تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي18%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139748 / ڈاؤنلوڈ: 4389
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

قريش نے آپ (ص) كے رويے كے خلاف شكايت كرتے ہوئے كہا كہ اگر آپ (ص) كو مال و دولت كى تمنا ہے تو ہم اتنا وافر مال و متاع دينے كےلئے تيار ہيں كہ آپ (ص) سب سے زيادہ مالدار ہوجائيںگے، اگر آپ (ص) كوسردارى كى خواہش ہے تو ہم آپ (ص) كو اپنا امير و سردار بنانے كيلئے تيار ہيں اور ايسے مطيع فرمانبردار بن كر رہے ہيں كہ آپ (ص) كى اجازت كے بغير كوئي كام بھى نہ كريں گے اور اگر آپ (ص) كے دل ميں حكومت اور سلطنت كى آرزو ہے تو ہم آپ (ص) اپنا حكمران و فرمانروا تسليم كرنے كيلئے آمادہ ہيں _

يہ سن كر رسول خدا (ص) نے فرمايا:

ميں مال و دولت جمع كرنے ، تمہارا سردار بننے اور تخت سلطنت پر پہنچنے كيلئے مبعوث نہيںہوا ہوں ، خداوند تعالى نے مجھے تمہارى جانب ايك پيغمبر كى حيثيت سے بھيجا ہے اور مجھ پر اپنى كتاب نازل فرمائي ہے مجھے تمہارے پاس جنت كى خوشخبرى دينے اور عذاب دوزخ سے ڈرانے كيلئے بھيجا گيا ہے جس پيغام كو پہنچانے كى ذمہ دارى مجھے سونپى گئي ہے اسے ميں نے تم تك پہنچاديا ہے ، اگر تم ميرى بات مانو گے تو تمہيں دنيا و آخرت كى خوشياں نصيب ہوں گى اور اگر تم ميرى بات قبول كرنے سے انكار كرو گے تو ميں اس راہ ميں اس وقت تك استقامت و پائيدارى سے كام لوں گا كہ خداوند تعالى ميرے اور تمہارے درميان فيصلہ كردے_(۲۱)

ج _ تہمت و افترا پردازي

پيغمبر اكرم (ص) كى عالى شان شخصيت كو داغدار كرنے كيلئے قريش نے جو پست طريقے اختيار كئے ان ميں سے ايك احمقانہ حربہ يہ بھى تھا كہ انہوں نے آپ (ص) پر تہمتيں لگائيں اور آپ(ص)

۸۱

كے خلاف غلط پروپيگنڈا كيا _چنانچہ آپ (ص) كو(نعوذ باللہ) جھوٹا ، كاہن، اور ساحر و جادوگر قرار ديا گيا _ وہ لوگوں ميں كہتے پھرتے تھے كہ اس شخص كے پاس كوئي ايسا جادو ہے كہ جس كے ذريعے يہ شخص باپ ،بيٹے ، مياں بيوي، دوستوں اور رشتہ داروں كے درميان جدائي ڈال ديتا ہے_(۲۲)

قرآن مجيد نے ان تہمتوں كے بارے ميں كئي جگہ پر اشارہ كيا ہے او رپيغمبر اكرم (ص) كى بابركت و مقدس ذات گرامى كو اس قسم كے الزامات سے منزہ و مبرہ قرار ديا ہے _(۲۳) چنانچہ ايك آيت ميں پيغمبراكرم (ص) كى يہ كہہ كر دلجوئي كى ہے كہ يہ پست شيوہ صر ف ان كفار كى خصوصيت نہيں بلكہ ان سے پہلے بھى دشمنان انبياء اسى قسم كے حربے استعمال كرچكے ہيں_

( كَذَلكَ مَا أَتَى الَّذينَ من قَبلهم من رَسُول: إلاَّ قاَلُوْا سَاحرٌ أَو مَجنُونٌ_ أَتَوَاصَوا به بَل هُم قَومٌ طَاغُونَ ) _(۲۴)

''اے رسول ((ص) جس طرح انہوں نے تجھے اذيت دى اسى طرح )ان سے پہلے كى قوموں كے پاس بھى كوئي رسول ايسا نہيں آيا جسے انہوں نے ساحر يا مجنون، نہ كہا ہو كيا ان سب نے آپس ميں اس پر كوئي سمجھوتہ كرليا ہے؟ نہيں بلكہ يہ سركش لوگ ہيں''_

د_ شكنجہ وايذار ساني

آپ پر الزامات كى بوچھاڑكے ساتھ ساتھ، انہوں نے آپ (ص) كو اذيت و آزار دينا بھى شروع كرديا اور جس حد تك ممكن تھا انہوں نے اذيت دينے ميں كوئي كسر نہ چھوڑي، قريش نے يہ غير انسانى طرز عمل نہ صرف پيغمبر اكرم (ص) كے ساتھ روا ركھا ہوا تھا بلكہ وہ مسلمانوں كے

۸۲

ساتھ بھى اسى طرح كا سلوك كرتے تھے_

پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كو ابولہب' اس كى بيوى ام جميل' حكم ابن ابى العاص' عقبہ ابن ابى معيط اور ان كے ساتھيوں نے دوسروں كے مقابلے ميں بہت زيادہ ايذا و تكليف پہنچائي _(۲۵)

رسول خدا (ص) تبليغ اسلام كےلئے بازار ''عكاظ'' كى جانب تشريف لے جاتے تھے كہ ابولہب بھى آپ (ص) كے پيچھے پيچھے ہوليتا اور چلا چلا كر كہنے لگتا : لوگو ميرا يہ بھتيجا جھوٹا ہے اس سے بچ كر رہنا _(۲۶)

قريش آوارہ لڑكوں اور اپنے اوباش اور بے ادب غلاموں كو پيغمبر اكرم (ص) كے راستے پر بٹھاديتے چنانچہ جب آنحضرت (ص) اس راستے سے گزرتے تو سب آپ (ص) كے پيچھے لگ جاتے اور آپ (ص) كا مذاق اڑاتے_ جس وقت آپ(ص) نماز كيلئے كھڑے ہوتے تو آپ (ص) پر اونٹ كى اوجھڑى اور فضلہ انڈيل ديتے_(۲۷)

رسول اكرم (ص) نے دشمن كے ہاتھوں ايسى سختياں برداشت كيں كہ آپ(ص) كو يہ فرمانا پڑا:

(مَا اُوذيَ اَحَدٌ مثلُ مَا اُوذيتُ فى اللّه ) (۲۸)

''راہ خدا ميں كسى بھى پيغمبر پر اتنى سختياں نہيں ہوئيں جتنى مجھ پر ''_

اصحاب رسول (ص) كے بارے ميں بھى انہوں نے يہ فيصلہ كيا كہ ہرقبيلہ كو چاہئے كہ اپنے تازہ مسلمان ہونے والے افراد كو ہر طرح كى ايذا وتكليف پہنچائيں تاكہ وہ مجبور ہو كر اپنے نئے دين سے دستبردار ہوجائيں_

''حضرت ياسر' ' اور ان كى اہليہ ''سميہ'' اور فرزند ''عمار'' ،''خباب ابن ارت ''،''عامر بن فہيرہ ''اور ''بلال حبشي'' نے دوسرے مسلمانوں كے مقابلے ميں زيادہ مصائب و تكاليف

۸۳

برداشت كيں_(۲۹)

حضرت''سميہ'' وہ پہلى مسلم خاتون تھيں جو فرعون قريش ابوجہل كى طاقت فرسا ايذارسانى و شكنجہ كے باعث اس كے نيزے كے وار سے زخمى ہوكر شہيد ہوگئيں، ان كے شوہر ياسر دوسرے شخص تھے جو راہ اسلام ميں شہيد ہوئے عمار نے بھى اگر تقيہ نہ كيا ہوتا تو وہ بھى قتل كرديئے جاتے_(۳۰)

اميہ بن خلف اپنے غلام حضرت بلال كو بھوكا پياسا مكہ كى تپتى دوپہر ميں جلتى ريت پر لٹاديتا اور سينے پر بھارى پتھر ركھ كر كہتا كہ لات و عزى كى پوجا كرو ورنہ اسى حالت ميں مرجاؤگے، مگر بلال سخت تكاليف ميں بھى يہى جواب ديتے :'' اَحَد اَحَد''_(۳۱)

اس كے علاوہ ديگر مسلمانوں كو بھى ہر قسم كى ايذا و تكليف پہنچاتے ، انہيں قيد و بند ميں ركھتے ، سخت زدو كوب كرتے ، بھوكا پياسا ركھتے اور گلے ميں رسى باندھ كر گليوں ميں گھسيٹتے تھے(۳۲) _

۸۴

سوالات

۱_ رسول خدا (ص) كس سال مبعوث بہ رسالت ہوئے اور پہلے پہل كون سى آيات آپ (ص) پر نازل ہوئيں؟

۲_ سب سے پہلے كون اسلام لايا ؟ اوراس كى دليل كيا ہے؟

۳_پيغمبر اكرم (ص) كے مراحل دعوت كا حال آيات كى روشنى ميں بيان كريں؟

۴_رسول خدا (ص) نے جب تبليغ دين اسلام شروع كى تو پہلے مرحلے پر قريش كا كيا رد عمل رہا؟

۵_ قريش كے سرداروں اور حضرت ابوطالب (ع) كے درميان پيغمبر اكرم (ص) كے بارے ميں جو گفتگو ہوئي تھى اس ميں كياباتيں ہوئيں؟

۶_ قريش كى تجاويزاور ان كے وعدوں كا آنحضرت (ص) نے كيا جواب ديا؟

۷_ رسول خدا (ص) اور اصحاب رسول (ص) كو مشركين قريش نے كيا تكاليف پہنچائيں بيان كيجئے؟

۸_ دين اسلام قبول كرنے كے بعد كس كو سب سے پہلے شہادت نصيب ہوئي اور كس شخص نے شہيد كيا ؟

۸۵

حوالہ جات

۱_سورہ علق آيت ۱ سے ۵ تك _

۲_ الصحےح من السيرة النبى (ص) ج ۱ ص ۲۳۳_اس كتاب كا اردو ترجمہ بھى مترجم كے قلم سے منظر عام پر آرہا ہے_

۳_مناقب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۴۶ ، بحار الانوار ج ۱۸ صفحہ ۱۹۶ وتفسير برہان ج ۴ صفحہ ۴۷۹_

