تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي25%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139785 / ڈاؤنلوڈ: 4391
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

مشورہ دیا کرتا تھا_ اسی عبداللہ بن سلام نے حضرت عثمان کے محاصرے کے وقت اس کی زبانی کلامی حمایت پر اکتفا کیا اور اس کی کوئی عملی مدد نہیں کی(۱) حالانکہ اس نے جناب عثمان کی عملی مدد کا وعدہ بھی کیا تھا_ اور جب جناب عثمان کا گھیراؤ کرنے والے لوگوں نے عبداللہ بن سلام کے متعلق اسے کہا کہ یہ ابھی تک بھی اپنی یہودیت پر ڈٹا ہوا ہے تو وہ اپنی یہودیت کی نفی کرنے لگا(۱) نہ صرف یہ بلکہ ابن سلام ، کعب الاحبار اور یہود و نصاری کے دوسرے زعماء و بزرگان جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا تھا وہ اسلامی حکومت کے بہت سے اہم اور کلیدی عہدوں پر فائز تھے ، یہ دونوں اشخاص بہت سے اہم امور میں ا س وقت کے حکمرانوں کے مشیر اور معاون ہوتے تھے_

ہم بارگاہ خداوندی میں دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں اہل کتاب کی سیاہ کاریوں اور مسلمانوں کی سیاست ،عقائد، تفسیر، حدیث ، فقہ اور تاریخ میں ان کی ریشہ دوانیوں اور اثر گذاریوں کے متعلق ایک مستقل کتاب لکھنے کی توفیق عطا فرمائے_

____________________

۱)مندرجہ ذیل کتب میں اس کے اقوال ملاحظہ ہوں : المصنف صنعانی ج۱۱ ص ۴۴۴، ص ۴۴۵و ۴۴۶ نیز اسی کے حاشیہ میں از طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۸۳ ، حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۵۴۰ ، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۹۲ و ۹۳ و الاصابہ ج ۲ ص ۳۲۱ _

۲)ملاحظہ ہو: الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۲۲۳و ۲۲۴_

۲۱

۲۳

دوسری فصل :

غیر جنگی حوادث و واقعات

۲۲

حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے بعض مہاجرین کی واپسی :

جب حبشہ میں موجود مسلمانوں کو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کی مدینہ کی طرف ہجرت کی خبر پہنچی تو ان میں سے (۳) مرد اور آٹھ عورتیں واپس آئیں_ جن میں سے دو مرد مکہ میں فوت ہوگئے اور سات آدمیوں کو قید کر لیا گیا لیکن باقی مدینہ میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے جن میں سے چوبیس افراد جنگ بدر میں بھی موجود تھے(۱) _

اور(حبشہ سے) مدینہ کی طرف ہجرت کا یہ سلسلہ جاری رہا(۲) یہاں تک کہ حضرت جعفرعليه‌السلام ہجرت کے ساتویں سال فتح خیبر کے موقع پر باقی ماندہ افراد کو لے کر پہنچے _ جسکا ذکر انشاء اللہ بعد میں آئے گا_

مذکورہ بالا تیس اشخاص ان افرادکے علاوہ ہیں جو بعض کے بقول بعثت کے پانچویں برس اور ہجرت مدینہ سے آٹھ سال پہلے مکہ میں واپس آئے تھے_ لیکن ان کا مکہ سے گزرنے کا سبب(حالانکہ وہ اسی شہر سے ہی بھاگ کرگئے تھے) بظاہر یہ ہے کہ چونکہ مدینہ کی طرف جانے والا راستہ مکہ کے قریب سے گزر تا تھا(۳) تو شاید وہ مکہ میں موجود ا پنے اموال کو لینے، اقربااور رشتہ داروں سے ملنے اور بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہونے کے بعد پھر مدینہ جانے کے ارادے سے مخفیانہ یا علانیہ طور پر مکہ میں داخل ہوئے_

لیکن قریش ان کے ساتھ قساوت قلبی اور سنگدلی کے ساتھ پیش آئے، ان کے لئے کسی قسم کے

____________________

۱) طبقات ابن سعد ج/ حصہ۱ص ۱۳۹_

۲) طبقات ابن سعد ج/۱حصہ۱ ص ۱۳۹،زاد المعاد ج/ ۱ ص ۲۵ و ج/ ۲ ص ۲۴ ، ۴۵ ، البدء والتاریخ ج/ ۴ ص ۱۵۲ و فتح الباری ج/۷ ص ۱۴۵_

۳) اور اس پر المصنف ج/۵ ص ۳۶۷ کی یہ عبارت دلالت کرتی ہے کہ ''جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار قریش سے برسرپیکارہوئے تو وہ مہاجرین حبشہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے پاس پہنچنے سے مانع ہوئے_یہاں تک کہ وہ لوگ جنگ خندق کے موقع پر مدینہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آملے''_ البتہ ان کا '' جنگ خندق کے مو قع پر '' کہنا ، ناقابل تائید ہے اور شاید خندق ، خیبر کی جگہ لکھا گیا ہے_

۲۳

احترام ، غریب الوطنی اور رشتہ داری کا لحاظ بھی نہیں کیا اور یہ بات واضح ہے کہ حبشہ کے مہاجرین کے اس گروہ کا مدینہ میں پہنچنا نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ پہنچنے کے چند مہینے بعد تھا کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کی خبر کاان تک پہنچنا پھر ان کا مکہ کی طرف آنا اور وہاں پر رشتہ داروں سے ملاقات کرنا اور قریش کا وہ سلوک کرنا اور پھر ان کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا یہ سب چیزیں ایک طولانی مدت کے گزرنے کی متقاضی ہیں، یہاں تک کہ عسقلانی کہتا ہے :'' ابن مسعود مکہ کی طرف اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے تیس آدمیوں میں سے تھے اور وہ مدینہ میں اس وقت پہنچے جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر کی تیاریوں میں مصروف تھے''(۱) _

حضرت عائشہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌ کے گھر میں :

ہجرت کے پہلے سال (اور کہا گیا ہے کہ دوسرے سال )حضرت عائشہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیت الشرف میں آئیں اور یہ ماہ شوال کی بات ہے، مورخین نے کہا ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے علاوہ کسی دوسری کنواری عورت سے شادی نہیں کی لیکن ہم اس بات کے صحیح ہونے پر اطمینان نہیں رکھتے اور اس کی وجہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضرت خدیجہعليها‌السلام کے ساتھ ازدواج کی بحث میں گزر چکی ہے کہ حضرت خدیجہع ليها‌السلام کی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے علاوہ کسی دوسرے آدمی سے شادی کا مسئلہ نہایت مشکوک ہے_ ہو سکا تو انشاء اللہ ہم آئندہ بھی اس کی طرف اشارہ کریںگے_

رخصتی کی رسم

اور ہمیں معلوم نہیں ہوسکا کہ کس وجہ سے حضرت عائشہ کی رخصتی کی رسم نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک اہمیت نہیں رکھتی تھی کیونکہ روایت کی گئی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے لئے ولیمہ نہیں کیا حالانکہ اس دور میں لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ولیمہ کھانے کی توقع بھی تھی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی طاقت بھی رکھتے تھے_ صر ف یہی کچھ نقل کیا گیا ہے کہ دودھ کاایک پیالہ سعد بن عبادہ کے گھر سے آیا اور اس میں سے کچھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پیا اور باقی حضرت عائشہ(۲)

____________________

۱) فتح الباری ج/۷ ص ۱۴۵ _

۲) تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۵۸ ، السیرة الحلبیة ج/۲ ص ۱۲۱ _

۲۴

نے_اسی کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس شادی کا ولیمہ قرار دینا بھی صحیح نہیں کیونکہ یہ طبعی بات ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو اپنے پاس بیٹھنے والے کو کھانا پیش کرنے سے غفلت نہیں فرماسکتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ کی تو بات ہی اور ہے_

انوکھا استدلال :

حضرت عائشہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک اپنی منزلت اورشان پر اس طرح استدلال فرماتی تھیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے ساتھ ماہ شوال میں ازدواج کیا تھا _ وہ کہتی تھیںکہ :

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ماہ شوال میں مجھے شرف زوجیت بخشا پس رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج میں سے کون سی زوجہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک مجھ سے زیادہ منزلت رکھتی ہے؟(۱) _

حقیقتاً یہ انوکھا استدلال ہے _ اس لئے کہ کب ماہ شوال کی اتنی عظیم فضیلت تھی جو حضرت عائشہ کی منزلت و فضیلت پر دلالت کرتی ؟_

جبکہ بلاشک و شبہہ حضرت خدیجہ اور حضرت ام سلمہ اوردیگر ازواج ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ان کی نسبت زیادہ منزلت و عظمت رکھتی تھیں اسی وجہ سے تو یہ ان سے حسد کرتیں، ان کو اذیت دیتیں اور اکثر خودنبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے بھی ان کے ساتھ بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتی تھیں ہمارے اس دعوے کے بعض دلائل ہجرت سے پہلے حضرت عائشہ کے عقد سے بحث کے دوران ذکر ہو چکے ہیں_

اور اس سے بھی عجیب تربات یہ ہے کہ بعض حضرات نے ماہ شوال میں عقد کے استحباب کا حکم صادر کیا ہے(۲) _

لگتا یہی ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی رحلت کے بعد آنے والی حکومت وقت کی دست راست اور حکومت وقت اور ان کے حامیوں کی آنکھوں کے کانٹے حضرت علیعليه‌السلام کی اچھائی کے ساتھ نام تک نہ لے سکنے والی(۳)

____________________

۱) تاریخ طبری مطبوعہ الاستقامة ج ۲ ص ۱۱۸ ، السیرة الحلبیہ ج ۲ ص ۱۲۰، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۵۸_

۲) نزھة المجالس صفوری الشافعی ج/۲ ص ۱۳۷_

۳)فتح الباری ج ۲ ص ۱۳۱، مسند احمد ج ۶ ص ۲۲۸ ،و الغدیر ج ۹ ص ۳۲۴_

۲۵

حضرت عائشہ سے کچھ لوگوں کی محبت و عقیدت ، اور ان کی خواہشات کو اہمیت دینا ہی ان لوگوں کی اس طرح کی شریعت سازی کا موجب بنا_حالانکہ خود ہی روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت جویریہ اورحضرت حفصہ کے ساتھ ماہ شعبان میں اور زینب بنت خزیمہ کے ساتھ ماہ مبارک رمضان میں اور زینب بنت جحش کے ساتھ ذی القعدہ میں رشتہ ازدواج استوار فرمایا_ پس اس صورت میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مستحب کو ترک کیا ہے اور اس پر صرف اور صرف اکیلی حضرت عائشہ کے لئے عمل کیا ہے_ یہ بات حقیقتاًتعجب آور ہے اور نہایت ہی عجیب ہے

