تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي26%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162550 / ڈاؤنلوڈ: 3886
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

۹_ تاريخ طبرى ج ۲ ، ص ۶۰۴_( يَقُولُون لَئنْ رَجَعْنَا الَى الْمَدينَة لَيُخْرجَنَّ الا َعَزَّ منْها الا ذَلّ ) (سورہ منافقون آيت _۸)_

۱۰_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۰۳_ ۳۰۵_

۱۱_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۶۰۶ ،۶۰۷_

۱۲_انتظامى اصولوں اور علم نفسيات ميں اس اصول سے بخوبى استفادہ كيا جا سكتا ہے كہ ہر فوج ميں تشتت ، اختلاف اور كينہ توزى كو روكنے كے لئے آتش اختلاف كو شعلہ ور ہونے كى فرصت دينے كے بجائے_انہيں كام ميں اتنا مشغول كرديا جائے كہ آپس ميں جھگڑ نے كى فرصت ہى نہ رہے اور نہ ہى گمراہ كن خيالات ان كے ذہن ميں باقى بچيں_

۱۳_تاريخ طبرى ج ۲_ص ۶۰۸_

۱۴_تاريخ طبرى ج ۲ ص ۶۱۰_

۱۵_سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۰۹_

۱۶_( يا ايها الذين آمنوا ان جائكم فاسق بنب ا: فتبينوا ان تصيبوا قوماً بجهالة: فتصبحوا على ما فعلتم نادمين ) _(حجرات آيت۶)_

۱۷_تاريخ طبرى ج ۲ ص ۶۱۱ _ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۰۹ _ مغازى واقدى ج ۱ ص ۳۲۶ سے ص ۴۳۴ تك ، طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۶۵ _ اسباب النزول واحدى ص ۲۱۴ سے ۲۱۷ تك _نہايہ الارب ۴۱۷ _۴۰۵_

۱۸_ اگر چہ حسان بن ثابت شاعر اسلام اور پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بولتى ہوئي زبان تھے _ مگرتہمت كے جرم ميں ان كى اس حيثيت كو نہيں ديكھا گيا_حَمنہ شہيد مصعب بن عمير كى بيوي، شہيد عبداللہ بن جحش كى بہن ، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پھوپى كى لڑكى اور ان كى بيويوں ميں سے ايك بيوى كى بہن تھى _ مگر قوانين الہى كو جارى كرنے ميں مجرم كے لئے ان باتوں كى گنجائشے نہيں ہے _سيرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۳۰۹ _

۱۹_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۱۹_

۲۰_سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۲۱ _ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۹۵_

۱۴۱

۲۱_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۲۳ _ ۳۲۴_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۹۶_

۲۲_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۲۵سے ص ۳۲۸ تك_

۲۳_سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۲۸ _ ۳۲۹_

۲۴_لَقَدْ رَضيَ اللہ عن المؤمنين اذ يبايعونك تحت الشّجرہ فَعَلمَ مََا فى قُلُوبہم فَاَنْزَلَ السَّكينَةَ عَلَيْہم وَ اَثابَہُم فَتْحاً قَريباً(فتح/۱۸)_

۲۵_ سيرت ا بن ہشام ج ۳ ص ۳۳۰و ۳۳۵_

۲۶_سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۳۱_ ۳۳۲_

۲۷_ بحار الانوار ج ۲۰ ص ۳۳۳_۳۵۲_

۲۸_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۳۲_

۲۹_ بحار الانوار ج ۲۰ ص ۳۵۰_

۳۰_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۳۳_

۳۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۰۵ سے ۶۱۰تك

۳۲_مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۰۷ ارْتَبْتُ ارْتياباً مُنْذُ اَسْلَمْتُ الا يوَمَئذ:

۳۳_ سيرت ابن ہشام ج ۲ ص ۳۳۷ _۳۳۸ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۳۹ تھوڑے سے اختلاف كے ساتھ_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۲۴ سے ۶۳۱ تك _حيات الصحابة ج ۱ ص ۱۳۳_

۳۴_ ''ما كانَ قَضيَّة اَعظَمَ بَرَكَةً منہا'' فروع ابديت ج ۲ ص ۶۰۰_

۱۴۲

آٹھواں سبق

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام كے عالمى پيغام كا اعلان

سياسى حكمت عملى كے نكات كى رعايت

خسروپرويز كے نام خط اور اسكى گستاخي

حبشہ كے بادشاہ نجاشى كے نام آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خط

دوسرے حكمرانوں كا موقف

خيبر كے يہوديوں سے جنگ كے اسباب

لشكر توحيد كى روانگي

معلومات كى فراہمي

جنگى اعتبار سے مناسب جگہ پر لشكر گاہ كى تعيين

لشكر كيلئے طبّى امداد رسانى كا انتظام

جديد معلومات

آغاز جنگ اور پہلے قلعہ كى فتح

سردار كے حكم سے روگرداني

جنگى حكمت عملي

على (ع) فاتح خيبر

سوالات

۱۴۳

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عالمى پيغام كا اعلان

محرم ۷(۱) بمطابق اپريل ۶۲۸

صلح حديبيہ كے معاہدے نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جنوب (مكّہ) كى طرف سے مطمئن كر ديا اور پر امن فضا كے سبب عرب كے سر برآوردہ افراد كا ايك گروہ، اسلام كا گرويدہ ہو گيا _ اس موقع پر اسلام كے عظيم رہنما نے فرصت كو غنيمت جا نا اور اس وقت كے حكمرانوں ، قبائلى سرداروں اور عيسائي راہنماؤں سے مذاكرہ اور مكاتبہ كا باب كھول ديا اور خدا كے حكم سے اپنے آئين كو ،جو ايك عالمى آئين دنيا كى قوموں كے سامنے پيش كيا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو خطوط ، دعوت اسلام كے عنوان سے سلاطين ، قبائل كے روساء اور اس زمانے كى سياسى و مذہبى نماياں شخصيتوں كو تحرير فرمائے تھے وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دعوت كے طريقہ كار كى حكايت كرتے ہيں _

اس وقت ۱۸۵ خطوط كے متن ہمارى دسترس ميںہيں جن كو پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تبليغ، دعوت اسلام يا ميثاق و پيمان كے طور پر تحرير فرمايا تھا_(۲)

يہ خطوط دعوت و تبليغ كے سلسلے ميں اسلام كى روش اور طريقہ كار كہ جس كى بنياد ، منطق و برہان پر تھى نہ كہ جنگ و شمشير پر ، روشنى ڈالتے ہيں ، جو حقائق ان خطوط ميں پوشيدہ ہيں اور جو دلائل ، اشارات ، نصيحتيں اور راہنمائي رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دوسرى قوموں كے سامنے پيش كى ہيں ، وہ اسلام كے عالمى پيغام اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دعوت كے طريقہ كار كا منہ بولتا ثبوت ہيں _

۱۴۴

سياسى حكمت عملى كے نكات كى رعايت

مختلف علاقوںاور سلاطين كے پاس رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بھيجے ہوئے افراد اور سفراء معارف اسلامى سے آگاہ اور اس پر تسلّط ركھنے كے ساتھ ساتھ، ادب و سخن ميں كم نظير تھے اور اس زمانے كے لوگوں كے معاشر تى اور دينى آداب و رسوم سے وافقيت ركھتے تھے _ اس زمانے كى طاقتوں كا سامنا كرنے ميں عين يقين او ر صاف گوئي كے ساتھ ان كى ظاہرى وضع و قطع بھى سياسى حكمت عملى كے نكات كى رعايت كى حكايت كرتى تھى _(۳)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عالمى پيغام رسالت پر مشتمل خطوط، ايك ہى دن چھ منتخب افراد كے ذريعے ايران ، روم ، حبشہ ، مصر ، يمامہ ، بحرين ، اُردن اور حيرہ كى طرف روانہ فرمائے_(۴)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خطوط پر (محمد رسول اللہ) '' جو كہ آپ كى انگوٹھى پر كھدا ہوا تھا''كى مہر لگاتے اور خطوط كو بند كركے مخصوص موم سے چپكا ديا كرتے تھے _(۵)

جس زمانے ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يہ خطوط تحرير فرمارہے تھے، اس وقت دنيا كى دو بڑى طاقتيں، ايران اور ر وم اپنے اپنے ملك كا رقبہ بڑھانے كے سلسلے ميں ايك دوسرے كے ساتھ دست و گريبان تھيں اور دنيا كى سياست انہى كے گرد گھوم رہى تھى _ قيصر روم كے نام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كا مضمون يہ تھا_

بسم الله الرحمن الرحيم

محمد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے روم كے بزرگ ''قيصر ''كے نام

سچّائي اور ہدايت كى اتباع كرنے والوں پر سلام ،تمہيںاسلام كى طرف دعوت ديتا ہوں ، اسلام كو قبول كر لو تا كہ صحيح و سالم رہو اور خدا بھى تم كو ( خود تمہارے ايمان كا اور تمہارے زير

۱۴۵

نگيں افراد كے ايمان كا ) دوہرا اجر دے گا _ اے اہل كتاب ميں تم كو اس بات كى طرف دعوت ديتا ہوں جو تمہارے اور ہمارے در ميان يكساں ہے اور وہ يہ ہے كہ سوائے خدائے واحد كے ہم كسى كى عبادت نہ كريں اور كسى كو اس كا شريك قرار نہ ديں اور ہم ميں سے بعض ، بعض كو رب نہ بنائيں اور جب وہ لوگ روگردانى كريں تو كہو كہ تم گواہ رہو ہم مسلمان ہيں_(۶)

محمد رسول اللہ(۷)

جب دحيہ كلبى نے خط، قيصر روم تك پہنچا يا تو اس نے اسلام اور دين موعود انجيل كے بارے ميں مفصل تحقيقات كے بعد مندرجہ ذيل عبارت پر مشتمل خط رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو لكھا_

