تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي20%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167324 / ڈاؤنلوڈ: 4209
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

۱۴ ۔سورہ ٔشعر ا کی ۲۰۸ ویںآیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَااَهْلَکنامِنْ قَرْ یَةٍٍا اِلَّا لَهامُنذِرُونَ )

ہم نے کسی دیا ر والوں کو ہلا ک نہیں کیا مگر یہ کہ ان کے درمیان ڈرانے والے پیغمبر بھیجے۔

۱۵ ۔سورہ ٔ اسرا ء کی ۱۰۱ آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلََقَد ْاتَینامُوسیٰ تِسعَ آیاتٍٍ بَینّات ٍفَسئل بنی اِسرا ئیلَ اِذجائَ هُمْ فَقَال لَهُ فِرْعُونُ اِنّی لَاَظُنُّکَ یَامُوسیٰ مَسْحُورا ) ً)

ہم نے موسیٰ کو نہ گا نہ آشکار ا معجزے عطا کئے بنی اسرا ئیل سے سوال کروجب ان کی طرف موسیٰ آئے اور فرعون نے ان سے کہا : اے مو سیٰ ! میرے خیال میں تم پر جادو کر دیا گیا ہے.

۱۶ ۔ موسیٰسے خطا ب کرتے ہوئے سور ہ ٔ نمل کی ۱۲ ویںاور ۱۳ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَاَدخِلْ یَدَک فی جَیبِکَ تَخْرُ جْ بَیضائَ مِنْ غَیرِ سوء ٍ فی تِسعِ آیاتٍ الیٰ فِرعَون وَقَومِه انَّهُم کٰانُواْ قَوْماًًفَاسِقینَ٭فَلَمّاجائَ تْهُمْ آیٰا تُنامُبصِرةً قالُواهذاسِحْرُمُبینُ )

اے موسیٰ ! اپنے ہا تھ کو اپنے گر یبان کے اند ر لے جاؤ اور جب باہر لا ؤ گے تو بغیر کسی داغ دھبّے کے سفید ( نورا نی اور نور افشاں) ہو جا ئے گا اس وقت دیگر معجز وں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے فاسق لوگوں کے درمیان بھیجے جا ؤ گے .جب موسیٰ نے ہمارے معجزات دکھلائے تو انھو نے کہا: یہ تو کھلا ہوا سحر ہے۔

۱۷ ۔ سورہ ٔ رعد کی ۳۸ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلَقَدْ اَرْسَلنَا رُسُلاً مِن قبلکَ وَجَعلنَا لَهُم اَزوَاجاً وَذُریةً وَمَا کَانَ لِرسُولٍ ان یَأتی بِٰایة لّابِاذْنِ اللّٰهِ... )

ہم نے تم سے پہلے کچھ پیغمبروں کو بھیجا جو تمہاری ہی طرح سے بیو ی بچے والے تھے اور کسی بھی پیغمبر کے لئے روا نہیں کہ بغیر خدا وند عا لم کی اجازت اور اس کے اذن کے ،معجزہ پیش کرے.

۲۱

۱۸۔ سورہ ٔ غا فر کی ۷۸ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلََقَدْاَرسَلنَارُسُلاًمِن قَبلکَ مِنهُمِ مَن قَصَصنَاعَلیکَ وَمِنهُمْ مَن لَمْ نَقْصَص عَلیکَ وَمَاکَانَ لِرسُولٍ اَن یَأ تی بِاٰیةاِلّابِاذنِ اللّٰهِ... )

ہم نے تم سے پہلے پیغمبروں کو بھیجا ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کی داستان تم سے بیان کی.

اور کچھ ایسے ہیں جن کا قصہ تم سے بیان نہیں کیا،کسی بھی پیغمبر کے لئے روا نہیں ہے کہ خدا کی اجازت اور اس کے اذن کے بغیر معجزہ دکھا ئے:

۱۹ ۔ سورہ ٔ حج کی ۴۲ ویں سے ۴۵ ویں آ یت تک میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَِنْ یُکَذِّ بُوکَ فَقَدْ کَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَاد وَثَمُودُ٭ وَقَوْمُ اِبْرَاهِیمَ وَقَوْمُ لُوطٍ ٭ وََصْحَابُ مَدْیَنَ وَکُذِّبَ مُوسَی فََمْلَیْتُ لِلْکَافِرِینَ ثُمَّ َخَذْتُهُمْ فَکَیْفَ کَانَ نَکِیرٍ٭ فَکََیِّنْ مِنْ قَرْیَةٍ َهْلَکْنَاهَا وَهِیَ ظَالِمَة فَهِیَ خَاوِیَة عَلَی عُرُوشِهَا واَبِئْرٍ مُعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَشِیدٍ ٭ )

اور اگر انھو نے تمہاری تکذ یب کی ہے تو ان سے پہلے، نو ح، عا داور ثمو د کی قوم نے بھی ( اپنے رسولوں کی) تکذ یب کی ہے۔ اور ابرا ہیم اور لو ط کی قو موں اورمد ین کے رہنے والوں (قوم شعیب) نے بھی اپنے رسولوں کی تکذ یب کی ہے اور مو سیٰ بھی جھٹلا ئے گئے ہیں.ہم نے کافرو کو مہلت دی پھر اس وقت ان کا مو اخذہ کیا (سزا دی) پھر ہماری سزا کیسی تھی؟.بہت ساری آبا دی (جن کے رہنے وا لے ) ظالم اور ستمگر تھے ہم نے ہلاک کر ڈا لیں جن کی چھتیں اور دیوار گر کرمنہدم اور بنیا د سے ہی ویرا ن اور خالی ہوگئیں اور کنو یں کے پا نی بے مصرف اور عا لی شان قصر بغیر مکین کے رہ گئے ہیں.

۲۰ ۔ سورہ ٔ احزاب کی ۴۵ ویں اور ۴۶ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( یاَاَیَّهُااَلنبَّی اِنَّااَرَسَلْنَاکَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذیرًا ٭وَدَاعِیاًًاِلیٰ اللّٰهِ بِِذنِه وَسِرَاجاً مُنیرًا )

اے پیغمبر! ہم نے تمہیں گواہی دینے والا، بشا رت دینے والا، ڈرا نے والا اور اپنے اذن سے لوگوں کو ﷲ کی طرف بلانے والااور روشن چرا غ بنا کر بھیجا۔

۲۱ ۔سورہ ٔ سبا کی ۲۸ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَااَرَسَلنَاکَ اِلاّ کَافّة ً لِلنََاّسِ بَشِیراًًوّنَذ یراًً... )

ہم نے تمھیں تمام لو گو کے لئے بشا رت دینے وا لا اور ڈا رنے وا لا پیغمبر بنا کر بھیجا۔

۲۲

۲۲۔سورہ ٔ اسراء کی ۸۸ ۔ ۹۵ آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی َنْ یَْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لاَیَْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیرًا ٭ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِی هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ فََبَی َکْثَرُ النَّاسِ ِلاَّ کُفُورًا ٭ وَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتَّی تَفْجُرَ لَنَا مِنْ الَرْضِ یَنْبُوعًا ٭ َوْ تَکُونَ لَکَ جَنَّة مِنْ نَخِیلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الَنهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِیرًا ٭ َوْ تُسْقِطَ السَّمَائَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا َوْ تَْتِیَ بِﷲ وَالْمَلَائِکَةِ قاَبِیلًا ٭ َوْ یَکُونَ لَکَ بَیْت مِنْ زُخْرُفٍ َوْ تَرْقَی فِی السَّمَائِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتَّی تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتَابًا نَقْرَؤُه قُلْ سُبْحَانَ راَبِی هَلْ کُنتُ ِلاَّ بَشَرًا رَسُولًا ٭ وَمَا مَنَعَ النَّاسَ َنْ یُؤْمِنُوا إِذْ جَائَهُمُ الْهُدَی ِلاَّ َنْ قَالُوا َبَعَثَ ﷲ بَشَرًا رَسُولًا ٭ قُلْ لَوْ کَانَ فِی الَرْضِ مَلَائِکَة یَمْشُونَ مُطْمَئِنِّینَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْهِمْ مِنَ السَّمَائِ مَلَکًا رَسُولًا ٭ )

اے پیغمبر :کہو! اگر جن و انس متفق ہو جائیں تا کہ اس کے مانند قرآن پیش کریں ہرگز ایسا نہیں کر سکتے خواہ ایک دوسرے کے پشت پناہ اور مدد گار بن جائیں. ہم نے اس قرآن میں ہر طرح کی مثال دی ہے، لیکن اکثر لو گوں نے ناشکری کے علا وہ کوئی اور کام نہیں کیا اور کہا: ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے مگر یہ کہ زمین سے پانی کا چشمہ جاری کرو.

یا یہ کہ تمہارا انگو ر اورخر ما کا باغ ہو جس کے درمیا ن پا نی کی نہر یں جا ری ہوں یا جیسا کہ کہتے ہو آسمان سے کو ئی ٹکڑا ہمارے سر پر گرا دو یا خدا اور ملائکہ کو ہمارے سا منے حا ضر کر و. یا یہ کہ سونے کا تمہارے کو ئی گھر ہو یا آسمان پر جاؤ اور ہم تمہارے آسمان کی بلندی پر جا نے کا اُس وقت تک یقین نہیں کر یں گے جب تک کہ ہمارے اوپر کوئی ایسی کتا ب نازل نہ کرو کہ جسے ہم پڑ ھیں. کہو! ہمارا خدا پاک اور منزہ ہے.کیا میں انسا ن کے علا وہ کچھ ہوں جو خدا کی طرف سے رسالت کے لئے مبعوث ہوا ہوں؟! لوگوں کو ایمان و ہدایت سے کسی نے نہیں رو کا جب کہ اُن کے لئے قرآن آیا، لیکن انھوں نے انکا ر کرتے ہوئے کہا:کیا خدا نے کسی انسان کو پیغمبری کے لئے مبعوث کیا ہے؟! کہو اگر زمین میں فر شتوں کا رہنا ہوتا اور ان کی سکو نت کی جگہ ہوتی تو یقینا ہم آسمان سے ان کی رسا لت کے لئے کسی فر شتے کو مبعو ث کرتے۔

۲۳

کلمات کی تشریح

۱۔ یصطفی:

( صفو) کے مادہ سے فعل مضا رع ہے جوکہ خا لص نچوڑ اور ہر چیز سے منتخب شدہ کے معنی میں ہے اور (اصطفا ئ) عصا رہ اور خالص شیء پر دستر سی کے معنی میں ہے .اصطفائ، اسلامی اصطلا ح میں یعنی خدا وند عالم نے اپنے بندے کو شکوک و شبہات اور دوسروں میں پا ئی جانے والی گند گی سے پاک و پاکیزہ قرار دیا ہے یا اسے دوسروں پر انتخاب کیا ہے۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خلقت کا نچوڑ، اس کاخلا صہ اور خدا کے بر گز یدہ ہیں اور سارے انبیاء خدا کے برگزیدہ ہیں۔

۲۔ اَوْحَےْنَا:

( وحی ) کے مادہ سے متکلم مع الغیر کا صیغہ ہے( جسے اردو میں جمع متکلم کہا جا تا ہے) جو لغت میں پو شیدہ طور پر آگاہ کر نے کے معنی میں استعما ل ہوتا ہے لیکن جب اسلامی اصطلا ح میں یہ کہا جائے: خدا وند عا لم نے فلاں چیز کی اپنے بر گز یدہ بندہ پر وحی کی یعنی: اُ سے اس کے دل میں جگہ دیدی اور خواب یا بیداری کی حالت میں اسے الھام کیا، یا اپنے کسی ایک فر شتے کی زبانی اس تک اُسے پہنچایا۔

۲۴

۳۔ بعثت:

پیغمبروں سے متعلق، اس معنی میں ہے کہ خدا وند عالم نے انھیں بھیجا اور مبعوث کیا ہے۔

۴۔ کتاب :

لغت میں مکتوب رسالے اور جز وے کے مجمو عہ کے معنی میں ہے.

