تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي20%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 162653 / ڈاؤنلوڈ: 3888
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

كيلئے سزا معين كى اور انہيں قتل كرديا يہ ايك سياسى حكم تھا اس وقت اس كا جارى كرنا حكومت كيلئے ان كے اسلام لانے سے بہتر تھا_

شورشوں كا دباجانا

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى زندگى كے آخرى دنوں ميں اسامہ كے ہمراہ لشكر روانہ كرنے كى ہر ممكن كوشش كى مگر اس خدمت كو ابوبكر نے انجام نہ ديا اس لشكر كے روانہ كئے جانے كے بعد خليفہ وقت اور ان كے ہمنوا افراد نے كوشش كى كہ جتنى بھى شورشيں اس وقت ابھرى تھيں يكے بعد ديگر ے دبادى جائيں _

طليحہ' سجاح' مسيلمہ اور اياس بن عبداللہ ان لوگوں ميں سے تھے جنہوں نے يا كسى گوشے ميں پيغمبرى كا دعوا كيا يا سركشى كى ، قتل كرديئے گے يا انہوں نے فرار كى راہ اختيار كى _ جنوب اور مشرق ميں آبا د قبائل اور وہاں كے شہروں ميں آباد لوگ دوبارہ مدينہ كے مطيع و فرمانبردار ہوگئے كيونكہ انہوں نے اس بات كو سمجھ ليا تھا كہ خانہ جنگى سے كوئي فائدہ نہيں بلكہ مصلحت اس ميں ہے كہ مركزى حكومت كى اطاعت قبول كرليں _

حضرت فاطمہعليه‌السلام كى وفات

جس سال رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انتقال ہوا اسى سال آپ كى اكلوتى بيٹى فاطمہ زہراعليه‌السلام نے بھى وفات پائي باپ كى موت اور مختصر مدت كے بعد جو سانحات پيش آئے انہوں نے فاطمہ زہراعليه‌السلام كے جسم و روح كو غمگين بناديا _

حضرت زہراعليه‌السلام كے دل ودماغ پر ان واقعات كا ايسا گہرا اثر ہوا كہ آپ كے فرمانے كے بموجب اگر يہ مصائب وآلام دنوں پر پڑتے تو رات كى تاريكى ميں تبديل ہوجاتے _(۲۵) ان

۶۱

صدمات كى تاب نہ لاكر صاحب فراش ہوگئيں ، وہ لوگ جو پيغمبرا كرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خاطر جان بكف رہا كرتے تھے اور ان كے پاس جو كچھ تھا وہ آپ كے والد محترمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وجود كى بركت سے ہى تھا اب ايسے پھرے كہ ان ميں سے چند ہى آپ كى عيادت كو آئے_

جناب صدوق اس ضمن ميں فرماتے ہيں : مہاجر وانصار كى كچھ خواتين آپ كى عيادت كے لئے گئيں آپ نے اس وقت كو غنيمت جانا اور اس موقعے پر جو خطبہ ارشاد فرمايا اس كے بعض اہم اقتباسات يہاں كئے جاتے ہيں :

افسوس تمہارے مردوں نے خلافت كو رسالت كى پائيگاہ، نبوت كى اقامت گاہ اور منزل وحى سے الگ كرديا اور دنيا ودين كے ماہروں سے زمام خلافت چھين ليں يقينا اس ميں انكا سراسر نقصان ہے انہيں ابوالحسنعليه‌السلام سے كيا عداوت تھي_

جى ہاں : انہےں علىعليه‌السلام كى راہ خدا ميں برہنہ شمشير، دليرى اور شجاعت كا خوف تھا_

قسم خدا كى اگر خلافت كو علىعليه‌السلام كے ہاتھ سے نہ ليا ہوتا تو ان كے امور و مسائل كو حل كرنے ميں وہعليه‌السلام خود حصہ ليتے اور انتہائي رضا و رغبت سے شادمانى وكامرانى كى جانب انہيں ہدايت كرتے، تشنگان عدل وانصاف آپ كے چشمہ داد و عدالت سے سيراب ہوتے محروم ولاچار لوگ ان كى پناہ صولت ميں دلير و شير دل ہوجاتے _(۲۶)

بنت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب تك علالت كے باعث صاحب فراش رہيں(۲۷) كسى شخص نے آپكے چہرے پر شادابى اور مسكراہٹ نہ ديكھى آپ ہفتے ميں دو مرتبہ (پير اور جمعرات) شہداء كے مزارات پر جاتيں اور ان كے لئے دعائے خير فرماتےں _(۲۸)

اور بالاخر ہجرت كے گيارہوےں سال ميں بتاريخ سوم جمادى الآخر اٹھارہ سال كى عمر ميں آپ نے اس جہان فانى سے كنارہ كرليا اور اپنے والد بزرگوار كے پاس پہنچ گئيں _(۲۹)

حضرت علىعليه‌السلام نے دختر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غسل ديا نيز آپ كى وصيت كے مطابق خواص كے علاوہ ديگر افراد كى غير موجودگى ميں نماز جنازہ ادا كى اور راتوں رات آپ كے جسد مطہر كو سپرد خاك كركے

۶۲

قبركے نشان كو محو كرديا اس كے بعد آنحضرتعليه‌السلام نے مزار پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب رخ كيا اور فرمايا:

يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرى اور اپنى دختر كى جانب سے جواب آپ كے جوار ميں پہنچ گئي ہيں اور بہت جلد آپ سے جاملى ہيں سلام قبول فرمايئے اور يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ كى برگزيدہ و پاك دختر كى جدائي كے باعث ميرا پيمانہ صبر لبريز ہوچكا ہے اور اب مجھ ميں غم برداشت كرنے كى تاب نہيں

آپ كے پيارى بيٹى جلد ہى آپ كو مطلع كرديں گى كہ آپ كى امت نے ان پر ستم رواركھنے كى غرض سے كيا كيا باہمى سازشيں نہ كيں ان پر جو كچھ گذرى انہى كى زبانى سنيئے اور يہ وقت كس طرح گذرا اس كى كيفيت انہى سے دريافت فرمايئے اگرچہ آپ كى رحلت و زمانہ حيات كے درميان كافى عرصہ نہيں گذرا ہے اور آپ كى ياد دلوں سے بھى محو نہيں ہوئي ہے_(۳۰)

-

۶۳

سوالات

۱ _ حضرت علىعليه‌السلام كے گھر ميں كن لوگوں نے پناہ لى اور كيوں ؟

۲ _ واقعہ سقيفہ كے بعد حضرت عليعليه‌السلام كا كيا موقف رہا ؟ اس حساس كيفيت كى وضاحت كيجئے ؟

۳ _ حضرت علىعليه‌السلام كے اقوال كى روشنى ميں كنارہ كشى كے اسباب بيان كيجئے ؟

۴ _ حضرت علىعليه‌السلام نے خليفہ وقت سے كس وقت مصالحت كى تھى ؟

۵ _ فدك كہاں واقع ہے يہ مسلمانوں كے ہاتھ كس طرح آيا اور رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے زمانہ حيات مےں كسے بخشا ؟

۶ _ فدك پر قابض ہونے كے محركات بيان كيجئے ؟

۷ _ ابوبكر كى حكومت كے مقابل اہل '' ردہ '' كا كيا ردعمل رہا كيا وہ سب مرتد ہو گئے تھے ؟

۸ _ مرتدين كے ساتھ جنگ كرنے ميں ابوبكر كے پيش نظر كيا محركات تھے اس بارے ميں خليفہ ثانى كا بھى نظريہ پيش كيجئے ؟

۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى وفات كس سنہ ميں واقع ہوئي رحلت كے وقت آپ كى كيا عمر تھى آپ كى تكفين و تدفين كى رسومات كس طرح ادا كى گئيں ؟

۶۴

حوالہ جات

۱ _ جن حضرات كے نام ديئے گئے ہيں ان مےں زبير ' عباس بن ابى لہب ' سلمان ' ابوذر ' مقداد عمار، براء ' ابى بن كعب'سعد بن ابى وقاص اور طلحہ شامل ہيں ليكن الفصول المہمة ميں ان افراد كے علاوہ ديگر حضرات كے نام بھى درج ہيں _

۲ _ الامامة والسيلة ج۱ / ۲۰ _

۳ _ الامامة والسيلمة ج۱ / ۱۹_

۴ _ الشيعة والى كمون / ۱۸ _

۵ _لو وجدت اربعين ذويى عذم منهم لنا هضت القوم شرح ابن ابى الحديد ج۲ / ۴۷ و ۲۲

۶ _ نہج البلاغہ (صبحى صالح)خلبہ ''فنظرت فاذا ليس معين الا اهل بيتيى فضنت بهم عن الموت _

۷ _ اس جماعت نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد اسلام كى مركزى حكومت كے خلاف بغاوت شروع كر دى اور ايك مدت اس كے حملے جارى رہے _

۸ _ نہج البلاغہ خطبہ ج'' شقوا امواج الفتن بسفن النجاة ، عرجوا عن طريق المناضرة وضعوا بتيجان المفاخرة اندمجت على مكنون علم لوبحت به لاضطربتم الاشية فى الطوى البيصره'' _

۹ _'' وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ومن ينقلب على عقبيہ فلن يضراللہ شيئا وسيجزى اللہ الشاكرين'' (محمد اس كے سوا كچھ نہيں كہ بس ايك رسول نہيں ان سے پہلے اور رسول بھى گذر چكے ہيں كيا اگر وہ مر جائيں يا قتل كر ديئے جائيں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤں گے ؟ ياد ركھو جو الٹا پھرے گا وہ اللہ كا كچھ نقصان نہ كرے گا البتہ جو اللہ كے شكر گزار بندے بن كر رہيں گے انھيں وہ اس كى جزادے گا)آل عمران آيہ ۱۴۴_

۱۰ _ نہج البلاغہ خط ۶۲ _

''فامسكت يديى حتى رايت راجعة الناس قد رجعت عن الاسلام يدعون الى محق دين محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فخشيت ان لم انصر الاسلام واهله ان ارى فيه ثلما اوهدما تكون المصيبة به على اعظم من فوت ولايتكم التى هيى متاع ايام قلائل يزول منها ماكان كما يزول السراب اوكما يتقشع السحاب '' _

۶۵

۱۱ _ تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو اسد الغابہ ج۳ / ۲۲۲ ' تاريخ يعقوبى ۲ / ۱۲۶ ' استيعاب ج۲ / ۲۴۴ ' التنبيہ والا شراف / ۲۵۰ اور الامامة والسيامة ج۱ / ۲۰ _

