تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي12%

تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 313

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 313 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 139666 / ڈاؤنلوڈ: 4388
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۱)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام كتاب: تاريخ اسلام (زندگى پيامبر)(ص) (۱)

مؤلف: مركز تحقيقات اسلامي

مترجم: معارف اسلام پبلشرز

ناشر: نور مطاف

جلد: اول

اشاعت: تیسری

تاريخ اشاعت: ۲۰ جمادی الثانی ۱۴۲۷ ھ_ق

جملہ حقوق طبع بحق معارف اسلام پبلشرز محفوظ ہيں _

۳

مقدمہ ناشر:

ادارہ معارف اسلام پبلشرز اپنى اصلى ذمہ دارى كو انجام ديتے ہوئے مختلف اسلامى علوم و معارف جيسے تفسير، فقہ، عقائد، اخلاق اور سيرت معصومين(عليہم السلام) كے بارے ميں جانے پہچانے محققين كى قيمتى اور اہم تاليفات كے ترجمے اور طباعت كے كام كو انجام دے رہاہے_

يہ كتاب(عہد رسالت ۱) جو قارئين كے سامنے ہے پيغمبر اكرم(صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم) اور آپ(ص) كے اہل بيت اطہار (عليہم السلام) كى سيرت اور تاريخ پر لكھى جانے والى كتابوں كے سلسلے كى ايك كڑى ہے جسے گذشتہ سالوں ميں ترجمہ كرواكر طبع كيا گيا تھا_ اس ترجمہ كے دستياب نہ ہونے اور معزز قارئين كے مسلسل اصرار كے باوجود اس پر نظر ثانى اور اسے دوبارہ چھپوانے كا موقع نہ مل سكا_

خداوند عالم كے لطف و كرم سے اس سال كہ جسے رہبر معظم (دام ظلہ) كى جانب سے رسول اعظم (صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم) كا سال قرار ديا گيا ہے، اس نفيس سلسلے كى پہلى جلد كو ، نظر ثانى اور تصحيح كے بعد دوبارہ زيور طبع سے آراستہ كيا جارہاہے_ ہم اميد كرتے ہيں كہ خداوند متعال كے فضل و كرم ، امام زمان (عجل اللہ تعالى فرجہ الشريف) كى خاص عنايت اور ادارے كے ساتھ تعاون كرنے والے محترم فضلاء كے مزيد اہتمام و توجہ سے اس سلسلے كى بعد والى جلدوں كو بھى جلد از جلدچھپوا كر مطالعہ كے شائقين كى خدمت ميں پيش كرسكيں گے_

ان شاء اللہ تعالى

معارف اسلام پبلشرز

۴

سبق ۱:

تاريخ كى اہميت

تاريخ اسلام كى دوسرى تواريخ پر فوقيت

۵

تاريخ كى تعريف

لغت كى كتابوں ميں تاريخ كے معنى ''زمانے كى تعيين '' كے ہيں_'' اَرَخَ الْكتَابَ وَ اَرَّخَہُ'' اس نے كتاب يا خط پرتاريخ تحرير ثبت كى(۱) _

تاريخ كے اصطلاحى معانى بيان كرتے ہوئے لوگوں نے اس كى مختلف تعريفيں كى ہيں جن ميں سے چند ذيل ميںدرج ہيں :

۱_ايك قديم اور مشہور واقعہ كى ابتدا سے ليكر اس كے بعد رونما ہونے والے دوسرے واقعہ كے ظہور تك كى مدت كا تعين _

۲_سر گذشت يا ايسے قابل ذكر حوادث اورواقعات كہ جنہيں بلحاظ ترتيب زمان منظم و مرتب كيا گيا ہو(۲) _

اقسام تاريخ

علم تاريخ ،اس كى اقسام اور خصوصيات اسى طرح ان ميں سے ہر ايك كے فوائد كے بارے ميں بہت زيادہ بحث و گفتگو كى جا چكى ہے_

استاد شہيد مرتضى مطہرى نے علم تاريخ كى تين قسميں بيان كى ہیں :

۶

۱:_ منقول تاريخ

موجودہ زمانہ كى كيفيت اور حالت كے برعكس ، گزشتہ زمانہ كے واقعات و حادثات اور انسانوں كى حالات اور كيفيات كا علم_

اس ميں سوانح عمرى ' فتح نامے اور سيرت كى وہ تمام كتابيں شامل ہیں جو اقوام عالم ميں لكھى گئي ہيں اور اب بھى لكھى جارہى ہيں _

منقول تاريخ كى خصوصيات

الف: يہ تاريخ جزئي ہوتى ہے مجموعى اور كلى نہيں_

ب: يہ محض منقول ہے اور اس ميں عقل و منطق كو دخل نہيں ہوتا_

ج:محض گذشتہ واقعات كا علم ہے تبديليوں اور تحولات كا نہيں_

(ماضى سے متعلق ہے، حال سے نہيں)

۲: علمى تاريخ

ان آداب و رسوم كا علم جن كا رواج عہد ماضى كے انسانوں ميں تھا اور يہ علم ، ماضى ميں رونما ہونے والے واقعات و حادثات كے مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے _(۴)

۳:فلسفہ تاريخ

معاشروں كے ايك مرحلہ سے دوسرے مرحلہ ميں تغيراور تبديليوں نيز ان تبديليوں پر حاكم قوانين كا علم _(۵)

۷

اس كتاب ميں ہمارا مطمح نظر

اس كتاب كے اسباق ميں اس بات كو مد نظر ركھا گيا ہے كہ سب سے پہلے ان واقعات كو تفصيل سے بيان كياجائے جو پيغمبر اكرم حضرت محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى رسالت كے دوران رونما ہوئے اور اس كے ساتھ ہى ان كا تجزيہ اور تحليل بھى كياجائے اس كے بعد دوسرے مرحلہ ميں ان واقعات سے پندو نصيحت حاصل كى جائے ، ان سے كلى قواعد اور نتائج اخذ كركے پھر انفرادى اور اجتماعى زندگى ميں ان سے استفادہ كيا جائے_ بالخصوص اس بات كے پيش نظر كہ ايران كے اسلامى انقلاب كى تاريخ بھى درحقيقت دوران رسالت و امامت كے تاريخ اسلام كا منطقى تسلسل ہے _ چنانچہ اس عہد كے اكثر حالات و واقعات ہوبہو صدر اسلام كے حالات و اقعات كى طرح تھے_

منقول تاريخ كا درجہ اعتبار

علمى نيز منقول تاريخ كى تشكيل چونكہ ان واقعات كى بنياد پر ہوتى ہے جو عہد ماضى ميں گزر چكے ہيں اس لئے محققين نے اس بات پر بھى بحث كى ہے كہ يہ واقعات كس حد تك معتبر يا غير معتبر ہوسكتے ہيں_

بعض محققين كى رائے يہ ہے كہ متقدمين كى كتابوں ميں منقول تاريخ سے متعلق جو كچھ درج كيا گيا ہے اسے بيان اور قلمبند كرنے والے وہ لوگ ہيں جنہوں نے واقعات كو ذاتى اغراض ، شخصى محركات ، قومى تعصبات يا اجتماعى و فكرى وابستگى كى بنياد پر نقل كيا ہے اور اس ميں تصرف اور تحريف كركے واقعات كو ايسى شكل دى ہے جيسى وہ خود چاہتے تھے يا صرف ان واقعات كوقلمبند كيا ہے جس سے ان كے اغراض و مقاصد پورے ہوتے تھے اور ان

۸

كے عقائد كے ساتھ ميل كھاتے تھے_

منقول تاريخ كے بارے ميں يہ بدگمانى اگر چہ بے سبب و بلاوجہ نہيں اور اس كا سرچشمہ تاريخ كى كتابوں اور مورخين كے ذاتى مزاج اور اسلوب كو قرارديا جاسكتا ہے ليكن اس كے باوجود تاريخ بھى ديگر علوم كى طرح سلسلہ وار مسلمہ حقائق و واقعات پر مبنى ايك علم ہے جن كا تجزيہ و تحليل كيا جاسكتا ہے_

اس كے علاوہ ايك محقق، شواہد و قرائن كى بنياد پر اسى طرح اپنى اجتہادى قوت كے ذريعے بعض حادثات و واقعات كى صحت و سقم معلوم كركے انہى معلومات كى بنياد پر بعض نتائج اخذ كرسكتا ہے _(۶)