ایک نئے دور کی ابتداء

بہر حال نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بیت الشرف میں حضرت عائشہ کے آنے سے امن و آشتی اور عظمت و وقار کے نمونہ اس گھر میں خاص قسم کی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئیں اوریہ گھر بہت سے ایسے اختلافات اور جھگڑوں کی جولانگاہ بن گیا جو اکثر اوقات نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے غم و غصّہ کے موجب بنتے تھے اوراکثر جھگڑوں میں حضرت عائشہ کا کردار بنیادی ہوتا تھا_

ہمارے اس مدعا پر تاریخ اور متواتر احادیث گواہ ہیں بلکہ بعض منابع کے مطابق خود حضرت عائشہ نے تصریح کی ہے کہ : ''نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیت الشرف میں رونما ہونے والے تما م اختلافات کا سبب میں ہی تھی''_

مومنین کے درمیان صلح والی آیت:

بعض مورخین نے غزوہ بدر سے پہلے کے حالات میں لکھا ہے(۱) کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک مرتبہ خزرج کے قبیلہ بنی حرث میں سعدبن عبادہ کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے _ یہ واقعہ عبداللہ بن ابی بن سلول کے اسلام لانے سے پہلے کاہے_

____________________

۱)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۶۴_

۲۶

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی سواری پرسوارعبداللہ بن ابی کی ایک محفل کے قریب سے گذرے جس میں مسلمان، مشرکین، اور یہودی ملے جلے بیٹھے تھے _ ان میں عبداللہ بن رواحہ بھی موجود تھا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سواری کی ٹاپوں سے گرد و غبار اڑا تو ابن ابی نے اپنی چادر سے ناک ڈھاپنتے ہوئے کہا:'' ہم پر گرد و غبار نہ اڑاؤ''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سواری سے نیچے اترے اور اسے مسلمان ہونے کی دعوت دی تو ابن ابی کہنے لگا : '' بھلے مانس اگر تیری باتیں سچ ہیں تو یہ سب سے بہترین باتیں ہیں لیکن تیرے کہنے کا انداز بالکل بھی صحیح نہیں ہمیں محفل میں آکر پریشان مت کرو ،جاؤ اپنی سوار ی کا رخ کرواور جو تمہارے پاس آئے تم اسے یہ باتیں سنانا''_ ابن رواحہ نے کہا:'' جی ہاں یا رسول اللہ آپ ہمارے پاس آکر ہمیں اطمینان سے یہ باتیں سنائیں کیونکہ ہمیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ فرمائشےات پسند ہیں '' _ پھر تو مسلمانوں اور مشرکوںکے درمیان ایسی گالی گلوچ شروع ہوگئی کہ مارکٹائی تک نوبت پہنچنے والی تھی _ لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا انہیں خاموش رہنے کی برابر تلقین کرتے رہے ، یہاں تک کہ وہ خاموش ہوگئے_

اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سعد بن عبادہ کے پاس تشریف لے گئے اور سارا ماجرا اسے سنایا_ سعد نے عرض کی کہ آپ ابن ابی کو چھوڑ دیں کیونکہ جلد ہی ہم اس پر ہلہ بولیں گے _ لیکن جب وہ ان کے حملے سے پہلے اسلام لے آیا تو سعد بن عبادہ کے قبیلہ والے اس پر چڑھائی سے باز رہے _

دوسری روایت یہ کہتی ہے کہ رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور کچھ مسلمان آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ ابن ابی کی طرف تشریف لے گئے تا کہ ا س کے قبیلے سے روابط برقرار کریں _جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے پاس پہنچے تو اس نے کہا: ''دور ہو جاؤ مجھ سے بخدا تمہاری سواری کی بد بو سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے ''_ اس پرایک انصاری صحابی بولے:'' اللہ کی قسم تیرے وجود کی بوسے رسول اللہ کی سواری کی بو کہیں زیادہ پاکیزہ ہے''_ ابن ابی کے قبیلے کے آدمی کو غصہ آیا اس نے اسے گا لیاں دیں_ اب طرفین غضبناک ہوگئے اور پھر دونوں میں چھڑیوں اورجوتوں سے لڑائی ہوئی _

۲۷

اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:

( و ان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینهما ) (حجرات _۹)

اگر مومنین کے دو گروہوں میں لڑائی ہوجائے تو ان میں صلح کرادو_(۱)

تفسیر مجمع البیان میں مذکورہے کہ جس نے ابن ابی سے مذکورہ بات کی وہ عبداللہ بن رواحہ تھے اور لڑائی ابن رواحہ کے قبیلے اوس اور ابن ابی کے قبیلے خزرج کے درمیان ہوئی_

البتہ دونوں روایات قابل اعتراض ہیں _کیونکہ:

اولاً: آیت صلح پہلی روایت پہ منطبق نہیں ہوتی کیونکہ اس روایت کی روسے جھگڑا مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان تھادو مسلمان گروہوں کے درمیان نہیں _بلکہ دوسری روایت سے بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ جھگڑا مومنین کے دوگروہوں میں تھا _اگر دونوں روایات کو ایک روایت قرار دیں کیونکہ دونوں کا سیاق و سباق اور مضمون ایک ہی ہے تو پھر بھی یہ اطمینان حاصل نہیں ہوتا کہ یہ آیہ مجیدہ اسی مناسبت سے نازل ہوئی ہو_

ثانیاً : آیہ مجیدہ سورہ مبارکہ حجرات میں ہے جو ہجرت کے چند سال بعد نازل ہوئی _کیونکہ اس سورت کا نزول سورہ مجادلہ ، اور جنگ خندق کی مناسبت سے نازل ہونے والی سورت احزاب اور دیگر سورتوں کے نزول کے بعد ہوا_ جبکہ یہ بات گزر چکی ہے کہ مذکورہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کاہے_ ان ساری باتوں کے علاوہ روایات کے مضامین میں بھی اختلاف و تناقض پایا جاتاہے جو واضح ہے_

البتہ ایسا بھی نہیں کہ روایت سرے سے ہی ناقابل قبول اور جعلی ہو_ تا ہم ہو سکتا ہے یہ واقعہ ہجرت کے چند سال بعد سورہ حجرات کے نزو ل اور ابن ابی کے اسلام لانے کے بعد رونما ہوا ہو اور جھگڑا مومنین کے دو گروہوں کے درمیان ہو_ اس اعتبار سے دوسری روایت مضمون کے زیادہ قریب اور مناسب ہے_

____________________

۱)السیرة الحلبیہ ج/۲ ص۶۳و۶۴،درمنثورج/۶ص۹۰از مسلم، بخاری، احمد، بیہقی کی سنن ، ابن مردویہ ، ابن جریر اور ابن منذر ، حیاة الصحابہ ج/۲ ص ۵۷۸ ،۵۷۹ ، ۵۶۰از البخاری ج/۱ص ۳۷۰ ، ج/۳ ص ۸۴۵_

۲۸

سلمان محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاقبول اسلام :

پہلی ہجری میں اوربقولے اسی سال کے ماہ جمادی الاولی(۱) میں سلمان محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم المعروف سلمان فارسی (حشر نا الله معه و فی زمرته )نے اسلام قبول کیا_ یہی وہ شخصیت ہیں جن کے بارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ اہل بیت علیھم السلام نے فرمایا:''سلمان منا اهل البیت'' (۲) _

یہی وہ سلمان ہیں جنہوں نے دین حق کی تلاش میں اپنے علاقے سے ہجرت کی اور اس را ہ میں انہوں نے بہت ساری مصیبتیں اور مشکلات برداشت کیں _ یہاں تک کہ غلام ہوئے اور پھر نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں آزاد ہوئے(۳) _

کہتے ہیں کہ مدینہ میں ''قبا'' کے مقام پر حضرت سلمان فارسی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضری دی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے یہ کہہ کہ کھجوریں پیش کیں کہ یہ صدقہ ہے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خودتو کھانے سے انکار فرمایالیکن اصحاب سے امر فرمایا کہ کھالیں تو انہوں نے یہ کھجوریں کھالیں_ حضرت سلمان نے اسے پہلی نشانی شمار کیا _

اگلی مرتبہ پھر جناب سلمان کی ملاقات آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مدینہ میں ہوئی_ اس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں کھجوریں یہ کہہ کر پیش کیں کہ یہ تحفہ ہے _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول فرمایا اور کھجوریں کھالیں پس حضرت سلمان نے اسے دوسری نشانی شمار کیا _

____________________

۱)تاریخ الخمیس ج/ ۱ ص ۳۵۱_

۲)قاموس الرجال ج/۴ ترجمہ سلمان_

۳) المصنف ج / ۸ ص ۴۱۸ میںان کے اسلام لانے کا واقعہ مذکور ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سلمان فارسی کے علاقے میں ایک راہب تھا _ آپ نے بعض خاص قسم کی تعلیمات اس سے سیکھیں اور علاقے کے لوگوں کو بتائیں تو انہوں نے راہب کو اپنے علاقے سے نکال باہر کیا_ آپ اپنے اہل و عیال سے چھپ کر اس کے ساتھ وہاں سے نکلے اور موصل پہنچ گئے _ وہاں انکی ملاقات چالیس۴۰راہبوں سے ہوئی _ چند ماہ بعد ایک راہب کے ہمراہ آپ بیت المقدس گئے وہاں ایک راہب کی سخت عبادت و ریاضت اور انکی بے چینی کو دیکھا لیکن پھر جلد ہی اس کا دل اس سے بھر گیا _ وہاں انصار کے سواروں کے ایک دستے نے ان راہبوںسے حضرت سلمان کے بارے سوال کیا توانہوںنے جواب دیا کہ یہ ایک بھگوڑا غلام ہے _پس انہوں نے اسے مدینے لے جاکر ایک باغ میں کام پر لگادیا_ اس راہب نے جناب سلمان کو بتایا تھا کہ عرب سے ایک نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عنقریب ظہور کرناہے جو صدقہ نہیں کھائے گا، ہدیہ قبول کرے گا اور اسکے شانوں پر نبوت کی مہر ہوگی _ اس راہب نے آپ سے کہا تھا کہ اسکی اتباع کرنا_

۲۹

اسکے بعد حضرت سلمان کی ملاقات آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بقیع کے ایک نشیب میں ہوئی جہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بعض اصحاب کی تشیع جنازہ میں شریک تھے پس قریب آئے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سلام کیا اور پیچھے پیچھے چل دیئے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی پشت مبارک سے چادر ہٹائی تو دیکھا کہ شانوں پر نبوت کی مہر موجود ہے_ پس اب وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف جھکے ،شانوں پر بوسہ دیا اور گریہ کرنا شروع کیا_ اس کے بعد اسلام قبول کیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں اپنا سارا واقعہ بیان کیا _ اسکے بعد حضرت سلمان نے اپنے مالک سے اپنی آزادی کا معاہدہ کیا اور اپنی آزادی کی رقم ادا کرنے کے لئے محنت مزدوری کرنے لگا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کی مالی امداد فرمائی _ اور پھر حضرت سلمان نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی غلامی میں اپنی ساری زندگی گذاردی تا کہ اس آزادی کا حق ادا کرسکیں_

