تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي20%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162658 / ڈاؤنلوڈ: 3889
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

۹_ تاريخ طبرى ج ۲ ، ص ۶۰۴_( يَقُولُون لَئنْ رَجَعْنَا الَى الْمَدينَة لَيُخْرجَنَّ الا َعَزَّ منْها الا ذَلّ ) (سورہ منافقون آيت _۸)_

۱۰_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۰۳_ ۳۰۵_

۱۱_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۶۰۶ ،۶۰۷_

۱۲_انتظامى اصولوں اور علم نفسيات ميں اس اصول سے بخوبى استفادہ كيا جا سكتا ہے كہ ہر فوج ميں تشتت ، اختلاف اور كينہ توزى كو روكنے كے لئے آتش اختلاف كو شعلہ ور ہونے كى فرصت دينے كے بجائے_انہيں كام ميں اتنا مشغول كرديا جائے كہ آپس ميں جھگڑ نے كى فرصت ہى نہ رہے اور نہ ہى گمراہ كن خيالات ان كے ذہن ميں باقى بچيں_

۱۳_تاريخ طبرى ج ۲_ص ۶۰۸_

۱۴_تاريخ طبرى ج ۲ ص ۶۱۰_

۱۵_سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۰۹_

۱۶_( يا ايها الذين آمنوا ان جائكم فاسق بنب ا: فتبينوا ان تصيبوا قوماً بجهالة: فتصبحوا على ما فعلتم نادمين ) _(حجرات آيت۶)_

۱۷_تاريخ طبرى ج ۲ ص ۶۱۱ _ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۰۹ _ مغازى واقدى ج ۱ ص ۳۲۶ سے ص ۴۳۴ تك ، طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۶۵ _ اسباب النزول واحدى ص ۲۱۴ سے ۲۱۷ تك _نہايہ الارب ۴۱۷ _۴۰۵_

۱۸_ اگر چہ حسان بن ثابت شاعر اسلام اور پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بولتى ہوئي زبان تھے _ مگرتہمت كے جرم ميں ان كى اس حيثيت كو نہيں ديكھا گيا_حَمنہ شہيد مصعب بن عمير كى بيوي، شہيد عبداللہ بن جحش كى بہن ، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پھوپى كى لڑكى اور ان كى بيويوں ميں سے ايك بيوى كى بہن تھى _ مگر قوانين الہى كو جارى كرنے ميں مجرم كے لئے ان باتوں كى گنجائشے نہيں ہے _سيرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۳۰۹ _

۱۹_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۱۹_

۲۰_سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۲۱ _ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۹۵_

۱۴۱

۲۱_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۲۳ _ ۳۲۴_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۹۶_

۲۲_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۲۵سے ص ۳۲۸ تك_

۲۳_سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۲۸ _ ۳۲۹_

۲۴_لَقَدْ رَضيَ اللہ عن المؤمنين اذ يبايعونك تحت الشّجرہ فَعَلمَ مََا فى قُلُوبہم فَاَنْزَلَ السَّكينَةَ عَلَيْہم وَ اَثابَہُم فَتْحاً قَريباً(فتح/۱۸)_

۲۵_ سيرت ا بن ہشام ج ۳ ص ۳۳۰و ۳۳۵_

۲۶_سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۳۱_ ۳۳۲_

۲۷_ بحار الانوار ج ۲۰ ص ۳۳۳_۳۵۲_

۲۸_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۳۲_

۲۹_ بحار الانوار ج ۲۰ ص ۳۵۰_

۳۰_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۳۳_

۳۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۰۵ سے ۶۱۰تك

۳۲_مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۰۷ ارْتَبْتُ ارْتياباً مُنْذُ اَسْلَمْتُ الا يوَمَئذ:

۳۳_ سيرت ابن ہشام ج ۲ ص ۳۳۷ _۳۳۸ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۳۹ تھوڑے سے اختلاف كے ساتھ_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۲۴ سے ۶۳۱ تك _حيات الصحابة ج ۱ ص ۱۳۳_

۳۴_ ''ما كانَ قَضيَّة اَعظَمَ بَرَكَةً منہا'' فروع ابديت ج ۲ ص ۶۰۰_

۱۴۲

آٹھواں سبق

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام كے عالمى پيغام كا اعلان

سياسى حكمت عملى كے نكات كى رعايت

خسروپرويز كے نام خط اور اسكى گستاخي

حبشہ كے بادشاہ نجاشى كے نام آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خط

