تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي13%

تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 298

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 298 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167325 / ڈاؤنلوڈ: 4209
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي

تاريخ اسلام (۲)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

۱۹_ مغازى واقدى ج ۲ ص۶۴۳ _

۲۰_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۵ _۶۸۷_

۲۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۴۶_

۲۲_مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۴۶_

۲۳_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۴۹ _ '' لا تحلّ الجنّة لعاص''_

۲۴_ جرجى زيدان نے خيبر كے قلعوں كى تصوير اپنى كتاب تاريخ التمدن الاسلامى ميں دى ہے ج ۱ ص ۶۱_

۲۵_ لاعطين الراية غدا رجلا يحبہ اللہ و رسولہ و يحب اللہ و رسولہ كراراً غير فرار لا يرجع حتى يفتح اللہ على يديہ ، بحار الانوار ج ۲۱_۲۸ _

۲۶_ حضرت على (ع) نے فرمايا كہ اس كے بعد ميں درد چشم ميں ہرگز مبتلا نہيں ہوا_

۲۷_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۵۴ _۶۵۳_

۲۸_ ارشاد مفيد ص ۶۷_

۲۹_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۵۴_ ۶۵۵_

۳۰_ بحار الانوار ج ۲۱ ص ۲۶_

۳۱_صحيح بخارى ج ۵ ص ۷۱ ۱ و ج ۵ ص ۲۳ _ تاريخ بخارى ج ۱ ص ۱۱۵ و ج ۴ ص ۱۱۵ _ صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۱ و ج ۵ ص ۱۹۵ و ج ۷ ص ۱۲۰ _ مسند الحافظ ابى داؤد ص ۳۲۰_مسند امام احمد بن حنبل ج ۱ ص ۹۹ و ج ۲ ص ۳۸۴ سنن ترمذى ج ۵ ص ۶۳۸ _ سنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۶۵ _ خصايص ص ۴ _ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۳۱۰ _ طبقات ج ۳ ص ۱۵۶ _عقد الفريد ج ۳ ص ۹۴ _ مستدرك حاكم ج ۳ ص ۴۰۵_ معجم الصغيرطبرانى ص ۱۶۳_ حلية الاوليا ج ۱ ص ۴۳۰_ سنن الكبرى ج ۹ ص ۱۰۷ _ مناقب ابن مغازلى ص ۱۷۶ _ استيعاب در حاشيہ الاصابہ ج ۳ ص ۳۶۶ _ مصابيح السنة ج ۲ ص ۲۰۱_معالم التنزيل ج ۴ ص ۱۵۶ _الشفا قاضى عياض ج ۱ ص ۲۷۲ _ اسد الغابہ ج ۳ ص ۲۵ _ تذكرة الخواص سبط ابن جوزى ص ۱۵_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۴ ص ۲۲۱_ كفاية الطالب باب ۶۲ص ۱۱۶ _ البداية و النہاية ابن كثير ج ۴ ص ۱۸۴_ مجمع الزوائد ج ۹ ص ۱۲۳ _ الاصابة ج ۲ ص ۵۰۲ _ينابيع المودة ص ۴۱_

۱۶۱

نواں سبق

طرفين كے خسارئے كا تخمينہ

اسيروں كيساتھ اچھا برتاؤ

فتح كے وقت در گزر

مال غنيمت

مال غنيمت ميں خيانت كى سزا

مال غنيمت كى تقسيم

خيبر پر حملے كے نتائج

خيبر ميں لشكر اسلام كى كاميابى كے اسباب

فدك -- غزوہ وادى القري

تيما -- فتح خيبر كے بعد انجام پانے والے سرايا

مكہ كى طرف (عُمرَةُ القضائ)

جنگ موتہ ، عالمى استكبار سے پہلا مقابلہ

گريہ كيوں؟ -- غير مساوى طاقتوں كى جنگ

لشكر اسلام كے دلير سردار جعفر ابن ابى طالب كى شہادت

عبداللہ ابن رواحہ اور زيد ابن حارثہ كى شہادت

مجاہدين كى واپسي

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعفر ابن ابيطالب كے سوگ ميں

جنگ ذات السلاسل

سوالات

۱۶۲

طرفين كے خسارے كا تخمينہ

آخرى قلعہ كى فتح كے نتيجہ ميں يہوديوں كو شكست اور لشكر اسلام كو فتح حاصل ہوئي اس جنگ ميں يہوديوں كے ۹۳ سے زيادہ بڑے بڑے جنگجو ہلاك ہوئے جبكہ شہداء اسلام كى تعداد۲۰ افراد سے زيادہ نہ تھى _ اس كے علاوہ قلعوں پرحملے كے نتيجے ميں كچھ يہودى ، لشكر اسلام كى اسيرى ميں آئے_

اسيروں كيسا تھ اچّھا برتاؤ

قلعوں ميں سے جب ايك قلعہ فتح ہوا تو حيّ بن اخطب كى بيٹى صفيّہ اور ايك دوسرى عورت اسير ہوئي تو حضرت بلال ان دونوں كو يہوديوں كے مقتولين كى لاشوں كے قريب سے گزار كر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں لائے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُٹھے اور صفّيہ كے سر پر عباڈال دى اور دونوں عورتوں كے آرام كے لئے لشكر گاہ ميں ايك جگہ معين فرما دى پھر بلال سے سخت لہجہ ميں كہا '' كيا تمہارے دل سے مہرو محبّت ختم ہوگئي ہے كہ تم ان عورتوں كو ان كے عزيزوں كے پاس سے گزار كرلا رہے ہو ؟ '' صفّيہ ''كے دل پر پيغمبر كى محبّت نے بڑا اثر كيا بعد ميں آپ، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى باوفا بيويوں كے زمرہ ميں شامل ہوئيں _(۱)

۱۶۳

فتح كے وقت در گزر

تاريخ كے فاتحين نے جب بھى دشمن پر كاميابى حاصل كى تو شمشير انتقام سے اپنے كينہ كى آگ كو بجھايا اور دشمن كى تباہى ميں بڑى بے رحمى كا ثبوت ديا ليكن خدا رسيدہ افراد نے ہميشہ كاميابى كے موقعہ پر دشمنوں كے ساتھ نہايت لطف و محبّت كا سلوك كيا ہے _ فتح خيبر كے بعد ، خيبر كے جن افراد نے زيادہ مال صرف كر كے جنگ احزاب كى عظيم شورش بر پا كى تھى اور اسلام كو خاتمہ كے دہانہ پر لاكھڑا كيا تھا ان كے سروں پر پيغمبررحمتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لطف و عطوفت كا سايہ رہا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہيں اجازت دى كہ سرزمين خيبر ميں اپنے گھروں ميں كام اور حسب سابق كھيتى باڑى ميں مشغول رہيں اس كے بدلے خيبر كى آمدنى كا آدھا حصّہ مسلمانوں كو ديں_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح كے وقت نيزے كى نوك پر اسلام مسلّط نہيں كيا بلكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كو مذہبى شعائر و رسوم كى ادائيگى كى آزادى مرحمت فرمائي_(۲)

مال غنيمت

فتح خيبر اور يہوديوںكو غير مسلح كرنے كے بعد كافى مقدار ميں ہتھيار ، جنگى سازو سامان ، يہوديوں كے زيورات سے مالامال خزانہ ، كھانے كے برتن ،كپڑے ، بہت سے چوپائے اور كھانے پينے كا بہت زيادہ سامان مال غنيمت كے طور پر لشكر اسلام كے ہاتھ آيا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ ايك شخص جانبازان اسلام كے در ميان اعلان كرے كہ '' ہر مسلمان پر لازم ہے كہ مال غنيمت كو بيت المال ميں لا كر جمع كردے _چاہے وہ ايك سوئي اور دھاگہ ہى كيوں نہ ہو _ اس لئے كہ خيانت ننگ و عار ہے اور قيامت ميں اس كى سزا آگ ہے_(۳)

۱۶۴

پھر عادلانہ تقسيم كے لئے تمام مال غنيمت ايك جگہ جمع ہوا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ اس ميں سے كچھ نقد كى صورت ميں لوگ تبديل كر لائيں _

'' فروہ'' جو مال غنيمت بيچنے كے كام پر مامور كئے گئے تھے ، انہوں نے مال غنيمت ميں سے ايك دستار ،دھوپ سے بچنے كے لئے اپنے سر پر باندھ ركھى تھى ، فراغت كے بعد دستار اتارے بغيربے خبرى كے عالم ميں اپنے خيمہ ميں چلے گئے وہاں دستار كاخيال آيا تو فوراً خيمہ سے باہر نكلے اور دستار مال غنيمت كے ڈھير پر ركھ دى _ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو يہ خبر ملى تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' يہ آگ كى دستار تھى جو تم نے اپنے سر پر باندھ ركھى تھى _(۴)

مال غنيمت ميں خيانت كى سزا

سپاہيوں ميں سے '' كَركَرہ'' نامى ايك شخص رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے مركب كى نگہبانى پر مامور تھا واپسى كے دوران اسے ايك تير لگا اور وہ مارا گيا_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے لوگوں نے پوچھا كہ كيا ''كركرہ''شہيد ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' مال غنيمت ميں سے عبا چرا نے كے جرم ميں اب آگ ميں جل رہا ہے''_

اس موقع پر ايك شخص نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كہا كہ '' ميں نے بغير اجازت كے ايك جوڑا جوتا مال غنيمت سے لے ليا ہے _'' آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما يا '' واپس كردو ورنہ قيامت كے دن آگ كى صورت ميں يہ تمہارے پيروں ميں ہوگا _(۵)

مال غنيمت كى تقسيم

خمس نكالنے كے بعد ، جانبازان اسلام كے در ميان مال غنيمت تقسيم ہوا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے

۱۶۵

ان عورتوں كو جنہوں نے لشكر اسلام كى مدد اور تيمار دارى كى تھى بيش قيمت گلوبند و غيرہ عطا فرمائے_(۶)

ايك شخص كو ايك خرابہ سے دو سو درہم ملے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خمس نكال ليا اور بقيہ در ہم اس كو ديدئے_(۷)

لشكر اسلام خيبر سے كوچ كرنے ہى والا تھا كہ مہاجرين حبشہ كے سرپرست جعفر ابن ابى طالب حبشہ سے واپس آگئے جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مدينہ ميں نہيں پايا تو خيبر كى طرف چل پڑے _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعفر(ع) كى واپسى پر بہت خوش ہوئے سات قدم ان كے استقبال كے لئے بڑھے اور فرمايا سمجھ ميں نہيں آتا كہ كس بات كے لئے زيادہ خوشى مناؤں ؟فتح خيبر كے لئے يا جعفر كى واپسى كے لئے؟''(۸)

خيبر پر حملے كے نتائج

خيبر كا حملہ ، اسلام كے خلاف يہوديوں كى اقتصادى اور جنگى طاقت كى كمى كا باعث بنا_ اس حملے كے دوسرے نتائج ميں سے ايك يہ ہے كہ ، يہوديوں كے اس گروہ كے ہتھيار ڈال دينے كى بدولت مشركين كى فوج ميں خوف و ہراس پھيل گيا اوراسلام كى تحريك مزيد پائيدار ہوگئي_

خيبر ميں لشكر اسلام كى كاميابى كے اسباب

۱_ بہترين جنگى حربوں اور موثر حكمت عملى كا استعمال

۲_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام كى دقيق اور حكيمانہ سپہ سالارى اور لشكر اسلام كا سپہ سالار كے حكم پر مكمل عمل كرنا_

۱۶۶

۳_ جنگى حوالے سے مناسب جگہ پر پڑاؤ

۴_ خيبر كے كامل محاصرے تك لشكر اسلام كى مكمل پوشيدگى _

۵_ دشمن كے حالات كى اطلاع او ر ہر قلعہ ميں لشكر كى تعداد و كيفيت كے بارے ميں مكمل معلومات _

۶_ حضرت على (ع) كى بے امان جنگ '' ايسى جنگ كہ دشمن كے نقصانات ميں سے آدھا نقصان دست زبردست حيدر كرار كى توانائي كا نتيجہ تھا_

فدَك

خيبر سے ايك منزل اور مدينہ سے ۱۴۰ كيلوميٹر دور كچھ يہودى فدك نامى ايك قصبہ ميں رہتے تھے_يہ لوگ خيبر كے يہوديوں كے انجام سے خوفزدہ تھے ا ور خدا نے ان كے دل ميں خوف و دہشت مزيد بڑھاديا _ اس وجہ سے انہوں نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نمائندہ كے جواب ميں ايك شخص كو معاہدہ صلح كے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس بھيجا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معاہدہ كيا كہ آدھا فدك آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حوالہ كريں گے اور اسميں كھيتى كرنے كے ساتھ ساتھ اس كى آمدنى بھى ان كے حوالہ كريں گے _(۹)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فدك فاطمہ زہراء سلام اللہ عليھا كو عطا كرديا _ فدك كى سالانہ آمدنى ، ۲۴۰۰۰درہم تھى جناب فاطمہ(ع) اس آمدنى كا بيشتر حصّہ بے سہارا لوگوں كى امداد اور اجتماعى مصالح ايسے امور خير ميں صرف كرتى تھيں _(۱۰)

غزوہ وادى القري( ۷ ھ ق)

خيبر كى جنگ ختم ہونے كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدينہ سے ۳۵۰ كيلوميٹر دور وادى القرى كى

۱۶۷

طرف روانہ ہوئے جو يہوديوں كا ايك اہم مركز شمار كيا جاتا تھا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كا محاصرہ كر ليا ، قلعہ چند دنوں تك لشكر اسلام كے محاصرے ميں رہا _ انجام كار فتح و كامرانى كے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زمينوں كو انہى كے قبضہ ميں رہنے ديا اوروہى معاہدہ جو خيبر كے يہوديوں سے ہوا تھا ان سے بھى طے پايا_(۱۱)

تَيمائ( ۷ ھ ق)

مسعودى كى تحرير كے مطابق '' تيمائ''(۱۲) كے لوگ يہودى اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمن تھے جب ان لوگوں نے وادى القرى كے فتح ہونے كى خبر سنى تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے صلح كرلى اور جزيہ دينے پر تيار ہوگئے(۱۳) اس طرح سے جزيرة العرب سے يہوديوں كى طرف سے جنگى خطرہ بالكل ہى ختم ہوگيا_

فتح خيبر كے بعد انجام پانے والے سرايا

خيبر كى فتح كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ديرينہ دشمن كى طرف سے مطمئن ہوگئے اور مدينہ ميں وہ امن و سكون ہوا جو پہلے كبھى نہ تھا _ماہ صفر سے لے كر ذيقعدہ تك چند مہينوں كى مدّت ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرف چھ گروہ اطلاعات حاصل كرنے يا ان بكھرے دستوں اور جماعتوں كى تنبيہ و سزا كے لئے روانہ فرمائے جنہوںنے امن و امان ميں رخنہ ڈال ركھا تھا_ ان سرايا كے علاوہ كوئي دوسرا جنگى حملہ وقوع پذير نہيں ہوا_(۱۴)

مكہ كى طرف ( عمرة القضائ)

يكم ذيقعدہ ۷ ھ(بروز جمعرات بمطابق ۳ فرورى سنہ ۶۲۸ئ)

۱۶۸

صلح حديبيہ كے ايك سال بعد صلح نامہ كے مطابق مسلمان عمرہ بجالانے كے لئے تين روز تك مكہ ميں ٹھہر سكتے تھے _رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لشكر اسلام كے دو ہزار افراد كے ساتھ عمرہ كے لئے روانہ ہوئے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہمراہ صلح حديبيہ اور بيعت رضوان ميں شامل تمام افراد موجود تھے سوائے خيبر ميں شہيد يا اس سے قبل وفات پا جانے والے مسلمانوں كے ، البتہ ك۱چھ دوسرے لوگ بھى سفر ميں شريك ہوگئے تھے_

معاہدے كے مطابق چونكہ مسلمان سوائے تلوار كے (جو مسافر كا اسلحہ سمجھا جاتا تھا)اپنے ساتھ زيادہ ہتھيار نہيں ركھ سكتے تھے_ اس لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ممكنہ خطرے سے بچنے كے لئے لشكر اسلام كے ايك سردار كو دوسو جاں بازوں كے ہمراہ كافى اسلحہ كے ساتھ آگے بھيج ديا تا كہ وہ لو گ '' مرّ الظّہران'' پر مكہ سے ۲۲ كيلوميٹر شمال ميںٹھہريں اور ايك درّہ ميں آمادہ رہيں _

مسلمان ، مكہ كے قريب پہنچے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ناقہ قصوى پر سوار اور عبداللہ ابن رواحہ مہار تھامے ہوئے فخر كے ساتھ رجز پڑھتے جاتے تھے_

دو ہزار مسلمان خاص شان وشوكت كے ساتھ جبكہ ان كى آواز فرط شوق سے لرزرہى تھى '' لبيك اللّہم لبيك'' كى آواز بلند كرتے جارہے تھے_ برسوں بعد ، كعبہ كى زيارت كى توفيق نصيب ہوئي تھي_

قريش نے شہر مكہ خالى كرديا تھا اور پہاڑ كى بلنديوں سے مسلمانوں كى جمعيت كو ديكھنے ميں مشغول تھے_ مسلمانوں كى صدائے لبيك كى پر شكوہ گونج نے ان كے دلوں پر وحشت طارى كردى تھى ، عمرہ ادا كرنے كے بعد احتياطى فوج كى جگہ دوسرے گروہ نے لے لى اور انہوں نے عمرہ كے فرائض انجام ديئے_

۱۶۹

مكہ ميں تين روزہ قيام كى مہلت تمام ہوئي _ قريش نے ايك شخص كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس بھيجا اور مطالبہ كيا كہ جتنى ج ى ہو سكے مكّہ سے نكل جائيں_

اس سفر ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مكّہ كے شمال ميں ۱۲ كيلوميٹر كے فاصلہ پر مقام َسرف ميں جناب ميمونہ سے عقد فرمايا اور اس طرح قريش كے در ميان اپنى حيثيت اور زيادہ مضبوط كرلي_(۱۵)

عمرة القضاء كے بعد ۷ ھ ميں چار دوسرے سرايا بھى پيش آئے_

جنگ موتہ

يكم جمادى الاوّل ۸ ھ بمطابق اگست،ستمبر ۶۲۹ئ

عالمى استكبار سے پہلا مقابلہ

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بادشاہ بُصْرى كے پاس ايك سفير بھيجا سفير رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب شام كى سرحد پر واقع سرزمين ''موتہ ''پر(۱۷) پہنچے تو وہاں كے حاكم نے سفير كو قتل كر ديا _(۱۸) ربيع الاول كے مہينہ ميں پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے ۱۶ مبلغين مقام '' ذات اَطلاح'' كے سفر پر مامور كئے گئے وہ بھى اسى سرزمين كے لوگوں كے ہاتھوں قتل كرديئے گئے _ ان ميں سے ايك آدمى زخمى ہوا اور لاشوں كے بيچ گر پڑا اور پھر كسى طرح فرار ہو كر مدينہ پہنچا_(۱۹)

يہ واقعات سبب بنے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم موتہ كى طرف ايك لشكر روانہ فرمائيں_