اس نے پہلی مرتبہ جنگ خندق میں حصہ لیا اور پھر اس کے بعد کئی جنگوں میں حصہ لیا_ ابن عبدالبر کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے پہل جنگ بدر میں حصہ لیا اور یہ نظریہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی مالی امداد کے تناظر میں زیادہ مناسب ہے _ اسکے لئے حدیث و تاریخ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے _(۱) نیز ہماری کتاب''سلمان الفارسی فی مواجهة التحدی'' ( سلمان فارسی چیلنجوںکے مقابلے میں) بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں_

ایک اہم بات :

یہاں قابل ملاحظہ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت سلمان نے ذاتی احساسات یا مفادات کی بناء پر اسلام قبول نہیں کیا اور نہ ہی کسی مجبوری یا کسی کے دباؤ یا کسی سے متاثر ہونے کی بنا پر اسلام قبول کیا بلکہ خالصتاً اپنی عقل و فکر اور سوچ و بچار کے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے_ دین حق تک پہنچنے کے لئے انہوں نے بہت سعی و کوشش کی اور اس راہ میں بہت سی رکاوٹوں، مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کیا _ اور یہ بات اس دین کے فطری ہونے نیز عقل کے احکامات اور سالم فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہونے کی تائید کرتی

____________________

۱)بطور مثال قاموس الرجال ج/۴ ، الاصابہ ج/ ۲ ص ۶۲ ، الاستیعاب اور دیگر کتابیں_

۳۰

ہے_ اسی طرح کی باتیں ہم حضرت ابوذرکے اسلام قبول کرنے کے واقعات میں بیان کرچکے ہیں، وہاں ملاحظہ فرماسکتے ہیں_

رومہ کا کنواں حضرت عثمان کے صدقات میں :

بعض نے حضرت عثمان کے فضائل میں لکھاہے کہ جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ تشریف لائے تو سوائے رومہ کے کنویں کے کوئی اور ایسا کنواں نہ تھا جس سے صاف اور میٹھا پانی پیا جاتا_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' کون ہے جو اپنے ذاتی مال سے اس کنویں کو خریدے اور اپنی بالٹی اور دیگر مسلمانوںکی بالٹیاں اس میں قرار دے (یعنی سب مسلمانوں کے لئے وقف کردے ) تو اسے جنت میں اپنی پسند کا اس سے بھی اچھا کنواں ملے گا؟ ''پس حضرت عثمان نے اپنے خالص مال سے اس کنویں کو خریدا اور اس کنویں میں اپنی اور مسلمانوں کی بالٹیاں ڈال دیں_ لیکن جب حضرت عثمان کا محاصرہ ہو اتو لوگوں نے انہیں اس کنویں سے سخت پیاس کی صورت میں بھی پانی نہیں پینے دیا تھا حتی کہ وہ مجبور ہوکر سمندر کا پانی پینے لگے تھے _

لیکن ان روایات میں شدید اختلاف پایا جاتاہے_ہم بعدمیں مدارک و مصادر کی طرف اشارہ کریں گے_ انہی اختلافات کی وجہ سے ہمیں ان کے صحیح ہونے کے بارے شک ہے_یہ اختلافات مندرجہ ذیل ہیں:_

اولاً : روایات میں اتنا تناقض و اختلاف ہے کہ کوئی ایک روایت بھی دوسری سے نہیں ملتی _مثلاً کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمان کے خلاف بغاوت ہوئی توانہوں نے باغیوں کو رومہ کے کنویں والے واقعہ کا واسطہ دیا لیکن یہاں روایتوں میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے _ ایک روایت تو یہ کہتی ہے کہ جب وہ اپنے گھر میں محاصرے میں تھے تو تب انہوں نے لوگوں کے سامنے آکر یہ بات کی تھی جبکہ ایک اور روایت کہتی ہے کہ اس وقت وہ مسجد میں تھے _ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے آدھا کنواں سو اونٹنیوں کے عوض اور باقی آدھا ایک آسان نرخ پہ خریدا_دوسری روایت کہتی ہے کہ چالیس ہزار کا کنواں خریدا ایک اور روایت میں

۳۱

ہے کہ ۳۵ اونٹینوں کے عوض خریدا_ چوتھی روایت ہے کہ آدھا کنواں بارہ ہزار درہم میںاور باقی آدھا آٹھ ہزار میں خریدا_

ایک اور روایت اس بارے میں یہ ہے کہ یہ کنواں ایک یہودی کا تھا_ کوئی بھی قیمت ادا کئے بغیر اس سے پانی کا ایک قطرہ تک نہیں پی سکتا تھا_ایک اور روایت کہتی ہے کہ یہ کنواں قبیلہ مزینہ کے ایک شخص کا تھا_ تیسری روایت کہتی ہے کہ یہ کنواں بنی غفار کے ایک شخص کی ملکیت تھا_ یہاں ایک روایت یہ کہتی ہے کہ حضرت عثمان نے کنواں خریداجبکہ دوسری یہ کہتی ہے کہ انہوں نے کنواں کھودا _ لوگ دونوں روایتوں کو جمع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے پہلے کنواں خریدا لیکن اسکے بعداسے دوبارہ کھودنے کی ضرورت پڑ گئی_(۱) لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ خود کہتے ہیں کہ اس کا ذکر حضرت عثمان نے اس وقت کیا تھا جب اصحاب کو اس کی قسم دی تھی اور یہ واقعہ صرف ایک ہی مرتبہ ہواتھا_

ایک روایت یہ کہتی ہے کہ یہ چشمہ تھا جو زمین پر جاری تھا جبکہ دوسری کہتی ہے کنواں تھا_ ایک روایت کہتی ہے کہ حضرت عثمان نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کے مدینہ پہنچنے پر کنواں خریدا _ لیکن دوسری روایت کی حکایت یہ ہے کہ جب خلیفہ تھے تب یہ کنواں خریدا تھا_

ایک روایت میں ہے کہ خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے کنواں خریدنے کو فرمایا _دوسری روایت یہ کہتی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں میں اعلان کرایا کہ کوئی ہے جو کنواں خریدے_ تیسری روایت کا کہناہے کہ اس غفاری (کنویں کے مالک ) نے جنت میں دو چشموں کے بدلے بھی پاک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں اسے بیچنا گوارا نہ کیا _جب یہ بات حضرت عثمان کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اسے ۳۵ ہزار میں خریدا(۲) _

____________________

۱)اس توجیہ کو سمہودی نے وفاء الوفاء ج/ ۳ ص ۹۷۰ میں ذکر کیا ہے_

۲)ان روایات کا مطالعہ فرمائیں اور ان کا آپس میں تقابل کریں_وفاء الوفاء للسمھودی ج / ۳ ص ۹۶۷ _ ۹۷۱ ، سنن نسائی ج/۶ ص ۲۳۴، ۲۳۵ ، ۲۳۶ ، منتخب کنز العمال ج/۵ ص۱۱ ، حیات الصحابہ ج/۲ ص ۸۹ از طبرانی وابن عساکر ، مسند احمد ج /۱ ص۷۰ ، ۷۵ ، السیرة الحلبیہ ج/۲ ص۷۵ ، اسی طرح بغوی، ابن زبالہ، ابن شبة، ابن عبدالبر، الحازمی، ابن حبان، ابن خزیمہ سے بھیروایت کی گئی ہے ، الترمذی ص ۶۲۷ ، حلیة الاولیاء ج/۱ ص ۵۸ ، البخاری حاشیہ فتح الباری ج/۵ ص ۳۰۵ ، فتح الباری ج ۵ ص ۳۰۵ ، ۳۰۶ ، سنن بیہقی ج/ ۶ ص ۱۶۷ ، ۱۶۸نیز التراتیب الاداریہ _

۳۲

اختلافات اور تناقضات کی فہرست طولانی ہے جن کے ذکر کا موقع نہیں _اگر کوئی چاہے تو ان کتابوں کی طرف رجوع کرسکتاہے جن کے ہم نے حوالے دیئے ہیں_

ثانیاً : نسائی، مسند احمد اور ترمذی جیسی کتب میں ایک روایت مذکور ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب مدینہ تشریف لائے تووہاں میٹھا اور پینے کے قابل پانی نہ تھا_ یہ بات کسی طرح بھی درست نہیں ہے کیوں کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ تشریف لائے تو میٹھے پانی کے کافی سارے کنویں تھے_ جن کنوؤں سے حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زندگی بھر پانی استعمال فرمایا_ ان کنوؤں میں سے اسقیا، بضاعہ، جاسوم اور دار ا نس کے کنویں تھے جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا لعاب دین پھینکا تو اسکے بعد مدینے میں ان سے زیادہ میٹھے پانی کا کوئی اور کنواں نہ تھا(۱) اس کے علاوہ بہت سارے کنویں تھے اس سلسلے میں وفاء الوفاء کے باب '' آبار المدینہ'' کا مطالعہ کرسکتے ہیں _

ثالثاً : اگر رومہ کے کنویں والی حدیث صحیح مان لی جائے تو پھر مندرجہ ذیل جواب طلب سؤالات سامنے آتے ہیں_

۱_حضرت عثمان جو حبشہ سے تازہ آئے تھے اور انکے پاس کوئی مال و متاع بھی نہ تھا تو پھر چالیس ، پینتیس یا بیس ہزار درہم اور سو اونٹنیاں کہاں سے آگئیں _ انہوں نے کب اور کس طرح یہ مال کمایا؟_

۲ _ حضرت عثمان نے جنگ بدر کے موقع پر اتنی بڑی رقم کے ہوتے ہوئے مدد کیوں نہ کی ؟ یا ان اونٹیوں میں کوئی چیز کیوں خرچ نہ کی جو روایات کے بقول یہ ان کا خالص ذاتی مال تھا؟ حالانکہ اس وقت مسلمانوں کو چھوٹی سے چھوٹی چیز کی بھی اشد ضرورت تھی _کیونکہ دو یا تین افراد ایک ہی اونٹ پر بیٹھتے تھے اوران کے پاس صرف ایک ہی گھوڑا تھا _ مسلمانوں کے پاس صرف چھ عدد زر ہیں اور آٹھ عدد تلواریں تھیں جبکہ باقیوں نے ڈنڈوں اور کھجور کی چھڑیوں کے ساتھ جنگ کی _ اسکا اور اس کے منابع کا ذکر آئے گا_

