تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي20%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162569 / ڈاؤنلوڈ: 3887
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اپنا جانشين معين فرمايا اور لشكر اسلام كے ايك ہزار افراد كے ساتھ مختصر راستے سے شمال كى طرف روانہ ہوئے_ اور يوں ظاہر كيا كہ جيسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شام جار ہے ہوں ليكن چند منزليں طے كرنے كے بعد آپ داہنى طرف مُڑ گئے اور نہايت تيزى سے بَنى لحيَان كى طرف آگئے_مگر لشكر اسلام كى آمد سے، دشمن آگاہ تھے لہذا پہاڑوں كى طرف بھاگ گئے_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك جنگى مشق كى اور لشكراسلام كے دستوں كے ساتھ را ہ مكّہ ميں واقع ''عُسفَان ''كى طرف روانہ ہوئے اور پھر آپ نے دو جاسوسوں كو مامور كيا كہ وہ قريش كى خبر لائيں_

اس جنگى مشق نے قرب و جوار ميں آباد قبائل كى نفسيات پر بہت گہرا اثر ڈالا اور قريش كى شان و شوكت اور وقار ان كى نظروں سے گر گيا_لشكر اسلام اس مشق كے بعد واپس مدينہ لوٹ آيا(۳)

مفسدين فى الارض كا قتل ( مطالعہ كيلئے)

تاريخ: شوال ۶ہجري

قبيلہ عُرَينَہ سے آٹھ آدمى مدينہ آئے اور انہوں نے اسلام قبول كر ليا _ مدينہ كى آب وہوا ان كوراس نہ آئي اور وہ بيمار پڑگئے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كو اپنے اونٹوں كى چراگاہ پر بھيج ديا تا كہ وہ لوگ كھلى ہوا ميں تازہ دودھ پى كر صحت مند ہو جائيں_

چند دنوں تك جو ، ان لوگوں نے اونٹوں كا دودھ استعمال كيا تو تندرست و توانا ہوگئے ليكن بجائے اس خدمت كى قدر دانى كے انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چرواہے ''يسار'' كو نہايت بيدردى سے قتل كرديا اس كے ہاتھ پاؤں اور سر قلم كرديا ، زبان اور آنكھوں ميں

۱۲۱

كانٹے چبھوديئےور پھر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تمام پندرہ اونٹوں كو چُرا لے گئے_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''كُرزَ بن جَابر ''كو ۲۰ افراد كے ساتھ ان كا پيچھا كرنے كے لئے بھيجا_ كُرْز اور اس كے ساتھى ان كو اسير كر كے مدينہ لائے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ زمين پر فساد پھيلانے والوں كے ہاتھ پير كاٹ كر، سُولى پر لٹكا ديا جائے _اس طرح سے ان كو خيانت كى سزا مل گئي _قرآن مجيد كى يہ آيت مفسدين كے بارئے ميں نازل ہوئي كہ :

'' ان لوگوں كى سزا جو لوگ خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ جنگ كرتے ہيں اور زمين پر فساد پھيلانے كى كوشش كرتے ہيں، سوائے اس كے اور كچھ نہيں ہے كہ وہ قتل كئے جائيں يا سُولى چڑھا ديئےائيں يا ان كے ہاتھ پير مخالف سمتوں سے كاٹ ديے جائيں يا ان كو ملك بدر كرديا جائے ان كے لئے دنيا ميں تباہى اور آخرت ميں عذاب عظيم ہے_(۴)

غزوہ بنى مُصطَلق يا مُرَيسيع

شعبان ۶ ہجرى(۵) بمطابق نومبر ،دسمبر ۶۲۷ئ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر ملى كہ بنى مُصطَلق (قبيلہ خزاعہ كى ايك شاخ) سپاہ اسلام كے خلاف اسلحہ اور لشكر جمع كرنے كى فكر ميں ہيں_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تحقيق كے لئے بُريدة بن حُصَيد اَسلَمى كو اس علاقے ميں بھيجا ، برُيدہ ،بنى مُصطَلق كى طرف روانہ ہوئے اور اجنبى بن كر قبيلے كے سردار سے رابطہ قائم كيا اور واپسى پراس خبر كے صحيح ہونے كى تائيد كى _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابوذر غفارى كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر كيا اورايك ہزار جان بازوں كے ہمراہ پير كے دن دوسرى شعبان كو دشمن كى طرف چل پڑے اور چاہ مُريَسْيَع(۶) كے پاس خيمہ زن ہوئے اس غزوہ ميں كچھ ايسے منافقين بھى مال غنيمت كے لالچ ميں لشكر

۱۲۲

اسلام كے ساتھ ہوگئے جو كسى جنگ ميں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ نہيں تھے_

مقام مُريَسْيَع ميں دونوں لشكروں كى صفيں آراستہ ہوئيں _ فرمان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مطابق تيراندازوں نے حملہ كيا اور تھوڑى دير ميں بنى مصطَلق ہارگئے اور ان كا ايك آدمى بھى فرار نہ كر سكا _ ان كے دس آدمى مارے گئے اور باقى اسير ہوئے _اس حملے ميں ايك مسلمان بھى شہيد ہوا _

جنگ ميں مال غنيمت كے طور پر دو ہزار اونٹ اور پانچ ہزار گوسفندمسلمانوں كے ہاتھ آئے اور دو سو خاندان بھى اسير ہوئے(۷)

ايك حادثہ

جنگ ختم ہونے كے بعد واپسى راہ ميں ايك چھوٹا سا حادثہ پيش آگيا ، اگررسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس پر مخصوص مہارت كے ساتھ قابو نہ پاگئے ہوتے تو اسلام كے لئے ايك نيا خطرہ بن جاتا_

پانى كے بارے ميں جَہْجاہ غفارى جوكہ عمر بن خطاب كا غلام اور مہاجرين ميں سے تھا، اور سنَان جُہْنى جو كہ انصار ميں سے تھا، آپس ميں الُجھ گئے _ سنَا ن نے مدد كيلئے آواز دى اے انصار اورجہجاہ نے مدد كے لئے پكارا،اے مہاجرين نزديك تھا كہ بہت بڑا ہنگامہ كھڑا ہو جائے_ منافقين كے سردار عبد اللہ بن اُبى نے موقع كو غنيمت جانا اور اپنے آس پاس كے لوگوں سے بولا_

خدا كى قسم ہمارا اور ان جلابيب(۸) كا معاملہ اس مثل جيسا ہے كہ '' اپنے كُتّے كو موٹا كرو تا كہ وہ تمہيں ہى كو كاٹ كھائے_'' ليكن خدا كى قسم جب ہم مدينہ پلٹ كے جائيں

۱۲۳

گے تو چونكہ ہم مدينہ كے با عزّت لوگ ہيں اس لئے ان زبوں حال اور بے چارے مہاجرين كو باہر نكال ديں گے(۹)

زيد بن ارقم كا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر پہنچانا

زيد بن ارقم نے جب عبد اللہ بن اُبى كى باتيں سنيں تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس گئے اور اس كى سازش آميز اور منافقانہ باتوں كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے نقل كرديا _رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زيد كى خبر كے بارے ميں وحى كے ذريعہ اطمينان حاصل كرلينے كے بعد زيد كے كان كو پكڑ كر كہا '' يہ اس شخص كے كان ہيں جس نے اپنے كانوں كے ذريعہ خدا سے وفا كى ہے_''

عبد اللہ بن اُبيّ نے جب زيد كے اطلاع دينے كى خبر سُنى تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس پہنچا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے جھوٹى قسم كھا كر كہنے لگا كہ ميں نے ايسى بات نہيں كہى اور چونكہ وہ اپنے قبيلے كے درميان بزرگوں اور صاحب احترام شخصيتّوں ميں شمار كيا جاتا تھا اس لئے انصار ميں سے كچھ لوگ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حضور ميں پہنچے اور ابيّ كے فرزند كى حمايت ميں كہا كہ شايد زيد نے ايسى بات كا وہم كيا ہو يا ان كے كانون نے غلط سُنا ہو يہاں تك سورہ منافقون كے نازل ہونے كے بعد اس پاك دل نوجوان كو اطمينان حاصل ہوا اور عبداللہ بن ابيّ ذليل ہوا_(۱۰)

عمر بن خطاب نے اس واقعہ كو سُننے كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خواہش ظاہر كى كہ عبداللہ بن اُبيّ قتل كو كرديا جائے _ ليكن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما يا كہ '' ايسى صورت ميں دشمن كہيں گے كہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب كو قتل كررہے ہيں مصلحت يہ ہے كہ ہم جلد سے جلد نكل چليںتا كہ باطل انديشے دلوں سے رخت سفر باندھ كر نكل جائيں''_

۱۲۴

كوچ كا حكم ہونے كے بعد لشكر اسلام ايك رات دن مسلسل چلتا رہا_ يہاں تك كہ آفتاب ان كے سر پر پہنچ گيا، اس وقت ٹھہر نے كا حكم ديا گيا _ جاں بازان اسلام تھكن كى وجہ سے خاك پر پڑے رہے اور گہرى نيند سوگئے _ اس اطمينان اور خوشى كے ساتھ جو ايك لمبى اور غير معمولى تھكن كے بعد روح و اعصاب كو حاصل ہوتى ہے ، كدورتيں دلوں سے نكل گئيں اور كينہ كى آگ خود بخود بجھ گئي_(۱۱_۱۲)

باپ اور بيٹے ميں فرق

عبد اللہ بن اُبى كے بيٹے نے سوچا كہ شايد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كے باپ كے قتل كا فرمان صادر كريں گے تو فوراً رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آيا اور كہنے لگا '' اے رسول اللہ سب لوگ جانتے ہيں كہ كوئي بھى ميرى طرح باپ سے نيك بر تاؤنہيں كرتا ليكن اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا فرمان يہ ہے كہ وہ قتل كيا جائے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حكم ديں ميں خوداسے قتل كروں گا''_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب ديا '' نہيں تم اس كے ساتھ اچّھا سلوك كرو '' پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بزرگانہ سلوك نے ابن ابى ّكے دوستوں كے در ميان اس كى حيثيت و شخصيّت كو جھنجھوڑ كرر كھ ديا _ يہاں تك كہ لوگ كھلم كھلا اس كو برا بھلا كہنے لگے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عفو و در گذر كے ذريعے خطرناك دشمن كو ٹكڑ ے ٹكڑے كر ڈالا،ايك دن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عمر بن خطاب كو مخاطب كر كے فرمايا جناب عُمر سے خطاب كرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كہا كہ '' جس دن تم اس كو قتل كرنے كے لئے كہہ رہے تھے اگر ميں قتل كر ديتا تو اس كے دفاع ميں بجلياں كوند پڑتيںليكن اگر آج ہم اس كے قتل كا حكم ديديں تو لوگ اس كى جان كے درپے ہو جائيں گے_(۱۳)

۱۲۵

بَني مُصْطَلقْ كا اسلامى تحريك ميں شامل ہونا

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مال غنيمت اور اسارى كو مسلمانوں كے درميان تقسيم كيا اس وقت بنى مصطلق كے رئيس '' حارث بن ابى ضرار'' كى بيٹي''جوُيرْيہّ'' ايك مسلمان كے حصّے ميں آئيں انہوں نے اپنے مالك سے طے كيا كہ ميں كچھ رقم ادا كركے آزاد ہو جاؤں گى ليكن ان كے پاس پيسے نہيں تھے_ان كى صرف ايك اميد تھى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كالطف و مہرباني، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئيں اور كہا'' ميں حارث كى بيٹى ہوں اور اسير ہو كر آئي ہوں _،ور ميں نے يہ طے كر ليا ہے كہ كچھ پيسے ادا كركے آزاد ہو جاؤں اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں آئي ہوں تا كہ اس رقم كى ادادئيگى ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرى مدد فرمائيں _ ''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' آيا تمہيں يہ پسند ہے كہ ميںتمہارے لئے اس سے بہتر كا م انجام دوں ؟ جن پيسوں كى تم قرض دار ہو اس كو ميں ادا كردوں پھر تم سے شادى كرلوں ؟ جُوَيْريّہ اس پيش كش سے مسرور ہوگئيں_

