تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي25%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139705 / ڈاؤنلوڈ: 4388
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آنحضرت (ص) كے حوالے كردى تھى تاكہ اسے آپ (ص) ضرورت مند لوگوں پر خرچ كريں_

حضرت خديجہ (ع) نے رسول خدا (ص) سے گفتگو كرتے ہوئے شادى كى درخواست كے اصل محرك كو اس طرح بيان كيا ہے:'' اے ميرے چچا زاد بھائي چونكہ ميں نے تمہيں ايك شريف ،ديانتدار ، خوش خلق اور راست گو انسان پايا اسى وجہ سے ميں تمہارى جانب مائل ہوئي (اور شادى كے لئے پيغام بھيجا)''(۱۱)

پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے منہ بولے بيٹے

حضرت خديجہ (ع) سے رسول اكرم (ص) كى شادى كے بعد يك مرتبہ حضرت خديجہ (ع) كے بھتيجے حكيم بن حزام ملك شام سے اپنے ساتھ كچھ غلام لے كر آئے جن ميں ايك آٹھ سالہ لڑكا زيد ابن حارثہ بھى تھا، جس وقت حضرت خديجہ (ع) اس سے ملنے كےلئے آئيں تو حكيم نے ان سے كہا كہ پھوپى جان آپ (ع) ان غلاموں ميں سے جسے بھى چن ليں وہ آپ ہى كا ہوگا(۱۲) حضرت خديجہ (ع) نے زيد كو چن ليا_

جب رسول خدا (ص) نے زيد كو حضرت خديجہ (ع) كے پاس ديكھا تو آپ (ص) نے يہ خواہش ظاہر كى كہ يہ غلام مجھے دے دياجائے، حضرت خديجہ (ع) نے اس غلام كو پيغمبر اكرم (ص) كے حوالے كر دياپيغمبر اكرم (ص) نے اسے آزاد كركے اپنا منہ بولا فرزند (متبني) بناليا ليكن جب پيغمبر خدا (ص) پر وحى نازل ہونا شروع ہوئي تو قرآن نے حكم ديا كہ انہيں لے پالك فرزند نہيں صرف فرزند كہاجائے_

جب زيد كے والد ''حارثہ'' كو يہ معلوم ہوا كہ ان كا بيٹا شہر مكہ ميں رسول خدا (ص) كے گھر ميں

۶۱

ہے تو وہ آنحضرت (ص) كے پاس آيا اور كہا كہ ان كا بيٹا ان كو واپس دے ديا جائے اس پر آنحضرت (ص) نے زيد سے فرمايا:

''اگر چاہو تو ہمارے ساتھ رہو اور چاہو تو اپنے والد كے ساتھ واپس چلے جائو ''_

مگر حضرت زيد نے پيغمبر اكرم (ص) كے پاس ہى رہنا پسند كيا،بعثت كے موقع پر حضرت على عليہ السلام كے بعد وہ پہلے مرد تھے جو آنحضرت (ص) پر ايمان لائے_(۱۳)

رسول خدا (ص) نے پاك دامن اور ايثار پسند خاتون'' ام ايمن ''سے ان كا نكاح كرديا جن سے ''اسامہ'' كى ولادت ہوئي ، اس كے بعد آپ (ص) نے اپنے چچا كى لڑكى ''زينب بنت حجش'' سے ان كى شادى كردي_(۱۴)

حضرت على عليہ السلام كى ولادت

شہر مكہ كے اس تاريخ ساز عہد ميں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان ميں سے ايك حضرت على (ع) كى كعبہ ميں ولادت باسعادت تھى ، مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت على (ع) كى پيدائشے واقعہ عام الفيل كے تيس سال بعد ہوئي _(۱۵) خانہ كعبہ ميں اميرالمومنين حضرت على (ع) كى پيدائشے كا شمار آپ (ص) كے عظیم وممتاز فضائل ميں ہوتا ہے اس فضيلت كا نہ صرف شيعہ دانشوروں نے ذكر كيا ہے بلكہ اہل سنت كے محدثين و مورخين بھى اس كے معترف ہيں(۱۶) _

پيغمبر اكرم (ص) كے دامن ميں تربيت

حضرت على (ع) نے بچپن اور شير خوارگى كا زمانہ اپنے مہربان اور پاكدامن والدين حضرت

۶۲

ابوطالب عليہ السلام اور حضرت فاطمہ (ع) كى آغوش اور گھر ميں بسر كيا جہاں نور رسالت اور آفتاب نبوت تاباں تھا _ حضرت ابوطالب (ع) كے اس نونہال پر حضرت محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى شروع سے ہى خاص توجہ وعنايت رہى ، رسول اكرم (ص) چونكہ اكثر و بيشتر اپنے چچا كے گھر تشريف لے جايا كرتے تھے اسى لئے آپ (ص) نے حضرت على (ع) كے ساتھ محبت ومہربانى كے سلوك اور تربيت ميں كوئي دقيقہ فروگذاشت نہ كيا_

رسول خدا (ص) نے اسى پر ہى اكتفا نہ كى بلكہ حضرت على (ع) نے اپنى عمر كى جب چھ بہاريں ديكھ ليں(۱۷) تو آپ (ص) انہيں ان كے والدكے گھر سے اپنے گھر لے آئے اور بذات خود ان (ع) كى تربيت وسرپرستى فرمانے لگے_(۱۸)

پيغمبر اكرم (ص) كو حضرت على (ع) سے وہ شغف تھا كہ آپ (ص) انہيں اپنے سے ہر گز جدا نہيں كرتے تھے چنانچہ جب كبھى آپ (ص) عبادت كےلئے مكہ سے باہر غار حرا ميں تشريف لے جاتے حضرت على (ع) آپ (ص) كے ساتھ ہوتے_(۱۹)

رسول اكرم (ص) كے زير سايہ حضرت على (ع) كى جو تربيت ہوئي اس كى اہميت و قدر وقيمت كے بارے ميں خود حضرت على (ع) فرماتے ہيں :

(وَلَقَد عَلمتُم مَوضعي من رَسُوْل اللّه بالقَرَابَة القَريبَة وَاَلمَنزلَة الخَصيصَة وَضَعَني في حجره وَاَنَا وَلَدٌ يَضُمُّنيْ الى صَدره وَيَكنُفُني في فرَاشه وَيَمُسُّنيْ جَسَدَهْ وَيَشُمُّنيْ عَرفَهْ وَ كَانَ يَمضُغُ النَّبيُّ ثُمَّ يُلَقّينيْ وَلَقَد كُنْتُ اَتَّبعََهُ اتّبَاعَ الفَصيل اَثَرَاُمّه يَرفَعُ لي كُلَّ يَوم: منْ اَخلَاقَهُ عَلَماً وَيَامُرُنيَ بالاقتدَائ به )(۲۰)

۶۳

''يہ تو تم سب جانتے ہى ہو كہ رسول خدا (ص) كى مجھ سے كيسى قربت تھى اور آپ (ص) كى نظروں ميں ميرى كيا قدر ومنزلت تھى ، اس وقت جب ميں بچہ تھا آپ (ص) مجھے اپنى گود ميں جگہ ديتے اور سينے سے لگاتے ، مجھے اپنے بستر پر جگہ ديتے ، ميں آپ سے بغلگير ہوتا اور آپ(ص) كے جسم مبارك كى عطر آگيں بو ميرے مشام كو معطر كرديتى ، آپ (ص) نوالے چبا كر ميرے منہ ميں ركھتے ميں پيغمبر اكرم (ص) كے نقش قدم پر اس طرح چلتا جيسے شير خوار بچہ اپنى ماں كى پيروى كرتاہے، آپ (ص) ہر روز اپنے اخلاق كا نياپرچم ميرے سامنے لہراتے اور حكم فرماتے كہ ميں بھى آپ (ص) كى پيروى كروں''_

معبود حقيقى سے انس ومحبت

امين قريش نے اپنى زندگى كے تقريبا چاليس سال ان سختيوں اور محروميوں كے باوجود جو ہميشہ ان كے دامن گير رہيں نہايت صداقت ، شرافت، نجابت ، كردار كى درستى اور پاكدامنى كے ساتھ گزارے آپ (ص) نے اس عرصے ميں خدائے واحد كے علاوہ كسى كى پرستش نہيں كى اور انس عبادت اور معرفت خداوندى كو ہر چيز پر ترجيح دى چنانچہ يہى وجہ تھى كہ آپ (ص) ہر سال كچھ عرصہ جبل نور كے ''غارحرا'' ميں تنہا رہ كر عبادت خدا وند ى ميں گزارتے_

جناب اميرالمومنين حضرت على (ع) اس بارے ميں فرماتے ہيں :

(وَلَقَد كَانَ يُجَاورُ فيَ كُلّ سَنَة: بحرَائَ فَاَرَاهُ وَلَا يَرَاهُ غَيري )(۲۱)

''رسول خدا (ص) ہر سال كچھ عرصے كيلئے حرا ميں قيام فرماتے اس وقت ميں ہى انہيں ديكھتا ميرے علاوہ انہيں كوئي نہيں ديكھتا تھا''_

پيغمبر اكرم (ص) كے آباء و اجداد بھى سب ہى توحید پرست تھے اور سب ان آلودگيوں سے

۶۴

دور تھے جن ميں لوگوں كى اكثريت ڈوبى ہوئي تھي_

اس بارے ميں حضرت علامہ مجلسى فرماتے ہيں:

شيعہ اماميہ كا اس بات پر اتفاق ہے كہ رسول خدا (ص) كے والدين اور آباء و اجداد مسلمان ہى نہيں بلكہ سب صديقين ميں سے تھے وہ يا تو نبى مرسل تھے يا معصوم اوصيا، ان ميں سے بعض تقيہ كى وجہ سے يا مذہبى مصلحتوں كى بنا پر دين اسلام كو ظاہر نہيں كرتے تھے_(۲۲)

رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا ارشادہے:

(لَم اَزَل اُنقَلُ من اَصلَاب الطَّاهرينَ الى اَرحَام المُطَهَّرَات )(۲۳)

''ميں مسلسل پاك شخصيات كے صلب سے پاكيزہ خواتين كے رحم ميں منتقل ہوتا رہا ''_

۶۵

سوالات

۱_رسول خدا (ص) نے ملك شام كا پہلا سفر كب كيا اور وہاں كيا واقعہ پيش آيا ؟

۲_بحيرا نے حضرت ابوطالب (ع) كو رسول خد ا(ص) كے بارے ميں كيا ہدايت كى تھيں؟

۳_ مستشرقين نے رسول خدا (ص) كى بحيرا سے ملاقات كو كس پيرائے ميں پيش كيا ان

كى بے دليل تاويلات كے بارے ميں مختصر طور پر اظہار خيال كيجئے؟

۴_ رسول خدا (ص) نے ملك شام كا دوسرا سفر كس وجہ سے كيا اور اس سفر سے آپ (ص) كو كيا

