تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي0%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 313
مشاہدے: 115054
ڈاؤنلوڈ: 2896


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 115054 / ڈاؤنلوڈ: 2896
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد 1

مؤلف:
اردو

۳_چاہ زمزم كا ''سقاية الحاج'' نام ركھنا_

۴_قتل كے بدلے سو اونٹ بطور خوں بہا ادا كرنا_

۵_كعبہ كے گرد سات مرتبہ طواف كرنا _(۲۰)

البتہ تاريخ كى ديگركتابوں ميں ان كى قائم كردہ ديگر روايات كا بھى ذكر ملتا ہے جن ميں سے چند يہ ہيں: منت مان لينے كے بعد اسے پورا كرنا' چور كا ہاتھ كاٹنا ' لڑكيوں كے قتل كى ممانعت اور مذمت' شراب و زنا كو حرام قرار دينے كا حكم جارى كرنا اور برہنہ ہو كر كعبہ كا طواف كرنے كى ممانعت وغيرہ_(۲۱)

واقعہ فيل

حضرت عبدالمطلب كى زندگى ميں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان ميں سے ايك واقعہ ''عام الفيل'' تھا _ اس واقعہ كا خلاصہ يہ ہے كہ : يمن كے حكمران ابرہہ نے اس ملك پر اپنا تسلط برقرار كرنے كے بعد يہ محسوس كيا كہ اس كى حكومت كے گرد و نواح ميں آباد عربوں كى خاص توجہ كعبہ پر مركوز ہے اور ہر سال كثير تعداد ميں لوگ اس كى زيارت كے لئے جاتے ہيں _ اس نے سوچا كہ عربوں كا يہ عمل اس كے نيز ان حبشى لوگوں كےلئے جو يمن اور جزيرہ نمائے عرب كے ديگر مقامات پر آباد ہيں كوئي مصيبت پيدا نہ كردے چنانچہ اس نے يمن ميں''قليس'' نام كا بہت ہى بڑا گرجا تيار كيا اور تمام لوگوں كو وہاں آنے كى دعوت دى تاكہ كعبہ جانے كى بجائے لوگ اس كے بنائے ہوئے كليسا ميں زيارت كى غرض سے آئيں ليكن لوگوں نے نہ صرف اس كى دعوت كى طرف كوئي توجہ نہيں دى تھى بلكہ الٹا اس كے كليسا كى بھى توہين كى گئي تھي_

۴۱

لوگوں كے اس رويہ سے ابرہہ كو سخت طيش آگيا اور اس نے فيصلہ كيا كہ لوگوں كے اس جرم كے پاداش ميں كعبہ كا وجود ہى ختم كردے گا، اس مقصد كے تحت اس نے عظيم لشكر تيار كيا جس ميں جنگجو ہاتھى پيش پيش تھے _ چنانچہ پورے جنگى ساز و سامان سے ليس ہوكر وہ مكہ كے جانب روانہ ہوا _ سردار قريش حضرت عبدالمطلب اور ديگر اہل مكہ كو جب ابرہہ كے ارادے كا علم ہوا تو انہوں نے شہر خالى كرديا اور نتيجے كا انتظار كرنے لگے_

جنگى ساز وسامان سے ليس اور طاقت كے نشے ميں چور ابرہہ كا لشكر جب كعبہ كى طرف بڑھا تو ابابيل جيسے پرندوں كے جھنڈاپنى چونچوں اور پنجوں ميں كنكرياں لے كر اس كے لشكر پر چھاگئے اور انہيں ان پر برسانا شروع كرديا جس كى وجہ سے ان كے جسم ايسے چر مراگئے جيسے چبائے ہوئے پتے_

يہ واقعہ بعثت سے چاليس سال قبل پيش آيا چنانچہ عربوں نے اس واقعے سے ہى اپنى تاريخ شروع كردى جو رسول خدا (ص) كے مكہ سے مدينہ كى جانب ہجرت تك جارى رہى اور واقعات اسى سے منسوب كئے جانے لگے_

چندقابل ذكر نكات

۱_ابرہہ كا حملہ اگر چہ مذہبى محرك كاہى نتيجہ تھا مگر اس كا سياسى پہلو يہ تھا كہ سرزمين عرب پر سلطنت روم كا غلبہ ہوجائے _ چنانچہ اس كى اہميت مذہبى پہلو سے كسى طرح بھى كم نہ تھى ابرہہ كا مكہ اور حجاز كے ديگر شہروں پر قابض ہوجانا سياسى اور اقتصادى اعتبار سے روم جيسى عظيم طاقت كى اہم فتح و كامرانى تھى _ كيونكہ يہى ايك ايسا واحد طريقہ تھا جسے بروئے كار لاكر شمالى عرب كو جنوبى عرب سے متصل كيا جاسكتا تھا _ اس طرح

۴۲

پورے جزيرہ نما ئے عرب پر حكومت روم كا غلبہ و تسلط ہوسكتا تھا نيز اسے ايران پر حملہ كرنے كيلئے فوجى چھائونى كے طور پر استعمال كياجاسكتا تھا_

