تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي13%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162396 / ڈاؤنلوڈ: 3883
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اپنا جانشين معين فرمايا اور لشكر اسلام كے ايك ہزار افراد كے ساتھ مختصر راستے سے شمال كى طرف روانہ ہوئے_ اور يوں ظاہر كيا كہ جيسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شام جار ہے ہوں ليكن چند منزليں طے كرنے كے بعد آپ داہنى طرف مُڑ گئے اور نہايت تيزى سے بَنى لحيَان كى طرف آگئے_مگر لشكر اسلام كى آمد سے، دشمن آگاہ تھے لہذا پہاڑوں كى طرف بھاگ گئے_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك جنگى مشق كى اور لشكراسلام كے دستوں كے ساتھ را ہ مكّہ ميں واقع ''عُسفَان ''كى طرف روانہ ہوئے اور پھر آپ نے دو جاسوسوں كو مامور كيا كہ وہ قريش كى خبر لائيں_

اس جنگى مشق نے قرب و جوار ميں آباد قبائل كى نفسيات پر بہت گہرا اثر ڈالا اور قريش كى شان و شوكت اور وقار ان كى نظروں سے گر گيا_لشكر اسلام اس مشق كے بعد واپس مدينہ لوٹ آيا(۳)

مفسدين فى الارض كا قتل ( مطالعہ كيلئے)

تاريخ: شوال ۶ہجري

قبيلہ عُرَينَہ سے آٹھ آدمى مدينہ آئے اور انہوں نے اسلام قبول كر ليا _ مدينہ كى آب وہوا ان كوراس نہ آئي اور وہ بيمار پڑگئے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كو اپنے اونٹوں كى چراگاہ پر بھيج ديا تا كہ وہ لوگ كھلى ہوا ميں تازہ دودھ پى كر صحت مند ہو جائيں_

چند دنوں تك جو ، ان لوگوں نے اونٹوں كا دودھ استعمال كيا تو تندرست و توانا ہوگئے ليكن بجائے اس خدمت كى قدر دانى كے انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چرواہے ''يسار'' كو نہايت بيدردى سے قتل كرديا اس كے ہاتھ پاؤں اور سر قلم كرديا ، زبان اور آنكھوں ميں

۱۲۱

كانٹے چبھوديئےور پھر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تمام پندرہ اونٹوں كو چُرا لے گئے_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''كُرزَ بن جَابر ''كو ۲۰ افراد كے ساتھ ان كا پيچھا كرنے كے لئے بھيجا_ كُرْز اور اس كے ساتھى ان كو اسير كر كے مدينہ لائے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ زمين پر فساد پھيلانے والوں كے ہاتھ پير كاٹ كر، سُولى پر لٹكا ديا جائے _اس طرح سے ان كو خيانت كى سزا مل گئي _قرآن مجيد كى يہ آيت مفسدين كے بارئے ميں نازل ہوئي كہ :

'' ان لوگوں كى سزا جو لوگ خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ جنگ كرتے ہيں اور زمين پر فساد پھيلانے كى كوشش كرتے ہيں، سوائے اس كے اور كچھ نہيں ہے كہ وہ قتل كئے جائيں يا سُولى چڑھا ديئےائيں يا ان كے ہاتھ پير مخالف سمتوں سے كاٹ ديے جائيں يا ان كو ملك بدر كرديا جائے ان كے لئے دنيا ميں تباہى اور آخرت ميں عذاب عظيم ہے_(۴)

غزوہ بنى مُصطَلق يا مُرَيسيع

شعبان ۶ ہجرى(۵) بمطابق نومبر ،دسمبر ۶۲۷ئ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر ملى كہ بنى مُصطَلق (قبيلہ خزاعہ كى ايك شاخ) سپاہ اسلام كے خلاف اسلحہ اور لشكر جمع كرنے كى فكر ميں ہيں_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تحقيق كے لئے بُريدة بن حُصَيد اَسلَمى كو اس علاقے ميں بھيجا ، برُيدہ ،بنى مُصطَلق كى طرف روانہ ہوئے اور اجنبى بن كر قبيلے كے سردار سے رابطہ قائم كيا اور واپسى پراس خبر كے صحيح ہونے كى تائيد كى _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابوذر غفارى كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر كيا اورايك ہزار جان بازوں كے ہمراہ پير كے دن دوسرى شعبان كو دشمن كى طرف چل پڑے اور چاہ مُريَسْيَع(۶) كے پاس خيمہ زن ہوئے اس غزوہ ميں كچھ ايسے منافقين بھى مال غنيمت كے لالچ ميں لشكر

۱۲۲

اسلام كے ساتھ ہوگئے جو كسى جنگ ميں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ نہيں تھے_

مقام مُريَسْيَع ميں دونوں لشكروں كى صفيں آراستہ ہوئيں _ فرمان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مطابق تيراندازوں نے حملہ كيا اور تھوڑى دير ميں بنى مصطَلق ہارگئے اور ان كا ايك آدمى بھى فرار نہ كر سكا _ ان كے دس آدمى مارے گئے اور باقى اسير ہوئے _اس حملے ميں ايك مسلمان بھى شہيد ہوا _

جنگ ميں مال غنيمت كے طور پر دو ہزار اونٹ اور پانچ ہزار گوسفندمسلمانوں كے ہاتھ آئے اور دو سو خاندان بھى اسير ہوئے(۷)

ايك حادثہ

جنگ ختم ہونے كے بعد واپسى راہ ميں ايك چھوٹا سا حادثہ پيش آگيا ، اگررسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس پر مخصوص مہارت كے ساتھ قابو نہ پاگئے ہوتے تو اسلام كے لئے ايك نيا خطرہ بن جاتا_

پانى كے بارے ميں جَہْجاہ غفارى جوكہ عمر بن خطاب كا غلام اور مہاجرين ميں سے تھا، اور سنَان جُہْنى جو كہ انصار ميں سے تھا، آپس ميں الُجھ گئے _ سنَا ن نے مدد كيلئے آواز دى اے انصار اورجہجاہ نے مدد كے لئے پكارا،اے مہاجرين نزديك تھا كہ بہت بڑا ہنگامہ كھڑا ہو جائے_ منافقين كے سردار عبد اللہ بن اُبى نے موقع كو غنيمت جانا اور اپنے آس پاس كے لوگوں سے بولا_

خدا كى قسم ہمارا اور ان جلابيب(۸) كا معاملہ اس مثل جيسا ہے كہ '' اپنے كُتّے كو موٹا كرو تا كہ وہ تمہيں ہى كو كاٹ كھائے_'' ليكن خدا كى قسم جب ہم مدينہ پلٹ كے جائيں

۱۲۳

گے تو چونكہ ہم مدينہ كے با عزّت لوگ ہيں اس لئے ان زبوں حال اور بے چارے مہاجرين كو باہر نكال ديں گے(۹)

زيد بن ارقم كا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر پہنچانا

زيد بن ارقم نے جب عبد اللہ بن اُبى كى باتيں سنيں تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس گئے اور اس كى سازش آميز اور منافقانہ باتوں كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے نقل كرديا _رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زيد كى خبر كے بارے ميں وحى كے ذريعہ اطمينان حاصل كرلينے كے بعد زيد كے كان كو پكڑ كر كہا '' يہ اس شخص كے كان ہيں جس نے اپنے كانوں كے ذريعہ خدا سے وفا كى ہے_''

عبد اللہ بن اُبيّ نے جب زيد كے اطلاع دينے كى خبر سُنى تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس پہنچا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے جھوٹى قسم كھا كر كہنے لگا كہ ميں نے ايسى بات نہيں كہى اور چونكہ وہ اپنے قبيلے كے درميان بزرگوں اور صاحب احترام شخصيتّوں ميں شمار كيا جاتا تھا اس لئے انصار ميں سے كچھ لوگ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حضور ميں پہنچے اور ابيّ كے فرزند كى حمايت ميں كہا كہ شايد زيد نے ايسى بات كا وہم كيا ہو يا ان كے كانون نے غلط سُنا ہو يہاں تك سورہ منافقون كے نازل ہونے كے بعد اس پاك دل نوجوان كو اطمينان حاصل ہوا اور عبداللہ بن ابيّ ذليل ہوا_(۱۰)

عمر بن خطاب نے اس واقعہ كو سُننے كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خواہش ظاہر كى كہ عبداللہ بن اُبيّ قتل كو كرديا جائے _ ليكن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما يا كہ '' ايسى صورت ميں دشمن كہيں گے كہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب كو قتل كررہے ہيں مصلحت يہ ہے كہ ہم جلد سے جلد نكل چليںتا كہ باطل انديشے دلوں سے رخت سفر باندھ كر نكل جائيں''_

۱۲۴

كوچ كا حكم ہونے كے بعد لشكر اسلام ايك رات دن مسلسل چلتا رہا_ يہاں تك كہ آفتاب ان كے سر پر پہنچ گيا، اس وقت ٹھہر نے كا حكم ديا گيا _ جاں بازان اسلام تھكن كى وجہ سے خاك پر پڑے رہے اور گہرى نيند سوگئے _ اس اطمينان اور خوشى كے ساتھ جو ايك لمبى اور غير معمولى تھكن كے بعد روح و اعصاب كو حاصل ہوتى ہے ، كدورتيں دلوں سے نكل گئيں اور كينہ كى آگ خود بخود بجھ گئي_(۱۱_۱۲)

باپ اور بيٹے ميں فرق

عبد اللہ بن اُبى كے بيٹے نے سوچا كہ شايد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كے باپ كے قتل كا فرمان صادر كريں گے تو فوراً رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آيا اور كہنے لگا '' اے رسول اللہ سب لوگ جانتے ہيں كہ كوئي بھى ميرى طرح باپ سے نيك بر تاؤنہيں كرتا ليكن اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا فرمان يہ ہے كہ وہ قتل كيا جائے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حكم ديں ميں خوداسے قتل كروں گا''_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب ديا '' نہيں تم اس كے ساتھ اچّھا سلوك كرو '' پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بزرگانہ سلوك نے ابن ابى ّكے دوستوں كے در ميان اس كى حيثيت و شخصيّت كو جھنجھوڑ كرر كھ ديا _ يہاں تك كہ لوگ كھلم كھلا اس كو برا بھلا كہنے لگے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عفو و در گذر كے ذريعے خطرناك دشمن كو ٹكڑ ے ٹكڑے كر ڈالا،ايك دن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عمر بن خطاب كو مخاطب كر كے فرمايا جناب عُمر سے خطاب كرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كہا كہ '' جس دن تم اس كو قتل كرنے كے لئے كہہ رہے تھے اگر ميں قتل كر ديتا تو اس كے دفاع ميں بجلياں كوند پڑتيںليكن اگر آج ہم اس كے قتل كا حكم ديديں تو لوگ اس كى جان كے درپے ہو جائيں گے_(۱۳)

