تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي25%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139766 / ڈاؤنلوڈ: 4389
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

۳_چاہ زمزم كا ''سقاية الحاج'' نام ركھنا_

۴_قتل كے بدلے سو اونٹ بطور خوں بہا ادا كرنا_

۵_كعبہ كے گرد سات مرتبہ طواف كرنا _(۲۰)

البتہ تاريخ كى ديگركتابوں ميں ان كى قائم كردہ ديگر روايات كا بھى ذكر ملتا ہے جن ميں سے چند يہ ہيں: منت مان لينے كے بعد اسے پورا كرنا' چور كا ہاتھ كاٹنا ' لڑكيوں كے قتل كى ممانعت اور مذمت' شراب و زنا كو حرام قرار دينے كا حكم جارى كرنا اور برہنہ ہو كر كعبہ كا طواف كرنے كى ممانعت وغيرہ_(۲۱)

واقعہ فيل

حضرت عبدالمطلب كى زندگى ميں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان ميں سے ايك واقعہ ''عام الفيل'' تھا _ اس واقعہ كا خلاصہ يہ ہے كہ : يمن كے حكمران ابرہہ نے اس ملك پر اپنا تسلط برقرار كرنے كے بعد يہ محسوس كيا كہ اس كى حكومت كے گرد و نواح ميں آباد عربوں كى خاص توجہ كعبہ پر مركوز ہے اور ہر سال كثير تعداد ميں لوگ اس كى زيارت كے لئے جاتے ہيں _ اس نے سوچا كہ عربوں كا يہ عمل اس كے نيز ان حبشى لوگوں كےلئے جو يمن اور جزيرہ نمائے عرب كے ديگر مقامات پر آباد ہيں كوئي مصيبت پيدا نہ كردے چنانچہ اس نے يمن ميں''قليس'' نام كا بہت ہى بڑا گرجا تيار كيا اور تمام لوگوں كو وہاں آنے كى دعوت دى تاكہ كعبہ جانے كى بجائے لوگ اس كے بنائے ہوئے كليسا ميں زيارت كى غرض سے آئيں ليكن لوگوں نے نہ صرف اس كى دعوت كى طرف كوئي توجہ نہيں دى تھى بلكہ الٹا اس كے كليسا كى بھى توہين كى گئي تھي_

۴۱

لوگوں كے اس رويہ سے ابرہہ كو سخت طيش آگيا اور اس نے فيصلہ كيا كہ لوگوں كے اس جرم كے پاداش ميں كعبہ كا وجود ہى ختم كردے گا، اس مقصد كے تحت اس نے عظيم لشكر تيار كيا جس ميں جنگجو ہاتھى پيش پيش تھے _ چنانچہ پورے جنگى ساز و سامان سے ليس ہوكر وہ مكہ كے جانب روانہ ہوا _ سردار قريش حضرت عبدالمطلب اور ديگر اہل مكہ كو جب ابرہہ كے ارادے كا علم ہوا تو انہوں نے شہر خالى كرديا اور نتيجے كا انتظار كرنے لگے_

جنگى ساز وسامان سے ليس اور طاقت كے نشے ميں چور ابرہہ كا لشكر جب كعبہ كى طرف بڑھا تو ابابيل جيسے پرندوں كے جھنڈاپنى چونچوں اور پنجوں ميں كنكرياں لے كر اس كے لشكر پر چھاگئے اور انہيں ان پر برسانا شروع كرديا جس كى وجہ سے ان كے جسم ايسے چر مراگئے جيسے چبائے ہوئے پتے_

يہ واقعہ بعثت سے چاليس سال قبل پيش آيا چنانچہ عربوں نے اس واقعے سے ہى اپنى تاريخ شروع كردى جو رسول خدا (ص) كے مكہ سے مدينہ كى جانب ہجرت تك جارى رہى اور واقعات اسى سے منسوب كئے جانے لگے_

چندقابل ذكر نكات

۱_ابرہہ كا حملہ اگر چہ مذہبى محرك كاہى نتيجہ تھا مگر اس كا سياسى پہلو يہ تھا كہ سرزمين عرب پر سلطنت روم كا غلبہ ہوجائے _ چنانچہ اس كى اہميت مذہبى پہلو سے كسى طرح بھى كم نہ تھى ابرہہ كا مكہ اور حجاز كے ديگر شہروں پر قابض ہوجانا سياسى اور اقتصادى اعتبار سے روم جيسى عظيم طاقت كى اہم فتح و كامرانى تھى _ كيونكہ يہى ايك ايسا واحد طريقہ تھا جسے بروئے كار لاكر شمالى عرب كو جنوبى عرب سے متصل كيا جاسكتا تھا _ اس طرح

۴۲

پورے جزيرہ نما ئے عرب پر حكومت روم كا غلبہ و تسلط ہوسكتا تھا نيز اسے ايران پر حملہ كرنے كيلئے فوجى چھائونى كے طور پر استعمال كياجاسكتا تھا_

۲_خداوند تعالى كے حكم سے معجزہ كى شكل ميں ابرہہ كے لشكر كى جس طرح تباہى و بربادى ہوئي اس كى تائيد قرآن مجيد اور اہلبيت عليہم السلام كى ان روايات سے ہوتى ہے جو ہم تك پہنچى ہے چنانچہ قرآن مجيد كے سورہ فيل ميں ارشاد ہے كہ :

( بسم الله الرَّحمن الرَّحيْم أَلَم تَرَ كَيفَ فَعَلَ رَبُّكَ بأَصحَاب الفيل (۱) أَلَم يَجعَل كَيدَهُم فى تَضليل: (۲) وَأَرسَلَ عَلَيهم طَيرًا أَبَابيلَ (۳) تَرميهم بحجَارَة: من سجّيل: (۴) فَجَعَلَهُم كَعَصف: مَأكُول: ) (۵)

''تم نے ديكھا كہ تمہارے رب نے ہاتھى والوں كے ساتھ كيا سلوك كيا اس نے ان كى تدبيرا كارت نہيں كردى اور ان پر پرندوں كے جھنڈ كے جھنڈ بھيج ديئے جو ان پركنكر پتھر پھينك رہے تھے پھر ان كا يہ حال كرديا جيسے (جانوروں كا) كھايا ہوا بھوسا''_

جو لوگ اس واقعہ كى توجيہہ كرتے ہيں كہ اس سال مكہ ميں چيچك كى بيمارى ابرہہ كے سپاہيوں ميں مكھيوں اور مچھروں كى ذريعے پھيلى اور ان كى ہلاكت كا باعث ہوئي _ اس كا سبب يہ ہے كہ ان كا مافوق فطرت چيزوں اور معجزات پر اعتقاد اور ايمان نہيں چنانچہ بعض وہ مسلمان جو خود كو روشن فكر خيال كرتے ہيں وہ بھى مغرب كے مادہ پرستوں كے ہم خيال ہوگئے ہيں اور سب سے زيادہ قابل افسوس بات تو يہ ہے كہ بعض مسلم مؤرخين اور مفسرين بھى اس مغرب پرستى كا شكار ہوگئے ہيں _

۳_ابرہہ كے لشكر كى شكست اور خانہ كعبہ كو گزندنہ پہنچنے كے باعث قريش پہلے سے بھى

۴۳

زيادہ مغرور و متكبر ہوگئے چنانچہ حرام كاموں كے ارتكاب ، اخلاقى پستيوں كى جانب جانے اور ان لوگوں پر ظلم وستم روا ركھنے ميں جو حرم كے باہر آباد تھے ان كى گستاخياں اور دست درازياںپہلے سے كہيں زيادہ ہوگئيں _ وہ برملا كہنے لگے كہ ہم ہى آل ابراہيم (ع) ہيں ، ہم ہى پاسبان حرم ہيں ، ہم ہى كعبہ كے اصل وارث ہيں ، ان كا يہ بھى دعوى تھا كہ جاہ و مرتبت ميں عربوں كے درميان كوئي ہمارا ہم پلہ نہيں_

ان نظريات كى بنا پر انہوں نے حج كے بعض احكام جو حرم كے باہر انجام ديئے جاتے ہيں جيسے عرفہ ميں قيام قطعى ترك كرديئے تھے_ ان كا حكم تھا كہ حج يا عمرہ كى غرض سے آنے والے زائرين بيت اللہ كو يہ حق نہيں كہ اس كھانے كو كھائيں جسے وہ اپنى ساتھ لاتے ہيں يا اپنے كپڑے پہن كر خانہ كعبہ كا طواف كريں _

حضرت عبداللہ (ع)

حضرت عبدالمطلب (ع) كے سب سے چھوٹے بيٹے حضرت عبداللہ تھے(۲۲) كہ جنہيں رسول خدا (ص) كے والد ہونے كا فخر حاصل ہوا وہ ،حضرت ابوطالب (ع) (اميرالمومنين على عليہ اسلام عليہ السلام كے والد) اور زبير ايك ہى ماں يعنى حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا كے بطن سے تھے(۲۳) _ حضرت عبداللہ (ع) اپنے والد كى نظروں ميں دوسرے بھائيوں سے زيادہ قدر ومنزلت كے حامل تھے _ جس كى وجہ ان كے ذاتى اوصاف اور معنوى كمالات تھے اس كے علاوہ دانشوروں اور كاہنوں نے بھى يہ پيشين گوئي كى تھى كہ انكى نسل سے ايسا فرزند پيدا ہوگا جسے پيغمبرى كے لئے منتخب كياجائے گا، اس خوشخبرى كى تائيد و تصديق اس خاص چمك دمك سے بھى ہوتى تھى جو حضرت عبداللہ (ع) كے چہرے سے عياں تھي(۲۴)

۴۴

حضرت عبدالمطلب (ع) نے اپنے جواں سال فرزند حضرت عبداللہ (ع) كے لئے خاندان بنى زہرہ كے سردار حضرت وہب بن عبدمناف كى دختر نيك اختر حضرت آمنہ سلام اللہ عليہا كا رشتہ مانگا اور انہيں اپنے فرزند دلبند كے حبالہ نكاح ميں لے آئے اس شادى خانہ آبادى كا حاصل و ثمرہ حضرت محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا وجود مسعود تھا اور يہى وہ ذات گرامى ہے جسے بعد ميں خاتم الانبياء (ص) كہاگيا_

حضرت آمنہ (ع) سے شادى كرنے كے بعد حضرت عبداللہ (ع) تجارتى قافلے كے ہمراہ سفر پر روانہ ہوئے_ سفر سے واپس آئے تو شہر يثرب ميں بيمار ہوگئے اور اس بيمارى كى وجہ سے وہيں ان كا انتقال ہوگيا اور اسى شہر ميں انہيں دفن كيا گيا _(۲۵)

رسول اللہ(ص) كى ولادت باسعادت

اكثر محدثين اور مورخين اس بات پر متفق ہيں كہ حضرت محمد (ص) كى ولادت باسعادت عام الفيل ميں يعنى نزول وحى سے چاليس سال قبل ماہ ربيع الاول ميں ہوئي ليكن يوم پيدائشے كے بارے ميں اختلاف ہے _ شيعہ محدثين و دانشوروں كى رائے ميں آپ (ص) كى ولاد ت ۱۷ ربيع الاول كو ہوئي اور اہل سنت كے مورخين نے آپ (ص) كا روز ولادت ۱۲ ربيع الاول قرار ديا ہے_

حضرت محمد (ص) كى ولادت كے وقت چند حادثات اور غير معمولى واقعات بھى رونما ہوئے جن ميں سے بعض يہ ہیں:

۱_ ايوان كسرى ميں شگاف پڑ گيا اور اس كے چودہ كنگرے زمين پر گرگئے _

۲_فارس كا وہ آتشكدہ جو گزشتہ ايك ہزار سال سے مسلسل روشن تھا يكايك خاموش

۴۵

ہوگيا _

۳_ساوہ كى جھيل خشك ہو كر نيچے بيٹھ گئي _

۴_تمام بت منہ كے بل زمين پر گر پڑے _

۵_زرتشتى عالموں اورايران كے بادشاہ كسرى نے پريشان كن خواب ديكھے _

۶_دنيا كے بادشاہوں كے تخت سلطنت سرنگوں ہوگئے _

۷_پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا نورآسمان كى طرف بلند ہوا اور بہت وسيع حصے ميں پھيل گيا _(۲۶)