لیکن اسلا می اصطلا ح میں ایک ایسی وحی ہے جو کتابت اور کتاب ہونے کے لائق ہے،ایسی کتاب جس میں علوم دین، اعتقا دات اور عمل کا ذکر ہو۔

اس طرح کی کتاب پیغمبروں میں سے صرف پانچ پیغمبر اپنے ہمرا ہ لائے ہیں:

نوح ـ ، ابرا ہیم ، مو سیٰ ، عیسیٰ اور محمد صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم، وہ کتاب جو پیغمبروں کے ہمراہ نازل ہوئی ہو وہ اسم جنس ہے اور اس سے مراد آسمانی کتابیں ہیں.

۵۔ حُکْم: حَکَمَ، ےَحْکُمُ ،حُکْماً :

قضا وت کی، قطعی و یقینی حکم صا در فرمایا. اسی طرح دانش اور تفقہ کے معنی میں بھی ہے اورحکمت کے معنی میں بھی استعما ل ہوا ہے ،آدمی کی حکمت، مو جو دات کی شنا خت اور نیک امور کی انجام دہی ہے ، یہ تمام معا نی مقا م استعمال سے منا سبت رکھتے ہیں۔

۶۔ نبّو ت :

نبوت لغت میں بر جستگی اور ظہو ر کے معنی میں ہے اور خبر دینے اور آگاہ کر نے کے معنی میں ہے راغب کا ''( نبا ئ)''اور''نبوّت '' کے بارے میں مختصر بیان اس طرح سے ہے:

۲۵

۷۔ ( نبأ) :

عظیم فا ئدے کے ساتھ ایک ایسی خبر ہے جس سے علم یا ظن غا لب حا صل ہوتا ہو. خبر کو (نبأ ) اُس وقت تک نہیں کہتے جب تک کہ اُس میں تین چیز نہ پا ئی جا ئے، جس خبر پر نبأ کا اطلا ق ہوتا ہے وہ کذب سے خا لی ہوتی ہے، جیسے توا تر( تسلسل ) یا خدا وند متعال کی خبر یا پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خبر اور فرماتے ہیں '' نبی ''( نبوت ) سے رفعت اور بر جستگی کے معنی میں ہے اور پیغمبر صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے برجستگی اور مقام کی رفعت و بلندی کی وجہ سے ( نبی ) کا لقب پا یاہے.( ۱ )

اسلا می اصطلا ح کے اعتبار سے قرآن و حدیث میں ( نبی ) کے موارد استعما ل کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں:

(نبی ) وہ ہے جسے خدا وند عالم نے اپنے بندوں کے درمیا ن منتخب کر کے حکم عطا کیا ہے اور اسے کتاب کی وحی کی ہے اور اسے مبعوث کیا تا کہ جن و انس کو ایسے امور سے آگاہ کرے جن میں ان کی دنیا و آخرت کی صلا ح پا ئی جا تی ہو وہ خدا کی طرف سے کلا م کرتا ہے اور حضرت باری تعالی کا وہ پیغام جو اسے بذریعہ وحی پہونچاہے لو گوں تک پہنچا تا ہے. نبی کی جمع انبیا ء اور نبیین آتی ہے.( ۲ )

(نبی ) قرآن کریم میں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، سوائے سورہ ٔ حج کی ۵۲ ویں آیت کے جس میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَ مَااَرْسَلنَامِنْ قَبلکَ مِنْ رَسول ٍ وَلَا نبیٍّ لاّٰ اذَا تمنّیٰ اَلْقٰی الشَیطانُ فِی اُمْنِیَّته ) ...)

تم سے پہلے ہم نے کبھی کسی نبی یا رسول کو نہیں بھیجا مگر جب اس نے آرزو کی ( دین کو عملی جامہ پہنا نے کی ) تو شیطان اس کی خو اہش کے درمیان حائل ہوگیا۔

جب امام محمد باقر اور امام جعفر صادق سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو انھوں نے فرمایا:

نبی وہ ہے جو ( دستور الٰہی کو ) خواب میں دیکھتا ہے حضرت ابرا ہیم کے خواب کے مانند اور آواز بھی سنتا ہے لیکن فر شتہ کو نہیں دیکھتا ؛ لیکن رسول وہ ہے جو خوا ب بھی دیکھتا ہے آواز بھی سنتا ہے اور فر شتۂ وحی کو بھی سامنے دیکھتا ہے اور ممکن ہے مقام نبو ت و رسا لت ایک شخص میں جمع ہو۔( ۳ )

____________________

(۱)۔ مفردات راغب، مادۂ نبائ(۲)۔ لفظ نباء کے بارے میں معجم الفاظ قرآن کریم اور معجم الوسیط ملاحظہ ہو۔(۳)ہم نے اصول کافی کی پہلی جلد کے ۱۷۶صفحہ سے نبی اور رسول کے درمیان اس فرق کا استفادہ کیا ہے.

۲۶

۸۔ رسول:

رسول لغت میں پیغا م کے حا مل ایک عقلمند انسان کو کہتے ہیںاور اس حا ل میں اسے مر سل کہتے ہیں اور رسو ل کی جمع رُ سل آ تی ہے ۔لیکن اسلامی اصطا ح میں: رسول ایک ایسا انسان ہے جسے خدا وند عالم خا ص پیغا م دے کر کسی قو م کی طرف مبعوث کر تا ہے ، تا کہ ان کی اسلا می شر یعتوں کی طرف ہدایت و راہنما ئی کر ے. وہ اس فر یضہ کے انجام دینے کے سلسلہ میں خدا کی طرف سے معجز ہ یا معجز ات بھی ہمراہ رکھتا ہے. جو اس کی رسالت کی صداقت پر گواہ ہو اس طریقہ سے جن لو گوں کی طرف اسے بھیجا ہے ان پر خدا کی حجت تمام ہوتی ہے۔اور اس پیغمبر کی تکذ یب یا مخا لفت ، بد بختی، عذا ب یا دنیا کی ہلاکت و نا بو دی کا سبب بنتی ہے اور آخرت میں انواع و اقسام عذا ب کا با عث ہوتی ہے، اسی وجہ سے پیغمبرکو نذ یراور منذر (ڈرانے والا ) کہا جا تا ہے۔

دوسری طرف رسول پر ایمان رکھنا اس کی اطا عت وفر نبرداری کر نا دنیا کی شاد مانی، خو شحالی اور سعادت، رحمت وبخشش اور آخرت میں خدا کی خوشنو دی و رضا یت اور بہشت کا با عث ہوتا ہے. ایسی صورت میں یہ پیغمبر بشیر و مبشر یعنی بشا رت دینے والا ہے۔جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس کی رو شنی میں ہر رسول ( نبی ) ہے اورہر نبی صفی اور بر گز یدہ ہے لیکن ہر (نبی )لاز می طور پر رسو ل اور پیغمبر نہیں ہو گا ۔

۹ ۔ اولو العزم :

عزم لغت میں کسی کام کے کرنے کے لئے محکم اور پختہ ارادے اور اس راہ میں درپیش مشکلات میں صبر و تحمل کا نام ہے. اسلامی اصطلاح میں اولوالعزم پیغمبر یہ ہیں:

٭ حضرت نوح ٭ حضرت ابرا ہیم٭ حضرت موسیٰ٭حضرت عیسیٰ ٭ حضرت محمد مصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ وآ لہ و سلم۔

۱۰۔ بشیر و نذ یر :

عر بی میں کہتے ہیں بشّرہ بشیئٍ : اسے نیک خو شخبری اور مژ دہ دیا ایسی صورت میں بشا رت دینے والے کو بشیر و مبشر کہتے ہیں.

و انذ رہ الشیٔ و با لشیٔ

اسے ہو لنا ک چیز کے ذ ریعہ ڈرایامثا ل کے طور پر کہا جاتاہے میں وارننگ دیتا ہوں تمھیں اس کے انجام سے ڈراتا ہوں لہٰذا اس سے بچو، ایسے شخص کو منذ ر یا نذیر کہتے ہیں ۔اسلا می اصطلا ح میں بشیر و نذ یر جیسے نام قرآن میں ان پیغمبروں کے لئے استعما ل ہوئے ہیں جنھیں خداوند عا لم نے کسی قو م کی طرف بھیجا ہے۔

۲۷

جیسا کہ سورۂ انعام آیت ۴۸، سورہ ٔ کہف،آیت ۶ ۵ میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ مَانُر سِلُ الْمُرْ سَلینَ اِلاَّ مُبَشِّریَن وَمُنْذِ رین )

ہم نے پیغمبروں کو صرف بشارت دینے والا اور ڈرا نے و الا بنا کر بھیجا ہے۔

اور جیسا کہ سورۂ فاطر، آیت ۲۴میں ارشاد ہوتا ہے:

( اِنّااَرْسَلناکَ بِالحَقِّ بَشیراً وَ نَذ یرًا وَاِنْ مِنْ اُ مَّةٍ اِ لاَّ خَلافِیها نَذِ یِرُ )

ہم نے تمھیں حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور ڈرا نے والا بنا کر بھیجا ہے اور کو ئی امت ایسی نہیں ہے جس کے درمیا ن کو ئی ڈرانے والا نہ رہا ہو۔

۱۱ ۔ بےّنات:

بان الشیئ: چیز آشکا ر و واضح ہو گئی، معین ہو گئی ۔آیا ت بینا ت یعنی ایسی واضح و آشکار آیات جن میں کسی قسم کی پیچید گی اور ابہام نہ ہو اور ان میں افراد بشر کے لئے کوئی مبہم بات نہ پا ئی جاتی ہو۔

۱۲۔ و انز لنا :

خدا وند عالم نے میزا ن اور لوہے کا ایک ساتھ ایک ہی ردیف میں تذ کرہ کیا ہے تا کہ لوگ ان دو نوں ہی سے اپنی زند گی میں استفا دہ کر یں اور میزان کو آسمانی کتا بوں میں نازل فر مایا، یعنی ان میں میزان اور معیار قرار دیا تا کہ اس کے ذ ریعہ انسا نی اجتما ع، انسا نی عا دات ، طور طریقے، عقائد ان کے امور تولے جائیں اور ہر ایک کا نفع و نقصان معین و مشخص ہو۔

۱۳۔ میزان:

لغت میں اس وسیلے کو کہتے ہیں جس سے محسوس ہو نے والی ما دی چیز یں تو لی جا تی ہیں.اور اسلامی اصطلا ح میں: میزان وہی دین ہے جو آسمانی کتا ب میں ہے اور اس کے سہا رے عقائد اوردیگر امور کی سنجش ہوتی ہے اور اسی کے مطابق قیا مت کے دن انسا ن کا حسا ب و کتا ب ہو گا اور اس کے نتیجہ میں اسے سزا یا جزا دی جا ئے گی۔

۲۸

۱۴۔لِیقُومَ النَّاسُ بِالقِسطِ:

قسط ،عدل کے معنی میں ہے. عدل یعنی جو جس چیز کا مستحق ہو اسے وہ چیز دینا اور جس چیز کی ادائیگی اُس پر وا جب ہے وہ چیز اس سے لینا ۔

۱۵۔ بأ س شدید:

یہ پر باس سے مراد جنگ ہے کہ ارشا د ہوتا ہے:

( وَ اَنزَ لنَا الْحَد یدفیهِ بَأس شَدید وَمَنافِعُ لِلنّاسِ )

یعنی خدا وند عا لم نے انسان کی را ہنما ئی کی تا کہ لوہے سے حق کے دفا ع کی خاطر جنگی اسلحے بنائیں. آج بھی انسان لوہے سے جنگی اسلحہ بنا تا ہے اور بنا ئے گا اس کے علاوہ لو ہا انسا ن کے لئے دیگر منفعتوں کا بھی حا مل ہے۔

۱۶ ۔ کسفاً :