۱۲۵

بَني مُصْطَلقْ كا اسلامى تحريك ميں شامل ہونا

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مال غنيمت اور اسارى كو مسلمانوں كے درميان تقسيم كيا اس وقت بنى مصطلق كے رئيس '' حارث بن ابى ضرار'' كى بيٹي''جوُيرْيہّ'' ايك مسلمان كے حصّے ميں آئيں انہوں نے اپنے مالك سے طے كيا كہ ميں كچھ رقم ادا كركے آزاد ہو جاؤں گى ليكن ان كے پاس پيسے نہيں تھے_ان كى صرف ايك اميد تھى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كالطف و مہرباني، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئيں اور كہا'' ميں حارث كى بيٹى ہوں اور اسير ہو كر آئي ہوں _،ور ميں نے يہ طے كر ليا ہے كہ كچھ پيسے ادا كركے آزاد ہو جاؤں اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں آئي ہوں تا كہ اس رقم كى ادادئيگى ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرى مدد فرمائيں _ ''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' آيا تمہيں يہ پسند ہے كہ ميںتمہارے لئے اس سے بہتر كا م انجام دوں ؟ جن پيسوں كى تم قرض دار ہو اس كو ميں ادا كردوں پھر تم سے شادى كرلوں ؟ جُوَيْريّہ اس پيش كش سے مسرور ہوگئيں_

جُوَيْريّہ سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شادى كى خبر اصحاب ميں پھيل گئي لوگوں نے بنى مُصطَلق كے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے رشتہ دار بن جانے كے احترام ميں اپنے اسارى كو آزاد كرديا _ جب بنى مُصْطَلق نے لشكر اسلام كا يہ بڑا پن اور در گذر ديكھا تو مسلمان ہو گئے اور ايك با بركت شادى كے نتيجہ ميں وہ سب كے سب اسلامى تحريك ميں شامل ہوگئے_(۱۴)

ايك فاسق كى رسوائي

بنى مصْطَلق كے مسلمان ہو جانے كے بعدرسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وَليد بن عُقْبة بن اَبى مُعيط كو ان كى طرف زكوة وصول كرنے كے لئے بھيجا_ بنى مصطلق نے جب سُنا كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا

۱۲۶

نمائندہ ان كى طرف آرہا ہے تو وہ استقبال كے لئے دوڑ پڑے ليكن وليد دڑگيا اور اس نے خيال كيا كہ وہ لوگ جنگ كرنے كے لئے آمادہ ہيں ، لہذا اس نے مدينہ واپس آكر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے كہا كہ '' وہ لوگ مجھے قتل كردينا چاہتے تھے اور انہوں نے زكوة ادا كرنے سے بھى انكار كرديا ہے ''_

بنى مُصْطَلق كے ساتھ دوبارہ جنگ كى باتيں لوگوں كى زبان پر چڑ ھ گئيں اس واقعہ كے بعد بنى مُصْطَلق كا ايك وفد مدينہ آيا اور اس نے حقيقت حال بيان كى(۱۵) اس واقعہ كے بارے ميں سورہ حجرات كى مندرجہ ذيل آيت نازل ہوئي :

'' اے ايمان لانے والو اگر كوئي فاسق تمہارے پاس كوئي خبر لائے تو اس كى تحقيق كرو كہيں ايسا نہ ہو كہ نادانى كى بنا پر لوگوں (كى جان و مال) كو نقصان پہنچادو پھر (جب معلوم ہو كہ فاسق نے جھوٹ بولا تھا )تو جو كچھ كيا ہے اس پر تم كو پشيمانى ہو_(۱۶)

آنحصرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيوى پر تہمت (واقعہ افك)(مطالعہ كيلئے)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب بھى سفر پر جانا چاہتے (حتّى كہ جنگ كے لئے بھي) تو اپنى بيويوں كے درميان قرعہ نكالتے تھے جس كے نام قرعہ نكل آتا اسى بيوى كو اپنے ساتھ لے جاتے تھے_

غزوہ بنى مُصْطَلق كے موقع پر جناب عائشےہ كے نام قرعہ نكلا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہيں اپنے ساتھ لے گئے_جنگ سے واپسى كے دوران جب مدينہ كے قريب پہنچے تو وہيں ٹھہر گئے اور آرام كرنے لگے_اسى اثنا ميں عائشےہ اس بات كى طرف متوجہ ہوئيں كہ ان كا گلوبند گم ہو گيا ہے اس كو ڈھونڈنے كے لئے آپ خيمہ گاہ سے دور چلى گئيں جب واپس پلٹيں تو لشكر اسلام وہاں سے كوچ كرچكا تھا اور عائشےہ تنہا رہ گئي تھيں_ ايك متقى اورنيك شخص جن كا نام صفوان

۱۲۷

بن مُعطل تھا اورجو لشكر اسلام كے پيچھے پيچھے اطلاعات حاصل كرنے كے لئے چلا كرتے تھے ، وہاںپہنچے اور جناب عائشےہ كو ديكھا كہ وہاں تنہا ہيں _ نہايت ادب سے اونٹ سے نيچے اُترے ، اونٹ كو زمين پر بٹھايا اور خود دوركھڑے ہوگئے يہاں تك كہ عائشےہ اونٹ كى پشت پر سوار ہوگئيں انہوں نے اونٹ كى مہار پكڑى اور راستے ميں گفتگو كئے بغير مدينہ لے آئے_جب يہ لوگ مدينہ پہنچے تو منافقين نے عبداللہ بن اُبيّ كى قيادت ميں صفوان اور عائشےہ كے بارے ميں تہمتيں تراشيں ، ناواقف ان تہمتوں كولے اڑے ،مدينہ ميں تہمتوں اور افواہوں كا بازار گرم تھا ، اور ہر آدمى ايك الگ بات كہنے لگا ، جناب عائشےہ بيمار ہوگئيں اور اس تہمت كے غم ميں جو بے گناہى كے با وجود ان پر لگائي گئي تھى روتى رہتيں اور كسى وقت چين نہ پاتيں ، قريب تھا كہ اس موضوع پر فتنہ بر پا ہوجائے كہ سورہ نور كى آيات نمبر ۱۱ سے ۲۷ تك نازل ہوئيں اور عائشےہ كو يہ خوش خبرى سنائي گئي كہ خدا تمہارى پاكيزگى پر گواہ ہے_(۱۷) پھر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تہمت لگانے والوں پر حد جارى كى _ جن لوگوں پر حدجارى كى گئي ان ميں حسّان بن ثابت اور حَمنہ كا نام بھى نظر آتا ہے_(۱۸)

ابن اسحاق كہتا ہے كہ بعد ميں معلوم ہوا كہ صفوان بن معطل در اصل مرادنگى سے عارى اور عورتوں كے ساتھ نزديكى نہيں كر سكتا تھے_ يہ مرد پارسا كسى جنگ ميں شہيدہو گئے_(۱۹)

صلح حديبيہ

ذى قعدہ ۷ ہجرى بمطابق فرورى و مارچ ۶۲۸ عيسوي

۱۲۸

مكہ كى راہ پر:

لشكر اسلام كى پے در پے كاميابيوں اور مشركين مكّہ كى گوشہ گيرى نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اس بات پر آمادہ كيا كہ دوسرى بار جزيرة العرب ميں مسلمانوں كى حيثيت و وقار كے استحكام كے لئے اقدام كريں _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ مسلمان سفر حج كے لئے تيار ہو جائيں اور ہمسايہ قبائل جو ابھى تك حالت شرك پر باقى تھے ان سے آپ نے مسلمانوں كے ساتھ اس سفر پر چلنے كى خواہش ظاہر كى _ ان ميں سے بہت سے لوگوں نے عذر پيش كيا اور ساتھ چلنے سے انكار كرديا _

اس سفر ميں عبادتى اور معنوى خصوصيات كے علاوہ مسلمانوں كے لئے وسيع اجتماعى اور سياسى مصلحتيں بھى تھيں_ اس لئے كہ عرب كے متعصب قبائل نے مشركين كے غلط پروپيگنڈے كى بنا پر يہ سمجھ ركھا تھا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خانہ كعبہ كے لئے'' جو سلف كى بارگاہ اور افتخار كا مظہر ہے'' ، كسى طرح اس كى قدر و منزلت كے قائل نہيں ہيں اور اسى وجہ سے اسلام كے پھيلاؤ سے شدتّ كے ساتھ ہر اساں تھے _ اب غلط خيالات كے پردے چاك ہوئے اور انہوں نے ديكھ ليا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حج كو ايك واجب فريضہ جانتے ہيں _ ايك طرف اگر قريش مانع نہيں ہوئے اور زيارت كعبہ كى توفيق ہوگئي تو يہ مسلمانوں كے لئے بڑى كاميابى ہوگى كہ وہ چند سال كے بعد ہزاروں مشركين كى آنكھوں كے سامنے اپنى عبادت كے مراسم ادا كريں گے دوسرى طرف اگر قريش مسلمانوں كے مكّہ ميں داخل ہونے سے مانع ہوئے تو اعراب كے جذبات طبعى طورپر مجرو ح ہوجائيں گے كہ ان لوگوں نے مسلمانوں كو فريضہ حج انجام دينے كے لئے آزادكيوں نہ چھوڑا _ يہ سفر چونكہ جنگى سفر نہ تھا اس لئے پرسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ ہر شخص اپنے ہمراہ صرف ايك تلوار '' مسافر كا اسلحہ '' كے

۱۲۹

عنوان سے ركھ سكتا ہے _ اسكے علاوہ اور كوئي ہتھياز ركھنے كى اجازت نہيں ہے _رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قربانى كے لئے ستر(۷۰) اونٹ مہيّا كئے اور چودہ سو مسلمانوں كے ساتھ مكہ كى طرف روانہ ہوئے اور مقام ذو الحليفہ ميں احرام باندھا_