حضرت عثمان نے اپنے اموال سے بالکل بھی مدد نہ کی ؟ کیا پھر بھی یہ بات درست اور معقول ہے کہ انہوں نے اپنے پاس موجود سب کچھ لٹا دیا اور خالی ہاتھ ہوگئے؟

____________________

۱) وفاء الوفاء للسمھودی ج/ ۳ ص ۹۵۱ ، ۹۵۶ ، ۹۵۸ ، ۹۵۹ ، ۹۷۲_

۳۳

حضرت عثمان نے کیونکر غریب مسلمانوں کو کھانا نہ کھلایا ، انکی ضروریات کو پورا نہ کیا اور انصار کی مدد نہ کی ؟ خود پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کیوں نہ کی _ جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شدید اقتصادی بحران کا شکار تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کی معاشی حالت ہجرت کے چند سال بعدجاکے کہیں ٹھیک ہوئی؟

۳_ بعض روایات کہتی ہیں کہ حضرت عثمان کو اس کنویں کا پانی پینے سے منع کردیا گیا جس سے وہ سمندر کا پانی پینے پر مجبور ہوگئے_ یہ بات واقعاً بہت عجیب ہے پس اگر حضرت عثمان پانی حاصل کرسکتے تھے تو انہوں نے مدینہ میں دسیوں کی تعدا میں موجود دیگر کنوؤں کا میٹھا پانی کیوں استعمال نہیں کیا ؟_

کیونکہ جس شخص نے پانی پینے سے منع کیا تھا وہ تو چاہتا تھا کہ ان تک کسی طرح کا کوئی پانی ، کہیںسے بھی نہ پہنچے_ کیونکہ بقول ان کے حضرت عمار یاسر اس تک پانی پہنچانے لگے تو طلحہ نے انہیں منع کردیا _(۱)

پس جب تک حضرت علیعليه‌السلام نے اپنے بچوں کے ہمراہ پانی نہیں پہنچایا تب تک انہیں پانی میسر نہیں آیا اور واضح ہے کہ آپعليه‌السلام نے اس کام سے اپنے خاندان کو خطرات میں جھونک دیا_ کیا یہ درست ہے کہ انہوں نے واقعا سمندر کا پانی پیا تھا؟_ جبکہ سمندر کا فاصلہ مدینہ سے بہت زیادہ دور ہے _ یا یہ نمکین اور کھارا پانی استعمال کرنے سے کنایہ ہے ؟ ؟

۴_ اگر حضرت عثمان نے یہ سارا مال صدقہ کیاتھا تو کیوں ان کی مدح میں ایک آیت بھی نازل نہیں ہوئی جو اس عمل کی تعریف کرتی جبکہ حضرت علیعليه‌السلام نے مختلف اوقات میں '' جو کی تین روٹیاں'' ، '' انگوٹھی'' ، '' چاردرہم'' اسی طرح '' نجوی'' کے واقعہ میں صدقے دیئے تو مختلف آیات کے نزول سے تعریف کے مستحق بنے لیکن حضرت عثمان کئی ہزار درہم اورایک سو اونٹنیاں صدقہ دینے پر بھی کسی تعریف کے مستحق نہیں ٹھہرے بلکہ خدا نے ان کے متعلق ایک کلمہ یا ایک حرف تک بھی ارشاد نہیں فرمایا ؟ اس کے برعکس وہ روایت جو اس عظیم فضیلت کو بیان کرتی ہے اس میں بہت زیادہ تناقض پایا جاتاہے اور وہ علمی اور آزاد تنقید کے سامنے بالکل نہیں ٹھہرتی _ اس کے علاوہ انہوںنے بھی دوسرے صحابہ کی طرح ایک درہم کا صدقہ دے کر ''آیت

____________________

۱)وفاء الوفاء ج ۳ ص ۹۴۵_

۳۴

نجوی'' پر عمل کیوں نہیں کیا ؟ یہاں تک کہ اصحاب کی مذمت میں آیت نازل ہوئی_ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے گفتگو سے قبل صدقہ دینے سے کترانے پر ان کی بھی دوسرے صحابہ سمیت مذمت کی ہے _

'' اریس'' کا کنواں

بالا خر ہم یہ نہیں جان سکے کہ صرف '' رومہ'' کے کنویں کو اتنی عزت و عظمت کیسے ملی اور اریس کے کنویں کے ساتھ ایسا کیوں نہ ہوا ؟ _ جبکہ دعوی یہ ہے کہ یہ کنواں بھی حضرت عثمان نے ہی ایک یہودی سے خریدا تھا_ پھر اسے وقف بھی کردیا تھا _(۱) اللہ تعالی حضرت عثمان کو کنوؤں کے معاملے میں برکت دے لیکن یہودیوں کو تو اس غم اور غصہ سے مرجانا چاہئے تھا کیونکہ کنویں تو وہ کھودتے تھے لیکن ان سے حضرت عثمان خرید خرید کر وقف کردیتے تھے اور یہ سب فضیلت ، کرامت اور عظمت حاصل کرتے جاتے تھے _

مسئلے کی حقیقت

ظاہراً صحیح بات وہی ہے جو '' عدی بن ثابت '' کے ذریعہ سے ابن شبہ کی روایت میں آئی ہے کہ مزینہ قبیلے کے ایک شخص کو '' رومہ '' نامی کنواں ملاتو اس نے اس کا ذکر حضرت عثمان (جو اس وقت خلیفہ تھے) سے کیاتو انہوں نے یہ کنواں بیت المال سے ۳۰ ہزار درہم کا خریدکر اسے مسلمانوں کے لئے وقف کردیا(۲) _

لیکن سمہودی نے اس روایت کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ روایت متروک ہے اور زبیر بن بکار نے اپنی کتاب ''عتیق'' میں اس روایت کو بیان کیا ہے_لیکن وہ اسے رد کرتے ہوئے کہتاہے:'' یہ درست نہیں کیونکہ ہمارے نزدیک ثابت یہ ہے کہ حضرت عثمان نے یہ کنواں رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اپنے مال سے خریدکر اسے وقف کردیا تھا''(۳) _

____________________

۱) وفاء الوفاء ج ۳ ص ۹۶۸_

۲)وفاء الوفاء ج/ ۳ ص ۹۶۷ از ابن شبة _اس روایت کو زبیر بن بکار نے بھی روایت کیاہے_

۳)گذشتہ حوالہ_

۳۵

جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ روایات جن کی طرف زبیر بن بکار نے اشارہ کیا ہے کسی بھی لحاظ سے صحیح نہیں ہیں _خصوصاً جبکہ ان روایات میں بہت اختلاف اور تناقض پایا جاتاہے اور ان روایات پہ ایسے اعتراضات بھی گزر گئے ہیں کہ جن کا کوئی جواب نہیں نیز ان روایات کی اسنا د و مدارک میں بھی بہت سے اعتراضات ہیں _ ایسے حالات میں روایت مذکور کی سند میں متروک شخص کے ہونے میں کوئی حرج نہیں _ اور اسے ماننا ہی پڑے گا کیونکہ یہ روایت اس زمانے کے حالات اور تاریخی واقعات سے مطابقت بھی رکھتی ہے_ اور بقیہ روایات بھی صحیح نہیں ہوسکتیں کیونکہ یہ ساری کی ساری حضرت عثمان کی فضیلت بنانے کے لئے گھڑی گئی ہیں_

البتہ مذکورہ بالا روایت کا یہ جملہ ہم نہیں سمجھ سکے '' انہوں نے بیت المال مسلمین سے ۳۰ ہزار درہم کا کنواں خریدا اور پھر مسلمانوں کے لئے اسے وقف کردیا ...'' _اگر یہ کنواں مسلمانوں کے اموال سے خریدا گیا تھا تو پھر مسلمانوں ہی کے لئے وقف کرنے کا کیا معنی ہے؟ہاں اس صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ در حقیقت بیت المال کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے تھے اس لئے اسے وقف کہتے تھے _ اور ہم نے ان کے اس نظریئے پر کچھ دلائل اور قرائن بھی بیان کئے ہیں اس لئے آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں(۱)

کھجور کی پیوندکاری

کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مدینہ تشریف لائے اور کھجوروں کی پیوند کاری کر نے والے کچھ افراد کے قریب سے گذرے ( یا ان کا شور سنا ) تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا اگر تم اس کام کو چھوڑ دو تو بہتر ہوگا _ ان لوگوں نے اس کام کو چھوڑ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کھجوریں نرم گٹھلی والی اور خراب نکل آئیں _ پھر ایک روز ان کے قریب سے گزرے یا ان سے یہ بات ذکر کی گئی، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے استفسار فرمایا کہ کیا ہوا تمہاری کھجوروں کو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی تو ایسا کرنے کو کہاتھا (لہذا اس کا نتیجہ واضح ہے)_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

۱) ملاحظہ ہو ہماری کتاب : دراسات و بحوث فی التاریخ و الاسلام ، بحث ''ابوذر ، سوشلسٹ ، کیمونسٹ یا مسلمان ؟''_

۳۶

نے فرمایا:'' تم لوگ دنیاوی امور کو مجھ سے بہترجانتے ہو'' _ یا یہ فرمایا : ''اگر مفید تھا تو انہیں ویساہی کرنا چاہئے تھا میں نے تو یوں ہی ایک گمان کیا تھا_ لہذا تم لوگ اس گمان کی وجہ سے میرا مؤاخذہ نہیں کرسکتے _ البتہ میں جب اللہ تعالی کی کوئی بات تمہیں بتاؤں تو تم اس پر ضرور عمل کرو کیونکہ میں خدا پر ہرگز جھوٹ نہیں بولتا''_(۱)

ہمیں اس روایت کے صحیح ہونے میں شک ہے _کیونکہ اس روایت کی نصوص میں بھی اختلاف پایا جاتاہے _اس کے علاوہ مندرجہ ذیل چند سوالات کا پوچھنا ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسے کاموں میں مداخلت کیوں کرتے تھے جن سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کوئی واسطہ ہی نہ تھا اور نہ ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان میں کوئی مہارت حاصل تھی ؟

کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں جانتے تھے کہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ہرلفظ پر عمل کرتے اور اس سے متاثر ہوتے ہیں ؟ ؟_

لوگ اتنے بڑے نقصان پر کیسے راضی ہوگئے؟ پھرآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشور ے کے نتیجہ میں ہونے والے نقصان کا ذمہ دار کون تھا؟ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ کہنا کیسا ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو وہ ہیں جنہوں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص کو حکم دیا کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جو کچھ بھی سن رہاہے سب تحریر کرے کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے سوائے حق کے کوئی چیز نہیں نکلتی ؟ یہ روایت بہت مشہور و معروف ہے _ یہ روایت اپنے مآخذو مدارک کے ساتھ پہلی جلد میں بیان ہوچکی ہے ، وہاں ملاحظہ فرمائیں_

اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سن مبارک اس وقت (۳۳ تینتیس) سال سے زیادہ تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عرب خطے کے مرکزی حصے کے رہنے والے تھے_ کیا ہم اس بات کی تصدیق کرسکیں گے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیوند کاری اور اس کے فوائد کو نہیں جانتے تھے اور یہ کہ کھجور اسکے بغیر کوئی نتیجہ نہیں دیتی؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زندگی کا

____________________

۱)صحیح مسلم ج/۷ ص ۹۵، سنن ابن ماجہ ج/۲ ص ۸۲۵ کتاب الرھون باب ۱۵، مسنداحمد ج/۶ ص۱۲۳نیز ج ۳ ص ۱۵۲، البر صان والعرجان ص ۲۵۴، مشکل الآثارج/۲ص۲۹۴، کشف الاستار عن مسند البزار ج ۱ ص ۱۱۲ ، مسند ابویعلی ج ۶ ص ۱۹۸و ۲۳۸ و صحیح ابن حبان مطبوعہ مؤسسة الرسالہ ج ۱ ص ۲۰۱_

۳۷

ایک بڑا عرصہ اس کے متعلق کچھ بھی نہ سنا ہو حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہی عربوں کے درمیان اور ان کے ساتھ رہتے تھے یا کم از کم ان کی ہمسائیگی میں تو تھے؟

بالآخر کیا یہ صحیح ہے کہ دنیاوی امور میں لوگوں پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت واجب نہ تھی؟ اور یہ کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی رائے بیان فرمائی تھی؟ کیا یہ درست ہے کہ اسلام، دین اور دنیا میں فاصلے کا قائل ہو اور اس دین مقدس کا کل ہم و غم دنیاوی امور نہ ہوں بلکہ صرف اخروی امور ہوں ؟ کیا یہ اسلام پر بہتان اور تہمت نہیں ہے ؟ کیا یہ سب کچھ اسلام اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے برخلاف نہیں ؟اور کیا یہ سیکو لرازم کی طرف اشارہ نہیں ؟ اور اسلام کو صرف عبادت گا ہوں میں منحصر کرنے کی ابتداء نہیں ؟

۳۸

۴۱

تیسری فصل :

ابتدائے ہجرت میں بعض اساسی کام

۳۹

تمہید:

مدینہ پہنچنے کے فوراً بعد رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بہت سے ایسے بنیادی کام انجام دیئے جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اسلامی دعوت کے مستقبل سے مربوط تھے، یہ کام مختلف نوعیت کے تھے ذیل میں ہم اختصار کے ساتھ ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں_

۱: نماز جمعہ کا انعقاد_

۲ : مسجد قبا کی تعمیر،ان دونوں کا موں کے متعلق ہم پہلے بحث کرچکے ہیں_

۳ : مدینہ میں مسجد کی تعمیر _اس بارے میں ایک علیحدہ فصل میں بات کریں گے_

۴ : ہجری تاریخ کا آغاز _اس کے لئے بھی ایک علیحدہ فصل مخصوص کی گئی ہے_

۵ : مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارہ_

۶ : مسلمانوں کے آپس میں آئندہ تعلقات نیز غیر مسلم اقوام کے ساتھ ان کے روابط

کی نوعیت اور حدود کا تعین_

۷ : علاقے میں بسنے والے یہودیوں سے صلح :

اور ان مؤخر الذکر تین امور کے لئے بھی علیحدہ فصل رکھی گئی ہے_

اس سلسلے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کچھ اور کام بھی انجام دیئے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت طیبہ پر روشنی ڈالتے ہوئے ہم ان کی طرف اشارہ کریں گے ، یہاں ہم مؤخر الذکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پانچ کاموں کی وضاحت کرتے ہیں اور ابتدا ہجری تاریخ کے آغاز سے کرتے ہیں_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آنحضرت (ص) كے حوالے كردى تھى تاكہ اسے آپ (ص) ضرورت مند لوگوں پر خرچ كريں_

حضرت خديجہ (ع) نے رسول خدا (ص) سے گفتگو كرتے ہوئے شادى كى درخواست كے اصل محرك كو اس طرح بيان كيا ہے:'' اے ميرے چچا زاد بھائي چونكہ ميں نے تمہيں ايك شريف ،ديانتدار ، خوش خلق اور راست گو انسان پايا اسى وجہ سے ميں تمہارى جانب مائل ہوئي (اور شادى كے لئے پيغام بھيجا)''(۱۱)

پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے منہ بولے بيٹے

حضرت خديجہ (ع) سے رسول اكرم (ص) كى شادى كے بعد يك مرتبہ حضرت خديجہ (ع) كے بھتيجے حكيم بن حزام ملك شام سے اپنے ساتھ كچھ غلام لے كر آئے جن ميں ايك آٹھ سالہ لڑكا زيد ابن حارثہ بھى تھا، جس وقت حضرت خديجہ (ع) اس سے ملنے كےلئے آئيں تو حكيم نے ان سے كہا كہ پھوپى جان آپ (ع) ان غلاموں ميں سے جسے بھى چن ليں وہ آپ ہى كا ہوگا(۱۲) حضرت خديجہ (ع) نے زيد كو چن ليا_

جب رسول خدا (ص) نے زيد كو حضرت خديجہ (ع) كے پاس ديكھا تو آپ (ص) نے يہ خواہش ظاہر كى كہ يہ غلام مجھے دے دياجائے، حضرت خديجہ (ع) نے اس غلام كو پيغمبر اكرم (ص) كے حوالے كر دياپيغمبر اكرم (ص) نے اسے آزاد كركے اپنا منہ بولا فرزند (متبني) بناليا ليكن جب پيغمبر خدا (ص) پر وحى نازل ہونا شروع ہوئي تو قرآن نے حكم ديا كہ انہيں لے پالك فرزند نہيں صرف فرزند كہاجائے_

جب زيد كے والد ''حارثہ'' كو يہ معلوم ہوا كہ ان كا بيٹا شہر مكہ ميں رسول خدا (ص) كے گھر ميں

۶۱

ہے تو وہ آنحضرت (ص) كے پاس آيا اور كہا كہ ان كا بيٹا ان كو واپس دے ديا جائے اس پر آنحضرت (ص) نے زيد سے فرمايا:

''اگر چاہو تو ہمارے ساتھ رہو اور چاہو تو اپنے والد كے ساتھ واپس چلے جائو ''_

مگر حضرت زيد نے پيغمبر اكرم (ص) كے پاس ہى رہنا پسند كيا،بعثت كے موقع پر حضرت على عليہ السلام كے بعد وہ پہلے مرد تھے جو آنحضرت (ص) پر ايمان لائے_(۱۳)

رسول خدا (ص) نے پاك دامن اور ايثار پسند خاتون'' ام ايمن ''سے ان كا نكاح كرديا جن سے ''اسامہ'' كى ولادت ہوئي ، اس كے بعد آپ (ص) نے اپنے چچا كى لڑكى ''زينب بنت حجش'' سے ان كى شادى كردي_(۱۴)

حضرت على عليہ السلام كى ولادت

شہر مكہ كے اس تاريخ ساز عہد ميں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان ميں سے ايك حضرت على (ع) كى كعبہ ميں ولادت باسعادت تھى ، مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت على (ع) كى پيدائشے واقعہ عام الفيل كے تيس سال بعد ہوئي _(۱۵) خانہ كعبہ ميں اميرالمومنين حضرت على (ع) كى پيدائشے كا شمار آپ (ص) كے عظیم وممتاز فضائل ميں ہوتا ہے اس فضيلت كا نہ صرف شيعہ دانشوروں نے ذكر كيا ہے بلكہ اہل سنت كے محدثين و مورخين بھى اس كے معترف ہيں(۱۶) _

پيغمبر اكرم (ص) كے دامن ميں تربيت

حضرت على (ع) نے بچپن اور شير خوارگى كا زمانہ اپنے مہربان اور پاكدامن والدين حضرت

۶۲

ابوطالب عليہ السلام اور حضرت فاطمہ (ع) كى آغوش اور گھر ميں بسر كيا جہاں نور رسالت اور آفتاب نبوت تاباں تھا _ حضرت ابوطالب (ع) كے اس نونہال پر حضرت محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى شروع سے ہى خاص توجہ وعنايت رہى ، رسول اكرم (ص) چونكہ اكثر و بيشتر اپنے چچا كے گھر تشريف لے جايا كرتے تھے اسى لئے آپ (ص) نے حضرت على (ع) كے ساتھ محبت ومہربانى كے سلوك اور تربيت ميں كوئي دقيقہ فروگذاشت نہ كيا_

رسول خدا (ص) نے اسى پر ہى اكتفا نہ كى بلكہ حضرت على (ع) نے اپنى عمر كى جب چھ بہاريں ديكھ ليں(۱۷) تو آپ (ص) انہيں ان كے والدكے گھر سے اپنے گھر لے آئے اور بذات خود ان (ع) كى تربيت وسرپرستى فرمانے لگے_(۱۸)

پيغمبر اكرم (ص) كو حضرت على (ع) سے وہ شغف تھا كہ آپ (ص) انہيں اپنے سے ہر گز جدا نہيں كرتے تھے چنانچہ جب كبھى آپ (ص) عبادت كےلئے مكہ سے باہر غار حرا ميں تشريف لے جاتے حضرت على (ع) آپ (ص) كے ساتھ ہوتے_(۱۹)

رسول اكرم (ص) كے زير سايہ حضرت على (ع) كى جو تربيت ہوئي اس كى اہميت و قدر وقيمت كے بارے ميں خود حضرت على (ع) فرماتے ہيں :

(وَلَقَد عَلمتُم مَوضعي من رَسُوْل اللّه بالقَرَابَة القَريبَة وَاَلمَنزلَة الخَصيصَة وَضَعَني في حجره وَاَنَا وَلَدٌ يَضُمُّنيْ الى صَدره وَيَكنُفُني في فرَاشه وَيَمُسُّنيْ جَسَدَهْ وَيَشُمُّنيْ عَرفَهْ وَ كَانَ يَمضُغُ النَّبيُّ ثُمَّ يُلَقّينيْ وَلَقَد كُنْتُ اَتَّبعََهُ اتّبَاعَ الفَصيل اَثَرَاُمّه يَرفَعُ لي كُلَّ يَوم: منْ اَخلَاقَهُ عَلَماً وَيَامُرُنيَ بالاقتدَائ به )(۲۰)