کسفةً ، کسی چیز کے ٹکڑ ے کو کہتے ہیں اس کی جمع کِسَف آتی ہے اور ( اوتسقط السماء کما زعمت علینا کسفا) کے معنی یہ ہیں کہ آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہم پر گرجائے

۱۷ ۔ زخر ف:

زخرف سو نے کے معنی میں ہے. بعد میں یہ کلمہ زینت کے معنی میں استعما ل ہوا ہے، یا اس کے بر عکس۔

۱۸۔ جیب:

گریبان لباس اور اس کے ما ننداشیاء کے معنی میں ہے، ایسا شگا ف جو لباس یا پیر ھن میں اس لئے کیا جا تاہے کہ سر اس سے پا ر ہو جا ئے۔

۱۹ ۔ مبصرة :

آشکا ر اور واضح۔

۲۹

۲۰ ۔ اصری :

اصر یعنی ایسا پیمان جس میں تا کید پا ئی جا تی ہو۔

۲۱ ۔ طاغو ت:

طغٰی طغیا ناً:

یعنی سر کشی کی حد سے گذ ر گیا۔ طا غوت ،ہر سر کش اور نا فر مان اور خدا کے علا وہ ہر معبود کے معنی میں ہے، اس کی جمع طو اغیت آتی ہے۔

۲۲ ۔آیت :

آیت لغت میں محسوس چیز کی آشکا ر علا مت و پہچا ن اور معقول چیز میں مقصود پردلیل کے معنی میں ہے ۔

پہلی مثا ل: سورہ ٔ مریم کی دسو یںآیت میں حضرت زکریاکی داستان سے متعلق خدا کا فر مان ہے:

( قالَ راَبِ اْجَعْل لی آیة ًقالَ آ یَتُکَ اَلا ّ تُکَلِّمَ النَاسَ ثَلاثَ لَیال ٍسَو یّاً )

حضرت ز کریا کی مراد کہ کہتے ہیں:(اجعل لی آےة) یہ ہے کہ اس امر کے لئے ہمارے لئے علامت اور نشا نی قرار دے. کہ خدا نے فر مایا تمہاری علا مت یہ ہے کہ تم تین دنو تک مسلسل کسی سے کلام نہیں کروگے۔

دوسری مثا ل: سورہ ٔ یو سف کی ۱۰۵ ویں آیت میں خدا فر ماتا ہے:

( وَ کَاَ یِّن مِنْ آیة فی السمواتِ والارض یَمُرُّ ون علیها وهُمْ عَنْهٰا معرضونَ )

یعنی آسمان و زمین میں کس قدر علا مت و نشا نی پا ئی جا تی ہے جو خدا کی قدرت اور حکمت کی حکایت کرتی ہے یا حضرت باری تعا لی کے دیگر صفات کہ نہا یت سا دگی کے ساتھ ان سے گذ ر جا تے اور ان سے اعرا ض کر تے ہیں۔

دوسری قسم کی مثا ل: وہ آیات اور معجز ات ہیں جنھیں خدا وند عا لم اپنے پیغمبروں کے ہا تھو ظاہر کر تا ہے جیسا کہ سورہ ٔ نحل کی بارھو یں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَأدخل یدکَ فی جَبیکَ تخُرجْ بیضاء مِن غیر سوء فی تِسْعِ آیا ت ٍ الی فِرعَونَ وقومِهِ )

( مراد حضرت مو سیٰ کا ید بیضا والا معجزہ اور ان کے دیگر نہ گا نہ معجزا ت ہیں)

لیکن اصطلاح اسلامی میں آیت کا استعمال دو معنی میں ہوا ہے۔

۳۰

۱۔ وہ معجزات جنھیں خدا وند عالم نے اپنے اولیا ء اور پیغمبروں کے ہا تھوں پر جا ری کیاہے:

جیسے مو سیٰ کلیم اللہ کا عصا اور ناقہء حضرت صا لح ـ، اسے معجزہ کہتے ہیں، اس لئے جن و انس اس کے جیسا پیش کر نے سے عا جز و بے بس ہیں، اسی طرح کسی بچے کا بغیر باپ کے پیدا ہو جا نا بھی معجزہ ہے.

پیغمبروں کے غیر طبعی حا لا ت اور خا رق العادة اقدا مات اسی قسم کی آیتیں ہیں

جیسے حضرت عیسیٰ کی ولا دت ان کی ماںحضرت مریم کے ذریعہ کہ نہ ان کا کو ئی شو ہر تھا اور نہ ہی حضرت عیسیٰ کا کوئی باپ تھا۔

اورجیسا کہ خدا وند عالم کا سورۂ مومنون آیت۵۰سورۂ انبیائ،آیت ۹۱میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَُمَّهُ آیَةً وَآوَیْنَاهُمَإ الَی رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِینٍ )

ہم نے عیسیٰ کو اور عیسیٰ کی ماں ( مریم) کو آیت و نشا نی قرار دی ہے۔

اور اسی قسم کی آیت، وہ عذاب ہے جو مشر کین پر نازل ہوتا ہے ۔

جیسا کہ خدا وند سبحان سورہ ٔ عنکبوت کی ۱۵ ویں آیت میں ارشا د فر ما تاہے:

( فَأَنجَینٰاه وَ اَصْحابَ السَّفینةِ وَ جَعَلنَاهاآیة ً لِلعَالمینَ )

حضرت نوح کی کشتی پر سوار ہو نے والوں کو نجا ت دینا اور مشرکین کا غرق ہو جانا خود ہی آیت ہے ۔

جیسے اسی قسم کی آیت سورئہ قمر کی ۱۵ ویں آیت ہے۔

۲۔آیت قرآن کریم کی رو سے

راغب مفردات القرآن نا می کتاب میں تحر یر فر ماتے ہیں:

قرآن کا کو ئی جملہ بھی جو کسی حکم پر د لا لت کر تا ہو ایک آیت ہے ، قرآن کا کو ئی سورہ ہو یا سورہ کا ایک حصّہ یا چند حصّے ہوں؛ اوراس کا ہر کلا م یا جملہ جو لفظی اعتبار سے الگ ہو ( آیت) کہلاتا ہے اسی لحا ظ سے ایک سورہ متعدد آیات میں تقسیم ہوتا ہے۔( ۱ )

____________________

(۱)۔ (آیت) کی لفظ مفردات راغب میں ملاحظ ہو.

۳۱

رو ایات میںگز شتہ آیات کی تفسیر

الف ۔ ابو ذر کی حد یث میں مذ کور ہے کہ آپ نے فر مایا:

رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا : انبیاء کی تعداد کیا ہے ؟

فرمایا: ایک لا کھ چو بیس ہزار ۔

میں نے سوال کیا : ان میں کتنے لو گ رسو ل تھے ؟

فرمایا : تین سو تیرہ افرا د پر مشتمل ایک مجمو عہ تھا۔

میں نے سو ال کیا : سب سے پہلے نبی کون تھے ؟

فرمایا : آدم۔

میں نے سوال کیا:آ یا حضرت آ دم نبی مر سل تھے؟

فرما یا : ہاں، خدا نے انھیں اپنے دست قدرت سے خلق فرمایا اور ان میں اپنی رو ح پھو نکی پھر اس وقت رسول خدا نے مجھ سے خطا ب کر کے فر مایا:

اے ابو ذر! ابنیا ء کے درمیان چا ر شخص (آدم ،شیث ، اخنو خ جنھیں ادریس کہا جا تا ہے اور یہ وہ پہلے شخص تھے کہ جنھوں نے قلم سے تحریرلکھی اور نوح ) یہ سب کے سب سر یا نی تھے اور چار افراد (ہود ،صالح، شعیب اور تمہارا یہ نبی '' محمد صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم '' )عرب ہیں۔

بنی اسرا ئیل کے سب سے پہلے نبی جناب مو سیٰ اور آخری نبی حضرت عیسیٰ اور چھ سو دیگر انبیاء ہیں۔

میں نے سوال کیا : اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! خدا وند عالم نے کتنی کتابیں نازل کی ہیں ؟

۳۲

فرمایا : ایک سو چار کتا بیں خدا وند عا لم نے شیث پر پچا س صحیفے اور ادریس پر تیس صحیفے اور ابرا ہیم پر بیس صحیفے ناز ل کئے ، پھر تو ریت ، انجیل ، زبوراور فرقان کو نازل کیا آخر حد یث تک.( ۱ )

اس حدیث کی عبارت احمد بن حنبل کی مسند میں مند ر جہ ذ یل طر یقہ سے ذ کر ہوئی ہے:

پھر میں نے سوال کیا! اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انبیا کتنے ہیں؟

فرما یا ایک لا کھ چو بیس ہزا ر افراد کہ انھیں میں سے تین سو پندرہ افراد رسول ہیں.( ۲ )

ب۔حضرت ابو الحسن علی بن مو سی الرض سے مر وی ہے کہ آپ نے فر ما یا:

او لو العز م کو او لو العزم اس لئے کہتے ہیں کہ یہ لوگ عز م و کوشش، استقا مت و پا یدا ری کے مالک اور شریعت کے حا مل تھے .حضرت نو ح کے بعد ہر نبی ان کی شریعت اور قوا نین کا پا بند تھا اور حضرت ابرا ہیم خلیل اللہ کے زمانے تک ان کی کتا ب کا پیر و رہا ؛ اور جو بھی نبی ان کے زمانے میں تھا یا ان کے زما نے کے بعد آ یا ابراہیم کی شر یعت وقو انین کا پا بند تھے۔

____________________

(۱) بحار الانوار ،علّامہ مجلسی ،ج۱۱ ،ص ۳۲، معانی الاخبار کے صفحہ ۹۵ سے نقل کے مطابق؛ خصال ج ۲، ص ۱۰۴.مسند احمد ج ۵، ص ۲۶۵۔ ۲۶۶ ؛نھاےة اللغة، لغت حجت ،بحار، ج ۱۱ ،ص ۳۳ خصال کی نقل کے مطابق ، ج۱، ص ۱۴۴. مختصر الحدیث امام باقر سے شاید حدیث میں مذکور سریانی سے مراد لوگوں کی قدیم زبان ہو.(۲)مسند احمد،ج۵،ص۲۶۵، ۲۶۶.

۳۳

اور حضرت موسیٰ کے ظہو ر تک انھیں کا پیرو رہا ؛اور جو نبی حضرت مو سیٰ کے زمانے میں تھا یا بعد میں آیا ہے مو سیٰ کی شریعت اور قوا نین کا پا بند اور ان کی کتاب توریت کاحضرت عیسیٰ کے زمانے تک پیرو تھا اور جو نبی حضرت عیسیٰ کے زمانے میں یا ان کے بعد ہوا وہ ان کی شریعت و قوا نین اور ان کی کتاب انجیل کا ہمارے نبی حضرت محمد صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے تک پیرو تھا. یہ پا نچ افراد او لو العز م اور تمام انبیا ء اور رسو لوں سے افضل ہیں اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت قیامت تک کے لئے ثا بت ہے جو کبھی نسخ نہیں ہو گی اور آنحضرت کے بعد قیامت تک کوئی دوسرا نبی نہیں ہو گا آخر حدیث تک( ۱ )

سیو طی کی تفسیر میں ابن عبا س سے منقو ل ہے:

او لو العز م سے مراد ہیں :٭ خا تم الا نبیا ءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ٭ نوح ٭ ابرا ہیم ،

٭ موسیٰ ٭ عیسی ،(۲)

اصول کافی میں اپنی سند کے ساتھ امام صادق سے روایت کرتے ہیں:

انبیا ء اور پیغمبر وں کے سردار پا نچ افراد ہیں جو اولو العزم پیغمبر تھے ، شر یعتو کا اہم محور ہیں؛ خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نوح ،ابرا ہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ ۔( ۳ )

ج ۔تا ریخ یعقو بی میں امام جعفر صادق سے رو ایت کر تے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

امام جعفر صادق نے فرمایا:

خدا وند عالم نے کسی پیغمبر کو نبوت نہیں دی مگر اس چیز کے ہمرا ہ جس کے ذریعہ وہ اپنے تمام اہل زمانہ پر فو قیت رکھتا ہو۔

مثا ل کے طور پر حضرت مو سیٰ فر زند عمرا ن کو ایسی قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا جس پر سحر وجا دو غا لب تھا اس لئے آپ کو ایسی چیز عطا کی جس کے ذریعہ ان کے سحر کا مقا بلہ کیا اور کا میاب ہوئے اور ان کے سحر کو باطل کیا اور وہ :عصا، ید بیضائ، ٹڈیو کا حملہ ، جوئیں ، مینڈ ھکو کی کثرت، خون، دریا کا شگا فتہ ہو نا، چٹا ن کا اس طرح سے پھٹ جا نا کہ اس سے پا نی نکل آیااور ان کے چہرے کو بدنما بنا دینا اور مسخ کردینا، یہ سب حضرت کے معجزات تھے۔

____________________

( ۱) بحار الانوار، علّامہ مجلسی،ج۱۱،ص ۳۴، ۳۵؛ عیون اخبارالرضا سے نقل کے مطابق ص ۲۳۴،۲۳۵ پر(۲)تفسیر سیوطی،ج۶،ص ۴۵. (۳)اصول کافی،ج۱ص ۱۷۵،باب طبقات الانبیاء والرسل،کتاب خصال،ج۱،ص ۱۴۴ کی نقل کے اعتبار سے.