پيغمبر (ص) كى ولادت كے وقت ايسے حيرتناك واقعات كا رونما ہوناكہ جنہيں اصطلاح ميں ''ارہاصات''كہتے ہيں، درحقيقت لوگوں كو خطرے سے آگاہ اور خواب غفلت سے بيدار كرنے كےلئے تھا بالخصوص ہم عصرحكمرانوں كى تنبيہہ كرنا مقصود تھى تاكہ وہ اس بات پر غور كريں كہ ان حادثات كے رونما ہونے كا كيا سبب ہے _ نيز خود سے سوال كريں كہ بت اور بت پرستى كے مظاہر اورنشانات كيونكرمنہ كے بل زمين پر آرہے ہيں اور وہ لوگ جو خود كو خدا اور زمين كا آقا و مالك سمجھتے تھے كيوں مضطرب و پريشان ہوگئے ؟_ كيا اس كا مطلب يہ نہيں ہے كہ ان سے بھى برتر و بہتر طاقت كا ظہور ہوچكا ہے اور بت پرستى اور شيطانى طاقتوں كے عروج كا زمانہ ختم ہوچكا ہے؟_

پيغمبر اكرم (ص) كا بچپن

رسول خدا (ص) نے اس دنيا ميں اس وقت آنكھ كھولى جب ان كے والد كا سايہ سر سے اٹھ چكا تھا(۲۷) اسى لئے ايك قول كے مطابق رسول خدا (ص) كى تربيت بچپن سے ہى آپ (ص) كے دادا

۴۶

حضرت عبدالمطلب (ع) كے زير سرپرستى ہوئي_

حضرت عبدالمطلب (ع) نے آپ(ص) كى ولادت كے ساتويں دن بھيڑ ذبح كركے اپنے پوتے كا عقيقہ كيا اور نام محمد(ص)(۲۸) ركھا_ اس نومولو بچے كےلئے دايہ كى تلاش شروع ہوئي اور چند روز كے لئے انہوں نے بچے كو ابولہب كى كنيز ثويبہ كے حوالہ كرديا(۲۹) اس كے بعد قبيلہ بنى سعد كے معز زفرد ابوذو يب كى مہربان و پاكدامن دختر حضرت حليمہ نے آنحضرت (ص) كو اپنى تحويل ميں لے ليا اور صحرا كى جانب لے گئيں تاكہ فطرت كى آغوش اور صحت افزا آزاد فضا ميں لے جاكر، ان وبائي بيماريوں سے دور جو كبھى كبھى شہر مكہ كے لئے خطرہ پيدا كرديتى تھيں ، ان كى پرورش كرسكيں _ قبيلہ بنى سعد كے درميان رسول خدا (ص) كى موجودگى حضرت حليمہ (ع) نيز بنى سعد كے ديگر تمام افراد كےلئے نعمت كى فراوانى اور بركت كا باعث ہوئي چنانچہ جب دودھ پلانے كى مدت ختم ہوگئي اور حضرت حليمہ (ع) اس نونہال كو ان كى والدہ كى خدمت ميں لے گئيں تو انہوں نے آنحضرت (ص) كو دوبارہ اپنے ساتھ لے جانے كى درخواست كى چنانچہ حضرت آمنہ (ع) نے بھى ان سے اتفاق كيا_(۳۰)

پيغمبر اكرم (ص) پانچ سال تك(۳۱) صحرا كے دامن ميں قبيلہ بنى سعد كے درميان زندگى بسر كرتے رہے_ اس كے بعد آپ(ص) كو واپس آپ (ص) كى والدہ اور دادا كے پاس بھيج ديا گيا _ جب آپ (ص) كى عمر مبارك چھ سال ہوئي تو آپ كى والدہ ماجدہ حضرت عبداللہ كے مزار كى زيارت سے مشرف ہونے اور ماموں سے ملاقات كرنے كى غرض سے يثرب گئيں ، جہاں ان كا ايك ماہ تك قيام رہا وہ جب واپس مكہ تشريف لا رہى تھيں تو راستہ ميں ''ابوا''(۳۲) كے مقام پر شديد بيمار ہوگئيں اور وہيں ان كا انتقال ہوا(۳۳) ، اس حادثے نے آنحضرت (ص) كو سخت پريشان اور رنجيدہ خاطركيا اور آپ (ص) كے مصائب ميں دوگنا اضافہ

۴۷

ہوگيا ليكن اس واقعہ نے آپ (ص) كو دادا سے بہت نزديك كرديا_

قرآن مجيد نے ان مصائب و رنج و تكاليف كے زمانے كى ياد دلاتے ہوئے فرمايا ہے :

( أَلَم يَجدكَ يَتيمًا فَآوَى ) (۳۴)

''كيا اس نے تمہيں يتيم نہيں پايا اور پھر ٹھكانہ فراہم كيا''_

ابھى آپ (ص) نے زندگى كى آٹھ بہاريں بھى نہ ديكھى تھيں كہ دادا كا سايہ بھى سر سے اٹھ گيا اور آپ(ص) حضرت عبدالمطلب (ع) كى وصيت كے مطابق اپنے چچا ابوطالب كى سرپرستى ميں آگئے_

حضرت ابوطالب (ع) اور ان كى زوجہ محترمہ فاطمہ(ع) بنت اسد كو پيغمبر اكرم (ص) بہت زيادہ عزيز تھے وہ لوگ آپ (ص) كا اپنے بچوں سے زيادہ خيال ركھتے تھے چنانچہ جس وقت كھانے كا وقت ہوتا تو حضرت ابوطالب (ع) اپنے بچوں سے فرماتے كہ : ''ٹھہرو فرزند عزيز (حضرت محمد (ص)) كے آنے كا انتظار كرو ''_(۳۵)

چنانچہ رسول خدا (ص) حضرت فاطمہ (ع) بنت اسد كے بارے ميں فرماتے ہيں :''وہ بالكل ميرى ماں كى طرح تھيں كيونكہ وہ اكثر اپنے بچوں كو تو بھوكا ركھتيں مگر مجھے اتنا كھانا ديتيں كہ شكم سير ہو جاتا اور اپنے بچوں سے پہلے مجھے نہلاتى ، دھلاتى اور سنوارتى تھيں''_(۳۶)

خدائي تربيت

اميرالمومنين حضرت على عليہ السلام پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے بچپن كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ :

(لَقَد قرَنَ اللّهُ به من لَدُنْ اَن كَانَ فَطيماً

۴۸

اَعظَمَ مَلَك: من مَلَائكَته يَسلُكُ به طَريقَ المَكَارم وَمَحَاسنَ اَخلَاق العَاَلَم لَيلَةُ وَنَهَارَةُ ) (۳۷)

''رسول خدا (ص) كى دودھ بڑھائي كے دن سے خداوند تعالى نے سب سے بڑے فرشتے كو آپ (ص) كے ہمراہ كرديا تاكہ دن رات عظمت و بزرگوار ى كى راہوں اور كائنات كے قابل قدر اوصاف كى جانب آپ(ص) كى راہنمائي كرتا رہے''_

۴۹

سوالات

۱_ پيغمبر اكرم (ص) كے تيسرے جدامجد تك آپ(ص) كا شجرہ نسب بيان كيجئے_

۲_حضرت ہاشم (ع) پيغمبر اكرم (ص) كے اجداد ميں كون سى پشت تھے اور انہوں نے كيا خدمات

انجام ديں ؟

۳_ حضرت عبدالمطلب (ع) كى بنيادركھى ہوئي روايات بيان كيجئے_

۴_ عام الفيل ميں كونسا واقعہ رونما ہوا اور پيغمبر خدا (ص) كے اجداد ميں كون سے جد كى زندگي

كے د وران پيش آيا ؟

۵_ پيغمبر اكرم (ص) كے والد كون تھے؟ ان كا كہاں اور كب انتقال ہوا؟

۶_ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى ولادت كب ہوئي اور اس وقت كيا واقعات رونما

ہوئے؟

۷_ پيغمبر (ص) كا زمانہ شير خوارگى كيسے گزرا؟

۵۰

حوالہ جات

۱_ السيرہ الحلبيہ ج ۱'ص ۱۶ اور لسان العرب ، لفظ ''قريش''_

۲_ السيرة النبويہ ' ابن ہشام ج ۱' ص ۱۳۰_

۳_تاريخ يعقوبى ' ج ۱ ' ص ۲۴۰_

۴_ السيرة النبويہ ج ۱ ص۱' ۲_

۵_ بحارالانوار ج ۱۵' ص ۱۰۵ ' ۲۸۰_

۶_ السيرة النبويہ ج۱ 'ص ۱۲۳ 'السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۳ و الكامل ج ۲ ص ۱۹_

۷_۸_۹ السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۳' ۷_

۱۰_ دارالندوہ دراصل قريش كى مجلس مشاورت تھى جسے حضرت قصى بن كلاب نے قائم كيا تھا_

۱۱_ السيرة الحلبيہ ، ج ۱ ص ۱۳_

۱۲_ الكامل فى التاريخ ج ۲ ص ۱۶_

۱۳_ السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۴ البتہ مترجم كے نزديك يہ بات ناقابل قبول ہے اس كى علت ديگر كتب ميں ملاحظہ ہو_

۱۴_ السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۵_

۱۵_ السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۵_

۱۶_ ان كى خدمات كى طرف اشارہ كرتے ہوئے كسى شاعر نے كيا خوب كہا ہے :

ہُوَالَّذي سَنَّ الرَّحيلَ لقَومہرحلَ الشّتَائ وَرحلَةَ الاَصْيَاف

وہ ہاشم ہى تھے جنہوں نے اپنى قوم ميں جاڑے اور گرمى كے دنوں ميں تجارتى سفر كرنے كى روايت پيدا كى _ (م-لاحظہ ہو انساب الاشراف ج۱ ' ص ۵۹)_

۱۷_يہ فلسطين كا شہر ہے جو عسقلان كے مغرب ميں واقع ہے _اس كے اور عسقلان كے درميان تقريباً دو فرسخ كا فاصلہ ہے_ ملاحظہ ہو معجم البلدان ج ۴ ص ۲۰۲_

۵۱

۱۸_ السيرة الحلبيہ ج ۱ ' ص ۶ معجم البلدان ج ۴ ' ص ۲۰۲_

۱۹_ السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۴_

۲۰_ بحارالانوار ج ۱۵' ص ۱۲۷_۱۲۹_

۲۱_ السيرة الحلبيہ ج۱ ' ص ۴ و تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۰_

۲۲_ بعض مورخين نے لكھا ہے كہ حمزہ اور حضرت عباس حضرت عبداللہ (ع) سے چھوٹے تھے _ ملاحظہ ہو:السيرة النبويہ ج ۱ ص ۱۶۱ حاشيہ منقول از روض الانف_

۲۳_ السيرة النبويہ ج ۱ ص ۱۶۱_

۲۴_كمال الدين و تمام النعمة ج ۱ ص ۱۷۵_

۲۵_ السيرة الحلبيہ ج ۱ ' ص ۴۹ '۵۰ _ حضرت عبداللہ (ع) كى قبر كچھ عرصہ قبل تك شہر مدينہ ميں مسجد النبى (ص) كے مغربى كنارے پر محفوظ تھى جسے آل سعود وہابى حكمرانوں نے شہيد كراديا اور اسے صحن مسجد ميں شامل كرليا_ اب يہ جگہ نمازيوں كى جائے نماز ہے_

۲۶_ بحارالانوار ج ۱۵' ص ۲۵۷_۲۵۸_

۲۷_ اس سلسلہ ميں اختلاف ہے _ اكثر مورخين نے لكھا ہے كہ آنحضرت (ص) كى ولادت حضرت عبداللہ كى رحلت كے دو ماہ بعد ہوئي ليكن بعض نے يہ بھى لكھا ہے كہ آنحضرت (ص) كى ولادت كے دو ماہ بعد حضرت عبداللہ نے وفات پائي اس كے علاوہ بھى مختلف اقوال ملتے ہيں _ملاحظہ ہو : السيرة حلبيہ ج ۱ ' ص ۴۹_ ۵۰ و كافى ج ۱ ص ۴۳۹_