دوسرے حكمرانوں كا موقف

خيبر كے يہوديوں سے جنگ كے اسباب

لشكر توحيد كى روانگي

معلومات كى فراہمي

جنگى اعتبار سے مناسب جگہ پر لشكر گاہ كى تعيين

لشكر كيلئے طبّى امداد رسانى كا انتظام

جديد معلومات

آغاز جنگ اور پہلے قلعہ كى فتح

سردار كے حكم سے روگرداني

جنگى حكمت عملي

على (ع) فاتح خيبر

سوالات

۱۴۳

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عالمى پيغام كا اعلان

محرم ۷(۱) بمطابق اپريل ۶۲۸

صلح حديبيہ كے معاہدے نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جنوب (مكّہ) كى طرف سے مطمئن كر ديا اور پر امن فضا كے سبب عرب كے سر برآوردہ افراد كا ايك گروہ، اسلام كا گرويدہ ہو گيا _ اس موقع پر اسلام كے عظيم رہنما نے فرصت كو غنيمت جا نا اور اس وقت كے حكمرانوں ، قبائلى سرداروں اور عيسائي راہنماؤں سے مذاكرہ اور مكاتبہ كا باب كھول ديا اور خدا كے حكم سے اپنے آئين كو ،جو ايك عالمى آئين دنيا كى قوموں كے سامنے پيش كيا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو خطوط ، دعوت اسلام كے عنوان سے سلاطين ، قبائل كے روساء اور اس زمانے كى سياسى و مذہبى نماياں شخصيتوں كو تحرير فرمائے تھے وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دعوت كے طريقہ كار كى حكايت كرتے ہيں _

اس وقت ۱۸۵ خطوط كے متن ہمارى دسترس ميںہيں جن كو پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تبليغ، دعوت اسلام يا ميثاق و پيمان كے طور پر تحرير فرمايا تھا_(۲)

يہ خطوط دعوت و تبليغ كے سلسلے ميں اسلام كى روش اور طريقہ كار كہ جس كى بنياد ، منطق و برہان پر تھى نہ كہ جنگ و شمشير پر ، روشنى ڈالتے ہيں ، جو حقائق ان خطوط ميں پوشيدہ ہيں اور جو دلائل ، اشارات ، نصيحتيں اور راہنمائي رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دوسرى قوموں كے سامنے پيش كى ہيں ، وہ اسلام كے عالمى پيغام اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دعوت كے طريقہ كار كا منہ بولتا ثبوت ہيں _

۱۴۴

سياسى حكمت عملى كے نكات كى رعايت

مختلف علاقوںاور سلاطين كے پاس رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بھيجے ہوئے افراد اور سفراء معارف اسلامى سے آگاہ اور اس پر تسلّط ركھنے كے ساتھ ساتھ، ادب و سخن ميں كم نظير تھے اور اس زمانے كے لوگوں كے معاشر تى اور دينى آداب و رسوم سے وافقيت ركھتے تھے _ اس زمانے كى طاقتوں كا سامنا كرنے ميں عين يقين او ر صاف گوئي كے ساتھ ان كى ظاہرى وضع و قطع بھى سياسى حكمت عملى كے نكات كى رعايت كى حكايت كرتى تھى _(۳)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عالمى پيغام رسالت پر مشتمل خطوط، ايك ہى دن چھ منتخب افراد كے ذريعے ايران ، روم ، حبشہ ، مصر ، يمامہ ، بحرين ، اُردن اور حيرہ كى طرف روانہ فرمائے_(۴)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خطوط پر (محمد رسول اللہ) '' جو كہ آپ كى انگوٹھى پر كھدا ہوا تھا''كى مہر لگاتے اور خطوط كو بند كركے مخصوص موم سے چپكا ديا كرتے تھے _(۵)

جس زمانے ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يہ خطوط تحرير فرمارہے تھے، اس وقت دنيا كى دو بڑى طاقتيں، ايران اور ر وم اپنے اپنے ملك كا رقبہ بڑھانے كے سلسلے ميں ايك دوسرے كے ساتھ دست و گريبان تھيں اور دنيا كى سياست انہى كے گرد گھوم رہى تھى _ قيصر روم كے نام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كا مضمون يہ تھا_

بسم الله الرحمن الرحيم

محمد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے روم كے بزرگ ''قيصر ''كے نام

سچّائي اور ہدايت كى اتباع كرنے والوں پر سلام ،تمہيںاسلام كى طرف دعوت ديتا ہوں ، اسلام كو قبول كر لو تا كہ صحيح و سالم رہو اور خدا بھى تم كو ( خود تمہارے ايمان كا اور تمہارے زير

۱۴۵

نگيں افراد كے ايمان كا ) دوہرا اجر دے گا _ اے اہل كتاب ميں تم كو اس بات كى طرف دعوت ديتا ہوں جو تمہارے اور ہمارے در ميان يكساں ہے اور وہ يہ ہے كہ سوائے خدائے واحد كے ہم كسى كى عبادت نہ كريں اور كسى كو اس كا شريك قرار نہ ديں اور ہم ميں سے بعض ، بعض كو رب نہ بنائيں اور جب وہ لوگ روگردانى كريں تو كہو كہ تم گواہ رہو ہم مسلمان ہيں_(۶)

محمد رسول اللہ(۷)

جب دحيہ كلبى نے خط، قيصر روم تك پہنچا يا تو اس نے اسلام اور دين موعود انجيل كے بارے ميں مفصل تحقيقات كے بعد مندرجہ ذيل عبارت پر مشتمل خط رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو لكھا_