تاريخ بالخصوص تاريخ اسلام كى اہميت اور قدر وقيمت

مسلم وغير مسلم محققين اور دانشوروں نے تاريخ بالخصوص تاريخ اسلام وسيرت النبى (ص) كے بارے ميں بہت زيادہ تحقيقات كى ہيں_ انہوں نے مختلف پہلوئوں كا جائزہ لے كر اس كى قدر وقيمت اور اہميت كو بيان كيا ہے_

الف: قرآن كى نظر ميں تاريخ كى اہميت

قرآن كى رو سے ' تاريخ بھى حصول علم و دانش اور انسانوں كے لئے غور وفكر كے ديگر ذرائع كى طرح ايك ذريعہ ہے قرآن نے جہاں انسانوں كو غور وفكر كرنے كى دعوت دى ہے وہاں اس نے غورو فكر كے منابع (يعنى ايسے موضوعات جن كے بارے ميں انسانوں كو غورو فكركركے ان سے ذريعہ شناخت و معرفت كے عنوان سے فائدہ اٹھائے) بھى ان كے

۹

سامنے پيش كئے ہيں_

قرآن نے اكثر آيات ميں انسانوں كو يہ دعوت دى ہے كہ وہ گزشتہ اقوام كى زندگى كا مطالعہ كريں_ان كى زندگى كے سودمند نكات پيش كرنے كے بعد انہيں يہ دعوت دى ہے كہ وہ لائق اور باصلاحيت افراد كو اپنا ہادى و رہنما بنائيں اور ان كى زندگى كو اپنے لئے نمونہ سمجھيں _

حضرت ابراہيم عليہ السلام كے بارے ميں فرماتا ہے:

( قَد كَانَت لَكُم أُسوَةٌ حَسَنَةٌ فى إبرَاهيمَ وَالَّذينَ مَعَهُ ) (۷)

''تم لوگوں كےلئے ابراہيم (ع) اور ان كے ساتھيوں ميں ايك اچھا نمونہ موجود ہے''_

اسى طرح رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے بارے ميں قرآن فرماتا ہے:

( لَقَد كَانَ لَكُم فى رَسُول الله أُسوَةٌ حَسَنَةٌ ) (۸)

''درحقيقت تم لوگوں كے لئے رسول اللہ (ص) كى ذات ايك بہترين نمونہ ہے''_

قرآن كى رو سے تاريخ بشر اور اس كا ارتقاء سلسلہ وار اصول وضوابط اور رسوم و رواج كى بنياد پر مبنى ہے _ عزت و ذلت فتح و شكست اور بدبختى و خوش بختى سب كے سب دقيق و منظم حساب و كتاب كے تحت حاصل ہوتى ہيں ان اصول و ضوابط اورروسوم و رواج كو سمجھنے كے بعد تاريخ پر تسلط حاصل كركے اس كے ذريعے اپنى ذات اور معاشرے كو فائدہ پہنچايا جاسكتا ہے_ مثال كے طور پر درج ذيل آيت ميں خداوند تعالى فرماتا ہے:

( قَد خَلَت من قَبلكُم سُنَنٌ فَسيرُوا فى الأَرض فَانظُروا كَيفَ كَانَ عَاقبَةُ المُكَذّبينَ ) (۱۰)

۱۰

''تم سے پہلے بھى رسوم و رواج اورطور طريقے موجود تھے پس زمين ميں چلو پھرو اور ديكھو كہ (خدا اور انبياء (ع) كو) جھٹلانے والوں كا كيا انجام ہوا ؟''

ب: نہج البلاغہ كى روسے تاريخ كى اہميت

قرآن كے علاوہ آئمہ طاہرين عليہم السلام نے بھى اپنے اقوال ميں شناخت و معرفت كے اس عظيم اور وسيع سرچشمے كى قدر و قيمت كى جانب اشارہ فرمايا ہے چنانچہ اس بارے ميں حضرت على عليہ السلام نہج البلاغہ ميں ارشاد فرماتے ہيں :

(يَابُنَيَّ انّي وَان لَم اَكُن عَمَرتُ عُمرَ مَن كَانَ قَبلي فَقَد نَظَرتُ في اَعمَالهم وَ فَكَّرتُ فى اَخبَارهم وَ سرتُ في آثَارهم حَتّى عُدتُ كَاَحَدهم بَل كَاَنّي بمَا انتَهى الَيَّ مَن اُمُورهم قَد عَمَرتُ مَعَ اَوَّلهم الى آخَرهم فَعَرَفتُ صَفْوَ ذَالكَ من كَدره وَ نَفعَهُ من ضَرَره )_(۱)

''يعنى اے ميرے بيٹے ميرى عمر اگر چہ اتنى لمبى نہيں جتنى گزشتہ دور كے لوگوں كى رہى ہے (يعنى آپ(ع) يہ فرمانا چاہتے ہيں كہ گرچہ ميں نے گذشتہ لوگوں كے ساتھ زندگى نہيں گزاري)ليكن ميں نے ان كے كاموں كو ديكھا ،ان كے واقعات پر غور كيا اور ان كے آثار اور باقيات ميں سير و جستجو كى يہاں تك كہ ميں بھى ان ميں سے ايك ہوگيا بلكہ ان كے جو اعمال و افعال مجھ تك پہنچے ان سے مجھے يوں لگتا ہے كہ گويا ميں نے ان كے ساتھ اول تا آخر زندگى بسر كى ہے پس ان كے كردار كى پاكيزگى و خوبى كو برائي اور تيرگى سے اور نفع كو نقصان سے عليحدہ كر كے پہچانا ''_

۱۱

اميرالمومنين حضرت على عليہ السلام كا يہ بيان اس امر كى وضاحت كرتا ہے كہ آئمہ عليہم السلام كس حد تك عہد گزشتہ كى تاريخ كو اہميت ديتے تھے _

ج: غير مسلم دانشوروں كى نظر ميں تاريخ اسلام كى اہميت

عيسائي دانشور اور اديب جرجى زيدان رقم طراز ہے كہ :

اس ميں شك نہيں كہ تاريخ اسلام كا شمار دنيا كى اہم ترين تاريخوںميں ہوتا ہے_كيونكہ مذكورہ تاريخ قرون وسطى(۲) ميںپورى دنيا كى تاريخ تمدن پر محيط ہے _(۱۲)

يايوں كہنا بہتر ہوگا كہ تاريخ اسلام زنجيركى وہ كڑى ہے جس نے دنيائے قديم كى تاريخ كو جديد تاريخ سے متصل كيا ہے يہ تاريخ اسلام ہى ہے جس سے جديد تمدن كا آغاز اور قديم تمدن كا اختتام ہوتا ہے_

ديگر تواريخ پر تاريخ اسلام كى برتري

تاريخ اسلام كو دوسرى تمام اقوام كى تاريخوں پر بہت زيادہ فوقيت اور برترى حاصل ہے _ ہم اس كے بعض پہلوئوں كى طرف يہاں اشارہ كرتے ہيں _

۱_ سيرت: پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم و ائمہ معصومين عليہم السلام كى سيرت ،كرداراور طرز زندگى سنت كى حيثيت ركھتى ہے اور ان كے اقوال كى طرح اسے بھى امت مسلمہ كے لئے حجت اور سند كا درجہ حاصل ہے_

سيرت نبوي(ص) ہميں يہ درس ديتى ہے كہ ہمارے اخلاق و كردار كونبى (ص) كى سيرت اور راہ وروش كے مطابق ہونا چاہئے جبكہ ديگر تاريخ ميں ايسا بالكل نہيں ہے_ مثال كے طور جرمنى

۱۲

كے فرمانروا ہٹلر اور دوسرى عالمى جنگ كے دوران اس كا كردار ہمارے لئے حجت و سند نہيںبن سكتے ان كافائدہ صرف علمى سطح پر ہى ہوسكتا ہے يا زيادہ سے زيادہ يہ ہوسكتا ہے كہ ہم اس كى زندگى سے عبرت حاصل كریں_

۲_دقت: تاريخ كے جتنے بھى منابع وماخذ موجود ہيں ان ميں معلومات كے لحاظ سے تاريخ اسلام سب سے زيادہ مالامال ہے چنانچہ جب كوئي محقق تاريخ اسلام لكھنا چا ہے تو اسے دقيق تاريخى واقعات وافر مقدار ميں مل جائيں گے_ اس كے علاوہ تاريخ اسلام ميں جس قدر مستند ، باريك اور روشن نكات موجود ہيں وہ ديگرتاريخوںميں نظر نہيں آتے_