۲۸_ السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۷۸_

۲۹_ پيغمبر اكرم (ص) كى ولادت سے پہ-لے ''ثويبہ'' آپ (ص) كے چچا حضرت حمزہ كو دودھ پلاچكى تھيں چنانچہ اس اعتبار سے حضرت حمزہ (ع) پيغمبر اكرم (ص) كے رضاعى بھائي بھى تھے_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۸۵ _ البتہ مترجم كے نزديك ثويبہ كے دودھ پلانے والى بات بھى ناقابل قبول ہے_

۳۰_ السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۷۳_

۳۱_ چار سال يا چھے سال بھى لكھى گئي ہے_ م-لاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۱ ص۹۳_

۵۲

۳۲_ يہ مكہ اور مدينہ كے درميان ايك قصبہ ہے جس كا حجفہ سے فاصلہ تقريبا ً ۲۳ ميل (۴۶ كلوميٹر) ہے ملاحظہ ہو :معجم البلدان ج ۱ ص ۷۹_

۳۳_ سورہ ضحى آيت۶_

۳۴_ السيرة النبويہ ج ۱ ص ۱۷۷_

۳۵_ مناقب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۳۶_۳۷_

۳۶_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۴_

۳۷_ نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۱۹۲ قاصعہ (صبحى صالح صفحہ ۳۰۰)_

۵۳

سبق ۴ :

رسالت كى جانب پہلا قدم

۵۴

شام۱ كى طرف پہلا سفر

رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے حضرت ابوطالب عليہ السلام كے گھر ميں منتقل ہونے كے بعدآپ(ص) كى زندگى كے ايك نئے باب كا آغاز ہوا يہ باب لوگوں سے ميل ملاپ اور مختلف قسم كے سفر اختيار كرنے سے شروع ہوا چنانچہ ان سفروں اور لوگوں سے ملاقاتوں كے ذريعے ہى حضرت محمد(ص) كا ذاتى جوہر اس تاريك و سياہ ماحول ميں كھلا اور يہيں سے آپ(ص) كو معاشرے نے ''امين قريش'' كہنا شروع كيا _

رسول خدا(ص) كى عمر بارہ سال تھى(۱) كہ آپ(ص) اپنے چچا حضرت ابو طالب كے ہمراہ (اس كاروان قريش كے ساتھ جو تجارت كے لئے ملك شام كى جانب جا رہا تھا) سفر پر روانہ ہوئے جس وقت يہ كارواں '' بُصرى ''(۲) پہنچا اور '' بَحيرا'' نامى عيسائي راہب دانشور(۳) نے اس كارواں كے لوگوں سے ملاقات كى تو اس كى نظر رسول خدا(ص) پر پڑى اس نے انجيل مقدس ميں پيغمبر آخر الزماں (ص) سے متعلق جو علامات پڑھى تھيں وہ تمام علامات اور نشانياں اسے نبى اكرم(ص) ميں نظر آئيں تو وہ آپ(ص) كو فورا پہچان گيا چنانچہ اس نے حضرت ابوطالب (ع) كو مستقبل ميں اپ(ص) كے نبى ہونے كى خوشخبرى دى اور اس كے ساتھ ہى اس نے يہ درخواست بھى كى كہ اس بچے كا خاص خيال ركھيں اس ضمن ميں اس نے مزيد كہا :

''ان(ص) كے بارے ميں جو كچھ ميں جانتا ہوں اگر وہى باتيں يہودى بھى جان ليں تو وہ

۵۵

گزند پہنچائے بغير نہ رہيں گے اس لئے بھلائي اسى ميں ہے كہ انھيں جتنى جلدى ہو سكے واپس مكہ لے جايئے ''_

حضرت ابوطالب(ع) نے اپنے كاروبار كے معاملات كو جلد از جلد نمٹايا اور مكہ واپس آگئے اور پورى طرح اپنے بھتيجے كى حفاظت و نگرانى كرنے لگے(۴) _

مستشرقين كى دروغ گوئي

راہب كى اس روايت كو اگر صحيح تسليم كربھى ليا جائے(۵) تو يہ تاريخ كا ايك معمولى ساواقعہ ہے _ ليكن بعض بدنيت مستشرقين نے اسے دستاويز بنا كر اس بات كو ثابت كرنے كى بھر پور كوشش كى ہے اور ان كا اس پر اصرار ہے كہ پيغمبر اكرم(ص) نے اپنى اس غير معمولى ذہانت كى بنا پر اس سفر كے دوران بحيرا عيسائي سے بہت سى باتيں سيكھيں اور چونكہ حافظہ بہت ہى طاقتور تھا انہيں اپنے ذہن ميں محفوظ ركھا اور اٹھائيس سال گزرنے كے بعد انہى تعليمات كو اپنے دين و آئين كى بنياد قرار ديا اور يہ كہہ كر لوگوں كے سامنے پيش كيا كہ يہ باتيں وحى كے ذريعے آپ(ص) پر نازل ہوئي ہیں ليكن پيغمبر اكرم(ص) كى سوانح حيات آپ(ص) كے دين و آئين كى الہامى خصوصيات نيز علمى و عقلى دلائل و براہين سے اس گمان كى نفى اور ترديد ہوتى ہے ذيل ميں ہم اس موضوع سے متعلق چند نكات بيان كريں گے :

۱_ عقل كى رو سے يہ بات بعيد ہے كہ ايك بارہ سالہ نوجوان جس نے كبھى مكتب اور مدرسہ كى شكل تك نہ ديكھى ہو وہ چند گھنٹوں كى ملاقات میں تورات اور انجيل جيسى كتابوں كى تعليمات سيكھ لے اور اٹھائيں سال بعد انہيں شريعت آسمانى (اسلام) كے نام سے پيش كرے

۵۶

۲_ اگر پيغمبر(ص) نے بحيرا سے كچھ باتيں سيكھ لى ہوتيں تو وہ يقينا قريش كے درميان پھيل گئي ہوتيں اور وہ لوگ جو كارواں كے ساتھ گئے تھے ضرور واپس آكر انہيں بيان كرتے اس كے علاوہ اس واقعے كے بعد رسول اكرم(ص) اپنى قوم كے افراد سے يہ نہيں فرماسكتے تھے كہ ميں امى ہوں _

۳_اگر تورات اور انجيل كا قرآن مجيدسے موازنہ كياجائے تو يہ بات واضح ہوجائے گى كہ قرآن كے مطالب اور مفاہيم ان دونوں كتابوں كے مطالب سے بہت مختلف ہيں_

۴_اگر عيسائي راہب كو اتنى زيادہ مذہبى و علمى معلومات حاصل تھيں تو وہ اپنے زمانے ميں مشہور كيوں نہ ہوا اور پيغمبر اكرم (ص) كے علاوہ كسى دوسرے كو اپنا علم كيوں نہ سكھايا ؟

شام كا دو سرا سفر

رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى صداقت، نجابت و شرافت ، امانت دارى اور اخلاق وكردار كى بلندى كا ہر شخص قائل تھا_

حضرت خويلد كى دختر حضرت خديجہ سلام اللہ عليہا بہت نيك سيرت اور شريف خاتون تھيں_ انہيں اپنے والد سے بہت سامال ورثے ميں ملا تھا وہ بھى مكہ كے بہت سے مردوں اور عورتوں كى طرح اپنے مال كے ذريعے تجارت كرتى تھيں جس وقت انہوں نے امين قريش كے اوصاف سنے تو انہوں نے رسول خدا (ص) كے سامنے يہ تجويز ركھى كہ اگر آپ ميرے سرمائے كے ذريعہ تجارت كرنے كيلئے ملك شام تشريف لے جائيں تو ميں جتنا حصہ دوسروں كو ديتى ہوں اس سے زيادہ حصہ آپ (ص) كو دونگي_

۵۷

رسول خدا (ص) نے اپنے چچا حضرت ابوطالب عليہ السلام سے مشورہ كرنے كے بعد حضرت خديجہ (ع) كى تجويز كو قبول كرليا اور آپ(ص) ان كے ''ميسرہ'' نامى غلام كے ہمراہ پچيس سال كى عمر ميں مال تجارت لے كر ملك شام كى طرف روانہ ہوئے_(۶)

كاروان تجارت ميں رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا با بركت وجود قريش كے تاجروں كےلئے نہايت ہى سودمند اور نفع بخش ثابت ہوا اور انہيں اميد سے زيادہ منافع ملا نيز رسول خدا (ص) كو سب سے زيادہ نفع حاصل ہوا ، سفر كے خاتمے پر ''ميسرہ'' نے سفر كى پورى روداد حضرت خديجہ (ع) كو بتائي اور آپ (ص) كے فضائل اور اخلاقى اوصاف و مكارم نيز كرامات كو تفصيل سے بيان كيا _(۷)

حضرت خديجہ سلام اللہ عليہا كے ساتھ شادي

حضرت خديجہ (ع) رشتے ميں پيغمبر اكرم (ص) كى چچازاد بہن لگتى تھيں اور دونوں كا شجرہ نسب جناب قصى بن كلاب سے جاملتا تھا، حضرت خديجہ (ع) كى ولادت و پرورش اس خاندان ميں ہوئي تھى جو دانا نسب كے اعتبار سے اصيل، ايثار پسند اور خانہ كعبہ كا حامي(۸) وپاسدار تھا اور خود حضرت خديجہ (ع) اپنى عفت وپاكدامنى ميں ايسى مشہور تھيں كہ دور جاہليت ميں بھى انہيں ''طاہرہ'' اور''سيدہ قريش'' كے لقب سے ياد كياجاتا تھا ، ان كيلئے بہت سے رشتے آئے اگر چہ شادى كے خواہشمند مہر ادا كرنے كےلئے كثير رقم دينے كيلئے تيار تھے مگر وہ كسى سے بھى شادى كرنے كيلئے آمادہ نہ ہوئيں_

جب رسول خدا (ص) ملك شام كے تجارتى سفرسے واپس مكہ تشريف لائے تو حضرت خديجہ (ع) نے پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں قاصد بھيجا اور آپ (ص) سے شادى كى خواہش كا اظہار كيا _(۹)

۵۸

رسول خدا (ص) نے اس مسئلے كو حضرت ابوطالب عليہ السلام اور ديگر چچائوں كے درميان ركھا اور جب سب نے اس رشتے سے اتفاق كيا تو آ پ (ص) نے حضرت خديجہ (ع) كے قاصد كو مثبت جواب ديا ، رشتے كى منظورى كے بعد حضرت ابوطالب عليہ السلام اور دوسرے چچا حضرت حمزہ نيز حصرت خديجہ (ع) كے قرابت داروں كى موجودگى ميں حضرت خديجہ (ع) كے گھر پر نكاح كى شايان شان تقريب منعقد ہوئي اور نكاح كا خطبہ دولہا اور دلہن كے چچائوں ''حضرت ابوطالب(ع) '' اور ''عمروابن اسد'' نے پڑھا_

جس وقت يہ شادى ہوئي اس وقت مشہور قول كى بنا پر رسول خدا (ص) كا سن مبارك پچيس سال اور حضرت خديجہ (ع) كى عمر چاليس سال تھي_(۱۰)

حضرت خديجہ (ع) سے شادى كے محركات

ہر چيز كو مادى نظر سے ديكھنے والے بعض لوگوں نے اس شادى كو بھى مادى پہلو سے ہى ديكھتے ہوئے يہ كہنا چاہا ہے :

''چونكہ حضرت خديجہ (ع) كو تجارتى امور كيلئے كسى مشہور و معروف اور معتبر شخص كى ضرورت تھى اسى لئے انہوں نے پيغمبر اكرم (ص) كو شادى كا پيغام بھيجا، دوسرى طرف پيغمبر اكرم (ص) يتيم ونادار تھے اور حضرت خديجہ (ع) كى شرافتمندانہ زندگى سے واقف تھے اسى لئے ان كى دولت حاصل كرنے كى غرض سے يہ رشتہ منظور كرليا گيا حالانكہ سن كے اعتبار سے دونوں كى عمروں ميں كافى فرق تھا''_

جبكہ اس كے برعكس اگر تاريخ كے اوراق كا مطالعہ كياجائے تو اس شادى كے محركات ميں بہت سے معنوى پہلو نظر آتے ہيںاس سلسلے ميں ہم يہاں پہلے پيغمبر خدا (ص) كى جانب