'' يہ خط اس رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے ہے جس كى بشارت عيسي(ع) نے دى ہے (يہ خط) قيصر بادشاہ روم كى طرف سے ہے _آپ كا خط اور قاصد ہمارے پاس پہنچا ميں اس بات كى سچّى گواہى ديتا ہوں كہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو رسالت پر مبعوث كيا ہے _ آپ كا نام اور آپ كا تذكرہ اس انجيل ميں ديكھ رہا ہوں جو ہمارے ہاتھ ميں ہے_ عيسي(ع) بن مريم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے آنے كى بشارت دى ہے _ ميں نے بھى روميوں كو دعوت دى ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لائيں اور مسلمان ہو جائيں ليكن انہوں نے اطاعت نہيں كى اور اسلام نہيں لائے _ حالانكہ اگر وہ ہمارى بات مانتے تو ان كے لئے بہتر تھا _ ميں تمنّا كرتا ہوں كہ اے كاش آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خدمت گزار ہوتا اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پير دھوتا ''_

پھر قيصر نے خط كوتحائف كے ساتھ دحيہ كلبى كے ذريعہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس بھيج ديا_(۸)

۱۴۶

شاہ ايران خسرو پرويز كے نام رسول اللہ كے خط كا متن_

بسم الله الرحمن الرحيم

محمد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے ايران كے عظيم كسرى كے نام_

سلام ہو اس شخص پر جو سچائي اور ہدايت كا پيرو ہو ، خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لا يا ہو اور گواہى ديتا ہو كہ اس كے علاوہ كوئي پروردگار نہيں ہے _اس كا كوئي شريك نہيں ہے اور محمد اس كے بندے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں_ميںتمہيں خدا كى طرف بلاتا ہوں اس لئے كہ ميں خلق خدا كے درميان خدا كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں تا كہ ميں زندہ افراد كو خوف و اميد دلاؤں_

تم اسلام قبول كر لو تا كہ محفوظ رہو اور اگر تم نے انكار كيا تو تمہارے پيرو كاروں كا بوجھ بھى تمہارے سررہے گا_

محمد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ(۹)

عبد اللہ بن حذافہ نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خط ايران كے دربار ميں پہنچا يا _ جب مترجمين نے بادشاہ كے سامنے خط پڑھا تو وہ بھڑك اُٹھا كہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كون ہے؟ جو اپنے نام كو ميرے نام سے پہلے لكھتا ہے؟ اور خط پڑھے جانے سے پہلے ہى اس نے ٹكڑے ٹكڑے كرديا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا قاصد مدينہ واپس آيا اور اس نے سارا ماجرا بيان كيا _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہاتھوں كو آسمان كى طرف بلند كيا اور فرمايا :

'' خدايا اس شخص نے ميرا خط پھاڑڈالا تو اس كى حكومت كو ٹكڑے ٹكڑے كردے_(۱۰)

خسرو پرويز كے نام خط اور اسكى گستاخي

ساسانى بادشاہ نے طاقت كے نشے ميں چور ہوكر يمن كے كٹھ پتلى حاكم''بَاذان'' كو لكھا

۱۴۷

كہ مجھے خبر ملى ہے كہ مكّہ ميں كسى قريشى نے نبوّت كا دعوى كيا ہے تم دو دلير آدميوں كو وہاں بھيجو تا كہ وہ اس كو گرفتار كركے ميرے پاس لائيں ''_

حاكم يمن '' بَاذَان'' نے مركز كے حكم كے مطابق دو دلير آدميوں كو حجاز روانہ كيا جب يہ لوگ طائف پہنچے تو وہاں كے ايك شخص نے مدينہ كيطرف راہنمائي كى اور دونوں افراد مدينہ جا پہنچے اور باذان كا خط پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ديا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عظمت و ہيبت اور اطمينان نے پيغام لانے والوں كو وحشت ميں ڈال ديا_

جب پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كے سامنے اسلام پيش كيا تو وہ لرزنے لگے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ''اب تم جاؤ ، كل ميں اپنا فيصلہ سناؤں گا' ' _دوسرے دن جب والى يمن كے كارندے جواب لينے كے لئے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پہنچے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' پروردگار عالم نے مجھے خبر دى ہے كہ كل رات جب رات كے سات گھنٹے گزر چكے تھے( ۱۰ جمادى الاوّل سنہ ۷ھ كو) '' خسرو پرويز '' اپنے بيٹے '' شيرويہ'' كے ہاتھوں قتل ہو گيا ہے اور اس كا بيٹا تخت سلطنت پر قابض ہو گياہے پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كو بيش قيمت تحائف دے كر يمن روانہ كيا_ انہوں نے يمن كى راہ لى اور باذان كو اس خبر سے مطلع كيا _ باذان نے كہا كہ '' اگر يہ خبر سچ ہے تو پھر يقينا وہ آسمانى پيغمبر ہے اور اس كى پيروى كرنا چاہيئے ابھى تھوڑى دير نہ گزرى تھى كہ شيرويہ كا خط حاكم يمن كے نام آن پہنچا جس ميں لكھا تھا كہ '' آگاہ ہو جاؤ كہ ميں نے خسرو پرويز كو قتل كرديا اور ملت كا غم و غصّہ اس بات كا باعث بنا كہ ميں اس كو قتل كردوں اس لئے كہ اس نے فارس كے اشراف كو قتل اور بزرگوں كو متفرق كرديا تھا_جب ميرا خط تمہارے ہاتھ ميں پہنچے تو لوگوں سے ميرے لئے بيعت لو اور اس شخص سے جو نبوت كا دعوى كرتا ہے اور جس كے خلاف ميرے باپ نے حكم ديا تھا ، ہرگز سختى كا بر تاؤ نہ كرنا

۱۴۸

يہاں تك كہ ميرا كوئي نيا حكم تم تك پہنچے_

شيرويہ كے خط نے اس خبر كى تائيد كردى جو رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عالم غيب اور وحى كے ذريعہ دى تھى _ ايرانى ناد حاكم باذان اور ملك يمن كے تمام كارندے جو ايرانى تھى ، مسلمان ہوگئے اور يمن كے لوگ رفتہ رفتہ حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے _ باذان نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نام ايك خط ميں اپنے اور حكومت كے كارندوں كے اسلام لانے كى خبر پہنچائي_(۱۱)

حبشہ كے بادشاہ نجاشى كے نا م آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خط

بسم الله الرحمن الرحيم

محمد رسول اللہ كى طرف سے زمامدار حبشہ نجاشى كے نام _ تم پر سلام ہو ، ہم اس خدا كى تعريف كرتے ہيں جس كے سوا كوئي خدا نہيں ، وہ خدا كہ جو بے عيب اور بے نقص ہے_ فرمان بردار بندے اس كے غضب سے امان ميں ہيں وہ خدا اپنے بندوں كے حال كو ديكھنے والا اور گواہ ہے_

ميں گواہى ديتا ہوں كہ جناب مريم كے فرزند عيسي(ع) روح اللہ اور كلمة اللہ ہيں جو پاكيزہ اور زاہدہ مريم كے بطن ميں تھے ،خدا نے اسى قدرت سے جس سے آدمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بغير ماں باپ كے پيدا كيا ان كو بغير باپ كے ماں كے رحم ميں پيدا كيا _

ميں تمہيں لا شريك خدا كى طرف دعوت ديتا ہوں اور تم سے يہى چاہتا ہوں كہ تم ہميشہ خدا كے مطيع اور فرمان بردار اور ميرے پاكيزہ آئين كى پيروى كرتے رہو_ اس خدا پر ايمان لاؤ جس نے مجھے رسالت پر مبعوث فرمايا_

ميں پيغمبر خدا ہوں، تمہيں اور تمہارے تمام لشكر والوں كو اسلام كى دعوت ديتا ہوں اور

۱۴۹

اس خط اورسفير كو بھيج كر ميں اپنے اس عظيم فريضے كو پورا كررہا ہوں جوميرے اوپر ضرورى ہے اور تمہيں وعظ و نصيحت كررہا ہوں_ سچائي اور ہدايت كے پيروكاروں پر سلام_

محمد رسول اللہ

نجاشى نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كو ليا، آنكھوں سے لگايا، تخت سے نيچے اُترا اور تواضع كے عنوان سے زمين پر بيٹھ گيا اور كلمہ شہادتين زبان پر جارى كيا اور پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كے جواب ميں لكھا_

بسم الله الرحمن الرحيم

يہ خط محمد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف ، نجاشى كى جانب سے ہے ، اس خدا كا درود و سلام آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ہو جس كے علاوہ كوئي خدا نہيں اور جس نے ميرى ہدايت كي_ حضرت عيسى (ع) كے بشر اور پيغمبر ہونے كے مضمون كا حامل خط ملا _ زمين و آسمان كے خدا كى قسم جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بيان فر ما يا وہ حقيقت ہے_ ميں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دين كى حقيقت سے آگاہى حاصل كى اور مہاجر مسلمانوں كى ضرورتوں كے پيش نظر ضرورى اقدامات انجام ديئے گئے ہيں_ اب ميں اس خط كے ذريعے گواہى ديتا ہوں كے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے رسول وہ صادق شخص ہيں جن كى تصديق آسمانى كتابيں كرتى ہيں _ ميں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چچا زاد بھائي ( جعفر بن ابى طالب) كے سامنے اسلام و ايمان و بيعت كے مراسم انجام ديئےيں اوراب اپنا پيغام اور قبول اسلام كى خبر پہنچانے كے لئے اپنے بيٹے ''رارہا'' كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيج رہا ہوں اور اعلان كرتاہوں كہ ميں اپنے علاوہ كسى كا ضامن نہيں ہوں _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر حكم ديں تو ميں خود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت با فيض ميں حاضر ہو جاؤں _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود و سلام ہو_

