تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي18%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139797 / ڈاؤنلوڈ: 4392
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آنحضرت (ص) كے حوالے كردى تھى تاكہ اسے آپ (ص) ضرورت مند لوگوں پر خرچ كريں_

حضرت خديجہ (ع) نے رسول خدا (ص) سے گفتگو كرتے ہوئے شادى كى درخواست كے اصل محرك كو اس طرح بيان كيا ہے:'' اے ميرے چچا زاد بھائي چونكہ ميں نے تمہيں ايك شريف ،ديانتدار ، خوش خلق اور راست گو انسان پايا اسى وجہ سے ميں تمہارى جانب مائل ہوئي (اور شادى كے لئے پيغام بھيجا)''(۱۱)

پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے منہ بولے بيٹے

حضرت خديجہ (ع) سے رسول اكرم (ص) كى شادى كے بعد يك مرتبہ حضرت خديجہ (ع) كے بھتيجے حكيم بن حزام ملك شام سے اپنے ساتھ كچھ غلام لے كر آئے جن ميں ايك آٹھ سالہ لڑكا زيد ابن حارثہ بھى تھا، جس وقت حضرت خديجہ (ع) اس سے ملنے كےلئے آئيں تو حكيم نے ان سے كہا كہ پھوپى جان آپ (ع) ان غلاموں ميں سے جسے بھى چن ليں وہ آپ ہى كا ہوگا(۱۲) حضرت خديجہ (ع) نے زيد كو چن ليا_

جب رسول خدا (ص) نے زيد كو حضرت خديجہ (ع) كے پاس ديكھا تو آپ (ص) نے يہ خواہش ظاہر كى كہ يہ غلام مجھے دے دياجائے، حضرت خديجہ (ع) نے اس غلام كو پيغمبر اكرم (ص) كے حوالے كر دياپيغمبر اكرم (ص) نے اسے آزاد كركے اپنا منہ بولا فرزند (متبني) بناليا ليكن جب پيغمبر خدا (ص) پر وحى نازل ہونا شروع ہوئي تو قرآن نے حكم ديا كہ انہيں لے پالك فرزند نہيں صرف فرزند كہاجائے_

جب زيد كے والد ''حارثہ'' كو يہ معلوم ہوا كہ ان كا بيٹا شہر مكہ ميں رسول خدا (ص) كے گھر ميں

۶۱

ہے تو وہ آنحضرت (ص) كے پاس آيا اور كہا كہ ان كا بيٹا ان كو واپس دے ديا جائے اس پر آنحضرت (ص) نے زيد سے فرمايا:

''اگر چاہو تو ہمارے ساتھ رہو اور چاہو تو اپنے والد كے ساتھ واپس چلے جائو ''_

مگر حضرت زيد نے پيغمبر اكرم (ص) كے پاس ہى رہنا پسند كيا،بعثت كے موقع پر حضرت على عليہ السلام كے بعد وہ پہلے مرد تھے جو آنحضرت (ص) پر ايمان لائے_(۱۳)

رسول خدا (ص) نے پاك دامن اور ايثار پسند خاتون'' ام ايمن ''سے ان كا نكاح كرديا جن سے ''اسامہ'' كى ولادت ہوئي ، اس كے بعد آپ (ص) نے اپنے چچا كى لڑكى ''زينب بنت حجش'' سے ان كى شادى كردي_(۱۴)

حضرت على عليہ السلام كى ولادت

شہر مكہ كے اس تاريخ ساز عہد ميں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان ميں سے ايك حضرت على (ع) كى كعبہ ميں ولادت باسعادت تھى ، مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت على (ع) كى پيدائشے واقعہ عام الفيل كے تيس سال بعد ہوئي _(۱۵) خانہ كعبہ ميں اميرالمومنين حضرت على (ع) كى پيدائشے كا شمار آپ (ص) كے عظیم وممتاز فضائل ميں ہوتا ہے اس فضيلت كا نہ صرف شيعہ دانشوروں نے ذكر كيا ہے بلكہ اہل سنت كے محدثين و مورخين بھى اس كے معترف ہيں(۱۶) _

پيغمبر اكرم (ص) كے دامن ميں تربيت

حضرت على (ع) نے بچپن اور شير خوارگى كا زمانہ اپنے مہربان اور پاكدامن والدين حضرت

۶۲

ابوطالب عليہ السلام اور حضرت فاطمہ (ع) كى آغوش اور گھر ميں بسر كيا جہاں نور رسالت اور آفتاب نبوت تاباں تھا _ حضرت ابوطالب (ع) كے اس نونہال پر حضرت محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى شروع سے ہى خاص توجہ وعنايت رہى ، رسول اكرم (ص) چونكہ اكثر و بيشتر اپنے چچا كے گھر تشريف لے جايا كرتے تھے اسى لئے آپ (ص) نے حضرت على (ع) كے ساتھ محبت ومہربانى كے سلوك اور تربيت ميں كوئي دقيقہ فروگذاشت نہ كيا_

رسول خدا (ص) نے اسى پر ہى اكتفا نہ كى بلكہ حضرت على (ع) نے اپنى عمر كى جب چھ بہاريں ديكھ ليں(۱۷) تو آپ (ص) انہيں ان كے والدكے گھر سے اپنے گھر لے آئے اور بذات خود ان (ع) كى تربيت وسرپرستى فرمانے لگے_(۱۸)

پيغمبر اكرم (ص) كو حضرت على (ع) سے وہ شغف تھا كہ آپ (ص) انہيں اپنے سے ہر گز جدا نہيں كرتے تھے چنانچہ جب كبھى آپ (ص) عبادت كےلئے مكہ سے باہر غار حرا ميں تشريف لے جاتے حضرت على (ع) آپ (ص) كے ساتھ ہوتے_(۱۹)

رسول اكرم (ص) كے زير سايہ حضرت على (ع) كى جو تربيت ہوئي اس كى اہميت و قدر وقيمت كے بارے ميں خود حضرت على (ع) فرماتے ہيں :

(وَلَقَد عَلمتُم مَوضعي من رَسُوْل اللّه بالقَرَابَة القَريبَة وَاَلمَنزلَة الخَصيصَة وَضَعَني في حجره وَاَنَا وَلَدٌ يَضُمُّنيْ الى صَدره وَيَكنُفُني في فرَاشه وَيَمُسُّنيْ جَسَدَهْ وَيَشُمُّنيْ عَرفَهْ وَ كَانَ يَمضُغُ النَّبيُّ ثُمَّ يُلَقّينيْ وَلَقَد كُنْتُ اَتَّبعََهُ اتّبَاعَ الفَصيل اَثَرَاُمّه يَرفَعُ لي كُلَّ يَوم: منْ اَخلَاقَهُ عَلَماً وَيَامُرُنيَ بالاقتدَائ به )(۲۰)

۶۳

''يہ تو تم سب جانتے ہى ہو كہ رسول خدا (ص) كى مجھ سے كيسى قربت تھى اور آپ (ص) كى نظروں ميں ميرى كيا قدر ومنزلت تھى ، اس وقت جب ميں بچہ تھا آپ (ص) مجھے اپنى گود ميں جگہ ديتے اور سينے سے لگاتے ، مجھے اپنے بستر پر جگہ ديتے ، ميں آپ سے بغلگير ہوتا اور آپ(ص) كے جسم مبارك كى عطر آگيں بو ميرے مشام كو معطر كرديتى ، آپ (ص) نوالے چبا كر ميرے منہ ميں ركھتے ميں پيغمبر اكرم (ص) كے نقش قدم پر اس طرح چلتا جيسے شير خوار بچہ اپنى ماں كى پيروى كرتاہے، آپ (ص) ہر روز اپنے اخلاق كا نياپرچم ميرے سامنے لہراتے اور حكم فرماتے كہ ميں بھى آپ (ص) كى پيروى كروں''_

معبود حقيقى سے انس ومحبت

امين قريش نے اپنى زندگى كے تقريبا چاليس سال ان سختيوں اور محروميوں كے باوجود جو ہميشہ ان كے دامن گير رہيں نہايت صداقت ، شرافت، نجابت ، كردار كى درستى اور پاكدامنى كے ساتھ گزارے آپ (ص) نے اس عرصے ميں خدائے واحد كے علاوہ كسى كى پرستش نہيں كى اور انس عبادت اور معرفت خداوندى كو ہر چيز پر ترجيح دى چنانچہ يہى وجہ تھى كہ آپ (ص) ہر سال كچھ عرصہ جبل نور كے ''غارحرا'' ميں تنہا رہ كر عبادت خدا وند ى ميں گزارتے_

جناب اميرالمومنين حضرت على (ع) اس بارے ميں فرماتے ہيں :

(وَلَقَد كَانَ يُجَاورُ فيَ كُلّ سَنَة: بحرَائَ فَاَرَاهُ وَلَا يَرَاهُ غَيري )(۲۱)

''رسول خدا (ص) ہر سال كچھ عرصے كيلئے حرا ميں قيام فرماتے اس وقت ميں ہى انہيں ديكھتا ميرے علاوہ انہيں كوئي نہيں ديكھتا تھا''_

پيغمبر اكرم (ص) كے آباء و اجداد بھى سب ہى توحید پرست تھے اور سب ان آلودگيوں سے

۶۴

دور تھے جن ميں لوگوں كى اكثريت ڈوبى ہوئي تھي_

اس بارے ميں حضرت علامہ مجلسى فرماتے ہيں:

شيعہ اماميہ كا اس بات پر اتفاق ہے كہ رسول خدا (ص) كے والدين اور آباء و اجداد مسلمان ہى نہيں بلكہ سب صديقين ميں سے تھے وہ يا تو نبى مرسل تھے يا معصوم اوصيا، ان ميں سے بعض تقيہ كى وجہ سے يا مذہبى مصلحتوں كى بنا پر دين اسلام كو ظاہر نہيں كرتے تھے_(۲۲)

رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا ارشادہے:

(لَم اَزَل اُنقَلُ من اَصلَاب الطَّاهرينَ الى اَرحَام المُطَهَّرَات )(۲۳)

''ميں مسلسل پاك شخصيات كے صلب سے پاكيزہ خواتين كے رحم ميں منتقل ہوتا رہا ''_

۶۵

سوالات

۱_رسول خدا (ص) نے ملك شام كا پہلا سفر كب كيا اور وہاں كيا واقعہ پيش آيا ؟

۲_بحيرا نے حضرت ابوطالب (ع) كو رسول خد ا(ص) كے بارے ميں كيا ہدايت كى تھيں؟

۳_ مستشرقين نے رسول خدا (ص) كى بحيرا سے ملاقات كو كس پيرائے ميں پيش كيا ان

كى بے دليل تاويلات كے بارے ميں مختصر طور پر اظہار خيال كيجئے؟

۴_ رسول خدا (ص) نے ملك شام كا دوسرا سفر كس وجہ سے كيا اور اس سفر سے آپ (ص) كو كيا