۱۲ _ نہج البلاغہ خطبہ ۳، يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى مصالحت اور اجتماعا ميں شركت اسى حد تك تھى كہ جتنى اسلام و مسلمين كى حفاظت كا تقاضا تھا _

۱۳ _فدك خيبر كے نزديك مدينہ سے ۱۴۰ كلوميٹر كے فاصلے پر سرسبز و زرخيز زمين تھى فتح خيبر كے بعد رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك وفد ''فدك'' كے سرداروں كے پاس بھيجا اور بحث و گفتگو كے بعد وہاں كے رہنے والوں نے يہ عہد كيا كہ ہر سال خيبر كى جتنى پيداوار ہوگى اس كا نصف حصہ وہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيج ديا كريں گے اور اس كے عوض حكومت كى جانب سے ان كى حفاظت كى جائے گي_اسلامى نظريے كے مطابق وہ زمين جو بغير جنگ كے مسلمانوں كو حاصل ہوتى ہے وہ خالص پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و امامعليه‌السلام كا حصہ ہے اس مسئلے كى رو سے ''فدك'' صرف رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا حق تھا چنانچہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى شيعہ محدثين و مفسرين نيز بعض سنى مفكرين كے قول كے مطابق جس وقت آيت ذالقربى حقہ (سورہ اسراء آيت ۲۶) نازل ہوئي تو آپ نے اپنى دختر حضرت فاطمہعليه‌السلام كو بلايا اور ''فدك'' انہيں ديديا(كشف الغمہ ج ۱ / ۷۶ ۴) _

۱۴_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۳۱_

۱۵_ مروج الذہب ج ۳/ ۲۳۷_

۱۶_ فتوح البلدان ۴۴ شيعہ احاديث ميں مذكورہ بالا شواہد كے علاوہ اسماء بنت عميس كا نام بھى شاہد كى حيثيت سے آيا ہے_

۱۷_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۲۲_

۱۸_ اعيان الشيعہ (دس جلدي) ج۱/۳۱۸ منقول از سيرہ حلبي_

۱۹_ كامل ابن اثير ج ۲ / ۳۲۶ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/ ۴۵ _

۲۰_ تاريخ طبرى ج۳/۲۰۲_

۲۱_ زيد بن ثابت كچھ رقم لے كر بنى عدى كى ايك خاتون كے پاس پہنچے اور كہا كہ يہ وہ رقم ہے جو خليفہ نے عورتوں كے درميان تقسيم كى ہے اور يہ تمہارا حصہ ہے اس نيك خاتون نے اپنى ذہانت كے باعث اس رقم كو قبول

۶۶

كرنے سے انكار كيا اور كہا كيا ميرا دين خريدنے كے لئے مجھے يہ رشوت دى جارہى ہے _ (شرح ابن ابى الحديدج۲/۵۳، طبقات ابن سعد ج ۳/۱۸۲)_

۲۲_البدايہ والنہايہ ج ۶ /۳۱۱ قال عمر ھو الاّ ان را يت اللہ قد شرح صدر ابى بكرللقتال فعرفت انہ الحق ''ليكن صحيح بخارى ج ۷/ ۱۷۱ ميں عمر كا جملہ اس طرح نقل كيا ہے فواللہ ما ہو الا ان قد شرح اللہ صدر ابى بكر فعرفت انہ الحق ''_

۲۳_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۱_

۲۴_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۲_

۲۵_ صبت على مصائب لوانہاصبت على الايام صرن لياليا

۲۶_احتجاج طبرسى ج ۱/ ۱۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج /۱۶ / ۲۳۳، بلاغات النساء /۱۹ اور دلائل الامامہ طبري/ ۳۹_

۲۷_ حضرت فاطمہعليه‌السلام كتنے عرصے تك عليل رہيں اس كے بارے ميں اختلاف ہے ابن شہر آشوب نے مناقب ميں بيان كيا ہے كہ آپ چاليس دن تك مريض رہيں اور اسى مرضى كے باعث آپ كى وفات واقع ہوئي حضرت امام باقرعليه‌السلام سے مروى ہے كہ آپ پندرہ تك عليل رہيں اور اس كے بعد آپ كى رحلت ہوئي_(اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹)_

۲۸_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹_

۲۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى تاريخ وفات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد آپ كى مدت عمر كے بارے ميں اختلاف ہے كتاب كے متن مےں جو بات درج كى گئي ہے وہ اقوال مشہور كے مطابق ہے مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت فاطمہ(س)رحلت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد كم از كم چاليس دن اور زيادہ سے زيادہ آٹھ ماہ اس جہان فانى ميں تشريف فرما رہيں مذكورہ بالا دونوں اقوال كے علاوہ مختلف روايات ميں دو ماہ سے پچھتر دن ' تين ماہ اور چھ ماہ عرصہ بھى نقل كيا گيا ہے _

۳۰ _ نہج البلاعہ (صبحى صالح)خ ۲۰۲ _

۶۷

چوتھا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳

سر زمين شام و عراق كى فتح

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

حضرت علىعليه‌السلام ، اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

جانشينى كا تعين

قلمر و اسلام كى وسعت

فتوحات كى خوشنجريوں كے اثرات

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى و علمى مشورے

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

بيت المال كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

خليفہ دوم كا قتل

كونسى شورى ؟

مذكورہ شورى كے بارے ميں عليعليه‌السلام كا رويہ

حضرت علىعليه‌السلام كى شركت اور اس كى وجہ

۶۸

عثمان كى خلافت

مسلمانوں كا بيت المال

حضرت علىعليه‌السلام كے پند و نصايح

خليفہ سوم كا قتل

حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں عثمان كا قتل

پچيس سالہ حكومت خلفاء كے دوران علىعليه‌السلام كے كارنامے

سوالات

حوالہ جات

۶۹

سرزمين شام و عراق كى فتح

داخلى جنگوں كى آگ جب خاموش ہو گئي تو خليفہ وقت نے دو اہم لشكر تيار كيئے ان ميں سے ايك لشكر خالد كے زير فرمان عراق كى جانب روانہ كياجس پر اس وقت ساسانى حكومت كا اثر و غلبہ تھا اور دوسرا لشكر ابو عبيدہ كى سركردگى ميں شام كى سمت ' مشرقى روم كى جانب روانہ كيا _

خالد سب سے پہلے '' حيرہ '' كى طرف متوجہ ہوا ليكن وہاں كے حاكم نے صلح و امن كا طريقہ اختيار كيا اور نوے ہزار درہم ادا كر كے اپنے ملك كے تابع سرزمين كو مسلمين كى در ازدستى سے بچا ليا حيرہ كے بعد '' آبلہ '' '' عين التمر '' اور '' انبار '' جيسے شہر جنگ يا معاہدہ صلح كے ذريعے تابع و مطيع كئے گئے _

عراق كى جانب جب لشكر روانہ كيا گيا تھا تو وہ كاميابى سے ہمكنار ہوا مگر جو لشكر رومى شانہشاہيت كے متصرفات كو فتح كرنے كى غرض سے بھيجا گيا تھا اس كے بارے مےں احتمال تھا كہ كہيں شكست سے دو چار نہ ہو اس خدشے كے پيش نظر ابوبكر نے خالد كو عراق سے واپس بلا ليا اور مسلمانوں كى مدد كے لئے انھيں شام كى جانب جانے پر مقرر كيا خالد كے چلے جانے كے بعد قبيلہ بكر كے سردار مثنى نے لشكر عراق كے ماندارى كى ذمہ دارى قبول كى اور حيرہ سے بابل (يہ شہر موجودہ حلہ كے نزديك واقع تھا)كى جانب روانہ ہوئے خالد جب اپنا مختصر لشكر اسلام لے كر '' يرموك '' پہنچے تو لشكر اسلام كو اس سے بہت فرحت حاصل ہوئي اور بے مثال بہادرى و دليرى سے جنگ كر

۷۰

كے انہوں نے سپاہ روم كو شكست دى چنانچہ انھوں نے پسپا ہو كر دمشق ميں پناہ لى _

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

ابوبكر اگرچہ مسند خلافت پر متمكن ہو گئے ليكن مہاجر و انصار كى نظروں ميں ان كا شمار افضل و اعلى دانشور صحابہ رسول ميں نہيں ہوتا تھا مثلا تفسير قرآن مجيد كے وہ قابل اعتناء توجہ مطالب بيان نہےں كر سكتے تھے چنانچہ جلال الدين سيوطى جيسا تتبع مفسردس سے زيادہ تفسير و مطالب تفسير ان سے نقل نہےں كر سكا ہے جبكہ وہى مفسر حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں لكھتا ہے كہ علم تفسير ميں آپ كى بہت سے روايات بيان كى گئي ہيں _(۵)

حنبلى مسلك كے پيشوا مام احمد بن حنبل كو دس لاكھ احاديث ياد تھيں ''(۶) مسند'' ميں انہوں نے پچاس ہزار سات سو احاديث نقل كى ہيں او جو احاديث انہوں نے ابوبكر كے واسطے سے نقل كى ہيں ان كى تعداد اسى (۸۰) سے كم ہى ہے(۷)

ابن كثير نے بہت زيادہ تلاش و جستجو كے بعد ابوبكر سے منقول بہتر (۷۲) احاديث جمع كى ہےں اور انھيں ''مجموعہ مسند صديق '' كا نام ديا ہے جلال الدين سيوطى كى علم تفسير و احاديث پر كافى دسترس تھى اس نے مجموعہ ابن كثير كا سند كے اعتبار سے جايزہ ليا ہے اور ان كى تعداد كو اس نے ايك سو چار تك پہنچا ديا ہے(۸)

حضرت علىعليه‌السلام ' اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

اوپر جو بيان كيا گيا ہے اس كے پيش نظر ابوبكر كے لئے علمى ہى نہيں بلكہ سياسى مشكلات ميں بھى اس كے سوا چارہ نہ تھا كہ ضرورت كے وقت حضرت علىعليه‌السلام سے رجوع كريں اور آپ سے مدد چاہيں اور يہ بات اس امر كى واضح دليل ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كتاب خدا ،حديث رسولعليه‌السلام اور اسلام

۷۱

كے سياسى مصالح كے بارے ميں سب سے زيادہ باخبر ، ذى ہوش شخص تھے مثال كے طور پر ہم يہاں دو واقعے بيان كر رہے ہيں _

