تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي0%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

مؤلف: مركز تحقيقات علوم اسلامي
زمرہ جات:

صفحے: 298
مشاہدے: 132894
ڈاؤنلوڈ: 2906


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 132894 / ڈاؤنلوڈ: 2906
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد 2

مؤلف:
اردو

دشمن كى صفوں ميں تفرقہ پيدا كرنے كى كوشش

ايك طرف دشمن كے حوصلے بہت زيادہ كمزور ہوچكے تھے اور دوسرى طرف مسلمان بھى بہت زيادہ دباؤ محسوس كر رہے تھے_ ايسے حالات ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كوشش كى كہ دشمن كى صفوں ميں اختلاف پيدا ہوجائے اور احزاب كے فوجى اتحاد كا شيرازہ بكھرجائے، اس غرض سے آپ نے قبائل غَطفَان كے سر برآوردہ افراد كے پاس پيغام بھيجا كہ '' كيا تم لوگ اس كام كے لئے تيار ہو كہ مدينہ كى كھجوروں كا تيسرا حصّہ تم كو ديدوں اور تم اپنے خاندان كى طرف پلٹ جاؤ اور دوسرے قبيلوں ميں بھى اس بات كى تبليغ كرو كہ وہ جنگ سے دست بردار ہوجائيں؟'' ان لوگوں نے مصالحت كے لئے نصف كا مطالبہ كيا اور پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس مذاكرے كے لئے حاضر ہوگئے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كاغذ، قلم اور دوات لانے كا حكم ديا تا كہ ايك ثلث كى قرارداد لكھى جائے_ اس وقت مدينہ كے سربرآوردہ افراد سَعد بن عُبَادَة اور سَعدَ بن مُعاذ آگئے، انہوں نے كہا كہ'' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يہ حكم خدا كى طرف سے ہويا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا ذاتى نظريہ ہو، ہم اس كے فرمانبردار ہيں ليكن اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارا نظريہ جاننا چاہتے ہيں تو ہم ان كو باج ( ٹيكس) نہيں ديں گے_ جاہليت كے زمانہ ميں جب ہم مشرك تھے تو اس وقت خريدنے يا مہمان بننے كے علاوہ ہمارا خرما ان تك نہيںپہنچتا تھا، اب جب ہم اسلام سے سرفراز ہيں تو كيا ان كو ٹيكس ادا كريں؟ ہمارے اور ان كے درميان تلوار كو فيصلہ كرنا چاہيئے_(۱)

۱۰۱

غَطَفَان كے قبيلے كے سربرآوردہ افراد جب خالى ہاتھ واپس جار ہے تھے اس وقت آپس ميں باتيں كرتے جارہے تھے كہ '' ان لوگوں نے جنگ جارى ركھنے كے علاوہ اور كوئي راستہ ہى اختيار نہيں كيا اور آخرى فرد تك اپنے ہدف كے دفاع كے لئے تيار ہيں ايك ہم ہيں كہ سخت سردى اور خشك بيابان ميں اپنے اونٹ اور گھوڑوں كو فنا كر رہے ہيں_''

بنى قريظہ اور مشركين كے درميان پھوٹ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مشركين كے قبائل كے درميان اختلاف پيدا كرنے كى كوشش كر رہے تھے جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ جنگ لڑنے كے لئے اُٹھ كھڑے ہوئے تھے اور ساتھ ہى يہ كوشش بھى كر رہے تھے كہ بنى قريظہ كے يہوديوں كے مشركين سے تعلّقات بگڑ جائيں اور انہيں ايك دوسرے سے بدظن كر كے ان كے فوجى اتحاد ميں تزلزل پيدا كرديں_ اسى وقت ايك مناسب موقعہ بھى ہاتھ آگيا _ دشمن كے محاذ كا ايك آدمى جس كا نام نعيم بن مسعود تھا مسلمان ہوگيا_ وہ ايك طرف تو بنى قريظہ كے يہوديوں سے اچّھے تعلّقات ركھتا تھا اور دوسرى طرف مشركين كے لئے مكمل طور پر قابل اطمينان تھا _ وہ جس كے دل ميں نور ايمان جگمگار رہا تھا، رات كے اندھيرے ميںاپنے خيمہ سے باہر نكلا اور پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خيمہ ميں پہنچ گيا _ اور عرض كہ '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں نے اسلام قبول كرليا ہے _ ليكن ميرے قبيلے والے ميرے مسلمان ہونے سے بے خبر ہيں آپ جو حكم فرمائيں ميں اس كى تعميل كے لئے حاضر ہوں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمايا'' جہاں تك ہو سكے جنگ ميں دشمن كے ارادہ كو كمزور بنادو'' ان كو پراگندہ كر دو اس لئے كہ جنگ ايك فريب ہے''_

۱۰۲

نَعيم بنَ مَسعُود محلہ بنى قريظہ ميں پہنچا پہلے يہ ان لوگوں كا نديم رہ چكا تھا اس نے بنى قريظہ كو مخاطب كركے كہا ''اے بنى قُريظَہ تم اپنے ساتھ ميرى دوستى اور يكرنگى سے واقف ہو''_ ان لوگوں نے كہا '' ہم بھى اس بات كو اچّھى طرح جانتے ہيں اور تمہارے بارے ميں بدگمان نہيں ہيں''_