نتيجہ حاصل ہوا؟

۵_حضر ت خديجہ (ع) كى رسول خدا (ص) سے شادى كس سال ہوئي، حضرت خديجہ (ع) نے

اس شادى كى پيشكش كس وجہ سے كى خود ان كے اقوال كى روشنى ميں سوال كا

جواب ديجئے؟

۶_ حضرت زيد اپنے والد كے ہمراہ كيوں نہ گئے اور رسول خدا (ص) كے ساتھ كس وجہ

سے رہنا پسند كيا ؟

۷_ پيغمبر خدا (ص) نے كس طرح حضرت على (ع) كى تربيت فرمائي' حضرت على (ع) كے اقوال كي

روشنى ميں جواب ديجئے؟

۸_ نزول وحى سے قبل پيغمبر اكرم (ص) كا كيا دين ومسلك تھا؟

۶۶

حوالہ جات

۱_پيغمبرا كرم(ص) كس سن ميں سفر پر روانہ ہوئے اس كے بارے ميں اختلاف ہے بعض نے سفر كے وقت آپ (ص) كى عمر نو سال كچھ مورخين نے بارہ اور تيرہ سال بھى لكھى ہے ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۱۷ و مروج الذہب ج ۲ ص ۲۷۵_

۲_يہ شہر دمشق كى سمت واقع ہے اور ''حوران ''كا مركز شمار كياجاتا ہے_ (معجم البلدان ج ۱ ص ۴۴۱ و ج ۲ ص ۳۱۷)_

۳_بعض مورخين نے اسے''تَيمائ'' كا يہودى عالم لكھا ہے ، ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۱۸_

۴_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۱۹ والسيرة النبويہ ج ۱ ص ۱۹۳ و ۱۹۴_

۵_بعض مورخين اور صاحب نظر محققين نے ان شواہد و قرائن كى بنياد پر جو اس روايت ميں موجود ہيں اس كى صحت پر شك وترديد كا اظہار كيا ہے ان كى رائے ميں يہ دشمنان اسلام كے ذہن كى اختراع ہے ، ان نظريات كے بارے ميں مزيد اطلاع حاصل كرنے كيلئے ملاحظہ ہو الصحيح من السيرة النبي(ص) ' ج ۱ 'ص ۹۱ و ۹۴ و تاريخ تحليلى اسلام تاليف رسول محلاتى ج ۱ ص ۲۷۲_

۶_يعقوبى نے اپنى تاريخ (ج ۲ ص ۲۱) ميں لكھا ہے كہ : ''رسول خدا (ص) نے اپنى زندگى ميں كبھى اجرت پر كام نہيں كيا''، اس كے قول كو مد نظر ركھتے ہوئے يہاں يہ كہنا پڑے گا كہ پيغمبر اكرم (ص) كى حضرت خديجہ (ع) كے ساتھ تجارت ، شراكت كى بنياد پر تھى اور انہوں نے اپنا مال بطور شريك تجارت آنحضرت (ص) كى تحويل ميں ديا تھا_

۷_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص۱۳۲ _ ۱۳۵_

۸_مثال كے طور پر جب يمن كے بادشاہ تبع نے حجر اسود كو مكہ سے يمن لے جانے كا عزم كيا تو حضرت خديجہ (ع) كے والد خويلد نے اپنى سعى و كوشش سے تبع كو اس ارادے سے باز ركھا ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۱ ص۱۳۸_

۹_ تاريخ كى بعض كتابوں ميں آيا ہے كہ حضرت خديجہ (ع) نے براہ راست پيغمبر اكرم (ص) كو شادى كا پيغام بھيجا ملاحظہ ہو سيرہ ابن اسحاق ص ۶۰_

۶۷

۱۰_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۳۷ _ ۱۳۹_

۱۱_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۲۷۱_

۱۲_حلبى نے لكھا ہے كہ حضرت خديجہ(ع) نے اپنے بھتيجے سے كہہ ركھا تھا كہ ايك اچھا سا عرب غلام خريد كر ان كےلئے ليتے آئيں (السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۲۷۱)_

۱۳_السيرة النبويہ ج ۱ ص ۲۶۴_۲۶۵_

۱۴_يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت زينب نے كچھ عرصہ بعد زيد سے طلاق لے لى تو پيغمبر اكرم (ص) نے خدا كے حكم سے ان كے ساتھ نكاح كرليا_ چنانچہ سورہ احزاب كى آيات ۳۶_۳۷ _۳۸ ميں اس امر كى جانب اشارہ كيا گيا ہے_

۱۵_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۳۹ _

۱۶_علمائے اہل سنت كے نظريات اور اقوال جاننے كيلئے ملاحظہ ہو: كتاب (الغدير) ج ۲ ص ۲۱ _۲۳_

۱۷_مناقب ابن شہر آشوب ج ۲ ص ۱۸۰ نيز بعض كتب ميں ايك ضعيف قول لكھا ہے كہ اس وقت حضرت على (ع) كى عمر آٹھ سال تھى _ ملاحظہ ہو سير ةالائمہ اثنا عشر ج ۱ ص ۱۵۵_

۱۸_مورخين نے نقل مكانى كى يہ وجہ بتائي ہے كہ : ايك مرتبہ قريش سخت قحط سالى كا شكار ہوگئے ، حضرت ابوطالب (ع) چونكہ كثير العيال تھے اس لئے پيغمبر اكرم (ص) كى تجويز پر يہ طے ہوا كہ ان كے برادر ى كے لوگوں ميں سے ہر ايك كسى ايك بچے كى پرورش و نگہداشت كى ذمہ دارى قبول كرے اسى وجہ سے پيغمبرا كرم (ص) نے حضرت على (ع) كى پرورش اپنے ذمہ لى ملاحظہ ہو السيرة النبويہ ج ۱ ص ۲۶۲ و كامل ابن اثير ج ۲ ص ۵۸ _ ليكن نقل مكانى كى يہ وجہ معقول نظر نہيں آتى بالخصوص اس حالت ميں جب حضرت على (ع) كے سن مبارك كو نظر ميں ركھاجائے_شايد اس قدر بڑھا كر بيان كرنے كا سبب يہ تھا كہ رسول خدا (ص) كے اس عظيم كارنامے كو كم كر كے پيش كياجائے البتہ يہ كہا جاسكتاہے كہ آپ (ص) نے قحط سالى كو بہانہ بنايا اور چونكہ اس بچے كے تابناك مستقبل سے آپ (ص) واقف تھے اسى لئے طے شدہ دستورالعمل كے تحت آپ (ص) حضرت على (ع) كو اپنے گھر لے آئے ، اس ميں شك نہيں كہ حضرت على (ع) اپنى والد كے سب سے چھوٹے فرزند تھے اور اس وقت آپ (ص) كى عمر چھ سال سے زيادہ نہ تھى ، چھ سال كے بچے كا خرچ اتنا نہيں ہوتا كہ باپ اسے برداشت نہ كرسكے اور

۶۸

باپ بھى كيسا جس كى اپنى برادرى ميں اعلى مرتبہ كى وجہ سے عزت تھى اور انہيں (شيخ الابطح) كہاجاتا تھا_

۱۹_تاريخ طبرى ج ۲ ص ۲۱۳ و شرح ابن حديد ج ۳ ص ۱۱۹_

۲۰_نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ (۱۹۲ )_اس خطبے ميں امام كے الفاظ اس بات كو بيان كررہے ہيں كہ آپ (ع) پر شير خوارگى كے زمانہ سے ہى پيغمبراكرم (ص) كى توجہ مركوز تھى اور ان كى زير تربيت تھے كيونكہ لقمہ چبانا اور منہ ميں ركھنا بچے ہى سے متعلق ہے_

۲۱_نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ (۱۹۲)_

۲۲_بحارالانوار ج ۱۵ ص ۱۱۷_

۲۳_ايضا ص ۱۱۸_

۶۹

سبق ۵:

مكہ ميں اسلام كى تبليغ اورقريش كا رد عمل

۷۰

بعثت (نزول وحي)

خداوند تعالى كى عبادت و پرستش ميںرسول اكرم (ص) كو چاليس سال گزرچكے تھے _ايك مرتبہ جب آپ (ص) غار حرا ميں اپنے معبود حقيقى سے راز و نياز اور عبادت ميں مصروف تھے اس وقت آپ (ص) رسالت پر مبعوث ہوئے ، حضرت جبرئيل امين (ع) آپ (ص) كے پاس آئے اوراولين آيات الہى كى تلاوت كى :

بسم اللّه الرَّحمن الرَّحيم

( اقرَائ باسم رَبّكَ الَّذي خَلَقَ خَلَقَ الانسَانَ من عَلَق: اقرَائ وَ رَبُّكَ الَاكرَمُ الَّذى عَلَّمَ بالَقَلَم عَلَّمَ الانسَانَ مَالَم يَعلَم ) _(۱)

''اپنے پروردگار كا نام لے كر پڑھو كہ جس نے انسان كو جمے ہوئے خون سے پيدا كيا _ پڑھو كہ تمہارا پروردگار بڑا كريم ہے ، جس نے قلم كے ذريعہ تعليم دى ہے اور انسان كو وہ سب كچھ سكھاديا جو وہ نہيں جانتا تھا''_

رسول اعظم(ص) نے جب يہ آيت مباركہ سنى اور خداوند تعالى كى جانب سے پيغمبرى كى خوشخبرى ملى نيز آپ (ص) نے مقام كبريائي كى عظمت و شان كا مشاہدہ كيا تو اس نعمت عظمى كو حاصل كرنے كے بعد آپ (ص) نے اپنے وجود مبارك ميں مسرت و شادمانى محسوس كى چنانچہ

۷۱

آپ (ص) غار سے باہر تشريف لائے اور حضرت خديجہ(ع) كے گھر كى جانب روانہ ہوگئے_(۲)

راستے ميں جتنى پہاڑياں اور چٹانيں تھيں وہ سب كى سب قدرت حق سے گويا ہوگئي تھيں اور پيغمبر خدا (ص) كا ادب و احترام بجالاتے ہوئے''اَلسَلَامُ عَلَيكَ يَا نَبيَّ اللّه'' كہہ كر آپ (ص) سے مخاطب ہوہى تھيں_(۳)

