان خاص مرتبہ ا ور مقام حاصل تھا_ وہ بہت زيادہ سخى اور وجيہہ انسان تھے اسى وجہ سے انہيں ''فياض(۷) '' اور'' قمرالبطحاء(۸) '' كے القاب سے نوازا گيا ہے پرہيزگارى ،خوش اخلاقي' نيك چلن اور صلہ رحمى جيسے اوصاف كى طرف دعوت ان كى زندگى كا شعار تھا_(۹)

۳۷

ان كى نظر ميں دنيوى مقامات و مراتب ہيچ تھے_ وہ اہل منصب لوگوں سے حسد بھى نہيں كرتے تھے_ اگر چہ كعبہ كے تمام عہدے اور مناصب ان كے بڑے بھائي عبدالدار كے پاس تھے مگر ان كى اپنے بھائي سے كوئي شكر رنجى نہيں تھي_

حضرت ہاشم (ع)

حضرت قصى (ع) كے فرزند، مكہ سے متعلق معاملات اور كعبہ كى توليت اور انتظام جيسے امور كو كسى اختلاف و قضيے كے بغير انجام ديتے رہے_ مگر ان كى وفات كے بعد عبدالدار اور عبدمناف كى اولاد كے درميان كعبہ كے عہدوں كے بارے ميں اختلاف ہوگيا _ بالآخر اتفاق اس بات پر ہوا كہ كعبہ كى توليت اور دارالندوہ(۱۰) كى صدارت عبدالدار كے فرزندوں كے پاس ہى رہے اور حاجيوں كو پانى پلانے نيز ان كى پذيرائي كا معاملہ حضرت عبدالمناف كے لڑكوں كى تحويل ميں دے ديا جائے _(۱۱) حضرت عبدمناف كے فرزندوں ميں يہ عہدہ حضرت ہاشم كے سپرد كيا گيا _(۱۲)

حضرت ہاشم اور ان كے بھائي عبدالشمس جڑواں پيدا ہوئے تھے پيدائشے كے وقت دونوں كے بدن ايك دوسرے سے جڑے ہوئے تھے _ جس وقت انہيں ايك دوسرے سے جدا كيا گيا تو بہت سا خون زمين پر بہہ گيا اور عربوں نے اس واقعہ كو سخت بدشگونى سے تعبير كيا_

اتفاق سے يہ بدشگونى اپنا كام كر گئي اور حضرت ہاشم اور عبدالشمس كے لڑكوں ميں ہميشہ كشمكش اور لڑائي رہي_

عبدالشمس كا لڑكا اميہ پہلا شخص تھا جس نے حضرت ہاشم كى مخالفت شروع كى _ اس نے جب فرزندان عبدمناف ميں سے حضرت ہاشم ميں عزت و شرف اور بزرگوارى جيسے

۳۸

اوصاف پائے تو ان سے حسد كرنے لگا اور اپنے چچا كے ساتھ مخاصمت اور مخالفت پر اتر آيا چنانچہ يہيں سے بنى ہاشم اور بنى اميہ كے درميان اختلاف اوردشمنى شروع ہوئي جو ظہور اسلام كے بعد بھى جارى رہي_(۱۳)

حضرت ہاشم اپنى ذمہ دارى نبھانے ميں كوئي دقيقہ فرو گذاشت نہيں كرتے تھے چنانچہ جيسے ہى حج كا زمانہ شروع ہوتا تھا وہ قبيلہ قريش كى پورى طاقت و قوت اور تمام وسائل اور امكانات حجاج بيت اللہ كى خدمت كيلئے بروئے كار لاتے اور زمانہ حج كے دوران جس قدر پانى اور خوراك كى انہيں ضرورت ہوتى وہ اسے فراہم كرتے_

لوگوں كى خاطر دارى 'مہمان نوازى اور حاجتمندوں كى مدد كرنے ميں وہ بے مثال و يكتائے روزگار تھے_ اسى وجہ سے انہيں ''سيدالبطحائ(۱۴) '' كے لقب سے ياد كياجاتا تھا_

حضرت ہاشم (ع) كے پاس اونٹ كافى تعداد ميں تھے _ چنانچہ جس سال اہل مكہ قحط اورخشك سالى كا شكار ہوئے تو انہوں نے اپنے بہت سے اونٹ قربان كرديئے اور اس طرح لوگوں كےلئے كھانے كا سامان فراہم كيا _(۱۵)

حضرت ہاشم (ع) كے انحصارى اور نماياں كارناموں ميں سے ايك ان كايہ كارنامہ بھى تھا كہ انہوں نے قريش كى محدود كاروبارى منڈيوں كو جاڑوں اور گرميوں كے موسم ميں لمبے تجارتى سفروں كے ذريعے وسيع كيا (دوسرے لفظوں ميں لوكل بزنس كو امپورٹ ايكسپورٹ بزنس ميں ترقى دى _ مترجم)اور اس علاقے كى اقتصادى زندگى ميں حركت پيدا كى(۱۶)

حضرت ہاشم (ع) كا انتقام بيس يا پچيس سال كى عمر ميں ايك تجارتى سفر كے دوران ''غزہ''(۱۷) ميں ہوا_

۳۹

حضرت عبدالمطلب(ع)

حضرت ہاشم (ع) كى وفات كے بعد ان كے بھائي ''مطلب'' كو قبيلہ قريش كا سردار مقرر كيا گيا اور جب ان كى وفات ہوگئي تو حضرت ہاشم (ع) كے فرزند حضرت ''شيبہ(ع) '' كو ، جنہيں لوگ عبدالمطلب(ع) كہتے تھے قريش كى سردارى سپرد كى گئي_

حضرت عبدالمطلب(ع) كو اپنى قوم ميں خاص مقام و مرتبہ حاصل تھا اور لوگوں ميں وہ بہت مقبول اور ہر د ل عزيز تھے جس كا سبب وہ مختلف اچھے اوصاف اور فضائل تھے جو ان كى ذات ميں جمع ہوگئے تھے _ وہ عاجز و مجبور لوگوں كے حامى اور ان كے پشت پناہ تھے ، ان كى جود وبخشش كا يہ عالم تھا كہ ان كے دسترخوان سے صرف انسان ہى نہيں بلكہ پرندے اور حيوانات تك بھى فيضياب ہوتے اسى وجہ سے انہيں''فياض'' كا لقب ديا گيا تھا_(۱۸)