نعيم نے كہا كہ '' جوبات ميں كہنے جارہا ہوں اس كى شرط يہ ہے كہ تم ميرے راز كو چھپاكر ركھو گے، اور وہ يہ كہ جنگ دشوار ہے، اور قريش و غَطَفَان جنگ ميں سُست پڑ رہے ہيں _ عَمرو بن عَبدوَدّ ان كا پہلوان ماراگيا اور قبيلہ غَطَفان كے لوگ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خفيہ طور پر يہ ساز باز كر رہے ہيں كہ وہ مدينہ كے خرما كا آدھا محصول لے ليں اور ا پنى راہ ليں ، ايسى صورت ميں اگر قريش و غَطَفَان كو موقع ملا تو ممكن ہے فتحياب ہوجائيں اور اگر ہار گئے تو اپنا بوريہ بسترلے كر اپنے وطن چلے جائيں گے، جبكہ تم ايسا كام نہيں كرسكتے، تمہارے بال بچّے، گھر بار ، كھيتى باڑى اور تمہارے نخلستان يہاں ہيں ، قريش و غَطَفَان كى شكست كى صورت ميں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم سب كا محاصرہ كرليں گے_ اورتمہارى امانتيں تمہيں نہيں ديں گے لہذا تم قريش و غَطَفَان كو ساتھ لے كر جنگ نہ كرو مگر يہ كہ ان كے سر بر آوردہ افراد كو يرغمال بناكر اپنے پاس ركھ لو اور اس طرح ان كو، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ صلح كا معاہدہ كرنے كا موقعہ نہ دو تا كہ وہ تمہيںبے سہارا چھوڑ كر اپنے كام ميں نہ لگ جائيں''_

بنى قريظہ كے يہوديوں نے كہا كہ ''تم بہت پر خلوص مشورہ دے رہے ہو ، ہم تمہارا شكريہ ادا كرتے ہيں اور تمہارے نظريے كو عملى جامہ پہنائيں گے''_

نعيم وہاں سے ابوسفيان اور قريش و غَطَفَان كے دوسرے سربرآوردہ افراد كے پاس آيا اور كہا'' ايك بات ميںنے سنى ہے جو ازراہ خير خواہى تمہيں بتانا چاہتا ہوں ليكن شرط يہ

۱۰۳

ہے كہ اس راز كو چھپا كر ركھنا''_

ان لوگوں نے كہا :'' بہت خوب كيا كہنا چاہتے ہو _''

نعيم نے كہا '' بنى قريظہ ،محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ اپنى پيمان شكنى پرپشيمان ہيں اور وہ چاہتے ہيں كہ جو بھول ان سے ہوئي ہے اس كا جبران كريں _انہوں نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو پيغام بھيجا ہے كہ ہم قريش و غَطَفَان كے ستر۷۰ سر كردہ افراد كو پكڑ كرآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حوالے كرديں گے تا كہ آپ ان كو قتل كرديں اس كے بعد جنگ كے خاتمہ تك باقى افراد كو ختم كرنے كے لئے ہم لوگ آپ كے ساتھ ہيں _

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ پيش كش قبول كرلى ہے تم لوگ اب ہوشيار رہنا اگر يہود تم سے ضمانت كے طور پر كچھ افراد مانگيں تو ايك آدمى بھى ان كے حوالے نہ كرنا _

دوسرى طرف سے احزاب كے سر كردہ افراد جو ٹھنڈى راتوں اور يثرب كے بے آب و گياہ بيابان ميںاپنى طاقتوں كو ضائع كر رہے تھے، بنى قريظہ كى طرف اپنے نمائندے بھيجے اور ان سے كہلوايا كہ :

'' ہم تمہارى طرح اپنے گھر ميں نہيں ہيں ہمارے چوپائے دانہ اور گھاس كى كمى كى بناپر تلف ہوئے جارہے ہيں ، لہذا جنگ كے لئے نكلنے ميں جلد سے جلد ہمارے ساتھ تعاون كا اعلان كرو تا كہ مل جل كر مدينہ پر حملہ كرديں اور اس جنگ سے چھٹكارا مل جائے_ ''

يہوديوں نے جواب ديا'' پہلى بات تو يہ ہے كہ آج ہفتہ ہے اور ہم اس دن كسى كام كو ہاتھ نہيں لگاتے_ دوسرى بات يہ ہے كہ ہم تمہارے ساتھ مل كر جنگ نہيں كريں گے ليكن ايك شرط پر اور وہ يہ كہ تم اپنے اہم افراد ميں سے كسى كو ہمارے حوالہ كردو تا كہ ہم اطمينان كے ساتھ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ جنگ كريں اس لئے كہ ہميں ڈرہے كہ اگر تم جنگ سے عاجز

۱۰۴

آجاؤگے تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ ساز باز كرلوگے اور ہميںبے سہارا چھوڑ دوگے ، ہم تنہا ان سے جنگ كى طاقت نہيں ركھتے اس طرح ہم كہيں كے نہيں رہيں_

جب قريش اور غَطَفَان كے نمائندے واپس آئے اور مذاكرات كے نتيجہ سے آگاہ كيا تو ان لوگوں نے كہا '' بخدا نعيم بن مسعود نے سچ كہا تھا'' لہذا ا نہوں نے پھر سے پيغام بھيجا كہ ہم ايك آدمى كو بھى تمہارے حوالہ نہيں كريں گے اگر تم واقعى اہل نبرد ہو تو آؤ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ ميں ہمارى مدد كرو_