۳۴

داؤد ـ کو اس وقت لوگوں کے درمیان مبعوث کیا جس زمانے میں صنعت و ہنر اور لہو و لعب کا غلبہ تھا اس لئے حضرت داؤد کے ہا تھ میں لوہے کو نر م بنا دیااور انھیں خوش الحانی (اچھی آواز ) دی وہ بھی اس درجہ خوش الحانی کہ پرندے آپ کی خوبصورت آواز کی وجہ سے آپ کے ارد گرد جمع ہوجاتے تھے۔

سلیمان ـکو ایسے زمانے میں مبعو ث کیا جب لو گوں کے درمیا ن مکان بنا نے کا شوق اور طلسم وجادو کا دور دورہ تھا اسی سبب سے اس نے ہوا کو ان کا تا بع بنا دیا اور جنا ت کا ان کا مطیع و فرمانبرداربنا دیا ۔

عیسیٰ کو بھی ایسے دور میں مبعوث کیا جس زمانے میں ڈ اکٹری لوگوں کو اپنے آپ میں مشغول کئے ہوئے تھی، لھذا ان کو مر دوں کو زند ہ کر نے اور کو ڑ ھیو اور مبر وص کو شفا دینے کے اسلحے سے آراستہ کیا۔

محمد مصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس دور میں مبعوث فرمایا جب لو گو میں سب سے زیا دہ اچھی گفتگو کر نے، کہا نت، پیشینگو ئی کر نے،مسجع اور موزون کلام اور فصیح و بلیغ خطبہ دینے کا رواج تھا، لہٰذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قرآن مبین اور قوت خطابت کے ساتھ مبعو ث کیا ۔(۱)

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی،ج ۲ ، ص ۳۴

۳۵

پروردگا ر عا لم نے آدمیو اور فر شتوں کے درمیان حضرت آدم ، حضرت نوح ، آل ابراہیم اور آل عمران جیسے پیغمبروں کو عالمین پر اور حضرت مریم کو جہان کی خو اتین پر منتخب فر مایا۔

خدا وند عالم نے حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت لوط، حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب ، حضرت یوسف ، حضرت موسی، حضرت ہارون، حضرت یسع، حضرت داؤد ، حضرت سلیما ن ، حضرت ایوب، حضرت الیاس ، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ ، کو کتاب، حکم اور نبوت عطا کی اور ان کے درمیان حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلّیٰ اللہ علیہ وآ لہ و سلم کو کتاب اور مخصوص شریعت عنا یت فر مائی ہے ؛ یہ لوگ اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں خداوندعالم نے ان کی کتابوں میں ضابطہ حیات اور ایک میزان قرار دیا تا کہ اس کے ذریعہ افراد معاشرہ کے حق و باطل عقائد اور اعمال پہچانے جائیں۔

اور ان میں سے بعض جیسے حضرت مو سیٰ کلیم اللہاور محمد حبیب اللہ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ان لوگوں کے برخلاف جو راہ انسا نیت سے منحرف ہو چکے ہیں شدید جنگوں میں استفادہ کے لئے اسلحے قرار دئے اور ان لوگوں کے لئے بھی جو جنگ اور شمشیر کے علا وہ راہ راست پر آنے والے نہیں ہیں، ایسے ہی بعض پیغمبروں کو مبعو ث کیا اور انھیں مبشر ( بشارت دینے والا) اور منذ ر ( ڈ ارنے والا ) بنا یا۔ خو اہ صا حبان شریعت پیغمبرہوں جیسے حضرت نوح اور حضرت موسیٰ یا وہ لوگ ہوں جو مستقل شر یعت کے ما لک نہیں ہیں جیسے حضرت شعیب اور حضرت لوط۔

خدا وند عا لم نے کسی قوم کو اس وقت تک عذاب میں مبتلا نہیں کیا جب تک کہ رحمت کی نوید دینے وا لے اور عذا ب سے ڈرانے والے کسی پیغمبر کو اپنی طرف سے معجزہ اور نشانیوں کے ہمرا ہ نہیں بھیجا.

۳۶

خدا وند عالم اس سلسلہ میں فر ما تا ہے:

۱۔سورۂ اسراء کی ۱۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَ ماَ کُنَّا مُعَذِّبینَ حتیّّٰ نَبعَثَ رسولاً )

ہم جب تک کو ئی رسول نہیں بھیجتے اس وقت تک عذا ب نہیں کرتے۔

۲۔ سورہ ٔ یو نس کی ۴۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَ لِکُلِّ اُمَّةٍ رَسُول فَاِذاجَائَ رَسُولُهمُ قُضِیَ بَینَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لایُظْلَمُونَ )

ہر امت کے لئے ایک رسول ہے لہٰذا جب ان کے درمیا ن ان کا رسول آجائے تو عدل و انصاف کے ساتھ قضا وت کی جائے اور اُن پر ستم نہ کیا جائے گا۔

جو امت پیغمبر کی نا فرمانی کر ے وہ دنیا و آخرت میں عذا ب کی سزاوار ہو گی۔جیسا کہ خدا وندعالم نے فرعون اور اس سے پہلے والوں کی حا لت کے بارے میں سورہ ٔالحا قہ کی دسویں آیت میں خبر دیتے ہوئے فر مایا ہے:

( فَعَصَواْ رَسُولَ رَبّهِم فَأَخَذَهُمْ اَخْذَ ةًًرابِیَة )

انھوں نے اپنے اللہ کے رسول کی نا فر مانی کی ،تو خدا وند عا لم نے ان کا سختی کے ساتھ محاسبہ کیا ۔

پیغمبر کی نا فرما نی خدا کی نا فر مانی ہے .جیسا کہ خدا نے سورہ ٔ جن کی ۲۳ ویں آیت میں فرمایا ہے:

( وَ مَنْ یَعص اللّٰهَ وَرَسُولَهُ فَاِ نَّ لَهُ نارَجَهَنّمَ خَالِدینَ فِیهااَبداً )

جو خدا اور اس کے رسول کی نا فر مانی کرے اس کے لئے آتش جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ معذب ہوتا رہے گا۔

خدا وند عا لم رسو لوں کو انبیاء میں سے منتخب کرتا ہے اسی لئے رسولوں کی تعداد جیسا کہ پیغمبر اسلام صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ابو ذر کی گزشتہ روایت میں ہے، انبیا ء کی تعداد سے کم ہے لیکن خدا وند عا لم جسے لوگو کی ہدایت کے لئے مبعو ث کر تا ہے اسے معجزہ دیتا ہے تا کہ وہ اس کے مد عا کی تا ئید کر ے کہ وہ خدا کی طرف سے مبعوث ہوا ہے ۔

۳۷

معجزہ اور آیت کی حقیقت

خدا وند سبحا ن نے ابنیا ء کو نظا م ہستی پر حکو مت و ولایت عطا کی ہے تا کہ جب خدا کی مر ضی ہو کہ اُس کا نبی نظا م کے کسی بھی جز کو جسے اس نے ہستی کے لئے مقرر کیا ہے تبد یل کر دے، تو وہ اس کے اذن اور اجازت سے انجا م دے سکے ۔

اس لحا ظ سے انبیا ء کے ذریعہ نظا م طبعیت کے ایک حصّہ کے خلا ف معجزہ پیش کر نا پر وردگار عالم کی تکو نیی سنت ہے. اور ایسے سماج میں یہ معجزہ پیش کیاجاتا ہے کہ جہاں پیغمبران الٰہی رسا لت کے لئے مبعوث ہوئے ۔

بنا بر این امتوں نے انبیا ء سے معجزہ دکھانے کی در خواست کی تا کہ ان کے دعویٰ کی صدا قت پر دلیل ہو.خدا وند عا لم نے اس مو ضو ع کو قوم صا لح کی سر گذشت میں سورہ ٔ شعراء میں عنوان کر تے ہوئے فر ماتا ہے( :( مَا أنْتَ لَّابَشَر مِثلُنافأتِ بِآ یة ٍانْ کُنتَ مِن الصّادِ قینَ٭قالَ هذهِ ناقَة لَهاشِرْب وَلُکم شِربُ یومٍ معلومٍ ٭و لا تَمَسّوها بسوئٍ فَیَأ خذَکُم عذابُ یومٍ عظیمٍ ) (حضرت صا لح کی قوم نے ان سے کہا ) تم ہمارے ہی جیسے ایک انسان ہو. اگر سچے ہو تومعجز ہ پیش کرو۔ تو کہا !یہ اونٹنی ہے کچھ پانی اس سے مخصوص ہے اور پانی کا کچھ حصہ تم لوگوں سے مخصوص ہے اور دیکھو اس کی طرف دست خیانت درازنہ کرنا ورنہ عظیم دن کے عذاب میں گرفتار ہو جاؤ گے.( ۱ ) عا م طور پر ہوایہی کہ جب کسی پیغمبر نے آیت اور معجزہ دکھا یا توامتیں ضد اور ہٹ دھر می اوران کے

____________________

(۱) سورہ ٔ شعرا،آیت ۱۵۴۔۱۵۶.