رسول خدا (ص) كے دادا بہت ہى دانشمند و بردبار شخص تھے _ وہ اپنى قوم كو اخلاق حسنہ ، جورو ستم سے كنارہ كشى ' برائيوں سے بچنے اور پست باتوںسے دور رہنے كى تعليم ديتے _ ان كا موقف يہ تھا كہ ''ظالم آدمى اپنے كئے كى سزا اسى دنيا ميں ہى پاتا ہے او ر اگر اسے اپنے كئے كا بدلہ اس دنيا ميں نہيںملتاتو آخرت ميں يہ سزا اسے ضرور ملے گي''_(۱۹)

اپنے اس عقيدے كى بناپر انہوں نے اپنى زندگى ميں نہ توكبھى شراب كو ہاتھ لگايا' نہ كسى بے گناہ كو قتل كيا اور نہ ہى كسى برے كام كى طرف رغبت كى بلكہ اس كے برعكس انہوں نے بعض ايسے نيك كاموں كى بنياد ركھى جن كى دين اسلام نے بھى تائيد كى ، ان كى قائم كردہ بعض روايات درج ذيل ہيں :

۱_باپ كى كسى زوجہ كو بيٹے كيلئے حرام كرنا

۲_مال و دولت كا پانچواں حصہ (خمس) راہ خدا ميں خرچ كرنا_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

سوالات

۱_ جس وقت رسول خد ا(ص) نے روميوں سے جنگ كيلئے سپاہ روانہ كرنے كا اقدام كيا تو آنحضرت (ص) كوكيا مشكلات اور دشوارياں پيش آئيں؟

۲_ جب رسول خد ا(ص) نے مسلمانوں كو روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كى دعوت دى تو ان كى طرف سے كيا رد عمل ظاہر ہوا؟

۳_ رسول خد ا(ص) جب غزوہ تبوك پر تشريف لے جارہے تھے تو آنحضرت (ص) نے مدينہ ميں كسے اپنا جانشين مقرر رفرمايا اور اس شخص كے انتخاب كئے جانے كا كيا سبب تھا؟

۴_ اگر چہ غزوہ تبوك كے موقع پر جنگ تو نہيں ہوئي مگراسلام دشمنوں نے اس سے كچھ سبق ضرور حاصل كئے ان كے بارے ميں لكھئے وہ كيا تھے؟

۵_ غزوہ تبوك كا مسلمانوں كے دل ودماغ پر كيا اثر ہوا ؟

۶_ عزوہ تبوك كے موقع پر منافقين نے جو ريشہ دوانياں كيں اس كے دو نمونے پيش كيجئے_

۷_ غزوہ تبوك كو ''فاضحہ'' كس وجہ سے كہا گيا ؟ وضاحت كيجئے_

۸_ سورہ توبہ كى ابتدائي آيات ہجرت كے كس سال رسول خدا (ص) پر نازل ہوئيں اور آنحضرت (ص) نے كس شخص كے ذريعے انہيں مشركين تك پہنچايا ؟

۹_ سورہ توبہ كے علاوہ بھى كيا رسول خد ا(ص) كى طرف سے كوئي پيغام مشركين كو بھيجا گيا تھا ؟ وہ كيا پيغام تھا اس كے بارے ميں لكھئے_

۱۰_ كيا سورہ توبہ كى ابتدائي آيات اور اس كا مفہوم جو حضرت على (ع) كى جانب سے مشركين كو بھيجا گيا تھا ، ان پر كسى عقيدے كو مسلط كرنے اور ان كى آزادى سلب كرنے كے مترادف ہے يا نہيں ؟، اس كى وضاحب كيجئے_

۲۸۱

حوالہ جات

۱_يہ جگہ ''وادى القري'' اور شام كے درميان واقع ہے مدينہ سے اس جگہ تك بارہ منزل كا فاصلہ ہے ، معجم البلدان ج ۲ ص ۱۴_ ۱۵ ، مسعودى نے اپنى كتاب التنبيہ والاشراف ميں ص ۲۳۵ پر لكھا ہے كہ مذكورہ بارہ منزلوں كا فاصلہ نوے فرسخ ہے (تقريباً ۵۴۰ كلوميٹر)_

۲_يہ جگہ شام اور وادى القرى كے درميان دمشق كے علاقے ميں واقع ہے ، معجم البلدان ج ۱ ص ۴۸۹_

۳_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۹۹۰_

۴_علامہ ''مفيد'' مرحوم نے اپنى كتاب ''الارشاد'' ميں ص ۸۲ پر لكھتے ہيں كہ ''رسول خدا (ص) '' كو وحى كے ذريعے علم ہوگيا تھا كہ اس سفر ميں جنگ نہيں ہوگى ''اورتلوار چلائے بغير ہى كام آنحضرت (ص) كى مرضى كے مطابق انجام پذير ہوں گے ، سپاہ كو تبوك كى جانب روانہ كئے جانے كا حكم محض مسلمانو ں كى آزمائشے كى خاطر ديا گيا تھا تاكہ مومن ومنافق كى تشخيص ہوسكے، موصوف اپنى كتاب ميں دو صفحات كے بعد لكھتے ہيں كہ اگر اس سفر ميں جنگ واقع ہوتى او ر رسول خد ا(ص) كو مدد كى ضرورت پيش آتى تو خداوند تعالى كى طرف سے يہ حكم نازل نہ ہوتا كہ آپ (ص) حضرت على (ع) كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر فرمائيںبلكہ انہيں مدينہ ٹھہرانے كى آپ(ص) كو اجازت ہى نہيں ملتي_

۵_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۹۹۰_

۶_ايضا ص ۱۰۰۲_

۷_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۱۰_

۸_سورہ توبہ كى ۴۲ سے ۱۱۰ تك كى آيات اسى سلسلے ميں نازل ہوئي ہيں_

۹_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ كى آيت ۹۲_

۱۰_ ملاحظہ ہو : سورہ توبہ آيت ۸۱_

۱۱_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ آيت ۷۹_

۱۲_ملاحظہ ہو : تفسير برہان ج ۲ ص ۱۴۸_

۱۳_سورہ توبہ آيت ۴۹و ۹۰_

۲۸۲

۱۴_ايضا آيت ۱۱۸_

۱۵_الارشاد ، مفيد ص ۸۲_

۱۶_ايضا ص ۸۳_

۱۷_التنبيہ والاشراف ص ۲۳۵_

۱۸_المغازى ج ۳ ص ۱۰۱۵_

۱۹_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۱۰۳۱ وسيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۶۹_

۲۰_يہ قلعہ شام كے نواح ميں تھا جس كا فاصلہ دمشق سے پانچ رات (تقريبا ۱۹۰ كلوميٹر) اور مدينہ تك اس كا سفر تقريباً پندرہ يا سولہ رات (تقريباً ۵۷۰ كلوميٹر) كا تھا_ الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۶۲ و وفاء الوفاء ج ۲ ص ۱۲۱۳_