'' يہ خط اس رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے ہے جس كى بشارت عيسي(ع) نے دى ہے (يہ خط) قيصر بادشاہ روم كى طرف سے ہے _آپ كا خط اور قاصد ہمارے پاس پہنچا ميں اس بات كى سچّى گواہى ديتا ہوں كہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو رسالت پر مبعوث كيا ہے _ آپ كا نام اور آپ كا تذكرہ اس انجيل ميں ديكھ رہا ہوں جو ہمارے ہاتھ ميں ہے_ عيسي(ع) بن مريم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے آنے كى بشارت دى ہے _ ميں نے بھى روميوں كو دعوت دى ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لائيں اور مسلمان ہو جائيں ليكن انہوں نے اطاعت نہيں كى اور اسلام نہيں لائے _ حالانكہ اگر وہ ہمارى بات مانتے تو ان كے لئے بہتر تھا _ ميں تمنّا كرتا ہوں كہ اے كاش آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خدمت گزار ہوتا اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پير دھوتا ''_

پھر قيصر نے خط كوتحائف كے ساتھ دحيہ كلبى كے ذريعہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس بھيج ديا_(۸)

۱۴۶

شاہ ايران خسرو پرويز كے نام رسول اللہ كے خط كا متن_

بسم الله الرحمن الرحيم

محمد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے ايران كے عظيم كسرى كے نام_

سلام ہو اس شخص پر جو سچائي اور ہدايت كا پيرو ہو ، خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لا يا ہو اور گواہى ديتا ہو كہ اس كے علاوہ كوئي پروردگار نہيں ہے _اس كا كوئي شريك نہيں ہے اور محمد اس كے بندے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں_ميںتمہيں خدا كى طرف بلاتا ہوں اس لئے كہ ميں خلق خدا كے درميان خدا كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں تا كہ ميں زندہ افراد كو خوف و اميد دلاؤں_

تم اسلام قبول كر لو تا كہ محفوظ رہو اور اگر تم نے انكار كيا تو تمہارے پيرو كاروں كا بوجھ بھى تمہارے سررہے گا_

محمد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ(۹)

عبد اللہ بن حذافہ نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خط ايران كے دربار ميں پہنچا يا _ جب مترجمين نے بادشاہ كے سامنے خط پڑھا تو وہ بھڑك اُٹھا كہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كون ہے؟ جو اپنے نام كو ميرے نام سے پہلے لكھتا ہے؟ اور خط پڑھے جانے سے پہلے ہى اس نے ٹكڑے ٹكڑے كرديا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا قاصد مدينہ واپس آيا اور اس نے سارا ماجرا بيان كيا _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہاتھوں كو آسمان كى طرف بلند كيا اور فرمايا :

'' خدايا اس شخص نے ميرا خط پھاڑڈالا تو اس كى حكومت كو ٹكڑے ٹكڑے كردے_(۱۰)

خسرو پرويز كے نام خط اور اسكى گستاخي

ساسانى بادشاہ نے طاقت كے نشے ميں چور ہوكر يمن كے كٹھ پتلى حاكم''بَاذان'' كو لكھا

۱۴۷

كہ مجھے خبر ملى ہے كہ مكّہ ميں كسى قريشى نے نبوّت كا دعوى كيا ہے تم دو دلير آدميوں كو وہاں بھيجو تا كہ وہ اس كو گرفتار كركے ميرے پاس لائيں ''_

حاكم يمن '' بَاذَان'' نے مركز كے حكم كے مطابق دو دلير آدميوں كو حجاز روانہ كيا جب يہ لوگ طائف پہنچے تو وہاں كے ايك شخص نے مدينہ كيطرف راہنمائي كى اور دونوں افراد مدينہ جا پہنچے اور باذان كا خط پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ديا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عظمت و ہيبت اور اطمينان نے پيغام لانے والوں كو وحشت ميں ڈال ديا_

جب پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كے سامنے اسلام پيش كيا تو وہ لرزنے لگے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ''اب تم جاؤ ، كل ميں اپنا فيصلہ سناؤں گا' ' _دوسرے دن جب والى يمن كے كارندے جواب لينے كے لئے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پہنچے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' پروردگار عالم نے مجھے خبر دى ہے كہ كل رات جب رات كے سات گھنٹے گزر چكے تھے( ۱۰ جمادى الاوّل سنہ ۷ھ كو) '' خسرو پرويز '' اپنے بيٹے '' شيرويہ'' كے ہاتھوں قتل ہو گيا ہے اور اس كا بيٹا تخت سلطنت پر قابض ہو گياہے پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كو بيش قيمت تحائف دے كر يمن روانہ كيا_ انہوں نے يمن كى راہ لى اور باذان كو اس خبر سے مطلع كيا _ باذان نے كہا كہ '' اگر يہ خبر سچ ہے تو پھر يقينا وہ آسمانى پيغمبر ہے اور اس كى پيروى كرنا چاہيئے ابھى تھوڑى دير نہ گزرى تھى كہ شيرويہ كا خط حاكم يمن كے نام آن پہنچا جس ميں لكھا تھا كہ '' آگاہ ہو جاؤ كہ ميں نے خسرو پرويز كو قتل كرديا اور ملت كا غم و غصّہ اس بات كا باعث بنا كہ ميں اس كو قتل كردوں اس لئے كہ اس نے فارس كے اشراف كو قتل اور بزرگوں كو متفرق كرديا تھا_جب ميرا خط تمہارے ہاتھ ميں پہنچے تو لوگوں سے ميرے لئے بيعت لو اور اس شخص سے جو نبوت كا دعوى كرتا ہے اور جس كے خلاف ميرے باپ نے حكم ديا تھا ، ہرگز سختى كا بر تاؤ نہ كرنا