۵۹

سے اور بعد ميں حضرت خديجہ (ع) كى جانب سے شادى كے اسباب اور محركات كے بيان ميں ذيل ميں چند نكات بيان كريں گے:

۱_ ہميں پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى سارى زندگى زہد وتقوى ومعنوى اقدار سے پر نظر آتى ہے جو اس بات كى دليل ہے كہ آنحضرت (ص) كى نظر ميں دنياوى مال و دولت اور جاہ و حشم كى كوئي قدر وقيمت نہ تھى ، آپ (ص) نے حضرت خديجہ (ع) كى دولت كو كبھى بھى اپنے ذاتى آرام و آسائشے كى خاطر استعمال نہيں كيا _

۲_ اس شادى كى پيشكش حضرت خديجہ (ع) كى جانب سے كى گئي تھى نہ كہ رسول خدا (ص) كى طرف سے_

اب ہم يہاں حضرت خديجہ (ع) كى جانب سے اس شادى كے محركات بيان كرتے ہيں :

۱_ چونكہ كہ وہ بذات خود عفيف و پاكدامن خاتون تھيں اس لئے انہيں ايسے شوہر كى تلاش تھى جو متقى اور پرہيزگار ہو_

۲_ ملك شام سے واپس آنے كے بعد جب ''ميسرہ'' غلام نے سفر كے واقعات حضرت خديجہ (ع) كو بتائے تو ان كے دل ميں ''امين قريش'' كيلئے جذبہ محبت والفت بڑھ گيا البتہ اس محبت كا سرچشمہ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے ذاتى كمالات اور اخلاقى فضائل تھے اور حضرت خديجہ (ع) كو ان ہى كمالات سے تعلق اور واسطہ تھا_

۳_ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے شادى كرنے كے بعد حضرت خديجہ (ع) نے آپ (ص) كو كبھى سفر تجارت پر جانے كى ترغيب نہيں دلائي _ اگر انہوں نے يہ شادى اپنے مال و دولت ميں اضافہ كرنے كى غرض سے كى ہوتى تو وہ رسول اكرم (ص) كو ضرور كئي مرتبہ سفر پر روانہ كرتيں تاكہ بہت زيادہ مال و دولت جمع ہوسكے، بلكہ اس كے برعكس حضرت خديجہ (ع) نے اپنى دولت

۶۰

دستاویزات موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ ۳ ۱ ھ کو جناب ابوبکر کی وفات کی خبر لشکر تک پہنچنے سے پہلے یا کم از کم ابوعبیدہ جراح کے اس خبر کو ظاہر کرنے سے پہلے دمشق فتح ہوگیا تھا_ اور اہل دمشق کے ساتھ مصالحت کرنے والے بھی اس وقت کے سردار لشکر خالد بن ولید ہی تھے_

حتی کہ اگر اس تحریر کی تاریخ ۱۵ ہجری بھی مان لی جائے تب بھی ہماری مدعا کے لئے نقصان دہ نہیں ہے_ تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ حضرت عمر کی حکومت کا واقعہ اس کے بعد یعنی ۱۶ ھ یا ۱۷ ھ میں تھا_

ابوعبیدہ، ابن قتیبہ ، واقدی ، بلاذری(۱) اور دوسرے بہت سے حضرات نے تصریح کی ہے کہ صلح خالد کے ہاتھ پر ہوئی اور اس سے واضح ہے کہ صلح کے وقت لشکر کا امیر وہی تھا_

بلکہ واقدی کا کہناہے کہ ان کے ساتھ خالد کے صلح کرنے کی وجہ سے ابو عبیدہ اور خالد کے درمیان سخت تکرار اور مقابلہ بازی پیش آئی _اس سے ہمارے لئے واضح ہوجاتاہے کہ خالد اپنے موقف میں کس قدر سرسخت تھا اور ابوعبیدہ اس کے مقابلہ میں کس قدر کمزور(۲) _یہی چیز ہمارے اس نظریئےے ساتھ بہت زیادہ ہماہنگی رکھتی ہے کہ لشکر کی قیادت اس وقت خالد کے پاس تھی_

بلکہ بلاذری و غیرہ نے ذکر کیا ہے کہ ابوعبیدہ مشرقی دروازے پر تھا اور قہر و غلبہ سے شہر میں داخل ہوا تو شہر والے خالدکے پاس آئے اور اس سے صلح کرلی_ اس نے ان کے لئے تحریر لکھی اور انھوں نے اس کے لئے دروازہ کھول دیا پھر بلاذری نے ابی مخنف کے قول کو بھی نقل کیا ہے جو مذکورہ واقعہ کے بالکل برعکس ہے_ پھر اس کے بعد کہتاہے کہ پہلا قول نہایت مناسب ہے(۳) _

ہم بھی کہتے ہیں : کہ ہاں یہی قول درست ہے کیونکہ اکثر مورخین بھی اسی کے قائل ہیں، اس بحث کی ابتداء میں مذکور صلح نامہ کی عبارت اور دیگر دستاویزات بھی اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہیں کہ اہل دمشق سے صلح کرنے والا خالد ہی تھا اور وہی امیر لشکر تھا_

____________________

۱) المعارف لابن قتیبة ص ۷۹ ط ۱۳۹۰ بیروت ، فتوح الشام ج/۱ ص ۵۸ ، ۵۹ ، فتوح البلدان ازص ۱۲۸ تا ص ۱۳۱ و دیگر کتب_

۲) فتوح الشام ج۱ ص ۵۸ ، ۶۰_ (۳) فتوح البلدان ص ۱۲۹ ، البدایة والنھایة ج/۷ ص ۲۱_

۶۱

البتہ خالد کی معزولی کا حکم مسلمانوں کو اس وقت پہنچا تھاجب وہ دمشق کا محاصرہ کئے ہوئے تھے تو ابوعبیدہ نے تقریباً بیس دن تک اسے مخفی رکھا یہاں تک کہ دمشق کو فتح کرلیا گیا تا کہ دشمن کے مقابلے پر ڈٹے رہنے والے مسلمانوں کو خالد کا مسئلہ کمزور نہ کردے(۱)

البتہ واقدی کہتاہے کہ دمشق کی فتح حضرت ابوبکر کی وفات والی رات ہوئی(۲) _

اور زینی دحلان کہتاہے : '' کہا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر کی وفات کی خبر دمشق کی فتح کے بعد ۱۳ ھ میں آئی اورحضرت ابوبکر کی وفات اسی رات ہوئی جس رات مسلمان دمشق میں داخل ہوئے اور یہ ۲۲جمادی الثانی ۱۳ ھ کا واقعہ ہے _ اور جو قائل ہیں کہ وفات کی خبر دمشق کی فتح کے بعد آئی وہی افراد اس بات کے قائل ہیں کہ یرموک کا واقعہ فتح دمشق کے بعد پیش آیا(۳) _

اور ابن کثیر کہتاہے کہ '' سیف بن عمر کی عبارت کے سیاق سے ظاہر ہوتاہے کہ ۱۳ ھ میں دمشق فتح ہوا لیکن خود سیف عمومی نظریئے کے مطابق تصریح کرتے ہیں کہ ۱۵ رجب ۱۴ ھ کو دمشق فتح ہوا ''(۴) _

اورعبدالرحمن بن جبیر سے منقول ہے کہ ابوعبیدہ خود حضرت ابوبکر کو فتح دمشق کی خوشخبری دینے کے لئے گیا تھا لیکن حضرت ابوبکر پہلے ہی وفات پاچکے تھا او ر حضرت عمر نے اسے لشکر کا امیر بنادیا پھر جب وہ دمشق واپس آیا تو مسلمانوں نے یہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا : '' ایسے شخص کو خوش آمدید جسے ہم نے قاصد بنا کر بھیجا تھا اور وہ ہم پر امیر بن کر واپس آیا ہے''(۵) _

بہرحال یہ صلح نامہ اور تمام گذشتہ دستاویزات گواہ ہیں کہ اکثر مؤرخین کے مطابق خالد نے ہی اہل شام سے صلح کی تھی اور ہم یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر فرض کریں کہ یہ تحریر ۱۵ ھ میں بھی لکھی گئی ہو یا یہ دوسری تحریر ہو تب بھی واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ تاریخ حضرت عمر کی خلافت سے پہلے مقرّر کی جاچکی تھی_

____________________

۱)البدایہ والنہایہ ج۷ ص ۲۳ و فتوح البلدان ص ۱۲۷ و ۱۲۹_

۲) فتوح الشام ج/۱ ص ۵۸ ، ص ۵۹_ (۳) الفتوحات الاسلامیة ج/۱ ص ۴۷_

۴) البدایة والنھایة ج/۷ ص ۲۲_ (۵) البدایة والنھایة ج/۱ ص ۲۴_

۶۲

رہی یہ بات کہ مؤرخین اور راویوں نے اس حقیقت سے روگردانی کیوں کی ؟شاید واقعات و حوادث کاپے درپے واقع ہونا اور ایک دوسرے کے نزدیک ہونا ان کے اشتباہ کا موجب بناہواور ان پر اچھا گما ن کرتے ہوئے (کیونکہ ان کے متعلق اچھا گمان ہی کیا جاسکتاہے) یہی کہہ سکتے ہیں کہ شاید وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ حضرت عمر کا دور حکومت عظیم فتوحات ا ور کشور کشائی کادور تھا اور فتح شام بھی چونکہ نہایت اہم معرکہ تھا اس لئے اسے بھی عمر کے دور حکومت میں ہونا چاہئے ، حضرت ابوبکر کے عہد میں نہیں_اور اسی طرح خالد کی شجاعت اور مختلف مواقع میں اس کی قوت و بہادری ثابت اور ظاہر کرناچاہتے تھے اور یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ بلا شرکت غیرے تلوار کا دھنی ہے _ پس اس کا شام پر غلبہ حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ شامیوں سے مصالحت کرنے والا کوئی اور ہو چاہے یہ معاملہ جھوٹ اور مکرو فریب سے ہی حل ہوا ہو _ لیکن کیا یہ مذکورہ باتیں ہی ان لوگوں کی حقیقت سے روگردانی کا حقیقی سبب ہیں _ مجھے تو نہیں معلوم لیکن شاید ذہین و فطین قارئین کو اس کا علم ہوگا_

۸_ سیوطی نے ابن القماح کے ہاتھ سے تحریر شدہ مجموعہ سے ایک بات نقل کی ہے جس میں مذکور ہے کہ ابن الصلاح نے کہا ہے : ''ابوطاہر محمد بن محمش الزیادی نے تاریخ الشروط میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب نجران کے نصاری کے لئے تحریر لکھی اس میں ہجرت کی تاریخ قلمبند فرمائی اور علیعليه‌السلام کو حکم دیا کہ یہ عبارت لکھیں '' انہ کتب لخمس من الھجرة'' کہ ہجرت کے پانچویں سال میں لکھی گئی ہے''_ (پھر ) کہتاہے ''ہجرت کے ساتھ تاریخ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجازت سے لکھی گئی اور تاریخ لکھنے میں حضرت عمر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کی ہے''(۱)

اسی طرح سیوطی کہتاہے '' کہا جاتاہے یہ بات صداقت رکھتی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کے پانچویں برس تاریخ لکھی اور پہلی حدیث ( زھری کی گذشتہ روایت) میں تھا کہ ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ پہنچنے کے دن تاریخ لکھی '' اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان دونوں میں کوئی منافات نہیں چونکہ ظرف (یوم قدم المدینة ) فعل (امر)

____________________

۱)الشماریخ فی علم التاریخ، سیوطی ص ۱۰ نیز التراتیب الاداریہ ج ۱ ص ۱۸۱_

۶۳

سے متعلق نہیں بلکہ مصدر ( التاریخ) سے متعلق ہے تو اصل عبارت اس طرح ہوگی _امربان یورخ بذلک الیوم لا ان الامر کان فی ذلک الیوم یعنی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ اس دن سے تاریخ لکھی جائے نہ یہ کہ یہ فرمان اس دن جاری ہوا'' (یعنی ہوسکتاہے کہ پانچ ہجری کو حکم دیا ہو کہ مدینہ تشریف آوری سے تاریخ شمار کی جائے _از مترجم)(۱) یہ سیوطی کا کلام ہے_