آپ نے عباد بن بشر كو ۲۰ مسلمانوں كے ساتھ ہر اول دستہ كے عنوان سے آگے بھيج ديا تا كہ را ستے ميںآنے والے لوگوں كے كانوں تك لشكر اسلام كى روانگى كى خبر پہنچا ديں اور كسى خطرے يا سازش كى صورت ميں اس كى خبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ديں_(۲۰)

قريش كا موقف

جب قريش ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى روانگى سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے بتوں (لات و عزّي) كى قسم كھائي كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مكّہ ميں آنے سے روكيں گے _ قريش كے سرداروں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو روكنے كے لئے خالد بن وليد كو دو سو سواروں كے ساتھ مقام '' كُراع الغَميم ''بھيجا جہاں پہنچ كر يہ لوگ ٹھہر گئے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قريش كے موقف سے آگاہى كے بعد يہ چاہتے تھے كہ خونريزى كے ذريعے اس مہينے اور حرم كى حرمت مجروح نہ ہو اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے راہنما سے فرمايا كہ كارواں كو اس راستے سے لے چلو كہ جس راستے ميں خالد كا لشكر نہ ملے _

راہنما ، قافلہ اسلام كو نہايت دشوار گذار راستوں سے لے گيا يہاں تك كہ يہ لوگ مكہ سے ۲۲ كيلوميٹر دور'' حديبيّہ'' كے مقام پر پہنچ گئے_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب كو يہ حكم ديا كہ يہيں اُتر جائيں اور اپنے خيمے لگاليں(۲۱)

۱۳۰

قريش كے نمائندے آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں

قريش نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حقيقى مقصد سے با خبر ہونے كيلئے اپنے يہاں كى اہم شخصيتوں كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيجا تا كہ وہ مسلمانوں كا مقصد جان ليں_

قريش كے پہلے نمائندہ وفدميں بُديل خزاعى قبيلہ خزاعہ كے افراد كے ساتھ آيا _ جب وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' ميں جنگ كے لئے نہيں آيا ميں تو خانہ خدا كى زيارت كے لئے آيا ہوں '' نمائندے واپس چلے گئے اور انہوں نے يہ اطلاع قريش كو پہنچا دى _ليكن قريش نے كہا'' خدا كى قسم : ہم ان كو مكہ ميں داخل نہيں ہونے ديں گے ، چاہے ان كا آنا خانہ خدا كى زيارت كى غرض سے ہى كيوں نہ ہو '' _ د وسرے اور تيسرے نمائندہ وفود بھيجے گئے اور انہوں نے بھى '' بُديل '' والى صورت حال بيان كى _

قريش كے تيسرے نمائندے '' حليس بن علقمہ '' جو عرب كے تير اندازوں كا سر براہ تھا، نے قريش كے سرداروں كو مخاطب كر كے كہا كہ '' ہم نے ہرگز تم سے يہ معاہدہ نہيں كيا كہ ہم خانہ خدا كے زائرين كو روكيں گے ، خدا كى قسم اگر تم لوگ، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو آنے سے روكو گے تو ميں اپنے تيرانداز ساتھيوں كے ساتھ تمہارے اوپر حملہ كركے تمہارى اينٹ سے اينٹ بجادوں گا _ قريش اپنے اندر اختلافات رونما ہونے سے ڈرگئے اور انہوں نے ''حليس ''كو اطمينان دلايا كہ ہم كوئي ايسا راستہ منتخب كريں گے جوتمہارى خوشنودى كا باعث ہوگا_

قريش كا چوتھا نمائندہ ''عُروة بن مسعود ''تھاجس پر قريش اطمينان كامل ركھتے تھے_ وہ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملا تو اس نے كوشش كى كہ اپنى باتوں ميں قريش كى طاقت كو زيادہ اور اسلام كى قوّت كو كم كركے پيش كرے اور مسلمانوں كو جھك جانے اور بلا قيد و شرط واپس

۱۳۱

جانے پر آمادہ كرلے_ ليكن جب وہ واپس گيا تو اس نے قريش سے كہا كہ '' ميں نے قيصر و كسرى اور سلطان حبشہ جيسے بڑے بڑے بادشاہوں كو ديكھا ہے مگر جو بات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں ہے وہ كسى اور ميں نہيں ''_

ميں نے ديكھا كہ مسلمان ان كے وضو كا ايك قطرہ پانى بھى زمين پر گرنے نہيں ديتے وہ لوگ تبرك كے لئے اس كو جمع كرتے ہيں اور اگر ان كا ايك بال بھى گر جائے تو ان كے اصحاب فوراً تبرك كے لئے اُٹھا ليتے ہيں ، لہذا اس خطرناك موقع پر نہايت سوچ سمجھ كر قدم اٹھانات(۲۲)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سُفرائ

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك تجربہ كار شخص كو جسكا نام'' خراش ''تھا اپنے اونٹ پر سوار كيا اور قريش كے پاس بھيجا ، ليكن ان لوگوں نے اونٹ كو قتل كرديا اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نمائندے كو قتل كرنے پر اترآئے ، مگر يہ حادثہ تيراندازان عرب كے ايك دستے كى وساطت سے ٹل گيا _

قريش كى نقل و حركت يہ بتا رہى تھى كہ ان كے سر پر جنگ كاجنون سما يا ہوا ہے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسئلہ كے مسالمت آميز حل سے مايوس نہيں ہوئے _ لہذا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قريش كے پاس ايسے شخص كو نمائندہ بنا كر بھيجنے كا ارادہ كيا جس كا ہاتھ كسى بھى جنگ ميں قريش كے خون سے آلودہ نہ ہوا ہو، لہذا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمر بن خطاب كو حكم ديا كہ وہ قريش كے پاس جائيں _ ليكن انہوںنے جانے سے معذرت كرلى _ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے عثمان بن عفّان كو '' جن كى اشراف قريش سے قريب كى رشتہ دارى تھى '' اشراف قريش كے پاس بھيجا _ عثمان قريش كے ايك

۱۳۲

آدمى كى پناہ ميں مكّہ ميں وارد ہوئے اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيغام كو قريش كے سر كردہ افراد تك پہنچا يا _ انہوں نے پيش كش رد كرنے كے ساتھ ساتھ عثمان كو بھى اپنے پاس روك ليا اور واپس جانے كى اجازت نہيں دى _ مسلمانوں كے درميان يہ افواہ اڑ گئي كہ قريش نے عثمان كو قتل كردياہے_(۲۳)

بيعت رضوان

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نمايندے كى واپسى ميں تاخير كى وجہ سے مسلمانوں كے در ميان عجيب اضطراب اور ہيجان پيدا ہو گيا اور مسلمان جوش و خروش ميں آكر انتقام پر آمادہ ہو گئے_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كى جذبات كو متحرك كرنے كے لئے فرمايا '' ہم يہاں سے نہيں جائيں گے جب تك كوئي فيصلہ نہيں ہو جاتا _ '' اس خطرناك صورتحال ميں اگر چہ مسلمانوں كے كے پاس جنگ كے لئے ضرورى ہتھيار اور سازو سامان نہ تھا پھر بھى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارادہ كيا كہ اپنے اصحاب كے ساتھ عہد و پيمان كى تجديد كريں ، چنانچہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ايك درخت كے سايہ ميں بيٹھ گئے اور سوائے ايك كے تمام اصحاب نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہاتھ پر بعنوان بيعت ہاتھ ركھا اور قسم كھائي كہ خون كے آخرى قطرے تك اسلام كا دفاع كريں گے_

يہ وہى ''بيعت رضوان ''ہے كہ جس كے بارے ميں قرآن ميں آيا ہے :

'' خداوند عالم ان مومنين سے جنھوں نے تمہارے ساتھ درخت كے نيچے بيعت كي، خوش ہو گيا اور ان كے وفا و خلوص سے آگاہ ہو گيا، اللہ نے ان كے اوپر سكون كى چيز نازل كى اور عنقريب فتح ، اجر كے عنوان سے ان كے لئے قرار دى ہے''_(۲۴)

بيعت كى رسم ختم ہوئي ہى تھى كہ عثمان لوٹ آئے اور قريش كے وہ جاسوس جو دور سے

۱۳۳

بيعت كا واقعہ ديكھ رہے تھے پريشان ہو كر بھاگ كھڑے ہوئے( تا كہ اس خطرناك صورتحال كى خبر قريش كے گوش گزار كريں)_ قريش كے سر برآوردہ افراد نے '' سہيل بن عمرو'' كو صلح كا معاہدہ طے كرنے كے لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيجا_(۵ ۲)

صلح نامے كامتن

جب سہيل بن عمرو، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پہنچا تو يوں گويا ہوا '' قريش كے سربرآوردہ افراد كا خيال ہے كہ آپ اس سال يہاں سے مدينہ واپس چلے جائيں اور حج و عمرہ كو آيندہ سال انجام ديں ''_

پھر مذاكرات كا باب كھل گيا اور سہيل بن عمرو بات بات پر بے موقع سخت گيرى سے كام لے كر پر يشانى كھڑى كرتا رہا _ جب كہ پيغمبر-اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چشم پوشى كے رويے كو اس لئے نہيں چھوڑ رہے تھے كہ كہيں صلح كا راستہ ہى بند نہ ہو جائے _مكمل موافقت كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت على (ع) سے فرمايا كہ صلح نامہ لكھو ، حضرت على (ع) نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے لكھا:

بسم الله الرحمن الرحيم

سہيل نے كہا كہ ہم اس جملے سے آشنا نہيں ہيں آپ بسمك اللہم لكھيں _ ( يعنى تيرے نام سے اے خدا) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے موافقت فرمائي پھر حضرت على (ع) نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے لكھا ''يہ وہ صلح ہے جسے اللہ كے رسول محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انجام دے رہے ہيں''_

سہيل بولا '' ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت اور نبوت كو قبول نہيں كرتے اگر اس كو قبول كرتے تو آپ سے ہمارى لڑائي نہ ہوتى _

۱۳۴

لہذا آپ اپنا اور اپنے باپ كا نام لكھيں(۲۶)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علي(ع) كو حكم ديا كہ اس جملے كو مٹاديں ليكن حضرت علي(ع) نے عرض كيا '' ميرے ہاتھوں ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا نام مٹانے كى طاقت نہيں ہے '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ہاتھوں سے اس جملے كو مٹا ديا _(۲۷)

صلح نامے كى كچھ شرائط يوں تھيں:

۱_ قريش اور مسلمان دونوں عہدكرتے ہيںكہ دس سال تك ايك دوسرے سے جنگ نہيں كريں گے تا كہ جزير ةالعرب ميں اجتماعى امن و امان اور صلح قائم ہوجائے_

۲_ جب بھى قريش كا كوئي آدمى مسلمانوں كى پناہ ميں چلا جائے گا تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كو واپس كريںگے ليكن اگر مسلمانوں ميں سے كوئي شخص قريش كى پناہ ميں آجائے گا تو قريش پر لازم نہيں كہ وہ اس كو واپس كريں_

۳_ مسلمان اور قريش جس قبيلے كے ساتھ چاہيں عہد و پيمان كر سكتے ہيں_

۴_ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان كے اصحاب اس سال مدينہ واپس جائيں اور آئندہ سال زيارت خانہ خدا كے لئے آسكتے ہيں_ليكن شرط يہ ہے كہ تين دن سے زيادہ مكّہ ميں قيام نہ كريں اور مسافر جتنا ہتھيار لے كر چلتا ہے اس سے زيادہ ہتھيار اپنے ساتھ نہ ركھيں(۲۸) _

۵_ مكہ ميں مقيم مسلمان اس معاہدے كى روسے اپنے مذہبى امور آزادى سے انجام دے سكتے ہيں اور قريش انہيں آزار يا مجبور نہيں كريں گے كہ وہ اپنے مذہب سے پلٹ جائيںيا ان كے دين كا مذاق نہيں اڑائيں گے _اسى طرح وہ مسلمان جو مدينہ سے مكہ آئيں ان كى جان و مال محترم ہے_(۲۹)

معاہدہ كے دو نسخے تيار كئے گئے اور ايك نسخہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پيش كيا گيا اس

۱۳۵

كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جانوروں كو ذبح كرنے كا حكم ديا اور وہيں سرمنڈوايا(۳۰) اور اس طرح۱۹ دن كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدينہ كى طرف روانہ ہو گئے_

صلح كے مخالفين( مطالعہ كيلئے)

صلح كا معاہدہ كچھ مسلمانوں خصوصاً بعض مہاجرين كى ناراضگى كا باعث بنا اور مسلمانوں كو سب سے زيادہ تكليف صلح نامہ كى دوسرى شق كى وجہ سے ہوئي جس ميں مسلمانوں كے پاس پناہ لينے والوں كو واپس كردينے كو لازم قرار ديا گيا تھا ، مخالفين صلح ميں سب سے آگے عمر بن خطاب تھے واقدى كى روايت كے مطابق عمر اور ان كے ہمنوا افراد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پہنچے اور كہا كہ '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كيا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہيں كہا تھا كہ ہم جلدى ہى مكہ ميں داخل ہو كر كعبہ كى كنجى لے ليں گے اور دوسروں كے ساتھ عرفات ميں وقوف كريں گے ؟ اور اب حالت يہ ہے كہ نہ ہمارى قربانى خانہ خدا تك پہنچى اور نہ ہم خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمر كو جواب ديا كہ '' كيا ميں نے اسى سفر كے لئے كہا تھا؟ عمر نے كہا '' نہيں'' پھر مقبول رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمر كى طرف رخ كيا اور فرمايا كہ '' كيا تم احد كا دن بھول گئے ہو جس دن تم بھاگتے ہوئے پيچھے مُڑكر نہيں ديكھتے تھے اور ميں تمہيں پكار رہا تھا ؟ كيا تم احزاب كا دن بھول گئے ؟ كيا تم فلا دن بھول گئے ؟''

مسلمانوں نے كہا اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو كچھ سوچ ركھا ہے ہم نے اس

كے بارے ميں نہيں سوچا تھا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور اس كے حكم كو ہم سے بہتر جانتے ہيں_

اسى طرح جب صلح نامہ لكھا گيا تو عمر اپنى جگہ سے اُٹھ كر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئے اور كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كيا ہم مسلمان نہيں ہيں ؟ '' آپ نے فرمايا : '' بے شك ہم مسلمان

۱۳۶

ہيں '' عمر نے كہا كہ ''پھر دين خدا ميں ہم كيوں ذلت اور پستى برداشت كريں ؟آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ ميں خدا كا بندہ اور اس كا رسول ہوں ميں خدا كے حكم كى كبھى بھى مخالفت نہيں كروں گا اور خدا بھى مجھے تباہ نہيں كرے گا _(۳۱) عمر بن خطاب كہتے ہيں كہ'' ميں نے كبھى بھى حديبيہ كے دن كى طرح اسلام كے بارے ميں شك نہيں كيا_(۳۲)

ابو بصير كى داستان اور شرط دوم كا خاتمہ( مطالعہ كيلئے)

ابو بصير نامى ايك مسلمان جو مدت سے مشركين كى قيد ميں زندگى گزار رہے تھے مدينہ بھاگ آئے قريش نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خط لكھا اور خط بنى عامر كے ايك شخص كے حوالہ كيا اور اپنے غلام كو اس كے ساتھ كرديا اور ياددلايا كہ صلح حديبيہ كى دوسرى شق كے مطابق ابو بصير كو واپس كريںرسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاہدے كے مطابق ابو بصير سے كہا تمہيں مكہ لوٹ جانا چاہيے، كيونكہ ان كے ساتھ حيلہ بازى سے كام لينا كسى طرح بھى صحيح نہيںہے_ ميں مطمئن ہوں كہ خداتمہارى اور دوسروں كى آزادى كا وسيلہ فراہم كرے گا''_

ابو بصير نے عرض كيا'' كيا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھے مشركين كے سپر د كررہے ہيں تا كہ وہ مجھے دين خدا سے بہكاديں ؟ ''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر وہى بات دہرائي اور ان كو قريش كے نمائندے كے سپرد كرديا _ جب وہ لوگ مقام ذو الحليفہ ميں پہنچے تو ابو بصير نے ان محافظين ميں سے ايك كو قتل كر ديا_ اور اس كى تلوار اور گھوڑا غنيمت كے طور پر لے ليا اورمدينہ لوٹ آئے_ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پہنچے تو كہا_ '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ نے اپنے عہد كو پورا كيا اور مجھے اس قوم كے سپرد كرديا ميں نے اپنے دين كا دفاع كيا تا كہ ميرا دين بر باد نہ ہو ''_

ابو بصير چونكہ مدينہ ميں نہيں رہ سكتے تھے اس لئے صحرا كى طرف چلے گئے اور دريائے

۱۳۷

سرخ كے ساحل پر مكہ سے شام كى طرف جانے والے قافلوں كے راستے ميں چھپ گئے جو لوگ مكہ ميں مسلمان ہوئے تھے اور معاہدے كے مطابق مدينہ نہيں آسكتے تھے وہ ابو بصير كے پاس چلے جاتے تھے رفتہ رفتہ ان كى تعداد زيادہ ہو گئي اور انہوں نے قريش كے تجارتى قافلوں پر حملے كر كے نقصان پہنچا نا شروع كرديا _ قريش نے اس آفت سے بچنے كے لئے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خط لكھا اور ان سے عاجزانہ طور پر خواہش كى كہ ابوبصير اور ان كے ساتھيوں كو مدينہ بلاليں اور پناہ گزينوں كو واپس كرنے والى شرط صلح نامہ كے متن سے حذف كردى جائے_(۳۳)

صلح حديبيہ كے نتائج كا تجزيہ

۱_ پے در پے جنگيں ايك دوسرے سے براہ راست روابط ميں ركاوٹ بنى ہوئي تھيں ليكن اس صلح نے افكار كے آزادانہ ارتباط اور اعتقادى بحث و مباحثہ كا راستہ كھول ديا اور يہ روابط عرب معاشرے ميں اسلامى روش اور دلوں ميں اسلام كے نفوذ كى وسعت كا ذريعہ بن گئے اس طرح كہ صلح حديبيہ والے سال پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ مسلمانوں كى تعداد چودہ سو تھى جبكہ فتح مكہ والے سال دس ہزار افراد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ تھے_

۲_ صلح كے ذريعہ داخلى امن و امان قائم ہو جانے كے بعد اسلام كى عالمى تحريك كو سرحدوں كے پار لے جانے اور عالمى پيغام كو نشر كرنے كے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو موقع مل گيا _

۳_ يہ صلح در حقيقت تحريك اسلامى كو مٹانے كے لئے وجود ميں آنے والے ہر طرح كے نئے جنگى اتحاد كے لئے مانع بن گئي اور اس طرح لشكر اسلام كے ہاتھ يہ موقعہ آگيا كہ وہ خيبر كے يہوديوں جيسے بڑے دشمن كو راستے سے ہٹا سكيں _

صلح كے فوائد كے بارے ميں امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں ''پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كى تاريخ ميں كوئي واقعہ صلح حديبيہ سے زيادہ فائدہ مند نہيں تھا ''_(۳۴)

۱۳۸

سوالات

۱_ہجرت كا چھٹا سال كس اہميت كا حامل ہے؟

۲_ مفسدين فى الارض (زمين پر فساد پھيلانے والے)كون لوگ تھے اور كيوں قتل كئے گئے؟

۳_ بنى مُصْطَلق كيوں كر اسلام كے گرويدہ ہوئے؟

۴_ صلح حديبيہ كے معاہدہے كا كيا نتيجہ رہا؟

۵_ بيعت رضوان كے بارے ميں آپ كيا جانتے ہيں؟

۶_ كون لوگ صلح كے مخالف تھے؟

۷_ عبداللہ بن اُبيّ نے غزوہ بنى مصطلق ميں كيا كيا اور كون سا سورہ اس موقعہ پر نازل ہوا؟

۸_ حديث ''افك'' كيا ہے ؟ مختصراً بيان كيجئے_

۹_ آية ''( يا ايها الذين آمنوا ان جائكم فاسق بنباء فتبينوا ) كس كے بارے ميں اور كس موقع پر نازل ہوئي؟

۱۰_ صلح كى دوسرى شرط كيسے لغو ہوئي؟

۱۳۹

حوالہ جات

۱_ ڈاكٹر آيتى مرحوم كى كتاب '' تاريخ پيامبر'' ملاحظہ ہو ص ۳۸۹، ۴۶۴

۲_ اس غزوہ كى تاريخ ميں بھى اختلاف ہے واقدى كہتے ہيں كہ يہ يكم ربيع الاول ۶ھ ميں واقع ہوا تھا ليكن ابن ہشام كے مطابق يہ ماہ جمادى الاوّلى ميں واقع ہواہے_مغازى واقدى ج ۲ ص ۵۳۵ _سيرہ ابن ہشام ج ۳ ص ۲۷۹ ملاحظہ ہو_