شيعہ محدثين اور مورخين كے مشہور نظريے كى رو سے واقعہ ''عام الفيل'' كے چاليس سال گزر جانے كے بعد ۲۷ رجب پير كے دن رسول (ص) خدا مبعوث بہ رسالت ہوئے(۴) _

سب سے پہلے اسلام لانے والے

رسو ل خدا (ص) غار حرا سے گھر تشريف لے گئے اور آپ (ص) نے نبوت كا اعلان كرديا، سب سے پہلے آپ (ص) كے چچازاد بھائي حضرت على عليہ السلام نے آپ (ص) كى تصديق كى اور عورتوں ميں سب سے پہلے آپ (ص) كى زوجہ مطہرہ حضرت خديجہ(ع) تھيں جنہوں نے آپ (ص) كے پيغمبر (ص) ہونے كى تصديق كى ، اہل سنت كے اكثر و بيشتر مورخين بھى اس بات سے متفق ہيں_(۵)

اس سلسلے ميں چند روايات ملاحظہ ہوں:

۱_ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم

(هذَا اَوَّلُ مَن آمَنَ بي وَصَدَّقَّني وَصَلَّى مَعي )(۶)

يہ (على (ع)) وہ پہلا شخص تھا جو مجھ پر ايمان لايا ، ميرى تصديق كى اور ميرے ساتھ نماز ادا كي_

۷۲

۲_ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم

اَوَّلُكُم وَارداً عَلَيَّ الحَوضَ و اَوَّلُكُم اسلَاماً ، عَليُّ ابنُ اَبى طَالب :(۷)

تم ميں سب سے پہلے حوض كوثر كے كنارے مجھ سے ملاقات كرنے والا تم ميں سابق الاسلام على ابن ابى طالب عليہ السلام ہے_

۳_ حضرت على عليہ السلام

اَللّهُمَّ انّي اَوَّلُ مَن اَنَابَ وَ سَمعَ وَاَجَابَ ، لَم يَسبَقني الّا رَسُوْلُ اللّه صَلَّى اللّهُ عَلَيْه و آله (۸)

بارالہا ميں وہ پہلا شخص ہوں جو دين كى طرف آيا ، اسے سنا اور قبول كيا ، پيغمبر اكرم (ص) كے علاوہ كسى شخص نے نماز ميں مجھ سے سبقت حاصل نہيں كي_

دعوت كا آغاز

رسول اكرم (ص) غار حرا سے نكل كر جب گھر ميں داخل ہوئے تو آپ (ص) نے بستر پر آرام فرمايا، ابھى آپ (ص) اسلام كے مستقبل اورتبليغ دين كى كيفيت كے بارے ميں سوچ ہى رہے تھے كہ سورہ مدثر نازل ہوا(۹) اور اللہ نے اپنے رسول (ص) كو اٹھ كھڑے ہونے اور ڈرانے (تبليغ دين كرنے) پر مامور كيا چنانچہ اس طرح پيغمبر اكرم (ص) نے دعوت حق كا آغاز كيا، اس دعوت كے تين مرحلے تھے ، خفيہ دعوت' رشتہ داروں كو دعوت اور عام لوگوں كو دعوت_

۷۳

الف _ خفيہ دعوت

دعوت حق كے اس مرحلے كى مدت مورخين نے تين سے پانچ سال لكھى ہے _(۱۰) مشركين كى سازش سے محفوظ رہنے كيلئے رسول اكرم (ص) كو حكم ملا كہ عوام پر توجہ دينے كى بجائے لوگوں كو فرداً فرداً دعوت حق كيلئے تيار كريں اور پوشيدہ طور پر باصلاحيت لوگوں سے ملاقات كركے ان كے سامنے اللہ كا دين پيش كريں چنانچہ آپ (ص) كى جدو جہد سے چند لوگ اسلام لے آئے مگر ان كى ہميشہ يہى كوشش رہى كہ اپنے دين كو مشركين سے پوشيدہ ركھيں اور فرائض عبادت لوگوں كى نظروں سے دور رہ كر انجام ديں_

جب مسلمانوں كى تعداد ميں اضافہ ہوا اور تعداد تيس تك پہنچ گئي تو رسول خدا (ص) نے''ارقم'' نامى مسلمان صحابى كے گھر كو ، جو صفا كے دامن ميں واقع تھا ، تبليغ اسلام اور عبادت خداوند تعالى كا مركز قرار ديا ، آپ (ص) اس گھر ميں ايك ماہ تك تشريف فرما رہے يہاں تك كہ مسلمانوں كى تعداد چاليس افراد تك پہنچ گئي(۱۱) _

قريش كا رد عمل

اگر چہ قريش كو كم وبيش علم تھا كہ رسول خدا (ص) كى پوشيدہ طور پر دعوت دين حق جارى ہے ليكن انہيں اس تحريك كى گہرائي سے واقفيت نہ تھى اور اس طرف سے كوئي خطرہ محسوس نہيں كرتے تھے اس لئے انہوں نے اس جانب كوئي توجہ نہ كى اور اس پر كسى بھى رد عمل كا اظہار نہيں كرتے تھیمگر اس كے ساتھ ہى وہ اپنے گردو پيش كے ماحول سے بھى بے خبر نہ تھے چنانچہ وہ ان واقعات كى كيفيت ايك دوسرے سے بيان كرتے رہتے تھے ، رسول خدا (ص) نے اس سنہرى موقعہ سے نہايت فائدہ اٹھايا اور اس عرصے ميں آپ (ص) نے جماعت حق ''حزب اللہ'' كى داغ بيل ڈال دى _

۷۴

ب_ اعزاء و اقرباء كو دعوت

دعوت كا يہ مرح-لہ اس آيت مباركہ كے نزول كے ساتھ شروع ہوا :

( وَاَنذر عَشيرَتَكَ الاَقرَبينَ ) (۱۲)

اپنے رشتہ داروں كو عذاب الہى سے ڈرائو_

پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے حضرت على عليہ السلام كو كھانے كا انتظام كرنے پر مامور كيا اور آنحضرت(ص) نے اپنے عزيز و اقارب كو كھانے پر بلايا تاكہ خداوند تعالى كا پيغام ان تك پہنچاديں_

تقريباً چاليس يا پينتاليس آدمى آپ (ص) كے دسترخوان پر جمع ہوئے_(۱۳) رسول (ص) خدا ابھى لوگوں سے گفتگو كرنا ہى چاہتے تھے كہ ابولہب نے غير متعلقہ باتيں شروع كرديں اور آپ (ص) پر سحر و جادو گرى كا الزام لگا كر محفل كو ايسا درہم برہم كيا كہ اس ميں اصل مسئلے كو پيش نہ كياجاسكا_

اگلے روز آپ (ص) نے دوبارہ لوگوں كو كھانے پر مدعو كيا جب لوگ كھانے سے فارغ ہوگئے تو رسول خدا (ص) اپنى جگہ سے اٹھے اور تقرير كے دوران فرمايا كہ :

''اے عبدالمطلب كے بيٹو خدا كى قسم مجھے قوم عرب ميں ايك بھى ايسا جوان نظر نہيں آتا جو اپنى قوم كے لئے اس سے بہتر چيز لے كر آيا ہو جسے ميں اپنى قوم كےلئے لے كر آيا ہوں، ميں تمہارے لئے دنيااور آخرت كى خير (بھلائي) لے كر آيا ہوں ، خداوند تعالى نے مجھے اس كام پر مامور كيا ہے كہ ميں تمہيں اس كى طرف دعوت دوں ، تم ميں سے كون ايسا

۷۵

شخص ہے جو ميرى اس كام ميں مدد كرے تاكہ وہ تمہارے درميان ميرا بھائي ، وصى اور جانشين بن سكے؟آخرى الفاظ كچھ اس طرح ہيں:

(فَاَيُّكُم يُوَازرُني عَلى هذَا الَامر عَلى اَن يَكُوُنَ اَخي وَوَصيّي وَ خَليفَتي؟)

رسول خدا (ص) نے تين مرتبہ اپنى بات دہرائي اور ہر مرتبہ حضرت على عليہ السلام ہى اپنى جگہ سے اٹھ كر كھڑے ہوئے اور اعلان كيا كہ ميں آپ (ص) كى مدد اور حمايت كروں گا، اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا :

(انَّ هذ َا اَخي وَ َوصيّي وَ خَليفَتي فيكُمَ فَاسمَعُوا لَهُ وَاَطيَعُوه ) (۱۴)

يہ على (ع) تمہارے درميان ميرے بھائي، وصى اور خليفہ ہيں ان كى بات سنو اور اطاعت كرو_

اس نشست ميں رسول خدا (ص) نے جو تقرير كى اس سے مسئلہ ''امامت '' كى اہميت واضح ہوجاتى ہے اور يہ بات ثابت ہوتى ہے كہ اصل ''نبوت'' كو ''امامت'' سے جدا نہيں كيا جاسكتا _

پہلے عزيز و اقارب ہى كيوں ؟

مندرجہ بالا سوال كے جواب ميں يہ كہاجاسكتا ہے كہ عمومى دعوت سے قبل عقل و دانش كى رو سے عزيز و اقارب كو ہى دعوت دى جانى چاہئے كيونكہ حقيقت يہ ہے كہ رسول خدا (ص) كا يہ اقدام انتہائي حساس مرحلے اور خطرناك حالات ميں، دعوت حق كى بنيادوں كو استوار كرنے كا بہترين ذريعہ تھا كيونكہ :

۷۶

۱_عزيز و اقارب كو اپنى جانب مائل كركے ہى پيغمبر اكرم (ص) دشمنان اسلام كے خلاف طاقتور دفاعى محاذ قائم كرسكتے تھے ، اس كے علاوہ كچھ اور نہيں تو كم از كم اتنا فائدہ تو تھا ہى كہ اگر ان كے دل آپ (ص) كے دين كى طرف مائل نہ بھى تو بھى رشتہ دارى اور قرابت كے تقاضوں كے مطابق وہ لوگ آنحضرت (ص) كے تحفظ و دفاع كيلئے اٹھ كھڑے ہوں_

۲_اس كا م سے رسول اللہ (ص) نے اپنى داخلى تشكيلات ميں موجود خوبيوں ، خاميوں اور كمزوريوںكا خوب اندازہ لگاليا ، آپ (ص) مخالف اور ہٹ دھرم قوتوں سے خوب واقف ہوگئے_