بنى قريظہ نے بھى اس پيغام كو سننے كے بعد ان كے بارے ميں شك كيا اور كہا كہ '' نعيم سچ كہہ رہا تھا يہ لوگ چاہتے ہيں كہ ہميں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ الجھاديں اور اگر موقعہ مل جائے تو اس سے فائدہ حاصل كريں ورنہ ہميںبے سہارا چھوڑديں اور اپنے شہر كى طرف واپس پلٹ جائيں، پھر ايسى صورت ميں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مقابلہ كى سكت ہم ميں نہيں ہے_'' بنى قريظہ كے يہوديوں نے قريش اور غَطَفَان كے سرداروں كو پھر سے پيغام ديا كہ جب تك ہميں كچھ لوگ ضمانت كے طور پر نہ دوگے اس وقت تك ہم تمہارے ساتھ مل كر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ نہيں كريں گے_

دشمن كے درميان تفرقہ پھيل گيا ، دل خوف ہراس سے لبريز ہوگئے، ايك دوسرے كے بارے ميں بدگمانى ميں مبتلا ہوگئے اور جنگ جارى ركھنے كے سلسلہ ميں اختلاف ہوگيا_ اورخدانے اس طرح سے ان لوگوں كو ايك دوسرے كى مدد سے باز ركھا _ جاڑے كى سردرات ميں خدائي مدد لشكر توحيد كو مل گئي اور خدا كے اذن سے بہت تيز ہوائيں چليں اور دشمنوں كے خيموں كو جڑ سے اُكھاڑ كر پھينك ديا آگ بجھادى ان كى ديگوں كو الٹ دى اور شديد گردو غبار نے فضا كو تاريك بناديا_(۲)

۱۰۵

دشمن كى صفوں ميں لشكر اسلام كا سپاہي

مختلف احزاب كے سرداروں كے درميان جو اختلاف ہوگيا تھا اس كى اطلاع ملنے كے بعد اسى سردى اور طوفان كے عالم ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب حُذَيفہ بن يَمان كو معين فرمايا كہ وہ دشمن كے درميان جا كر ان كے حالات كى اطلاع حاصل كريں _

جناب حذيفہ فرماتے ہيں :كہ ميں نكلا اور رات كى تاريكى ميں دشمن كے خيموں ميں وارد ہوا وہاں ميں نے د يكھا كہ شديد گردو غبار اُڑ رہا ہے اور خدا كے لشكر يعنى ''ہوا'' نے نہ كوئي ديگ چھوڑى ہے اور نہ كوئي خيمہ باقى ركھا ہے اور نہ آگ جل رہى ہے_ ميں احزاب كے سر برآوردہ افراد كے درميان پہنچا اور وہيں بيٹھ گيا _ابوسفيان كھڑا ہوا اور اس نے كہا '' ہر آدمى اس بات سے ہوشيار رہے كہ اس كے پہلو ميں جو بيٹھا ہے وہ كون ہے؟ '' حذيفہ فرماتے ہيں كہ ميں نے فوراً اس آدمى كا ہاتھ پكڑليا جو ميرے پاس بيٹھا تھا اور ميں نے اس سے پوچھا كہ تو كون ہے؟ اس نے كہا '' ميں معاويہ ابن ابى سفيان ہوں''_ جو آدمى ميرے بائيں جانب بيٹھا تھا ميں نے اس كا ہاتھ پكڑليا اور اس سے پوچھا كہ تو كون ہے؟ اس نے كہا '' ميں عمرو بن عاص ہوں'' پھر ابوسفيان نے كہا كہ '' ہم اس سے زيادہ پائيدارى كا مظاہرہ نہيں كرسكتے كہ اس شديد سردى ميں يہاں ٹھہريں ، ہمارى سوارياں اورہمارے گھوڑے كمزور ہوگئے اور ہمارے آدمى بيمار پڑ گئے _

دوسرى طرف يہوديوں نے ہمارے لئے كچھ بھى باقى نہيں چھوڑا_ يہ طوفان ہمارى آگ كو بجھا رہا ہے ، ہمارے خيموں كو پارہ پارہ كر رہا ہے _ اس بات كا خوف ہے كہ كہيں خود سپاہيوں ميں داخلى جنگ نہ چھڑجائے ، اس بناپر ہميںاپنا اثاثہ باندھ كر مكّہ پلٹ جانا چاہيئے_

۱۰۶

ابھى سپيدہ سحرى نماياں نہيں ہوا تھا كہ دس۱۰ ہزار كے لشكر نے نہايت ذلت كے ساتھ فرار كو ثابت قدمى پر ترجيح دى اور مكہ كى طرف بھاگ كھڑا ہوا _ اس طرح خدا نے مسلمانوں كى قسمت ميں نصرت اور دشمنوں كے نصيب ميں بكھرنا اور شكست اُٹھانا قرار ديا_

۲۳/ ذى القعدہ بدھ كى صبح پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور لشكر اسلام كے سامنے كفار كى فوج ميں سے كوئي بھى باقى نہ تھا _ سب كے سب بھاگ چكے تھے_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اجازت ديدى كہ مسلمان محاذ كو چھوڑ ديں اور شہر كى طرف لوٹ چليں_(۳)