لیکن اس سے واضح تر جواب یہ ہے کہ آپ نے مدینہ پہنچتے ہی تاریخ لکھنے کا حکم دیا اور ربیع الاول کو مبداء قرار دیا اور خودنبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب ۵ میں نجران کے نصرانیوں کے لئے تحریر لکھی تو اس وقت اسی تاریخ سے استفادہ کیا_

بہر حال سخاوی کہتاہے کہ '' اگر یہ بات ثابت ہوجائے تو عمر پیروی کرنے والا ہوگا پہل کرنے والا نہیں''(۲) _

اور عباس مکی کہتاہے کہ '' تاریخ ایک گذشتہ سنت اور پسندیدہ طریقہ ہے کہ جس کا حکم رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نجران کے نصاری کی طرف نامہ لکھتے ہوئے دیا تھا _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علیعليه‌السلام کو حکم دیا کہ اس میں لکھیں (کتب لخمس من الہجرة)(۳) _پھر ابن شہاب کی گذشتہ روایت نقل کی ہے_

۹_ صحیفہ سجادیہ کی خبر سے ظاہر ہوتاہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کو تاریخ کا مبدا قرار دینااللہ جلّ شانہ کی منشاء کے مطابق تھاکیونکہ حدیث میں آیاہے کہ جبرائیلعليه‌السلام نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ '' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت سے اسلام کی چکی چلے گی اور دس سال تک چلتی رہے گی اور ہجرت سے پینتیس (۳۵) برس بعد پھراسلام کی چکی چلے گی اور پانچ سال تک چلتی رہے گی''(۴) _

____________________

۱)الشماریخ فی علم التاریخ ص ۱۰ ، التراتیب الاداریة ج۱ ، ص ۱۸۱_

۲) التراتیب الاداریة ج/۱ ص ۱۸۱_

۳) نرھة الجلیس ج/۱ص ۲۱_

۴) البحار ج/۵۸ ص ۳۵۱ (البتہ صفحات کی تصحیح کرنے کے بعد) سفینة البحار ج/۲ ص ۶۴۱ ، الصحیفة السجادیة ص ۱۰ ، البتہ یہ روایت کئی اور اسناد سے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم سے بھی وارد ہوئی ہے جنہیں البدایة والنھایة ج۶ ص۲۰۶ ، ۲۰۷ ، ج/۷ ص ۲۱۹ ، ۲۷۵ ، ص ۲۷۶ ، میں ذکر کیا گیا ہے نیز ملاحظہ ہو سنن ابی داؤد مطبوعہ دار الکتاب العربی ج۴ ص ۱۵۹ ، ص ۱۶۰_ و دیگر کتب

۶۴

۱۰ _ ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''میری ہجرت کے ساٹھ (سال) پورے ہونے پر حسینعليه‌السلام بن علیعليه‌السلام کو شہید کیا جائے گا''(۱) _

۱۱ _ انس سے ایک روایت منقول ہے کہ اس نے کہا :' ' نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب نے ہمارے لئے روایت بیان کی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ ہجرت کے (۱۰۰) سال پورے ہونے تک تم میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا''_(۲)

۱۲_ ڈاکٹر سعاد ماہر محمد نے اپنے رسالے (مشہدالامام علیعليه‌السلام فی النجف الاشرف) ص ۱۰۴، ص ۱۰۵ میں اہل حیرہ کے لئے خالد بن ولید کی لکھی ہوئی تحریر کا متن درج کیا ہے اور اس کے آخر میں یہ عبارت ہے ( اور اگر انہوں نے فعل یا قول کے ساتھ بدعہدی اور خیانت کی تو ہم ان سے بری الذمہ ہوں گے اور ( یہ تحریر) ۱۲ ھ ماہ ربیع الاول میں لکھی گئی) _

اور یہ بات واضح ہے حیرہ کی فتح خالد کے ہاتھوں حضرت ابوبکر کے دور میں ہوئی تھی اس کا معنی یہ ہے کہ تاریخ حضرت عمر کی خلافت سے بھی پہلے وضع کی جاچکی تھی اور اس سے پہلے سے ہی استعمال بھی ہورہی تھی پس کس طرح حضرت عمر نے ۱۶ ھ میں تاریخ معین کی ؟اور سھیلی و ابن عباس و غیرہ کے کلام سے مذکورہ بات کی تائید ممکن ہے_

۱۳_ حافظ عبدالرزاق نے ابوھریرہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا: ''ہلاکت ہے عربوں کے لئے اس بدبختی سے جو ساٹھ سال پورے ہونے پر آئے گی _جب امانت کو غنیمت سمجھا جائے گا ...''(۳) _

۱۴_ اسی طرح عبدالرزاق نے ہی ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا :''جب پینتیس برس

____________________

۱) مجمع الزوائد ج۹ ص۱۹۰عن الطبری اوراس کی سند میں کوئی اعتراض نہیں مگر سعد بن طریف میں اور وہ بھی خود ان کی تصریح کے مطابق اس کے شیعہ ہونے کی وجہ سے ہے تاریخ بغدادج/۱ص۱۴۲، الالمام ج/۵ص ۲۹۹، کنزالعمال ج/۱۳ص۱۱۳ط حیدرآباد،میزان الاعتدال ج/۱ص۲۱۲عن الطبرانی وا لخطیب و ابن عساکر ،منتخب کنز العمال (حاشیہ مسنداحمد)ج/۵ ص۱۱۱، مقتل الحسین خوارزمی ج/۱ ص ۱۶۱ ، احقاق الحق ج/۱۱ ص ۳۵۴ از گذشتہ بعض و از مفتاح النجا ص ۱۳۶ قلمی نیز از امعجم الکبیر طبرانی، زندگینامہ امام حسینعليه‌السلام از تاریخ دمشق با تحقیق محمودی ص ۱۸۵_

۲) مجمع الزوائدج/۱ص ۱۹۷ ، عن ابی یعلی ، یہ روایت مختلف الفاظ اور مختلف اسناد سے نقل کی گئی ہے ، لیکن ان میں لفظ ( من الہجرة) نہیں ہے_

۳)مصنف عبدالرزاق ج/۱۱ ص ۳۷۳ و ۳۷۵_

۶۵

پورے ہوں گے تو ایک امر عظیم حادث ہوگا پس اگر تم ہلاک ہوگئے تو اس کے لائق ہو گے اور اگر نجات پاگئے تو اس کی امید ہے اور جب ستر برس پورے ہوں گے تو تم انوکھی چیزیں دیکھوگے(۱) _

ابن مسعوداور ابوہریرہ نے اس کا علم نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا ہے کیونکہ یہ غیب گوئی ہے اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ خود نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجری تاریخ مقر ر فرمائی _

۱۵_ ایک حدیث جس کے راوی موثق ہیں یہ ہے کہ : ہم ساٹھ ہجری سال کے پورے ہونے سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ ۶۰ ھ اور بچوں کی فرمانروائی سے(۲) _

ابوہریرہ سے مروی ہے : '' خدایا مجھے ۶۰ ھ اور بچوں کی حکومت دیکھنا نصیب نہ کر''(۳) _

۱۶_ مالک نے نافع سے اور اس نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ جب ایک سوستر سال پورے ہوجائیں تو جدّہ میں رہائشے پذیر ہونا بہترین اقامت اختیار کرنے میں سے ہوگا(۴) _

خلاصہ بحث:

گذشتہ امور سے واضح ہوجاتاہے کہ لوگوں کے درمیان مشہور یہ بات کہ حضرت عمر نے اسلامی ہجری تاریخ کی بنیاد رکھی، ناقابل قبول ، بلا دلیل اور بے بنیاد ہے_ البتہ حضرت عمر کے دور میں صرف یہ ہوا کہ ربیع الاّول کی بجائے محرم کو ہجری سال کا مبدا قرار دیا گیا اورایسا انہوں نے یا توخود کیا تھا یا حضرت عثمان کے مشورہ سے _ جبکہ محرم ( جیسا کہ سب کو معلوم ہے) زمانہ جاہلیت میں سال کا مبداء شمار ہوتا تھا(۵) _ بعید نہیں کہ ہجری تاریخ جسے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرر فرمائی تھی اور کئی بار لکھی بھی تھی،اس زمانہ میں تاریخ کی ضرورت کم ہونے کی وجہ سے لوگوں میں مشہور نہ ہوسکی ہو اور پھر حضرت عمر نے صحابہ کو اکٹھا کیا ہو تا کہ تاریخ

____________________

۱)مصنف عبدالرزاق ج/۱۱ ص ۳۷۳ و ۳۷۵_ (۲) تطہیر الجنان واللسان ص ۶۶ ۱۳۷۰ نیز کنز العمال ج۱۱ ص ۱۱۳_

۳)الاتحاف بحبّ الاشراف ص ۶۵ از ابن ابی شیبہ و غیرہ _ (۴) لسان المیزان ج/۲ ص ۷۹_

۵)البدایة والنہایہ ج۳ ص ۲۰۶ و ص ۲۰۷ نیز السیرة النبویة ابن کثیر ج۲ ص ۲۸۸ و ۲۸۹_

۶۶

پر اتفاق حاصل ہوجائے(۱) لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جن کی غرض یہ تھی کہ جس تاریخ کا نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا تھا اور جس تاریخ کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرر فرمایا تھا اس کو طاق نسیان میں رکھ دیا جائے _ اس لئے کہ فلاں آدمی رومی تاریخ کا مشورہ دے رہا تھا، یہود یت سے اسلام لانے والے کچھ مسلمان ایسی تاریخ کا مشورہ دیتے ہیں جو سکندر اورہر مزان کے دورکی طرف لوٹتی ہے اور ان لوگوںسے حضرت عمر یہ مشورے لے رہے تھے حالانکہ حضرت عمر ایرانیوں سے شدید نفرت کرتے تھے لیکن پھر بھی وہ لوگ اسے ایرانی تاریخ کا مشورہ دیتے ہیں کہ جب کوئی بادشاہ ہلاک ہوجاتا تو وہ نئے بادشاہ کی تاج پوشی کے دن سے تاریخ کی ابتدا کرتے تھے_ (یعنی ...؟) کوئی مولد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یعنی عام الفیل کو تاریخ کا مبداء قرار دینے کا مشورہ دیتاہے واضح رہے کہ زمانہ جاہلیت کے آخری سالوں میں عرب عام الفیل سے تاریخ لکھتے تھے_ اور مسعودی کے الفاظ کے مطابق:

(و کثر منهم القول و طال الخطب فی تواریخ الاعاجم و غیرها) (۲)

عجمیوں و غیرہ کی تاریخوں میں ان کے درمیان اقوال زیادہ ہوگئے اور بحث لمبی ہوگئی_

یعنی جتنے منہ اتنی باتیں ہوئیں تو محافظ دین اورحق کے علمبردار حضرت علیعليه‌السلام نے مناسب وقت میں اس ہجری تاریخ کا اعلان کیا جسے خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرّر فرمایا تھا اور خود انہوں نے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کی حیات طیبہ میں متعدد خطوط اور معاہدوں میں لکھا تھا_

آپعليه‌السلام کی رائے اور نظریہ کو قبول کرنے اور آپعليه‌السلام کے مشورہ کو دل و جان سے مان لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کیونکہ یہ حق ہے''والحق یعلو ولا یعلی علیه '' _نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یوم ولادت و رحلت کی بجائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کو تاریخ کا مبداء قرار دینے کی وجہ ارض شرک سے (جہاں ذلت، گمراہی اور پستی تھی) ارض

____________________

۱) علامہ محقق سید مہدی روحانی نے اپنے مقالہ میں یہ احتمال دیا ہے اور یہ مقالہ ما ہنامہ '' الھادی'' سال اول شمارہ نمبر ۴ ص ۴۸ میں شائع ہوا ہے_