جُوَيْريّہ سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شادى كى خبر اصحاب ميں پھيل گئي لوگوں نے بنى مُصطَلق كے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے رشتہ دار بن جانے كے احترام ميں اپنے اسارى كو آزاد كرديا _ جب بنى مُصْطَلق نے لشكر اسلام كا يہ بڑا پن اور در گذر ديكھا تو مسلمان ہو گئے اور ايك با بركت شادى كے نتيجہ ميں وہ سب كے سب اسلامى تحريك ميں شامل ہوگئے_(۱۴)

ايك فاسق كى رسوائي

بنى مصْطَلق كے مسلمان ہو جانے كے بعدرسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وَليد بن عُقْبة بن اَبى مُعيط كو ان كى طرف زكوة وصول كرنے كے لئے بھيجا_ بنى مصطلق نے جب سُنا كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا

۱۲۶

نمائندہ ان كى طرف آرہا ہے تو وہ استقبال كے لئے دوڑ پڑے ليكن وليد دڑگيا اور اس نے خيال كيا كہ وہ لوگ جنگ كرنے كے لئے آمادہ ہيں ، لہذا اس نے مدينہ واپس آكر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے كہا كہ '' وہ لوگ مجھے قتل كردينا چاہتے تھے اور انہوں نے زكوة ادا كرنے سے بھى انكار كرديا ہے ''_

بنى مُصْطَلق كے ساتھ دوبارہ جنگ كى باتيں لوگوں كى زبان پر چڑ ھ گئيں اس واقعہ كے بعد بنى مُصْطَلق كا ايك وفد مدينہ آيا اور اس نے حقيقت حال بيان كى(۱۵) اس واقعہ كے بارے ميں سورہ حجرات كى مندرجہ ذيل آيت نازل ہوئي :

'' اے ايمان لانے والو اگر كوئي فاسق تمہارے پاس كوئي خبر لائے تو اس كى تحقيق كرو كہيں ايسا نہ ہو كہ نادانى كى بنا پر لوگوں (كى جان و مال) كو نقصان پہنچادو پھر (جب معلوم ہو كہ فاسق نے جھوٹ بولا تھا )تو جو كچھ كيا ہے اس پر تم كو پشيمانى ہو_(۱۶)

آنحصرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيوى پر تہمت (واقعہ افك)(مطالعہ كيلئے)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب بھى سفر پر جانا چاہتے (حتّى كہ جنگ كے لئے بھي) تو اپنى بيويوں كے درميان قرعہ نكالتے تھے جس كے نام قرعہ نكل آتا اسى بيوى كو اپنے ساتھ لے جاتے تھے_

غزوہ بنى مُصْطَلق كے موقع پر جناب عائشےہ كے نام قرعہ نكلا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہيں اپنے ساتھ لے گئے_جنگ سے واپسى كے دوران جب مدينہ كے قريب پہنچے تو وہيں ٹھہر گئے اور آرام كرنے لگے_اسى اثنا ميں عائشےہ اس بات كى طرف متوجہ ہوئيں كہ ان كا گلوبند گم ہو گيا ہے اس كو ڈھونڈنے كے لئے آپ خيمہ گاہ سے دور چلى گئيں جب واپس پلٹيں تو لشكر اسلام وہاں سے كوچ كرچكا تھا اور عائشےہ تنہا رہ گئي تھيں_ ايك متقى اورنيك شخص جن كا نام صفوان

۱۲۷

بن مُعطل تھا اورجو لشكر اسلام كے پيچھے پيچھے اطلاعات حاصل كرنے كے لئے چلا كرتے تھے ، وہاںپہنچے اور جناب عائشےہ كو ديكھا كہ وہاں تنہا ہيں _ نہايت ادب سے اونٹ سے نيچے اُترے ، اونٹ كو زمين پر بٹھايا اور خود دوركھڑے ہوگئے يہاں تك كہ عائشےہ اونٹ كى پشت پر سوار ہوگئيں انہوں نے اونٹ كى مہار پكڑى اور راستے ميں گفتگو كئے بغير مدينہ لے آئے_جب يہ لوگ مدينہ پہنچے تو منافقين نے عبداللہ بن اُبيّ كى قيادت ميں صفوان اور عائشےہ كے بارے ميں تہمتيں تراشيں ، ناواقف ان تہمتوں كولے اڑے ،مدينہ ميں تہمتوں اور افواہوں كا بازار گرم تھا ، اور ہر آدمى ايك الگ بات كہنے لگا ، جناب عائشےہ بيمار ہوگئيں اور اس تہمت كے غم ميں جو بے گناہى كے با وجود ان پر لگائي گئي تھى روتى رہتيں اور كسى وقت چين نہ پاتيں ، قريب تھا كہ اس موضوع پر فتنہ بر پا ہوجائے كہ سورہ نور كى آيات نمبر ۱۱ سے ۲۷ تك نازل ہوئيں اور عائشےہ كو يہ خوش خبرى سنائي گئي كہ خدا تمہارى پاكيزگى پر گواہ ہے_(۱۷) پھر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تہمت لگانے والوں پر حد جارى كى _ جن لوگوں پر حدجارى كى گئي ان ميں حسّان بن ثابت اور حَمنہ كا نام بھى نظر آتا ہے_(۱۸)

ابن اسحاق كہتا ہے كہ بعد ميں معلوم ہوا كہ صفوان بن معطل در اصل مرادنگى سے عارى اور عورتوں كے ساتھ نزديكى نہيں كر سكتا تھے_ يہ مرد پارسا كسى جنگ ميں شہيدہو گئے_(۱۹)

صلح حديبيہ

ذى قعدہ ۷ ہجرى بمطابق فرورى و مارچ ۶۲۸ عيسوي

۱۲۸

مكہ كى راہ پر:

لشكر اسلام كى پے در پے كاميابيوں اور مشركين مكّہ كى گوشہ گيرى نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اس بات پر آمادہ كيا كہ دوسرى بار جزيرة العرب ميں مسلمانوں كى حيثيت و وقار كے استحكام كے لئے اقدام كريں _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ مسلمان سفر حج كے لئے تيار ہو جائيں اور ہمسايہ قبائل جو ابھى تك حالت شرك پر باقى تھے ان سے آپ نے مسلمانوں كے ساتھ اس سفر پر چلنے كى خواہش ظاہر كى _ ان ميں سے بہت سے لوگوں نے عذر پيش كيا اور ساتھ چلنے سے انكار كرديا _

اس سفر ميں عبادتى اور معنوى خصوصيات كے علاوہ مسلمانوں كے لئے وسيع اجتماعى اور سياسى مصلحتيں بھى تھيں_ اس لئے كہ عرب كے متعصب قبائل نے مشركين كے غلط پروپيگنڈے كى بنا پر يہ سمجھ ركھا تھا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خانہ كعبہ كے لئے'' جو سلف كى بارگاہ اور افتخار كا مظہر ہے'' ، كسى طرح اس كى قدر و منزلت كے قائل نہيں ہيں اور اسى وجہ سے اسلام كے پھيلاؤ سے شدتّ كے ساتھ ہر اساں تھے _ اب غلط خيالات كے پردے چاك ہوئے اور انہوں نے ديكھ ليا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حج كو ايك واجب فريضہ جانتے ہيں _ ايك طرف اگر قريش مانع نہيں ہوئے اور زيارت كعبہ كى توفيق ہوگئي تو يہ مسلمانوں كے لئے بڑى كاميابى ہوگى كہ وہ چند سال كے بعد ہزاروں مشركين كى آنكھوں كے سامنے اپنى عبادت كے مراسم ادا كريں گے دوسرى طرف اگر قريش مسلمانوں كے مكّہ ميں داخل ہونے سے مانع ہوئے تو اعراب كے جذبات طبعى طورپر مجرو ح ہوجائيں گے كہ ان لوگوں نے مسلمانوں كو فريضہ حج انجام دينے كے لئے آزادكيوں نہ چھوڑا _ يہ سفر چونكہ جنگى سفر نہ تھا اس لئے پرسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ ہر شخص اپنے ہمراہ صرف ايك تلوار '' مسافر كا اسلحہ '' كے

۱۲۹

عنوان سے ركھ سكتا ہے _ اسكے علاوہ اور كوئي ہتھياز ركھنے كى اجازت نہيں ہے _رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قربانى كے لئے ستر(۷۰) اونٹ مہيّا كئے اور چودہ سو مسلمانوں كے ساتھ مكہ كى طرف روانہ ہوئے اور مقام ذو الحليفہ ميں احرام باندھا_

آپ نے عباد بن بشر كو ۲۰ مسلمانوں كے ساتھ ہر اول دستہ كے عنوان سے آگے بھيج ديا تا كہ را ستے ميںآنے والے لوگوں كے كانوں تك لشكر اسلام كى روانگى كى خبر پہنچا ديں اور كسى خطرے يا سازش كى صورت ميں اس كى خبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ديں_(۲۰)

قريش كا موقف

جب قريش ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى روانگى سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے بتوں (لات و عزّي) كى قسم كھائي كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مكّہ ميں آنے سے روكيں گے _ قريش كے سرداروں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو روكنے كے لئے خالد بن وليد كو دو سو سواروں كے ساتھ مقام '' كُراع الغَميم ''بھيجا جہاں پہنچ كر يہ لوگ ٹھہر گئے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قريش كے موقف سے آگاہى كے بعد يہ چاہتے تھے كہ خونريزى كے ذريعے اس مہينے اور حرم كى حرمت مجروح نہ ہو اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے راہنما سے فرمايا كہ كارواں كو اس راستے سے لے چلو كہ جس راستے ميں خالد كا لشكر نہ ملے _

راہنما ، قافلہ اسلام كو نہايت دشوار گذار راستوں سے لے گيا يہاں تك كہ يہ لوگ مكہ سے ۲۲ كيلوميٹر دور'' حديبيّہ'' كے مقام پر پہنچ گئے_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب كو يہ حكم ديا كہ يہيں اُتر جائيں اور اپنے خيمے لگاليں(۲۱)

۱۳۰

قريش كے نمائندے آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں

قريش نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حقيقى مقصد سے با خبر ہونے كيلئے اپنے يہاں كى اہم شخصيتوں كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيجا تا كہ وہ مسلمانوں كا مقصد جان ليں_

قريش كے پہلے نمائندہ وفدميں بُديل خزاعى قبيلہ خزاعہ كے افراد كے ساتھ آيا _ جب وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' ميں جنگ كے لئے نہيں آيا ميں تو خانہ خدا كى زيارت كے لئے آيا ہوں '' نمائندے واپس چلے گئے اور انہوں نے يہ اطلاع قريش كو پہنچا دى _ليكن قريش نے كہا'' خدا كى قسم : ہم ان كو مكہ ميں داخل نہيں ہونے ديں گے ، چاہے ان كا آنا خانہ خدا كى زيارت كى غرض سے ہى كيوں نہ ہو '' _ د وسرے اور تيسرے نمائندہ وفود بھيجے گئے اور انہوں نے بھى '' بُديل '' والى صورت حال بيان كى _

قريش كے تيسرے نمائندے '' حليس بن علقمہ '' جو عرب كے تير اندازوں كا سر براہ تھا، نے قريش كے سرداروں كو مخاطب كر كے كہا كہ '' ہم نے ہرگز تم سے يہ معاہدہ نہيں كيا كہ ہم خانہ خدا كے زائرين كو روكيں گے ، خدا كى قسم اگر تم لوگ، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو آنے سے روكو گے تو ميں اپنے تيرانداز ساتھيوں كے ساتھ تمہارے اوپر حملہ كركے تمہارى اينٹ سے اينٹ بجادوں گا _ قريش اپنے اندر اختلافات رونما ہونے سے ڈرگئے اور انہوں نے ''حليس ''كو اطمينان دلايا كہ ہم كوئي ايسا راستہ منتخب كريں گے جوتمہارى خوشنودى كا باعث ہوگا_