ج_عام دعوت حق

رسول خدا (ص) نے دعوت كے تيسرے مرحلے ميں اپنى تبليغ كو وسعت دى اور پہلى محدوديت كو ختم كردياارشاد خداوندى ہوا:

( فَاصدَع بمَا تُؤمَرُ وَأَعرض عَن المُشركينَ_ إنَّا كَفَينَاكَ المُستَهزئينَ ) (۱۵)

''پس اے پيغمبر (ص) جس چيز كا حكم دياجارہا ہے اسے آشكارا بيان كرو اور شرك كرنے والوں كى ذرا برابر پروا نہ كرو ،(تمہارى طرف سے) ہم ان مذاق اڑانے والوں كى خبر لينے كيلئے كافى ہيں_''

ان آيات كے نزول كے بعد آپ (ص) سب لوگوں كو دين اسلام قبول كرنے كى دعوت دينے پر ما مور ہوئے، چنانچہ اس مقصد كى خاطر آپ(ص) كوہ صفا پر تشريف لے گئے اور اس جم غفير كے سامنے جو اس وقت وہاں موجود تھا آپ (ص) نے اس تمہيد كے ساتھ تقرير شروع كى :

۷۷

''اگر ميں يہ كہوں كہ اس پہاڑ كے پيچھے تمہارى گھات ميں دشمن بيٹھا ہوا ہے اور تمہارے لئے اس كا وجود سخت خطرے كا باعث ہے تو كيا تم ميرى بات كا يقين كرو گے؟'' سب نے يك زبان ہو كر كہا كہ ہاں ہم آپ (ص) كى بات كا يقين كريں گے كيونكہ ہم نے آپ (ص) كى زبان سے اب تك كوئي جھوٹى بات نہيں سنى ہے ، يہ سننے كے بعد آپ (ص) نے فرمايا :

( فَانّى نَذيرٌ لَكُم بَينَ يَدَي عَذَاب: شَديد: ) _

اب(جب كہ تم نے ميرى راست گوئي كى تصديق كردى ہے تو) ميں تمہيں بہت ہى سخت عذاب سے آگاہ و خبردار كر رہا ہوں_

رسول خدا(ص) كى يہ بات سن كر ابولہب بول اٹھا اور كہنے لگا:

'' تمہارا براہو كيا تم نے يہى بات كہنے كيلئے ہميں يہاں جمع كيا تھا ''_

خداوند تعالى نے اس گستاخ كى تنبيہہ كرنے اور اس كا معاندانہ چہرہ برملا كرنے كى خاطر يہ سورت(۱۶) نازل فرمائي(۱۷)

بسم الله الرَّحمن الرَّحيْم

( تَبَّت يَدَا أَبى لَهَب: وَتَبَّ (۱) مَا أَغنَى عَنهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ (۲) سَيَصلى نَارًا ذَاتَ لَهَب: (۳) وَامرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الحَطَب (۴) فى جيدهَا حَبلٌ من مَسَد: ) (۵)

''ابولہب كے ہاتھ ٹوٹ جائيں نہ اس كا مال اس كے كام آيا اور نہ كمايا ہوا ، عنقريب اُسے آگ ميں ڈالاجائے گا اور اس كى بيوى لكڑى ڈھونے والى كو ، جس كے گلے ميں بٹى ہوئي رسى ہے''

۷۸

قريش كا رد عمل

پيغمبر اكرم (ص) كى نبوت كى خبر جيسے ہى مكہ ميں پھيلى اُسى وقت سے ہى قريش كے اعتراضات شروع ہوگئے، جب انہوں نے محسوس كيا كہ يہ مسئلہ سنگين صورت اختيار كر گيا ہے اور حضور(ص) كى تحريك ان كے خس وخاشاك جيسے دينى عقائد اور مادى مفادات كيلئے خطرہ ہے تو انہوں نے آپ (ص) كے آسمانى دين (اسلام) كے خلاف محاذ بناليااور آپ(ص) كى مخالفت پر كمربستہ ہوگئے يہاں ہم ان كى بعض ناكام كوششوں كا ذكر كرتے ہيں:

الف _مذاكرہ

مشركين قريش كى شروع ميں تو يہى كوشش رہى كہ وہ حضرت ابوطالب (ع) اور بنى ہاشم كے مقابلے پر نہ آئيں بلكہ انہيں مجبور كريں كہ وہ پيغمبر اكرم (ص) كى حمايت وپشت پناہى كے اپنے موقف سے دست بردار ہوجائيں تاكہ وہ آسانى سے رسول اكرم (ص) كى سركوبى كرسكيں_

اس مقصد كے حصول كيلئے انہوں نے پہلے تو يہ كوشش كى كہ حضرت ابوطالب (ع) كو يہ كہنے پر مجبور كرديں كہ ان كے بھتيجے كى تحريك نہ صرف ان (مشركين قريش) كيلئے مضر ہے بلكہ قوم و برادرى ميںحضرت ابوطالب (ع) كوجو عزت وحيثيت حاصل ہے اس كيلئے بھى خطرہ پيدا ہوگيا_

مشركين قريش نے خوبرو ، تنو مند اور وجيہہ جوان شاعر عمارة بن وليد بن مغيرہ كو حضرت ابوطالب (ع) كى فرزندى ميں دينے كى كوشش كى تاوہ كہ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى حمايت سے دست بردار ہوجائيں اور آپ (ص) كو ان كے حوالے كرديں _(۱۸)

حضرت ابوطالب عليہ السلام نے ان كى ہر بات كامنفى جواب ديا اور رسول خدا (ص) كى حمايت سے دست بردار ہونے سے كسى بھى قيمت پر آمادہ نہ ہوئے_

۷۹

ب_ لالچ

سرداران قريش جب پہلے مرحلے ميں شكست و ناكامى سے دوچار ہوئے تو انہوں نے فيصلہ كيا كہ چراغ نبوت كو خاموش كرنے كيلئے رسول(ص) خدا كو مال ودولت كا لالچ ديا جائے چنانچہ اس مقصد كے تحت پہلے وہ حضرت ابوطالب (ع) كے پاس پہنچے اور يہ شكوہ و شكايت كرتے ہوئے كہ ان كے بھتيجے (حضرت محمد (ص)) نے ان كے بتوں كے خلاف جو رويہ اختيار كيا ہے وہ سخت نازيبا ہے،يہ پيشكش كى كہ اگر حضرت محمد (ص) ہمارے بتوں كى مخالفت سے دستبردار ہوجائيں تو ہم انہيں دولت سے مالا مال كرديں گے ،ان كى اس پيشكش كے بارے ميں رسول خدا (ص) نے جواب ديا :

خداوند تعالى نے مجھے دنيا پرستى اور زراندوزى كيلئے انتخاب نہيں كيا ہے بلكہ مجھے منتخب كياگيا ہے كہ لوگوں كو اللہ كى جانب آنے كى دعوت دوں اور اس مقصد كيلئے ان كى رہنمائي كروں_(۱۹)

يہ بات آپ (ص) نے دوسرى جگہ ان الفاظ ميں بيان فرمائي:

''چچا جان خدا كى قسم اگر سورج كو ميرے دائيں ہاتھ ميں اور چاند كو بائيں ہاتھ ميں ركھ ديں تو بھى ميں رسالت الہى سے دست بردار ہونے والا نہيں ، اس تحريك خداوندى كو فروغ دينے كيلئے ميں جان كى بازى تو لگا سكتا ہوں مگر اس سے دستبردار ہونے كيلئے تيار نہيں ''_(۲۰)

سرداران قريش نے اگلے مرحلے پر يہ فيصلہ كيا كہ وہ براہ راست پيغمبر اكرم (ص) سے گفتگو كريں چنانچہ اس مقصد كے تحت انہوں نے اپنا نمائندہ آپ (ص) كى خدمت ميں روانہ كيا اور آپ (ص) كواپنى محفل ميں آنے كى دعوت دى جب رسول خدا (ص) ان لوگوں ميں پہنچ گئے تو كفار

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

جملہء شرطیہ میں ”فائے تفریع“

ایک اورنکتہ جو”اولوالامر“کے معنی کو ثابت کرنے کے لئے بہت مؤثرہے وہ جملہئ شرطیہ میں اطیعو اللّٰہ واطیعوالرّسول واولی الامر کے بعد”فائے تفریع“کا پایا جا نا ہے۔

یہ جملہء شرطیہ یوں ایاہے:( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه و رسول ) اختلافی مسائل کوخدائے متعال اوررسول (ص)کی طرف پلٹانے کاوجوب،خدا،رسولاوراولی الامرکی اطاعت کے وجوب پرمتفرع ہواہے،اوراس بیان سے بخوبی سمجھ میں آتاہے کہ اختلافی مسائل کوخدااوررسول (ص)ی طرف پلٹانے میں اولوالامرکی اطاعت دخالت رکھتی ہے۔یہ تفریع دوبنیادی مطلب کی حامل ہے:

۱ ۔اولوالامرکی عصمت :اس لحاظ سے کہ اگراولوالامرخطااورگناہ کامرتکب ہو گااور اختلافی مسائل میں غلط فیصلہ دے گا تواس کے اس فیصلہ کاکتاب وسنت سے کوئی ربط نہیں ہوگاجبکہ تفریع دلالت کرتی ہے کہ چونکہ اولی الامرکی اطاعت ضروری ہے لہذا چاہیئے کہ،اختلافی مسائل کوخدااوررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف پلٹا یا جائے۔

۲ ۔کتاب وسنت کے بارے میں کامل ووسیع معلو مات:اس لحاظ سے اگراولی الامر کتاب وسنت کے ایک حکم سے بھی جاہل ہواوراس سلسلہ میں غلط حکم جاری کرے تواس حکم میں اس کی طرف رجوع کرناگویاکتاب وسنت کی طرف رجوع نہ کرنے کے مترادف ہے۔جبکہ”فائے تفریع“سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ اولی الامرکی اطاعت مسلسل اختلافی مسائل کوکتاب وسنت کی طرف پلٹانے کاسبب ہے۔اس لئے آیہء شریفہ میں فائے تفریع، کاوجوداولی الامر کے تعین کے لئے کہ جس سے مرادائمہ معصومین (ع)واضح قرینہ ہے۔

۱۰۱

مذکورہ نکات سے استفادہ کی صورت میں اب تک درج ذیل چندمطالب واضح ہوگئے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں ”اولی الامر“سے مرادجوبھی ہیں ان کاامرونہی کر نے میں گناہ اورخطاسے معصوم ہونا ضروری ہے۔