نتيجہ حاصل ہوا؟

۵_حضر ت خديجہ (ع) كى رسول خدا (ص) سے شادى كس سال ہوئي، حضرت خديجہ (ع) نے

اس شادى كى پيشكش كس وجہ سے كى خود ان كے اقوال كى روشنى ميں سوال كا

جواب ديجئے؟

۶_ حضرت زيد اپنے والد كے ہمراہ كيوں نہ گئے اور رسول خدا (ص) كے ساتھ كس وجہ

سے رہنا پسند كيا ؟

۷_ پيغمبر خدا (ص) نے كس طرح حضرت على (ع) كى تربيت فرمائي' حضرت على (ع) كے اقوال كي

روشنى ميں جواب ديجئے؟

۸_ نزول وحى سے قبل پيغمبر اكرم (ص) كا كيا دين ومسلك تھا؟

۶۶

حوالہ جات

۱_پيغمبرا كرم(ص) كس سن ميں سفر پر روانہ ہوئے اس كے بارے ميں اختلاف ہے بعض نے سفر كے وقت آپ (ص) كى عمر نو سال كچھ مورخين نے بارہ اور تيرہ سال بھى لكھى ہے ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۱۷ و مروج الذہب ج ۲ ص ۲۷۵_

۲_يہ شہر دمشق كى سمت واقع ہے اور ''حوران ''كا مركز شمار كياجاتا ہے_ (معجم البلدان ج ۱ ص ۴۴۱ و ج ۲ ص ۳۱۷)_

۳_بعض مورخين نے اسے''تَيمائ'' كا يہودى عالم لكھا ہے ، ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۱۸_

۴_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۱۹ والسيرة النبويہ ج ۱ ص ۱۹۳ و ۱۹۴_

۵_بعض مورخين اور صاحب نظر محققين نے ان شواہد و قرائن كى بنياد پر جو اس روايت ميں موجود ہيں اس كى صحت پر شك وترديد كا اظہار كيا ہے ان كى رائے ميں يہ دشمنان اسلام كے ذہن كى اختراع ہے ، ان نظريات كے بارے ميں مزيد اطلاع حاصل كرنے كيلئے ملاحظہ ہو الصحيح من السيرة النبي(ص) ' ج ۱ 'ص ۹۱ و ۹۴ و تاريخ تحليلى اسلام تاليف رسول محلاتى ج ۱ ص ۲۷۲_

۶_يعقوبى نے اپنى تاريخ (ج ۲ ص ۲۱) ميں لكھا ہے كہ : ''رسول خدا (ص) نے اپنى زندگى ميں كبھى اجرت پر كام نہيں كيا''، اس كے قول كو مد نظر ركھتے ہوئے يہاں يہ كہنا پڑے گا كہ پيغمبر اكرم (ص) كى حضرت خديجہ (ع) كے ساتھ تجارت ، شراكت كى بنياد پر تھى اور انہوں نے اپنا مال بطور شريك تجارت آنحضرت (ص) كى تحويل ميں ديا تھا_

۷_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص۱۳۲ _ ۱۳۵_

۸_مثال كے طور پر جب يمن كے بادشاہ تبع نے حجر اسود كو مكہ سے يمن لے جانے كا عزم كيا تو حضرت خديجہ (ع) كے والد خويلد نے اپنى سعى و كوشش سے تبع كو اس ارادے سے باز ركھا ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۱ ص۱۳۸_

۹_ تاريخ كى بعض كتابوں ميں آيا ہے كہ حضرت خديجہ (ع) نے براہ راست پيغمبر اكرم (ص) كو شادى كا پيغام بھيجا ملاحظہ ہو سيرہ ابن اسحاق ص ۶۰_

۶۷

۱۰_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۳۷ _ ۱۳۹_

۱۱_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۲۷۱_

۱۲_حلبى نے لكھا ہے كہ حضرت خديجہ(ع) نے اپنے بھتيجے سے كہہ ركھا تھا كہ ايك اچھا سا عرب غلام خريد كر ان كےلئے ليتے آئيں (السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۲۷۱)_

۱۳_السيرة النبويہ ج ۱ ص ۲۶۴_۲۶۵_

۱۴_يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت زينب نے كچھ عرصہ بعد زيد سے طلاق لے لى تو پيغمبر اكرم (ص) نے خدا كے حكم سے ان كے ساتھ نكاح كرليا_ چنانچہ سورہ احزاب كى آيات ۳۶_۳۷ _۳۸ ميں اس امر كى جانب اشارہ كيا گيا ہے_

۱۵_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۱۳۹ _

۱۶_علمائے اہل سنت كے نظريات اور اقوال جاننے كيلئے ملاحظہ ہو: كتاب (الغدير) ج ۲ ص ۲۱ _۲۳_

۱۷_مناقب ابن شہر آشوب ج ۲ ص ۱۸۰ نيز بعض كتب ميں ايك ضعيف قول لكھا ہے كہ اس وقت حضرت على (ع) كى عمر آٹھ سال تھى _ ملاحظہ ہو سير ةالائمہ اثنا عشر ج ۱ ص ۱۵۵_

۱۸_مورخين نے نقل مكانى كى يہ وجہ بتائي ہے كہ : ايك مرتبہ قريش سخت قحط سالى كا شكار ہوگئے ، حضرت ابوطالب (ع) چونكہ كثير العيال تھے اس لئے پيغمبر اكرم (ص) كى تجويز پر يہ طے ہوا كہ ان كے برادر ى كے لوگوں ميں سے ہر ايك كسى ايك بچے كى پرورش و نگہداشت كى ذمہ دارى قبول كرے اسى وجہ سے پيغمبرا كرم (ص) نے حضرت على (ع) كى پرورش اپنے ذمہ لى ملاحظہ ہو السيرة النبويہ ج ۱ ص ۲۶۲ و كامل ابن اثير ج ۲ ص ۵۸ _ ليكن نقل مكانى كى يہ وجہ معقول نظر نہيں آتى بالخصوص اس حالت ميں جب حضرت على (ع) كے سن مبارك كو نظر ميں ركھاجائے_شايد اس قدر بڑھا كر بيان كرنے كا سبب يہ تھا كہ رسول خدا (ص) كے اس عظيم كارنامے كو كم كر كے پيش كياجائے البتہ يہ كہا جاسكتاہے كہ آپ (ص) نے قحط سالى كو بہانہ بنايا اور چونكہ اس بچے كے تابناك مستقبل سے آپ (ص) واقف تھے اسى لئے طے شدہ دستورالعمل كے تحت آپ (ص) حضرت على (ع) كو اپنے گھر لے آئے ، اس ميں شك نہيں كہ حضرت على (ع) اپنى والد كے سب سے چھوٹے فرزند تھے اور اس وقت آپ (ص) كى عمر چھ سال سے زيادہ نہ تھى ، چھ سال كے بچے كا خرچ اتنا نہيں ہوتا كہ باپ اسے برداشت نہ كرسكے اور

۶۸

باپ بھى كيسا جس كى اپنى برادرى ميں اعلى مرتبہ كى وجہ سے عزت تھى اور انہيں (شيخ الابطح) كہاجاتا تھا_

۱۹_تاريخ طبرى ج ۲ ص ۲۱۳ و شرح ابن حديد ج ۳ ص ۱۱۹_

۲۰_نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ (۱۹۲ )_اس خطبے ميں امام كے الفاظ اس بات كو بيان كررہے ہيں كہ آپ (ع) پر شير خوارگى كے زمانہ سے ہى پيغمبراكرم (ص) كى توجہ مركوز تھى اور ان كى زير تربيت تھے كيونكہ لقمہ چبانا اور منہ ميں ركھنا بچے ہى سے متعلق ہے_

۲۱_نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ (۱۹۲)_

۲۲_بحارالانوار ج ۱۵ ص ۱۱۷_

۲۳_ايضا ص ۱۱۸_

۶۹

سبق ۵:

مكہ ميں اسلام كى تبليغ اورقريش كا رد عمل

۷۰

بعثت (نزول وحي)

خداوند تعالى كى عبادت و پرستش ميںرسول اكرم (ص) كو چاليس سال گزرچكے تھے _ايك مرتبہ جب آپ (ص) غار حرا ميں اپنے معبود حقيقى سے راز و نياز اور عبادت ميں مصروف تھے اس وقت آپ (ص) رسالت پر مبعوث ہوئے ، حضرت جبرئيل امين (ع) آپ (ص) كے پاس آئے اوراولين آيات الہى كى تلاوت كى :

بسم اللّه الرَّحمن الرَّحيم

( اقرَائ باسم رَبّكَ الَّذي خَلَقَ خَلَقَ الانسَانَ من عَلَق: اقرَائ وَ رَبُّكَ الَاكرَمُ الَّذى عَلَّمَ بالَقَلَم عَلَّمَ الانسَانَ مَالَم يَعلَم ) _(۱)

''اپنے پروردگار كا نام لے كر پڑھو كہ جس نے انسان كو جمے ہوئے خون سے پيدا كيا _ پڑھو كہ تمہارا پروردگار بڑا كريم ہے ، جس نے قلم كے ذريعہ تعليم دى ہے اور انسان كو وہ سب كچھ سكھاديا جو وہ نہيں جانتا تھا''_

رسول اعظم(ص) نے جب يہ آيت مباركہ سنى اور خداوند تعالى كى جانب سے پيغمبرى كى خوشخبرى ملى نيز آپ (ص) نے مقام كبريائي كى عظمت و شان كا مشاہدہ كيا تو اس نعمت عظمى كو حاصل كرنے كے بعد آپ (ص) نے اپنے وجود مبارك ميں مسرت و شادمانى محسوس كى چنانچہ

۷۱

آپ (ص) غار سے باہر تشريف لائے اور حضرت خديجہ(ع) كے گھر كى جانب روانہ ہوگئے_(۲)

راستے ميں جتنى پہاڑياں اور چٹانيں تھيں وہ سب كى سب قدرت حق سے گويا ہوگئي تھيں اور پيغمبر خدا (ص) كا ادب و احترام بجالاتے ہوئے''اَلسَلَامُ عَلَيكَ يَا نَبيَّ اللّه'' كہہ كر آپ (ص) سے مخاطب ہوہى تھيں_(۳)