جہاد كا فرمان صادر ہوتے ہى تين ہزار مسلمان جمع ہوگئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كے سپہ سالاروں كو مندرجہ ذيل ترتيب كے مطابق معين فر مايا_

۱۷۰

جب تك زيد ابن حارثہ زندہ رہيں وہ تمہارے سپہ سالار ہوں گے اور اگر زيد شہيد ہوگئے تو پھر جعفر ابن ابى طالب(۲۰) او ر ا گر وہ بھى شہيد ہو گئے تو عبداللہ ابن رواحہ اور اگروہ بھى شہيد ہوگئے تو مسلمان اپنے درميان سے خود ہى ايك سالار كا انتخاب كر ليں(۲۱)

گريہ كيوں؟

لشكر كى روانگى كے وقت اہل مدينہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہمراہ جانبازان اسلام كو رخصت كرنے كے لئے جمع ہوئے عبداللہ ابن رواحہ گھوڑے پر سوار تھے اور آگے اپنے بيٹے كو سوار كئے ہوئے تھے اور اسى حالت ميں شدّت كے ساتھ گريہ فرمارہے تھے _ لوگوں نے سوچا كہ وہ بيوى اور بيٹے كى محبت اور ان سے جدائي كے غم ميں يا موت كے خوف سے رورہے ہيں عبداللہ ابن رواحہ جب لوگوں كے گمان كى طرف متوجہ ہوئے تو سر اٹھايا اور كہا '' اے لوگوں ، ميرا گريہ زندگى ، بيوي، بيٹے، گھربار اور خاندان كى محبّت ميں نہيں ، ميں شہادت سے نہيں ڈرتا اور نہ ہى اس وجہ سے رورہا ہوں بلكہ ميرے گريہ كا سبب قرآن كى مندرجہ ذيل آيت ہے _

''( و انْ منْكُمْ الاّ وَاردُهَا كَانَ عَلى رَبّكَ حَتْمَاً مَقْضيّاً ثُمَّ نُنَجيَ الَّذينَ اتَّقَوا وَ نَذَرُ الْظَالمينَ فيهَا جثيّاً ) (۲۲)

''تم ميں سے كوئي شخص باقى نہيں رہے گا جز اس كے كہ دوزخ ميں جائے اور يہ تمہارے پروردگا ر كا حتمى حكم ہے _ دوزخ ميں داخل ہونے كے بعد ہم ان افراد كو جو خدا ترس اور

۱۷۱

باتقوا تھے، نجات ديں گے اور ستم گاروں كو چھوڑديںگے تا كہ وہ گھٹنوں كے بل آگ ميں گر پڑيں_

مجھے اطمينان ہے كہ مجھے جہنّم ميں لے جايا جائے گا ليكن يہ كيسے پتہ چلے كہ نجات دى جائے گى _(۲۳)

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں كے ساتھ شہر كے دروازہ تك مجاہدين كو رخصت كيا اور فرمايا ''دفع اللہ عنكم و ردّكم سالمين غانمين'' يعنى خدا تمہارا دفاع كرے اور سلامتى اور غنيمت كے ساتھ واپس پلٹائے ليكن عبداللہ ابن رواحہ نے جواب ميں شعر پڑھا جس كا مطلب تھا_ميں خداوند رحمان سے مغفرت طلب كرتا ہوں اور اس سے شمشير كى ايسى ضربت كا خواہاں ہوں جو ميرى زندگى كو ختم كردے_(۲۴)

خداحافظ كہتے وقت عبداللہ ابن رواحہ نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نصيحت كرنے كى خواہش كى ، حضرت نے فرمايا '' جب تم ايسى سرزمين پر پہنچو جہاں اللہ كى عبادت كم ہوتى ہے تو اس جگہ زيادہ سجدے كرو''_عبداللہ نے كہا كچھ اور نصيحت فرمائيں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدا كو ياد كرو، خدا كى ياد مقصد تك پہنچنے ميںتمہارى مددگار ہے ''(۲۵) _رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كے اميروں كو حكم ديا كہ '' خدا كے نام سے اس كى راہ ميں جنگ كرواور جو خدا كا انكار كرے اس سے لڑو _ دھوكہ بازى نہ كرو، بچوں كو قتل نہ كرو، جب مشركين سے سامنا ہوتو تين چيزوں ميں سے ايك كى دعوت دو اور جب كسى ايك كو قبول كرليں تو ان سے دست بردار ہو جاؤ _ پہلے اسلام كى دعوت دو اگر قبول كرليں تو ان سے جنگ نہ كرو_ دوسرے ان سے مطالبہ كرو كہ اپنى زمين سے چلے جائيں اور ہجرت كريں اگر قبول كرتے ہيں تو ان كے لئے وہى حقوق ہيں جو دوسروں كے لئے ہيں ،اگران دونوں باتوں كے قبول كرنے سے انكار كريں

۱۷۲

تو جزيہ ادا كرنے كى دعوت دو اگر ان تمام باتوں سے سرتابى كريں تو خدا سے مدد مانگو اور ان سے جنگ كرو''(۲۶) _

غير مساوى طاقتوں كى جنگ

لشكر اسلام موتہ كى جانب روانہ ہوا_ جنوب عمان ميں ۲۱۲ كيلوميٹر دور مقام ''معان''پرخبر ملى كہ بادشاہ روم ہرَقُل ايك لاكھ سپاہيوں كو ''بلقائ'' كے علاقہ ميں سرزمين ''مآب'' تك بڑھا لا يا ہے_ اور اس علاقہ كے ايك لاكھ عرب جنگجو روميوں كى مدد كے لئے لشكر روم سے آملے ہيں _

يہ خبر اميران لشكر كے آپس ميں مشورہ كا سبب بنى _ شروع ميں تو ان كا ارادہ تھا كہ اس واقعہ كى خبر پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو دى جائے اور ان سے معلوم كيا جائے كہ كيا كرنا چاہيئےكن عبداللہ ابن رواحہ نے شجاعانہ و حماسہ ساز تقرير كے ذريعے انہيںاس فكر سے بازر كھا_ آپ نے لشكر كو خطاب كرتے ہوئے كہا '' اے لوگوں خدا كى قسم ، جو چيز تمہيں اس وقت ناپسند ہے اسى كو طلب كرنے كے لئے تم نكلے ہو يہ وہى شہادت ہے جس كے شوق ميں تم نے سفر كى زحمت برداشت كى ہے ، ہم نے كبھى بڑے گروہ ، كثير جماعت اور عظيم لشكر كے ذريعہ جنگ نہيں كى ،ہم ايمان كى طاقت سے لڑتے ہيں جس كى بدولت خدا نے ہميں بزرگى دى ہے ، اٹھو اور اپنے راستہ پر چل پڑو ہمارے سامنے (احَدُ الحسنين ) دوا چھے راستے ہيں ، فتح يا شہادت_(۲۷)

عبد اللہ ابن رواحہ كى شعلہ بار تقرير كے بعد لشكر اسلام ٹڈى دل لشكر كى طرف چل پڑا _ اور بلقاء كى سر حد پر روم كا دو لا كھ كا لشكر تين ہزار مجاہدين سے روبرو ہوا _ لشكر اسلام كى بے

۱۷۳

امان جنگ شروع ہوئي اور اللہ والے جو شہادت كو بقاء كاراز سمجھتے تھے، شہادت كے استقبال كے لئے دوڑ پڑے_

لشكر اسلام كے دلير سردار جعفر ابن ابى طالب(ع) كى شہادت

جنگ كے شور و غل ميں جعفر ابن ابى طاب نے پرچم ہاتھ ميں ليا اور مردانہ وار قلب لشكر پر حملہ كرديا اور ان كے نرغہ ميں گھر گئے آپ نے اپنے گھوڑے كو پيچھے چھوڑ ديا تا كہ وہ دشمن كے ہاتھ نہ آسكے اور پيادہ لڑتے رہے(۲۸) جب آپ كا داہنا ہاتھ قلم ہوا تو پرچم كو بائيں ہاتھ ميں سنبھالا يہاں تك كہ آپ كا باياں ہاتھ بھى كٹ گيا اس كے بعد آپ نے پرچم كو سينے سے لگاليا _ يہاں تك كہ شہادت كى سعادت سے مشرف ہوئے خدا نے ان كے كٹے ہوئے ہاتھوں كے بدلے دو پر عنايت كئے تا كہ وہ فرشتوں كے ساتھ جنّت ميں پرواز كريں اس لئے آپ(ع) '' جعفر طيار'' كے لقب سے ملقب ہوئے _(۲۹)

عبداللہ ابن رواحہ اور زيد ابن حارثہ كى شہادت

جناب جعفر كى شہادت كے بعد زيد ابن حارثہ نے پرچم اٹھايا اور لشكر كفر پر حملہ كرديا اور دليرانہ جنگ كے بعد درجہ شہادت پر فائز ہوئے _ تيسرے سردار لشكر عبداللہ ابن رواحہ نے پرچم اٹھايا تھوڑى دير تك سوچتے رہے كہ جنگ جارى ركھى جائے يا نہيں ، آخر كار رجز پڑھتے ہوئے سپاہ دشمن پر حملہ آور ہوئے_

اے نفس ، اگر تو ابھى قتل نہيں ہوگا تو بالآخر مرہى جائے گا_كبوتر(فرشتہ) مرگ آن پہنچا ہے _

۱۷۴

جو تيرى آرزو تھى اس كا وقت بھى آگيا ہے _

اگر ان دونوں (جعفر اور زيد)كے راستے پر چلو گے تو نجات پاجاؤگے_

يہ رجز پڑھ كر عبداللہ دليرانہ انداز ميں قلب لشكر پر حملہ آور ہوئے ان كى تلوار كافروں كے سروں پر موت كے شعلے بر سار ہى تھى _ آخر كار عبداللہ بھى اپنے رب سے جا ملے اور انہيں اسى انداز ميں شہادت نصيب ہوئي جو انہوں نے خداوند عالم سے طلب كى تھى كہ ان كے جسم كو گلگوں بناديا جائے_(۳۰)