۲ ۔اولی الامرکا انطباق اہل حل وعقدپر صحیح ودرست نہیں ہے۔)جیساکہ فخررازی کا نظریہ ہے)

۳ ۔اب تک جوکچھ ثابت ہوچکا ہے اس کے پیش نظراگر”اولی الامر“کے بارے میں ہمارے بیان کئے گئے گیارہ اقوال پرنظرڈالیں،توآیہء کریمہ کی روشنی میں ”اولی الامر“سے مراد تنہاشیعہ امامیہ کا نظریہ قابل قبول ہے اوریہ امران کے علاوہ دوسروں کے عدم عصمت پراجماع ہونے کی بھی تاکیدکرتاہے۔

ظالم حکام اولوالامرنہیں ہیں

اولوالامرکے مفہوم میں اشارہ کیاگیاکہ اولوالامرمیں صرف وہ لوگ شامل ہیں،جوامت کی سرپرستی ان کے امور کے مالک ہوں،اوریہ عنوان ان پر بھی صادق ہے کہ جنھیں ظلم اورناحق طریقہ سے امت کی سرپرستی سے علیحدہ کیاگیاہے۔اس کی مثال اس مالک مکان کی جیسی ہے،جس کے مکان پرغاصبانہ قبضہ کرکے اسے نکال باہرکر دیاگیاہو۔

دوسرانکتہ جو”اولوالامر“کے مقام کی عظمت اور اس کے بلند مر تبہ ہونے پر دلالت کرتا ہے وہ”اولوالامر“کاخداورسول (ص)کے او پرعطف ہوناہے۔مطلقاً وجوب اطاعت میں خدا ورسول کے ساتھ یہ اشتراک و مقا رنت ایک ایسا رتبہ ہے جوان کے قدرومنزلت کے لائق افراد کے علاوہ دوسروں کے لئے میسرنہیں ہے۔

۱۰۲

یہ دواہم نکتے)مفہوم”اولوالامر“اوروجوب اطاعت کے سلسلہ میں الوالامرکا خداورسولپرعطف ہونا) خود”اولوالامر“کے دائرے سے ظالم حکام کے خارج ہونے کوواضح کرتا ہے۔

زمخشری کاتفسیرالکشاف(۱) میں اس آیہء شریفہ کے ذیل میں کہناہے:

”خدااوررسول (ص)ظالم حکام سے بیزارہیں اوروہ خداورسول کی اطاعت کے واجب ہونے پرعطف کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ان کے لئے شائستہ ترین نام”اللصوص المتغلبہ“ہے۔یعنی ایسے راہزن کہ جو لو گوں کی سر نوشت پرزبردستی مسلط ہوگئے ہیں۔“

اس بیان سے معروف مفسرقرآن،طبری کے نظریہ کاقابل اعتراض ہوناواضح ہوجاتاہے،جس نے ظالم کام کو بھی اولوالامر کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے ان کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔

اولوالامرکے بارے میں طبری کا قول

مناسب ہے کہ ہم اس سلسلہ میں طبری کے بیان اورا ستدلال کی طرف اشارہ کریں:

اٴولی الاٴقوال فی ذلک بالصواب قول من قال:”هم الاٴمراؤالو لاةلصحة الاٴخبارعن رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بالاٴمربطاعته الاٴئمّة والولاةفیماکان طاعة وللمسلمین مصلحة“

____________________

۱۔الکشاف،ج۱،ص۲۷۷۔۲۷۶،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۳

کالذی حدثنی علی بن مسلم الطوسی قال:ثنا ابن اٴبی فدیک قال:ثنی عبداللّٰه ابن محمدبن عروة،عن هشام بن عروة،عن اٴبی صالح السمان،عن اٴبی هریرة:اٴن النبیّ-صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وسلم-قال:سیلیکم بعدی ولاة،فیلیکم البرّببرّه،والفاجر بفجوره

فاسمعوالهم واٴطیعوافی کل ماوافق الحق وصلوّاوراء هم!فإن اٴ حسنوا فلکم ولهم،وإن اٴساؤوافلکم وعلیهم!

وحدثنا ابن المثنی قال:ثنا یحیی بن عبیداللّٰه قال:اٴخبرنی نافع،عن عبداللّٰه،عن النبیّ-( ص) -قال:علی المرء المسلم الطا عة فیما اٴحبّ وکره إلاّاٴن یؤمر بمعصیةٍ،فمن اٴمربمعصیة فلا طاعة حدثناابن المثنی قال:ثنی خالدبن عبیداللّٰه،عن نافع،عن اٴبی عمر،عن النبیّ-( ص) -نحوه(۱)

طبری نے تمام اقوال میں سے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ جس میں ”اولوالامر“سے مرادمطلق حکام)نیک وبد)لیا گیاہے۔اوراس سلسلہ میں ان دواحادیث سے استدلال کیا ہے،جن میں حکمران اور فرمانرواؤں کی اطاعت کو مطلق طور پر ضروری جا ناکیا گیا ہے۔

نہ صرف”اولی الامر“کا مفہوم اوراس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونااس نظریہ کو مسترد کرتا ہے،بلکہ ایسی صورت میں طبری کے نظریہ پر چند اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں:

پہلا اعتراض:یہ احادیث قابل اعتبار اورحجت نہیں ہیں،کیونکہ حدیث کی سند میں پہلے ابن ابی فدیک کا نام ہے کہ اہل سنّت کے رجال وحدیث کے ایک امام،ابن سعدکا اس کے بارے میں کہنا ہے:

__________________

۱۔تفسیرطبری،ج۵،ص۹۵،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۴

کان کثیرالحدیث ولیس بحجة(۱)

”اس سے کافی احادیث رو ایت ہوئی ہیں اور)اس کی بات) حجت نہیں ہے“

ابن حبان نے اسے خطا اوراشتباہ کرنے والا جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عروة ہے کہ جس کا علم رجال کی معروف کتابوں میں موثق ہونا ثابت نہیں ہے۔

دوسری حدیث کی سند میں بھی بعض ضعیف اور مجہول افراد پائے جاتے ہیں،جیسے یحییٰ بن عبیداللہ،کے متعلق اہل سنت کے ائمہء رجال جیسے ابوحاتم،ابن عیینہ، یحییٰ القطان،ابن معین ،ابن شیبہ،نسائی اوردار قطبنی نے اسے ضعیف اور قابل مذمت قراردیا ہے۔(۳)

دوسرااعتراض:ان احادیث کا آیہء ”اولی الامر“ سے کوئی ربط نہیں ہے اور یہ احادیث اس آیت کی تفسیر نہیں کرتی ہیں۔

تیسرااعترض:طبری کی یہ تفسیرقرآن مجید کی دوسری آیات سے تناقص رکھتی ہے،من جملہ یہ آیہء شریفہ:

( لاتطیعوااٴمرالمسرفین الذین یفسدون فی الاٴرض ولا یصلحون ) (شعراء/ ۱ ۵۲۔۱۵۱)

”اورزیادتی کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو،جوزمین میں فساد برپاکرتے ہیں اوراصلاح کے در پی نہیں ہیں“

علماء بھی اولوالامرنہیں ہیں

”اولوالامر“کا مفہوم سرپرستی اورولایت کو بیان کرتا ہے اورعلماء کا کردار لوگوں کووضاحت اور آگاہی دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ :

___________________

۱۔الطبقات الکبری،ج۵،ص۴۳۷،داربیروت للطباعةوالنشر

۲۔کتاب الثقات،ج۹،ص۴۲،مؤسسةالکتب الثقافیة

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۱۱،ص۲۲۱،دارالفکر

۱۰۵

ایک تو،”اولوالامر“کے عنوان سے صاحبان علم وفقہ ذہن میں نہیں آتے ہیں مگریہ کہ خارج سے اس سلسلہ میں کوئی دلیل موجود ہو جس کے روسے علماء اوردانشوروں کو سر پرستی حاصل ہو جائے اوریہ دلالت آیت کے علاوہ ہے جنہوں نے اس قول کو پیش کیاہے،وہ اس لحاظ سے ہے کہ لوگ اپنی زندگی کے معاملات میں علماء کی اطاعت کرکے ان کی راہنمائی سے استفادہ کریں۔

دوسرے یہ کہ:اس آیہء شریفہ سے قبل والی آیت میں خداوند متعال نے حکام کے فرائض بیان کئے ہیں:

( وإذا حکمتم بین الناس اٴن تحکموا بالعدل )

”جب کوئی فیصلہ کرو توانصاف کے ساتھ کرو“

زیر بحث آیت میں ”اولوالامر“ کی نسبت لوگوں کی ذمہ داریوں کوبیان کیا گیا ہے اوراس سے واضح ہوتا ہے کہ ”اولوالامر“سے مراد مذکورہ صفات کے حامل وہی حکام ہیں،نہ علمائ

تیسرے یہ کہ:اگراس سے مراد علماء ہیں توکیا یہ علماء بہ طور عام اور بہ حیثیت مجموعی مراد ہیں یا یہ کہ بہ حیثیت استغراقی،ان میں ہرفرد ولی امر ہے اوراس کی اطاعت واجب ہے؟

اگر پہلا فرض مراد ہے ،تواس پر اعتراض اہل حل وعقد والے قول اورفخررازی کے نظریہ کے سلسلہ میں بیان ہوچکا ہے،اوراگردوسری صورت مراد ہے توآیہء شریفہ میں مطلقا طور پر کس طرح ان کی اطاعت واجب ہو ئی ہے،جبکہ اگرایسا ہے تواس کے ضوابط اورشرائط قرآن وحدیث میں بیان ہونے چاہئے تھے۔

چوتھے یہ کہ: پچھلی آیت میں ”فائے تفریع “کی وضاحت میں آیہء شریفہ کے بعد والے جملہ میں آیاہے:( فإنّ تنازعتم فی شیئٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) یہ جملہ فائے تفریع کے ذریعہ پہلے والے جملہ سے مر بوط ہے کہ اس کے معنی اختلافی صورت میں خدا اوررسول کی طرف رجوع کر ناخدا ورسول نیز اولی الامر کی مطلقاً اطاعت کے وجوب پر متفرع ہے۔ اس جملہ سے واضح ہو جا تاہے کہ اختلافی مسائل میں خدااوررسول کی طرف رجوع کر نا ضروری ہے،یہ رجوع کر نا’اولوالامر“ کی اطاعت ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔اوربعد والے جملہ میں لفظ ”اولوالامر“کو نہ لانے کا مقصد بھی اسی مطلب کو واضح کرتا ہے یعنی تنہا”اولوالامر“ ہے جوکتاب وسنت کے معانی و مفاہیم نیز تمام پہلوؤں سے آگاہ ہے لہذا اختلافی مسائل میں اس کی طرف رجوع کر نا درحقیقت خدااوررسولکی طرف رجوع کر نا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ مطلقاً یعنی بہ طور کلی علماء ایسے نہیں ہیں سواء ان لو گوں کے کہ جو منجانب اللہ گناہ وخطاء سے محفوظ ہیں۔