شيعہ محدثين اور مورخين كے مشہور نظريے كى رو سے واقعہ ''عام الفيل'' كے چاليس سال گزر جانے كے بعد ۲۷ رجب پير كے دن رسول (ص) خدا مبعوث بہ رسالت ہوئے(۴) _

سب سے پہلے اسلام لانے والے

رسو ل خدا (ص) غار حرا سے گھر تشريف لے گئے اور آپ (ص) نے نبوت كا اعلان كرديا، سب سے پہلے آپ (ص) كے چچازاد بھائي حضرت على عليہ السلام نے آپ (ص) كى تصديق كى اور عورتوں ميں سب سے پہلے آپ (ص) كى زوجہ مطہرہ حضرت خديجہ(ع) تھيں جنہوں نے آپ (ص) كے پيغمبر (ص) ہونے كى تصديق كى ، اہل سنت كے اكثر و بيشتر مورخين بھى اس بات سے متفق ہيں_(۵)

اس سلسلے ميں چند روايات ملاحظہ ہوں:

۱_ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم

(هذَا اَوَّلُ مَن آمَنَ بي وَصَدَّقَّني وَصَلَّى مَعي )(۶)

يہ (على (ع)) وہ پہلا شخص تھا جو مجھ پر ايمان لايا ، ميرى تصديق كى اور ميرے ساتھ نماز ادا كي_

۷۲

۲_ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم

اَوَّلُكُم وَارداً عَلَيَّ الحَوضَ و اَوَّلُكُم اسلَاماً ، عَليُّ ابنُ اَبى طَالب :(۷)

تم ميں سب سے پہلے حوض كوثر كے كنارے مجھ سے ملاقات كرنے والا تم ميں سابق الاسلام على ابن ابى طالب عليہ السلام ہے_

۳_ حضرت على عليہ السلام

اَللّهُمَّ انّي اَوَّلُ مَن اَنَابَ وَ سَمعَ وَاَجَابَ ، لَم يَسبَقني الّا رَسُوْلُ اللّه صَلَّى اللّهُ عَلَيْه و آله (۸)

بارالہا ميں وہ پہلا شخص ہوں جو دين كى طرف آيا ، اسے سنا اور قبول كيا ، پيغمبر اكرم (ص) كے علاوہ كسى شخص نے نماز ميں مجھ سے سبقت حاصل نہيں كي_

دعوت كا آغاز

رسول اكرم (ص) غار حرا سے نكل كر جب گھر ميں داخل ہوئے تو آپ (ص) نے بستر پر آرام فرمايا، ابھى آپ (ص) اسلام كے مستقبل اورتبليغ دين كى كيفيت كے بارے ميں سوچ ہى رہے تھے كہ سورہ مدثر نازل ہوا(۹) اور اللہ نے اپنے رسول (ص) كو اٹھ كھڑے ہونے اور ڈرانے (تبليغ دين كرنے) پر مامور كيا چنانچہ اس طرح پيغمبر اكرم (ص) نے دعوت حق كا آغاز كيا، اس دعوت كے تين مرحلے تھے ، خفيہ دعوت' رشتہ داروں كو دعوت اور عام لوگوں كو دعوت_

۷۳

الف _ خفيہ دعوت

دعوت حق كے اس مرحلے كى مدت مورخين نے تين سے پانچ سال لكھى ہے _(۱۰) مشركين كى سازش سے محفوظ رہنے كيلئے رسول اكرم (ص) كو حكم ملا كہ عوام پر توجہ دينے كى بجائے لوگوں كو فرداً فرداً دعوت حق كيلئے تيار كريں اور پوشيدہ طور پر باصلاحيت لوگوں سے ملاقات كركے ان كے سامنے اللہ كا دين پيش كريں چنانچہ آپ (ص) كى جدو جہد سے چند لوگ اسلام لے آئے مگر ان كى ہميشہ يہى كوشش رہى كہ اپنے دين كو مشركين سے پوشيدہ ركھيں اور فرائض عبادت لوگوں كى نظروں سے دور رہ كر انجام ديں_

جب مسلمانوں كى تعداد ميں اضافہ ہوا اور تعداد تيس تك پہنچ گئي تو رسول خدا (ص) نے''ارقم'' نامى مسلمان صحابى كے گھر كو ، جو صفا كے دامن ميں واقع تھا ، تبليغ اسلام اور عبادت خداوند تعالى كا مركز قرار ديا ، آپ (ص) اس گھر ميں ايك ماہ تك تشريف فرما رہے يہاں تك كہ مسلمانوں كى تعداد چاليس افراد تك پہنچ گئي(۱۱) _

قريش كا رد عمل

اگر چہ قريش كو كم وبيش علم تھا كہ رسول خدا (ص) كى پوشيدہ طور پر دعوت دين حق جارى ہے ليكن انہيں اس تحريك كى گہرائي سے واقفيت نہ تھى اور اس طرف سے كوئي خطرہ محسوس نہيں كرتے تھے اس لئے انہوں نے اس جانب كوئي توجہ نہ كى اور اس پر كسى بھى رد عمل كا اظہار نہيں كرتے تھیمگر اس كے ساتھ ہى وہ اپنے گردو پيش كے ماحول سے بھى بے خبر نہ تھے چنانچہ وہ ان واقعات كى كيفيت ايك دوسرے سے بيان كرتے رہتے تھے ، رسول خدا (ص) نے اس سنہرى موقعہ سے نہايت فائدہ اٹھايا اور اس عرصے ميں آپ (ص) نے جماعت حق ''حزب اللہ'' كى داغ بيل ڈال دى _

۷۴

ب_ اعزاء و اقرباء كو دعوت

دعوت كا يہ مرح-لہ اس آيت مباركہ كے نزول كے ساتھ شروع ہوا :

( وَاَنذر عَشيرَتَكَ الاَقرَبينَ ) (۱۲)

اپنے رشتہ داروں كو عذاب الہى سے ڈرائو_

پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے حضرت على عليہ السلام كو كھانے كا انتظام كرنے پر مامور كيا اور آنحضرت(ص) نے اپنے عزيز و اقارب كو كھانے پر بلايا تاكہ خداوند تعالى كا پيغام ان تك پہنچاديں_

تقريباً چاليس يا پينتاليس آدمى آپ (ص) كے دسترخوان پر جمع ہوئے_(۱۳) رسول (ص) خدا ابھى لوگوں سے گفتگو كرنا ہى چاہتے تھے كہ ابولہب نے غير متعلقہ باتيں شروع كرديں اور آپ (ص) پر سحر و جادو گرى كا الزام لگا كر محفل كو ايسا درہم برہم كيا كہ اس ميں اصل مسئلے كو پيش نہ كياجاسكا_

اگلے روز آپ (ص) نے دوبارہ لوگوں كو كھانے پر مدعو كيا جب لوگ كھانے سے فارغ ہوگئے تو رسول خدا (ص) اپنى جگہ سے اٹھے اور تقرير كے دوران فرمايا كہ :

''اے عبدالمطلب كے بيٹو خدا كى قسم مجھے قوم عرب ميں ايك بھى ايسا جوان نظر نہيں آتا جو اپنى قوم كے لئے اس سے بہتر چيز لے كر آيا ہو جسے ميں اپنى قوم كےلئے لے كر آيا ہوں، ميں تمہارے لئے دنيااور آخرت كى خير (بھلائي) لے كر آيا ہوں ، خداوند تعالى نے مجھے اس كام پر مامور كيا ہے كہ ميں تمہيں اس كى طرف دعوت دوں ، تم ميں سے كون ايسا

۷۵

شخص ہے جو ميرى اس كام ميں مدد كرے تاكہ وہ تمہارے درميان ميرا بھائي ، وصى اور جانشين بن سكے؟آخرى الفاظ كچھ اس طرح ہيں:

(فَاَيُّكُم يُوَازرُني عَلى هذَا الَامر عَلى اَن يَكُوُنَ اَخي وَوَصيّي وَ خَليفَتي؟)

رسول خدا (ص) نے تين مرتبہ اپنى بات دہرائي اور ہر مرتبہ حضرت على عليہ السلام ہى اپنى جگہ سے اٹھ كر كھڑے ہوئے اور اعلان كيا كہ ميں آپ (ص) كى مدد اور حمايت كروں گا، اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا :

(انَّ هذ َا اَخي وَ َوصيّي وَ خَليفَتي فيكُمَ فَاسمَعُوا لَهُ وَاَطيَعُوه ) (۱۴)

يہ على (ع) تمہارے درميان ميرے بھائي، وصى اور خليفہ ہيں ان كى بات سنو اور اطاعت كرو_

اس نشست ميں رسول خدا (ص) نے جو تقرير كى اس سے مسئلہ ''امامت '' كى اہميت واضح ہوجاتى ہے اور يہ بات ثابت ہوتى ہے كہ اصل ''نبوت'' كو ''امامت'' سے جدا نہيں كيا جاسكتا _

پہلے عزيز و اقارب ہى كيوں ؟

مندرجہ بالا سوال كے جواب ميں يہ كہاجاسكتا ہے كہ عمومى دعوت سے قبل عقل و دانش كى رو سے عزيز و اقارب كو ہى دعوت دى جانى چاہئے كيونكہ حقيقت يہ ہے كہ رسول خدا (ص) كا يہ اقدام انتہائي حساس مرحلے اور خطرناك حالات ميں، دعوت حق كى بنيادوں كو استوار كرنے كا بہترين ذريعہ تھا كيونكہ :

۷۶

۱_عزيز و اقارب كو اپنى جانب مائل كركے ہى پيغمبر اكرم (ص) دشمنان اسلام كے خلاف طاقتور دفاعى محاذ قائم كرسكتے تھے ، اس كے علاوہ كچھ اور نہيں تو كم از كم اتنا فائدہ تو تھا ہى كہ اگر ان كے دل آپ (ص) كے دين كى طرف مائل نہ بھى تو بھى رشتہ دارى اور قرابت كے تقاضوں كے مطابق وہ لوگ آنحضرت (ص) كے تحفظ و دفاع كيلئے اٹھ كھڑے ہوں_

۲_اس كا م سے رسول اللہ (ص) نے اپنى داخلى تشكيلات ميں موجود خوبيوں ، خاميوں اور كمزوريوںكا خوب اندازہ لگاليا ، آپ (ص) مخالف اور ہٹ دھرم قوتوں سے خوب واقف ہوگئے_

ج_عام دعوت حق

رسول خدا (ص) نے دعوت كے تيسرے مرحلے ميں اپنى تبليغ كو وسعت دى اور پہلى محدوديت كو ختم كردياارشاد خداوندى ہوا:

( فَاصدَع بمَا تُؤمَرُ وَأَعرض عَن المُشركينَ_ إنَّا كَفَينَاكَ المُستَهزئينَ ) (۱۵)

''پس اے پيغمبر (ص) جس چيز كا حكم دياجارہا ہے اسے آشكارا بيان كرو اور شرك كرنے والوں كى ذرا برابر پروا نہ كرو ،(تمہارى طرف سے) ہم ان مذاق اڑانے والوں كى خبر لينے كيلئے كافى ہيں_''

ان آيات كے نزول كے بعد آپ (ص) سب لوگوں كو دين اسلام قبول كرنے كى دعوت دينے پر ما مور ہوئے، چنانچہ اس مقصد كى خاطر آپ(ص) كوہ صفا پر تشريف لے گئے اور اس جم غفير كے سامنے جو اس وقت وہاں موجود تھا آپ (ص) نے اس تمہيد كے ساتھ تقرير شروع كى :

۷۷

''اگر ميں يہ كہوں كہ اس پہاڑ كے پيچھے تمہارى گھات ميں دشمن بيٹھا ہوا ہے اور تمہارے لئے اس كا وجود سخت خطرے كا باعث ہے تو كيا تم ميرى بات كا يقين كرو گے؟'' سب نے يك زبان ہو كر كہا كہ ہاں ہم آپ (ص) كى بات كا يقين كريں گے كيونكہ ہم نے آپ (ص) كى زبان سے اب تك كوئي جھوٹى بات نہيں سنى ہے ، يہ سننے كے بعد آپ (ص) نے فرمايا :

( فَانّى نَذيرٌ لَكُم بَينَ يَدَي عَذَاب: شَديد: ) _

اب(جب كہ تم نے ميرى راست گوئي كى تصديق كردى ہے تو) ميں تمہيں بہت ہى سخت عذاب سے آگاہ و خبردار كر رہا ہوں_

رسول خدا(ص) كى يہ بات سن كر ابولہب بول اٹھا اور كہنے لگا:

'' تمہارا براہو كيا تم نے يہى بات كہنے كيلئے ہميں يہاں جمع كيا تھا ''_

خداوند تعالى نے اس گستاخ كى تنبيہہ كرنے اور اس كا معاندانہ چہرہ برملا كرنے كى خاطر يہ سورت(۱۶) نازل فرمائي(۱۷)

بسم الله الرَّحمن الرَّحيْم

( تَبَّت يَدَا أَبى لَهَب: وَتَبَّ (۱) مَا أَغنَى عَنهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ (۲) سَيَصلى نَارًا ذَاتَ لَهَب: (۳) وَامرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الحَطَب (۴) فى جيدهَا حَبلٌ من مَسَد: ) (۵)

''ابولہب كے ہاتھ ٹوٹ جائيں نہ اس كا مال اس كے كام آيا اور نہ كمايا ہوا ، عنقريب اُسے آگ ميں ڈالاجائے گا اور اس كى بيوى لكڑى ڈھونے والى كو ، جس كے گلے ميں بٹى ہوئي رسى ہے''

۷۸

قريش كا رد عمل

پيغمبر اكرم (ص) كى نبوت كى خبر جيسے ہى مكہ ميں پھيلى اُسى وقت سے ہى قريش كے اعتراضات شروع ہوگئے، جب انہوں نے محسوس كيا كہ يہ مسئلہ سنگين صورت اختيار كر گيا ہے اور حضور(ص) كى تحريك ان كے خس وخاشاك جيسے دينى عقائد اور مادى مفادات كيلئے خطرہ ہے تو انہوں نے آپ (ص) كے آسمانى دين (اسلام) كے خلاف محاذ بناليااور آپ(ص) كى مخالفت پر كمربستہ ہوگئے يہاں ہم ان كى بعض ناكام كوششوں كا ذكر كرتے ہيں:

الف _مذاكرہ

مشركين قريش كى شروع ميں تو يہى كوشش رہى كہ وہ حضرت ابوطالب (ع) اور بنى ہاشم كے مقابلے پر نہ آئيں بلكہ انہيں مجبور كريں كہ وہ پيغمبر اكرم (ص) كى حمايت وپشت پناہى كے اپنے موقف سے دست بردار ہوجائيں تاكہ وہ آسانى سے رسول اكرم (ص) كى سركوبى كرسكيں_

اس مقصد كے حصول كيلئے انہوں نے پہلے تو يہ كوشش كى كہ حضرت ابوطالب (ع) كو يہ كہنے پر مجبور كرديں كہ ان كے بھتيجے كى تحريك نہ صرف ان (مشركين قريش) كيلئے مضر ہے بلكہ قوم و برادرى ميںحضرت ابوطالب (ع) كوجو عزت وحيثيت حاصل ہے اس كيلئے بھى خطرہ پيدا ہوگيا_

مشركين قريش نے خوبرو ، تنو مند اور وجيہہ جوان شاعر عمارة بن وليد بن مغيرہ كو حضرت ابوطالب (ع) كى فرزندى ميں دينے كى كوشش كى تاوہ كہ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى حمايت سے دست بردار ہوجائيں اور آپ (ص) كو ان كے حوالے كرديں _(۱۸)

حضرت ابوطالب عليہ السلام نے ان كى ہر بات كامنفى جواب ديا اور رسول خدا (ص) كى حمايت سے دست بردار ہونے سے كسى بھى قيمت پر آمادہ نہ ہوئے_

۷۹

ب_ لالچ

سرداران قريش جب پہلے مرحلے ميں شكست و ناكامى سے دوچار ہوئے تو انہوں نے فيصلہ كيا كہ چراغ نبوت كو خاموش كرنے كيلئے رسول(ص) خدا كو مال ودولت كا لالچ ديا جائے چنانچہ اس مقصد كے تحت پہلے وہ حضرت ابوطالب (ع) كے پاس پہنچے اور يہ شكوہ و شكايت كرتے ہوئے كہ ان كے بھتيجے (حضرت محمد (ص)) نے ان كے بتوں كے خلاف جو رويہ اختيار كيا ہے وہ سخت نازيبا ہے،يہ پيشكش كى كہ اگر حضرت محمد (ص) ہمارے بتوں كى مخالفت سے دستبردار ہوجائيں تو ہم انہيں دولت سے مالا مال كرديں گے ،ان كى اس پيشكش كے بارے ميں رسول خدا (ص) نے جواب ديا :

خداوند تعالى نے مجھے دنيا پرستى اور زراندوزى كيلئے انتخاب نہيں كيا ہے بلكہ مجھے منتخب كياگيا ہے كہ لوگوں كو اللہ كى جانب آنے كى دعوت دوں اور اس مقصد كيلئے ان كى رہنمائي كروں_(۱۹)

يہ بات آپ (ص) نے دوسرى جگہ ان الفاظ ميں بيان فرمائي:

''چچا جان خدا كى قسم اگر سورج كو ميرے دائيں ہاتھ ميں اور چاند كو بائيں ہاتھ ميں ركھ ديں تو بھى ميں رسالت الہى سے دست بردار ہونے والا نہيں ، اس تحريك خداوندى كو فروغ دينے كيلئے ميں جان كى بازى تو لگا سكتا ہوں مگر اس سے دستبردار ہونے كيلئے تيار نہيں ''_(۲۰)

سرداران قريش نے اگلے مرحلے پر يہ فيصلہ كيا كہ وہ براہ راست پيغمبر اكرم (ص) سے گفتگو كريں چنانچہ اس مقصد كے تحت انہوں نے اپنا نمائندہ آپ (ص) كى خدمت ميں روانہ كيا اور آپ (ص) كواپنى محفل ميں آنے كى دعوت دى جب رسول خدا (ص) ان لوگوں ميں پہنچ گئے تو كفار

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

کی اس شاہی نسل سے تھا جس کا مورث اعلی منوچہر ہے لیکن حضرت سلمان نے اس بات کو اپنے لئے باعث فخر نہ سمجھا ۔نسبی کرید کو پسند نہ فرماتے تھے ۔ایک مرتبہ کسی نے ان کے نسب سے متعلق سوال کیا تو جواب دیا کہ میں مسلمان فرزند اسلام ہوں ۔میں ایک غلام تھا اللہ نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ آزاد کرایا میں بے حیثییت شخص تھا اللہ نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ عزت بخشی۔میں ایک فقیر تھا خدا نے مجھے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ غنی کردیا اور یہی میرا حسب نسب ہے ۔صاحب طبقات کے بیان کے مطابق ابن عباس کی روایت ہے کہ حضرت سلمان نے خود پتہ دیا کہ وہ اصفہان کے گاؤں "حئ " کے رہنے والے تھے ۔آپ کے والد ایک زمیندار تھے اور اپنے فرزند سے بہت محبت رکھتے تھے اور ان کو جدا نہ کرتے تھے ان کو گھر میں اس طرح قید رکھا تھا جس طرح لڑکی کو قید کیا جاتا ہے ۔آپ کے والدین مجوس پر تھے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ سلمان بالغ ہونے سے قبل اپنے دین کی معرفت حاصل کرے لیکن سلمان کی طبیعت فطرتا مشاہدات قدرت پر غور وفکر کرنے پر مائل تھی اور دین مجوس کے نقائص اکثر ان کے دماغ میں تجسس پیدا کرتے تھے گھر اپنے والد کے احترام میں زبان بند رکھتے تھے ایک دن بوذ خشان اپنے ایک مکان کی بنیاد مرمت کرنے کی غرض سے گھر سے باہر گئے اور سلمان کو اپنی جگہ کھیتوں کے کا م پر روانہ کیا ۔راستے میں آپ کو ایک گرجا دکھائی دیا جہاں لوگ عبادت کررہے تھے اور توحید خداوندی اور رسالت عیسی علیہ السلام علیہ السلام کا ورد کررہے تھے ۔عیسا ئیوں کی یہ عبادت ان کو پسند آئی تحقیق