شہداء اسلام اور كشتگان كفر

اس جنگ اور تيراندازى كے نتيجہ ميں لشكر اسلام كے چھ آدمى درجہ شہادت پر فائز ہوئے ان ميں سے ايك سَعد بن مُعاذ تھے جن كے ہاتھ كى نس كو ايك تير نے كاٹ ڈالا تھا وہ بنى قريظہ والے واقعہ تك زندہ تھے ليكن چند روز بعد شہيد ہوگئے_ مشركين ميں سے تين افراد قتل ہوئے جن ميں سے دو كى ہلاكت حضرت على (ع) كے ہاتھوں ہوئي _(۴)

جنگ احزاب كے بارے ميں سورہ احزاب ۹ سے ۲۵ نمبر تك كى آيتيں نازل ہوئيں_

لشكر احزاب كى شكست كے اسباب

۱: لشكر اسلام كا خندق كھودنا_

۲: احزاب كے بہادر اور شجاع پہلوان '' عمرو بن عبدود'' كا قتل جس نے كفار كے حوصلوں پر بُرا اثر ڈالا_

۳: لشكر اسلام كى ثابت قدمى و پائيدارى اور اپنے محاذ كى باقاعدہ نگہبانى اور شہر مدينہ كى

۱۰۷

مكمل حفاظت_

۴: محاصرہ كرنے والوں كے لشكر اور چوپايوں كے لئے آب و دانہ كى كمى _

۵: موسم كا ناسازگار ہونا اور شديد سردى ميں حملہ كرنا جو اہل مكّہ كے لئے ناسازگار تھا _

۶: دشمن كے جنگى اتحاد كے شيرازے كا منتشر ہوجانا جو لشكر اسلام كے سربراہ حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى فراست كا نتيجہ تھا _

۷: غيبى امداد_ قرآن اس سلسلہ ميں كہتا ہے : '' اے مومنو تم پر جو خدا كى نعمتيں تھيں تم انہيں ياد كرو ، اس وقت جب تمہارے ساتھ جنگ كے لئے لشكر آيا ہوا تھا، تو ہم نے ہوا اور اس لشكر كو بھيجاجس كو تم نہيں ديكھتے تھے اور تم جو كچھ كرتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے_(۵)

جنگ احزاب كے نتائج

جنگ احزاب كا خاتمہ ، قريش كے لئے مصيبتوں كا آغاز تھا _ اس لئے كہ ايك طرف تو قريش اور مشركين ميں مسلمانوں پر حملہ كرنے كى طاقت نہيں رہى تھى اور اعراب كے درميان ان كى حيثيت بہت گر گئي تھى اور دوسرى طرف جزيرة العرب ميں تحريك اسلامى كى حالت روز بروز مستحكم و مضبوط ہوتى جا رہى تھي_ اس كے بعد ابتكار عمل لشكر اسلام كے ہاتھوں ميں تھا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' اس كے بعد ان ( قريش) سے ہم جنگ كريںگے يہ لوگ جنگ كى ابتداء نہيں كرسكتے _(۶)

جنگ احزاب كے بعد قريش كى اقتصادى حالت بہت زيادہ كمزور ہوگئي جبكہ حكومت اسلامى اقتصادى اعتبار سے مضبوط ہوگئي تھى _ چنانچہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مكّہ كے قحط زدہ افراد كے لئے مالى امداد روانہ فرمائي _

۱۰۸

غزوہ بنى قُرَيظَہ

بروز بدھ ۲۳ ذى القعدہ ۵ ھ بمطابق ۱۷ اپريل ۶۲۷ ئ

احزاب كا شكست خوردہ لشكر مايوسى كے عالم ميں مدينہ سے بھاگ گيا _ خندق كھودنے اور بيرونى دشمنوں سے مقابلہ كرنے ميں ہفتوں كى مسلسل اور انتھك كوشش كے بعد مسلمان اپنے گھروں كو لوٹے تا كہ آرام كريں _ مدينہ ميں ابھى پورے طريقہ سے امن و امان برقرار نہيںہونے پايا تھا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وحى كے ذريعہ اطلاع ملنے كے بعد بلال كو حكم ديا كہ وہ لوگوں كو جمع كرنے كے لئے اس طرح عام اعلان كريں كہ '' جو خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا پيروكارہے وہ نماز عصر قلعہ بنى قُريَظہ كے پاس پڑھے''_

اسى دن عصر كے وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تين ہزار جاں بازوں كے ساتھ بنى قُريَظہ كے قلعہ كى طرف چل پڑے، لشكر اسلام كے آگے آگے مجاہدين اسلام كا علم اٹھائے ہوئے حضرت على (ع) چل رہے تھے _ چنانچہ آپ(ع) بقيہ مسلمانوں كے پہنچنے سے پہلے ہى چند افراد كے ساتھ قلعہ كے پاس پہنچ گئے _

لشكر اسلام نے قلعہ بنى قُريَظہ كا محاصرہ كرليا _ محاصرہ ۱۵ دن تك جارى رہا(۷) اس مدت ميں چند بار تيراندازى كے علاوہ كوئي حملہ نہيں ہوا_ بنى قُريَظہ كے يہودى سمجھ گئے كہ لشكر اسلام سے مقابلہ كرنے كا كوئي فائدہ نہيں ہے، لہذا اپنے نمائندے كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس بھيجا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس جگہ سے كوچ كرنے اور اپنے مال و اسباب كو اپنے ساتھ لے جانے كى اجازت مانگى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كى پيش كش كو رد كرديا_انہوں نے دوبارہ در خواست كى كہ ان كو مدينہ ترك كرنے اور اپنے اموال سے صرف نظر كرنے كى اجازت دى جائے_ ليكن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جانتے تھے كہ اگر بنى قُريَظہ كے يہوديوں كو بھى بنى قَينقُاع اور بنى