۲_خداوند تعالى كے حكم سے معجزہ كى شكل ميں ابرہہ كے لشكر كى جس طرح تباہى و بربادى ہوئي اس كى تائيد قرآن مجيد اور اہلبيت عليہم السلام كى ان روايات سے ہوتى ہے جو ہم تك پہنچى ہے چنانچہ قرآن مجيد كے سورہ فيل ميں ارشاد ہے كہ :

( بسم الله الرَّحمن الرَّحيْم أَلَم تَرَ كَيفَ فَعَلَ رَبُّكَ بأَصحَاب الفيل (۱) أَلَم يَجعَل كَيدَهُم فى تَضليل: (۲) وَأَرسَلَ عَلَيهم طَيرًا أَبَابيلَ (۳) تَرميهم بحجَارَة: من سجّيل: (۴) فَجَعَلَهُم كَعَصف: مَأكُول: ) (۵)

''تم نے ديكھا كہ تمہارے رب نے ہاتھى والوں كے ساتھ كيا سلوك كيا اس نے ان كى تدبيرا كارت نہيں كردى اور ان پر پرندوں كے جھنڈ كے جھنڈ بھيج ديئے جو ان پركنكر پتھر پھينك رہے تھے پھر ان كا يہ حال كرديا جيسے (جانوروں كا) كھايا ہوا بھوسا''_

جو لوگ اس واقعہ كى توجيہہ كرتے ہيں كہ اس سال مكہ ميں چيچك كى بيمارى ابرہہ كے سپاہيوں ميں مكھيوں اور مچھروں كى ذريعے پھيلى اور ان كى ہلاكت كا باعث ہوئي _ اس كا سبب يہ ہے كہ ان كا مافوق فطرت چيزوں اور معجزات پر اعتقاد اور ايمان نہيں چنانچہ بعض وہ مسلمان جو خود كو روشن فكر خيال كرتے ہيں وہ بھى مغرب كے مادہ پرستوں كے ہم خيال ہوگئے ہيں اور سب سے زيادہ قابل افسوس بات تو يہ ہے كہ بعض مسلم مؤرخين اور مفسرين بھى اس مغرب پرستى كا شكار ہوگئے ہيں _

۳_ابرہہ كے لشكر كى شكست اور خانہ كعبہ كو گزندنہ پہنچنے كے باعث قريش پہلے سے بھى

۴۳

زيادہ مغرور و متكبر ہوگئے چنانچہ حرام كاموں كے ارتكاب ، اخلاقى پستيوں كى جانب جانے اور ان لوگوں پر ظلم وستم روا ركھنے ميں جو حرم كے باہر آباد تھے ان كى گستاخياں اور دست درازياںپہلے سے كہيں زيادہ ہوگئيں _ وہ برملا كہنے لگے كہ ہم ہى آل ابراہيم (ع) ہيں ، ہم ہى پاسبان حرم ہيں ، ہم ہى كعبہ كے اصل وارث ہيں ، ان كا يہ بھى دعوى تھا كہ جاہ و مرتبت ميں عربوں كے درميان كوئي ہمارا ہم پلہ نہيں_

ان نظريات كى بنا پر انہوں نے حج كے بعض احكام جو حرم كے باہر انجام ديئے جاتے ہيں جيسے عرفہ ميں قيام قطعى ترك كرديئے تھے_ ان كا حكم تھا كہ حج يا عمرہ كى غرض سے آنے والے زائرين بيت اللہ كو يہ حق نہيں كہ اس كھانے كو كھائيں جسے وہ اپنى ساتھ لاتے ہيں يا اپنے كپڑے پہن كر خانہ كعبہ كا طواف كريں _

حضرت عبداللہ (ع)

حضرت عبدالمطلب (ع) كے سب سے چھوٹے بيٹے حضرت عبداللہ تھے(۲۲) كہ جنہيں رسول خدا (ص) كے والد ہونے كا فخر حاصل ہوا وہ ،حضرت ابوطالب (ع) (اميرالمومنين على عليہ اسلام عليہ السلام كے والد) اور زبير ايك ہى ماں يعنى حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا كے بطن سے تھے(۲۳) _ حضرت عبداللہ (ع) اپنے والد كى نظروں ميں دوسرے بھائيوں سے زيادہ قدر ومنزلت كے حامل تھے _ جس كى وجہ ان كے ذاتى اوصاف اور معنوى كمالات تھے اس كے علاوہ دانشوروں اور كاہنوں نے بھى يہ پيشين گوئي كى تھى كہ انكى نسل سے ايسا فرزند پيدا ہوگا جسے پيغمبرى كے لئے منتخب كياجائے گا، اس خوشخبرى كى تائيد و تصديق اس خاص چمك دمك سے بھى ہوتى تھى جو حضرت عبداللہ (ع) كے چہرے سے عياں تھي(۲۴)

