تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي20%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167352 / ڈاؤنلوڈ: 4213
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام كتاب: تاريخ اسلام (زندگى پيامبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) (۲)

مؤلف: مركز تحقيقات اسلامي

مترجم: معارف اسلام پبلشرز

ناشر: نور مطاف

جلد: دوم

اشاعت: تیسری

تاريخ اشاعت: ذی القعده ۱۴۲۷ ھ_ق

جملہ حقوق طبع بحق معارف اسلام پبلشرز محفوظ ہيں _

۳

عرض ناشر:

ادارہ معارف اسلام پبلشرز اپنى اصلى ذمہ دارى كو انجام ديتے ہوئے مختلف اسلامى علوم و معارف جيسے تفسير، فقہ، عقائد، اخلاق اور سيرت معصومين(عليہم السلام) كے بارے ميں جانے پہچانے محققين كى قيمتى اور اہم تاليفات كے ترجمے اور طباعت كے كام كو انجام دے رہاہے_

يہ كتاب(عہد رسالت ۲) جو قارئين كے سامنے ہے پيغمبر اكرم(صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم) اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اہل بيت اطہار (عليہم السلام) كى سيرت اور تاريخ پر لكھى جانے والى كتابوں كے سلسلے كى ايك كڑى ہے جسے گذشتہ سالوں ميں ترجمہ كرواكر طبع كيا گيا تھا_ اس ترجمہ كے دستياب نہ ہونے اور معزز قارئين كے مسلسل اصرار كے باوجود اس پر نظر ثانى اور اسے دوبارہ چھپوانے كا موقع نہ مل سكا_

خداوند عالم كے لطف و كرم سے اس سال كہ جسے رہبر معظم (دام ظلہ) كى جانب سے رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا سال قرار ديا گيا ہے، اس نفيس سلسلے كى دوسرى جلد كو ، نظر ثانى اور تصحيح كے بعد دوبارہ زيور طبع سے آراستہ كيا جارہاہے_ ہم اميد كرتے ہيں كہ خداوند متعال كے فضل و كرم ، امام زمان (عجل اللہ تعالى فرجہ الشريف) كى خاص عنايت اور ادارے كے ساتھ تعاون كرنے والے محترم فضلاء كے مزيد اہتمام و توجہ سے اس سلسلے كى بعد والى جلدوں كو بھى جلد از جلدچھپوا كر مطالعہ كے شائقين كى خدمت ميں پيش كرسكيں گے_

ان شاء اللہ تعالى

معارف اسلام پبلشرز

۴

مقدمہ

سيرت نگارى كى مختصر تاريخ

علم تاريخ، تمام اقوام ميں رائج فنون ميں سے ايك فن ہے_ مورخين ،تاريخ لكھنے كے لئے سفر كرتے اور دنيا بھر ميں گھومتے رہتے ہيںجبكہ عوام اس كى معرفت كے شوقين اور علماء و مفكرين اس كى شناخت كے سلسلے ميں اپنى دلچسپى كا اظہار كرتے ہيں_

مسلمان مورخين نے تاريخ اسلام اور ماضى ميں رونما ہونے والے واقعات كو اكٹھا كركے تاريخ كے صفحات پر قلمبند كيا ہے_

چونكہ تاريخى حقائق كو شروع ہى سے خفيہ طاقتوں نے اپنے پنجوں ميں جكڑ كر جھوٹ اور فريب كے ساتھ مخلوط كرديا ہے لہذا تاريخى كتب و اسناد كى انتہائي دقت كے ساتھ چھان بين ، معتبر اور غير معتبر كى شناخت اور تاريخى حقائق كو افسانوى و بے بنياد مطالب سے جدا كرنا ہر محقق و مصنف كا فريضہ ہے_

مورخين اسلام نے تاريخى واقعات كو محفوظ كئے جانے كى ضرورت محسوس كرتے ہوئے آغاز ہى سے تاريخ نگارى كا كام شروع كرديا تھا_ سب سے پہلے سيرت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عروَة بن زُبير ( متولد ۲۳ھ، متوفى ۹۴ھ) نے كتاب تحرير كى _ اس كے بعد عاصم بن قتادہ ( متوفى

۵

۱۲۰ھ) محمد بن مسلم بن شہاب زہرى ( متولد ۵۱ ھ، متوفى ۱۲۴ھ) ،عبداللہ بن ابى بكر بن حزم انصارى (متوفى ۱۳۵) اورپھر محمد بن اسحاق بن يسار ( متولد ۸۵ ھ، متوفى ۱۵۲ھ) كہ جن كى كتاب بعد ميں ابن ہشام كے كام كى بنياد قرار پائي_ پھر ان كے بعد كتاب ''المغازي'' كہ مصنف واقدى (متولد ۱۵۱ھ ، متوفى ۲۰۷ھ) اور ابن سعد ( متوفى ۲۳۰) كا نام ليا جاسكتا ہے_ مذكورہ مورخين كى كتب ميں سے اب سيرت ابن اسحاق كا كچھ حصّہ ، جبكہ واقدى كى ''المغازي'' سيرت ابن ہشام اور طبقات ابن سعد ہمارى دسترس ميں ہيں_

دوسرے مشہور اسلامى مورخين ميں يعقوبى ( متوفى ۲۹۲ھ) طبرى ( متولد ۲۲۴، متوفى ۳۱۰ھ) مسعودى (متولد ۲۸۷، متوفى ۳۴۶ھ) كا نام ليا جاسكتا ہے_ جن كى كتابيں تاريخ كى قديمى كتب شمار ہوتى ہيں انہى كتب كى جانب محققين رجوع كرتے ہيںاور انہيںبطور حوالہ پيش كرتے ہيں_

۶

ہدف تاليف

تاريخ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بارے ميں اب تك بہت سى كتابيں مختلف زبانوں ميں لكھى جاچكى ہيں اور ہر لكھنے والے نے ايك خاص زاويہ سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كا جائزہ ليا ہے_

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سيرت پر قلم اٹھانے والوں كى كاوشيں لائق تحسين ہيں مگر يہ كہنا پڑتا ہے كہ ايك ايسى كتاب كى كمى محسوس ہوتى ہے جو مختصر ہونے كے ساتھ ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كے اہم واقعات كا تجزيہ بھى كرے_

چونكہ موجودہ كتابيں درسى كتب كے عنوان سے قابل استفادہ نہيں ہيں لہذا اس كمى كو پورا كرنے كے ليے انتہائي سعى و كوشش كى گئي ، جس كا نتيجہ موجودہ كتاب ہے ، يہ كتاب دو حصوں پر مشتمل ہے_

۷

پہلا حصّہ ''پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كے آغاز سے جنگ بدر تك ''اور دوسرا حصّہ ''احد سے رحلت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تك'' كے حالات اپنے دامن ميں سميٹے ہوئے ہے_ اس كتاب كى خصوصيات مندرجہ ذيل ہيں_

۱_ مطالب كو جمع كرتے وقت اس بات كا لحاظ ركھا گيا ہے كہ ايسے اصلى منابع اور قديم كتب سے استفادہ كيا جائے جو صدر اسلام سے قريب تر زمانہ ميں تاليف كى گئي ہوں_

۲_ كتاب ميں بيان كئے گئے واقعات كى صحت كے بارے ميں مزيد اطمينان كے لئے متعدد مصادر سے رجوع كيا گيا ہے_

۳_ كتاب ميں واقعات نقل كرنے كے علاوہ ، واقعات كا تجزيہ اور زمانہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جنگوں ميں شكست و فتح كے اسباب كا جائزہ ليا گيا ہے_ نيز يہود، منافقين اور مشركين كى اسلام دشمن كا روائيوں پر بھى روشنى ڈالى گئي ہے_

۴_ تاريخى واقعات كے ضمن ميں شان نزول كى مناسبت سے قرآنى آيات ذكر كرنے كى كوشش كى گئي ہے_

۵_ قمرى تاريخوں كے ساتھ ساتھ شمسى اور عيسوى تاريخوں كو بھى ذكر كيا گيا ہے تا كہ جنگوں اور صدر اسلام كے ديگر اہم واقعات كے دوران موسمى حالات واضح رہيں_

۶_ فاصلہ اور دورى بعض جنگوں اور واقعات كا محل وقوع مدينہ سے دورى كيلومٹر ميں معين كى گئي ہے_

۷_ افراد اور مختلف مقامات كے نام پر اعراب لگاديئےئے ہيں تا كہ پڑھنے والوں كے لئے ان الفاظ كى صحيح تلفظ كے ساتھ ادائيگى ممكن ہوجائے_

۸_ كتاب كے مطالب كو اسباق كى شكل ميں بيان كيا گيا ہے جبكہ ہر سبق كے بعد كچھ سوالات بھى پيش كئے گئے ہيں_

۹_ اس كتاب ميں بہت سے نئے مطالب پيش كئے گئے ہيں جسكى وجہ سے يہ كتاب منفرد، انتہائي مفيد اور دلچسپ ہوگئي ہے_