۳_مغازى واقدى ج ۲ ص ۵۳۵_طبرى ج ۲ ص ۵۹۵ _طبقات ابن سعد ج ۲ص۷۸_سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۲۹۲_

۴_( انّما جزآؤا الذين يُحاربُونَ اللّهَ وَ رَسُولَه وَ يَسْعَوْنَ فى الْاَرض فَساداً ا َنْ يُقْتَّلوُا اَوْ يُصَلََََّبُوا اَوْ تُقَّطَّعَ اَيْديهم وَ اَرْجُلُهُم من خلاف اَوْ يُنْفَوا منْ اَلارْض ذلكَ لَهُم خزْيٌ فى الدُنيا وَ لَهُم فى الآخرَة عَذابٌ عَظيم ) (مائدہ_۳۳)(طبقات ج ۲ ص ۹۲)_

۵_ ابن سحاق ،اور ابن ہشام نے اس غزوہ كو ۶ ہجرى كے واقعات ميں نقل كيا ہے ا گر چہ واقدي، ابن سعد اور مسعودى جيسے تاريخ نويسوں نے اسے كو سنہ ۵ ہجرى كے واقعات ميں ذكر كيا ہے_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۰۲ _ مغازى واقدى ج ۱ ص ۴۰۴ _ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۹۳ _ التنبيہ و الاشراف ص ۲۱۵ _

۶_ مُريَسْيَع سے فُرع تك جو مدينہ سے آٹھ منزل پر واقع ہے ايك روز كى مسافت كا راستہ ہے_بعض لغت ميں ''مُريَسْيَع '' ذكر ہوا ہے اگر ايك روز مسافت والى بات درست مان لى جائے تو اس كا مدينہ سے فاصلہ صرف آٹھ كلوميٹر ہوگا جو كہ ايك بعيد بات ہے ( مصحح) _

۷_ تاريخ پيامبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ڈاكٹر آيتى مرحوم ص ۴۰۷_

۸_جَلابيب جلباب كى جمع ہے _ كشادہ پيرہن كو كہتے ہيں _ جو لوگ مسلمان ہو جاتے تھے مشركين ان كے لئے يہ لفظ استعمال كرتے تھے(ر _ك ) سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۰۳_

۱۴۰

۹_ تاريخ طبرى ج ۲ ، ص ۶۰۴_( يَقُولُون لَئنْ رَجَعْنَا الَى الْمَدينَة لَيُخْرجَنَّ الا َعَزَّ منْها الا ذَلّ ) (سورہ منافقون آيت _۸)_

۱۰_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۰۳_ ۳۰۵_

۱۱_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۶۰۶ ،۶۰۷_

۱۲_انتظامى اصولوں اور علم نفسيات ميں اس اصول سے بخوبى استفادہ كيا جا سكتا ہے كہ ہر فوج ميں تشتت ، اختلاف اور كينہ توزى كو روكنے كے لئے آتش اختلاف كو شعلہ ور ہونے كى فرصت دينے كے بجائے_انہيں كام ميں اتنا مشغول كرديا جائے كہ آپس ميں جھگڑ نے كى فرصت ہى نہ رہے اور نہ ہى گمراہ كن خيالات ان كے ذہن ميں باقى بچيں_

۱۳_تاريخ طبرى ج ۲_ص ۶۰۸_

۱۴_تاريخ طبرى ج ۲ ص ۶۱۰_

۱۵_سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۰۹_

۱۶_( يا ايها الذين آمنوا ان جائكم فاسق بنب ا: فتبينوا ان تصيبوا قوماً بجهالة: فتصبحوا على ما فعلتم نادمين ) _(حجرات آيت۶)_

۱۷_تاريخ طبرى ج ۲ ص ۶۱۱ _ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۰۹ _ مغازى واقدى ج ۱ ص ۳۲۶ سے ص ۴۳۴ تك ، طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۶۵ _ اسباب النزول واحدى ص ۲۱۴ سے ۲۱۷ تك _نہايہ الارب ۴۱۷ _۴۰۵_

۱۸_ اگر چہ حسان بن ثابت شاعر اسلام اور پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بولتى ہوئي زبان تھے _ مگرتہمت كے جرم ميں ان كى اس حيثيت كو نہيں ديكھا گيا_حَمنہ شہيد مصعب بن عمير كى بيوي، شہيد عبداللہ بن جحش كى بہن ، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پھوپى كى لڑكى اور ان كى بيويوں ميں سے ايك بيوى كى بہن تھى _ مگر قوانين الہى كو جارى كرنے ميں مجرم كے لئے ان باتوں كى گنجائشے نہيں ہے _سيرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۳۰۹ _

۱۹_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۱۹_

۲۰_سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۲۱ _ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۹۵_

۱۴۱

۲۱_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۲۳ _ ۳۲۴_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۹۶_

۲۲_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۲۵سے ص ۳۲۸ تك_

۲۳_سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۲۸ _ ۳۲۹_

۲۴_لَقَدْ رَضيَ اللہ عن المؤمنين اذ يبايعونك تحت الشّجرہ فَعَلمَ مََا فى قُلُوبہم فَاَنْزَلَ السَّكينَةَ عَلَيْہم وَ اَثابَہُم فَتْحاً قَريباً(فتح/۱۸)_

۲۵_ سيرت ا بن ہشام ج ۳ ص ۳۳۰و ۳۳۵_

۲۶_سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۳۱_ ۳۳۲_

۲۷_ بحار الانوار ج ۲۰ ص ۳۳۳_۳۵۲_

۲۸_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۳۲_

۲۹_ بحار الانوار ج ۲۰ ص ۳۵۰_

۳۰_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۳۳_

۳۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۰۵ سے ۶۱۰تك

۳۲_مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۰۷ ارْتَبْتُ ارْتياباً مُنْذُ اَسْلَمْتُ الا يوَمَئذ:

۳۳_ سيرت ابن ہشام ج ۲ ص ۳۳۷ _۳۳۸ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۳۹ تھوڑے سے اختلاف كے ساتھ_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۲۴ سے ۶۳۱ تك _حيات الصحابة ج ۱ ص ۱۳۳_

۳۴_ ''ما كانَ قَضيَّة اَعظَمَ بَرَكَةً منہا'' فروع ابديت ج ۲ ص ۶۰۰_

۱۴۲

آٹھواں سبق

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام كے عالمى پيغام كا اعلان

سياسى حكمت عملى كے نكات كى رعايت

خسروپرويز كے نام خط اور اسكى گستاخي

حبشہ كے بادشاہ نجاشى كے نام آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خط

دوسرے حكمرانوں كا موقف

خيبر كے يہوديوں سے جنگ كے اسباب

لشكر توحيد كى روانگي

معلومات كى فراہمي

جنگى اعتبار سے مناسب جگہ پر لشكر گاہ كى تعيين

لشكر كيلئے طبّى امداد رسانى كا انتظام

جديد معلومات

آغاز جنگ اور پہلے قلعہ كى فتح

سردار كے حكم سے روگرداني

جنگى حكمت عملي

على (ع) فاتح خيبر

سوالات

۱۴۳

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عالمى پيغام كا اعلان

محرم ۷(۱) بمطابق اپريل ۶۲۸

صلح حديبيہ كے معاہدے نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جنوب (مكّہ) كى طرف سے مطمئن كر ديا اور پر امن فضا كے سبب عرب كے سر برآوردہ افراد كا ايك گروہ، اسلام كا گرويدہ ہو گيا _ اس موقع پر اسلام كے عظيم رہنما نے فرصت كو غنيمت جا نا اور اس وقت كے حكمرانوں ، قبائلى سرداروں اور عيسائي راہنماؤں سے مذاكرہ اور مكاتبہ كا باب كھول ديا اور خدا كے حكم سے اپنے آئين كو ،جو ايك عالمى آئين دنيا كى قوموں كے سامنے پيش كيا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو خطوط ، دعوت اسلام كے عنوان سے سلاطين ، قبائل كے روساء اور اس زمانے كى سياسى و مذہبى نماياں شخصيتوں كو تحرير فرمائے تھے وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دعوت كے طريقہ كار كى حكايت كرتے ہيں _

اس وقت ۱۸۵ خطوط كے متن ہمارى دسترس ميںہيں جن كو پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تبليغ، دعوت اسلام يا ميثاق و پيمان كے طور پر تحرير فرمايا تھا_(۲)

يہ خطوط دعوت و تبليغ كے سلسلے ميں اسلام كى روش اور طريقہ كار كہ جس كى بنياد ، منطق و برہان پر تھى نہ كہ جنگ و شمشير پر ، روشنى ڈالتے ہيں ، جو حقائق ان خطوط ميں پوشيدہ ہيں اور جو دلائل ، اشارات ، نصيحتيں اور راہنمائي رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دوسرى قوموں كے سامنے پيش كى ہيں ، وہ اسلام كے عالمى پيغام اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دعوت كے طريقہ كار كا منہ بولتا ثبوت ہيں _

۱۴۴

سياسى حكمت عملى كے نكات كى رعايت

مختلف علاقوںاور سلاطين كے پاس رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بھيجے ہوئے افراد اور سفراء معارف اسلامى سے آگاہ اور اس پر تسلّط ركھنے كے ساتھ ساتھ، ادب و سخن ميں كم نظير تھے اور اس زمانے كے لوگوں كے معاشر تى اور دينى آداب و رسوم سے وافقيت ركھتے تھے _ اس زمانے كى طاقتوں كا سامنا كرنے ميں عين يقين او ر صاف گوئي كے ساتھ ان كى ظاہرى وضع و قطع بھى سياسى حكمت عملى كے نكات كى رعايت كى حكايت كرتى تھى _(۳)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عالمى پيغام رسالت پر مشتمل خطوط، ايك ہى دن چھ منتخب افراد كے ذريعے ايران ، روم ، حبشہ ، مصر ، يمامہ ، بحرين ، اُردن اور حيرہ كى طرف روانہ فرمائے_(۴)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خطوط پر (محمد رسول اللہ) '' جو كہ آپ كى انگوٹھى پر كھدا ہوا تھا''كى مہر لگاتے اور خطوط كو بند كركے مخصوص موم سے چپكا ديا كرتے تھے _(۵)