۶۳

''يہ تو تم سب جانتے ہى ہو كہ رسول خدا (ص) كى مجھ سے كيسى قربت تھى اور آپ (ص) كى نظروں ميں ميرى كيا قدر ومنزلت تھى ، اس وقت جب ميں بچہ تھا آپ (ص) مجھے اپنى گود ميں جگہ ديتے اور سينے سے لگاتے ، مجھے اپنے بستر پر جگہ ديتے ، ميں آپ سے بغلگير ہوتا اور آپ(ص) كے جسم مبارك كى عطر آگيں بو ميرے مشام كو معطر كرديتى ، آپ (ص) نوالے چبا كر ميرے منہ ميں ركھتے ميں پيغمبر اكرم (ص) كے نقش قدم پر اس طرح چلتا جيسے شير خوار بچہ اپنى ماں كى پيروى كرتاہے، آپ (ص) ہر روز اپنے اخلاق كا نياپرچم ميرے سامنے لہراتے اور حكم فرماتے كہ ميں بھى آپ (ص) كى پيروى كروں''_

معبود حقيقى سے انس ومحبت

امين قريش نے اپنى زندگى كے تقريبا چاليس سال ان سختيوں اور محروميوں كے باوجود جو ہميشہ ان كے دامن گير رہيں نہايت صداقت ، شرافت، نجابت ، كردار كى درستى اور پاكدامنى كے ساتھ گزارے آپ (ص) نے اس عرصے ميں خدائے واحد كے علاوہ كسى كى پرستش نہيں كى اور انس عبادت اور معرفت خداوندى كو ہر چيز پر ترجيح دى چنانچہ يہى وجہ تھى كہ آپ (ص) ہر سال كچھ عرصہ جبل نور كے ''غارحرا'' ميں تنہا رہ كر عبادت خدا وند ى ميں گزارتے_

جناب اميرالمومنين حضرت على (ع) اس بارے ميں فرماتے ہيں :

(وَلَقَد كَانَ يُجَاورُ فيَ كُلّ سَنَة: بحرَائَ فَاَرَاهُ وَلَا يَرَاهُ غَيري )(۲۱)

''رسول خدا (ص) ہر سال كچھ عرصے كيلئے حرا ميں قيام فرماتے اس وقت ميں ہى انہيں ديكھتا ميرے علاوہ انہيں كوئي نہيں ديكھتا تھا''_

پيغمبر اكرم (ص) كے آباء و اجداد بھى سب ہى توحید پرست تھے اور سب ان آلودگيوں سے

۶۴

دور تھے جن ميں لوگوں كى اكثريت ڈوبى ہوئي تھي_

اس بارے ميں حضرت علامہ مجلسى فرماتے ہيں:

شيعہ اماميہ كا اس بات پر اتفاق ہے كہ رسول خدا (ص) كے والدين اور آباء و اجداد مسلمان ہى نہيں بلكہ سب صديقين ميں سے تھے وہ يا تو نبى مرسل تھے يا معصوم اوصيا، ان ميں سے بعض تقيہ كى وجہ سے يا مذہبى مصلحتوں كى بنا پر دين اسلام كو ظاہر نہيں كرتے تھے_(۲۲)

رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا ارشادہے:

(لَم اَزَل اُنقَلُ من اَصلَاب الطَّاهرينَ الى اَرحَام المُطَهَّرَات )(۲۳)

''ميں مسلسل پاك شخصيات كے صلب سے پاكيزہ خواتين كے رحم ميں منتقل ہوتا رہا ''_

۶۵

سوالات

۱_رسول خدا (ص) نے ملك شام كا پہلا سفر كب كيا اور وہاں كيا واقعہ پيش آيا ؟

۲_بحيرا نے حضرت ابوطالب (ع) كو رسول خد ا(ص) كے بارے ميں كيا ہدايت كى تھيں؟

۳_ مستشرقين نے رسول خدا (ص) كى بحيرا سے ملاقات كو كس پيرائے ميں پيش كيا ان

كى بے دليل تاويلات كے بارے ميں مختصر طور پر اظہار خيال كيجئے؟

۴_ رسول خدا (ص) نے ملك شام كا دوسرا سفر كس وجہ سے كيا اور اس سفر سے آپ (ص) كو كيا

نتيجہ حاصل ہوا؟

۵_حضر ت خديجہ (ع) كى رسول خدا (ص) سے شادى كس سال ہوئي، حضرت خديجہ (ع) نے

اس شادى كى پيشكش كس وجہ سے كى خود ان كے اقوال كى روشنى ميں سوال كا

جواب ديجئے؟

۶_ حضرت زيد اپنے والد كے ہمراہ كيوں نہ گئے اور رسول خدا (ص) كے ساتھ كس وجہ

سے رہنا پسند كيا ؟

۷_ پيغمبر خدا (ص) نے كس طرح حضرت على (ع) كى تربيت فرمائي' حضرت على (ع) كے اقوال كي

روشنى ميں جواب ديجئے؟

۸_ نزول وحى سے قبل پيغمبر اكرم (ص) كا كيا دين ومسلك تھا؟

۶۶

حوالہ جات

۱_پيغمبرا كرم(ص) كس سن ميں سفر پر روانہ ہوئے اس كے بارے ميں اختلاف ہے بعض نے سفر كے وقت آپ (ص) كى عمر نو سال كچھ مورخين نے بارہ اور تيرہ سال بھى لكھى ہے ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۱۷ و مروج الذہب ج ۲ ص ۲۷۵_

۲_يہ شہر دمشق كى سمت واقع ہے اور ''حوران ''كا مركز شمار كياجاتا ہے_ (معجم البلدان ج ۱ ص ۴۴۱ و ج ۲ ص ۳۱۷)_

۳_بعض مورخين نے اسے''تَيمائ'' كا يہودى عالم لكھا ہے ، ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۱۸_

۴_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۱۹ والسيرة النبويہ ج ۱ ص ۱۹۳ و ۱۹۴_

۵_بعض مورخين اور صاحب نظر محققين نے ان شواہد و قرائن كى بنياد پر جو اس روايت ميں موجود ہيں اس كى صحت پر شك وترديد كا اظہار كيا ہے ان كى رائے ميں يہ دشمنان اسلام كے ذہن كى اختراع ہے ، ان نظريات كے بارے ميں مزيد اطلاع حاصل كرنے كيلئے ملاحظہ ہو الصحيح من السيرة النبي(ص) ' ج ۱ 'ص ۹۱ و ۹۴ و تاريخ تحليلى اسلام تاليف رسول محلاتى ج ۱ ص ۲۷۲_

۶_يعقوبى نے اپنى تاريخ (ج ۲ ص ۲۱) ميں لكھا ہے كہ : ''رسول خدا (ص) نے اپنى زندگى ميں كبھى اجرت پر كام نہيں كيا''، اس كے قول كو مد نظر ركھتے ہوئے يہاں يہ كہنا پڑے گا كہ پيغمبر اكرم (ص) كى حضرت خديجہ (ع) كے ساتھ تجارت ، شراكت كى بنياد پر تھى اور انہوں نے اپنا مال بطور شريك تجارت آنحضرت (ص) كى تحويل ميں ديا تھا_

۷_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص۱۳۲ _ ۱۳۵_

۸_مثال كے طور پر جب يمن كے بادشاہ تبع نے حجر اسود كو مكہ سے يمن لے جانے كا عزم كيا تو حضرت خديجہ (ع) كے والد خويلد نے اپنى سعى و كوشش سے تبع كو اس ارادے سے باز ركھا ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۱ ص۱۳۸_

۹_ تاريخ كى بعض كتابوں ميں آيا ہے كہ حضرت خديجہ (ع) نے براہ راست پيغمبر اكرم (ص) كو شادى كا پيغام بھيجا ملاحظہ ہو سيرہ ابن اسحاق ص ۶۰_

۶۷

۱۰_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۳۷ _ ۱۳۹_

۱۱_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۲۷۱_

۱۲_حلبى نے لكھا ہے كہ حضرت خديجہ(ع) نے اپنے بھتيجے سے كہہ ركھا تھا كہ ايك اچھا سا عرب غلام خريد كر ان كےلئے ليتے آئيں (السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۲۷۱)_

۱۳_السيرة النبويہ ج ۱ ص ۲۶۴_۲۶۵_

۱۴_يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت زينب نے كچھ عرصہ بعد زيد سے طلاق لے لى تو پيغمبر اكرم (ص) نے خدا كے حكم سے ان كے ساتھ نكاح كرليا_ چنانچہ سورہ احزاب كى آيات ۳۶_۳۷ _۳۸ ميں اس امر كى جانب اشارہ كيا گيا ہے_

۱۵_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۳۹ _

۱۶_علمائے اہل سنت كے نظريات اور اقوال جاننے كيلئے ملاحظہ ہو: كتاب (الغدير) ج ۲ ص ۲۱ _۲۳_

۱۷_مناقب ابن شہر آشوب ج ۲ ص ۱۸۰ نيز بعض كتب ميں ايك ضعيف قول لكھا ہے كہ اس وقت حضرت على (ع) كى عمر آٹھ سال تھى _ ملاحظہ ہو سير ةالائمہ اثنا عشر ج ۱ ص ۱۵۵_

۱۸_مورخين نے نقل مكانى كى يہ وجہ بتائي ہے كہ : ايك مرتبہ قريش سخت قحط سالى كا شكار ہوگئے ، حضرت ابوطالب (ع) چونكہ كثير العيال تھے اس لئے پيغمبر اكرم (ص) كى تجويز پر يہ طے ہوا كہ ان كے برادر ى كے لوگوں ميں سے ہر ايك كسى ايك بچے كى پرورش و نگہداشت كى ذمہ دارى قبول كرے اسى وجہ سے پيغمبرا كرم (ص) نے حضرت على (ع) كى پرورش اپنے ذمہ لى ملاحظہ ہو السيرة النبويہ ج ۱ ص ۲۶۲ و كامل ابن اثير ج ۲ ص ۵۸ _ ليكن نقل مكانى كى يہ وجہ معقول نظر نہيں آتى بالخصوص اس حالت ميں جب حضرت على (ع) كے سن مبارك كو نظر ميں ركھاجائے_شايد اس قدر بڑھا كر بيان كرنے كا سبب يہ تھا كہ رسول خدا (ص) كے اس عظيم كارنامے كو كم كر كے پيش كياجائے البتہ يہ كہا جاسكتاہے كہ آپ (ص) نے قحط سالى كو بہانہ بنايا اور چونكہ اس بچے كے تابناك مستقبل سے آپ (ص) واقف تھے اسى لئے طے شدہ دستورالعمل كے تحت آپ (ص) حضرت على (ع) كو اپنے گھر لے آئے ، اس ميں شك نہيں كہ حضرت على (ع) اپنى والد كے سب سے چھوٹے فرزند تھے اور اس وقت آپ (ص) كى عمر چھ سال سے زيادہ نہ تھى ، چھ سال كے بچے كا خرچ اتنا نہيں ہوتا كہ باپ اسے برداشت نہ كرسكے اور