۴_ملاحظہ ہو: بحارالانوار ۱۸،ص ۱۸۹، ص ۱۹۰، ص ۲۴۰_

۵_اہلسنت كے مورخین كى مزيد رائے جاننے كيلئے ملاحظہ ہو الغدير ج ۳ ص ۲۲۴_۲۳۶بعض مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت خديجہ (ع) وہ پہلى خاتون تھيں جو دين اسلام سے مشرف ہوئيں (ملاحظہ ہو السيرة النبويہ وسيرہ ابن ہشام ج ۱ ص ۲۵۷ والسيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۲۶۷) البتہ دونوں نظريات كو اكٹھا كرتے ہوئے يہ كہا جاسكتا ہے كہ حضرت خديجہ(ع) اسلام قبول كرنے والى پہلى خاتون ہيں نہ يہ كہ وہ سب افراد سے پيشقدم ہوں_

۶_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۱۳ ص ۲۲۰_

۷_المستدرك حاكم نيشاپورى ' ج ۳' ص ۱۳۶_

۸_ نہج البلاغہ، فيض الاسلام خطبہ ۱۳۱_

۹_اس سورہ كے شروع ميں آيا ہے '' يَا اَيُّہاَ اَلمُدَّثّرُ _ قُم فَاَنذر (اے اوڑھ لپيٹنے والے اٹھو اور لوگوں كو ڈرائو)_

۱۰_ملاحظہ ہو الصحيح من سيرة النبى (ص) ج ۱ ص ۲۵۹ والسيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۲۸۳_

۱۱_ ملاحظہ ہو: سيرہ حلبيہ ج ۱ ص ۲۸۳ و الاصابہ ج ۱ ص ۲۸_

۱۲_ سورہ شعرا آيت ۲۱۴_

۱۳_السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۲۸۵_

۱۴_ملاحظہ ہو تاريخ طبرى ج ۲ ص ۳۲۰ _۳۲۱ مجمع البيان ج ۲ ' ص ۱۸۷ والغدير ج ۲ ص ۲۷۹_

۱۵_سورہ حجر آيہ ۹۴_ ۹۵_

۱۶_اللہب جسے سورہ تبت كے نام سے بھى ياد كيا جاتا ہے_

۸۶

۱۷_ملاحظہ ہو تاريخ طبرى ج ۲ ' ص ۳۱۹_

۱۸_السيرة النبويہ ج ۱ ص ۲۸۵_

۱۹_تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۲۴_

۲۰_السيرة النبويہ ' ابن ہشام ج ۱ ص ۲۸۵ و تاريخ طبرى ج ۲ ' ص ۳۲۶_

۲۱_تاريخ طبرى ج ۲ ص ۳۱۵_ ۳۱۶_

۲۲_السيرة النبويہ ج ۱ ص ۲۸۹_

۲۳_بطور مثال ملاحظہ ہو سورہ ص آيت۴ و سورہ شعرا آيت ۱۵۳ و سورہ قلم آيت ۲ _۵۱ وسورہ تكوير آيت ۲۲_

۲۴_سورہ الذاريات آيت ۵۲_ ۵۳_

۲۵_۲۶_۲۷_ايضاء ص ۲۴_

۲۸_كنزالعمال ج ۳ 'ص ۱۳۰ حديث ۵۸۱۸_

۲۹_ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۲۹۷ _ ۳۰۱ و تاريخ يعقوبى ج ۲ ' ص ۲۸_

۳۰_الصحيح من سيرة النبي(ص) ج ۲ ' ص ۳۸ _۳۹_

۳۱ _السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۲۹_

۳۲_ السيرة النبويہ ج ۱ ص ۳۳۹و السيرة الحلبيہ ج ۱ ص ۲۹۷

۸۷

سبق ۶:

قريش كى سازشيں اورہجرت حبشہ

۸۸

ھ : پيغمبر اكرم (ص) كے پاس پہنچنے سے لوگوں كو روكنا

گرد ونواح سے وہ لوگ جن كے دلوں ميں دين اسلام كى محبت پيدا ہوگئي تھى وہ پيغمبر اكرم (ص) سے ملاقات كرنے كى خاطر مكہ آتے مگر مشركين انہيں پيغمبر اكرم (ص) تك پہنچنے سے منع كرتے تاكہ دين اسلام كے اثر و نفوذ كو روك سكيں وہ ہر حيلے اور بہانے سے انہيں اسلام لانے اور رسول(ص) خدا سے ملاقات كرنے سے روكتے ، يہاں بطور مثال ايك واقعہ پيش كياجاتا ہے_

اعشى زمانہ جاہليت كا مشہور شاعرتھا اسے رسول خدا (ص) پر نزول وحى اور آپ (ص) كى اسلامى تعليمات كا كچھ نہ كچھ علم ہوگيا تھا ، چنانچہ اس نے آنحضرت (ص) كى شان ميں قصيدہ كہا اور اسے لے كر مكہ كى جانب روانہ ہوا تاكہ دين اسلام قبول كرنے كا شرف حاصل كرسكے ، جس وقت وہ مكے ميں داخل ہوا مشركين اس سے ملنے آئے اور اس سے شہر ميں آنے كا سبب دريافت كيا جب انہيں اعشى كے قصد و ارادے كا علم ہو اتو انہوں نے اپنى فطرى شيطنت اور حيلہ گرى كے ذريعے اسے پيغمبر اكرم (ص) كے ساتھ ملاقات كرنے سے روكا چنانچہ اس نے فيصلہ كيا كہ اس وقت وہ واپس اپنے شہر چلا جائے اور آئندہ سال پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں حاضر ہو كرد ين اسلام قبول كرنے كا شرف حاصل كرے مگر موت نے اسے اس سعادت كى مہلت نہ دى اور سال ختم ہونے سے پہلے وہ انتقال كرگيا_(۱)

۸۹

و: قرآن سے مقابلہ

دشمنان اسلام كو جب يہ علم ہوا كہ آسمانى دين و آئين كى تبليغ ميں پيغمبر اكرم (ص) كى كاميابى كا اہم ترين عامل آيات الہى كى وہ معنوى كشش ہے جو لوگوں كے دلوں پر اثر كرتى ہے اور انہيں اپنا گرويدہ بناليتى ہے ، تو انہيں يہ بچگانہ تدبير سوجھى كہ كوئي ايسى سازش كريں جس كے ذريعے لوگوں كو قرآن كى جانب متوجہ ہونے سے روك سكيں اور اس مقدس كتاب كى مقبوليت اور دلچسپى كو ختم كرسكيں_

نضر بن حارث كا شمار ان دشمنان اسلام ميں ہوتا ہے جو رسول خدا (ص) كو بہت زيادہ اذيت پہنچايا كرتے تھے _اس نے ''حيرہ'' كے سفر ميں رستم و اسفنديار كى داستانيں سن كر ياد كرلى تھيں چنانچہ اسے قريش كى طرف سے يہ كام سونپا گيا كہ جب مسجد الحرام ميں پيغمبر اكرم (ص) كا تبليغى دستورالعمل ختم ہوجايا كرے تو وہ آنحضرت (ص) كى جگہ پر جا كر بيٹھے اور لوگوں كو رستم اور اسفنديار كى داستانيں سنائے شايد اس طريقے سے پيغمبر اكرم (ص) كے مرتبے كو كم كياجاسكے اور آپ (ص) كى تبليغ نيز آيات الہى كو بے قدر وقيمت بناياجاسكے ، وہ بڑى ہى گستاخى اور ديدہ دليرى سے كہتا : لوگو تم ميرى طرف آئو ميں تمہيں محمد(ص) سے كہیں بہتر قصے اور كہانياں سنائوں گا_

اس نے اسى پرہى اكتفا نہيں كيا بلكہ گستاخى اور بے باكى ميں اس سے بھى كہيں آگے بڑھ گيا اور اپنے خدا ہونے كا دعوى كردياوہ لوگوں سے كہتا كہ ميں بھى جلد ہى وہ چيز اتاروں گا جو محمد (ص) كا خدا اس پر نازل كيا كرتا ہے_(۲)

اس سلسلے ميں قرآن مجيد ميں چند آيات نازل ہوئيں كہ البتہ بطور نمونہ ہم ايك كا ذكر كر رہے ہيں :

۹۰

( وَقَالُوا أَسَاطيرُ الأَوَّلينَ اكتَتَبَهَا فَهيَ تُملَى عَلَيه بُكرَةً وَأَصيلًا _ قُل أَنزَلَهُ الَّذي يَعلَمُ السّرَّ فى السَّمَاوَات وَالأَرض إنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَحيمًا ) (۳)

''كہتے ہيں يہ تو اگلے لوگوںكے افسانے ہيں جنہيں لكھواليا ہے اور صبح و شام ان كے سامنے پڑھے جاتے ہيں ، آپ (ص) كہہ ديجئے كہ اسے اس نے نازل كيا ہے جو زمين وآسمان كے راز جانتا ہے اور وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے''_

قرآن مجيد كے خلاف مشركين نے دوسرا محاذ يہ تيار كيا كہ انہوں نے اپنے پيروكاروں كو يہ حكم ديا كہ جس وقت رسول خدا (ص) قرآن مجيد كى تلاوت فرماتے ہيں تو اسے نہ صرف سنا ہى نہ جائے بلكہ ايسا شور و غل بپا كياجائے كہ دوسرے لوگ بھى اسے سننے سے باز رہیں چنانچہ اس سلسلہ ميں قرآن مجيد كا ارشا د ہے :

( وَقَالَ الَّذينَ كَفَرُوا لاَتَسمَعُوا لهذَا القُرآن وَالغَوا فيه لَعَلَّكُم تَغلبُونَ ) (۴)

''اوركافروں نے ايك دوسرے سے يہ كہا كہ : اس قرآن پر كان نہ دھرو اور جب پڑھاجائے تو شورو غل بپا كياكرو شايد تم كامياب ہوجائو''_

ہجرت حبشہ:

اگر چہ رسول خدا (ص) اور بنى ہاشم كے ديگر چند حضرات، حضرت ابوطالب (ع) كى زير حمايت كچھ حد تك دشمنوں كى گزند سے بالخصوص جسمانى آزار و ايذا سے محفوظ تھے مگر دوسرے بے پناہ اور بے يارو مددگار مسلمان ايذا اور اذيت كى انتہائي سخت تكاليف و مشكلات سے گزر