نجاشي(۱۲)

۱۵۰

دوسرے حكمرانوں كا موقف

مصر و يمامہ كے سر براہان مملكت نے تحائف كے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كا جواب ديا ليكن كوئي مسلمان نہيں ہوا_مصر كے حاكم مُقوقس نے بھى تحائف كے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خط كا جواب انتہائي احترام كے ساتھ ديا(۱۳)

يمامہ كے حاكم نے جواب ميں لكھا كہ ميں اس شرط پر مسلمان ہونے كو تيار ہوں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد حكومت ميرے ہاتھ ميں ہو _ اس پيش كش كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول نہيں كيا اور فرمايا يہ بات خداى امور ميں سے ہے(۱۴) _

بحرين كا حاكم مسلمان ہو گيا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كو اسى طرح بطور حاكم باقى ركھا _ اُردن كے حاكم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سفير كے سامنے اپنى جنگى طاقت كا مظاہرہ كيا اور مدينہ پر لشكر كشى كى فكر ميں تھا اس سلسلہ ميں مركزى حكومت (روم) سے رائے طلب كى ليكن جب قيصر روم كى بدلى ہوئي نگاہوں كو ديكھا تو سب كچھ سمجھ گيا اور تمام سياسى لوگوں كى طرح اپنا موقف بدل ديا _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سفير كى دلجوئي كى اور تحفے تحائف اس كے حوالے كئے_(۱۵)

خيبر كے يہوديوں سے جنگ كے اسباب

اسلام شروع ہى سے يہوديوں كى بد عہدى اور سازشوں كا شكار تھا يہوديوں كا ايك گرو ہ مدينہ سے ۱۶۵ كيلوميٹر دور شمال ميں خيبر نامى ايك ہموار اور وسيع جگہ پر سكونت پذير تھا كہ جہاں انہوں نے اپنى حفاظت كے لئے نہايت مضبوط اور مستحكم سات قلعے بنا ركھے تھے يہوديوں كى تعداد بيس ہزار سے زيادہ تھى جن ميںسے اكثر جوان اور جنگجو افراد تھے_

۱۵۱

صلح حديبيہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اس بات كا موقعہ ديا كہ عالمى پيغام كا اعلان كرنے كے علاوہ جزيرة العرب سے يہوديوں كے آخرى خطرناك مركز كى بساط لپيٹ ديں كيونكہ ايك توسياسى اور جنگى نكتہ نظر سے خيبر ايك مشكوك مركز شمار ہوتا تھا اور خيبر كے يہوديوں ہى نے جنگ احزاب كى آگ بھڑ كائي تھى اس لئے ممكن تھا كہ وہ دوبارہ مشركين كو بھڑ كائيں _

دوسرے يہ كہ ايران وروم ايسى بڑى طاقتوں سے يہوديوں كے بہت قريبى تعلقات تھے_ اور ہر لمحہ يہ انديشہ تھا كہ بڑى طاقتوں كوور غلا كر يا ان كى مدد سے يہ لوگ اسلام كو جڑ سے اكھاڑديں_

تيسرے يہ كہ، صلح حديبيہ كہ وجہ سے يہودى يہ سوچنے لگے تھے كہ لشكرى اور جنگى اعتبار سے كمزور ہونے كى بنا پر مسلمانوں نے صلحنامہ قبول كيا ہے ، لہذا يہودى اس فكر ميں تھے كہ موقعے سے فائدہ اٹھا تے ہوئے تحريك اسلام پر ناگہانى ضر ب لگائي جائے _ ہر چند كہ صلح حديبيہ كے معاہدے نے قريش و يہود كے جنگى اتحاد كے امكان كو ختم كر ديا تھا ليكن ديگر ايسے قبائل موجودتھے جو يہوديوں كے امكانى حملے كى صورت ميں ان كا ساتھ دے سكتے تھے_ يہ وجوہات تھيں جو اس بات كا سبب بنيں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يہوديوں كى سر كوبى كے لئے پيش قدمى كريں اور آتش فتنہ كو خاموش كرديں _

لشكر توحيد كى روانگي

يكم ربيع الاوّل ۷ ہجرى(۱۶) بروز ہفتہ بمطابق ۱۲ جولائي ۶۲۸ عيسوي

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سولہ سو جاں بازوں كے ساتھ مدينہ سے روانہ ہوئے اور ہميشہ كى طرح ناگہانى طور پر دشمن كے سر پر پہنچنے كے لئے تيزى سے مقام رجيع كى جانب روانہ ہوئے

۱۵۲

_ (يہ ايك چشمہ ہے جو خيبر و غطفان كى سرزمين كے درميان واقع ہے اور غطفان كى ملكيت ہے _) چنانچہ اس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دشمن كو بھى غافل بنا يا اور دو جنگى حليفوں يعنى خيبر كے يہوديوں اور غطفان كے بدووںكے در ميان جدائي بھى ڈال دى _

معلومات كى فراہمي

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے روانگى سے قبل لشكر اسلام كے آگے ''عباد بن بشر'' كو چند سواروں كے ساتھ دشمن كے لشكر كى خبر لانے كے لئے بھيجا _ ان لوگوں نے ايك يہودى جاسوس كو گرفتار كرليا اور اس كو دھمكا كے ،خيبر كے يہوديوں كے اہم جنگى راز اور يہوديوں كے پست حوصلوں كے بارے ميں معلومات حاصل كرليں_(۱۷)

خيبر كا مضبوط قلعہ راتوں رات مسلمانوں كے محاصرے ميں آگيا _ صبح سوير ے خيبر كے يہودى مسلمانوں كے حملہ اور محاصرے سے غافل قلعوں سے باہر نكلے اور بيلچے، تھيلے و غيرہ لے كر كھيتوں اور نخلستانوں كى طرف چل پڑے كہ اچانك مسلمانوں پر نظر پڑى جو خيبر كو ہر طرف سے گھيرے ہوئے تھے_ وہ لوگ ڈر كے مارے خيبركے قلعوں كى طرف بھا گے اور آواز دى '' محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم سے لڑنے آئے ہيں''_(۱۸)

جنگى اعتبار سے مناسب جگہ پر لشكر گاہ كى تعيين

ابتدا ميں لشكر اسلام نے خيموں كو نصب كرنے كے لئے ايك جگہ كا انتخاب كيا ليكن يہ جگہ بہت زيادہ مرطوب ہونے كے علاوہ صحت و صفائي كے اعتبار سے بھى نا مناسب اور يہوديوں كے تيروں كى زد پر واقع تھى جب يہ جگہ جنگى اعتبار سے مناسب معلوم نہ ہوئي تو

۱۵۳

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب سے مشورہ كركے نخلستان كى پشت پر مناسب ترين رجيع نامى جگہ كو لشكر گاہ كے لئے معين فرمايا اور كچھ سپاہيوں كو اس جگہ كى حفاظت اور نگہبانى كے لئے مقرر كرديا _ جو بارى بارى لشكر گاہ كى نگہبانى اور حفاظت كا فريضہ انجام ديتے _(۱۹)

لشكر كے لئے طبى امداد رسانى كا انتظام

زخميوں كى ديكھ بھال كرنے والى ''نُسَيْبَہ'' نامى خاتون چند ايسى عورتوں كے ساتھ جو اس فن سے آشنا تھيں مدينہ سے لشكر اسلام كے ہمراہ آئيں اور لشكر گاہ كى پشت پرجنگى مجروحين كى مرہم پٹى كے لئے ايك خيمہ نصب كيا اور جانبازوں كى مدد كے لئے تيار ہو گئيں_(۲۰)

جديد معلومات

مقام رجيع ميں ايك يہودى نے جو بہت زيادہ خوف زدہ ہو گيا تھا خودكو لشكر اسلام كے حوالہ كر ديا اور كہنے لگا كہ اگر كچھ خبريں لشكر اسلام كو دے تو كيا اس كو امان ملے گى ؟ جب اس كو امان دى گئي تو اس نے بہت سے جنگى راز فاش كرديئےور بتايا كہ يہوديوں كے درميان ختلاف ہو گيا ہے _ پھر مسلمانوں كى قلعوں اور حصاروں تك راہنمائي كي_(۲۱)

آغاز جنگ اور پہلے قلعہ كى فتح

خيبر ميں سات قلعے تھے جن كے نام ، ناعم ، قموص ، كتيبہ ، نطاة ، شقّ، وطيح ، سلالم ہيں ان قلعوں كے در ميان فاصلہ تھا _ رجيع كو لشكر گاہ كے عنوان سے منتخب كرنے اور ترتيب دينے ميں تقريباً سات دن لگ گئے ، اس كے بعد لشكر اسلام دن ميں قلعوں پر حملہ كرتا اور راتوں كو اپنى قيام گاہ پر واپس آجاتا تھا_جنگ كے پہلے دن پچاس جانبازان اسلام تيروں

۱۵۴

سے مجروح ہوئے ، علاج كے لئے انكو اس خيمہ ميں پہنچايا گياجو اس كام كے لئے نصب كيا گيا تھا_

بالآخر سات دنوں كے بعد ناعم نامى پہلا قلع فتح ہوا، اس كے بعد رفتہ رفتہ سارے قلعے لشكر اسلام كے قبضہ ميں آگئے_

ان قلعوں ميں سے ايك قلعہ كى فتح كے دوران اس يہودى كى زوجہ اسير ہوئي جس نے لشكر اسلام كے لئے معلومات فراہم كرنے ميں مدددى تھى _ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اُس كے شوہر كے حوالے كرديا_(۲۲)