۱۴۸

يہاں تك كہ ميرا كوئي نيا حكم تم تك پہنچے_

شيرويہ كے خط نے اس خبر كى تائيد كردى جو رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عالم غيب اور وحى كے ذريعہ دى تھى _ ايرانى ناد حاكم باذان اور ملك يمن كے تمام كارندے جو ايرانى تھى ، مسلمان ہوگئے اور يمن كے لوگ رفتہ رفتہ حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے _ باذان نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نام ايك خط ميں اپنے اور حكومت كے كارندوں كے اسلام لانے كى خبر پہنچائي_(۱۱)

حبشہ كے بادشاہ نجاشى كے نا م آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خط

بسم الله الرحمن الرحيم

محمد رسول اللہ كى طرف سے زمامدار حبشہ نجاشى كے نام _ تم پر سلام ہو ، ہم اس خدا كى تعريف كرتے ہيں جس كے سوا كوئي خدا نہيں ، وہ خدا كہ جو بے عيب اور بے نقص ہے_ فرمان بردار بندے اس كے غضب سے امان ميں ہيں وہ خدا اپنے بندوں كے حال كو ديكھنے والا اور گواہ ہے_

ميں گواہى ديتا ہوں كہ جناب مريم كے فرزند عيسي(ع) روح اللہ اور كلمة اللہ ہيں جو پاكيزہ اور زاہدہ مريم كے بطن ميں تھے ،خدا نے اسى قدرت سے جس سے آدمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بغير ماں باپ كے پيدا كيا ان كو بغير باپ كے ماں كے رحم ميں پيدا كيا _

ميں تمہيں لا شريك خدا كى طرف دعوت ديتا ہوں اور تم سے يہى چاہتا ہوں كہ تم ہميشہ خدا كے مطيع اور فرمان بردار اور ميرے پاكيزہ آئين كى پيروى كرتے رہو_ اس خدا پر ايمان لاؤ جس نے مجھے رسالت پر مبعوث فرمايا_

ميں پيغمبر خدا ہوں، تمہيں اور تمہارے تمام لشكر والوں كو اسلام كى دعوت ديتا ہوں اور

۱۴۹

اس خط اورسفير كو بھيج كر ميں اپنے اس عظيم فريضے كو پورا كررہا ہوں جوميرے اوپر ضرورى ہے اور تمہيں وعظ و نصيحت كررہا ہوں_ سچائي اور ہدايت كے پيروكاروں پر سلام_

محمد رسول اللہ

نجاشى نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كو ليا، آنكھوں سے لگايا، تخت سے نيچے اُترا اور تواضع كے عنوان سے زمين پر بيٹھ گيا اور كلمہ شہادتين زبان پر جارى كيا اور پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كے جواب ميں لكھا_

بسم الله الرحمن الرحيم

يہ خط محمد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف ، نجاشى كى جانب سے ہے ، اس خدا كا درود و سلام آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ہو جس كے علاوہ كوئي خدا نہيں اور جس نے ميرى ہدايت كي_ حضرت عيسى (ع) كے بشر اور پيغمبر ہونے كے مضمون كا حامل خط ملا _ زمين و آسمان كے خدا كى قسم جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بيان فر ما يا وہ حقيقت ہے_ ميں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دين كى حقيقت سے آگاہى حاصل كى اور مہاجر مسلمانوں كى ضرورتوں كے پيش نظر ضرورى اقدامات انجام ديئے گئے ہيں_ اب ميں اس خط كے ذريعے گواہى ديتا ہوں كے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے رسول وہ صادق شخص ہيں جن كى تصديق آسمانى كتابيں كرتى ہيں _ ميں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چچا زاد بھائي ( جعفر بن ابى طالب) كے سامنے اسلام و ايمان و بيعت كے مراسم انجام ديئےيں اوراب اپنا پيغام اور قبول اسلام كى خبر پہنچانے كے لئے اپنے بيٹے ''رارہا'' كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيج رہا ہوں اور اعلان كرتاہوں كہ ميں اپنے علاوہ كسى كا ضامن نہيں ہوں _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر حكم ديں تو ميں خود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت با فيض ميں حاضر ہو جاؤں _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود و سلام ہو_

