تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي0%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 313
مشاہدے: 115059
ڈاؤنلوڈ: 2896


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 115059 / ڈاؤنلوڈ: 2896
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد 1

مؤلف:
اردو

قريش نے آپ (ص) كے رويے كے خلاف شكايت كرتے ہوئے كہا كہ اگر آپ (ص) كو مال و دولت كى تمنا ہے تو ہم اتنا وافر مال و متاع دينے كےلئے تيار ہيں كہ آپ (ص) سب سے زيادہ مالدار ہوجائيںگے، اگر آپ (ص) كوسردارى كى خواہش ہے تو ہم آپ (ص) كو اپنا امير و سردار بنانے كيلئے تيار ہيں اور ايسے مطيع فرمانبردار بن كر رہے ہيں كہ آپ (ص) كى اجازت كے بغير كوئي كام بھى نہ كريں گے اور اگر آپ (ص) كے دل ميں حكومت اور سلطنت كى آرزو ہے تو ہم آپ (ص) اپنا حكمران و فرمانروا تسليم كرنے كيلئے آمادہ ہيں _

يہ سن كر رسول خدا (ص) نے فرمايا:

ميں مال و دولت جمع كرنے ، تمہارا سردار بننے اور تخت سلطنت پر پہنچنے كيلئے مبعوث نہيںہوا ہوں ، خداوند تعالى نے مجھے تمہارى جانب ايك پيغمبر كى حيثيت سے بھيجا ہے اور مجھ پر اپنى كتاب نازل فرمائي ہے مجھے تمہارے پاس جنت كى خوشخبرى دينے اور عذاب دوزخ سے ڈرانے كيلئے بھيجا گيا ہے جس پيغام كو پہنچانے كى ذمہ دارى مجھے سونپى گئي ہے اسے ميں نے تم تك پہنچاديا ہے ، اگر تم ميرى بات مانو گے تو تمہيں دنيا و آخرت كى خوشياں نصيب ہوں گى اور اگر تم ميرى بات قبول كرنے سے انكار كرو گے تو ميں اس راہ ميں اس وقت تك استقامت و پائيدارى سے كام لوں گا كہ خداوند تعالى ميرے اور تمہارے درميان فيصلہ كردے_(۲۱)

ج _ تہمت و افترا پردازي

پيغمبر اكرم (ص) كى عالى شان شخصيت كو داغدار كرنے كيلئے قريش نے جو پست طريقے اختيار كئے ان ميں سے ايك احمقانہ حربہ يہ بھى تھا كہ انہوں نے آپ (ص) پر تہمتيں لگائيں اور آپ(ص)

۸۱

كے خلاف غلط پروپيگنڈا كيا _چنانچہ آپ (ص) كو(نعوذ باللہ) جھوٹا ، كاہن، اور ساحر و جادوگر قرار ديا گيا _ وہ لوگوں ميں كہتے پھرتے تھے كہ اس شخص كے پاس كوئي ايسا جادو ہے كہ جس كے ذريعے يہ شخص باپ ،بيٹے ، مياں بيوي، دوستوں اور رشتہ داروں كے درميان جدائي ڈال ديتا ہے_(۲۲)

قرآن مجيد نے ان تہمتوں كے بارے ميں كئي جگہ پر اشارہ كيا ہے او رپيغمبر اكرم (ص) كى بابركت و مقدس ذات گرامى كو اس قسم كے الزامات سے منزہ و مبرہ قرار ديا ہے _(۲۳) چنانچہ ايك آيت ميں پيغمبراكرم (ص) كى يہ كہہ كر دلجوئي كى ہے كہ يہ پست شيوہ صر ف ان كفار كى خصوصيت نہيں بلكہ ان سے پہلے بھى دشمنان انبياء اسى قسم كے حربے استعمال كرچكے ہيں_

( كَذَلكَ مَا أَتَى الَّذينَ من قَبلهم من رَسُول: إلاَّ قاَلُوْا سَاحرٌ أَو مَجنُونٌ_ أَتَوَاصَوا به بَل هُم قَومٌ طَاغُونَ ) _(۲۴)

''اے رسول ((ص) جس طرح انہوں نے تجھے اذيت دى اسى طرح )ان سے پہلے كى قوموں كے پاس بھى كوئي رسول ايسا نہيں آيا جسے انہوں نے ساحر يا مجنون، نہ كہا ہو كيا ان سب نے آپس ميں اس پر كوئي سمجھوتہ كرليا ہے؟ نہيں بلكہ يہ سركش لوگ ہيں''_

د_ شكنجہ وايذار ساني

آپ پر الزامات كى بوچھاڑكے ساتھ ساتھ، انہوں نے آپ (ص) كو اذيت و آزار دينا بھى شروع كرديا اور جس حد تك ممكن تھا انہوں نے اذيت دينے ميں كوئي كسر نہ چھوڑي، قريش نے يہ غير انسانى طرز عمل نہ صرف پيغمبر اكرم (ص) كے ساتھ روا ركھا ہوا تھا بلكہ وہ مسلمانوں كے

۸۲

ساتھ بھى اسى طرح كا سلوك كرتے تھے_

پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كو ابولہب' اس كى بيوى ام جميل' حكم ابن ابى العاص' عقبہ ابن ابى معيط اور ان كے ساتھيوں نے دوسروں كے مقابلے ميں بہت زيادہ ايذا و تكليف پہنچائي _(۲۵)