قريش كا چوتھا نمائندہ ''عُروة بن مسعود ''تھاجس پر قريش اطمينان كامل ركھتے تھے_ وہ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملا تو اس نے كوشش كى كہ اپنى باتوں ميں قريش كى طاقت كو زيادہ اور اسلام كى قوّت كو كم كركے پيش كرے اور مسلمانوں كو جھك جانے اور بلا قيد و شرط واپس

۱۳۱

جانے پر آمادہ كرلے_ ليكن جب وہ واپس گيا تو اس نے قريش سے كہا كہ '' ميں نے قيصر و كسرى اور سلطان حبشہ جيسے بڑے بڑے بادشاہوں كو ديكھا ہے مگر جو بات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں ہے وہ كسى اور ميں نہيں ''_

ميں نے ديكھا كہ مسلمان ان كے وضو كا ايك قطرہ پانى بھى زمين پر گرنے نہيں ديتے وہ لوگ تبرك كے لئے اس كو جمع كرتے ہيں اور اگر ان كا ايك بال بھى گر جائے تو ان كے اصحاب فوراً تبرك كے لئے اُٹھا ليتے ہيں ، لہذا اس خطرناك موقع پر نہايت سوچ سمجھ كر قدم اٹھانات(۲۲)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سُفرائ

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك تجربہ كار شخص كو جسكا نام'' خراش ''تھا اپنے اونٹ پر سوار كيا اور قريش كے پاس بھيجا ، ليكن ان لوگوں نے اونٹ كو قتل كرديا اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نمائندے كو قتل كرنے پر اترآئے ، مگر يہ حادثہ تيراندازان عرب كے ايك دستے كى وساطت سے ٹل گيا _

قريش كى نقل و حركت يہ بتا رہى تھى كہ ان كے سر پر جنگ كاجنون سما يا ہوا ہے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسئلہ كے مسالمت آميز حل سے مايوس نہيں ہوئے _ لہذا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قريش كے پاس ايسے شخص كو نمائندہ بنا كر بھيجنے كا ارادہ كيا جس كا ہاتھ كسى بھى جنگ ميں قريش كے خون سے آلودہ نہ ہوا ہو، لہذا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمر بن خطاب كو حكم ديا كہ وہ قريش كے پاس جائيں _ ليكن انہوںنے جانے سے معذرت كرلى _ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے عثمان بن عفّان كو '' جن كى اشراف قريش سے قريب كى رشتہ دارى تھى '' اشراف قريش كے پاس بھيجا _ عثمان قريش كے ايك

۱۳۲

آدمى كى پناہ ميں مكّہ ميں وارد ہوئے اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيغام كو قريش كے سر كردہ افراد تك پہنچا يا _ انہوں نے پيش كش رد كرنے كے ساتھ ساتھ عثمان كو بھى اپنے پاس روك ليا اور واپس جانے كى اجازت نہيں دى _ مسلمانوں كے درميان يہ افواہ اڑ گئي كہ قريش نے عثمان كو قتل كردياہے_(۲۳)

بيعت رضوان

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نمايندے كى واپسى ميں تاخير كى وجہ سے مسلمانوں كے در ميان عجيب اضطراب اور ہيجان پيدا ہو گيا اور مسلمان جوش و خروش ميں آكر انتقام پر آمادہ ہو گئے_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كى جذبات كو متحرك كرنے كے لئے فرمايا '' ہم يہاں سے نہيں جائيں گے جب تك كوئي فيصلہ نہيں ہو جاتا _ '' اس خطرناك صورتحال ميں اگر چہ مسلمانوں كے كے پاس جنگ كے لئے ضرورى ہتھيار اور سازو سامان نہ تھا پھر بھى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارادہ كيا كہ اپنے اصحاب كے ساتھ عہد و پيمان كى تجديد كريں ، چنانچہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ايك درخت كے سايہ ميں بيٹھ گئے اور سوائے ايك كے تمام اصحاب نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہاتھ پر بعنوان بيعت ہاتھ ركھا اور قسم كھائي كہ خون كے آخرى قطرے تك اسلام كا دفاع كريں گے_

يہ وہى ''بيعت رضوان ''ہے كہ جس كے بارے ميں قرآن ميں آيا ہے :

'' خداوند عالم ان مومنين سے جنھوں نے تمہارے ساتھ درخت كے نيچے بيعت كي، خوش ہو گيا اور ان كے وفا و خلوص سے آگاہ ہو گيا، اللہ نے ان كے اوپر سكون كى چيز نازل كى اور عنقريب فتح ، اجر كے عنوان سے ان كے لئے قرار دى ہے''_(۲۴)

بيعت كى رسم ختم ہوئي ہى تھى كہ عثمان لوٹ آئے اور قريش كے وہ جاسوس جو دور سے

۱۳۳

بيعت كا واقعہ ديكھ رہے تھے پريشان ہو كر بھاگ كھڑے ہوئے( تا كہ اس خطرناك صورتحال كى خبر قريش كے گوش گزار كريں)_ قريش كے سر برآوردہ افراد نے '' سہيل بن عمرو'' كو صلح كا معاہدہ طے كرنے كے لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيجا_(۵ ۲)

صلح نامے كامتن

جب سہيل بن عمرو، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پہنچا تو يوں گويا ہوا '' قريش كے سربرآوردہ افراد كا خيال ہے كہ آپ اس سال يہاں سے مدينہ واپس چلے جائيں اور حج و عمرہ كو آيندہ سال انجام ديں ''_

پھر مذاكرات كا باب كھل گيا اور سہيل بن عمرو بات بات پر بے موقع سخت گيرى سے كام لے كر پر يشانى كھڑى كرتا رہا _ جب كہ پيغمبر-اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چشم پوشى كے رويے كو اس لئے نہيں چھوڑ رہے تھے كہ كہيں صلح كا راستہ ہى بند نہ ہو جائے _مكمل موافقت كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت على (ع) سے فرمايا كہ صلح نامہ لكھو ، حضرت على (ع) نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے لكھا:

بسم الله الرحمن الرحيم

سہيل نے كہا كہ ہم اس جملے سے آشنا نہيں ہيں آپ بسمك اللہم لكھيں _ ( يعنى تيرے نام سے اے خدا) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے موافقت فرمائي پھر حضرت على (ع) نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے لكھا ''يہ وہ صلح ہے جسے اللہ كے رسول محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انجام دے رہے ہيں''_

سہيل بولا '' ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت اور نبوت كو قبول نہيں كرتے اگر اس كو قبول كرتے تو آپ سے ہمارى لڑائي نہ ہوتى _

۱۳۴

لہذا آپ اپنا اور اپنے باپ كا نام لكھيں(۲۶)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علي(ع) كو حكم ديا كہ اس جملے كو مٹاديں ليكن حضرت علي(ع) نے عرض كيا '' ميرے ہاتھوں ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا نام مٹانے كى طاقت نہيں ہے '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ہاتھوں سے اس جملے كو مٹا ديا _(۲۷)

صلح نامے كى كچھ شرائط يوں تھيں:

۱_ قريش اور مسلمان دونوں عہدكرتے ہيںكہ دس سال تك ايك دوسرے سے جنگ نہيں كريں گے تا كہ جزير ةالعرب ميں اجتماعى امن و امان اور صلح قائم ہوجائے_

۲_ جب بھى قريش كا كوئي آدمى مسلمانوں كى پناہ ميں چلا جائے گا تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كو واپس كريںگے ليكن اگر مسلمانوں ميں سے كوئي شخص قريش كى پناہ ميں آجائے گا تو قريش پر لازم نہيں كہ وہ اس كو واپس كريں_

۳_ مسلمان اور قريش جس قبيلے كے ساتھ چاہيں عہد و پيمان كر سكتے ہيں_

۴_ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان كے اصحاب اس سال مدينہ واپس جائيں اور آئندہ سال زيارت خانہ خدا كے لئے آسكتے ہيں_ليكن شرط يہ ہے كہ تين دن سے زيادہ مكّہ ميں قيام نہ كريں اور مسافر جتنا ہتھيار لے كر چلتا ہے اس سے زيادہ ہتھيار اپنے ساتھ نہ ركھيں(۲۸) _

۵_ مكہ ميں مقيم مسلمان اس معاہدے كى روسے اپنے مذہبى امور آزادى سے انجام دے سكتے ہيں اور قريش انہيں آزار يا مجبور نہيں كريں گے كہ وہ اپنے مذہب سے پلٹ جائيںيا ان كے دين كا مذاق نہيں اڑائيں گے _اسى طرح وہ مسلمان جو مدينہ سے مكہ آئيں ان كى جان و مال محترم ہے_(۲۹)

معاہدہ كے دو نسخے تيار كئے گئے اور ايك نسخہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پيش كيا گيا اس

۱۳۵

كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جانوروں كو ذبح كرنے كا حكم ديا اور وہيں سرمنڈوايا(۳۰) اور اس طرح۱۹ دن كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدينہ كى طرف روانہ ہو گئے_

صلح كے مخالفين( مطالعہ كيلئے)

صلح كا معاہدہ كچھ مسلمانوں خصوصاً بعض مہاجرين كى ناراضگى كا باعث بنا اور مسلمانوں كو سب سے زيادہ تكليف صلح نامہ كى دوسرى شق كى وجہ سے ہوئي جس ميں مسلمانوں كے پاس پناہ لينے والوں كو واپس كردينے كو لازم قرار ديا گيا تھا ، مخالفين صلح ميں سب سے آگے عمر بن خطاب تھے واقدى كى روايت كے مطابق عمر اور ان كے ہمنوا افراد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پہنچے اور كہا كہ '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كيا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہيں كہا تھا كہ ہم جلدى ہى مكہ ميں داخل ہو كر كعبہ كى كنجى لے ليں گے اور دوسروں كے ساتھ عرفات ميں وقوف كريں گے ؟ اور اب حالت يہ ہے كہ نہ ہمارى قربانى خانہ خدا تك پہنچى اور نہ ہم خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمر كو جواب ديا كہ '' كيا ميں نے اسى سفر كے لئے كہا تھا؟ عمر نے كہا '' نہيں'' پھر مقبول رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمر كى طرف رخ كيا اور فرمايا كہ '' كيا تم احد كا دن بھول گئے ہو جس دن تم بھاگتے ہوئے پيچھے مُڑكر نہيں ديكھتے تھے اور ميں تمہيں پكار رہا تھا ؟ كيا تم احزاب كا دن بھول گئے ؟ كيا تم فلا دن بھول گئے ؟''

مسلمانوں نے كہا اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو كچھ سوچ ركھا ہے ہم نے اس

كے بارے ميں نہيں سوچا تھا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور اس كے حكم كو ہم سے بہتر جانتے ہيں_

اسى طرح جب صلح نامہ لكھا گيا تو عمر اپنى جگہ سے اُٹھ كر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئے اور كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كيا ہم مسلمان نہيں ہيں ؟ '' آپ نے فرمايا : '' بے شك ہم مسلمان

۱۳۶

ہيں '' عمر نے كہا كہ ''پھر دين خدا ميں ہم كيوں ذلت اور پستى برداشت كريں ؟آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ ميں خدا كا بندہ اور اس كا رسول ہوں ميں خدا كے حكم كى كبھى بھى مخالفت نہيں كروں گا اور خدا بھى مجھے تباہ نہيں كرے گا _(۳۱) عمر بن خطاب كہتے ہيں كہ'' ميں نے كبھى بھى حديبيہ كے دن كى طرح اسلام كے بارے ميں شك نہيں كيا_(۳۲)

ابو بصير كى داستان اور شرط دوم كا خاتمہ( مطالعہ كيلئے)