جس زمانے ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يہ خطوط تحرير فرمارہے تھے، اس وقت دنيا كى دو بڑى طاقتيں، ايران اور ر وم اپنے اپنے ملك كا رقبہ بڑھانے كے سلسلے ميں ايك دوسرے كے ساتھ دست و گريبان تھيں اور دنيا كى سياست انہى كے گرد گھوم رہى تھى _ قيصر روم كے نام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كا مضمون يہ تھا_

بسم الله الرحمن الرحيم

محمد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے روم كے بزرگ ''قيصر ''كے نام

سچّائي اور ہدايت كى اتباع كرنے والوں پر سلام ،تمہيںاسلام كى طرف دعوت ديتا ہوں ، اسلام كو قبول كر لو تا كہ صحيح و سالم رہو اور خدا بھى تم كو ( خود تمہارے ايمان كا اور تمہارے زير

۱۴۵

نگيں افراد كے ايمان كا ) دوہرا اجر دے گا _ اے اہل كتاب ميں تم كو اس بات كى طرف دعوت ديتا ہوں جو تمہارے اور ہمارے در ميان يكساں ہے اور وہ يہ ہے كہ سوائے خدائے واحد كے ہم كسى كى عبادت نہ كريں اور كسى كو اس كا شريك قرار نہ ديں اور ہم ميں سے بعض ، بعض كو رب نہ بنائيں اور جب وہ لوگ روگردانى كريں تو كہو كہ تم گواہ رہو ہم مسلمان ہيں_(۶)

محمد رسول اللہ(۷)

جب دحيہ كلبى نے خط، قيصر روم تك پہنچا يا تو اس نے اسلام اور دين موعود انجيل كے بارے ميں مفصل تحقيقات كے بعد مندرجہ ذيل عبارت پر مشتمل خط رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو لكھا_

'' يہ خط اس رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے ہے جس كى بشارت عيسي(ع) نے دى ہے (يہ خط) قيصر بادشاہ روم كى طرف سے ہے _آپ كا خط اور قاصد ہمارے پاس پہنچا ميں اس بات كى سچّى گواہى ديتا ہوں كہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو رسالت پر مبعوث كيا ہے _ آپ كا نام اور آپ كا تذكرہ اس انجيل ميں ديكھ رہا ہوں جو ہمارے ہاتھ ميں ہے_ عيسي(ع) بن مريم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے آنے كى بشارت دى ہے _ ميں نے بھى روميوں كو دعوت دى ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لائيں اور مسلمان ہو جائيں ليكن انہوں نے اطاعت نہيں كى اور اسلام نہيں لائے _ حالانكہ اگر وہ ہمارى بات مانتے تو ان كے لئے بہتر تھا _ ميں تمنّا كرتا ہوں كہ اے كاش آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خدمت گزار ہوتا اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پير دھوتا ''_

پھر قيصر نے خط كوتحائف كے ساتھ دحيہ كلبى كے ذريعہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس بھيج ديا_(۸)

۱۴۶

شاہ ايران خسرو پرويز كے نام رسول اللہ كے خط كا متن_

بسم الله الرحمن الرحيم

محمد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے ايران كے عظيم كسرى كے نام_

سلام ہو اس شخص پر جو سچائي اور ہدايت كا پيرو ہو ، خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لا يا ہو اور گواہى ديتا ہو كہ اس كے علاوہ كوئي پروردگار نہيں ہے _اس كا كوئي شريك نہيں ہے اور محمد اس كے بندے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں_ميںتمہيں خدا كى طرف بلاتا ہوں اس لئے كہ ميں خلق خدا كے درميان خدا كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں تا كہ ميں زندہ افراد كو خوف و اميد دلاؤں_

تم اسلام قبول كر لو تا كہ محفوظ رہو اور اگر تم نے انكار كيا تو تمہارے پيرو كاروں كا بوجھ بھى تمہارے سررہے گا_

محمد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ(۹)

عبد اللہ بن حذافہ نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خط ايران كے دربار ميں پہنچا يا _ جب مترجمين نے بادشاہ كے سامنے خط پڑھا تو وہ بھڑك اُٹھا كہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كون ہے؟ جو اپنے نام كو ميرے نام سے پہلے لكھتا ہے؟ اور خط پڑھے جانے سے پہلے ہى اس نے ٹكڑے ٹكڑے كرديا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا قاصد مدينہ واپس آيا اور اس نے سارا ماجرا بيان كيا _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہاتھوں كو آسمان كى طرف بلند كيا اور فرمايا :

'' خدايا اس شخص نے ميرا خط پھاڑڈالا تو اس كى حكومت كو ٹكڑے ٹكڑے كردے_(۱۰)

خسرو پرويز كے نام خط اور اسكى گستاخي

ساسانى بادشاہ نے طاقت كے نشے ميں چور ہوكر يمن كے كٹھ پتلى حاكم''بَاذان'' كو لكھا

۱۴۷

كہ مجھے خبر ملى ہے كہ مكّہ ميں كسى قريشى نے نبوّت كا دعوى كيا ہے تم دو دلير آدميوں كو وہاں بھيجو تا كہ وہ اس كو گرفتار كركے ميرے پاس لائيں ''_

حاكم يمن '' بَاذَان'' نے مركز كے حكم كے مطابق دو دلير آدميوں كو حجاز روانہ كيا جب يہ لوگ طائف پہنچے تو وہاں كے ايك شخص نے مدينہ كيطرف راہنمائي كى اور دونوں افراد مدينہ جا پہنچے اور باذان كا خط پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ديا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عظمت و ہيبت اور اطمينان نے پيغام لانے والوں كو وحشت ميں ڈال ديا_

جب پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كے سامنے اسلام پيش كيا تو وہ لرزنے لگے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ''اب تم جاؤ ، كل ميں اپنا فيصلہ سناؤں گا' ' _دوسرے دن جب والى يمن كے كارندے جواب لينے كے لئے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پہنچے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' پروردگار عالم نے مجھے خبر دى ہے كہ كل رات جب رات كے سات گھنٹے گزر چكے تھے( ۱۰ جمادى الاوّل سنہ ۷ھ كو) '' خسرو پرويز '' اپنے بيٹے '' شيرويہ'' كے ہاتھوں قتل ہو گيا ہے اور اس كا بيٹا تخت سلطنت پر قابض ہو گياہے پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كو بيش قيمت تحائف دے كر يمن روانہ كيا_ انہوں نے يمن كى راہ لى اور باذان كو اس خبر سے مطلع كيا _ باذان نے كہا كہ '' اگر يہ خبر سچ ہے تو پھر يقينا وہ آسمانى پيغمبر ہے اور اس كى پيروى كرنا چاہيئے ابھى تھوڑى دير نہ گزرى تھى كہ شيرويہ كا خط حاكم يمن كے نام آن پہنچا جس ميں لكھا تھا كہ '' آگاہ ہو جاؤ كہ ميں نے خسرو پرويز كو قتل كرديا اور ملت كا غم و غصّہ اس بات كا باعث بنا كہ ميں اس كو قتل كردوں اس لئے كہ اس نے فارس كے اشراف كو قتل اور بزرگوں كو متفرق كرديا تھا_جب ميرا خط تمہارے ہاتھ ميں پہنچے تو لوگوں سے ميرے لئے بيعت لو اور اس شخص سے جو نبوت كا دعوى كرتا ہے اور جس كے خلاف ميرے باپ نے حكم ديا تھا ، ہرگز سختى كا بر تاؤ نہ كرنا

۱۴۸

يہاں تك كہ ميرا كوئي نيا حكم تم تك پہنچے_

شيرويہ كے خط نے اس خبر كى تائيد كردى جو رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عالم غيب اور وحى كے ذريعہ دى تھى _ ايرانى ناد حاكم باذان اور ملك يمن كے تمام كارندے جو ايرانى تھى ، مسلمان ہوگئے اور يمن كے لوگ رفتہ رفتہ حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے _ باذان نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نام ايك خط ميں اپنے اور حكومت كے كارندوں كے اسلام لانے كى خبر پہنچائي_(۱۱)

حبشہ كے بادشاہ نجاشى كے نا م آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خط

بسم الله الرحمن الرحيم

محمد رسول اللہ كى طرف سے زمامدار حبشہ نجاشى كے نام _ تم پر سلام ہو ، ہم اس خدا كى تعريف كرتے ہيں جس كے سوا كوئي خدا نہيں ، وہ خدا كہ جو بے عيب اور بے نقص ہے_ فرمان بردار بندے اس كے غضب سے امان ميں ہيں وہ خدا اپنے بندوں كے حال كو ديكھنے والا اور گواہ ہے_

ميں گواہى ديتا ہوں كہ جناب مريم كے فرزند عيسي(ع) روح اللہ اور كلمة اللہ ہيں جو پاكيزہ اور زاہدہ مريم كے بطن ميں تھے ،خدا نے اسى قدرت سے جس سے آدمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بغير ماں باپ كے پيدا كيا ان كو بغير باپ كے ماں كے رحم ميں پيدا كيا _

ميں تمہيں لا شريك خدا كى طرف دعوت ديتا ہوں اور تم سے يہى چاہتا ہوں كہ تم ہميشہ خدا كے مطيع اور فرمان بردار اور ميرے پاكيزہ آئين كى پيروى كرتے رہو_ اس خدا پر ايمان لاؤ جس نے مجھے رسالت پر مبعوث فرمايا_

ميں پيغمبر خدا ہوں، تمہيں اور تمہارے تمام لشكر والوں كو اسلام كى دعوت ديتا ہوں اور

۱۴۹

اس خط اورسفير كو بھيج كر ميں اپنے اس عظيم فريضے كو پورا كررہا ہوں جوميرے اوپر ضرورى ہے اور تمہيں وعظ و نصيحت كررہا ہوں_ سچائي اور ہدايت كے پيروكاروں پر سلام_

محمد رسول اللہ

نجاشى نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كو ليا، آنكھوں سے لگايا، تخت سے نيچے اُترا اور تواضع كے عنوان سے زمين پر بيٹھ گيا اور كلمہ شہادتين زبان پر جارى كيا اور پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كے جواب ميں لكھا_