رسول خدا (ص) تبليغ اسلام كےلئے بازار ''عكاظ'' كى جانب تشريف لے جاتے تھے كہ ابولہب بھى آپ (ص) كے پيچھے پيچھے ہوليتا اور چلا چلا كر كہنے لگتا : لوگو ميرا يہ بھتيجا جھوٹا ہے اس سے بچ كر رہنا _(۲۶)

قريش آوارہ لڑكوں اور اپنے اوباش اور بے ادب غلاموں كو پيغمبر اكرم (ص) كے راستے پر بٹھاديتے چنانچہ جب آنحضرت (ص) اس راستے سے گزرتے تو سب آپ (ص) كے پيچھے لگ جاتے اور آپ (ص) كا مذاق اڑاتے_ جس وقت آپ(ص) نماز كيلئے كھڑے ہوتے تو آپ (ص) پر اونٹ كى اوجھڑى اور فضلہ انڈيل ديتے_(۲۷)

رسول اكرم (ص) نے دشمن كے ہاتھوں ايسى سختياں برداشت كيں كہ آپ(ص) كو يہ فرمانا پڑا:

(مَا اُوذيَ اَحَدٌ مثلُ مَا اُوذيتُ فى اللّه ) (۲۸)

''راہ خدا ميں كسى بھى پيغمبر پر اتنى سختياں نہيں ہوئيں جتنى مجھ پر ''_

اصحاب رسول (ص) كے بارے ميں بھى انہوں نے يہ فيصلہ كيا كہ ہرقبيلہ كو چاہئے كہ اپنے تازہ مسلمان ہونے والے افراد كو ہر طرح كى ايذا وتكليف پہنچائيں تاكہ وہ مجبور ہو كر اپنے نئے دين سے دستبردار ہوجائيں_

''حضرت ياسر' ' اور ان كى اہليہ ''سميہ'' اور فرزند ''عمار'' ،''خباب ابن ارت ''،''عامر بن فہيرہ ''اور ''بلال حبشي'' نے دوسرے مسلمانوں كے مقابلے ميں زيادہ مصائب و تكاليف

۸۳

برداشت كيں_(۲۹)

حضرت''سميہ'' وہ پہلى مسلم خاتون تھيں جو فرعون قريش ابوجہل كى طاقت فرسا ايذارسانى و شكنجہ كے باعث اس كے نيزے كے وار سے زخمى ہوكر شہيد ہوگئيں، ان كے شوہر ياسر دوسرے شخص تھے جو راہ اسلام ميں شہيد ہوئے عمار نے بھى اگر تقيہ نہ كيا ہوتا تو وہ بھى قتل كرديئے جاتے_(۳۰)

اميہ بن خلف اپنے غلام حضرت بلال كو بھوكا پياسا مكہ كى تپتى دوپہر ميں جلتى ريت پر لٹاديتا اور سينے پر بھارى پتھر ركھ كر كہتا كہ لات و عزى كى پوجا كرو ورنہ اسى حالت ميں مرجاؤگے، مگر بلال سخت تكاليف ميں بھى يہى جواب ديتے :'' اَحَد اَحَد''_(۳۱)

اس كے علاوہ ديگر مسلمانوں كو بھى ہر قسم كى ايذا و تكليف پہنچاتے ، انہيں قيد و بند ميں ركھتے ، سخت زدو كوب كرتے ، بھوكا پياسا ركھتے اور گلے ميں رسى باندھ كر گليوں ميں گھسيٹتے تھے(۳۲) _

۸۴

سوالات

۱_ رسول خدا (ص) كس سال مبعوث بہ رسالت ہوئے اور پہلے پہل كون سى آيات آپ (ص) پر نازل ہوئيں؟

۲_ سب سے پہلے كون اسلام لايا ؟ اوراس كى دليل كيا ہے؟

۳_پيغمبر اكرم (ص) كے مراحل دعوت كا حال آيات كى روشنى ميں بيان كريں؟

۴_رسول خدا (ص) نے جب تبليغ دين اسلام شروع كى تو پہلے مرحلے پر قريش كا كيا رد عمل رہا؟

۵_ قريش كے سرداروں اور حضرت ابوطالب (ع) كے درميان پيغمبر اكرم (ص) كے بارے ميں جو گفتگو ہوئي تھى اس ميں كياباتيں ہوئيں؟

۶_ قريش كى تجاويزاور ان كے وعدوں كا آنحضرت (ص) نے كيا جواب ديا؟

۷_ رسول خدا (ص) اور اصحاب رسول (ص) كو مشركين قريش نے كيا تكاليف پہنچائيں بيان كيجئے؟

۸_ دين اسلام قبول كرنے كے بعد كس كو سب سے پہلے شہادت نصيب ہوئي اور كس شخص نے شہيد كيا ؟

۸۵

حوالہ جات

۱_سورہ علق آيت ۱ سے ۵ تك _

۲_ الصحےح من السيرة النبى (ص) ج ۱ ص ۲۳۳_اس كتاب كا اردو ترجمہ بھى مترجم كے قلم سے منظر عام پر آرہا ہے_

۳_مناقب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۴۶ ، بحار الانوار ج ۱۸ صفحہ ۱۹۶ وتفسير برہان ج ۴ صفحہ ۴۷۹_