۴۴

حضرت عبدالمطلب (ع) نے اپنے جواں سال فرزند حضرت عبداللہ (ع) كے لئے خاندان بنى زہرہ كے سردار حضرت وہب بن عبدمناف كى دختر نيك اختر حضرت آمنہ سلام اللہ عليہا كا رشتہ مانگا اور انہيں اپنے فرزند دلبند كے حبالہ نكاح ميں لے آئے اس شادى خانہ آبادى كا حاصل و ثمرہ حضرت محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا وجود مسعود تھا اور يہى وہ ذات گرامى ہے جسے بعد ميں خاتم الانبياء (ص) كہاگيا_

حضرت آمنہ (ع) سے شادى كرنے كے بعد حضرت عبداللہ (ع) تجارتى قافلے كے ہمراہ سفر پر روانہ ہوئے_ سفر سے واپس آئے تو شہر يثرب ميں بيمار ہوگئے اور اس بيمارى كى وجہ سے وہيں ان كا انتقال ہوگيا اور اسى شہر ميں انہيں دفن كيا گيا _(۲۵)

رسول اللہ(ص) كى ولادت باسعادت

اكثر محدثين اور مورخين اس بات پر متفق ہيں كہ حضرت محمد (ص) كى ولادت باسعادت عام الفيل ميں يعنى نزول وحى سے چاليس سال قبل ماہ ربيع الاول ميں ہوئي ليكن يوم پيدائشے كے بارے ميں اختلاف ہے _ شيعہ محدثين و دانشوروں كى رائے ميں آپ (ص) كى ولاد ت ۱۷ ربيع الاول كو ہوئي اور اہل سنت كے مورخين نے آپ (ص) كا روز ولادت ۱۲ ربيع الاول قرار ديا ہے_

حضرت محمد (ص) كى ولادت كے وقت چند حادثات اور غير معمولى واقعات بھى رونما ہوئے جن ميں سے بعض يہ ہیں:

۱_ ايوان كسرى ميں شگاف پڑ گيا اور اس كے چودہ كنگرے زمين پر گرگئے _

۲_فارس كا وہ آتشكدہ جو گزشتہ ايك ہزار سال سے مسلسل روشن تھا يكايك خاموش

۴۵

ہوگيا _

۳_ساوہ كى جھيل خشك ہو كر نيچے بيٹھ گئي _

۴_تمام بت منہ كے بل زمين پر گر پڑے _

۵_زرتشتى عالموں اورايران كے بادشاہ كسرى نے پريشان كن خواب ديكھے _

۶_دنيا كے بادشاہوں كے تخت سلطنت سرنگوں ہوگئے _

۷_پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا نورآسمان كى طرف بلند ہوا اور بہت وسيع حصے ميں پھيل گيا _(۲۶)

پيغمبر (ص) كى ولادت كے وقت ايسے حيرتناك واقعات كا رونما ہوناكہ جنہيں اصطلاح ميں ''ارہاصات''كہتے ہيں، درحقيقت لوگوں كو خطرے سے آگاہ اور خواب غفلت سے بيدار كرنے كےلئے تھا بالخصوص ہم عصرحكمرانوں كى تنبيہہ كرنا مقصود تھى تاكہ وہ اس بات پر غور كريں كہ ان حادثات كے رونما ہونے كا كيا سبب ہے _ نيز خود سے سوال كريں كہ بت اور بت پرستى كے مظاہر اورنشانات كيونكرمنہ كے بل زمين پر آرہے ہيں اور وہ لوگ جو خود كو خدا اور زمين كا آقا و مالك سمجھتے تھے كيوں مضطرب و پريشان ہوگئے ؟_ كيا اس كا مطلب يہ نہيں ہے كہ ان سے بھى برتر و بہتر طاقت كا ظہور ہوچكا ہے اور بت پرستى اور شيطانى طاقتوں كے عروج كا زمانہ ختم ہوچكا ہے؟_

پيغمبر اكرم (ص) كا بچپن

رسول خدا (ص) نے اس دنيا ميں اس وقت آنكھ كھولى جب ان كے والد كا سايہ سر سے اٹھ چكا تھا(۲۷) اسى لئے ايك قول كے مطابق رسول خدا (ص) كى تربيت بچپن سے ہى آپ (ص) كے دادا