نجاشي(۱۲)

۱۵۰

دوسرے حكمرانوں كا موقف

مصر و يمامہ كے سر براہان مملكت نے تحائف كے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كا جواب ديا ليكن كوئي مسلمان نہيں ہوا_مصر كے حاكم مُقوقس نے بھى تحائف كے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كا جواب انتہائي احترام كے ساتھ ديا(۱۳)

يمامہ كے حاكم نے جواب ميں لكھا كہ ميں اس شرط پر مسلمان ہونے كو تيار ہوں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد حكومت ميرے ہاتھ ميں ہو _ اس پيش كش كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول نہيں كيا اور فرمايا يہ بات خداى امور ميں سے ہے(۱۴) _

بحرين كا حاكم مسلمان ہو گيا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كو اسى طرح بطور حاكم باقى ركھا _ اُردن كے حاكم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سفير كے سامنے اپنى جنگى طاقت كا مظاہرہ كيا اور مدينہ پر لشكر كشى كى فكر ميں تھا اس سلسلہ ميں مركزى حكومت (روم) سے رائے طلب كى ليكن جب قيصر روم كى بدلى ہوئي نگاہوں كو ديكھا تو سب كچھ سمجھ گيا اور تمام سياسى لوگوں كى طرح اپنا موقف بدل ديا _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سفير كى دلجوئي كى اور تحفے تحائف اس كے حوالے كئے_(۱۵)

خيبر كے يہوديوں سے جنگ كے اسباب

اسلام شروع ہى سے يہوديوں كى بد عہدى اور سازشوں كا شكار تھا يہوديوں كا ايك گرو ہ مدينہ سے ۱۶۵ كيلوميٹر دور شمال ميں خيبر نامى ايك ہموار اور وسيع جگہ پر سكونت پذير تھا كہ جہاں انہوں نے اپنى حفاظت كے لئے نہايت مضبوط اور مستحكم سات قلعے بنا ركھے تھے يہوديوں كى تعداد بيس ہزار سے زيادہ تھى جن ميںسے اكثر جوان اور جنگجو افراد تھے_

۱۵۱

صلح حديبيہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اس بات كا موقعہ ديا كہ عالمى پيغام كا اعلان كرنے كے علاوہ جزيرة العرب سے يہوديوں كے آخرى خطرناك مركز كى بساط لپيٹ ديں كيونكہ ايك توسياسى اور جنگى نكتہ نظر سے خيبر ايك مشكوك مركز شمار ہوتا تھا اور خيبر كے يہوديوں ہى نے جنگ احزاب كى آگ بھڑ كائي تھى اس لئے ممكن تھا كہ وہ دوبارہ مشركين كو بھڑ كائيں _

دوسرے يہ كہ ايران وروم ايسى بڑى طاقتوں سے يہوديوں كے بہت قريبى تعلقات تھے_ اور ہر لمحہ يہ انديشہ تھا كہ بڑى طاقتوں كوور غلا كر يا ان كى مدد سے يہ لوگ اسلام كو جڑ سے اكھاڑديں_

تيسرے يہ كہ، صلح حديبيہ كہ وجہ سے يہودى يہ سوچنے لگے تھے كہ لشكرى اور جنگى اعتبار سے كمزور ہونے كى بنا پر مسلمانوں نے صلحنامہ قبول كيا ہے ، لہذا يہودى اس فكر ميں تھے كہ موقعے سے فائدہ اٹھا تے ہوئے تحريك اسلام پر ناگہانى ضر ب لگائي جائے _ ہر چند كہ صلح حديبيہ كے معاہدے نے قريش و يہود كے جنگى اتحاد كے امكان كو ختم كر ديا تھا ليكن ديگر ايسے قبائل موجودتھے جو يہوديوں كے امكانى حملے كى صورت ميں ان كا ساتھ دے سكتے تھے_ يہ وجوہات تھيں جو اس بات كا سبب بنيں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يہوديوں كى سر كوبى كے لئے پيش قدمى كريں اور آتش فتنہ كو خاموش كرديں _

لشكر توحيد كى روانگي

يكم ربيع الاوّل ۷ ہجرى(۱۶) بروز ہفتہ بمطابق ۱۲ جولائي ۶۲۸ عيسوي

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سولہ سو جاں بازوں كے ساتھ مدينہ سے روانہ ہوئے اور ہميشہ كى طرح ناگہانى طور پر دشمن كے سر پر پہنچنے كے لئے تيزى سے مقام رجيع كى جانب روانہ ہوئے

۱۵۲

_ (يہ ايك چشمہ ہے جو خيبر و غطفان كى سرزمين كے درميان واقع ہے اور غطفان كى ملكيت ہے _) چنانچہ اس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دشمن كو بھى غافل بنا يا اور دو جنگى حليفوں يعنى خيبر كے يہوديوں اور غطفان كے بدووںكے در ميان جدائي بھى ڈال دى _