۴_ملاحظہ ہو: بحارالانوار ۱۸،ص ۱۸۹، ص ۱۹۰، ص ۲۴۰_

۵_اہلسنت كے مورخین كى مزيد رائے جاننے كيلئے ملاحظہ ہو الغدير ج ۳ ص ۲۲۴_۲۳۶بعض مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت خديجہ (ع) وہ پہلى خاتون تھيں جو دين اسلام سے مشرف ہوئيں (ملاحظہ ہو السيرة النبويہ وسيرہ ابن ہشام ج ۱ ص ۲۵۷ والسيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۲۶۷) البتہ دونوں نظريات كو اكٹھا كرتے ہوئے يہ كہا جاسكتا ہے كہ حضرت خديجہ(ع) اسلام قبول كرنے والى پہلى خاتون ہيں نہ يہ كہ وہ سب افراد سے پيشقدم ہوں_

۶_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۱۳ ص ۲۲۰_

۷_المستدرك حاكم نيشاپورى ' ج ۳' ص ۱۳۶_

۸_ نہج البلاغہ، فيض الاسلام خطبہ ۱۳۱_

۹_اس سورہ كے شروع ميں آيا ہے '' يَا اَيُّہاَ اَلمُدَّثّرُ _ قُم فَاَنذر (اے اوڑھ لپيٹنے والے اٹھو اور لوگوں كو ڈرائو)_

۱۰_ملاحظہ ہو الصحيح من سيرة النبى (ص) ج ۱ ص ۲۵۹ والسيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۲۸۳_

۱۱_ ملاحظہ ہو: سيرہ حلبيہ ج ۱ ص ۲۸۳ و الاصابہ ج ۱ ص ۲۸_

۱۲_ سورہ شعرا آيت ۲۱۴_

۱۳_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۲۸۵_

۱۴_ملاحظہ ہو تاريخ طبرى ج ۲ ص ۳۲۰ _۳۲۱ مجمع البيان ج ۲ ' ص ۱۸۷ والغدير ج ۲ ص ۲۷۹_

۱۵_سورہ حجر آيہ ۹۴_ ۹۵_

۱۶_اللہب جسے سورہ تبت كے نام سے بھى ياد كيا جاتا ہے_

۸۶

۱۷_ملاحظہ ہو تاريخ طبرى ج ۲ ' ص ۳۱۹_

۱۸_السيرة النبويہ ج ۱ ص ۲۸۵_

۱۹_تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۲۴_

۲۰_السيرة النبويہ ' ابن ہشام ج ۱ ص ۲۸۵ و تاريخ طبرى ج ۲ ' ص ۳۲۶_

۲۱_تاريخ طبرى ج ۲ ص ۳۱۵_ ۳۱۶_

۲۲_السيرة النبويہ ج ۱ ص ۲۸۹_

۲۳_بطور مثال ملاحظہ ہو سورہ ص آيت۴ و سورہ شعرا آيت ۱۵۳ و سورہ قلم آيت ۲ _۵۱ وسورہ تكوير آيت ۲۲_

۲۴_سورہ الذاريات آيت ۵۲_ ۵۳_

۲۵_۲۶_۲۷_ايضاء ص ۲۴_

۲۸_كنزالعمال ج ۳ 'ص ۱۳۰ حديث ۵۸۱۸_

۲۹_ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۲۹۷ _ ۳۰۱ و تاريخ يعقوبى ج ۲ ' ص ۲۸_

۳۰_الصحيح من سيرة النبي(ص) ج ۲ ' ص ۳۸ _۳۹_

۳۱ _السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۲۹_

۳۲_ السيرة النبويہ ج ۱ ص ۳۳۹و السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۲۹۷

۸۷

سبق ۶:

قريش كى سازشيں اورہجرت حبشہ

۸۸

ھ : پيغمبر اكرم (ص) كے پاس پہنچنے سے لوگوں كو روكنا

گرد ونواح سے وہ لوگ جن كے دلوں ميں دين اسلام كى محبت پيدا ہوگئي تھى وہ پيغمبر اكرم (ص) سے ملاقات كرنے كى خاطر مكہ آتے مگر مشركين انہيں پيغمبر اكرم (ص) تك پہنچنے سے منع كرتے تاكہ دين اسلام كے اثر و نفوذ كو روك سكيں وہ ہر حيلے اور بہانے سے انہيں اسلام لانے اور رسول(ص) خدا سے ملاقات كرنے سے روكتے ، يہاں بطور مثال ايك واقعہ پيش كياجاتا ہے_

اعشى زمانہ جاہليت كا مشہور شاعرتھا اسے رسول خدا (ص) پر نزول وحى اور آپ (ص) كى اسلامى تعليمات كا كچھ نہ كچھ علم ہوگيا تھا ، چنانچہ اس نے آنحضرت (ص) كى شان ميں قصيدہ كہا اور اسے لے كر مكہ كى جانب روانہ ہوا تاكہ دين اسلام قبول كرنے كا شرف حاصل كرسكے ، جس وقت وہ مكے ميں داخل ہوا مشركين اس سے ملنے آئے اور اس سے شہر ميں آنے كا سبب دريافت كيا جب انہيں اعشى كے قصد و ارادے كا علم ہو اتو انہوں نے اپنى فطرى شيطنت اور حيلہ گرى كے ذريعے اسے پيغمبر اكرم (ص) كے ساتھ ملاقات كرنے سے روكا چنانچہ اس نے فيصلہ كيا كہ اس وقت وہ واپس اپنے شہر چلا جائے اور آئندہ سال پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں حاضر ہو كرد ين اسلام قبول كرنے كا شرف حاصل كرے مگر موت نے اسے اس سعادت كى مہلت نہ دى اور سال ختم ہونے سے پہلے وہ انتقال كرگيا_(۱)