۴۶

حضرت عبدالمطلب (ع) كے زير سرپرستى ہوئي_

حضرت عبدالمطلب (ع) نے آپ(ص) كى ولادت كے ساتويں دن بھيڑ ذبح كركے اپنے پوتے كا عقيقہ كيا اور نام محمد(ص)(۲۸) ركھا_ اس نومولو بچے كےلئے دايہ كى تلاش شروع ہوئي اور چند روز كے لئے انہوں نے بچے كو ابولہب كى كنيز ثويبہ كے حوالہ كرديا(۲۹) اس كے بعد قبيلہ بنى سعد كے معز زفرد ابوذو يب كى مہربان و پاكدامن دختر حضرت حليمہ نے آنحضرت (ص) كو اپنى تحويل ميں لے ليا اور صحرا كى جانب لے گئيں تاكہ فطرت كى آغوش اور صحت افزا آزاد فضا ميں لے جاكر، ان وبائي بيماريوں سے دور جو كبھى كبھى شہر مكہ كے لئے خطرہ پيدا كرديتى تھيں ، ان كى پرورش كرسكيں _ قبيلہ بنى سعد كے درميان رسول خدا (ص) كى موجودگى حضرت حليمہ (ع) نيز بنى سعد كے ديگر تمام افراد كےلئے نعمت كى فراوانى اور بركت كا باعث ہوئي چنانچہ جب دودھ پلانے كى مدت ختم ہوگئي اور حضرت حليمہ (ع) اس نونہال كو ان كى والدہ كى خدمت ميں لے گئيں تو انہوں نے آنحضرت (ص) كو دوبارہ اپنے ساتھ لے جانے كى درخواست كى چنانچہ حضرت آمنہ (ع) نے بھى ان سے اتفاق كيا_(۳۰)

پيغمبر اكرم (ص) پانچ سال تك(۳۱) صحرا كے دامن ميں قبيلہ بنى سعد كے درميان زندگى بسر كرتے رہے_ اس كے بعد آپ(ص) كو واپس آپ (ص) كى والدہ اور دادا كے پاس بھيج ديا گيا _ جب آپ (ص) كى عمر مبارك چھ سال ہوئي تو آپ كى والدہ ماجدہ حضرت عبداللہ كے مزار كى زيارت سے مشرف ہونے اور ماموں سے ملاقات كرنے كى غرض سے يثرب گئيں ، جہاں ان كا ايك ماہ تك قيام رہا وہ جب واپس مكہ تشريف لا رہى تھيں تو راستہ ميں ''ابوا''(۳۲) كے مقام پر شديد بيمار ہوگئيں اور وہيں ان كا انتقال ہوا(۳۳) ، اس حادثے نے آنحضرت (ص) كو سخت پريشان اور رنجيدہ خاطركيا اور آپ (ص) كے مصائب ميں دوگنا اضافہ

۴۷

ہوگيا ليكن اس واقعہ نے آپ (ص) كو دادا سے بہت نزديك كرديا_

قرآن مجيد نے ان مصائب و رنج و تكاليف كے زمانے كى ياد دلاتے ہوئے فرمايا ہے :

( أَلَم يَجدكَ يَتيمًا فَآوَى ) (۳۴)

''كيا اس نے تمہيں يتيم نہيں پايا اور پھر ٹھكانہ فراہم كيا''_

ابھى آپ (ص) نے زندگى كى آٹھ بہاريں بھى نہ ديكھى تھيں كہ دادا كا سايہ بھى سر سے اٹھ گيا اور آپ(ص) حضرت عبدالمطلب (ع) كى وصيت كے مطابق اپنے چچا ابوطالب كى سرپرستى ميں آگئے_

حضرت ابوطالب (ع) اور ان كى زوجہ محترمہ فاطمہ(ع) بنت اسد كو پيغمبر اكرم (ص) بہت زيادہ عزيز تھے وہ لوگ آپ (ص) كا اپنے بچوں سے زيادہ خيال ركھتے تھے چنانچہ جس وقت كھانے كا وقت ہوتا تو حضرت ابوطالب (ع) اپنے بچوں سے فرماتے كہ : ''ٹھہرو فرزند عزيز (حضرت محمد (ص)) كے آنے كا انتظار كرو ''_(۳۵)

چنانچہ رسول خدا (ص) حضرت فاطمہ (ع) بنت اسد كے بارے ميں فرماتے ہيں :''وہ بالكل ميرى ماں كى طرح تھيں كيونكہ وہ اكثر اپنے بچوں كو تو بھوكا ركھتيں مگر مجھے اتنا كھانا ديتيں كہ شكم سير ہو جاتا اور اپنے بچوں سے پہلے مجھے نہلاتى ، دھلاتى اور سنوارتى تھيں''_(۳۶)

خدائي تربيت

اميرالمومنين حضرت على عليہ السلام پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے بچپن كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ :

(لَقَد قرَنَ اللّهُ به من لَدُنْ اَن كَانَ فَطيماً

۴۸

اَعظَمَ مَلَك: من مَلَائكَته يَسلُكُ به طَريقَ المَكَارم وَمَحَاسنَ اَخلَاق العَاَلَم لَيلَةُ وَنَهَارَةُ ) (۳۷)

''رسول خدا (ص) كى دودھ بڑھائي كے دن سے خداوند تعالى نے سب سے بڑے فرشتے كو آپ (ص) كے ہمراہ كرديا تاكہ دن رات عظمت و بزرگوار ى كى راہوں اور كائنات كے قابل قدر اوصاف كى جانب آپ(ص) كى راہنمائي كرتا رہے''_

۴۹

سوالات

۱_ پيغمبر اكرم (ص) كے تيسرے جدامجد تك آپ(ص) كا شجرہ نسب بيان كيجئے_

۲_حضرت ہاشم (ع) پيغمبر اكرم (ص) كے اجداد ميں كون سى پشت تھے اور انہوں نے كيا خدمات