۹۱

رہے تھے_

پيغمبر اكرم (ص) كےلئے يہ بات سخت شاق اور ناگوار تھى كہ آپ (ص) كے اصحاب وہمنوا ايسى سخت مشقت ميں مبتلا رہيں اور ہر طرح كے مصائب وآلام سے گزرتے ہيں _ دوسرى طرف اس بات كا بھى امكان تھا كہ اگر يہى كيفيت برقرار رہى تو ہوسكتا ہے كہ نو مسلم اپنے عقيدے ميں سست ہوجائيں_(۵)

اس كے علاوہ يہى حالت دوسرے لوگوں كو اسلام كى جانب عمل ہونے سے روك بھى سكتى تھي، چنانچہ ان حالات كے پيش نظر يہ لازم سمجھا گيا كہ اس ديوار كو بھى گرادياجائے تاكہ قريش يہ جان ليں كہ حقيقت اسلام ان كے حد تصور اور تسلط واقتدار سے كہيںزيادہ بالاو برتر ہے_

اس گھٹن اور دبائو كے ماحول سے نجات حاصل كرنے كيلئے مسلمانوں كواس بات كى اجازت دى گئي كہ وہ ترك وطن كركے حبشہ چلے جائيں ، اس ملك كے انتخاب كئے جانے كى چند وجوہات تھیں:

۱_يہ ملك شہنشاہ روم كے ساتھ اچھے تعلقات ركھنے كے باوجود، سياسى نقطہ نظر سے بہت حد تك مستقل اور اس زمانے كے دو بڑى طاقتوں (ايران اور روم) كے اثر و نفوذ سے دور تھا_

۲_ حبشہ اور حجاز كے درميان بحيرہ احمر كے واقع ہونے كى وجہ سے قريش كى مسلمان مہاجروں تك رسائي كا امكان كم تھا_

۳_عادل حكمران اور نسبتاً صحيح اور بہتر ثقافتى ماحول كى وجہ سے حبشہ كا ملك ديگر ممالك پر برترى ركھتا تھا_ مہاجروں كو الوادع كرتے وقت رسول اكرم (ص) كى يہ باتيں بھى اس

۹۲

حقيقت كى تائيد كرتى ہيں كہ ''اس ملك كے حكمران كى وجہ سے كسى پر ستم نہيں كياجاتا اور وہ پاك اور سچائي كى سرزمين ہے''_(۶)

مہاجرين كا وہ پہلا گروہ جو پندرہ افراد پر مشتمل تھا عثمان ابن مظعون كى زير سر پرستى بعثت كے پانچويں سال رجب كے مہينے ميں اس عيسائي ملك حبشہ (ايتھوپيا)كى جانب روانہ ہوا اور دو ماہ بعد واپس مكہ آگيا_

دوسرے گروہ ميں تراسى مرد اور اٹھارہ عورتيں اور چند بچے شامل تھے يہ گروہ حضرت جعفر ابن ابى طالب (ع) كى زير سرپرستى ہجرت كركے حبشہ چلاگيا جس كا وہاں كے فرمان روا ''نجاشي'' نے بہت پرتپاك طريقے سے استقبال كيا_

قريش كو جب اس واقعے كا علم ہوا تو انہوں نے عمروبن عاص اور عبداللہ ابن ابى ربيعہ كو اپنا نمائندہ بنا كر حبشہ روانہ كيا ان كے ساتھ انہوں نے نجاشى اور اس كے درباريوں كے لئے بہت سے عمدہ تحفے تحائف بھى بھيجے اور اس سے يہ درخواست كى كہ پناہ گزيں مسلمانوں كو واپس كردياجائے_

قريش كے نمائندوں نے بادشاہ نجاشى اور اس كے درباريوں كو مسلمانوں سے بدظن كرانے كى ہر ممكن كوشش كى اور بہت اصرار كياكہ مہاجر مسلمانوں كو واپس كردياجائے مگر انہيں اپنے مقصد ميں كاميابى نہ ہوئي اور وہ نجاشى بادشاہ كو اپنا ہم خيال نہ بناسكے_

نجاشى نے جب مہاجرين كے نمائندے حضرت جعفر ابن ابى طالب (ع) كى دلچسپ اور منطقى باتيں سنيں اور حضرت جعفر (ع) نے جب اس كے سامنے قرآنى آيات كى قرا ت كى تو وہ انہيں سن كر مسلمانوں پر فريفتہ اور ان كے عقائد كا شيداہوگيا چنانچہ اس نے سركارى سطح پر مسلمانوں كى واضح اور قطعى حمايت كا اعلان كرديا اور قريش كے نمائندوں كو حكم ديا كہ اس

۹۳

كے ملك سے نكل جائيں_

ملك حبشہ ميں مہاجرين انتہائي آرام اور سہولت كى زندگى بسر كرتے رہے اور جب رسول خدا (ص) ہجرت كركے مدينہ تشريف لے گئے تو ہ بھى آہستہ آہستہ وہاں سے واپس آكر آنحضرت (ص) سے مل گئے_(۷)

اس ہجرت كے فوائد

ترك وطن كركے حبشہ كى جانب روانہ ہونے اور اس ملك ميں كافى عرصہ تك قيام كرنے كے باعث مسلمانوں كو بہت سے فائدے ہوئے اور وہاں انہيں بہت سى بركات حاصل ہوئيں جن ميں سے چند كا ہم ذيل ميں ذكر كريں گے_

۱_جو مسلمان ترك وطن كركے حبشہ چلے گئے تھے انہيں قريش كے مظالم سے نجات مل گئي وہ مشركين مكہ كى شكنجہ وايذا رسانى سے محفوظ ہوگئے_

۲_اسلام كا پيغام اور اعلان رسالت اہل حبشہ بالخصوص حبشہ كے بادشاہ اور ا س كے درباريوں تك پہنچ گيا _

۳_قريش كى رسوائي ہوئي اور ان كے وہ نمائندے جو نجاشى بادشاہ كے پاس گئے تھے ذليل و خوار ہوكر وہاں سے نكلے_

۴_حبشہ كے لوگوں كے درميان دين اسلام كى تبليغ و توسيع كا راستہ ہموار ہوگيا_

عيسائيوں كے ساتھ مسلم مہاجرين كا اسلامى اور انسانى سلوك، شرافتمندانہ طر ز زندگى اور اسلامى احكام كى سخت پابندى اس امر كا باعث ہوئي كہ وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ حبشہ كے لوگ دين اسلام كے شيدائي ہونے لگے چنانچہ آج ايتھوپيا (حبشہ) اريٹيريا اور

۹۴

صوماليہ ميں جو كڑوروں مسلمان آباد ہيں وہ مسلمانوں كى اسى ہجرت كاہى فيض ہے_

ز:اقتصادى ناكہ بندي(۸)

مختلفقبائل ميں اورحجاز كے اندر اور باہر اسلام كى مقبوليت نيز ملك حبشہ ميں مہاجرين كى كامياب پناہ گزينى نے قريش كے سرداروں كواس بات پر مجبوركرديا كہ وہ اسلامى تحريك كو روكنے كےلئے كوئي بنيادى اقدام كريں، چنانچہ انہوں نے فيصلہ كيا كہ ايسے معاہدے پر دستخط كرائے جائيں جس كى رو سے ''بنى ہاشم '' اور ''بنى مطلب'' كے ساتھ مكمل تعلقات قطع ہوجائيں ، كوئي رشتہ دارى نہ كى جائے، ان كے ساتھ كاروبار بند كردياجائے اور كوئي بھى شخص ان كے ساتھ كسى طرح كا سروكار نہ ركھے_(۹)

قريش كے اس تحريرى معاہدہ كا مقصد يہ تھا كہ يا تو حضرت ابوطالب (ع) مجبور ہو كر پيغمبر (ص) كى حمايت و سرپرستى سے دست بردار ہوجائيں اور آپ (ص) كو قريش كے حوالے كر ديں، يا رسول خدا (ص) لوگوں كو دعوت حق دينا ترك كرديں اور قريش كى تمام شرائط كو مان ليں ، يا پھر آپ(ص) اور آپ (ص) كے حامى گوشہ نشينى اور كسمپرسى كى حالت ميں رہ كر بھوك و پياس سے تڑپ تڑپ كر مرجائيں_

قريش نے اس معاہدے كا نام (صحيفہ) ركھا جس پر چاليس سر برآوردہ اشخاص نے دستخط كئے اور اسے كعبے كى ديوار پرآويزاں كرديا گيا(۱۰) _ اس معاہدے ميں شامل تمام افراد نے يہ عہد كيا كہ تمام لوگ اس كے مندرجات پر حرب بحرف عمل پيرا ہوںگے_

حضرت ابوطالب (ع) كو جب ''معاہدہ صحيفہ'' كا علم ہو ا تو انہوں نے رسول خدا(ص) كى شان رسالت كى تائيد ميں چند اشعار كہے ، جن ميں انہوں نے تاكيد كے ساتھ پيغمبر اكرم (ص) كى

۹۵

حمايت كا از سر نو اعلان كيا ، اس كے ساتھ ہى انہوں نے ''بنى ہاشم'' اور ''بنى مطلب'' سے خواہش كى كہ مكہ كو خيرباد كہہ كر اس درے ميں جا بسيں جوشہر سے باہر واقع ہے اور يہى درہ بعد ميں ''شعب ابوطالب'' كے نام سے مشہور ہوا_(۱۱)

''ابولہب'' كے علاوہ ''بنى ہاشم'' اور ''بنى مطلب '' كے سبھى افراد بعثت كے ساتويں سال يكم محرم كو رات كے وقت ''شعب ابوطالب'' ميںداخل ہوئے(۱۲) جہاں انہوں نے چھوٹے چھوٹے گھر اور سائبان بنائے اور وہ حرمت كے مہينوں (رجب ، ذى القعدہ، ذى الحجہ اور محرم) كے علاوہ تمام سال اسى درے ميں محصور رہتے_

''شعب ابوطالب'' ميں مسلمانوں پر ايسا سخت دور بھى آيا كہ كبھى كبھى تو انہيں پيٹ كى آگ بجھانے كےلئے درخت كے پتوں پر گزارہ كرنا پڑتا_