مجاہدين كى واپسي

عبد اللہ ابن رواحہ كى شہادت كے بعد سپاہيوں كى رائے اور پيش كش سے خالد ابن وليد(۳۱) سردار لشكر بنے _ خالد نے جنگ كو بے نتيجہ ديكھا اور رات تك تھوڑى بہت پراگندہ طور پر جنگ جارى ركھى ، رات كو جب دونوں لشكر جنگ سے رك گئے تو خالد نے لشكر گاہ كے پيچھے بہت سے سپاہيوں كو بھيجا تا كہ صبح كو خوب شور و غل مچاتے ہوئے لشكر سے آمليں _ صبح شور و غل سنكر روميوںنے يقين كر ليا كہ مدينہ سے ايك عظيم امدادى لشكر آن پہنچا ہے _ چونكہ رومى مسلمانوں كى تلوار كى طاقت اور ان كے جذبہ شہادت كوديكھ چكے تھے اس لئے جنگ ميں پس و پيش كرتے ہوئے حملہ كرنے سے باز رہے اور مسلمانوں كے حملہ كا انتظار كرتے رہے اور جب انہوں نے ديكھا كہ خالد كا حملہ كا كوئي ارادہ نہيں ہے تو عملى طور پر جنگ بندى ہو گئي _ خالد نے عقب نشينى كے ذريعہ مسلمانوں كو دشمن كے دولا كھ جنگجوؤں كے چنگل سے بچاليا_

اس جنگ كے نتيجہ ميں ايك طرف مسلمان روميوں كے جنگى حربوں اور طريقہ كار سے

۱۷۵

آگاہ ہوگئے اور دوسرى طرف شہادت كے شيدا لشكر اسلام كا رعب و دبدبہ روم كى مغرور فوج كے دلوں ميں بيٹھ گيا_ لشكر مدينہ واپس آيا لوگ نہايت بر انگيختہ اور غيظ وغضب كے عالم ميں تھے اور سپاہى ملول و خاموش ، لوگ آگے بڑھے اور خاك اٹھا كر سپاہيوں كے چہروں پر ڈالنے اور شور كرنے لگے كہ '' اے فراريو تم لوگ خدا كے راستے سے فرار كرتے ہو؟ سپاہى اپنے گھروں ميں چلے گئے اور ملامت كے خوف سے ايك مدّت تك گھروں سے باہر نہ نكلے _ يہاں تك كہ نماز جماعت ميں بھى نہيں آتے تھے _ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' يہ لوگ فرارى نہيں ہيں اور انشاء اللہ حملہ كرنے والے ہو جائيں گے''(۳۲) _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعفر ابن ابيطالب(ع) كے سوگ ميں

مسلمانوں كى كيفيت اور خصوصاً جعفر كى موت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بے حد غمگين تھے _ حضرت جعفر كے شہيد ہونے پر آپ نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شدّت كے ساتھ گريہ كيا جعفر كے گھر والوں كو تسلّى دينے كے لئے ان كے گھر تشريف لے گئے اور فرمايا كہ '' ميرے بچے ، عون ومحمد اور عبداللہ كہاں ہيں ؟ جناب جعفر كى بيوى اسمائ، حضرت جعفر كے بيٹوں كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں لائيں ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شہيد كے بچوںكو پيار كيا ، گلے لگايا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى آنكھوں سے آنسو نكل كرڈاڑھى پر بہنے لگے _حضرت جعفر كى بيوى نے پوچھا _ '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر فدا ہوں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرے بچوّںكو اس طرح پيار كررہے ہيں جيسے كسى يتيم كو پيار كياجاتا ہے گويا ان كے باپ اس دنيا ميں نہيں رہے ؟''رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمايا ، ہاں وہ قتل كرديئےئے ، پھر فرمايا، اے اسماء ايسا نہ ہو كہ تم اپنى زبان سے كوئي ناروا بات نكالو اور سينہ كو بى كرو ميں تمہيں خوشخبرى سناتا ہوں ، خدا نے جعفر كو دو ، ''پَر'' عطا كئے ہيں جن سے وہ بہشت ميں پرواز كرتے ہيں _(۳۳)

۱۷۶

جنگ ذات السّلاسل

جمادى الثانى ۸ ھ ق ستمبر ،اكتوبر ۶۲۹ ئ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اطلاع ملى كہ قبلائل بَليّ اور قضاعة كے كچھ لوگ جمع ہو كر مدينہ پر حملہ كرنے كى فكر ميں ہيں _

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے لشكر تيار ہوا اور اس كى سپہ سالارى عمروبن عاص كے سپرد ہوئي _ اسكى وجہ يہ تھى كہ عمرو كى بڑى ماں (دادى يا ناني) قبيلہ بليّ سے تھى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چاہا كہ عمرو بن عاص كو سپہ سالارى ديكر اس گروہ كے دلوں كو اسلام كى طرف مائل كيا جائے _ عمروبن عاص اور اس كا لشكر دن ميں كمين گاہ ميں چھپے رہتے اور راتو ں كو سفر كرتے جس وقت دشمن كے قريب پہنچے تو پتہ چلا كہ دشمن كى تعداد زياد ہے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابو عبيدہ جراح كو دو سو فراد كے ايك دستہ كے ساتھ مدد كے لئے بھيجا عمروبن عاص كے لشكر نے ابو عبيدہ كے امدادى لشكر كے ساتھ قبائل بليّ ، عذرہ اور بَلْقين كے تمام رہائشےى علاقہ كا دورہ كيا ليكن دشمن پہلے ہى خبر پا كر علاقہ سے بھاگ چكے تھے _

صرف آخرى مقام پر لشكر اسلام اور لشكر كفر كے در ميان ايك گھنٹہ تك ٹكراؤہوا جس ميں ايك مسلمان زخمى اور دشمن شكست كھا كر فرا كر گئے _(۳۴)(۳۵)

۱۷۷

سوالات

۱_خيبر ميں لشكر كى كاميابى كے اسباب كيا تھے؟

۲_مال غنيمت ميں خيانت كے سلسلہ ميں ايك واقعہ بيان كيجئے_

۳_ فدك كاواقعہ كيا ہے؟

۴_ عمرة القضاء كس مہينہ ميں تھا؟

۵_ روم كى بڑى طاقت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سپاہيوں نے كيوں جنگ كى ؟

۶_ روانگى كے وقت عبد اللہ ابن رواحہ كيوں رورہے تھے؟

۷_ جعفر ابن ابيطالب'' جعفر طياّر'' كے نام سے كيوں مشہور ہوئے؟

۱۷۸

حوالہ جات

۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۷۳

۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۷۱ و سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۵۱ _۳۵۲

۳_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۰

۴_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۱

۵_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۱

۶_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۵۶ _۳۵۷

۷_مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۲

۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۳_زاد المعاد ج ۳ ص ۳۳۳ _سنن ابى داود (۲۷۴۵ ) صحيح بخارى ج ۷ ص ۳۷۱

۹_مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۰۶_

۱۰_پوہشى عميق از زندگانى على (ع) ص ۲۶۱ _۲۶۶

۱۱_تاريخ طبرى ج ۳ ص ۱۷ _۱۶ سے تلخيص _ محمد رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم ص۲۸۴_فتوح البلدان ص ۴۷

۱۲_ تيماء ، مدينہ سے آٹھ منزل پر مدينہ اور شام كے راستہ ميں ايك مقام ہے _

۱۳_التنبيہ والاشراف ص ۲۲۴

۱۴_تاريخ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مصنفہ ڈاكٹر آيتى كے مطابق ص ۴۸۶ _۴۸۳_

۱۵_مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۴۰ _ ۷۳۱ يہاں خلاصہ ذكر كيا گيا ہے_

۱۶_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵_

۱۷_ يہ سرزمين ا ب شہداء موتہ كى آرام گاہ ہے اور سرزمين اردن ہاشمى ميں واقع ہے_

۱۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۵ _ بحارالانوار ج ۲۱_۵۸

۱۹_ طبقات كبرى ج ۲ ص ۱۲۸_مغازى ج ۲ ص ۷۸۲

۲۰_ اگر چہ اہل سنت كى بہت سى تاريخوں ميں يہ بات مرقوم ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كا پہلا اميرزيد بن حارث كو

۱۷۹

معيّن فر ما يا اور زيد كے قتل ہوجانے كى صورت ميں جعفر بن ابى طالب اور ان كے بعد عبداللہ بن رواحہ ليكن كعب بن مالك كے شہداء موتہ كے بارے ميں مرثيہ سے ثابت ہوتا ہے كہ جعفر لشكر كے پہلے امير تھے_ كعب كہتے ہيں كہ '' اذ يہتدون بجعفر ولوائة قدّام اوّلہم فنعم الاوّل'' سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۸_

۲۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۸ _ بحار الانوار ج ۲۱ ص ۵۵ _

۲۲_ سورہ مريم آيت ۷۱_۷۲_

۲۳_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵ _ اور تاريخ طبرى ج ۳ ص ۳۷

۲۴_'' ولكننّى ا سا ل الرّحمن مغفرة وضَربةً ذا ت فرع: تقذف الزّبداً '' سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵_

۲۵_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۸_

۲۶_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۷بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۱_

۲۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۷ _ تاريخ طبرى ج ۳ ص ۳۸_

۲۸_ بحارالانوار ج ۲۱ ص ۵۴_

۲۹_ بحارالانوار ج ۲۱ ص ۶۲ _ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۰_