۸۹

و: قرآن سے مقابلہ

دشمنان اسلام كو جب يہ علم ہوا كہ آسمانى دين و آئين كى تبليغ ميں پيغمبر اكرم (ص) كى كاميابى كا اہم ترين عامل آيات الہى كى وہ معنوى كشش ہے جو لوگوں كے دلوں پر اثر كرتى ہے اور انہيں اپنا گرويدہ بناليتى ہے ، تو انہيں يہ بچگانہ تدبير سوجھى كہ كوئي ايسى سازش كريں جس كے ذريعے لوگوں كو قرآن كى جانب متوجہ ہونے سے روك سكيں اور اس مقدس كتاب كى مقبوليت اور دلچسپى كو ختم كرسكيں_

نضر بن حارث كا شمار ان دشمنان اسلام ميں ہوتا ہے جو رسول خدا (ص) كو بہت زيادہ اذيت پہنچايا كرتے تھے _اس نے ''حيرہ'' كے سفر ميں رستم و اسفنديار كى داستانيں سن كر ياد كرلى تھيں چنانچہ اسے قريش كى طرف سے يہ كام سونپا گيا كہ جب مسجد الحرام ميں پيغمبر اكرم (ص) كا تبليغى دستورالعمل ختم ہوجايا كرے تو وہ آنحضرت (ص) كى جگہ پر جا كر بيٹھے اور لوگوں كو رستم اور اسفنديار كى داستانيں سنائے شايد اس طريقے سے پيغمبر اكرم (ص) كے مرتبے كو كم كياجاسكے اور آپ (ص) كى تبليغ نيز آيات الہى كو بے قدر وقيمت بناياجاسكے ، وہ بڑى ہى گستاخى اور ديدہ دليرى سے كہتا : لوگو تم ميرى طرف آئو ميں تمہيں محمد(ص) سے كہیں بہتر قصے اور كہانياں سنائوں گا_

اس نے اسى پرہى اكتفا نہيں كيا بلكہ گستاخى اور بے باكى ميں اس سے بھى كہيں آگے بڑھ گيا اور اپنے خدا ہونے كا دعوى كردياوہ لوگوں سے كہتا كہ ميں بھى جلد ہى وہ چيز اتاروں گا جو محمد (ص) كا خدا اس پر نازل كيا كرتا ہے_(۲)

اس سلسلے ميں قرآن مجيد ميں چند آيات نازل ہوئيں كہ البتہ بطور نمونہ ہم ايك كا ذكر كر رہے ہيں :

۹۰

( وَقَالُوا أَسَاطيرُ الأَوَّلينَ اكتَتَبَهَا فَهيَ تُملَى عَلَيه بُكرَةً وَأَصيلًا _ قُل أَنزَلَهُ الَّذي يَعلَمُ السّرَّ فى السَّمَاوَات وَالأَرض إنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَحيمًا ) (۳)

''كہتے ہيں يہ تو اگلے لوگوںكے افسانے ہيں جنہيں لكھواليا ہے اور صبح و شام ان كے سامنے پڑھے جاتے ہيں ، آپ (ص) كہہ ديجئے كہ اسے اس نے نازل كيا ہے جو زمين وآسمان كے راز جانتا ہے اور وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے''_

قرآن مجيد كے خلاف مشركين نے دوسرا محاذ يہ تيار كيا كہ انہوں نے اپنے پيروكاروں كو يہ حكم ديا كہ جس وقت رسول خدا (ص) قرآن مجيد كى تلاوت فرماتے ہيں تو اسے نہ صرف سنا ہى نہ جائے بلكہ ايسا شور و غل بپا كياجائے كہ دوسرے لوگ بھى اسے سننے سے باز رہیں چنانچہ اس سلسلہ ميں قرآن مجيد كا ارشا د ہے :

( وَقَالَ الَّذينَ كَفَرُوا لاَتَسمَعُوا لهذَا القُرآن وَالغَوا فيه لَعَلَّكُم تَغلبُونَ ) (۴)

''اوركافروں نے ايك دوسرے سے يہ كہا كہ : اس قرآن پر كان نہ دھرو اور جب پڑھاجائے تو شورو غل بپا كياكرو شايد تم كامياب ہوجائو''_

ہجرت حبشہ:

اگر چہ رسول خدا (ص) اور بنى ہاشم كے ديگر چند حضرات، حضرت ابوطالب (ع) كى زير حمايت كچھ حد تك دشمنوں كى گزند سے بالخصوص جسمانى آزار و ايذا سے محفوظ تھے مگر دوسرے بے پناہ اور بے يارو مددگار مسلمان ايذا اور اذيت كى انتہائي سخت تكاليف و مشكلات سے گزر