۸

پہلا سبق

غزوہ بنى قينقاع

حضرت فاطمہ زہرا (ع) كا حضرت على (ع) كے ساتھ عقد

غزوہ سويق

غزوہ بنى سليم

''قَرَدَة''ميں سرّيہ زيد بن حارثہ

غزوہ غَطَفَان

جنگ احد كے مقدمات

جنگ رونما ہونے كے اسباب

پہلا قدم: جنگى بجٹ كى فراہمي

لشكر كى جمع آوري -- سياسى پناہ گزين

لشكر قريش كى مدينہ روانگي -- عباس كى خبر رساني

سپاہ قريش راستہ ميں

معلومات كى فراہمى

لشكر ٹھڑنے كى خبر

مدينہ ميں ہنگامى حالت

فوجى شوراى كى تشكيل

آخرى فيصلہ

سوالات

حوالہ جات

۹

غزوہ بنى قَينُقاع

بدر كى زبردست لڑائي نے علاقہ كے جنگى توازن كو مسلمانوں كے حق ميں كرديا _ جنگ كے بعد منافقين اور يہودى ، مسلمانوں كى فتح مبين سے حسد كرنے لگے اس لئے كہ وہ مسلمانوں كى ترقى سے سخت خائف تھے_ انھوں نے رسول خدا --صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كئے گئے معاہدوں كے برخلاف مسلمانوں اور اسلام كو بدگوئي اور دشنام طرازى كا نشانہ بنايا اور مگر مچھ كے آنسوبہاتے ہوئے قريش كو مسلمانوں سے انتقام لينے كے لئے بھڑكانے لگے_ ان كے شعراء ہجويہ نظموںميں كفار كے ليے مسلمان خواتين كے اوصاف بيان كركے مسلمانوں كى ناموس كى اہانت كرتے تھے_

رسول خدا نے مذكورہ '' مفسدين فى الارض'' ( زمين پر فساد پھيلانے والوں) كے قتل كا حكم صادر فرمايا اور وہ لوگ قتل كرديئے گئے_(۱)

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بخوبى جانتے تھے كہ يہودى آئندہ انتقامى جنگ ميں مدينہ سے باہر كے دشمنوں كے لئے راستہ ہموار اور اسلام كى پيٹھ پر خنجر كا وار كريں گے_ اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس مشكل سے بچنے كے لئے راستہ ڈھونڈ تے رہے اور سياسى و دفاعى طاقت كو زيادہ سے زيادہ

۱۰

مضبوط كرنے كى كوشش فرماتے رہے_

مدينہ كے يہوديوں ميں بنى قينقاع كے يہوديوں نے سب سے بڑھ چڑھ كر پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف سرد جنگ چھيڑ ركھى تھى ، انہوں نے نازيبا اور توہين آميز نعرے بلند كركے عملى طور پر عہد و پيمان كو لغو كرديا تھا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حجت تمام كرنے كى غرض سے بنى قينقاع كے بازار ميں مجمع سے خطاب كے دوران انہيں نصيحت كى اور اُس اجتماعى معاہدئے پر كاربند رہنے كى تاكيد فرمائي جو دونوں طرف سے كيا گيا تھا_ اور فرمايا كہ '' قريش كى سرگذشت سے عبرت حاصل كرو اس لئے كہ مجھے ڈرہے كہ جن مصيبتوں نے قريش كو اپنى لپيٹ ميں لے ليا تھا وہ تمھيں بھى نہ جكڑ ليں'' _

پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نصيحتيں يہوديوں كے لئے بے اثر ثابت ہوئيں انہوںنے گستاخانہ جواب ديا: ''اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كياآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہميں قريش سمجھ ركھا ہے؟ ناتجربہ كاروں سے جنگ ميں كاميابى كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مغرور ہوگئے ہيں ( معاذ اللہ) خدا كى قسم اگر ہم تمہارے خلاف جنگ كے لئے اٹھ كھڑے ہو ئے تو آپ - - ---صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو معلوم ہوجائے گا كہ مرد ميدان ہم ہيں يا كوئي اور؟

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كى تمام گستاخيوں اور جسارتوں كے باوجود اپنے غصّہ كو پى ليا اور انھيں ان كے حال پر چھوڑديا ، مسلمانوں نے بھى بردبارى سے كام ليا تا كہ ديكھيں آئندہ كيا ہوتا ہے؟

ابھى چند دن بھى نہ گذرے تھے كہ فتنہ كى آگ بھڑك اُٹھى _ ايك مسلمان عورت بنى قينقاع كے بازار ميں زيورات خريدنے كى غرض سے ايك سُنار كى دُكان كے سامنے بيٹھ گئي، يہوديوں نے اس عورت كے چہرے سے نقاب اتروانا چاہاليكن اس نے انكار كرديا

۱۱

اس يہودى سنارنے چپكے سے اس عورت كى لاعلمى ميں اس كے كپڑے كے كنارہ كو اس كى پشت پر باندھ ديا جب وہ عورت كھڑى ہوئي تو اس كا جسم عريان ہوگيا تمام يہودى ہنسنے لگے، عورت نے فرياد شروع كى اور مسلمانوں كو مدد كے لئے پكارا ايك مسلمان نے اس يہودى سناركو قتل كرڈالا ، يہوديوں نے بھى حملہ كركے اس مسلمان كو قتل كرديا_

بات بڑھ گئي اور مسلمان انتقام لينے كے لئے اُٹھ كھڑے ہوئے ،بنى قينقاع كے يہودى دكانيں بندكركے اپنے قلعوں ميں چھپ گئے_

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے مدينہ ميں '' ابولبابہ''(۲) كواپنا جانشين معيّن فرمايا اور لشكر اسلام كے ہمراہ ۱۵ شوال بروز ہفتہ ۲ ھ (ہجرت كے ۲۰ ماہ بعد اور جنگ بدر كے ۳۸ دن بعد) بنى قينقاع كے قلعہ كا محاصرہ كرليا، يہ محاصرہ پندرہ روز تك جارى رہا يہاں تك كہ يہوديوں نے تنگ آكر خود كو مسلمانوں كے حوالہ كرديا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منافقين كے سربراہ ''عبداللہ بن اُبَّي '' كى منّت و سماجت كى وجہ سے ان كے قتل سے درگزر فرمايا اور انھيں شام كے مقام ''اذراعات'' كى جانب ملك بدر كرديا، ان كے اموال كو مسلمانوں كے لئے مال غنيمت قرار ديا اور خمس نكالنے كے بعد مسلمانوں كے درميان تقسيم كرديا_(۳)

حضرت فاطمہ زہرا (ع) كا حضرت علي (ع) كے ساتھ عقد

اسلام كى عظيم ترين خاتون حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا كا عقد ہجرت كے دوسرے سال بدر كى لڑائي كے دو ماہ بعد حضرت على عليہ السلام سے ہوا_

شادى كى تقريب نہايت سادہ مگر معنوى شان و شوكت كے ساتھ منعقد ہوئي

۱۲

، حضرت فاطمہ زہرا (ع) كا مہر ۵۰۰ درہم(۴) تھاجو حضرت على (ع) نے اپنى زرہ فروخت كركے پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پيش كيا_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس ميں سے كچھ درہم اپنے اصحاب كو ديئے تا كہ بازار سے حضرت فاطمہ زہرا (ع) كے ليے جہيز كا سامان خريد لائيں_

مندرجہ ذيل چيزيں جہيز كے عنوان سے خريدى گئيں:

۱_ سات درہم كا ايك پيراہن

۲_ ايك درہم كى سر پراوڑھنے والى چھوٹى چادر

۳_ايك كالى چادر (قطيفہ)

۴_ايك عربى چارپائي جو لكڑى اوركھجور كے پتوں كى بنى ہوئي تھي

۵_دو توشك جن كا اوپر والا حصّہ مصرى كتان كا بنا ہوا تھا اور ايك ميں اون اور دوسرے ميں كھجور كے پتّے بھرے ہوئے تھے_

۶_چار تكيے جن ميں سے دواون اور دو كھجور كى چھال سے بھرے ہوئے تھے_

۷_ پردہ

۸_ چٹائي

۹_ چكى ( ہاتھ سے چلانے والي)

۱۰_ ايك بڑا طشت

۱۱_ كھال كى ايك مشك

۱۲_ ايك لكڑى كا پيالہ ( دودھ كے لئے)

۱۳_ايك كھال كا برتن ( پانى كے لئے)

۱۳

۱۴_ لوٹا

۱۵_ تابنے كے چند بڑے برتن

۱۶_مٹى كے چند كوزے

۱۷_ چاندى كا دست بند

پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اصحاب جب بازار سے لوٹے تو انھوں نے سامان آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے ركھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اپنى بيٹى كا جہيز ديكھا تو فرمايا:'' خدايا ان لوگوں كى زندگى كو مبارك قرار دے جن كے زيادہ تر ظروف مٹى كے ہيں''(۵)