اسكى وجہ يہ ہے كہ مسلمان رسول خدا (ص) كى سنت اور سيرت كو حجت تسليم كرتے ہيں اور وہ اسے محفوظ كرنے كى كوشش ميں لگے رہتے تھے_

تاريخ اسلام كے بارے ميں استاد مطہرى رقم طراز ہيں:

پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كو ديگر اديان و مذاہب پر جو دوسرى فضيلت و فوقيت حاصل ہے وہ يہ ہے كہ پيغمبر اسلام(ص) كى تاريخ بہت زيادہ واضح اور مستند ہے _ اس اعتبار سے دنيا كے ديگر راہنما ہمارى برابرى نہيں كرسكتے_ چنانچہ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى زندگى كى ايسى يقينى اور مسلم دقيق باتيں اور ان كى جزئيات ہمارے پاس آج بھى اسى طرح موجود و محفوظ ہيں جو كسى اور كے بارے ميں نہيں ملتيں _ آپ (ص) كا سال ولادت ، ماہ ولادت ، ہفتہ ولادت يہاں تك كہ روز ولادت تك تاريخ كے سينے ميں درج ہے دوران شير خوارگي، وہ زمانہ جو آپ (ص) نے صحراميں بسر كيا ' آپ (ص) كے بچپن اور نوجوانى كا زمانہ، ملك عرب سے

۱۳

باہر آپ(ص) كے سفر، وہ مشاغل جو آپ (ص) نے نبوت سے پہلے انجام ديئے آپ (ص) نے كس سال شادى كى اور اس وقت آپ (ص) كا سن مبارك كيا تھا آپ (ص) كى ازواج كے بطن سے كتنے بچوں كى ولادت ہوئي اور جو بچے آپ (ص) كى رحلت سے قبل اس دنيا سے كوچ كرگئے تھے اور وفات كے وقت ان كى كيا عمريں تھى ،نيز عہد رسالت تك پہنچنے تك كے اكثر واقعات ہميں بخوبى معلوم ہيں اور كتب تاريخ ميںمحفوظ ہيں _اوراس كے بعد تويہى واقعات دقيق تر ہوجاتے ہيں كيونكہ اعلان رسالت جيسا عظيم واقعہ رونما ہوتا ہے _ يہاں وہ پہلا شخص كون تھا جو مسلمان ہوا اس كے بعد دوسرا كون مشرف بااسلام ہوا ، تيسرا شخص جو ايمان لايا كون تھا؟ فلاں شخص كس عمر ميں اور كب ايمان لايا_ دوسرے لوگوں سے آپ(ص) كى كيا گفتگو ہوئي ، كس نے كيا كارنامے انجام ديئےحالات كيا تھے اور كيا راہ و روش اختيار كى سب كے سب دقيق طور پر روشن و عياں ہيں(۹)

۳_ سب سے زيادہ اہم بات يہ ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) كى تاريخ زمانہ ''وحي'' كے دوران متحقق ہوئي _ تيئيس سالہ عہد نبوت كا ہر واقعہ وحى الہى كے نور سے منور ہوا اور اسى كے ذريعہ اس كا تجزيہ اور تحليل كيا گيا_ قرآن مجيد ميں عہد نبوت كے دوران پيش آنے والے بہت سارے مسائل وواقعات كا تذكرہ ہوا ہے جس واقعہ كو قرآن نے بيان كيا ہے اور خداوند عالم الغيب والشہادة نے اسكا تجزيہ و تحليل كيا ہے ،وہ تجزيہ تاريخى واقعات كے بارے ميں بلا شبہ مستند ترين و دقيق ترين نظريہ اور تجزيہ ہے_ اگر ہم واقعات كے بارے ميں غورو فكر كريں تو اس نظريئے اور تجزيئے كى روشنى ميں ہم ديگر تمام واقعات كى حقيقت تك پہنچ سكتے ہيں اور ان سے نتائج اخذ كركے دوسرے واقعات كا بھى اسلامى و قرآنى طرز تحليل معلوم كرسكتے ہيں_

۱۴

عہد رسالت كى تاريخ خود ذات گرامى پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى طرح انسانيت كےلئے بہترين مثال اور نمونہ عمل ہے _ چنانچہ تاريخ انسانيت كےلئے بھى يہى تاريخ بہترين نمونہ و مثال ثابت ہوسكتى ہے اور تاريخى رسوم و رواج كے لئے ہم اسے سودمندترين اور مالامامل ترين ماخذ كے طور پر بروئے كار لاسكتے ہيں_

۱۵

سوالات

۱_ ''تاريخ'' كى لغوى اور اصطلاحى تعريف كيجئے؟

۲_تاريخ كى مختلف اقسام بيان كيجئے؟

۳_منقول تاريخ كى تعريف كيجئے اور خصوصيات بتائے؟

۴_بعض لوگ منقول تاريخ سے بد ظن ہيں اس كا كيا سبب ہے، بيان كيجئے؟

۵_قرآن مجيد كى رو سے تاريخ كى اہميت بيان كيجئے؟

۶_تاريخ اسلام كو ديگر تواريخ پر كيا فوقيت حاصل ہے؟ اس كى كوئي ايك مثال مختصر طور

پر بيان كيجئے؟

۱۶

حوالہ جات

۱_ ملاحظہ ہو :القاموس المحيط لفط'' ارخ''_

۲_ تاريخ سياسى معاصر ايران ، ج ۱ ، ص ۷_

۴_علمى اورمنقول تاريخ ميں فرق يہ ہے كہ علمى تاريخ صرف كلى اور عقلى ہى نہيں ہوتى ہے بلكہ يہ تاريخ مرتب ہى منقول تاريخ كى بنياد پر ہوتى ہے (يعنى علمى تاريخ ميں منقول تاريخ بھى شامل ہوتى ہے _ مترجم) جب مورخ اس نوعيت كى تاريخ لكھتا ہے تو وہ يہ بھى دريافت كرنا چاہتا ہے كہ تاريخى واقعات كى ماہيت اور طبيعت نيز ايك دوسرے كے ساتھ ان كا ربط اور تاريخ سازى ميں ان كا كيا كردار رہا ہے تاكہ اصول علت و معلول كے تحت وہ ايسے عام قواعد و ضوابط مرتب كرسكے جن كا اطلاق عہد ماضى و حال دونوں پر ہوسكے اس بناپر اس علم كا موضوع ہر چند عہد گزشتہ كے واقعات ہيں مگر اس سے مورخ ايسے مسائل اور قواعد و ضوابط استخراج كرتا ہے جن كا تعلق فقط عہد ماضى سے نہيں ہوتابلكہ ان كا اطلاق زمانہ حال و مستقبل پر بھى ہوسكتا ہے جامعہ وتاريخ نامى كتاب كے صفحہ ۳۵۲ كا خلاصہ_

۵_ملاحظہ ہو جامعہ وتاريخ ص ۳۵۱_ ۳۵۲ مطبوعہ دفتر انتشارات اسلامى _ اس مفہوم ميں علم تاريخ درحقيقت كسى معاشرے كے ايك مرحلہ سے دوسرے مرحلہ ميں ارتقاء كا علم ہے كسى خاص مرحلے ميں ان كى بود و باش اور ان كے حالات كا علم نہيں_ دوسرے لفظوں ميں يہ صرف گذشتہ واقعات كا ہى نہيں بلكہ معاشروں ميں تبديليوں كا علم ہے_ اس بناپر فلسفہ تاريخ كے موضوعات كے '' تاريخي'' ہونے كا معيار صرف يہ نہيں كہ ان كا تعلق گذشتہ زمانے سے ہے بلكہ يہ ان سلسلہ وار واقعات كا علم ہے جن كا آغاز ماضى ميں ہوا اور ان كا سلسلہ ابھى تك بھى جارى و سارى ہے_

۶_شہيد مطہرى كى كتاب جامعہ و تاريخ سے اقتباس_

۷_سورہ ممتحنہ آيت ۴

۱۷

۸_احزاب ۲۱

۹_سيرہ نبوى (ص) ص ۵ و ۶ طبع انتشارات اسلامى تہران (ايران)

۱۰_ آل عمران آيت ۱۳۷

۱۱_ نہج البلاغہ مكتوب نمبر۳۱ _ يہ خط حضرت على (ع) نے اپنے عزيزفرزند حضرت امام حسن عليہ السلام كےلئے مرقوم فرمايا تھا