معلومات كى فراہمي

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے روانگى سے قبل لشكر اسلام كے آگے ''عباد بن بشر'' كو چند سواروں كے ساتھ دشمن كے لشكر كى خبر لانے كے لئے بھيجا _ ان لوگوں نے ايك يہودى جاسوس كو گرفتار كرليا اور اس كو دھمكا كے ،خيبر كے يہوديوں كے اہم جنگى راز اور يہوديوں كے پست حوصلوں كے بارے ميں معلومات حاصل كرليں_(۱۷)

خيبر كا مضبوط قلعہ راتوں رات مسلمانوں كے محاصرے ميں آگيا _ صبح سوير ے خيبر كے يہودى مسلمانوں كے حملہ اور محاصرے سے غافل قلعوں سے باہر نكلے اور بيلچے، تھيلے و غيرہ لے كر كھيتوں اور نخلستانوں كى طرف چل پڑے كہ اچانك مسلمانوں پر نظر پڑى جو خيبر كو ہر طرف سے گھيرے ہوئے تھے_ وہ لوگ ڈر كے مارے خيبركے قلعوں كى طرف بھا گے اور آواز دى '' محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم سے لڑنے آئے ہيں''_(۱۸)

جنگى اعتبار سے مناسب جگہ پر لشكر گاہ كى تعيين

ابتدا ميں لشكر اسلام نے خيموں كو نصب كرنے كے لئے ايك جگہ كا انتخاب كيا ليكن يہ جگہ بہت زيادہ مرطوب ہونے كے علاوہ صحت و صفائي كے اعتبار سے بھى نا مناسب اور يہوديوں كے تيروں كى زد پر واقع تھى جب يہ جگہ جنگى اعتبار سے مناسب معلوم نہ ہوئي تو

۱۵۳

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب سے مشورہ كركے نخلستان كى پشت پر مناسب ترين رجيع نامى جگہ كو لشكر گاہ كے لئے معين فرمايا اور كچھ سپاہيوں كو اس جگہ كى حفاظت اور نگہبانى كے لئے مقرر كرديا _ جو بارى بارى لشكر گاہ كى نگہبانى اور حفاظت كا فريضہ انجام ديتے _(۱۹)

لشكر كے لئے طبى امداد رسانى كا انتظام

زخميوں كى ديكھ بھال كرنے والى ''نُسَيْبَہ'' نامى خاتون چند ايسى عورتوں كے ساتھ جو اس فن سے آشنا تھيں مدينہ سے لشكر اسلام كے ہمراہ آئيں اور لشكر گاہ كى پشت پرجنگى مجروحين كى مرہم پٹى كے لئے ايك خيمہ نصب كيا اور جانبازوں كى مدد كے لئے تيار ہو گئيں_(۲۰)

جديد معلومات

مقام رجيع ميں ايك يہودى نے جو بہت زيادہ خوف زدہ ہو گيا تھا خودكو لشكر اسلام كے حوالہ كر ديا اور كہنے لگا كہ اگر كچھ خبريں لشكر اسلام كو دے تو كيا اس كو امان ملے گى ؟ جب اس كو امان دى گئي تو اس نے بہت سے جنگى راز فاش كرديئےور بتايا كہ يہوديوں كے درميان ختلاف ہو گيا ہے _ پھر مسلمانوں كى قلعوں اور حصاروں تك راہنمائي كي_(۲۱)

آغاز جنگ اور پہلے قلعہ كى فتح

خيبر ميں سات قلعے تھے جن كے نام ، ناعم ، قموص ، كتيبہ ، نطاة ، شقّ، وطيح ، سلالم ہيں ان قلعوں كے در ميان فاصلہ تھا _ رجيع كو لشكر گاہ كے عنوان سے منتخب كرنے اور ترتيب دينے ميں تقريباً سات دن لگ گئے ، اس كے بعد لشكر اسلام دن ميں قلعوں پر حملہ كرتا اور راتوں كو اپنى قيام گاہ پر واپس آجاتا تھا_جنگ كے پہلے دن پچاس جانبازان اسلام تيروں

۱۵۴

سے مجروح ہوئے ، علاج كے لئے انكو اس خيمہ ميں پہنچايا گياجو اس كام كے لئے نصب كيا گيا تھا_

بالآخر سات دنوں كے بعد ناعم نامى پہلا قلع فتح ہوا، اس كے بعد رفتہ رفتہ سارے قلعے لشكر اسلام كے قبضہ ميں آگئے_

ان قلعوں ميں سے ايك قلعہ كى فتح كے دوران اس يہودى كى زوجہ اسير ہوئي جس نے لشكر اسلام كے لئے معلومات فراہم كرنے ميں مدددى تھى _ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اُس كے شوہر كے حوالے كرديا_(۲۲)