۱۰۶

آیہء کریمہ کے بارے میں چند دیگر نکات

اس قول کے بارے میں کہ”اولوالامر“سے مراد علماء ہیں ،مفسرین کے بیانات میں بعض قابل غور باتیں دیکھنے میں آتی ہیں ،شائستہ نکات کو ملحوظ رکھتے ہو ئے آیت میں غور وخوص ان اعتراضات کو واضح کر دیتا ہے پہلا نکتہ: فإنّ تنازعتم میں مخاطبین وہی ہیں جو( یاایّها الذین آمنوا ) میں مخاطبین ہیں۔”آیت میں مخاطب مو منین “کا اولوالامر کے درمیان تقابل کا قرینہ متقاضی ہے کہ”الذین آمنوا“”اولوالامر“ کے علاوہ ہوں کہ جس میں حاکم و فر مانروااولوالامر اور مطیع وفرمانبردارمومنین قرار دیئے جائیں ۔

دوسرانکتہ:اس نکتہ کے پیش نظر،مو منین کے اختلا فات ان کے آپسی ا ختلا فات ہیں نہ ان کے اور اولوالامر کے درمیان کے اختلافات۔

تیسرانکتہ: یہ کہ مو منین سے خطاب مورد توجہ واقع ہو اور اس کو اولی الامر کی طرف موڑ دیا جائے ،یہ سیاق آیت کے خلاف ہے اوراس تو جہ کے بارے میں آیہء شریفہ میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

۱۰۷

چند نظریات پرتنقید

قرطبی اورجصّاص نے جملہ( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) کواس پر دلیل قراردیا کہ”اولوالامر“ سے مرادعلماء ہیں،اورچونکہ جو علماء نہیں ہیں وہ خدا ورسولکی طرف پلٹانے کی کیفیت کو نہیں جانتے ہیں،اس لحاظ سے خدائے تعالیٰ نے علماء کوخطاب کیا ہے اورانھیں جھگڑے اوراختلاف کی صورت میں حکم دیاہے کہ اختلافی مسئلہ کو خدا اور رسول کی طرف پلٹادیں۔ ۱

ابوالسعود نے اپنی تفسیر میں اس قول کو پیش کیا ہے اورمذکورہ دومفسروں نے جو کچھ کہا ہے،اس کے خلاف ہے:جملہء”فإن تنازعتم“اس کی دلیل ہے کہ اولوالامر سے مراد علماء نہیں ہو سکتے ہیں،کیونکہ مقلد مجتہد کے حکم کے بارے میں اس سے اختلاف نہیں کرسکتا ہے!مگر یہ کہ ہم کہیں کہ جملہ”فإن تنازعتم“کا مقلدین سے کوئی ربط نہیں ہے اوریہ خطاب صرف علماء سے ہے اوراس سلسلہ میں کسی حد تک التفات ملا حظہ کیا گیا ہے لیکن ےہ بھی بعید ہے۔ ۲

قرطبی اورجصّاص کے لئے یہ اعتراض ہے کہ وہ التفات)توجہ) کے قائل ہوئے ہیں اور جملہ ”تنازعتم“ کو علماء سے خطاب جاناہے جبکہ بظاہر یہ ہے کہ’ ’تنازعتم“ کا خطاب تمام مومنین سے ہے اوراس التفات کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

ابوالسعودکا اشکال یہ ہے کہ اس نے آیہء شریفہ میں اختلاف کو ”اولوالامر“سے مراد علماء ہو نے کی صورت میں اختلاف بین علماء اور مقلدین سمجھا ہے ،جبکہ مؤ منین سے خطاب ہے،چونکہ مؤ منین آیہء شریفہ میں اولوالامر کے مقابلہ میں قراردئے گئے ہیں ،لہذاان کے اختلافات ان کے آپسی اختلافات ہوں گے،نہ کہ علماء کے فرض کر نے کی صورت میں اولوالامر

____________________

۱۔جامع احکام القرآن،ج۵،ص۲۶۰،دارالفکر۔احکام القرآن جصاص،ج۲،ص۲۱۰،دارالکناف العربی۔

۲۔ارشاد العقل السلیم ،تفسیر ابوالسعود،ج۲،ص۱۹۳،داراحیائ التراث العربی ،بیروت۔

۱۰۸

کے ساتھ یہاں تک واضح ہوا کہ مذکورہ نکات کے پیش نظر”اولوالامر“سے مرادعلمائنہیں ہوسکتے ہیں۔قرطبی اورجصاص کا نظریہ بھی صحیح نہیں ہے،جنھوں نے التفات کا سہارالے کر اس قول کوصحیح قراردینے کی کوشش کی ہے اورابوالسعود کا نظریہ بھی درست نہ ہونے کی وجہ سے اس کامستردہونا واضح ہے۔

اصحاب اور تابعین بھی اولوالامر نہیں ہیں۔

آیہء شریفہ میں چند دوسرے ایسے نکات بھی موجود ہیں کہ جن کی روشنی میں اصحاب یا اصحاب وتابعین یا مہا جرین وانصار کا اولوالامر نہ ہوناثابت کیا جاسکتا ہے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں عموماً مؤ منین سے خطاب کیا گیا ہے اور ایسے افراد کہ جن کی اطاعت کرنا مؤمنین کے لئے بطور مطلق واجب ہے،ان کا ذکر ہے لہذا مؤمنین وہ لوگ ہیں کہ جن کی شان اطاعت وفرمانبرداری ہے اورخدا ورسول نیز اولوالامر کی شان مو منین کے اوپر مطلقاًاختیار اور فرمانروائی ہے ،ان دونوں کا)مفہوم)ایک دوسرے کے مد مقابل واقع ہو نا واضح قرینہ ہے کہ مؤ منین ”اولوالامر“کے علاوہ ہیں۔مؤمنین کی حیثیت صرف فرمانبرداری ہے،اوران کے مقابل یعنی خداورسول نیزاولوالامر کی حیثیت فرماں روائی ہے۔

یہ مغایرت جس چیزکی تاکید کرتی ہے ،وہ یہ ہے کہ اولوالامرکا تذکرہ خداورسول کے ساتھ ایک سیاق میں واقع ہے اورآیت میں خدا اورسولکی حیثیت سواء مطاع )جس کی اطاعت کی جائے )کے کچھ نہیں ہے،لہذا اولوالامرکی بھی و ہی حیثیت ہو نی چا ہئے۔

اس مطلب کا تقاضا یہ ہے کہ اولوالامر،اصحاب ،تابعین یا مہاجرین وانصارکے زمرے سے نہیں ہوں گے کیوں کہ ایسی صورت میں مذکورہ مغایرت موجود نہیںر ہے گی،حالانکہ جو مؤ منین آیہء شریفہ کے نزول کے وقت اس کے مخاطب واقع ہوئے ہیں وہ،وہی اصحاب ،مہاجرین اور انصا رہیں۔

۲ ۔دوسرانکتہ یہ ہے کہ اگر اولوالامر کے مصداق اصحاب ہوگے، تو کےا یہ تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی ہیں ےا بنحواستغراقی ؟

مزید واضح لفظوں مےں کیا اصحاب مےں سے ہر ایک فرد بہ طورمستقل اولوالامر ہے او ر قوم کی سرپرستی کا اختیاررکھتاہے، یا تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی اس عہدے کے مالک ہیں؟ فطری بات ہے کہ دوسری صورت کے اعتبار پر سب کا اجماع اور اتفاق ہوگا؟

۱۰۹

دوسرا فرض )یعنی عام بہ حیثیت مجموع) ظاہر کے خلاف ہے، جیسا کہ فخررازی کے بیان میں اس کی وضاحت ہو چکی ہے ، او ر پہلا فرض یعنی اصحاب میں سے ہر ایک بہ طور مستقل صاحب ولایت ہوگا، یہ بھی ظاہر اور اصحاب کی سیرت کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اصحاب کے زمانہ میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ ہر ایک دوسرے کے لئے )وہ بھی مطلقاً) وجوب اطاعت کا مالک ہوا۔

اس کے علاوہ اصحاب علمی اور عملی لحاظ سے ایک دوسرے سے کافی مختلف تھے۔ان میں کافی تعداد میں ایسے افراد بھی تھے جن میں علمی اور اخلاقی صلاحیتوں کا فقدان تھا۔مثال کے طور پر ولیدبن عقبہ(۱) کے فاسق ہو نے کے بارے میں آیت نازلی ہوئی ہے کہ جس کی خبر کی تحقیق واجب وضروری ہے ان حالات کے پیش نظر کس طرح ممکن ہے کہ ” اولوالامر“کے مصداق بہ طور مطلق اصحاب یا مہاجرین و انصار ہوں؟

سریہ کے سردار بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

اسی طرح”اولوالامر“ کے مصداق سریہ(۲) کے کمانڈو بھی نہیں ہیں کیونکہ جو کچھ ہم نے بیان کیا، اس کے علاوہ ”اولوالامر“ کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونا، ”اولوالامر“کی مطلق اطاعت کے و اجب ہونے پر دلالت کر تا ہے اور جملہ ”فإن تنازعتم“ کامتفرع ہو نا، خدا و

____________________

۱۔ اصحاب کے بارے میں مصنف کی کتاب ” عدالت صحابہ در میزان کتاب و سنت “ ملاحظہ ہو

۲۔جن جنگوں میں پیغمبراکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم نے ذاتی طورپر شرکت نہیں کی ہے،انھیں سریہ کہتے ہیں۔

۱۱۰

پیغمبر اور اولوالامرکی مطلق اطاعت نیز”اولوالامر“ کی عصمت پر دلیل ہیں ۔سریہ کے کمانڈ معصوم نہیں ہیں،اس سلسلہ میں اصحاب اورتابعین کی طرف سے کچھ آثار نقل ہوئے ہیں جواس مطلب کی تائید کرتے ہیں۔ہم یہاں پر ان آثار میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