۱۴۱

کاشوق ہوا عیسائیوں سے مذہبی معلومات کی ۔روایت میں ہے کہ وہ عیسا ئی صحیح دین پر تھے ۔ وہ توحید خداوندی رسالت عیسی علیہ السلام کے اقرار کے ساتھ یہ بھی شہادت دیتے تھے کہ تحقیق محمد اللہ کے حبیب ہیں ۔ مسلمان کے خدا ،عیسی علیہ السلام او رمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا ۔ انھوں نے کہا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی سارے جہاں کا خالق وپروردگار ہے ۔اور عیسی بن مریم علیھما السلام اللہ کے برگزیدہ رسول ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ رسول مبشر ہے جو رسالت ونبوت کو ختم کرے گا ۔حضرت سلمان پر ان باتوں کا اثر ہوا اور تین دن متواتر معلومات میں اضافہ کیا ادھر ان کے والد ان کو تلاش کرتے تھے ۔سلمان پر جو نظر پڑی تو پکڑ لیا اور پوچھا کہ کہاں تھے ؟ آپ نے صاف صاف بتا دیا ۔ باپ نے بھانپ لیا کہ لڑکا اپنے آبائی دین سے باغی ہے ۔لہذا تھوڑا تشدد کیا اور انھیں بیڑیاں پہنا کر قید کرلیا ۔مگر تلاش حق کا جذبہ مضبوط ہوگیا ۔بود خشان کا خیال تھا یہ سختی بیٹے کو نئے عقیدے سے دستبردار کردے گی لیکن انھوں نے آزمایا کہ اذیت کی زیادتی ان کے عقیدے کو مزید سخت کررہی ہے لہذا آپ پر اور تشدد کیاجانے لگا ۔حتی کہ کوڑے تک لگائے گئے اپنے والد کے اس ظالمانہ رویہ سے عاجز آگئے ۔آدھی رات کو انھوں نے اپنے خدا واحد کی بارگاہ میں م اپنی حالت زار خضوع وخشوع سے عرض کی اور دعا مانگی کہ "اے خداوند! میرے دل کو شرک وبت پرستی کی کدورت سے پاک رکھ ۔میں تجھے تیرے حبیب کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے اس حبس سے رہا کر ۔ اپنے حبیب تک پہنچادے " خلوص دل سے دعا فرمائی تھی مستجاب ہوئی ۔ایک غیبی ندا آئی کہ روزبہ اٹھ

۱۴۲

اور قید خانہ سے نکل جا۔ آپ نے تعمیل کی اور اسی گرجا میں آئے ۔ایک عمر رسیدہ راہب چرچ سے باہر آیا اور اس نے خود ہی پوچھا کہ کیا تم ہی روزبہ ہو ؟آپ نے اثبات میں جواب دیا اور وہ بزرگ ان کو گرجا کے اندر لےگئے ۔اگر چہ سلمان دین مجوس کو شروع ہی سے ناقص سمجھتے تھے مگر ڈانوا ڈول تھے ۔اب عیسائیت کی پناہ میں انھیں کچھ قرار محسوس ہوا۔ آپ دن رات عیسائی علماء کی خدمت کرتے اور زہد وتقوی کی تعلیم دل لگا کرحاصل کرتے ۔آپ نے جس بزرگ کو روحانی سرپرست پسند کیا تھا وہ بھی ان کو بہت قریب رکھتے تھے ۔ان کی ذہانت وخدمت کے باعث جب اس کاآخری وقت آیا تو اس نے اپنے شاگرد رشید حضرت سلمان کو بلاکر کہا کہ موت برحق ہے اب میرا انتقال قریب ہے ۔حضرت سلمان نے عاجزانہ عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا لائحہ عمل کی تعلیم فرما جائیں جو مستقبل میں میری رہبری کے لئے مشعل راہ ہو ۔اس بزرگ نے نصیحت کی کہ تم میری ایک لوح لے کر انطاکیہ چلے جاؤ وہاں ایک راہب ہے وہ عموما شہر سے باہر رہتا ہے اس کو تلاش کرو اسے یہ لوح دے دینا اور اس کی خدمت میں میرا سلام پہنچا کر اس کے حلقہ ارادت میں شامل ہوجانا ۔اور جو وہ تمھیں حکم دیے اس کی تعمیل کرنا ۔اس نصیحت کے بعد راہب کی روح پرواز کرگئی اور سلمان انطاکیہ روانہ ہوگئے ۔

جب سلمان انطاکیہ پہنچے تو انھوں نے تلاش کیا کہ شہر کے باہر ایک "دیر" ہے اس کے دروازے پر ایک بوڑھا بیٹھا ہے شکل ولباس سے راہب دکھائی دیتا ہے ۔سلمان نے قریب ہو کر باآواز بلند فرمایا "لا الہ الا اللہ عیسی روح اللہ ومحمد حبیب اللہ"یا یہ کہا

۱۴۳

"اشهد ان لا اله الا الله و ان عیسی روح الله و ان محمد حبیب الله " جب راہب نے سنا تو چونک کر دریافت کیا کہ تم کون ہو ۔سلمان نے نزدیک جک کر لوح اس راہب کے سپرد کردی۔لوح لینے پر راہب نے ان کو اپنے پاس ٹھہرالیا ۔ یہ بزرگ راہب تارک الدنیا اور عبادت گزار بندہ خدا تھا ۔دن رات عبادت الہی یمں مشغول رہتا تھا لہذا سلمان کو اس سے محبت ہوگئی ۔اور وہ ان کی خدمت کرنے لگے ۔ اور ساتھ ساتھ علمی و روحانی پیاس بھی بجھاتے رہے ۔سلمان اس بزرگ سے علمی اور عملی استفادہ حاصل کرنے کا کوئی موقعہ بھی ضائع نہ جانے دیتے تھے یہاں تک کہ اس راہب کا وقت آخر قریب ہوا۔اور اس نے سلمان کو نصیحت کی اب اس جگہ عیسائی کوئی نہیں رہا ہے تم یہ لوح لیکر سکندریہ کے راہب کے پاچلے جانا اور اس کی خدمت میں مشغول ہوجانا ۔چنانچہ اس راہب کی وفات کے بعد حضرت سلمان سکندریہ آئے اور اس راہب کی خدمت میں کافی عرصہ گزارا ۔مورخین کے بیان کے مطابق اسی طرح راہب در راہب حضرت سلمان جاتے رہے اور لوح منتقل ہوتی رہی ۔یہاں تک کہ آخری راہب تک پہنچے ۔اوراس کے آخری وقت پر اس سے التجا کی میں بہت دروازوں پر جاچکا ہوں اب تو آپ مجھے کسی ایسے کے ہاں روانہ کریں جس کے بعد کسی او رکی حاجت نہ ہو ۔راہیب نے کہا بس اب میری نظر میں کوئی ایسا شخص باقی نہیں ہے جس کے پاس تمھیں روانہ کروں ۔لہذا تمھیں مشورہ دیتا ہوں کہ محمد بن عبد اللہ بن

۱۴۴

عبد المطلب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور کا وقت قریب ہے وہ ریگستان میں ظہور کرے گا اور کھجوروں والی زمین کی ہجرت کرےگا یہ وہ ہی آخری رسول ہے جس کی خبر وبشارت بنی اسرائیل کے نبیوں نے دی ہے ۔اور اس کاذکر کتابوں میں موجود ہے اس کی علامتیں یہ ہیں کہ جو ہدیہ کو قبول کرے گا اور صدقہ کو رد کردے گا ۔ اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی تم اس کی خدمت میں حاضر ہوکریہ لوح اسے پیش کردینا ۔

چنانچہ اس راہب کی وفات کے بعد حضرت سلمان اس نبی مبشر کی تلاش میں ریگستانوں کی خاک چھانتے رہے ۔یہاں تک کہ فقر وفاقے کی نوبت آگئی کہ تنگ آکر کچھ آدمیوں کے ایک مجمع میں اعلان کیا کہ جو شخص بھی میرے اخراجات کو برداشت کرے گا میں اس کی غلامی قبول کرلوں گا ۔ مدینہ میں ایک متمول زمیندار اس بات پر آمادہ ہوگیا مگر اس نے شرط عائد کی میں تمھیں مدینہ لے جاؤں گا اور تم وہاں میرے غلام بنکر میری خدمت کروگے عشق رسول کے سامنے یہ سود ا سلمان کوسستا نظر آیا ۔فورا آمادہ ہوگئے ۔جب دوران سفر لوگوں کو سلمان کے عقیدے اور مقصد سفر کی معلومات ہوئیں تو انھوں نے ان کا تمسخر اڑایا اور تکالیف پہنچا ئیں ۔مگر آتش عشق بجھنے کی بجائے بھڑکتی رہی ۔

سلمان مدینہ پہنچ گئے لیکن انھیں اپنے آقا کی خدمت سے اتنی فرصت وفراغت میسر نہ آسکی وہ خود اس رسول کا پتہ چلا تے ۔ایک دن وہ باغ میں کوئی خدمت انجام دے رہے تھے کہ

۱۴۵

کچھ لوگ باغ کے چشمے کے قریب آکر بیٹھ گئے چونکہ سلمان طبعا مہمان نواز اور تواضع کش تھے لہذا ایک تھا ل میں کچھ کھجوریں لیکر ان کے پاس پہنچے اور عیسائی طریقہ پر سلام کیا اور دعوت طعام کی خواہش فرمائی ۔ انھوں نے سلمان کی دعوت کو قبول کیا اور کھانا شروع کیا مگر ان میں سے ایک صاحب نے ان خرموں کو ہاتھ نہ لگایا ۔سلمان نے وجہ دریافت کی تو جواب پایا کہ "صدقہ مجھ پر اور میرے اہلبیت پر حرام ہے " سلمان نے پوچھا تم کون ہو " جواب دیا میں اللہ کا رسول ہوں " یہ سنکر سلمان واپس ہوئے اور خرمہ کا ایک دوسرا طبق لے کرآئے اور رسول کی خدمت میں ہدیہ کیا ۔آپ نے اس میں تناول فرمایا ۔سلمان کی دلی مراد پوری ہوئی۔پروانہ وار شمع رسالت کا طواف کرتے رہے ۔اور پشت مبارک پر ثبت مہر نبوت کی زیارت کاشرف پاتے ہی قدموں میں گرگئے اور فرمایا " اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد انک رسول اللہ " میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اس کے بعد حضرت سلمان نے راہب کی دی ہوئی لوح رسول خدا کے سپرد کردی ۔حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلمان کے آقا کے پاس تشریف لےگئے ۔اور سلمان کو خرید کر آزاد کردیا ۔اور ارشاد فرمایا کہ تم "سلمان الخیر "ہو۔

حضرت سلمان کے ابتدا ئی حالات کو کئی طریقوں اور اختلافات سےبیان کیا گیا ہے تاہم ہمارے لئے سرکار خاتم النبین صادق وامین رسول کی زبان وحی بیان کا یہ ارشاد کافی ہے کہ حضور نے فرمایا ۔

"سلمان مجوسی نہیں تھے بلکہ وہ شرک کا اظہار کرتے تھے اور ایمان کو دل میں پوشیدہ کھے ہوئے تھے "

۱۴۶

حضور کی یہ شہادت سلمان کے ابتدائی حالات ایمان کی بحث کو ختم کردینے کے لئے کافی ہے ۔