حرمت كے مہينوں ميں اگر چہ قريش ا ن سے كوئي بازپرس نہ كرتے البتہ دوسرے طريقوں سے انہيں پريشان كياجاتا، انہوں نے مسلمانوں كى قوت خريد كوختم كرنے كيلئے چور بازارى (بليك ماركيٹنگ) كا دھندا شروع كرديا ، كبھى كبھى تو وہ دوكانداروں اور چيزيں بيچنے والوں كو سختى كے ساتھ يہ تنبيہہ كرتے كہ وہ مسلمانوں كے ہاتھ كوئي چيز فروخت نہ كريں_(۱۳)

اميرالمومنين حضرت على عليہ السلام حرمت كے چار مہينوں كے علاوہ بھى كبھى كبھى چھپ كر مكہ جاتے اور وہاں سے كھانے كا سامان جمع كركے شعب ابوطالب ميں لے كر آتے_(۱۴)

حضرت ابوطالب (ع) كو رسول خدا (ص) كى فكر ہروقت دامنگيررہتى كيونكہ انہيں اپنے بھتيجے كى جان كا خطرہ تھا، چنانچہ وہ شعب ابوطالب كے بلند مقامات پر پہرہ دار مقرر كرنے كے

۹۶

علاوہ پيغمبر (ص) كو اپنے بستر پر سلاتے اور جب سب سوجاتے تو وہ اپنے فرزند على (ع) كو رسول خدا كے بستر پر سونے كےلئے كہتے اوررسول خدا (ص) سے كہتے كہ آپ (ص) دوسرے بستر پر سوجائيں_(۱۵)

محاصرے كا خاتمہ

تين سال تك سخت رنج و تكليف برداشت كرنے كے بعد بالآخر امداد غيبى مسلمانوں كے شامل حال ہوئي اور جبرئيل امين (ع) نے پيغمبر اكرم (ص) كو يہ خوشخبرى دى كہ خداوند متعال نے ديمك كو اس عہد نامے پر مسلط كرديا ہے جس نے پورى تحرير كو چاٹ ليا ہے اور صرف اس پر ''باسْمكَ اللّہُمَّ'' لكھا ہوا باقى ہے_

رسول خدا (ص) نے اس واقعے كى اطلاع اپنے چچا كو دى يہ سن كر حضرت ابوطالب (ع) قريش كے مجمع عام ميں تشريف لے گئے اور ان سے واقعہ كو بيان كر كے فرمايا كہ جو صحيفہ تم لوگوں نے لكھا تھا اسے پيش كياجائے ، اسى ضمن ميں مزيد فرمايا كہ:

''اگر بات وہى ہے جو ميرے بھتيجے نے مجھ سے كہى ہے تو تم اپنے جور و ستم سے بازآجائو اور اگر اس كا كہنا غلط اور بے بنياد ثابت ہوا تو ميں خود اسے تمہارے حوالے كردوں گا''_

قريش كو حضرت ابوطالب (ع) كى تجويز پسند آئي چنانچہ جب انہوں نے اس صحيفے كى مہر كو توڑا تو بات وہى صحيح ثابت ہوئي جو پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمائي تھي_

قريش ميں جب اُن لوگوں نے ، جو صاحب فہم و فراست اور عدل وانصاف تھے، يہ معجزہ ديكھا تو انہوں نے قريش كى اس پست وكمينہ حركت كى سخت مذمت كى جو انہوں نے پيغمبر اكرم (ص) اور آپ (ص) كے اصحاب كے ساتھ اختيار كر ركھى تھى اورانہوں نے يہ مطالبہ كيا كہ عہد

۹۷

نامہ ''صحيفہ'' كو باطل قراردے كر محاصرہ ختم كياجائے_(۱۵)

چنانچہ اس طرح رسول خدا (ص) اور آپ (ص) كے اصحاب تين سال تك استقامت و پائيدارى كے ساتھ سخت مصائب برداشت كرنے كےبعثت كے دسويں سال(۱۷) ماہ رجب(۱۸) كے وسط ميں، سروخرو اوركامياب ہوكر واپس مكہ آگئے_

رسول اكرم (ص) كے پاس عيسائيوں كے ايك وفد كى آمد

مسلمانوں كى ہجرت ''حبشہ''كا ايك فائدہ يہ بھى ہواكہ جب ''حبشہ'' يا ''نجران'' كے عيسائيوں كو رسول اكرم (ص) كى بعثت كى اطلاع ملى تو انہوں نے يہ فيصلہ كيا كہ اپنا وفد مكہ روانہ كريں تاكہ وہ رسول خدا (ص) سے براہ راست گفتگو كرسكيں چنانچہ يہ پہلا وفد تھا جو مكہ كے باہر سے آيا اور رسول خد ا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا_

نصارى كا يہ نمائندہ وفد بيس افراد پر مشتمل تھاجو رسول خدا (ص) سے ''مسجد الحرام'' ميں ملاقات سے مشرف ہوااور اسى جگہ باہمى گفتگو كا آغاز ہوا جب مذاكرات كا سلسلہ ختم ہوا تو رسول خدا (ص) نے قرآن مجيد كى چند آيات تلاوت كركے انہيں سنائيں اور انہيں دين اسلام قبول كرنے كى دعوت دي_

عيسائيوں نے جب قرآنى آيات سنيں تو ان كى آنكھيں اشكوں سے لبريز ہوگئيں اور دين اسلام قبول كرنے كا انہوں نے شرف حاصل كرليا جس كى وجہ يہ تھى كہ رسول خدا حضرت محمد صلى اللہ على و آلہ و سلم كے جو اوصاف ان كى كتابوں ميں بيان كئے گئے تھے وہ آپ(ص) كى ذات مبارك ميں انہوں نے پائے_

يہ نمائندہ وفد جب رسول خدا (ص) كى ملاقات سے مشرف ہوكر واپس جانے لگا تو ابوجہل

۹۸

اور قريش كے گروہ نے ان كا راستہ روك ليااور كہا كہ تم كيسے نادان ہو ، تمہارى قوم نے تمہيں اس مقصد كےلئے بھيجا تھا كہ وہاں جاكر اصل واقعے كى تحقيق كرو اور اس كاجائزہ لو ليكن تم فوراً نے بے خوف و خطر اپنے دين و آئين كو ترك كرديا اور محمد (ص) كى دعوت پر كاربند ہوگئے_

نصارى كے نمائندوں نے كہا : ''ہم تمہارے ساتھ بحث ومباحثہ كرنے كى غرض سے تو نہيں آئے _تم اپنا دين اپنے پاس ركھو اور ہميں ہمارے آئين و مسلك پر رہنے دو _(۱۹)

حضرت ابوطالب(ع) اور حضرت خديجہ (س) كى رحلت

جناب رسول خدا (ص) اور اصحاب رسول (ص) كو شعب ابوطالب سے نجات ملى تو اس بات كى اميد تھى كہ مصائب وآلام كے بعد ان كے حالات سازگار ہوجائيں گے اور خوشى كے دن آئيں گے مگر ابھى دو سال بھى نہ گزرے تھے كہ دو ايسے تلخ اور جانكاہ صدمات سے دوچار ہوئے جن كے باعث رسول خدا(ص) اور اصحاب رسول (ص) پر گويا غم واندوہ كا پہاڑ ٹوٹ پڑا، رنج واندوہ كا سبب حضرت ابوطالب (ع) كى رحلت اور اس كے تين دن يا ايك ماہ بعد آپ (ص) كى جان نثار شريكہ حيات (حضرت خديجہ (ع)) كى بھى اس جہان فانى سے رحلت تھى _(۲۰)

حضرت ابوطالب (ع) اور حضرت خديجہ (ع) كو ''حجون'' نامى قريش كے قبرستان ميں سپرد خاك كيا گيا_

حضرت ابوطالب اور حضرت خديجہ (ع) كى رحلت نے رسول خدا (ص) كو بہت مغموم و محزون كيا چنانچہ آپ (ص) نے اس غم والم كا اظہار ان الفاظ ميں فرمايا كہ ان چند دنوں ميں اس امت پر دو ايسى مصيبتيں نازل ہوئي ہيں كہ ميں نہيں جانتا كہ ان ميں سے كس نے مجھے زيادہ متاثر

۹۹

كيا ہے_(۲۱)

رسول خد ا(ص) پر اپنے واجب الاحترام چچا اور وفا شعار شريكہ حيات كى رحلت كا اس قدر صدمہ ہوا كہ آپ (ص) بہت ہى كم ، گھر سے باہر تشريف لاتے چونكہ يہ دونوں عظيم حادثات بعثت كے دسويں سال ميں واقع ہوئے تھے اسى لئے ان كى اہميت كو مد نظر ركھتے ہوئے اس سال كو ''عام الحزن'' يعنى غم واندوہ كا سال كہاجانے لگا_(۲۲)

حضرت ابوطالب (ع) كى مظلوميت

حضرت ابوطالب (ع) كو چونكہ اپنے بھتيجے كے اوصاف حميدہ كا علم تھا اور اس امر سے بھى واقف تھے كہ آپ (ص) كو رسالت تفويض كى گئي ہے اسى لئے وہ آپ(ص) كى تنہائي كے وقت نہايت خاموشى سے آپ (ص) پر ايمان لے آئے تھے وہ رسول خدا (ص) كى بياليس سال سے زيادہ عرصہ تك حفاظت ونگرانى كرتے رہے (يعنى اس وقت سے جب كہ رسول خدا(ص) كاسن مبارك آٹھ سال تھا اس وقت تك جبكہ آپ(ص) كا سن شريف پچاس سال كو پہنچ گيا) وہ چونكہ حفاظت و حمايت كو اپنى ذمہ دارى سمجھتے تھے اسى لئے وہ آپ (ص) كے پروانہ وار شيدائي تھے ، يہى وجہ تھى كہ انہوں نے رسول خدا (ص) كے آسمانى دين كى ترويج كى خاطر كبھى بھى جان ومال قربان كرنے سے دريغ نہيں كيا ، يہاں تك كہ انہوں نے اسى(۸۰) سال سے زيادہ كى عمر ميں اس وقت انتقال كياجبكہ آپ (ع) كا دل خدا اور رسول (ص) پر ايمان سے منور تھا_

حضرت ابوطالب (ع) كى رحلت كے بعد دشمنوں كے آستينوں ميں پوشيدہ ہاتھ بھى باہر نكل آئے اور وہ اس بات كو ثابت كرنے كى كوشش كرنے لگے كہ صدر اسلام كے اس مرد مجاہد كى موت بحالت كفر واقع ہوئي ہے تاكہ لوگوں پر يہ ظاہر كرسكيں كہ يہ ان كا قومى جذبہ تھا جس