۱۲_قرون وسطى كا آغاز سنہ ۴۷۶ ميں ہوااور اس كا اختتام ۱۴۵۳ (۸۳۳ ہجري) عيسوى ميں سلطان محمد فاتح كے قسطنطنيہ كو فتح كرنے كے سال ہوا(ملاحظہ ہو تاريخ سياسى معاصر ايران ج ۱/۸)

۱۸

سبق ۲:

اسلام سے قبل جزيرہ نما ئے عرب كى حالت

۱۹

حدود اربعہ اور محل وقوع

جزيرہ نما ئے عرب 'براعظم ايشيا كے جنوب مغرب ميں واقع ہے اس كے شمال ميں عراق اور اردن مشرق ميں خليج فارس جنوب ميں بحر عمان اور مغرب ميں بحر احمر اور خليج عقبہ واقع ہے_

اس جزيرہ نما كارقبہ تيس لاكھ مربع كلوميٹر سے زيادہ ہے_ اور جغرافيائي اعتبار سے تين حصوںميں تقسيم ہوتا ہے_

۱_ مركزى حصہ صحرائے عرب كے نام سے مشہور ہے اور يہ اس جزيرہ نماكا وسيع ترين علاقہ ہے_

۲_شمالى علاقہ كا نام حجاز ہے_ حجاز'' حَجَزَ''سے مشتق ہے جس كے معنى حائل اور مانع ہيں_ چونكہ يہ سرزمين نجد اور تہامہ كے درميان واقع اور دونوں علاقوں كے باہم ملاپ سے مانع ہے اسى لئے اس علاقے كو حجاز كہاجاتا ہے_(۱)

۳_ اس جزيرہ نما كا جنوبى حصہ بحر ہند او ربحر احمر كے ساحل پر واقع ہے جس ميں يمن اور حضر موت كے علاقے شامل ہيں_

جنوبى علاقے كے علاوہ جزيرہ نما كا پورا علاقہ مجموعى طور پر خشك اور بے آب و گياہ صحرا پر مشتمل ہے مگر بعض جگہوں پر اس ميں نخلستان بھى پائے جاتے ہيں _

۲۰

سياست

زمانہ جاہليت كے عرب سياسى اعتبار سے كسى خاص طاقت كے مطيع اور فرمانبردار اور قانوں كے تابع نہ تھے_ وہ صرف اپنے ہى قبيلے كى طاقت كے بارے ميں سوچتے تھے دوسروں كے ساتھ ان كا وہى سلوك تھا جو افراطى قوم پرست ور نسل پرست روا ركھتے ہيں_

جغرافيائي اور سياسى اعتبار سے جزيرہ نمائے عرب ايسى جگہ واقع ہے كہ جنوبى علاقے كے علاوہ اس كا باقى حصہ اس قابل نہ تھا كہ ايران اور روم (موجودہ اٹلى) جيسے جنگجو اور كشور كشا ممالك اس كى جانب رخ كرتے _ چنانچہ اس زمانے ميں ان فاتحين نے اس كى طرف كم توجہ دى كيونكہ اس كے خشك بے آب و گياہ اور تپتے ہوئے ريگستان ان كے لئے قطعى بے مصرف تھے اس كے علاوہ عہد جاہليت كے عربوں كو قابو ميں لانا اور ان كے زندگى كو كسى نظام كے تحت منظم و مرتب كرنا انتہائي سخت اور دشوار كام تھا_

۲۱

قبيلہ

عرب ، انفرادى زندگى كو اپنے استبدادى اور خود خواہ مزاج كے مطابق پاتے تھے چنانچہ انہوں نے جب بيابانوں ميں زندگى كى مشكلات كا مقابلہ كيا تو يہ اندازہ لگايا كہ وہ تنہا رہ كر زندگى بسر نہيں كرسكتے اس بنا پر انہوں نے فيصلہ كيا كہ جن افراد كے ساتھ ان كا خونى اورنسلى يا سسرالى رشتہ دارى تھي_ ان كے ساتھ مل كر اپنے گروہ كو تشكيل ديں جس كا نام انہوں نے ''قبيلہ'' ركھا _ قبيلہ ايسى مستقل اكائي تھى جس كے ذريعے عہد جاہليت ميں عرب قوميت كى اساس و بنياد شكل پذير ہوتى تھى اور وہ ہر اعتبار سے وہ خود كفيل ہوتى تھي_

دور جاہليت ميں عربوں كے اقدار كامعيار قبائلى اقدارميں منحصر تھا ہر فرد كى قدر ومنزلت كا اندازہ اس بات سے لگايا جاتا تھا كہ قبيلے ميں اس كا كيا مقام و مرتبہ اور اہل قبيلہ ميں اس كا كس حد تك اثر و رسوخ ہے يہى وجہ تھى كہ قدر و منزلت كے اعتبار سے سرداران قبائل كو بالاترين مقام و مرتبہ حاصل تھا جبكہ اس كے مقابلے ميں كنيزوں اور غلاموں كا شمار قبائل كے ادنى ترين و انتہائي پست ترين افراد ميں ہوتا تھا_

ديگر قبائل كے مقابلے ميں جس قبيلے كے افراد كى تعداد جتنى زيادہ ہوتى اس كى اتنى ہى زيادہ عزت اور احترام ہوتاتھا اور وہ قبيلہ اتنا ہى زيادہ فخر محسوس كرتا اس لئے ہر قبيلہ اپنى قدر و منزلت بڑھانے اور افراد كى تعداد كو زيادہ كھانے كى غرض سے اپنے قبيلے كے مردوں كى قبروں كو بھى شامل اور شمار كرنے سے بھى دريغ نہ كرتا چنانچہ اس امر كى جانب قرآن نے اشارہ كرتے ہوئے بيان كيا ہے:

( أَلهَاكُم التَّكَاثُرُ، حَتَّى زُرتُم المَقَابرَ ) (۲)

''ايك دوسرے پر (كثرت افراد كى بنياد پر )فخر جتانے كى فكر نے تمہيں قبروں (كے ديدار )تك پہنچاديا ''(۳) _

معاشرتى نظام

جزيزہ نما ئے عرب كے اكثر و بيشتر لوگ اپنے مشاغل كے تقاضوں كے باعث صحرانشينى كى زندگى اختيار كئے ہوئے تھے _ كل آبادى كاصرف چھٹا حصہ ايسا تھا جو شہروں ميں آباد تھا ، شہروں ميں ان كے جمع ہونے كى وجہ يا تو اُن شہروںكا تقدس تھا يا يہ كہ ان ميں تجارت ہوتى تھى چنانچہ مكہ كو دونوں ہى اعتبار سے اہميت حاصل تھى اس كے علاوہ شہروں

۲۲

ميں آباد ہونے كى وجہ يہ بھى تھى كہ وہاں كى زمينين سرسبزو شاداب تھيں اور ان كى ضروريات پورى كرنے كيلئے ان ميں پانى كے علاوہ عمدہ چراگاہيں بھى موجود تھيں _ يثرب ' طائف' يمن ' حيرہ ' حضرموت اور غسان كا شمار ايسے ہى شہروں ميں ہوتا تھا_

عرب كے باديہ نشين (ديہاتى جنہيں بدو كہا جاتا ہے)اپنے خالص لب ولہجہ اور قومى عادت و خصلت كے اعتبار سے شہر نشين عربوں كے مقابل اچھے سمجھے جاتے تھے اسى لئے عرب كے شہرى اپنے بچوں كو چند سال كے لئے صحرائوں ميں بھيجتے تھے تاكہ وہاں ان كى پرورش اسى ماحول اور اسى تہذيب و تمدن كے گہوارے ميں ہوسكے_

ليكن اس كے مقابلے ميں شہروںميں آباد لوگوں كى سطح فكر زيادہ سيع اور بلند تھى اور ايسے مسائل كے بارے ميں ان كى واقفيت بھى زيادہ تھى جن كا تعلق قبيلے كے مسائل سے جدا اور ہٹ كر ہوتا تھا_

جبكہ صحرا نشين لوگوں كو شہرى لوگوں كے مقابل زيادہ آزادى حاصل تھي_ اپنے قبيلے كے مفادات كى خاطر ہر شخص كو يہ حق حاصل تھا كہ عملى طور پر وہ جو چاہے كرے اس معاملے ميں اہل قبيلہ بھى اس كى مدد كرتے تھے اسى لئے دوسروں سے جنگ و جدال اور ان كے مال ودولت كى لوٹ مار ان كے درميان ايك معمولى چيز بن گئي تھى _ چنانچہ عربوں ميں جنہوں نے شجاعت و بہادرى كے كارنامے سر انجام ديئے ہيں ان ميں سے اكثر وبيشتر صحرا نشين ہى تھے_