روایات امامیہ سےیہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حضرت سلمان فارسی کو حضرت عیسی علیہ السلام کے "وصی" ہونے کا روحانی اعزاز حاصل تھا ۔شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت سلمان نے اپنے گھر کی چھت میں ایک تحریر لٹکی ہوئی دیکھی اپنی والدہ سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم بھی جب گھر واپس آئے تو اسے ایسے ہی لٹکا پایا ہے ۔تم اس کو مت چھونا ورنہ تمھارے والد تمھیں سزادیں گے ۔حضرت سلمان اس وقت خاموش ہورہے مگر رات کو جب تمام گھر والے سوگئے تو آپ نے اٹھ کر اس کامطالعہ فرمالیا لکھاتھا کہ ۔

"بسم اللہ الرحمان الرحیم ۔

یہ اللہ کاعہد ہے ۔آدم سے کہ وہ ان کے صلب سے ایک نبی خلق کرے گا جس کا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوگا وہ اخلاقی بلندیوں کو حاصل کرنے کا حکم دےگا ۔ اور اصنام کی پر ستش سے منع کرے گا ۔ اے روزبہ ! تم عیسی ابن مریم کے وصی ہو اس لئے ایمان لاؤ اور مجوسیت سے دور رہو ۔اور اس سے بے زاری کا اعلان کرو۔"

اما م جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ عیسی او محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان پانچسو سال کا عرصہ ہے جس میں ڈھائی سو سال ایسے ہیں جن میں نہ تو کوئی نبی تھا اور نہ ظاہری عالم ۔راوی نے عرض کیا پھر لوگ کس دین پر تھے ؟ فرمایا وہ دین عیسوی پر تھے ۔ پوچھا وہ لوگ کیا تھے ؟ فرمایا وہ مومن تھے پھر ارشاد کیا کہ زمین اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتی جب تک اس میں عالم موجود نہ ہو ۔ شیخ صدوق فرماتے ہیں کہ جو لوگ حجت خدا کی تلاش میں جگہ بجگہ منتقل ہوتے رہے ان میں سلمان بھی ہیں ۔وہ ایک عالم سے دوسرے عالم اور ایک فقیہ سے دوسرے فقیہ تک پہنچے

۱۴۷

رہے اور اسرار واخبار میں تدبر کرتے رہے اور حضور کے ظہور کے منتظر رہے ۔ پھر لکھا ہے کہ جناب سلمان حضرت عیسی کے وصی کے وصی تھے اسی طرح ابن طاؤس فرماتے ہیں کہ سلمان حضرت عیسی کے آخری چند اوصیاء میں سے تھے ۔ اس کے ثبوت میں ملا حسین نوری طبرسی نے ایک دلیل پیش کی ہے جو قابل غور ہے ، سلمان کی وفات کے بعد سید الاوصیاء امیر المومنین علیہ السلام نے انھیں غسل دیا حالانکہ بظاہر سلمان مدائن میں تھے اور جناب امیر مدینہ میں تھے کرامت کے ذریعہ اتنی دور تشریف لے جانے کی غالبا وجہ یہی تھی کہ وصی کو نبی یا وصی غسل دے سکتا ہے ۔پھر لوح کا مختلف وسائل کے ذریعے آنحضرت تک پہنچا نا بھی اس بات کا امکانی ثبوت ہے ۔

بہر حال قبل از اسلام کے حالات سے سلمان کو ایک مسلم دینی حیثیت ضرور حاصل تھی اور اس منزل تک پہنچنے کے لئے ان کو ایک طرف شدائد ومصائب کا مقابلہ کرنا پڑا تو دوسری طرف سنگین دشوار یوں سے دوچار ہوئے ۔یہ تمام آلام اور ناگواریاں انتہائی صبر وتحمل سے برداشت کرنا حضرت سلمان کے جذبہ حب دین ومعرفت الہی کے ذوق اور شوق زیارت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاآئنہ دار ہے ۔حقیقی دین عیسوی سے وابستہ علماء کی صحبت او رفیض ربّانی نے یوں تو حضرت سلمان کو سونا بنا دیا تھا مگر جب آپ کو کائنات کے سب سے بڑے ہادی رحمۃ العالمین کا سایہ رحمت وشفقت نصیب ہوا تو آپ پارس ہوگئے ۔سرور کائنات کی صحبت کا رنگ ایسا پکڑا کہ صحابی سے "منّا اهلبیت " قرار پائے ۔آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر قول وعمل کو اپنی زندگی کا جزو لا ینفک بنائے رکھا ۔سلمان کا منشور زندگی صرف سنت رسول کی پیروی ۔آل رسول (ع) کی محبت واتباع اور کتاب الہی کی مطابقت تھی ۔ اسی وجہ سے

۱۴۸

جو فضائل ان کو نصیب ہوئے کسی دوسرے صحابی کو حاصل نہ ہوسکے ۔حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا کہ میں سلمان کے بارے میں کیا کہوں وہ ہماری طینت سے خلق ہوئے ہیں جس کی روح ہماری روح سے ہم آہنگ ہے ۔خداوند تعالی نے سلمان کو علوم اول وآخر اور ظاہر وباطن سے سرفراز کیا ہے ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سلمان مجلس رسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حاضر تھے کہ اچانک ایک عربی آیا ۔ اس نے حضرت سلمان کا ہاتھے پکڑا اور انھیں اٹھا کر ان کی جگہ پر بیٹھ گیا آنحضرت یہ منظر دیکھکر اتنے آزردہ خاطر ہوئے کہ چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہوگیا اور پیشانی اقدس پر قطرات عرق نمودار ہوئے اور اس حالت میں ارشاد فرمایا کہ" تم اس شخص کو مجھ سے دور کررہے ہو جسے خدا دوست رکھتا ہے تم اس شخص کو مجھ سے دور کررہے ہو جسے میں دوست رکھتا ہوں تو اس شخص کو مجھ سے دور کر رہے ہو جس کی منزلت یہ کہ جب بھی جبرئیل مجھ پر نازل ہوتا ہے تو خدا کا سلام اس کے لئے لاتا ہے ۔یقینا سلمان مجھ سے ہے ۔خبردار! تم سلمان کے بارے میں غلط خیال نہ قائم کرو ۔خدا نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں سلمان کو لوگوں کی اموات اور بلاوؤں اور ان کے نسب ناموں کا علم دے دوں ۔اور انھیں ان چیزوں سے آگاہ کردوں جو حق وباطل کو جدا کرنے والی ہیں "۔

وہ عرب (ممکن ہے کہ وہ صحابی حضرت عمر ہو) صحابی جس نے حضرت سلمان کو اپنے زعم میں سمجھ کر اٹھایا تھا ۔ارشاد ات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سنکر گھبراگیا اور عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )میں یہ گمان بھی نہ کرسکتا تھا کہ سلمان ان مراتب جلیلہ پر فائز ہے ۔

۱۴۹

کیا وہ مجوسی نہیں جو بعد میں مسلمان ہوا ۔ حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " میں تو خدا کی نظر میں سلمان کے درجے کوبیان کررہا ہوں اور تم خیال کررہے ہوکہ وہ مجوسی تھا ۔وہ (ہرگز ) مجوسی نہ تھا ۔ صرف اس کا اظہار کرتا تھا (تقیہ میں تھا)اور ایمان اس کے دل میں پوشیدہ تھا "

علمی مقام:-

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک دن حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا میں نے ایک روز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سلمان کے بارے میں سوال کیا حضور نے فرمایا ۔

"سلمان دریائے علم میں کوئی اس کی تھاہ تک نہیں پہنچ سکتا اس کو اول وآخر کے علم سے مخصوص کیا گیا ہے خدا اسے دشمن رکھے جو سلمان کو دشمن رکھتا ہے اور خدا اس کو دوست رکھے جو سلمان کو دوست رکھتا ہے "

اما م محمد باقر علیہ السلام نے فضیل بن یسار سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ سلمان اوّل وآخر علم کو جانتے تھے اس سے کیا مطلب ہے ؟۔فضیل نے جواب دیا یعنی وہ علم بنی اسرائیل اور علم رسالت مآب سے آگاہ ہوگئۓ تھے ۔ امام معصوم نے فرمایا نہیں یہ مطلب نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ علم پیغمبر اور امیر المومنین اور آنحضرت اور امیر المومینین کے عجیب وغریب امور سے آگاہ تھے ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام س ے مروی ہے سلمان نے علم اوّل اور علم آخر معلوم کیا اور وہ دریا علم تھے کہ جن کا علم ختم ہونے والا نہ تھا اور وہ ہم اہل بیت سے ہیں ۔ان کا علم اس درجہ پر پہنچا ہوا تھا کہ ایک روز ان کا گزر ایک شخص کی طرف ہوا جو ایک مجمع میں کھڑا تھا ۔سلمان نے اس شخص سے کہا اے بندہ خدا !پروردگار

۱۵۰

عالم سے توبہ کر اس فعل سے جو کل رات تو نے اپنے مکان میں کیا ہے یہ کہکر سلمان چلے گئے ۔لوگوں نے اس شخص کو ابھارنا چاہا کہ سلمان نے تم پر ایک بدی کی تہمت باندھی ہے اور تونے بھی اس کی تردید نہ کی اس نے جواب دیا کہ سلمان نے مجھے اس امر سے آگاہ کیا ہے جس کو میرے اور خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا ۔(علمائے کے نزدیک یہ شخص اول خلیفہ اہلسنت حضرت ابو صدیق تھے )۔

روایت ہے کہ جب سلمان ایک اونٹ کو دیکھتے (جس کو لوگ عسکر کہتے تھے اور حضرت عائشہ جمل کے دن اس پر سوار ہوکر تازیانہ مارتی تھیں )تو اس اونٹ سے اظہار نفرت کرتے تھے لوگوں نے "سلمان " سے کہا کہ اس جانور سے آپ کو کیا پرخاش ہے ۔آپ نے جواب دیا یہ جانور نہیں بلکہ عسکر پسر کنعان جنی ہے ۔ جس نے یہ صورت اختیار کی ہے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے ۔پھر اس اورنٹ کے مالک اعرابی س کہا کہ تیرا یہ اونٹ یہاں بے قدر ہے ۔اس جو "حواب" کی سرحد پر لے جا ۔اگر وہاں لے جائے گا تو جو قیمت چاہے گا مل جائے گی ۔امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ لشکر عائشہ نے اس اونٹ کو سات سو درہم میں خرید کیا ۔جبکہ وہ لوگ حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کے لئے جارہے تھے ۔یہ واقعہ بھی حضرت سلمان کے علمی کی تائید کرتا ہے کہ جنگ جمل سے برسوں قبل اس کی اطلاع کردی ۔

امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ سلمان فارسی حکیم لقمان کے مانند ہیں ۔

ابن بابویہ نے بسند معتبر امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک روز جناب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں کون ہے جو تمام سال روزہ رکھتا ہے ۔سلمان

۱۵۱

نے کہا میں ہوں ۔حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھرمایا تم میں کون ہے جو ہمیشہ شب بیدار رہے ؟۔ سلمان نے عرض کی میں ہوں ۔پھر حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا تم میں کون ہے جوہر روز ایک قرآن ختم کرتا ہے ۔سلمان نے کہا میں ہوں ۔یہ سنکر حضرت عمر بن خطاب کو غصہ آیا اور بولے یہ شخص فارس کا رہنے والا یہ چاہتا ہے کہ ہم قریشیوں پر فخر کرے ۔ یہ جھوٹ بولتاہے اکثر دنوں کو روزہ سے نہیں تھا ۔اکثر راتوں کو سویا کرتا ہے ۔اور اکثر دن اس نے تلاوت نہیں کی ۔ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا وہ لقمان حکیم کے مانند ومثل ہے ۔تم اس سے پوچھو وہ جواب دیں گے ۔ حضرت عمر نے پوچھا تو حضرت سلمان نے جواب دیک کہ تمام سال روزہ کے بارے میں یہ ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھتا ہوں ۔اور خدا فرماتا ہے کہ جو شخص ایک نیکی کرتا ہے تو اس کو دس گنا ثواب دیتا ہوں ۔اس لئے یہ تمام سال کے روزوں کے برابر ہوا ۔باوجود اس کے ماہ شعبان میں بھی روزے رکھتا ہوں ۔اور ماہ مبارک رمضان سے ملا دیتا ہوں ۔اور ہر رات شب بیداری کے یہ معنی ہیں کہ ہر رات با وضو سوتا ہوں ۔اور میں نے حضور سے سنا ہے کہ جو شخص باوضو سوتا ہے ایسا ہے کہ تمام رات عبادت میں بسر کی اور ہر روز ختم قرآن کے بارے میں یہ ہے کہ ہرروز میں تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ لیتا ہوں اور میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا کہ اے علی تمھاری مثال میری امت میں "قل ھو اللہ احد " کی مثال ہے جس نے سورہ قل ھو اللہ ایک مرتبہ پڑھا ایسا ہے کہ اس نے ثلث (ایک تہائی )قرآن کی تلاوت کی جس نے دومر تبہ پڑھا تو اس نے دوتہائی کی تلاوت کی اور جس نے تین مرتبہ پڑھا تو ایسا ہے کہ اس نے قرآن ختم کرلیا ہے اور اے علی (ع) جو شخص تم کو زبان سے دوست رکھتا ہے اس کو

۱۵۲

ثلث(ایک تہائی)ایمان حاصل ہوتا ہے ۔اورجو شخص زبان اور دل سے تمھیں دوست رکھتا ہے اس کو دو ثلث ایمان مل گیا ۔اور جو شخص زبان ودل سے تم کو دوست رکھتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے تمھاری مدد کرتا ہے تو تمام ایمان اس کو حاصل ہوگیا ۔اے علی اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ۔اگر تم اہل زمین بھی اسی طرح دوست رکھتے جس طرح اہل اسمان دوست رکھتے ہیں تو خدا کسی قسم جہنم میں عذاب نہ کرتا ۔یہ سنکر حضرت عمر خاموش ہوگئے جیسے ان کے منہ میں خاک بھر گئی ہو۔

حضرت یعقوب کلینی نے امام جعفر صادق سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان اور ابوذر کے درمیان صیغہ اخوت پڑھا تھا اور ابوذر پر یہ شرط عائد کی تھی وہ کبھی سلمان کی مخالفت نہ کریں گے اس لئے کہ سلمان کو ان علوم میں دسترس حاصل ہے جن کا ابوذر کو علم نہیں ۔

روایت ہے کہا ایک روز حضرت ابوذر اپنے بھائی حضرت سلمان کےگھر آئے ۔سلمان کا پیالہ شوربہ اور چربی سے بھر ہوا تھا دوران گفتگو یہ پیالہ الٹا ہوگیا مگر اس میں سے کچھ نہ گرا ۔سلمان نے اسے سیدھا کیا اور پھر مصروف گفتگو ہوئے ۔ابوذر کو یہ دیکھکر حیرت ہوئی اچانک پیالہ پھر اوندھا ہوا ۔لیکن پھر شوربا وغیرہ نہ گرا۔ اس سے ابوذر کا تعجب دہشت میں تبدیل ہوگیا ۔وہان سے اٹھے اور غور کرنے لگے کہ اچانک وہاں امیر المومنین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ جناب امیر (علیہ السلام ) نے ابوذر سے پوچھا کہ تم سلمان کے ہاں سے واپس کیوں آگئے اور گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟ ابوذر نے ماجرا بیان کیا حضرت امیر (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا "اے ابوذر ! اگر سلمان تم کو وہ امور

۱۵۳

بتادیں جو وہ جانتے ہیں تو یقینا تم کہوگے کہ سلمان کےقاتل پر خدا رحمت نہ کرے ۔اے ابوذر بے شک سلمان زمین میں خدا کی درگاہ ہیں جو ان کو پہچانے وہ مومن ہے ۔جو ان سے انکار کرے وہ کافر ہے بے شک سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں ۔

شیخ مفید لکھتے ہیں کہ جناب امیر حضرت سلمان کے پاس تشریف لائے اور ان سے فرمایا کہ اے سلمان اپنے مصاحب کے ساتھ مدارات کرو اور ان کے سامنے وہ امور ظاہر نہ کرو جس کے وہ متحمل نہیں ہوسکتے "

حضرت امام باقر سے روایت ہے کہ علی علیہ السلام محدث تھے اور سلمان محدث یعنی ملائکہ دونوں حضرات سے باتیں کرتے تھے ۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ سلمان کا محدث ہونا یہ کہ ان کے امام ان سے حدیث بیان کرتے اور اپنے اسرار ان کو تعلیم کرتے تھے نہ یہ کہ براہ راست خدا کی جانب سے ان کو کلام پہنچتا تھا ۔ کیوں کہ حجت خدا کے علاوہ کسی دوسرے کو خدا کی جانب سے کوئی بات نہیں پہنچتی ۔علامہ مجلسی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں کہ یہاں جس امر سے نفی کی گئی ہے ممکن ہے وہ خداکا بے واسطہ ملک کلام کرنا ہو اور فرشتے جناب سلمان سے گفتگو کرتے تھے ۔

چنانچہ ایک مقام پر حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت سلمان کے محدث ہونے کا مطلب یہ کہ ایک فرشتہ ان کے کان میں باتیں کرتا تھا دوسری جگہ ہے کہ ایک بڑا فرشتہ ان سے باتیں کرتا تھا ۔ ایک شخص نے تعجب سے دریافت کیا کہ جب سلمان ایسے تھے تو پھر امیر المومنین علیہ السلام کیسے رہے ہونگے ۔حضرت نے جواب دیا اپنے کام سے سروکار رکھو اور ایسی باتوں سے غرض مت رکھو (یعنی کرید نہ کرو)ایک موقعہ

۱۵۴

پر فرمایا کہ ایک فرشتہ ان کے دل میں ایسا اور ویسا نقش کرتا تھا ۔ایک حدیث میں ہے ک سلمان متمو سمین میں سے تھے کہ لوگوں کے احوال فراست سے معلوم کرلیا کرتے تھے ۔ایک حدیث معتبر میں ہے کہ امام صادق نے ارشاد فرمایا کہ سلمان اسم اعظم جانتے تھے ۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی علیہ السلام کے سامنے تقیہ کا ذکر آیا ۔جناب امیر نےفرمایا اگر ابوذر سلمان کے دل میں جوکچھ جان لیتے تو یقینا ان کو قتل کردیتے ۔حالانکہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا تھا ۔پھر دیگر تمام لوگوں کے بارے میں کیا گمان کرتے ہو۔

یہ حدیث بھی جناب سلمان کے بلند مرتبہ عملی کی تائید میں ہے کہ جناب ابوذر پر جناب سلمان کی علمی فوقیت ثابت کرتی ہے کہ حضرت ابوذر ان علوم واسرار الہی کے متحمل نہیں ہوسکتے جو کہ سلمان پر منکشف تھے ۔

شیخ طوسی نے معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت سلمان کے اصحاب میں سے ایک صاحب بیمار ہوئے چند روز تک اس سے ملا قات نہ ہوئی تو اس کا حال دریافت کیا کہ وہ کہاں ہے ۔لوگوں نے بتایاوہ بیمار ہے ۔سلمان نے فرمایا چلو اس کی عیادت کریں ۔غرض لوگ ان کے ہمراہ چلے اور اس شخص کے گھر پر پہنچے ۔اس وقت وہ عالم جان کنی میں تھا ۔جناب سلمان رحمۃ اللہ علیہ نے ملک الموت سے خطاب کیا کہ خدا کے دوست کے ساتھ نرمی اور مہربانی کرو ملک الموت نے جواب دیا جسے تمام حاضرین نے سنا کہ اے ابو عبداللہ

۱۵۵

میں تمام مومنین کے ساتھ نرمی کرتا ہوں اور اگر کسی کے سامنے اس طرح آؤں گا کہ وہ مجھے دیکھے تو بے شک وہ تم ہوگے ۔

ایک روز سلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں داخل ہوئے ۔صحابہ نے ان کی تعظیم فرمائی اور ان کو اپنے اوپر مقدم کرکے صدر مجلس میں ان کے حق کو بلند کیا او ران کی پیروی وتعظیم کی ۔برائے اختصاص جو ان کو حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آل سے تھا ۔ جگہ دی پھر حضرت عمر آئے اور دیکھا کہ وہ صدر مجلس میں بٹھائے گئے ہیں ۔یہ دیکھ کر وہ بولے یہ عجمی کون ہے ؟ جو عربوں کے درمیان صدر مجلس میں بیٹھاہے یہ سنکر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منبر پر تشریف لے گۓ ۔اور خطبہ ارشاد فرمایا کہ حضرت آدم کے زمانہ سے اس وقت تک کہ تما آدمی کنگھی کے دندانوں کف مثل برابر ہیں کوئی فضلیت نہیں ہے عربی کو عجمی پر ،نہ کسی سرخ وسفید کو کسی سیاہ پر مگر تقوی او رپرہیزگاری کے سبب سے ۔