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

جناب ابوبکر کی اس حدیث کی تائید کردی ((ص) )_

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس مباحثے میں بھی حضرت زہراء (ع) غالب آئیں اور دلائی و برہان سے ثابت کردیا کہ وہ حدیث جس کا تم دعوی کر رہے ہو وہ صریح قرآنی نصوص کے خلاف ہے اور جو حدیث بھی قرآن کی صریح نص کے خلاف ہو وہ معتبر نہیں ہوا کرتی جناب ابوبکر مغلوب ہوئے اور آپ کے پاس اس کے سوا کوئی علاج نہ تھا کہ جناب فاطمہ (ع) کے جواب میں اسی سابقہ جواب کی تکرار کریں_

یہاں پر قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ یہی جناب عائشےہ جنہوں نے اس جگہ اپنے باپ کی بیان کردہ وضعی حدیث کی تائید کی ہے جناب عثمان کی خلافت کے زمانے میں ان کے پاس گئیں اور پیغمبر (ص) کی وراثت کا ادعا کیا_ جناب عثمان نے جواب دیا کیا تم نے گواہی نہیں دی تھی کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ ہم پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے؟ اور اسی سے تم نے جناب فاطمہ (ع) کو وراثت سے محروم کردیا تھا، اب کیسے آپ خود رسول (ص) کی وراثت کا مطالبہ کر رہی ہیں(۲) _

خلیفہ سے وضاحت کا مطالبہ

جناب زہراء (ع) پہلے مرحلہ میں کامیاب ہوئیں اور اپنی منطق اور برہان سے اپنے مد مقابل کو محکوم

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ س ۱۰۴_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۵_

۱۸۱

کردیا قرآن مجید کی آیات سے اپنی حقانیت کو ثابت کیا اور اپنے مد مقابل کو اپنے استدلال سے ناتواں بنادیا، آپ نے دیکھا کہ _ مد مقابل اپنی روش کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ہر قسم کے عمل کو بجالانے کے لئے حتی کہ حدیث بناکر پیش کرنے کی بھی پرواہ نہیں کرتا اور دلیل و برہان کے مقابلے میں قوت اور طاقت کا سہارا ڈھونڈتا ہے_

آپ نے تعجب کیا اور کہا عجیب انہوں نے میرے شوہر کی خلافت پر قبضہ کرلیا ہے_ یہ آیات قرآن کے مقابل کیوں سر تسلیم خم نہیں کرتے؟ کیوں اسلام کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں؟ کیوں جناب ابوبکر تو مجھے تحریر لکھ کر دیتے ہیں لیکن جناب عمر اسے پھاڑ ڈالتے ہیں؟ اے میرے خدا یہ کسی قسم کی حکومت ہے اور یہ کسی قضاوت ہے؟ تعجب در تعجب: جناب ابوبکر رسول خدا(ص) کی جگہ بیٹھتے ہیں، لیکن حدیث از خود بناتے ہیں تا کہ میرے حق کو پائمال کریں؟ ایسے افراد دین اور قرآن کے حامی ہوسکتے ہیں؟ مجھے فدک اور غیر فدک سے دلچسپی نہیں لیکن اس قسم کے اعمال کو بھی تحمل نہیں کرسکتی بالکل چپ نہ رہوں گی اور مجھے چاہیئے کہ تما لوگوں کے سامنے خلیفہ سے وضاحت طلب کروں اور اپنی حقانیت کو ثابت کروں اور لوگوں کو بتلادوں کہ جس خلیفہ کا تم نے انتخاب کیا ہے اس میں صلاحیت نہیں کہ قرآن اور اسلام کے دستور پر عمل کرے اپنی مرضی سے جو کام چاہتا ہے انجام دیتا ہے_ جی ہان مسجد جاؤں گی اور لوگوں کے سامنے تقریر کروں گی_

یہ خبر بجلی کی طرح مدینہ میں پھیل گئی اور ایک بم کی طرح پورے شہر کو ہلاک رکھ دیا، فاطمہ (ع) جو کہ پیغمبر(ص) کی نشانی ہیں چاہتی ہیں کہ تقریر کریں؟ لیکن

۱۸۲

کس موضوع پر تقریر ہوگی؟ اور خلیفہ اس پر کیا رد عمل ظاہر کرے گا؟ چلیں آپ کی تاریخی تقریر کو سنیں_

مہاجر اور انصار کی جمعیت کا مسجد میں ہجوم ہوگیا، بنی ہاشم کی عورتیں جناب زہراء (ع) کے گھر گئیں اور اسلام کی بزرگ خاتون کو گھر سے باہر لائیں، بنی ہاشم کی عورتیں آپ کو گھیرے میں لئے ہوئے تھیں، بہت عظمت اور جلال کے ساتھ آپ چلیں، پیغمبر(ص) کی طرح قدم اٹھا رہی تھیں، جب مسجد میں داخل ہوئیں تو پردہ آپ کے سامنے لٹکا دیاگیا، باپ کی جدائی اور ناگوار حوادث نے جناب فاطمہ (ع) کو منقلب کردیا کہ آپ کے جگر سے آہ و نالہ بلند ہوا اور اس جلا دینے والی آواز نے مجمع پر بھی اثر کیا اور لوگ بلند آواز سے رونے لگے_

آپ تھوڑی دیر کے لئے ساکت رہیں تا کہ لوگ آرام میں آجائیں اس کے بعد آپ نے گفتگو شروع کی، اس کے بعد پھر ایک دفعہ لوگوں کے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں آپ پھر خاموش ہوگئیں یہاں تک کہ لوگ اچھی طرح ساکت ہوگئے اس وقت آپ نے کلام کا آغاز کیا اور فرمایا:

جناب فاطمہ (ع) کی دہلا اور جلادینے والی تقریر

میں خدا کی اس کی نعمتوں پر ستائشے اور حمد بجالاتی ہوں اور اس کی توفیقات پر شکر ادا کرتی ہوں اس کی بے شمار نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا بجالاتی ہوں وہ نعمتیں کہ جن کی کوئی انتہانہیں اور نہیں ہوسکتا کہ

۱۸۳

ان کی تلافی اور تدارک کیا جاسکے ان کی انتہا کاتصور کرنا ممکن نہیں، خدا ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کو جانیں اور ان کا شکریہ ادا کریں تا کہ اللہ تعالی نعمتوں کو اور زیادہ کرے_ خدا ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کو جانیں اور ان کا شکرہ ادا کریں تا کہ اللہ تعالی مقامی نعمتوں کو اور زیادہ کرے_ خدا نے ہم سے حمد و ثنا کو طلب کیا ہے تا کہ وہ اپنی نعمتوں کو ہمارے لئے زیادہ کرے_

میں خدا کی توحید اور یگانگی گواہی دیتی ہوں توحید کا وہ کلمہ کہ اخلاص کو اس کی روح اور حقیقت قرار دیا گیا ہے اور دل میں اس کی گواہی دے تا کہ اس سے نظر و فکر روشن ہو، وہ خدا کہ جس کو آنکھ کے ذریعے دیکھا نہیں جاسکتا اور زبان کے ذریعے اس کی وصف اور توصیف نہیں کی جاسکتی وہ کس طرح کا ہے یہ وہم نہیں آسکتا_ عالم کو عدم سے پیدا کیا ہے اور اس کے پیدا کرنے میں وہ محتاج نہ تھا اپنی مشیئت کے مطابق خلق کیا ہے_ جہان کے پیا کرنے میں اسے اپنے کسی فائدے کے حاصل کرنے کا قصد نہ تھا_ جہان کو پیدا کیا تا کہ اپنی حکمت اور علم کو ثابت کرے اور اپنی اطاعت کی یاد دہانی کرے، اور اپنی قدرت کا اظہار کرے، اور بندوں کو عبادت کے لئے برانگیختہ کرے، اور اپنی دعوت کو وسعت دے، اپنی اطاعت کے لئے جزاء مقرر کی اور نافرمانی کے لئے سزا معین فرمائی_ تا کہ اپنے بندوں کو عذاب سے نجات دے اور بہشت کی طرف لے جائے_

میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے والد محمد(ص) اللہ کے رسول اور اس کے بندے ہیں، پیغمبری کے لئے بھیجنے سے پہلے اللہ نے ان کو چنا اور قبل

۱۸۴

اس کے کہ اسے پیدا کرے ان کا نام محمّد(ص) رکھا اور بعثت سے پہلے ان کا انتخاب اس وقت کیا جب کہ مخلوقات عالم غیب میں پنہاں اور چھپی ہوئی تھی اور عدم کی سرحد سے ملی ہوئی تھی، چونکہ اللہ تعالی ہر شئی کے مستقبل سے باخبر ہے اور حوادث دہر سے مطلع ہے اور ان کے مقدرات کے موارد اور مواقع سے آگاہ ہے ، خدا نے محمّد(ص) کو مبعوث کیا تا کہ اپنے امر کو آخر تک پہنچائے اور اپنے حکم کو جاری کردے، اور اپنے مقصد کو عملی قرار دے_ لوگ دین میں تفرق تھے اور کفر و جہالت کی آگ میں جل رہے تھے، بتوں کی پرستش کرتے تھے اور خداوند عالم کے دستورات کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے_

پس حضرت محمّد(ص) کے وجود مبارک سے تاریکیاں چھٹ گئیں اور جہالت اور نادانی دلوں سے دور ہوگئی، سرگردانی اور تحیر کے پردے آنکھوں سے ہٹا دیئے گئے میرے باپ لوگوں کی ہدایت کے لئے کھڑے ہوئے اور ان کو گمراہی سے نجات دلائی اور نابینا کو بینا کیا اور دین اسلام کی طرف راہنمائی فرمائی اور سیدھے راستے کی طرف دعوت دی، اس وقت خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کی مہربانی اور اس کے اختیار اور رغبت سے اس کی روح قبض فرمائی_ اب میرے باپ اس دنیا کی سختیوں سے آرام میں ہیں اور آخرت کے عالم میں اللہ تعالی کے فرشتوں اور پروردگار کی رضایت کے ساتھ اللہ تعالی کے قرب میں زندگی بسر کر رہے ہیں، امین اور وحی کے لئے چتے ہوئے پیغمبر پر درود ہو_