۳۰_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۱ _

۳۱_ خالد ابن وليد اور عمرو ابن عاص دونوں آپس ميں دوست اور اسلام كے سخت ترين دشمن تھے مسلمانوں كى پے در پے فتوحات او رعمرة القضاء كے موقع پر ان كى شا ن و شوكت و عظمت ديكھنے كے بعد ان لوگوں نے يہ سمجھ ليا كہ اسلام كى كاميابى اور فتح يقينى ہے _ اس وجہ سے ان دونوں نے يہ الگ الگ طے كيا كہ مسلمان ہوجائيں _ لہذا دونوں ايك دوسرے سے الگ اور بے خبر مدينہ كى طرف چلے اور راستہ ميں اچانك ايك دوسرے سے مل گئے اور پھر مدينہ ميں رسول خدا كى خدمت ميں شرفياب ہوئے اور اسلام قبول كيا _(مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۴۱ _۷۵۰ملاحظہ ہو)_

۳۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۶۵_

۱۸۰

۳۳_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۶۷ _بحارلاانوارج ۲۱ _ ص ۵۶_۵۷

۳۴_ مغاز ى واقدى ج ۲ ص ۷۶۹ سے ۷۷۲ _ تاريخ طبرى ج ۳ ص ۳۳_۳۲ سے خلاصہ بيان كيا گيا ہے_

۳۵_ شيعہ منابع ميں يہ واقعہ يوں درج ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صحابہ ميں سے تين افراد ابو بكر ، عمر اور عمر و بن عاص ، كو اس سريہ كا امير مقرر فرمايا _ ليكن وہ لوگ جنگى كاميابى حاصل نہ كر سكے اس لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چوتھى بار حضرت على (ع) كو امير بنا كر لشكر كے ساتھ روانہ فرمايا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علي(ع) اور سپاہيوں كو مسجد احزاب تك رخصت كيا _حضرت علي(ع) صبح سويرے دشمن پر حملہ آور ہوئے ، دشمن ايك گروہ كثير كے ساتھ حملہ روكنے كے لئے آگئے ليكن حضرت على (ع) كى بے امان جنگ و پيكار نے دشمن كے دفاعى حملہ كو ناكام بنا ديا اور دشمن كو شكست دينے كے بعد على (ع) كامياب و سرفراز ہو كر مال غنيمت اور اسيران جنگ كے ساتھ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پلٹے پروردگارقہار سورہ والعاديات ميں اس واقعہ كى طرف اشارہ كرتا ہے_

( بسم الله الرحمن الرحيم_والعاديات ضَبْحاً_ فالموريات قدحا_ً فالمغيرات صبحاً_ فاثرن به نقعا_ً فوسطن به جمعا_ً )

قسم ہے ان گھوڑوں كى جو نتھنوں كو پُھلاتے پتّھر پرٹاپ مار كر چنگارياں نكالتے ہيں پھر صبح دم حملے كرتے ہيں _ (كفار كے ديار ميں وہ) گردو غبار بلند كرتے اور دشمن كے دل ميں گھس جاتے ہيں _

تفضيلات كےلئے ارشاد شيخ مفيد ص ۸۶ _۹۰ مجمع البيان ج ۱۰ ص ۵۲۸_ بحارالانوار ج ۲۱ ص ۷۶ _ ۷۷ مناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص۱۴۰_۱۴۲كى طرف رجوع كريں

۱۸۱

دسواں سبق

فتح مكہ(۱)

قريش كى عہد شكني

تجديد معاہدہ كى كوشش

لشكر اسلام كى تياري

راستوں كوكنٹرول كرنے كيلئے چيك پوسٹ

ايك جاسوس كى گرفتاري

مكہ كى جانب

دشمن كو ڈرانے كيلئے عظيم جنگى مشق

مشركين كا پيشوا مومنين كے حصار ميں

مكہ ميں نفسياتى جنگ

شہر كا محاصرہ

ايك فوجى دستہ كے ساتھ مشركين كى جھڑپ

سوالات

۱۸۲

فتح مكہ

قريش كى عہد شكني

روانگى كى تاريخ: ۱۰ رمضان المبارك ۸ ھ(۱) بمطابق ۶جنورى ۶۲۹ ئ

فتح كى تاريخ : ۱۹ رمضان المبارك ۸ ھ بمطابق ۱۳ جنورى ۶۲۹

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس فكر ميں تھے كہ مكّہ ، يہ خانہ توحيد جو مشركين كے گھيرے ميں ہے اس كو آزاد كراديں ،ليكن اس راستے ميں صلح حديبيہ ركاوٹ تھي_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہيں چاہتے تھے كہ اس معاہدے كو توڑكرمكہ فتح كريں كہ جس كى رعايت كا انہوں نے خود كو پابند بنايا تھا_ ليكن جب كسى امّت كا وقت قريب آتا ہے اورمہلت كى مدّت ختم ہوجاتى ہے تو الہى قانون كے مطابق ايسے حالات پيدا ہوجاتے ہيں كہ ايك قوم يا گروہ كا خاتمہ ہوجائے اور ان كے مد مقابل كے لئے كاميابى كا راستہ كھل جائے_

موتہ كى جنگ اس بات كا سبب بنى كہ قريش مسلمانوں كو كمزور سمجھنے لگے اور صلح حديبيہ كا معاہدہ توڑنے كى سوچنے لگے لہذا جب روميوں كے مقابلہ ميں مسلمانوں كى شكست كى خبر مكہ پہنچى تو قريش نے اس كو لشكر اسلام كى كمزورى پرحمل كيا اور مسلمانوں كے ہم پيمان اور ہمدرد قبيلوں كو آنكھيں دكھانے لگے_

۱۸۳

صلح حديبيہ كے معاہدہ كے مطابق كوئي بھى قبلہ دونوں گروہوں يعنى قريش يا مسلمانوں كے ساتھ معاہدہ كر سكتا تھا _ خزاعہ نے حضرت محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے اور بنى بكر نے قريش سے معاہدہ كيا ۸ ھ ميں خزاعہ اور بنى بكر كے در ميان جھگڑا ہوا قريش نے اس حملہ ميں خزاعہ كے خلاف بنى بكر كى خفيہ طريقہ سے مدد كى ، چہرہ پر نقاب ڈال كر ان كے ساتھ مل كر حملہ كيا _

اس حادثہ ميں قبيلہ خزاعہ كے كچھ لوگ مظلومانہ طريقہ سے قتل كرديئے گئے اور اس طرح صلح حديبيہ كا عہد و پيمان ٹوٹ گيا _ كيونكہ قريش رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حليف قبيلہ كے خلاف جنگ ميں كود پڑے تھے_(۲)

تجديد معاہدہ كى كوشش

ابو سفيا ن بھانپ گيا كہ يہ گستاخى جواب كے بغير نہيں رہے گى درحقيقت قريش نے لشكر اسلام كے لئے خود ہى حملہ كا موقعہ فراہم كرديا تھا لہذا وہ لوگ فوراً ہى مدينہ پہنچے كہ شايد معاہدہ كى تجديد ہو جائے_

ابوسفيان مدينہ ميں اپنى بيٹى ، رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا كى زوجہ '' اُمّ حبيبہ'' كے گھر پہنچا چونكہ باپ اور بيٹى نے كئي سال سے ايك دوسرے كو نہيں ديكھا تھا _ اس لئے باپ كا خيا ل تھا كہ بيٹى بڑے اچھے انداز سے استقبال اور پذيرائي كرے گى اور اس طرح وہ اپنے مقصد كو عملى جامہ پہننانے ميں كامياب ہو جائے گا _ ليكن جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے گھر ميں وارد ہوا اور چاہا كہ بستر پر بيٹھ جائے تو بيٹى نے بے اعتنائي كے ساتھ بستر كو لپيٹ ديا _ ابو سفيان نے تعجب سے پوچھا كہ '' تم نے اس كو لپيٹ كيوں ديا _؟ '' بيٹى نے جواب ديا كہ '' آپ مشرك اور نجس ہيں ،

۱۸۴

ميں نے يہ مناسب نہيں سمجھا كہ آپ ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جگہ بيٹھيں_

ابو سفيا ن نے صلح نامہ كى مدّت بڑھانے كےلئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے رجوع كيا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كوئي جواب نہيں ديااور صرف خاموش رہے_ ابوسفيان نے بزرگوں ميں سے ہر ايك سے وساطت كےلئے رابطہ قائم كيا مگر نفى ميں جواب ملا _حضرت على (ع) كى راہنمائي ميں ابوسفيان مسجد كى طرف آيا اور يك طرفہ صلح نامہ كى مدّت ميں اضافہ كا اعلان كيا پھر غصّے اور مايوسى كے عالم ميں بغير كسى نتيجہ كے مكّہ واپس پلٹ گيا _(۳)

ستم رسيدہ قبيلہ '' خزاعہ'' كے افراد نے اپنى صدائے مظلوميت پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے كانوں تك پہنچانے كے لئے عمروابن سالم كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيجا وہ مدينہ ميں وارد ہوا اور سيدھا مسجد كى طرف گيا اور لوگوں كے در ميان كھڑے ہو كر مخصوص انداز سے ايسے دردناك اشعار پڑھے جو قبيلہ خزاعہ كے استغاثہ اور مظلوميت كى حكايت كررہے تھے اس نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ''خزاعہ'' كيساتھ كئے جانے والے معاہدے كى قسم دلائي اور فريادرسى كا طلب گار ہوا اس نے كچھ اشعار پڑھے جن كا مطلب يہ تھا _

اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آدھى رات كو ہم جب وَتيْرَہ(۴) كے كنارے تھے اور ہم ميں سے كچھ لوگ ركوع و سجود كى حالت ميں تھے تو مشركين نے ہم پر حملہ كيا ،جبكہ ہم مسلمان تھے ، انہوں نے ہمارا قتل عام كيا(۵) _