۲۱_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۱۰۲۵ والسيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۶۹

۲۲_محمد بن سعد نے''الطبقات الكبري''كى جلد اول كے صفحات ۳۵ _۲۹۱ميں لكھا ہے كہ تہتر(۷۳) وفد رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے چنانچہ ہر وفد كى اس نے عليحدہ خصوصيات بھى بيان كى ہيں_

۲۳_ملاحظہ ہو: الكامل فى التاريخ ج ۳ ص ۲۸۶_

۲۴_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۴ ص ۲۰۵_

۲۵_ملاحظ ہو : الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۶۷ والمغازى ج ۳ ص ۱۰۵۷_

۲۶_ السيرة النبويہ ابن كثير ج ۴ ص ۴۱_۴۲_

۲۷_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۲۹_

۲۸_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۶۰_

۲۹_ملاحظہ ہو :المغازى ج ۳ ص ۹۹۵_

۳۰_ ملاحظہ ہو: تاريخ طبرى ج ۳ ص ۱۰۳_ ۱۰۴ و السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۳۲_

۲۱_بعض كتب ميں ان كى تعداد چودہ اور پندرہ بھى بتائي گئي ہے (السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۴۲_

۳۲_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۴۲ والمغازى ج ۳ ص ۱۰۴۲_ ۱۰۴۵_

۲۸۳

۳۳_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ كى آيات ۱۰۷ سے ۱۱۰ تك ، خداوند تعالى نے اس مسجد كو مسجد ضرار كے عنوان سے ياد كيا ہے اور اس مركز كے قائم كئے جانے كا سبب مسلمانوں كو زك پہنچانا ' كفر كى بنيادوں كو محكم كرنا اور ' مسلمانوں كى صفوں ميں تفرقہ ڈالنا بيان كيا ہے اور اسے دشمنان رسول خد ا(ص) كے مركز سے تعبير كياہے_

۳۴_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۷۳ وبحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۵۲ _ ۲۵۵_

۳۵_سورہ توبہ كى آيات ۴۲ سے ۱۱۰ تك ان منافقين كى خيانت كاريوں اور سازشوں كے بارے ميں نازل ہوئي ہے جو جنگ تبوك كے دوران اپنى سازشوں ميں سرگرم عمل تھے ، مذكورہ آيات ميں خداوند تعالى كى طرف سے ان كى ذہنى كيفيات و خصوصيات بيان كى گئي ہيں_

۳۶_رسول خد ا(ص) ماہ رمضان ميں مدينہ واپس تشريف لائے ، عبداللہ بن ابى ماہ شوال ميں بيمار ہوا اور ماہ ذى القعدہ ميں مرگيا ، ملاحظہ ہو: المغازى ج ۳ ص ۱۰۵۶_ ۱۰۵۷_

۳۷_لَايُؤَديّ عَنكَ الَّا اَنتَ اَو رَجُلٌ منكَ _

۳۸_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ' ابن ہشام ج ۴ ص ۱۹۰ _ ۹۱ ۱' بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۶۵ _۲۷۵_

۲۸۴

سبق ۱۶:

حجة الوداع ، جانشين كا تعين اور رحلت پيغمبر(ص) اكرم

۲۸۵

حجة الوداع

اسلام كے ہاتھوں تبوك ميں سلطنت روم كى سياسى شكست، جزيرہ نمائے عرب ميں شرك و بت پرستى كى بيخ كنى(۱) اورمشركين كے نہ صرف مناسك حج ميں شركت كرنے بلكہ مكہ ميں داخل ہونے پر مكمل پابندى كے بعد جب زمانہ حج نزديك آيا تو رسول خد ا(ص) كو مامور كيا گيا كہ آنحضرت (ص) بذات خود ہجرت كے دسويں سال ميں مناسك حج ادا كريں تاكہ اسلام كى طاقت كو اور زيادہ نماياں كرنے كے ساتھ عہد جاہليت كے آداب و رسوم كو ترك كرنے اورسنت ابراہيمى كے اصول كے تحت حج كى بجا آورى بالخصوص مستقبل ميں مسئلہ قيادت اسلام كے بارے ميں براہ راست مسلمانوں كو ہدايت فرمائيں تاكہ سب پر حجت تمام ہوجائے_(۲)

رسول خد ا(ص) كو وحى كے ذريعے اس كام پر مامور كيا گيا كہ آنحضرت(ص) تمام مسلمانوں كو حج بيت اللہ پر چلنے كےلئے آمادہ كريں اور انہيں اس عظیم اسلامى اجتماع ميں شركت كرنے كى دعوت ديں چنانچہ اس بارے ميں خداوند تعالى اپنے نبى (ص) سے خطاب كرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے كہ :

( وَأَذّن فى النَّاس بالحَجّ يَأتُوكَ رجَالًا وَعَلَى كُلّ ضَامر: يَأتينَ من كُلّ فَجّ: عَميق )

''اور لوگوں كو حج كيلئے دعوت عام دو كہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پيدل اور

۲۸۶

سوار ى پر آئيں تاكہ وہ فائدے ديكھيں جو يہاں ان كيلئے ركھے گئے ہيں''(۳) _

جس وقت يہ اعلان كياگيا اگر چہ اس وقت مدينہ اور اس كے اطراف ميں چيچك كى وبا پھيلى ہوئي تھى اور بہت سے مسلمان اس مرض كى وجہ سے اركان حج ادا كرنے كيلئے شركت نہيں كرسكتے تھے(۴) مگر جيسے ہى انہوں نے رسول خد ا(ص) كا يہ پيغام سنا مسلمان دور و نزديك سے كثير تعداد ميں مدينہ كى جانب روانہ ہوگئے تاكہ رسول خدا (ص) كے ساتھ مناسك حج ادا كرنے كا فخر حاصل كرسكيں ، مورخین نے ان كى تعداد چاليس ہزار سے ايك لاكھ چوبيس ہزار تك اور بعض نے اس سے بھى زيادہ لكھى ہے_(۵)

رسول خدا (ص) نے حضرت ابودجانہ كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر فرمايا اور ہفتہ كے دن بتاريخ پچيس ذى القعدہ(۶) مكہ كى جانب روانہ ہوئے اس سفر ميں مسلمانون كا ذوق وشوق اس قدر زيادہ تھا كہ ان ميں سے كثير تعداد نے مدينہ و مكہ كے درميان كا فاصلہ پيدل چل كر طے كيا _(۷)