۳۸

ساتھ عناد اور دشمنی پر تل گئیں.اور نہ ہی رب پر ایمان لائیں اور نہ ہی اُس پیغمبر پر جواس کی طرف سے ان کی طرف مبعوث ہوا تھا خدا وند عا لم اس موردمیں گزشتہ آیات کے بعد، قوم ثمود کے بارے میں اس طرح خبر دیتا ہے:

( فَعقروها فَأَ صْبَحُوا نَادِمین )

انھوں نے اس اونٹنی کو مار ڈا لا پھر اس کے بعد اپنے کر توت پر شر مندہ ہوئے۔( ۱ )

اگر کسی قوم کی خو اہش کے مطا بق اس کے پیغمبر سے معجزہ صا در ہوا لیکن اس قوم نے اُس کی تصدیق نہیں کی اور نہ ہی اُس پر ایمان لائی توسر زنش و ملامت اورعذاب کی مستحق ہو گئی اور ان کے خدا نے ان پر عذاب نا زل کر دیا جیسا کہ خدا نے اسی سورہ کے اختتام پر قوم ثمود کی نا فر مانی کی خبر دی ہے:

( َأَخَذَهمُ العَذا ب انَّ فی ذ لِکَ لَأ یةوَ مَاکانَ اَکْثَرُهُم مُؤمِنین )

اُس وقت عذاب موعود میں مبتلا ہوگئے یقینا اس قوم کی ہلا کت میں دوسروں کے لئے عبرت کی نشانی ہے ( لیکن) اس کے باوجود بھی اکثر لوگ خدا پر ایمان نہیں لائے۔( ۲ )

انبیاء کا معجزہ پیش کر نا حکمت الٰہی کے مطا بق ہے اور حکمت کا مقتضی ایک ایسی حد اور اندازہ کے مطا بق معجزہ پیش کر نا ہے کہ جو شخص اپنے رب اور اس کے پیغمبر پر ایمان لا نا چا ہتا ہے تو اسے پتہ چل جائے کہ پیغمبر اپنے ادّعا میں سچّا ہے نہ اُس حد اور مقدار میں کہ سر کش اور با غی قومیں تعیین کر تی اور چا ہتی ہیں. یا کسی محال امر کی امید رکھتے ہیں جیسا کہ دو مقام پر قریش نے خا تم الا نبیا ئصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تقا ضا کیا تھا اور وہ اس امرکے بعد تھا کہ خدا نے قریش سے جو کہ عرب میں فصیح و بلیغ کلام میں ممتاز اور معروف تھے آیت طلب کی اور انھیں مخاطب کر تے ہوئے سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا:

( وَِنْ کُنتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَائَکُمْ مِنْ دُونِ ﷲ ِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ ٭ فَِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِی وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ُعِدَّتْ لِلْکَافِرِینَ ٭ )

جو کچھ ہم نے اپنے بندہ پر نازل کیاہے اگر تمھیں اس میں شک و تردید ہے، تو اس کے ما نند ایک سورہ ہی پیش کر دو اور خدا کے علا وہ اپنے نا صروں سے مدد بھی لے لو اگر سچے ہو۔لیکن اگر نہیں کر سکتے اور ہر گز اس پر قادر نہیں ہو تو پھر خدا کی اس آگ سے ڈرو جس کا ایند ھن انسان اور پتھر ہیں اور کافروں کے لئے مہّیا کی گئی ہے.( ۳ )

____________________

(۱)سور ۂ شعرأ،آیت،۱۵۷.(۲) سورۂ شعرأ، آیت، ۱۵۸.(۳) سورۂ بقرہ : آیت ۲۳ اور ۲۴.

۳۹

اس طرح سے پروردگا ر نے ان پر حجت تمام کی اور فرما یا ہے :

جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے اس میں اگر تمھیں شک و شبہہ ہے تو اس کے مانند ایک سورہ ہی پیش کرو اور سب کو اپنا مدد گار بھی بنالو اور خبر دی ہے کہ اگر جن وانس ایک دوسرے کے مدد گار ہو جائیں تو بھی اس کے مانند نہیں لا سکتے اور تاکیداً نفی ابدفرما ئی اور کہا(لن)یعنی ہر گز اس کے مانند نہیں لا سکتے. حتیٰ کہ ہمارے زمانے میں بھی اسلام دشمن عناصر اپنی تمام تر کثرت اور عظیم و گو نا گوںقدرت کے باوجود قادر نہیں ہیں کہ قرآن کے مانند ایک سورہ پیش کر سکیں۔

اُن لوگوں نے اس سر توڑ مبارزہ جوئی کے بعد( ایک ایسے امر کے پیش کر نے میں جسے جن و انس مل کر پیش نہیں کر سکتے اور اس کے مانند پیش کرنے میں قریش کی ناتوانی کے باعث ) رسول خدا صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مطا لبہ کیا کہ مکّہ کی آب و ہوا تبد یل کر دیں اور سونے کا گھر پیش کریں یا خدا اور فرشتوں کو ان کے سامنے حا ضر کر دیں یا آسمان کی طرف پر واز کر یں پھر بھی ان تمام چیزوں کے با وجود ایمان نہیں لائیں گے مگر جب ان کے لئے آسمان سے کو ئی کتاب نازل ہو جس کی وہ تلا وت کریں!معلوم ہے کہ جو انھوں نے درخواست کی تھی وہ ایک محال امر تھا وہ یہ کہ خدا اور فر شتوں کو ان کے سا منے حا ضر کر دیں ( کہ خدا وند عالم ان ستمگروں کی بات سے بلند و بر ترہے)اور ان کے درمیان انبیاء کے بھیجنے میں اللہ کی سنت کے خلا ف مطالب مو جود ہیں اس معنی میںکہ انھوں نے مطا لبہ کیا تھا کہ ان کے سامنے آسمان کی طرف پرواز کر یں اور ان کے لئے ایک کتاب لے آئیں ایسی چیز جو خدا کے پیغام لانے والے فر شتوں سے مخصوص ہے نہ کہ انسان سے دوسرے یہ کہ وہ لوگ سرے سے قبو ل ہی نہیں کرتے تھے کہ خدا کسی انسان کو رسالت کے لئے مبعوث کرے گا جب کہ حکمت اس کا اقتضا ء کر تی ہے کہ انبیا ء انسا نوں کی جنس سے ہوں، تا کہ ان کے اعمال ورفتار میں ان کی اقتداء ہو اور اپنی قوم کے لئے نمو نہ ہوں، ان کی دوسری درخواستیں بھی حکمت کے مطابق نہیں تھیں جیسے کہ انھوں نے مطا لبہ کیا تھا کہ ان پر عذاب نازل ہو۔

اسی وجہ سے خدا اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ وہ لوگوں کو اس طرح جواب دے:

( سُبْحَانَ رَ بِیّ هَلْ کُنتُ اِلاَّبَشَرا ًرَسُولاًً )

میرا ربّ پاک اور منز ہ ہے کیا میں خدا کی طرف سے مبعوث ایک انسان کے علاو ہ کچھ اور ہوں؟( ۱ )

____________________

(۱)سورۂ اسراء : آیت،۹۳.

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

دشمن كى صفوں ميں تفرقہ پيدا كرنے كى كوشش

ايك طرف دشمن كے حوصلے بہت زيادہ كمزور ہوچكے تھے اور دوسرى طرف مسلمان بھى بہت زيادہ دباؤ محسوس كر رہے تھے_ ايسے حالات ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كوشش كى كہ دشمن كى صفوں ميں اختلاف پيدا ہوجائے اور احزاب كے فوجى اتحاد كا شيرازہ بكھرجائے، اس غرض سے آپ نے قبائل غَطفَان كے سر برآوردہ افراد كے پاس پيغام بھيجا كہ '' كيا تم لوگ اس كام كے لئے تيار ہو كہ مدينہ كى كھجوروں كا تيسرا حصّہ تم كو ديدوں اور تم اپنے خاندان كى طرف پلٹ جاؤ اور دوسرے قبيلوں ميں بھى اس بات كى تبليغ كرو كہ وہ جنگ سے دست بردار ہوجائيں؟'' ان لوگوں نے مصالحت كے لئے نصف كا مطالبہ كيا اور پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس مذاكرے كے لئے حاضر ہوگئے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كاغذ، قلم اور دوات لانے كا حكم ديا تا كہ ايك ثلث كى قرارداد لكھى جائے_ اس وقت مدينہ كے سربرآوردہ افراد سَعد بن عُبَادَة اور سَعدَ بن مُعاذ آگئے، انہوں نے كہا كہ'' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يہ حكم خدا كى طرف سے ہويا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا ذاتى نظريہ ہو، ہم اس كے فرمانبردار ہيں ليكن اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارا نظريہ جاننا چاہتے ہيں تو ہم ان كو باج ( ٹيكس) نہيں ديں گے_ جاہليت كے زمانہ ميں جب ہم مشرك تھے تو اس وقت خريدنے يا مہمان بننے كے علاوہ ہمارا خرما ان تك نہيںپہنچتا تھا، اب جب ہم اسلام سے سرفراز ہيں تو كيا ان كو ٹيكس ادا كريں؟ ہمارے اور ان كے درميان تلوار كو فيصلہ كرنا چاہيئے_(۱)

۱۰۱

غَطَفَان كے قبيلے كے سربرآوردہ افراد جب خالى ہاتھ واپس جار ہے تھے اس وقت آپس ميں باتيں كرتے جارہے تھے كہ '' ان لوگوں نے جنگ جارى ركھنے كے علاوہ اور كوئي راستہ ہى اختيار نہيں كيا اور آخرى فرد تك اپنے ہدف كے دفاع كے لئے تيار ہيں ايك ہم ہيں كہ سخت سردى اور خشك بيابان ميں اپنے اونٹ اور گھوڑوں كو فنا كر رہے ہيں_''

بنى قريظہ اور مشركين كے درميان پھوٹ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مشركين كے قبائل كے درميان اختلاف پيدا كرنے كى كوشش كر رہے تھے جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ جنگ لڑنے كے لئے اُٹھ كھڑے ہوئے تھے اور ساتھ ہى يہ كوشش بھى كر رہے تھے كہ بنى قريظہ كے يہوديوں كے مشركين سے تعلّقات بگڑ جائيں اور انہيں ايك دوسرے سے بدظن كر كے ان كے فوجى اتحاد ميں تزلزل پيدا كرديں_ اسى وقت ايك مناسب موقعہ بھى ہاتھ آگيا _ دشمن كے محاذ كا ايك آدمى جس كا نام نعيم بن مسعود تھا مسلمان ہوگيا_ وہ ايك طرف تو بنى قريظہ كے يہوديوں سے اچّھے تعلّقات ركھتا تھا اور دوسرى طرف مشركين كے لئے مكمل طور پر قابل اطمينان تھا _ وہ جس كے دل ميں نور ايمان جگمگار رہا تھا، رات كے اندھيرے ميںاپنے خيمہ سے باہر نكلا اور پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خيمہ ميں پہنچ گيا _ اور عرض كہ '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں نے اسلام قبول كرليا ہے _ ليكن ميرے قبيلے والے ميرے مسلمان ہونے سے بے خبر ہيں آپ جو حكم فرمائيں ميں اس كى تعميل كے لئے حاضر ہوں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمايا'' جہاں تك ہو سكے جنگ ميں دشمن كے ارادہ كو كمزور بنادو'' ان كو پراگندہ كر دو اس لئے كہ جنگ ايك فريب ہے''_

۱۰۲

نَعيم بنَ مَسعُود محلہ بنى قريظہ ميں پہنچا پہلے يہ ان لوگوں كا نديم رہ چكا تھا اس نے بنى قريظہ كو مخاطب كركے كہا ''اے بنى قُريظَہ تم اپنے ساتھ ميرى دوستى اور يكرنگى سے واقف ہو''_ ان لوگوں نے كہا '' ہم بھى اس بات كو اچّھى طرح جانتے ہيں اور تمہارے بارے ميں بدگمان نہيں ہيں''_

نعيم نے كہا كہ '' جوبات ميں كہنے جارہا ہوں اس كى شرط يہ ہے كہ تم ميرے راز كو چھپاكر ركھو گے، اور وہ يہ كہ جنگ دشوار ہے، اور قريش و غَطَفَان جنگ ميں سُست پڑ رہے ہيں _ عَمرو بن عَبدوَدّ ان كا پہلوان ماراگيا اور قبيلہ غَطَفان كے لوگ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خفيہ طور پر يہ ساز باز كر رہے ہيں كہ وہ مدينہ كے خرما كا آدھا محصول لے ليں اور ا پنى راہ ليں ، ايسى صورت ميں اگر قريش و غَطَفَان كو موقع ملا تو ممكن ہے فتحياب ہوجائيں اور اگر ہار گئے تو اپنا بوريہ بسترلے كر اپنے وطن چلے جائيں گے، جبكہ تم ايسا كام نہيں كرسكتے، تمہارے بال بچّے، گھر بار ، كھيتى باڑى اور تمہارے نخلستان يہاں ہيں ، قريش و غَطَفَان كى شكست كى صورت ميں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم سب كا محاصرہ كرليں گے_ اورتمہارى امانتيں تمہيں نہيں ديں گے لہذا تم قريش و غَطَفَان كو ساتھ لے كر جنگ نہ كرو مگر يہ كہ ان كے سر بر آوردہ افراد كو يرغمال بناكر اپنے پاس ركھ لو اور اس طرح ان كو، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ صلح كا معاہدہ كرنے كا موقعہ نہ دو تا كہ وہ تمہيںبے سہارا چھوڑ كر اپنے كام ميں نہ لگ جائيں''_