۱۰۹

نَضير كے يہوديوں كى طرح آزاد چھوڑديا جائے تو وہ مسلمانوں كے چنگل سے نكلتے ہى بدّو اعراب كو بھڑ كا كر مسلمان اور اسلام كے خلاف نئي سازشوں كا آغاز كرديں گے، جس طرح كہ بنى قينقاع كى تحريك پر جنگ احد كى آگ بھڑ كى اور بنى نضير كى تحريك پر غزوہ خندق (احزاب) كى ہمہ جانبہ سازش ہوئي_ لہذا پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس پيش كش كو قبول كرنے سے انكار كيا اور فرمايا كہ تم بغير كسى قيد و شرط كے اپنے آپ كو ہمارے حوالے كردو_(۸)

ايك خيانت كار مسلمان اور اسكى توبہ كى قبوليت

ايك طرف تو يہودى محاصرے كى وجہ سے تنگ آچكے تھے اور دوسرى طرف ان كے دل ميںخوف و وحشت بيٹھا ہوا تھا_انہوں نے اپنے ديرينہ دوست اور ہمسائے '' ابُولبابہ'' كے متعلق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست كى كہ اَبُولباَبہ كو مشورے كے لئے ہمارے پاس بھيجئے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ درخواست قبول كرلى اور ابولبابہ كو اجازت ديدى كہ وہ قلعہ بنى قريظہ جائيں_ جب ابولبابہ وہاں پہنچے تو يہوديوں نے ان كے گرد حلقہ بناليا ، ان كى عورتوں اور بچّوں نے رونا شروع كرديا_ ان كى آہ و زارى نے ابولبابہ كو متاثر كيا _ ان كے مردوں نے ابولبابہ سے سوال كيا كہ ''كيا اس ميں صلاح ہے كہ ہم بلا قيد و شرط خود كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سپرد كرديں يا صلاح نہيں ہے''؟

ابولبابہ اپنے احساسات سے بہت زيادہ متاثر تھے انہوں نے جواب ديا كہ ہاں، ليكن انگلى سے اپنى گردن كى طرف اشارہ كيا كہ اگر تم خود كو ان كے حوالے كردوگے توتمہارى گردن اڑادى جائے گي_

ابولبابہ نے اپنى اس بات سے ''جس كے ذريعہ يہوديوں كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حوالے

۱۱۰

كرنے سے منع كيا تھا''_

خدا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بارگاہ ميں بہت بڑى خيانت كے مرتكب ہوئے تھے_ ناگہان ان كو احساس ہوا كہ وہ تو بہت بڑے گناہ كے مرتكب ہوچكے ہيں ،لہذا فوراً قلعہ سے باہر آئے، چونكہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا سامنا كرتے ہوئے شرم آرہى تھى اس لئے سيدھے مسجد ميں پہنچے اور خود كو مسجد كے ايك ستون سے رسّى كے ذريعے باندھ ديا كہ شايد خدا ان كى توبہ قبول كرلے_ ابولبابہ كے واقعہ كى خبر لوگوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو دي، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا اگر مسجد جانے سے پہلے وہ ميرے پاس آتے تو ميں خدا سے ان كے لئے استغفار كرتا اب اسى حالت پر رہيں يہاں تك كہ خدا ان كى توبہ قبول كرلے _ابولبابہ كى خيانت كے بارے ميں سورہ انفال كى آيت ۲۷نازل ہوئي كہ :

'' اے ايمان لانے والو دين كے كام ميں خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خيانت نہ كرو اور اپنى امانت ميں خيانت نہ كرو درحالانكہ تم جانتے ہو_''(۹)

ابولبابہ چھ دن تك، دن ميں روزہ ركھتے نماز كے وقت ان كى بيٹى ستون سے ان كے ہاتھ پير كھول ديتى _ طہارت اور فريضہ كى ادائيگى كے بعد ان كو دوبارہ مسجد كے ستون سے باندھ ديتى تھيں، يہاں تك كہ فرشتہ وحى بشارت كے ساتھ آن پہنچا كہ ابولبابہ كى توبہ قبول ہوگئي ہے_ان كى توبہ كے بارے ميں سورہ توبہ كى آيت ۱۰۲نازل ہوئي كہ :

'' ان ميں سے ايك گروہ نے اپنے گناہ كا اعتراف كرليا كہ انہوں نے نيك و بد اعمال كو با ہم ملاديا ہے عنقريب خدا ان كى توبہ قبول كرلے گا بيشك خدا بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے_''(۱۰)

لوگوں نے خوشى ميں چاہا كہ ابولبابہ كى رسّى كو كھول ديں ليكن اس نے كہا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۱۱۱

ميرى رسيوں كى گرہيں كھوليں گے جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز كے لئے مسجد ميں تشريف لائے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كى رسى كى گرہوں كو كھول ديا_ ابولبابہ تمام عمر نيكى اور اچّھے عمل پر باقى رہے اور پھر كبھى بھى محلہ بنى قريظہ ميں آپ نے قدم نہيں ركھا_(۱۱)