يہ قافلہ دس روز بعد منگل كے دن(۸) بتاريخ چہارم ذى الحجہ(۹) مكہ ميں داخل ہوا_(۹) جہاں اس نے عمرہ كے اركان ادا كئے _

آٹھ ذى الحجہ تك مسلمانوں كى دوسرى جماعت بھى مكہ پہنچ گئي جس ميں حضرت على (ع) اور آپ (ع) كے وہ ساتھى بھى شامل تھے جو اس وقت آپ (ع) يمن كے دورے پر تشريف لے گئے تھے_(۱۰)

رسول خدا (ص) نے اس عظیم اسلامى اجتماع ميں سنت ابراہيمى كے مطابق مناسك حج ادا كرنے كى تعليم دينے كے ساتھ يہ بھى ہدايت فرمائي كہ كس طرح صحيح طور پر اركان حج پر عمل پيرا ہوں ، آنحضرت (ص) نے ''مكہ''، ''منى '' اور ميدان ''عرفات '' ميں مختلف مواقع پر خطاب

۲۸۷

فرما كر آخرى مرتبہ مسلمانوں كو پند ونصائح اور ارشادات عاليہ سے نوازا(۱۱) ان تقارير ميں آپ(ص) نے انہيں يہ نصيحت فرمائي كہ لوگوں كے جان ومال كى حفاظت كريں ، قتل نفس كى حرمت كا خيال ركھيں ، سود كى رقم كھانے ، دوسروں كا مال غصب كرنے سے بچیں ، دورجاہليت ميں جو خون بہايا گيا تھا اس سے چشم پوشى كو ہى بہتر سمجھيں ، كتاب اللہ پر سختى سے عمل پيرا ہوں ، ايك دوسرے كے ساتھ برادرانہ سلوك كريں، نيز استقامت و پائيدارى كے ساتھ احكام الہى و قوانين دين مقدس اسلام پر كاربند رہيں ، اس ضمن ميں آنحضرت(ص) نے مزيد ارشاد فرمايا كہ : حاضرين ان لوگوں كو جو يہاں موجود نہيں ہيں يہ پيغام ديں كہ ميرے بعد كوئي نبى و پيغمبر نہيں ہوگا اور تمہارے بعد كوئي امت نہ ہوگي(۱۲) آنحضرت(ص) نے يہ بات تاكيدسے كہى كہ : اے لوگو ميرى بات كو اچھى طرح سے سنو اور اس پر خوب غورو فكر كرو كيونكہ يہ ممكن ہے كہ اس كے بعد يہ موقع نہ ملے كہ ميرى تم سے ملاقات ہوسكے(۱۳) چنانچہ ان الفاظ كے ذريعے آنحضرت (ص) لوگوں كو مطلع كر رہے تھے كہ وقت رحلت نزديك آگيا ہے اور شايد اسى وجہ سے اس حج كو ''حجة الوداع'' كے عنوان سے ياد كيا جاتاہے_

جانشين كا تعين

مناسك حج مكمل ہوگئے اور رسول خدا(ص) واپس مدينہ تشريف لے آرہے تھے ليكن جو فرض آنحضرت (ص) پر واجب تھا وہ ابھى پورا نہيں ہوا تھا، مسلمانوں نے يہ سمجھ كر كہ كام انجام پذير ہوچكا ہے اورہر شخص نے اس سفر سے معنوى فيض كسب كرليا ہے اب ان كے دلوں ميں يہى تمنا تھى كہ جس قدر جلد ہوسكے تپتے ہوئے بے آب وگيا صحرا اورويراں ريگزاروں كو پار كركے واپس اپنے وطن پہنچ جائيں ليكن رسول خد ا(ص) نے چونكہ اپنى عمر عزيز كے تئيس سال ،

۲۸۸

اول سے آخر تك رنج وتكاليف ميں گزار كر آسمانى دين يعنى دين اسلام كى اشاعت و ترويج كے ذريعے انسانوں كو پستى و گمراہى اور جہالت و نادانى كى دلدل سے نكالنے ميں صرف كئے تھے اور آپ (ص) اپنے اس مقصد ميں كامياب بھى ہوئے كہ پراكندہ انسانوں كو ايك پرچم كے نيچے جمع كرليں اورانہيں امت واحد كى شكل ميں لے آئيں انہيںاب دوسرا خيال درپيش تھا ،اب آنحضرت (ص) كے سامنے اسلام كے مستقبل اور قيادت كا مسئلہ تھا بالخصوص اس صورت ميں جبكہ آپ (ص) كے روبرو يہ حقيقت بھى تھى كہ اس پر افتخار زندگى كے صرف چند روز ہى باقى رہ گئے ہيں_

رسول خدا (ص) ہر شخص سے زيادہ اپنے معاشرے كى سياسى ، معاشرتي، اجتماعى اور ثقافتى وضع و كيفيت سے واقف تھے ، آنحضرت(ص) كو اس بات كا بخوبى علم تھا كہ آسمانى تعليمات ، آپ (ص) كى دانشورانہ قيادت و رہبرى اور حضرت على (ع) جيسے اصحاب كى قربانى كے باعث قبائل كے سردار و اشراف قريش اسلام كے زير پرچم جمع ہوگئے ہيں ليكن ابھى تك بعض كے دل و دماغ مكمل طور پر تسليم حق نہیں ہوئے اور وہ ہر وقت اس فكر ميں رہتے ہيں كہ كوئي موقع ملے اور وہ اندر سے اس دين پر ايسى كارى ضرب لگائيں كہ بيروى طاقتوں كيلئے اس پر حملہ كرنے كيلئے ميدان ہموار ہوجائے _

( اَلْيَومُ اَكْمَلْتُ لَكُمْ ديْنَكُمْ ) (۱۴) كے مصداق كوئي ايسا ہى لائق اور باصلاحيت شخص جو آنحضرت (ص) كى مقرر كردہ شرائط كو پورا كرسكے ،دين اسلام كو حد كمال تك پہنچا سكتا ہے نيز امت مسلمہ كى كشتى كو اختلافات كى تلاطم خيز لہروں سے نكال كر نجات كے ساحل كى طرف لے جاسكتاہے_

رسول اكرم (ص) اگر چہ جانتے تھے كہ امت مسلمہ ميں وہ كون شخص ہے جو آپ(ص) كى جانشينى اور