اس با بركت شادى كا پہلا ثمرہ حضرت امام حسن مجتبى عليہ السلام ہيں آپ ۱۵ رمضان المبارك تين ہجرى كو جنگ احد سے پہلے متولد ہوئے_(۶)

غزوہ سويق

پانچ ذى الّحجہ ۳ ھ، ق بمطابق ۵جون ۶۲۴ئجنگ بدر ميںذلّت آميز شكست كے بعد ابو سفيان نے يہ نذر كى كہ جب تك محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ اور بدر كا انتقام نہيںلوں گا اس وقت تك عورتوں كے پاس نہيں جاو ںگا_ لہذا اس نے قبيلہ قريش كے دو سو،سواروں كو جمع كر كے مدينہ كى جانب كو چ كيا_

چونكہ دو سو ،سواروں كے ذريعہ مدينہ پر حملہ كرنے كى جرا ت اسميں نہيں تھى اس لئے شہر سے دور اس نے لشكر كو ٹھہرايا اور رات كى تاريكى سے فائدہ اُٹھا كر ''سلّام بن مشُكم ''كے پاس پہنچا جو كہ نبى نُضَيركے يہوديوںكا ايك بڑا آدمى تھا _ اس نے ابو سفيان كو مسلمانوں كى دفاعى كمزوريوں سے آگاہ كيا_

۱۴

ابو سفيان لشكر گاہ كى طرف پلٹ آيا اور كچھ سپاہيوں كے ہمراہ حملے كى نيت سے مدينہ كى طرف بڑھااور ''عُرَيض' ' نامى جگہ پر لوٹ مار كي، دو گھروں ، كھجور كے چند درختوں يا كھيتوں ميں آگ لگائي اورنخلستان ميں كام كرنے والے دو مسلمانوں كو قتل كر ديا _

جب دشمنوںكے حملے كى خبر پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو پہنچى تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بغير كسى تاخير كے ''ابو لبابہ '' كومدينہ ميں اپنا جانشين بنايااور مہاجرين و انصار ميں سے دو سو آدميوں كا لشكر لے كر دشمن كے تعاقب ميں نكل پڑے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''قَرقَرَةُ الكُدر' ' تك دشمن كا پيچھا كيا ليكن دشمن فرار ہو چكا تھا اور بھاگتے ہوئے ''سويق(۷) كے تھيلے ''كو گراںبارى سے بچنے كے لئے راستہ ہى ميںپھينك گيا تھا _ اس وجہ سے يہ غزوہ' غزوہ سويق كے نام سے مشہور ہوا_(۸)

غزوہ بنى سُلَيم

۱۵محرم ۳ ھق بمطابق ۱۵ جولائي ۶۲۴ئ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كويہ خبر ملى كہ غطفان و بنى سليم كے قبائل مكہ اور شام كے درميان بخارى كے راستے ميں (اطراف قَرقَرالكُدر ميں ) مدينہ پر حملہ كرنے كى تيارياں كر رہے ہيں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دو سو افراد كے ساتھ ان كى طرف بڑھے دشمن نے جب لشكر اسلام كو نزديك ہوتے ہوئے محسوس كيا تو رات كى تاريكى كا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاگ كھڑے ہوئے_

لشكر اسلام نے دشمنوں كے پانچ سو اونٹ غنيمت ميں حاصل كئے اور مدينہ كى طرف لوٹ آئے_(۹)

۱۵

''قَرَدَة''ميں سرّيہ زيد بن حارثہ

يكم جما دى الثانى ۳ ھ ق بمطابق ۲۲ نومبر ۶۲۴ئ جنگ بدر اور يثرب ميں اسلامى تحريك كے نفوذ كے بعد ' قريش كا مغربى تجارتى راستہ جو مكہ سے شام كى طرف جاتاتھا مسلمانوں كے زير نگين آجانے كى وجہ سے غير محفوظ ہو گياتھا _ قريش نے يہ ارادہ كيا كہ اپنے اورقافلہ كے تحفظ كے لئے اس راستہ كو چھوڑ كر طويل مشرقى راستہ اپنائيں_ يہ راستہ نجد كى آباديوں سے ہوكر، عراق اور عراق سے شام جاتا تھا_ انھوں نے اس راستہ سے گزرنے كے لئے ''راہنما'' كا انتظام كيا_

اس راستے سے پہلا قافلہ ''صفوان بن اُميّہ ''اور قريش كے ديگر سرداروں كى سربراہى ميں شام گيا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قافلے كى روانگى سے باخبر ہوتے ہى بلاتاخير ايك سو سواروں پر مشتمل ايك مضبوط لشكر تشكيل ديا اور ''زيد بن حارثہ ''كو اس كا كمانڈر بناكر حكم ديا كہ اس نئے راستے پر پہلے سے پہنچ كر قريش كے قافلے كا راستہ بند كرديں_ جناب زيد نجد كى طرف روانہ ہوئے اور اونٹوں كے نشان قدم كے ذريعہ قافلے كا تعاقب كيا، يہاں تك كہ مقام ''قَرَدہ ''پر كارواں كو جاليا_

قافلے كے نگران اور سر براہ افراد بھاگ كھڑے ہوئے اور پورا قافلہ بغير كسى خونريزى كے مسلمانوں كے ہاتھ آگيا اور قافلے كے دو نگہبان اسير ہوگئے_

خمس نكالنے كے بعد بقيہ مال '' جو كہ اسى ''۸۰ ''ہزار درہم تھے'' جنگى دستے كے سپاہيوں

كے درميان تقسيم ديا گيا_(۱۰)

۱۶

غزوہ غَطَفَان

نجد ميں ''ذى امرّ ''كے مقام پر رياض سے ۱۱كيلوميٹر شمال مغرب ميں ۱۲ ربيع الاول ۳ ھ_ ق بمطابق ۵ ستمبر ۶۲۴ء كو يہ غزوہ ہوا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر ملى كہ '' بنى ثَعلَبَہ'' اور '' بنى مُحارب'' كى ايك بڑى جمعيت نے ''ذى ا مَرّ'' كے مقام پر ڈيرہ ڈال ركھا ہے اور دُعثور بن حارث نامى شخص كى كمان ميں مدينہ پر حملے كا ارادہ ركھتے ہيں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چارسوپچاس جنگجو افراد كو جمع كركے دشمن كى طرف بڑھے_ يہ اطلاع ملتے ہى دشمن پہاڑيوں كى جانب بھاگ گيا _ غرض كہ كوئي ٹكراؤ نہيں ہوا_(۱۱)

جنگ احد كے مقدمات

بروز ہفتہ۷ شوال ۳ ھ ق بمطابق ۲۶ مارچ ۶۲۵ئ

جنگ رونما ہونے كے اسباب

اسلامى مركز ''مدينہ'' پر قريش كے فوجى حملے كے مختلف اسباب ہيں جنكى جانب مختصر طور پر اشارہ كيا جا رہا ہے_

۱_ جنگ بدر ميںمسلمانوں كى شاندار فتح ، قريش، يہود اور منافقين كے لئے باعث ننگ اور ناگوار تھي_ قريش نہ صرف اپنے سرداربلكہ اپنى سردارى ، ہيبت اور عربوں كے درميان موجود اثر و رسوخ كوبھى كھو بيٹھے اور يہ زمانہ جاہليت كے عربوں كے لئے نہايت رنج كا باعث تھا جو سردارى كو اپنا قومى فخر سمجھتے تھے_

۱۷

۲ _ كينہ و انتقام كى آگ ; قريش اور ان كے مقتولين كے وارثوں كے دلوں ميں كينہ اور انتقام كى آگ شعلہ ور تھى اور قريش كے سرداروں نے كشتگان بدر پر رونے كو حرام قرار ديا تھا تا كہ مناسب موقع پر ان كے جذبات بھڑكا كر منظم طريقے سے اسلام اور مسلمانوں سے انتقام ليا جاسكے_

۳ _يہوديوں كا بھڑكانا ; يہوديوں كے لئے اسلام كا پھيلنا خوش آئند نہ تھا _ لہذا انھوں نے مشركين قريش كو بھڑكانے ميں بڑا زبردست كردار ادا كيا_ بطور نمونہ ملاحظہ ہو _ ''كعب بن اشرف ''جنگ بدر كے بعد مدينہ سے مكہ كى طرف دوڑا اور وہاں قريش كے مقتولين كے لئے مرثيہ كہا اور مگر مچھ كے آنسو بہا كر ان كے زخم تازہ كرديئے _ يہاں تك كہ انہيں جنگ پر آمادہ كرنے كے لئے پاك باز مسلمان عورتوں كى خوبصورتى كا نقشہ اشعار كے قالب ميں ڈھال كر پيش كيا تا كہ مشركين كو مسلمانوں كے ساتھ جنگ كرنے، اور ان كى عورتوں اور لڑكيوں كو اسير بنانے پر اُكسائے_