دين اور دينداري

زمانہ جاہليت ميںملك عرب ميں بت پرستى كا رواج عام تھا اور لوگ مختلف شكلوں ميں

۲۳

اپنے بتوں كى پوجا كرتے تھے اس دور ميں كعبہ مكمل طور پر بت خانہ ميں بدل چكا تھا جس ميں انواع و اقسام اور مختلف شكل و صورت كے تين سو ساٹھ سے زيادہ بت ركھے ہوئے تھے اور كوئي قبيلہ ايسا نہ تھا جس كا بت وہاں موجود نہ ہو_ حج كے زمانے ميں ہر قبيلے كے لوگ اپنے بت كے سامنے كھڑے ہوتے اس كى پوجا كرتے اور اس كو اچھے ناموںسے پكارتے نيز تلبيہ بھى كہتے تھے_(۴)

ظہور اسلام سے قبل يہود ى اور عيسائي مذہب كے لوگ بھى جو اقليت ميں تھے جزيرہ نمائے عرب ميں آباد تھے_ يہودى اكثر وبيشتر خطہ عرب كے شمالى علاقوں مثلاً يثرب' وادى القري' تيمائ' خيبراور فدك جيسے مقامات پر رہا كرتے تھے جبكہ عيسائي جنوبى علاقوں يعنى يمن اور نجران جيسى جگہوں پر بسے ہوئے تھے_

انہى ميں گنتى كے چند لوگ ايسے بھى تھے جو وحدانيت كے قائل اور خدا پرست تھے اور وہ خود كو حضرت ابراہيم عليہ السلام كے دين كے پيروكار سمجھتے تھے_ مورخين نے ان لوگوں كو حُنَفاء كے عنوان سے ياد كيا ہے_(۵)

بعثت رسول (ص) كے وقت عربوںكى مذہبى كيفيت كو حضرت على عليہ السلام نے اس طرح بيان كيا ہے :

(... وَاَهلُ الاَرض يَومَئذ: ملَلٌ مُتَفَرّقَة ٌوَاَهوَائٌ مُنتَشرَة ٌوطَرَائقُ مُتَشَتّتَةٌ بَينَ مُشَبّه للّه بخَلقه اَو مُلَحد: في اسمه اَو مُشير: الى غَيره فَهَدَاهُم به منَ الضَّلَالَة وَاَنَقَذَهُم بمَكَانه منَ الجَهَالَة) (۶)

اس زمانے ميں لوگ مختلف مذاہب كے ماننے والے تھے ان كے افكارپريشان اور

۲۴

ايك دوسرے كى ضد اور طريقے مختلف تھے بعض لوگ خدا كو مخلوق سے تشبيہ ديتے تھے (ان كا خيال تھاكہ خدا كے بھى ہاتھ پير ہيں اس كے رہنے كى بھى جگہ ہے اور اس كے بچے بھى ہيں) وہ خدا كے نام ميں تصرف بھى كرتے (اپنے بتوں كا نام خدا كے مختلف ناموں سے اخذ كركے ركھتے تھے مثلاً لات كو اللہ' عزّى كو عزيز اور منات كو منان كے ناموں سے اخذ كركے ركھا تھا)(۷) بعض ملحد لوگ خدا كے علاوہ دوسرى اشيا يعنى ماديات پر يقين ركھتے تھے (جس طرح دہريے تھے جو صرف طبيعت ، زمانہ ،حركات فلكيہ اورمرورمان ہى كو امور ہستى پر مؤثر سمجھتے تھے) _(۸) خداوند متعال نے پيغمبر (ص) كے ذريعے انہيں گمراہى سے نجات دلائي اور آپ (ص) كے وجود كى بركت سے انہيں جہالت كے اندھيرے سے باہر نكالا_

جب ہم بت پرستوں كے مختلف عقائد كا مطالعہ كرتے ہيں اور ان كا جائزہ ليتے ہيں تو اس نتيجے پر پہنچتے ہيں كہ انہيں اپنے بتوں سے ايسى زبردست عقيدت تھى كہ وہ ان كى ذراسى بھى توہين برداشت نہيں كرسكتے تھے اسى لئے وہ حضرت ابوطالب (ع) كے پاس جاتے اور پيغمبر (ص) كى شكايت كرتے ہوئے كہتے كہ وہ ہمارے خدائوں كو برا كہہ رہے ہيں اور ہمارے دين ومذہب كى عيب جوئي كر رہے ہيں(۹) _ وہ خدائے مطلق كے وجود كے معتقد اور قائل تو تھے اور اللہ كے نام سے اسے يادبھى كرتے تھے مگر اس كے ساتھ ہى وہ بتوں كو تقدس و پاكيزگى كا مظہر اور انہيں قابل پرستش سمجھتے تھے وہ يہ بات بھى اچھى طرح جانتے تھے كہ يہ بت ان كے معبود تو ہيں مگر ان كے خالق نہيں چنانچہ يہى وجہ تھى كہ جب رسول خدا (ص) ان سے گفتگو فرماتے تو يہ ثابت نہيں كرتے تھے كہ خداوند تعالى ان كا خالق ہے بلكہ ثبوت ودلائل كے ساتھ يہ فرماتے كہ خدائے مطلق ، واحد ہے اور ان لوگوںكے بنائے ہوئے معبودوں كى حيثيت و حقيقت كچھ بھى نہيں_

۲۵

قرآن مجيد نے مختلف آيات ميں اس حقيقت كى جانب اشارہ كيا ہے _يہاں اس كے چند نمونے پيش كئے جاتے ہيں:

( وَلَئن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرضَ لَيَقُولُنَّ الله ُ ) (۱۰)

''ان لوگوں سے اگر تم پوچھو كہ زمين اور آسمان كو كس نے پيدا كيا ہے ؟ تو يہ خود ہى كہيں گے كہ اللہ نے''_

اس كے علاوہ وہ بت پرستى كى يہ بھى توجيہ پيش كرتے تھے كہ :

( مَا نَعبُدُهُم إلاَّ ليُقَرّبُونَا إلَى الله زُلفَي ) (۱۰)

''ہم تو ان كى عبادت صرف اس لئے كرتے ہيں كہ وہ اللہ تك ہمارى رسائي كراديںگے_

دوسرے لفظوں ميں وہ يہ كہا كرتے تھے كہ:

( هَؤُلَائ شُفَعَاؤُنَا عندَ الله ) (۱۲)

''يہ اللہ كے ہاں ہمارے سفارشى ہيں''

تہذيب و ثقافت

زمانہ جاہليت كے عرب ناخواندہ اور علم كى روشنى سے قطعى بے بہرہ تھے _ ان كے اس جہل و ناخواندگى كے باعث ان كے پورے معاشرے پرجہالت اور خرافات سے اٹى بے ثقافتى حاكم تھى (وہ بے تہذيب لوگ تھے)_ ان كى كثير آبادى ميں گنتى كے چندلوگ ہى ايسے تھے جو لكھنا اور پڑھنا جانتے تھے(۱۳)

دور جاہليت ميں عرب تہذيب و تمدن كے نماياں ترين مظہر حسب ونسب كى پہچان،

۲۶

شعر گوئي اور تقارير ميں خوش بيانى جيسے اوصاف تھے_ چنانچہ عيش وعشرت كى محفل ہو ، ميدان كارزارہو يا قبائلى فخر فروشى كا ميدان غرض وہ ہرجگہ پرشعر گوئي يا جادو بيان تقارير كا سہارا ليتے تھے_

اس ميں شك نہيں كہ اسلام سے قبل عربوں ميں شجاعت، شيرين بياني، فصاحت و بلاغت مہمان نوازي، لوگوں كى مدد اور آزادى پسندى جيسى عمدہ خصوصيات و صفات بھى موجود تھيں مگر ان كے رگ و پے ميں سرايت كر جانے والى قابل مذمت عادات و اطوار كے مقابلے ميں ان كى يہ تمام خوبياں بے حقيقت بن كر رہ گئي تھيں_ اس كے علاوہ ان تمام خوبيوں اور ذاتى اوصاف كا اصل محرك، انسانى اقدار اور قابل تحسين باتيں نہ تھيں _