۲۸۹

مستقبل ميں اس امت كى رہبرى كيلئے مناسب وموزوں ہے اور خود آنحضرت (ص) نے كتنى ہى مرتبہ مختلف پيرائے ميں يہ بات لوگوں كے گوش گذار بھى كردى تھى ليكن ان حقائق كے باوجود اس وقت كے مختلف حالات اس امر كے متقاضى تھے كہ جانشينى كيلئے خداوند تعالى كى طرف سے واضح وصريح الفاظ ميں جديد حكم نازل ہو، آنحضرت (ص) يہ بات بھى خوب جانتے تھے كہ اس معاملے ميں اللہ تعالى آنحضرت (ص) كى مدد بھى فرمائے گا_كيونكہ رسالت كى طرح مقام خلافت و امامت بھى ايك الہى منصب ہے اور حكمت الہى اس امر كى متقاضى ہے كہ اس منصب كيلئے كسى لائق شخص كوہى منتخب كياجائے ليكن اس كے ساتھ ہى رسول خدا (ص) كو خدشہ بھى لاحق تھا كہ اگر يہ عظيم اجتماع پراكندہ ہوگيا اور ہر مسلمان اپنے اپنے وطن چلاگيا تو پھر كبھى ايسا موقع نہ مل سكے گا كہ كسى جانشين كے مقرر كئے جانے كا اعلان ہوسكے اور آپ (ص) كا پيغام لوگوں تك پہنچ سكے_

قافلہ اپنى منزل كى جانب رواں دواںتھا كہ بتاريخ ۱۸ ذى الحجہ ''جحفہ '' كے نزديك ''غدير خم'' پر پہنچا اور يہ وہ جگہ ہے جہاں سے مدينہ ،مصر اور عراق كى جانب جانے والى راہيں ايك دوسرے سے جدا ہوتى ہيں ، اس وقت فرشتہ وحى نازل ہو ااوررسول خدا (ص) كو جس پيغام كى توقع تھى اسے اس نے ان الفاظ ميں پہنچاديا :

( يَاأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغ مَا أُنزلَ إلَيكَ من رَبّكَ وَإن لَم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رسَالَتَهُ وَالله ُ يَعصمُكَ من النَّاس إنَّ الله َ لاَيَهدى القَومَ الكَافرينَ ) (۱۵) _

''اے پيغمبر (ص) جو كچھ تمہارے رب كى طرف سے تم پر نازل كيا گيا ہے اسے لوگوں تك پہنچا

۲۹۰

دو ، اگر تم نے ايسا نہ كيا تو تم نے اس كى پيغمبرى كا حق ادا نہيں كيا اللہ تم كو لوگوں كے شر سے بچائے گااور خدا كافروں كو ہدايت نہيں كرتا'' _

گرمى سخت تھى اور كافى طويل قافلہ زنجير كے حلقوں كى مانند پيوستہ اپنى منزل كى جانب گامزن تھا ، رسول خد ا(ص) كے حكم سے يہ قافلہ رك گيا اور سب لوگ ايك جگہ جمع ہوگئے اور يہ جاننے كے متمنى تھے كہ كون سا اہم واقعہ رونما ہونے والا ہے_

رسو-ل خد ا(ص) نے پہلے تو نماز ظہر كى امامت فرمائي اور اس كے بعد ايك (منبر نما) اونچى جگہ پر جو اونٹ كے كجاوئوں سے بنائي گئي تھى تشريف فرما ہوئے اس موقع پر آپ (ص) نے مختلف مسائل كے بارے ميں تفصيلى خطبہ ديا اور ايك بار پھر لوگوں كو يہ نصيحت فرمائي كہ كتاب اللہ اور اہلبيت رسول (ص) كى پورى ديانتدارى كے ساتھ پيروى كريں كيونكہ يہى دونوں ''متاع گرانمايہ'' يعنى بيش قيمت اثاثے ہيں ، اس كے بعد آنحضرت(ص) نے اصل مقصد كى جانب توجہ فرمائي_

آنحضرت (ص) نے حضرت على (ع) كا دست مبارك اپنے دست مبارك ميں لے كر اس طرح بلند كيا كہ سب لوگوں نے رسول خد ا(ص) نيز حضرت على (ع) كو ايك دوسرے كے دوش بدوش ديكھا چنانچہ انہوں نے سمجھ ليا كہ اس اجتماع ميں كسى ايسى بات كا اعلان كياجائے گا جو حضرت على (ع) كے متعلق ہے_

رسول خد ا(ص) نے مجمع سے خطاب كرتے ہوئے فرمايا :

''اے مومنو تم لوگوں ميں سے كونسا شخص خود ان سے زيادہ اَولى اور ان كى جانوں كا زيادہ حق دار ہے ؟'' مجمع نے جواب ديا كہ خدا ا ور رسول خدا(ص) ہى بہتر جانتے ہيں _

اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا :'' ميرا مولا خدا ہے اور ميں مومنين كا مولا ہوں ميں خود ان

۲۹۱

سے زيادہ اَولى اور ان كى جانوں پر تصرف كا زيادہ حق ركھتا ہوں اور سب پر مجھے فضےلت حاصل ہے اور جس كا مولا ميں ہوںيہ على (ع) بھى اس كے سردار اورمولا ہيں ، اے خدا وندا جو على (ع) كے دوست ہوں انہيں تو عزيز ركھ اور جو على (ع) كے دشمن ہوں تو ان كے ساتھ دشمنى كر ، على (ع) كے دوستوں كو فتح ونصرت عطا فرما اور دشمنان على (ع) كو ذليل وخوار كر''_(۱۶)

رسول خدا (ص) كا خطبہ ختم ہوجانے كے بعد مسلمان حضرت على (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور رسول خدا (ص) كى طرف سے مقام خلافت و قيادت تفويض كئے جانے پر انہوں نے آپ(ع) كو مبارك باد پيش كى اور آپ (ع) سے امير المؤمنين اور مولائے مسلمين كہہ كر ہمكلام ہوئے ، خداوند تعالى نے بھى حضرت جبرئيل (ع) كو بھيج كر اور مندرجہ ذيل آيت نازل فرما كر لوگوں كو اس نعمت عظمى كى بشارت اور مبارك باد دي_

( اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نعمَتى وَرَضيتُ لَكُم الإسلاَمَ دينًا ) _(۱۷)

''آج ميں نے تمہارے دين كو تمہارے لئے مكمل كرديا ہے اور اپنى نعمت تم پر تمام كردى ہے اور تمہارے لئے اسلام كو دين كى حيثيت سے پسند فرمايا ہے''(۱۸) _

اس روز (۱۸ ذى الحجہ )سے مسلمان اور حضرت على (ع) كے پيروكار ''عيد غدير'' كے نام سے ہر سال جشن مناتے ہيں اور اس عيد كا شمار اسلام كى عظیم عيدوں ميں ہوتا ہے_