انجام ديں ؟

۳_ حضرت عبدالمطلب (ع) كى بنيادركھى ہوئي روايات بيان كيجئے_

۴_ عام الفيل ميں كونسا واقعہ رونما ہوا اور پيغمبر خدا (ص) كے اجداد ميں كون سے جد كى زندگي

كے د وران پيش آيا ؟

۵_ پيغمبر اكرم (ص) كے والد كون تھے؟ ان كا كہاں اور كب انتقال ہوا؟

۶_ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى ولادت كب ہوئي اور اس وقت كيا واقعات رونما

ہوئے؟

۷_ پيغمبر (ص) كا زمانہ شير خوارگى كيسے گزرا؟

۵۰

حوالہ جات

۱_ السيرہ الحلبيہ ج ۱'ص ۱۶ اور لسان العرب ، لفظ ''قريش''_

۲_ السيرة النبويہ ' ابن ہشام ج ۱' ص ۱۳۰_

۳_تاريخ يعقوبى ' ج ۱ ' ص ۲۴۰_

۴_ السيرة النبويہ ج ۱ ص۱' ۲_

۵_ بحارالانوار ج ۱۵' ص ۱۰۵ ' ۲۸۰_

۶_ السيرة النبويہ ج۱ 'ص ۱۲۳ 'السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۳ و الكامل ج ۲ ص ۱۹_

۷_۸_۹ السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۳' ۷_

۱۰_ دارالندوہ دراصل قريش كى مجلس مشاورت تھى جسے حضرت قصى بن كلاب نے قائم كيا تھا_

۱۱_ السيرة الحلبيہ ، ج ۱ ص ۱۳_

۱۲_ الكامل فى التاريخ ج ۲ ص ۱۶_

۱۳_ السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۴ البتہ مترجم كے نزديك يہ بات ناقابل قبول ہے اس كى علت ديگر كتب ميں ملاحظہ ہو_

۱۴_ السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۵_

۱۵_ السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۵_

۱۶_ ان كى خدمات كى طرف اشارہ كرتے ہوئے كسى شاعر نے كيا خوب كہا ہے :

ہُوَالَّذي سَنَّ الرَّحيلَ لقَومہرحلَ الشّتَائ وَرحلَةَ الاَصْيَاف

وہ ہاشم ہى تھے جنہوں نے اپنى قوم ميں جاڑے اور گرمى كے دنوں ميں تجارتى سفر كرنے كى روايت پيدا كى _ (م-لاحظہ ہو انساب الاشراف ج۱ ' ص ۵۹)_

۱۷_يہ فلسطين كا شہر ہے جو عسقلان كے مغرب ميں واقع ہے _اس كے اور عسقلان كے درميان تقريباً دو فرسخ كا فاصلہ ہے_ ملاحظہ ہو معجم البلدان ج ۴ ص ۲۰۲_

۵۱

۱۸_ السيرة الحلبيہ ج ۱ ' ص ۶ معجم البلدان ج ۴ ' ص ۲۰۲_

۱۹_ السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۴_

۲۰_ بحارالانوار ج ۱۵' ص ۱۲۷_۱۲۹_

۲۱_ السيرة الحلبيہ ج۱ ' ص ۴ و تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۰_

۲۲_ بعض مورخين نے لكھا ہے كہ حمزہ اور حضرت عباس حضرت عبداللہ (ع) سے چھوٹے تھے _ ملاحظہ ہو:السيرة النبويہ ج ۱ ص ۱۶۱ حاشيہ منقول از روض الانف_

۲۳_ السيرة النبويہ ج ۱ ص ۱۶۱_

۲۴_كمال الدين و تمام النعمة ج ۱ ص ۱۷۵_

۲۵_ السيرة الحلبيہ ج ۱ ' ص ۴۹ '۵۰ _ حضرت عبداللہ (ع) كى قبر كچھ عرصہ قبل تك شہر مدينہ ميں مسجد النبى (ص) كے مغربى كنارے پر محفوظ تھى جسے آل سعود وہابى حكمرانوں نے شہيد كراديا اور اسے صحن مسجد ميں شامل كرليا_ اب يہ جگہ نمازيوں كى جائے نماز ہے_

۲۶_ بحارالانوار ج ۱۵' ص ۲۵۷_۲۵۸_

۲۷_ اس سلسلہ ميں اختلاف ہے _ اكثر مورخين نے لكھا ہے كہ آنحضرت (ص) كى ولادت حضرت عبداللہ كى رحلت كے دو ماہ بعد ہوئي ليكن بعض نے يہ بھى لكھا ہے كہ آنحضرت (ص) كى ولادت كے دو ماہ بعد حضرت عبداللہ نے وفات پائي اس كے علاوہ بھى مختلف اقوال ملتے ہيں _ملاحظہ ہو : السيرة حلبيہ ج ۱ ' ص ۴۹_ ۵۰ و كافى ج ۱ ص ۴۳۹_