سردار كے حكم سے روگرداني

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب ''ناعم'' نامى قلعہ كى حصاركے قريب پہنچے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كو صف آرا كيا اور فرمايا كہ جب تك حكم نہ پہنچے اس وقت تك جنگ نہ كرنا _ اس موقع پر ايك سپاہى نے خود سرانہ طور پر ايك يہودى پر حملہ كرديا ليكن يہوديوں كے ہاتھوں مارا گيا_ جاں بازوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال كيا كہ كيا يہ شہيد شمار ہوگا؟آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' منادى بہ آواز بلند اعلان كردے كہ جو اپنے سپہ سالار كے حكم سے سرتابى كرے جنت اس كے لئے نہيں ہے_(۲۳)

جنگى حكمت عملي

لشكر اسلام كى كمان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہاتھ ميں تھى اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كے مطابق عمدہ جنگى حكمت عملى كے ساتھ لشكر اسلام ايك ايك قلعہ كا محاصرہ كر تا جارہا تھا اور كوشش كررہا تھا

۱۵۵

كہ جس قلعہ كا محاصرہ ہو چكا ہو اس كا رابطہ دوسرے قلعوں سے منقطع كردے اور اس طرح قلعہ كو فتح كرلينے كے بعد دوسرے قلعہ كا محاصرہ كرتا تھا_

وہ قلعے جن كا ايك دوسرے سے ارتباط تھا يا جن كے اندر جنگجو زيادہ استقامت كا مظاہرہ كرتے تھے ذرا دير ميں فتح ہوتے تھے_ليكن وہ قلعے جن كا آپس ميں رابطہ بالكل منقطع ہو جاتا تھا وہ كمانڈروں كے رعب و دبدبہ كے سامنے ج ہى ہتھيار ڈال ديتے تھے اور ان كو فتح كرنے ميں قتل و خونريزى بھى كم ہوتى تھى _(۲۴)

على عليہ السلام فاتح خيبر

قلعے يكے بعد ديگرے فتح ہوگئے صرف دو قلعے باقى رہ گئے اور يہودى ان قلعوں كے اوپر سے مسلمانوں پر بڑى تيزى سے تير بر سارہے تھے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب ميں سے ايك صحابى ( ابوبكر) كو لشكر كى سردارى ديكر قلعہ فتح كرنے كے لئے روانہ كيا اور ان كے ہاتھو ں ميں پرچم ديا _ ليكن وہ بغير پيش قدمى كيئے شكست كھاكر پلٹ آئے_

دوسرے دن پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كا علَم،دوسرے صحابى (عمر) كے حوالہ كيا ليكن وہ بھى پيش قدمى نہ كرسكے اور شكست كھا كر واپس آگئے_

تيسرے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پرچم، سعد بن عبادة كے حوالہ كيا ليكن وہ بھى شكست سے دوچارہوئے، خود وہ اور ان كا لشكر زخمى ہو گيا اور وہ بھى بيٹھ رہے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' كل ميں علم اس كے حوالے كروںگا جس كو خدا اور اس كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوست ركھتے ہيںاور وہ بھى خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو دوست ركھتا ہے _ وہ شكست كھانے والا اور بھاگنے والا نہيں ، خدا اس كے ہاتھوں فتح عطا كرے گا_(۲۵)

۱۵۶

رات ختم ہوئي صبح نمودار ہوئي _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علي(ع) كو بلانے كے لئے بھيجا آپ(ع) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں تشريف لائے جبكہ آپكى آنكھوں ميں درد تھا چنانچہ فرمايا '' حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ ميں دشت ديكھ پا رہا ہوں اور نہ پہاڑ '' پھر آپ(ع) پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے قريب پہنچے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' آنكھيں كھولو'' رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اپنا لعاب دہن على (ع) كى آنكھوںميں لگايا تو آپكى آنكھيں شفا ياب ہوگئيں _(۲۶) پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پرچم، حضرت على (ع) كو ديا اور كاميابى كے لئے دعا كي، امير المومنين على (ع) قلعہ كى طرف چل پڑے_

حضرت على (ع) كى سركردگى ميں جب لشكر، قلعہ كے نزديك پہنچا تو مرحب كے بھائي حارث نے اپنے مشّاق اور تيز رفتار شہ سواروں كے ساتھ لشكر اسلام پر حملہ كيا ، مسلمان بھاگے على (ع) تنہا اپنى جگہ جمے رہے، علي(ع) كى تلوار كى ضرب نے اپنا كام كيا اور حارث قتل ہو گيا_ يہوديوں پر خوف و وحشت طارى ہو گيا وہ قلعہ كے اندر بھاگ گئے اور قلعہ كے دروازہ كو مضبوطى سے بند كر ليا _ مسلمانوں نے جب يہ منظر ديكھا تو ميدان ميں پلٹ آئے ، اس موقعہ پر خيبر كا مشہور پہلوان اور حارث كا بھائي''مرحب'' اپنے بھائي كى موت پر بے تاب ،اسلحہ ميں غرق ، غصّہ ميں بھر ا، رجز پڑھتا ہوا قلعہ سے باہر كو دپڑا_

وہ كہہ رہا تھا : '' خيبر مجھے جانتا ہے ميں مرحب ہوں اسلحہ ميں غرق ، آزمودہ كار پہلوان ہوں _ كبھى ميں نيزے سے وار كرتاہوں كبھى شمشير سے ، جب شير غصّہ كے عالم ميں ہو تو كوئي كھچار كے قريب نہيں پھٹكتا(۲۷)

حضرت على (ع) نے اس كے جواب ميں فرمايا:

ميں وہ ہوں كہ ميرى ماں نے ميرا نام حيد ر(شير) ركھا ہے ميں بہادر اور جنگلوں كا شير ہوں_(۲۸)

۱۵۷

اس كے بعد زبردست جنگ شروع ہوئي ، شمشير علي، (ع) مرحب كے سر ميں درآئي اور اس كى سپر ،پتّھر كے خود اور سر كو دانتوں تك دوٹكڑے كرديا _ يہ ضرب ايسى خطرناك او دل ہلا دينے والى تھى كہ جسے ديكھ كر بعض يہودى بہادربھاگ كھڑے ہوئے اور قلعہ كے اندر جا چھپے اور بقيہ افراد على (ع) كے ساتھ دست بدست جنگ ميں مارے گئے_علي(ع) نے شير كى طرح يہوديوںكا پيچھا قلعہ كے دروازے تك كيا پھر قلعہ كے دروازے كيطرف متوجہ ہوئے اور اسے اكھاڑ ليا اور جنگ كے اختتام تك سپر كى طرح استعمال كرتے رہے پھر اس كو اس خندق كے اوپر ركھ ديا_ جو قلعہ كے چاروں طرف كھدى ہوئي تھي_(۲۹)

يہ دروازہ اتنا وزنى تھا كہ لشكر اسلام كے آٹھ سپاہى اس كو نہ اٹھا سكے_ حضرت علي(ع) اس اعجازى قوّت كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ '' ميں نے ہرگز بشرى قوّت سے اسے نہيں اكھاڑا بلكہ خدا داد قوّت كے زير اثر اور روز جزا پر ايمان كى بنا پر يہ كام كيا ہے _(۳۰) على (ع) كى شجاعت ، بہادى اور ان كے ہاتھوں كى طاقت سے خيبر كى فتح اور دوسروں كى ناتوانى كے بارے ميں بہت سى حديثيں اہل سنّت كى كتابوں ميں موجود ہيںمزيد معلومات كيلئے ان ماخذوں كى طرف اشارہ كيا جارہا ہے_(۳۱)

۱۵۸

سوالات

۱_ رسول خدانے كس ، كس بادشاہ كو خط لكھے؟

۲_ يمن كا حاكم اور وہاں كے لوگ كيوں كر مسلمان ہوئے؟

۳_ قيصرنے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے كيا جواب لكھا؟

۴_ دوسرے حكمرانوں كا موقف كيا تھا؟

۵_ رسول خدا نے خيبر كے يہوديوں سے كيوں جنگ كي؟

۶_ خيبر ميں حضرت على (ع) كى شجاعت كے بارے ميں كچھ بيان كيجئے_

۱۵۹

حوالہ جات

۱_ طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۵۸_

۲_ '' الوثائق السياسيہ '' مصنفہ پروفيسر حميد اللہ پاكستانى ليكچر رپيرس يونيورسٹي_مكاتيب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' مؤلفہ حجة الاسلام و المسلمين على احمدى ميانجى اور '' محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و زمامداران'' مصنفہ صابر ى ہمدانى ملاحظہ ہوں_

۳_ دحيہ كلبى اور عَمروبن اميّہ اور دوسرے سفراء كى زندگى كا مطالعہ كرنے سے يہ بات واضح ہو جاتى ہے_

۴_ طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۵۸ _ سيرت حلبى ج ۳ ص ۲۴۰_

۵_ طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۲۴۱ و ج ۱ص ۲۵۸_

۶_ قل يا اہل الكتاب تعالوا الى كلمة سوائ: بيننا و بينكم الا نعبد الّا اللہ و لا نشرك بہ شيئا و لا يتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ فان تولوّا فقولوا اشہدوا بانّا مسلمون(آل عمران ۶۴)_

۷_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۷۷_

۸_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۷۷_

۹_ تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۷۷_

۱۰_ طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۵۹_

۱۱_ سيرہ حلبى ج ۳ ص ۲۴۷ _ طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۶۰ _ كامل ج ۲ ص ۲۴۶ _ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۶۵۵_

۱۲_ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۶۵۳ _۶۵۲ سيرت حلبى ج ۳ ص ۲۴۸_

۱۳_ كامل ج ۲ ص ۲۱۰ طبقات ج ۱ ص ۲۶۰_ سيرت حلبى ج ۳ ص ۲۵۰_

۱۴_ طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۶۳ _ سيرة حلبى ج ۳ ص ۲۵۰_