ابو بصير نامى ايك مسلمان جو مدت سے مشركين كى قيد ميں زندگى گزار رہے تھے مدينہ بھاگ آئے قريش نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خط لكھا اور خط بنى عامر كے ايك شخص كے حوالہ كيا اور اپنے غلام كو اس كے ساتھ كرديا اور ياددلايا كہ صلح حديبيہ كى دوسرى شق كے مطابق ابو بصير كو واپس كريںرسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاہدے كے مطابق ابو بصير سے كہا تمہيں مكہ لوٹ جانا چاہيے، كيونكہ ان كے ساتھ حيلہ بازى سے كام لينا كسى طرح بھى صحيح نہيںہے_ ميں مطمئن ہوں كہ خداتمہارى اور دوسروں كى آزادى كا وسيلہ فراہم كرے گا''_

ابو بصير نے عرض كيا'' كيا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھے مشركين كے سپر د كررہے ہيں تا كہ وہ مجھے دين خدا سے بہكاديں ؟ ''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر وہى بات دہرائي اور ان كو قريش كے نمائندے كے سپرد كرديا _ جب وہ لوگ مقام ذو الحليفہ ميں پہنچے تو ابو بصير نے ان محافظين ميں سے ايك كو قتل كر ديا_ اور اس كى تلوار اور گھوڑا غنيمت كے طور پر لے ليا اورمدينہ لوٹ آئے_ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پہنچے تو كہا_ '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ نے اپنے عہد كو پورا كيا اور مجھے اس قوم كے سپرد كرديا ميں نے اپنے دين كا دفاع كيا تا كہ ميرا دين بر باد نہ ہو ''_

ابو بصير چونكہ مدينہ ميں نہيں رہ سكتے تھے اس لئے صحرا كى طرف چلے گئے اور دريائے

۱۳۷

سرخ كے ساحل پر مكہ سے شام كى طرف جانے والے قافلوں كے راستے ميں چھپ گئے جو لوگ مكہ ميں مسلمان ہوئے تھے اور معاہدے كے مطابق مدينہ نہيں آسكتے تھے وہ ابو بصير كے پاس چلے جاتے تھے رفتہ رفتہ ان كى تعداد زيادہ ہو گئي اور انہوں نے قريش كے تجارتى قافلوں پر حملے كر كے نقصان پہنچا نا شروع كرديا _ قريش نے اس آفت سے بچنے كے لئے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خط لكھا اور ان سے عاجزانہ طور پر خواہش كى كہ ابوبصير اور ان كے ساتھيوں كو مدينہ بلاليں اور پناہ گزينوں كو واپس كرنے والى شرط صلح نامہ كے متن سے حذف كردى جائے_(۳۳)

صلح حديبيہ كے نتائج كا تجزيہ

۱_ پے در پے جنگيں ايك دوسرے سے براہ راست روابط ميں ركاوٹ بنى ہوئي تھيں ليكن اس صلح نے افكار كے آزادانہ ارتباط اور اعتقادى بحث و مباحثہ كا راستہ كھول ديا اور يہ روابط عرب معاشرے ميں اسلامى روش اور دلوں ميں اسلام كے نفوذ كى وسعت كا ذريعہ بن گئے اس طرح كہ صلح حديبيہ والے سال پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ مسلمانوں كى تعداد چودہ سو تھى جبكہ فتح مكہ والے سال دس ہزار افراد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ تھے_

۲_ صلح كے ذريعہ داخلى امن و امان قائم ہو جانے كے بعد اسلام كى عالمى تحريك كو سرحدوں كے پار لے جانے اور عالمى پيغام كو نشر كرنے كے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو موقع مل گيا _

۳_ يہ صلح در حقيقت تحريك اسلامى كو مٹانے كے لئے وجود ميں آنے والے ہر طرح كے نئے جنگى اتحاد كے لئے مانع بن گئي اور اس طرح لشكر اسلام كے ہاتھ يہ موقعہ آگيا كہ وہ خيبر كے يہوديوں جيسے بڑے دشمن كو راستے سے ہٹا سكيں _

صلح كے فوائد كے بارے ميں امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں ''پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كى تاريخ ميں كوئي واقعہ صلح حديبيہ سے زيادہ فائدہ مند نہيں تھا ''_(۳۴)

۱۳۸

سوالات

۱_ہجرت كا چھٹا سال كس اہميت كا حامل ہے؟

۲_ مفسدين فى الارض (زمين پر فساد پھيلانے والے)كون لوگ تھے اور كيوں قتل كئے گئے؟

۳_ بنى مُصْطَلق كيوں كر اسلام كے گرويدہ ہوئے؟

۴_ صلح حديبيہ كے معاہدہے كا كيا نتيجہ رہا؟

۵_ بيعت رضوان كے بارے ميں آپ كيا جانتے ہيں؟

۶_ كون لوگ صلح كے مخالف تھے؟

۷_ عبداللہ بن اُبيّ نے غزوہ بنى مصطلق ميں كيا كيا اور كون سا سورہ اس موقعہ پر نازل ہوا؟

۸_ حديث ''افك'' كيا ہے ؟ مختصراً بيان كيجئے_

۹_ آية ''( يا ايها الذين آمنوا ان جائكم فاسق بنباء فتبينوا ) كس كے بارے ميں اور كس موقع پر نازل ہوئي؟

۱۰_ صلح كى دوسرى شرط كيسے لغو ہوئي؟

۱۳۹

حوالہ جات

۱_ ڈاكٹر آيتى مرحوم كى كتاب '' تاريخ پيامبر'' ملاحظہ ہو ص ۳۸۹، ۴۶۴

۲_ اس غزوہ كى تاريخ ميں بھى اختلاف ہے واقدى كہتے ہيں كہ يہ يكم ربيع الاول ۶ھ ميں واقع ہوا تھا ليكن ابن ہشام كے مطابق يہ ماہ جمادى الاوّلى ميں واقع ہواہے_مغازى واقدى ج ۲ ص ۵۳۵ _سيرہ ابن ہشام ج ۳ ص ۲۷۹ ملاحظہ ہو_

۳_مغازى واقدى ج ۲ ص ۵۳۵_طبرى ج ۲ ص ۵۹۵ _طبقات ابن سعد ج ۲ص۷۸_سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۲۹۲_

۴_( انّما جزآؤا الذين يُحاربُونَ اللّهَ وَ رَسُولَه وَ يَسْعَوْنَ فى الْاَرض فَساداً ا َنْ يُقْتَّلوُا اَوْ يُصَلََََّبُوا اَوْ تُقَّطَّعَ اَيْديهم وَ اَرْجُلُهُم من خلاف اَوْ يُنْفَوا منْ اَلارْض ذلكَ لَهُم خزْيٌ فى الدُنيا وَ لَهُم فى الآخرَة عَذابٌ عَظيم ) (مائدہ_۳۳)(طبقات ج ۲ ص ۹۲)_

۵_ ابن سحاق ،اور ابن ہشام نے اس غزوہ كو ۶ ہجرى كے واقعات ميں نقل كيا ہے ا گر چہ واقدي، ابن سعد اور مسعودى جيسے تاريخ نويسوں نے اسے كو سنہ ۵ ہجرى كے واقعات ميں ذكر كيا ہے_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۰۲ _ مغازى واقدى ج ۱ ص ۴۰۴ _ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۹۳ _ التنبيہ و الاشراف ص ۲۱۵ _

۶_ مُريَسْيَع سے فُرع تك جو مدينہ سے آٹھ منزل پر واقع ہے ايك روز كى مسافت كا راستہ ہے_بعض لغت ميں ''مُريَسْيَع '' ذكر ہوا ہے اگر ايك روز مسافت والى بات درست مان لى جائے تو اس كا مدينہ سے فاصلہ صرف آٹھ كلوميٹر ہوگا جو كہ ايك بعيد بات ہے ( مصحح) _

۷_ تاريخ پيامبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ڈاكٹر آيتى مرحوم ص ۴۰۷_

۸_جَلابيب جلباب كى جمع ہے _ كشادہ پيرہن كو كہتے ہيں _ جو لوگ مسلمان ہو جاتے تھے مشركين ان كے لئے يہ لفظ استعمال كرتے تھے(ر _ك ) سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۰۳_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

بٹھادی تھی _ حتی کہ یہ بھی منقول ہے کہ قریشی جب بھی حضرت علی علیہ السلام کو کسی لشکر یا گروہ میں دیکھ لیتے تو ایک دوسرے کو وصیتیں کرنے لگ جاتے تھے_

ایک مرتبہ جب آپعليه‌السلام نے دشمن کی فوج کو تتر بتر کردیا تو ایک شخص نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھ کر کہا:''مجھے ایسے لگا کہ ملک الموت(موت کا فرشتہ) بھی اسی طرف جاتا ہے جس طرف علیعليه‌السلام جاتا ہے''(۱) _

مشرکین کے مقتولین ، کنوئیں میں:

جنگ ختم ہونے پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہاں موجود ایک کنوئیں کو مٹی سے بند کراکے مشرکین کی لاشوں کو اس میں ڈالنے کا حکم دیا تو سب لاشیں اس میں ڈال دی گئیں، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک ایک مقتول کا نام لے کر پکارتے ہوئے پوچھا _''کیا تم لوگوں نے اپنے خداؤں کے وعدہ کی حقیقت دیکھ لی ہے ؟ میں نے تو اپنے پروردگار کے وعدے کو سچا پایا ہے _ تم اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بدترین قوم تھے _ تم نے مجھے جھٹلایا لیکن دوسرے لوگوں نے میری تصدیق کی ، تم نے مجھے در بدر کیا لیکن دوسرے لوگوں نے مجھے ٹھکانہ دیا اور تم نے مجھ سے جنگ کی جبکہ دوسروں نے میری مدد کی '' یہاں عمر نے کہا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مرنے والوں سے باتیں کر رہے ہیں؟''_ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' وہ میری باتیں تم لوگوں سے زیادہ سن اور اچھی طرح سمجھ رہے ہیں لیکن وہ میری باتوں کا جواب نہیں دے سکتے''(۲) _ لیکن بی بی عائشہ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس بات ''انہوں نے میری باتیں سن لی ہیں''کاانکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''وہ میری باتیں پہلے سے ہی جان چکے تھے''_ اور اپنی مذکورہ بات کی دلیل کے طور پر یہ آیتیں پیش کی ہیں (انک لا تسمع الموتی)ترجمہ : '' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مردوں کو کوئی بات نہیں سنا سکتے'' _ اور (و ما انت بمسمع من فی القبور )(۳) ترجمہ : '' اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبر میں لیٹے مردوں کو کوئی بات نہیں

____________________

۱) محاضرات الادبا راغب اصفہانی ج ۲ ص ۱۳۸_ (۲) ملاحظہ ہو : فتح الباری ج ۷ ص ۲۳۴ و ص ۲۳۴ نیز اسی مقام پر حاشیے میں صحیح بخاری ، الکامل ابن اثیر ، ج ۲ ص ۲۹ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۸۶ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۸۲ و حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۳۳۳ و ص ۳۳۴_

۳) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۸۲ ، نیز ملاحظہ ہو : مسند احمد ج ۲ ص ۳۱ و ص ۳۸ و دیگر کتب _

۲۸۱

سنا سکتے''_ لیکن بخاری میں قتادہ سے مروی ہے کہ خدا نے ان کی روحوں کو ان کے جسم میں واپس لوٹا دیا جس کی وجہ سے انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتیں سن لیں_ اور بیہقی نے بھی یہی جواب دیا(۱) _

لیکن ہم کہتے ہیں کہ اگر قتادہ کی بات صحیح ثابت ہوجائے تو یہ سردار انبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک معجزہ ہوگا_

البتہ حلبی نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ مردوں کا حقیقت میں سننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، کیونکہ جب ان کی روحوں کا ان کے جسموں سے مضبوط تعلق پیدا ہوجائے تو ان کے کانوں سے سننے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے _ اس لئے کہ سننے کی یہ حس ان کے اندر باقی رہتی ہے _ اور مذکورہ دو آیتوں میں جس سماع کی نفی کی گئی ہے وہ مشرکوں کو نفع پہنچانے والا سماع ہے _ اس کی طرف سیوطی نے بھی اپنے اشعار میں یوں اشارہ کیا ہے:

سماع موتی کلام الله قاطبة

جاء ت به عندنا الاثار فی الکتب

و آیة النفی معناها سماع هدی

لا یقبلون و لا یصغون للادب

تمام مردوں کے خدا کے کلام کو سننے کے متعلق ہماری کتابوں میں کئی روایتیں منقول ہیں _ اس لئے وہ قابل قبول ہے البتہ آیت میں جس سماع کی نفی کی گئی ہے اس سے مراد ہدایت قبول کرنے والا سماع ہے کیونکہ وہ اپنی بے ادبی کی وجہ سے ہدایت کی ان باتوں پر کان نہیں دھرتے_

اس لئے کہ خدا نے زندہ کافروں کو قبر میں پڑے مردوں سے اس وجہ سے تشبیہ دی ہے کہ وہ نفع بخش اسلام سے کوئی نفع حاصل ہی نہیں کرنا چاہتے(۲) _

____________________

۱) ملاحظہ ہو : بخاری باب غزوہ بدر نیز ملاحظہ ہو شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۲۷۹ میں معتزلی کا بیان _

۲) ملاحظہ ہو : سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۸۲_

۲۸۲

کیا '' مہجع'' سید الشہداء ہے؟

مؤرخین کہتے ہیں کہ جب جنگ بدر میں دونوں فوجوں کی صفیں منظم ہوگئیں تو سب سے پہلے ''مھجع'' ( عمر کا غلام ) جنگ کرنے نکلا اور مارا گیا _ بعض مشائخ کے بقول '' امت محمدیہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اسے سب سے پہلا شہید کہا گیا'' _ اور اس کے متعلق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمایا کہ مھجع تمام شہیدوں کا سردار ہے(۱) _ لیکن یہ تمام باتیں مشکوک ہیں ، کیونکہ :

۱_ یہاں یہ سوال پیدا ہوتے ہیں کہ اس امت کا سب سے پہلا شہید مھجع کیوں کہلائے گا اور عمار کے والد جناب یا سریا ان کی والدہ جناب سمیہ اسلام کے پہلے شہید کیوں نہیں کہلائے جاسکتے ؟ حالانکہ یہ دونوں شخصیات جنگ بدر سے کئی برس پہلے شہید ہوئے_ نیز اسی جنگ بدر میں مھجع سے پہلے شہید ہونے والے عبیدہ بن حارث کو ہی اسلام کا سب سے پہلا شہید کیوں نہیں کہا جائے گا؟

۲_ ان کا یہ کہنا کہ صفوں کے منظم ہونے کے بعد وہ سب سے پہلے جنگ کرنے نکلا، ناقابل قبول ہے _ کیونکہ مسلمانوں سے سب سے پہلے حضرت علیعليه‌السلام ، جناب حمزہ اور جناب عبیدہ بن حارث جنگ کے لئے نکلے تھے_

۳_ ''مھجع'' کے سید الشہداء ہونے والی بات کے ساتھ یہ روایت کیسے جڑے گی کہ '' حضرت حمزہ '' سیدالشہداء ہیں ؟(۲) _ اس بات کا ذکر انشاء اللہ غزوہ احد کی گفتگو میں ہوگا_ وہ حضرت علیعليه‌السلام کا یہ شعر بھی خو دہی نقل کرتے ہیں کہ :

محمّد النبی اخی و صهری

و حمزة سیدالشهداء عمی(۳)

____________________

۱) سیرہ حلبیہ ۲ ص ۶۱ نیز ملاحظہ ہو : المصنف ج ۵ ص ۳۵۱_

۲) سیر اعلام النبلاء ج ۱ ص ۱۷۲ ، مستدرک حاکم ج ۳ ص ۱۹۵و ص ۱۹۹ ، تلخیص ذہبی ( مطبوعہ بر حاشیہ مستدرک ) ، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۲۶۸ ، حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۵۷۱ و تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۱۶۴ و ص ۱۶۵_

۳) روضة الواعظین ص ۸۷ ، الصراط المستقیم بیاضی ج ۱ ص ۲۷۷ ، کنز الفوائد کراجکی مطبوعہ دار الاضواء ج ۱ ص ۲۶۶ و الغدیر ج ۶ ص ۲۵ تا ۳۳ از نہایت کثیر منابع _

۲۸۳

نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے ( چچا زاد ) بھائی اور میرے سسر ہیں اور سیدالشہدا جناب حمزہ میرے چچا ہیں _

اسی طرح خود حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اور سیدالشہداء حمزہ بھی ہم میں سے ہی ہیں''(۱) _

۴_ ان کی یہ بات کہ'' مھجع مسلمانوں کاپہلا شہید ہے'' اس بات کے ساتھ کیسے جمع ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں ''کے سب سے پہلے شہید عمیر بن حمام ہیں''(۲) ؟_

حلبی نے اس کی یہ راہ نکالنے کی کوشش کی ہے کہ عمیر انصاری مقتول تھا جبکہ اول الذکر مہاجر تھا _ لیکن پھر اس کا جواب یہ دیا ہے کہ سب سے پہلا انصاری شہید تو حارثہ بن قیس تھا _ لیکن اس جواب کو پھر خود اس نے ہی یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ حارثہ کسی نا معلوم تیر سے مارا گیا تھا اور اس کا قاتل نا معلوم تھا(۳) _

لیکن یہ واضح سی بات ہے کہ یہ صرف لفظوں کا کھیل ہے _ کیونکہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں اسلام کا سب سے پہلا شہید ہے یا بدر میں مسلمانوں کی طرف سے سب سے پہلا شہید ہے تو نہ ہی اس کے آلہ قتل کی کوئی بات ہوتی ہے نہ اس کے شہر یا علاقے کی اور نہ ہی اس کے قوم و قبیلہ کی _ و گرنہ بطور مثال یہ کہا جانا چاہئے تھا کہ فلاں مہاجرین کا سب سے پہلا شہید ہے اور فلاں انصار کا اولین شہید ہے_ یا فلاں سب سے پہلے تیر سے شہید ہوا یا نیزے سے شہید ہو ا یا اس طرح کی دیگر باتیں ہوتیں تو یہ اس کے مطلوب اور مقصود سے زیادہ سازگار ہوتا_ پھر بھی اگر حلبی کی بات صحیح مان لی جائے تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیدالشہداء کا لقب عمیر بن حمام ، عبیدہ یا حارثہ بن قیس کو چھوڑ کر صرف مھجع کو کیوں دیا گیا ؟ اور اسے ایسا لقب کس وجہ سے دیا گیا ؟ کیا اس وجہ سے کہ اس نے اسلام کی ایسی مدد اور حمایت کی تھی کہ دوسرے نہیں کر سکے تھے؟ یا یہ باقی دوسروں سے ذاتی اور اخلاقی فضائل کے لحاظ سے ممتاز حیثیت رکھتا تھا؟ یا صرف اس وجہ سے اسے سید الشہداء کا لقب ملا

____________________

۱) الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۱ ص ۲۷۳ و الاصابہ ج ۱ ص ۳۵۴ ، نیز ملاحظہ ہو : بحار الانوار ج ۴۴ ص ۱۴۰ و المسترشد ص ۵۷_

۲) الاصابہ ج ۳ ص ۳۱ و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۶۱_

۳) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۶۱_

۲۸۴

کہ وہ عمر بن خطاب کا غلام تھا؟ پس اس وجہ سے اس کے پاس ایسی فضیلت ہونی چاہئے جو سیدا لشہداء حضرت حمزہ اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے علاوہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی ؟ ہمیں تو نہیں معلوم شاید سمجھدار قاریوں کو اس کا علم ہو_

ذوالشمالین:

بدر میں ذوالشمالین بھی رتبہ شہادت پر فائز ہوا ( اسے ذوالشمالین اس لئے کہتے تھے کہ وہ ہر کام اپنے دونوں ہاتھوں سے کیا کرتا تھا ) _ اس کا اصل نام عمیر بن عبد عمر و بن نضلہ بن عمر و بن غبشان تھا(۱) _ البتہ یہاں ( نعوذ باللہ ) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھول چو ک اور ذوالشمالین کے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اعتراض کا ایک لمبا واقعہ مذکور ہے، لیکن چونکہ اسے '' سیرت سے متعلق چند ابحاث '' میں ذکر کریں گے اس لئے یہاں اس کے ذکر سے چشم پوشی کرتے ہیں _پس وہاں مراجعہ فرمائیں_

البتہ جنگ بدرسے متعلق دیگر حالات و واقعات کے بیان سے قبل درج ذیل نکات بیان کرتے چلیں:

الف : جنگ بدر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی خطیر مہم

امیر المؤمنین حضرت علیعليه‌السلام فرماتے ہیں:'' جنگ بدر کے موقع پر میں کچھ دیر جنگ کرتا اور کچھ دیر جنگ کرنے کے بعد میں یہ دیکھنے کے لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آتا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا حال ہے اور کیا کر رہے ہیں_ میں ایک مرتبہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گیا تو دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سجدے کی حالت میں '' یا حی یا قیوم ''کا ورد کر رہے ہیں اور اس سے آگے کچھ نہیں فرما رہے ،میں پھر واپس لڑنے کے لئے چلا گیا _ پھر کچھ دیر لڑنے کے بعد واپس آیا تو دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابھی تک اسی ورد میں مصروف ہیں اسی لئے میں پھر واپس جنگ کرنے چلاگیا اور اسی طرح بار بار وقفے وقفے سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خبرگیری کرتا رہا ، یہاں تک کہ خدا نے ہمیں فتح سے ہمکنار کیا''(۲)

____________________

۱) ملاحظہ ہو : سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۳۳۷ ، طبری اس کی تاریخ کے ذیل میں ص ۱۵۷، الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۱ ص ۴۹۱، نسب قریش مصعب زبیری ص ۳۹۴ ، الاصابہ ج ۱ ص ۴۸۶ و طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۱۹_

۲) البدایة و النہایہ ج ۳ ص ۲۷۵ و ص ۲۷۶ از بیہقی و نسائی در الیوم واللیلة ، حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۵۰۲ از مذکورہ و از کنز العمال ج ۵ ص ۲۶۷ از حاکم، بزار ، ابو یعلی و فریابی_

۲۸۵

البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سرے سے جنگ بدر میں شریک ہی نہیں ہوئے _ ہوسکتا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر کے شروع میں مسلمانوں کا دل بڑھانے کے لئے شریک ہوئے ہوں اور جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ مقصد حاصل ہوگیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میدان جنگ سے علیحدہ ہوکر دعاؤں اور راز و نیاز میں مصروف ہوگئے ہوں(۱) _

چند نکات:

۱_ حضرت علی علیہ السلام ان سخت حالات میں بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسلسل خبرگیری کرتے رہے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان جان لیوا گھڑیوں میں بھی ایک لحظہ اور ایک پل کے لئے بھی غافل نہیں ہوئے _ اسی طرح یہ بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام دیگر مقامات اور حالات میں بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خبرگیری کرتے تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت اور حمایت کو حضرتعليه‌السلام نے اپنے ذمہ لے لیا تھا _ کیونکہ یحیی سے مروی ہے کہ ہمیں موسی بن سلمہ نے یہ بتایا ہے کہ میں نے جعفر بن عبداللہ بن حسین سے حضرت علیعليه‌السلام ابن ابی طالب علیہما السلام کے (مسجد نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں) ستون کی بابت پوچھا تو اس نے کہا :'' باب رسول اللہ کی طرف یہاں ایک حفاظتی چوکی تھی اور حضرت علی علیہ السلام اس میں تربت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رخ کرکے بیٹھتے تھے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کیا کرتے تھے''(۲) _ سمہودی نے بھی اپنی کتاب میں اس ستون کا ذکر '' اسطوان المحرس '' ( حفاظتی چوکی والا ستون) کے نام سے کیا ہے(۳) _

۲_ ان سخت اور کٹھن گھڑیوں میں بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دعا اور مبداء اعلی یعنی پروردگا ریکتا سے رابطے کا اہتمام قابل ملاحظہ ہے _ کیونکہ وہی اصل طاقت اور کامیابی کا سرچشمہ ہے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں کو یقین اور صبر