۲۸_ السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۷۸_

۲۹_ پيغمبر اكرم (ص) كى ولادت سے پہ-لے ''ثويبہ'' آپ (ص) كے چچا حضرت حمزہ كو دودھ پلاچكى تھيں چنانچہ اس اعتبار سے حضرت حمزہ (ع) پيغمبر اكرم (ص) كے رضاعى بھائي بھى تھے_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۸۵ _ البتہ مترجم كے نزديك ثويبہ كے دودھ پلانے والى بات بھى ناقابل قبول ہے_

۳۰_ السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۷۳_

۳۱_ چار سال يا چھے سال بھى لكھى گئي ہے_ م-لاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۱ ص۹۳_

۵۲

۳۲_ يہ مكہ اور مدينہ كے درميان ايك قصبہ ہے جس كا حجفہ سے فاصلہ تقريبا ً ۲۳ ميل (۴۶ كلوميٹر) ہے ملاحظہ ہو :معجم البلدان ج ۱ ص ۷۹_

۳۳_ سورہ ضحى آيت۶_

۳۴_ السيرة النبويہ ج ۱ ص ۱۷۷_

۳۵_ مناقب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۳۶_۳۷_

۳۶_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۴_

۳۷_ نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۱۹۲ قاصعہ (صبحى صالح صفحہ ۳۰۰)_

۵۳

سبق ۴ :

رسالت كى جانب پہلا قدم

۵۴

شام۱ كى طرف پہلا سفر

رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے حضرت ابوطالب عليہ السلام كے گھر ميں منتقل ہونے كے بعدآپ(ص) كى زندگى كے ايك نئے باب كا آغاز ہوا يہ باب لوگوں سے ميل ملاپ اور مختلف قسم كے سفر اختيار كرنے سے شروع ہوا چنانچہ ان سفروں اور لوگوں سے ملاقاتوں كے ذريعے ہى حضرت محمد(ص) كا ذاتى جوہر اس تاريك و سياہ ماحول ميں كھلا اور يہيں سے آپ(ص) كو معاشرے نے ''امين قريش'' كہنا شروع كيا _

رسول خدا(ص) كى عمر بارہ سال تھى(۱) كہ آپ(ص) اپنے چچا حضرت ابو طالب كے ہمراہ (اس كاروان قريش كے ساتھ جو تجارت كے لئے ملك شام كى جانب جا رہا تھا) سفر پر روانہ ہوئے جس وقت يہ كارواں '' بُصرى ''(۲) پہنچا اور '' بَحيرا'' نامى عيسائي راہب دانشور(۳) نے اس كارواں كے لوگوں سے ملاقات كى تو اس كى نظر رسول خدا(ص) پر پڑى اس نے انجيل مقدس ميں پيغمبر آخر الزماں (ص) سے متعلق جو علامات پڑھى تھيں وہ تمام علامات اور نشانياں اسے نبى اكرم(ص) ميں نظر آئيں تو وہ آپ(ص) كو فورا پہچان گيا چنانچہ اس نے حضرت ابوطالب (ع) كو مستقبل ميں اپ(ص) كے نبى ہونے كى خوشخبرى دى اور اس كے ساتھ ہى اس نے يہ درخواست بھى كى كہ اس بچے كا خاص خيال ركھيں اس ضمن ميں اس نے مزيد كہا :

''ان(ص) كے بارے ميں جو كچھ ميں جانتا ہوں اگر وہى باتيں يہودى بھى جان ليں تو وہ

۵۵

گزند پہنچائے بغير نہ رہيں گے اس لئے بھلائي اسى ميں ہے كہ انھيں جتنى جلدى ہو سكے واپس مكہ لے جايئے ''_

حضرت ابوطالب(ع) نے اپنے كاروبار كے معاملات كو جلد از جلد نمٹايا اور مكہ واپس آگئے اور پورى طرح اپنے بھتيجے كى حفاظت و نگرانى كرنے لگے(۴) _

مستشرقين كى دروغ گوئي

راہب كى اس روايت كو اگر صحيح تسليم كربھى ليا جائے(۵) تو يہ تاريخ كا ايك معمولى ساواقعہ ہے _ ليكن بعض بدنيت مستشرقين نے اسے دستاويز بنا كر اس بات كو ثابت كرنے كى بھر پور كوشش كى ہے اور ان كا اس پر اصرار ہے كہ پيغمبر اكرم(ص) نے اپنى اس غير معمولى ذہانت كى بنا پر اس سفر كے دوران بحيرا عيسائي سے بہت سى باتيں سيكھيں اور چونكہ حافظہ بہت ہى طاقتور تھا انہيں اپنے ذہن ميں محفوظ ركھا اور اٹھائيس سال گزرنے كے بعد انہى تعليمات كو اپنے دين و آئين كى بنياد قرار ديا اور يہ كہہ كر لوگوں كے سامنے پيش كيا كہ يہ باتيں وحى كے ذريعے آپ(ص) پر نازل ہوئي ہیں ليكن پيغمبر اكرم(ص) كى سوانح حيات آپ(ص) كے دين و آئين كى الہامى خصوصيات نيز علمى و عقلى دلائل و براہين سے اس گمان كى نفى اور ترديد ہوتى ہے ذيل ميں ہم اس موضوع سے متعلق چند نكات بيان كريں گے :