۴_ اقتصادى محاصرے كا توڑ; قريش كى اقتصادى و معاشى زندگى كا دار و مدار تجارت پر تھا ، تجارتى راستے غير محفوظ ہونے اور مسلمانوں كے حملے كے ڈرسے ان كى تجارت خطرے ميں پڑ گئي تھى اور اقتصادى و معاشى زندگى جارى ركھنا مشكل ہوگيا تھا اس لئے اس محاصرے كو توڑنا اور ان مشكلات سے جان چھڑوانا بہت ضرورى ہوگيا تھا_

۵ _ آئندہ كے لئے پيش بندي: قريش اس بات سے بخوبى واقف تھے كہ اگر مسلمانوں كو قدرت حاصل ہوگئي تو وہ انہيں ہرگز نہيں چھوڑيں گے اور گذشتہ چند سالہ آزار و اذيت كا جواب ضرور ديں گے_ اس كے علاوہ بُت پرستوں كے ہاتھوں سے مسجد الحرام كو آزاد كروانے كے لئے كسى بھى كوشش سے دريغ نہيں كريں گے_

۱۸

يہ سارى باتيں سبب بنيں كہ قريش حملہ كرنے ميں پيش قدمى كريں اور بزعم خود اسلام اور پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا كا م تمام كرديں_

پہلا قدم ، جنگى بجٹ كى فراہمي

اس وسيع فوج كشى كے سلسلے ميں سب سے پہلا عملى اقدام جنگى مشقوں اور ديگر امور كے لئے زيادہ سے زيادہ بجٹ كى فراہمى تھا ، قريش ، دارالندوہ ( قريش كے مشورہ كرنے كى جگہ ) ميں جمع ہوئے اور بحث و مباحثہ كے بعد آخر ميں يہ طے پايا كہ پچاس ہزار طلائي دينار( تقريباً ساڑھے سات كروڑ تومان) ہونا چاہيئےوريہ رقم اس تجارتى كارواں كے منافع سے مہيّا كى گئي جس كوجنگ بدر سے پہلے ابوسفيان مكّہ ميں صحيح و سالم لے آيا تھا_(۱۲)

قرآن اس سلسلے ميں كہتا ہے كہ ''بيشك كافر اپنے اموال كو خرچ كرتے ہيں تا كہ (لوگوں كو) خدا كے راستہ سے باز ركھيں وہ لوگ ان اموال كو خرچ كر رہے ہيں ليكن يہ ان كى حسرت كا باعث ہوگا_ اس كے بعد ان كو شكست ہوگى اور آخرت ميں كافر جہنّم ميں جائيں گے _(۱۳)

لشكر كى جمع آوري

كفار قريش ، جنہوں نے نزديك سے اسلامى سپاہيوں كى شجاعت اور جذبہ شہادت كو

ديكھا تھا ، انھوں نے تہيّہ كيا كہ پورى توانائي كے ساتھ جنگ كے لئے اُٹھ كھڑے ہوں اور قريش كے علاوہ مكّہ كے اطراف و جوانب ميں موجود قبائل كے بہادروں كو بھى

۱۹

جنگ ميں شركت كى دعوت ديں_

چار آدميوں كو عرب كے باديہ نشين قبائل كے درميان بھيجا گيا تا كہ انھيں لڑنے اور مدد كرنے كى دعوت ديں، يہ چار آدمى ، عَمرو بن عَاص ، ہُبَيرہ بن ابو وَہَب ، ابن الزَّبَعرى اور ابو عَزَّہ تھے_

ابو عزہ شروع ميں اس ذمّہ دارى كو قبول نہيں كر رہا تھا ، وہ كہتا تھا كہ '' جنگ بدر كے بعد محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تنہا مجھ پر احسان كيا اور مجھ كو بغير تاوان كے آزاد كرديا ميں نے اُن سے وعدہ كيا تھا كہ ان كے مقابل آنے والے كسى بھى دشمن كى مدد نہيں كروں گا _ ميں اپنے پيمان كاوفادار ہوں''_

ليكن لوگوں نے اس كو قانع كيا تو وہ باديہ نشين قبائل كے درميان جاكر اشعار كے ذريعہ لوگوں كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف جنگ كرنے پر اكساتا اور لشكر اكٹھا كرتا رہا _دوسرے تين آدميوں نے بھى قبائل كو لڑائي پر اكساكر جمع كيا اور انجام كار قبائل كنَانہ اور تھَامہ كے كچھ لوگ قريش كے ساتھ مل كر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف جنگ كرنے پر تيار ہوگئے_(۱۴)

سياسى پناہ گزين

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے مدينہ ہجرت كے بعد ابوعامر فاسق ،قبيلہ اَوس كے ۵۰ افراد كے ساتھ مشركين كے سربرآوردہ افراد كى پناہ ميں آگيا تھا وہ مشركين مكّہ كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف جنگ كرنے پر اكساتا رہتا تھا اور اپنے قبيلے كے افراد كے ساتھ مشركين كى تياريوں ميں شريك تھا اس نے كہا كہ يہ ۵۰ افراد ميرے قبيلے كے ہيںاور جس وقت ہم سرزمين مدينہ پر

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں ان سے شفاعت کا طلب کرنا

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ حیات میں موجود روایات پر نگاہ ڈالنے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ صحابہ کرام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت کی درخواست کیا کرتے تھے جن میں سے دو مورد کی طرف اشارہ کررہے ہیں :

۱۔انس کی روایت:

انس بن مالک کہتے ہیں : میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ وہ روز قیامت میری شفاعت کریں

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میری درخواست کوقبول کرلیا اور فرمایا: میں اسے انجام دوں گا

میں نے عرض کیا : اس دن میں کس مقام پر آپ سے ملاقات کروں ؟

فرمایا : پل صراط کے کنارے. ۔

میں نے عرض کیا : اگر وہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہ پا سکوں تو پھر ؟( ۱ )

فرمایا : میزان کے کنارے۔

میں نے پھر عرض کیا : اگر وہاں بھی آپ کو نہ پا سکا تو پھر ؟

فرمایا : حوض کے کنارے اس لیے کہ میں ان تین مقامات کے علاوہ کہیں اور نہیں ہوں گا.

____________________

۱۔سنن ترمذی ۴: ۶۲۱ ، ح ۲۴۳۳. اس روایت کا متن یوں ہے : انس بن مالک کہتے ہیں : سألت النبی صلی الله علیه وآله وسلم أن یشفع لی یوم القیامة ؟

فقال : أنا فاعل .......قلت : فأین اطلبک ؟

قال: اولا علی الصراط

قلت : فان لم ألقک ؟

قال : عند المیزان

قلت: فان لم ألقک ؟

قال : عند الحوض ؛ فانّی لا أخطی هذا المواضع

۴۱

۲۔سواد بن قارب کی روایت:

روایت میں آیا ہے کہ ایک دن سواد بن قارب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور اشعار کی صورت میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت طلب کرتے ہوئے کہا :

وکن لی شفیعا یوم لا ذو شفاعة

سواک بمغن فتیلا عن سواد بن قارب ( ۱ )

اے پیغمبر ! روز قیامت میری شفاعت کرنا ، اس روز کہ جب دوسروں کی شفاعت خرما کے برابر بھی میرے کام نہ آئے گی

____________________

۱۔ الاصابة ۲: ۶۷۵،ح ۱۱۰۹؛ الاحادیث الطوال طبرانی : ۲۵۶ ؛ الدّرر السّنیة فی الرد علی الوھابیة: ۲۷

۴۲

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعدان سے شفاعت کی درخواست

ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت صرف ان کی زندگی ہی میں محدود نہیں تھی بلکہ صحابہ کرام وصال کے بعد بھی پیغمبر رحمتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت کی درخواست کرتے رہتے اس بارے میں چند روایات نقل کر رہے ہیں :

۱۔ حضرت علی علیہ السلام کا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت طلب کرنا :

محمد بن حبیب کہتا ہے : جب حضرت علی علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل وکفن دے چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ مبارک سے کفن کو ہٹاتے ہوئے عرض کیا :

بأبی أنت و امّی طبت حیّاو طبت میّتا بأبی أنت و امّی أذکرنا عند ربّک (۱)

میرے ماں باپ آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قربان ہوں آپ نے پاک و پاکیزہ زندگی کی اور پا ک و پاکیزہ ربّ کی بارگاہ میں منتقل ہوئے .. میرے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قربان ہوں اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہمیں بھی یاد رکھنا.

۱۔ التمہید ، ابن عبد البر ۲: ۱۶۲؛شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۱۳: ۴۲، ح۲۳.