عمرو كے جاں گداز اشعار سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كا مہر و محبت سے لبريز دل درد سے تڑپ اٹھا_ لہذا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' اے عمرو ہم تمہارى مدد كريں گے''(۶)

۱۸۵

لشكر اسلام كى تياري

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے روانگى كا مقصد بتائے بغير لشكر اسلام كو تيار ہونے كا حكم ديا اور قريبى قبائل اور مدينہ والوں نے لشكر ميںشركت كى _مجموعى طورپر دس ہزار جانبازوں نے خود كو روانگى كے لئے تيار كر ليا ،كسى كو خبر نہيں تھى كہ اس تيارى كا مقصد كيا ہے ؟ اور لشكر كا آخرى ہدف كہاں جا كر تمام ہوگا ؟ اس لئے كہ كچھ لوگوں كا يہ خيا ل تھا كہ حديبيہ كا معاہدہ ابھى تك باقى ہے_

راستوںكو كنٹرول كرنے كيلئے چيك پوسٹ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن كو غافل ركھنے كے لئے نہايت خفيہ طريقہ سے قدم اُٹھار ہے تھے اور بہت باريك بينى سے كام لے رہے تھے اس كام كے لئے ان كے حكم سے مدينہ كے تمام راستوں پر پہرے بيٹھاديئےئے تھے اور مشكوك افراد كى رفت و آمد پر كٹرى نگاہ ركھى جارہى تھى كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ قريش كے جاسوس لشكر اسلام كى روانگى سے آگاہ ہوجائيں_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا كى ،خدايا آنكھوں اور خبروں كو قريش سے پوشيدہ كردے تا كہ ہم اچانك ان كے سروں پر پہنچ جائيں_(۷)

ايك جاسوس كى گرفتاري

سخت حفاظتى تدابير كے با وجود ، حاطب ابن ابى بلتعہ نامى ايك مسلمان نے اس لالچ ميں آكر كہ اگر اس نے قريش كى كچھ خدمت كردى تو اس كے وابستگان ،مكہ ميں گزند سے محفوظ رہيں گے اور يہ سمجھ كر كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شايد مكہ كاہى قصد ركھتے ہوں ، ايك خط قريش كو لكھا تا كہ ان كو خبر كردے اور يہ خط سارہ نامى ايك عورت كے حوالے كيا جو پہلے گا نے

۱۸۶

بجانے والى عورت تھى اوراسے كچھ پيسے بھى ديئےا كہ وہ غير معروف راستہ سے مدينہ سے مكہ جائے اور يہ خط قريش كے سر كردہ افردا تك پہنچا دے _

جبرئيل امين (ع) نے آكر پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو يہ خبر پہنچا دى اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بلا تاخير على ابن ابى طالب(ع) كو زبير كے ساتھ اس عورت كو گرفتار كرنے كے لئے روانہ كيا_ يہ لوگ نہايت تيزى كے ساتھ مكہ كى طرف چلے اور راستہ ميں مقام خُلَيْقَہ ميں اس عورت كو گرفتار كركے اس كے سامان كى تلاشى لى ليكن كوئي خط نہيں ملا ، سارہ نے بھى كسى خط يا كسى خبر كے اپنے ساتھ ركھنے كا شدّت سے انكار كيا _ ليكن على (ع) نے بہ آواز بلند كہا كہ '' خدا كى قسم پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كبھى بھى غلط بات نہيں كہتے لہذا جتنى جلد ى ہو سكے خط نكال دے ورنہ ميں تجھ سے خط نكلوالوں گا '' عورت نے جب دھمكى كو يقينى سمجھا توكہنے لگى '' آپ لوگ ذرا دور ہٹ جائيں ميں خط دے رہى ہوں اس وقت اس نے اپنے جوڑے (سر كے بندھے ہوے بالوں ) ميں سے ايك خط نكالا اور على (ع) كے حوالہ كرديا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خط لكھنے والے كو طلب كيا اور بازپرس كى اس نے خدا كى قسم كھائي اور كہا كہ اس كے ايمان ميں كسى طرح كى تبديلى نہيں ہوئي ہے ليكن چونكہ ميرے بيوى بچّے مشركين قريش كے ہاتھوں ميں اسير ہيں اس لئے ميں نے چاہا كہ اس خبر كے ذريعہ ميرے گھر والوں كى تكليف ميں كچھ كمى ہو جائے(۸) _

اس غرض سے كہ ايسا واقعہ پھر نہ دہرا يا جائےچند آيتيں نازل ہوئيں ايك آيت ميں ارشاد ہوتا ہے _'' اے ايمان والو ميرے دشمن اور اپنے دشمن كو دوست نہ بناؤ اور ان كے ساتھ محبت اور دوستى كى پينگيں نہ بڑھاؤ''(۹)

پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كى جاہلانہ خطا كو معاف كرديا اور اس كى توبہ قبول كرلي_

۱۸۷

مكّہ كى جانب

كہاں جانا ہے اور كس مقصد سے جاناہے يہ تو معلوم نہ تھا اس كے علاوہ حكم صادر ہونے كے وقت تك يہ بھى معلوم نہ تھا كہ كس وقت جانا ہے _ رمضان المبارك كى دسويں تاريخ ۸ ھ ق كو روانگى كا حكم صادر ہوا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدينہ كے باہر لشكر اسلام كا معائنہ كيا پھر روانگى كا حكم ديا اور مدينہ سے تھوڑے سے فاصلہ پر(حد ترخّص سے نكلنے كے بعد) پانى مانگ كر روزہ افطار كيا اور سب كو حكم ديا كہ روزہ افطار كرليں _ بہت سے لوگوں نے افطار كر ليا ليكن ايك گروہ نے يہ سوچا كہ اگر روزہ كى حالت ميں جہاد كريں تو اس كا زيادہ اجر ملے گا _ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس گروہ كى حكم عدولى سے ناراض ہوئے اور فرمايا كہ يہ لوگ گنہگار اور سركش ہيں _(۱۰)

لشكر اسلام بغير كسى توقف كے تيزى سے بڑھتا رہا _ دس ہزار جانبازوں نے مدينہ سے مكہ كا راستہ ايك ہفتہ ميں طے كيا اور رات كے وقت مكہ سے ۲۲ كيلوميٹر شمال كى جانب '' مرّ الظہران'' پہنچ كر خيمہ زن ہو گيا_(۱۱)

دشمن كو ڈرانے كيلئے عظيم جنگى مشق

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مرّ الظہران ميں حكم ديا كہ دس ہزار كا لشكر پورے ميدان ميں بكھر جائے او ر ہر آدمى آگ جلائے تا كہ لشكر اسلام كى عظمت نماياں ہو اور مشركين قريش كے دل ميں زيادہ سے زيادہ خوف پيدا ہو اور وہ سمجھ ليں كہ اب اس عظيم لشكر سے مقابلہ كى طاقت ان ميں نہيںہے اور ہر طرح كے مقابلہ سے نا اميد ہو جائيں ، تا كہ مكہ بغير كسى خونريزى كے فتح ہو جائے اور حرمت خانہ خدا محفوظ رہ جائے_

۱۸۸

رات كے اندھيرے ميں آگ كے شعلے لپك رہے تھے_ صحرا آگ كا ايك وسيع و عريض خرمن نظرآرہا تھا _ لشكر اسلام كے ہمہمہ كى آواز دشت ميں گونج رہى تھي_

ابوسفيان ، حكيم بن حزام اور بديل بن ورقائ، ديكھنے اور پتہ لگانے كے لئے مكّہ سے باہر نكلے(۱۲) _دوسرى جانب عباس ابن عبدالمطلب نے جو مقام حجفہ سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہمركاب تھے_ دل ميں سوچا كہ كيا ہى بہتر ہو اگر طرفين كے فائدہ كے لئے كام كيا جائے تا كہ خونريزى نہ ہو _ لہذا سفيد خچّر پر سوار ہو كر مكّہ كى طرف چلے كہ شايد كسى كے ذريعہ لشكر اسلام كے حملہ اور محاصرہ كى خبر قريش كے سر بر آوردہ افراد كے كانوں تك پہنچا سكيں اور ان كو دلاور ان اسلام كى عظيم طاقت اور بے پناہ جرا ت و ہمت سے آگاہ كركے ہر طرح كے مقابلہ كى بات سوچنے سے باز ركھيں_

جناب عباس نے رات كى تاريكى ميں ابوسفيان كى آواز سنى وہ كہہ رہا تھا '' ميں نے ابھى تك اتنى زيادہ آگ اور اتنا باعظمت لشكر نہيں ديكھے''_

ابوسفيان كا ساتھى كہہ رہا تھا ''يہ قبيلہ خزاعہ والے ہيں جو جنگ كے لئے جمع ہوئے ہيں ''

ابوسفيان نے كہا كہ '' ايسى آگ روشن كرنا اور اس طرح لشكر تشكيل دينا خزاعہ كے بس كى بات نہيں''_

عباس نے ان كى بات كاٹى اور كہا كہ ابوسفيان

ابوسفيان نے عباس كى آواز پہچان لى اور فوراً كہا '' عباس تم ہو'' كيا كہہ رہے ہو _ عباس نے جواب ديا '' خدا كى قسم يہ آتش رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لشكر نے روشن كى ہے وہ ايك طاقتور اور نہ ہارنے والا لشكر لے كر قريش كى طرف آئے ہيں اور قريش ميں ان سے مقابلہ كرنے كى ہرگز طاقت نہيں ہے _

۱۸۹

عباس كى باتوں سے ابوسفيان كے دل ميں اور زيادہ خوف پيدا ہوا، خوف كى شدّت سے كا نپتے ہوئے اس نے كہا '' عباس ميرے ماں باپ تم پر فدا ہوں بتاؤ ميں كيا كروں؟ عباس نے جب ديكھا كہ ان كى بات مؤثر ثابت ہوئي تو فرمايا '' اب صرف چارہ يہ ہے كہ تم ميرے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ملاقات كےلئے آؤ اور ان سے امان طلب كرو ورنہ سارے قريش كى جان خطرہ ميں ہے '' _