بنى قريظہ كے يہوديوں نے كہا كہ ''تم بہت پر خلوص مشورہ دے رہے ہو ، ہم تمہارا شكريہ ادا كرتے ہيں اور تمہارے نظريے كو عملى جامہ پہنائيں گے''_

نعيم وہاں سے ابوسفيان اور قريش و غَطَفَان كے دوسرے سربرآوردہ افراد كے پاس آيا اور كہا'' ايك بات ميںنے سنى ہے جو ازراہ خير خواہى تمہيں بتانا چاہتا ہوں ليكن شرط يہ

۱۰۳

ہے كہ اس راز كو چھپا كر ركھنا''_

ان لوگوں نے كہا :'' بہت خوب كيا كہنا چاہتے ہو _''

نعيم نے كہا '' بنى قريظہ ،محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ اپنى پيمان شكنى پرپشيمان ہيں اور وہ چاہتے ہيں كہ جو بھول ان سے ہوئي ہے اس كا جبران كريں _انہوں نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو پيغام بھيجا ہے كہ ہم قريش و غَطَفَان كے ستر۷۰ سر كردہ افراد كو پكڑ كرآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حوالے كرديں گے تا كہ آپ ان كو قتل كرديں اس كے بعد جنگ كے خاتمہ تك باقى افراد كو ختم كرنے كے لئے ہم لوگ آپ كے ساتھ ہيں _

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ پيش كش قبول كرلى ہے تم لوگ اب ہوشيار رہنا اگر يہود تم سے ضمانت كے طور پر كچھ افراد مانگيں تو ايك آدمى بھى ان كے حوالے نہ كرنا _

دوسرى طرف سے احزاب كے سر كردہ افراد جو ٹھنڈى راتوں اور يثرب كے بے آب و گياہ بيابان ميںاپنى طاقتوں كو ضائع كر رہے تھے، بنى قريظہ كى طرف اپنے نمائندے بھيجے اور ان سے كہلوايا كہ :

'' ہم تمہارى طرح اپنے گھر ميں نہيں ہيں ہمارے چوپائے دانہ اور گھاس كى كمى كى بناپر تلف ہوئے جارہے ہيں ، لہذا جنگ كے لئے نكلنے ميں جلد سے جلد ہمارے ساتھ تعاون كا اعلان كرو تا كہ مل جل كر مدينہ پر حملہ كرديں اور اس جنگ سے چھٹكارا مل جائے_ ''

يہوديوں نے جواب ديا'' پہلى بات تو يہ ہے كہ آج ہفتہ ہے اور ہم اس دن كسى كام كو ہاتھ نہيں لگاتے_ دوسرى بات يہ ہے كہ ہم تمہارے ساتھ مل كر جنگ نہيں كريں گے ليكن ايك شرط پر اور وہ يہ كہ تم اپنے اہم افراد ميں سے كسى كو ہمارے حوالہ كردو تا كہ ہم اطمينان كے ساتھ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ جنگ كريں اس لئے كہ ہميں ڈرہے كہ اگر تم جنگ سے عاجز

۱۰۴

آجاؤگے تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ ساز باز كرلوگے اور ہميںبے سہارا چھوڑ دوگے ، ہم تنہا ان سے جنگ كى طاقت نہيں ركھتے اس طرح ہم كہيں كے نہيں رہيں_

جب قريش اور غَطَفَان كے نمائندے واپس آئے اور مذاكرات كے نتيجہ سے آگاہ كيا تو ان لوگوں نے كہا '' بخدا نعيم بن مسعود نے سچ كہا تھا'' لہذا ا نہوں نے پھر سے پيغام بھيجا كہ ہم ايك آدمى كو بھى تمہارے حوالہ نہيں كريں گے اگر تم واقعى اہل نبرد ہو تو آؤ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ ميں ہمارى مدد كرو_

بنى قريظہ نے بھى اس پيغام كو سننے كے بعد ان كے بارے ميں شك كيا اور كہا كہ '' نعيم سچ كہہ رہا تھا يہ لوگ چاہتے ہيں كہ ہميں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ الجھاديں اور اگر موقعہ مل جائے تو اس سے فائدہ حاصل كريں ورنہ ہميںبے سہارا چھوڑديں اور اپنے شہر كى طرف واپس پلٹ جائيں، پھر ايسى صورت ميں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مقابلہ كى سكت ہم ميں نہيں ہے_'' بنى قريظہ كے يہوديوں نے قريش اور غَطَفَان كے سرداروں كو پھر سے پيغام ديا كہ جب تك ہميں كچھ لوگ ضمانت كے طور پر نہ دوگے اس وقت تك ہم تمہارے ساتھ مل كر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ نہيں كريں گے_

دشمن كے درميان تفرقہ پھيل گيا ، دل خوف ہراس سے لبريز ہوگئے، ايك دوسرے كے بارے ميں بدگمانى ميں مبتلا ہوگئے اور جنگ جارى ركھنے كے سلسلہ ميں اختلاف ہوگيا_ اورخدانے اس طرح سے ان لوگوں كو ايك دوسرے كى مدد سے باز ركھا _ جاڑے كى سردرات ميں خدائي مدد لشكر توحيد كو مل گئي اور خدا كے اذن سے بہت تيز ہوائيں چليں اور دشمنوں كے خيموں كو جڑ سے اُكھاڑ كر پھينك ديا آگ بجھادى ان كى ديگوں كو الٹ دى اور شديد گردو غبار نے فضا كو تاريك بناديا_(۲)

۱۰۵

دشمن كى صفوں ميں لشكر اسلام كا سپاہي

مختلف احزاب كے سرداروں كے درميان جو اختلاف ہوگيا تھا اس كى اطلاع ملنے كے بعد اسى سردى اور طوفان كے عالم ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب حُذَيفہ بن يَمان كو معين فرمايا كہ وہ دشمن كے درميان جا كر ان كے حالات كى اطلاع حاصل كريں _

جناب حذيفہ فرماتے ہيں :كہ ميں نكلا اور رات كى تاريكى ميں دشمن كے خيموں ميں وارد ہوا وہاں ميں نے د يكھا كہ شديد گردو غبار اُڑ رہا ہے اور خدا كے لشكر يعنى ''ہوا'' نے نہ كوئي ديگ چھوڑى ہے اور نہ كوئي خيمہ باقى ركھا ہے اور نہ آگ جل رہى ہے_ ميں احزاب كے سر برآوردہ افراد كے درميان پہنچا اور وہيں بيٹھ گيا _ابوسفيان كھڑا ہوا اور اس نے كہا '' ہر آدمى اس بات سے ہوشيار رہے كہ اس كے پہلو ميں جو بيٹھا ہے وہ كون ہے؟ '' حذيفہ فرماتے ہيں كہ ميں نے فوراً اس آدمى كا ہاتھ پكڑليا جو ميرے پاس بيٹھا تھا اور ميں نے اس سے پوچھا كہ تو كون ہے؟ اس نے كہا '' ميں معاويہ ابن ابى سفيان ہوں''_ جو آدمى ميرے بائيں جانب بيٹھا تھا ميں نے اس كا ہاتھ پكڑليا اور اس سے پوچھا كہ تو كون ہے؟ اس نے كہا '' ميں عمرو بن عاص ہوں'' پھر ابوسفيان نے كہا كہ '' ہم اس سے زيادہ پائيدارى كا مظاہرہ نہيں كرسكتے كہ اس شديد سردى ميں يہاں ٹھہريں ، ہمارى سوارياں اورہمارے گھوڑے كمزور ہوگئے اور ہمارے آدمى بيمار پڑ گئے _

دوسرى طرف يہوديوں نے ہمارے لئے كچھ بھى باقى نہيں چھوڑا_ يہ طوفان ہمارى آگ كو بجھا رہا ہے ، ہمارے خيموں كو پارہ پارہ كر رہا ہے _ اس بات كا خوف ہے كہ كہيں خود سپاہيوں ميں داخلى جنگ نہ چھڑجائے ، اس بناپر ہميںاپنا اثاثہ باندھ كر مكّہ پلٹ جانا چاہيئے_

۱۰۶

ابھى سپيدہ سحرى نماياں نہيں ہوا تھا كہ دس۱۰ ہزار كے لشكر نے نہايت ذلت كے ساتھ فرار كو ثابت قدمى پر ترجيح دى اور مكہ كى طرف بھاگ كھڑا ہوا _ اس طرح خدا نے مسلمانوں كى قسمت ميں نصرت اور دشمنوں كے نصيب ميں بكھرنا اور شكست اُٹھانا قرار ديا_

۲۳/ ذى القعدہ بدھ كى صبح پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور لشكر اسلام كے سامنے كفار كى فوج ميں سے كوئي بھى باقى نہ تھا _ سب كے سب بھاگ چكے تھے_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اجازت ديدى كہ مسلمان محاذ كو چھوڑ ديں اور شہر كى طرف لوٹ چليں_(۳)

شہداء اسلام اور كشتگان كفر

اس جنگ اور تيراندازى كے نتيجہ ميں لشكر اسلام كے چھ آدمى درجہ شہادت پر فائز ہوئے ان ميں سے ايك سَعد بن مُعاذ تھے جن كے ہاتھ كى نس كو ايك تير نے كاٹ ڈالا تھا وہ بنى قريظہ والے واقعہ تك زندہ تھے ليكن چند روز بعد شہيد ہوگئے_ مشركين ميں سے تين افراد قتل ہوئے جن ميں سے دو كى ہلاكت حضرت على (ع) كے ہاتھوں ہوئي _(۴)

جنگ احزاب كے بارے ميں سورہ احزاب ۹ سے ۲۵ نمبر تك كى آيتيں نازل ہوئيں_

لشكر احزاب كى شكست كے اسباب

۱: لشكر اسلام كا خندق كھودنا_

۲: احزاب كے بہادر اور شجاع پہلوان '' عمرو بن عبدود'' كا قتل جس نے كفار كے حوصلوں پر بُرا اثر ڈالا_

۳: لشكر اسلام كى ثابت قدمى و پائيدارى اور اپنے محاذ كى باقاعدہ نگہبانى اور شہر مدينہ كى

۱۰۷

مكمل حفاظت_

۴: محاصرہ كرنے والوں كے لشكر اور چوپايوں كے لئے آب و دانہ كى كمى _

۵: موسم كا ناسازگار ہونا اور شديد سردى ميں حملہ كرنا جو اہل مكّہ كے لئے ناسازگار تھا _

۶: دشمن كے جنگى اتحاد كے شيرازے كا منتشر ہوجانا جو لشكر اسلام كے سربراہ حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى فراست كا نتيجہ تھا _

۷: غيبى امداد_ قرآن اس سلسلہ ميں كہتا ہے : '' اے مومنو تم پر جو خدا كى نعمتيں تھيں تم انہيں ياد كرو ، اس وقت جب تمہارے ساتھ جنگ كے لئے لشكر آيا ہوا تھا، تو ہم نے ہوا اور اس لشكر كو بھيجاجس كو تم نہيں ديكھتے تھے اور تم جو كچھ كرتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے_(۵)

جنگ احزاب كے نتائج

جنگ احزاب كا خاتمہ ، قريش كے لئے مصيبتوں كا آغاز تھا _ اس لئے كہ ايك طرف تو قريش اور مشركين ميں مسلمانوں پر حملہ كرنے كى طاقت نہيں رہى تھى اور اعراب كے درميان ان كى حيثيت بہت گر گئي تھى اور دوسرى طرف جزيرة العرب ميں تحريك اسلامى كى حالت روز بروز مستحكم و مضبوط ہوتى جا رہى تھي_ اس كے بعد ابتكار عمل لشكر اسلام كے ہاتھوں ميں تھا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' اس كے بعد ان ( قريش) سے ہم جنگ كريںگے يہ لوگ جنگ كى ابتداء نہيں كرسكتے _(۶)