۹۱

رہے تھے_

پيغمبر اكرم (ص) كےلئے يہ بات سخت شاق اور ناگوار تھى كہ آپ (ص) كے اصحاب وہمنوا ايسى سخت مشقت ميں مبتلا رہيں اور ہر طرح كے مصائب وآلام سے گزرتے ہيں _ دوسرى طرف اس بات كا بھى امكان تھا كہ اگر يہى كيفيت برقرار رہى تو ہوسكتا ہے كہ نو مسلم اپنے عقيدے ميں سست ہوجائيں_(۵)

اس كے علاوہ يہى حالت دوسرے لوگوں كو اسلام كى جانب عمل ہونے سے روك بھى سكتى تھي، چنانچہ ان حالات كے پيش نظر يہ لازم سمجھا گيا كہ اس ديوار كو بھى گرادياجائے تاكہ قريش يہ جان ليں كہ حقيقت اسلام ان كے حد تصور اور تسلط واقتدار سے كہيںزيادہ بالاو برتر ہے_

اس گھٹن اور دبائو كے ماحول سے نجات حاصل كرنے كيلئے مسلمانوں كواس بات كى اجازت دى گئي كہ وہ ترك وطن كركے حبشہ چلے جائيں ، اس ملك كے انتخاب كئے جانے كى چند وجوہات تھیں:

۱_يہ ملك شہنشاہ روم كے ساتھ اچھے تعلقات ركھنے كے باوجود، سياسى نقطہ نظر سے بہت حد تك مستقل اور اس زمانے كے دو بڑى طاقتوں (ايران اور روم) كے اثر و نفوذ سے دور تھا_

۲_ حبشہ اور حجاز كے درميان بحيرہ احمر كے واقع ہونے كى وجہ سے قريش كى مسلمان مہاجروں تك رسائي كا امكان كم تھا_

۳_عادل حكمران اور نسبتاً صحيح اور بہتر ثقافتى ماحول كى وجہ سے حبشہ كا ملك ديگر ممالك پر برترى ركھتا تھا_ مہاجروں كو الوادع كرتے وقت رسول اكرم (ص) كى يہ باتيں بھى اس

۹۲

حقيقت كى تائيد كرتى ہيں كہ ''اس ملك كے حكمران كى وجہ سے كسى پر ستم نہيں كياجاتا اور وہ پاك اور سچائي كى سرزمين ہے''_(۶)

مہاجرين كا وہ پہلا گروہ جو پندرہ افراد پر مشتمل تھا عثمان ابن مظعون كى زير سر پرستى بعثت كے پانچويں سال رجب كے مہينے ميں اس عيسائي ملك حبشہ (ايتھوپيا)كى جانب روانہ ہوا اور دو ماہ بعد واپس مكہ آگيا_

دوسرے گروہ ميں تراسى مرد اور اٹھارہ عورتيں اور چند بچے شامل تھے يہ گروہ حضرت جعفر ابن ابى طالب (ع) كى زير سرپرستى ہجرت كركے حبشہ چلاگيا جس كا وہاں كے فرمان روا ''نجاشي'' نے بہت پرتپاك طريقے سے استقبال كيا_

قريش كو جب اس واقعے كا علم ہوا تو انہوں نے عمروبن عاص اور عبداللہ ابن ابى ربيعہ كو اپنا نمائندہ بنا كر حبشہ روانہ كيا ان كے ساتھ انہوں نے نجاشى اور اس كے درباريوں كے لئے بہت سے عمدہ تحفے تحائف بھى بھيجے اور اس سے يہ درخواست كى كہ پناہ گزيں مسلمانوں كو واپس كردياجائے_

قريش كے نمائندوں نے بادشاہ نجاشى اور اس كے درباريوں كو مسلمانوں سے بدظن كرانے كى ہر ممكن كوشش كى اور بہت اصرار كياكہ مہاجر مسلمانوں كو واپس كردياجائے مگر انہيں اپنے مقصد ميں كاميابى نہ ہوئي اور وہ نجاشى بادشاہ كو اپنا ہم خيال نہ بناسكے_

نجاشى نے جب مہاجرين كے نمائندے حضرت جعفر ابن ابى طالب (ع) كى دلچسپ اور منطقى باتيں سنيں اور حضرت جعفر (ع) نے جب اس كے سامنے قرآنى آيات كى قرا ت كى تو وہ انہيں سن كر مسلمانوں پر فريفتہ اور ان كے عقائد كا شيداہوگيا چنانچہ اس نے سركارى سطح پر مسلمانوں كى واضح اور قطعى حمايت كا اعلان كرديا اور قريش كے نمائندوں كو حكم ديا كہ اس

۹۳

كے ملك سے نكل جائيں_

ملك حبشہ ميں مہاجرين انتہائي آرام اور سہولت كى زندگى بسر كرتے رہے اور جب رسول خدا (ص) ہجرت كركے مدينہ تشريف لے گئے تو ہ بھى آہستہ آہستہ وہاں سے واپس آكر آنحضرت (ص) سے مل گئے_(۷)

اس ہجرت كے فوائد

ترك وطن كركے حبشہ كى جانب روانہ ہونے اور اس ملك ميں كافى عرصہ تك قيام كرنے كے باعث مسلمانوں كو بہت سے فائدے ہوئے اور وہاں انہيں بہت سى بركات حاصل ہوئيں جن ميں سے چند كا ہم ذيل ميں ذكر كريں گے_