اہل روم سے جنگ كرنے كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خود فرمان تھا اسے نافذ كرنے مےں ابوبكر كو تردد تھا اس سلسلے ميں انہوں نے بعض صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مشورہ بھى كيا چنانچہ ہر شخص نے اس سے متعلق اپنى رائے كا اظہار كيا بالاخر انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے مشورہ كيا اور رائے جاننا چاہى آپ نے پيغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كو نافذ كئے جانے كى ترغيب دلائي اور مزيد فرمايا '' ان فعلت ظفرت '' يعنى اگر آپ يہ اقدام كريں گے تو كامياب ہوں گے خليفہ نے بھى آپ كے كہنے پر عمل كيا _(۹)

۲ _ ايك شخص نے شراب پى ركھى تھى نشہ كى حالت ميں اسے خليفہ كے روبرو لايا گيا اس شخص نے كہا مجھے علم نہ تھا كہ شراب پينا حرام قرار ديا گيا ہے كيونكہ اب تك ميں نے اس ماحول ميں پرورش پائي ہے جہاں شراب كو حلال سمجھا جاتا ہے خليفہ كى سمجھ ميں نہيں آيا كہ كيا كريں چنانچہ انہوں نے ايك شخص كو حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں روانہ كيا اور كہا كہ اس مشكل كو حل فرمائيں _(۱۰)

جانشينى كا تعين

عمر نے ابوبكر كو خليفہ بنانے كے لئے بہت زيادہ سعى وكوشش كى جس كا مقصد يہ تھا كہ خليفہ اول كے بعد خلافت ان كو ملے ، ابوبكر نے بھى ان كى مرضى كے خلاف كوئي اقدام نہ كيا_ جس وقت بستر علالت پر وہ تھے تو انہوں نے عثمان كو بلايا اور كہا لكھو:

يہ عہد نامہ ابوبكر جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مسلمانوں كے لئے ہے بات يہيں تك پہنچى كہ ابوبكر پر غشى طارى ہوگئي عثمان كو يہ گمان گذرا كہ شايد خليفہ گذر گئے ہيں چنانچہ انہوں نے اس عہدنامے كى اس طرح تكميل كي_ ابوبكر نے اپنے بعد عمر بن خطاب كو اپنا جانشين مقرر كيا ہے _ اسى اثناء ميں ابوبكر كو ہوش آگيا اور جب انہيں يہ معلوم ہوا كہ عثمان نے كيا لكھا ہے تو انہوں نے كہا ''تم نے

۷۲

ٹھيك لكھا ہے اس معاملے ميں ميرى اور تمہارى ايك ہى رائے ہے_ (۱۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے نہج البلاغہ ميں ابوبكر كے اس اقدام پر سخت تنقيد كى ہے _ چنانچہ فرماتے ہيں ''عجيب بات ہے كہ وہ شخص جو زندگى ميں لوگوں سے كہا كرتا تھا كہ وہ ميرا عذر قبول كريں اور (علىعليه‌السلام كے ہوتے ہوئے) اس كو خلافت سے معذور ركھيں خود مرتے وقت خلافت (كى دلہن) كا پلا دوسرے سے باندھ گيا _(۱۲)

قلمرواسلام كى وسعت

عمر كے دور خلافت ميں مسلمانوں كو بہت سى فتوحات نصيب ہوئيں اور ايران و روم جيسى دو عظےم شہانشاہى حكومتوں كے دروازے ان پر كھل گئے_

عراق ميں مسلمانوں نے جس تيزى سے پيشرفت كى اس كے باعث انہيں يہ اميد نظر آنے لگى كہ ساسانى حكومت كے اصل سرزمين پر بھى وہ حملہ كرسكيں گے چنانچہ عمر نے ابوعبيدہ كو ايران كى فتح كے لئے فرماندار مقرر كيا اور مثنى چونكہ عراق ميں مقيم تھے انہيں حكم ديا كہ وہ اپنے لشكر كے ساتھ ابوعبيدہ كى اطاعت و پيروى كريں _

ايران كے بادشاہ ''يزدگرد سوم'' نے اپنے سرداروں كو كثير طاقت جمع كرنے كے بعد حكم ديا كہ وہ مسلمانوں كى پيشرفت كو روكيں اگرچہ اس كے سردار ہر چند لايق و جنگجو تھے مگر وہ سب ايك دوسرے كے بعد يا تو قتل ہوئے يا انہوں نے لشكر اسلام سے صلح كرلي_ ايرانى سرداروں ميں بہمن جادويہ ہى ايسا سردار تھا جو مطيع و فرمانبردار نہ ہوا چونكہ اس كى فوج ہاتھيوں كے لشكر سے آراستہ تھى جنہيں ديكھ كر عربوں كے گھوڑے بھڑك گئے چنانچہ ''جسر'' ميں ابوعبيدہ شہيد ہوئے اورباقى لشكر نے پسپا ہوكر فرات كے پار جاكر پناہ لي_

ليكن ايك سال بعد(۱۴ ھ) ميں سپاہ اسلام نے مثنى كے زير فرمان ''بويب(۱۲) '' ميں سپاہ ايران پر فتح پائي اور اس سے جنگ جسر كى شكست كى تلافى ہوگئي_

۷۳

اس كے بعد قادسيہ وقوع پذير ہوئي اس سے قبل كہ جنگ شروع ہو ايرانى اور اسلامى افواج كے سپہ سالاروں (سعد وقاص اور رستم فرح زاد) كے درميان ايلچيوں كے ذريعے گفت وشنيد ہوتى رہى _ ايلچيوں كى اس ملاقات ميں سپاہ اسلام كے سپہ سلار نے بھى مطالبہ كيا كہ دو چيزوں ميں سے ايك چيز قبول كى جائے، اسلام يا جزيے كى ادائيگى _ ليكن رستم فرح زاد جو بڑا خود سر سردار تھا يہى كہتا رہا كہ جس وقت تك ہم تمہيں قتل نہ كرديں گے دم نہ ليں گے_

بالآخر چار دن كى جنگ كى بعد مسلمان فتح و كامرانى سے ہمكنار ہوئے اور اس طرح محرم سنہ ۱۴ ھ ميں ايران كے دروازے لشكر اسلام پر كھل گئے اور نور ايمان وتوحيد نے اس سرزمين كو اپنى آمد سے منور كيا_

دوسرى طرف شہنشاہ روم كى فوج نے يرموك ميں اپنى شكست كے بعد دمشق ميں پناہ لى اور اپنى اس شكست كے تلافى كرنے كى غرض سے اس نے عظےم فوجى طاقت جمع كى ليكن يہ لشكر بھى شكست سے دوچار ہوا اور مسلمانوں نے دمشق و اردن جيسے شہروں پر فتح پائي_ سنہ ۱۷ ميں مسلمانوں نے فلسطين كو بھى جو فوجى اور تاريخى لحاظ سے اہم شہر تھا ، تسخير كيا_ ۱۹ ھ ميں عمر وعاص نے بحر احمر كو عبور كركے مصر كى جانب رخ كيا_''بابليوں '' ميں باز نطينى سپاہ سے مقابلہ ہوا اس ميں بھى لشكر اسلام كو كاميابى نصيب ہوئي _ وہاں سے وہ عين الشمس اور روم كى جانب روانہ ہوا تاكہ شہنشاہ روم كى رضايت حاصل كركے اسكندريہ پہنچ جائے _ چنانچہ چند ماہ كے محاصرے كے بعد اسكندريہ كو بھى فتح كرليا اور اس طرح شمالى افريقہ كے لئے راستہ ہموار ہوگيا_

فتوحات كى خوشخبريوں كے اثرات

مغايرت و مخالفت سے قطع نظر جو محركات خلفاء كے زمانے ميں ان فتوحات كے ذريعے مسلمانوں كو ہوئے اگر ان كا موازنہ ان جنگوں اور فتوحات سے كياجائے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں ظہور پذير ہوئيں تو اس نكتے كو ملحوظ خاطر ركھنا ضرورى ہے ، ان فتوحات سے يہ ثابت نہيں ہوتا

۷۴

كہ ان كے باعث دربار خلافت كى شان وشوكت ميں اضافہ ہوا ، اس ميں شك نہيں كہ ايك طاقتور و فاتح فوج كو اعلى مقاصد ، حوصلہ مندانہ آمادگى ، فن حرب وضرب سے واقفيت اور فوجى تربيت جيسے عوامل و اوصاف كا مجموعہ ہوناچاہئے مگر اس كا چندان ربط و تعلق موجودہ سپہ سالاروں سے نہيں تھا _ مسلمانوں كى فتح وكامرانى ميں جو عوامل كار فرما تھے اور انہيں دو عظيم شہنشاہى حكومتوں سے قوت آزما ہونے كيلئے ترغيب دلاتے تھے، وہ پيغمبرا كرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى يہ خوش خبرى تھى كہ مسلمان ايران اور وم جيسى سرزمينوں كو فتح كريں گے ان كے علاوہ بھى ديگر ايسے عوامل تھے جن سے مسلمانوں كى ميدان جنگ ميں حوصلہ افزائي ہوتى تھى مگر انكا تعلق كسى طرح بھى حكومت وقت سے نہ تھا بلكہ ان ميں وہ شہرت ونيك نامى كے عناصر كار فرماتھے جو رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شير خدا علىعليه‌السلام جيسے پيشوايان اسلام نے اپنے كردار كے ذريعے قائم كئے تھے_

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى وعلمى مشورے

حضرت علىعليه‌السلام خليفہ اول كى طرح خليفہ دوم كے بھى اہم مشكل كشا تھے اور ان كى بھى سياسى و علمى مشكلات كو حل فرماتے تھے يہاں ہم بطور مثال دو واقعات پيش كررہے ہيں _

جنگ قادسيہ ميں سپاہ ايران كى شكست كے بعد ايران كے بادشاہ يزدجرد نے فيروزان كے كمانڈرى ميں عظيم لشكر مرتب كيا تاكہ وہ آيندہ عربوں كے حملات كا سد باب كرسكے ، كوفہ كے حاكم نے خط كے ذريعے تمام واقعات كى اطلاع خليفہ كو دى ، عمر مسجد ميں آئے اور اصحاب سے مشورہ كيا كہ وہ مدينہ ميں ہى رہيں يا اس علاقے ميں پہنچ كر جو بصرہ وكوفہ كے درميان واقع ہے ، سپاہ اسلام كى كمان سنبھاليں _ عثمان اور طلحہ نے دوسرے نظريے كى تائيد كى اور اس ضمن ميں مزيد كہا كہ آپ سرداران سپاہ شام ويمن كو لكھيں كہ وہ آپ سے ملحق ہوں _ ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے دونوں ہى نظريات كى مخالفت كى اور فرمايا كہ وہ شہر جو حال ہى ميں مسلمانوں كے تصرف ميں آئے ہيں انہيں فوج سے خالى نہيں رہنا چاہيئےيونكہ ايسى صورت ميں ممكن ہے كہ حبشہ كى فوج يمن پر اور روم كا لشكر