آپ نے اس کے بعد مجمع کو خطاب کیا اور فرمایا لوگو تم اللہ تعالی

۱۸۵

کے امر اور نہی کے نمائندے اور نبوت کے دین اور علوم کے حامل تمہیں اپنے اوپر امین ہونا چاہیئےم ہو جن کو باقی اقوام تک دین کی تبلیغ کرنی ہے تم میں پیغمبر(ص) کا حقیقی جانشین موجود ہے اللہ تعالی نے تم سے پہلے عہد و پیمان اور چمکنے والانور ہے اس کی چشم بصیرت روش اور رتبے کے آرزومند ہیں اس کی پیروی کرنا انسان کو بہشت رضوان کی طرف ہدایت کرتا ہے اس کی باتوں کو سننا نجات کا سبب ہوتا ہے اس کے وجود کی برکت سے اللہ تعالی کے نورانی دلائل اور حجت کو دریافت کیا جاسکتا ہے اس کے وسیلے سے واجبات و محرمات اور مستحبات و مباح اور شریعت کے قوانین کو حاصل کیا جاسکتا ہے_

اللہ تعالی نے ایمان کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ قرار دیا ہے___ اللہ نے نماز واجب کی تا کہ تکبر سے روکاجائے_ زکوة کو وسعت رزق اور تہذیب نفس کے لئے واجب قرار دیا_ روزے کو بندے کے اخلاص کے اثبات کے لئے واجب کیا_ حج کو واجب کرنے سے دین کی بنیاد کو استوار کیا، عدالت کو زندگی کے نظم اور دلوں کی نزدیکی کے لئے ضروری قرار دیا، اہلبیت کی اطاعت کو ملت اسلامی کے نظم کے لئے واجب قرار دیا اور امامت کے ذریعے اختلاف و افتراق کا سد باب کیا_ امر بالمعروف کو عمومی مصلحت کے ماتحت واجب قرار دیا، ماں باپ کے ساتھ نیکی کو ان کے غضب سے مانع قرار دیا، اجل کے موخر ہونے اور نفوس کی زیادتی کے لئے صلہ رحمی کا دستور دیا_

۱۸۶

قتل نفس کو روکنے کے لئے قصاص کو واجب قرار دیا_ نذر کے پورا کرنے کو گناہوں گا آمرزش کا سبب بنایا_ پلیدی سے محفوظ رہنے کی غرض سے شراب خوری پر پابندی لگائی، بہتان اور زنا کی نسبت دینے کی لغت سے روکا، چوری نہ کرنے کو پاکی اور عفت کا سبب بتایا_ اللہ تعالی کے ساتھ شرک، کو اخلاص کے ماتحت ممنوع قرار دیا_

لوگو تقوی اور پرہیزگاری کو اپناؤ اور اسلام کی حفاظت کرو اور اللہ تعالی کے اوامر و نواحی کی اطاعت کرو، صرف علماء اور دانشمندی خدا سے ڈرتے ہیں_

اس کے بعد آپ نے فرمایا، لوگو میرے باپ محمد(ص) تھے اب میں تمہیں ابتداء سے آخر تک کے واقعات اور امور سے آگاہ کرتی ہوں تمہیں علم ہونا چاہیئےہ میں جھوٹ نہیں بولتی اور گناہ کا ارتکاب نہیں کرتی_

لوگو اللہ تعالی نے تمہارے لئے پیغمبر(ص) جو تم میں سے تھا بھیجا ہے تمہاری تکلیف سے اسے تکلیف ہوتی تھی اور وہ تم سے محبت کرتے تھے اور مومنین کے حق میں مہربان اور دل سوز تھے_

لوگو وہ پیغمبر میرے باپ تھے نہ تمہاری عورت کے باپ، میرے شوہر کے چچازاد بھائی تھے نہ تمہارے مردوں کے بھائی، کتنی عمدہ محمّد(ص) سے نسبت ہے_ جناب محمد(ص) نے اپنی رسالت کو انجام دیا اور مشرکوں کی راہ و روش پر حملہ آور ہوئے اور ان کی پشت پر سخت ضرب وارد کی ان کا گلا پکڑا اور دانائی اور نصیحت سے خدا کی طرف دعوت دی، بتوں کو توڑا اور ان کے سروں کو سرنگوں کیا کفار نے شکست کھائی اور شکست کھا کر

۱۸۷

بھاگے تاریکیاں دور ہوگئیں اور حق واضح ہوگیا، دین کے رہبر کی زبان گویا ہوئی اور شیاطین خاموش ہوگئے، نفاق کے پیروکار ہلاک ہوئے کفر اور اختلاف کے رشتے ٹوٹ گئے گروہ اہلبیت کی وجہ سے شہادت کا کلمہ جاری کیا، جب کہ تم دوزخ کے کنارے کھڑے تھے اور وہ ظالموں کا تر اور لذیذ لقمہ بن چکے تھے اور آگ کی تلاش کرنے والوں کے لئے مناسب شعلہ تھے_ تم قبائل کے پاؤں کے نیچے ذلیل تھے گندا پانی پیتے تھے اور حیوانات کے چمڑوں اور درختوں کے پتوں سے غذا کھاتے تھے دوسروں کے ہمیشہ ذلیل و خوار تھے اور اردگرد کے قبائل سے خوف و ہراس میں زندگی بسر کرتے تھے_

ان تمام بدبختیوں کے بعد خدا نے محمد(ص) کے وجود کی برکت سے تمہیں نجات دی حالانکہ میرے باپ کو عربوں میں سے بہادر اور عرب کے بھیڑیوں اور اہل کتاب کے سرکشوں سے واسطہ تھا لیکن جتنا وہ جنگ کی آگ کو بھڑکاتے تھے خدا سے خاموش کردیتا تھا، جب کوئی شیاطین میں سے سر اٹھاتا یا مشرکوں میں سے کوئی بھی کھولتا تو محمد(ص) اپنے بھائی علی (ع) کو ان کے گلے میں اتار دیتے اور حضرت علی (ع) ان کے سر اور مغز کو اپنی طاقت سے پائمال کردیتے اور جب تک ان کی روشن کی ہوئی آگ کو اپنی تلوار سے خاموش نہ کردیتے جنگ کے میدان سے واپس نہ لوٹتے اللہ کی رضا کے لئے ان تمام سختیوں کا تحمل کرتے تھے اور خدا کی راہ میں جہاد کرتے تھے، اللہ کے رسول کے نزدیک تھے_ علی (ع) خدا دوست تھے، ہمیشہ جہاد کے لئے آمادہ تھے، وہ تبلیغ اور جہاد کرتے تھے اور تم اس حالت میں آرام اور خوشی میں خوش و خرم زندگی گزار

۱۸۸

رہے تھے اور کسی خبر کے منتظر اور فرصت میں رہتے تھے دشمن کے ساتھ لڑائی لڑنے سے ا جتناب کرتے تھے اور جنگ کے وقت فرار کرجاتے تھے_

جب خدا نے اپنے پیغمبر کو دوسرے پیغمبروں کی جگہ کی طرف منتقل کیا تو تمہارے اندرونی کینے اور دوروئی ظاہر ہوگئی دین کا لباس کہنہ ہوگیا اور گمراہ لوگ باتیں کرنے لگے، پست لوگوں نے سر اٹھایا اور باطل کا اونٹ آواز دیتے لگا اور اپنی دم ہلانے لگا اور شیطان نے اپنا سرکمین گاہ سے باہر نکالا اور تمہیں اس نے اپنی طرف دعوت دی اور تم نے بغیر سوچے اس کی دعوت قبول کرلی اور اس کا احترام کیا تمہیں اس نے ابھارا اور تم حرکت میں آگئے اس نے تمہیں غضبناک ہونے کا حکم دیا اور تم غضبناک ہوگئے_

لوگو وہ اونٹ جو تم میں سے نہیں تھا تم نے اسے با علامت بناکر اس جگہ بیٹھایا جو اس کی جگہ نہیں تھی، حالانکہ ابھی پیغمبر(ص) کی موت کو زیادہ وقت نہیں گزرا ہے ابھی تک ہمارے دل کے زخم بھرے نہیں تھے اور نہ شگاف پر ہوئے تھے، ابھی پیغمبر(ص) کو دفن بھی نہیں کیا تھا کہ تم نے فتنے کے خوف کے بہانے سے خلافت پر قبضہ کرلیا، لیکن خبردار رہو کہ تم فتنے میں داخل ہوچکے ہو اور دوزخ نے کافروں کا احاطہ کر رکھا ہے_ افسوس تمہیں کیا ہوگیا ہے اور کہاں چلے جارہے ہو؟ حالانکہ اللہ کی کتاب تمہارے درمیان موجود ہے اور اس کے احکام واضح اور اس کے اوامر و نواہی ظاہر ہیں تم نے قرآن کی مخالفت کی اور اسے پس پشت ڈال دیا، کیا تمہارا ارادہ ہے کہ قرآن سے اعراض اور روگردانی

۱۸۹

کرلو؟ یا قرآن کے علاوہ کسی اور ذریعے سے قضاوت اور فیصلے کرتا چاہتے تو؟ لیکن تم کو علم ہونا چاہیئے کہ جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو اختیار کرے گا وہ قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا، اتنا صبر بھی نہ کرسکے کہ وہ فتنے کی آگ کو خاموش کرے اور اس کی قیادت آسان ہوجائے بلکہ آگ کو تم نے روشن کیا اور شیطان کی دعوت کو قبول کرلیا اور دین کے چراغ اور سنت رسول خدا(ص) کے خاموش کرنے میں مشغول ہوگئے ہو_ کام کو الٹا ظاہر کرتے ہو اور پیغمبر(ص) کے اہلبیت کے ساتھ مکر و فریب کرتے ہو، تمہارے کام اس چھری کے زخم اور نیزے کے زخم کی مانند ہیں جو پیٹ کے اندر واقع ہوئے ہوں_

کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ ہم پیغمبر(ص) سے میراث نہیں لے سکتے، کیا تم جاہلیت کے قوانین کی طرف لوٹنا چاہتے ہو ؟ حالانکہ اسلام کے قانون تمام قوانین سے بہتر ہیں، کیا تمہیں علم نہیں کہ میں رسول خدا(ص) کی بیٹی ہوں کیوں نہیں جانتے ہو اور تمہارے سامنے آفتاب کی طرح یہ روشن ہے_ مسلمانوں کیا یہ درست ہے کہ میں اپنے باپ کی میراث سے محروم ہوجاؤں؟ اے ابوبکر آیا خدا کی کتاب میں تو لکھا ہے کہ تم اپنے باپ سے میراث لو اور میں اپنے باپ کی میراث سے محروم رہوں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں کہتا کہ سلیمان داود کے وارث ہوئے_