بنى قريظہ كا اپنے آپ كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حوالے كرنا

يہوديوں سے مذاكرات اور گفتگو كسى نتيجے تك نہ پہنچ سكى _ كچھ دن تك انہوں نے اپنے آپ كو رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حوالے كرنے سے انكار كيا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر اسلام كو آمادہ رہنے كا حكم ديا تا كہ حملہ كر كے ان كے قلعے كو فتح كيا جائے_ يہوديوں نے سمجھ ليا كہ لشكر اسلا م كا حملہ اور ان كى كاميابى يقينى ہے، بھاگنے كا كوئي راستہ باقى نہيں ہے، مجبوراً قلعے كے دروازوں كو كھول ديا اور بلا قيد و شرط خود كو لشكر اسلام كے حوالہ كرديا_(۱۲)

حضرت على (ع) اپنے لشكر كے ہمراہ قلعے ميں داخل ہوئے اور ان سے مكمل طور پر ہتھيار كھوالئے(۱۳) پھر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مردوں كو قيد خانے ميں منتقل كرنے كا حكم صادر فرمايا اور ان كى حفاظت كى ذمہ دارى محمد بن مَسلَمَة كے سپرد كي، عورتوں اور بچّوں كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق دوسرى جگہ نگرانى ميں ركھا گيا_(۱۴)

سعد بن معاذ كا فيصلہ

بنى قُريَظہ كے يہودى چونكہ قبيلہ اَوس كے ہم پيمان تھے لہذا انہوں نے پيش كش كى كہ ان كے بارے ميں سَعدبن مُعاذ فيصلہ كريں وہ لوگ اس فكر ميں تھے كہ شايد گزشتہ دوستى كى بدولت سَعدبن مَعاذ ان كى سزا ميں تخفيف كے قائل ہوجائيں گے_

۱۱۲

قبيلہ اَوس كے لوگوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نہايت اصرار كے ساتھ يہ درخواست كى كہ اس گروہ كو آزاد كرديں، وہ لوگ قبيلہ خَزرَج سے رقابت كى بناپر اپنى بات پر اصرار كر رہے تھے اس كى وجہ يہ تھى كہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنى قَينقاع كو'' عبداللہ بن اُبّى خَزرجى ''كى خواہش پر آزاد كرديا تھا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں سے بھى فرمايا كہ '' كيا تم اس بات كے لئے تيار ہو كہ تمہارے بزرگ سَعدبن مُعَاذ ا ن كے بارے ميں فيصلہ كرديں؟'' سب نے كہا كہ ہاں، اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم بھى ان كے فيصلے كے سامنے سرجھكا ديں گے''(۱۵)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سَعدبن مُعَاذ كو بلانے كے لئے آدمى بھيجا _ اس وقت آپ ہاتھ كى رگ كٹ جانے كى وجہ سے زخمى حالت ميں بستر پر رُفَيْدَہ نامى عورت كے خيمہ ميں پڑے تھے جس نے جنگى مجروحين كى خدمت كے لئے اپنى زندگى وقف كردى تھى _ اَوس كے جوانوں نے ان كو چارپائي پر لٹايا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں لے چلے راستہ ميں انہوں نے سَعد سے درخواست كى كہ اپنے ہم پيمان كے ساتھ اچّھا سلوك كرنا، انہوں نے جواب ميں فرمايا كہ '' سَعد كے لئے وہ زمانہ آن پہنچا ہے كہ جس ميں كسى ملامت كرنے والے كى ملامت سے سَعد ڈرنے والا نہيں ہے_''

جب سَعد لشكر گاہ ميں پہنچے تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ تم اپنے بزرگ كے احترام ميں كھڑے ہوجاؤ حاضرين اُٹھ كھڑے ہوئے سَعد نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عدالت پر مبنى حكم كے بعد مہاجر و انصار سے يہ عہد ليا كہ وہ جو حق سمجھيں گے اس كا اجراء ہوگا اور بنى قُريَظہ كے يہوديوں نے بھى اس كو قبول كيا_(۱۶)

اس كے بعد سعد ابن معاذ نے بہ آواز بلند اعلان كيا كہ ''يہوديوں كے مرد قتل كرديئےائيں عورتيں اور بچّے اسير بنا لئے جائيں اور ان كے اموال كو ضبط كرليا جائے''

۱۱۳

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' سعد ابن معاذنے قانون الہى كے مطابق فيصلہ كيا''(۱۷)

سَعد كے فيصلے كى دليليں

۱: يہوديوں كى دينى كتاب ( تورات) كا فيصلہ ،جو بلا شك و شبہ يہوديوں كو قبول ہوگا_

كيونكہ تورات ميں آيا ہے كہ '' جب تم جنگ كے ارادے سے كسى شہر كا قصد كرو تو پہلے ان كو صلح كى دعوت دو اگر وہ لوگ جنگ كو ترجيح ديں تو شہر كا محاصرہ كرو اور جب شہر پر تسلّط ہوجائے توتمام مردوں كو تہ تيغ كردو او رعورتوں ، بچّوں ، جانوروں اور جو كچھ بھى شہر ميں ہو اس كو مال غنيمت ميں شامل كرلو'' _(۱۸)