____________________

۱) گذشتہ بات معقول اور مسلم نظر آتی ہے البتہ لگتا یہی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار کے منہ میں خاک ڈال کر تھوڑی دیر جنگ میں مصروف رہے ہوں گے تا کہ مسلمانوں کی جنگ کے لئے حوصلہ افزائی ہو اور جب وہ جنگ میں مصروف ہوگئے ہوں گے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رن سے نکل کر مصلی میں مصروف دعا ہوگئے ہوں گے_ و اللہ العالم _ از مترجم _

۲) وفاء الوفاء ج ۲ ص ۴۴۸_

۳) ایضاً_

۲۸۶

عطا کرنے اور انہیں خدا کے لطف و عنایات کے شامل حال کرنے کے لئے خدا سے براہ راست رابطہ کئے ہوئے تھے کیونکہ خدا کے لطف و کرم کے بغیر نہ ہی فتح اور کامیابی امکان ہے اور نہ ہی کامیابی ملنے کی صورت میں اس کی کوئی قدر و قیمت ہے_

۳_ اسی طرح اس جنگ میں سب سے زیادہ تکلیف اٹھانے والے حضرت علیعليه‌السلام کا خضوع و خشوع بھی لائق دید ہے_ انہوں نے پینتیس ۳۵ سے زیادہ آدمیوں کو بذات خود فی النار کیا تھا اور باقی پینتیس ۳۵ کے قتل میں بھی شریک ہوئے تھے ، لیکن ہم انہیں یہ کہتا ہوا دیکھتے ہیں کہ '' خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ سے ہمیں فتح عنایت کی '' یعنی حضرت علیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کامیابی کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف منسوب کرتے ہوئے اسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مرہون منت جانتے ہیں اور اس کامیابی میںاپنے سمیت کسی کا بھی کوئی قابل ذکر کردار نہیں سمجھتے تھے_

ب : جنگ فیصلہ کن تھی

یہ بات واضح ہے کہ اس جنگ کو فریقین اپنے لئے فیصلہ کن سمجھتے تھے _ مسلمان خاص کر حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم یہ سوچ رہے تھے کہ اگر وہ خدا نخواستہ شکست کھا گئے تو پھر روئے زمین پر کبھی بھی خدا کی عبادت نہیں ہوگی _ جبکہ مشرکین بھی یہ چاہتے تھے کہ مہاجرین کو اچھی طرح کس کر انہیں اپنی گمراہی کا مزاچکھائیں اور انصاریوں کو بھی نیست و نابود کرکے رکھ دیں تا کہ بعد میں کوئی بھی ان کے دشمن کے ساتھ کبھی اتحاد نہ کر سکے اور نہ ہی کوئی کبھی ان کے تجارتی راستے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ ڈال سکے اور اس کے نتیجے میں پورے خطہ عرب پر ان کی دھاک بیٹھ جائے_ ہاں مال ، دنیا اور جاہ و حشم پر مرمٹنے والے لوگوں کے نزدیک یہ چیزیں نہایت اہم تھیں اور بالکل اسی لئے انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھیوں کو بہت تنگ کیا ، گھروں سے نکال باہر کیا اور ان سے جنگ کیا حالانکہ وہ ان کے اپنے فرزند ، بھائی ، بزرگ اور رشتہ دار تھے_ ان کے لئے سب کچھ دنیا ہی تھی اور نہ اس سے پہلے کوئی چیز تھی اور نہ بعد میں کچھ ہے_ اسی چیز نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی اور انہیں اپنے رشتہ داروں پر جرم و جنایت کے مرتکب ہونے پر اکسا یا جس کی وجہ سے انہوں

۲۸۷

نے اپنوں کو مختلف قسم کے شکنجوں کا نشانہ بنایا، ان کا مذاق اڑایا ، پھر ان کا مال و اسباب لوٹا، انہیں اپنے گھروں سے نکال باہر کیا اور آخر کار انہیں جڑ سے اکھاڑنے اور نیست و نابود کرنے کے لئے ان کے خلاف سخت ترین جنگ لڑی_

ج: شکت ، طاقت کا عدم توازن اور فرشتوں کی امداد

کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ کوئی چھوٹا لشکر کسی بڑی فوج کو شکست دے دیتا ہے _ لیکن یہ اس صورت میں ہوتا ہے کہ اس چھوٹی فوج میں ایسے امتیازات اور ایڈ و انٹیج پائے جاتے ہیں جو بڑے لشکر میں نہیں ہوتے_ مثال کے طور پر اسلحہ با رود کی کثرت ، زیادہ نظم و ضبط ، زیادہ معلومات اور منصوبہ بندی اور کسی خاص معین جنگی علاقے یعنی جغرافیائی لحاظ سے اسٹرٹیجک جگہ پر قبضہ بھی انہی امتیازات میں سے ہیں_

لیکن مسلمانوں اور مشرکوں کا اس جنگ میں معاملہ بالکل ہی الٹ تھا _ کیونکہ جنگی تجربہ ، کثرت تعداد ، اسلحہ کی بھر مار اور جنگی تیاری اورسازو سامان و غیرہ سب کچھ مشرکین کے پاس تھا جبکہ مسلمانوں کے پاس کسی خاص حدود اربعہ میں معین کوئی خاص جنگی علاقہ بھی نہیں تھا_ بلکہ انہیں تو اس جنگ کا سامنا تھا جسے مشرکین نے اپنی مرضی کی جگہ اور وقت پر ان پر مسلط کر دیاتھا_ بلکہ اکثر مشرکین کو اس علاقے میں بھی امتیاز اور برتری حاصل تھی _ جنگی تکنیک اور اسلوب بھی و ہی پرانا تھا، یعنی فریقین کو وہی معروف اور رائج طریقہء کار اپنانا تھا_ اور اس میں بھی قریش کو برتری اس لحاظ سے حاصل تھی کہ اس کے پاس عرب کے ایسے مشہور شہسوار موجود تھے جو اپنے تجربے اور بڑی شہرت کے باعث ان تقلیدی جنگوں میں برتری کے حامل تھے _ پس جنگ کے متوقع نتائج مشرکین کے حق میں تھے_

لیکن جنگ کے حقیقی نتائج ان متوقع نتائج کے الٹ نکلے اور وہ اتنی بڑی تیاری اور کثیر تعداد والے ہر لحاظ سے برتری کے حامل فریق کے بالکل برخلاف تھے_ کیونکہ مشرکوں کو مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ خسارہ اٹھانا پڑا _ اس لئے کہ مسلمانوں کے آٹھ سے چودہ شہیدوں اور مشرکین کے ستر مقتولوں اور ستر قیدیوں کے

۲۸۸

درمیان کونسی نسبت ہے؟ حالانکہ ہر لحاظ سے مشرکوں کاپلڑا مسلمانوں سے بہت بھاری تھا_ کیا آپ لوگ بتاسکتے ہیں کہ اس غیر متوقع نتیجہ کا کیا راز اور سبب ہے؟

اس کا جواب خود خدا نے قرآن مجید میں یوں دیا ہے

( اذ یریکهم الله فی منامک قلیلاً و لو اراکهم کثیراً لفشلتم و لتنازعتم فی الامر ، ولکن الله سلم انه علیم بذات الصدور و اذ یریکموهم اذ التقیتم فی اعینکم قلیلاً و یقللکم فی اعینهم لیقضی الله امراً کان مفعولاً )

'' ( اس وقت کو ) یاد کر و جب خدا نے خواب میں تمہیں ان کی کثیر تعداد کو کم جلوہ گر کیا اور اگر خدا ان کی تعداد زیادہ دکھاتا تو تم تو دل ہار بیٹھتے اور خود جنگ کے معاملے میں ہی آپس میں جھگڑنے لگتے لیکن خدا نے تمہیں اس سے محفوظ رکھا کیونکہ وہ دلوں کے راز بخوبی جانتا ہے_ اور جنگ کے وقت بھی خدا نے تمہاری آنکھوں میں ان کی تعداد گھٹا کر دکھائی نیز انہیں بھی تمہاری تعداد گھٹا کر دکھائی تا کہ خدا کا ہونے والا کام ہو کر رہے''(۱)

نیز ارشاد خداوندی ہے :

( و اذ زین لهم الشیطان اعمالهم لا غالب لکم الیوم من الناس و انی جار لکم ) (۲)

'' اور یاد کرو جب شیطان نے کافروں کے اس برے کام کو اچھا کردکھایا ...لیکن آج وہ لوگ تم پر غلبہ نہیں پا سکتے کیونکہ آج تم میری پناہ میں ہو''

____________________

۱) انفال /۴۳، ۴۴_

۲) انفال /۴۸_

۲۸۹

اسی طرح یہ بھی فرماتا ہے :

( کما اخرجک ربک من بیتک بالحق و ان فریقاً من المؤمنین لکارهون ) (۱)

'' جس طرح خدا نے تمہیں اپنے گھر سے بر حق نکالا ہے لیکن مؤمنوں کے ایک گروہ کو یہ بات ناپسند تھی''

اسی طرح رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بھی فرمایا ہے :'' رعب اور دبدبے سے میری مدد اور حمایت کی گئی ہے اور زمین کو بھی میرے لئے سجدہ گاہ اور باعث طہارت بنا یا گیا ہے''(۲)

اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمانوں اور مشرکوں کو آپس میں لڑانے کے لئے خدا ئی عنایت ، لطف بلکہ طاقت کار فرماتھی تا کہ بہت سے مسلمانوں کے دل سے مشرکوں کی ہیبت اور دہشت نکل جائے _ کیونکہ جب مسلمان قریش سے لڑلیں گے تو دوسروں سے لڑنے کیلئے وہ اور زیادہ جری اور طاقتور ہوں گے_ اور یہ خدائی مشن درجہ ذیل چیزوں میں خلاصہ ہوتا ہے:

۱_ آیتوں میں مذکور گھٹا نے بڑھا نے والے طریقے سے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی_

۲_ ملائکہ کے ساتھ مسلمانوں کی مدد_

۳_ اسلام دشمنوں کے دل میں رعب اور دہشت بٹھانا_

تشریح : فریقین کے جنگی اہداف ہی مادی اور انسانی خسارے بلکہ تاریخ کے دھارے کو کسی بھی طرف موڑنے کے لحاظ سے جنگ کے نتائج کی تعیین اور اس کا فیصلہ کرتے ہیں اور ہم پہلے بھی کئی بار یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ اس جنگ سے مشرکین کا مقصد مطلوبہ زندگی اور ان امتیازات اور خصوصیات کا حصول تھا جن

____________________

۱) انفال /۵_

۲) سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۳۳ ، بخاری ج ۱ ص ۴۶و ص ۵۷، ج ۲ ص ۱۰۷ و ج ۴ ص ۱۳۵ و ص ۱۶۳، سنن دارمی ج ۲ ص ۲۲۴ ، صحیح مسلم ج ۲ ص ۶۳ تا ص ۶۵ ، الجامع الصحیح ج ۴ ص ۱۲۳ ، کشف الاستار ج ۱ ص ۴۴ و ج ۳ ،ص ۱۴۷ ، سنن نسائی ج ۱ ص ۲۰۹و ص ۲۱۰و ج ۶ ص ۳ ، مسند احمد ج ۱ ص ۹۸ و ص ۳۰۱ و ج ۲ ص ۲۲۲ و ص ۲۶۴ ، ص ۲۶۸ ، ص ۳۱۴، ص ۳۶۶ ، ص ۴۱۲ ، ص ۴۵۵ و ص ۵۰۱ ، ج ۳ ص ۳۰۴ ، ج ۴ ص ۴۱۶و ج ۵ ص ۱۴۵ و ص ۱۴۸ و ص ۱۶۲ و ص ۲۴۸ و ص ۲۵۶ ، مجمع الزوائد ج ۶ ص ۶۵ و امالی طوسی ص ۵۶_