۱_ عقل كى رو سے يہ بات بعيد ہے كہ ايك بارہ سالہ نوجوان جس نے كبھى مكتب اور مدرسہ كى شكل تك نہ ديكھى ہو وہ چند گھنٹوں كى ملاقات میں تورات اور انجيل جيسى كتابوں كى تعليمات سيكھ لے اور اٹھائيں سال بعد انہيں شريعت آسمانى (اسلام) كے نام سے پيش كرے

۵۶

۲_ اگر پيغمبر(ص) نے بحيرا سے كچھ باتيں سيكھ لى ہوتيں تو وہ يقينا قريش كے درميان پھيل گئي ہوتيں اور وہ لوگ جو كارواں كے ساتھ گئے تھے ضرور واپس آكر انہيں بيان كرتے اس كے علاوہ اس واقعے كے بعد رسول اكرم(ص) اپنى قوم كے افراد سے يہ نہيں فرماسكتے تھے كہ ميں امى ہوں _

۳_اگر تورات اور انجيل كا قرآن مجيدسے موازنہ كياجائے تو يہ بات واضح ہوجائے گى كہ قرآن كے مطالب اور مفاہيم ان دونوں كتابوں كے مطالب سے بہت مختلف ہيں_

۴_اگر عيسائي راہب كو اتنى زيادہ مذہبى و علمى معلومات حاصل تھيں تو وہ اپنے زمانے ميں مشہور كيوں نہ ہوا اور پيغمبر اكرم (ص) كے علاوہ كسى دوسرے كو اپنا علم كيوں نہ سكھايا ؟

شام كا دو سرا سفر

رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى صداقت، نجابت و شرافت ، امانت دارى اور اخلاق وكردار كى بلندى كا ہر شخص قائل تھا_

حضرت خويلد كى دختر حضرت خديجہ سلام اللہ عليہا بہت نيك سيرت اور شريف خاتون تھيں_ انہيں اپنے والد سے بہت سامال ورثے ميں ملا تھا وہ بھى مكہ كے بہت سے مردوں اور عورتوں كى طرح اپنے مال كے ذريعے تجارت كرتى تھيں جس وقت انہوں نے امين قريش كے اوصاف سنے تو انہوں نے رسول خدا (ص) كے سامنے يہ تجويز ركھى كہ اگر آپ ميرے سرمائے كے ذريعہ تجارت كرنے كيلئے ملك شام تشريف لے جائيں تو ميں جتنا حصہ دوسروں كو ديتى ہوں اس سے زيادہ حصہ آپ (ص) كو دونگي_

۵۷

رسول خدا (ص) نے اپنے چچا حضرت ابوطالب عليہ السلام سے مشورہ كرنے كے بعد حضرت خديجہ (ع) كى تجويز كو قبول كرليا اور آپ(ص) ان كے ''ميسرہ'' نامى غلام كے ہمراہ پچيس سال كى عمر ميں مال تجارت لے كر ملك شام كى طرف روانہ ہوئے_(۶)

كاروان تجارت ميں رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا با بركت وجود قريش كے تاجروں كےلئے نہايت ہى سودمند اور نفع بخش ثابت ہوا اور انہيں اميد سے زيادہ منافع ملا نيز رسول خدا (ص) كو سب سے زيادہ نفع حاصل ہوا ، سفر كے خاتمے پر ''ميسرہ'' نے سفر كى پورى روداد حضرت خديجہ (ع) كو بتائي اور آپ (ص) كے فضائل اور اخلاقى اوصاف و مكارم نيز كرامات كو تفصيل سے بيان كيا _(۷)

حضرت خديجہ سلام اللہ عليہا كے ساتھ شادي

حضرت خديجہ (ع) رشتے ميں پيغمبر اكرم (ص) كى چچازاد بہن لگتى تھيں اور دونوں كا شجرہ نسب جناب قصى بن كلاب سے جاملتا تھا، حضرت خديجہ (ع) كى ولادت و پرورش اس خاندان ميں ہوئي تھى جو دانا نسب كے اعتبار سے اصيل، ايثار پسند اور خانہ كعبہ كا حامي(۸) وپاسدار تھا اور خود حضرت خديجہ (ع) اپنى عفت وپاكدامنى ميں ايسى مشہور تھيں كہ دور جاہليت ميں بھى انہيں ''طاہرہ'' اور''سيدہ قريش'' كے لقب سے ياد كياجاتا تھا ، ان كيلئے بہت سے رشتے آئے اگر چہ شادى كے خواہشمند مہر ادا كرنے كےلئے كثير رقم دينے كيلئے تيار تھے مگر وہ كسى سے بھى شادى كرنے كيلئے آمادہ نہ ہوئيں_