رسول خدا(ص) كى آخرى عسكرى كوشش

رسول اكرم (ص) ''حجة الوداع'' سے واپس آنے كے بعد خداوند تعالى كى طرف سے عائد كردہ دو اہم فرائض (فريضہ حج اور حضرت على (ع) كى جانشينى كے اعلان) كو انجام دينے كے

۲۹۲

بعد اگر چہ بہت زيادہ اطمينان محسوس كر رہے تھے ليكن اس كے باوجود آپ (ص) كى دور رس نگاہيں ديكھ رہى تھيں كہ ابھى امت مسلمہ كے سامنے ايسے مسائل ہيں جن كى وجہ سے وہ فتنہ وفساد سے دوچار رہے گى چنانچہ يہى فكر آنحضرت (ص) كيلئے تشويش خاطر كا باعث تھي_

سنہ ۱۱ ہجرى كے اوائل ميں جب كچھ لوگوں نے يہ خبر سنى كہ سفر كى وجہ سے رسول خد ا(ص) كى طبيعت ناساز ہے تو انہوں نے نبوت كا دعوى كركے فتنہ و غوغا برپا كرديا ، چنانچہ ''مُسيلمہ'' نے ''يمامہ'' ميں ''اسود عنسي'' نے ''يمن ''ميں اور ''طليحہ'' نے ''بنى اسد '' كے علاقوںميں لوگوں كو فريب دے كر گمراہ كرنا شروع كرديا _(۱۹)

مسيلمہ نے تو رسول خد ا(ص) كو خط بھى لكھا اور آنحضرت (ص) سے كہا كہ اسے بھى امر نبوت ميں شريك كرلياجائے_(۲۰)

دوسرى طرف ان لوگوں كو ، جو كل تك كافر اور آج منافق تھے اور جن كے دلوں ميں پہلے سے ہى اسلام كے خلاف بغض و كينہ بھرا ہوا تھا ، جب يہ معلوم ہوا كہ رسول خد ا(ص) نے حضرت على (ع) كے پيشوائے اسلام اور جانشين پيغمبر (ص) ہونے كا اعلان كرديا ہے تو ان كا غصہ پہلے سے كہيں زيادہ ہوگا چنانچہ جب انہيں يہ علم ہوا كہ رسول خدا(ص) كى طبيعت ناساز ہے اور آنحضرت (ص) كى رحلت عنقريب ہى واقع ہونے والى ہے تو ان كا جوش و خروش كئي گنا زيادہ ہوگيا_

ان واقعات كے علاوہ مشرقى روم كى مغرور و خود سر حكومت اور اس كى نو آباديات كو مسلمانوں كے ساتھ چند مرتبہ نبرد آزمائي كرنے كے بعد ان كى طاقت كا اندازہ ہوگيا تھا اور ان سے كارى ضربيں كھاچكے تھے اسى لئے ان كا وجود مدينہ كى حكومت كے لئے خطرہ بنا ہوا تھا كيونكہ سياسى عوامل سے قطع نظر اس خاص مذہبى حساسيت كے باعث بھى جو عيسائي

۲۹۳

سربراہوں كے دلوں ميں اسلام كے خلاف تھى شمالى سرحدوں پر ہميشہ ناامنى سايہ فگن تھي_

ان حالات ميں بقول پيغمبر اكرم (ص) ''فتنے وفسادات سياہ رات كى طرح يكے بعد ديگرے اسلامى معاشرے پر چھانے شروع ہوگئے ہيں''_(۲۱)

چنانچہ آنحضرت (ص) نے ان كے خاتمہ كيلئے بعض آخرى اور انتہائي اقداما ت بھى كئے _

رسول خدا (ص) نے ''يمن''اور'' يمامہ'' ميں اپنے گورنروں اور قبيلہ بنى اسد كے درميان موجود اپنے نمائندے كو حكم ديا كہ نبوت كے دعويداروں كى شورش كو دبا دیں، اس كے علاوہ يہ حكم بھى صادر فرمايا كہ''اسامہ بن زيد'' نامى اٹھارہ يا انيس(۲۲) سالہ سپہ سالار كى زير قيادت طاقتور سپاہ تيار كى جائے چنانچہ آنحضرت (ص) نے حضرت اسامہ كى تحويل ميں پرچم دينے كے بعد فرمايا كہ پورى امت مسلمہ كے ساتھ جس ميں مہاجر و انصار شامل ہوں بلاد روم ميں اپنے والد ''زيد بن حارثہ'' كى شہادت گاہ كى جانب روانہ ہوں(۲۳) _

حصرت اسامہ كے سپہ سالار مقرر كرنے كى وجہ ان كى مہارت ولياقت كے علاوہ يہ بھى ہوسكتى تھى كہ :

۱_يہ عمل آنحضرت (ص) كى جانب سے ان خرافات كے خلاف عملى جدو جہد تھى جو دور جاہليت سے بعض صحابہ كے ذہنوں ميں سمائي ہوئي تھيں كيونكہ ان كى نظر ميں كسى مقام ومرتبہ كے حصول كا معيار يہى تھا كہ صاحب جاہ ومرتبہ معمر شخص ہو اور كسى قبيلے كے سردار سے وابستہ شخص ہى اس كا حقدار ہوسكتا ہے_

۲_حضرت زيد ابن حارثہ كى شہادت چونكہ روميوں كے ہاتھوں ہوئي تھى اسى لئے ان كے دل ميں روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كا جوش وولولہ بہت زيادہ تھا، رسول خدا (ص) كى يہ كوشش تھى كہ ان كے اس جوش وولولے ميں مزيد شدت اورحدت پيدا ہو چنانچہ

۲۹۴

اسى وجہ سے جب آنحضرت (ص) نے سپہ سالار ى كى ذمہ دارى ان كو دى تو اس كے ساتھ يہ بھى ارشاد فرمايا كہ ''اپنے باپ كى شہادت گاہ كى جانب روانہ ہو ''_(۲۴)

۳_اگر اس وقت كے حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے سپاہ كى قيادت مہاجر و انصار ميں سے كسى معمر شخص كى تحويل ميں دے دى جاتى تو اس بات كا امكان تھا كہ وہ شخص اس عہدے سے سوء استفادہ كرتا اوراسى وجہ سے خود كو پيغمبر اكرم (ص) كا خليفہ و جانشين سمجھنے لگتا ليكن حضرت اسامہ كى يہ حيثيت نہيں تھى اور ان كے خليفہ بننے كا كوئي امكان بھى نہيں تھا_