سلمان ایک دریا ہے جو ختم نہیں ہوتا اور ایک خزانہ ہے جو تما م نہیں ہوتا ۔سلمان ہم اہلبیت سے ہیں سلمان حکمت عطاکرتے ہیں اور حق کی دلیلیں ظاہر کرتے ہیں ۔

استیعاب میں معرفۃ الاصحاب میں ہے کہ حضور نے فرمایا " اگر دین ثریا میں ہوتا تو سلمان یقینا وہاں تک پہنچ کر اسے حاصل کرلیتا"

جہاد:-

حضرت سلمان فارسی رحمۃ اللہ علیہ کی قبل از اسلام زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی طبیعت روحانیت ۔زہد عبادت اور معرفت کی طرف مائل رہی ۔ اور جنگ وجدل یا سپاہ گری سے ان کا کسی طرح سےبھی کوئی تعلق نہ رہا انھوں نے کسی جنگ یا

۱۵۶

لڑائی میں شرکت نہ کی بلکہ گھر س ے نکل کر عبادت خانوں میں گوشہ نشین یا تارک الدنیا بنکر اپنی روح کو مفرح ومنور کرنے کی کوشش میں مصروف رہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے پر چم تلے آتے ہی وہ ایک ممتاز مجاہد اور کہنہ مشق سپاہی ثابت ہوتے ہیں ۔ آپ کی اسلامی زندگی میں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلمان نے نہ صرف جہادوں میں شرکت ہی کی بلکہ بعض موقعوں پر ان کو سپہ سالار مقرر کیا گیا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو خاص علم وتفضل کی بدولت فنون حرب اور علم معرکہ آرائی سے بخوبی واقفیت اور کامل دسترس حاصل تھی بدر واحد کی لڑائیوں میں سلمان شریک نہ ہوئے ۔مگر سنہ ۵ ھجری میں جنگ خندق میں آپ کو بڑی نمایاں حیثیت حاصل ہوئی ۔ حضرت سلمان پہلی مرتبہ جنگ میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے ۔اس جنگ میں پورا عرب مسلمانوں کے مقابلہ میں آیا تھا اور شہر مدینہ کا محاصرہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہا تھا ۔ شہر کی نہ ہی کوئی شہرپناہ تھی اور نہ ہی فصیل ۔لشکر کی تعداد بھی قلیل تھی جبکہ دشمن کی فوج کے غول سرپر منڈلا رہے تھے مسلمانوں کی نبض ڈوبی ہوئی تھیں اور کافر متکبر انہ آواز یں کس رہے تھے حضور کو حضرت سلمان نے مشورہ دیا کہ ایرانی طرز کی ایک خندق کھودلی جائے اسے قبول کر لیاگیا اور بمطابق وحی حضور نے خندق کھودنے کا حکم زیر نگرانی حضرت سلمان صادر فرمایا ۔اس خندق کا کھودنا کفار کے ارادوں کو دفن کرنے کی تعبیر ثابت ہوا ۔جب انھوں نے یہ نئی چیز دیکھی تو ششدر رہ گئے ۔عمرہ بن عبدود جیسے بہادر جس کا نام سنکر حضرت عمر جیسے بہادر کا دل ڈوب جاتا تھا ۔خندق کے کنارے ڈھاریں

۱۵۷

مارتا اور دیگر پہلوان باتیں بنارہے تھے کہ مسلمانوں نس یہ ایسا حیلہ کیا ہے کہ ہم عرب اس سے قطعی ناواقف ہیں انھوں نے بائیس روز سرتوڑ کوشش کی کہ کسی طرح مدینہ تک پہنچ سیکیں لیکن ایک نہ چلی آخر تنگ آکرطعن وتشیع پر اتر آئے حضور کو گستاخانہ طریقوں سے مبارزہ طلبی کی ۔آخر حضرت علی علیہ السلام نے عمروبن عبدود کو واصل جہنم کیا اور یہ فوج کثیر دم دبا کر طائف کی طرف بھگ گئی ۔جنگ فتح ہوئی ‏غزوہ خندق کے بعد کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ شریک نہ ہوئے ۔پیران سالی کے باوجود آپ نس ہرلڑائی یمں داد شجاعت دی ۔

جب جنگ احزاب کے موقعہ پر خندق کھودی جارہی تھی تو مسلمان مختلف ٹکڑوں میں بٹ کر کام کر رہے تھے ۔خود سرورکائینات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دست مبارک سے کھدائی کا کام کررہے تھے آپ کا جسم مبارک مٹی سےاٹا ہوا تھا اور آپ کی زبان وحی بیان پر رجز جاری تھا سلمان ضعیف العمری کے باوجود تنومند اور قوی الجثہ تھے ۔ انصارو مہاجرین دونوں ان کے ساتھ کام کرنے کے خواہشمند تھے مہاجر کہتے تھے کہ سلمان ہم میں سے ہے ۔جب اس بات کا چرچا حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہونچا تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان کا ہاتھ تھام کر فرمایا "سلمان منا اھل البیت " سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ اس موقعہ کے بعد متعدد بار یہ جملہ ارشاد فرمایا ۔

اہل سنۃ کے جلیل القدر امام محی الدین ابن عربی نے اس حدیث سے حضرت سلمان کی عصمت وطہارت پر استلال کیا ہے اور کہتے ہیں کہ چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ایک بندہ خاص ومخلص تھے اس لئے اللہ نے ان کے اہل بیت کی ایسی تطہیر کی جو تطہیر کا حق تھا ۔ اور ان سے رجس

۱۵۸

اور ہرعیب کودوررکھا اور رجس عربی زبان میں گندگی کو کہا جاتا ہے پھر آیت تطہیر "انما یرید اللہ لیذھب ۔۔الخ" کے بعد کہا کہ جس شخص کو بھی اہلبیت کی طرف نسبت دی جائے گی ۔اس کا مظہر ہونا ضروری ہے اس کے بعد تحریر کیا کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سلمان کو اہلبیت میں شامل کرنا انکی طہارت ۔خدائی حفاظت اور عصمت کی گواہی دیتا ہے ۔"

علامہ مجلسی نے بصائر الدرجات سے فضل بن عیسی کی ایک روایت حیات القلوب میں نقل کیا ہے کہ فضل کہتے ہیں ایک مرتبہ میں اور میرے والد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔میرے والد بزرگوار نے عرض کی کیا ہے صحیح ہے جناب رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہر کہ سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ امام نے فرمایا ہاں ۔میرے والد نے پوچھا کیا وہ عبد المطلب کی اولاد میں سے ہیں ؟ حضرت نے جواب دیا وہ اہلبیت میں سے ہیں ۔میرے والد نے عرض کیا کہ کیا وہ ابوطالب (علیہ السلام )کی اولاد میں ہیں ؟ حضرت نے فرمایا کہ وہ ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔میرے پدر بزرگوار نے کہا کہ میں سرکار کا مطلب نہیں سمجھ سکا ۔ حضرت صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ایسا نہیں ہے ۔جیسا کہ تم نے سمجھا ہے ۔بے شک خدا نے ہماری طینت علیین سے خلق فرمائی اور ہمارے شیعوں کی طینت اس سے ایک درجہ پست خلق فرمائی لہذا وہ ہم میں سے ہیں اور ہمارے دشمنوں کی طینت سجین سے خلق فرمائی اور ان کے دوستوں کی طینت ان سے ایک درجہ پست خلق کی لہذا وہ لوگ ان سے ہیں اور سلمان حضرت لقمان سے بہتر ہیں ۔

اسلامی نقطہ نظر سے جب قتال ناگزیر ہوتو اہل کتاب سے لڑائی کرنے سے قبل دعوت اسلام دی جاتی ہے اگر وہ مسلمان ہونا

۱۵۹

پسند نہ کریں تو ان سے جزیہ طلب کیا جاتا ہے اور اگر وہ انکار کرکے آمادہ جنگ ہوجائیں تو تلوار ہاتھ میں لینا پڑتا ہے ۔چنانچہ چنگ خیبر کے موقعہ پر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو یہی ہدایت کی تھی کہ ہم پہلے انھیں خدا کی توحید اور اور میری رسالت کی دعوت دینا بصورت انکار مطالبہ جزیہ کرنا اور اگر وہ پھر بھی لڑائی پر مصر رہیں تو ان سے جنگ کرنا ۔چنانچہ حضرت سلمان ان جنگی اخلاق سے بخوبی واقف تھے ۔ لہذا ہمیشہ اس پرعامل رہے ۔ چنانچہ ایک موقعہ پر وہ ایک لشکر کے امیر مقرر کئے گئے اور ان کو فارس کے ایک قلعہ کو فتح کرنے کی مہم پر مامور کیا گیا ۔جب آپ اپنی سپاہ کے ساتھ قلعہ کے نزدیک گئے تو تامل فرمایا ۔لوگوں نے پوچھا کیا آپ اس قلعہ پر حملہ نہیں کریں گے فرمایا نہیں جس طرح رسول خدا پہلے دعوت اسلام دیتے تھے اسی طرح میں بھی ان کو دعوت دوں گا پھر سلمان ان کے پاس تشریف لےگئے اور کہا کہ میں بھی تمھاری طرح فارس کا باشندہ ہوں تم دیکھ سکتے ہو کہ عرب میری اطاعت کر رہے ہیں اگر تم دل سے اسلام لےآؤ گے تو میری طرح تمھیں بھی عزت نصیب ہوگی اور اگر تم ہمارا دین قبول نہ کروگے تو میری طرح تمھیں بھی عزت نصیب ہوگی اور اگر تم ہمارا دین قبول نہ کروگے تو ہم تم پر کوئی زبردستی نہیں کریں گے صرف تم سے جزطلب کریں گے ۔اور اگر پھر بھی تم بر سر جنگ نظر آؤگے تو پھر میرے لئۓ جنگ ضروری ہوگی ۔اہل قلعہ نے جواب دیا کہ نہ ہی ہم تمھارا دین قبو ل کریں گے اور نہ ہی کوئی جزیہ دینا منظور کریں گے بلکہ تمھارا مقابلہ کریں گے ۔ اس پر لشکر سلمان نے حملہ کرنے کا اذن طلب کیا مگر آپ نے جواب دیا نہیں ابھی رک جاؤ ۔ان کو غور کرنے کا موقعہ دو ۔ آپ نے تین روز انتظار کیا اور پھرچوتھے دن حملے کا حکم دیا ۔اور قلعہ فتح کیا ۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313