۱ ۔ابن عباس سے ایک حدیث میں روایت کی گئی ہے:آیہء”اولی الامر“ایک ایسے شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے،کہ جسے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک سریہ میں )سرپرست و سر براہ کے عنوان سے) بھیجا تھا۔(۱) اس حدیث کی سند میں حجاج بن محمد کا نام آیا ہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیّرفی آخر عمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔

اورابن حجر نے کہا ہے کہ اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے(۲) فطری بات ہے کہ اس کیفیت و حالت کے پیش نظر اس کی روایت معتبر نہیں ہوسکتی ہے۔

۲ ۔ایک دوسری حدیث میں میمون بن مہران سے روایت ہوئی ہے کہ”اولوالامر“ وہ لوگ ہیں جوسریہ)جنگوں) میں شرکت کرتے تھے۔(۳) اس حدیث کی سند میں عنبسة بن سعیدضریس کا نام ہے کہ ابن حبان نے اس کے بارے میں کہا ہے:

”کان یخطی(۴)

”یعنی :وہ مسلسل خطا کا مرتکب ہوتاتھا۔“

____________________

۱۔تفسیر طبری،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تفسیر طبری ،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۴۔تہذیب التہذیب،ج۸،ص۱۳۸

۱۱۱

طبری نے ایک حدیث میں سدی سے نقل کیا ہے(۱) کہ اس نے آیہء ”اولوالامر“ کو اس قضیہ سے مرتبط جانا ہے کہ ایک سریہ)جنگ) میں خالد بن ولیدکوکمانڈر مقرر کیا گیا تھااورس سریہ میں عماریاسر بھی موجود تھے اور انہوں نے ایک مسلمان کو دئے گئے امان کے سلسلہ میں خالد سے اختلاف رای کا اظہارکیا تھا۔(۲)

یہ حدیث بھی صحیح نہیں ہے،کیونکہ ایک تو یہ مرسل ہے اوردوسرے سدی کے بارے میں یحییٰ بن معین ا ورعقیلی سے نقل ہو ا ہے کہ وہ ضعیف ہے اورجوزجانے اسے کافی جھوٹا بتا یا ہے ۔(۳)

۳ ۔بخاری نے آیہء ”اولوالامر“ کی تفسیر میں جو حدیث ذکر کی ہے وہ یوں ہے:

حدثناصدقة بن الفضل،اٴخبرناحج ابن محمّد،عن ابن جریح،عن یعلی بن مسلم،عن سعید بن جبیرعن ابن عباس رضی اللّٰه عنهما:”اٴطیعوااللّٰه واٴطیعوالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی عبداللّٰه بن حذافة ابن قیس بن عدی اذبعثه النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی سریة ۔(۴)

اس حدیث میں سعیدبن جبیران نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آیہء( اٴطیعوااللّٰه واٴطیعواالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم ) عبداللہ بن حذافہ کے بارے میں نازل ہو ئی ہے،جب رسول خدا (ص)نے اس سے ایک سریہ کے لئے روانہ کیا۔

چونکہ یہ حدیث فتح الباری میں ابن حجر کے کلام سے اخذ کی گئی ہے اس لئے احتمال ہے کہ یہ روایت سنید بن داؤد مصیصی سے روایت ہوئی ہو جیسا کہ ابن سکن سے منقول ہے نہ کہ صدقہ بن

____________________

۱۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفة

۲۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفہ

۳۔تہذیب التہذیب،ج۱،ص۲۷۳

۴۔صحیح بخاری،ج۳،ص۳۷۶،کتاب التفسیر،باب قولہ اطیعواللّٰہ۔۔۔ ح۱۰۱۰،دارالقلم ،بیروت

۱۱۲

فضل سے جیسا کہ اکثر نے نقل کیا ہے اور موجودہ صحیح بخاری میں بھی اسی کے حوآلے سے آیا ہے اورسنید بن داؤد کو ابی حاتم ونسائی نے ضعیف جانا ہے۔(۱)

اس بناپر ایک تو یہ بات مسلّم ویقینی نہیں ہے کہ بخاری میں موجود روایت صدقہ بن فضل سے ہوگی،بلکہ ممکن ہے سنید سے ہو جبکہ وہ ضعیف شمار ہو تا ہے۔

دوسرے یہ کہ:اس کی سند میں حجاج بن محمدہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیرفی آخرعمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔“

اور ابن حجر نے کہاہے:اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے۔(۲)

ابوبکراورعمربھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں

مذکورہ وجوہ کے پیش نظر واضح ہوگیا کہ ابوبکر اور عمربھی ”اولوالامر“کے مصداق نہیں ہیں نیزان وجوہ کے علاوہ دین وشریعت سے متعلق سوالات کے جوابات میں ان کی لا علمی ناتوانی اوراحکام الٰہی کے خلاف ان کا اظہار نظر بھی اس کا بین ثبوت ہے کہ جو تاریخ وحدیث کی کتابوں میں کثرت سے درج ہے۔اس سلسلہ میں کتاب الغدیر کی جلد ۶ اور ۷ کی طرف رجوع کیا جاسکتاہے۔

اہل سنت کی بعض کتابوں میں درج یہ حدیث کہ جس میں ان کی اقتداء کرنے کااشارہ ہواہے:”إقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر “کئی جہات سے باعث نزاع ہے۔من جملہ یہ کہ اس کی سند میں عبدالملک بن عمیر ہے کہ تہذیب الکمال(۳) میں احمد بن حنبل

____________________

۱۔فتح الباری،ج۸،ص۲۵۳

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تہذیب الکمال،ج۱۸،ص۳۷۳،موسسہ الرسالة

۱۱۳

سے اس کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے:عبد الملک بن عمیر بہت زیادہ مضطرب البیان ہے اس سے منقول میں نے ۵۰۰ سو روایتیں دیکھی ہیں کہ جن میں اکثر غلط ہیںعبدالملک بن عمیر مضطرب الحدیث جداًمااٴری له خمساًئة حدیث، وقد غلط فی کثیرمنها “ اور احمد بن خلیل نے بھی اس کے ضعیف ہونے کے بارے میں اشارہ کیا ہے۔اور ابو حاتم سے نقل کیا ہے:)عبدالملک)لیس بحافظ۔۔۔تغیرحفظہ قبل موتہ“عبدالملک کا حافظ درست نہیں ہے اور موت سے پہلے اس کا حا فظ کھو گیا تھا۔

اورترمذی(۱) کی سند میں سالم بن علاء مرادی ہے کہ ابن معین اور نسائی نے اسے ضعیف جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ ترمذی کی سند میں سعید بن یحییٰ بن سعید الاموی ہے کہ ابن حجر نے صالح بن محمد سے نقل کیا ہے:”إنّه کان یغلط “یعنی:”وہ مسلسل غلطی کرتا تھا۔(۳)

اس کے علاوہ اگر اس قسم کی احادیث ثابت ہوتیں توابو بکر اورعمر سقیفہ میں ان سے استدلال کرتے اورخلافت کے لئے اپنی صلاحیت ثابت کرتے جبکہ اس قسم کی کوئی چیز قطعی طورپر نقل نہیں ہوئی ہے اور یہ قطعی طورپرثابت ہے کہ مذکورہ حدیث صاد ر نہیں ہوئی ہے اور جعلی ہے۔

او لیاء شرعی(باپ)بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

باپ،دادا و غیرہ کہ جو ولایت شرعی رکھتے ہیں وہ بھی بہ طور مطلق ”اولوالامر“ نہیں ہیں۔گزشتہ موارد میں ذکر شدہ مطالب سے بھی یہ مسئلہ واضح ہو جاتاہے۔

____________________

۱۔سنن ترمذی ،ج۵،ص۵۷۰،ح۳۶۶۳

۲۔میزان الاعتدال،ج۲،ص۱۱۲،دارالفکر

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۴،ص۸۶

۱۱۴

”اولوالامر“اورحدیث منزلت،حدیث اطاعت اورحدیث ثقلین

حدیث منزلت:

حا کم حسکانی(۱) نے”شواہد التنزیل(۲) “ میں آیہء اولوالامر کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی ہے اوراپنی سند سے مجاہد سے روایت کی ہے:

”واٴُلی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی اٴمیرالمؤمنین حین خلّفه رسول اللّٰه بالمدینة، فقال:اٴتخلفنی علی النساء والصبیان؟ فقال: اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی،حین قال له ”اٴخلفنی فی قومی واٴصلح“فقال اللّٰه: ”واٴُولی الاٴمر منکم“ فقال: هوعلی بن ابی طالب، ولاّه اللّٰه الامر بعد محمد فی حیاته حین خلّفه رسول اللّٰه بالمد ینة،فاٴمراللّٰه العباد بطاعته وترک خلافه

”(آیہء شریفہ کے بارے میں ) ۔۔۔( واٴولی الاٴمرمنکم ) ۔۔۔ مجاہد نے یوں کہا ہے:آیہء شریفہ امیرالمؤمنین علی(علیہ السلام) کے بارے میں نازل ہوئی ہے،جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا۔اس وقت علی(علیہ السلام)نے کہا :کیامجھے عورتوں اور بچوں پر جانشین قرا ر د ے ر ہے ہیں؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ تمھاری نسبت میرے

____________________

۱۔حاکم حسکانی اہل سنّت کے بڑے محدثین میں سے ہے۔ذہبی اس کے بارے میں کہتاہے:

الحسکانی القاضی المحدث ابوالقاسم عبیداللّٰہ بن عبداللّٰہ ۔۔۔ محمد بن حساکان القرشی العامری اللنیسا بوری الحنفی الحاکم، و یعرف با بن الحذاء ، شیخ متقن ذو عنایة تامة بعلم الحدیث، حسکانی،قاضی محدث ابوالقاسم عبیداللہ بن عبداللہ محمد بن حسکانی قر شی عامری نیشابوری حنفی مذہب وحاکم ،ابن خداء کے نام سے معروف ہے۔ وہ علم حدیث کے بارے میں قوی اور متقن استاد)شیخ) ہے۔