حضرت اسامہ نے رسول خد ا(ص) كے حكم كے مطابق ''جُرْف''(۲۴) نامى مقام پر خيمے نصب كئے اور ديگر مسلمانوں كى آمد كا انتظار كرنے لگے_

رسول خد ا(ص) نے مسلمانوں بالخصوص مہاجر و انصار كے سرداروں كو حضرت اسامہ كے لشكر ميں شامل كرنے كيلئے بہت زيادہ تاكيد اور اہتمام سے كام ليا اور جو لوگ اس اقدام كے مخالف تھے ان پر آنحضرت (ص) نے لعنت بھى بھيجي_(۲۶)

حضرت اسامہ كى عسكرى طاقت كو تقويت دينے كے علاوہ اس اہتمام كى ايك وجہ يہ بھى تھى كہ آنحضرت(ص) چاہتے تھے كہ وقت رحلت وہ لوگ مدينہ ميں موجود نہ رہيں جو امت ميں اختلاف پيدا كرنے اور منصب خلافت كے حصول كى فكر ميں ہيں تاكہ حضرت على (ع) كى قيادت و پيشوائي كے بارے ميں فرمان خدا و رسول (ص) جارى كئے جانے كيلئے راستہ ہموار رہے_(۲۷)

ليكن افسوس بعض مسلمانوں نے جنہيں رسول خدا(ص) مدينہ سے باہر بھيجنے كيلئے كوشاں تھے يہ بہانہ بناكر كہ حضرت اسامہ بہت كم عمر ہيں مخالفت شروع كردى اور ان كى خميہ گاہ كى

۲۹۵

جانب جانے سے انكار كرديا _(۲۸) نيز يہ ديكھ كر كہ رسول خدا (ص) كى طبيعت ناساز ہے تو انہوں نے حضرت اسامہ كے لشكر كو روم كى طرف جانے سے يہ كہہ كر روكنا چاہا(۲۹) كہ چونكہ اس وقت رسول خدا (ص) بہت عليل ہيں اسى لئے ان حالات كے تحت ہمارے دلوں ميں آپ (ص) سے جدائي كى تاب و طاقت نہيں_(۳۰)

رسول خدا (ص) كو منافقين كے اس رويے سے سخت تكليف پہنچى آپ (ص) طبيعت كى ناسازى كے باوجود مسجد ميں تشريف لے گئے اور مخالفت كرنے والوں سے فرمايا كہ : ''اسامہ كو سپہ سالار مقرر كئے جانے كے بارے ميں ميں يہ كيا سن رہاہوں ، اس سے پہلے جب ان كے باپ كو سپہ سالار مقرر كيا تھا تو اس وقت بھى تم طعن و تشنيع كر رہے تھے خدا گواہ ہے كہ وہ بھى لشكر كى سپہ سالارى كے لئے مناسب تھے اور اسامہ بھى اس قيادت كے اہل اور لائق ہيں''_(۳۱)

رسول خدا(ص) اس وقت بھى جب كہ صاحب فراش تھے تو ان لوگوں سے جو عيادت كيلئے آئے تھے مسلسل يہى فرماتے كہ ''انْفُذوْابَعْثَ اُسَامَةَ ''(۳۲) اسامہ كے لشكر كو تو روانہ كروليكن آنحضرت(ص) كى يہ سعى وكوشش بھى بے سود ثابت ہوئي كيونكہ صحابہ ميں جو سردار تھے انہوں نے اس قدر سستى اورسہل انگارى سے كام ليا كہ آنحضرت(ص) كى رحلت واقع ہوگئي اور سپاہ واپس مدينہ آگئي _

رسول خدا(ص) كى رحلت

رسول خدا(ص) كے مزاج كى ناسازى ميں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا علالت كے دوران آنحضرت (ص) بقيع كى جانب تشريف لے گئے اور جو لوگ وہاں ابدى نيند سو رہے تھے

۲۹۶

ان كى طلب مغفرت كے بعد حضرت على (ع) كى جانب رخ كيا اور فرمايا كہ جبرئيل سال ميں ايك مرتبہ مجھے قرآن پيش كرتے تھے ليكن اس مرتبہ انہوںنے دو مرتبہ پيش كيا اس كى وجہ اس كے علاوہ كچھ اور نہيں ہوسكتى كہ ميرى رحلت قريب ہے ، اس كے بعد آپ (ص) نے فرمايا كہ :

''اے على (ع) مجھے يہ اختيار ديا گيا ہے كہ دنيا كے خزانوں، اس كى جاويدانى زندگى اور بہشت كے درميان ميں سے كسى كا انتخاب كرلوں ميں نے ان ميں سے بہشت اور ديدار پروردگار كو چن لياہے''_(۳۳)

رسول خدا (ص) بسترعلالت پر فروكش اورانتہائي اشتياق كے ساتھ فرمان حق كا انتظار فرما رہے تھے ليكن يہ اشتياق آنحضرت (ص) كو امت كى ہدايت كے خيال اور اس كے درميان اختلاف كى وجہ سے فتنہ پيدا ہونیکے انديشے سے نہ روك سكا، صحابہ ميں سے بعض برگزيدہ حضرت آپ(ص) كى عيادت كيلئے حاضر ہوئے ان سے رسول خد ا(ص) نے يہى ارشاد فرمايا كہ : ''قلم ودوات لے آو تاكہ ميں تمہارے لئے ايسى چيز لكھ دوں جس سے تم كبھى گمراہ نہ ہو گے''_(۳۴) اس پر عمر نے كہا : رسول خدا (ص) پر مرض كا غلبہ ہے قرآن تو ہمارے پاس ہے ہى ہمارے لئے يہى كتاب اللہ كافى ہے ، حاضرين ميں سے بعض نے عمر كے نظريے سے اختلاف كيا اور بعض ان كى جانب دار ہوگئے ، رسول خدا(ص) كيلئے ان كى يہ جسارت و بے باكى سخت پريشانى خاطر كا باعث ہوئي جس پر آپ(ص) نے فرمايا كہ :'' ميرى نظروں سے دور ہوجائو''_(۳۵)

بعض صحابہ كى اعلانيہ مخالفت نے اگر چہ رسول خدا (ص) كو وصيت لكھنے سے باز ركھا ليكن آنحضرت (ص) نے اپنا مدعا دوسرے طريقے سے بيان كرديا اگر چہ مرض كاغلبہ تھا مگر دردو تكليف كے باوجود آنحضرت (ص) مسجد كى جانب روانہ ہوئے اور وہاں منبر پر تشريف فرما ہوكر

۲۹۷

آخرى مرتبہ لوگوں سے خطاب فرمايا جو آنحضرت (ص) كا آخرى خطبہ تھا آپ (ص) نے فرمايا كہ :