سردار كے حكم سے روگرداني

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب ''ناعم'' نامى قلعہ كى حصاركے قريب پہنچے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كو صف آرا كيا اور فرمايا كہ جب تك حكم نہ پہنچے اس وقت تك جنگ نہ كرنا _ اس موقع پر ايك سپاہى نے خود سرانہ طور پر ايك يہودى پر حملہ كرديا ليكن يہوديوں كے ہاتھوں مارا گيا_ جاں بازوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال كيا كہ كيا يہ شہيد شمار ہوگا؟آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' منادى بہ آواز بلند اعلان كردے كہ جو اپنے سپہ سالار كے حكم سے سرتابى كرے جنت اس كے لئے نہيں ہے_(۲۳)

جنگى حكمت عملي

لشكر اسلام كى كمان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہاتھ ميں تھى اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كے مطابق عمدہ جنگى حكمت عملى كے ساتھ لشكر اسلام ايك ايك قلعہ كا محاصرہ كر تا جارہا تھا اور كوشش كررہا تھا

۱۵۵

كہ جس قلعہ كا محاصرہ ہو چكا ہو اس كا رابطہ دوسرے قلعوں سے منقطع كردے اور اس طرح قلعہ كو فتح كرلينے كے بعد دوسرے قلعہ كا محاصرہ كرتا تھا_

وہ قلعے جن كا ايك دوسرے سے ارتباط تھا يا جن كے اندر جنگجو زيادہ استقامت كا مظاہرہ كرتے تھے ذرا دير ميں فتح ہوتے تھے_ليكن وہ قلعے جن كا آپس ميں رابطہ بالكل منقطع ہو جاتا تھا وہ كمانڈروں كے رعب و دبدبہ كے سامنے ج ہى ہتھيار ڈال ديتے تھے اور ان كو فتح كرنے ميں قتل و خونريزى بھى كم ہوتى تھى _(۲۴)

على عليہ السلام فاتح خيبر

قلعے يكے بعد ديگرے فتح ہوگئے صرف دو قلعے باقى رہ گئے اور يہودى ان قلعوں كے اوپر سے مسلمانوں پر بڑى تيزى سے تير بر سارہے تھے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب ميں سے ايك صحابى ( ابوبكر) كو لشكر كى سردارى ديكر قلعہ فتح كرنے كے لئے روانہ كيا اور ان كے ہاتھو ں ميں پرچم ديا _ ليكن وہ بغير پيش قدمى كيئے شكست كھاكر پلٹ آئے_

دوسرے دن پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كا علَم،دوسرے صحابى (عمر) كے حوالہ كيا ليكن وہ بھى پيش قدمى نہ كرسكے اور شكست كھا كر واپس آگئے_

تيسرے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پرچم، سعد بن عبادة كے حوالہ كيا ليكن وہ بھى شكست سے دوچارہوئے، خود وہ اور ان كا لشكر زخمى ہو گيا اور وہ بھى بيٹھ رہے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' كل ميں علم اس كے حوالے كروںگا جس كو خدا اور اس كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوست ركھتے ہيںاور وہ بھى خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو دوست ركھتا ہے _ وہ شكست كھانے والا اور بھاگنے والا نہيں ، خدا اس كے ہاتھوں فتح عطا كرے گا_(۲۵)

۱۵۶

رات ختم ہوئي صبح نمودار ہوئي _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علي(ع) كو بلانے كے لئے بھيجا آپ(ع) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں تشريف لائے جبكہ آپكى آنكھوں ميں درد تھا چنانچہ فرمايا '' حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ ميں دشت ديكھ پا رہا ہوں اور نہ پہاڑ '' پھر آپ(ع) پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے قريب پہنچے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' آنكھيں كھولو'' رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اپنا لعاب دہن على (ع) كى آنكھوںميں لگايا تو آپكى آنكھيں شفا ياب ہوگئيں _(۲۶) پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پرچم، حضرت على (ع) كو ديا اور كاميابى كے لئے دعا كي، امير المومنين على (ع) قلعہ كى طرف چل پڑے_

حضرت على (ع) كى سركردگى ميں جب لشكر، قلعہ كے نزديك پہنچا تو مرحب كے بھائي حارث نے اپنے مشّاق اور تيز رفتار شہ سواروں كے ساتھ لشكر اسلام پر حملہ كيا ، مسلمان بھاگے على (ع) تنہا اپنى جگہ جمے رہے، علي(ع) كى تلوار كى ضرب نے اپنا كام كيا اور حارث قتل ہو گيا_ يہوديوں پر خوف و وحشت طارى ہو گيا وہ قلعہ كے اندر بھاگ گئے اور قلعہ كے دروازہ كو مضبوطى سے بند كر ليا _ مسلمانوں نے جب يہ منظر ديكھا تو ميدان ميں پلٹ آئے ، اس موقعہ پر خيبر كا مشہور پہلوان اور حارث كا بھائي''مرحب'' اپنے بھائي كى موت پر بے تاب ،اسلحہ ميں غرق ، غصّہ ميں بھر ا، رجز پڑھتا ہوا قلعہ سے باہر كو دپڑا_