۲۔ ابوبکر کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت طلب کرنا :

حضرت عائشہ کہتی ہیں : جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کی خبر ابو بکر تک پہنچی ...تو اس نے اپنے کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے (بدن مبارک )کے اوپر گرایا ، چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹاکر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صورت و پیشانی اور رخساروں پر ہاتھ ملتے ہوئے رو کر کہا :.اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! ہمیں اپنے پرور دگار کی بارگاہ میں یاد رکھنا( ۱ )

____________________

۱۔ تمہید الأوائل و تلخیص الدلا ئل ، باقلانی ۱: ۴۸۸؛ الدرر السنیّة فی الرد ّ علی الوبابیة : ۳۴؛سبل الھدی والرشاد ۲:۲۹۹، باب ۲۸. اس حدیث کا متن یہ ہے :قالت عائشه وغیرها من الصحابة : انّ الناس أفحموا ودهشوا حیث ارتفعت الرنة حتی جاء الخبر أبا بکر حتی دخل علی رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم فأکبّ علیه و کشف عن وجهه و مسحه و قبّل جبینه و خدّیه و جعل یبکی و یقول : بأبی أنت وأمی و نفسی وأهلی طبت حیّا و مشیا أذکرنا یا محمد عند ربّک

۴۳

۳۔ اعرابی کا صحابہ کی موجودگی میں شفاعت طلب کرنا:

احمد زینی دحلان ( امام الحرمین ) نے اس بارے میں ابن حجر عسقلانی سے روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے : روایت میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کے تین بعد ایک عر ب بادیہ نشین مدینے میں وار د ہوا اورقبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جا کر اپنے کو اس پر گرایا اور قبر کی خاک کو سر میں ڈال کر کہنے لگا : یا رسول اللہ ! آپ نے اپنی زندگی میں کچھ باتیں بیان فرمائیں ، ہم نے انہیں قبول کیا جس طرح آپ نے دستورات دینی کو خدا سے لیا اسی طرح ہم نے ان دستورات کو آپ سے لیا وہ آیات جو خدا وند متعال نے آپ پر نازل فرمائیں ان میں سے ایک یہ آیت بھی ہے :

( ولو أنهم اذ ظلموا أنفسهم جاؤوک فاستغفروا الله واستغفرلهم الرسول لوجدوا الله توّابا رحیما ) ۔

اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے لیے استغفار کرتے اور رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ان کے لیے استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے.( ۱)

یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! میں نے اپنے اوپر ستم کیا ہے اور آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں تا کہ خدا سے میری بخشش کی دعا کریں

اتنے میں قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آواز آئی کہ خد انے تجھے بخش دیا ہے( ۲ )

____________________

۱۔سورہ نساء : ۶۴

۲۔الدرر السنیّة فی الردّ علی الوہابیة : ۲۱، نقل از جواہر الکلام ؛ تفسیر قرطبی ۵: ۲۶۵، ذیل آیت ۶۴ سورہ نساء ؛ تفسیر بحر المحیط ابو حیّان اندلسی ۴: ۱۸۰، باب ۶۴ ذیل سورہ نساء ان کتب میں یوں نقل ہوا ہے :قال العلاّمة ابن حجر فی جوهر المنّظم : وروی بعض الحفاظ عن أبی سعید السمعانی أنّه روی عن علی رضی الله عنه وکرّم الله وجهه : انّهم بعد دفنه صلی الله علیه وآله وسلم بثلاثة ایّام ، جائهم أعرابی ، فرمی بنفسه علی القبر الشریف و حثی ترابه علی رأسه ، وقال : یا رسول الله ! قلت فسمعنا قولک و وعیت عن الله ما وعینا عنک ، وکان فیما أنزل الله علیک قوله تعالی : ولو أنهم اذ ظلموا وقد ظلمت

۴۴

حیات انبیاء

اس میں شک نہیں ہے کہ انبیائے الہی اور خاص طور پر آخری سفیر الہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحلت کے بعد بھی حیات ابدی کے مالک ہیں وہ دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں اور امّت کے اعمال ان کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں

ان کی یہ زندگی شہداء کی زندگی سے بالا تر ہے اس لیے کہ یقینا مقام نبوت مقام شہادت سے بلند وبالا ہے اس اعتبار سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد ان سے شفاعت طلب کرنا کسی مردے سے شفاعت طلب کرنا نہیں ہے.

اس بارے میں مسلمان علماء و مفکرین نے اپنی آراء بیان کی ہیں جن میں سے چند ایک کو یہاں بیان کر رہے ہیں :

قسطلانی کہتے ہیں :لا شک ّ أنّ حیاة الأنبیاء علیهم الصلاة و السلام ثابتة معلومة مستمرّة و نبیّنا أفضلهم ، و اذا کا ن کذالک فینبغی أن تکون حیاته أکمل و أتمّ من حیاة سائرهم

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انبیاء کا وفات کے بعد بھی زندہ ہونا ایک ثابت، معلوم اور دائمی امر ہے دوسر ی طرف ہمارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم باقی انبیاء سے افضل ہیں تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی بھی رحلت کے بعد ان سے اکمل ہو گی( ۱ )

____________________

۱۔المواھب اللدنیّة ۳: ۴۱۳.

۴۵

شوکانی اپنی کتا ب نیل الأوطار فصل صلا ة المخلوقات علی النبی ّ وهو فی قبره حیّمیں لکھتا هے : وقد ذهب جماعة من المحققین الی انّ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم حیّ بعد وفاته و أنّه یسرّ بطاعات أمته ، وأنّ الأنبیاء لا بیلون ، مع أنّ مطلق الادراک کالعلم والسماع ثابت لسائر الموتی ، وورد النصّ فی کتاب الله فی حق ّ الشهدا ء أنّهم أحیاء یرزقون و أنّ الحیاة فیهم متعلقة بالجسد ، فکیف بالأنبیاء والمرسلین وقد ثبت فی حدیث : أنّ الأنبیاء أحیاء فی قبورهم و رواه المنذری و صحّحه البیهقی

محققین کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحلت کے بعد بھی زندہ ہیں اور اپنی امّت کی اطاعا ت سے خوش ہوتے ہیں .انبیاء کے بدن قبر میں بوسیدہ نہیں ہوتے مطلقا ادراک جیسے علم وسماعت تمام مردوں کے لیے ثابت ہے اور قرآ ن کریم کی واضح نص کے مطابق شہدا ء زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے تو ان کی زندگی ان کے بدن سے متعلق ہے پس جب شھداء ایسے ہیں تو انبیاء و رسول تو بدرجہ اولیٰ زندہ ہیں اور ان کی زندگی ان کے جسم سے مربوط ہے

ابن حجرہیثمی اپنی کتاب میں عبد اللہ بن مسعود سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات کے بعد اپنی حیات کے بارے میں یوں فرمایا :حیاتی خیر لکم تحدثون و یحدث لکم ، ووفاتی خیر لکم ، تعرض علیّ أعمالکم فما رأیت من خیر حمدت الله علیه وما رأیت من شرّ أستغفرت الله لکم

میری زندگی بھی تمہارے لیے با عث برکت ہے اور میری وفات بھی تمہارے اعمال میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں جب تمہارے نیک اعمال کو دیکھتا ہوں تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور جب تمہارے برے اعمال کو دیکھتا ہوں تو تمہارے لیے استغفار کرتا ہوں

۴۶

ابن حجر اس حدیث کی سند کے معتبر ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اس حدیث کے راوی وہی صحیح بخاری اور صحیح مسلم والے ہیں( ۱ )

مسلم نیشاپوری نے بھی اپنی کتاب میں اس بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :مررت علی موسیٰ لیلة اسری بی عند الکثیب الأحمر وهو قائم یصلّی فی قبره

جب مجھے معراج پر لے جایا گیا تو میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا وہ اپنی قبر میں نماز میں مشغول تھے.( ۲ )

____________________

۱۔ مجمع الزوائد ۹ : ۲۴؛ الجامع الصغیر : ۵۸۲؛ کنز العمّال ۱۱: ۴۰۷.

۲۔ صحیح مسلم ۷: ۱۰۲کتاب فضائل موسیٰ علیہ السلام ؛ المصنف عبد الرزّاق ۳:۵۷۷.

۴۷

استغفارآیات کی روشنی میں

اب چونکہ استغفار کی بات آگئی تو مناسب یہی ہے کہ اس موضوع کو آیات و روایات کی روشنی میں پرکھا جائے اس بارے میں قرآن کریم کی بہت سی آیات موجود ہیں جن میں سے چند ایک کو بیان کر رہے ہیں :

۱۔ ہم سورہ منافقون میں پڑھتے ہیں :

( واذا قیل لهم تعالوا یستغفر لکم رسول الله لوّوا رؤسهم و رأیتهم یصّدون وهم مستکبرون ) ( ۱)

ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ تمہارے حق میں استغفار کریں گے تو سر پھرا لیتے ہیں اور تم دیکھو گے کہ استکبار کی بناء پر منہ بھی موڑ لیتے ہیں

خدا وند متعال نے اس آیت مجیدہ میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شفاعت طلب کرنے سے رو گردانی کرنے کو نفاق کی علامت بیان کیا ہے .تو اس کی ضد یا نقیض وہی دنیا میں شفاعت کی درخواست کرنا ہے جو ایمان کی علامت ہے

۱۔ سورہ نساء میں بیان ہوا ہے :( ولو أنّهم اذ ظلموا أنفسهم جاؤوک فاستغفرواالله واستغفر لهم الرسول لوجدوا الله توّابا رحیما ) ( ۲)

ترجمہ: اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا توآپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا او ر مہربان پاتے.