اس كے بعد آپ نے اس كو اپنى سوارى پر سوار كيا اور لشكرگاہ اسلام كى طرف لے چلے''(۱۳)

مشركين كا پيشوا ، مومنين كے حصار ميں

عباس نے ابوسفيان كو سپاہ اسلام كى عظيم لشكر گاہ سے گزارا، سپاہيوں نے عباس اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مخصوص سوارى كو ، جس پر عباس سوار تھے، پہچانا اور ان كے گزر نے سے مانع نہيںہوئے بلكہ ان كے لئے راستہ چھوڑ ديا راستے ميں عمر كى نظر ابوسفيان پر پڑى تو انہوں نے چاہا كہ اسى جگہ اس كو قتل كرديں ليكن چونكہ عباس نے اسے امان دى تھى اس لئے وہ اپنے ارادہ سے باز رہے يہاں تك كہ عباس اور ابوسفيان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خيمہ كے پاس پہنچ كر سوارى سے اترے_ عباس اجازت لينے كے بعد پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خيمہ ميں آئے _ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے عباس اور عمر ميں كچھ لفظى جھڑپ ہوئي ، عمر يہ اصرار كررہے تھے كہ ابوسفيان دشمن خدا ہے اور اس كو اسى وقت قتل ہو نا چاہئے ليكن عباس كہہ رہے تھے كہ ميں نے اسے امان دى ہے _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ ابوسفيان كو ايك خيمہ ميں ركھا جائے اور صبح كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس لايا جائے _ صبح سويرے عباس ، ابوسفيان كو پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حضور ميں لائے _ جب

۱۹۰

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نظر ابوسفيان پرپڑى تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' كيا ابھى وہ وقت نہيں آيا ہے كہ تو يہ سمجھے كہ خدا ئے يكتا كے سوا اور كوئي خدا نہيں ہے ؟ ''ابوسفيان نے جواب ديا ميرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كتنے بردبار ، كريم اور وابستگان كے اوپر مہربان ہيں،_ ميں نے اب سمجھ ليا كہ اگر خدائے واحد كے علاوہ كوئي اورخدا ہوتا تو ہمارى مدد كرتا _

جب اس نے خدا كے يگانہ ہونے كا اعتراف كر ليا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' كيا ابھى وہ وقت نہيں آيا ہے كہ تم جانو كہ ميں خدا كا پيغمبر ہوں''_

ابوسفيان نے كہا مجھے آپ كى رسالت ميں تردد ہے '' عباس تردد سے ناراض ہوئے اور اس سے كہا '' اگر تم اسلام قبول نہيں كروگے توتمہارى جان خطرہ ميں ہے'' _ابوسفيان نے خدا كى يگانگى اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كى گواہى دى _(۱۴) اور بظاہر مسلمانوں كى صف ميں داخل ہوگيا _اگر چہ كبھى بھى حقيقى مومن نہيں ہوا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جانتے تھے كہ ابوسفيان كو ابھى رہا كرنے كا وقت نہيں ہے _ ہوسكتا ہے كہ وہ مكّہ جا كر كوئي سازش كرے اس لئے مناسب ہے كہ وہ اسلام كى طاقت كا بخوبى مشاہدہ كرلے اور فتح مكّہ كے سلسلے ميں سپاہ اسلام كے ارادہ كو مكمل طور پر محسوس كرلے اور اس خبر كو تمام مشركين قريش تك پہنچادے تا كہ تمام سر كردہ افراد مقابلہ كا خيال اپنے دل سے نكال ديں اس وجہ سے ابوسفيان كو ايك درّہ ميں كھڑا كيا گيا ، سپاہ اسلام اسلحہ ميں غرق منظم دستوں كى صورت ميں اس كے سامنے سے گزرنے لگى ، جنگى مشق كے دوران مجاہدين اسلام كى تكبير كى آواز كوہ و دشت مكہ ميں گونج اٹھتى اور مجاہدين كے دل وفور شوق سے لبريز ہو جاتے تھے_

لشكر اسلام كے مسلح دستوں كى عظمت نے ابوسفيان كو اتنا ہر اساں كرديا كہ اس نے بے

۱۹۱

اختيار عباس كى طرف مخاطب ہو كر كہا '' كوئي بھى طاقت ان لشكروں كا مقابلہ نہيں كر سكتى سچ مچ تمہارے بھتيجے نے بڑى زبردست سلطنت حاصل كرلى ہے ''_

عباس نے غصّہ ميں كہا '' يہ سلطنت نہيں بلكہ خداوند عالم كى طرف سے نبوت و رسالت ہے _(۱۵)

عباس نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ابوسفيان جاہ پرست آدمى ہے اس كو كوئي مقام عطا فرمائيں''_

رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' ابوسفيان لوگوں كو اطمينان دلا سكتا ہے كہ جو كوئي اس كى پناہ ميں آجائے گا امان پائے گا _ جو شخص اپنا ہتھيار زمين پر ركھ كر اس كے گھر ميں چلا جائے اور دروازہ بند كرلے يامسجد الحرام ميں پناہ لے لے وہ سپاہ اسلام سے محفوظ رہے گا_(۱۶)

مكہ ميں نفسياتى جنگ

ابوسفيان مكمل طور پر حواس باختہ اور لشكر اسلام كى جنگى طاقت سے ہراساں تھا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مصلحت اسى ميںسمجھى كہ اس كو رہا كرديں _ تا كہ وہ اپنى قوم ميں جا كران كے حوصلوں كو متزلزل كرے يہ وہى مقصد تھا جو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چاہتے تھے _

ابوسفيان نے اس كام كو بخوبى انجام ديا _ اس نے مكہ ميں نفسياتى دباؤ بڑھا كر قريشيوں كو ہراساں كرنے اور بغير خونريزى كے ہتھيا ر ڈال دينے ميں بڑا اہم كردار ادا كيا _(۱۷)

شہر كا محاصرہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سپاہيوں كو چار دستوں ميں تقسيم فرمايا اور ہر دستہ كو ايك سمت سے شہر كے اندر روانہ كيا _ اور فوج كے كمانڈروں كو حكم ديا كہ جو تم سے لڑے (صرف اسى سے لڑنا)اس

۱۹۲

كے علاوہ كسى سے جنگ نہ كرنا _ چنانچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرف چند مفسدين كو جن كى خيانت كى سزا موت سے كم نہ تھى مستثنى ركھا(اور ان سے جنگ كا حكم ديا)_(۱۸)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چاروں طرف سے شہر كے محاصرہ كى تركيب اپنا كر مشركين كے فرار كو ناممكن بناديا اور ان كے لئے صرف ايك ہى راستہ باقى چھوڑاكہ ہتھيار ڈال ديں _

ايك فوجى دستہ كے ساتھ مشركين كى جھڑپ

لشكر اسلام كے شہر ميں داخل ہوتے وقت مشركين متعرض نہيں ہوئے _ صرف قريش كا ايك افراطى گروہ'' صفوان ابن اميّہ ابن خلف ''اور عكرمةبن اَبيْ جہل كى رہبرى ميں خالد ابن وليد والے دستہ سے ٹكرا گيا _ اس جھڑپ ميں دشمن كے ۲۸_ افراد نہايت ذلت سے مارے گئے اورباقى لوگ مكہ سے بھاگ گئے_(۱۹)

۱۹۳

سوالات

۱_ قريش نے صلح حديبيہ كے معاہدہ كى خلاف ورزى كس طرح كي؟

۲_ اپنى عہد شكنى پر قريش كا رد عمل كيا رہا؟

۳_ جاسوس جال ميں كيسے پھنسا؟

۴_ فتح مكہ ميں كون سے تركيبيں استعمال كى گئيں؟

۱۹۴

حوالہ جات

۱_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۳۱

۲_ اتبا ع الاسماع ج۱ ص ۳۵۷ _ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۲_

۳_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۳۸ _۳۹

۴_ وتيرہ ، مكہ سے جنوب مغرب كى طرف ۱۶ كيلوميٹر كے فاصلہ پر واقع تھا

۵_ قبيلہ خزاعہ كے افراد اسلام سے پہلے بنى ہاشم كے ہم پيمان تھے اس لئے كہ عبد المطلب نے ان سے معاہدہ كيا تھا _ عمروابن سالم جو مدد طلب كرنے كے لئے آيا تو اس نے اسى قديم معاہدہ كو بنياد قرارد يكر كہا _

يا ربّ انّى ناشدٌ محمداً حلْفَ ابينا وابيه الْاَتْلدا (اى القديم)

انّ قريشاً اخلفو ك المَوْعدَا وقتلونا رُكَّعاً وَ سُجَّدَاً (سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۳۶)

۶_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۳۷_

۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۳۹_

۸_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۰ _۴۱

۹_( يا ا َيُها الَّذينَ آمَنُوا لا تَتَخذُوا عَدُوى وَ عَدُوّ كُم ا َولياء تَلْقون الَيهم بالْمَوَدَة ) (ممتحنہ/۱) ''سيرة ابن ہشام '' ج ۴ ص ۴۱_

۱۰_مغازى واقدى ج ۲ ص ۸۰۲ _

۱۱_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۲_

۱۲_مغازى واقدى ج ۲ ص ۸۱۴_

۱۳_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۴_۴۵

۱۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۵ _۴۶

۱۵_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۶_۴۷

۱۶_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۶

۱۱۷_ پيامبر و آئين نبرد جنرل طلاس ص ۴۶۲_

۱۸_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۸_ ۵۱ مغازى واقدى ج ۲ ص ۸۲۵_