۲) التنبیہ الاشراف ص ۲۵۲_

۶۷

اسلام کی طرف (جہاں عزت ، شرافت اور سربلندی تھی) ہجرت کی اہمیت تھی اور انسانیت اور تاریخ کی تشکیل کے اعتبار سے یہ چیز نہایت اہمیت کی حامل ہے_ اسی طرح آپعليه‌السلام نے اس عمل سے ہرذلت آمیز رائے اور ظالم و جابر اور طاغوتی حکمرانوں سے وابستہ واقعات کو تاریخ کا مبداء قرار دینے سے اجتناب کیا _ اور بہتی گنگا کی لہروں کا دھارا بننے سے بھی پرہیز کیا جبکہ عام لوگوں میں یہ چیز عام ہوتی ہے اور ان کی رگ و پے میں خون اور زندگی کی طرح گردش کررہی ہوتی ہے_

پھر عیسوی تاریخ کیوں؟

اس کے بعد ہم یہاں نہایت افسوس اور گہرے ملال سے یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ اہل مغرب اور غیر مسلم تواپنی تاریخ، تمدن اور واقعات کی حفاظت کرتے ہیں _ اور خواہ وہ کتنے ہی حقیر اور بے اہمیت ہوں کسی طر ح بھی ان سے دستبردار نہیں ہوتے بلکہ انہیں پھیلانے اور دوسری قوموں میں انہیں ترویج دینے اور راسخ کرنے کے درپے ہوتے ہیں _ حتی کہ اسلامی واقعات اور تاریخ کو لکھنا چاہتے ہیں تو ہجری تاریخ کو عیسوی تاریخ سے بدل کر لکھنے پر اصرار کرتے ہیں خواہ ایسا کرنے سے کتنے ہی حقائق مسخ ہوجائیں اور ان میں اشتباہ و غلطی ہوجائے_

لیکن دوسری طرف ہم ترقی ، ترقی یافتہ اور تہذیب و ثقافت و غیرہ جیسے بے وزن اور خوشنما الفاظ اور نعروں کا فریب کھاکے اپنی بہت سی بنیادی اور اساسی چیزوں سے بآسانی دستبردار ہوجاتے ہیں حالانکہ ان نعروں کے پس پردہ ہزاروں خطرات اور بربادیاں چھپی ہوئی ہوتی ہیں _ حتی کہ بعض اسلامی ممالک نے تو عربی رسم الخط کو چھوڑ کر لاطینی اور انگریزی رسم الخط کو اپنا لیا ہے _ بلکہ اپنے رنگ ڈھنگ اور لباس جیسے حیاتی اور ضروری امور کو چھوڑ کر غیروں کے اقدار اپنالئے ہیں_ بالکل یہی صورتحال ہجری تاریخ کے متعلق بھی ہے_

ہم نے کس سہولت سے ہجری تاریخ کو چھوڑ دیا ہے جب کہ یہ ہماری عزت و سربلندی کا سرچشمہ تھی

۶۸

اس سے ہماری تاریخ اور ثقافت قائم تھی ہم نے اس کی جگہ عیسوی تاریخ کو اپنا لیا جو تقریباً چوتھی صدی ہجری میںیعنی اسلامی ہجری تاریخ کے وضع ہونے کے بہت عرصہ بعد ظاہر ہوئی عیسائی حضرت عیسیعليه‌السلام کی ولادت کے دن سے نہیں بلکہ ان کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے دن سے اپنی تاریخ لکھتے ہیں _(۱) بلکہ ایک اور دستاویز کے مطابق جناب سکندر ذوالقرنین کے دور سے اپنی تاریخ لکھتے ہیں(۲) حتی کہ ابن العبری نے بھی ( جو عیسائیوں کے بہت بڑے پادری شمار ہوتے تھے اور کارڈینال کے درجہ کے برابر ان کا رتبہ تھا اور ۶۸۵ ہجری کو فوت ہوئے انہوں نے بھی) اپنی کتاب میں عیسوی تاریخ کبھی نہیں لکھی بلکہ کئی مقامات پر تاریخ سکندری سے کتاب کو مزین کیا _ پس اگر اس وقت عیسوی تاریخ عام اور معروف ہوتی تو وہ اس سے ہرگز روگردانی نہ کرتے_ اسی طرح ۹۰۲ ہجری کو وفات پانے والے سخاوی کے کلام سے بھی ظاہر ہوتاہے کہ دسویں صدی ہجری کے اوائل تک بھی میلاد مسیح کی تاریخ رائج نہیں تھی_

لیکن بہت سی ایسی حکومتیں ہمارے سامنے ہیں جو اپنے آپ کو اسلامی حکومت کے نام سے یاد کرتی ہیں اور بہت سی قومیں جو خود کو اسلام سے منسوب کرتی ہیں انہوں نے صرف عیسوی تاریخ کو اپنا رکھاہے فارسی اور رومی تاریخ کو بھی نہیں اپنایا ہاں انہوں نے صرف تمدن و ترقی کے نام پر اور اس قسم کے دلکش اور پرفریب نعروں کی وجہ سے عیسوی تایخ کو محور نظام بنایا جبکہ اپنی عظمت و سربلندی کی اساس ،تاریخ اور ثقافت کو چھوڑ دیا ہے اس طرح بہت سے عظیم اور اہم امور سے دستبردار ہوچکے ہیں جب کہ ان سے پیچھے ہٹنا نہایت دشوار اور خطرناک ہے_

نکتہ:

ایک روایت کے مطابق حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے پوچھا گیا کہ عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیعليه‌السلام کی ولادت کانون (رومی مہینہ) کی چوبیس تاریخ کو ہے (آپعليه‌السلام کیا فرماتے ہیں ؟) جس پر آپعليه‌السلام نے فرمایا: '' وہ

____________________

۱)الاعلان بالتوبیخ لمن یذم التاریخ ص ۸۳ _

۲)نزہة الجلیس ج۱ ص ۲۲ نیز ملاحظہ ہو کنز العمال ج ۱۰ ص ۱۹۵ از مستدرک و از کتاب الادب صحیح بخاری_

۶۹

جھوٹ کہتے ہیں بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت حزیران (رومی مہینہ) کے نصف میں ہوئی جو گردش ایام کے حساب سے آذر (فارسی مہینہ) کا بھی نصف بنتاہے''(۱) ( جس سے معلوم ہوتاہے کہ فارسی اور رومی مہینے، عیسوی مہینوں سے پہلے اور معروف تھے کہ عیسائی حضرت عیسیعليه‌السلام کی پیدائشے کو ان تاریخوں سے مطابقت دے رہے ہیں _ اور یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ وہ صحیح مطابقت نہیں دے پائے_ از مترجم)

مخلصانہ اپیل

ہم امت مسلمہ کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے امور اور تقویم ( کیلنڈروں ) میںہجری تاریخ کو اپنائیں چونکہ اس طرح ان کا ماضی ان کے حال سے متصل ہوجائے گا اور یہی چیز انہیں ان کی عزت و سربلندی کا راز یاد دلائے گی اور یہی وہ دین ہے جسے اللہ تعالی نے ان کے لئے اور تمام انسانیت کے لئے اختیار فرمایا ہے_ علاوہ ازیں اگر فرض کریں کہ تاریخ کا مبداء بڑے اور عظیم واقعات ہونے چاہئیں تو پھر کونسا واقعہ نبی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ظہور سے عظیم تر ہے اور کونسا بڑا واقعہ اس عظیم واقعہ کی برابری کرسکتاہے_

علامہ مجلسی (رہ) کا کہنا ہے : (ہجری تاریخ کو اپنانے کی) اصلی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ (ہجرت) اسلام اور مسلمانوں کے غلبہ کا ابتدائیہ، دینی احکام کے ظہور کا افتتاحیہ، مشرکوں کی قید سے مسلمانوں کی رہائی کی شروعات اور ہجرت کے بعد دین مبین کے قواعد کی تاسیس جیسے دوسرے اہم کاموں کا ابتدائیہ تھی''(۲) _

میں امت اسلامی خصوصاً عربوں سے گزارش کرتاہوں اگر ہم دینی لحاظ سے بھی اس سے صرف نظر کرلیں تب بھی عرب ہونے کے ناطے اس کو اہمیت دینی چاہئے اور اس مقام پر انہیں سید الشہداء امام حسینعليه‌السلام

____________________

۱)بحارالانوار ج۷۵ ص ۳۶ ، تحف العقول ، مختصر التاریخ ابن کازروفی ص ۶۷ اور مروج الذہب ج۲ ص۱۷۹ و ص ۱۸۰_

۲)بحارالانوار ج۸۵ ص ۳۵۱_

۷۰

کا بہترین قول یاد دلاتاہوں کہ آپعليه‌السلام نے فرمایا:

(ان لم یکن لکم دین و کنتم لا تخافون المعاد فکونوا احراراً فی دنیاکم هذه و ارجعوا الی احسابکم ان کنتم عرباً کما تزعمون )(۱)

اگر تم کسی دین کے قائل نہیں اور قیامت کا خوف نہیں رکھتے تو کم از کم اپنی اس دنیا کے معاملے میں تو آزاد رہو اور اپنے آبا ء و اجداد کے محاسن ومفاخر کو مدّنظر رکھو اگر تم اپنے آپ کوعرب سمجھتے ہو_

بارگاہ رب العزت میں دعا ہے کہ وہ انہیں ان کا بہترین منشور عطا فرمائے او ر اپنی عقول و ضمائرسے راہنمائی حاصل کرنے والوں میںقرار دے_

اگروہ ہر چیز میں دوسروں کی تقلید کرنا چاہتے ہیں تو اس معاملے میں بھی ان کی تقلید کریں یعنی دوسروں کی تقلید اس طرح کریں کہ ہم اپنے عظیم تمدن اور اعلی روایات سے دستبردار نہ ہونے پائیں تا کہ دوسروں کے دست نگر نہ ہوں اور ایسی چیزیں اخذ نہ کریں جن کا نقصان ان کے فائدے سے زیادہ ہو_

''قل هذا سبیلی ادعوا الی الله علی بصیرة اناومن اتبعنی''

۲_ مدینہ میں مسجد کی تعمیر :

مسجد والی جگہ یا تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خریدی تھی یا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہدیہ کی گئی تھی ، اس بارے میں کہا جاتاہے کہ اس جگہ قبیلہ خزرج کے دو یتیم بچوں کے اونٹوں کا باڑہ تھا اور وہ بچے اسعد بن زرارہ یا کسی اور شخص کے زیر کفالت تھے، ایک قول کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ جگہ دس دینار میں خریدی _

وہاں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کی بنیاد رکھی، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفیس اپنے اصحاب کے ساتھ مل کر(مدینہ کے

____________________

۱)اللہوف ص۵۰ نیز مقتل الحسین مقرم ص ۳۳۵ ازلہوف_

۷۱

مضافات میں) سیاہ پتھروں پر مشتمل ''حرّہ'' نامی زمین سے پتھر اٹھاکر لاتے تھے، اس کام میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت کی وجہ سے اصحاب اور زیادہ کوشش اورتگ و دو سے کام کرتے تھے، یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے یہ شعر پڑھا_

لئن قعدنا و النبی یعمل

لذاک منا العمل المضلل

(اگر ہم آرام سے بیٹھ جائیں اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کام میں مشغول رہیں ( تو یہ درست نہیں) لہذا ہم اسی وجہ سے سخت طاقت فرسا کام میں مصروف ہیں)_

مسجد کی تعمیر کے وقت مسلمین یہ رجز پڑھ رہے تھے_

لا عیش الا عیش الآخرة

اللّهم ارحم الانصار والمهاجرة

(زندگی تو صرف آخرت اور جنت کی ہی زندگی ہے، خدایا انصار و مہاجرین پر رحم فرما)

اور اسطرح کے دیگر اشعار(۱) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کا طول و عرض تقریباً سوسو ذراع (ہاتھ)قرار دیا(۲) ایک اور قول کے مطابق طول ستر ذراع (ہاتھ)(۳) اور عرض ساٹھ ذراع قرار دیا(۴) ، احتمال ہے کہ یہ دونوں قول صحیح ہوں اور وہ اس طرح کہ پہلی دفعہ تعمیر کرتے وقت آپ نے لمبائی میں ستر اور چوڑائی میں ساٹھ ذراع پر بنیادیں رکھی ہوں جبکہ تعمیر نو کے وقت اس میں توسیع کردی ہو(۵) _