نیز یہ آیت بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بخشش کے طلب کرنے کو واضح طور پر بیان کررہی ہے جو حقیقت میں وہی طلب شفاعت ہے

____________________

۱۔سورہ منافقون : ۵.

۲۔سورہ نساء : ۶۴.

۴۸

شفاعت کے بارے میں وہابی نظریہ

وبابی فرقہ اس بات کا مدعی ہے کہ دنیا میں شفاعت کا طلب کرنا حرام ہے .ابن عبد الوھاب کہتا ہے :(من جعل بینه و بین الله وسائط یدعوهم و یسألهم الشفاعة کفراجماعا )( ۱ )

جو شخص اپنے اور خدا کے درمیان واسطے قرار دے ، انہیں پکارے اور ان سے شفاعت طلب کرے تو اجماع کے مطابق اس نے کفر کیا ...؛

ہم ان کے اس نظریہ کو ردّ کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنے مدعا پر محکم و قاطع ادلّہ بیان کریں گے اور پھر علمی وعقلی ادلّہ کے ساتھ ان کے نظریہ کو ردّ کریں گے

واضح ہے کہ وہابی دونوں اعتبار سے عاجز و ناتوان ہیں اب ہم فقط ان کی ادلّہ کو بیان کرنے پر اکتفا کریں گے

سب سے پہلی آیت جس سے وہابی استدلال کرتے ہیں وہ یہ آیت مجیدہ ہے کہ خدا وند متعال فرماتا ہے: (( ویعبدون من دون الله مالا یضرّهم ولا ینفعهم و یقولون هٰؤلاء شفعائنا عند الله قل أتنبئون الله بما لا یعلم فی السماوات ولا فی الأرض سبحانه وتعالی عمّا یشرکون ) )( ۲ )

ترجمہ:اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ا ن کی پرستش کرتے ہیں جو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کرنے والے ہیں تو آپ کہہ دیجیے کہ تم تو خدا کو اس بات کی اطلاع کر رہے ہو جس کا علم اسے زمین و آسمان میں کہیں نہیں ہے وہ پاک وپاکیزہ ہے اور ان کے شرک سے بلند و برتر ہے

محمد بن عبد الوہاب اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہتاہے : خدا نے اس آیت میں یہ خبر دی ہے کہ جو شخص کسی کو خدا اور اپنے درمیان واسطہ قرار دے تو اس نے در حقیقت اس کی پرستش کی اور اسے خدا کا شریک ٹھہرایا ہے.

____________________

۱۔ مجموعة المؤلفات ۱: ۳۸۵؛ اور ۶: ۶۸ ،۲۔ سورہ یونس : ۱۸.

۴۹

اس نظریہ کا جواب

ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ اس آیت سے اس طرح کا مفہوم لینا بہت عجیب اور خدا پر جھوٹ و افتراء کا واضح مصداق ہے اس آیت میں کہاں یہ کہا گیا ہے کہ کسی کو خدا اور اپنے درمیان واسطہ قرار دینا شرک ہے؟ کیا اس طرح کا مفہوم لینا اس آیت مجیدہ کا مصداق نہیں ہے :

( آلله أذن لکم أم علی الله تفترون ) ( ۱ )

کیا خدا نے تمہیں اس کی اجازت دی ہے یا خدا پر افترا کررہے ہو ؟

اس لیے کہ آیت کا محورغیر خدا کی عبادت ہے نہ کہ کسی کو شفیع و واسطہ قرار دینا .آیت مجیدہ سے اس طرح کا مفہوم لینا اپنے مدعا کے اثبات کی خاطر ایک طرح کا مغالطہ یا کج فہمی ہے چونکہ یقینا جو لوگ انبیاء و آئمہ اطہار اورصالحین کو واسطہ قرار دیتے ہیں وہ ان کی پرستش نہیں کرتے.

اور پھر اس آیت مجیدہ کا شان نزول بھی اس بات کی حکایت کررہا ہے کہ جن کی مذمت کی گئی وہ وہ افراد تھے جو واسطوں کی پرستش کیا کرتے تھے نہ کہ صرف ان کو واسطہ قرار دیتے تھے چند ایک نمونوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں

جلال الدین سیوطی لکھتاہے: نضر ( جو مشرک تھا ) نے کہا :

روز قیامت لات وعزیٰ میری شفاعت کریں گے .اس وقت خدا وند متعال نے یہ آیت نازل کی :( فمن أظلم ممن افتری علی الله کذبا أو کذب بآیاته انّه لا یفلح المجرمون. و یعبدون من دون الله مالا یضرّهم ولا ینفعهم ..؛ ) ( ۲ )

ترجمہ : اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ پرجھوٹا الزام لگائے یا اس کی آیتوں کی تکذیب کرے جب کہ وہ مجرمین کو نجات دینے والا نہیں ہے اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں نہ فائدہ ...؛

____________________

۱۔ سورہ یونس : ۵۹.

۲۔سورہ یونس : ۱۷و ۱۸.

۵۰

ابن کثیر اس آیت کی تفسیر اور شان نزول کے بارے میں لکھتاہے:

خداوند متعال اس آیت میں ان مشرکین کوردّکررہا جو اس کا شریک قرار دیتے اور ان کی پرستش کیا کرتے .وہ یہ گمان کرتے کہ ان کے خیالی خداان کو پروردگار حقیقی کے ہاں نفع پہنچائیں گے لہذا خدا وند متعال نے ان کے اس باطل عقیدے کے مقابلہ میں ان سے فرمایا : بتوں کی شفاعت نہ تو تمہیں فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان کو تم سے دور کر سکتی ہے وہ کسی چیز کے مالک نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے بارے میں تمہارا گمان درست واقع ہو گا( ۱ )

ابو حیّان اندلسی نے بھی اس بارے میں یوں اظہار نظر کیا ہے :

فعل یعبدون کی ضمیر کفار کی طرف پلٹ رہی ہے اور( مالا یضرّهم ولا ینفعهم ) سے مراد بت ہیں جو نفع پہنچانے یا ضرر کو دفع کرنے کی قدرت نہیں رکھتے. اہل طائف لات کی پوجا کیا کرتے اور اہل مکہ عزٰی ، منات ، آسافا ، نائلہ اور ہبل کی پرستش کیا کرتے( ۲ )

____________________

۱۔ تفسیر القرّن العظیم ۲:۶۲۴ ذیل آیت سورہ یونس ، اس منبع میں اس طرح سے وارد ہوا ہے ۔ینکر تعالی علی المشرکین الذین عبدوا مع الله غیره ظانین ان تلک الالهة تنفعهم شفاعتها عند الله فأخبر تعالیٰ انها لا تنفع و لا تضر و لا تملک شیئا و لا یقع شیء مما یزعمون فیها و لا یکون هذ ابدا

۲۔ تفسیر البحر المحیط ؛ ج۵ ، ص ۱۳۳ سورہ یونس کی اٹھار ویں آیت کے ضمن میں اس منبع میں اس طرح سے نقل ہوا ہے :الضمیر فی و یعبدون عائد علی کفار قریش الذین تقدمت محاورتهم وما لا یضرهم و لا ینفعهم هو الاصنام ، جماد لا تقدر علی نفع و لا ضرر وکان أهل الطائف یعبدون اللات و أهل مکة العزی و مناة و أسافا و و نائلة وهبل

۵۱

آلوسی مشرکین کی اس طرح کی عبادت کو ظلم شمار کرتے ہوئے لکھتا ہے:

یہ آیت مشرکین کے ایک اور ظلم کی حکایت کر رہی ہے اور اس جملہ کا عطف آیت نمبر ۱۵ پر ہے جس میں یہ فرمایا :( واذاتتلی علیهم ) کہ یہ آیت بھی مشرکین کے بارے میں تھی اور خدا وند متعال اس آیت کے قصہ کو اس آیت کے قصہ پر عطف کر رہا ہے اور پھر لفظ ما اس آیت میں یا تو موصولہ ہے یا موصوفہ کہ جس سے مراد بت ہیں اور انہی کی طرف اشارہ ہے اور اس جملہ نہ تمہیں نفع پہنچاسکتے ہیں اور نہ ہی تم سے ضرر کو دور کر سکتے ہیں کا معنی یہ ہے وہ شفاعت کی قدرت نہیں رکھتے اس لیے وہ جمادات کے سوا کچھ نہیںہیں

اس کے بعد آلوسی نے مزید لکھاہے :

اہل طائف لات کی پوجا کیاکرتے اور اہل مکہ رزی ، منات ، آسافا ، نائلہ اور ہبل کی پوجا کیا کرتے اور کہتے کہ یہ خدا کے ہاں ہمارے شفیع ہیں

ابن ابی حاتم نے عکرمہ سے یو ں نقل کیا ہے :

نضر بن حارث کہتا ہے : جب روز قیامت آئے گا تو لات و عزٰی ہماری شفاعت کریں گے اس کی اس گفتگو کے بعد یہ آیت نازل ہوئی( ۱ )

____________________

۱۔ تفسر روح المعانی ۱۱: ۸۸، ذیل آیت ۱۸ سورہ یونس اس میں یوں بیان ہوا ہے :ویعبدون من دون الله حکایة لجنایة أخرٰی لهم ، وهی عطف علی قوله سبحانه : واذا تتلی علیهم ، ( یونس : ۱۵) الآیة عطف قصّة علی قصّة وما امّا موصولة أو موصوفة والمراد بها الأصنام و معنی کونها لا تضرّ ولا تنفع أنّها لا تقدر علی ذلک لأنّها جمادات ، وکان أهل الطائف یعبدون اللات ، وأهل مکّة العزٰی ومناة و هبل و أسافا ونائلة و یقولون : هٰؤلاء شفعائنا عند الله ٔخرج ابن أبی حاتم عن عکرمة قال:کان نضر بن الحارث یقول: اذاکان یوم القیامة شفعت لی اللات والعزٰی ، وفیه نزلت الآیة.