۷۵

شام پر قبضہ كرلے _ عمر كى پہلى تجويز كے بارے ميں بھى آپ نے مشورہ ديا اور فرمايا كہ اگر آپ مدينہ سے باہر چلے جائيں گے تو ممكن ہے كہ اطراف كے اعراب اس موقع كا فائدہ اٹھائيں اور يہاں كوئي فتنہ بپا كريں اس كے علاوہ اگر آپ محاذ جنگ پر پہنچيں گے تو دشمن جرى ہوجائے گا كيونكہ جب عجمى سپاہى آپ كو ديكھيں گے تو كہيں گے كہ عربوں كى جڑ بنياد يہى شخص ہے گر اس كو كاٹ ڈاليں تو سارا جھگڑا ہى پاك ہوجائے گا_

حضرت علىعليه‌السلام كى بات سننے كے بعد عمر نے روانگى كے خيال كو ترك كرديا اور كہا كہ قابل عمل رائے علىعليه‌السلام كى ہے مجھے انہى كى پيروى كرنى چاہيئے_(۱۳)

ايك شخص خليفہ كے پاس آيا اور شكايت كى كہ ميرى بيوى كے يہاں شادى كے چھ ماہ بعد ولادت ہوئي ہے عورت نے بھى اس بات كو قبول كيا اس پر خليفہ نے حكم ديا كہ اسے سنگسار كياجائے ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے حد جارى كرنے سے منع كيا اور فرمايا كہ قرآن كى روسے عورت چھ ماہ پورے ہوجانے پر وضع حمل كرسكتى ہے كيونكہ مدت حمل اور شيرخوار تيس ماہ معين ہے_(۱۴)

اور دوسرى آيت ميں دودھ پلانے كى مدت دوسال بتائي گئي ہے _(۱۵) اور اگر تيس ماہ ميں سے دو سال كم كرديئے جائيں تو مدت حمل چھ ماہ رہ جاتى ہے _ حضرت علىعليه‌السلام كى منطقانہ گفتگو سننے كے بعد عمر نے كہا''لو لا على عليه‌السلام لهلك عمر'' _''اگر علىعليه‌السلام نہ ہوتے تو عمر ہلاك ہوجاتا''_(۱۶)

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

ابوبكر و عمر كے زمانہ خلافت ميں بنى ہاشم اور حضرت علىعليه‌السلام كے ہوا خواہوں كو عملى طور پر حكومت كے اہم عہدوں سے دور ركھا گيا اور يہ كوشش كى گئي كہ اس زمانے كہ دل ودماغ سے اہل بيتعليه‌السلام كى اعلى اقتدار كو محو كردياجائے_

اس كے مقابل اموى گروہ بتدريج معاشرے كى رہبرى ميں اثر رسوخ پيدا كرتا رہا _ اس

۷۶

نظريے كے بہت سے تاريخى شواہد موجود ہيں جن ميں سے چند كا ذكر ذيل ميں كياجاتا ہے_

۱_ ابوبكر نے اس زمانے كى وسيع وعريض مملكت ميں سے چھوٹا سا حصہ بھى بنى ہاشم ميں سے كسى كو نہيں ديا كہ جبكہ شام كو سياسى اہميت حاصل ہونے كے باوجود ابوسفيان كے بيٹے يزيد كے اختيار ميں ديديا تھا _(۱۷)

۲_ عمر ''حميص'' كى حكومت حضرت ابن عباس كو دينے سے منصرف ہوگئے جبكہ معاويہ كو شام پر مسلط كرنے كے سلسلہ ميں كسى قسم كا دريغ نہيں كيا _

۳_ محض چند لوگوں كى اس شكايت پر كہ عمار ياسر ايك ضعيف انسان ہيں خليفہ دوم نے كوفہ كى گورنرى سے انہيں معزول كيا اور مغيرہ كو گورنر مقرر كيا چند روز بعد مغيرہ كى بھى شكايت پہنچى ليكن اس كا ذرہ برابر اثر نہ ہوا_(۱۸)

خليفہ اول و دوم اگرچہ ابوسفيان سے بہت زيادہ خوش نہ تھے اور اسى وجہ سے انہوں نے اموى خاندان كے افراد كو حد سے زيادہ سياسى امور ميں داخل ہونے نہيں ديا مگر اس كا ميدان انہوں نے عثمان كے زمانہ خلافت ميں ہموار كرديا تھا _ مثلاً عمر جانتے تھے كہ شورى جس كى انہوں نے تشكيل كى ہے اس كانتيجہ يہ برآمد ہوگا كہ عثمان كو خليفہ منتخب كرلياجائے گا چنانچہ اس نے خود بھى يہ بات كہہ دى تھى كہ اگر عثمان حاكم ہوئے تو وہ بنى اميہ كو لوگوں پر مسلط كرديں گے_(۱۹)

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

جيسا كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تاريخ حيات ميں بيان كياجاچكا ہے كہ آپ نے اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں چاہا تھا كہ امت كے لئے ايك نوشتہ لكھ ديں تاكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد وہ گمراہ نہ ہو مگر عمر نے منع كيا اور كہا كہ ہمارى لئے قرآن كافى ہے_

اس خيال كى پيروى كرتے ہوئے انہوں نے اپنے زمانہ خلافت ميں حكم ديا كہ احاديث پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قلم بند نہ كياجائے اور اگر انہيں كوئي حديث لكھى ہوئي مل جاتى تو اسے ضبط كركے جلوا ديتے_

۷۷

انہوں نے تمام شہروں ميں يہ منادى كرادى كہ اگر كسى كے پاس كوئي حديث ہے تو وہ اسے نيست ونابود كردے _(۲۰) چنانچہ قاسم بن محمد بن ابى بكر سے منقول ہے كہ عمر كے زمانے ميں احاديث بہت زيادہ جمع ہوگئيں جب ان كے پاس لائي گئيں تو حكم ديا كہ انہيں جلاديا جائے_(۲۱)

ابوبكر نے بھى اپنے زمانہ خلافت ميں پانچ سو احاديث جمع كيں _ عائشہ فرماتى ہيں : مجھ سے كہا كہ احاديث ميرے پاس لاؤ جب انہيں لايا گيا تو ان سب ميں آگ لگادى گئي _(۲۲) چنانچہ يہ روش عمر بن عبدالعزيز كے دور خلافت تك جار رہى _

اس رويے كو اختيار كرنے كى وجہ وہ يہ بتاتے تھے كہ اگر عوام كى توجہ احاديث كى جانب رہے تو وہ قرآن سے دور ہوجائيں گے درحاليكہ قرآن كا يہ ارشاد ہے كہ ''پيغمبر جو كچھ تمہارے لئے لائے ہيں ، اسے قبول كرلو اور جس چيز سے منع كيا ہے اس سے باز رہو ''_(۲۳) رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت كا امكان پيدا ہونے كے لئے ضرورى ہے كہ وہ احاديث جن ميں بالخصوص اوامر و نواہى كے بارے ميں آپ نے فرمايا محفوظ رہنى چاہئے ورنہ كس طرح رسول كى اطاعت ہوسكے گى ؟

بيت المالك كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عہد ميں سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ مقرر نہ تھى بلكہ اخراجات زندگى مال غنيمت كے ذريعے مہيا كئے جاتے تھے _ اس كى تقسيم ميں لوگوں كے سابقہ زندگي' عربوں كى نسلى فضيلت يا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ قرابت دارى كو ملحوظ نہيں ركھا جاتا تھا_

خليفہ اول كے زمانے ميں بھى يہى طريقہ رائج رہا ليكن خليفہ دوم كے زمانے ميں اس طريقہ كار كو بدل ديا گيا انہوں نے سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ كے لئے عليحدہ رجسٹر بنايا اور اس كى تقسيم كے لئے نسل ونسبت كو معيار قرار ديا ان كے درميان عرب كو عجم پر ، قحطان كے عرب كو عدنان كے عرب پر ، مضر كو ربعيہ پر ، قريش كو غير قريش پر اور بنى ہاشم كو بنى اميہ پر برترى و

۷۸

فضيلت تھى اور انہيں بيشتر مراعات حاصل تھيں _(۲۴)

كچھ عرصہ گذرا تھا كہ ذخيرہ اندوزوں اور دنيا پرستوں نے اس طريقہ كار كى بدولت جس طرح بھى ممكن ہوسكتا تھا مال جمع كرنا شروع كرديا وہ غلاموں اور كنيزوں كو خريد ليتے اور انہيں مختلف كاموں پر زبردستى لگاديتے تاكہ ان كے لئے زندگى كى سہولتيں فراہم كرنے كے علاوہ ہر روز نقدرقم بھى اپنے آقائوں كو لاكر ديں _

خليفہ دوم كا قتل

فيرو زايرانى ابولو لو مغيرہ كا غلام تھا_ اپنى زندگى كے اخراجات پوركرنے كے علاوہ وہ مجبور تھا كہ ہر روز دو درہم مغيرہ كو ادا كرے اس نے ايك روز خليفہ كو بازار ميں ديكھا اس نے فرياد كى كہ اس كے آقانے اس سے ہرروز دو درہم وصول كرنے كا جو بار اس پر ڈالا ہے وہ اس كےلئے ناقابل برداشت ہے _ ليكن خليفہ نے بڑى بے اعتنائي سے جواب ديا كہ تجھ جيسے ہنرمند اور ماہر فن شخص كے لئے اتنى مقرر كردہ رقم كوئي زيادہ نہيں ميں نے تو يہ سنا ہے كہ تو ايسى چكى بناسكتا ہے جو ہوا كے رخ پر گردش كرتى ہے_ كيا ايسى چكى تو ميرے لئے بھى بناسكتا ہے ؟ فيروز كو چونكہ خليفہ كى بے اعتنائي سے بہت تكليف پہنچى تھى اس نے كہا كہ ميں آپ كيلئے ايسى چكى بنائوں گا جس كى مشرق و مغرب ميں كہيں مثال نہ ملے گى اور بالآخر ماہ ذى الحجہ ۲۳ ھ ميں اس نے خليفہ كو قتل كرديا_

كونسى شوري؟

عمر نے جب موت كے آثار ديكھے تو انہوں نے چھ ايسے افراد كو جن سے اس كے بقول پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں بہت خوش تھے ، بلوايا وہ يہ چھ افراد تھے:

حضرت علىعليه‌السلام _ عثمان _ طلحہ اور زبير _ عبدالرحمن بن عوف اور سعد وقاص_

۷۹

عمر نے ہر ايك كى معنوى خصوصيت بيان كرنے كے بعد كہا كہ : اگر ميرے بعد خليفہ مقرر كرنے كے سلسلے ميں تم نے اتفاق رائے سے كام ليا تو تمہيں نيز تمہارے فرزندان كو درخت خلافت كے ميوے سے فےض پہنچے گا ورنہ خلافت كى گيند كو معاويہ اچك ليگا _ اس كے بعد انہوں نے اباطلحہ كو كچھ ضرورى نصيحتيں كيں اور مزيد فرمايا اگر پانچ افراد نے اتفاق رائے كيا اور ايك نے مخالفت يا چار افراد ايك طرف ہوگئے اور دو شخص دوسرى جانب ، تو ايسى صورت ميں جو اقليت ميں ہوں ان كى گردن اڑا دينا اگر دونوں فريق برابر ہوئے تو حق اس طرف جائے گا جس طرف عبدالرحمن ہوں گے اگر تين دن گذر جائيں او ركسى بھى مرحلے پر اتفاق رائے نہ ہو تو سب كو قتل كردينا اور مسلمانوں كو ان كے حال پر چھوڑنا كہ اس كے بعد وہ جسے بھى چاہيں خليفہ مقرر كريں _(۲۵)

حضرت عمر كے انتقال كے بعد اس شورى ميں طلحہ نے اپنا حق حضرت عثمان كو دے ديا اور زبير حضرت علىعليه‌السلام كے حق ميں دستبردار اور سعد بن ابى وقاص نے اپنا ووٹ عبدالرحمن بن عوف كو دےديا ، يوں خلافت كے ليئے صرف تين اميدوار يعنى حضرت عثمان، حضرت علىعليه‌السلام اور عبدالرحمن باقى بچ گئے پھر عبدالرحمن بن عوف نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب رخ كيا اور كہا كہ ميں اس شرط پر آپ كى بيعت كرتاہوں كہ آپ كتاب خدا ، سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شيخين كى روش پر عمل كريں گے اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميں كتاب خدا اور سنت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اپنے اجتہاد كى بنياد پر عمل كروں گا_ عبدالرحمن نے يہى بات عثمان كى جانب رخ كركے كہى عثمان نے ان كى اس شرط كو فوراً قبول كرليا ،ا س كے بعد انہوں نے عثمان كے ہاتھ پر ہاتھ ركھديا اور انہےں ''اميرالمؤمنين'' ہونے كى حيثيت سے سلام كيا _(۲۶)

مذكورہ شورى كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كى نظر

جس وقت شورى كے اراكين كا تعين ہوا تو حضرت علىعليه‌السلام نے ابتدا ہى ميں اس كے فيصلے سے باخبر كرديا تھا اور عباس سے كہا تھا ''عدلت عنا'' يعنى ہمارے خاندان سے خلافت كا رخ موڑ ديا گيا ہے انہوں نے دريافت كيا كہ آپ نے كيسے جانا تو آپ نے فرمايا كيونكہ عثمان كو ميرے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

۱۹_ مغازى واقدى ج ۲ ص۶۴۳ _

۲۰_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۵ _۶۸۷_

۲۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۴۶_

۲۲_مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۴۶_

۲۳_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۴۹ _ '' لا تحلّ الجنّة لعاص''_

۲۴_ جرجى زيدان نے خيبر كے قلعوں كى تصوير اپنى كتاب تاريخ التمدن الاسلامى ميں دى ہے ج ۱ ص ۶۱_

۲۵_ لاعطين الراية غدا رجلا يحبہ اللہ و رسولہ و يحب اللہ و رسولہ كراراً غير فرار لا يرجع حتى يفتح اللہ على يديہ ، بحار الانوار ج ۲۱_۲۸ _

۲۶_ حضرت على (ع) نے فرمايا كہ اس كے بعد ميں درد چشم ميں ہرگز مبتلا نہيں ہوا_

۲۷_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۵۴ _۶۵۳_

۲۸_ ارشاد مفيد ص ۶۷_

۲۹_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۵۴_ ۶۵۵_

۳۰_ بحار الانوار ج ۲۱ ص ۲۶_

۳۱_صحيح بخارى ج ۵ ص ۷۱ ۱ و ج ۵ ص ۲۳ _ تاريخ بخارى ج ۱ ص ۱۱۵ و ج ۴ ص ۱۱۵ _ صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۱ و ج ۵ ص ۱۹۵ و ج ۷ ص ۱۲۰ _ مسند الحافظ ابى داؤد ص ۳۲۰_مسند امام احمد بن حنبل ج ۱ ص ۹۹ و ج ۲ ص ۳۸۴ سنن ترمذى ج ۵ ص ۶۳۸ _ سنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۶۵ _ خصايص ص ۴ _ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۳۱۰ _ طبقات ج ۳ ص ۱۵۶ _عقد الفريد ج ۳ ص ۹۴ _ مستدرك حاكم ج ۳ ص ۴۰۵_ معجم الصغيرطبرانى ص ۱۶۳_ حلية الاوليا ج ۱ ص ۴۳۰_ سنن الكبرى ج ۹ ص ۱۰۷ _ مناقب ابن مغازلى ص ۱۷۶ _ استيعاب در حاشيہ الاصابہ ج ۳ ص ۳۶۶ _ مصابيح السنة ج ۲ ص ۲۰۱_معالم التنزيل ج ۴ ص ۱۵۶ _الشفا قاضى عياض ج ۱ ص ۲۷۲ _ اسد الغابہ ج ۳ ص ۲۵ _ تذكرة الخواص سبط ابن جوزى ص ۱۵_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۴ ص ۲۲۱_ كفاية الطالب باب ۶۲ص ۱۱۶ _ البداية و النہاية ابن كثير ج ۴ ص ۱۸۴_ مجمع الزوائد ج ۹ ص ۱۲۳ _ الاصابة ج ۲ ص ۵۰۲ _ينابيع المودة ص ۴۱_

۱۶۱

نواں سبق

طرفين كے خسارئے كا تخمينہ

اسيروں كيساتھ اچھا برتاؤ

فتح كے وقت در گزر

مال غنيمت

مال غنيمت ميں خيانت كى سزا

مال غنيمت كى تقسيم

خيبر پر حملے كے نتائج

خيبر ميں لشكر اسلام كى كاميابى كے اسباب

فدك -- غزوہ وادى القري

تيما -- فتح خيبر كے بعد انجام پانے والے سرايا

مكہ كى طرف (عُمرَةُ القضائ)

جنگ موتہ ، عالمى استكبار سے پہلا مقابلہ

گريہ كيوں؟ -- غير مساوى طاقتوں كى جنگ

لشكر اسلام كے دلير سردار جعفر ابن ابى طالب كى شہادت

عبداللہ ابن رواحہ اور زيد ابن حارثہ كى شہادت

مجاہدين كى واپسي

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعفر ابن ابيطالب كے سوگ ميں

جنگ ذات السلاسل

سوالات

۱۶۲

طرفين كے خسارے كا تخمينہ

آخرى قلعہ كى فتح كے نتيجہ ميں يہوديوں كو شكست اور لشكر اسلام كو فتح حاصل ہوئي اس جنگ ميں يہوديوں كے ۹۳ سے زيادہ بڑے بڑے جنگجو ہلاك ہوئے جبكہ شہداء اسلام كى تعداد۲۰ افراد سے زيادہ نہ تھى _ اس كے علاوہ قلعوں پرحملے كے نتيجے ميں كچھ يہودى ، لشكر اسلام كى اسيرى ميں آئے_

اسيروں كيسا تھ اچّھا برتاؤ

قلعوں ميں سے جب ايك قلعہ فتح ہوا تو حيّ بن اخطب كى بيٹى صفيّہ اور ايك دوسرى عورت اسير ہوئي تو حضرت بلال ان دونوں كو يہوديوں كے مقتولين كى لاشوں كے قريب سے گزار كر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں لائے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُٹھے اور صفّيہ كے سر پر عباڈال دى اور دونوں عورتوں كے آرام كے لئے لشكر گاہ ميں ايك جگہ معين فرما دى پھر بلال سے سخت لہجہ ميں كہا '' كيا تمہارے دل سے مہرو محبّت ختم ہوگئي ہے كہ تم ان عورتوں كو ان كے عزيزوں كے پاس سے گزار كرلا رہے ہو ؟ '' صفّيہ ''كے دل پر پيغمبر كى محبّت نے بڑا اثر كيا بعد ميں آپ، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى باوفا بيويوں كے زمرہ ميں شامل ہوئيں _(۱)

۱۶۳

فتح كے وقت در گزر

تاريخ كے فاتحين نے جب بھى دشمن پر كاميابى حاصل كى تو شمشير انتقام سے اپنے كينہ كى آگ كو بجھايا اور دشمن كى تباہى ميں بڑى بے رحمى كا ثبوت ديا ليكن خدا رسيدہ افراد نے ہميشہ كاميابى كے موقعہ پر دشمنوں كے ساتھ نہايت لطف و محبّت كا سلوك كيا ہے _ فتح خيبر كے بعد ، خيبر كے جن افراد نے زيادہ مال صرف كر كے جنگ احزاب كى عظيم شورش بر پا كى تھى اور اسلام كو خاتمہ كے دہانہ پر لاكھڑا كيا تھا ان كے سروں پر پيغمبررحمتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لطف و عطوفت كا سايہ رہا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہيں اجازت دى كہ سرزمين خيبر ميں اپنے گھروں ميں كام اور حسب سابق كھيتى باڑى ميں مشغول رہيں اس كے بدلے خيبر كى آمدنى كا آدھا حصّہ مسلمانوں كو ديں_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح كے وقت نيزے كى نوك پر اسلام مسلّط نہيں كيا بلكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كو مذہبى شعائر و رسوم كى ادائيگى كى آزادى مرحمت فرمائي_(۲)

مال غنيمت

فتح خيبر اور يہوديوںكو غير مسلح كرنے كے بعد كافى مقدار ميں ہتھيار ، جنگى سازو سامان ، يہوديوں كے زيورات سے مالامال خزانہ ، كھانے كے برتن ،كپڑے ، بہت سے چوپائے اور كھانے پينے كا بہت زيادہ سامان مال غنيمت كے طور پر لشكر اسلام كے ہاتھ آيا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ ايك شخص جانبازان اسلام كے در ميان اعلان كرے كہ '' ہر مسلمان پر لازم ہے كہ مال غنيمت كو بيت المال ميں لا كر جمع كردے _چاہے وہ ايك سوئي اور دھاگہ ہى كيوں نہ ہو _ اس لئے كہ خيانت ننگ و عار ہے اور قيامت ميں اس كى سزا آگ ہے_(۳)