جنگ احزاب كے بعد قريش كى اقتصادى حالت بہت زيادہ كمزور ہوگئي جبكہ حكومت اسلامى اقتصادى اعتبار سے مضبوط ہوگئي تھى _ چنانچہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مكّہ كے قحط زدہ افراد كے لئے مالى امداد روانہ فرمائي _

۱۰۸

غزوہ بنى قُرَيظَہ

بروز بدھ ۲۳ ذى القعدہ ۵ ھ بمطابق ۱۷ اپريل ۶۲۷ ئ

احزاب كا شكست خوردہ لشكر مايوسى كے عالم ميں مدينہ سے بھاگ گيا _ خندق كھودنے اور بيرونى دشمنوں سے مقابلہ كرنے ميں ہفتوں كى مسلسل اور انتھك كوشش كے بعد مسلمان اپنے گھروں كو لوٹے تا كہ آرام كريں _ مدينہ ميں ابھى پورے طريقہ سے امن و امان برقرار نہيںہونے پايا تھا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وحى كے ذريعہ اطلاع ملنے كے بعد بلال كو حكم ديا كہ وہ لوگوں كو جمع كرنے كے لئے اس طرح عام اعلان كريں كہ '' جو خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا پيروكارہے وہ نماز عصر قلعہ بنى قُريَظہ كے پاس پڑھے''_

اسى دن عصر كے وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تين ہزار جاں بازوں كے ساتھ بنى قُريَظہ كے قلعہ كى طرف چل پڑے، لشكر اسلام كے آگے آگے مجاہدين اسلام كا علم اٹھائے ہوئے حضرت على (ع) چل رہے تھے _ چنانچہ آپ(ع) بقيہ مسلمانوں كے پہنچنے سے پہلے ہى چند افراد كے ساتھ قلعہ كے پاس پہنچ گئے _

لشكر اسلام نے قلعہ بنى قُريَظہ كا محاصرہ كرليا _ محاصرہ ۱۵ دن تك جارى رہا(۷) اس مدت ميں چند بار تيراندازى كے علاوہ كوئي حملہ نہيں ہوا_ بنى قُريَظہ كے يہودى سمجھ گئے كہ لشكر اسلام سے مقابلہ كرنے كا كوئي فائدہ نہيں ہے، لہذا اپنے نمائندے كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس بھيجا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس جگہ سے كوچ كرنے اور اپنے مال و اسباب كو اپنے ساتھ لے جانے كى اجازت مانگى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كى پيش كش كو رد كرديا_انہوں نے دوبارہ در خواست كى كہ ان كو مدينہ ترك كرنے اور اپنے اموال سے صرف نظر كرنے كى اجازت دى جائے_ ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جانتے تھے كہ اگر بنى قُريَظہ كے يہوديوں كو بھى بنى قَينقُاع اور بنى

۱۰۹

نَضير كے يہوديوں كى طرح آزاد چھوڑديا جائے تو وہ مسلمانوں كے چنگل سے نكلتے ہى بدّو اعراب كو بھڑ كا كر مسلمان اور اسلام كے خلاف نئي سازشوں كا آغاز كرديں گے، جس طرح كہ بنى قينقاع كى تحريك پر جنگ احد كى آگ بھڑ كى اور بنى نضير كى تحريك پر غزوہ خندق (احزاب) كى ہمہ جانبہ سازش ہوئي_ لہذا پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس پيش كش كو قبول كرنے سے انكار كيا اور فرمايا كہ تم بغير كسى قيد و شرط كے اپنے آپ كو ہمارے حوالے كردو_(۸)

ايك خيانت كار مسلمان اور اسكى توبہ كى قبوليت

ايك طرف تو يہودى محاصرے كى وجہ سے تنگ آچكے تھے اور دوسرى طرف ان كے دل ميںخوف و وحشت بيٹھا ہوا تھا_انہوں نے اپنے ديرينہ دوست اور ہمسائے '' ابُولبابہ'' كے متعلق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست كى كہ اَبُولباَبہ كو مشورے كے لئے ہمارے پاس بھيجئے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ درخواست قبول كرلى اور ابولبابہ كو اجازت ديدى كہ وہ قلعہ بنى قريظہ جائيں_ جب ابولبابہ وہاں پہنچے تو يہوديوں نے ان كے گرد حلقہ بناليا ، ان كى عورتوں اور بچّوں نے رونا شروع كرديا_ ان كى آہ و زارى نے ابولبابہ كو متاثر كيا _ ان كے مردوں نے ابولبابہ سے سوال كيا كہ ''كيا اس ميں صلاح ہے كہ ہم بلا قيد و شرط خود كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سپرد كرديں يا صلاح نہيں ہے''؟

ابولبابہ اپنے احساسات سے بہت زيادہ متاثر تھے انہوں نے جواب ديا كہ ہاں، ليكن انگلى سے اپنى گردن كى طرف اشارہ كيا كہ اگر تم خود كو ان كے حوالے كردوگے توتمہارى گردن اڑادى جائے گي_

ابولبابہ نے اپنى اس بات سے ''جس كے ذريعہ يہوديوں كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حوالے

۱۱۰

كرنے سے منع كيا تھا''_

خدا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بارگاہ ميں بہت بڑى خيانت كے مرتكب ہوئے تھے_ ناگہان ان كو احساس ہوا كہ وہ تو بہت بڑے گناہ كے مرتكب ہوچكے ہيں ،لہذا فوراً قلعہ سے باہر آئے، چونكہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا سامنا كرتے ہوئے شرم آرہى تھى اس لئے سيدھے مسجد ميں پہنچے اور خود كو مسجد كے ايك ستون سے رسّى كے ذريعے باندھ ديا كہ شايد خدا ان كى توبہ قبول كرلے_ ابولبابہ كے واقعہ كى خبر لوگوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو دي، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا اگر مسجد جانے سے پہلے وہ ميرے پاس آتے تو ميں خدا سے ان كے لئے استغفار كرتا اب اسى حالت پر رہيں يہاں تك كہ خدا ان كى توبہ قبول كرلے _ابولبابہ كى خيانت كے بارے ميں سورہ انفال كى آيت ۲۷نازل ہوئي كہ :

'' اے ايمان لانے والو دين كے كام ميں خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خيانت نہ كرو اور اپنى امانت ميں خيانت نہ كرو درحالانكہ تم جانتے ہو_''(۹)

ابولبابہ چھ دن تك، دن ميں روزہ ركھتے نماز كے وقت ان كى بيٹى ستون سے ان كے ہاتھ پير كھول ديتى _ طہارت اور فريضہ كى ادائيگى كے بعد ان كو دوبارہ مسجد كے ستون سے باندھ ديتى تھيں، يہاں تك كہ فرشتہ وحى بشارت كے ساتھ آن پہنچا كہ ابولبابہ كى توبہ قبول ہوگئي ہے_ان كى توبہ كے بارے ميں سورہ توبہ كى آيت ۱۰۲نازل ہوئي كہ :

'' ان ميں سے ايك گروہ نے اپنے گناہ كا اعتراف كرليا كہ انہوں نے نيك و بد اعمال كو با ہم ملاديا ہے عنقريب خدا ان كى توبہ قبول كرلے گا بيشك خدا بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے_''(۱۰)

لوگوں نے خوشى ميں چاہا كہ ابولبابہ كى رسّى كو كھول ديں ليكن اس نے كہا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۱۱۱

ميرى رسيوں كى گرہيں كھوليں گے جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز كے لئے مسجد ميں تشريف لائے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كى رسى كى گرہوں كو كھول ديا_ ابولبابہ تمام عمر نيكى اور اچّھے عمل پر باقى رہے اور پھر كبھى بھى محلہ بنى قريظہ ميں آپ نے قدم نہيں ركھا_(۱۱)

بنى قريظہ كا اپنے آپ كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حوالے كرنا

يہوديوں سے مذاكرات اور گفتگو كسى نتيجے تك نہ پہنچ سكى _ كچھ دن تك انہوں نے اپنے آپ كو رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حوالے كرنے سے انكار كيا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر اسلام كو آمادہ رہنے كا حكم ديا تا كہ حملہ كر كے ان كے قلعے كو فتح كيا جائے_ يہوديوں نے سمجھ ليا كہ لشكر اسلا م كا حملہ اور ان كى كاميابى يقينى ہے، بھاگنے كا كوئي راستہ باقى نہيں ہے، مجبوراً قلعے كے دروازوں كو كھول ديا اور بلا قيد و شرط خود كو لشكر اسلام كے حوالہ كرديا_(۱۲)

حضرت على (ع) اپنے لشكر كے ہمراہ قلعے ميں داخل ہوئے اور ان سے مكمل طور پر ہتھيار كھوالئے(۱۳) پھر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مردوں كو قيد خانے ميں منتقل كرنے كا حكم صادر فرمايا اور ان كى حفاظت كى ذمہ دارى محمد بن مَسلَمَة كے سپرد كي، عورتوں اور بچّوں كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق دوسرى جگہ نگرانى ميں ركھا گيا_(۱۴)

سعد بن معاذ كا فيصلہ

بنى قُريَظہ كے يہودى چونكہ قبيلہ اَوس كے ہم پيمان تھے لہذا انہوں نے پيش كش كى كہ ان كے بارے ميں سَعدبن مُعاذ فيصلہ كريں وہ لوگ اس فكر ميں تھے كہ شايد گزشتہ دوستى كى بدولت سَعدبن مَعاذ ان كى سزا ميں تخفيف كے قائل ہوجائيں گے_

۱۱۲

قبيلہ اَوس كے لوگوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نہايت اصرار كے ساتھ يہ درخواست كى كہ اس گروہ كو آزاد كرديں، وہ لوگ قبيلہ خَزرَج سے رقابت كى بناپر اپنى بات پر اصرار كر رہے تھے اس كى وجہ يہ تھى كہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنى قَينقاع كو'' عبداللہ بن اُبّى خَزرجى ''كى خواہش پر آزاد كرديا تھا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں سے بھى فرمايا كہ '' كيا تم اس بات كے لئے تيار ہو كہ تمہارے بزرگ سَعدبن مُعَاذ ا ن كے بارے ميں فيصلہ كرديں؟'' سب نے كہا كہ ہاں، اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم بھى ان كے فيصلے كے سامنے سرجھكا ديں گے''(۱۵)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سَعدبن مُعَاذ كو بلانے كے لئے آدمى بھيجا _ اس وقت آپ ہاتھ كى رگ كٹ جانے كى وجہ سے زخمى حالت ميں بستر پر رُفَيْدَہ نامى عورت كے خيمہ ميں پڑے تھے جس نے جنگى مجروحين كى خدمت كے لئے اپنى زندگى وقف كردى تھى _ اَوس كے جوانوں نے ان كو چارپائي پر لٹايا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں لے چلے راستہ ميں انہوں نے سَعد سے درخواست كى كہ اپنے ہم پيمان كے ساتھ اچّھا سلوك كرنا، انہوں نے جواب ميں فرمايا كہ '' سَعد كے لئے وہ زمانہ آن پہنچا ہے كہ جس ميں كسى ملامت كرنے والے كى ملامت سے سَعد ڈرنے والا نہيں ہے_''

جب سَعد لشكر گاہ ميں پہنچے تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ تم اپنے بزرگ كے احترام ميں كھڑے ہوجاؤ حاضرين اُٹھ كھڑے ہوئے سَعد نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عدالت پر مبنى حكم كے بعد مہاجر و انصار سے يہ عہد ليا كہ وہ جو حق سمجھيں گے اس كا اجراء ہوگا اور بنى قُريَظہ كے يہوديوں نے بھى اس كو قبول كيا_(۱۶)