۱۵_ سيرة حلبى ج ۳ ص ۲۵۵_

۱۶_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۳۴_

۱۷_ مغازى واقدى ج ۲ ص۰ ۶۴_

۱۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۴۲_

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

والوں كو اٹھائے گا؟

لوگوں نے كہا '' جى ہاں'' ہم شہادت ديتے ہے''_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدايا گواہ رہنا'' بيشك ميں دوسرے جہان ميں جانے اور حوض كوثر كے كنارے پہنچنے ميں تم پر سبقت لے جاؤں گا _ اور تم حوض پر ميرے پاس حاضر ہوگے _ وہاں ستاروں كى تعداد ميں چاندى كے جام اور پيالے ہوں گے _ ديكھنا يہ ہے كہ تم ميرے بعد ان دو گراں بہا چيزوں سے كيا سلوك كرتے ہو جو ميں تمہارے درميان چھوڑے جارہا ہوں؟

مجمع ميں سے ايك شخص نے بلند آواز سے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ دو گراں قدر چيزيں كيا ہيں؟ فرمايا جو بزرگ ہے وہ كتاب خدا ہے جو تمہارے درميان اللہ كى مضبوط رسى ہے اور دوسرے ميرے اہل بيتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عترت ہيں _ خدائے مہربان اور عالم نے مجھے بتايا ہے كہ يہ دونوں ہر گز ايك دوسرے سے الگ نہيں ہوں گے يہاں تك كہ حوض (كوثر) پر ميرے پا س پہنچيں گے قرآن و عترت سے آگے نہ بڑھنا اور ان دونوں كى پيروى سے منہ نہ موڑنا ورنہ ہلا ك ہوجاؤ گے_

اس كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علي(ع) كے ہاتھ كو پكڑا اور اتنا بلند كيا كہ دونوں كى بغل كى سفيدى نماياں ہوگئي اور لوگوں نے ان كو ديكھا اور پہچانا_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اے لوگو اہل ايمان پر خود ان سے زيادہ حقدار كون ہے؟'' لوگوں نے كہا '' خدا اور اس كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہتر جانتا ہے _'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا:

''بيشك خدا ہمارا مولا ہے اور ميں مومنين كا مولا ہوں اور مومنين كے نفسوں سے اولى اور زيادہ حقدار ہوں _ لہذا جس كا ميں مولا ہوں على (ع) اس كے مولا ہيں _(۹) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۲۶۱

نے اس بات كو تين بار اور حنبلى حضرات كے پيشوا ، احمد بن حنبل كے قول كے مطابق چار بار تكرار فرمايا اس كے بعددعا كے لئے ہاتھ بلند كركے فرمايا

'' بارالہا تو اس كو دوست ركھ جو اسے (علي) دوست ركھے اور اس كو دشمن ركھ جو اس سے دشمنى كرے اس سے محبت فرما جو اس (على (ع) ) سے محبت كرئے اور اس كو مبغوض قرار دے جو اس (على (ع) ) سے بغض كرئے، اس كے دوستوں كى مدد فرما او رجو اس كو رسوا كرے اسے ذليل فرما اور اسے حق كا مدار و محور قرار دے ''(۱۰)

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرماياكہ'' حاضرين غائبين تك يہ پيغام پہنچاديں'' ابھى مجمع پراگندہ بھى نہيں ہوا تھا كہ جبرئيل امين ، وحى الہى لے كر آپہنچے اور آيہ كريمہ '( اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الاسلام دينا ً ) (۱۱) نازل ہوئي_

'' آج ميں نے تمہارے دين كو كامل كرديا ، تم پر اپنى نعمتيں تمام كرديں اور تمہارے لئے دين اسلام كو پسند كر ليا ہے ''_اس موقعہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: دين كے كمال ، نعمت كے اتمام اور ميرى رسالت و على كى ولايت پر خداوند متعال ك-ے راضى ہوجانے كے پر مسرت موقعہ پر ، '' اللہ اكبر'' (اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بلند آواز سے تكبير كہي) اس كے بعد مسلمانوں نے على ابن ابيطالب(ع) كو امير المومنين كے عنوان سے مبار ك باد دى اور سب سے پہلے ابوبكر و عمر ، حضرت على (ع) كى پاس آئے اور كہا '' مبارك ہو مبارك ہو ، اے ابوطالب (ع) كے بيٹے آج سے آپ(ع) ہمارے اور تمام مومنين كے مولا ہوگئے ''_

پھر شاعر انقلاب اسلام ، حسان بن ثابت نے كہا يارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر جازت ہو تو ميں اس سلسلہ ميں كچھ اشعار پڑھوں _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا خدا كى بركت سے پڑھو_ اور حسان نے فى البديہہ واقعہ غدير خم كو

۲۶۲

اشعار ميں بيان كيا _ ہم يہاں ان كے اشعار ميںسے تين شعر نقل كررہے ہيں _

يناديهم يوم الغدير نبيّهُم

بخُم فَاسْمَع بالرّسول مناديا

فقال لهم: قم يا على فَانَّني

رضيتك من بعدى اماما ً ''و هاديا''

فمن كنت مولاه فهذا وليّه

فكونوا له اتباعَ صدْق مواليّا

يعنى غدير كے دن پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں كو آواز دى ، كيا آواز رسا تھى على (ع) سے فرمايا كہ اٹھو ميںنے تمہيں اپنے بعد لوگوں كى ہدايت اور امامت كے لئے منتخب كيا _

ميں جس كا مولا ہوں على اس كے ولى ہيں ، لہذا از روئے صدق و راستى ان كے پيرو اور دوست بن كر رہو _(۱۲)

۲۶۳

سوالات

۱_ كو ن سى تاريخ كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع كے لئے تشريف لے گئے؟

۲_ غدير كے دن مسلمانوں كا كتنا مجمع تھا؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قافلہ روكنے كا حكم كيوں ديا؟

۴_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدير كے دن حضرت على (ع) كے بارے ميں كيا فرمايا؟

۵_ غدير كے واقعہ كے بعد كون سى آيت نازل ہوئي؟

۲۶۴

حوالہ جات

۱_مغازى واقدى ج ۳ص ۱۰۸۹ _سيرت ابن ہشام ج ۴ص۲۴۸_

۲_اہل سنت كى چند دوسرى كتابوں ميں اس طرح لكھا ہے كہ ''نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تم علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كيا چاہتے ہو؟علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھ سے ہيں اور ميں ان سے ہوں اور وہ ميرے بعد ہر مومن كے ولى وسرپرست و صاحب اختيار ہيں _ ترمذى ج ۵ ص ۶۳۲_ مستدرك حاكم ج ۳ص ۱۱۰_۱۱۱_البداية والنہاية ج ۷ ص ۳۴۵_اسد الغابہ ج ۴ ص ۱۰۷_۱۰۸ _ مسند احمد ابن حنبل ج ۵ ص ۳۵۶_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۵۰ ، تاريخ طبرى ج ۳ ص ۱۴۹

۳_ يہ تقرير سيرت كى مختلف كتابوں ميں دو طريقوں سے نقل كى گئي ہے ايك '' عرفہ ميں تقرير'' كے عنوان سے اور دوسرى '' منى ميں تقرير'' كے عنوان سے تفصيلات كيلئے رجوع كريں: مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۱۰۳_سيرت ابن ہشام ج۴ _ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۱۰ طبرى ج ۳ ص ۱۵۰_

۴_ مغازى واقدى ميں '' اياس بن ربيعة بن حارث '' ذكر ہوا ہے_

۵_انّى تَاركٌ فيْكُمُ الثَّقَلَيْن كتَاب اللَّه وَ عتْرَتى انْ تَمَسَّكْتُمَْ بهما لَنْ تَضّلُوا _ يہ عبارت اہل سنت كى جن معتبر كتابوں ميں مختصر انداز سے ذكر كى گئي ہے ان ميں سے چند كے نام مندرجہ ذيل ہيں _ صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۲ _ سنن ترمذى ج ۲ ص ۳۰۷_ سنن دارمى ج ۲ ص ۱۴و۱۷و۲۶و۵۹_ خصائص نسائي ص ۳۰_مستدرك حاكم ج ۳ ص ۱۰۹_ كفاية الطالب ج ۱ ص ۱۱_ طبقات ابن سعد ج ۴ ص ۸ _ عقد الفريد ج ۲ ص ۳۲۶و ۱۵۸_ اسد الغا بة ج ۲ ص ۱۲_ حلية الاوليا ج ۱ ص ۳۵۵_ تذكرة الخواص ص ۳۳۲_ منتہى الارب _ مصابيح السنة ج ۲ ص ۲۰۵_۲۰۶

۶_ سيرت ابن ہشام ج ۳،۴، ص ۶۰۳ _تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۱۰ _ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۱۰۳_ طبرى ج ۳ ص ۱۵۰ _

۷_( يَا اَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغْ مَا اُنْزلَ الَيْكَ منْ رَّبّكَ وَ انْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رسَالَتَهُ وَ اللّهُ يَعْصمُكَ منَ النّاس انَّ اللّهَ لاَ يَهْدى الْقَوْمَ الْكَافريَْن ) (مائدہ/۶۸)

۲۶۵

۸_مكہ اور مدينہ كے راستہ ميں جحفہ ايك بيابان ہے جہاں غدير خم واقع ہے يہاں سے ہر كارواں جدا ہو كر اپنے ديار كى طرف چلا جاتا ہے_