زمانہ جاہليت كے عرب طمع پرورى اور مادى چيزوں پر فريفتگى كا كامل نمونہ تھے_ وہ ہر چيز كو مادى مفاد كے زاويے سے ديكھتے تھے_ ان كى معاشرتى تہذيب بے راہروى ، بد كردارى اور قتل و غارتگرى جيسے برے افعال و اعمال پر مبنى تھى اور يہى پست حيوانى صفات ان كى سرشت اور عادت و جبلت كا جز بن گئي تھيں_

دور جاہليت ميں عربوں كى ثقافت ميں اخلاقيات كى توجيہ و تعبير دوسرے انداز ميں كى جاتى تھى _ مثال كے طور پر غيرت، مروت اور شجاعت كى تعريف تو كرتے تھے مگر شجاعت سے ان كى مراد سفاكى اور دوسروں كے قتل و خونريزى كى زيادہ سے زيادہ طاقت ہوتى تھي_ غيرت كا مفہوم ان كے تمدن ميں لڑكيوں كو زندہ دفن كردينا تھا_ اور اپنے اس طريقہ عمل سے اپنى غيرت كى نماياں ترين مثال پيش كرتے تھے _ ايفائے عہد كا مطلب وہ يہ سمجھتے تھے كہ حليف يا اپنے قبيلے كے افراد كى ہر صورت ميں حمايت كريں چاہے وہ حق پر ہويا باطل پر_

۲۷

توہم پرستى اور خرافات كى پيروي

طلوع اسلام كے وقت دنيا كى تمام اقوام كے عقائد ميں كم وبيش خرافات ، توہمات اور افسانے و غيرہ شامل تھے _ اس زمانے ميں يونانى اور ساسانى اقوام كا شمار دنيا كى سب سے زيادہ ترقى يافتہ اقوام ميں ہوتا تھا _ چنانچہ ان لوگوں كے اذہان اور افكار پر انہى كے قصوں اور كہانيوں كا غلبہ تھا _يہ بھى ايك حقيقت ہے كہ تہذيب وتمدن اور علم كے اعتبار سے جو بھى معاشرہ جس قدر پسماندہ ہوگا اس ميں توہمات و خرافات كا اتنا ہى زيادہ رواج ہوگا _ جزيرہ نما ئے عرب ميں توہمات اور خرافات كا رواج عام تھا ان كے بہت سے واقعات تاريخ نے اپنے سينے ميں محفوظ كرركھے ہيں _ يہاں بطور مثال چند نمونے پيش كئے جاتے ہيں:

۱_ايسى آنتوں اور ڈوريوں و غيرہ كو جنہيں كمانوں كى تانت بنانے كے كام ميں لاياجاتا تھا لوگ اپنے اونٹوں اور گھوڑوں كى گردنوں نيز سروں پر لٹكادياكرتے تھے _ ان كا عقيدہ تھا كہ ايسے ٹوٹكوں سے ان كے جانور بھوت پريت كے آسيب سے بچے رہتے ہيں اور انہيں كسى كى برى نظر بھى نہيں لگتى _ نيز جنگ اور لوٹ ماركے موقع پر بلكہ ہر موقع پر انہيں دشمنوں كى گزند سے محفوظ ركھنے ميں بھى يہ ٹوٹكے مؤثر ہيں_(۱۴)

۲_خشك سالى كے زمانے ميں بارش لانے كى غرض سے جزيرہ نما ئے عرب كے بوڑھے اور كاہن لوگ ''سَلَع'' نامى درخت (جس كا پھل كڑوا ہوتا ہے) اور ''عُشَر'' نامى پيڑ(جس كى لكڑى جلدى جل جاتى ہے) كى لكڑيوں كوگائے كى دُموں اور پيروں ميں باندھ ديتے اور انہيں پہاڑوں كى چوٹيوں تك ہانك كر لے جاتے_ اس كے بعد وہ ان لكڑيوں كو آگ لگاديتے _ آگ كے شعلوں كى تاب نہ لاكر ان كى گائے

۲۸

ادھر ادھر بھاگنے لگتى اور سرمار مار كر ڈكرانا شروع كرديتي_ ان كے خيال ميں ان گائيوں كے ڈكرانے اور بے قرارى كرسے پانى برسنے لگے گا _ شايد اس گمان سے كہ جب بارش بھيجنے والا مؤكل يا خدا (ورشا ديوى يا جل ديوتا) ان گائيوں كو تڑپتا ہوا ديكھيں گے تو ان كى پاكيزگى اورتقدس كى خاطر جلد ہى بادلوں كو برسنے كيلئے بھيج ديں گے_(۱۵)

۳_وہ مردوں كى قبروں كے پاس اونٹ نحر كركے اسے گڑھے ميں ڈال ديتے _ ان كا يہ عقيدہ تھا كہ ان كے اس كا م سے صاحب قبر عزت واحترام كے ساتھ اونٹ پر سوارمحشر ميں واردہوگا_(۱۶)

عہد جاہليت ميں عورتوں كا مقام

دورجاہليت كے عرب عورتوں كى قدر ومنزلت كے ذرہ برابر بھى قائل نہ تھے_ وہ ہر قسم كے انفرادى و اجتماعى حقوق سے محروم تھيں_ اس عہد جاہليت كے معاشرتى نظام ميں عورت صرف ورثے سے ہى محروم نہيں ركھى جاتى تھى بلكہ خود اس كا شمار بھى اپنے باپ' شوہر يا بيٹے كى جائداد ميں ہوتا تھا _ چنانچہ مال و جائداد كى طرح اسے بھى ورثے اور تركے ميں تقسيم كردياجاتا تھا _

عرب قحط سالى كے خوف يا اس خيال سے كہ لڑكيوں كا وجود ان كى ذات كےلئے باعث ننگ و عيب ہے انہيں پيدا ہوتے ہى زمين ميں زندہ گاڑديتے تھے_

اپنى معصوم لڑكيوں سے انہوں نے جو غير انسانى و ناروا سلوك اختيار كر ركھا تھا اس كى مذمت كرتے ہوئے قرآن مجيد فرماتا ہے:

۲۹

( وَإذَا بُشّرَ أَحَدُهُم بالأُنثَى ظَلَّ وَجهُهُ مُسوَدًّا وَهُوَ كَظيمٌ _ يَتَوَارَى من القَوم من سُوئ مَا بُشّرَ به أَيُمسكُهُ عَلَى هُون: أَم يَدُسُّهُ فى التُّرَاب أَلاَسَائَ مَا يَحكُمُونَ ) (۱۷)

''جب ان ميں سے كسى كو بيٹى كے پيدا ہونے كى خبر دى جاتى ہے تويہ سنتے ہى اس كا چہرہ سياہ پڑ جاتا ہے اور وہ بس خون كا گھونٹ سا پى كر رہ جاتا ہے_ لوگوں سے منھ چھپاتا پھرتا ہے كہ برى خبر كے بعد كيا كسى كو منہ دكھائے _ سوچتا ہے كہ ذلت كے ساتھ بيٹى كو لئے رہے يا مٹى ميں دبا دے بے شك وہ لوگ بہت برا كرتے ہيں''_

دوسرى آيت ميں بھى قرآن مجيد انہيں اس برى اور انسانيت سوز حركت كے بد-لے خداوند تعالى كى بارگاہ ميں جوابدہ قرار ديتا ہے _ چنانچہ ارشاد فرماتا ہے:

( وَإذَا المَوئُودَةُ سُئلَت بأَيّ ذَنب: قُتلَت ) _(۱۸)

''او رجب زندہ گاڑى ہوئي لڑكى سے پوچھا جائے گا كہ وہ كس قصور ميں مارى گئي''_

سب سے زيادہ افسوس ناك بات يہ تھى كہ ان كے درميان شادى بياہ كى ايسى رسومات رائج تھيں كہ ان كى كوئي خاص بنياد نہ تھى وہ اپنى شادى كے لئے كسى معين حد كے قائل نہ تھے(جتنى بھى دل كرتا بيوياں اپنے پاس ركھتے تھے)_ مہر كى رقم ادا كرنے كى ذمہ دارى سے سبكدوش ہونے كيلئے وہ انہيں تكليف اور اذيت ديتے تھے _ كبھى وہ اپنى زوجہ پر بے عصمت ہونے كا نارواالزام لگاتے تاكہ اس بہانے سے وہ مہر كى رقم ادا كرنے سے بچ جائيں _ ان كا باپ اگر كسى بيوى كو طلاق دے ديتا ' يا خود مرجاتا تو اس كى بيويوں سے شادى كرلينا ان كيلئے كوئي مشكل نہ تھانہ ہى قابل اعتراض تھا_