۲۹۰

سے وہ اپنی آسودگی ، فرمانروائی اور سرداری کی لمبی لمبی آرزوؤں کی تکمیل کی توقع کر رہے تھے_ پس جب وہ لڑہی اس دنیاوی زندگی کے لئے رہے تھے تو اس مقصد کے لئے ان کا قربانی دنیا کیسے ممکن ہے؟ اس کا مطلب تو پھر ہدف کو کھونا اور مقصد کی مخالفت کرنا ہے_ مؤرخین کی مندرجہ ذیل روایت بھی ہمارے بیانات کی تصدیق کرتی ہے _ وہ کہتے ہیں کہ جب طلیحہ بن خویلد نے اپنے بہت سے ساتھیوں کو رن سے فرار کرتے ہوئے دیکھا تو پکارا'' منحوسو کیوں بھاگ رہے ہو؟''_ تو ان میں سے کسی نے کہا :'' میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ہم کیوں بھاگ رہے ہیں ہم اس لئے بھاگ رہے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص کی یہی خواہش ہے کہ اس سے پہلے اس کا ساتھی مرے ( یعنی وہ سب سے آخرمیں مرے) حالانکہ ایسے ایسے افراد سے ہمارا سامنا ہے جو اپنے ساتھیوں سے پہلے مرنا چاہتے ہیں''(۱) _ اسی طرح جب جنگ جمل میں زبیر کے پیٹھ دکھا کر بھاگنے کی خبر حضرت علی علیہ السلام تک پہنچی تو آپعليه‌السلام نے فرمایا : '' اگر صفیہ کے بیٹے کو معلوم ہوتا کہ وہ حق پر ہے تو وہ جنگ سے کبھی پیٹھ دکھا کر نہ بھاگتا ...''(۲) _ اور مامون کی فوج کا ایک بہت بڑا جرنیل حمید طوسی کہتا ہے : '' ہم آخرت سے تو مایوس ہوچکے ہیں اب صرف یہی ایک دنیاہی رہتی ہے ، اس لئے خدا کی قسم ہم کسی کو اپنی زندگی مکدّر کرنے کی اجازت نہیں دیں گے''(۳) _

لیکن تمام مسلمانوں کابلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ قریش کی جڑیں کاٹنے والے حضرت علیعليه‌السلام اور حمزہ جیسے ان بعض مسلمانوں کا مقصد اخروی کامیابی تھا جنہوں نے دشمنوں کو تہہ تیغ کرکے مسلمانوں کی کامیابی میں نہایت اہم کردار ادا کیا تھا_ وہ یہ جانتے تھے کہ انہیں دوبھلائیوں میں سے کوئی ایک ضرور ملے گی_ یا تو وہ جیت جائیں گے اور اس صورت میں انہیں دنیاوی اور اخروی کامیابی نصیب ہوگی یا پھر شہید ہوجائیں گے اور اس صورت میں بھی انہیں حتی کہ دنیاوی کامیابی بھی نصیب ہوگی اور آخرت تو ہے ہی _ اور ایسے لوگ جب موت

____________________

۱) سنن بیہقی ج ۸ ص ۱۷۶و حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۷۷۰ از سنن بیہقی_

۲) المصنف عبدالرزاق ج ۱۱ ص ۲۴۱ اور اس روایت سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ وہ پیٹھ دکھا کر بھاگتے ہوئے قتل ہوا _ جیسا کہ بعض نے صراحتاً کہا بھی ہے_

۳) نشوار المحاضرات ج ۳ ص ۱۰۰_

۲۹۱

کو فوجی اور ظاہری کامیابی کی طرح ایک کامیابی سمجھتے ہیں اور اپنی جان بچا کر فرار ہونے کو ( چاہے اس فرار سے ان کی جانیں بچ بھی جائیں اور وہ بڑی پرآسائشےں اور پر سکون زندگی اور دنیاوی نعمتوں سے بہرہ مند ہو بھی جائیں پھر بھی اسے) اپنے لئے ذلت ، رسوائی ، تباہی اور مرجانے کا باعث بلکہ مرجانے سے بھی بدتر سمجھتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے بعد انہیں اخروی تباہی اور دردناک عذاب کا سامنا کرنا ہوگا_ (جب صورتحال یہ ہو ) تو یہ زندگی ان لوگوں کے لئے ناقابل قبول اور ناپسندیدہ بلکہ مکروہ ہوگی اور اس زندگی سے وہ ایسے بھاگیں گے جیسے مشرکین موت کے ڈر سے بھاگ رہے تھے_ اور طلیحہ بن خویلد کا جواب دینے والے شخص نے بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا تھا جسے ہم بیان کرچکے ہیں_

جب عمیر بن حمام کو پتہ چلا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا شہید ہونے والوں کو جنت کی خوشخبری دے رہے ہیں ( اس وقت عمیر کے ہاتھ میں چند کھجور تھے جنہیں وہ آہستہ آہستہ کھا رہا تھا) تو اس نے کہا :'' واہ بھئی واہ میرے اور جنت میں داخلے میں صرف ان کے قتل کرنے کا ہی فاصلہ ہے''_ یا یہ کہا :'' اگر زندہ رہا تو یہ کھجور آکر کھاؤں گا _ واہ وہ تو ایک لمبی زندگی ہے'' _ پھر وہ ہاتھ میں پکڑی ہوئی کھجوریں پھینک کر لڑنے چلا گیا اور لڑتے لڑتے شہید ہوگیا(۱) _

(یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے جانثاروں کے لئے موت کیوں شہد سے بھی زیادہ میٹھی تھی )_بلکہ جب ماؤں کو پتہ چل جاتا کہ ان کے فرزند جنت میں ہیں تو انہیں اپنے فرزند کے بچھڑنے کا کوئی بھی دکھ نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ بسا اوقات خوش بھی ہوتی تھیں_ جب حارثہ بن سراقہ کسی نامعلوم تیر سے ماراگیا تو اس کی ماں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ مجھے حارثہ کے متعلق بتائیں ، اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کرلوں گی وگرنہ اتنی آہ و زاری کروں گی کہ ساری خدائی دیکھے گی ''_ ( جبکہ ایک اور روایت کے مطابق اس نے یوں کہا:'' وگرنہ میں حد سے زیادہ گریہ کروں گی'' نیز دیگر روایت میں آیا

____________________

۱) ملاحظہ ہو : الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۶ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۸۰ ، سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۷۹ ، البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۲۷۷ از مسلم و احمد ، سنن بیہقی ج ۹ ص ۹۹ ، مستدرک حاکم ( با اختصار ) ج ۳ ص ۴۲۶ و حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۴۲۴ از گذشتہ بعض منابع_

۲۹۲

ہے'' تو روؤں گی پیٹوں گی نہیں لیکن اگر وہ دوزخ میں گیا ہے تو میں مرتے دم تک روتی رہوں گی '')_ اور ایک روایت میں ہے کہ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے بتایا کہ اس کا بیٹا جنت میں ہے تو وہ ہنستے ہوئے واپس پلٹی اور کہنے لگی :'' مبارک ہو حارث مبارک ہو''(۱) _اسی طرح جنگ بدر میں شہید ہونے والے عمیر بن ابی وقاص کو جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے مدینہ میں ٹھہرانا چاہا تو وہ ( فرط جذبات اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد سے محرومی کے احساس سے ) روپڑا(۲) جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے ساتھ چلنے کی اجازت دے دی _ اور اس طرح کی مثالیں بہت زیادہ ہیں_جنہیں یہاں بیان کرنے گی گنجائشے نہیں ہے_

گذشتہ تمام باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کو کتنی شدت سے مرجانے یا پھر کامیاب ہونے کا شوق تھا _ اور کافروں کو صحت و سلامتی کے ساتھ زندہ رہنے کی تمنا تھی _ کیونکہ مسلمان تو موت کو ایک پل اور شہادت کو عطیہ اور سعادت سمجھتے تھے لیکن وہ لوگ موت کو خسارہ ، فنا اور تباہی سمجھتے تھے_ ان کی مثال بھی بنی اسرائیل کی طرح تھی_

اور بنی اسرائیل دنیا اور دنیا داری کے لئے بہت زیادہ اہمیت کے قائل تھے اور ان کی سوچوں بلکہ عقیدے میں بھی آخرت کی کوئی جگہ نہیں تھی_ ان کی متعلق خدایوں فرماتا ہے:

( قل ان کانت لکم الدار الاخرة عند الله خالصة من دون الناس فتمنو الموت ان کنتم صادقین و لن یتمنوه ابداً بما قدمت ایدیهم و الله علیم بالظالمین و لتجدنهم احرص الناس علی حیاة و من الذین اشرکوا یود احدهم لو یعمر الف سنة و ما هو بمزحزحه من العذاب ان یعمر و الله بصیر بما یعملون ) (۳)

____________________

۱) ملاحظہ ہو : مستدرک حاکم ج ۳ ص ۲۰۸ ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۷۴ از شیخین ، سنن بیہقی ج ۹ ص ۱۶۷ ، حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۶۵۲ تا ص ۶۵۳ از مذکورہ منابع و از کنز العمال ج ۵ ص ۲۷۳ و ۲۷۵ و ج ۷ ص ۷۶ و از ابن سعد ج ۳ ص ۶۸ _

۲) نسب قریش مصعب زبیری ص ۲۶۳ ، الاصابہ ج ۳ ص ۵ ۳،از حاکم ، بغوی ، ابن سعد و واقدی_

۳) بقرہ / ۹۴ تا ۹۶_

۲۹۳

''( اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) ان سے کہہ دیجئے کہ اگر آخرت کا مقام بھی خدا کے نزدیک صرف تمہارا ہی ہے تو ذرا مرنے کی خواہش تو کرو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو _ لیکن وہ اپنے کر تو توں کی وجہ سے ہرگزموت کی تمنا نہیں کرسکتے اور خدا ہی ظالموں کو سب سے بہتر جانتا ہے _ انہیں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندہ رہنے کا سب سے زیادہ خواہشمند پائیں گے حتی کہ مشرکوں سے بھی _ان کا ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ کاش اسے ہزار سالہ زندگی مل جائے _ وہ جتنی بھی زندگی کرلیں وہ اسے عذاب سے چھٹکار انہیں دلا سکتی _ اور خدا ان کے کردار کو بخوبی جانتا ہے''_

اسی بنا پر جنگ بدر میں ضرورت اس بات کی تھی کہ ابتداء میں خدا مسلمانوں کو ان کی نظر میں گھٹا کر دکھاتا تا کہ وہ اپنی سلامتی اور بقاء کے زیادہ احتمال کی وجہ سے آسانی اور آسودہ خیالی سے اس جنگ میں کود پڑتے _ کم از کم وہ جنگ میں جم کر لڑتے اور فرار کا تصور بھی نہ کرسکتے تا کہ حضرت علی علیہ السلام قریش اور شرک کے بڑے بڑے فرعونوں ، سرپھروں، گروگنڈالوں اور سپاہیوں کو قتل اور قیدی کرلیں_ حضرت بی بی فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی ایک روایت بھی اسی کے مطابق ہے کہ '' جب جنگ کا شعلہ بھڑکا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی اسے بجھایا ، گمراہی بڑھنے لگی یا مشرکوں کا جمگھٹا ہوا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بھائی کو اس میں جھونک دیا اور وہ اسے اچھی طرح روند کر اور تلوار سے اس کے شعلے بجھا کر ہی وہاں سے واپس لوٹا _ وہ خدا کی ذات میں جذب ( فنا فی اللہ ) ہوچکا تھا ...''(۱) _

لیکن پھر جنگ چھڑنے کے بعد ضروری تھا کہ مشرکین مسلمانوں کی تعداد کی کثرت دیکھیں تا کہ وہ رعب اور دہشت کے مارے نہ لڑسکیں_یہاں خدا نے مسلمانوں کی فرشتوں کے ذریعہ مدد کی _اور ان کے ذریعہ سے ان کی تعداد بڑھائی اور فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ وہ لڑیں اور مشرکین کا سر قلم کریں نیز ان کے دلوں میں رعب ، دہشت اور دھاک بٹھادیں _خدا نے بھی جنگ کے شروع ہونے کے بعد پیش آنے والے اس آخری مرحلہ کا ذکر اس آیت میں یوں کیا ہے:

( اذ یوحی ربک الی الملا ئکة انی معکم فثبتواالذین

____________________

۱) بلاغات النساء ص ۲۵ مطبوعہ النہضة الحدیثہ و اعلام النساء ج ۴ ص ۱۱۷_

۲۹۴

آمنو سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب فاضربوا فوق الا عناق و اضربوا منهم کل بنان ) (۱)

''(وہ وقت یادکرو )جب تمہارے پروردگارنے فرشتوں سے کہا کہ میں تمہارا پشت پناہ ہوں (تم جاکر ) مؤمنوں کا دل بڑھا ؤ،میں بھی کافروں کے دل میں دہشت پیدا کردوں گا پھر تم انہیں ہر طرف سے مارکر ان کی گردن ہی ماردو''_

اور یہ بات واضح ہے کہ ڈرپوک اور بزدل دشمن پر چڑھائی چاہے وہ کتنا ہی طاقتور ہو اس کمزور دشمن پر حملہ سے زیادہ آسان ہے جو موت سے بے پروا ہو کر خود ہی حملہ آور ہو_پس یہ معرکہ جنگجوؤںکا سامنا کرنے سے کترانے والے مشرکوں کے حق میں نہیں بلکہ مسلمانوں کے حق میں تھا_ اس بنا پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ خود مشرکین بھی مشرکین کے خلاف لٹررہے تھے اور یہ بات حضرت علیعليه‌السلام کے اس فرمان کی تشریح اور تفسیر ہے کہ ''میرا سامنا جس سے بھی ہوا اس نے اپنے خلاف میری مددکی (اپنے آپ کو میرے حوالہ کردیا)''(۲) اور فرشتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کا ایک اور پہلو بھی تھا جس کا ملاحظہ بھی نہایت ضروری ہے _اور وہ یہ ہے کہ چونکہ یہ ممکن تھا کہ بعض مسلمانوں کے ایمان اور یقین کا درجہ بلند نہ ہوتا اور اس جنگ میں ان کا یقین اورمان ٹوٹ جاتا یا کم از کم ان کا ایمان کمزورہو جاتا اس لئے خدا نے مسلمانوں پر لطف و کرم کرتے ہوئے ان کی فرشتوں سے مدد کی تا کہ وہ انہیں جیت کی خوشخبری دیں ،ان کا دل بڑھائیں اور جنگ کے آغاز میں ان کی آنکھوں میں مشرکوںکو گھٹا کرد کھائیںجس سے وہ جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں _اس کے علاوہ خدا کے فضل سے فرشتوں کی مدد کے اور طریقے بھی تھے _ان باتوں سے اس بات کی وجہ بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ کیوں مشرکین کے مقتولین کی تعداد شہداء اسلام سے کئی گنا زیادہ تھی اور ان کے ستر افراد بھی قید کر لئے گئے حالانکہ مسلمانوں کا کوئی بھی فردگرفتار نہیں ہوا_اور اس مدد کے نتائج صرف جنگ بدرتک ہی محدودنہیں تھے بلکہ ایمان اور کفر کے درمیان ہر جنگ میں ایسے نتائج ظاہر ہوئے اور واقعہ کربلا بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے _

____________________

۱)انفال/۱۲_

۲)نہج البلا غہ حکمت ۳۱۸_

۲۹۵

د: انصار کے خلاف قریش کا کینہ

۱_ ابوجہل کی گذشتہ باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ قریش انصار کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا چاہتے تھے حتی کہ ابو جہل نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا تھا کہ انصار کو گا جر مولی کی طرح کاٹ کررکھ دو لیکن قریشیوں کی بہ نسبت ان کا موقف مختلف تھا _کیونکہ ابو جہل نے ان کے متعلق کہا تھاکہ ان کی مشکیں اچھی طرح کس کر انہیں مکہ لے جاؤتا کہ وہاںانہیں ان کی گمراہی کا مزہ چکھا یا جائے _شاید مشرکوں نے قریشیوں سے اپنے پرانے تعلقات بحال رکھنے کے لئے ان کے خلاف یہ موقف اپنا یا ہو کیونکہ ہر قریشی مسلمان کا مکہ میں کوئی نہ کوئی رشتہ دار موجود تھا _اور وہ اپنے رشتہ دار کے قتل پر راضی نہیں ہو سکتے تھے چاہے وہ ان کے عقیدے اور مذہب کے مخالف ہی کیوں نہ ہو _اور یہی قبائلی طرز فکرہی تو تھا جواتنے سخت اور مشکل حالات میں بھی مشرکین کی سوچوں پر حاوی اور ان کے تعلقات اور موقف پر حاکم تھا _

۲_ہم یہ تو جان چکے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور مسلمانوں کو پناہ اور مدد دینے والے انصار کے خلاف قریش کا کینہ نہایت عروج پر تھا اور ان کے کینے کی دیگ بری طرح ابل رہی تھی _اس بات کا تذکرہ ابو جہل نے سعد بن معاذ سے کسی زمانے میں (شاید بیعت عقبہ یا سعد کے حج کرنے کے موقع پر_مترجم)کیا بھی تھا اور اب وہ یثرب والوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے آیاتھا _لیکن ہم یہ بھی ملاحظہ کرتے ہیں کہ ان کے دل میں یہ کینہ کئی دہائیوں تک رہا بلکہ سقیفہ کے غم ناک حادثے میں انصار کی خلافت کے معاملے میں قریش کی مخالفت اوردوسروں کی بہ نسبت حضرت علی علیہ السلام کی طرف انصار کے رجحان نے اس جلتی پر تیل کا کام کیا _اور یہ کینہ مزیدجڑپکڑگیا کیونکہ انہوں نے ہراس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کا ساتھ دیا جس میں قریشی آپ کے مد مقابل تھے(۱) حتی کہ جنگ صفین میں معاویہ کو نعمان بن بشیر اور مسلمہ بن مخلدسے کہنا پڑا:''اوس اور خزرج کی طرف سے پہنچنے والی زک سے مجھے بہت دکھ اور نقصان اٹھانا پڑاہے _وہ اپنی تلواریں گردن میں حمائل کرکے جنگ کا مطالبہ کرنے آکھڑے ہوتے ہیں _حتی کہ انہوں نے میرے شیر

____________________

۱)ملاحظہ ہو :المصنف ج۵ص۴۵۶وص۴۵۸ودیگر کتب_

۲۹۶

کی طرح بہادر ساتھیوں کو بھی چو ہے کی طرح ڈرپوک بنا کرر کھ دیا ہے _حتی کہ خدا کی قسم میں اپنے جس شامی جنگجو کے متعلق بھی پوچھتا ہوں تو مجھے یہ کہا جاتا ہے اسے انصار نے قتل کردیا ہے_اب خدا کی قسم میں ان سے بھر پور جنگ کروں گا ''(۱) اسی طرح نعمان بن بشیر نے انصار کے ساتھ اپنی ایک گفتگو میں کہا ،''جب بھی (حضرت علیعليه‌السلام پر)کوئی مشکل آن پڑی تم لوگوں نے ہی ان کی یہ مشکل آسان کی ہے''(۲) اسی طرح بنی امیہ کے بزرگ عثمان بن عفان کے خلاف انصار کے موقف اور اس کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں ان کے فعال اور مؤثر کردار نے قریش کے ان کے خلاف کینے کو مزید ہوادی _حتی کہ معاویہ نے اس کے غم میں مندرجہ ذیل شعر کہا :(گرچہ یہ واضح ہے کہ عثمان پراس کا رونا دھونا اس کے سیاسی مقاصد کے تحت تھا و گرنہ عثمان سے اسے کوئی بھی ہمدردی نہیں تھی ) _

لاتحسبوا اننی انسی مصیبته

و فی البلاد من الا نصار من احد(۳)

یہ کبھی مت سوچنا کہ روئے زمین پر کسی ایک انصار ی کے ہوتے ہوئے میں عثمان کا غم بھول جاؤ ں گا_

بہر حال معاویہ سے جتنا بھی ہو سکتا تھا اس نے انصار کے خلاف اپنے د ل کی بھڑ اس نکالی لیکن پھر اس کے بعداس نا بکار کے ناخلف یزید نے کربلا میں اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شہید کرنے کے بعد ''واقعہ حرہ'' میںانصار سے نہایت برا اور شرمناک انتقام لیا تھا(۴)

احمد بن حنبل نے بھی ابن عمر کی ایک بات نقل کی ہے جس کے مطابق وہ اہل بدر کے مہاجرین کو ہر موقع پر اہل بدر کے انصار پر ترجیح دیا کرتاتھا البتہ اس بارے میں ''جنگ بدر سے پہلے کی لڑائیاں ''کی فصل میں

____________________

۱) شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید ج۸ ص ۸۴و ص۸۵نیز ملاحظہ ہو ص ۴۴و ص۸۷)_

۲)شرح نہج البلاغہ ابن ابی ا لحدیدج ۸ص۸۸_

۳)شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید ج ۸ ص ۴۴_

۴)ملاحظہ ہو تاریخ الامم و الملوک ، الکامل فی التاریخ اور دیگر کتابوں میں واقعہ حرہ _

۲۹۷

''جنگ میں مہاجرین کو پہلے بھیجنے کی وجوہات ''میں یہ بحث ہو چکی ہے _اس موضوع کے سیر حاصل مطالعہ کے لئے وہاں مراجعہ فرمائیں_

۳_ایک اور پہلو سے اگر دیکھا جائے تو قریش اس جنگ میں انصار کو ایسا یادگار سابق سکھا نا چاہتے تھے کہ وہ پھر کبھی ان کے دشمنوں سے گٹھ جوڑکرنے کا ارادہ بھی نہ کر سکیںقریش کی نظر میں انصار کا یہی جرم ہی کافی تھا کہ انہوں نے مسلمانوں کو اتنی طاقت اور قوت فراہم کردی تھی کہ وہ ان کے مقابلہ میں آنے کی جرات کربیٹھے_اسی لئے ابو جہل (جسے پہلے اپنی کامیابی کا پورا یقین تھا )نے اپنے سپاہیوں کو انتہائی سخت حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ مکیوں کے ہا تھ سے کوئی بھی (یثربی )انصاری نہ چھوٹنے پائے (اور سب کا قلع قمع کردیا جائے )_آخر میں یہ اضافہ بھی کرتے چلیں کہ مدینہ والے قحطانی نسل کے تھے جبکہ مکہ والے عدنانی نسل کے تھے (اور دیگر تعصبات کے علاوہ اس میں نسلی تعصب بھی شامل تھا )_

پہلے اہل بیتعليه‌السلام کیوں ؟

اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ دیگر تمام لوگوں سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنے اہل بیتعليه‌السلام کو جنگ میں بھیجنے کا راز ہماری گذشتہ تمام معروضات ہوسکتی ہیںتا کہ سب سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی اور اپنے اہل بیتعليه‌السلام کی قربانی پیش کریں _ اسی لئے تاریخ ،حضرت علیعليه‌السلام ،حضرت حمزہعليه‌السلام ،حضرت جعفرعليه‌السلام اور اس دین سے نہایت مخلص آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر بہترین صحابیوںکے کرداراور بہادر یوںکو ہرگز فراموش نہیں کر سکتی بلکہ یہ تا ابد یادگار رہیں گی_پس حضرت علیعليه‌السلام اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گھرانہ اسلام کی مضبوط ڈھال تھے اور خدا نے ان کے ذریعہ دین کو بھی بچایا اورانصار کے خلاف قریش (جن کی اکثریت اسلام دشمن تھی )کے کینے کی شدت کو بھی کم کیا _یہ سب کچھ انصار کا مستقبل محفوظ کرنے کے لئے تھا ،کیونکہ انصار اور اسلام کے خلاف قریش کے کینے نے مستقبل میں ان دونوں پر سخت ، گہرے اور برے اثرات مرتب کئے _

۲۹۸