''اے لوگو ميں تمہارے درميان دو گرانبہا چيزيں چھوڑے جارہاہوں ، ان ميں سے ايك كلام اللہ ہے اور دوسرے ميرے اہل بيت ''_(۳۶)

بالآخر جد و جہد سے بھر پور تريسٹھ سالہ حيات طيّبہ كے بعد ۲۸ صفر بروز ہفتہ ۱۱ ہجرى كو اس سفير حق كى مقدس روح اس وقت جب كہ آنحضرت (ص) كا سر مبارك حضرت على (ع) كے گود ميں تھا عالم ملكوت كى جانب پرواز كرگئي _(۳۷)

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے آپ (ص) كے جسد پاك كو غسل ديا اور كفن پہنايا _(۳۸)

اس كے بعد آپ (ص) كے چہرے مبارك سے كفن مبارك كى گرہوں كو كھول ديا اگر چہ آنكھوں سے آنسو جارى تھے مگر اسى حالت ميں آپ (ع) نے فرمايا كہ :

''يا رسول اللہ (ص) ميرے ماں باپ آپ (ص) پر فدا ہوں ، آپ (ص) كى رحلت كے باعث نبوت ' وحى الہى اور آسمانى پيغامات كى آمد كا سلسلہ منقطع ہوا اگر چہ آپ(ص) نے ہميشہ ہميں صبر كى تلقين اور عجلت و بے تابى سے منع فرمايا مگر آج صبر وتحمل كا يارا نہيں اگر آپ(ص) نے ہميں صبر و تحمل كا حكم نہ ديا ہوتا تو ہم اتنا گريہ و زارى كرتے كہ آنكھوں كے آنسو ہى خشك ہوجاتے(۳۹)

اس كے بعد آپ (ع) نے نماز جنازہ پڑھائي ، حضرت على (ع) كے بعد صحابہ نے يكے بعد ديگرے كئي ٹولياںبنا كر جماعتوں كى صورت ميں نماز ادا كى اس كے بعد اسى حجرے ميں جہاں آنحضرت (ص) كى رحلت ہوئي اس جسد پاك كو سپرد خاك كرديا گيا_(۴۰)

خداوند ، ملائكہ اور كل مومنين كى طرف سے آپ (ص) پر اور خاندان رسالت(ص) پر لاكھوں درودسلام_

۲۹۸

سوالات

۱_حجة الوداع كس سال منعقد ہوا اس ميں كتنے لوگوں نے شركت كى اس كى كيا خصوصيات تھيں؟

۲_ رسول خدا(ص) نے حجة الوداع كے خطبات ميں كن باتوں كو تاكيد سے بيان كيا ؟

۳_سنہ ۱۰ ہجرى كے سياسى ' اجتماعى حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے واضح كيجئے كہ رسول خدا(ص) نے جانشين مقرر كرنے كى ضرورت كيوں محسوس كى ؟

۴_''غدير خم'' كے مقام پر كيا اہم واقعہ رونما ہوا ، اس واقعے كى قرآن كى روسے كيا اہميت تھى ؟

۵_ وہ كون سے عوامل تھے جن كے باعث رسول خدا (ص) نے اپنى زندگى كے آخرى دنوں ميں حضرت اسامہ كے لشكر كو عسكرى اعتبار سے تقويت پہنچانے كى كوشش كى ؟

۶_ رسول خدا (ص) كو كس وجہ سے يہ اصرار تھا كہ حضرت اسامہ كا لشكر روم كى جانب روانہ ہوجائے؟

۷_بعض صحابہ نے كس وجہ سے رسول خدا (ص) كے فرمان كى اطاعت نہيں كى اور حضرت اسامہ كے لشكر ميں شريك ہونے سے انكار كرديا؟_

۸_ رسول خدا (ص) كى رحلت كس روز ہوئي؟ آپ (ص) كو كہاں دفن كيا گيا اور تجہيز و تكفين كے فرائض كس نے انجام ديئے؟

۲۹۹

حوالہ جات

۱_بعض مورخین نے لكھا ہے كہ جزيرہ نما ئے عرب ميں بت پرستى كا قلع قمع ہجرت كے دسويں سال كے وسط ميں ہوگيا تھا ، ملاحظہ ہو : فروغ ابديت ج ۲ ص ۸۰۹_

۲_شايد اسى وجہ سے اسے''حَجَّةُ البُلاَغ'' كہا گيا ہے_

۳_سورہ حج آيت ۲۷ اس بناپر كہ اس آيت كے مخاطب رسول (ص) خدا ہوںملاحظہ ہو مجمع البيان ج ۷_۸ ص ۸۰_

۴_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۲۵۷_

۵_ يہ تعداد چاليس ہزار ، ستر ہزار نوے ہزار ' ايك لاكھ بيس ہزار اور ايك لاكھ چوبيس ہزار تك درج ہے اور يہ تعداد ان لوگوں كے علاوہ ہے جو رسول خدا (ص) كے ساتھ سفر ميں شامل ہوئے تھے اور ان ميں اہل مكہ بھى شامل نہيں ملاحظہ ہو: السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۲۵۷ و الغدير ج ۱ ص ۹_

۶_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۳۸۴ ، المغازى ج ۳ ص ۱۰۸۹ والارشاد ص ۹۱_

۷_ملاحظہ ہو : الارشاد ص ۹۱_

۸_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۳۸۹_ ۳۹۰_

۹_الغدير ج ۱ ص ۱۰_

۱۰_بحار الانوار ج ۱۲، ص ۳۹۱_ الارشاد ص ۹۲_

۱۱_ملاحظہ ہو : السيرة المصطفي(ص) ص ۶۸۸_ ۶۸۹_

۱۲_رسول خدا (ص) كے اس خطبے كے متعلق مزيد معلومات كےلئے ملاحظہ ہوں : بحارالانوار ج ۲۱ ص ۳۸۰ و تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۰۹_ ۱۱۲_

۱۳_السيرة النبويہ ج ۴ ص ۲۵۰_ ۲۵۱_

۱۴_آج ميں نے تمہارے لئے تمہارے دين كو مكمل كرديا ہے سورہ مائدہ آيت ۳_

۱۵_سورہ مائدہ آيت ۶۷_

۱۶_مَنْ كُنْتُ مُوْلَاهُ فَهذَا عَليٌ مَوْلاهُ اَللّهُمَّ وَآل مَنْ وَالَاهُ وَعَاد مَنْ عَادَاهُ وَاَنْصُرُ مَنْ نَصَرُه وَاَخْذُلْ مَنْ خَذَلَه _

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313