۹_من كنت مولاه فهذا على مولاه

۱۰_اللّهُمَّ وَالَ مَنْ وَالاهُ وَ عَاد مَنْ عَادَاهُ وَاَحَبّ مَنْ اَحَبَّهُ وَ اَبْغض مَنْ اَبْغَضَهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهْ وَ اْخْذُلْ مَنْ خَذََلَه وَ اَدْر الْحَقَ مَعَهُ حَيْثُ دَار _

۱۱_ سورہ مائدہ آيت ۳

۱۲_ الغدير ج ۱ ص ۹تا ۱۲_ تفسير الميزان ج ۶ ص ۵۳ تا ۵۹ _ علامہ امينى مرحوم نے گيارہويں جلدپر مشتمل اپنى عظيم اور تحقيقى كتاب الغدير ميں حديث غدير كو ايك سو دس اصحاب كى زبانى نقل كيا ہے نيز آپ نے غدير كے بارے ميں اہل سنت كے محدثين ومورخين كے اقوال كو ذكر فرمايا ہے_ يہ بھى ياد دلانا ضرورى ہے كہ يہ كتاب فارسى زبان ميں ترجمہ ہو گئي ہے _

۲۶۶

سولہواں سبق

شورشيں

اسود عنسى كا واقعہ

يمن ميں انقلابى بغاوت

مسيلمہ كذاب كا واقعہ

جھوٹے پيغمبر كى طرف ميلان كا سبب ''قومى تعصب''

جھوٹوں كا انجام

رحلت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وقت كے حالات كا تجزيہ

لشكر اسامہ كى روانگي

اہل بقيع كے مزار پر

واقعہ قرطاس يا نامكمل تحرير

ناتمام نماز

وداع پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

يہ نور ہرگز نہيں بجھے گا

سوالات

۲۶۷

شورشيں

حجة الوداع سے واپسى كے بعد تھكن كى شدت كى بناپر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چند دنوں تك بيمار رہے اس دوران آپ كى تھكاوٹ اور طبيعت كى ناسازى كى خبر چاروں طرف پھيل گئي اور موقعہ كى تلاش اور فائدہ كے چكر ميں رہنے والے افراد نے پيغمبرى كا دعوى كرديا_'' مسيلمہ كذاب'' نے يمامہ اور نجد ميں خود كو پيغمبر اور'' رحمان اليمامة ''كہا _ ''اسود عنسي'' نے يمن ميں خود كو پيغمبر كہا اور شورش كا آغاز كرديا_ اس كے علاوہ'' سجاح ''نامى عورت اور'' طليحہ'' نامى ايك شخص نے بھى اس طرح كے دعوى سے لوگوں كو دھوكہ دينا شروع كرديا _ اس فتنہ كى جڑيں بہت پھيلى ہوئي تھيں ان دھوكہ بازوں نے قومى اور قبائلى تعصب سے فائدہ اٹھا يا اور ايك جماعت كو اپنے گرد جمع كرليا اور جب ان كو قدرت حاصل ہوگئي تو اپنى حكومت و سلطنت كو وسعت دينے لگے_

اسود عنْسيّ كا واقعہ

نمونہ كے طور پر اَسوَد عنسى كا واقعہ پيش ہے جس كو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ناسازگارى طبع كى خبر نے نبوت كے لالچ ميں ڈال ديا اس نے يمن ميں زمانہ جاہليت كے طور طريقوں اور رسوم

۲۶۸

كو كتب عتيق كے قوانين كے ساتھ ملاكر ايك نئے نقطہ خيال كى بنياد ركھى وہ ايك كاہن اور شعبدہ باز تھا جو الٹى سيدھى باتوں كو مسجعّ اور مقفّى بنا كر اس طرح پيش كرتا كہ جو بھى سنتا بد دل ہو جا تا _ جنگجوئي ميں بڑا سنگدل اور چالاك تھا_ظلم و ستم ميں لوگوں كى جان و مال كى پروا نہيں كرتا تھا_

اَسوَدعنسيّ نے اپنے سپاہيوں كے ساتھ چند دنوں ميں نجران پر قبضہ كرليا اور بلافاصلہ يمن كے دار السلطنت صنعا ء پر حملہ كرديا_'' شہر ابن باذام''(۱) ايرانى جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى طرف سے آزادہ شدہ اور اس علاقہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے حكومت كرتے تھے ، انہوں نے لشكر تيار كيا تا كہ اسود كے راستہ كو روك ليں ليكن شورشيوں كے فورى حملہ كى بنا پر شہر ابن باذام كا لشكر ، اسود كے لشكر كا كچھ نہ كر سكا اور شہر ابن باذام اس حملہ ميں شہيد ہو گئے_

اسود عنسيّ كامياب اور كاميابى سے مغرور ہو كر صنعاء ميں داخل ہوا _ اعرابى جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھى دوبارہ اسود كے ہاتھوں اسلام سے خارج ہونے لگے گروہ در گروہ قبائل نے اس كى بيعت كرلى اور خود كو اس كے حوالہ كرديا _ تھوڑى ہى مدت ميں اسود نے تمام يمن ، طائف، بحرين اور حدود عدن پر تسلط جماليا _ان علاقوں ميں باقى ماندہ مسلمانوں نے بھى خوف سے سكوت اختيار كر ليا _اسود نے شہر ابن باذام كى بيوى ''آزاد '' كو زبردستى اپنى بيوى بناليا_(۲)

يمن ميں انقلابى بغاوت

بستر علالت ہى سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدعيان نبوت كے ساتھ جنگ كے لئے نمائندے بھيجنا اورخط لكھنا شروع كيئے_(۳)

۲۶۹

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك خط ميں يمن كے ايرانى ، سركردہ افراد كو حكم ديا كہ دين مقدس اسلام كے دفاع كےلئے قيام كريں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيغام كو دينداورں ، با حميت و غيرت مند افراد تك پہنچائيں اور كوشش كريں كہ فساد كى جڑ اَسود عنسى كو خفيہ يا آشكار ا طور پر ختم كيا جا سكے_(۴)

يمن كے آزاد ايرانيوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كے مطابق اسلام پر باقى رہ جانے والے قبائل كو اپنے ساتھ تعاون كے لئے بلايا اورجب يہ معلوم ہواكہ اسود اور سپہ سالار لشكر قيس ميں اختلاف ہے تو انہوں نے قيس كے سامنے نہايت خاموشى سے اس موضوع كو پيش كيا اور اس طرح سپہ سالار لشكر كو اپنے ساتھ ملاليا_(۵)

اسود كے قصركے اندرونى معلومات حاصل كرنے كے لئے ''آزاد'' سے رابطہ قائم كيا گيا جو شہر ابن باذام كى بيوى اور اسود كے تصرف ميں تھي_

'' آزاد'' ايك آزادى پسند، شير دل، مؤمنہ اور باعزت خاتون تھيں ان لوگوں كى مدد كى لئے اٹھ كھڑى ہوئيں اور مفيد و قيمتى راہنمائيوں كے ذريعہ انھوں نے مومنين كو اسود كے قتل پر آمادہ كيا _ قصر مكمل طور پر نگہبانوں كى نگرانى ميں تھا_ '' آزاد'' كى راہنمائي ميں ايك سرنگ كے ذريعہ جو اَسوَد عنسى كے كمرہ ميں پہنچتى تھى رات كو جب وہ نيم خوابيدگى كے عالم ميں تھا ، انقلابى مومنين نے حملہ كرديا _ فيروز نے اس كا سر زور سے ديوار سے ٹكرا ديا اور اس كى گردن مروڑدى _اسود كى آواز وحشى گائے كى طرح بلند ہوئي آزاد نے فوراً ايك كپڑا اس كے منہ ميں ٹھونس ديا _ پہرہ دارمحل كے اندر ہونے والى چيخ پكار سے مشكوك ہوگئے اور كمرہ كى پشت سے انہوں نے پوچھا كہ خيريت تو ہے؟ '' آزاد'' نے نہايت اطمينان سے جواب ديا _'' كوئي بات نہيں ہے پيغمبر پر وحى آرہى ہے'' اس طرح انقلابى مومنين اپنى مہم ميں كامياب ہوئے اور پيغمبرى كے جھوٹے دعويدار كو دوزخ ميں پہنچا ديا_دوسرے دن صبح

۲۷۰

مسلمانوں نے اسلامى نعرے لگائے اور كلمہ شہادتين زبان پر جارى كيا _ اَشْہَدُ اَنْ لاَ الہَ الاَّ اللّہ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمّدا رَسُولُ اللّہ _ اور اعلان كيا كہ لوگو اَسوَ د ايك جھوٹے شخص سے زيادہ كچھ نہ تھا اس كے بعد اس كا سر لوگوں كى طرف پھينك ديا _

شہر ميں ايك ہنگامہ شروع ہوگيا اور قصر كے نگہبانوں نے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محل كو لوٹ ليا اور جو كچھ اس ميں تھالے كر فرار ہوگئے _ اس وقت مسلمانوں نے آواز دى كہ نماز كے لئے لوگ صف بستہ ہوجائيں اور پھر نماز كے لئے لوگ كھڑے ہوگئے_(۶)

جس رات اَسوَد مارا گيا اسى رات وحى كے ذريعہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو معلوم ہوگيا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' كل رات ايك مبارك خاندان سے ايك مبارك شخص نے عنسى كو قتل كرديا'' لوگوں نے پوچھا ''وہ كون تھا''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _ فيروز تھا _فيروز كامياب رہے_(۷)

مسيلمہ كذاب كا واقعہ

يمامہ ميں مسيلمہ كذاب نے بھى پيغمبرى كا دعوى كركے اپنا ايك گروہ بناليا اورفتنہ پردازى ميں مشغول ہوگيا _ وہ كوشش كرتا تھا كہ بے معنى سخن گوئي كے ذريعہ قرآن سے معارضہ كرے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابھى سفر حج سے لوٹے تھے كہ دو افراد مسيلمہ كذاب كا خط آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس لے كر پہنچے _ اس ميں لكھا تھا '' مسيلمہ خدا كے رسول كى طرف سے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے رسول كے نام '' ميں پيغمبرى ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا شريك ہوں آدھى زمين قريش سے متعلق ہے اور آدھى مجھ سے، ليكن قريش عدالت سے كام نہيں ليتے _(۸)