۵۲

حرمت شفاعت پردوسری دلیل

وہابیوں نے غیر خداسے شفاعت طلب کرنے کے حرام ہونے کی دوسری دلیل یو ں بیان کی ہے :

المیّت لا یملک لنفسه نفعا و لا ضرّا فضلا لمن سأله أن یشفع له الی الله ؛( ۱ )

میّت نہ تو اپنے نفع کا مالک ہے اور نہ ہی نقصان کا چہ جائیکہ وہ سوال کرنے والے کی خدا کے ہاںشفاعت کر سکے

ہم ان کی اس دلیل کے جواب میں کہیں گے : ہم اس سے پہلے تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے کہ انبیاء ، آئمہ ہدٰی اور شہداء زندہ ہیں اور نعمات الہی سے بہرہ مند ہیںجو ان کی حیات مجدد کی علامت ہے

جبکہ اس فرقے کا اشتباہ اسی مقام پر ہے کہ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ انبیاء کی رحلت کے بعد ان سے شفاعت کی درخواست کرنا ایساہی ہے جیسے کسی مردے سے شفاعت کی درخواست کی جائے گویا انہوں نے قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت ہی نہیں کی ہے یا اس کے معنیٰ میں تدبّر نہیں کیا یا پھر باقی آیات کی مانند اس آیت کی تفسیر بھی اپنی کج فہمی کے ساتھ کی ہے خد اوند متعال فرماتا ہے :

( ولا تحسبنّ الّذین قتلوا فی سبیل الله أمواتا بل أحیاء عند ربّهم یرزقون فرحین بما آتاهم الله من فضله و یستبشرون بالّذین لم یلحقوا بهم من خلفهم ألّا خوف علیهم ولا هم یحزنون یستبشرون بنعمة من الله و فضل و أنّ الله لا یضیع أجر المؤمنین ) ( ۲ )

ترجمہ: او ر خبر دار راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ مت کہنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں خدا کی طرف سے ملنے والے فضل و کرم سے خوش ہیں اور جو ابھی تک ان سے ملحق نہیں ہو سکے ہیں ان کے بارے میں خوش خبری رکھتے ہیں کہ ان کے واسطے بھی نہ کوئی خوف ہے نہ حزن وہ اپنے پرور دگار کی نعمت ، اس کے فضل اور اس کے وعدے سے خوش ہیں کہ وہ صاحبان ایمان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا

____________________

۱۔ مجموعة المؤلفات ۱: ۲۹۶؛ اور ۴: ۴۲.

۲۔ سورہ آل عمران : ۱۶۹ تا ۱۷۱.

۵۳

سمھودی نے بھی کتابوفاء الوفاء بأحوال دار المصطفیٰ میں ان روایات کو نقل کیا ہے جو انبیاء کی رحلت کے بعد بھی ان کے زندہ ہونے پر دلالت کررہی ہیں جن میں سے ایک روایت یہ ہے :

ألأنبیاء أحیاء فی قبورهم یصلّون

انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں.

دوسری روایت یہ ہے :

انّ الله حرّم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیائ ؛( ۱ )

خدا وند متعال نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کے اجساد کو نقصان پہنچائے

اس بارے میں اور بھی روایات وارد ہوئی ہیں جو انبیاء علیہم السلام کی رحلت کے بعد ان کے زندہ و جاوید ہونے پر دلالت کرتی ہیں جو کچھ بیان کیا گیا اس کی بناء پر اس فرقہ کا عقیدہ مسلمانوں کے ان مسلّمہ عقائد کے خلاف ہے جو انہوں نے دسیوں آیات و روایات سے لیے ہیں

دوسری جانب چونکہ وہابی ان واضح و قاطع ادلّہ کو ردّ یا ان کی توجیہ نہیں کرسکتے لہذا ان کا تفکّر مسلمانوں کے تفکّر کے مقابل قرار پاتا ہے اور عبد الکافی سبکی کے بقول ابن تیمیہ :شذّ عن جماعة المسلمین ؛ وہ مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہو گیا( ۲ )

ہم انحراف کے شر، شیطان کے وسوسے اورنفاق سے بچنے کے لیے خداوند متعا ل سے پناہ چاہتے ہیں

____________________

۱۔ وفاء الوفاء بأحوال دار المصطفیٰ ۴: ۱۳۴۹.

۲۔ طبقات الشافعیة الکبرٰی ۱۰: ۱۴۹؛ مقدمة الدرّة المضیئة فی الردّ علی ابن تیمیہ بحوث فی الملل والنحل سبحانی ۴: ۴۲ ؛ سلفیان در گذر تاریخ : ۲۳.

Internet Download Manager

Internet Download Manager has been registered with a fake Serial Number

OK

۵۴

خاک مدینہ سے علاج

نقل شدہ روایات کے مطابق مسلمان خاک مدینہ کو بطور تبرّک استعمال کیا کرتے سمھودی کہتے ہیں :

ابن نجّار کی کتاب اور ابن جوزی کی کتاب الوفاء سے ہم تک یہ روایت پہنچی ہے:

غبار المدینة شفاء من الجذام (۱)

____________________

۱۔ فیض القدیر ۴: ۴۰۰؛ التیسیر بشرح الجامع الصغیر ۲: ۱۵۹.

۵۵

مناوی فیض القدیر میں لکھتے ہیں: ابوسلمہ کہتے ہیں : مجھ سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا : غبارالمدینة شفاء من الجذامیعنی مدینہ منورہ کا غبار جذام کی بیماری کے لئے شفاء کا باعث ہے

وہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

ایک شخص جذام کے مرض میں مبتلا تھا ہم نے دیکھا کہ بیماری سے اس کی حالت بہت بری ہوچکی تھی اس نے مدینہ منوّرہ کی خاک شفاء کے طور پر استعمال کی ،ایک دن گھر سے باہر آیا اور ( قبا کے راستہ میں وادی بطحان کے اندر)کومة البیضاء نامی ریت کے ٹیلہ پر جاکر اپنے بدن کو زمین پر ملا جس سے اسے شفا مل گئی ۔( ۱ )

تبرّک اور اہل سنّت فقہاء کا نظریہ

گزشتہ صفحات میں ہم نے بیان کیا کہ فقہائے اہل سنت نے تبرّک کے جائز ہونے کا فتوی دیا ہے .عبداللہ بن حنبل کہتے ہیں : میں نے اپنے والد سے پوچھا : ایک شخص منبر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تبرّک کے طور پر مس کررہا تھا اور اسے چوم رہا تھا اور یہی عمل قبر مبارک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھی بجا لا رہا تھا ،کیا یہ عمل جائز ہے؟

فرمایا : اس میں کوئی عیب نہیں ہے( ۲ )

یہی روایت کتابالجامع فی العلل و معرفة الرجال میں اس اضافہ کے ساتھ نقل ہوئی ہے کہ : یہ شخص ان اعمال کو خداوند متعال کی بارگاہ میں تقرّب کا وسیلہ بھی قرار دیتا ہے؟

احمد بن حنبل نے جواب میں کہا : اس میں کوئی مشکل نہیں ہے( ۳ )

____________________

۱۔فیض القدیر ۴: ۴۰۰

۲۔بحوالہ سابق۴: ۱۴۱۴؛سبل الھدی والرشاد ۱۲: ۳۹۸؛ عمدة القاری ۹: ۲۴۱

۵۶

ابن العلا کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل کا نظریہ ابن تیمیہ کو دکھایا تو وہ اسے دیکھ کر تعجب میں پڑ گیا اور کہنے لگا : مجھے احمد سے تعجب ہو رہا ہے اس لئے کہ میرے نزدیک وہ ایک باعظمت شخص ہیں.کیا واقعا یہ انہی کا جملہ ہے ۔( ۱ )