۱_جو مسلمان ترك وطن كركے حبشہ چلے گئے تھے انہيں قريش كے مظالم سے نجات مل گئي وہ مشركين مكہ كى شكنجہ وايذا رسانى سے محفوظ ہوگئے_

۲_اسلام كا پيغام اور اعلان رسالت اہل حبشہ بالخصوص حبشہ كے بادشاہ اور ا س كے درباريوں تك پہنچ گيا _

۳_قريش كى رسوائي ہوئي اور ان كے وہ نمائندے جو نجاشى بادشاہ كے پاس گئے تھے ذليل و خوار ہوكر وہاں سے نكلے_

۴_حبشہ كے لوگوں كے درميان دين اسلام كى تبليغ و توسيع كا راستہ ہموار ہوگيا_

عيسائيوں كے ساتھ مسلم مہاجرين كا اسلامى اور انسانى سلوك، شرافتمندانہ طر ز زندگى اور اسلامى احكام كى سخت پابندى اس امر كا باعث ہوئي كہ وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ حبشہ كے لوگ دين اسلام كے شيدائي ہونے لگے چنانچہ آج ايتھوپيا (حبشہ) اريٹيريا اور

۹۴

صوماليہ ميں جو كڑوروں مسلمان آباد ہيں وہ مسلمانوں كى اسى ہجرت كاہى فيض ہے_

ز:اقتصادى ناكہ بندي(۸)

مختلفقبائل ميں اورحجاز كے اندر اور باہر اسلام كى مقبوليت نيز ملك حبشہ ميں مہاجرين كى كامياب پناہ گزينى نے قريش كے سرداروں كواس بات پر مجبوركرديا كہ وہ اسلامى تحريك كو روكنے كےلئے كوئي بنيادى اقدام كريں، چنانچہ انہوں نے فيصلہ كيا كہ ايسے معاہدے پر دستخط كرائے جائيں جس كى رو سے ''بنى ہاشم '' اور ''بنى مطلب'' كے ساتھ مكمل تعلقات قطع ہوجائيں ، كوئي رشتہ دارى نہ كى جائے، ان كے ساتھ كاروبار بند كردياجائے اور كوئي بھى شخص ان كے ساتھ كسى طرح كا سروكار نہ ركھے_(۹)

قريش كے اس تحريرى معاہدہ كا مقصد يہ تھا كہ يا تو حضرت ابوطالب (ع) مجبور ہو كر پيغمبر (ص) كى حمايت و سرپرستى سے دست بردار ہوجائيں اور آپ (ص) كو قريش كے حوالے كر ديں، يا رسول خدا (ص) لوگوں كو دعوت حق دينا ترك كرديں اور قريش كى تمام شرائط كو مان ليں ، يا پھر آپ(ص) اور آپ (ص) كے حامى گوشہ نشينى اور كسمپرسى كى حالت ميں رہ كر بھوك و پياس سے تڑپ تڑپ كر مرجائيں_

قريش نے اس معاہدے كا نام (صحيفہ) ركھا جس پر چاليس سر برآوردہ اشخاص نے دستخط كئے اور اسے كعبے كى ديوار پرآويزاں كرديا گيا(۱۰) _ اس معاہدے ميں شامل تمام افراد نے يہ عہد كيا كہ تمام لوگ اس كے مندرجات پر حرب بحرف عمل پيرا ہوںگے_

حضرت ابوطالب (ع) كو جب ''معاہدہ صحيفہ'' كا علم ہو ا تو انہوں نے رسول خدا(ص) كى شان رسالت كى تائيد ميں چند اشعار كہے ، جن ميں انہوں نے تاكيد كے ساتھ پيغمبر اكرم (ص) كى

۹۵

حمايت كا از سر نو اعلان كيا ، اس كے ساتھ ہى انہوں نے ''بنى ہاشم'' اور ''بنى مطلب'' سے خواہش كى كہ مكہ كو خيرباد كہہ كر اس درے ميں جا بسيں جوشہر سے باہر واقع ہے اور يہى درہ بعد ميں ''شعب ابوطالب'' كے نام سے مشہور ہوا_(۱۱)

''ابولہب'' كے علاوہ ''بنى ہاشم'' اور ''بنى مطلب '' كے سبھى افراد بعثت كے ساتويں سال يكم محرم كو رات كے وقت ''شعب ابوطالب'' ميںداخل ہوئے(۱۲) جہاں انہوں نے چھوٹے چھوٹے گھر اور سائبان بنائے اور وہ حرمت كے مہينوں (رجب ، ذى القعدہ، ذى الحجہ اور محرم) كے علاوہ تمام سال اسى درے ميں محصور رہتے_

''شعب ابوطالب'' ميں مسلمانوں پر ايسا سخت دور بھى آيا كہ كبھى كبھى تو انہيں پيٹ كى آگ بجھانے كےلئے درخت كے پتوں پر گزارہ كرنا پڑتا_