۱۶۴

پھر عادلانہ تقسيم كے لئے تمام مال غنيمت ايك جگہ جمع ہوا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ اس ميں سے كچھ نقد كى صورت ميں لوگ تبديل كر لائيں _

'' فروہ'' جو مال غنيمت بيچنے كے كام پر مامور كئے گئے تھے ، انہوں نے مال غنيمت ميں سے ايك دستار ،دھوپ سے بچنے كے لئے اپنے سر پر باندھ ركھى تھى ، فراغت كے بعد دستار اتارے بغيربے خبرى كے عالم ميں اپنے خيمہ ميں چلے گئے وہاں دستار كاخيال آيا تو فوراً خيمہ سے باہر نكلے اور دستار مال غنيمت كے ڈھير پر ركھ دى _ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو يہ خبر ملى تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' يہ آگ كى دستار تھى جو تم نے اپنے سر پر باندھ ركھى تھى _(۴)

مال غنيمت ميں خيانت كى سزا

سپاہيوں ميں سے '' كَركَرہ'' نامى ايك شخص رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے مركب كى نگہبانى پر مامور تھا واپسى كے دوران اسے ايك تير لگا اور وہ مارا گيا_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے لوگوں نے پوچھا كہ كيا ''كركرہ''شہيد ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' مال غنيمت ميں سے عبا چرا نے كے جرم ميں اب آگ ميں جل رہا ہے''_

اس موقع پر ايك شخص نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كہا كہ '' ميں نے بغير اجازت كے ايك جوڑا جوتا مال غنيمت سے لے ليا ہے _'' آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما يا '' واپس كردو ورنہ قيامت كے دن آگ كى صورت ميں يہ تمہارے پيروں ميں ہوگا _(۵)

مال غنيمت كى تقسيم

خمس نكالنے كے بعد ، جانبازان اسلام كے در ميان مال غنيمت تقسيم ہوا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے

۱۶۵

ان عورتوں كو جنہوں نے لشكر اسلام كى مدد اور تيمار دارى كى تھى بيش قيمت گلوبند و غيرہ عطا فرمائے_(۶)

ايك شخص كو ايك خرابہ سے دو سو درہم ملے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خمس نكال ليا اور بقيہ در ہم اس كو ديدئے_(۷)

لشكر اسلام خيبر سے كوچ كرنے ہى والا تھا كہ مہاجرين حبشہ كے سرپرست جعفر ابن ابى طالب حبشہ سے واپس آگئے جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مدينہ ميں نہيں پايا تو خيبر كى طرف چل پڑے _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعفر(ع) كى واپسى پر بہت خوش ہوئے سات قدم ان كے استقبال كے لئے بڑھے اور فرمايا سمجھ ميں نہيں آتا كہ كس بات كے لئے زيادہ خوشى مناؤں ؟فتح خيبر كے لئے يا جعفر كى واپسى كے لئے؟''(۸)

خيبر پر حملے كے نتائج

خيبر كا حملہ ، اسلام كے خلاف يہوديوں كى اقتصادى اور جنگى طاقت كى كمى كا باعث بنا_ اس حملے كے دوسرے نتائج ميں سے ايك يہ ہے كہ ، يہوديوں كے اس گروہ كے ہتھيار ڈال دينے كى بدولت مشركين كى فوج ميں خوف و ہراس پھيل گيا اوراسلام كى تحريك مزيد پائيدار ہوگئي_

خيبر ميں لشكر اسلام كى كاميابى كے اسباب

۱_ بہترين جنگى حربوں اور موثر حكمت عملى كا استعمال

۲_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام كى دقيق اور حكيمانہ سپہ سالارى اور لشكر اسلام كا سپہ سالار كے حكم پر مكمل عمل كرنا_

۱۶۶

۳_ جنگى حوالے سے مناسب جگہ پر پڑاؤ

۴_ خيبر كے كامل محاصرے تك لشكر اسلام كى مكمل پوشيدگى _

۵_ دشمن كے حالات كى اطلاع او ر ہر قلعہ ميں لشكر كى تعداد و كيفيت كے بارے ميں مكمل معلومات _

۶_ حضرت على (ع) كى بے امان جنگ '' ايسى جنگ كہ دشمن كے نقصانات ميں سے آدھا نقصان دست زبردست حيدر كرار كى توانائي كا نتيجہ تھا_

فدَك

خيبر سے ايك منزل اور مدينہ سے ۱۴۰ كيلوميٹر دور كچھ يہودى فدك نامى ايك قصبہ ميں رہتے تھے_يہ لوگ خيبر كے يہوديوں كے انجام سے خوفزدہ تھے ا ور خدا نے ان كے دل ميں خوف و دہشت مزيد بڑھاديا _ اس وجہ سے انہوں نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نمائندہ كے جواب ميں ايك شخص كو معاہدہ صلح كے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس بھيجا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معاہدہ كيا كہ آدھا فدك آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حوالہ كريں گے اور اسميں كھيتى كرنے كے ساتھ ساتھ اس كى آمدنى بھى ان كے حوالہ كريں گے _(۹)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فدك فاطمہ زہراء سلام اللہ عليھا كو عطا كرديا _ فدك كى سالانہ آمدنى ، ۲۴۰۰۰درہم تھى جناب فاطمہ(ع) اس آمدنى كا بيشتر حصّہ بے سہارا لوگوں كى امداد اور اجتماعى مصالح ايسے امور خير ميں صرف كرتى تھيں _(۱۰)

غزوہ وادى القري( ۷ ھ ق)

خيبر كى جنگ ختم ہونے كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدينہ سے ۳۵۰ كيلوميٹر دور وادى القرى كى

۱۶۷

طرف روانہ ہوئے جو يہوديوں كا ايك اہم مركز شمار كيا جاتا تھا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كا محاصرہ كر ليا ، قلعہ چند دنوں تك لشكر اسلام كے محاصرے ميں رہا _ انجام كار فتح و كامرانى كے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زمينوں كو انہى كے قبضہ ميں رہنے ديا اوروہى معاہدہ جو خيبر كے يہوديوں سے ہوا تھا ان سے بھى طے پايا_(۱۱)

تَيمائ( ۷ ھ ق)

مسعودى كى تحرير كے مطابق '' تيمائ''(۱۲) كے لوگ يہودى اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمن تھے جب ان لوگوں نے وادى القرى كے فتح ہونے كى خبر سنى تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے صلح كرلى اور جزيہ دينے پر تيار ہوگئے(۱۳) اس طرح سے جزيرة العرب سے يہوديوں كى طرف سے جنگى خطرہ بالكل ہى ختم ہوگيا_

فتح خيبر كے بعد انجام پانے والے سرايا

خيبر كى فتح كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ديرينہ دشمن كى طرف سے مطمئن ہوگئے اور مدينہ ميں وہ امن و سكون ہوا جو پہلے كبھى نہ تھا _ماہ صفر سے لے كر ذيقعدہ تك چند مہينوں كى مدّت ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرف چھ گروہ اطلاعات حاصل كرنے يا ان بكھرے دستوں اور جماعتوں كى تنبيہ و سزا كے لئے روانہ فرمائے جنہوںنے امن و امان ميں رخنہ ڈال ركھا تھا_ ان سرايا كے علاوہ كوئي دوسرا جنگى حملہ وقوع پذير نہيں ہوا_(۱۴)

مكہ كى طرف ( عمرة القضائ)

يكم ذيقعدہ ۷ ھ(بروز جمعرات بمطابق ۳ فرورى سنہ ۶۲۸ئ)

۱۶۸

صلح حديبيہ كے ايك سال بعد صلح نامہ كے مطابق مسلمان عمرہ بجالانے كے لئے تين روز تك مكہ ميں ٹھہر سكتے تھے _رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لشكر اسلام كے دو ہزار افراد كے ساتھ عمرہ كے لئے روانہ ہوئے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہمراہ صلح حديبيہ اور بيعت رضوان ميں شامل تمام افراد موجود تھے سوائے خيبر ميں شہيد يا اس سے قبل وفات پا جانے والے مسلمانوں كے ، البتہ ك۱چھ دوسرے لوگ بھى سفر ميں شريك ہوگئے تھے_

معاہدے كے مطابق چونكہ مسلمان سوائے تلوار كے (جو مسافر كا اسلحہ سمجھا جاتا تھا)اپنے ساتھ زيادہ ہتھيار نہيں ركھ سكتے تھے_ اس لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ممكنہ خطرے سے بچنے كے لئے لشكر اسلام كے ايك سردار كو دوسو جاں بازوں كے ہمراہ كافى اسلحہ كے ساتھ آگے بھيج ديا تا كہ وہ لو گ '' مرّ الظّہران'' پر مكہ سے ۲۲ كيلوميٹر شمال ميںٹھہريں اور ايك درّہ ميں آمادہ رہيں _

مسلمان ، مكہ كے قريب پہنچے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ناقہ قصوى پر سوار اور عبداللہ ابن رواحہ مہار تھامے ہوئے فخر كے ساتھ رجز پڑھتے جاتے تھے_

دو ہزار مسلمان خاص شان وشوكت كے ساتھ جبكہ ان كى آواز فرط شوق سے لرزرہى تھى '' لبيك اللّہم لبيك'' كى آواز بلند كرتے جارہے تھے_ برسوں بعد ، كعبہ كى زيارت كى توفيق نصيب ہوئي تھي_

قريش نے شہر مكہ خالى كرديا تھا اور پہاڑ كى بلنديوں سے مسلمانوں كى جمعيت كو ديكھنے ميں مشغول تھے_ مسلمانوں كى صدائے لبيك كى پر شكوہ گونج نے ان كے دلوں پر وحشت طارى كردى تھى ، عمرہ ادا كرنے كے بعد احتياطى فوج كى جگہ دوسرے گروہ نے لے لى اور انہوں نے عمرہ كے فرائض انجام ديئے_

۱۶۹

مكہ ميں تين روزہ قيام كى مہلت تمام ہوئي _ قريش نے ايك شخص كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس بھيجا اور مطالبہ كيا كہ جتنى ج ى ہو سكے مكّہ سے نكل جائيں_

اس سفر ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مكّہ كے شمال ميں ۱۲ كيلوميٹر كے فاصلہ پر مقام َسرف ميں جناب ميمونہ سے عقد فرمايا اور اس طرح قريش كے در ميان اپنى حيثيت اور زيادہ مضبوط كرلي_(۱۵)