بسم الله الرحمن الرحيم

يہ خط محمد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف ، نجاشى كى جانب سے ہے ، اس خدا كا درود و سلام آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ہو جس كے علاوہ كوئي خدا نہيں اور جس نے ميرى ہدايت كي_ حضرت عيسى (ع) كے بشر اور پيغمبر ہونے كے مضمون كا حامل خط ملا _ زمين و آسمان كے خدا كى قسم جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بيان فر ما يا وہ حقيقت ہے_ ميں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دين كى حقيقت سے آگاہى حاصل كى اور مہاجر مسلمانوں كى ضرورتوں كے پيش نظر ضرورى اقدامات انجام ديئے گئے ہيں_ اب ميں اس خط كے ذريعے گواہى ديتا ہوں كے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے رسول وہ صادق شخص ہيں جن كى تصديق آسمانى كتابيں كرتى ہيں _ ميں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چچا زاد بھائي ( جعفر بن ابى طالب) كے سامنے اسلام و ايمان و بيعت كے مراسم انجام ديئےيں اوراب اپنا پيغام اور قبول اسلام كى خبر پہنچانے كے لئے اپنے بيٹے ''رارہا'' كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيج رہا ہوں اور اعلان كرتاہوں كہ ميں اپنے علاوہ كسى كا ضامن نہيں ہوں _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر حكم ديں تو ميں خود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت با فيض ميں حاضر ہو جاؤں _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود و سلام ہو_

نجاشي(۱۲)

۱۵۰

دوسرے حكمرانوں كا موقف

مصر و يمامہ كے سر براہان مملكت نے تحائف كے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كا جواب ديا ليكن كوئي مسلمان نہيں ہوا_مصر كے حاكم مُقوقس نے بھى تحائف كے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كا جواب انتہائي احترام كے ساتھ ديا(۱۳)

يمامہ كے حاكم نے جواب ميں لكھا كہ ميں اس شرط پر مسلمان ہونے كو تيار ہوں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد حكومت ميرے ہاتھ ميں ہو _ اس پيش كش كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول نہيں كيا اور فرمايا يہ بات خداى امور ميں سے ہے(۱۴) _

بحرين كا حاكم مسلمان ہو گيا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كو اسى طرح بطور حاكم باقى ركھا _ اُردن كے حاكم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سفير كے سامنے اپنى جنگى طاقت كا مظاہرہ كيا اور مدينہ پر لشكر كشى كى فكر ميں تھا اس سلسلہ ميں مركزى حكومت (روم) سے رائے طلب كى ليكن جب قيصر روم كى بدلى ہوئي نگاہوں كو ديكھا تو سب كچھ سمجھ گيا اور تمام سياسى لوگوں كى طرح اپنا موقف بدل ديا _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سفير كى دلجوئي كى اور تحفے تحائف اس كے حوالے كئے_(۱۵)

خيبر كے يہوديوں سے جنگ كے اسباب

اسلام شروع ہى سے يہوديوں كى بد عہدى اور سازشوں كا شكار تھا يہوديوں كا ايك گرو ہ مدينہ سے ۱۶۵ كيلوميٹر دور شمال ميں خيبر نامى ايك ہموار اور وسيع جگہ پر سكونت پذير تھا كہ جہاں انہوں نے اپنى حفاظت كے لئے نہايت مضبوط اور مستحكم سات قلعے بنا ركھے تھے يہوديوں كى تعداد بيس ہزار سے زيادہ تھى جن ميںسے اكثر جوان اور جنگجو افراد تھے_

۱۵۱

صلح حديبيہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اس بات كا موقعہ ديا كہ عالمى پيغام كا اعلان كرنے كے علاوہ جزيرة العرب سے يہوديوں كے آخرى خطرناك مركز كى بساط لپيٹ ديں كيونكہ ايك توسياسى اور جنگى نكتہ نظر سے خيبر ايك مشكوك مركز شمار ہوتا تھا اور خيبر كے يہوديوں ہى نے جنگ احزاب كى آگ بھڑ كائي تھى اس لئے ممكن تھا كہ وہ دوبارہ مشركين كو بھڑ كائيں _

دوسرے يہ كہ ايران وروم ايسى بڑى طاقتوں سے يہوديوں كے بہت قريبى تعلقات تھے_ اور ہر لمحہ يہ انديشہ تھا كہ بڑى طاقتوں كوور غلا كر يا ان كى مدد سے يہ لوگ اسلام كو جڑ سے اكھاڑديں_

تيسرے يہ كہ، صلح حديبيہ كہ وجہ سے يہودى يہ سوچنے لگے تھے كہ لشكرى اور جنگى اعتبار سے كمزور ہونے كى بنا پر مسلمانوں نے صلحنامہ قبول كيا ہے ، لہذا يہودى اس فكر ميں تھے كہ موقعے سے فائدہ اٹھا تے ہوئے تحريك اسلام پر ناگہانى ضر ب لگائي جائے _ ہر چند كہ صلح حديبيہ كے معاہدے نے قريش و يہود كے جنگى اتحاد كے امكان كو ختم كر ديا تھا ليكن ديگر ايسے قبائل موجودتھے جو يہوديوں كے امكانى حملے كى صورت ميں ان كا ساتھ دے سكتے تھے_ يہ وجوہات تھيں جو اس بات كا سبب بنيں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يہوديوں كى سر كوبى كے لئے پيش قدمى كريں اور آتش فتنہ كو خاموش كرديں _

لشكر توحيد كى روانگي

يكم ربيع الاوّل ۷ ہجرى(۱۶) بروز ہفتہ بمطابق ۱۲ جولائي ۶۲۸ عيسوي

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سولہ سو جاں بازوں كے ساتھ مدينہ سے روانہ ہوئے اور ہميشہ كى طرح ناگہانى طور پر دشمن كے سر پر پہنچنے كے لئے تيزى سے مقام رجيع كى جانب روانہ ہوئے

۱۵۲

_ (يہ ايك چشمہ ہے جو خيبر و غطفان كى سرزمين كے درميان واقع ہے اور غطفان كى ملكيت ہے _) چنانچہ اس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دشمن كو بھى غافل بنا يا اور دو جنگى حليفوں يعنى خيبر كے يہوديوں اور غطفان كے بدووںكے در ميان جدائي بھى ڈال دى _

معلومات كى فراہمي

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے روانگى سے قبل لشكر اسلام كے آگے ''عباد بن بشر'' كو چند سواروں كے ساتھ دشمن كے لشكر كى خبر لانے كے لئے بھيجا _ ان لوگوں نے ايك يہودى جاسوس كو گرفتار كرليا اور اس كو دھمكا كے ،خيبر كے يہوديوں كے اہم جنگى راز اور يہوديوں كے پست حوصلوں كے بارے ميں معلومات حاصل كرليں_(۱۷)

خيبر كا مضبوط قلعہ راتوں رات مسلمانوں كے محاصرے ميں آگيا _ صبح سوير ے خيبر كے يہودى مسلمانوں كے حملہ اور محاصرے سے غافل قلعوں سے باہر نكلے اور بيلچے، تھيلے و غيرہ لے كر كھيتوں اور نخلستانوں كى طرف چل پڑے كہ اچانك مسلمانوں پر نظر پڑى جو خيبر كو ہر طرف سے گھيرے ہوئے تھے_ وہ لوگ ڈر كے مارے خيبركے قلعوں كى طرف بھا گے اور آواز دى '' محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم سے لڑنے آئے ہيں''_(۱۸)

جنگى اعتبار سے مناسب جگہ پر لشكر گاہ كى تعيين

ابتدا ميں لشكر اسلام نے خيموں كو نصب كرنے كے لئے ايك جگہ كا انتخاب كيا ليكن يہ جگہ بہت زيادہ مرطوب ہونے كے علاوہ صحت و صفائي كے اعتبار سے بھى نا مناسب اور يہوديوں كے تيروں كى زد پر واقع تھى جب يہ جگہ جنگى اعتبار سے مناسب معلوم نہ ہوئي تو

۱۵۳

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب سے مشورہ كركے نخلستان كى پشت پر مناسب ترين رجيع نامى جگہ كو لشكر گاہ كے لئے معين فرمايا اور كچھ سپاہيوں كو اس جگہ كى حفاظت اور نگہبانى كے لئے مقرر كرديا _ جو بارى بارى لشكر گاہ كى نگہبانى اور حفاظت كا فريضہ انجام ديتے _(۱۹)

لشكر كے لئے طبى امداد رسانى كا انتظام

زخميوں كى ديكھ بھال كرنے والى ''نُسَيْبَہ'' نامى خاتون چند ايسى عورتوں كے ساتھ جو اس فن سے آشنا تھيں مدينہ سے لشكر اسلام كے ہمراہ آئيں اور لشكر گاہ كى پشت پرجنگى مجروحين كى مرہم پٹى كے لئے ايك خيمہ نصب كيا اور جانبازوں كى مدد كے لئے تيار ہو گئيں_(۲۰)

جديد معلومات

مقام رجيع ميں ايك يہودى نے جو بہت زيادہ خوف زدہ ہو گيا تھا خودكو لشكر اسلام كے حوالہ كر ديا اور كہنے لگا كہ اگر كچھ خبريں لشكر اسلام كو دے تو كيا اس كو امان ملے گى ؟ جب اس كو امان دى گئي تو اس نے بہت سے جنگى راز فاش كرديئےور بتايا كہ يہوديوں كے درميان ختلاف ہو گيا ہے _ پھر مسلمانوں كى قلعوں اور حصاروں تك راہنمائي كي_(۲۱)

آغاز جنگ اور پہلے قلعہ كى فتح

خيبر ميں سات قلعے تھے جن كے نام ، ناعم ، قموص ، كتيبہ ، نطاة ، شقّ، وطيح ، سلالم ہيں ان قلعوں كے در ميان فاصلہ تھا _ رجيع كو لشكر گاہ كے عنوان سے منتخب كرنے اور ترتيب دينے ميں تقريباً سات دن لگ گئے ، اس كے بعد لشكر اسلام دن ميں قلعوں پر حملہ كرتا اور راتوں كو اپنى قيام گاہ پر واپس آجاتا تھا_جنگ كے پہلے دن پچاس جانبازان اسلام تيروں

۱۵۴

سے مجروح ہوئے ، علاج كے لئے انكو اس خيمہ ميں پہنچايا گياجو اس كام كے لئے نصب كيا گيا تھا_

بالآخر سات دنوں كے بعد ناعم نامى پہلا قلع فتح ہوا، اس كے بعد رفتہ رفتہ سارے قلعے لشكر اسلام كے قبضہ ميں آگئے_