اس كے بعد سعد ابن معاذ نے بہ آواز بلند اعلان كيا كہ ''يہوديوں كے مرد قتل كرديئےائيں عورتيں اور بچّے اسير بنا لئے جائيں اور ان كے اموال كو ضبط كرليا جائے''

۱۱۳

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' سعد ابن معاذنے قانون الہى كے مطابق فيصلہ كيا''(۱۷)

سَعد كے فيصلے كى دليليں

۱: يہوديوں كى دينى كتاب ( تورات) كا فيصلہ ،جو بلا شك و شبہ يہوديوں كو قبول ہوگا_

كيونكہ تورات ميں آيا ہے كہ '' جب تم جنگ كے ارادے سے كسى شہر كا قصد كرو تو پہلے ان كو صلح كى دعوت دو اگر وہ لوگ جنگ كو ترجيح ديں تو شہر كا محاصرہ كرو اور جب شہر پر تسلّط ہوجائے توتمام مردوں كو تہ تيغ كردو او رعورتوں ، بچّوں ، جانوروں اور جو كچھ بھى شہر ميں ہو اس كو مال غنيمت ميں شامل كرلو'' _(۱۸)

۲: مدينہ ميں وارد ہونے كے بعد پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا يہوديوں سے معاہدہ_ جس معاہدے پر فريقين كے دستخط ہوئے تھے اس كى ايك دفعہ يہ تھى كہ جب يہود پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان كے ساتھيوں كے خلاف كوئي قدم اٹھائيں يا اسلحہ اور سوارى ان كے دشمنوں كو ديں تو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ان كا خون بہانے ،ان كے اموال كو ضبط كرنے اور ان كى عورتوں اور بچّوں كو اسير كرنے كا حق حاصل ہوگا_

۳: سَعد اور سارے دور انديش مسلمان اس بات كو جانتے تھے كہ اگر وہ لوگ اس مہلكہ سے جان بچاكر نكل گئے تو بنى قَينُقاع كے يہوديوں كى طرح كہ جنہوں نے اپنى تحريك پر احد كى جنگ چھيڑدى تھى اور بہت سے لوگوں كى شہادت كا سبب بن گئے تھے اور بنى نَضير كى طرح كہ جنہوں نے جنگ احزاب كا فتنہ كھڑا كرديا اور قريب تھا كہ اسلام كى بنياد كو اكھاڑ ديں، يہ لوگ بھى اسلام كے خلاف عظيم اتحادى لشكر بناليں گے اور ان خطرناك عناصر كا زندہ رہنا اسلامى تحريك كے لئے مفيد نہيں تھا_

۱۱۴

پيمان شكنى كا انجام

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ اسيروں كے ساتھ اچھا سلوك كيا جائے _ اس لئے زيادہ مقدار ميں ٹھنڈا پانى ان كے سامنے ركھا گيا_ پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق خندق كھودى گئي اور سات سو ۷۰۰(-۱۶) بدبخت جنگجو يہوديوں جو صلح و آشتى ، جيو اور جينے دو، كے خصوصى سلوك كے باوجود پيمان شكنى كے ذريعہ مسلمان كو نيست و نابود كردينے كا قصد ركھتے تھے ، ان كو حضرت علي(ع) اور زبير كى تلوار نے فنا كے گھاٹ اتار ديا_ كچھ لوگ قبيلہ اوس كے افراد كے ذريعہ ہلاك ہوئے_جى ہاں عہد شكنى كرنے والا ضرور كيفر كردار تك پہنچتا ہے_ قتل كئے جانے والوں ميں وہ عورت بھى تھى جس نے محاصرے كے دوران قلعے كے ا وپر سے پتّھر گرا كر'' خَلَادبن سُوَيد ''كو شہيد كرديا تھا_(۲۰)

اس گروہ كے خاتمے كے بعد مدينہ خائن عناصر كے وجود اور مسلح داخلى ريشہ دوانى كرنے والے اس گروہ سے پاك ہوگيا جو ملك ميں رہ كردو سروں كے مفاد ميں كام كرتے تھے_

اسارى اور مال غنيمت

بنى قُريَظہ سے جو مال غنيمت ہاتھ لگا تھا اس ميں پندرہ سو تلواريں ، تين سو زرہيں، دو ہزار نيزے ،دھات اور چمڑے كى بنى ہوئي پندرہ سوسپر، بہت زيادہ لباس بر تن اور گھر كے سامان ، نيز بہت زيادہ شراب تھى جس كو زمين پر بہاديا گيا _(۲۱)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مال غنيمت كا خمس نكالنے كے بعد بقيہ مال مجاہدين كے درميان تقسيم كرديا_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سَعدبن عُبَادَة كو بنى قُريَظہ كے اسيروں كے ساتھ شام بھيجا تا كہ ان كو بيچنے كے بعد سپاہ اسلام كے لئے گھوڑے اور اسلحہ مہيّا كريں(۲۲) يہ جنگ ۸ذى الحجہ ۵ ہجرى قمرى بمطابق ۲ مئي ۶۲۷ عيسوى كو تمام ہوئي_

۱۱۵

سوالات

۱_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دشمن كے درميان كيسے اختلاف ڈالا؟

۲_ لشكر احزاب كى شكست كے اسباب بيان كيجئے_

۳ _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنى قريظہ كے خلاف لشكر كشى كيوں كي؟

۴_ كيا سَعدبن مُعاذ نے يہوديوں كے بارے ميں عادلانہ فيصلہ كيا؟

۵_ابولبابہ كون سى خيانت كے مرتكب ہوئے_

۱۱۶

حوالہ جات:

۱_ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۳۴_ بحارالانوار ج ۲۰ص ۲۵۲_

۲_ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۴۰_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۴۸۰، تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۷۸

۳_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۸۰_ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۴۲_ مغازى واقدى ج۲ص ۴۸۹_

۴_ مرحوم استاد ڈاكٹر ابراہيم آيتى كى ياد تازہ رہے انہوں نے شہداء احزاب كى تعداد بارہ اور قريش كے مقتولين كى تعداد چار لكھى ہے '' تاريخ پيامبر '' مطبوعہ دانشگاہ تہران ص ۳۷۳_ ۳۷۲ ملاحظہ ہو _ اسى طرح مشہور مورخ يعقوبى نے شہداء مسلمين كى تعداد چھ اور كشتگان قريش كى تعداد آٹھ بتائي ہے _ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۵۱ مطبوعہ بيروت _

۵_( يَا اَيُّها الَّذينَ آمَنُوا اذكُرٌوا نعمَةَ الله عَليكمُ اذ جائَتكُمْ جُنُودٌ فَاَرسَلنَا عَلَيهم ريحاً و جُنوداً لَم تَرَوها و كَانَ الله بما تعملون بَصيراً ) ( احزاب _۹)

۶_اَلآن نضْزوهُم وَ لا يَغزَونا ( ارشاد شيخ مفيد/ ۵۶)_

۷_ مسعودى كى نقل كے مطابق ۱۵ دن جبكہ ابن ہشام و غيرہ كے نزديك ۲۵ دن ر _ك سيرہ ابن ہشام ج۳ ص ۲۴۶_

۸_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۸۲/۵۸۴_ مغارى واقدى ج ۲ ص ۴۹۷/۵۰۰_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۷۴، سيرہ ابن ہشام ج ۳ ص ۲۴۴/ ۲۵۰

۹_( يا ايّها الذين آمنوا لا تخونوا الله و الرَّسُولَ و تَخونواَ اماناتكُم و اَنتُم تعلمون ) (انفال۲۷)

۱۰_( و آخرون اعترفوا بذنوبهم خَلَطُوا عَمَلاً صَالحاً و آخَرَ سَيئاً عسى الله اَن يَتُوبَ عَلَيهم انَّ الله غَفُورٌ رَحيم ) ( توبہ ۱۰۲) سيرة ابن ہشام ج ۲ ص ۲۳۷، ۲۳۸_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۸۵_

۱۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۵۰۹_

۱۱۷

۱۲_ ايضاً_

۱۳_ فروغ ابديت ج ۲، ص ۵۶۱_

۱۴_مغازى واقدى ج ۲، ص ۵۱۰_

۱۵_ ارشاد شيخ مفيد ص ۵۸_ سيرة ابن ہشام ج ۲ ص ۲۳۹_

۱۶_ جناب سعد ايك متقى ، عادل، دانش مند اور سياسى سوجھ بوجھ ركھنے والے انسان تھے_ جنگ احزاب ميں جو زخم ان كو لگا تھا اس بناپر وہ بستر شہادت پر پڑے ہوئے اپنى زندگى كے آخرى دن گزار رہے تھے ظاہر ہے كہ ايسا آدمى اپنى نفسانى خواہش كے زير اثر فيصلہ نہيں كريگا اور مصالح اسلامى كو يہوديوں كے ساتھ اپنى ديرينہ دوستى پر فدا نہيں كرے گا اور يہوديوں كى عظيم خيانت كے باوجود ان پر زيادتى نہيں كرے گا _

۱۷_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۵۱۰_۵۱۲_

۱۸_ تورات سفر تثنيہ، فصل ۲۰_

۱۹_ ان كى تعداد ۶۰۰، ۶۵۰ اور ۹۰۰ بھى لكھى گئي ہے_

۲۰_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۵۱۳/۵۱۷_

۲۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۵۱۰_ بحار الانوار ج ۲۰ ص ۲۱۲_

۲۱_ مفازى واقدى ج ۲ ص ۵۲۳_

۱۱۸

ساتواں سبق

چھ ہجرى كاآغاز

غزوہ بنى لحيان

مفسدين فى الارض كا قتل

غزوہ بنى مصطلق

ايك حادثہ

زيدبن ازقم كا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر پہنچانا

باپ اور بيٹے ميں فرق

بنى مصطلق كا اسلامى تحريك ميں شامل ہونا

ايك فاسق كى رسوائي

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيوى پر تہمت

صلح حديبيہ -- مكہ كى راہ پر

قريش كا موقف

قريش كے نمائندے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سُفرائ

بيعت رضوان -- صلح نامے كا متن

صلح كے مخالفين

ابوبصير كا واقعہ اور صلح نامے كى دوسرى شرط كا خاتمہ

صلح حديبيہ كے نتائج كا تجزيہ

سوالات

۱۱۹

چھ ہجرى كا آغاز

يہ سال ، سياسى اور جنگى اعتبار سے تاريخ اسلام ميں اہم ترين سال شمار كيا جاتا ہے_اس لئے كہ لشكر احزاب كى شكست اور ہجرت كے پانچويں سال يہوديوں پر مسلمانوں كى كاميابى كے بعد لشكر اسلام كے حملے شروع ہوئے_ اس طرح كہ اس سال ۲۴ جنگى دستے (سريہّ) مختلف ذمہ داريوں كے ساتھ بھيجے گئے اور ان ميں سے بہت سے گروہ اہم كاميابيوں اور بہت زيادہ مال غنيمت كے ساتھ مدينہ واپس آئے _اس سال چار غزوات اور كل ۲۸ جنگى حملے وقوع پذير ہوئے(۱) اور صلح حديبيہ كا اہم معاہدہ بھى اسى سال طے پايا _اب اختصار كے ساتھ اس سال كے اہم جنگى واقعات بيان كرتے ہيں_

غزوہ بنى لحى ان

يكم ربيع الاوّل ۶ ہجرى(۲) بمطابق ۲۳ جولائي سنہ ۶۲۷ئ بروز منگل_

سنہ ۴ ہجرى ميں بَنى لحيان كے ہاتھوں مبلغين اسلام كى شہادت كے سلسلے ميں رونما ہونے والے بدترين سانحے ''رجيع '' كے مجرمين كو تنبيہ كرنے كيلئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تيار ہوئے _ اب دو سال كے بعد جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مناسب موقع ملا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابن ام مكتوم كو مدينہ ميں

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298