عمرة القضاء كے بعد ۷ ھ ميں چار دوسرے سرايا بھى پيش آئے_

جنگ موتہ

يكم جمادى الاوّل ۸ ھ بمطابق اگست،ستمبر ۶۲۹ئ

عالمى استكبار سے پہلا مقابلہ

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بادشاہ بُصْرى كے پاس ايك سفير بھيجا سفير رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب شام كى سرحد پر واقع سرزمين ''موتہ ''پر(۱۷) پہنچے تو وہاں كے حاكم نے سفير كو قتل كر ديا _(۱۸) ربيع الاول كے مہينہ ميں پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے ۱۶ مبلغين مقام '' ذات اَطلاح'' كے سفر پر مامور كئے گئے وہ بھى اسى سرزمين كے لوگوں كے ہاتھوں قتل كرديئے گئے _ ان ميں سے ايك آدمى زخمى ہوا اور لاشوں كے بيچ گر پڑا اور پھر كسى طرح فرار ہو كر مدينہ پہنچا_(۱۹)

يہ واقعات سبب بنے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم موتہ كى طرف ايك لشكر روانہ فرمائيں_

جہاد كا فرمان صادر ہوتے ہى تين ہزار مسلمان جمع ہوگئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كے سپہ سالاروں كو مندرجہ ذيل ترتيب كے مطابق معين فر مايا_

۱۷۰

جب تك زيد ابن حارثہ زندہ رہيں وہ تمہارے سپہ سالار ہوں گے اور اگر زيد شہيد ہوگئے تو پھر جعفر ابن ابى طالب(۲۰) او ر ا گر وہ بھى شہيد ہو گئے تو عبداللہ ابن رواحہ اور اگروہ بھى شہيد ہوگئے تو مسلمان اپنے درميان سے خود ہى ايك سالار كا انتخاب كر ليں(۲۱)

گريہ كيوں؟

لشكر كى روانگى كے وقت اہل مدينہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہمراہ جانبازان اسلام كو رخصت كرنے كے لئے جمع ہوئے عبداللہ ابن رواحہ گھوڑے پر سوار تھے اور آگے اپنے بيٹے كو سوار كئے ہوئے تھے اور اسى حالت ميں شدّت كے ساتھ گريہ فرمارہے تھے _ لوگوں نے سوچا كہ وہ بيوى اور بيٹے كى محبت اور ان سے جدائي كے غم ميں يا موت كے خوف سے رورہے ہيں عبداللہ ابن رواحہ جب لوگوں كے گمان كى طرف متوجہ ہوئے تو سر اٹھايا اور كہا '' اے لوگوں ، ميرا گريہ زندگى ، بيوي، بيٹے، گھربار اور خاندان كى محبّت ميں نہيں ، ميں شہادت سے نہيں ڈرتا اور نہ ہى اس وجہ سے رورہا ہوں بلكہ ميرے گريہ كا سبب قرآن كى مندرجہ ذيل آيت ہے _

''( و انْ منْكُمْ الاّ وَاردُهَا كَانَ عَلى رَبّكَ حَتْمَاً مَقْضيّاً ثُمَّ نُنَجيَ الَّذينَ اتَّقَوا وَ نَذَرُ الْظَالمينَ فيهَا جثيّاً ) (۲۲)

''تم ميں سے كوئي شخص باقى نہيں رہے گا جز اس كے كہ دوزخ ميں جائے اور يہ تمہارے پروردگا ر كا حتمى حكم ہے _ دوزخ ميں داخل ہونے كے بعد ہم ان افراد كو جو خدا ترس اور

۱۷۱

باتقوا تھے، نجات ديں گے اور ستم گاروں كو چھوڑديںگے تا كہ وہ گھٹنوں كے بل آگ ميں گر پڑيں_

مجھے اطمينان ہے كہ مجھے جہنّم ميں لے جايا جائے گا ليكن يہ كيسے پتہ چلے كہ نجات دى جائے گى _(۲۳)

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں كے ساتھ شہر كے دروازہ تك مجاہدين كو رخصت كيا اور فرمايا ''دفع اللہ عنكم و ردّكم سالمين غانمين'' يعنى خدا تمہارا دفاع كرے اور سلامتى اور غنيمت كے ساتھ واپس پلٹائے ليكن عبداللہ ابن رواحہ نے جواب ميں شعر پڑھا جس كا مطلب تھا_ميں خداوند رحمان سے مغفرت طلب كرتا ہوں اور اس سے شمشير كى ايسى ضربت كا خواہاں ہوں جو ميرى زندگى كو ختم كردے_(۲۴)

خداحافظ كہتے وقت عبداللہ ابن رواحہ نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نصيحت كرنے كى خواہش كى ، حضرت نے فرمايا '' جب تم ايسى سرزمين پر پہنچو جہاں اللہ كى عبادت كم ہوتى ہے تو اس جگہ زيادہ سجدے كرو''_عبداللہ نے كہا كچھ اور نصيحت فرمائيں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدا كو ياد كرو، خدا كى ياد مقصد تك پہنچنے ميںتمہارى مددگار ہے ''(۲۵) _رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كے اميروں كو حكم ديا كہ '' خدا كے نام سے اس كى راہ ميں جنگ كرواور جو خدا كا انكار كرے اس سے لڑو _ دھوكہ بازى نہ كرو، بچوں كو قتل نہ كرو، جب مشركين سے سامنا ہوتو تين چيزوں ميں سے ايك كى دعوت دو اور جب كسى ايك كو قبول كرليں تو ان سے دست بردار ہو جاؤ _ پہلے اسلام كى دعوت دو اگر قبول كرليں تو ان سے جنگ نہ كرو_ دوسرے ان سے مطالبہ كرو كہ اپنى زمين سے چلے جائيں اور ہجرت كريں اگر قبول كرتے ہيں تو ان كے لئے وہى حقوق ہيں جو دوسروں كے لئے ہيں ،اگران دونوں باتوں كے قبول كرنے سے انكار كريں

۱۷۲

تو جزيہ ادا كرنے كى دعوت دو اگر ان تمام باتوں سے سرتابى كريں تو خدا سے مدد مانگو اور ان سے جنگ كرو''(۲۶) _

غير مساوى طاقتوں كى جنگ

لشكر اسلام موتہ كى جانب روانہ ہوا_ جنوب عمان ميں ۲۱۲ كيلوميٹر دور مقام ''معان''پرخبر ملى كہ بادشاہ روم ہرَقُل ايك لاكھ سپاہيوں كو ''بلقائ'' كے علاقہ ميں سرزمين ''مآب'' تك بڑھا لا يا ہے_ اور اس علاقہ كے ايك لاكھ عرب جنگجو روميوں كى مدد كے لئے لشكر روم سے آملے ہيں _

يہ خبر اميران لشكر كے آپس ميں مشورہ كا سبب بنى _ شروع ميں تو ان كا ارادہ تھا كہ اس واقعہ كى خبر پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو دى جائے اور ان سے معلوم كيا جائے كہ كيا كرنا چاہيئےكن عبداللہ ابن رواحہ نے شجاعانہ و حماسہ ساز تقرير كے ذريعے انہيںاس فكر سے بازر كھا_ آپ نے لشكر كو خطاب كرتے ہوئے كہا '' اے لوگوں خدا كى قسم ، جو چيز تمہيں اس وقت ناپسند ہے اسى كو طلب كرنے كے لئے تم نكلے ہو يہ وہى شہادت ہے جس كے شوق ميں تم نے سفر كى زحمت برداشت كى ہے ، ہم نے كبھى بڑے گروہ ، كثير جماعت اور عظيم لشكر كے ذريعہ جنگ نہيں كى ،ہم ايمان كى طاقت سے لڑتے ہيں جس كى بدولت خدا نے ہميں بزرگى دى ہے ، اٹھو اور اپنے راستہ پر چل پڑو ہمارے سامنے (احَدُ الحسنين ) دوا چھے راستے ہيں ، فتح يا شہادت_(۲۷)

عبد اللہ ابن رواحہ كى شعلہ بار تقرير كے بعد لشكر اسلام ٹڈى دل لشكر كى طرف چل پڑا _ اور بلقاء كى سر حد پر روم كا دو لا كھ كا لشكر تين ہزار مجاہدين سے روبرو ہوا _ لشكر اسلام كى بے

۱۷۳

امان جنگ شروع ہوئي اور اللہ والے جو شہادت كو بقاء كاراز سمجھتے تھے، شہادت كے استقبال كے لئے دوڑ پڑے_

لشكر اسلام كے دلير سردار جعفر ابن ابى طالب(ع) كى شہادت

جنگ كے شور و غل ميں جعفر ابن ابى طاب نے پرچم ہاتھ ميں ليا اور مردانہ وار قلب لشكر پر حملہ كرديا اور ان كے نرغہ ميں گھر گئے آپ نے اپنے گھوڑے كو پيچھے چھوڑ ديا تا كہ وہ دشمن كے ہاتھ نہ آسكے اور پيادہ لڑتے رہے(۲۸) جب آپ كا داہنا ہاتھ قلم ہوا تو پرچم كو بائيں ہاتھ ميں سنبھالا يہاں تك كہ آپ كا باياں ہاتھ بھى كٹ گيا اس كے بعد آپ نے پرچم كو سينے سے لگاليا _ يہاں تك كہ شہادت كى سعادت سے مشرف ہوئے خدا نے ان كے كٹے ہوئے ہاتھوں كے بدلے دو پر عنايت كئے تا كہ وہ فرشتوں كے ساتھ جنّت ميں پرواز كريں اس لئے آپ(ع) '' جعفر طيار'' كے لقب سے ملقب ہوئے _(۲۹)

عبداللہ ابن رواحہ اور زيد ابن حارثہ كى شہادت

جناب جعفر كى شہادت كے بعد زيد ابن حارثہ نے پرچم اٹھايا اور لشكر كفر پر حملہ كرديا اور دليرانہ جنگ كے بعد درجہ شہادت پر فائز ہوئے _ تيسرے سردار لشكر عبداللہ ابن رواحہ نے پرچم اٹھايا تھوڑى دير تك سوچتے رہے كہ جنگ جارى ركھى جائے يا نہيں ، آخر كار رجز پڑھتے ہوئے سپاہ دشمن پر حملہ آور ہوئے_

اے نفس ، اگر تو ابھى قتل نہيں ہوگا تو بالآخر مرہى جائے گا_كبوتر(فرشتہ) مرگ آن پہنچا ہے _

۱۷۴

جو تيرى آرزو تھى اس كا وقت بھى آگيا ہے _

اگر ان دونوں (جعفر اور زيد)كے راستے پر چلو گے تو نجات پاجاؤگے_

يہ رجز پڑھ كر عبداللہ دليرانہ انداز ميں قلب لشكر پر حملہ آور ہوئے ان كى تلوار كافروں كے سروں پر موت كے شعلے بر سار ہى تھى _ آخر كار عبداللہ بھى اپنے رب سے جا ملے اور انہيں اسى انداز ميں شہادت نصيب ہوئي جو انہوں نے خداوند عالم سے طلب كى تھى كہ ان كے جسم كو گلگوں بناديا جائے_(۳۰)