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کے اطراف میں اپنے اور اپنے اصحاب کے گھر بنائے شروع میں ہر گھر کا دروازہ مسجد کے صحن کی طرف کھلتا تھا لیکن بعد میں امیر المؤمنین علیعليه‌السلام کے گھر کے علاوہ باقی تمام دروازے بند کردیئے گئے ، انشاء اللہ بعد میں ہم اس بات کی زیادہ وضاحت کریں گے _ آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم یہاں مؤرخین کے بعض اقوال کا جائزہ لیں_

____________________

۱) السیرة الحلبیة ج۲ص ۶۵ ص ۶۴ و ۶۷ و ۷۱_ (۲)یعنی تقریباً ۹۱ میٹر سے کچھ زیادہ طول اور اتنا ہی عرض (مترجم)

۳)یعنی تقریباً ۶۷ میٹر کے لگ بھگ (مترجم) (۴)یعنی تقریباً ۴۹ میٹر سے کچھ کم (مترجم)

۵)وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۴۰ اور اس کے بعد _ نیز ملاحظہ ہو: تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۶۵ و ۳۶۶ اور التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۷۷_

۷۲

الف: حضرت ابوبکر اوردس دینار:

اہل سنت مؤرخین نے لکھا ہے کہ مسجد کی جگہ کو خریدنے کیلئے حضرت ابوبکر نے دس دینار ادا کئے(۱) _

لیکن ہماری نظر میں یہ بات مشکوک ہے اس لئے کہ :

اولاً: حضرت ابوبکر کی مالی حالت اس قدر مستحکم نہ تھی کہ وہ یہ رقم ادا کرسکتے، اگر فرض کریں کہ ان کی مالی حالت بہتر تھی تب بھی ہمیں شک ہے کہ انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہو اور اس کی دلیل ہم واقعہ غار میں ذکر کرچکے ہیں_

ثانیاً:اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو بھی اس کے برعکس کچھ اور روایات بھی موجود ہیں _ جن میں سے ایک روایت کے مطابق اسعد بن زرارہ نے اس زمین کے بدلے میںبنی بیاضہ میں اپنا کھجور کا ایک درخت ان یتیموں کو دیا تھا، جبکہ دوسری روایت میں آیاہے کہ ابوایوب نے کسی طرح انہیں راضی کیا تھا اور تیسری روایت کے بقول معاذ بن عفراء نے یہ کام انجام دیا تھا(۲) _

بعض مؤرخین نے احتمال دیا ہے کہ ممکن ہے حضرت ابوبکر نے زمین کی قیمت ادا کی ہو جبکہ بعض دیگر صحابہ نے محض اجر و ثواب اور نیکی کے طور پر زمین کی اصل قیمت کے علاوہ ان یتیموں کو یہ سب کچھ دیا ہو(۳) _

لیکن یہ احتمال بھی دیا جاسکتاہے کہ دیگر صحابہ نے زمین کی اصل قیمت ادا کی ہو اور حضرت ابوبکر نے صلہ و نیکی کے طور پر کچھ رقم ادا کی ہو، اس طرح پہلے احتمال کو اس دوسرے احتمال پر ترجیح نہیں دی جاسکتی ، علاوہ ازیں یہ احتمال روایت میں موجود کلمہ ''عوضھما'' کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا اس لئے کہ اس کلمے سے واضح ہوتاہے کہ ایک تو یہ چیز زمین کی قیمت تھی اور دوسرا وہ رقم اس زمین کے بدلے میں تھی نیکی اور صدقہ کے طور پر نہیں تھی_

ثالثاً : صحیح بخاری و غیرہ میں لکھا ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک شخص کو بنی نجار کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا

____________________

۱)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۶۵_

۲) البدایة و النہایةج ۳ص۳۱۵ ، وفاء الوفاء ج۱ص۳۲۳ و ص ۳۲۴، (روایت ابن حجر) ، السیرة الحلبیة ج ۲ص ۶۵_

۳) السیرة الحلبیة ج۲ص ۶۵ ، وفاء الوفاء ج۱ص ۳۲۳ ، ۳۲۴_

۷۳

کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس زمین کے محدودے کی قیمت طے کریں_ تو انہوں نے جواب دیا :'' قسم بخدا ہم خدا کے علاوہ کسی اور سے اس زمین کی قیمت وصول نہیں کریں گے''(۱) _

ب: پتھراور خلافت

حاکم نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ مسجد کیلئے سب سے پہلا پتھر خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٹھاکر لائے تھے پھر دوسرا پتھر حضرت ابوبکر (تیسرا حضرت عمر(۲) )اور چوتھا حضرت عثمان اٹھاکر لائے ، حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ یہ دیکھ کر میں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کی : ''کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی طر ف نہیں دیکھتے کہ یہ کس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کررہے ہیں ''؟ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : ''اے عائشہ ، میرے بعد یہ میرے خلیفہ ہوں گے ''یہ حدیث شیخین کے معیار کے مطابق صحیح ہے لیکن خود انہوں نے اسے ذکر نہیں کیا(۳) _

اس روایت کے الفاظ میں موجود تضاد و تناقض کے علاوہ درج ذیل امور کی بنا پر اس حدیث کا صحیح ہونا ہرگز ممکن نہیں_

اولاً : ذہبی اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو یہ تینوں خلفاء کی خلافت پر نصّ ہوتی جبکہ یہ کسی طرح بھی صحیح نہیں ، اس لئے کہ حضرت عائشہ اس وقت ایک کم سن پردہ نشین بچی تھیں اور ابھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہی نہیں ہوئی تھیں ، پس ان سے اس حدیث کو منسوب کرنا، اس حدیث کے جھوٹے ہونے پر دلالت کرتاہے(۴) _البتہ ہم ان کے کم سن ہونے والی بات پر اپنی رائے محفوظ رکھتے ہیں_

ابن کثیر کہتے ہیں : ''اس سیاق و سباق کے ساتھ یہ حدیث بالکل عجیب وغریب ہے''(۵) _

____________________

۱) صحیح البخاری ج۱ص ۵۷ ، تاریخ الطبری ج۲ص ۱۱۶ ، الکامل لابن اثیرج ۲ ص۱۱۰ وفاء الوفاء ج ۱ص ۳۲۳ _ نیز التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۷۷_

۲) حضرت عمر کا ذکر صرف تلخیص المستدرک کی روایت میں ہوا ہے_

۳) مستدرک الحاکم ج۳ص۹۶ ، ۹۷ ، وفاء الوفاج ۱ص۳۳۲ ، ۳۳۳ ، ۳۵۱ ، البدایة والنہایة ج۳ ص ۲۱۸ ، اورج ۶ص ۲۰۴ ( انہوں نے وضاحت کی ہے کہ یہ واقعہ مسجدمدینہ کی تعمیر کے وقت پیش آیا) السیرة الحلبیةج ۲ص ۵۶ ، ۶۶ ، تاریخ الخمیس ج۱ص ۳۴۴ ، ۳۴۳ نیز دلائل النبوة بیہقی ج۲ ص ۲۷۲_

۴) تلخیص المستدرک ذہبی ج ۳ص ۹۷ ( مستدرک الحاکم ج۳ ص ۹۷کے حاشیے پرمطبوع )_ (۵) البدایة والنہایة ج۳ص ۲۱۸ _

۷۴

ثانیاً:حدیث سفینہ پر اشکال و اعتراض کرتے ہوئے بخاری نے '' خلافت اور پتھر'' کی حدیث(۱) کے بارے اپنی تاریخ میںلکھا ہے :_

ابن حبان نے اس حدیث کو قبول نہیں کیا کیونکہ حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علیعليه‌السلام ( البتہ یہ انہی لوگوں کے الفاظ ہیں)کہا کرتے تھے : '' نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر نہیں کیا ''(۲) _

یہاں بخاری یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس لحاظ سے یہ حدیث خود اہل سنت کے اس عقیدے سے بھی تضاد رکھتی ہے کہ جس کے مطابق رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہ تو کسی شخص کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا تھا اور نہ ہی خلافت کے بارے میں کوئی وضاحت فرمائی تھی ، اور اسی بناپر اہل سنت حضرت ابوبکر کے ہاتھ آنے والی خلافت کو درست قرار دیتے ہیں_ بلکہ حضرت عائشہ سے یہ روایت بھی منقول ہے : '' اگر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر فرماتے تو (میرے خیال میں) ضرورحضرت ابوبکر و حضرت عمرکوہی خلیفہ مقرر فرماتے'' اس حدیث کو ذہبی اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے(۳) _

علامہ امینی علیہ الرحمہ نے اپنی گراں قدر تصنیف '' الغدیر'' (ج/۵ ص ۳۵۷ تا ۳۷۵) میں علمائے اہل سنت کے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ خلافت ایک انتخابی امر ہے (یعنی معاملہ لوگوں کے انتخاب پر چھوڑ دیا گیا ہے) پس یہ حدیث ان کے مذہب کے مطابق بھی جھوٹی ہے اور حقیقت میں بھی جھوٹی ہے اس لئے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کا واضح اعلان فرمایا اور اس بارے میں بے شمار روایات منقول ہیں انہی روایات کے ذریعے امیرالمؤمنینعليه‌السلام ، آپعليه‌السلام کے اصحاب ، اہل بیت ، آپکی اولاد اور آپعليه‌السلام کے شیعہ ، اس وقت سے آج تک آپعليه‌السلام کی خلافت پر استدلال کرتے چلے آرہے ہیں، شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہوکہ جس میں ان بے شمار متواتر روایات یا خبر واحدمیں سے کوئی روایت نقل نہ کی گئی ہو(۴) _

____________________

۱) مستدرک الحاکم ج۳ ص ۱۳_ (۲) السیرة الحلبیہ ج ۲ص۶۶_

۳) مستدرک الحاکم ج۳ ص ۷۸_

۴)بطور مثال ملاحظہ ہو: الغدیر ج۱ ص ۱۹۵ ا ص ۲۱۳_

۷۵

ثالثاً : اس روایت کے مطابق مسجد کی تعمیر میں سب سے پہلے پتھر رکھنے والوں میں حضرت عثمان بھی شامل تھے لیکن خود اہل سنت کے مؤرخین کے بقول حضرت عثمان اس وقت حبشہ میںتھے اور مدینہ میں موجود نہ تھے جیسا کہ سمہودی نے اس طرف اشارہ کیا ہے اسی وجہ سے سہیلی نے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے حضرت عثمان کو حذف کرتے ہوئے اس کے نام کو ذکر نہیں کیا(۱) _

اور جب حاکم کی کتاب طبع ہوئی تو اس روایت میں سے حضرت عثمان کا نام حذف کردیا گیا اس کے پیچھے بھی شاید یہی راز پوشیدہ تھا ، حالانکہ ذہبی نے اپنی تلخیص میں اس روایت کو ذکر کیا ہے _اور اسے تحریف کہا جاتاہے جو دین، امت اور کسی فرقے کے حقائق کے ساتھ خیانت میں شمار ہوتی ہے_

کیونکہ بطور خلاصہ واقعہ یوں ہے کہ حضرت عثمان اگر چہ اہل مکہ کے اسلام لانے کی خبر سن کر مکہ پلٹ آئے تھے لیکن حقیقت حال کا پتہ چلنے پردوبارہ واپس حبشہ چلے گئے تھے ، جیسا کہ خود اہل سنت مؤرخین کہتے ہیں کہ حضرت عثمان نے دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی(۲) عسقلانی کہتے ہیں :'' جب حبشہ میں موجود مسلمانوں کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کا علم ہوا تو ان میں سے تیس آدمی واپس مکہ لوٹ آئے ، ان میں ابن مسعود بھی تھے ، جو اس وقت مکہ پہنچے جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر کی تیاریوں میں مصروف تھے(۳) (تو پھر عثمان کہاں سے شریک ہوسکتے ہیں؟)_

ج: حضرت عثمان اور حضرت عمار:

مؤرخین لکھتے ہیں : حضرت عثمان بہت صفائی پسند اور صاف ستھرے رہنے والے آدمی تھے، جب مسجد کی تعمیر کیلئے اینٹیں اٹھاتے تو انہیں اپنے کپڑوں سے دور رکھتے تھے اور جب اینٹوں کو مسجد کے پاس رکھتے تو