''ورث سلیمان داؤد''

کیا قرآن میں یحیی علیہ السلام کا قول نقل نہیں ہوا کہ خدا سے انہوں نے عرض کی پروردگار مجھے فرزند عنایت فرما تا کہ وہ میرا وارث

۱۹۰

قرار پائے او آل یعقوب کا بھی وارث ہو_

کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ بعض رشتہ دار بعض دوسروں کے وارث ہوتے ہیں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ اللہ نے حکم دیا کہ لڑکے، لڑکیوں سے دوگنا ارث لیں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ تم پر مقرر کردیا کہ جب تمہارا کوئی موت کے نزدیک ہو تو وہ ماں، باپ اور رشتہ داروں کے لئے وصیت کرے کیونکہ پرہیزگاروں کے لئے ایسا کرنا عدالت کا مقتضی ہے_

کیا تم گمان کرتے ہو کہ میں باپ سے نسبت نہیں رکھتی؟ کیا ارث والی آیات تمہارے لئے مخصوص ہیں اور میرے والد ان سے خارج ہیں یا اس دلیل سے مجھے میراث سے محروم کرتے ہو جو دو مذہب کے ایک دوسرے سے میراث نہیں لے سکتے؟ کیا میں اور میرا باپ ایک دین پر نہ تھے؟ آیا تم میرے باپ اور میرے چچازاد علی (ع) سے قرآن کو بہتر سمجھتے ہو؟

اے ابوبکر فدک اور خلافت تسلیم شدہ تمہیں مبارک ہو، لیکن قیامت کے دن تم سے ملاقات کروں گی کہ جب حکم اور قضاوت کرنا خدا کے ہاتھ میں ہوگا اور محمد(ص) بہترین پیشوا ہیں_

اے قحافہ کے بیٹھے، میرا تیرے ساتھ وعدہ قیامت کا دن ہے کہ جس دن بیہودہ لوگوں کا نقصان واضح ہوجائے گا اور پھر پشیمان ہونا فائدہ نہ دے گا بہت جلد اللہ تعالی کے عذاب کو دیکھ لوگے آپ اس کے بعد انصار کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا:

اے ملت کے مددگار جوانو اور اسلام کی مدد کرنے والو کیوں حق

۱۹۱

کے ثابت کرنے میں سستی کر رہے ہو اور جو ظلم مجھ پر ہوا ہے اس سے خواب غفلت میں ہو؟ کیا میرے والد نے نہیں فرمایا کہ کسی کا احترام اس کی اولاد میں بھی محفوظ ہوتا ہے یعنی اس کے احترام کی وجہ سے اس کی اولاد کا احترام کیا کرو؟ کتنا جلدی فتنہ برپا کیا ہے تم نے؟ اور کتنی جلدی ہوی اور ہوس میں مبتلا ہوگئے ہو؟ تم اس ظلم کے ہٹانے میں جو مجھ پر ہوا ہے قدرت رکھتے ہو اور میرے مدعا اور خواستہ کے برلانے پر طاقت رکھتے ہو_ کیا کہتے ہو کہ محمد(ص) مرگئے؟ جی ہاں لیکن یہ ایک بہت بڑی مصیبت ہے کہ ہر روز اس کا شگاف بڑھ رہا ہے اور اس کا خلل زیادہ ہو رہا ہے_ آنجناب(ص) کی غیبت سے زمین تاریک ہوگئی ہے سورج اور چاند بے رونق ہوگئے ہیں آپ کی مصیبت پر ستارے تتربتر ہوگئے ہیں، امیدیں ٹوٹ گئیں، پہاڑ متزلزل اور ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں پیغمبر(ص) کے احترام کی رعایت نہیں کی گئی، قسم خدا کی یہ ایک بہت بڑی مصیبت تھی کہ جس کی مثال ابھی تگ دیکھی نہیں گئی اللہ کی کتاب جو صبح اور شام کو پڑھی جا رہی ہے آپ کی اس مصیبت کی خبر دیتی ہے کہ پیغمبر(ص) بھی عام لوگوں کی طرح مریں گے، قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ محمد(ص) بھی گزشتہ پیغمبروں کی طرح ہیں، اگر آپ(ص) مرے یا قتل کئے گئے تو تم دین سے پھر جاوگے، جو بھی دین سے خارج ہوگا وہ اللہ پر کوئی نقصان وارد نہیں کرتا خدا شکر ادا کرنے والوں کو جزا عنایت کرتا ہے(۱) _

اے فرزندان قبلہ: آیا یہ مناسب ہے کہ میں باپ کی میراث سے محروم

____________________

۱) سورہ آل عمران_

۱۹۲

رہوں جب کہ تم یہ دیکھ رہے ہو اور سن رہے ہو اور یہاں موجود ہو میری پکار تم تک پہنچ چکی ہے اور تمام واقعہ سے مطلع ہو، تمہاری تعداد زیادہ ہے اور تم طاقت ور اور اسلحہ بدست ہو، میرے استغاثہ کی آواز تم تک پہنچتی ہے لیکن تم اس پر لبیک نہیں کہتے میری فریاد کو سنتے ہو لیکن میری فریاد رسی نہیں کرتے تم بہادری میں معروف اور نیکی اور خیر سے موصوف ہو، خود نخبہ ہو اور نخبہ کی اولاد ہو تم ہم اہلبیت کے لئے منتخب ہوئے ہو، عربوں کے ساتھ تم نے جنگیں کیں سختیوں کو برداشت کیا، قبائل سے لڑے ہو، بہادروں سے پنجہ آزمائی کی ہے جب ہم اٹھ کھڑے ہوتے تھے تم بھی اٹھ کھڑے ہوتے تھے ہم حکم دیتے تھے تم اطاعت کرتے تھے اسلام نے رونق پائی اور غنائم زیادہ ہوئے اور مشرکین تسلیم ہوگئے اور ان کا جھوٹا وقار اور جوش ختم ہوگیا اور دین کا نظام مستحکم ہوگیا_

اے انصار متحیر ہوکر کہاں جارہے ہو؟ حقائق کے معلوم ہو جانے کے بعد انہیں کیوں چھپانے ہو؟ کیوں ایمان لے آنے کے بعد مشرک ہوئے ہو؟ برا حال ہو ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے ایمان اور عہد اور پیمان کو توڑا ڈالا ہو اور ارادہ کیا ہو کہ رسول خدا(ص) کو شہر _ بدر کریں اور ان سے جنگ کا آغاز کریں کیا منافقین سے ڈرتے ہو؟ حالانکہ تمہیں تو صرف خدا سے ڈرنا چاہیئے تھا_ لوگو میں گویا دیکھ رہی کہ تم پستی کی طرف جارہے ہو، اس آدمی کو جو حکومت کرنے کا اہل ہے اسے دور ہٹا رہے ہو اور تم گوشہ میں بیٹھ کر عیش اور نوش

۱۹۳

میں مشغول ہوگئے ہو زندگی اور جہاد کے وسیع میدان سے قرار کر کے راحت طلبی کے چھوٹے محیط میں چلے گئے ہو، جو کچھ تمہارے اندر تھا اسے تم نے ظاہر کردیا ہے اور جو کچھ پی چکے تھے اسے اگل دیا ہے لیکن آگاہ رہو اگر تم اور تمام روئے زمین کے لوگ کافر ہوجائیں تو خدا تمہارا محتاج نہیں ہے_

اے لوگو جو کچھ مجھے کہنا چاہیئے تھا میں نے کہہ دیا ہے حالانکہ میں جانتی ہوں کہ تم میری مدد نہیں کروگے_ تمہارے منصوبے مجھ سے مخفی نہیں، لیکن کیا کروں دل میں ایک درد تھا کہ جس کو میں نے بہت ناراحتی کے باوجود ظاہر کردیا ہے تا کہ تم پر حجت تمام ہوجائے_ اب فدک اور خلافت کو خوب مضبوطی سے پکڑے رکھو لیکن تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اس میں مشکلات اور دشواریاں موجود ہیں اور اس کا ننگ و عار ہمیشہ کے لئے تمہارے دامن پہ باقی رہ جائے گا، اللہ تعالی کا خشم اور غصہ اس پر مزید ہوگا اور اس کی جزا جہنم کی آگ ہوگی اللہ تعالی تمہارے کردار سے آگاہ ہے، بہت جلد ستم گار اپنے اعمال کے نتائج دیکھ لیں گے_ لوگو میں تمہارے اس نبی کی بیٹی ہوں کہ جو تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتا تھا_ جو کچھ کرسکتے ہو اسے انجام دو ہم بھی تم سے انتقام لیں گے تم بھی انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں(۱) _

____________________

۱) احتجاج طبرسی، طبع نجف ۱۳۸۶ ھ ج ۱ ۱۳۱_۱۴۱ _ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۱_ کتاب بلاغات النسائ، تالیف احمد بن طاہر، متولد ۲۰۴ ہجری ص ۱۲_ کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۶_

۱۹۴

خلیفہ کا ردّ عمل

حضرت زہرا (ع) نے اپنے آتشین بیان کو ہزاروں کے مجمع میں جناب ابوبکر کے سامنے کمال شجاعت سے بیان کیا اور اپنی مدلل اور مضبوط تقریر میں جناب ابوبکر سے فدک لینے کی وضاحت طلب کی اور ان کے ناجائز قبضے کو ظاہر کیا اور جو حقیقی خلیفہ تھے ان کے کمالات اور فضائل کو بیان فرمایا_

لوگ بہت سخت پریشان ہوئے اور اکثر لوگوں کے افکار جناب زہراء (ع) کے حق میں ہوگئے_ جناب ابوبکر بہت کشمکش__ _ میں گھر گئے تھے، اگر وہ عام لوگوں کے افکار کے مطابق فیصلہ دیں اور فدک جناب زہراء (ع) کو واپس لوٹا یں تو ان کے لئے دو مشکلیں تھیں_

ایک: انہوں نے سوچاگہ اگر حضرت زہراء (ع) اس معاملے میں کامیاب ہوگئیں اور ان کی بات تسلیم کرلی گئی تو ''انہیں اس کا ڈر ہوا کہ'' کل پھر آئیں گی اور خلافت اپنے شوہر کو دے دینے کا مطالبہ کریں گی اور پھر پر جوش تقریر سے اس کا آغاز کریں گے_