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت ناراض ہوئے اور مسيلمہ كے نامہ بروں سے فرمايا '' اگر تم سفير اور قاصد

۲۷۱

نہ ہو تے تو ميں تمہارے قتل كا حكم ديديتا_ تم لوگ كس طرح اسلام سے جدا ہو كر ايك تہى مغز آدمى كے پيرو ہوگئے_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ مسيلمہ كو بہت سخت جواب لكھا جائے _ ''خدائے رحمن و رحيم كے نام سے محمد رسول اللہ كى طرف سے دروغ گو مسيلمہ كى طرف_ سلام ہو ہدايت كى پيروى كرنے والوں پر ، زمين ،خدا كى ملكيت ہے اور وہ اپنے صالح بندوں ميں سے جس كو چاہتا ہے زمين كا وارث قرار ديتا ہے اور نيك انجام پرہيزگاروں كے لئے ہے_(۹)

جھوٹے پيغمبر كى طرف ميلان كا سبب ''قومى تعصب''

طبرى كا بيان ہے كہ ايك شخص يمامہ گيا اور پوچھا مسيلمہ كہاں ہے؟

لوگوں نے كہا كہ '' پيغمبر خدا كہو''

اس شخص نے كہا '' نہيں ميں پہلے اس كو ديكھوں گا''

جب اس نے مسيلمہ كو ديكھا تو كہا كہ '' تو مسيلمہ ہے''؟

'' ہاں''

كيا تمہارے اوپر فرشتہ نازل ہوتا ہے؟

ہاں ،اور اس كا نام رحمن ہے_

نور ميں آتا ہے يا ظلمت ميں؟

مسيلمہ نے كہا '' ظلمت ميں''

اس شخص نے كہا كہ ميں گواہى ديتا ہوں كہ تو جھوٹا ہے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سچے ہيں ليكن ميں رَبيعہ كے جھوٹے كو مُضر (حجاز) كے سچّے سے زيادہ دوست ركھتا ہوں_(۱۰)

۲۷۲

جھوٹوں كا انجام

نبوت كى جھوٹى دعويدار سجاح كے ساتھ مسيلمہ نے شادى كرلى _(۱۱) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد لشكر اسلام نے اس كى سركوبى كى اور اس كے قتل كے بعد اس كى جھوٹى نبوت كى بساط اُلٹ گئي_(۱۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ ميں مدعيان نوبت ميں طُلَيحہ نامى ايك شخص تھا جو قبيلہ طيّ، اَسد اور قبيلہ غطفان ميں ظاہر ہوا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبيلہ بنى اسد ميں اپنے نمائندوں كو پيغام بھيجا كہ اس كے خلاف قيام كريں _ وہ لوگ اس پر حملہ آور ہوئے اور وہ فرار كر گيا_(۱۳) اس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تدبير سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كے آخرى دنوں ميں يا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد جھوٹے پيغمبروں كى بساط الٹ دى گئي_

رحلت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وقت كے حالات كا تجزيہ

بيمارى سے نسبتاً افاقہ كے كچھ ہى دنوں بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوبارہ عليل ہوئے _ ہر چند كہ تمام جزيرة العرب، حكومت اسلامى كے زير اثر تھا ليكن ايك طرف پيغمبرى كے جھوٹے دعويداروں نے سر اٹھا ركھا تھا اور بہت سے قبائل كے رؤساء كہ جن كے دلوں ميں ابھى تك اسلام كى جڑيں مضبوط نہيں ہوئيں تھيں_ اپنے سابقہ امتيازات سے ہاتھ دھو بيٹھے تھے جو كہ ان پر دشوار تھا_ وہ پيغمبرى كے جھوٹے دعويداروں سے مل كر شورش پر آمادہ ہوگئے_ دوسرى طرف موقعہ كى تلاش ميں رہنے والے منافقين كا مكمل پلا ننگ كے ساتھ يہ ارادہ تھا كہ اسلام كے عظيم رہبر كى آنكھ بند ہوتے ہى حكومت اسلامى پر قبضہ كرليں اور اس كو امامت وولايت كے صحيح راستہ سے منحرف كرديں_

۲۷۳

بہر حال ، رہبر اسلام كى رحلت ،شورشيوں اور مرتدين كے حوصلوں كى تقويت كاموجب ہوتى ، دوسرا اہم موضوع يہ كہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كے سلسلہ ميں كھينچا تانى كے نتيجہ ميں امت اسلامى كے درميان بہت بڑا شگاف پيدا ہوجاتاجوايك بہت بڑا خطرہ ثابت ہوتا _روم ايسى بڑى طاقت بھى انتظار ميں تھى كہ جزيرة العرب پر حملہ كركے اسلام كى جڑكو كاٹ دے _ فتنے اٹھ چكے تھے اندرونى و بيرونى تحريكيں اور سازشيں اسلام كى بنيادوں كو چيلنج كررہى تھى _

لشكر اسامہ كى روانگي

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اندرونى سازشوں كے خاتمہ اور خارجى تحريكوں كى سركوبى كے لئے لشكر اسامہ كى تشكيل اور روانگى كا حكم صادر فرمايا _ سپاہيوں كى حوصلہ افزائي كے لئے اپنے ہاتھوں سے پرچم بنا كر ۱۷ يا۱۸ سالہ جوان اسامہ كے سپرد كيا اور سپہ سالار معين فرمايا_(۱۴) اس بہادر نوجوان نے اس لشكر كى كمان سنبھالى جو عالمى استكبار سے جنگ كے لئے آمادہ تھا_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسامہ كو حكم ديا كہ اپنے باپ كى شہادت گاہ كى طرف روانہ ہو جاؤ اور جانے ميں جلدى كرو _ صبح كو نہايت تيزى سے ناگہانى طور پر دشمن پر حملہ كردو_(۱۵) پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں سے كہا كہ لشكر اسامہ ميں شركت كريں اور جتنى جلد ى ہو سكے روانگى كے لئے تيار ہو جائيں_

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے مقاصد ميں سے ايك مقصد يہ تھا كہ سازشوں كا تانابانا بننے والے ، لشكر كے ساتھ مدينہ سے خارج ہوجائيں تا كہ شہر سازشيوں كے وجود سے خالى ہوجائے اور امير المومنين على (ع) كى خلافت كے راستہ ميں ركاوٹ نہ بنيں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جوان سال اسامہ كا

۲۷۴

انتخاب بھى اس لئے فرمايا تھا كہ اولاً: آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يہ بتانا چاہتے تھے كہ ذمہ دارياں شخصيت اور لياقت كى بناپر ہوتى ہيں نہ كہ سن و سال اور موہوم شرافتوں كى بناپر، تا كہ آئندہ لوگ حضرت على (ع) كو يہ كہہ كر خلافت سے الگ نہ كر سكيں كہ وہ جوان ہيں _ثانياً: اسامہ كے والد زيدابن حارثہ روميوں كے ساتھ جنگ كرتے ہوئے شہيد ہوئے تھے اس لئے ان ميں روميوں كے خلاف جنگ كرنے كا زيادہ جذبہ تھا اور سپہ سالارى كا عہدہ سونپ دينے كے بعد عملى طور پر ان كى دلجوئي بھى ہو جاتى _

اسامہ نے مدينہ كے قريب مقام '' جرُف'' ميں پڑاؤ ڈال ديا_ بزرگ صحابہ اور مہاجرين سب كے سب اسامہ كے لشكر كے سپاہى اور ان كى ماتحتى ميں تھے _ يہ بات ان ميں سے بعض كےلئے بڑى سخت تھى انہوں نے اعلانيہ طور پر اسامہ كى سپہ سالارى پر اعتراض كيا كہ بزرگوں كى سپہ سالارى كے لئے نوجوان كو كيوں منصوب كيا گيا؟ لشكر كى روانگى ميں عملى طور پر خلاف ورزياں ہوئيں چند دنوں تك لشكر ركا رہا _ مخالفت كر نيوالوں نے لشكر كى روانگى ميں كوتاہى كى اوراپنے بے ہودہ مقاصد كو انجام دينے كے لئے روانگى ميں تاخير كرائي_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بستر علالت پر سمجھ ليا كہ لشكر گاہ سے لشكر كى روانگى كو روكنے كےلئے لوگ كيا كررہے ہيں ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بستر سے اٹھے اور بخار نيز غيظ و غضب كے عالم ميں مسجد ميں تشريف لائے خدا كى حمد كے بعد فرمايا '' اے لوگو ميں لشكر كى روانگى ميں دير ہونے سے بہت ناراض ہوں گويا اسامہ كى سپہ سالارى تم ميں سے ايك گروہ كے اوپر گراں گذرى اور تم نے اعتراضات شروع كرديئےم اس سے پہلے بھى ان كے باپ كى سپہ سالارى پراعتراض كررہے تھے ، خدا كى قسم اس كا باپ سپہ سالارى كے لئے مناسب تھا اور وہ خود بھى

۲۷۵

مناسب ہے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر واپس آگئے اور ہر اس صحابى سے جو آپ كو ديكھنے كے لئے آتا تھا فرماتے: '' لشكر اسامہ كو روانہ كرو''(۱۶)

ليكن سازشيں اس سے بالاتر تھيں يہاںتك كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _'' جو لشكر اسامہ سے روگردانى كرے اس پر خدا كى لعنت ہو''(۱۷)