مجاہدين كى واپسي

عبد اللہ ابن رواحہ كى شہادت كے بعد سپاہيوں كى رائے اور پيش كش سے خالد ابن وليد(۳۱) سردار لشكر بنے _ خالد نے جنگ كو بے نتيجہ ديكھا اور رات تك تھوڑى بہت پراگندہ طور پر جنگ جارى ركھى ، رات كو جب دونوں لشكر جنگ سے رك گئے تو خالد نے لشكر گاہ كے پيچھے بہت سے سپاہيوں كو بھيجا تا كہ صبح كو خوب شور و غل مچاتے ہوئے لشكر سے آمليں _ صبح شور و غل سنكر روميوںنے يقين كر ليا كہ مدينہ سے ايك عظيم امدادى لشكر آن پہنچا ہے _ چونكہ رومى مسلمانوں كى تلوار كى طاقت اور ان كے جذبہ شہادت كوديكھ چكے تھے اس لئے جنگ ميں پس و پيش كرتے ہوئے حملہ كرنے سے باز رہے اور مسلمانوں كے حملہ كا انتظار كرتے رہے اور جب انہوں نے ديكھا كہ خالد كا حملہ كا كوئي ارادہ نہيں ہے تو عملى طور پر جنگ بندى ہو گئي _ خالد نے عقب نشينى كے ذريعہ مسلمانوں كو دشمن كے دولا كھ جنگجوؤں كے چنگل سے بچاليا_

اس جنگ كے نتيجہ ميں ايك طرف مسلمان روميوں كے جنگى حربوں اور طريقہ كار سے

۱۷۵

آگاہ ہوگئے اور دوسرى طرف شہادت كے شيدا لشكر اسلام كا رعب و دبدبہ روم كى مغرور فوج كے دلوں ميں بيٹھ گيا_ لشكر مدينہ واپس آيا لوگ نہايت بر انگيختہ اور غيظ وغضب كے عالم ميں تھے اور سپاہى ملول و خاموش ، لوگ آگے بڑھے اور خاك اٹھا كر سپاہيوں كے چہروں پر ڈالنے اور شور كرنے لگے كہ '' اے فراريو تم لوگ خدا كے راستے سے فرار كرتے ہو؟ سپاہى اپنے گھروں ميں چلے گئے اور ملامت كے خوف سے ايك مدّت تك گھروں سے باہر نہ نكلے _ يہاں تك كہ نماز جماعت ميں بھى نہيں آتے تھے _ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' يہ لوگ فرارى نہيں ہيں اور انشاء اللہ حملہ كرنے والے ہو جائيں گے''(۳۲) _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعفر ابن ابيطالب(ع) كے سوگ ميں

مسلمانوں كى كيفيت اور خصوصاً جعفر كى موت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بے حد غمگين تھے _ حضرت جعفر كے شہيد ہونے پر آپ نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شدّت كے ساتھ گريہ كيا جعفر كے گھر والوں كو تسلّى دينے كے لئے ان كے گھر تشريف لے گئے اور فرمايا كہ '' ميرے بچے ، عون ومحمد اور عبداللہ كہاں ہيں ؟ جناب جعفر كى بيوى اسمائ، حضرت جعفر كے بيٹوں كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں لائيں ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شہيد كے بچوںكو پيار كيا ، گلے لگايا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى آنكھوں سے آنسو نكل كرڈاڑھى پر بہنے لگے _حضرت جعفر كى بيوى نے پوچھا _ '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر فدا ہوں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرے بچوّںكو اس طرح پيار كررہے ہيں جيسے كسى يتيم كو پيار كياجاتا ہے گويا ان كے باپ اس دنيا ميں نہيں رہے ؟''رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمايا ، ہاں وہ قتل كرديئےئے ، پھر فرمايا، اے اسماء ايسا نہ ہو كہ تم اپنى زبان سے كوئي ناروا بات نكالو اور سينہ كو بى كرو ميں تمہيں خوشخبرى سناتا ہوں ، خدا نے جعفر كو دو ، ''پَر'' عطا كئے ہيں جن سے وہ بہشت ميں پرواز كرتے ہيں _(۳۳)

۱۷۶

جنگ ذات السّلاسل

جمادى الثانى ۸ ھ ق ستمبر ،اكتوبر ۶۲۹ ئ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اطلاع ملى كہ قبلائل بَليّ اور قضاعة كے كچھ لوگ جمع ہو كر مدينہ پر حملہ كرنے كى فكر ميں ہيں _

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے لشكر تيار ہوا اور اس كى سپہ سالارى عمروبن عاص كے سپرد ہوئي _ اسكى وجہ يہ تھى كہ عمرو كى بڑى ماں (دادى يا ناني) قبيلہ بليّ سے تھى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چاہا كہ عمرو بن عاص كو سپہ سالارى ديكر اس گروہ كے دلوں كو اسلام كى طرف مائل كيا جائے _ عمروبن عاص اور اس كا لشكر دن ميں كمين گاہ ميں چھپے رہتے اور راتو ں كو سفر كرتے جس وقت دشمن كے قريب پہنچے تو پتہ چلا كہ دشمن كى تعداد زياد ہے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابو عبيدہ جراح كو دو سو فراد كے ايك دستہ كے ساتھ مدد كے لئے بھيجا عمروبن عاص كے لشكر نے ابو عبيدہ كے امدادى لشكر كے ساتھ قبائل بليّ ، عذرہ اور بَلْقين كے تمام رہائشےى علاقہ كا دورہ كيا ليكن دشمن پہلے ہى خبر پا كر علاقہ سے بھاگ چكے تھے _

صرف آخرى مقام پر لشكر اسلام اور لشكر كفر كے در ميان ايك گھنٹہ تك ٹكراؤہوا جس ميں ايك مسلمان زخمى اور دشمن شكست كھا كر فرا كر گئے _(۳۴)(۳۵)

۱۷۷

سوالات

۱_خيبر ميں لشكر كى كاميابى كے اسباب كيا تھے؟

۲_مال غنيمت ميں خيانت كے سلسلہ ميں ايك واقعہ بيان كيجئے_

۳_ فدك كاواقعہ كيا ہے؟

۴_ عمرة القضاء كس مہينہ ميں تھا؟

۵_ روم كى بڑى طاقت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سپاہيوں نے كيوں جنگ كى ؟

۶_ روانگى كے وقت عبد اللہ ابن رواحہ كيوں رورہے تھے؟

۷_ جعفر ابن ابيطالب'' جعفر طياّر'' كے نام سے كيوں مشہور ہوئے؟

۱۷۸

حوالہ جات

۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۷۳

۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۷۱ و سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۵۱ _۳۵۲

۳_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۰

۴_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۱

۵_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۱

۶_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۵۶ _۳۵۷

۷_مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۲

۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۳_زاد المعاد ج ۳ ص ۳۳۳ _سنن ابى داود (۲۷۴۵ ) صحيح بخارى ج ۷ ص ۳۷۱

۹_مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۰۶_

۱۰_پوہشى عميق از زندگانى على (ع) ص ۲۶۱ _۲۶۶

۱۱_تاريخ طبرى ج ۳ ص ۱۷ _۱۶ سے تلخيص _ محمد رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم ص۲۸۴_فتوح البلدان ص ۴۷

۱۲_ تيماء ، مدينہ سے آٹھ منزل پر مدينہ اور شام كے راستہ ميں ايك مقام ہے _

۱۳_التنبيہ والاشراف ص ۲۲۴

۱۴_تاريخ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مصنفہ ڈاكٹر آيتى كے مطابق ص ۴۸۶ _۴۸۳_

۱۵_مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۴۰ _ ۷۳۱ يہاں خلاصہ ذكر كيا گيا ہے_

۱۶_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵_

۱۷_ يہ سرزمين ا ب شہداء موتہ كى آرام گاہ ہے اور سرزمين اردن ہاشمى ميں واقع ہے_

۱۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۵ _ بحارالانوار ج ۲۱_۵۸

۱۹_ طبقات كبرى ج ۲ ص ۱۲۸_مغازى ج ۲ ص ۷۸۲

۲۰_ اگر چہ اہل سنت كى بہت سى تاريخوں ميں يہ بات مرقوم ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كا پہلا اميرزيد بن حارث كو

۱۷۹

معيّن فر ما يا اور زيد كے قتل ہوجانے كى صورت ميں جعفر بن ابى طالب اور ان كے بعد عبداللہ بن رواحہ ليكن كعب بن مالك كے شہداء موتہ كے بارے ميں مرثيہ سے ثابت ہوتا ہے كہ جعفر لشكر كے پہلے امير تھے_ كعب كہتے ہيں كہ '' اذ يہتدون بجعفر ولوائة قدّام اوّلہم فنعم الاوّل'' سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۸_

۲۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۸ _ بحار الانوار ج ۲۱ ص ۵۵ _

۲۲_ سورہ مريم آيت ۷۱_۷۲_

۲۳_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵ _ اور تاريخ طبرى ج ۳ ص ۳۷

۲۴_'' ولكننّى ا سا ل الرّحمن مغفرة وضَربةً ذا ت فرع: تقذف الزّبداً '' سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵_

۲۵_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۸_

۲۶_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۷بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۱_

۲۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۷ _ تاريخ طبرى ج ۳ ص ۳۸_

۲۸_ بحارالانوار ج ۲۱ ص ۵۴_

۲۹_ بحارالانوار ج ۲۱ ص ۶۲ _ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۰_

۳۰_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۱ _

۳۱_ خالد ابن وليد اور عمرو ابن عاص دونوں آپس ميں دوست اور اسلام كے سخت ترين دشمن تھے مسلمانوں كى پے در پے فتوحات او رعمرة القضاء كے موقع پر ان كى شا ن و شوكت و عظمت ديكھنے كے بعد ان لوگوں نے يہ سمجھ ليا كہ اسلام كى كاميابى اور فتح يقينى ہے _ اس وجہ سے ان دونوں نے يہ الگ الگ طے كيا كہ مسلمان ہوجائيں _ لہذا دونوں ايك دوسرے سے الگ اور بے خبر مدينہ كى طرف چلے اور راستہ ميں اچانك ايك دوسرے سے مل گئے اور پھر مدينہ ميں رسول خدا كى خدمت ميں شرفياب ہوئے اور اسلام قبول كيا _(مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۴۱ _۷۵۰ملاحظہ ہو)_

۳۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۶۵_

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298