رملی شافعی نے بھی تبرّک کے بارے میں اسی طرح کا فتوٰی دیا ہے : اگرکوئی شخص کسی نبی یا ولی یاعالم کی قبر پر تبرّک کے قصد سے ہاتھ پھیرے یا اسے چومے تو اس میں کوئی عیب نہیں ہے.( ۲ )

محب الدین طبری شافعی کہتے ہیں : قبر کو چومنا اور اسے مس کرنا جائز ہے اور علماء وصالحین کی بھی یہی عادت رہی ہے.( ۳ )

آثار پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تبرّک

تبرّک کے دیگر نمونوں میں سے ایک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ان کے باقیماندہ آثار سے تبرّک حاصل کرنا ہے منبر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں کے ہاں ایک خاص عظمت و مقام ر کھتا ہے یہاں تک کہ بعض فقہاء نے اس منبر کی عظمت واحترام کی وجہ سے اس کے پاس قسم کھانے سے منع کیا ہے اور ہمیشہ اس سے تبرّک حاصل کیا کرتے

کتاب آثار النّبوة میں نقل ہوا ہے کہ منبر پیغمبر وصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی جگہ پر موجود تھا کہ آگ کی لپیٹ میں آگیا جس سے اہل مدینہ کو بہت صدمہ پہنچا ؛ اسی آتش سوزی میں منبر کا دستہ جس پر آنحضرت اپنادست مبارک رکھا کرتے اور پاؤں مبارک کے رکھنے کی جگہ بھی جل گئی( ۴ )

____________________

۱۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۴۱۴.

۲۔ کنز المطالب ،حمزاوی :۲۱۹؛یہ فتوی شراملسی نے شیخ ابو ضیاء سے ''مواہب اللدنیہ ''کے حاشیہ میں نقل کیا. ۳۔اسنی المطالب ۱: ۳۳۱؛وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۴۰۷ ۴۔الآثارالنّبویة :

۵۷

سمہودی کہتے ہیں : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منبر پر غلاف کے مانند ایک کپڑا چڑھا کر روضہ آنحضرت کے پاس محراب میں رکھ دیا گیا ، لوگ اس محراب سے ہاتھ بڑھا کرتبرّک کے طور پر منبر مبارک کو مس کیا کرتے تھے( ۱ )

انہی روایات کی بناء پر فقہاء تبرّک اور منبر کے مس کرنے کے جواز کا فتوٰی دیا کرتے.امام مالک کے استاد یعنی یحیی بن سعید انصاری ،مالک ، ابن عمر اور مسیب سے نقل ہوا ہے کہ وہ منبر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دستے کو مس کرنا جائز قرار دیتے اور اسی طرح اس کا جائز ہونا اہل بیت علیہم السلام سے بھی نقل ہوا ہے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

واذا فرغت من الدّعا ء عند قبر النبیّ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فآت المنبر فامسحه بیدک وخذ برمّانتیه ، وهما السفلان ، وامسح عینیک ووجهک به ، فانّه یقال : انّه شفاء للعین .( ۲ )

جب قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس دعا سے فارغ ہوں تو منبر کے پاس جا کر اسے مس کریں اور پھر اسکے دونوں دستوں کو تھام کر اپنی صورت اور آنکھیں اس سے مس کریں ،اس لئے کہ یہ عمل آنکھوں کی شفا کا موجب ہے۔

امام غزالی نے بھی اس بارے میں اظہار نظر کرتے ہوئے لکھا ہے: جو شخص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں ان کو دیکھ کر تبرّک حاصل کر سکتا ہے وہ ان کی وفات کے بعد ان کی زیارت کرکے بھی تبرّک حاصل کر سکتا ہے اوریہی چیز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کے لئے سفر کر نے کے جواز کا باعث بنتی ہے.( ۳ )

____________________

۱۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی۲: ۳۹.

۲۔ وسائل الشیعة ۱: ۲۷۰،باب ۷.

۳۔احیا ء العلوم ۱: ۲۵۸.

۵۸

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مس شدہ سکوں سے تبرّک

نقل شدہ روایات کے مطابق صحابہ کرام ان سکوں سے تبرّک حاصل کیا کرتے جنہیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مس کیا تھا جابر بن عبداللہ کہتے ہیں: ایک سفر میں میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ تھاتو میرا اونٹ مریض ہو گیا اور میں قافلہ سے پیچھے رہ گیا ،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے پوچھا : اے جابر ! کیا ہوا ؟

میں نے عرض کیا : میرا اونٹ مریض ہو گیا ہے. آنحضرت نے اسے ہاتھ پھیرا تو وہ اس قدر تندرست ہوگیا کہ پورے قافلے سے آگے آگے چلنے لگا. اور پھر آنحضرت نے اسے خریدنے کا فرمایا : تو میں نے عرض کیا : آپ کے لئے حاضر ہے لیکن آپ نے قبول نہ کیا

اس کے بعد جابر کہتے ہیں : میں اسی اونٹ پر مدینہ گیا تو آنحضرت نے بلال سے فرمایا کہ اسے اونٹ کی قیمت سے کچھ زیادہ پیسے دے دو

جابر کہتے ہیں میں نے ارادہ کیا کہ یہ اضافی پیسے مرتے دم تک اپنے سے جدا نہیں کروں گا .میں نے انہیں اپنے تھیلے میں رکھ لیا یہاں تک کہ واقعہ حرّہ( یہ وہ دن تھا جب سپاہ یزید نے مدینہ منوّرہ پر حملہ کر کے لوگوں کا وحشیانہ طریقہ سے قتل عام کیااوران کا مال لوٹ لیا ) میں شامی فوجیوں نے مجھ سے چھین لئے۔( ۱ )

ایک اور روایت میں ہے کہ انس بن مالک کہتے ہیں : ایک دن حجام پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بال تراش رہا تھا تو صحابہ کرام اس کے ارد گرد جمع تھے او رہر ایک نے آنحضرت کا ایک ایک بال پکڑ رکھا تھا۔( ۲ )

نیز ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ احمد بن حنبل ہمیشہ اپنے پاس ایک بال رکھا کرتے اور کہتے کہ یہ پیغمبر کا ہے( ۳ )

____________________

۱۔ مسند احمد بن حنبل ۳: ۳۱۴،ح ۱۴۴۱۶؛ صحیح بخاری ۲: ۸۱۰،ح ۲۱۸۵.

۲. جامع االأصول۴:۱۰۲.

۳۔ سیر أعلام النبلاء ۱۱: ۲۵۶و۲۳۰.

۵۹

نقل ہوا ہے کہ معاویہ نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ مجھے پیغمبر کے پیراہن اور چادر میں دفن کیاجائے اور ساتھ آنحضرت کا بال مبارک رکھا جائے( ۱ )

اگرچہ یہ وصیت ریا کاری کی بناء پر تھی یایہ کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے چونکہ اس کا راوی عبدالاعلی بن میمون ہے جو مجہول الحال اور رجال کی معتبر کتب میں اس کا نام ونشان تک نہیں ہے البتہ تبرّک ایک ایساامر ہے جو مسلمانوں کے درمیان رائج رہا ہے

کہا گیاہے کہ تاریخ میں یہ بھی نقل ہوا ہے کہ صحابہ کرام پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آب وضو کے قطرات سے شفاطلب کرنے کی خاطر آپس میں جھگڑا کرتے( ۲ )

حضرت عائشہ کہتی ہیں : لوگ اپنے بچوں کو تبرک کے طور پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس لایا کرتے( ۳ )

ابن منکدر تابعی ہمیشہ مسجد نبوی کے صحن میں آکر لیٹ جایا کرتے اور اپنا بدن وہاں پر رگڑاکرتے، جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو کہا : میں نے یہاں پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا ہے

البتہ چونکہ وہ تابعی ہیں اور پیغمبر کو درک نہیں کیا لہذا ان کا یہ کہنا کہ میں نے دیکھا ہے اس سے مراد خواب میں دیکھنا ہے.( ۴ )

روایت میں آیا ہے کہ کبشہ نامی عورت کہتی ہیں : ایک دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور لٹکی ہوئی مشک کے دہانے سے پانی پیاتو میں نے اٹھ کر مشک کے دہانے کو کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیا

ابن ماجہ نے اس روایت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : مناسب یہی ہے کہ جس جگہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا دہن مبارک رکھا اس سے تبرّک حاصل کیا جائے .ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا اور اسے صحیح و معتبر قراردیتے ہوئے کہا ہے : یہ روایت احمد بن حنبل نے انس سے اور اس نے امّ سلیم سے نقل کی ہے ۔( ۵ )

____________________

۱۔ تہذیب الکمال ۱۸: ۵۲۶.

۲۔ تاریخ بخاری ۳: ۳۵،ح ۱۸۷؛تاریخ طبری ۳: ۴۷۵.

۳۔مسند احمد بن حنبل ۶: ۲۱۲؛ح ۲۵۸۱۲؛ صحیح مسلم۱: ۲۳۷،ح ۲۸۶.

۴۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴:۱۴۰۶؛ سیر أعلام النبلاء ۵: ۳۵۹.،

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298