وہ كہہ رہا تھا : '' خيبر مجھے جانتا ہے ميں مرحب ہوں اسلحہ ميں غرق ، آزمودہ كار پہلوان ہوں _ كبھى ميں نيزے سے وار كرتاہوں كبھى شمشير سے ، جب شير غصّہ كے عالم ميں ہو تو كوئي كھچار كے قريب نہيں پھٹكتا(۲۷)

حضرت على (ع) نے اس كے جواب ميں فرمايا:

ميں وہ ہوں كہ ميرى ماں نے ميرا نام حيد ر(شير) ركھا ہے ميں بہادر اور جنگلوں كا شير ہوں_(۲۸)

۱۵۷

اس كے بعد زبردست جنگ شروع ہوئي ، شمشير علي، (ع) مرحب كے سر ميں درآئي اور اس كى سپر ،پتّھر كے خود اور سر كو دانتوں تك دوٹكڑے كرديا _ يہ ضرب ايسى خطرناك او دل ہلا دينے والى تھى كہ جسے ديكھ كر بعض يہودى بہادربھاگ كھڑے ہوئے اور قلعہ كے اندر جا چھپے اور بقيہ افراد على (ع) كے ساتھ دست بدست جنگ ميں مارے گئے_علي(ع) نے شير كى طرح يہوديوںكا پيچھا قلعہ كے دروازے تك كيا پھر قلعہ كے دروازے كيطرف متوجہ ہوئے اور اسے اكھاڑ ليا اور جنگ كے اختتام تك سپر كى طرح استعمال كرتے رہے پھر اس كو اس خندق كے اوپر ركھ ديا_ جو قلعہ كے چاروں طرف كھدى ہوئي تھي_(۲۹)

يہ دروازہ اتنا وزنى تھا كہ لشكر اسلام كے آٹھ سپاہى اس كو نہ اٹھا سكے_ حضرت علي(ع) اس اعجازى قوّت كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ '' ميں نے ہرگز بشرى قوّت سے اسے نہيں اكھاڑا بلكہ خدا داد قوّت كے زير اثر اور روز جزا پر ايمان كى بنا پر يہ كام كيا ہے _(۳۰) على (ع) كى شجاعت ، بہادى اور ان كے ہاتھوں كى طاقت سے خيبر كى فتح اور دوسروں كى ناتوانى كے بارے ميں بہت سى حديثيں اہل سنّت كى كتابوں ميں موجود ہيںمزيد معلومات كيلئے ان ماخذوں كى طرف اشارہ كيا جارہا ہے_(۳۱)

۱۵۸

سوالات

۱_ رسول خدانے كس ، كس بادشاہ كو خط لكھے؟

۲_ يمن كا حاكم اور وہاں كے لوگ كيوں كر مسلمان ہوئے؟

۳_ قيصرنے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے كيا جواب لكھا؟

۴_ دوسرے حكمرانوں كا موقف كيا تھا؟

۵_ رسول خدا نے خيبر كے يہوديوں سے كيوں جنگ كي؟

۶_ خيبر ميں حضرت على (ع) كى شجاعت كے بارے ميں كچھ بيان كيجئے_

۱۵۹

حوالہ جات

۱_ طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۵۸_

۲_ '' الوثائق السياسيہ '' مصنفہ پروفيسر حميد اللہ پاكستانى ليكچر رپيرس يونيورسٹي_مكاتيب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' مؤلفہ حجة الاسلام و المسلمين على احمدى ميانجى اور '' محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و زمامداران'' مصنفہ صابر ى ہمدانى ملاحظہ ہوں_

۳_ دحيہ كلبى اور عَمروبن اميّہ اور دوسرے سفراء كى زندگى كا مطالعہ كرنے سے يہ بات واضح ہو جاتى ہے_

۴_ طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۵۸ _ سيرت حلبى ج ۳ ص ۲۴۰_

۵_ طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۲۴۱ و ج ۱ص ۲۵۸_

۶_ قل يا اہل الكتاب تعالوا الى كلمة سوائ: بيننا و بينكم الا نعبد الّا اللہ و لا نشرك بہ شيئا و لا يتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ فان تولوّا فقولوا اشہدوا بانّا مسلمون(آل عمران ۶۴)_

۷_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۷۷_

۸_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۷۷_

۹_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۷۷_

۱۰_ طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۵۹_

۱۱_ سيرہ حلبى ج ۳ ص ۲۴۷ _ طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۶۰ _ كامل ج ۲ ص ۲۴۶ _ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۶۵۵_

۱۲_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۶۵۳ _۶۵۲ سيرت حلبى ج ۳ ص ۲۴۸_

۱۳_ كامل ج ۲ ص ۲۱۰ طبقات ج ۱ ص ۲۶۰_ سيرت حلبى ج ۳ ص ۲۵۰_

۱۴_ طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۶۳ _ سيرة حلبى ج ۳ ص ۲۵۰_

۱۵_ سيرة حلبى ج ۳ ص ۲۵۵_

۱۶_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۳۴_

۱۷_ مغازى واقدى ج ۲ ص۰ ۶۴_

۱۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۴۲_

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298