۱۹_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۹ _ مغازى واقدى ج ۲ ص ۸۲۵ _

۱۹۵

گيارھواں سبق

شہر مكہ ميں داخلہ

صدائے اتحاد

اذان بلال

بت شكن، بت پرست

آزاد شدہ شہر ''مكہ'' كيلئے والى اور معلم دين كا تقرر

اسلام كے نام پر خونريزى اور جرائم

جنگ حنين

دشمن كى سازش سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى آگاہي

حنين كى طرف روانگي

دشمن كى اطلاعات اور تياري

درہ حنين ميں

فرار

واپسى مقابلہ، كاميابي

عورتوں اور بوڑھوں كو قتل نہ كرو

آغاز جنگ ميں مسلمانوں كى شكست كاتجزيہ

سوالات

حوالہ جات

۱۹۶

شہر مكہ ميں داخلہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لشكر اسلام كے ساتھ فاتحانہ انداز ميں شہر مكّہ ميں داخل ہوئے آپ كے چہرہ اقدس پر ايسار عب و دبدبہ اور ہيبت و جلال تجلى ريز تھا جو تعريف كى حد سے باہر ہے _

اسلام كو بہت بڑى فتح نصيب ہوئي تھى آپ اہل مكہ كے گھروں ميں نہيں گئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے جان نثار اور مہربان چچا ابوطالب(ع) كے مزار كے پاس مقام حَجونٌ ميں خيمہ لگا ياگيا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كچھ دير تك خيمہ ميں آرام فرماتے رہے پھر غسل كے بعد جنگى لباس پہن كر مركب پر سوار ہوئے مجاہدين بھى تيار ہوگئے اور پھر سب مسجد الحرام كى طرف روانہ ہوئے _ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نگاہ كعبہ پر پڑى تو آگے بڑھے اور حجر اسود كواستلام كيا(۱) حالانكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مركب پر سوار تھے_اسى حالت ميں تكبير كہتے جاتے تھے اور لشكر اسلام آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جواب ميں صدائے تكبير بلند كرتا جاتا تھا_(۲) '' حق آيا اور باطل ختم ہو گيا اور باطل تو ختم ہونے والا ہى تھا_(۳)

صدائے اتحاد

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كعبہ كى كنجى عثمان ابن طلحہ سے لى اور دروازہ كھول ديا _ تمام مسلمانوں نے مل كر دعائے وحدت پڑھى _

''لا اله الا اللّه وَحدَه لا شَريكَ لَه ، صدق وَعْدَه ،

۱۹۷

ونصر عبده و هزم الاحزاب وحده'' (۴)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كعبہ كے اندر تشريف لے گئے اور جناب ابراہيم (ع) اور دوسرے افراد كى جو تصويريں مشركين نے بنا ركھى تھيں ان كو ديوار كعبہ سے مٹا ديا اور اسى حالت ميں فرمايا ''خدا ان لوگوں كو قتل كرے جو ان چيزوں كى تصويريں بناتے ہيں جن كو انہوں نے پيدا نہيں كيا''(۵) _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور بتوں كو توڑ نے كے لئے ان كے كاندھے پر سوار حضرت على نے تمام بتوں كو توڑ ڈالا اور خانہ توحيد كو تمام كفر و شرك كى علامتوں سے پاك كرديا _(۶) اس كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں كے سامنے جن كى آنكھيں فرمان پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى منتظر تھيں '' مندرجہ ذيل خطبہ ارشاد فرمايا _

'' اس خدا كى تعريف جس نے اپنا وعدہ سچ كردكھايا اور اپنے بندہ كى مدد كى ، جس نے تنہا ،احزاب (گروہوں ) كو شكست دى ، تم كيا كہتے ہو اور كيا تصوّر كرتے ہو؟ '' مكہ والوں نے كہا كہ '' خير و نيكى اور نيكى كے سوا ہميںاور كوئي گمان نہيں ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بزرگورا بھائي اور صاحب اكرام بھتيجے ہيں ''_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' ميں وہى بات كہتا ہوں جو ہمارے بھائي يوسف نے كہى تھى : قال لا تثريب عليكم اليوم يغفر اللہ لكم و ہو ارحم الراحمين(۷) آج تمہارے اوپر كوئي ملامت نہيں ہے خدا تم كو بخش دے وہ رحم كرنے والوں ميں سب سے زيادہ مہربان ہے _

اس كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ ہر وہ ربا(سود) جو جاہليت ميں معمول بن گيا تھا اور ہر وہ خون اور مال جوتمہارى گردن پر تھا اور فضول فخر و مباہات ، پا مال اور ختم كرديئےئے ہيں_ ليكن كعبہ كى نگہبانى ، پردہ داري، كليد بردارى اور حاجيوں كو سيراب كرنے كا افتخار باقى

۱۹۸

ہے _ جو لوگ تازيانہ يا غلطى و خطا سے قتل كرديئےائيںان كے لئے سوا يسى اونٹنياں ديت كے طور پر دى جائيں جن ميں چاليس اونٹنياں حاملہ ہوں _ خدا نے جاہليت كے كبر و غرور اور آباؤ اجداد پر افتخار كو ختم كرديا تم آدم(ع) كى اولاد ہو اور آدم (ع) مٹى سے پيدا كئے گئے ہيں اور تم ميں سب سے زيادہ خدا كے نزديك قابل عزت وہ ہے جو تم ميں سب سے زيادہ پر ہيزگار ہے _ بے شك خدا نے مكّہ كوز مين و آسمان كى پيدائشے كے وقت حرم امن قرار ديا ہے اور اللہ كى عطا كى ہوئي حرمت كى بنا پر يہ ہميشہ حرم الہى رہے گا_

ہم سے پہلے اور ہمارے بعد كسى كے لئے بھى اس كى حرمت پامال كرنا نہ جائز تھا اور نہ جائز ہے_ اور ميرے لئے بھى اس كى حرمت صرف ايك دن تھوڑى دير كے لئے اٹھائي گئي (اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ہاتھ سے تھوڑى مدّت كى طرف اشارہ فرمايا) مكہ كے جانوروں كا نہ شكار اور نہ ان كو مكہ سے ہنكانا چاہيئےہاں كے درختوں كو كاٹنا نہيں چاہيئےور اس سرزمين پر پڑى ہوئي گم شدہ چيز كو اٹھانا جائز نہيں ہے _ مگر اس كے لئے جو اعلان كرنے كا ارادہ ركھتا ہو_ اور مكّہ كے سبزے كو اكھاڑنا بھى جائز نہيں ہے _'' عباس نے كہا اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سوائے ''اذخر''(۸) كے پودوں كے كہ قبروں اور گھروں كو صاف كرنے كے لئے جس كو اكھاڑ پھينكنے كے علاوہ كوئي چارہ ہى نہيں ہے _'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھوڑى دير تك چپ رہے پھر فرمايا سوائے اذخر كے كہ اس كا اكھاڑنا حلال ہے _ وار ث كے بارے ميں وصيت صحيح نہيں ہے اور كسى عورت كے لئے حلال نہيں ہے كہ وہ اپنے شوہر كى دولت سے اجازت كے بغير بخشش وعطا كرے _مسلمان ، مسلمان كا بھائي ہے اور تمام مسلمان آپس ميں بھائي ہيں ، مسلمانوں كو چاہيئےہ دشمن كے مقابل متحد اور ہم آہنگ رہيں ، ان كا خون محفوظ رہے، ان ميں دور و نزديك سب برابر ہيں_جنگ ميں ناتوان اور توانا برابر مال غنيمت سے بہرہ مند

۱۹۹

ہوں _ لشكر كے ميمنہ اور ميسرہ ميں شركت كوئي معيار نہيں ، مسلمان كافر كے خون كے بدلے قتل نہيں كيا جائے گا اور كوئي صاحب پيمان ، معاہدہ ميں قتل نہيں كياجائے گا _ دو مختلف دين ركھنے والے ايك دوسرے كى ميراث نہيں پائيں گے _ مسلمان اپنے علاقہ والوں كو ہى صدقات و زكوة ديں گے دوسرى جگہ والوں كو نہيں ، عورت اپنى پھو پھى اور خالہ كى سوتن نہ بنے ، مدعى كو دليل اور شاہد پيش كرنا چاہيئےور منكر كے ذمّہ قسم ہے _

كوئي عورت بغير محرم كے ايسے سفر پر نہ جائے جس كى مدّت تين روز سے زيادہ ہو_عيد الفطراور عيد قربان كے روزں سے منع كرتا ہوں _ اور ايسا لباس پہننے سے منع كرتا ہوں جس سے تمہارى شرمگاہ كھلى رہے يا ايسا لباس پہننے سے منع كرتا ہوں كہ جس سے تمہارى شرمگاہ كھلى رہے يا ايسا لباس پہنتے سے منع كرتا ہوں كہ جب تمہارے لباس كا كنارہ ہٹ جائے توتمہارى شرمگاہ نظر آنے لگے _ مجھے اميد ہے كہ تم نے يہ سارے مطالب سمجھ لئے ہوں گے_(۹)

اذان بلال

ظہر كا وقت آن پہنچا ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بلال كو حكم ديا كہ كعبہ كى چھت پر جا كر اذان ديں جس وقت بلال بلند آواز ميں اشہد انَّ محمداً رسول اللہ'' پر پہنچے تو گھروں ميںخوفزوہ دبكے ہوئے مشركين كے سر كردہ افراد نے باتيں بنائيں اور توہين آميز جملے كہے _ابو سفيان نے كہا '' ليكن ميں كچھ نہيں كہتا اس لئے كہ اگر ميں كوئي بات كہوں گا تويہى ريت كے ذرّے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر پہنچا ديں گے اور ہر ايك كى بات آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم تك پہنچ جائے گى _

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298