۶۸

باپ بھى كيسا جس كى اپنى برادرى ميں اعلى مرتبہ كى وجہ سے عزت تھى اور انہيں (شيخ الابطح) كہاجاتا تھا_

۱۹_تاريخ طبرى ج ۲ ص ۲۱۳ و شرح ابن حديد ج ۳ ص ۱۱۹_

۲۰_نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ (۱۹۲ )_اس خطبے ميں امام كے الفاظ اس بات كو بيان كررہے ہيں كہ آپ (ع) پر شير خوارگى كے زمانہ سے ہى پيغمبراكرم (ص) كى توجہ مركوز تھى اور ان كى زير تربيت تھے كيونكہ لقمہ چبانا اور منہ ميں ركھنا بچے ہى سے متعلق ہے_

۲۱_نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ (۱۹۲)_

۲۲_بحارالانوار ج ۱۵ ص ۱۱۷_

۲۳_ايضا ص ۱۱۸_

۶۹

سبق ۵:

مكہ ميں اسلام كى تبليغ اورقريش كا رد عمل

۷۰

بعثت (نزول وحي)

خداوند تعالى كى عبادت و پرستش ميںرسول اكرم (ص) كو چاليس سال گزرچكے تھے _ايك مرتبہ جب آپ (ص) غار حرا ميں اپنے معبود حقيقى سے راز و نياز اور عبادت ميں مصروف تھے اس وقت آپ (ص) رسالت پر مبعوث ہوئے ، حضرت جبرئيل امين (ع) آپ (ص) كے پاس آئے اوراولين آيات الہى كى تلاوت كى :

بسم اللّه الرَّحمن الرَّحيم

( اقرَائ باسم رَبّكَ الَّذي خَلَقَ خَلَقَ الانسَانَ من عَلَق: اقرَائ وَ رَبُّكَ الَاكرَمُ الَّذى عَلَّمَ بالَقَلَم عَلَّمَ الانسَانَ مَالَم يَعلَم ) _(۱)

''اپنے پروردگار كا نام لے كر پڑھو كہ جس نے انسان كو جمے ہوئے خون سے پيدا كيا _ پڑھو كہ تمہارا پروردگار بڑا كريم ہے ، جس نے قلم كے ذريعہ تعليم دى ہے اور انسان كو وہ سب كچھ سكھاديا جو وہ نہيں جانتا تھا''_

رسول اعظم(ص) نے جب يہ آيت مباركہ سنى اور خداوند تعالى كى جانب سے پيغمبرى كى خوشخبرى ملى نيز آپ (ص) نے مقام كبريائي كى عظمت و شان كا مشاہدہ كيا تو اس نعمت عظمى كو حاصل كرنے كے بعد آپ (ص) نے اپنے وجود مبارك ميں مسرت و شادمانى محسوس كى چنانچہ

۷۱

آپ (ص) غار سے باہر تشريف لائے اور حضرت خديجہ(ع) كے گھر كى جانب روانہ ہوگئے_(۲)

راستے ميں جتنى پہاڑياں اور چٹانيں تھيں وہ سب كى سب قدرت حق سے گويا ہوگئي تھيں اور پيغمبر خدا (ص) كا ادب و احترام بجالاتے ہوئے''اَلسَلَامُ عَلَيكَ يَا نَبيَّ اللّه'' كہہ كر آپ (ص) سے مخاطب ہوہى تھيں_(۳)

شيعہ محدثين اور مورخين كے مشہور نظريے كى رو سے واقعہ ''عام الفيل'' كے چاليس سال گزر جانے كے بعد ۲۷ رجب پير كے دن رسول (ص) خدا مبعوث بہ رسالت ہوئے(۴) _

سب سے پہلے اسلام لانے والے

رسو ل خدا (ص) غار حرا سے گھر تشريف لے گئے اور آپ (ص) نے نبوت كا اعلان كرديا، سب سے پہلے آپ (ص) كے چچازاد بھائي حضرت على عليہ السلام نے آپ (ص) كى تصديق كى اور عورتوں ميں سب سے پہلے آپ (ص) كى زوجہ مطہرہ حضرت خديجہ(ع) تھيں جنہوں نے آپ (ص) كے پيغمبر (ص) ہونے كى تصديق كى ، اہل سنت كے اكثر و بيشتر مورخين بھى اس بات سے متفق ہيں_(۵)

اس سلسلے ميں چند روايات ملاحظہ ہوں:

۱_ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم

(هذَا اَوَّلُ مَن آمَنَ بي وَصَدَّقَّني وَصَلَّى مَعي )(۶)

يہ (على (ع)) وہ پہلا شخص تھا جو مجھ پر ايمان لايا ، ميرى تصديق كى اور ميرے ساتھ نماز ادا كي_

۷۲

۲_ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم

اَوَّلُكُم وَارداً عَلَيَّ الحَوضَ و اَوَّلُكُم اسلَاماً ، عَليُّ ابنُ اَبى طَالب :(۷)

تم ميں سب سے پہلے حوض كوثر كے كنارے مجھ سے ملاقات كرنے والا تم ميں سابق الاسلام على ابن ابى طالب عليہ السلام ہے_

۳_ حضرت على عليہ السلام

اَللّهُمَّ انّي اَوَّلُ مَن اَنَابَ وَ سَمعَ وَاَجَابَ ، لَم يَسبَقني الّا رَسُوْلُ اللّه صَلَّى اللّهُ عَلَيْه و آله (۸)

بارالہا ميں وہ پہلا شخص ہوں جو دين كى طرف آيا ، اسے سنا اور قبول كيا ، پيغمبر اكرم (ص) كے علاوہ كسى شخص نے نماز ميں مجھ سے سبقت حاصل نہيں كي_

دعوت كا آغاز

رسول اكرم (ص) غار حرا سے نكل كر جب گھر ميں داخل ہوئے تو آپ (ص) نے بستر پر آرام فرمايا، ابھى آپ (ص) اسلام كے مستقبل اورتبليغ دين كى كيفيت كے بارے ميں سوچ ہى رہے تھے كہ سورہ مدثر نازل ہوا(۹) اور اللہ نے اپنے رسول (ص) كو اٹھ كھڑے ہونے اور ڈرانے (تبليغ دين كرنے) پر مامور كيا چنانچہ اس طرح پيغمبر اكرم (ص) نے دعوت حق كا آغاز كيا، اس دعوت كے تين مرحلے تھے ، خفيہ دعوت' رشتہ داروں كو دعوت اور عام لوگوں كو دعوت_

۷۳

الف _ خفيہ دعوت

دعوت حق كے اس مرحلے كى مدت مورخين نے تين سے پانچ سال لكھى ہے _(۱۰) مشركين كى سازش سے محفوظ رہنے كيلئے رسول اكرم (ص) كو حكم ملا كہ عوام پر توجہ دينے كى بجائے لوگوں كو فرداً فرداً دعوت حق كيلئے تيار كريں اور پوشيدہ طور پر باصلاحيت لوگوں سے ملاقات كركے ان كے سامنے اللہ كا دين پيش كريں چنانچہ آپ (ص) كى جدو جہد سے چند لوگ اسلام لے آئے مگر ان كى ہميشہ يہى كوشش رہى كہ اپنے دين كو مشركين سے پوشيدہ ركھيں اور فرائض عبادت لوگوں كى نظروں سے دور رہ كر انجام ديں_

جب مسلمانوں كى تعداد ميں اضافہ ہوا اور تعداد تيس تك پہنچ گئي تو رسول خدا (ص) نے''ارقم'' نامى مسلمان صحابى كے گھر كو ، جو صفا كے دامن ميں واقع تھا ، تبليغ اسلام اور عبادت خداوند تعالى كا مركز قرار ديا ، آپ (ص) اس گھر ميں ايك ماہ تك تشريف فرما رہے يہاں تك كہ مسلمانوں كى تعداد چاليس افراد تك پہنچ گئي(۱۱) _

قريش كا رد عمل

اگر چہ قريش كو كم وبيش علم تھا كہ رسول خدا (ص) كى پوشيدہ طور پر دعوت دين حق جارى ہے ليكن انہيں اس تحريك كى گہرائي سے واقفيت نہ تھى اور اس طرف سے كوئي خطرہ محسوس نہيں كرتے تھے اس لئے انہوں نے اس جانب كوئي توجہ نہ كى اور اس پر كسى بھى رد عمل كا اظہار نہيں كرتے تھیمگر اس كے ساتھ ہى وہ اپنے گردو پيش كے ماحول سے بھى بے خبر نہ تھے چنانچہ وہ ان واقعات كى كيفيت ايك دوسرے سے بيان كرتے رہتے تھے ، رسول خدا (ص) نے اس سنہرى موقعہ سے نہايت فائدہ اٹھايا اور اس عرصے ميں آپ (ص) نے جماعت حق ''حزب اللہ'' كى داغ بيل ڈال دى _

۷۴

ب_ اعزاء و اقرباء كو دعوت

دعوت كا يہ مرح-لہ اس آيت مباركہ كے نزول كے ساتھ شروع ہوا :

( وَاَنذر عَشيرَتَكَ الاَقرَبينَ ) (۱۲)

اپنے رشتہ داروں كو عذاب الہى سے ڈرائو_

پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے حضرت على عليہ السلام كو كھانے كا انتظام كرنے پر مامور كيا اور آنحضرت(ص) نے اپنے عزيز و اقارب كو كھانے پر بلايا تاكہ خداوند تعالى كا پيغام ان تك پہنچاديں_

تقريباً چاليس يا پينتاليس آدمى آپ (ص) كے دسترخوان پر جمع ہوئے_(۱۳) رسول (ص) خدا ابھى لوگوں سے گفتگو كرنا ہى چاہتے تھے كہ ابولہب نے غير متعلقہ باتيں شروع كرديں اور آپ (ص) پر سحر و جادو گرى كا الزام لگا كر محفل كو ايسا درہم برہم كيا كہ اس ميں اصل مسئلے كو پيش نہ كياجاسكا_

اگلے روز آپ (ص) نے دوبارہ لوگوں كو كھانے پر مدعو كيا جب لوگ كھانے سے فارغ ہوگئے تو رسول خدا (ص) اپنى جگہ سے اٹھے اور تقرير كے دوران فرمايا كہ :

''اے عبدالمطلب كے بيٹو خدا كى قسم مجھے قوم عرب ميں ايك بھى ايسا جوان نظر نہيں آتا جو اپنى قوم كے لئے اس سے بہتر چيز لے كر آيا ہو جسے ميں اپنى قوم كےلئے لے كر آيا ہوں، ميں تمہارے لئے دنيااور آخرت كى خير (بھلائي) لے كر آيا ہوں ، خداوند تعالى نے مجھے اس كام پر مامور كيا ہے كہ ميں تمہيں اس كى طرف دعوت دوں ، تم ميں سے كون ايسا