۲: مدينہ ميں وارد ہونے كے بعد پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا يہوديوں سے معاہدہ_ جس معاہدے پر فريقين كے دستخط ہوئے تھے اس كى ايك دفعہ يہ تھى كہ جب يہود پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان كے ساتھيوں كے خلاف كوئي قدم اٹھائيں يا اسلحہ اور سوارى ان كے دشمنوں كو ديں تو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ان كا خون بہانے ،ان كے اموال كو ضبط كرنے اور ان كى عورتوں اور بچّوں كو اسير كرنے كا حق حاصل ہوگا_

۳: سَعد اور سارے دور انديش مسلمان اس بات كو جانتے تھے كہ اگر وہ لوگ اس مہلكہ سے جان بچاكر نكل گئے تو بنى قَينُقاع كے يہوديوں كى طرح كہ جنہوں نے اپنى تحريك پر احد كى جنگ چھيڑدى تھى اور بہت سے لوگوں كى شہادت كا سبب بن گئے تھے اور بنى نَضير كى طرح كہ جنہوں نے جنگ احزاب كا فتنہ كھڑا كرديا اور قريب تھا كہ اسلام كى بنياد كو اكھاڑ ديں، يہ لوگ بھى اسلام كے خلاف عظيم اتحادى لشكر بناليں گے اور ان خطرناك عناصر كا زندہ رہنا اسلامى تحريك كے لئے مفيد نہيں تھا_

۱۱۴

پيمان شكنى كا انجام

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ اسيروں كے ساتھ اچھا سلوك كيا جائے _ اس لئے زيادہ مقدار ميں ٹھنڈا پانى ان كے سامنے ركھا گيا_ پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق خندق كھودى گئي اور سات سو ۷۰۰(-۱۶) بدبخت جنگجو يہوديوں جو صلح و آشتى ، جيو اور جينے دو، كے خصوصى سلوك كے باوجود پيمان شكنى كے ذريعہ مسلمان كو نيست و نابود كردينے كا قصد ركھتے تھے ، ان كو حضرت علي(ع) اور زبير كى تلوار نے فنا كے گھاٹ اتار ديا_ كچھ لوگ قبيلہ اوس كے افراد كے ذريعہ ہلاك ہوئے_جى ہاں عہد شكنى كرنے والا ضرور كيفر كردار تك پہنچتا ہے_ قتل كئے جانے والوں ميں وہ عورت بھى تھى جس نے محاصرے كے دوران قلعے كے ا وپر سے پتّھر گرا كر'' خَلَادبن سُوَيد ''كو شہيد كرديا تھا_(۲۰)

اس گروہ كے خاتمے كے بعد مدينہ خائن عناصر كے وجود اور مسلح داخلى ريشہ دوانى كرنے والے اس گروہ سے پاك ہوگيا جو ملك ميں رہ كردو سروں كے مفاد ميں كام كرتے تھے_

اسارى اور مال غنيمت

بنى قُريَظہ سے جو مال غنيمت ہاتھ لگا تھا اس ميں پندرہ سو تلواريں ، تين سو زرہيں، دو ہزار نيزے ،دھات اور چمڑے كى بنى ہوئي پندرہ سوسپر، بہت زيادہ لباس بر تن اور گھر كے سامان ، نيز بہت زيادہ شراب تھى جس كو زمين پر بہاديا گيا _(۲۱)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مال غنيمت كا خمس نكالنے كے بعد بقيہ مال مجاہدين كے درميان تقسيم كرديا_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سَعدبن عُبَادَة كو بنى قُريَظہ كے اسيروں كے ساتھ شام بھيجا تا كہ ان كو بيچنے كے بعد سپاہ اسلام كے لئے گھوڑے اور اسلحہ مہيّا كريں(۲۲) يہ جنگ ۸ذى الحجہ ۵ ہجرى قمرى بمطابق ۲ مئي ۶۲۷ عيسوى كو تمام ہوئي_

۱۱۵

سوالات

۱_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دشمن كے درميان كيسے اختلاف ڈالا؟

۲_ لشكر احزاب كى شكست كے اسباب بيان كيجئے_

۳ _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنى قريظہ كے خلاف لشكر كشى كيوں كي؟

۴_ كيا سَعدبن مُعاذ نے يہوديوں كے بارے ميں عادلانہ فيصلہ كيا؟

۵_ابولبابہ كون سى خيانت كے مرتكب ہوئے_

۱۱۶

حوالہ جات:

۱_ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۳۴_ بحارالانوار ج ۲۰ص ۲۵۲_

۲_ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۴۰_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۴۸۰، تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۷۸

۳_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۸۰_ سيرة ابن ہشام ج ۳ ص ۲۴۲_ مغازى واقدى ج۲ص ۴۸۹_

۴_ مرحوم استاد ڈاكٹر ابراہيم آيتى كى ياد تازہ رہے انہوں نے شہداء احزاب كى تعداد بارہ اور قريش كے مقتولين كى تعداد چار لكھى ہے '' تاريخ پيامبر '' مطبوعہ دانشگاہ تہران ص ۳۷۳_ ۳۷۲ ملاحظہ ہو _ اسى طرح مشہور مورخ يعقوبى نے شہداء مسلمين كى تعداد چھ اور كشتگان قريش كى تعداد آٹھ بتائي ہے _ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۵۱ مطبوعہ بيروت _

۵_( يَا اَيُّها الَّذينَ آمَنُوا اذكُرٌوا نعمَةَ الله عَليكمُ اذ جائَتكُمْ جُنُودٌ فَاَرسَلنَا عَلَيهم ريحاً و جُنوداً لَم تَرَوها و كَانَ الله بما تعملون بَصيراً ) ( احزاب _۹)