حرمت كے مہينوں ميں اگر چہ قريش ا ن سے كوئي بازپرس نہ كرتے البتہ دوسرے طريقوں سے انہيں پريشان كياجاتا، انہوں نے مسلمانوں كى قوت خريد كوختم كرنے كيلئے چور بازارى (بليك ماركيٹنگ) كا دھندا شروع كرديا ، كبھى كبھى تو وہ دوكانداروں اور چيزيں بيچنے والوں كو سختى كے ساتھ يہ تنبيہہ كرتے كہ وہ مسلمانوں كے ہاتھ كوئي چيز فروخت نہ كريں_(۱۳)

اميرالمومنين حضرت على عليہ السلام حرمت كے چار مہينوں كے علاوہ بھى كبھى كبھى چھپ كر مكہ جاتے اور وہاں سے كھانے كا سامان جمع كركے شعب ابوطالب ميں لے كر آتے_(۱۴)

حضرت ابوطالب (ع) كو رسول خدا (ص) كى فكر ہروقت دامنگيررہتى كيونكہ انہيں اپنے بھتيجے كى جان كا خطرہ تھا، چنانچہ وہ شعب ابوطالب كے بلند مقامات پر پہرہ دار مقرر كرنے كے

۹۶

علاوہ پيغمبر (ص) كو اپنے بستر پر سلاتے اور جب سب سوجاتے تو وہ اپنے فرزند على (ع) كو رسول خدا كے بستر پر سونے كےلئے كہتے اوررسول خدا (ص) سے كہتے كہ آپ (ص) دوسرے بستر پر سوجائيں_(۱۵)

محاصرے كا خاتمہ

تين سال تك سخت رنج و تكليف برداشت كرنے كے بعد بالآخر امداد غيبى مسلمانوں كے شامل حال ہوئي اور جبرئيل امين (ع) نے پيغمبر اكرم (ص) كو يہ خوشخبرى دى كہ خداوند متعال نے ديمك كو اس عہد نامے پر مسلط كرديا ہے جس نے پورى تحرير كو چاٹ ليا ہے اور صرف اس پر ''باسْمكَ اللّہُمَّ'' لكھا ہوا باقى ہے_

رسول خدا (ص) نے اس واقعے كى اطلاع اپنے چچا كو دى يہ سن كر حضرت ابوطالب (ع) قريش كے مجمع عام ميں تشريف لے گئے اور ان سے واقعہ كو بيان كر كے فرمايا كہ جو صحيفہ تم لوگوں نے لكھا تھا اسے پيش كياجائے ، اسى ضمن ميں مزيد فرمايا كہ:

''اگر بات وہى ہے جو ميرے بھتيجے نے مجھ سے كہى ہے تو تم اپنے جور و ستم سے بازآجائو اور اگر اس كا كہنا غلط اور بے بنياد ثابت ہوا تو ميں خود اسے تمہارے حوالے كردوں گا''_

قريش كو حضرت ابوطالب (ع) كى تجويز پسند آئي چنانچہ جب انہوں نے اس صحيفے كى مہر كو توڑا تو بات وہى صحيح ثابت ہوئي جو پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمائي تھي_

قريش ميں جب اُن لوگوں نے ، جو صاحب فہم و فراست اور عدل وانصاف تھے، يہ معجزہ ديكھا تو انہوں نے قريش كى اس پست وكمينہ حركت كى سخت مذمت كى جو انہوں نے پيغمبر اكرم (ص) اور آپ (ص) كے اصحاب كے ساتھ اختيار كر ركھى تھى اورانہوں نے يہ مطالبہ كيا كہ عہد

۹۷

نامہ ''صحيفہ'' كو باطل قراردے كر محاصرہ ختم كياجائے_(۱۵)

چنانچہ اس طرح رسول خدا (ص) اور آپ (ص) كے اصحاب تين سال تك استقامت و پائيدارى كے ساتھ سخت مصائب برداشت كرنے كےبعثت كے دسويں سال(۱۷) ماہ رجب(۱۸) كے وسط ميں، سروخرو اوركامياب ہوكر واپس مكہ آگئے_

رسول اكرم (ص) كے پاس عيسائيوں كے ايك وفد كى آمد

مسلمانوں كى ہجرت ''حبشہ''كا ايك فائدہ يہ بھى ہواكہ جب ''حبشہ'' يا ''نجران'' كے عيسائيوں كو رسول اكرم (ص) كى بعثت كى اطلاع ملى تو انہوں نے يہ فيصلہ كيا كہ اپنا وفد مكہ روانہ كريں تاكہ وہ رسول خدا (ص) سے براہ راست گفتگو كرسكيں چنانچہ يہ پہلا وفد تھا جو مكہ كے باہر سے آيا اور رسول خد ا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا_

نصارى كا يہ نمائندہ وفد بيس افراد پر مشتمل تھاجو رسول خدا (ص) سے ''مسجد الحرام'' ميں ملاقات سے مشرف ہوااور اسى جگہ باہمى گفتگو كا آغاز ہوا جب مذاكرات كا سلسلہ ختم ہوا تو رسول خدا (ص) نے قرآن مجيد كى چند آيات تلاوت كركے انہيں سنائيں اور انہيں دين اسلام قبول كرنے كى دعوت دي_

عيسائيوں نے جب قرآنى آيات سنيں تو ان كى آنكھيں اشكوں سے لبريز ہوگئيں اور دين اسلام قبول كرنے كا انہوں نے شرف حاصل كرليا جس كى وجہ يہ تھى كہ رسول خدا حضرت محمد صلى اللہ على و آلہ و سلم كے جو اوصاف ان كى كتابوں ميں بيان كئے گئے تھے وہ آپ(ص) كى ذات مبارك ميں انہوں نے پائے_