اہل بقيع كے مزار پر

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شديد بيمارى كے عالم ميں حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (۱۸) كا سہارا لئے قبرستان بقيع كى طرف چلے، اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيچھے پيچھے روانہ ہوئے جب بقيع كے قبرستان ميں پہنچے تو فرمايا:'' ميں مامور ہوں كہ خداوند عالم سے اہل بقيع كے لئے طلب مغفرت كروں ''_پھر فرمايا'' اے زير خاك آرام كرنے والو تم پر ميرا سلام ہو، تم اطمينان و مسرت سے آرام كرو كہ تمھارا زمانہ ان لوگوں كے زمانہ سے زيادہ آسودہ ہے _ فتنے اندھيرى رات كے ٹكٹروں كى طرح بڑھ آئے ہيں '' پھر فرمايا '' على (ع) ہر سال جبرئيل (ع) ميرے پاس قرآن كو ايك مرتبہ پيش كرتے تھے اور اس سال دو بار انہوں نے پيش كيا اس لئے كہ ميرا وقت قريب آگيا ہے''(۱۹)

واقعہ قرطاس يا نا مكمل تحرير

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كے آخرى دن تھے ، جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آنكھيں كھوليں تو اپنے بستر كے ارد گرد چند اصحاب كو ديكھا جن كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق اس وقت لشكر اسامہ كے

۲۷۶

ساتھ ہونا چاہيئے تھا_ امت ميں اختلاف كى روك تھام كے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _'' كاغذ اور دوات لاؤ تا كہ ميں تمہارے لئے ايك چيز لكھ دوں كہ اس كے بعد گمراہ نہ ہوگے ''_ ان ميں سے ايك صاحب نے چاہا كہ اٹھ كر قلم دوات لے آئيں ليكن جناب عمر نے اظہار خيال فرمايا '' يہ ( پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب اشارہ)ہذيان بك رہے ہيں ، قرآن تمہارے پاس ہے اور كتاب آسمانى ہمارے لئے كافى ہے '' ايك گروہ نے عمر كا ساتھ ديا اور كچھ لوگوں نے ان كى مخالفت كى ، شور و غل بر پا ہوا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اٹھو اور ميرے گھر سے نكل جاؤ''_(۲۰)

ناتمام نماز

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى علالت كے دوران ايك دن حضرت بلال نے اذان دى اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر و دروازہ پر آكر آواز دى '' نماز خدا تمہارے اوپر رحمت نازل كرے'' _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت زيادہ بيمارتھے اس وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' لوگوں كو كوئي نماز پڑھا دے اس لئے كہ ميں بيمار ہوں''_ عائشےہ نے كہا كہ ابوبكر كو تلاش كرو اور حفصہ نے كہا عمر كو لاؤ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دونوں كى باتيں سنيں اور دونوں بيويوں سے كہا '' ان باتوں سے خود كو روكو كہيں تم ان عورتوں كى طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے يوسف كو گمراہ كرنا چا ہا تھا''_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شديد بيمارى كے عالم ميں اٹھے ، علي(ع) اور فضل بن عباس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دونوں شانوں كو سہارا دے ركھا تھا ، مسجد ميں تشريف لائے ، ابوبكر كو محراب ميں ديكھا كہ نماز كے لئے كھڑے ہوگئے ہيں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہاتھ سے اشارہ كيا كہ ہٹ جاؤ_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے ان كى نماز كومكمل نہ ہونے ديا اور دوبارہ نہايت مختصر نماز كا اعادہ كيا _ جب آپ-صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر تشريف لے گئے تو ابوبكر ،

۲۷۷

عمر اور دوسرے افراد كو بلوا بھيجا جب يہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے پوچھا كہ '' لشكر اسامہ كے ساتھ كيوں نہيں گئے؟ انہوں نے جواب ديا '' ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تجديد بيعت كے لئے لوٹ آئے اور ہم نے يہ نہيں چاہا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيمارى كى خبر دوسروں سے پوچھيں''(۲۱) _

وداع پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيمارى نے شدت اختيار كرلى ، فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بستر كے پاس بيٹھى ہوئي باپ كے نورانى اور ملكوتى چہرہ كو ديكھ رہى تھيں _جس پر بخار كى شدت كى بنا پر پسينہ كے قطرے جھلملار ہے تھے، جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوطالب عليہ السلام كا شعر جو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بارے ميں تھا پڑھا _

وَاْبيَضُ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بوجهه

ثمال اليتامى عصمة للارامل

يعنى : روشن چہرہ اس چہرہ كى آبرومندى كے وسيلہ سے بارش طلب كى جاتى ہے جو يتيموں كى پناہ گاہ اور بيوہ عورتوں كى نگہدار ى كرنے والا ہے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آنكھيں كھوليں اور فرمايا، بيٹى ، شعر نہ پڑھو ، قرآن پڑھو :

( وَ مَا مُحَمّد الاَ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مَنْ قَبْله الرُّسُل اَفانْ مَاتَ اَوقُتل انْقَلَبْتُمْ عَلَى اَعْقابكُمْ وَ مَنْ يَنْقَلبْ عَلَى عَقبَيْه فَلَنْ يَضُرَّ اللّهَ شَيْئاً وَ سَيَجْزى اللّهُ الشَّاكريْنَ ) (۲۲)

'' محمد نہيں ہيں مگر پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ، ان سے پہلے بھى بہت سے پيغمبر گزر چكے ہيں تو كيا اگر

۲۷۸

انكا انتقال ہوجائے يا قتل كرديئےائيں توكيا تم اپنے گزشتہ لوگوں كے عقائد كى طرف پلٹ جاؤ گے ؟ اور جو اپنے گزشتگان كے آئين كى طرف پلٹ جائے گا وہ خدا كو كوئي نقصان نہيں پہنچائے گا _ خدا شكر كرنے والوں كو نيك جزاء دے گا''_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آہستہ سے حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا كے كان ميں كوئي بات كہى آپ(ع) نے گريہ شروع كيا _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى بيٹى كى تكليف برداشت نہ كر سكے اور دوبارہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان(ع) كے كان ميں كوئي بات كہى تو جناب فاطمہ چپ ہوگئيں اور مسكرانے لگيں _

بعد ميں جب لوگوں نے جناب فاطمہ (ع) سے سوال كيا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ(ع) سے كيا كہا تھا كہ پہلى بار آپ(ع) روئيں اور دوسرى بار مسكرائيں ؟ آپ(ع) نے جواب ديا '' پہلى بار آنحضرت سے رحلت كى خبر سنى تو مغموم ہوگئي دوسرى بار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بشارت دى كہ اے فاطمہ ميرے اہل بيت (ع) ميں سے تم سب سے پہلے مجھ سے ملوگى اس پر ميں بشاش ہوگئي_(۲۳)

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى حيات كے آخرى لمحوں ميں على عليہ السلام كو بلايا اور فرمايا '' علي(ع) ميرا سر اپنى آغوش ميں لے لو كہ امر خدا آن پہنچا ہے''_

اے على (ع) جب ميں اس دنيا ميں نہ رہوں تو مجھے غسل دينا اور پہلى بار مجھ پر نماز پڑھنا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا سر علي(ع) كى گود ہى ميں تھا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحمت بارى سے جا ملے _

يہ عظيم حادثہ ۲۸/صفر ۱۱ ہجرى بروز پير بمطابق ۲۸ مئي ۶۳۲ ء كورونما ہوا(۲۴) _ ليكن مورخين اہل سنت كے مطابق پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت ۱۲ ربيع الاول سنہ ۱۱ ھ ق(۲۵) بمطابق ۱۰ جون سنہ ۶۳۲كو ہوئي_

حضرت على (ع) نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے پاكيزہ جسم كو غسل ديا، كفن پہنا يا اور نماز پڑھى اس عالم

۲۷۹

ميں كہ آنسو آپ(ع) كى آنكھوں سے رواں تھے اور فرمايا _

'' ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بيشك آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مرنے سے وحى كا سلسلہ منقطع ہو گيا ''_

وہ چيز جو دوسرے پيغمبروں كى موت كے بعد منقطع نہيں ہوئي ( يعنى نبوت و احكام الہى اور آسمانى خبريں) اگر آپ صبر كا حكم نہ ديتے اور نالہ و فغاں سے منع نہ فرماتے تو ميں آپ (ع) كے فراق ميں اتنا روتا كہ ميرے اشكوں كا سرچشمہ خشك ہو جاتا _(۲۶)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كى خبر نہايت تيزى سے مدينہ ميں پھيل گئي ، علي(ع) جب غسل و كفن ميں مشغول تھے اس وقت ايك گروہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جانشين كا مسئلہ حل كرنے كے لئے سقيفہ(۲۷) ميں الجھ رہا تھا _غسل دينے كے بعد پہلے علي(ع) نے نمازپڑھى پھر مسلمان دستہ دستہ آتے گئے اور نماز پڑھتے گئے ، پھر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كو مسجد كے پہلو ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر ميں دفن كرديا گيا_(۲۸)

يہ نور ہرگز نہيں بجھے گا

پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دار بقاء كى طرف روانہ ہوگئے ، ليكن يہ نور نہ تو گل ہوا ہے اور نہ ہوگا_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا آئين مشعل ہدايت كى طرح بشر كے لئے تاريك راستوں ميں راہنما ہے اور كروڑوں ، اربوں انسان صديوں سے اسے آئين كے پيرو ہيں_

آج بھى روزانہ ايك ارب سے زيادہ مسلمان سارى دنيا ميں كروڑوں بار '' اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمدرسول اللہ '' كى آواز گلدستہ اذان سے سن رہے ہيں اور بے پناہ محبت كے ساتھ اس آواز كے دلبر با ترنم كو اپنى زبان پر جارى كرتے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) پر درود بھيجتے

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298