۳۰

حرمت كے مہينے

دور جاہليت كے تہذيب و تمدن ميں ذى القعدہ ' ذى الحجة ' محرم اور رجب چار مہينے ايسے تھے جنہيں ماہ حرام سے تعبير كياجاتا تھا _ ان چار ماہ كے دوران ہر قسم كى جنگ و خونريزى ممنوع تھي_ البتہ اس كے بدلے تجارت ' ميل ملاقات' مقامات مقدسہ كى زيارت اوردينى رسومات كى ادائيگى اپنے عرو ج پر ہوتى تھيں_

اور چونكہ قمرى مہينے سال كے موسموں كے لحاظ سے آہستہ آہستہ بدلتے رہتے تھے اوربسا اوقات يہ موسم ان كى تجارت و غيرہ كےلئے سازگار اور مناسب نہ ہوتے اسى لئے وہ قابل احترام مہينوں ميں تبديلى كرليا كرتے تھے_ قرآن مجيد نے انہيں ''النسيئ'' كے عنوان سے ياد كيا ہے_(۱۹) چنانچہ فرماتاہے:

( إنَّمَا النَّسيئُ زيَادَةٌ فى الكُفر )

''حرام ہينوں ميں تبديلى اور تاخير تو ان كے كفر ميں ايك اضافہ ہے''_(۲۰)

۳۱

سوالات

۱_ جزيرہ نمائے عرب كا محل وقوع بتايئے؟

۲_ فاتحين كس وجہ سے جزيرہ نمائے عرب كى طرف توجہ نہيں ديتے تھے؟

۳_ جزيرہ نمائے عرب كى اسلام سے قبل معاشرتى حالت كيا تھي؟ صراحت سے

بيان كيجئے؟

۴_ دور جاہليت كے عربوںميں كس قسم كا مسلك زيادہ رائج تھا؟

۵_ كيا عربوں كا خدا پراعتقاد تھا؟ قرآن مجيد سے كوئي ايك دليل پيش كيجئے؟

۶_ عربوں ميں كس قسم كے توہمات و خرافات كا رواج تھا اس كى ايك مثال پيش كيجئے؟

۷_ عہد جاہليت ميں عورت كا كيا مقام تھا؟

۳۲

حوالہ جات

۱_ معجم البلدان ج ۲ ' ۶۳ و ۲۱۹

۲_ سورہ التكاثر آيت ۱و ۲

۳_ اصل كتاب ميں اسى طرح ترجمہ ہوا ہے _ مترجم

۴_تاريخ يعقوبى ، ج ۱، ص ۲۵۵ ، تلبيہ '' لَبَّيْكَ اللّہُمَ لَبَّيْكَ'' كہنے كا نام ہے _ مترجم _ہر قبيلے كا لبيك كہنے كا ايك مخصوص طريقہ تھا مزيد معلومات كے لئے مذكور ماخ كا مطالعہ فرمائيں_

۵_ تاريخ پيا مبر اسلام (ص) ، ص ۱۳ ، علامہ آيتى مرحوم نے اس عنوان كے تحت چودہ ايسے افراد كے نام بھى بيان كئے ہيں جن كا شمار حنفا ميں ہوتا تھا_

۶_نہج البلاغہ خطبہ ۱ ص ۴۴ ، مرتبہ صبحى صالح

۷_ملاحظہ ہو : تفسير مجمع البيان ج ۴، ص ۵۰۳ سورہ اعراف آيت ۱۸۰ كے ذيل ميں

۸_زمانہ جاہليت كے عربوں كے عقائد سے مزيد واقفيت كے لئے ملاحظہ ہو: شرح ابن ابى الحديد ج ۱ صفحہ ۱۱۷

۹_السيرہ النبويہ ، ج۱ ، ص ۲۸۳_ ۲۸۴

۱۰_سورہ زمر آيت ۳۸

۱۱_سورہ زمر آيت ۳

۱۲_ سورہ يونس آيت ۱۷

۱۲_بلاذرى لكھتا ہے كہ ظہور اسلام كے وقت قريش ميں سے صرف سترہ افراد ايسے تھے جو لكھنا پڑھنا جانتے تھے (ملاحظہ ہو فتوح البلدان صفحہ ۴۵۷)

۱۴_اسلام و عقائد وآراء بشرى ص ۴۹۱

۱۵_لسان العرب، ج ۹ ، ص ۱۶۱، ملاحظہ ہو : لفظ ''سَلَعَ'' نيز اسلام و عقائد و آراء بشرى ، صفحہ ۵۰۱

۳۳

۱۶_اسلام و عقائد و آراء بشرى صفحہ ۵۰۹

۱۷_ سورہ نحل آيت ۵۸_ ۵۹

۱۸_سورہ تكوير آيت ۸، ۹

۱۹_''نسيء ''لفظ ''نساء '' سے مشتق ہے ' جس كے معنى ' تاخير ميں ڈالنا ہے_ عہد جاہليت كے عرب كبھى كبھى قابل احترام مہينوں ميں تاخير كرديا كرتے تھے _ مثال كے طور پر وہ ماہ محرم كى جگہ ماہ صفر كو قابل احترام مہينہ بناليتے تھے_

۲۰_سورہ توبہ آيت ۳۷_

۳۴

سبق ۳:

پيغمبر اكرم (ص) كا نسب اور آپ(ص) كى ولادت با سعادت

۳۵

رسول خدا (ص) كا تعلق خاندان بنى ہاشم اور قبيلہ قريش سے ہے _ جزيرہ نما ئے عرب ميں تين سو ساٹھ(۳۶۰) قبيلے آباد تھے ان ميں قريش شريف ترين اور معروف ترين قبيلہ تھا نسب شناس ماہرين كى اصطلاح ميں قريش انہيں كہا جاتا ہے جو آنحضرت (ص) كے بار ہويں جدا مجد حضرت نضر بن كنانہ كى نسل سے ہوں _(۱)

آپ كے چوتھے جد اعلى حضرت قصى بن كلاب كا شمار قبيلہ قريش كے معروف اور سركردہ افراد ميں ہوتا تھا _ انہوں نے ہى كعبہ كى توليت اور كنجى ، قبيلہ ''خزاعہ'' كے چنگل سے نكالى تھي_ اور حرم كے مختلف حصوں ميں اپنے قبيلے كے افراد كو آبادكركے كعبہ كى توليت سنبھالى تھى _(۲)

معروف مورخ يعقوبى لكھتا ہے كہ ''قصى بن كلاب'' وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے قبيلہ قريش كو عزت و آبرو بخشى اور اس كى عظمت كو اجاگر كيا(۳)

قبيلہ قريش ميں بھى خاندان بنى ہاشم سب سے زيادہ نجيب و شريف شمار ہوتا تھا _

رسول خدا (ص) كے آباء و اجداد

مورخين نے آنحضرت (ص) كے آباء و اجداد ميں حضرت عدنان تك اكيس پشتوںكے نام بيان كئے ہيں درج ذيل ترتيب وار اسماء پر سب متفق الرائے ہيں:

۳۶

حضرت عبداللہ (ع) ، حضرت عبدالمطلب(ع) ، حضرت ہاشم(ع) ، حضرت عبدمناف (ع) ، حضرت قصي(ع) ، حضرت كلاب(ع) ، حضرت مرہ(ع) ، حضرت كعب(ع) ، حضرت لوي(ع) ، حضرت غالب(ع) ، حضرت فہر(ع) ، حضرت مالك(ع) ، حضرت نضر(ع) ، حضرت كنانہ(ع) ، حضرت خزيمہ(ع) ، حضرت مدركہ(ع) ، حضرت الياس(ع) ، حضرت مضر (ع) ، حضرت نزار(ع) ، حضرت معد (ع) اور حضرت عدنان(ع) _(۴)

حضرت عدنان سے اوپر حضرت ابراہيم (ع) تك اور حضرت ابراہيم خليل (ع) سے حضرت آدم صفى اللہ (ع) تك كى ترتيب كے بارے ميں اختلاف ہے _ اس سلسلے ميں پيغمبر اكرم (ص) كى ايك روايت بھى بيان كى گئي ہے_

(اذَا بَلَغَ نَسَبَيُ الى عَدُنَانَ فَامسُكُوا) (۵)