يہ نمائندہ وفد جب رسول خدا (ص) كى ملاقات سے مشرف ہوكر واپس جانے لگا تو ابوجہل

۹۸

اور قريش كے گروہ نے ان كا راستہ روك ليااور كہا كہ تم كيسے نادان ہو ، تمہارى قوم نے تمہيں اس مقصد كےلئے بھيجا تھا كہ وہاں جاكر اصل واقعے كى تحقيق كرو اور اس كاجائزہ لو ليكن تم فوراً نے بے خوف و خطر اپنے دين و آئين كو ترك كرديا اور محمد (ص) كى دعوت پر كاربند ہوگئے_

نصارى كے نمائندوں نے كہا : ''ہم تمہارے ساتھ بحث ومباحثہ كرنے كى غرض سے تو نہيں آئے _تم اپنا دين اپنے پاس ركھو اور ہميں ہمارے آئين و مسلك پر رہنے دو _(۱۹)

حضرت ابوطالب(ع) اور حضرت خديجہ (س) كى رحلت

جناب رسول خدا (ص) اور اصحاب رسول (ص) كو شعب ابوطالب سے نجات ملى تو اس بات كى اميد تھى كہ مصائب وآلام كے بعد ان كے حالات سازگار ہوجائيں گے اور خوشى كے دن آئيں گے مگر ابھى دو سال بھى نہ گزرے تھے كہ دو ايسے تلخ اور جانكاہ صدمات سے دوچار ہوئے جن كے باعث رسول خدا(ص) اور اصحاب رسول (ص) پر گويا غم واندوہ كا پہاڑ ٹوٹ پڑا، رنج واندوہ كا سبب حضرت ابوطالب (ع) كى رحلت اور اس كے تين دن يا ايك ماہ بعد آپ (ص) كى جان نثار شريكہ حيات (حضرت خديجہ (ع)) كى بھى اس جہان فانى سے رحلت تھى _(۲۰)

حضرت ابوطالب (ع) اور حضرت خديجہ (ع) كو ''حجون'' نامى قريش كے قبرستان ميں سپرد خاك كيا گيا_

حضرت ابوطالب اور حضرت خديجہ (ع) كى رحلت نے رسول خدا (ص) كو بہت مغموم و محزون كيا چنانچہ آپ (ص) نے اس غم والم كا اظہار ان الفاظ ميں فرمايا كہ ان چند دنوں ميں اس امت پر دو ايسى مصيبتيں نازل ہوئي ہيں كہ ميں نہيں جانتا كہ ان ميں سے كس نے مجھے زيادہ متاثر

۹۹

كيا ہے_(۲۱)

رسول خد ا(ص) پر اپنے واجب الاحترام چچا اور وفا شعار شريكہ حيات كى رحلت كا اس قدر صدمہ ہوا كہ آپ (ص) بہت ہى كم ، گھر سے باہر تشريف لاتے چونكہ يہ دونوں عظيم حادثات بعثت كے دسويں سال ميں واقع ہوئے تھے اسى لئے ان كى اہميت كو مد نظر ركھتے ہوئے اس سال كو ''عام الحزن'' يعنى غم واندوہ كا سال كہاجانے لگا_(۲۲)

حضرت ابوطالب (ع) كى مظلوميت

حضرت ابوطالب (ع) كو چونكہ اپنے بھتيجے كے اوصاف حميدہ كا علم تھا اور اس امر سے بھى واقف تھے كہ آپ (ص) كو رسالت تفويض كى گئي ہے اسى لئے وہ آپ(ص) كى تنہائي كے وقت نہايت خاموشى سے آپ (ص) پر ايمان لے آئے تھے وہ رسول خدا (ص) كى بياليس سال سے زيادہ عرصہ تك حفاظت ونگرانى كرتے رہے (يعنى اس وقت سے جب كہ رسول خدا(ص) كاسن مبارك آٹھ سال تھا اس وقت تك جبكہ آپ(ص) كا سن شريف پچاس سال كو پہنچ گيا) وہ چونكہ حفاظت و حمايت كو اپنى ذمہ دارى سمجھتے تھے اسى لئے وہ آپ (ص) كے پروانہ وار شيدائي تھے ، يہى وجہ تھى كہ انہوں نے رسول خدا (ص) كے آسمانى دين كى ترويج كى خاطر كبھى بھى جان ومال قربان كرنے سے دريغ نہيں كيا ، يہاں تك كہ انہوں نے اسى(۸۰) سال سے زيادہ كى عمر ميں اس وقت انتقال كياجبكہ آپ (ع) كا دل خدا اور رسول (ص) پر ايمان سے منور تھا_

حضرت ابوطالب (ع) كى رحلت كے بعد دشمنوں كے آستينوں ميں پوشيدہ ہاتھ بھى باہر نكل آئے اور وہ اس بات كو ثابت كرنے كى كوشش كرنے لگے كہ صدر اسلام كے اس مرد مجاہد كى موت بحالت كفر واقع ہوئي ہے تاكہ لوگوں پر يہ ظاہر كرسكيں كہ يہ ان كا قومى جذبہ تھا جس

۱۰۰