۷۵

شخص ہے جو ميرى اس كام ميں مدد كرے تاكہ وہ تمہارے درميان ميرا بھائي ، وصى اور جانشين بن سكے؟آخرى الفاظ كچھ اس طرح ہيں:

(فَاَيُّكُم يُوَازرُني عَلى هذَا الَامر عَلى اَن يَكُوُنَ اَخي وَوَصيّي وَ خَليفَتي؟)

رسول خدا (ص) نے تين مرتبہ اپنى بات دہرائي اور ہر مرتبہ حضرت على عليہ السلام ہى اپنى جگہ سے اٹھ كر كھڑے ہوئے اور اعلان كيا كہ ميں آپ (ص) كى مدد اور حمايت كروں گا، اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا :

(انَّ هذ َا اَخي وَ َوصيّي وَ خَليفَتي فيكُمَ فَاسمَعُوا لَهُ وَاَطيَعُوه ) (۱۴)

يہ على (ع) تمہارے درميان ميرے بھائي، وصى اور خليفہ ہيں ان كى بات سنو اور اطاعت كرو_

اس نشست ميں رسول خدا (ص) نے جو تقرير كى اس سے مسئلہ ''امامت '' كى اہميت واضح ہوجاتى ہے اور يہ بات ثابت ہوتى ہے كہ اصل ''نبوت'' كو ''امامت'' سے جدا نہيں كيا جاسكتا _

پہلے عزيز و اقارب ہى كيوں ؟

مندرجہ بالا سوال كے جواب ميں يہ كہاجاسكتا ہے كہ عمومى دعوت سے قبل عقل و دانش كى رو سے عزيز و اقارب كو ہى دعوت دى جانى چاہئے كيونكہ حقيقت يہ ہے كہ رسول خدا (ص) كا يہ اقدام انتہائي حساس مرحلے اور خطرناك حالات ميں، دعوت حق كى بنيادوں كو استوار كرنے كا بہترين ذريعہ تھا كيونكہ :

۷۶

۱_عزيز و اقارب كو اپنى جانب مائل كركے ہى پيغمبر اكرم (ص) دشمنان اسلام كے خلاف طاقتور دفاعى محاذ قائم كرسكتے تھے ، اس كے علاوہ كچھ اور نہيں تو كم از كم اتنا فائدہ تو تھا ہى كہ اگر ان كے دل آپ (ص) كے دين كى طرف مائل نہ بھى تو بھى رشتہ دارى اور قرابت كے تقاضوں كے مطابق وہ لوگ آنحضرت (ص) كے تحفظ و دفاع كيلئے اٹھ كھڑے ہوں_

۲_اس كا م سے رسول اللہ (ص) نے اپنى داخلى تشكيلات ميں موجود خوبيوں ، خاميوں اور كمزوريوںكا خوب اندازہ لگاليا ، آپ (ص) مخالف اور ہٹ دھرم قوتوں سے خوب واقف ہوگئے_

ج_عام دعوت حق

رسول خدا (ص) نے دعوت كے تيسرے مرحلے ميں اپنى تبليغ كو وسعت دى اور پہلى محدوديت كو ختم كردياارشاد خداوندى ہوا:

( فَاصدَع بمَا تُؤمَرُ وَأَعرض عَن المُشركينَ_ إنَّا كَفَينَاكَ المُستَهزئينَ ) (۱۵)

''پس اے پيغمبر (ص) جس چيز كا حكم دياجارہا ہے اسے آشكارا بيان كرو اور شرك كرنے والوں كى ذرا برابر پروا نہ كرو ،(تمہارى طرف سے) ہم ان مذاق اڑانے والوں كى خبر لينے كيلئے كافى ہيں_''

ان آيات كے نزول كے بعد آپ (ص) سب لوگوں كو دين اسلام قبول كرنے كى دعوت دينے پر ما مور ہوئے، چنانچہ اس مقصد كى خاطر آپ(ص) كوہ صفا پر تشريف لے گئے اور اس جم غفير كے سامنے جو اس وقت وہاں موجود تھا آپ (ص) نے اس تمہيد كے ساتھ تقرير شروع كى :

۷۷

''اگر ميں يہ كہوں كہ اس پہاڑ كے پيچھے تمہارى گھات ميں دشمن بيٹھا ہوا ہے اور تمہارے لئے اس كا وجود سخت خطرے كا باعث ہے تو كيا تم ميرى بات كا يقين كرو گے؟'' سب نے يك زبان ہو كر كہا كہ ہاں ہم آپ (ص) كى بات كا يقين كريں گے كيونكہ ہم نے آپ (ص) كى زبان سے اب تك كوئي جھوٹى بات نہيں سنى ہے ، يہ سننے كے بعد آپ (ص) نے فرمايا :

( فَانّى نَذيرٌ لَكُم بَينَ يَدَي عَذَاب: شَديد: ) _

اب(جب كہ تم نے ميرى راست گوئي كى تصديق كردى ہے تو) ميں تمہيں بہت ہى سخت عذاب سے آگاہ و خبردار كر رہا ہوں_

رسول خدا(ص) كى يہ بات سن كر ابولہب بول اٹھا اور كہنے لگا:

'' تمہارا براہو كيا تم نے يہى بات كہنے كيلئے ہميں يہاں جمع كيا تھا ''_

خداوند تعالى نے اس گستاخ كى تنبيہہ كرنے اور اس كا معاندانہ چہرہ برملا كرنے كى خاطر يہ سورت(۱۶) نازل فرمائي(۱۷)

بسم الله الرَّحمن الرَّحيْم

( تَبَّت يَدَا أَبى لَهَب: وَتَبَّ (۱) مَا أَغنَى عَنهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ (۲) سَيَصلى نَارًا ذَاتَ لَهَب: (۳) وَامرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الحَطَب (۴) فى جيدهَا حَبلٌ من مَسَد: ) (۵)

''ابولہب كے ہاتھ ٹوٹ جائيں نہ اس كا مال اس كے كام آيا اور نہ كمايا ہوا ، عنقريب اُسے آگ ميں ڈالاجائے گا اور اس كى بيوى لكڑى ڈھونے والى كو ، جس كے گلے ميں بٹى ہوئي رسى ہے''

۷۸

قريش كا رد عمل

پيغمبر اكرم (ص) كى نبوت كى خبر جيسے ہى مكہ ميں پھيلى اُسى وقت سے ہى قريش كے اعتراضات شروع ہوگئے، جب انہوں نے محسوس كيا كہ يہ مسئلہ سنگين صورت اختيار كر گيا ہے اور حضور(ص) كى تحريك ان كے خس وخاشاك جيسے دينى عقائد اور مادى مفادات كيلئے خطرہ ہے تو انہوں نے آپ (ص) كے آسمانى دين (اسلام) كے خلاف محاذ بناليااور آپ(ص) كى مخالفت پر كمربستہ ہوگئے يہاں ہم ان كى بعض ناكام كوششوں كا ذكر كرتے ہيں:

الف _مذاكرہ

مشركين قريش كى شروع ميں تو يہى كوشش رہى كہ وہ حضرت ابوطالب (ع) اور بنى ہاشم كے مقابلے پر نہ آئيں بلكہ انہيں مجبور كريں كہ وہ پيغمبر اكرم (ص) كى حمايت وپشت پناہى كے اپنے موقف سے دست بردار ہوجائيں تاكہ وہ آسانى سے رسول اكرم (ص) كى سركوبى كرسكيں_

اس مقصد كے حصول كيلئے انہوں نے پہلے تو يہ كوشش كى كہ حضرت ابوطالب (ع) كو يہ كہنے پر مجبور كرديں كہ ان كے بھتيجے كى تحريك نہ صرف ان (مشركين قريش) كيلئے مضر ہے بلكہ قوم و برادرى ميںحضرت ابوطالب (ع) كوجو عزت وحيثيت حاصل ہے اس كيلئے بھى خطرہ پيدا ہوگيا_

مشركين قريش نے خوبرو ، تنو مند اور وجيہہ جوان شاعر عمارة بن وليد بن مغيرہ كو حضرت ابوطالب (ع) كى فرزندى ميں دينے كى كوشش كى تاوہ كہ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى حمايت سے دست بردار ہوجائيں اور آپ (ص) كو ان كے حوالے كرديں _(۱۸)

حضرت ابوطالب عليہ السلام نے ان كى ہر بات كامنفى جواب ديا اور رسول خدا (ص) كى حمايت سے دست بردار ہونے سے كسى بھى قيمت پر آمادہ نہ ہوئے_

۷۹

ب_ لالچ

سرداران قريش جب پہلے مرحلے ميں شكست و ناكامى سے دوچار ہوئے تو انہوں نے فيصلہ كيا كہ چراغ نبوت كو خاموش كرنے كيلئے رسول(ص) خدا كو مال ودولت كا لالچ ديا جائے چنانچہ اس مقصد كے تحت پہلے وہ حضرت ابوطالب (ع) كے پاس پہنچے اور يہ شكوہ و شكايت كرتے ہوئے كہ ان كے بھتيجے (حضرت محمد (ص)) نے ان كے بتوں كے خلاف جو رويہ اختيار كيا ہے وہ سخت نازيبا ہے،يہ پيشكش كى كہ اگر حضرت محمد (ص) ہمارے بتوں كى مخالفت سے دستبردار ہوجائيں تو ہم انہيں دولت سے مالا مال كرديں گے ،ان كى اس پيشكش كے بارے ميں رسول خدا (ص) نے جواب ديا :

خداوند تعالى نے مجھے دنيا پرستى اور زراندوزى كيلئے انتخاب نہيں كيا ہے بلكہ مجھے منتخب كياگيا ہے كہ لوگوں كو اللہ كى جانب آنے كى دعوت دوں اور اس مقصد كيلئے ان كى رہنمائي كروں_(۱۹)

يہ بات آپ (ص) نے دوسرى جگہ ان الفاظ ميں بيان فرمائي:

''چچا جان خدا كى قسم اگر سورج كو ميرے دائيں ہاتھ ميں اور چاند كو بائيں ہاتھ ميں ركھ ديں تو بھى ميں رسالت الہى سے دست بردار ہونے والا نہيں ، اس تحريك خداوندى كو فروغ دينے كيلئے ميں جان كى بازى تو لگا سكتا ہوں مگر اس سے دستبردار ہونے كيلئے تيار نہيں ''_(۲۰)

سرداران قريش نے اگلے مرحلے پر يہ فيصلہ كيا كہ وہ براہ راست پيغمبر اكرم (ص) سے گفتگو كريں چنانچہ اس مقصد كے تحت انہوں نے اپنا نمائندہ آپ (ص) كى خدمت ميں روانہ كيا اور آپ (ص) كواپنى محفل ميں آنے كى دعوت دى جب رسول خدا (ص) ان لوگوں ميں پہنچ گئے تو كفار

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313