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ میں نے علی بن فاروقی سے جو مدرسہ غربیہ بغداد کے استاد تھے عرض کی آیا جناب فاطمہ (ع) اپنے دعوے میں سچی تھیں یا نہ، انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود کہ جناب ابوبکر انہیں سچا جانتے تھے ان کو فدک واپس کیوں نہ کیا؟ استاد ہنسے اور ایک عمدہ جواب دیا اور کہا اگر اس دن فدک فاطمہ (ع) کو واپس کردیتے تو دوسرے دن وہ واپس آتیں اور خلافت کا اپنے شوہر کے لئے مطالبہ کردیتیں اور جناب ابوبکر

۱۹۵

کو خلافت کے مقام سے معزول قرار دے دیتیں کیونکہ جب پہلے سچی قرار پاگئیں تو اب ان کے لئے کوئی عذر پیش کرنا ممکن نہ رہتا(۱) _

دوسرے: اگر جناب ابوبکر جناب فاطمہ (ع) کی تصدیق کردیتے تو انہیں اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑتا اس طرح سے خلافت کے آغاز میں ہی اعتراض کرنے والوں کا دروازہ کھل جاتا اور اس قسم کا خطرہ حکومت اور خلافت کے لئے قابل تحمل نہیں ہوا کرتا_

بہرحال جناب ابوبکر اس وقت ایسے نظر نہیں آرہے تھے کہ وہ اتنی جلدی میدان چھوڑ جائیں گے البتہ انہوں نے اس قسم کے واقعات کے رونما ہونے کی پہلے سے پیشین گوئی کر رکھی تھی آپ نے سوچا اس وقت جب کہ موجودہ حالات میں ملت کے عمومی افکار کو جناب زہراء (ع) نے اپنی تقری سے مسخر کرلیا ہے یہ مصلحت نہیں کہ اس کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے لیکن اس کے باوجود اس کا جواب دیا جانا چاہیئے اور عمومی افکار کو ٹھنڈا کیا جائے، بس کتنا___ اچھا ہے کہ وہی سابقہ پروگرام دھرایا جائے اور عوام کو غفلت میں رکھا جائے اور دین اور قوانین کے اجراء کے نام سے جناب فاطمہ (ع) کو چپ کرایا جائے اور اپنی تقصیر کو ثابت کیا جائے، جناب ابوبکر نے سوچا کہ دین کی حمایت اور ظاہری دین سے دلسوزی کے اظہار سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کیا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعے ہر چیز کو یہاں تک کہ خود دین کو بھی نظرانداز کرایا جاسکتا ہے_ جی ہاں دین سے ہمدردی کے مظاہرے سے دین کے ساتھ دنیا میں مقابلہ کیا جاتا ہے_

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۸۴_

۱۹۶

جناب ابوبکر کا جواب

رسول اللہ (ص) کی بیٹی کے قوی اور منطقی اور مدلل دلائل کے مقابلے میں جناب ابوبکر نے ایک خاص رویہ اختیار کیا اور کہا کہ اے رسول خدا(ص) کی دختر آپ کے باپ مومنین پر مہربان اور رحیم اور بلاشک محمّد(ص) آپ کے باپ ہیں اور کسی عورت کے باپ نہیں اور آپ کے شوہر کے بھائی ہیں اور علی (ع) کو تمام لوگوں پر ترجیح دیا کرتے تھے، جو شخص آپ کو دوست رکھے گا وہی نجات پائے گا اور جو شخص آپ سے دشمنی کرے گا وہ خسارے میں رہے گا، آپ پیغمبر(ص) کی عترت ہیں، آپ نے ہمیں خیر و صلاح اور بہشت کی طرف ہدایت کی ہے، اے عورتوں میں سے بہترین عورت اور بہتر پیغمبر(ص) کی دختر، آپ کی عظمت اور آپ کی صداقت اور فضیلت اور عقل کسی پر مخفی نہیں ہے_ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ آپ کو آپ کے حق سے محروم کرے، لیکن خدا کی قسم میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمان سے تجاوز نہیں کرتا جو کام بھی انجام دیتا ہوں آپ کے والد کی اجازت سے انجام دیتا ہوں قافلہ کا سردار تو قافلے سے جھوٹ نہیں بولتا خدا کی قسم میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ فرما رہے تھے کہ ہم پیغمبر(ص) سوائے علم و دانش اور نبوت کے گھر اور جائیدار و وراثت میں نہیں چھوڑتے جو مال ہمارا باقی رہ جائے وہ مسلمانوں کے خلیفہ کے اختیار میں ہوگا، میں فدک کی آمدنی سے اسلحہ خریدتا ہوں اور کفار سے جنگ کرونگا، مبادا آپ کو خیال ہو کہ میں نے تنہا فدک پر قبضہ کیا ہے بلکہ اس اقدام میں تمام مسلمان میرے

۱۹۷

موافق اور شریک ہیں، البتہ میرا ذاتی مال آپ کے اختیار میں ہے جتنا چاہیں لے لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں، کیا یہ ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے والد کے دستورات کی مخالفت کروں؟

جناب فاطمہ (ع) کاجواب

جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبکر کی اس تقریر کا جواب دیا_ سبحان اللہ، میرے باپ قرآن مجید سے روگردانی نہیں کرسکتے اور اسلام کے احکام کی مخالفت نہیں کرتے کیا تم نے اجماع کرلیا ہے کہ خلاف واقع عمل کرو اور پھر اسے میرے باپ کی طرف نسبت دو؟ تمہارا یہ کام اس کام سے ملتا جلتا ہے جو تم نے میرے والد کی زندگی میں انجام دیا_ کیا خدا نے جناب زکریا کا قول قرآن میں نقل نہیں کیا جو خدا سے عرض کر رہے تھے،

فهب لی یرثنی و یرث من آل یعقوب (۱) _

خدایا مجھے ایسا فرزند دے جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کا وارث ہو_ کیا قرآن میں یہ نہیں ہے_

ورث سلیمان داؤد (۲) _

سلیمان داؤد کے وارث ہوئے_ کیا قرآن میں وراثت کے احکام موجود نہیں ہیں؟ کیوں نہیں، یہ تمام مطالب قرآن میں موجود ہیں اور تمہیں بھی اس

____________________

۱) سورہ مریم آیت۶_

۲) سورہ نمل آیت ۱۶_

۱۹۸

کی اطلاع ہے لیکن تمہارا ارادہ عمل نہ کرنے کا ہے اور میرے لئے بھی سواے صبر کے اور کوئی چارہ نہیں_

جناب ابوبکر نے اس کا جواب دیا کہ خدا رسول (ص) اور تم سچ کہتی ہو، لیکن یہ تمام مسلمان میرے اور اپ کے درمیان فیصلہ کریں گے کیونکہ انہوں نے مجھے خلافت کی کرسی پر بٹھایا ہے اور میں نے ان کی رائے پر فدک لیا ہے(۱) _

جناب ابوبکر نے ظاہرسازی اور عوام کو خوش کرنے والی تقریر کر کے ایک حد تک عوام کے احساسات اور افکار کو ٹھنڈا کردیا اور عمومی افکار کو اپنی طررف متوجہ کرلیا_

جناب خلیفہ کا ردّ عمل

مجلس در ہم برہم ہوگئی لیکن پھر بھی اس مطلب کی سر و صدا خاموش نہ ہوئی اور اصحاب کے درمیان جناب زہراء (ع) کی تقریر کے موضوع پر گفتگو شروع ہوگئی اور اس حد تک یہ مطلب موضوع بحث ہوگیا کہ جناب ابوبکر مجبور ہوگئے کہ ملت سے تہدید اور تطمیع سے پیش آئیں_

لکھا ہے کہ جناب زہراء (ع) کی تقریر نے مدینہ کو جو سلطنت اسلامی کا دارالخلافة تک منقلب کردیا_ لوگوں کے اعتراض اور گریہ و بکا کی آوازیں بلند ہوئیں لوگ اتنا روئے کہ اس سے پہلے اتنا کبھی نہ روئے تھے_

____________________

۱) احتجاج طبرسی، ج ۱ ص ۱۴۱_

۱۹۹

جناب ابوبکر نے جناب عمر سے کہا تم نے فدک فاطمہ (ع) کو دے دینے سے مجھے کیوں روکا اور مجھے اس قسم کی مشکل میں ڈال دیا؟ اب بھی اچھا ہے کہ ہم فدک کو واپس کردیں اور اپنے آپ کو پریشانی میں نہ ڈالیں_

جناب عمر نے جواب دیا _ فدک کے واپس کردینے میں مصلحت نہیں اور یہ تم جان لو کہ میں تیرا خیرخواہ اور ہمدرد ہوں_ جناب ابوبکر نے کہا کہ لوگوں کے احساسات جو ابھرچکے ہیں ان سے کیسے نپٹا جائے انہوں نے جواب دیا کہ یہ احساسات وقتی اور عارضی ہیں اور یہ بادل کے ٹکڑے کے مانند ہیں_ تم نماز پڑھو، زکوة دو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو، مسلمانوں کے بیت المال میں اضافہ کرو اور صلہ رحمی بجالاؤ تا کہ خدا تیرے گناہوں کو معاف کردے، اس واسطے کہ خدا قرآن میں فرماتا ہے، نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں_ حضرت ابوبکر نے اپنا ہاتھ جناب عمر کے کندھے پر رکھا اور کہا شاباش تم نے کتنی مشکل کو حل کردیا ہے_

اس کے بعد انہوں نے لوگوں کو مسجد میں بلایا اور ممبر پر جاکر اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد کہا، لوگو یہ آوازیں اور کام کیا ہیں ہر کہنے والا آرزو رکھتا ہے، یہ خواہشیں رسول(ص) کے زمانے میں کب تھیں؟ جس نے سنا ہو کہے اس طرح نہیں ہے بلکہ یہ اس کا مطالبہ اس لومڑی جیسے ہے کہ جس کی گواہ اس کی دم تھی_

اگر میں کہنا چاہوں تو کہہ سکتا ہوں اور اگر کہوں تو بہت اسرار واضح کردوں، لیکن جب تک انہیں مجھ سے کوئی کام نہیں میں ساکت رہوں گا، اب لڑی سے مدد لے رہے ہیں اور عورتوں کو ابھار رہے ہیں_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313