۲۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۰،مؤسسہ الطبع والنشر

۱۱۵

ساتھ وہی ہے جو ہارون کی نسبت موسیٰ(علیہ السلام) سے تھی جب موسیٰ(علیہ السلام)نے اپنی قوم سے کہا( اٴخلفنی فی قومی ) ”میری قوم میں میرے جانشین ہو اوراصلاح کرو“)اس آیہء شریفہ میں )خدا وند متعال نے فرمایا ہے:( واٴولی الاٴمر منکم ) ”اولوالامر“)کامصداق)علی بن ابیطالب(علیہ السلام)ہیں کہ خداوند متعال نے انھیں پیغمبر (ص)کی حیات میں اپ کے بعدامت کے لئے سرپرست قرار دیاہے،جب انھیں مدینہ میں اپناجانشین مقرر فرمایا۔لہذا خداوند متعال نے اپنے بندوں کوان کی اطاعت کرنے اوران کی مخالفت ترک کرنے کاحکم دیا ہے۔

اس حدیث میں ،اس مجاہد نامی تابعی دانشور اورمفسرنے آیہء شریفہ”اولی الامر“کی شان نزول کے لئے وہ وقت جانا ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین قراردیا تھا۔

اس حدیث میں ہارون کی وہ تمام منزلتین جو وہ موسیٰ کے حوالے سے رکھتے تھے،علی علیہ السلام کے لئے رسول خدا (ص)کے حوالے سے قراردی گئی ہیں۔من جملہ ان میں سے ایک موسیٰ(علیہ السلام)کی نسبت سے ہارون کی جانشینی ہے۔یہ جانشینی،جس کا لازمہ پوری امت کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کا واجب ہونا ہے،علی علیہ السلام کے لئے معین کی گئی ہے۔

یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اس ان نزول سے قطع نظر،حدیث منزلت فریقین )شیعہ وسنی) کے درمیان ثابت اورمسلّم احادیث میں سے ہے،اس طرح کہ حدیث منزلت کو بیان کرنے کے بعد مذکورہ شان نزول کے سلسلہ میں حاکم حسکانی کا کہنا ہے:

وهذاهوحدیث المنزلة الّذی کان شیخاًابوحازم الحافظ یقول: خرجته بخمسةآلاف إسناد

یہ وہی حدیث منزلت ہے کہ ہمارے شیخ)ہمارے استاد)ابوحازم حافظ)اس کے بارے میں )کہتے ہیں:میں نے اس)حدیث)کو پانچ ہزار اسنادسے استخراج کیا ہے۔“

۱۱۶

لہذا،اس حدیث کے معتبر ہونے کے سلسلے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے۔ ابن عسا کر جیسے بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں اسے اصحاب کی ایک بڑی تعدادسے نقل کیا ہے۔(۱)

یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ علی علیہ السلام ،پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل اور سب سے اعلم نیز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات اورآپ کی رحلت کے بعد آپ کے جانشین ہیں۔

حدیث اطاعت:

دوسری دلیل جو”اولوالامر“کو علی علیہ السلام پر منتطبق کرنے کی تاکید کرتی ہے،وہ”حدیث اطاعت“ ہے۔یہ حدیث گوناگوں طریقوں سے مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے:

حاکم نیشا پوری نے اپنی کتاب ”المستدرک علی الصحیحین(۲) میں اسے نقل کیا ہے اورذہبی نے ذیل صفحہ تلخیص کرتے ہوئے اس کے صحیح ہو نے کی تائیدکی ہے۔

حدیث کا متن یوں ہے:

قال رسول اللّٰه- ( ص ) من اٴطاعنی فقداطاع اللّٰه ومن عصانی فقد عصی اللّٰه ومن اٴطاع علیّاً فقد اٴطاعنی ومن عصی علیاًفقدعصانی

”پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے خداکی اطاعت کی اور جس نے میری نافرنی)معصیت)کی گویا اس نے خدا کی نافرمانی کی

____________________

۱۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۵،مؤسسة الطبع والنشر

۲۔المستدرک ،ج۳،ص۱۲۱،دارالمعرفة،بیروت

۱۱۷

ہے۔اور جس نے علی (علیہ السلام) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جو نے علی(علیہ السلام) سے نافرمانی کرے گا اس نے مجھ سے نافرمانی کی ہے۔

اس حدیث میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌ نے علی علیہ السلام کی اطاعت کو اپنی اطاعت سے متلازم قراردیا ہے اوراپنی اطاعت کوخدا کی اطاعت سے متلازم جا ناہے۔اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی سے تعبیر کیا ہے اوراپنی نافرمانی کو خدا کی نافرمانی قراردیا ہے۔

یہ حدیث واضح طور پر علی علیہ السلام کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانند واجب الاطاعت ہونے کی دلیل ہے۔اس کا مضمون آیہء شریفہ” اولوالامر“ کے مضمون کی طرح ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اولوالامر کی اطاعت گویا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت ہے۔حقیقت میں یہ حدیث آیہء شریفہء اولی الامر کے حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام پر انطباق کے لئے مفسر ہے۔

اسی طرح یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کی عصمت پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ اطاعت حکم اورامرپر متفرع ہے کیونکہ جب تک کوئی حکم و امر نہیں ہوگااطاعت موضوع ومعنی نہیں رکھتی ہے اور حکم وامر ارادہ پر مو قو ف ہے،اورارادہ شوق نیزدرک مصلحت در فعل کا معلول ہے۔جب حدیث کے تقاضے کے مطابق علی علیہ السلام کی اطاعت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کے ملازم ،بلکہ اس کا ایک حصہ ہے،تواس کا امر بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا امر اور اس کا ارادہ بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارادہ اوراس کا درک مصلحت بھی عین درک مصلحت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوگا اوریہ حضرت علی علیہ السلام کی عصمت کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں ہے۔

۱۱۸

حدیث ثقلین:

ایک اور دلیل جو آیہ شریفہ”اولوالامر“کو پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام (ائمہء معصوم)پرانطباق کی تاکید کرتی ہے،وہ حدیث ثقلین ہے۔یہ حدیث شیعہ وسنی کے نزدیک مسلّم اور قطعی ہے اور بہت سے طریقوں اور اسناد سے احادیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اگر چہ یہ حدیث متعدد مواقع پر مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے ،لیکن اس میں دوجملے مر کزی حیثیت رکھتے ہیں اوریہ دوجملے حسب ذیل ہیں:

إنی تارک فیکم الثقلین :کتاب اللّٰه وعترتی اهل بیتی ماإن تمسکتم بهما لن تضلّواابداًوإنّهمالن یفترقا حتی یرداعلی الحوض (۱)

”میں تم میں دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں:ایک کتاب خدااور دوسرے میری عترت کہ جواہل بیت (علیہم السلام)ہیں اگر تم انھیں اختیار کئے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثرپرمیرے پاس وارد ہوں گے ۔“

ابن حجر نے اپنی کتاب”الصواق المحر قة(۲) میں اس حدیث کے بارے میں کہاہے:

”ثقلین سے تمسک کرنے کی حدیث کے بارے میں بہت سے طریقے ہیں۔یہ حدیث بیس سے زیادہ اصحاب سے نقل ہوئی ہے۔

ان طریقوں میں سے بعض میں آیاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے اس وقت مدینہ میں ارشاد فرمایا کہ جب آپبسترعلالت پرتھے اوراصحاب آپ کے حجرئہ مبارک میں اپ کے گرد جمع تھے۔بعض دوسرے طریقوں سے نقل ہواہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے غدیر خم میں بیان فرمایا ہے۔بعض دوسرے منابع میں ایاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے طائف سے واپسی

___________________

۱۔صحیح ترمذی، ج۵، ص۶۲۱۔۶۲۲دارالفکر۔ مسنداحمد، ج۳، ص۱۷و۵۹وج۵، ص۱۸۱و۸۹ ۱دارصادر، بیروت۔مستدرک حاکم ج۳،ص۱۰۹۔۱۱۰،دارالمعرفة،بیروت۔حضائص النسائی ، ص۹۳، مکتبةنینویٰ۔ اس کے علاوہ اس اسلسلہ میں دوسرے بہت سے منا بع کے لئے کتاب اللہ واھل البیت فی حدیث ثقلین“کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

۲۔الصواعق المحرقة،ص۱۵۰،مکتبة القاہرة

۱۱۹

کے موقع پر فرمایاہے۔ان سب روایتوں کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے۔کیونکہ ممکن ہے قرآن وعترت کی اہمیت کے پیش نظران تمام مواقع اور ان کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہوگا۔

شیعوں کے ایک بہت بڑے عالم،علامہ بحرانی نے اپنی کتاب ”غایةالمرام(۱) میں حدیث ثقلین کو اہل سنت کے ۳۹ طریقوں سے اور شیعوں کے ۸۲ طریقوں سے نقل کیا ہے۔

اس حدیث شریف میں پہلے،امت کوگمراہی سے بچنے کے لئے دوچیزوں)قرآن مجید اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علہیم السلام )سے تمسک اور پیروی کرنے کی تاکید کی گئی ہے، جو اس بات پردلالت ہے کہ اگر ان دونوں کی یاان میں سے کسی ایک کی پیروی نہیں کی گئی تو ضلالت وگمراہی میں مبتلا ہو نا یقینی ہے اور یہ کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت) علیہم السلام) اور قرآن مجید ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں اورہرگزایک دوسرے سے جد انہیں ہوں گے۔یہ دو جملے واضح طورپر دلالت کرتے ہیں کہ،اہل بیت علیہم السلام ،جن میں سر فہرست حضرت علی علیہ السلام ہیں ،لوگوں کوچاہیئے وہ قرآن مجید کے مانندان سے متمسک رہیں اوران کے اوامر کی اطاعت کر یں ۔اور یہ کہ وہ قرآن مجید سے کبھی جدا نہیں ہوں گے ،واضح طورپر ان کی عصمت کی دلیل ہے،کیونکہ اگروہ گناہ وخطا کے مرتکب ہو تے ہیں تو وہ قرآن مجید سے جدا ہوجائیں گے،جبکہ حدیث ثقلین کے مطابق وہ کبھی قرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے۔

شیعہ وسنی منابع میں اولوالامر سے متعلق حدیثیں

آیہء شریفہ”اولوالامر“کے علی علیہ السلام اورآپ (ع)کے گیارہ معصوم فرزندوں )شیعوں کے بارہ اماموں)پرانطباق کی دلائل میں سے ایک اوردلیل،وہ حدیثیں ہیں،جو شیعہ و سنی کی حدیث کی کتابوں میں درج ہوئی ہیں اور اولوالامرکی تفسیر علی)علیہ السلام)،اورآپ(ع)کے بعدآپ(ع)کے گیارہ معصوم اماموں کی صورت میں

____________________

۱۔غا یةالمرام،ج۲،ص۳۶۷۔۳۰۴

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313