ان قلعوں ميں سے ايك قلعہ كى فتح كے دوران اس يہودى كى زوجہ اسير ہوئي جس نے لشكر اسلام كے لئے معلومات فراہم كرنے ميں مدددى تھى _ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اُس كے شوہر كے حوالے كرديا_(۲۲)

سردار كے حكم سے روگرداني

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب ''ناعم'' نامى قلعہ كى حصاركے قريب پہنچے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كو صف آرا كيا اور فرمايا كہ جب تك حكم نہ پہنچے اس وقت تك جنگ نہ كرنا _ اس موقع پر ايك سپاہى نے خود سرانہ طور پر ايك يہودى پر حملہ كرديا ليكن يہوديوں كے ہاتھوں مارا گيا_ جاں بازوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال كيا كہ كيا يہ شہيد شمار ہوگا؟آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' منادى بہ آواز بلند اعلان كردے كہ جو اپنے سپہ سالار كے حكم سے سرتابى كرے جنت اس كے لئے نہيں ہے_(۲۳)

جنگى حكمت عملي

لشكر اسلام كى كمان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہاتھ ميں تھى اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كے مطابق عمدہ جنگى حكمت عملى كے ساتھ لشكر اسلام ايك ايك قلعہ كا محاصرہ كر تا جارہا تھا اور كوشش كررہا تھا

۱۵۵

كہ جس قلعہ كا محاصرہ ہو چكا ہو اس كا رابطہ دوسرے قلعوں سے منقطع كردے اور اس طرح قلعہ كو فتح كرلينے كے بعد دوسرے قلعہ كا محاصرہ كرتا تھا_

وہ قلعے جن كا ايك دوسرے سے ارتباط تھا يا جن كے اندر جنگجو زيادہ استقامت كا مظاہرہ كرتے تھے ذرا دير ميں فتح ہوتے تھے_ليكن وہ قلعے جن كا آپس ميں رابطہ بالكل منقطع ہو جاتا تھا وہ كمانڈروں كے رعب و دبدبہ كے سامنے ج ہى ہتھيار ڈال ديتے تھے اور ان كو فتح كرنے ميں قتل و خونريزى بھى كم ہوتى تھى _(۲۴)

على عليہ السلام فاتح خيبر

قلعے يكے بعد ديگرے فتح ہوگئے صرف دو قلعے باقى رہ گئے اور يہودى ان قلعوں كے اوپر سے مسلمانوں پر بڑى تيزى سے تير بر سارہے تھے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب ميں سے ايك صحابى ( ابوبكر) كو لشكر كى سردارى ديكر قلعہ فتح كرنے كے لئے روانہ كيا اور ان كے ہاتھو ں ميں پرچم ديا _ ليكن وہ بغير پيش قدمى كيئے شكست كھاكر پلٹ آئے_

دوسرے دن پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كا علَم،دوسرے صحابى (عمر) كے حوالہ كيا ليكن وہ بھى پيش قدمى نہ كرسكے اور شكست كھا كر واپس آگئے_

تيسرے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پرچم، سعد بن عبادة كے حوالہ كيا ليكن وہ بھى شكست سے دوچارہوئے، خود وہ اور ان كا لشكر زخمى ہو گيا اور وہ بھى بيٹھ رہے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' كل ميں علم اس كے حوالے كروںگا جس كو خدا اور اس كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوست ركھتے ہيںاور وہ بھى خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو دوست ركھتا ہے _ وہ شكست كھانے والا اور بھاگنے والا نہيں ، خدا اس كے ہاتھوں فتح عطا كرے گا_(۲۵)

۱۵۶

رات ختم ہوئي صبح نمودار ہوئي _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علي(ع) كو بلانے كے لئے بھيجا آپ(ع) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں تشريف لائے جبكہ آپكى آنكھوں ميں درد تھا چنانچہ فرمايا '' حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ ميں دشت ديكھ پا رہا ہوں اور نہ پہاڑ '' پھر آپ(ع) پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے قريب پہنچے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' آنكھيں كھولو'' رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اپنا لعاب دہن على (ع) كى آنكھوںميں لگايا تو آپكى آنكھيں شفا ياب ہوگئيں _(۲۶) پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پرچم، حضرت على (ع) كو ديا اور كاميابى كے لئے دعا كي، امير المومنين على (ع) قلعہ كى طرف چل پڑے_

حضرت على (ع) كى سركردگى ميں جب لشكر، قلعہ كے نزديك پہنچا تو مرحب كے بھائي حارث نے اپنے مشّاق اور تيز رفتار شہ سواروں كے ساتھ لشكر اسلام پر حملہ كيا ، مسلمان بھاگے على (ع) تنہا اپنى جگہ جمے رہے، علي(ع) كى تلوار كى ضرب نے اپنا كام كيا اور حارث قتل ہو گيا_ يہوديوں پر خوف و وحشت طارى ہو گيا وہ قلعہ كے اندر بھاگ گئے اور قلعہ كے دروازہ كو مضبوطى سے بند كر ليا _ مسلمانوں نے جب يہ منظر ديكھا تو ميدان ميں پلٹ آئے ، اس موقعہ پر خيبر كا مشہور پہلوان اور حارث كا بھائي''مرحب'' اپنے بھائي كى موت پر بے تاب ،اسلحہ ميں غرق ، غصّہ ميں بھر ا، رجز پڑھتا ہوا قلعہ سے باہر كو دپڑا_

وہ كہہ رہا تھا : '' خيبر مجھے جانتا ہے ميں مرحب ہوں اسلحہ ميں غرق ، آزمودہ كار پہلوان ہوں _ كبھى ميں نيزے سے وار كرتاہوں كبھى شمشير سے ، جب شير غصّہ كے عالم ميں ہو تو كوئي كھچار كے قريب نہيں پھٹكتا(۲۷)

حضرت على (ع) نے اس كے جواب ميں فرمايا:

ميں وہ ہوں كہ ميرى ماں نے ميرا نام حيد ر(شير) ركھا ہے ميں بہادر اور جنگلوں كا شير ہوں_(۲۸)

۱۵۷

اس كے بعد زبردست جنگ شروع ہوئي ، شمشير علي، (ع) مرحب كے سر ميں درآئي اور اس كى سپر ،پتّھر كے خود اور سر كو دانتوں تك دوٹكڑے كرديا _ يہ ضرب ايسى خطرناك او دل ہلا دينے والى تھى كہ جسے ديكھ كر بعض يہودى بہادربھاگ كھڑے ہوئے اور قلعہ كے اندر جا چھپے اور بقيہ افراد على (ع) كے ساتھ دست بدست جنگ ميں مارے گئے_علي(ع) نے شير كى طرح يہوديوںكا پيچھا قلعہ كے دروازے تك كيا پھر قلعہ كے دروازے كيطرف متوجہ ہوئے اور اسے اكھاڑ ليا اور جنگ كے اختتام تك سپر كى طرح استعمال كرتے رہے پھر اس كو اس خندق كے اوپر ركھ ديا_ جو قلعہ كے چاروں طرف كھدى ہوئي تھي_(۲۹)

يہ دروازہ اتنا وزنى تھا كہ لشكر اسلام كے آٹھ سپاہى اس كو نہ اٹھا سكے_ حضرت علي(ع) اس اعجازى قوّت كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ '' ميں نے ہرگز بشرى قوّت سے اسے نہيں اكھاڑا بلكہ خدا داد قوّت كے زير اثر اور روز جزا پر ايمان كى بنا پر يہ كام كيا ہے _(۳۰) على (ع) كى شجاعت ، بہادى اور ان كے ہاتھوں كى طاقت سے خيبر كى فتح اور دوسروں كى ناتوانى كے بارے ميں بہت سى حديثيں اہل سنّت كى كتابوں ميں موجود ہيںمزيد معلومات كيلئے ان ماخذوں كى طرف اشارہ كيا جارہا ہے_(۳۱)

۱۵۸

سوالات

۱_ رسول خدانے كس ، كس بادشاہ كو خط لكھے؟

۲_ يمن كا حاكم اور وہاں كے لوگ كيوں كر مسلمان ہوئے؟

۳_ قيصرنے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے كيا جواب لكھا؟

۴_ دوسرے حكمرانوں كا موقف كيا تھا؟

۵_ رسول خدا نے خيبر كے يہوديوں سے كيوں جنگ كي؟

۶_ خيبر ميں حضرت على (ع) كى شجاعت كے بارے ميں كچھ بيان كيجئے_

۱۵۹

حوالہ جات

۱_ طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۵۸_

۲_ '' الوثائق السياسيہ '' مصنفہ پروفيسر حميد اللہ پاكستانى ليكچر رپيرس يونيورسٹي_مكاتيب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' مؤلفہ حجة الاسلام و المسلمين على احمدى ميانجى اور '' محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و زمامداران'' مصنفہ صابر ى ہمدانى ملاحظہ ہوں_

۳_ دحيہ كلبى اور عَمروبن اميّہ اور دوسرے سفراء كى زندگى كا مطالعہ كرنے سے يہ بات واضح ہو جاتى ہے_

۴_ طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۵۸ _ سيرت حلبى ج ۳ ص ۲۴۰_

۵_ طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۲۴۱ و ج ۱ص ۲۵۸_

۶_ قل يا اہل الكتاب تعالوا الى كلمة سوائ: بيننا و بينكم الا نعبد الّا اللہ و لا نشرك بہ شيئا و لا يتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ فان تولوّا فقولوا اشہدوا بانّا مسلمون(آل عمران ۶۴)_

۷_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۷۷_

۸_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۷۷_

۹_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۷۷_

۱۰_ طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۵۹_

۱۱_ سيرہ حلبى ج ۳ ص ۲۴۷ _ طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۶۰ _ كامل ج ۲ ص ۲۴۶ _ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۶۵۵_

۱۲_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۶۵۳ _۶۵۲ سيرت حلبى ج ۳ ص ۲۴۸_

۱۳_ كامل ج ۲ ص ۲۱۰ طبقات ج ۱ ص ۲۶۰_ سيرت حلبى ج ۳ ص ۲۵۰_

۱۴_ طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۶۳ _ سيرة حلبى ج ۳ ص ۲۵۰_

۱۵_ سيرة حلبى ج ۳ ص ۲۵۵_

۱۶_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۳۴_

۱۷_ مغازى واقدى ج ۲ ص۰ ۶۴_

۱۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۴۲_

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298