''جب ميرے نسب كے بارے ميں حضرت عدنان تك پہنچو تو توقف كرو (اور آگے مت بڑھو) ''_

ہم يہاں مختصر طور پر آپ (ص) كے چند قريبى آباء و اجداد كا حال بيان كريں گے_

حضرت عبدمناف (ع)

حضرت قصى كے عبدالدار، عبدمناف ، عبدالعزى اور عبد قصى نامى چار فرزند تھے_ جن ميں حضرت عبدمناف سب سے زيادہ شريف، محترم اور بزرگ سمجھے جاتے تھے(۶) حضرت عبدمناف كا اصل نام ''مغيرہ'' تھا _ انہيں اپنے والد محترم كے ہاں نيز لوگوں كے درميان خاص مرتبہ ا ور مقام حاصل تھا_ وہ بہت زيادہ سخى اور وجيہہ انسان تھے اسى وجہ سے انہيں ''فياض(۷) '' اور'' قمرالبطحاء(۸) '' كے القاب سے نوازا گيا ہے پرہيزگارى ،خوش اخلاقي' نيك چلن اور صلہ رحمى جيسے اوصاف كى طرف دعوت ان كى زندگى كا شعار تھا_(۹)

۳۷

ان كى نظر ميں دنيوى مقامات و مراتب ہيچ تھے_ وہ اہل منصب لوگوں سے حسد بھى نہيں كرتے تھے_ اگر چہ كعبہ كے تمام عہدے اور مناصب ان كے بڑے بھائي عبدالدار كے پاس تھے مگر ان كى اپنے بھائي سے كوئي شكر رنجى نہيں تھي_

حضرت ہاشم (ع)

حضرت قصى (ع) كے فرزند، مكہ سے متعلق معاملات اور كعبہ كى توليت اور انتظام جيسے امور كو كسى اختلاف و قضيے كے بغير انجام ديتے رہے_ مگر ان كى وفات كے بعد عبدالدار اور عبدمناف كى اولاد كے درميان كعبہ كے عہدوں كے بارے ميں اختلاف ہوگيا _ بالآخر اتفاق اس بات پر ہوا كہ كعبہ كى توليت اور دارالندوہ(۱۰) كى صدارت عبدالدار كے فرزندوں كے پاس ہى رہے اور حاجيوں كو پانى پلانے نيز ان كى پذيرائي كا معاملہ حضرت عبدالمناف كے لڑكوں كى تحويل ميں دے ديا جائے _(۱۱) حضرت عبدمناف كے فرزندوں ميں يہ عہدہ حضرت ہاشم كے سپرد كيا گيا _(۱۲)

حضرت ہاشم اور ان كے بھائي عبدالشمس جڑواں پيدا ہوئے تھے پيدائشے كے وقت دونوں كے بدن ايك دوسرے سے جڑے ہوئے تھے _ جس وقت انہيں ايك دوسرے سے جدا كيا گيا تو بہت سا خون زمين پر بہہ گيا اور عربوں نے اس واقعہ كو سخت بدشگونى سے تعبير كيا_

اتفاق سے يہ بدشگونى اپنا كام كر گئي اور حضرت ہاشم اور عبدالشمس كے لڑكوں ميں ہميشہ كشمكش اور لڑائي رہي_

عبدالشمس كا لڑكا اميہ پہلا شخص تھا جس نے حضرت ہاشم كى مخالفت شروع كى _ اس نے جب فرزندان عبدمناف ميں سے حضرت ہاشم ميں عزت و شرف اور بزرگوارى جيسے

۳۸

اوصاف پائے تو ان سے حسد كرنے لگا اور اپنے چچا كے ساتھ مخاصمت اور مخالفت پر اتر آيا چنانچہ يہيں سے بنى ہاشم اور بنى اميہ كے درميان اختلاف اوردشمنى شروع ہوئي جو ظہور اسلام كے بعد بھى جارى رہي_(۱۳)

حضرت ہاشم اپنى ذمہ دارى نبھانے ميں كوئي دقيقہ فرو گذاشت نہيں كرتے تھے چنانچہ جيسے ہى حج كا زمانہ شروع ہوتا تھا وہ قبيلہ قريش كى پورى طاقت و قوت اور تمام وسائل اور امكانات حجاج بيت اللہ كى خدمت كيلئے بروئے كار لاتے اور زمانہ حج كے دوران جس قدر پانى اور خوراك كى انہيں ضرورت ہوتى وہ اسے فراہم كرتے_

لوگوں كى خاطر دارى 'مہمان نوازى اور حاجتمندوں كى مدد كرنے ميں وہ بے مثال و يكتائے روزگار تھے_ اسى وجہ سے انہيں ''سيدالبطحائ(۱۴) '' كے لقب سے ياد كياجاتا تھا_

حضرت ہاشم (ع) كے پاس اونٹ كافى تعداد ميں تھے _ چنانچہ جس سال اہل مكہ قحط اورخشك سالى كا شكار ہوئے تو انہوں نے اپنے بہت سے اونٹ قربان كرديئے اور اس طرح لوگوں كےلئے كھانے كا سامان فراہم كيا _(۱۵)

حضرت ہاشم (ع) كے انحصارى اور نماياں كارناموں ميں سے ايك ان كايہ كارنامہ بھى تھا كہ انہوں نے قريش كى محدود كاروبارى منڈيوں كو جاڑوں اور گرميوں كے موسم ميں لمبے تجارتى سفروں كے ذريعے وسيع كيا (دوسرے لفظوں ميں لوكل بزنس كو امپورٹ ايكسپورٹ بزنس ميں ترقى دى _ مترجم)اور اس علاقے كى اقتصادى زندگى ميں حركت پيدا كى(۱۶)

حضرت ہاشم (ع) كا انتقام بيس يا پچيس سال كى عمر ميں ايك تجارتى سفر كے دوران ''غزہ''(۱۷) ميں ہوا_

۳۹

حضرت عبدالمطلب(ع)

حضرت ہاشم (ع) كى وفات كے بعد ان كے بھائي ''مطلب'' كو قبيلہ قريش كا سردار مقرر كيا گيا اور جب ان كى وفات ہوگئي تو حضرت ہاشم (ع) كے فرزند حضرت ''شيبہ(ع) '' كو ، جنہيں لوگ عبدالمطلب(ع) كہتے تھے قريش كى سردارى سپرد كى گئي_

حضرت عبدالمطلب(ع) كو اپنى قوم ميں خاص مقام و مرتبہ حاصل تھا اور لوگوں ميں وہ بہت مقبول اور ہر د ل عزيز تھے جس كا سبب وہ مختلف اچھے اوصاف اور فضائل تھے جو ان كى ذات ميں جمع ہوگئے تھے _ وہ عاجز و مجبور لوگوں كے حامى اور ان كے پشت پناہ تھے ، ان كى جود وبخشش كا يہ عالم تھا كہ ان كے دسترخوان سے صرف انسان ہى نہيں بلكہ پرندے اور حيوانات تك بھى فيضياب ہوتے اسى وجہ سے انہيں''فياض'' كا لقب ديا گيا تھا_(۱۸)

رسول خدا (ص) كے دادا بہت ہى دانشمند و بردبار شخص تھے _ وہ اپنى قوم كو اخلاق حسنہ ، جورو ستم سے كنارہ كشى ' برائيوں سے بچنے اور پست باتوںسے دور رہنے كى تعليم ديتے _ ان كا موقف يہ تھا كہ ''ظالم آدمى اپنے كئے كى سزا اسى دنيا ميں ہى پاتا ہے او ر اگر اسے اپنے كئے كا بدلہ اس دنيا ميں نہيںملتاتو آخرت ميں يہ سزا اسے ضرور ملے گي''_(۱۹)

اپنے اس عقيدے كى بناپر انہوں نے اپنى زندگى ميں نہ توكبھى شراب كو ہاتھ لگايا' نہ كسى بے گناہ كو قتل كيا اور نہ ہى كسى برے كام كى طرف رغبت كى بلكہ اس كے برعكس انہوں نے بعض ايسے نيك كاموں كى بنياد ركھى جن كى دين اسلام نے بھى تائيد كى ، ان كى قائم كردہ بعض روايات درج ذيل ہيں :

۱_باپ كى كسى زوجہ كو بيٹے كيلئے حرام كرنا

۲_مال و دولت كا پانچواں حصہ (خمس) راہ خدا ميں خرچ كرنا_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313