____________________

۱) وفاء الوفاء ج۱ ص ۲۵۲ _

۲) طبقات ابن سعد ج ۱حصہ اول ص۱۳۸ ، الکامل لابن اثیرج۳ص۱۸۵،البدء والتاریخ ج۱ص۲۲،اس کتاب کی روایت کے مطابق حبشہ کی طرف پہلی ہجرت کے وقت کشتی میںحضرت عثمان کی زوجہ حضرت رقیہ کا حمل گر گیا تھا _

۳) فتح الباری ج۷ص۱۴۵_

۷۶

اپنی آستینوں کو جھاڑتے اور اپنے کپڑوں کو دیکھتے کہ کہیں ان پر مٹی تو نہیں لگی ، اگر مٹی لگی دیکھتے تو اسے جھاڑ دیتے تھے، حضرت علیعليه‌السلام ابن ابیطالب نے انہیں دیکھ کر یہ اشعار پڑھے_

لا یستوی من یعمر المساجدا

یدأب فیها قائما ً و قاعداً

و من یری عن التراب حائداً

( وہ شخص جو مساجد کی تعمیر میں کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر نہایت کوشش و مشقت سے کام کرتاہے اس شخص کے برابرنہیں ہوسکتا جو مٹی سے دور رہنے کی کوشش کرتاہے)_

جب حضرت عمار یاسر نے یہ اشعار سنے تو انہوں نے ان اشعار کو دہرانا شروع کردیا ، اگر چہ انہیں معلوم نہ تھا کہ ان اشعار سے مراد کون ہے؟ اسی اثناء میں جب وہ حضرت عثمان کے پاس سے گزرے تو حضرت عثمان( جن کے ہاتھ میں اس وقت ایک چھڑی تھی) نے ان سے کہا : ''اے سمیہ کے بیٹے یہ کس کی عیب جوئی کررہے ہو؟'' پھر کہا :'' چپ ہوجاؤ ورنہ (یہی چھڑی) تیرے چہرے پر ماروںگا''_ یہ بات نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سن لی ، اس وقت آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجرہ ام سلمہ کے سائے میں تشریف فرماتھے، یا ایک اور روایت کے مطابق اپنے حجرہ کے سائے میں آرام کررہے تھے، یہ سن کر آنحضرت سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا: ''بے شک عمار بن یاسر میری ناک اور آنکھوں کے درمیان موجود جلد (پیشانی) کی مانند ہیں''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی دو آنکھوں کے درمیان اپنا دست مبارک رکھا اور فرمایا: ''جب کوئی شخص اس مقام تک پہنچ جائے تو یہ قربت کی انتہا ہے''_

یوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں کو انہیں آزار و اذیت پہنچانے سے باز رکھا، پھر لوگوں نے حضرت عمار سے کہا : ''رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی وجہ سے ہمارے ساتھ ناراض اور غضبناک ہوئے ہیں، ہمیں ڈر ہے کہیں ہمارے بارے میں کوئی قرآنی آیت نازل نہ ہوجائے'' حضرت عمار نے کہا : ''جس طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ناراض و غضبناک ہوئے ہیں میں ابھی اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو راضی کرتاہوں''_

پھر حضرت عمار نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی : ''یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کو مجھ سے کیا

۷۷

دشمنی ہے؟ ''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' ان کی طرف سے تمہیں کیا تکلیف پہنچی ہے؟ ''عرض کی :'' وہ میرے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں ، خود تو ایک ایک اینٹ اٹھاتے ہیں جبکہ میرے اوپر دو دو تین تین اینٹیں لاد دیتے ہیں''_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمار کا ہاتھ پکڑا اور مسجد کے اندر چکر لگایا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے بالوں سے خاک جھاڑتے ہوئے فرمایا : ''اے ابن سمیہ تمہیں میرے اصحاب قتل نہیں کریں گے بلکہ تم ایک باغی گروہ کے ہاتھوں قتل ہوگے(۱) ...''_

کیا حضرت عثمان حبشہ میں نہ تھے؟

ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ حضرت عثمان مسجد کی تعمیر کے وقت وہاں موجود نہ تھے اور اس وقت وہ حبشہ میں تھے_

شاید یہی وجہ ہے کہ عسقلانی اور حلبی نے حضرت عثمان بن عفان کی جگہ اس روایت میں عثمان بن مظعون کا نام ذکر کیا ہے(۲) _

ہم اس سوال اور اعتراض کا جواب دینے سے پہلے گذشتہ اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتے چلیں کہ اس کی یہ توجیہ کرنا بھی نامناسب ہے کہ '' رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک سال یا سات ماہ تک ابوایوب کے ہاں قیام پذیر رہے اور اسی دوران آپ اپنے گھر اور مسجد کی تعمیر میں مصروف رہے، ممکن ہے کہ اس وقت یہ خبر حبشہ میں مہاجرین تک پہنچی ہو اور اس دوران وہ مدینہ آتے رہے ہوں اور شاید حضرت عثمان بھی ان میں سے ایک ہوں وہاں انہوں نے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا اور مذکورہ واقعہ پیش آیا ہو، اگر چہ مسجد کی بنیاد رکھتے وقت اور خلافت کے پتھر رکھنے میں وہ شریک نہ ہوسکے ہوں''_

بہر حال ہمارے نزدیک یہ بعید ہے کہ مسلمان اتنے طویل عرصہ تک مسجد کی تعمیر میں مصروف رہے ہوں

____________________

۱) سیرة ابن ھشام ج۲ص۱۴۲، تاریخ الخمیس ج۱ص ۳۴۵ ، اعلاق النفیسة ، وفاء الوفاء ج۱ص ۳۲۹ ، السیرة الحلبیة ج۲ص۷۲ ، علامہ امینی نے '' الغدیر'' کی نویں جلد میں (ص ۲۱ سے ۲۷ تک) اس واقعہ کے بہت زیادہ مصادر و منابع ذکر کئے ہیں، ہم نے صرف چند ایک ذکر کئے ہیں ، مزید تحقیق کیلئے '' الغدیر'' ج۹ کی طرف رجوع فرمائیں_

۲) السیرة الحلبیة ج ۲ص۷۱ ، حاشیہ سیرت النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابن ھشام ج ۲ص۱۴۲_ از مواہب اللدنیہ_

۷۸

اس لئے کہ وہ دسیوں کی تعداد میں تھے اور اہل مدینہ میں سے اسی(۸۰) سے زیادہ افرادتو مقام عقبہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بیعت کرچکے تھے_

صحیح بات یہ ہے کہ ظاہراً حضرت عمار اور حضرت عثمان کا مذکورہ واقعہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کے وقت پیش آیا اور یہ جنگ خیبر کے بعد کی بات ہے یعنی ہجرت کے ساتویں سال(۱) اور درج ذیل امور اسی بات کے صحیح ہونے پر دلالت کرتے ہیں:

اولاً: بیہقی نے اپنی کتاب'' الدلائل'' میں روایت کی ہے کہ جب حضرت عمار قتل کردیئے گئے تو عبداللہ بن عمرو بن العاص نے اپنے والد(عمرو بن العاص) سے کہا: ''اس شخص (حضرت عمار) کو ہم نے قتل کیا ہے جبکہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا وہ بھی پتاہے''_ اس کے والد نے پوچھا:'' تم کس شخص کی بات کررہے ہو؟ ''تو اس نے جواب دیا : ''عمار یاسر کی'' پھر کہا : ''کیا تمہیں یاد نہیں جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد تعمیر کررہے تھے تو اس وقت ہم ایک ایک اینٹ اٹھاکر لارہے تھے جبکہ عمار یاسر دو دو ا ینٹیں اٹھالاتا تھا چنانچہ اسی دوران جب وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس سے گزرا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ تم دو دو اینٹیں اٹھاکر لارہے ہو حالانکہ تمہارے لئے یہ ضروری نہیں ہے جان لو کہ تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا اور تم اہل جنت میں سے ہو''_ پھر عمرو معاویہ کے پاس گیا الخ_(۲)

سمہودی نے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہا ہے:'' اس بات سے پتہ چلتاہے کہ دوسری بار مسجد کی تعمیرکے وقت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمار کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا تھا، اس لئے کہ عمرو نے ہجرت کے پانچویں برس اسلام قبول کیا تھا ''(۳) _

عبدالرزاق و غیرہ سے مروی ہے کہ عمرو بن عاص معاویہ کے پاس گیا اور اس نے معاویہ سے کہا کہ ہم

____________________

۱) وفاء الوفاء ج ۱ص۳۳۸_

۲)تذکرة الخواص ص ۹۳ از طبقات ابن سعد، الفتوح ابن اعثم ج۳ ص ۱۱۹ و ۱۳۰ ، الثقات ابن حبان ج۲ ص ۲۹۱ ، انساب الاشراف ; با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۳۱۳و ص ۳۱۷ ، طبقات ابن سعد ج۳ حصہ اول ص ۱۸۰ و ۱۸۱ المصنف ابن ابی شیبہ ، مسند احمد بن حنبل ج ۲ ص ۱۶۴ ، حاشیہ انساب الاشراف ج ۲ ص ۳۱۳ ; تحقیق محمودی،المناقب خوارزمی ص ۱۶۰ ، وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۳۱و ۳۳۲_

۳) وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۳۱ و ۳۳۲_

۷۹

نے سنا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عمار کے بارے ہیں فرمارہے تھے: ''اسے (عمار کو) ایک باغی گروہ قتل کرےگا''(۱) _

اور معاویہ کے پاس دو آدمی آئے جو حضرت عمار کے سرکے بارے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے ، عبداللہ بن عمرو بن العاص نے انہیں دیکھ کر کہا :'' عمار کے سر کی بابت تمہیں اپنے ساتھی کے لئے راضی ہو جانا چاہئے ، کیونکہ میں نے عمار کے بارے میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : '' عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا _'' اس پر معاویہ نے عمرو سے کہا: ''تو اپنے اس پاگل کو ہم سے دور کیوں نہیں کرلیتا ''(۲) _

اور یہ واضح ہے کہ حضرت عمار کا واقعہ ایک ہی دفعہ اور ایک ہی مناسبت سے پیش آیاہے_

ثانیاً: خود روایت میں قرینہ موجود ہے جس سے واضح ہوتاہے کہ یہ واقعہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کے دوران پیش آیا تھا، کیونکہ روایت میں ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس وقت حضرت ام سلمہ کے حجرے کے سائے میں تشریف فرماتھے اور یہ بات واضح ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے مسجد تعمیر فرمائی تھی اور اس کے بعد اپنے حجرے تعمیر کئے تھے(۳) نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ گھر اکٹھے تعمیر نہیں کئے تھے بلکہ ضرورت کے ساتھ ساتھ انہیں تدریجی طور پر تعمیر کیا تھا، چنانچہ سب سے پہلے حضرت سودہ اور حضرت عائشہ کا حجرہ تعمیر کیا گیا(۴) اور اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائشے نہیں کہ مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہونے کے کافی دیر بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ام سلمہ کیلئے حجرہ تعمیر کیا تھا_

____________________

۱) المصنف ج۱۱ص۲۴۰ ، مجمع الزوائدج ۹ص ۲۹۷ ،ج ۷ص۲۴۲ ، ( امام احمد کی مسند اور طبرانی سے روایت نقل ہوئی ہے)_

۲) انساب الاشراف ج۲ص۳۱۳، مسند احمد،مسند عبداللہ بن عمرو، مصنف ابن ابی شیبہ اور فتح الباری کے علاوہ دیگر بہت سے مصادر و منابع میں یہ روایت نقل ہوئی ہے_

۳) زاد المعاد ج۱ص۲۵ ، السیرة الحلبیة ج۲ ص۸۷ _

۴) تاریخ الخمیس ج۱ص۳۴۶ ، وفاء الوفا ج ۲ص ۴۵۸ وفاء الوفاء کے صفحہ ۴۶۲ پر ذھبی سے نقل ہواہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے حضرت سودہ کا گھرتعمیر کیا ، پھر جب حضرت عائشہ کیلئے گھر کی ضرورت پڑی تو ان کے لئے گھر تعمیر کردایا، اسی طرح مختلف مواقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے باقی گھر تعمیر کروائے_

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313