۶_اَلآن نضْزوهُم وَ لا يَغزَونا ( ارشاد شيخ مفيد/ ۵۶)_

۷_ مسعودى كى نقل كے مطابق ۱۵ دن جبكہ ابن ہشام و غيرہ كے نزديك ۲۵ دن ر _ك سيرہ ابن ہشام ج۳ ص ۲۴۶_

۸_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۸۲/۵۸۴_ مغارى واقدى ج ۲ ص ۴۹۷/۵۰۰_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۷۴، سيرہ ابن ہشام ج ۳ ص ۲۴۴/ ۲۵۰

۹_( يا ايّها الذين آمنوا لا تخونوا الله و الرَّسُولَ و تَخونواَ اماناتكُم و اَنتُم تعلمون ) (انفال۲۷)

۱۰_( و آخرون اعترفوا بذنوبهم خَلَطُوا عَمَلاً صَالحاً و آخَرَ سَيئاً عسى الله اَن يَتُوبَ عَلَيهم انَّ الله غَفُورٌ رَحيم ) ( توبہ ۱۰۲) سيرة ابن ہشام ج ۲ ص ۲۳۷، ۲۳۸_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۸۵_

۱۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۵۰۹_

۱۱۷

۱۲_ ايضاً_

۱۳_ فروغ ابديت ج ۲، ص ۵۶۱_

۱۴_مغازى واقدى ج ۲، ص ۵۱۰_

۱۵_ ارشاد شيخ مفيد ص ۵۸_ سيرة ابن ہشام ج ۲ ص ۲۳۹_

۱۶_ جناب سعد ايك متقى ، عادل، دانش مند اور سياسى سوجھ بوجھ ركھنے والے انسان تھے_ جنگ احزاب ميں جو زخم ان كو لگا تھا اس بناپر وہ بستر شہادت پر پڑے ہوئے اپنى زندگى كے آخرى دن گزار رہے تھے ظاہر ہے كہ ايسا آدمى اپنى نفسانى خواہش كے زير اثر فيصلہ نہيں كريگا اور مصالح اسلامى كو يہوديوں كے ساتھ اپنى ديرينہ دوستى پر فدا نہيں كرے گا اور يہوديوں كى عظيم خيانت كے باوجود ان پر زيادتى نہيں كرے گا _

۱۷_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۵۱۰_۵۱۲_

۱۸_ تورات سفر تثنيہ، فصل ۲۰_

۱۹_ ان كى تعداد ۶۰۰، ۶۵۰ اور ۹۰۰ بھى لكھى گئي ہے_

۲۰_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۵۱۳/۵۱۷_

۲۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۵۱۰_ بحار الانوار ج ۲۰ ص ۲۱۲_

۲۱_ مفازى واقدى ج ۲ ص ۵۲۳_

۱۱۸

ساتواں سبق

چھ ہجرى كاآغاز

غزوہ بنى لحيان

مفسدين فى الارض كا قتل

غزوہ بنى مصطلق

ايك حادثہ

زيدبن ازقم كا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر پہنچانا

باپ اور بيٹے ميں فرق

بنى مصطلق كا اسلامى تحريك ميں شامل ہونا

ايك فاسق كى رسوائي

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيوى پر تہمت

صلح حديبيہ -- مكہ كى راہ پر

قريش كا موقف

قريش كے نمائندے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سُفرائ

بيعت رضوان -- صلح نامے كا متن

صلح كے مخالفين

ابوبصير كا واقعہ اور صلح نامے كى دوسرى شرط كا خاتمہ

صلح حديبيہ كے نتائج كا تجزيہ

سوالات

۱۱۹

چھ ہجرى كا آغاز

يہ سال ، سياسى اور جنگى اعتبار سے تاريخ اسلام ميں اہم ترين سال شمار كيا جاتا ہے_اس لئے كہ لشكر احزاب كى شكست اور ہجرت كے پانچويں سال يہوديوں پر مسلمانوں كى كاميابى كے بعد لشكر اسلام كے حملے شروع ہوئے_ اس طرح كہ اس سال ۲۴ جنگى دستے (سريہّ) مختلف ذمہ داريوں كے ساتھ بھيجے گئے اور ان ميں سے بہت سے گروہ اہم كاميابيوں اور بہت زيادہ مال غنيمت كے ساتھ مدينہ واپس آئے _اس سال چار غزوات اور كل ۲۸ جنگى حملے وقوع پذير ہوئے(۱) اور صلح حديبيہ كا اہم معاہدہ بھى اسى سال طے پايا _اب اختصار كے ساتھ اس سال كے اہم جنگى واقعات بيان كرتے ہيں_

غزوہ بنى لحى ان

يكم ربيع الاوّل ۶ ہجرى(۲) بمطابق ۲۳ جولائي سنہ ۶۲۷ئ بروز منگل_

سنہ ۴ ہجرى ميں بَنى لحيان كے ہاتھوں مبلغين اسلام كى شہادت كے سلسلے ميں رونما ہونے والے بدترين سانحے ''رجيع '' كے مجرمين كو تنبيہ كرنے كيلئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تيار ہوئے _ اب دو سال كے بعد جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مناسب موقع ملا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابن ام مكتوم كو مدينہ ميں

۱۲۰