جب رسول خدا (ص) ملك شام كے تجارتى سفرسے واپس مكہ تشريف لائے تو حضرت خديجہ (ع) نے پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں قاصد بھيجا اور آپ (ص) سے شادى كى خواہش كا اظہار كيا _(۹)

۵۸

رسول خدا (ص) نے اس مسئلے كو حضرت ابوطالب عليہ السلام اور ديگر چچائوں كے درميان ركھا اور جب سب نے اس رشتے سے اتفاق كيا تو آ پ (ص) نے حضرت خديجہ (ع) كے قاصد كو مثبت جواب ديا ، رشتے كى منظورى كے بعد حضرت ابوطالب عليہ السلام اور دوسرے چچا حضرت حمزہ نيز حصرت خديجہ (ع) كے قرابت داروں كى موجودگى ميں حضرت خديجہ (ع) كے گھر پر نكاح كى شايان شان تقريب منعقد ہوئي اور نكاح كا خطبہ دولہا اور دلہن كے چچائوں ''حضرت ابوطالب(ع) '' اور ''عمروابن اسد'' نے پڑھا_

جس وقت يہ شادى ہوئي اس وقت مشہور قول كى بنا پر رسول خدا (ص) كا سن مبارك پچيس سال اور حضرت خديجہ (ع) كى عمر چاليس سال تھي_(۱۰)

حضرت خديجہ (ع) سے شادى كے محركات

ہر چيز كو مادى نظر سے ديكھنے والے بعض لوگوں نے اس شادى كو بھى مادى پہلو سے ہى ديكھتے ہوئے يہ كہنا چاہا ہے :

''چونكہ حضرت خديجہ (ع) كو تجارتى امور كيلئے كسى مشہور و معروف اور معتبر شخص كى ضرورت تھى اسى لئے انہوں نے پيغمبر اكرم (ص) كو شادى كا پيغام بھيجا، دوسرى طرف پيغمبر اكرم (ص) يتيم ونادار تھے اور حضرت خديجہ (ع) كى شرافتمندانہ زندگى سے واقف تھے اسى لئے ان كى دولت حاصل كرنے كى غرض سے يہ رشتہ منظور كرليا گيا حالانكہ سن كے اعتبار سے دونوں كى عمروں ميں كافى فرق تھا''_

جبكہ اس كے برعكس اگر تاريخ كے اوراق كا مطالعہ كياجائے تو اس شادى كے محركات ميں بہت سے معنوى پہلو نظر آتے ہيںاس سلسلے ميں ہم يہاں پہلے پيغمبر خدا (ص) كى جانب

۵۹

سے اور بعد ميں حضرت خديجہ (ع) كى جانب سے شادى كے اسباب اور محركات كے بيان ميں ذيل ميں چند نكات بيان كريں گے:

۱_ ہميں پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى سارى زندگى زہد وتقوى ومعنوى اقدار سے پر نظر آتى ہے جو اس بات كى دليل ہے كہ آنحضرت (ص) كى نظر ميں دنياوى مال و دولت اور جاہ و حشم كى كوئي قدر وقيمت نہ تھى ، آپ (ص) نے حضرت خديجہ (ع) كى دولت كو كبھى بھى اپنے ذاتى آرام و آسائشے كى خاطر استعمال نہيں كيا _

۲_ اس شادى كى پيشكش حضرت خديجہ (ع) كى جانب سے كى گئي تھى نہ كہ رسول خدا (ص) كى طرف سے_

اب ہم يہاں حضرت خديجہ (ع) كى جانب سے اس شادى كے محركات بيان كرتے ہيں :

۱_ چونكہ كہ وہ بذات خود عفيف و پاكدامن خاتون تھيں اس لئے انہيں ايسے شوہر كى تلاش تھى جو متقى اور پرہيزگار ہو_

۲_ ملك شام سے واپس آنے كے بعد جب ''ميسرہ'' غلام نے سفر كے واقعات حضرت خديجہ (ع) كو بتائے تو ان كے دل ميں ''امين قريش'' كيلئے جذبہ محبت والفت بڑھ گيا البتہ اس محبت كا سرچشمہ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے ذاتى كمالات اور اخلاقى فضائل تھے اور حضرت خديجہ (ع) كو ان ہى كمالات سے تعلق اور واسطہ تھا_

۳_ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے شادى كرنے كے بعد حضرت خديجہ (ع) نے آپ (ص) كو كبھى سفر تجارت پر جانے كى ترغيب نہيں دلائي _ اگر انہوں نے يہ شادى اپنے مال و دولت ميں اضافہ كرنے كى غرض سے كى ہوتى تو وہ رسول اكرم (ص) كو ضرور كئي مرتبہ سفر پر روانہ كرتيں تاكہ بہت زيادہ مال و دولت جمع ہوسكے، بلكہ اس كے برعكس حضرت خديجہ (ع) نے اپنى دولت

۶۰